Saturday, 31 December 2022

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب حصّہ دوم

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب حصّہ دوم
رافضی اور تفضیلی لوگ صدیق اکبر اور مولا علی رضی اللہ تعالی عنہما میں قدم اسلام کا موازنہ لے کر بیٹھ گئے مگر علماء کا یہ لکھنا کے صدیق اکبر تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعلان نبوت سے پہلے شام کے تجارتی سفر کے دوران ہی ایمان لے آئے تھے اس وقت مولا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بھی نہیں ہوئی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 30)

اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

اور یہ بھی فرمائیے کہ مستدرک میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث نقل فرمائی ہے کہ ابوبکر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وزیر تھے آپ ان سے ہر معاملے میں مشورہ لیتے تھے آپ اسلام میں ان کے ثانی تھے غار میں ان کے ثانی تھے بدر کے دن عرش میں ان کے ثانی تھے اور قبر میں ان کے ثانی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان سے آگے کسی کو نہیں سمجھتے تھے اصل الفاظ یہ ہیں : كَانَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَ الْوَزِيرِ، فَكَانَ يُشَاوِرُهُ فِي جَمِيعِ أُمُورِهِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْإِسْلَامِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْغَارِ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْعَرِيشِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ ثَانِيَةً فِي الْقَبْرِ ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِہ وَسَلَّمَ يُقِدِّمُ عَلَيْهِ أَحَدًا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد : 3 صفحه : 66 مطبوعہ دار الكتب العلمية - بيروت،چشتی)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یہ تمام یکتائیاں آپ کو نظر کیوں نہ آئیں ؟

اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام اولین و آخرین میں سے ولایت میں سب سے افضل ہیں : فهو افضل اوليائ من الاولین و الاٰخرین وقد حكى الاجماع على ذالك ۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ 61)

عین ممکن ہے کہ کسی کی رگ رافضیت پھڑک اٹھے اور ہم پر مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص کے انکار کا الزام لگا دے بدگمانی اور جان بوجھ کر الزام تراشی ان لوگوں کی عادت ہے لہٰذا ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے خصائص میں آل رسول کا جد امجد ہونا اقضی الصحابہ ہونا مولائے جمیع مومنین ہونے کا خصوصی اعلان خیبر کے دن جھنڈا عطا ہونا مسجد شریف میں سے جنابت کی حالت میں گزرنے کی اجازت کا ہونا لايئودى عنى الا انا او على کا اعزاز انت منی بمنزلة ہارون من موسی وغیرہ شامل ہیں بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے خلفاء کی تعداد تیرہ بتائی ہے : لَقَدْ كَانَتْ لَهُ ثَلَاثَةَ عَشَرَ مَنْقَبَةً، مَا كَانَتْ لِأَحَدٍ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ۔ (المعجم الأوسط نویسنده : الطبراني جلد : 8 صفحه : 212 مطبوعہ دار الحرمين - القاهرة)

یہ باتیں آپ کی فضیلت کا ثبوت ہے لیکن افضلیت کا ثبوت نہیں ۔ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے بے شمار فضائل ایسے بھی ہیں جنہیں روافض نے آپ رضی اللہ عنہ کے خصائص بناکر مشہور کر دیا ہے اور ہمارے بھولے بھالے سنی بھی تحقیق کیے بغیر سر مارتے چلے جاتے ہیں مثلا مشہور کر دیا گیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی مولود کعبہ ہیں حالانکہ حضرت حکیم بن حزام ضی اللہ عنہ بھی کعبہ میں پیدا ہوئے تھے امام حاکم لکھتے ہیں : أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الْحَرْبِيُّ، ثَنَا مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَذَكَرَ نَسَبَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ وَزَادَ فِيهِ، «§وَأُمُّهُ فَاخِتَةُ بِنْتُ زُهَيْرِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، وَكَانَتْ وَلَدَتْ حَكِيمًا فِي الْكَعْبَةِ وَهِيَ حَامِلٌ، فَضَرَبَهَا الْمَخَاضُ، وَهِيَ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، فَوَلَدَتْ فِيهَا فَحُمِلَتْ فِي نِطَعٍ، وَغُسِلَ مَا كَانَ تَحْتَهَا مِنَ الثِّيَابِ عِنْدَ حَوْضِ زَمْزَمَ، وَلَمْ يُولَدْ قَبْلَهُ، وَلَا بَعْدَهُ فِي الْكَعْبَةِ أَحَدٌ ۔
ترجمہ : حضرت مصعب بن عبداللہ نے حکیم بن حزام کا نسب بیان کیا اور فرمایا کہ ان کی والدہ ام فاختہ بنت زہیربن اسد بن عبدالعزی تھیں انہوں نے حکیم کو کعبہ میں جنم دیا جبکہ حاملہ تھیں ان کو کعبہ کے اندرونی حصہ میں پیدائش کا درد ہوا تو حکیم کو کعبہ کے اندر ہی جنم دیا انہوں نے اسے بغل میں لے لیا اور حوض زمزم کے پاس آکر کپڑوں کو دو یا حکیم سے پہلے بھی کسی نے کعبہ میں جنم نہ لیا تھا اور ان کے بعد بھی کوئی کعبہ میں پیدا نہ ہوا ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)
یہ بات نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الحاکم وَهَمُّ مُصْعَبٍ فِي الْحَرْفِ الْأَخِيرِ، فَقَدْ تَوَاتَرَتِ الْأَخْبَارِ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ۔
ترجمہ : حاکم کہتا ہے کہ آخری جملہ بولنے میں مصعب کع وہم ہوا ہے تواتر کے ساتھ اخبار موجود ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا نے امید المومنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کو کعبہ کے اندر جنم دیا ہے ۔ (المستدرك على الصحيحين نویسنده : الحاكم، أبو عبد الله جلد 3 صفحه : 550 الرقم 6044 مطبوعہ دار الكتب العلمية بيروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ولد حكيم فى جوف الكعبة، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره، وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔
ترجمہ : حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان کے علاوہ کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور وہ جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ روایت علماء کے نزدیک ضعیف ہے ۔
وأما ما روى أن على بن أبى طالب، رضى الله عنه، ولد فيها، فضعيف عند العلماء ۔ (تهذيب الأسماء واللغات نویسنده : النووي، أبو زكريا جلد : 1 صفحه : 166 مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قَالَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ: وَلَا يُعْرَفُ ذَلِكَ لِغَيْرِهِ، وَمَا وَقَعَ فِي مُسْتَدْرَكِ الْحَاكِمِ مِنْ أَنَّ عَلِيًّا وُلِدَ فِيهَا ضَعِيفٌ ۔
ترجمہ : شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام کے سوا کسی کا کعبہ میں پیدا ہونا نہیں جانا گیا اور مستدرک حاکم میں جو لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے وہ ضعیف ہے  ۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي نویسنده : السيوطي، جلال الدين جلد : 2 صفحه : 880 مطبوعہ دار طيبة)

عبدالرحمٰن محمد سعید دمشقی لکھتے ہیں : مجھے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے کعبہ میں پیدا ہونے کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں کوئی چیز نہیں ملی بلکہ حضرت حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا ثابت ہے حاکم کے عجائبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت حکیم بن حزام کے کعبہ میں پیدا ہونے والی روایت کے بعد یہ لکھا ہے کہ حضرت علی کا کعبہ میں پیدا ہونا تواتر سے ثابت ہے ، چاہیے تو یہ تھا کہ حاکم اس متواتر روایت کو پیش کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیرت ہے حاکم پر جو تساہل میں اور تشیع میں مشہور ہے کہ انہوں نے اس تواتر کا دعوی کیسے کر دیا ۔ كان اللائق به ان يأتى بتلك الرواية المتواترة الخ ۔ (احادیث یحتج بھا الشیعة صفحہ 122) ۔ اس کے علاوہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا کعبہ شریف میں پیدا ہونا بے شمار کتب میں مذکور ہے مثلا : ⬇
صحیح مسلم رقم الحدیث3869
معرفت الصحابہ لابی نعیم جلد 2صفحہ 70
سیر اعلام النبلا جلد 3 صفحہ 46
الاعلام جلد 2 صفحہ 259
نصب الرایہ جلد 4 صفحہ 2
الاکمال فی اسماء الرجال لصاحب علم لصاحب المشکوة 591
کتاب المجر صفحہ 176
الاصابہ فی تمییز الصحابہ ابن حجر صفحہ 397
تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 182
ازالۃ الخفاء جلد 2 صفحہ 291
فیض القدیر جلد 2 صفحہ 37
ہم نے صرف نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے اور کوئی تبصرہ نہیں کیا جاؤ آسمان علم و فقر کے ان درخشندہ ستاروں پر جاکر فتوی بازی کرو جن کی مثال کبھی نہ لا سکو گے ۔

اسی طرح یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ : صرف مولا علی رضی اللہ عنہ علم کا دروازہ ہیں حالانکہ فبايهم اقتديتم اهتديتم وغیرہ سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم بھی علم کا دروازہ ہے ان میں سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو علم و فضل کی بنا پر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا امام بنایا گیا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 678)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بچا ہوا سارا علم پی لیا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث 2190)(صحیح بخاری رقم الحدیث 82،3681،7006، 7027،7032،چشتی)(ترمزی رقم الحدیث 2284)(مستدرک للحاکم رقم الحدیث 4552)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاری ہیں حضرت زید بن ثابت کا سب سے زیادہ علم میراث کے ماہر ہیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حلال اور حرام کا علم رکھتے ہیں مولا علی رضی اللہ عنہ سب سے بڑے قاضی ہیں یہ سب باتیں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہیں اور ترمذی جلد 2 صفحہ 219 پر موجود ہے اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے بڑے حافظ الحدیث ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث119،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس کو دین کی فقہ اور حکمت عطا ہوئی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث 57)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لوگوں کو حکم دیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن سیکھو ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3760)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہمراز ہیں جس سے ان کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3761)

اسی لیے امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث باب العلم کی شرح میں لکھا ہے کہ ای باب من ابواب العلم یعنی مولا علی علم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے لہٰذا باب العلم ہونا مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا ثبوت ضرور ہے مگر یہ افضلیت کا ثبوت نہیں ۔

اسی طرح یہ بھی مشہور کردیا گیا ہے کہ : صرف حضرے علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے یہ بات اپنی جگہ پر حق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور تمام انبیاء و صحابہ تابعین رضی اللہ عنہم بلکہ تمام اولیاء کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے ۔ اس شخص کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھا ہو یا جس نے صحابی کو دیکھا ہو  (ترمذی رقم الحدیث3858)

پھر مولا علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ دیکھنا عبادت کیوں نہ ہوگا لیکن یہ آپ کا خاصہ نہیں ثانیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اور وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ کر مسکراتے تھے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3668)

کعبہ کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے قرآن شریف کے صحیفے میں دیکھ کر پڑھنا ہزار گناہ زیادہ صاحب رکھتا ہے ۔ (شعب الایمان للبیہقی رقم الحدیث 2218،چشتی)(مشکوۃ رقم الحدیث2167)

ماں باپ کی طرف محبت کی نظر سے صرف ایک مرتبہ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے ۔ (مشکاۃ صفحہ 421)

اور اللہ کے ولی کی نشانی ہی یہ ہے کہ جب اسے دیکھا جائے تو اللہ یاد آجائے ۔ (ابن ماجہ رقم الحدیث4119)

لہٰذا اس میں مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کا خاصہ نہیں ان تمام احادیث میں وجہ اشتراک محض عبادت ہے ورنہ مقام اور مرتبے کا فرق اپنی جگہ مسلم ہے ۔

یہ بھی مشہور کر دیا گیا ہے کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر عبادت ہے حالانکہ کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جس طرح اپنی نعت سنانے کا حضرت حسان رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم فرمایا اسی طرح ایک دن پوچھا قلت فى ابى بكر شئيا کیا تم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی منقبت لکھی ہے انہوں نے عرض کیا جی ہاں فرمایا سناؤ میں سننا چاہتا ہوں انہوں نے وہ منقبت سنائی ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4468،4518،چشتی)

یہ صدیق اکبر ضی اللہ عنہ کا خاصہ ہے ۔

مستدرک میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک زبردست قول موجود ہے کہ جب صالحین کا ذکر ہو تو عمر کی بات ضرور کرو ۔ (مستدرک للحاکم رقم الحدیث4578)

خود مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اذا ذكر الصالحون فحيهلا بعمر ۔ (معجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث5549)(تاریخ الخلفاء صفحہ 94)

بلکہ تمام صالحین کے بارے میں فرمایا کہ ذکر الصالحین کفارۃ یعنی صالحین کا تذکرہ گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (الجامع الصغیر رقم الحدیث 4331)

لہٰذا اس حدیث میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت موجود ہے مگر یہاں پر رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں ۔

داماد رسول ہونا بھی آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہے اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خاصہ نہیں بلکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس پوری کائنات میں واحد ایسی شخصیت ہیں جنہیں کسی نبی کی دو شہزادیوں کا شوہر ہونے کا شرف حاصل ہے ہاں اس میں ایک پہلو سیدہ النساء علی ابیہا و علیہا الصلاۃ وسلام کی جہت سے خاصیت کا موجود ہے اس میں کوئی شک نہیں اور اسے ہم آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خصائص میں بیان کرتے ہیں ۔

اسی طرح علی منی وانا من علی کو بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کا خاصہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہی الفاظ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں ۔ (ترمذی رقم الحدیث3775)

یہی الفاظ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں اور کتاب وہی ہے ۔ (ترمذی رقم الحدیث3759)(مشکوۃ رقم الحدیث 6157)
یہی الفاظ پورے قبیلہ اشعری کے بارے میں بھی موجود ہیں : الاشعریون هم منی وانا منھم ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث2486)(صحیح مسلم رقم الحدیث6408)
یہی الفاظ حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں کہ : جلیبیب منی وانا من جلیبیب جلیبیب منی وانا من جلیبیب ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث6358)

بلکہ اہل علم کی توجہ کےلیے عرض ہے کہ : ھوالذی بعث فی الامیین رسولا منھم منھم کے لفظ پر غور فرمائیے اور اس کے برعکس إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ پر بھی غور فرمائیں بعض احادیث مثلا من غش فلیس منی جیسے الفاظ پر غور فرما لیجئے ان شاء اللہ العزیز سینہ کھل جائے گا اور آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کس طرح بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے تاہم اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ضرور موجود ہے مگر یہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں اور نہ ہی افضلیت کا ثبوت ہے ۔

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا بھائی قرار دیا تھا یہ آپ کا خاصہ ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صدیق اکبر کو بھی اپنا بھائی قرار دیا ہے ولکن اخی و صاحبی ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3656)(صحیح مسلم رقم الحدیث6172)

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اشر کنا یا اخی دعائک یعنی اے میرے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث1498)(ترمزی رقم الحدیث1980،چشتی)(مشکواۃ المصابیح رقم الحدیث2248)

حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت عمر فاروق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا بھائی قرار دیا ۔ (الریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 318)

لہٰذا یہ بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق خاصہ نہیں ہاں مواخات مدینہ کی خصوصی جہت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو اخوا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کا شرف و اعزاز حاصل ہے ۔

مواخات کا یہ مخصوص گوشہ چچازاد بھائی ہونے کے سبب اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے کاشانہ اقدس میں پرورش پانے کے سبب اور دیگر فضائل کی وجہ سے ہے نہ کہ افضلیت کی وجہ سے ان سب فضیلتوں کے پیش نظر مولا علی رضی اللہ عنہ ہی اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بھائی بنتے تو بات سجتی تھا ۔ لہٰذا اس میں بھی مولا علی رضی اللہ عنہ کی بڑی پیاری فضیلت موجود ہے مگر یہ آپ کی افضلیت کا ثبوت نہیں اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کا بغض منافقت کی نشانی ہے اور آپ کی محبت ایمان کی نشانی ہے یہ بات بلکل حق ہے مگر یہ آپ رضی اللہ عنہ کا خاصہ نہیں حدیث شریف میں ہے کہ : آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار ۔ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور انصار کا بغض منافقت کی نشانی ہے  ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث3784)(صحیح مسلم رقم الحدیث 235،236،237،238،239)(نسائی رقم الحدیث5019)

اسی طرح تمام کے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں فرمایا کہ : فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ ۔
یعنی جس نے ان سے محبت رکھی پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ (ترمذی رقم الحدیث 3862،چشتی)(مسند احمد رقم الحدیث 16808)(مشکوۃ رقم الحدیث 6014)

اسی طرح کی احادیث کو پس پشت ڈال کر خوارج والی منافقت کے سوا باقی ہر طرح کی منافقت کو روا کر دیا گیا ہے حالانکہ جس طرح خروج منافقت ہے اسی طرح رافضیت بھی منافقت ہے اور جمیع صاحب اہل بیت رضی اللہ عنہم کی محبت صحیح ایمان ہے ۔

فقیر نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل اہل سنت کی کتب میں درج ہیں انہیں روافض و تفضیلیوں نے متفق علیہ بنا ڈالا اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم کے فضائل خواہ کتنی کثرت اور کتنی ہی قوت سے کتب اہل سنت میں موجود ہوں اور صرف فضیلت پر ہی نہیں بلکہ افضلیت پر دلالت کر رہے ہوں انہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کو افضلیت بنا ڈالتے ہیں اور جب ہم افضلیت کی نفی کرتے ہیں تو اسے فضیلت کی نفی پر محمول کرتے ہیں ان کا یہ فریب خود سمجھ لو ۔

دوسری طرف یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ جہاں بغض علی رضی اللہ عنہ منافقت ہے وہاں حد سے زیادہ حبِ علی رضی اللہ عنہ بھی سراپا بے ایمانی ہے اور تباہی ہے اور ان عاشقوں سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خود بے زار ہیں اس موضوع پر مولا علی کرم اللہ وجہ الکریم کے ارشادات موجود ہیں  ان نام نہاد عاشقوں کے ہاں محبت اور بغض کا معیار بھی عجیب ہے ایک عشق کہتا ہے کہ جو شخص علی رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات چھیڑ دے اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے اگر آپ نے اس ظالم کی بات مان لی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر خیر کرنا چھوڑ دیا تو دوسرا عشق بولے گا کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت میں اور علم میں خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے  اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو تیسرا عاشق بولے گا جو شخص کھل کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافہ ثلاثہ سے افضل نہیں مانتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو چوتھا عاشق بولے گا جو شخص خلفاۓ ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر تبرا نہیں بولتا اس کے دل میں علی رضی اللہ عنہ کا بغض ہے ۔ اگر آپ نے اس ظالم کی بات بھی مان لی تو اب بھی آپ کچے پکے عاشق ہیں اصل عاشق وہ ہے جو علی رضی اللہ عنہ کو نفسِ خدا نفسِ رسول جبریل کا استاد وحی کا صحیح حقدار تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل اور صحیح معنی میں حجت اللہ علی الخلق اصلی قرآن کا جامع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مشکل کشا مانے اور تقیے کی باریکیوں کو سمجھے لے ۔ ہمارے مذکورہ الفاظ قابل غور اور معنی خیز ہیں ہر کس و ناکس ان کے پس منظر میں پوشیدہ شیعہ عقائد کو نہیں سمجھ سکتا اور جس شخص کا مطالعہ نہیں ہے وہ پاٹے خان نہ بنے اور اس پر قیاس آرائی اور طبع آزمائی نا فرمائے ہم دعوے کے ساتھ یہ بات عرض کر رہے ہیں کہ جو شخص شیعہ مذہب کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے وہ خود شیعہ ہے یا پھر اس نے اس مذہب کا مطالعہ ہی نہیں کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب حصّہ اوّل

ظاہری و باطنی خلافت کے فریب کا جواب حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : اکابرینِ اہلسنت نے آج تک کسی رافضی و تفضیلی کےلیے گنجائش نہیں رکھی ۔ وقت گزرتا رہا ، لوگ پینترے بدل بدل کر اہلسنت میں گھس کر بد عقیدگی پھیلانے کی کوشش کرتے رہے ۔ لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔ایسی ہی کوشش آج کل کے تفضیلی رافضیوں نے شروع کی ہوٸی ہے ظاہری لبادہ اہلسنت کا اوڑھا اور باطن میں تفضیلیت و رافضیت لے بیٹھے ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ظاہر کا لباس پہنایا اور باطن کا انکار کر دیا ۔ اور باطن میں مولا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل اور افضل البشر کہنا شروع کر دیا ۔ جب کوئی سوال کرے کہ جناب آپ سنی ہیں ۔ ابو بکر صدیق کی افضلیت کو مانتے ہوں ۔ جواب جی ہاں کیوں نہیں ۔ نعرہ صدیقیہ یا صدیق اکبر ۔ لیکن باطنی خلافت اور افضلیت مولا علی کو حاصل ہے ۔ ساتھ میں لکھ دیا ۔ ظاہری کی کوئی فضیلت نہیں ۔ باطن کی ہی فضیلت ہے ۔ اہلسنت و جماعت کا سلفاً خلفاً عقیدہ رہا ہے کہ انبیاء اور رسل کے بعد سب سے افضل شخص حضرت ابوبکر پھر عمر پھر عثمان اور پھر مولا علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ افضیلت چاہے ظاہری ہو یا باطنی کیونکہ شیخین رضی اللہ عنہما مقام نبوت سے فیض یافتہ ہیں جو کہ مقام ولایت سے اعلیٰ ہے ۔ اسی کو حضرت صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ بہار شریعت میں بیان کرتے ہیں : بعد انبیا و مرسلین ، تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں ، پھر عمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمان غنی ، پھر مولیٰ علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ۔ (بہار شریعت خلافت راشدہ کا بیان)
مزید فرماتے ہیں : تمام اولیائے محمدیّین میں سب سے زیادہ معرفت وقربِ الٰہی میں خلفائے اَربعہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہم ہیں اور اُن میں ترتیب وہی ترتیب افضلیت ہے ، سب سے زیادہ معرفت و قرب صدیقِ اکبر کو ہے ، پھر فاروقِ اعظم ، پھر ذو النورَین ، پھر مولیٰ مرتضیٰ کو رضی ﷲ تعالیٰ عنم اجمعین ۔ ہاں مرتبہ تکمیل پر حضورِ اقدس صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جانبِ کمالاتِ نبوت حضراتِ شیخین کو قائم فرمایا اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولیٰ مشکل کشا کو ۔ تو جملہ اولیائے مابعد نے مولیٰ علی ہی کے گھر سے نعمت پائی اور انہیں کے دست نگر تھے ، اور ہیں ، اور رہیں گے ۔ (بہارِ شریعت ولایت کا بیان،چشتی)

عارف باللہ شیخ طریقت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ(المتوفی 638ھ) اپنی معروف کتاب فتوحات مکیہ میں مقام خلفاء راشدین کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان اولیاء میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنکے لیے ایک ظاہری حکم ہوتا ہے اور انکے لیے جیسے خلافت ظاہرہ ہوتی ہے اسی طرح خلافت باطنہ بھی ہوتی ہے جیسے ابوبکر،عمر،عثمان،علی، حسن، معاویہ بن یزید،عمر بن عبدالعزیز اور متوکل اور ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنکے لیے صرف خلافت باطنہ ہوتی ہے جیسے احمد بن ہارون الرشید السبتی اور ابو یزید بسطامی ۔ (الفتوحات المکیہ باب 73 صفحہ 297)

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سمیت بقیہ تینوں خلفاء جیسے ظاہری خلافت سے متصف تھے اسی طرح باطنی خلافت سے بھی متصف تھے اور جو عروج و کمال خلافت ظاہرہ میں حاصل تھا ایسا ہی کمال خلافت باطنہ میں حاصل تھا اس سے ان لوگوں سبق حاصل کرنا چاہیے جو دن رات ظاہری باطنی کا راگ الاپتے ہیں وہ خود تو باطنی فیوض سے کورے ہیں ہی صحابہ جیسے جلیل القدر ہستیوں کو بھی اپنی کور باطنی کے سبب خلافت باطنہ سے محروم رکھنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین ۔

یہی عقیدہ جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بڑی طویل وضاحت کے ساتھ اپنی کتاب سلوک و تصوف کا علمی دستور میں اور اس کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ اور فلسفہ خودی کے صفحہ نمبر 30 پر نقل کیا ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں : ⬇

طریق نبوت

طریق ولایت

ہر دو طریق میں واضح فرق کرتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں طریق نبوت کلی فضیلت کا حامل ہے اور طریق ولایت جزوی فضیلت کا ۔طریقِ نبوت کا منتہیٰ اور نقطہ عروج مفہمیت اورمجددیت کے مقامات ہیں مجددیت اور مفہمیت کا مقام ولایت کے ہر مقام سے اس لیے بلند ہےکہ مجدد نہ صرف ہمہ وقت خالق کی طرف متوجہ رہتا ہے بلکہ اس تعلق کو بکمال وبتمام قائم رکھتے ہوئے خالق کا فیضان سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پیروی میںخلق خدا تک پہنچاتا رہتا ہے۔اس لئے وہ مرد حق اپنے کمال کی منزل طریق نبوت سے پاتا ہے ۔ اس کامقام کہیں بلند ہےاس شخص سے جو کمال کو طریق ولایت سے حاصل کرتا ہے ۔ اس دوران شاہ صاحب نے فضیلتِ شیخین رضی اللہ عنہما کے عجیب علمی مسئلے کو بھی حل فرمادیا ۔ فرماتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر کیوں فضیلت حاصل ہے باوجودیکہ حضرت علی اس امت میں سب سے پہلے صوفی ، مجذوب اور عارف ہیں اور یہ کمالات دیگر صحابہ میں نہیں ہیں مگر صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طفیل میں قلت اور کمی کے ساتھ موجود ہیں غرضیکہ یہ مسئلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور میں عرض کیا تو یہ چیز مجھ پر ظاہر ہوئی کہ فضل کلی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک وہ ہے جو تمام امرِ نبوت کی طرف راجع ہو ، جیسا کہ اشاعت علم اور دین کے لیے لوگوں کی تسخیر اور جو چیزیں اس کے مناسب ہوں اور رہا وہ فضل جو ولایت کی طرف راجع ہو جیسا کہ جذب اور فناء تو یہ ایک فضل جزئی ہے اور اس میں ایک وجہ سے ضعف ہے ۔ اور شیخین رضی اللہ عنہما اول قسم کے ساتھ مخصوص تھے حتیٰ کہ میں انہیں فوارہ کے طریق پر دیکھتا ہوں کہ اس میں سے پانی پھوٹ رہا ہے تو جو عنایات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہوئیں وہی بعینہ حضرت شیخین رضی اللہ عنہما پر ظاہر ہوئیں تو آپ دونوں حضرات کمالات کے اعتبار سے ایسے عرض کے مرتبہ میں ہیں جو جوہر کے ساتھ قائم ہے اور اس کے تحقق کو پورا کرنے والا ہے لہٰذا حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگرچہ آپ کے بہت قریب ہیں نسب و حیات اور فطرت محبوبہ میں حضرات شیخین سے اور جذب میں بہت قوی اور معرفت میں بہت زائد ہیں مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم باعتبار کمال نبوت حضرات شیخین سے کی طرف زیادہ مائل ہیں اور اسی بنا پر جو علماء معارف نبوت سے باخبر ہیں شیخین کو فضیلت دیتے ہیں اور جو علماء معارف ولایت سے آگاہ ہیں وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو فضیلت دیتے ہیں اور اسی بنا پر حضرت شیخین کا مدفن بعینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مدفن تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے باوجود انوار ولایت کے بھی حامل ہونے کے دین کی اشاعت کا کام زیادہ لیا گیا ہے اور سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ سے باوجود انوار نبوت کے بھی حامل ہونے کے امت میں ولایت و روحانیت کے فروغ کا کام زیادہ لیا گیا ہے چنانچہ بیشتر سلاسل طریقت آپ ہی سے شروع ہوتے ہیں ۔ (سلوک و تصوف کا علمی دستور کے صفحہ نمبر 137 ، 138)

حاصل شدہ نکات : حضرت ابوبکر و عمر طریق نبوت سے فیض یافتہ ہے اور حضرت علی طریق ولایت سے ۔ طریق نبوت طریق ولایت سے افضل ، اعلیٰ اور اکمل ہے ۔ طریق نبوت کو ہر لحاظ سے فضیلت حاصل ہے اور طریق ولایت کو بعض لحاظ سے بلکہ اس میں ایک وجہ سے ضعف پایا جاتا ہے ۔ پکڑ لیتے ہیں ۔ یہی عقیدہِ اہل سنت ہے ۔

تفظیلیوں یہ بھی کہتے ہیں کہ : حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ، فرائضِ خلافت ، اقامتِ دین ، اسلام اور امت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے ۔ ائمہ نے افضلیت کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ خلافت ظاہری کی ترتیب پر قائم ہے ۔ ولایت باطنی جو ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں ۔ گویا کہ تفضیلیوں کے نزندیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ساری فضیلتیں خلافت کے بعد ہیں پہلے کی نہیں ہیں ۔ کونسی خلافت کیسی خلافت اس کا وزن کیا ہے ؟

شیخین کریمین رضی اللہ عنہما کی جو بھی فضیلت ہے وہ مشاورتی ووٹنگ سے ہے افضلیت بھی اسی طرح ملی گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی بارگاہ سے کوئی فضیلت نہیں ۔ افضل البشر کا عقیدہ بعدکا ہے ۔

کاش کہ تفضیلی حضرات عمدہ القاری ہی دیکھ لیتے ۔ علامه عینی رحمة اللہ علیہ لكھتے ہیں : باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بار ے میں باب ۔ أي : هذا باب في بيان فضل أبي بكر ، رضي الله تعالى عنه، بعد فضل النبي صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم . وليس المراد البعدية الزمانية، لأن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم ۔
ترجمہ : یہ باب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبکر صدیق کے افضل ہونے کے بارے میں ہے ۔ بعد سے یہ مراد نہیں کہ آپ کے وصال کے بعد فضیلت ملی (جیسا کہ تفضیلیوں نے سمجھا) بلکہ ابوبکر صدیق کی فضیلت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی حیات میں ہی ثابت شدہ ہے ۔ کہ : 5563 - حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا سليمان عن يحيى بن سعيد عن نافع عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فنخير أبا بكر ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنهم ۔ (الحديث 5563 طرفه في: 7963،چشتی)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں لوگوں کے درمیان بہتری کے درجے بنایا کرتے تھے ۔ ہم یہ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر سب سے بہتر ہیں ۔ پھر ان کے بعد عمر پھر ان کے بعد عثمان ۔ یہ فضیلت صحابہ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں ہی دیتے تھے ۔
مطابقته للترجمة من حيث إن فضل أبي بكر ثبت في أيام النبي صلى الله عليه وسلم، بعد فضل النبي صلى الله عليه وسلم ۔
علامہ بدر الدین عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس حدیث اور باب کے عنوان میں مناسبت یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبکر صدیق کی فضیلت آپ کے زمانے میں ثابت شدہ ہے ۔ (عمدہ القاری صفحہ 246 جلد 16،چشتی)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : قوله باب فضل أبي بكر بعد النبي صلى الله عليه وسلم ۔ أي في رتبة الفضل وليس المراد البعدية الزمانية فإن فضل أبي بكر كان ثابتا في حياته صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم كما دل عليه حديث الباب ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد ابوبكر كی فضیلت كے بارے میں باب ۔ یعنی فضیلت کے رتبے کے بارے میں ۔ بعد سے زمانے کا بعد مراد نہیں ہے کیونکہ ابوبکر کی فضیلت توسرکار صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے زمانے میں ثابت تھی جیسا کہ اس باب کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ۔ (فتح الباری صفحہ 16 جلد 7)

اولا تو سائل کو اتنی سمجھ بھی نہیں کہ خلافت کی ترتیب میں افضلیت نہیں بلکہ اولیت کہنا درست ہے ۔ افضلیت کا تعلق باطنی درجات اور ولایت باطنی سے ہی ہوا کرتا ہے نہ کہ خلافت کی ترتیب سے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء و صوفیا ء نے مولا علی کو ولایت میں افضل کہنے والے کو رافضی قرار دیا ہے ۔ کماسیاتی بیانہ (جس کا بیان آئے گا) ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی خلافت ظاہری سے پہلے سیدنا صدیق اکبر کو مصلائے امامت پر کھڑا کیا (بخاری) ۔ خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا میرے بعد ابو بکر اور عمر کی پیروی کرنا (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا ابوبکر اور عمر جنتی بوڑھوں کے سردار ہیں (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا ۔ (بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھاکہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں ۔ (ترمذی) ۔ خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میری امت میں سے میری امت پر سب سے بڑا رحم دل ابوبکر ہے ۔ (ترمذی) خلافت ظاہری سے پہلے ہی خلفاء اربعہ کو تمام نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا ۔ (شفاء) خلافت ظاہری سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی موجودگی میں صحابہ کرام کا اس بات پر اجماع تھا کہ اس امت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کے بعد سب سے افضل ابوبکر پھر عمر پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (بخاری) خلافت ظاہری سے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (مجمع الزوائد)

خلافت ظاہری سے پہلے ہی آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا دیا تھا اللہ اور مومنین ابوبکر کے سوا کسی اور کےلیے راضی ہی نا ہوں گے (مسلم) ۔ اس سے بڑی کیا دلیل ہو گی ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث من کنت مولاہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی زبردست فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ اللہم اجعلنا فی زمرته و فى من والاه ۔ مگر اس کے ذریعے ولایت باطنی کا عطا ہونا تفضیلیوں کا اپنا مفروضہ ہے اس حدیث کا شان ورود یہ ہے کے یمن کے غزوہ میں مولا علی کے کچھ ساتھیوں کو آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے شکایت ہوئی حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم سے اس شکایت کا اظہار کیا اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ یہ صورتحال بتا رہی ہے کہ یہاں مولا سے مراد دوست اور محبوب ہے اور اس حدیث کا ولایت باطنی سے کوئی تعلق نہیں ۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : حدیث موالات کی اگر سند صحیح بھی ہو تو اس میں ولایت علی پرنص ہم نے اپنی کتاب الفضائل میں واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کا مقصود کیا تھا ؟ ۔ بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے یمن میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا تو ساتھیوں نے ان کے خلاف کثرت سے شکایت کی اور بغض کا اظہار کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے اپنے ساتھ ان کے خصوصی تعلق اور ان سے محبت کو ظاہر کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس کے ذریعے آپ سے محبت اور دوستی رکھنے کی رغبت دلائی اور عداوت ترک کرانا چاہی ، لہٰذا فرمایا من كنت وليه فعلي وليه اور بعض روایات میں ہے ۔ من کنت مولاہ فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاده ، اور اس سے مراد اسلامی دوستی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے سے عداوت نہ رکھے یہ حدیث اس معنی میں ہے جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی مجھ سے نبی امی صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے وعدہ فرمایا ہے کہ مجھ سے مومن کے سوا محبت کوئی نہ کرے گا اور منافق کے سوا بغض کوئی نہ رکھے گا ۔ الْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ۔ (الاعتقاد نویسنده : البيهقي، أبو بكر جلد : 1 صفحه : 354 مطبوعہ دار الآفاق بيروت،چشتی)

یہ تھے امام شافعی رحمة اللہ علیہ جن کے ادھورے شعر پڑھ پڑھ کر ماڈرن تفضیلی رافضی عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں پوری حدیث دیکھیئے امام شافعی کی شخصیت دیکھئے اور پھر ان کی وضاحت دیکھیے ۔

حضرت خواجہ غلام فرید رحمة اللہ علیہ کوٹ مٹھن والے نے تین صفحات پر اس حدیث کی زبردست وضاحت فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ یہاں مولا کے معنی سید سردار حاکم اور لائک امامت کے نہیں بلکہ اس کے معنی ناصر اور محبوب کے ہیں ۔ (مقابیس المجالس صفحہ نمبر 920)

شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں : اسی طرح یہ بھی ابلا فریبی ہے کہ حضرت علی کی خلافت بلا فصل کی دلیل میں خم غدیر کی روایت پیش کی جاتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کے متعلق فرمایا کے من کنت مولا ہ فعلی مولاہ ، یعنی جن کا میں دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں ظاہر ہے کہ قرآن کریم میں مولا بمعنی دوست ہے دیکھیے آیت کریم : فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ ۔ یعنی اللہ کے محبوب کا دوست اللہ عزوجل ہے اور جبریل ہے اور نیک بندے ہیں ہیں ۔ (مذہب شیعہ صفحہ 90)

ادھر  الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۔ کی نص قرآن میں موجود ہے یعنی تمام مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مولا ہیں ۔

الَّذِينَ يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ۔ کی تفسیر میں امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان مولا علی کے بارے میں موجود ہے کہ : علی من الذین اٰمنو ۔ یعنی مولا علی بھی مومنین میں شامل ہیں ۔ (تفسیر ابن جر یر جلد 14 صفحہ 356،چشتی)(تفسیر بغوی جلد 2 صفحہ 47)۔(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 102)

حدیث پاک میں تمام صحابہ کرام کے بارے میں محبوب کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فمن أحبهم فبحبي أحبهم، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ، یعنی جس نے ان سے محبت رکھیں پس اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو محبوب جانا اور جس نے ان سے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا ۔ خود اسی حدیث میں اللهم وال من والاه وعاداه سے ولایت کا مفہوم متعین ہو رہا ہے یعنی اے اللہ جو علی کو مولا بنائے تو اسے اپنا مولا بنا اور اس سے دشمنی رکھے تو اب سے اپنا دشمن بنا یہاں مولا کا لفظ دشمن کے مقابلے پر استعمال ہوا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں مولا با معنی محبوب اور دوست ہے نا کہ مولا بمعنی آقا ۔

امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : يكون المولى بمعنى الولى ضد العدو ۔ یعنی مولا کا معنی دوست ہوتا ہے جو دشمن کی ضد ہے ۔ (الریاض النظرہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 227)

بلکہ اس سے بڑھ کر متعدد روایات میں ہے کہ : اللهم احب من احبه و ابغض من ابغضه ۔ یعنی اے اللہ جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ۔ اور بعض روایات میں ہے و اخذل من خذله ۔ یعنی اے اللہ جو اسے رسوا کرنے کی کوشش کرے تو اسے رسوا کر اور بعض روایات میں ہے کہ وانصر من نصره یعنی جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر اسی طرح کے الفاظ میں تفسیر کی انتہا کر دی گئی ہے ۔ اور اگر مولا بمعنی آقا لیا جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو انبیاء علیہم السلام کے بھی آقا ہیں تو کیا حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم تمام انبیاء کے بھی آپ آقا ہوں گے ؟
بتائیے تفضیلیو آپ لوگوں کے عقائد و ظریات سے قدم قدم پر غالی رافضیت لازم آتی ہے کہ نہیں ؟

حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا : اللهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا - يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ - وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمِ الْمُؤْمِنِينَ ۔ یعنی اے اللہ اپنے اس بندے ابوہریرہ اور اس کی ماں کو تمام مومنوں کا محبوب بنا دے اور مومنوں کو ان کا محبوب بنا دے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ۔ یعنی کوئی ایسا مومن پیدا نہیں ہو گا جو میرے بارے میں سنے اور مجھ سے محبت نہ کرے خواہ اس نے مجھے دیکھا نہ ہو ۔ (صحيح مسلم نویسنده : مسلم جلد : 4 صفحه : 1938 مطبوعہ دار إحياء التراث العربي - بيروت،چشتی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے حضرت زید رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ۔ انت اخونا ومولانا یعنی تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو گیا ۔ (بخاری حدیث نمبر 2699)

مولا علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت باطنی اور اس کی رفعتوں میں کوئی شک نہیں مگر خلفاۓ ثلاثہ میں ولایت باطنی مولا علی کی نسبت رفیع تر ہے اور اس میں ان کی یکتائی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا لو کنت متخذا خلیلا الحدیث یعنی اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ہے اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

صدیق اکبر کا لقب آسمانوں سے عطا کیے جانے میں صدیق ہی یکتا ہیں اور صدیقیت ولایت باطنی کا اعلی ترین رتبہ ہے صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

قرآن فرماتا ہے : ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں جب قرآن نے ہی صدیق کو نبی کا ثانی کہہ دیا تو صدیق کی یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

اذ يقول لصاحبه میں بھی صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور یہ لقب قرآن نے کسی دوسرے صحابی کو نہیں دیا صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کے ابوبکر سے بہتر شخص سورج نے نہیں دیکھا اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں اور صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے انہیں خود مصلّی امامت پر کھڑا کیا اور اگر کسی دوسرے کی تجویز دی گئی تو آپ نے لا ، لا ، لا ، فرما کر انکار کر دیا ۔ (سنن ابی داود رقم الحدیث4661)

اور یابی اللہ والمومنون الا ابابكر کی تصریح فرما دی یعنی ابوبکر کے سوا کسی کو امام ماننے سے اللہ اور اس کے فرشتے انکار کر رہے ہیں ۔ (مسلم رقم الحدیث6181)

اس میں صدیق اکبر ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

ارحم امتی بامتی ابوبکر یعنی میری امت میں میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر ہے اس میں محبوب کریم صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم کی رحمۃ اللعالمینی کا عکس اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ فگن ہے اس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلّم نے فرمایا کہ مجھ پر تمام لوگوں سے زیادہ احسانات ابوبکر کے ہیں وہی ہیں امن الناس بر مولائے ما اس میں وہی یکتا ہیں صدیق کی یہ یکتائی آپ کو نظر کیوں نہیں آئی ؟ ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 29 December 2022

اہلِ اسلام سے گذارش ہے

سوشل میڈیا پر ہمارے مضامین پڑھنے والے بے شمار قارٸین و فالورز اہلِ اسلام سے گذارش ہے کہ دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، دینی کتب تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ،  کی خریداری ، بے سہارا بچوں اور بچیوں کو دینی تعلیم دینے کے اخراجات گھروں میں پہنچانے کے سلسلہ میں تعاون فرمائیں اگر آپ سب قارٸینِ ہر ماہ کم از کم ایک ایک سو روپیہ بھی تعاون کریں تو دینی کاموں میں بہت آسانی ہوگی ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : فیض احمد چشتی اکاؤنٹ نمبر 0001957900055503 حبیب بینک کیولری گراؤنڈ برانچ لاہور پاکستان ، جاز کیش اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں ۔ 03009576666 ،03215555970 ، جزاكم اللهُ‎ خیراً کثیرا آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


Tuesday, 20 December 2022

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ چہارم

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ چہارم

خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں


لِلرِّجَالِ  نَصِیْبٌ  مِّمَّا  تَرَكَ  الْوَالِدٰنِ  وَ  الْاَقْرَبُوْنَ   ۪-  وَ  لِلنِّسَآءِ  نَصِیْبٌ  مِّمَّا  تَرَكَ  الْوَالِدٰنِ  وَ  الْاَقْرَبُوْنَ  مِمَّا  قَلَّ  مِنْهُ  اَوْ  كَثُرَؕ-نَصِیْبًا  مَّفْرُوْضًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 7)
ترجمہ : مردوں کےلیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کےلیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت حصہ ہے اندازہ باندھا ہوا ۔

زمانہ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت سے حصہ نہ دیتے تھے، اِس آیت میں اُس رسم کو باطل کیا گیا۔ اِس سے یہ بھی معلو م ہوا کہ بیٹے کو میراث دینا اور بیٹی کو نہ دینا صریح ظلم اور قرآن کے خلاف ہے دونوں میراث کے حقدار ہیں اور اس سے اسلام میں عورتوں کے حقوق کی اہمیت کا بھی پتا چلا ۔

یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو

وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ   ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 2)
ترجمہ : اور یتیموں کو ان کے مال دو اور ستھرے کے بدلے گندا نہ لو اور ان کے مال اپنے مالوں میں ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے ۔

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک شخص کی نگرانی میں اُس کے یتیم بھتیجے کا بہت زیادہ مال تھا ، جب وہ یتیم بالغ ہو ا اور اس نے اپنا مال طلب کیا تو چچا نے دینے سے انکار کردیا اِس پر یہ آیت نازل ہوئی جسے سن کر اُس شخص نے یتیم کا مال اُس کے حوالے کردیا اور کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرتے ہیں ۔ (فسیر بیضاوی سورہ النساء آیت : ۲، ۲ / ۱۴۱)

آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب یتیم اپنا مال طلب کریں تو ان کا مال ان کے حوالے کردو جب کہ دیگر شرعی تقاضوں کو پورا کرلیا ہے اور اپنے حلال مال کے بدلے یتیم کا مال نہ لو جو تمہارے لئے حرام ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ اپنا گھٹیا مال یتیم کو دے کر اس کا عمدہ مال لے لو۔ یہ تمہارا گھٹیا مال تمہارے لئے عمدہ ہے کیونکہ یہ تمہارے لئے حلال ہے اور یتیم کا عمدہ مال تمہارے لیے گھٹیا اور خبیث ہے کیونکہ وہ تمہارے لیے حرام ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا حرام ہوا یعنی گھٹیا معاوضہ دے کر کھانا بھی حرام ہے تو بغیر معاوضہ کے کھالینا تو بطریق اَولیٰ حرام ہوا ۔ ہاں شریعت نے جہاں ان کا مال ملا کر استعمال کی اجازت دی وہ جدا ہے جس کا بیان سورہ ٔبقرہ آیت 220 میں ہے ۔

یتیم اس نابالغ لڑکے یا لڑکی کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہوجائے ۔ آیتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں یتیموں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کئے جاتے ہیں : ⬇

(1) ۔ یتیم کوتحفہ دے سکتے ہیں مگر اس کاتحفہ لے نہیں سکتے ۔

(2) ۔ کوئی شخص فوت ہو اور اس کے ورثاء میں یتیم بچے بھی ہوں تو اس ترکے سے تیجہ، چالیسواں ، نیاز، فاتحہ اور خیرات کرنا سب حرام ہے اور لوگوں کا یتیموں کے مال والی اُس نیاز، فاتحہ کے کھانے کو کھانا بھی حرام ہے ۔ یہ مسئلہ بہت زیادہ پیش آنے والا ہے لیکن افسوس کہ لوگ بے دھڑک یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں ۔

(3) ۔ ایسے موقع پر جائز نیاز کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء خاص اپنے مال سے نیاز دلائیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہاں وہ دعوت مراد نہیں ہے جو تدفین کے بعد یا سوئم کے دن کی پکائی جاتی ہے کیونکہ وہ دعوت تو بہر صورت ناجائز ہے خواہ اپنے مال سے کریں ۔ مسئلہ : تیجہ، فاتحہ کا ایصالِ ثواب جائز ہے لیکن رشتے داروں اور اہلِ محلہ کی جو دعوت کی جاتی ہے یہ ناجائز ہے، وہ کھانا صرف فقراء کو کھلانے کی اجازت ہے ۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کےلیے فتاویٰ رضویہ کی نویں جلد سے ان دو رسائل کامطالعہ فرمائیں (1) اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَالْفَاتِحَہْ ۔ (دن متعین کرنے اور مروجہ فاتحہ ، سوئم وغیرہ کا ثبوت) ۔ (2) جَلِیُّ الصَّوْتْ لِنَھْیِ الدَّعْوَۃِ اَمَامَ مَوْتْ ۔ (کسی کی موت پردعوت کرنے کی ممانعت کا واضح بیان)

یتیموں کی حفاظت کرو

وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّۙ-وَ مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِۙ-وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰى بِالْقِسْطِؕ-وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 127 )
ترجمہ : اور تم سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمہیں ان کا فتویٰ دیتا ہے اور وہ جو تم پر قرآن میں پڑھا جاتا ہے ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں کہ تم انہیں نہیں دیتے جو ان کا مقرر ہے اور انہیں نکاح میں بھی لانے سے منہ پھیرتے ہو اور کمزور بچوں کے بارے میں اور یہ کہ یتیموں کے حق میں انصاف پر قائم رہو اور تم جو بھلائی کرو تو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔

شانِ نزول : زمانہِ جاہلِیَّت میں عرب کے لوگ عورت اور چھوٹے بچوں کو میت کے مال کا وارث قرار نہیں دیتے تھے ۔ جب آیت ِمیراث نازل ہوئی تو انہوں نے عرض کیا ، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا عورت اور چھوٹے بچے وارث ہوں گے ؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اُن کو اِس آیت سے جواب دیا ۔ حضرت عائشہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہا نے فرمایا کہ یتیموں کے اولیاء کا دستور یہ تھا کہ اگر یتیم لڑکی صاحبِ مال و جمال ہوتی تو اس سے تھوڑے مہر پر نکاح کرلیتے اور اگر حسن و مال نہ رکھتی تو اسے چھوڑ دیتے اور اگرحسنِ صورت نہ رکھتی اور ہوتی مالدار تو اس سے نکاح نہ کرتے اور اس اندیشہ سے دوسرے کے نکاح میں بھی نہ دیتے کہ وہ مال میں حصہ دار ہو جائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر انہیں ان عادتوں سے منع فرمایا ۔ (تفسیر خازن سورہ النساء آیت : ۱۲۷، ۱ / ۴۳۵)

قرآنِ پاک میں یتیموں ، بیواؤں اور معاشرے کے کمزو ر و محروم افراد کےلیے بہت زیادہ ہدایات دی گئی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں ، بیواؤں ، عورتوں ، کمزوروں اور محروم لوگوں کو ان کے حقوق دلانا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سنت ہے اور اس کےلیے کوشش کرنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بہت پسند ہے ۔

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، ایک شخص نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے ؟اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا : تیرے پاس کوئی یتیم آئے تو اس کے سر پہ ہاتھ پھیرو اور اپنے کھانے میں سے اسے کھلاؤ ، تیرا دل نرم ہو جائے گا اور تیری حاجتیں بھی پوری ہوں گی ۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجامع، باب اصحاب الاموال، ۱۰ / ۱۳۵، الحدیث: ۲۰۱۹۸،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے تین یتیموں کی پرورش کی وہ رات کو قیام کرنے والے ، دن کو روزہ رکھنے والے اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تلوار سونتنے والے کی طرح ہے اورمیں اور وہ جنت میں دو بھائیوں کی طرح ہوں گے جیسا کہ یہ دو بہنیں ہیں ۔ اوراپنی انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کو ملایا ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب حقّ الیتیم ، ۴ / ۱۹۴، الحدیث: ۳۶۸۰)

حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : بیواؤں اور مسکینوں پر خرچ کرنے والا راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے اور رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الحث علی المکاسب، ۳ / ۶، الحدیث: ۲۱۴۰،چشتی)

حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو میرے کسی امتی کی حاجت پوری کرے اور اُس کی نیت یہ ہو کہ اِس کے ذریعے اُس امتی کو خوش کرے تو اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا ا س نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اور جس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کو خوش کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ (شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۶ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۶۵۳)

دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو

وَابْتَلُوا  الْیَتٰمٰى  حَتّٰۤى  اِذَا  بَلَغُوا  النِّكَاحَۚ ۔ فَاِنْ  اٰنَسْتُمْ  مِّنْهُمْ  رُشْدًا  فَادْفَعُوْۤا اِلَیْهِمْ  اَمْوَالَهُمْۚ ۔ وَ  لَا  تَاْكُلُوْهَاۤ  اِسْرَافًا  وَّ  بِدَارًا اَنْ  یَّكْبَرُوْاؕ ۔ وَمَنْ  كَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْۚ ۔ وَمَنْ  كَانَ  فَقِیْرًا  فَلْیَاْكُلْ  بِالْمَعْرُوْفِؕ-فَاِذَا دَفَعْتُمْ  اِلَیْهِمْ  اَمْوَالَهُمْ  فَاَشْهِدُوْا  عَلَیْهِمْؕ-وَ  كَفٰى  بِاللّٰهِ حَسِیْبًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 6)
ترجمہ : اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کے قابل ہوں تو اگر تم ان کی سمجھ ٹھیک دیکھو تو ان کے مال انہیں سپرد کردو اور انہیں نہ کھاؤ حد سے بڑھ کر اور اس جلدی میں کہ کہیں بڑے نہ ہو جائیں اور جسے حاجت نہ ہو وہ بچتا رہے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھائے پھر جب تم ان کے مال انہیں سپرد کرو تو ان پر گواہ کرلو اور اللہ کافی ہے حساب لینے کو ۔

اس آیتِ مبارکہ میں یتیموں کے حوالے سے بہت واضح احکام دئیے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ جن یتیموں کا مال تمہارے پاس ہو ان کی سمجھداری کو آزماتے رہو جس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کا مال دے کر وقتاً فوقتاً انہیں دیکھتے رہو کہ کیسے خرچ کرتے ہیں ۔ یوں انہیں آزماتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں یعنی بالغ ہو جائیں تو اگر تم ان میں سمجھداری کے آثار دیکھو کہ وہ مالی معاملات اچھے طریقے سے کرلیتے ہیں تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ۔ یہاں تک ان کے بارے میں حکم دینے کے بعد اب سرپرستوں کو بطورِ خاص چند ہدایات دی ہیں چنانچہ فرمایا کہ یتیموں کے مال کو فضول خرچی سے استعمال نہ کرو اور ان کامال جلدی جلدی نہ کھاؤ اس ڈر سے کہ جب وہ بڑے ہو جائیں گے تو چونکہ تمہیں اُن کے مال واپس کرنا پڑیں گے لہٰذا جتنا زیادہ ہوسکے ان کا مال کھا جاؤ ، یہ حرام ہے ۔ مزید ہدایت یہ ہے کہ یتیم کا سرپرست اگر خودمالدار ہو یعنی اسے یتیم کا مال استعمال کرنے کی حاجت نہیں تو وہ اُس کا مال استعمال کرنے سے بچے اور جو حاجت مند ہو وہ بقدر مناسب کھاسکتا ہے یعنی جتنی معمولی سی ضرورت ہو ۔ اس میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کم سے کم کھائے ۔ (تفسیر جَمَل سورہ النساء آیت : ۶، ۲ / ۱۳،چشتی)

آیت کے آخر میں مزید پہلے والے حکم کے بارے میں فرمایا کہ جب تم یتیموں کے مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو اِس بات پر گواہ بنالو تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ ہو ۔ یہ حکم مستحب ہے ۔

لوگوں کے درمیان صلح کراؤ

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 10)
ترجمہ : مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو ۔

مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں  سے مضبوط تر ہے ، لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ا س پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات آیت : ۱۰، ۴ / ۱۶۸، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ جلد ۱۰ صفحہ ۱۱۵۳،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان ،مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کو رُسوا کرے ، جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں مشغول رہتاہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتاہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کاپردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب باب لا یظلم المسلم ۔ الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)

حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں  ،جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی توسارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سرمیں  دردہوتوسارے جسم میں  دردہوگا ۔ ( مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۷(۲۵۸۶))

حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کےلیے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تراحم المؤمنین... الخ، ص۱۳۹۶، الحدیث: ۶۵(۲۵۸۵))

بدگمانی سے بچو اور غیبت نہ کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 12)
ترجمہ : اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں  کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں  جو محض گناہ ہیں  لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے ۔ (تفسیر ابن کثیر سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۷ / ۳۵۲)

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (یہاں آیت میں گمان کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا) کیونکہ گمان ایک دوسرے کو عیب لگانے کا سبب ہے ، اس پر قبیح افعال صادر ہونے کا مدار ہے اور اسی سے خفیہ دشمن ظاہر ہوتا ہے اور کہنے والا جب ان اُمور سے یقینی طور پر واقف ہو گا تو وہ ا س بات پر بہت کم یقین کرے گا کہ کسی میں  عیب ہے تاکہ اسے عیب لگائے ،کیونکہ کبھی فعل بظاہر قبیح ہوتا ہے لیکن حقیقت میں  ایسا نہیں  ہوتا اس لیے کہ ممکن ہے کرنے والا اسے بھول کر کر رہا ہو یا دیکھنے والا غلطی پر ہو ۔ (تفسیر کبیر سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۱۰ / ۱۱۰)

امام عبداللہ بن عمر بیضاوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہاں  آیت میں گمان کی کثرت کو مُبْہَم رکھا گیا تاکہ مسلمان ہر گمان کے بارے میں محتاط ہو جائے اور غور و فکر کرے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس گمان کا تعلق کس صورت سے ہے کیونکہ بعض گمان واجب ہیں ، بعض حرام ہیں  اور بعض مُباح ہیں ۔ (تفسیر بیضاوی سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۵ / ۲۱۸،چشتی)

گمان کی کئی اَقسام ہیں ، ان میں  سے چار یہ ہیں : (1) واجب ،جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھنا ۔ (2) مُستحَب ، جیسے صالح مومن کے ساتھ نیک گمان رکھنا ۔ (3) ممنوع حرام ۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ برا گمان کرنا اور یونہی مومن کے ساتھ برا گمان کرنا ۔ (4) جائز ، جیسے فاسقِ مُعْلِن کے ساتھ ایسا گمان کرنا جیسے افعال اس سے ظہور میں  آتے ہوں ۔

حضرت سفیان ثوری رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : گمان دو طرح کا ہے ، ایک وہ کہ دل میں  آئے اور زبان سے بھی کہہ دیا جائے ۔ یہ اگر مسلمان پر برائی کے ساتھ ہے تو گناہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ دل میں  آئے اور زبان سے نہ کہا جائے ، یہ اگرچہ گناہ نہیں مگر اس سے بھی دل کو خالی کرنا ضروری ہے ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱، مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۲، ص۱۱۵۵،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مسلمان پر بدگمانی خود حرام ہے جب تک ثبوتِ شرعی نہ ہو ۔ (فتاوی رضویہ،۶ / ۴۸۶)
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : مسلمانوں  پر بدگمانی حرام اور حتّی الامکان اس کے قول وفعل کو وجہِ صحیح پر حمل واجب (ہے) ۔ (فتاوی رضویہ،۲۰ / ۲۷۸)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بے شک مسلمان پر بد گمانی حرام ہے مگر جبکہ کسی قرینہ سے اس کا ایسا ہونا ثابت ہوتا ہو (جیسا اس کے بارے میں  گمان کیا) تو اب حرام نہیں ، مثلاً کسی کو (شراب بنانے کی) بھٹی میں  آتے جاتے دیکھ کر اسے شراب خور گمان کیا تواِس کا قصور نہیں (بلکہ بھٹی میں آنے جانے والے کا قصور ہے کیونکہ) اُس نے موضعِ تہمت (یعنی تہمت لگنے کی جگہ) سے کیوں اِجتناب نہ کیا ۔ (فتاوی امجدیہ، ۱ / ۱۲۳)

صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : مومنِ صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنی مراد لینا باوجودیکہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں  داخل ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان سورہ الحجرات آیت : ۱۲، صفحہ ۹۵۰)

دینِ اسلا م وہ عظیم دین ہے جس میں انسانوں کے باہمی حقوق اور معاشرتی آداب کو خاص اہمیت دی گئی اور ان چیزوں کا خصوصی لحاظ رکھا گیاہے اسی لیے جو چیز انسانی حقوق کو ضائع کرنے کا سبب بنتی ہے اور جو چیز معاشرتی آداب کے بر خلاف ہے اس سے دینِ اسلام نے منع فرمایا اور اس سے بچنے کا تاکید کے ساتھ حکم دیاہے ، جیسے ان اَشیاء میں سے ایک چیز ’’بد گمانی‘‘ ہے جو کہ انسانی حقوق کی پامالی کا بہت بڑا سبب اور معاشرتی آداب کے انتہائی بر خلاف ہے ، اس سے دین ِاسلام میں خاص طور پر منع کیا گیا ہے ، چنانچہ قرآنِ مجید میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ۔ (سورہ بنی اسرائیل:۳۶)
ترجمہ : اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں  بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں  سوال کیا جائے گا ۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچائو کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے ، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو ، حرص نہ کرو ، حسد نہ کرو ، بغض نہ کرو،ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی ہو جاٶ ۔ (صحی مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ، صفحہ ۱۳۸۶، الحدیث: ۲۸(۲۵۶۳))

بدگمانی کے دینی اور دُنْیَوی نقصانات

(1) ۔ جس کے بارے میں  بد گمانی کی ، اگر اُس کے سامنے اِس کا اظہار کر دیا تو اُس کی دل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دل آزاری حرام ہے ۔

(2) ۔ اگر ا س کی غیر موجودگی میں  دوسرے کے سامنے اپنے برے گمان کا اظہار کیاتو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا حرام ہے ۔

(3) ۔ بد گمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں  کرتا بلکہ وہ اس کے عیب تلاش کرنے میں  لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیبوں  کوتلاش کرناناجائز و گناہ ہے ۔

(4) بد گمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک اَمراض پیدا ہوتے ہیں  ۔

(5) ۔ بد گمانی کرنے سے دو بھائیوں  میں  دشمنی پیدا ہو جاتی ہے،ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتے ہیں ، شوہر اور بیوی میں  ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوجاتا اور بات بات پر آپس میں  لڑائی رہنے لگتی ہے اور آخر کاران میں  طلاق اور جدائی کی نوبت آجاتی ہے ،بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں  اور یوں  ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے ۔

(6) ۔ دوسروں  کےلیے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں  کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں  کےلیے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں  رہتے ہیں  ان میں  دل کی بیماریوں  اور فالج کا خطرہ 86% بڑھ جاتا ہے ۔

بد گمانی کا علاج

حضرت امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : شیطان آدمی کے دل میں  بدگمانی ڈالتاہے تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ شیطان کی تصدیق نہ کرے اور اس کو خوش نہ کرے حتّٰی کہ اگر کسی کے منہ سے شراب کی بو آ رہی ہو تو پھر بھی اس پر حد لگانا جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے اس نے شراب کا ایک گھونٹ پی کر کلی کر دی ہو یا کسی نے اس کو جَبراً شراب پلادی ہو اوراس کااِحتمال ہے تووہ دل سے بدگمانی کی تصدیق کرکے شیطان کوخوش نہ کرے (اگرچہ مذکورہ صورت میں بدگمانی کا گناہ نہیں  ہو گا لیکن بچنے میں پھر بھی بھلائی ہی ہے) ۔ (احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان تحریم الغیبۃ بالقلب، ۳ / ۱۸۶،چشتی)

یہ بھی معلوم ہو اکہ مسلمانوں کے پوشیدہ عیب تلاش کرنا اور انہیں بیان کرنا ممنوع ہے ، یہاں اسی سے متعلق ایک عبرت انگیز حدیثِ پاک ملاحظہ ہو ، حضرت ابوبرزہ اسلمی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ اے ان لوگوں کے گروہ ، جو زبان سے ایمان لائے اور ایمان ان کے دلوں میں  داخل نہیں ہوا ، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی چھپی ہوئی باتوں کی ٹٹول نہ کرو ، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی چھپی ہوئی چیز کی ٹٹول کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ چیز کی ٹٹول کرے (یعنی اسے ظاہر کر دے) گا اور جس کی اللہ (عَزَّوَجَلَّ) ٹٹول کرے گا (یعنی عیب ظاہر کرے گا) اس کو رسوا کردے گا ، اگرچہ وہ اپنے مکان کے اندر ہو ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۴، الحدیث: ۴۸۸۰)

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں  کی غیبت کرنا اور ان کے عیب تلاش کرنا منافق کا شِعار ہے اور عیب تلاش کرنے کا انجام ذلت و رسوائی ہے کیونکہ جو شخص کسی دوسرے مسلمان کے عیب تلاش کر رہا ہے ، یقینا اس میں بھی کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہو گا اور ممکن ہے کہ وہ عیب ایسا ہو جس کے ظاہر ہونے سے وہ معاشرے میں  ذلیل و خوار ہو جائے لہٰذا عیب تلاش کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان کی اس حرکت کی بنا پر کہیں اللہ تعالیٰ ان کے وہ پوشیدہ عیوب ظاہر نہ فرما دے جس سے وہ ذلت و رسوائی سے دوچار ہو جائیں ۔

عیب چھپانے کے دو فضائل

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پرپردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری، کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم... الخ، ۲ / ۱۲۶، الحدیث: ۲۴۴۲)

حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو شخص ایسی چیز دیکھے جس کو چھپانا چاہیے اور اس نے پردہ ڈال دیا (یعنی چھپادی) تو ایسا ہے جیسے مَٶُوْدَہ (یعنی زندہ زمین میں  دبا دی جانے والی بچی) کو زندہ کیا ۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی الستر علی المسلم، ۴ / ۳۵۷، الحدیث: ۴۸۱۹)

لوگوں  کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے عیبوں  کی اصلاح کی جائے

جو شخص لوگوں کے عیب تلاش کرنے میں  رہتا ہے اسے خاص طور پر اور تمام لوگوں  کو عمومی طور پر چاہیے کہ کسی کے عیب تلاش کرنے کی بجائے اپنے اندر موجود عیبوں کو تلاش کرنے اور ان کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں کہ اسی میں  ان کی اور دوسروں کی دنیا و آخرت کابھلا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : تم میں  سے کوئی شخص اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا دیکھتا ہے اوراپنی آنکھ کوبھول جاتا ہے ۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۶۱)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : جب تم اپنے ساتھی کے عیب ذکر کرنے کا ارادہ کرو تو (اس وقت) اپنے عیبوں کو یاد کرو ۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۱۱، الحدیث: ۶۷۵۸)

انسان کی عزت و حرمت کی حفاظت میں  اسلام کا کردار

دینِ اسلام کی نظر میں ایک انسان کی عزت و حرمت کی قدر بہت زیادہ ہے اور اگر وہ انسان مسلمان بھی ہو تو اس کی عزت و حرمت کی قدر اسلام کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہے ، اسی لیے دینِ اسلام نے ان تما م اَفعال سے بچنے کا حکم دیا ہے جن سے کسی انسان کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہو ، ان افعال میں سے ایک فعل کسی کے عیب تلاش کرنا اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کر دینا ہے جس کا انسانوں کی عزت و حرمت ختم کرنے میں بہت بڑ اکردار ہے ، اس وجہ سے جہاں اس شخص کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا عیب لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائے وہیں  وہ شخص بھی لوگوں  کی نفرت اور ملامت کا سامنا کرتا ہے جو عیب تلاش کرنے اور انہیں ظاہر کرنے میں لگا رہتا ہے ، یوں عیب تلاش کرنے والے اور جس کا عیب بیان کیا جائے ، دونو ں کی عزت و حرمت چلی جاتی ہے ، اس لیے دینِ اسلام نے عیبوں  کی تلاش میں  رہنے اور انہیں  لوگوں  کے سامنے شرعی اجازت کے بغیر بیان کرنے سے منع کیا اور اس سے باز نہ آنے والوں کو سخت وعیدیں سنائیں تاکہ ان وعیدوں سے ڈر کر لوگ اس بُرے فعل سے باز آ جائیں اور سب کی عزت و حرمت کی حفاظت ہو ۔

تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ، کیا تم میں  کوئی یہ پسند کرے گا کہ اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ، یقینا یہ تمہیں ناپسند ہوگا ، تو پھر مسلمان بھائی کی غیبت بھی تمہیں گوارا نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس کو پیٹھ پیچھے برا کہنا اس کے مرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کی مثل ہے کیونکہ جس طرح کسی کا گوشت کاٹنے سے اس کو ایذا ہوتی ہے اسی طرح اس کی بدگوئی کرنے سے اسے قلبی تکلیف ہوتی ہے اور درحقیقت عزت و آبرُو گوشت سے زیادہ پیاری ہے ۔

شانِ نزول : جب سرکارِ کل عالَم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جہاد کےلیے روانہ ہوتے اور سفر فرماتے تو ہر دو مال داروں کے ساتھ ایک غریب مسلمان کو کردیتے کہ وہ غریب اُن کی خدمت کرے اور وہ اسے کھلائیں پلائیں ، یوں ہر ایک کاکا م چلے ، چنانچہ اسی دستور کے مطابق حضرت سلمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ دو آدمیوں کے ساتھ کیے گئے تھے ، ایک روز وہ سوگئے اور کھانا تیار نہ کرسکے تو اُن دونوں نے انہیں کھانا طلب کرنے کےلیے رسولِ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  بھیجا ، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کچن کے خادم حضرتِ اُسامہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ تھے ، اُن کے پاس کھانے میں سے کچھ باقی رہا نہ تھا ، اس لیے انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہی آکر کہہ دیا تو اُن دونوں  رفیقوں  نے کہا : اُسامہ (رَضِیَ اللہ عَنْہُ) نے بخل کیا ۔ جب وہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا ’’ میں  تمہارے منہ میں  گوشت کی رنگت دیکھتا ہوں ۔ اُنہوں نے عرض کی:ہم نے گوشت کھایا ہی نہیں ۔ ارشادفرمایا ’’ تم نے غیبت کی اور جو مسلمان کی غیبت کرے اُس نے مسلمان کا گوشت کھایا ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات آیت : ۱۲، ۴ / ۱۷۰-۱۷۱،چشتی)

اس آیت میں  غیبت کرنے سے منع کیا گیا اور ایک مثال کے ذریعے اس کی شَناعَت اور برائی کو بیان فرمایاگیا ہے ، کثیر اَحادیث میں  بھی اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ نے عرض کی : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی زیادہ جانتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ تم اپنے بھائی کا وہ عیب بیان کرو جس کے ذکر کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔ عرض کی گئی : اس کے بارے میں  آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جسے میں  بیان کرتا ہوں ۔ ارشاد فرمایا : تم جو عیب بیان کررہے ہو اگروہ اس میں  موجود ہوجب ہی تووہ غیبت ہے  اوراگراس میں  وہ عیب نہیں  ہے تو پھر وہ بہتان ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الغیبۃ، ص۱۳۹۷، الحدیث: ۷۰(۲۵۸۹))

حضرت ابوسعید اور حضرت جابر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’ غیبت زِنا سے بھی زیادہ سخت چیز ہے ۔ لوگوں  نے عرض کی ، یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، غیبت زنا سے زیادہ سخت کیسے ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ مرد زِنا کرتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبو ل فرماتا ہے اور غیبت کرنے والے کی تب تک مغفرت نہ ہو گی جب تک وہ معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی ہے ۔ (شعب الایمان، الرابع والاربعون من شعب الایمان... الخ، فصل فیما ورد... الخ، ۵ / ۳۰۶، الحدیث: ۶۷۴۱،چشتی)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی تومیں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن پیتل کے تھے اوروہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ،میں  نے پوچھا:اے جبریل! عَلَیْہِ السَّلَام، یہ کون لوگ ہیں  ؟انہوں  نے کہا: یہ وہ افراد ہیں  جولوگوں  کاگوشت کھاتے اوران کی عزتوں  کوپامال کرتے تھے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۸)

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جس نے دنیامیں  اپنے بھائی کا گوشت کھایا اس کے پاس قیامت کے دن اس کے بھائی کا گوشت لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا تم جس طرح دنیا میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے تھے اب زندہ کا گوشت کھاٶ وہ چیخ مارتا ہوا اور منہ بگاڑتا ہوا کھائے گا ۔ (معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۴۵۰، الحدیث: ۱۶۵۶)

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ انہیں  غور سے پڑھے اور غیبت سے بچنے کی بھر پور کوشش کرے ، فی زمانہ اس حرام سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ آج کل مسلمانوں  میں  یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے اور وہ اس سے بچنے کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے اور ان کی بہت کم مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جو چغلی اور غیبت سے محفوظ ہوں ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : غیبت کے یہ معنیٰ ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا اور اگر اس میں وہ بات ہی نہ ہو تو یہ غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے ۔ (بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۲)

غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے (اسی طرح) فعل سے بھی ہوتی ہے ، صراحت کے ساتھ برائی کی جائے یا تعریض و کنایہ کے ساتھ ہو سب صورتیں حرام ہیں ، برائی کو جس نَوعِیَّت سے سمجھائے گا سب غیبت میں داخل ہے ۔ تعریض کی یہ صورت ہے کہ کسی کے ذکر کرتے وقت یہ کہا کہ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں ایسا نہیں ‘‘ جس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ ایسا ہے ۔ کسی کی برائی لکھ دی یہ بھی غیبت ہے ، سر وغیرہ کی حرکت بھی غیبت ہو سکتی ہے ، مثلاً کسی کی خوبیوں کا تذکرہ تھا اس نے سر کے اشارہ سے یہ بتانا چاہا کہ اس میں جو کچھ برائیاں ہیں ان سے تم واقف نہیں ، ہونٹوں اور آنکھوں اور بھوؤں اور زبان یا ہاتھ کے اشارہ سے بھی غیبت ہو سکتی ہے ۔

ایک صورت غیبت کی نقل ہے مثلاً کسی لنگڑے کی نقل کرے اور لنگڑا کر چلے ، یا جس چال سے کوئی چلتا ہے اس کی نقل اتاری جائے یہ بھی غیبت ہے ، بلکہ زبان سے کہہ دینے سے یہ زیادہ برا ہے کیونکہ نقل کرنے میں پوری تصویر کشی اور بات کو سمجھانا پایا جاتا ہے (جب) کہ کہنے میں  وہ بات نہیں  ہوتی ۔ (بہار شریعت، حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۶)

جس طرح زندہ آدمی کی غیبت ہو سکتی ہے مرے ہوئے مسلمان کو برائی کے ساتھ یاد کرنا بھی غیبت ہے ، جبکہ وہ صورتیں نہ ہوں جن میں عیوب کا بیان کرنا غیبت میں داخل نہیں ۔ مسلم کی غیبت جس طرح حرام ہے کافر ذمی کی بھی ناجائز ہے کہ ان کے حقوق بھی مسلم کی طرح ہیں (جبکہ) کافر حربی کی برائی کرنا غیبت نہیں ۔

کسی کی برائی اس کے سامنے کرنا اگر غیبت میں داخل نہ بھی ہو جبکہ غیبت میں  پیٹھ پیچھے برائی کرنا معتبر ہو مگر یہ اس سے بڑھ کر حرام ہے کیونکہ غیبت میں  جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ ایذاءِ مسلم ہے وہ یہاں بدرجہ اَولی پائی جاتی ہے غیبت میں  تو یہ اِحتمال ہے کہ اسے اطلاع ملے یا نہ ملے اگر اسے اطلاع نہ ہوئی تو ایذا بھی نہ ہوئی ، مگر احتمالِ ایذا کو یہاں ایذا قرار دے کر شرعِ مُطَہَّر نے حرام کیا اور مونھ پر اس کی مذمت کرنا تو حقیقۃً ایذا ہے پھر یہ کیوں  حرام نہ ہو ۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بعض لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ تم فلاں کی غیبت کیوں کرتے ہو ، وہ نہایت دلیری کے ساتھ یہ کہتے ہیں مجھے اس کا ڈر آپڑا ہے چلو میں اس کے مونھ پر یہ باتیں کہہ دوں گا ، ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا غیبت و حرام ہے اور مونھ پر کہو گے تو یہ دوسرا حرام ہو گا ، اگر تم اس کے سامنے کہنے کی جرأت رکھتے ہو تو اس کی وجہ سے غیبت حلال نہیں  ہو گی ۔

جس کے سامنے کسی کی غیبت کی جائے اسے لازم ہے کہ زبان سے انکار کر دے مثلاً کہدے کہ میرے سامنے اس کی برائی نہ کرو ۔ اگر زبان سے انکار کرنے میں اس کو خوف و اندیشہ ہے تو دل سے اسے برا جانے اور اگر ممکن ہو تو یہ شخص جس کے سامنے برائی کی جارہی ہے وہاں سے اٹھ جائے یا اس بات کو کاٹ کر کوئی دوسری بات شروع کر دے ایسا نہ کرنے میں سننے والا بھی گناہ گار ہو گا ، غیبت کا سننے والا بھی غیبت کرنے والے کے حکم میں  ہے ۔ (بہار شریعت حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۷-۵۳۸)

جس کی غیبت کی اگر اس کو اس کی خبر ہو گئی تو اس سے معافی مانگنی ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تمہاری اس اس طرح غیبت یا برائی کی تم معاف کردو ، اس سے معاف کرائے اور توبہ کرے تب اس سے بریٔ الذمہ ہوگا اور اگر اس کو خبر نہ ہوئی ہو تو توبہ اور ندامت کافی ہے ۔

جس کی غیبت کی ہے اسے خبر نہ ہوئی اور اس نے توبہ کرلی اس کے بعد اسے خبر ملی کہ فلاں نے میری غیبت کی ہے آیا اس کی توبہ صحیح ہے یا نہیں ؟ اس میں  علما کے دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ توبہ صحیح ہے اللہ تعالیٰ دونوں کی مغفرت فرما دے گا ، جس نے غیبت کی اس کی مغفرت توبہ سے ہوئی اور جس کی غیبت کی گئی اس کو جو تکلیف پہنچی اور اس نے در گزر کیا ، اس وجہ سے اس کی مغفرت ہو جائے گی ۔

اور بعض علما یہ فرماتے ہیں کہ اس کی توبہ مُعَلَّق رہے گی اگر وہ شخص جس کی غیبت ہوئی خبر پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا تو توبہ صحیح ہے اور توبہ کے بعد اسے خبر پہنچ گئی تو صحیح نہیں ، جب تک اس سے معاف نہ کرائے ۔ بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضرور ہے کہ میں  نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا ۔

معافی مانگنے میں  یہ ضرور ہے کہ غیبت کے مقابل میں  اس کی ثناءِ حسن (اچھی تعریف) کرے اور اس کے ساتھ اظہارِ محبت کرے کہ اس کے دل سے یہ بات جاتی رہے اور فرض کرو اس نے زبان سے معاف کر دیا مگر اس کا دل اس سے خوش نہ ہوا تو اس کا معافی مانگنا اور اظہارِ محبت کرنا غیبت کی برائی کے مقابل ہو جائے گا اور آخرت میں  مُؤاخَذہ نہ ہوگا ۔

اس نے معافی مانگی اور اس نے معاف کردیا مگر اس نے سچائی اور خلوصِ دل سے معافی نہیں  مانگی تھی محض ظاہری اور نمائشی یہ معافی تھی ، تو ہوسکتا ہے کہ آخرت میں  مُؤاخذہ ہو ، کیونکہ اس نے یہ سمجھ کر معاف کیا تھا کہ یہ خلوص کے ساتھ معافی مانگ رہا ہے ۔

حضرت امام غزالی عَلَیْہِ الرَّحْمَہ یہ فرماتے ہیں ، کہ جس کی غیبت کی وہ مر گیا یا کہیں غائب ہو گیا اس سے کیونکر معافی مانگے یہ معاملہ بہت دشوار ہو گیا ، اس کو چاہیے کہ نیک کام کی کثرت کرے تاکہ اگر اس کی نیکیاں غیبت کے بدلے میں اسے دے دی جائیں ، جب بھی اس کے پاس نیکیاں  باقی رہ جائیں ۔ (بہار شریعت حصہ شانزدہم، ۳ / ۵۳۸-۵۳۹) ۔ (مزید حصّہ پنجم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 14 December 2022

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ سوم

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ سوم
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے فی الوقت چند آیات مبارکہ کا انتخاب کیا ہے جو کہ اہلِ ایمان کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں ۔ کوشش ہوگی کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھا جاۓ ۔ اللہ عزوجل عمل کی توفیق عطا فرماۓ آمین : ⬇

گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ - وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَؕ-ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 83)
ترجمہ : اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر تم پھِر گئے مگر تم میں کے تھوڑے اور تم رو گرداں ہو ۔

غصے کو قابو میں رکھو

الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- وَاللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 134)
ترجمہ : وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ۔

دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو

وَ ابْتَغِ فِیْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَكَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَیْكَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (سورۃ القصص آیت نمبر 77)
ترجمہ : اور جو مال تجھے الله نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول اور احسان کر جیسا الله نے تجھ پر احسان کیا اور زمین میں فساد نہ چاہ بے شک الله فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا ۔

تکبر نہ کرو

لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ ۔ (سورۃ النحل آیت نمبر 23 )
ترجمہ : فی الحقیقت اللہ جانتا ہے جو چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں بیشک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتاب ۔

دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو

وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﳚ-وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ (سورۃ النور آیت نمبر 22)
ترجمہ : اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور دَرگزریں ، کیا تم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔

لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو ۔ اپنی آواز نیچی رکھا کرو

وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ۔ (سورۃ لقمان آیت نمبر 19)
ترجمہ : اور میانہ چال چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بیشک سب آوازوں میں بری آواز، گدھے کی آواز ۔

دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ-بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 11)
ترجمہ : اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔

والدین کی خدمت کیا کرو اور والدین سے اف تک نہ کرو

وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا ۔ (سورۃ الإسراء آیت نمبر 23)
ترجمہ : اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔

والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِیْنَ مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ وَ الَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍؕ-مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَ حِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِیْرَةِ وَ مِنْۢ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ۫ؕ-ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْؕ-لَیْسَ عَلَیْكُمْ وَ لَا عَلَیْهِمْ جُنَاحٌۢ بَعْدَهُنَّؕ-طَوّٰفُوْنَ عَلَیْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ۔ (سورۃ النور آیت نمبر 58)
ترجمہ : اے ایمان والو چاہیے کہ تم سے اِذن لیں تمہارے ہاتھ کے مال غلام اور وہ جو تم میں ابھی جوانی کو نہ پہنچے تین وقت نمازِ صبح سے پہلے اور جب تم اپنے کپڑے اُتار رکھتے ہو دوپہر کو اور نمازِ عشاء کے بعد یہ تین وقت تمہاری شرم کے ہیں ان تین کے بعد کچھ گناہ نہیں تم پر نہ ان پر آمدورفت رکھتے ہیں تمہارے یہاں ایک دوسرے کے پاس اللہ یونہی بیان کرتا ہے تمہارے لیے آیتیں ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔

لین دین کا حساب لکھ لیا کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُؕ-وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ۪-وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْۚ-وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْــٴًـاؕ-فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِؕ-وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْۚ-فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰىؕ-وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْاؕ-وَ لَا تَسْــٴَـمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖؕ-ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَاؕ-وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ۪-وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ۬ؕ-وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 282)
ترجمہ : اے ایمان والو جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور چاہئے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا ٹھیک ٹھیک لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اللہ نے سکھایا ہے تو اسے لکھ دینا چاہئے اور جس پر حق آتا ہے وہ لکھاتا جائے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور حق میں سے کچھ رکھ نہ چھوڑے پھر جس پر حق آتا ہے اگر بے عقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے تو اس کا ولی انصاف سے لکھائے، اور دو گواہ کرلو اپنے مَردوں میں سے پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ایسے گواہ جن کو پسند کروکہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے تو اس ایک کو دوسری یاد دلاوے اور گواہ جب بلائے جائیں تو آنے سے انکار نہ کریں اور اسے بھاری نہ جانو کہ دَین چھوٹا ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کرلو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے اوراس میں گواہی خوب ٹھیک رہے گی اور یہ اس سے قریب ہے کہ تمہیں شبہہ نہ پڑے مگر یہ کہ کوئی سردست کا سودا دست بَدست ہو تو اس کے نہ لکھنے کا تم پر گناہ نہیں اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کرلو اور نہ کسی لکھنے والے کو ضَرر دیا جائے، نہ گواہ کو (یا، نہ لکھنے والا ضَرر دے نہ گواہ) اور جو ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہوگا اور اللہ سے ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔

اس بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا علم نہ ہو

وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ۔ (سورۃ الإسراء آیت نمبر 36)
ترجمہ : اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے سوال ہونا ہے ۔

اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کےلیے مزید وقت دے دیا کرو

وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ-وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 280)
ترجمہ : اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلا ہے اگر جانو ۔

سود نہ کھاؤ

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ (سورۃ البقرة آیت نمبر 278)
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو ۔

اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر سود کے حرام ہونے سے پہلے مقروض پر سود لازم ہو گیا تھا اور اب تک کچھ سود لے لیا تھا اور کچھ باقی تھا کہ یہ سود کے حرام ہونے کا حکم آگیا تو جو سود اس سے پہلے لیا تھا وہ واپس نہ کیا جائے گا لیکن آئندہ بقایا سود نہ لیا جائے گا ۔ یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے قبل سودی لین دین کرتے تھے اور ان کی کافی بھاری سودی رقمیں دوسروں کے ذمہ باقی تھیں اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابقہ بقیہ سود لینے کی بھی اجازت نہیں۔(تفسیر خازن البقرۃ الآیۃ: ۲۷۸، ۱ / ۲۱۷)

رشوت نہ لو

سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِؕ-فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْۚ-وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (سورۃ المائدۃ آیت نمبر 42)
ترجمہ : بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور تو اگر تمہارے حضور حاضر ہوں تو ان میں فیصلہ فرماؤ یا ان سے منہ پھیرلو اور اگر تم ان سے منہ پھیرلو گے تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑیں گے اور اگر ان میں فیصلہ فرماؤ تو انصاف سے فیصلہ کرو بیشک انصاف والے اللہ کو پسند ہیں ۔

سابقہ آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی عوام تھی جو پادریوں اور سرداروں کے جھوٹ سن کر اس پر عمل کرتے تھے اور اِس آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی حکمران اور پادری ہیں جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال کرتے اور شریعت کے احکام کو بدل دیتے تھے ۔

رشوت کا لینا دینا دونوں حرام ہیں اور لینے دینے والے دونوں جہنمی ہیں ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقًا حرام ہے ،جو پرایا حق دبانے کےلیے دیا جائے (وہ) رشوت ہے یونہی جو اپنا کام بنانے کےلیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے لیکن اپنے اوپر سے دفعِ ظلم (یعنی ظلم دور کرنے) کےلیے جو کچھ دیا جائے (وہ) دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ، یہ دے سکتا ہے ، لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے اور اسے لینا حرام ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۳ / ۵۹۷)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’رشوت لینا مطلقاً گناہِ کبیرہ ہے ،لینے والا حرام خوار ہے، مستحقِ سخت عذابِ نار ہے ، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفعِ ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپنا آتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کےلیے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اَشَد غضب و اِنتقام ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۱۸ / ۴۶۹،چشتی)

وعدہ نہ توڑو

اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ اَعْمٰىؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔ الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ ۔ (سورۃ الرعد آیت نمبر 19 ، 20)
ترجمہ : تو کیا وہ جو جانتا ہے جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا حق ہے وہ اس جیسا ہوگا جو اندھا ہے نصیحت وہی مانتے ہیں جنہیں عقل ہے ۔ وہ جو اللہ کا عہد پورا کرتے ہیں اور قول باندھ کر پھرتے نہیں ۔

دوسروں پر اعتماد کیا کرو ، عیب نہ ڈھونڈھو اور غیبت نہ کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ۔ (سورۃ الحجرات آیت نمبر 12)
ترجمہ : اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈھو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔

سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو

وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر 42)
ترجمہ : اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ ۔

یہودی علماء نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت و نبوت سے متعلق تورات کی آیتیں چھپاتے بھی تھے اور کبھی کچھ بیان کرتے تو ان کے ساتھ اپنی طرف سے کچھ باطل باتیں بھی ملادیا کرتے تھے مثلا اپنے پیروکاروں سے کہتے کہ محمد  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نبی تو ہیں لیکن ہمارے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے ہیں۔یہودی علماء نے اس طرح کی کئی باتیں گھڑی ہوئی تھیں جن کے ذریعے وہ جان بوجھ کر حق چھپانے اور حق و باطل کو ملا کر دھوکہ دینے کے طریقے اختیار کئے ہوئے تھے ۔امام علی بن محمد خازن رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ حق کو باطل سے نہ ملائے اور نہ ہی حق کو چھپائے کیونکہ اس میں فساد اور نقصان ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حق بات جاننے والے پر اسے ظاہر کرنا واجب ہے اور حق بات کو چھپانا ا س پر حرام ہے ۔ (تفسیر خازن البقرۃ الآیۃ: ۴۲، ۱ / ۴۹،چشتی)

لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ۔ (سورۃ ص آیت نمبر 26)
ترجمہ : اے داؤد بے شک ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بے شک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس پر کہ وہ حساب کے دن کو بھول بیٹھے ۔

انصاف کےلیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَۚ-اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا - فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْاۚ-وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 135)
ترجمہ : اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اللہ کے لیے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑواور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔

مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیا کرو

وَ  اِذَا  حَضَرَ  الْقِسْمَةَ  اُولُوا  الْقُرْبٰى  وَ  الْیَتٰمٰى  وَ  الْمَسٰكِیْنُ  فَارْزُقُوْهُمْ  مِّنْهُ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 8)
ترجمہ : پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو ۔

جن افراد کا وراثت میں حصہ ہے ان کا بیان تو تفصیل کے ساتھ بعد کی آیتوں میں مذکور ہے ان کے علاوہ دیگر رشتے داروں اور محتاج افراد کے بارے میں فرمایا کہ انہیں بھی وراثت تقسیم کرنے سے پہلے مال میں سے کچھ دیدیا کرو اور ان سے اچھی بات کہو جیسے یہ کہ یہ مال تودرحقیقت وارثوں کا حصہ ہے لیکن تمہیں ویسے ہی تھوڑا سا دیا گیا ہے، یونہی ان کیلئے دعا کردی جائے ۔

اس آیت میں غیر وارثوں کو وراثت کے مال میں سے کچھ دینے کا جوحکم دیا گیا ہے ، یہ دینا مستحب ہے ۔ امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ سے مروی ہے حضرت عبیدہ سلمانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے میراث تقسیم کی تو اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا پھر یتیموں میں تقسیم کر دیا اور کہا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو میں یہ سب خرچہ اپنے مال سے کرتا ۔ (تفسیر خازن النساء الآیۃ: ۸، ۱ / ۳۴۸،چشتی)

تفسیر قرطبی میں یوں ہے کہ ’’یہ عمل عبیدہ سلمانی اور امام محمد بن سیرین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہما دونوں نے کیا ۔ (تفسیر قرطبی النساء الآیۃ: ۸، ۳ / ۳۶، الجزء الخامس)

در منثور میں ایک روایت یہ ہے کہ ’’حضرت عبد الرحمٰن بن ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے جب اپنے والد کی میراث تقسیم کی تو اُسی مال سے ایک بکری ذبح کروا کر کھانا پکوایا، جب یہ بات حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہا کی بارگاہ میں عرض کی گئی تو انہوں نے فرمایا : عبد الرحمٰن رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے قرآن پر عمل کیا ۔ (تفسیر در منثور النساء الآیۃ: ۸، ۲ / ۴۴۰)

اس مستحب حکم پر یوں بھی عمل ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات کوئی بیٹا یتیم بچے چھوڑ کر فوت ہو جاتا ہے اور اس کے بعد باپ کا انتقال ہوتا ہے تو وہ یتیم بچے چونکہ پوتے بنتے ہیں اور چچا یعنی فوت ہونے والے کا دوسرا بیٹا موجود ہونے کی وجہ سے یہ پوتے داد ا کی میراث سے محروم ہوتے ہیں تو دادا کو چاہیے کہ ایسے پوتوں کو وصیت کر کے مال کا مستحق بنا دے اور اگر دادا نے ایسا نہ کیا ہو تو وارثوں کو چاہیے کہ اوپر والے حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے حصہ میں سے اسے کچھ دے دیں ۔ اس حکم پر عمل کرنے میں مسلمانوں میں بہت سستی پائی جاتی ہے بلکہ اس حکم کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ البتہ یہ یاد رہے کہ نابالغ اور غیر موجود وارث کے حصہ میں سے دینے کی اجازت نہیں ۔ (مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday, 13 December 2022

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ دوم

قرآن کا پیغامِ عمل مسلمانوں کے نام حصّہ دوم
نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میرے بعد ہدایت پر ہی رہو گے ۔ جب تک تم ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں میری سنت و حدیث کو تھامے رہو گے ۔ ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة لنبيه ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے تمہارے نبی کی سنت ۔ (موطا امام مالک کتاب القدر باب النهی عن القول بالقدر جلد 3 صفحہ 899)

قرآن سے مسلمانوں کا تعلق

قرآن سے تعلق کمزور کرنا ہدایت الہٰی سے تعلق کمزور کرنا ہے ۔ قرآن سے تعلق توڑنا ہدایت ربانی سے تعلق توڑنا ہے، قرآن کو چھوڑنا اسلام کو عملاً چھوڑنا ہے، مسلمانوں نے قرآن کو قلباً اور ذہناً نہیں چھوڑا ہے بلکہ عملاً چھوڑا ہے ۔ اسی کا شکوہ قیامت کے روز رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کی بابت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں کریں گے ۔

وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا ۔
ترجمہ : اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے : اے رب ! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا ۔ (سورہ فرقان آیت نمبر 30)

نزول بالقرآن کی نعمت ہم کو اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مھجور بالقرآن ہونے سے کیسے بچائیں۔ ہم قرآن سے اپنے کمزور تعلق کو کیسے مضبوط کریں ، ہم اتحاد بالقرآن کی کیا کیا صورتیں اختیار کریں تاکہ ہمارا قلبی اور عملی تعلق قرآنی ہدایت کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے ۔

قرآن کی تلاوت اور مطالعہ

قرآن اس حوالے سے بھی اپنے ماننے والوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ سورہ الکہف میں ارشاد فرمایا : وَاتْلُ ، اس قرآن کی تلاوت کیا کرو ۔ (سورہ الکهف آیت نمبر 27)

اس قرآن کو پڑھا کرو ، یہ پڑھنا کبھی کبھار نہ ہو بلکہ یہ پڑھنا کثرت کے ساتھ ہو اس لیے قرآن کا معنی ہی یہ ہے : القرآن الکتاب الذی قرا مرۃ بعد مرۃ ۔ ’’وہ کتاب جس کو بار بار پڑھا جائے یعنی وہ کتاب جس کو بہت زیادہ پڑھا جائے‘‘۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : واتل ۔ اس قرآن کی تلاوت کیا کرو اور تلاوت اپنے اندر خود کثرت کا معنی رکھتی ہے ۔ آیت کے اگلے حصے میں اس کی بھی تخصیص کردی اور ارشاد فرمایا : مَآ اُوْحِيَ اِلَيْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ، ’’جو آپ کے رب کی کتاب میں سے آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے‘‘۔ (الکهف آیت نمبر 27)

اب سوال یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کیونکر ضروری ہے اس لئے کہ قرآن کی تلاوت انسان کو ہدایت تک لے جاتی ہے ۔ قرآن کی تلاوت انسان کو اللہ کی اطاعت اور بندگی پر گامزن رکھتی ہے ۔ قرآن کی تلاوت انسان کو اللہ کی فرمانبرداری پر قائم رکھتی ہے اور قرآن کی تلاوت انسان کو اللہ کی بارگاہ سے، اس کے انعامات کا مستحق بناتی ہے اس لیے سورہ النمل میں ارشاد فرمایا : وَّاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ج فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهِ ، ’’اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوں۔ نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کےلیے راہِ راست اختیار کی‘‘ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 91 تا 92)

روزانہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا

یہ تلاوت قرآن ایسی ہو جس میں تسلسل ہو جو اگرچہ تھوڑی ہو مگر مسلسل ہو۔ کبھی بھی اس میں انقطاع نہ آئے ، کبھی بھی یہ عمل تلاوت چھوٹنے نہ پائے، یہ تلاوت بالقرآن آسانی کے ساتھ سارا سال ہمیشہ جاری رہے۔ اس لیے فرمایا : فَاقْرَءُ وْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ، ’’پس جتنا آسانی سے ہو سکے قرآن پڑھ لیا کرو‘‘۔ (سورہ المزمل آیت نمبر 20)

اللہ تعالیٰ فاقرءوا کے ذریعے اور واتل کے ذریعے تلاوت قرآن اور قرات قرآن کا حکم دے رہا ہے کہ قرآن کی تلاوت کیا کرو اور قرآن پڑھا کرو ۔ قرآن کا تلاوت کرنا اور پڑھنا اپنے اندر ہ معنی بھی رکھتا ہے کہ قرآن کا نزول اس لئے ہوا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ، ’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو ۔‘‘ (سورہ يوسف آیت نمبر 2)

قرآن کی تلاوت اور قرآن کا مقصد بھی یہی ہے کہ لعلمکم تعقلون کہ قرآن کو سمجھا جائے، دوسرے مقام پر فرمایا یہ قرآن اس لئے ہے تاکہ اس کے ذریعے لقوم يعلمون ۔ (سورہ حم السجده/ فصلت آیت نمبر 3) علم حاصل کیا جائے ۔ اس قرآن کے ذریعے نئے نئے حقائق جانے جائیں ، یہ قرآن اس لیے عطا کیا گیا تاکہ اسے ماننے والے ایک موثر ذریعہ علم جانیں اور قرآن کی تلاوت اس طرح کی جائے کہ اسی قرآن کے ذریعے دیگر اقوام و ملل کے احوال جان کر نصیحت لی جائے ۔

قرآن تمام انسانوں کےلیے ہدایت و نصیحت ہے

قرآن کی نصیحت ہی انسانی زندگی کی کامیابی کا راز ہے اس بناء پر فرمایا : وَيُبَيِّنُ اٰيٰـتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَکَّرُوْنَ ، ’’اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں‘‘۔ (سورہ البقرة آیت نمبر 221)

اس لیے حکم دیا کہ ان پر قرآن کی تلاوت اس طرح کریں کہ فذکر بالقرآن ۔ (سورہ ق آیت نمبر 45) قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت فرمایئے ۔ مزید برآں فرمایا : جو اس قرآن کو بار بار پڑھتے ہیں اور اس قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ہم نے ان لوگوں کے لئے قرآن سے اخذ نصیحت کو آسان کردیا ہے ۔ ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ ، ’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے ؟‘‘ ۔ (سورہ القمر آیت نمبر 22)

یہ قرآن ہماری انفرادی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے لئے بھی تذکرہ و نصیحت ہے۔ انفرادی زندگی کےلیے اس طرح کہ ان ھذہ تذکرۃ ۔ (سورہ المزمل آیت نمبر 19) یہ قرآن نصیحت ہے اور قومی زندگی کےلیے بھی نصیحت ہے ۔ انہ لذکر لک ولقومک ۔ یہ قرآن آپ کےلیے اور آپ کی پوری قوم کےلیے بھی نصیحت ہے اور بین الاقوامی زندگی کےلیے بھی نصیحت ہے ۔ ان هوا الا ذکر للعلمين ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 91) یہ قرآن تمام عالم کےلیے نصیحت و ہدایت ہے ۔

قرآن کی تلاوت اس لیے بھی ہے کہ ہر مسلمان تفکر فی القرآن کرے ، ہر اہل ایمان قرآن میں غوروفکر کرے ۔ ہر مومن سوچنے کو اپنی عادت بنائے ، اعلیٰ فکر کو اختیار کرنا اپنا شعار بنائے ، ارفع افکار کو اپنانا اپنا وطیرہ حیات بنائے ، اپنی زندگی کو مسلمہ افکار پر ڈھالنا اپنی شناخت بنائے ، اپنی سوچ و فکر کو عمدہ بنانا اپنی سیرت بنائے ، اس لیے فکر ، عمل کی بنیاد بنتی ہے ، سوچ کسی بھی فعل کی اساس ثابت ہوتی ہے ، فکر ایک بیج ہے اور عمل اس کا پھل ہے ۔ اس لیے فرمایا ہر اعلیٰ فکر ، قرآن کے دامن میں ہے ۔

آیات میں تفکر و تدبر کا لازمی حکم

ارفع فکر قرآن سے تفکر اور تدبیر کے ذریعے ہی میسر آسکتی ہے اس لیے فرمایا کہ قرآن کی تلاوت اس طرح کرو کہ آیات قرآن میں تفکر کرتے چلے جاٶ ۔ آیات الہٰیہ میں غورو فکر کو اپناتے جاٶ ، اس لیے کہ قرآن کے نزول اور قرآن کی تلاوت کا ایک مقصد تفکر فی القرآن ہے ، اس لیے تلاوت قرآن حکیم کے دوران تفکر فی القرآن اور تفکر فی آیات القرآن کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَکَّرُوْنَ ، ’’بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہے‘‘۔ (النحل، 16: 69)، (الروم، 30: 21)،(الرعد، 13: 3)،(الجاثية، 45: 13)

اسی طرح سورہ یونس میں ارشاد فرمایا : کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَتَفَکَّرُوْنَ ، ’’اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے نشانیاں کھول کر بیان کرتے ہیں جو تفکر سے کام لیتے ہیں‘‘۔ (يونس، 10: 24)

ارشاد فرمایا : اَوَلَمْ يَتَفَکَّرُوْا فِيْ اَنْفُسِهِمْ ، ’’کیا انہوں نے اپنے مَن میں کبھی غور نہیں کیا‘‘ ۔ (الروم، 30: 8)

قرآن تفکر فی الآیات اور تفکر فی الذات کی ترغیب دے کر انسانوں کو عرفان الغایہ (منزل کی معرفت ارائۃ الطریق (راستہ کا دکھانا) اور ایصال الی المطلوب (منزل تک پہنچا دینے) تک لے جاتا ہے، اس تفکر کے ذریعے انسان اھدنا الصراط المستقیم کے مقصد حیات کو پالیتا ہے ۔

معرفت قرآن کےلیے تدبر فی القرآن ضروری ہے

قرآن تفکر بالقرآن کے اسی عمل کو تدبر بالقرآن کے ذریعے بھی بیان کرتا ہے ۔ ارشاد فرمایا : افَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ، ’’تو کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے ‘‘۔ (النساء، 4: 82)

اگر وہ قرآن میں غورو فکر کریں تو وہ قرآن کے سب رازوں کو پالیں گے۔ حقائق کائنات ان پر منکشف ہوجائیں گے، قرآن کی صداقت بھی ان پر آشکار ہوجائے گی۔ اللہ کی معرفت کے راز بھی ان پر کھل جائیں گے۔ اس لیے آیت کے اگلے حصے میں فرمایا : وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًا ، ’’اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے (آیا) ہوتا تو یہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے‘‘ ۔ (النساء، 4: 82)

قرآن تفکر فی القرآن اور تدبر فی القرآن کے عمل کو لازمی بنیادوں پر اختیار کرنے کے حوالے سے اہل ایمان اور اہل اسلام کو جھنجھوڑتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اَفَـلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا ، ’’کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں‘‘ ۔ (محمد، 47: 24)

تفکر فی القرآن ہر مسلمان کےلیے ایک لازمی امر ہے

تدبر فی القرآن اور تفکر فی القرآن کی اس سے بڑھ کر کوئی ترغیب نہیں ہو سکتی ۔ قرآن میں تفکر اور تدبر کرنا یہ عمل کس قدر اہمیت کا حامل ہے ۔ اس پر قرآن کے یہ الفاظ شاہد ہیں ، افلا یتدبرون القرآن ۔ قرآن اپنے ماننے والوں کو جھنجھوڑتا ہے کہ قرآن کو سمجھنا ہے تو تفکر فی القرآن کا عمل اختیار کرو۔ قرآن کو جاننا ہے تو تدبر فی القرآن کا وظیفہ اپناٶ ، قرآن میں فہم حاصل کرنا ہے تو تذکیر بالقرآن پر عمل کرو ، قرآن سے ہدایت لینی ہے تو تمسک بالقرآن پر کاربند ہوجاٶ ۔ قرآن سے قول و فعل اور خلق و سیرت کی خیرات اور روشنی لینی ہے تو تلاوت بالقرآن کو اپنا معمول بناٶ ۔ اقوامِ عالم میں عزت اور رفعت کے ساتھ جینا ہے تو ہدیات بالقرآن کو اپنا قومی وملی شعار بناٶ ۔

مسلمان قرآن کے بغیر کچھ نہیں

اس لیے یہ بات ذہن نشین کرلو تم قرآن کے بغیر کچھ نہیں ہو۔ تم سے پہلے یہود و نصاریٰ کی بھی ساری عظمتیں تورات اور انجیل پر عمل کرنے سے وابستہ تھیں۔ اس حقیقت کو بھی قرآن میں یوں فرمایا گیا : قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَئٍ حَتّٰی تُقِيْمُوا التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ، ’’فرما دیجیے : اے اہلِ کتاب! تم (دین میں سے) کسی شے پر بھی نہیں ہو، یہاں تک کہ تم تورات اور انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (نافذ اور) قائم کر دو‘‘ ۔ (المائدة، 5: 68)

قرآن جس طرح یہود و نصاریٰ کو مخاطب کرتا ہے کہ تم اپنی کتابوں تورات اور انجیل پر عمل کئے بغیر لستم علی شئی تم کچھ بھی نہیں ہو۔ اسی طرح قرآن زبان حال سے اپنے ماننے والوں ، اہل ایمان اور اہل اسلام سے بھی مخاطب ہورہا ہے کہ تم بھی لستم علی شئی تم بھی کچھ نہیں ہو یہاں تک کہ قرآن پر عمل نہ کرلو ۔

اس لیے تمہاری ساری عزتیں قرآن سے وابستہ ہیں ، تمہاری ساری عظمتیں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری رفعتیں قرآن سے ہیں، تمہاری ساری فضیلتیں قرآن سے ہیں ، تمہاری ساری اولیتیں قرآن سے ہیں ، تمہاری ساری بلندیاں قرآن سے ہیں ، تمہاری ساری تابناکیاں قرآن سے ہیں ۔ قرآن تمہاری شناخت ہے ، قرآن تمہاری پہچان ہے ، قرآن تمہارا عمل ہے، قرآن تمہارا قول ہے، قرآن تمہارا خلق ہے ، قرآن تمہاری سیرت ہے اور قرآن سے تمہاری شخصیت ہے قرآن سے تمہاری وحدت ہے اور قرآن سے تمہاری اجتماعیت ہے ۔ قرآن سے تمہاری تقدسیت ہے ، قرآن تمہاری زندگی ہے اور تمہاری زندگی قرآن سے ہے ۔ اس راز میں تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عزت وابستہ ہے بصورت دیگر تمہار احال اے قوم مسلم اقبال کے اس شعر کا مصداق ہوگا ۔

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر

رجوع الی القرآن کی شدید ضرورت

آیئے آج ہم قرآن کی طرف لوٹنے کا عہد کریں ، قرآن سے اپنا ربط و ناطہ مضبوط کریں۔ رجوع الی القرآن کا عزم مصمم کریں ، قرآن سے اکتساب فکر کریں ، قرآن سے اخذ نور کریں ، قرآن سے تعلیم کتاب کا تعلق قائم کریں ، قرآن سے تزکیہ نفوس کریں ، قرآن کی حکمت و دانش سے خود کو مملو کریں ، قرآن کو کتاب ہدایت جانیں ، قرآن سے تذکیر و نصیحت لیں ، قرآن سے حبی و عشقی تعلق استوار کریں ، قرآن کو اپنا قول و فعل بنائیں ، قرآن کو اپنا خلق بنائیں ، قرآن سے اپنی انفرادی زندگی سنواریں اور قرآن سے اپنی اجتماعی زندگی کی اصلاح کریں ، قرآن کو رسول اللہ کا زندہ معجزہ جانیں اور قرآن کی زندہ فکر کو اپنائیں، قرآن سے اسلام کی حقانیت کو جانیں اور قرآن سے رسول اللہ سے شان ختم نبوت اور شان رسالت کو مانیں اور قرآن سے اللہ کی توحید اور معرفت کا ادراک کریں ۔

مسلمانوں سے قرآن کے خطاب کے انداز

قرآن اہل ایمان سے کبھی یوں خطاب کرتا ہے ۔ افلا یتدبرون القرآن ، کبھی یوں فرماتا ہے ان ہذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم و بینت من الھدی والفرقان اور کبھی لعلکم ترحمون ،، کہ یہ قرآن تمہارے لیے رحمت الہٰی کا باعث ہے۔ کبھی فاستعذ باللہ کے ذریعے اہل ایمان کو پیغام دیتا ہے کہ یہ قرآن تمہارے لئے اللہ کی طرف سے پناہ گاہ ہے ۔ جیسے فرمایا : فاذا قرات القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم ۔ کبھی اہل ایمان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ قرآن تمہارے لیے شفا ہی شفا ہے اور تمہاری ظاہری بیماریوں کے لئے بھی شفاء ہے اور تمہاری باطنی بیماریوں کےلیے بھی شفا ہے ۔ حتی کہ یہ قرآن سراسر تمہارے لئے رحمت ہی رحمت ہے ۔ وَنُـنَـزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ، ’’اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لیے تو صرف نقصان ہی میں اضافہ کر رہا ہے‘‘ ۔ (الاسراء، 17: 82)

تمام لوگوں سے بالعموم اور اہل اسلام سے بالخصوص قرآن یوں مخاطب ہوتا ہے : ولقد فرينا للناس فی القرآن من کل مثل لعلهم يتذکرون ۔ گویا قرآن خود اعلان کر رہا ہے کہ قرآن اس لیے کہ تاکہ اس کو پڑھنے اور ماننے والے لعلہم یتذکرون اس سے نصیحت حاصل کریں کبھی لعلہم یتفکرون اور لقوم یتفکرون کے ذریعے اہل ایمان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ قرآن اس لئے نازل ہوا ہے کہ اس میں تفکر اختیار کیا جائے اور غورو فکر کیا جائے ۔ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْکَ الذِّکْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَکَّرُوْنَ ، ’’اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کےلیے وہ (پیغام اور احکام)خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں‘‘ ۔ (النحل: 44)

کبھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو یوں متوجہ کرتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، جس آیت پر چاہا عمل کرلیا اور جس آیت کو چاہا اسے چھوڑ دیا ۔ الَّذِيْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِيْنَ ، ’’جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے (کر کے تقسیم) کر ڈالا (یعنی موافق آیتوں کو مان لیا اور غیر موافق کو نہ مانا)‘‘۔ (الحجر، 15: 91)

کبھی اللہ تعالیٰ اہل اسلام کو قرآن کے بے مثل ہونے کی یوں خبر دیتا ہے: قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰی اَنْ يَاتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهِ ، ’’فرما دیجیے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے ۔‘‘ (الاسراء، 17: 88)

کبھی اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو لعلکم تعقلون کے ذریعے اس حقیقت سے آشنا کرتا ہے قرآن تمہارے لیے عقل و حکمت کا خزانہ ہے ۔ اس لیے اسے سمجھو اور اسے جانو اور اس کے ذریعے اپنی عقل و فہم کو بڑھاٶ ۔ اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْئٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ ، ’’بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو۔‘‘ ۔ (يوسف، 12: 2)

یقینا قرآن عقل و دانش اور حکمت و معرفت کا خزانہ ہے ۔ یہ اس ذات کا کلام ہے جو سب سے بڑا حکیم و دانا ہے اور جس نے حکمت و دانش کو انسانوں کے وجودوں میں پیدا فرمایا ہے ۔ اس لیے رسول اللہ کے ذریعے اس امت کو حکمت و دانش کی یہ نعمت عطا کی گئی ۔ وَاِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنَ لَّدُنْ حَکِيْمٍ عَلِيْمٍ ۔ ’’اور بے شک آپ کو (یہ) قرآن بڑے حکمت والے، علم والے (رب) کی طرف سے سکھایا جا رہا ہے ۔‘‘ (النمل، 27: 6)

خلاصہ کلام : قرآن اپنے ان خطابات کے ذریعے اور اپنی ان آفاقی آیات کے توسل سے آج امت مسلمہ کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ تم اپنی دنیوی حیات کے کامیابی کے لئے اور اپنی اخروی نجات کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرلو ، تمہیں اپنی انسانی زندگی کی دنیوی اور اخروی کامیابی کےلیے ایک سوچ ، ایک فکر، ایک نصیحت اور ایک ہدایت کی ضرورت ہے جس پر تم نے اپنی زندگی کے اعمال کی بنیاد رکھنی ہے تو وہ سوچ و فکر اور وہ ہدایت نصیحت تمہارے لیے قرآن میں بیان کر دی گئی ہے ۔ قرآن کی اس آفاقی ہدایت کو اپنانا اور اسے اپنی زندگی میں داخل کرنا اور اپنی شخصیت سے عمل اور کردار کے ذریعے ظاہر کرنا ہی دنیوی زندگی کی ابتلاء اور آزمائش ہے ۔ تمہاری روح کی صدا اور پکار یہ ہے اس قرآنی ہدایت کو اپنے وجود میں سمالو ، اس آفاقی ہدایت کے ساتھ اپنے عمل میں تم ایک زندہ ثبوت بن جاٶ ۔ تم اپنے عمل سے قرآنی ہدایت کی صداقت اور حقانیت کی شہادت اہل دنیا کو دو ۔ جبکہ اسی وجود میں نفس امارہ روح کی آواز کے خلاف صدا دیتا ہے ۔ وہ نفس امارہ کہتا ہے تم دنیا میں ہو تو میری کچھ دنیوی خواہشات پوری کرو ، مجھے تعیشات دنیوی سے آراستہ کرو، مجھے دنیوی آسائشات کے ذریعے فرحت دو ، تم اپنے وجود کو میری تمناٶں کی تکمیل پر لگادو اور میری کسی بات کو رد نہ کرو ۔

انسان روح اور نفس امارہ کی اس کشمکش میں اپنی زندگی صرف کردیتا ہے۔ اگر انسانی عمل روح کی آواز بن جائے تو انسان قرآنی ہدایت کے مطابق کامیاب ہوجاتا ہے اور اگر انسانی عمل نفس امارہ کی صدا میں ڈھل جائے تو انسان تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔ قرآن نے اپنی آفاقی ہدایت کے ذریعے قول و عمل احسن کو انسانی زندگی کی کامیابی کی علامت ٹھہرایا ہے ۔ اس لیے فرمایا : الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ۔ ’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے‘‘۔ (الملک، 67: 2) ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...