Sunday, 11 December 2022

حضرت عمر نے حضرت سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا کا جواب

حضرت عمر نے حضرت سیدہ فاطمہ کا گھر جلایا کا جواب
محترم قارئینِ کرام : رافضی و نیم رافضی بڑے زور و شور سے پیٹ پیٹ کر اپنے گریبان پھاڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ کاٸنات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلایا اور سیدہ فاطمہ کے ایک فرزند کو شہید کر دیا ۔ العیاذ باللہ ۔ اہل سنت کی کتب سے ایک ضعیف روایت جس میں اس واقع کا اثر ملتا ہے ۔ ان تمام روایات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صرف دہمکی دینے کا ذکر ہے ۔ اور کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر جلا دیا اور سیدہ فاطمہ کو تکلیف دی ۔ لہٰذا یہ روایت خود ان رافضیوں و نیم رافضیوں کے ہی خلاف جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا گھر جلانے کا دعویٰ باطل ثابت ہوتا ہے ۔ سب سے پہلی روایت تاریخ طبری سے پیش کی جاتی ہے جو کچھ اس طرح ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میرے دل میں دنیا کی حسرت نہیں ہے مگر تین چیزیں ایسی ہیں جو میں نے چھوڑ دی ہیں مگر کاش ان کو کرتا ، اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ کاش میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ان کے متعلق دریافت کر لیتا ، وہ تین چیزیں جن کو میں چھوڑ دیتا تو اچھا ہوتا یہ ہیں  کہ کاش میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا گھر نہ کھولتا ۔

رافضی و نیم رافضی اس روایت سے گھر جلانا مراد لیتے ہیں حالنکہ اس میں گھر جلانے کا کوٸی تذکرہ نہیں دوسری بات اس روایت کی سند سخت ضعیف اور منکر ہے کیونکہ اس کی سند میں علوان بن داٶد جسے علوان بن صالح کہا جاتا ہے  منکر الحدیث ہے ۔ (لسان المیزان حافظ ابن حجر عسقلانی ،ج،٥،٤٧٢،چشتی)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق واقعات سر تا سر من گھڑت ہیں ‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایسا کوئی واقعہ اہل سنت کی کتابوں میں مذکور نہیں ۔ تمام صحابہ کرام بشمول حضرت عمر فاروق اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا اکرام و احترام کیا کرتے ۔ صحیح بخاری شریف میں تفصیلی حدیث ہے مذکور ہے‘ اس کا ایک جز ملاحظہ ہو : ⬇

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ لقرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احب الی من ان اصل قرابتی ۔ ترجمہ : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ‘ یقیناً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قرابتداروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا مجھے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے کہیں زیادہ محبوب وپسندیدہ ہے ۔ (صحیح بخاری شریف کتاب المناقب باب منافقب قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘ حدیث نمبر3435،چشتی)

شیعہ(الشيخ محمد فاضل المسعودي اور ابن شہرآشوب اور محشی جواہر المطالب وغیرہ رافضی و نیم رافضی) بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں کہ سیر اعلام اور میزان االاعتدال وغیرہ کتب اہلسنت میں لکھا ہے کہ عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا اور پیٹ میں بچہ محسن شہید کردیا
انَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً ۔
بے شک عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کہ فاطمہ کا بچہ محسن پیٹ میں شہید ہوگیا ۔ (سیر اعلام النبلاء،میزان الاعتدال)

ایک راوی أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے ترجمہ و حالات میں یہ بات بیان کی ہے کہ یہ محدث غیر معتبر اور غیر ثقہ جھوٹا رافضی کذاب ہے اس کے جھوٹ اور خرابیوں میں سے یہ ہے کہ اس کے پاس کہا جاتا تھا کہ حضرت عمر نے مکا مارا اور بی بی فاطمہ کا پیٹ میں بچہ شہید ہو گیا۔۔۔یہ اس بات پر خاموش رہتا تھا گویا کہ یہ اقرار کر رہا ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے۔۔لہذا یہ اس کے عیوب و جھوٹ خرابیوں میں سے ہے, یہ اس کی غیر مستند باتوں میں سے ہے۔۔۔سیر اعلام النبلاء اور میزان الاعتدال میں اس کی بات کو مستند بات کہہ کر لکھا نہیں ہے بلکہ جھوٹ و بہتان عیوب و تہمت والی غیر مستند غیر معتبر باتوں میں سے لکھا ہے ۔

شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں نے حسبِ عادت بڑی چالاکی اور مکاری دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی آدھی عبارت پیش کی اور آدھی کو چھوڑ دیا۔۔۔ہم آپ کے سامنے پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیے : قَالَ الحَاكِمُ: هُوَ رَافضي، غَيْرُ ثِقَةٍ . وَقَالَ مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ: كَانَ مُسْتَقِيْمَ الأَمْر عَامَّة دَهْره، ثُمَّ فِي آخر أَيَّامه كَانَ أَكْثَرَ مَا يُقرأُ عَلَيْهِ المَثَالب، حَضَرْتُه وَرَجُل يَقْرأُ عَلَيْهِ أَنَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً
أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے متعلق امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ رافضی ہے یہ غیر ثقہ ہے
مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی ۔۔۔ (انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہو گیا ۔ (سیر اعلام النبلاء15/578)

أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث.
الكوفي الرافضي الكذاب.الحاكم، وقال: رافضي، غير ثقة ۔
وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ ۔ بعد أن أرخ موته : كان مستقيم الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت بمحسن ۔
أحمد بن محمد بن السري کوفی ہے رافضی ہے کذاب بہت جھوٹا ہے امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ رافضی ہے غیر ثقہ ہے ۔
مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی ۔ (انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا
(میزان الاعتدال1/139،چشتی)

تیسری روایت : ایک ویڈیو میں شیعہ کذاب مکار محقق شہنشاہ نقوی کتاب دکھا کر کہہ رہا ہے کہ اہلسنت کی کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے بی بی فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور (پیٹ میں موجود بچہ) محسن شہید کر دیا … شیعہ اسے بڑے فخر سے خوب پھیلا رہے ہیں ۔

محترم قارٸینِ کرام : ایک اصول یاد رکھیں بہت کام آئے گا، اصول یہ ہے کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور نام اہلسنت کتاب کا ڈال دیتے ہیں جلد نمبر صفحہ نمبر حتی کہ لائن نمبر بتاتے ہیں تاکہ رعب بیٹھے اور سننے پڑھنے والا سچ سمجھ لیے…. یہ ان کی مکاری دھوکہ بازی جھوٹ و افتراء ہے
لہٰذا شیعہ کی باحوالہ بات کو فوراً سچ مت سمجھیے بلکہ معتبر پرمغز اہلسنت عالم سے تصدیق و تردید تحقیق کرائیے ۔

الملل و النحل کی پوری بات پڑھیے لکھا ہےکہ : وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها ۔
ترجمہ : (فرقہ نظامیہ کا بانی إبراهيم بن يسار بن هانئ النظام نے) مزید جھوٹ و بہتان باندھتے ہوئے کہا کہ عمر نے فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور اپ کے پیٹ میں بچہ گر گیا ۔ (الملل و النحل1/57)

ذرا سی بھی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ ملل نحل میں تو اس کو جھوٹ بہتان و افتراء کہا ہے اور شیعہ آدھی بات پیش کرکے مکاری و دھوکہ بازی دیتے ہوئے کیا مفھوم بدل کر پیش کر رہے ہیں ۔ فلعنۃ اللہ علی الکاذبین الماکرین ۔

شیعوں کی طرف سے ایک پوسٹ اور وڈیو میں ہے کہ : اہل سنت کے مشہور محدث، ابن ابی شیبہ کی کتاب ”المصنف“ ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں : مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ : «يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَبِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْيُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ اللَّهِ لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ ۔
ترجمہ : جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کر رہے تھے ، علی اور زبیر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کر رہے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ہوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آئے اور کہا: اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ہمارے نزدیک تمہارے والد گرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ہو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کےلیے مانع یا رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں ۔
اس جملہ کو کہہ کر باہر چلے گئے جب علی اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے علی اور زبیر سے کہا: عمر یہاں آئے تھے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو تمہارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رہے گا۔
مسیج میں لکھا تھا کہ : دوبارہ وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے اور وڈیو میں شیعہ ذاکر نے اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس روایت کا راوی محمد بن بشر ثقہ ہے ۔
جواب : وڈیو میں اور پوسٹ میں انتہائی مکاری عیاری دھوکے بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہےجوکہ شیعہ رافضی نیم رافضی کی عادت قبیحہ ہے،باطل جھوٹا مکار ہونے کی دلیل ہے ۔ مذکورہ روایت المصنف میں موجود تو ہے مگر صحیح نہیں بلکہ منقطع منکر ضعیف و ناقابل حجت ہے ، اس روایت کے پہلے راوی کو ثقہ ثابت کرکے دھوکہ دینے کی کوشش کی گئ ہے کہ باقی راوی بھی ثقہ ہیں اور روایت صحیح ۔ شیعہ رافضی نیم رافضی اور مولانا َموصوصف مکار منافق دھوکے باز نہ ہوتے حق پسند ہوتے تو اس روایت کے مرکزی راوی اسلم کے اس روایت کے متعلق توثیق پیش کرتے،ثابت کرتے کہ اسلم واقعہ میں موجود تھا یا اسلم نے فلاں ثقہ راوی سے سنا مگر افسوس اس پے بات نہ کیونکہ اس پر بات کرتے تو انکا پول کھل جاتا ۔ جھوٹ مکاری عیاری پکڑی جاتی کیونکہ کتبِ اہلسنت میں دوٹوک لکھا ہے کہ اسلم راوی دھمکی والے فرضی واقعہ کے وقت موجود ہی نہ تھا تو یہ واقعہ کیسے سنا رہا ہے لازماً کسی اور سے سنا ہوگا مگر کس سے سنا، کسی شیعہ راوی سے تو نہیں سنا ، کسی افواہ کو سن کر روایت تو نہیں کر رہا بحرحال اسلم جب موجود ہی نہ تھا تو اسکی روایت قابل حجت نہیں ۔ انتہائی ضعیف و منقطع مردود روایت کہلائے گی ۔
دلیل : بیعت کا واقعہ کہ جس میں حضرت عمر کو دھمکی دینے والا کہا گیا ہے اگر بالفرض مان لیا جائے تو مدینہ میں گیارہ ہجری ماہ ربیع الاول کا واقعہ ہے اور اس وقت اسلم مکہ میں تھا گیارہ ہجری ماہ ربیع الاول کے کچھ ماہ بعد حج کے موقعہ پر حضرت عمر نے اسلم کو خریدا تھا کیونکہ یہ غلام تھا ۔ ثابت ہوا کہ واقعہ بتانے والا مرکزی راوری اسلم واقعہ کے وقت تھا ہی نہیں اس نے ناجانے کس سے کسی شیعہ سے کسی ضعیف سے کسی دشمن اسلام سے یا افواہ سن کر روایت کر دی جوکہ ناقابل حجت ہے ۔

امام بخاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَنَةَ إِحْدَى عَشْرَةَ فَأَقَامَ لِلنَّاسِ الْحَجَّ وَابْتَاعَ فِيها أَسْلَمَ ۔
ترجمہ : گیارہ ہجری کو سیدنا ابوبکر نے سیدنا عمر کو حج قائم کرانے مکہ بھیجا…حضرت عمر نے ان دنوں مکہ میں اسلم کو خریدا ۔
(بخاری تاریخ صغیر1/62،چشتی)

ترجمہ کرنے والے نے آخری دو لائنوں کا ترجمہ نہیں کیا کیونکہ کرتا تو جھوٹ مکاری دھوکے بازی پکڑی جاتی جی ہاں المصنف کی اس روایت کے مردود ہونے کےلیے یہ بھی دلیل ہے کہ اس روایت کے اخر میں ہے کہ اس دھمکی کے بعد حضرت علی وغیرہ نے بیعت کرلی
جبکہ صحیح بخاری کی روایت 4240 میں ہے کہ حضرت علی نے اپنی مرضی سے بیعت اس وقت کی جب چھ ماہ بعد بی بی فاطمہ کا انتقال ہوا ۔ لہٰذا المصنف کی روایت بخاری کے متضاد و خلاف ہے اس لیے منکر ضعیف و مردود ہے ۔ شیعہ مصنف لکھتا ہے ۔
فحديثه منكر مردود ۔
ترجمہ : (غیر ثقہ ثقہ کی مخالفت کرے تو) اس کی حدیث منکر مردود ہے ۔ (شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)

علامہ ابو الفتح محمد بن عبد الکریم بن احمد شہرستانی (م : ٥٤٨ھ) ایک رافضی کذاب ابراہیم بن یسار ا بن ہانی النظام کے حالات لکھتے ہوئے اس کی بدعقیدگی کے پول بھی کھولتے ہیں ۔ اس کا ایک جھوٹ علامہ شہرستانی نے یوں بیان کیا ہے کہ اس رافضی کذاب نے کہا : إنّ عمر ضرب بطن فاطمۃ یوم البیعۃ حتّی ألقت الجنین من بطنہا ، وکان یصیح : أحرقوا دارہا بمن فیہا ، وما کان فی الدار غیر عليّ وفاطمۃ والحسن والحسین علیہم السلام ۔  (سیدنا) عمر (رضی اللہ عنہ) نے بیعت والے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پیٹ پر مارا اور ان کے پیٹ کا بچہ گر گیا ۔ عمر (رضی اللہ عنہ) پکار کر کہہ رہے تھے کہ اس (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) کے گھر کو گھروالوں سمیت جلا دو۔ گھر میں سوائے سیدنا علی ، سیدہ فاطمہ ، سیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہم کے کوئی نہ تھا ۔ (الملل والنحل للشہرستاني : ١/٥٧، الوافي بالوفیات للصفدي(م : ٧٦٤ھ) : ٥/٣٤٧،چشتی)

رافضی شیعہ اس روایت کو بنیاد بنا کر خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر تبرابازی کرتے ہیں، لیکن اس روایت کی نہ تو ابراہیم بن یسار تک کوئی سند مذکور ہے نہ ابراہیم سے آگے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تک کوئی سند دنیا کی کسی کتاب میں موجود ہے ۔ یہ روایت دنیا کا سفید جھوٹ اور شیطان لعین کی کارستانی ہے ۔ اس طرح کی جھوٹی بے سند اور بے سروپا روایات سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ناعاقبت اندیشی ہے ۔

ابراہیم بن یسار ابن ہانی النظام گندے عقیدے کا حامل تھا اور یونانی فلسفے سے بہت متاثر تھا ۔ معتزلی مذہب رکھتا تھا اور اس کے نام پر فرقہ نظامیہ نے جنم لیا۔
حافظ ذہبیa(٦٧٣۔٧٤٨ھ) نے احمد بن محمد بن ابی دارم ابو بکر کوفی (م : ٣٥١ھ) کے ترجمہ میں ابو الحسن محمد بن احمد بن حماد بن سفیان کوفی حافظ (م : ٣٨٤ھ) کے حوالے سے اس کے بارے میں لکھا ہے : کان مستقیم الأمر عامّۃ دہرہ ، ثمّ في آخر أیّامہ کان أکثر ما یقرأ علیہ المثالب ، حضرتہ ورجل یقرأ علیہ : إنّ عمر رفس فاطمۃ حتّی أسقطت بمحسن ۔
ترجمہ : وہ ساری عمر درست نظریے اور عقیدے پر رہا ، لیکن اس کی عمر کے آخری دور میں اس کے پاس عام طور پر صحابہ کرام کے خلاف ہرزہ سرائیاں ہی پڑھی جاتی تھیں۔میں ایک دن اس کے پاس آیا تو ایک آدمی اس کے پاس یہ روایت پڑھ رہا تھا کہ عمر (رضی اللہ عنہ) نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا حتی کہ ان کے پیٹ کا بچہ محسن گر گیا ۔ (میزان الاعتدال للذہبي : ١/١٣٩، ت: ٥٥٢، أحمد بن محمد بن السري)

یاد رہے کہ حافظ ذہبی نے اس ابن ابی دارم کے بارے میں لکھا ہے :
الرافضي الکذاب ۔ ”یہ رافضی اور سخت جھوٹا آدمی تھا ۔ (میزان الاعتدال للذہبي : ١/١٣٩)

امام حاکم اس کے بارے میں فرماتے ہیں : رافضي ، غیر ثقۃ ۔
”یہ شخص رافضی اور غیر معتبر تھا ۔ (میزان الاعتدال للذہبي : ١/١٣٩)

وہ شخص شیطان ہی ہو سکتا ہے جو اس جھوٹے رافضی کے پاس جھوٹ پڑھ رہا تھا۔ دنیا میں اس کی کوئی سند موجود نہیں ، نہ رافضیوں کی کتب میں نہ اہل سنت کی کتب میں۔رافضی شیعوں کو چاہیے کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اس جھوٹ کی سند پیش کریں، ورنہ توبہ کر لیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے اور اس کا عذاب بہت دردناک ہے ۔

نیز المصنف کی روایت میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو مکا مارا اور پیٹ میں بچہ محسن شہید کر دیا لہٰذا حضرت محسن رضی اللہ عنہ کو پیٹ میں شہید کرنے کی بات سراسر جھوٹ بہتان مکاری و بغضِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے ۔ اللہ عزوجل ہدایت عطا فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق

ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری پر کفر کے فتوے تحقیق محترم قارئین کرام : علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تج...