Sunday, 28 February 2021

واقعہ شقِ صدر حصّہ اوّل

 واقعہ شقِ صدر حصّہ اوّل


محترم قارئینِ کرام : معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انسانی عقول کو دنگ کردینے والا واقعہ ہے ، واقعاتِ معراج میں سے مِن جُملہ ایک واقعہ شقِّ صدر کا ہے ، اس کے معنی ہیں : ”سینے کا چاک کردینا ‘‘۔ جو لوگ معجزات کے قائل نہیں یا انہیں عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں ، سرِدست ہمیں اُن سے سروکار نہیں ہے ۔

تو معنیٔ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا
ہے تیرا مدّوجزر ابھی چاند کا محتاج

آج بہت سے سائنسی حقائق ایسے ہیں کہ چند سو سال پہلے کوئی اُن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ،لیکن آج انسان اُن سے مستفید ہورہے ہیں ،انہیں برت رہے ہیں اور کائناتِ بسیط کی وسعتوں کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں ۔

دیگر خارقِ عادت معجزات کی طرح سینے کا شق ہوجانا بھی عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ناقابلِ یقین معجزہ تھا ۔ کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ سینہ چاک کیا جائے ،دل کو سینے سے باہر نکالا جائے ، زم زم سے دھوکردوبارہ سینے میں رکھ دیا جائے ، پھربھی انسان زندہ رہے ، خون بھی نہ بہے ،یہ طبّی اصولوں کے خلاف ہے ، مگر سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیاتِ مبارکہ میں اس کے بارے میں روایات موجود ہیں ،ان میں سے بعض صحیحین اوردیگر کتب احادیث میں موجود ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینے مبارک کو چاک کر کے آپ کے دل کو دھویا گیا یہ واقعہ روایات کی روشنی میں چار مرتبہ ہوا ہے ۔

(1) جب عمر مبارک دو سال کچھ ماہ تهى ۔

(2) جب عمر مبارک دس سال کچھ ماہ تهى ۔

(3) اظہارِ نبوت سے کچھ پہلے ۔

(4) واقعہ معراج پر جانے سے قبل حطیم میں ۔

دو سال کی عمر میں شق صدر

اس روایت کو صحیح مسلم نے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت اپنی رضاعی والدہ کے ہاں مقیم تھے :
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرِيلُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً فَقَالَ هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْکَ ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَائِ زَمْزَمَ ثُمَّ لَأَمَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَکَانِهِ وَجَائَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَی أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ فَقَالُوا إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ قَالَ أَنَسٌ وَقَدْ کُنْتُ أَرْئِي أَثَرَ ذَلِکَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ ۔ (صحيح مسلم: ج1/ص147 ح162)(صحيح ابن حبان: ج14/ص249 ح6336)(صحيح ابن حبان: ج14/ص242 ح6334)(مسند أحمد: ج3/ص288 ح14101)(المستدرك على الصحيحين: ج2/ص575 ح3949)(مسند أبي يعلى: ج6/ص224 ح3507)(مسند أبي يعلى: ج6/ص108 ح3374)(مسند أحمد: ج3/ص149 ح12528)(مصنف ابن أبي شيبة: ج7/ص330 ح36557،چشتی)(مسند عبد بن حميد: ج1/ص:390، ح1308)

دس سال کی عمر میں شق صدر

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنه فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھا کہ سب سے پہلے امور نبوت میں سے کیا امر ظاہر ہوا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ میں دس سال کی عمر میں صحراء میں تھا کہ میں نے اوپر کی جانب سے ایک آواز سنی ، جب میں نے اوپر دیکھا تو دو لوگ تهے ۔۔۔۔۔۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے شق صدر کا واقعہ بیان فرمایا : أنَّ أبا هريرَةَ كان حَرِيصًا على أنْ يسأَلَ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن أشياءَ لَا يسْأَلُهُ عنها غيرُهُ فقال يا رسولَ اللهِ ما أوَّلُ ما رأيتَ من أمرِ النبوةِ فاستوى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم جالسًا وقال لقدْ سأَلْتُ أبا هريرَةَ إِنِّي لَفِي صَحْرَاءَ ابنُ عَشرِ سِنِينَ وَأَشهُرٍ وإذا بكلامٍ فوقَ رأْسِي وإذا برجلٍ يقولُ لرجلٍ أهوَ هوَ؟ قال نعمْ، فاستقْبَلاني بوجوهٍ لمْ أرَها لخلْقٍ قطُّ وأرواحٍ لم أجدْها مِنْ خَلْقٍ قَطُّ وثيابٍ لم أرَها علَى أحَدٍ قَطُّ فأقبَلَا إلَيَّ يَمْشِيانِ حتى أخذَ كُلُّ واحدٍ منهما بعضدُي لا أجِدُ لأخذِهِما مسًّا فقال أحدُهما لصاحبِه أضجَعَهُ فأضجَعَانِي بلا قَصْرٍ ولا هَصْرٍ فقالَ أحدُهما لصاحبِهِ افْلَقْ صدْرَهُ فهَوَى أحدُهما إلى صدْرِي فَفَلَقَها فيما أرى بلا دَمٍ ولَا وجَعٍ فقال له أخرجِ الغِلَّ والحسَدَ فأخرجَ شيئًا كهيئَةِ العلَقَةِ ثم نبذَها فطَرَحَها فقال له أدخِلِ الرحْمَةَ والرأْفَةَ فإذا مثْلُ الذي أخرجَ شبيهُ الفضةِ ثم هَزَّ إبهامَ رجْلِي اليُمْنَى فقالَ اغْدُ واسْلَمْ فرجِعْتُ بها أغدو بها رِقَّةَ على الصغيرِ ورحمةً علَى الكبيرِ ۔ (الراوي: أبي بن كعب. المحدث: الهيثمي. المصدر: مجمع الزوائد . خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات وثقهم ابن حبان . الراوي: أبي بن كعب . المحدث: البوصيري ۔ المصدر: إتحاف الخيرة المهرة . الصفحة أو الرقم: 7/15 ، خلاصة حكم المحدث : حسن)

نبوت کے وقت شق صدر

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غار حرا میں عبادت کی غرض سے تشریف لے جاتے تھے اور وہیں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سلام کے الفاظ سنے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ خیال ہوا کہ شاید یہ جنات کی آواز ہے ، لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ سلام تو خیر کیلئے ہوتا ہے ۔ اگلی مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جبرئیل علیہ السّلام کو اس حال میں دیکھا کہ ان کا ایک پر مشرق میں تھا اور دوسرا مغرب میں تیسری مرتبہ فرشتوں کی آمد ہوئی اور شق صدر کا واقعہ ہوا ۔
عن عائشة رضی اللہ عنھا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نذر ان یعتکف شھرا ہو وخدیجة بحراء فوافق ذلک شھر رمضان، فخرج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذات لیلة، فسمع السلام علیک فظننتھا فجاءة الجن، فجئت مسرعا حتی دخلت علی خدیجة سجتنی ثوبا وقالت: ما شانک یا ابن عبداللہ؟ فقلت: سمعت السلام علیک فظننتھا فجاءة الجن، فقالت: ابشر یا ابن عبداللہ فان السلام خیر، قال: ثم خرجت مرة اخری فاذا بجبرئیل علی الشمس جناح له بالمشرق وجناح له بالمغرب، قال فھبت منه فجئت مسرعا فاذا ہو بینی وبین الباب فکلمنی حتی انست به ثم وعدنی موعدا، فجئت له فابطا علی فاردت ان ارجع فاذا انا به ومیکائیل قد سد الافق فهبط جبرئیل وبقی میکائیل بین السماء والارض، فاخذنی جبرئیل فاستلقانی لحلاوة القفاء ثم شق عن قلبی فاستخرجه ثم استخرج منه ماشاء اللہ ان یخرج، ثم غسله بطست من ذھب بماء زمزم ثم اعادہ بمکانه ثم لأمه ثم اکفانی کما یکفا الادیم ثم ختم فی ظهري حتی وجدت مس الخاتم فی قلبی ، وھذا الحدیث فیه مقال ظاھر، لان الحارث وشیخه ضعیفان، لکن رواہ الطیالسی ص : ٢١٦) عن حماد بن سلمة عن ابی عمران الجونی عن رجل عن عائشة رضی اللہ عنھا، وله شاھد من حدیث ابی ذر…اخرجه الدارمی (ص: ٦) الی قوله “من کفة المیزان”.وابن جریر الطبری فی تاریخه (٢٠٩/٤(والبزار فی مسندہ.والعقیلی فی الضعفاء (اسنادہ فی “المیزان” فی ترجمة جعفر بن عبداللہ(.وابونعیم (ص: ٧١، ص: ١٧٦ جدید)

يا أبا ذرٍّ! أتاني ملَكانِ و أنا ببعضِ بَطْحَاءَ مكةَ، فوقع أحدُهما على الأرضِ و كان الآخَرُ بين السماءِ و الأرضِ، فقال أحدُهما لصاحبِه: أهُوَ هو؟ قال: نعم، قال: فَزِنْه برجلٍ فوُزِنتُ به، فوزَنتُه، ثم قال: فزِنْه بعشرةٍ، فوُزِنتُ بهم، فرجَحتُهم، ثم قال: زِنْه بمائةٍ فوُزِنتُ بهم، فرجَحتُهم، ثم قال: زِنْه بألفٍ فوُزِنتُ بهم، فرجحتُهم كأني أنظرُ إليهم ينتَثِرون عليَّ من خِفَّةِ الميزانِ، قال: فقال أحدُهما لصاحبِه: لو وَزَنتَه بأُمَّةٍ لرجَحها . (الراوي: أبو ذر الغفاري.المحدث: الألباني. المصدر: السلسلة الصحيحة.الصفحة أو الرقم: 2529 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد، رجاله ثقات،چشتی)

معراج کے موقعہ پر شق صدر

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو گھر سے حطیم لایا گیا اور وہاں پر آپ کے سینہ مبارک کو چاک کرکے زم زم کے پانی سے دہویا گیا ۔

بينا أنا عند البيتِ بين النائمِ واليقظانِ -وذكر: يعني رجلاً بين الرجلين- فأُتيتُ بطستٍ من ذهبٍ، مُلِئَ حكمةً وإيمانًا، فشُقَّ من النحرِ إلى مَراقِّ البطنِ، ثم غُسِلَ البطنُ بماءِ زمزمَ، ثم مُلِئَ حكمةً وإيمانًا، وأُتيتُ بدابَّةٍ أبيضَ دون البغلِ وفوقَ الحمارِ: البُراقُ . (الراوي: مالك بن صعصعة الأنصاري . المحدث: البخاري . المصدر: صحيح البخاري . الصفحة أو الرقم: 3207
– خلاصة حكم المحدث: صحيح)

صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ایک طول حدیث مبارکہ جس میں واقعہ معراج کے احوال بیان کیے گئے ہیں ، اسی حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے شق صدر کا بیان ہے ۔ اختصار کی خاطر ہم اس حدیث مبارکہ سے اس موضوع سے متعلقہ حصہ پیش کر رہے ہیں : لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم مِنْ مَسْجِدِ الكَعْبَةِ، أَنَّهُ جَاءَهُ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَى إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي المَسْجِدِ الحَرَامِ، فَقَالَ أَوَّلُهُمْ: أَيُّهُمْ هُوَ؟ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ: هُوَ خَيْرُهُمْ، فَقَالَ آخِرُهُمْ: خُذُوا خَيْرَهُمْ، فَكَانَتْ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّى أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَى، فِيمَا يَرَى قَلْبُهُ، وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلاَ يَنَامُ قَلْبُهُ، وَكَذَلِكَ الأَنْبِيَاءُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلاَ تَنَامُ قُلُوبُهُمْ، فَلَمْ يُكَلِّمُوهُ حَتَّى احْتَمَلُوهُ، فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ، فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ، فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَى لَبَّتِهِ حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ، فَغَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ، حَتَّى أَنْقَى جَوْفَهُ، ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ، مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِكْمَةً، فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ، ثُمَّ أَطْبَقَهُ ۔
ترجمہ : جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خانہ کعبہ سے معراج کروائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف وحی آنے سے پہلے تین افراد حاضر بارگاہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم مسجد حرام میں اآرام فرما تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کون سے ہیں ؟ درمیان والے نے کہا کہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔ آخری نے کہا کہ ان کے بہترين فرد کو لے لو۔ اس رات یہی کچھ ہوا، یہاں تک کہ وہ دوسری رات آئے ، کیفیت یہ تھی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا) دل ان کو دیکھ رہا تھا اور آنکھیں سو رہی تھیں اور آپ کا دل نہیں سو رہا تھا اور اسی طرح تمام انبیائے کرام کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ ان فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی بات نہیں کی۔ یہاں تک کہ آپ کو اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے گئے اور آپ کو وہاں رکھ دیا۔ ان میں سے جبرئیل علیہ السلام نے یہ کام سنبھالا کہ گلے سے دل کے نیچے تک سینہ مبارک کو چاک کر دیا، یہاں تک کہ سینہ مبارک اور شکم اطہر کو خالی کر دیا، پھر اپنے ہاتھ سے آب زمزم کے ساتھ اسے دھویا، یہاں تک کہ شکم مبارک کو صاف کر دیا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا اس میں سنہری نور تھا جو ایمان و حکمت سے بھر اہوا تھا اور اس کے ساتھ سینہ مبارک اور حلق کی رگوں کو بھر دیا ار پھر برابر کر دیا اور پھر آپ کو حسب سابق کر دیا ۔ (بخاري، الصحيح، كتاب التوحيد، باب قوله (وكلم الله موسى تكليما)، 6: 2730، رقم: 7079، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة،چشتی)

مشکواۃ شریف میں روایت ہے : عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أتاه جبريل وهو يلعب مع الغلمان فأخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج منه علقة . فقال : هذا حظ الشيطان منك ثم غسله في طست من ذهب بماء زمزم ثم لأمه وأعاده في مكانه وجاء الغلمان يسعون إلى أمه يعني ظئره . فقالوا : إن محمدا قد قتل فاستقبلوه وهو منتقع اللون قال أنس : فكنت أرى أثر المخيط في صدره . رواه مسلم ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم (اپنے بچپن میں جب دایہ حلیمہ کے پاس تھے تو اس کا واقعہ ہے کہ (ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو پکڑ کر چت لٹا دیا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے (سینہ کو ) دل کے قریب سے چاک کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دل میں سے بستہ خون کا ایک سیاہ ٹکڑا نکال لیا کہ یہ تمہارے جسم کے اندر شیطان کا حصہ ہے (اگر یہ ٹکڑا تمہارے جسم میں یوں ہی رہنے دیا جاتا تو شیطان کو اس کے ذریعہ تم پر قابو پانے کا موقع ملتا رہتا ) اس کے بعد انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے دل کو ایک سونے کی لگن میں زمزم کے پانی سے دھویا اور پھر دل کو اس کی جگہ میں رکھ کرسینہ مبارک کو اوپر سے برابر کردیا ۔ (وہ) بچے (جو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ تھے یہ پورا منظر دیکھ کر گھبرا گئے اور ) بھاگے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّمکی دایہ (حلیمہ ) کے پاس آئے اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مار ڈالا گیا ہے (دایہ حلیمہ کے گھر اور پڑوس کے ) لوگ (یہ سنتے ہی) اس جگہ پہنچے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم موجود تھے ، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صحیح سالم دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اس حال میں پایا کہ خوف ودہشت سے ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم (کے چہرہ ) کا رنگ بدلا ہوا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ روایت بیان کرکے ) کہتے ہیں کہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سینہ مبارک پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا ۔ (مسلم) ۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبوت کی علامتوں کا بیان ۔ حدیث 434)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ علیہ مدارج النبوت میں لکھتے ہیں : ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم چراگاہ میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک فرزند “ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے کانپتے ہوئے اپنے گھر پر آئے اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اماں جان! بڑا غضب ہو گیا، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سفید لباس پہنے ہوئے تھے، چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈالا ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگا ہوا آیا ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بدحواس ہو کر گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تو یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں ۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے، حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سے چمکار کر پوچھا کہ بیٹا ! کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ تین شخص جن کے کپڑے بہت ہی سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر میرا شکم چاک کرکے اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چیز میرے شکم میں ڈال کر شگاف کو سی دیا لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔ (مدارج النبوة جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 21،چشتی)

یہ واقعہ سن کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ان کے شوہر دونوں بے حد گھبرائے اور شوہر نے کہا کہ حلیمہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰذا بہت جلد تم ان کو ان کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اس کے بعد حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت نہ کر سکیں گے ۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم تو بڑی خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھر اس قدر جلد واپس لے آنے کی وجہ کیا ہے ؟ جب حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکم چاک کرنے کا واقعہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ ہر گز نہیں ، خدا کی قسم ! میرے نور نظر پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل دخل نہیں ہو سکتا ۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے ۔ پھر ایام حمل اور وقت ولادت کے حیرت انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو آپ کی والدہ ماجدہ کے سپرد کر کے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اپنی والدہ ماجدہ کی آغوشِ تربیت میں پرورش پانے لگے ۔ (مزید حصّہ دوم میں پڑھیں ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

واقعہ شقِ صدر حصّہ سوم

 واقعہ شقِ صدر حصّہ سوم


محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع کے حصّہ اوّل و دوم آپ پڑھ چکے ہونگے آئیے اب حصّہ سوم پڑھتے ہیں :

قلب مبارک کا دھویا جانا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب اطہر کا زم زم سے دھویا جانا کسی آلائش کی وجہ سے نہ تھا کیونکہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سید الطیبین و الطاہرین ہیں ۔ ایسے طیب و طاہر کہ ولادتِ با سعادت کے بعد بھی حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو غسل نہیں دیا گیا ۔ لہٰذا قلب اقدس کا زم زم سے دھویا جانا محض اس حکمت پر مبنی تھا کہ زم زم کے پانی کو وہ شرف بخشا جائے جو دنیا کے کسی پانی کو حاصل نہیں بلکہ قلب اطہر کے ساتھ مائِ زم زم کو مس فرما کر وہ فضیلت عطا فرمائی گئی جو کوثر و تسنیم کے پانی کو بھی حاصل نہیں ۔

شق صدر کی حکمتیں

شب معراج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس کے شق کئے جانے میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں جن میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ بالفعل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سمٰوٰت کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے۔

حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دلیل

علاوہ ازیں شق صدر مبارک میں ایک حکمت بلیغہ یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات بعد الموت پر دلیل قائم ہو گئی ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عادتاً بغیر روح کے جسم میں حیات نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام مقدسہ قبض روح کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ۔ چونکہ روح حیات کا مستقر قلب انسانی ہے لہٰذا جب کسی انسان کا دل اس کے سینہ سے باہر نکال لیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قلب مبارک سینۂ اقدس سے باہر نکالا گیا پھر اسے شگاف دیا گیا اور وہ منجمد خون جو جسمانی اعتبار سے دل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے صاف کر دیا گیا اس کے باوجود بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زندہ ہیں کیونکہ جس کا دل بدن سے باہر ہو اور وہ پھر بھی زندہ رہے اگر اس کی روح قبض ہو کر باہر ہو جائے تو وہ کب مردہ ہو سکتا ہے ۔

قلب مبارک میں آنکھیں اور کان

جبرائیل علیہ السلام نے شق صدر مبارک کے بعد قلب اطہر کو جب زم زم کے پانی سے دھویا تو فرمانے لگے ’’قَلْبٌ سَدِیْدٌ فِیْہِ عَیْنَانِ تُبْصِرَانِ وَاُذُ نَانِ تَسْمَعَانِ‘‘
ترجمہ : ’’قلب مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے ۔ اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔ (فتح الباری جلد ۱۳، صفحہ ۴۱۰،چشتی)

قلب مبارک کی یہ آنکھیں اور کان عالم محسوسات سے وراء الوراء حقائق کو دیکھنے اور سننے کے لئے ہیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’اِنِّیْ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ‘‘ میںوہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے ۔

دائمی ادراک

جب اللہ تعالیٰ نے بطور خرق عادات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب اطہر میں آنکھیں اور کان پیدا فرما دئیے ہیں تو اب یہ کہنا کہ ورائے عالم محسوسات کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دیکھنا اور سننا احیاناً ہے دائمی نہیں قطعاً باطل ہو گیا۔ جب ظاہری آنکھوں اور کانوں کا ادراک دائمی ہے تو قلب مبارک کے کانوں اور آنکھوں کا ادراک کیونکر عارضی اور احیاناً ہو سکتا ہے۔ البتہ حکمت الٰہیہ کی بناء پر کسی امر خاص کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دھیان نہ رہنا اور عدم توجہ اور عدم التفات کا حال طاری ہو جانا امر آخر ہے، جس کا کوئی منکر نہیں اور وہ علم کے منافی نہیں ہے ۔ لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا باطنی سماع اور بصارت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے ۔

شق صدر مبارک اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نوری ہونا

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ شق صدر مبارک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور سے مخلوق ہونے کے منافی ہے لیکن یہ وہم غلط اور باطل ہے ۔ ان کی عبارت یہ ہے ’’وَکَوْنُہٗ مَخْلُوْقًا مِّنَ النُّوْرِ لَا یُنَافِیْہِ کَمَا تُوُہِّمَ‘‘ ۔ (نسیم الریاض، شرح شفا قاضی عیاض جلد ۲، صفحہ ۲۳۸)

نورانیت اور احوال بشریہ کا ظہور

جو بشریت عیوب و نقائص بشریت سے پاک ہو اس کا بشر ہونا نورانیت کے منافی نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نور سے مخلوق فرما کر مقدس اور پاکیزہ بشریت کے لباس میں مبعوث فرمایا ۔ شق صدر ہونا بشریت مطہرہ کی دلیل ہے اور باوجود سینۂ اقدس چاک ہونے کے خون نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے۔ فَلَمْ یَکُنِ الشَّقُّ بِاٰلۃٍ وَّلَمْ یَسِلِ الدَّمُّ ۔
ترجمہ : شق صدر کسی آلہ سے نہیں تھا۔ نہ اس شگاف سے خون بہا ۔ (تفسیر روح البیان جلد ۵، ص ۱۰۶،چشتی)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خلقت نور سے ہے اور بشریت ایک لباس ہے اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ جب چاہے اپنی حکمت کے مطابق بشری احوال کو نورانیت پر غالب کر دے اور جب چاہے نورانیت کو احوال بشریہ پر غلبہ دے دے اور بشریت نہ ہوتی تو ’شق‘ کیسے ہوتا اور نورانیت نہ ہوتی تو آلہ بھی درکار ہوتا اور خون بھی ضرور بہتا ۔

جب کبھی خون بہا (جیسے غزوئہ احد میں) تو وہاں احوال بشریہ کا غلبہ تھا اور جب خون نہ بہا (جیسے لیلۃ المعراج شق صدر میں) تو وہاں نورانیت غالب تھی ۔

شب معراج شق صدر مبارک

مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینۂ اقدس اوپر سے نیچے تک چاک کیا اور قلب مبارک باہر نکالا پھر اسے شگاف دیا اور اس سے خون کا ایک لوتھڑا نکال باہر پھینکا اور کہا کہ آپ کے اندر شیطان کا ایک حصہ تھا ۔

خون کا لوتھڑا یا شیطان کا حصّہ

علامہ تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں خون کا لوتھڑا پیدا فرمایا ہے ۔ اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں شیطان جو کچھ ڈالتا ہے یہ لوتھڑا اسے کو قبول کرتا ہے ۔ (جس طرح قوت سامعہ آواز کو اور قوت باصرہ مبصرات کی صورتوں کو اور قوت شامہ خوشبو اور بدبو کو اور قوتِ ذائقہ ترشی اور تلخی وغیرہ کو اور قوتِ لامسہ گرمی اور سردی وغیرہ کیفیات کو قبول کرتی ہے ، اسی طرح دل کے اندر یہ منجمد خون کا لوتھڑا شیطانی وسوسوں کو قبول کرتا ہے) یہ لوتھڑا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب مبارک سے دور کر دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں ایسی کوئی چیز باقی نہ رہی جو القائے شیطانی کو قبول کرنے والی ہو۔ علامہ تقی الدین فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے یہی مراد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی میں شیطان کا کوئی بھی حصہ کبھی نہیں تھا ۔

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ جب یہ بات تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں اس خون کے لوتھڑے کو کیوں پیدا فرمایا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ پہلے ہی ذاتِ مقدسہ میں اسے پیدا نہ فرمایا جاتا ۔ تو جواب دیا جائے گا کہ اس کے پیدا فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اجزائے انسانیہ میں سے ہے ۔ لہٰذا اس کا پیدا کیا جانا خلقت انسانی کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کا نکال دینا ، یہ ایک امر آخر ہے جو تخلیق کے بعد طاری ہوا ۔ (انتہیٰ)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، اس کی نظیر بدن انسانی میں اشیاء زائدہ کی تخلیق ہے جیسے قلفہ کا ہونا اور ناخنوں اور مونچھوں کی درازی اور اسی طرح بعض دیگر زائد چیزیں (جن کا پیدا ہونا بدن انسانی کی تکمیل کا موجب ہے اور ان کا ازالہ طہارت و نظافت کے لئے ضروری ہے) مختصر یہ کہ ان اشیاء زائدہ کی تخلیق اجزائے بدن انسانی کا تکملہ ہے اور ان کا زائل کرنا کمال تطہیر و تنظیف کا مقتضیٰ ہے ۔ (شرح شفاء لملا علی قاری جلد ۱، صفحہ ۳۷۴)

چونکہ ذاتِ مقدسہ میں حظّ شیطانی باقی ہی نہ تھا اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہمزاد مسلمان ہو گیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ ’’وَلٰکِنْ اَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِیْ اِلَّا بِخَیْرٍ‘‘ میرا ہمزاد مسلمان ہو گیا ، لہٰذا سوائے خیر کے وہ مجھے کچھ نہیں کہتا ۔

علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ نسیم الریاض میں فرماتے ہیں کہ قلب بمنزلہ میوہ کے ہے جس کا دانہ اپنے اندر کے تخم اور گٹھلی پر قائم ہوتا ہے اور اسی سے پختگی اور رنگینی حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح وہ منجمد خون قلب انسانی کے لئے ایسا ہے جیسے چھوہارے کے لئے گٹھلی۔ اگر ابتداً اس میں گٹھلی نہ ہو تو وہ پختہ نہیں ہو سکتا لیکن پختہ ہو جانے بعد اس گٹھلی کو باقی نہیں رکھا جاتا بلکہ نکال کے پھینک دیا جاتا ہے ۔ چھوہارے کی گٹھلی یا دانہ انگور سے بیج نکال کر پھینکتے وقت کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جو چیز پھینکنے کے قابل تھی وہ پہلے ہی کیوں پیدا کی گئی ؟ اگر اسی طرح یہ بات ذہن نشین کر لی جائے تو قلب اطہر میں خون کا وہ لوتھڑا اسی طرح تھا جیسے انگور کے دانہ میں بیج یا کھجور کے دانہ میں گٹھلی ہوتی ہے۔ اور قلب اطہر سے اس کو بالکل ایسے ہی نکال کر پھینک دیا گیا، جیسے کھجور اور انگور سے گٹھلی اور بیج کو نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو گا کہ اس لوتھڑے کو قلب اطہر میں ابتداً کیوں پیدا کیا گیا ۔ (نسیم الریاض، شرح شفاء قاضی عیاض صفحہ نمبر ۲۳۹،چشتی)

رہا یہ امر کہ فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ کیوں کہا کہ ہٰذِہٖ حَظُّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ (معاذ اللہ) آپ کی ذات پاک میں واقعی شیطان کا کوئی حصہ ہے۔ نہیں اور یقینا نہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ذات پاک ، شیطانی اثر سے پاک اور طیب و طاہر ہے بلکہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ اگر آپ کی ذات پاک میں شیطان کے تعلق کی کوئی جگہ ہو سکتی ہے تو وہ یہی خون کا لوتھڑا تھا ۔ جب اس کو آپ کے قلب مبارک سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا تو اس کے بعد آپ کی ذاتِ مقدسہ میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہی جس سے شیطان کا کوئی تعلق کسی طرح ہو سکے ۔

الفاظ حدیث کا واضح اور روشن مفہوم یہ ہے کہ آپ کی ذاتِ مقدسہ میں شیطان کا کوئی حصہ ہوتا تو یہی خون کا لوتھڑا ہو سکتا تھا مگر جب یہ بھی نہ رہا تو اب ممکن ہی نہیں کہ ذاتِ مقدسہ سے شیطان کا کوئی تعلق ممکن ہو ۔ آپ کی ذاتِ مقدسہ ان عیوب سے پاک ہے جو اس لوتھڑے کے ساتھ شیطان کے متعلق ہونے سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔

واقعہ شقِ صدر کے متعلق دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ

متفرقات >> تاریخ و سوانح

سوال نمبر: 147739
عنوان:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کتنی بار چاک کیا گیا؟
سوال:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ کتنی بار چاک کیا گیا؟

جواب نمبر: 147739

بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 358-310/Sn=4/1438

شق صدر (سینہ چاک کرنے) کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں چار مرتبہ پیش آیا: (۱) زمانہٴ طفولیت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حلیمہٴ سعدیہ (رض) کی پرورش میں تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چار سال کی تھی۔ (۲) دوسری بار شق صدر کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دس سال کی عمر میں پیش آیا۔ (۳) تیسری بار بعثت کے وقت۔ (۴) چوتھی بار معراج کے وقت شق صدر کا واقعہ پیش آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں سیرة المصطفیٰ (۱/۷۳)


واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
https://darulifta-deoband.com/home/ur/History--Biography/147739

شق صدر مبارک کے بعد ایک نورانی طشت جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس میں بھر دیا گیا ، ایمان و حکمت اگرچہ جسم و صورت سے متعلق نہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر قادر ہے کہ غیر جسمانی چیزوں کو صورت عطا فرمائے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان و حکمت کو جسمانی صورت میں متمثل فرما دیا اور یہ تمثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں انتہائی عظمت و رفعت شان کا موجب ہے ۔

جو بشریت عیوب و نقائص بشریت سے پاک ہو اس کا نور ہونا نورانیت کے منافی نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو نور سے مخلوق فرما کر مقدس اور پاکیزہ بشریت کے لباس میں مبعوث فرمایا ۔ شق صدر ہونا بشریت مطہرہ کی دلیل ہے اور باوجود سینۂ اقدس چاک ہونے کے خون نہ نکلنا نورانیت کی دلیل ہے ۔ ’’فلم یکن الشق بالۃ ولم یسل الدم‘‘ ’’شق صدر کسی آلہ سے نہ تھا نہ اس شگاف سے خون بہا‘‘ ـ (روح البیان ج ۵ ص ۱۰۶)

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خلقت نور سے ہے اور بشریت ایک لباس ہے ۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ جب چاہے اپنی حکمت کے مطابق بشری احوال کو نورانیت پر غالب کر دے اور جب چاہے نورانیت کو احوال بشریت پر غالب کر دے ۔ بشریت نہ ہوتی تو ’’شق‘‘ کیسے ہوتا اور نورانیت نہ ہوتی تو آلہ بھی درکار ہوتا اور خون بھی ضرور بہتا۔

جب کبھی خون بہا (جیسے غزوہ احد میں) تو وہاں احوال بشریہ کا غلبہ تھا اور جب خون نہ بہا (جیسے لیلۃ المعراج شق صدر میں) تو وہاں نورانیت غالب تھی ۔

جسمانی معراج کا بھی یہی حال ہے کہ تینوں میں سے کوئی چیز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتی لیکن کہیں بشریت کا ظہور، کہیں نورانیت کا اور کہیں حقیقت محمدیہ کا یعنی صورۃ حقیہ کا۔ ولٰـکن کثیرا من الناس عنہا غفلون ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

واقعہ شقِ صدر حصّہ دوم

 واقعہ شقِ صدر حصّہ دوم

محترم قارئینِ کرام : امید ہے اس موضوع کا حصّہ اوّل آپ پڑھ چکے ہونگے آئیے اب حصّہ دوم پڑھتے ہیں :


 علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے معراج کی بابت کہا :


سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالَمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں


یعنی معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان بلندیوں کو تسخیر کرسکتا ہے ۔ معجزاتِ نبوی میں سے قرآنِ کریم ایسا معجزہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام اور اُس کی صفت ہے ، اس جیسا کلام بنانا بندوں کے لیے ممکن نہیں ہے ،قرآن کا چیلنج اس کا واضح ثبوت ہے ،لیکن دوسرے معجزاتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی نفسہٖ ممکن ہیں اگرچہ ہر ممکن کا صدور لازمی نہیں ہوتا ۔ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا معراج کی شب بلندیوں کی طرف سفر کرنامادّی اسباب کے بغیر تھا ،اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا ،لیکن یہ سفر اس امکان کو ظاہر کر رہا تھا ، اب انسان مادّی طاقت کے سبب بہت سی ایسی بلندیوں کی جانب پرواز کر رہا ہے جو پہلے ناقابلِ تصور تھیں ۔


صحیح بخاری شریف میں ہے : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ شَرِيکِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ يَقُولُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَسْجِدِ الْکَعْبَةِ أَنَّهُ جَائَهُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ قَبْلَ أَنْ يُوحَی إِلَيْهِ وَهُوَ نَائِمٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَقَالَ أَوَّلُهُمْ أَيُّهُمْ هُوَ فَقَالَ أَوْسَطُهُمْ هُوَ خَيْرُهُمْ فَقَالَ آخِرُهُمْ خُذُوا خَيْرَهُمْ فَکَانَتْ تِلْکَ اللَّيْلَةَ فَلَمْ يَرَهُمْ حَتَّی أَتَوْهُ لَيْلَةً أُخْرَی فِيمَا يَرَی قَلْبُهُ وَتَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ وَکَذَلِکَ الْأَنْبِيَائُ تَنَامُ أَعْيُنُهُمْ وَلَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ فَلَمْ يُکَلِّمُوهُ حَتَّی احْتَمَلُوهُ فَوَضَعُوهُ عِنْدَ بِئْرِ زَمْزَمَ فَتَوَلَّاهُ مِنْهُمْ جِبْرِيلُ فَشَقَّ جِبْرِيلُ مَا بَيْنَ نَحْرِهِ إِلَی لَبَّتِهِ حَتَّی فَرَغَ مِنْ صَدْرِهِ وَجَوْفِهِ فَغَسَلَهُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ بِيَدِهِ حَتَّی أَنْقَی جَوْفَهُ ثُمَّ أُتِيَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهِ تَوْرٌ مِنْ ذَهَبٍ مَحْشُوًّا إِيمَانًا وَحِکْمَةً فَحَشَا بِهِ صَدْرَهُ وَلَغَادِيدَهُ يَعْنِي عُرُوقَ حَلْقِهِ ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْيَا فَضَرَبَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِهَا فَنَادَاهُ أَهْلُ السَّمَائِ مَنْ هَذَا فَقَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مَعِيَ مُحَمَّدٌ قَالَ وَقَدْ بُعِثَ قَالَ نَعَمْ قَالُوا فَمَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا فَيَسْتَبْشِرُ بِهِ أَهْلُ السَّمَائِ لَا يَعْلَمُ أَهْلُ السَّمَائِ بِمَا يُرِيدُ اللَّهُ بِهِ فِي الْأَرْضِ حَتَّی يُعْلِمَهُمْ فَوَجَدَ فِي السَّمَائِ الدُّنْيَا آدَمَ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ هَذَا أَبُوکَ آدَمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَرَدَّ عَلَيْهِ آدَمُ وَقَالَ مَرْحَبًا وَأَهْلًا بِابْنِي نِعْمَ الِابْنُ أَنْتَ فَإِذَا هُوَ فِي السَّمَائِ الدُّنْيَا بِنَهَرَيْنِ يَطَّرِدَانِ فَقَالَ مَا هَذَانِ النَّهَرَانِ يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا النِّيلُ وَالْفُرَاتُ عُنْصُرُهُمَا ثُمَّ مَضَی بِهِ فِي السَّمَائِ فَإِذَا هُوَ بِنَهَرٍ آخَرَ عَلَيْهِ قَصْرٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ وَزَبَرْجَدٍ فَضَرَبَ يَدَهُ فَإِذَا هُوَ مِسْکٌ أَذْفَرُ قَالَ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْکَوْثَرُ الَّذِي خَبَأَ لَکَ رَبُّکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الثَّانِيَةِ فَقَالَتْ الْمَلَائِکَةُ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَتْ لَهُ الْأُولَی مَنْ هَذَا قَالَ جِبْرِيلُ قَالُوا وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ نَعَمْ قَالُوا مَرْحَبًا بِهِ وَأَهْلًا ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الثَّالِثَةِ وَقَالُوا لَهُ مِثْلَ مَا قَالَتْ الْأُولَی وَالثَّانِيَةُ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی الرَّابِعَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ الْخَامِسَةِ فَقَالُوا مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ السَّادِسَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ عَرَجَ بِهِ إِلَی السَّمَائِ السَّابِعَةِ فَقَالُوا لَهُ مِثْلَ ذَلِکَ کُلُّ سَمَائٍ فِيهَا أَنْبِيَائُ قَدْ سَمَّاهُمْ فَأَوْعَيْتُ مِنْهُمْ إِدْرِيسَ فِي الثَّانِيَةِ وَهَارُونَ فِي الرَّابِعَةِ وَآخَرَ فِي الْخَامِسَةِ لَمْ أَحْفَظْ اسْمَهُ وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ وَمُوسَی فِي السَّابِعَةِ بِتَفْضِيلِ کَلَامِ اللَّهِ فَقَالَ مُوسَی رَبِّ لَمْ أَظُنَّ أَنْ يُرْفَعَ عَلَيَّ أَحَدٌ ثُمَّ عَلَا بِهِ فَوْقَ ذَلِکَ بِمَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ حَتَّی جَائَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَی وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّی حَتَّی کَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَی فَأَوْحَی اللَّهُ فِيمَا أَوْحَی إِلَيْهِ خَمْسِينَ صَلَاةً عَلَی أُمَّتِکَ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثُمَّ هَبَطَ حَتَّی بَلَغَ مُوسَی فَاحْتَبَسَهُ مُوسَی فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ مَاذَا عَهِدَ إِلَيْکَ رَبُّکَ قَالَ عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِينَ صَلَاةً کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قَالَ إِنَّ أُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِکَ فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ رَبُّکَ وَعَنْهُمْ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی جِبْرِيلَ کَأَنَّهُ يَسْتَشِيرُهُ فِي ذَلِکَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ أَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَلَا بِهِ إِلَی الْجَبَّارِ فَقَالَ وَهُوَ مَکَانَهُ يَا رَبِّ خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ أُمَّتِي لَا تَسْتَطِيعُ هَذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلَی مُوسَی فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوسَی إِلَی رَبِّهِ حَتَّی صَارَتْ إِلَی خَمْسِ صَلَوَاتٍ ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوسَی عِنْدَ الْخَمْسِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قَوْمِي عَلَی أَدْنَی مِنْ هَذَا فَضَعُفُوا فَتَرَکُوهُ فَأُمَّتُکَ أَضْعَفُ أَجْسَادًا وَقُلُوبًا وَأَبْدَانًا وَأَبْصَارًا وَأَسْمَاعًا فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ رَبُّکَ کُلَّ ذَلِکَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی جِبْرِيلَ لِيُشِيرَ عَلَيْهِ وَلَا يَکْرَهُ ذَلِکَ جِبْرِيلُ فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ فَقَالَ يَا رَبِّ إِنَّ أُمَّتِي ضُعَفَائُ أَجْسَادُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ وَأَسْمَاعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَأَبْدَانُهُمْ فَخَفِّفْ عَنَّا فَقَالَ الْجَبَّارُ يَا مُحَمَّدُ قَالَ لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ قَالَ إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ کَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْکَ فِي أُمِّ الْکِتَابِ قَالَ فَکُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُونَ فِي أُمِّ الْکِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْکَ فَرَجَعَ إِلَی مُوسَی فَقَالَ کَيْفَ فَعَلْتَ فَقَالَ خَفَّفَ عَنَّا أَعْطَانَا بِکُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا قَالَ مُوسَی قَدْ وَاللَّهِ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَی أَدْنَی مِنْ ذَلِکَ فَتَرَکُوهُ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ أَيْضًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مُوسَی قَدْ وَاللَّهِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ قَالَ فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللَّهِ قَالَ وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔

ترجمہ : عبد العزیز بن عبداللہ ، سلیمان ، شریک بن عبداللہ ، حضرت ابن مالک سے روایت کرتے ہیں ، ان کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ جس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مسجد کعبہ سے معراج ہوئی تو وحی کے پہنچنے سے قبل آپ کے پاس تین فرشتے آئے اس وقت آدمی خانہ کعبہ میں سوئے ہوئے تھے، ایک نے کہا ان میں وہ کون ہیں جن کی تلاش میں ہم ہیں، بیچ والے نے اشارہ سے بتایا کہ ان میں سب سے اچھے ہیں پچھلے فرشتے نے کہا کہ ان میں جو بہتر ہے ان کو لے لو، اس رات کو یہی ہوا، پھر دوسری رات آنے تک ان فرشتوں کو نہیں دیکھا۔ دوسری رات کو وہ فرشتے آئے، آپ کا دل ان کو دیکھ رہا تھا اور آ نکھیں سوئی ہوئی تھیں، انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتے، ان فرشتوں نے آپ سے کوئی بات کی اور اٹھا کر چاہ زمزم کے پاس لے جا کر رکھ دیا، جبرائیل نے اس کام کو سنبھالا، انہوں کے گلے سے لے کر دل کے نیچے تک سینہ کو چاک کیا اور سینہ اور پیٹ کو (خواہشات سے) خالی کیا اپنے ہاتھ سے زمزم کے پانی سے دھویا، آپ کے پیٹ کو خوب صاف کیا پھر سونا کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک برتن ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا تھا اس سے آپ کے سینہ اور حلق کو بھرا پھر اس کو برابر کر دیا، پھر آپ کو آسمان دنیا تک لے چڑھے اور اس کے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا، آسمان والوں نے پوچھا کون؟ انہوں نے جواب دیا جبریل، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں، کہا میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ان لوگوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں، کہا ہاں! انہوں نے کہا، خوب اچھے آئے (خوش آمدید) آسمان والے اس سے خوش ہو رہے تھے، آسمان والے فرشتوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی کہ اللہ زمین میں کیا کرنا چاہتا ہے جب تک کہ ان کو بتلا نہ دے آپ نے آسمان دنیا میں حضرت آ دم علیہ السلام کو پایا، آپ سے جبرائیل نے فرمایا کہ آپ کے باپ ہیں ان کو سلام کیجئے آپ نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہا کہ تمہارا آنا مبارک ہو اے میرے بیٹے، تم اچھے بیٹے ہو، اس وقت آپ کی نظر دو نہروں پر پڑی جو بہہ رہی تھیں، آپ نے فرمایا اے جبریل! یہ دو نہریں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ نیل اور فرات کا منبع ہے، پھر اسی آسمان میں آپ کو لے کر پھرانے لگے، آپ ایک نہر کے پاس سے گزرے جس پر موتی اور زمرد کے محل بنے ہوئے تھے آپ نے ہاتھ مارا تو معلوم ہوا کہ وہ مشک ہے، آپ نے پوچھا اے جبرائیل یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے جو آپ کے لئے آپ کے رب نے رکھ چھوڑی ہے پھر دوسرے آسمان پر لے گئے تو فرشتوں نے یہاں بھی وہی سوال کیا جو پہلے فرشتوں نے کیا تھا کہ کون؟ تو انہوں نے کہا کہ جبریل، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) انہوں نے پوچھا کیا بلائے گئے ہیں؟ کہا ہاں، انہوں نے کہا تمہارا آنا مبارک ہو، پھر تیسرے آسمان پر لے گئے اور ان فرشتوں نے بھی وہی پوچھا جو پہلے اور دوسرے آسمان والوں نے پوچھا تھا، پھر چوتھے آسمان پر لے گئے تو وہاں پر بھی فرشتوں نے وہی گفتگو کی، پھر پانچویں آسمان پر لے گئے تو وہاں بھی فرشتوں نے اسی طرح گفتگو کی، پھر چھٹے آسمان پر لے گئے تو وہاں بھی فرشتوں نے اسی طرح گفتگو کی، پھر ساتویں آسمان پر لے گئے تو وہاں بھی فرشتوں نے اسی طرح گفتگو کی، ہر آسمان پر انبیاء سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ان کا نام لیا جن میں ادریس علیہ السلام کا دوسرے آسمان پر اور ہارون علیہ السلام کا چوتھے آسمان پر اور پا نچویں آسمان پر جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا، اور ابراہیم علیہ السلام کا چٹھے آسمان پر اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ساتویں آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلام ہونے کی فضیلت کی بنا پر ملنا مجھے یاد نہیں رہا، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو یہ گمان نہ تھا کہ مجھ سے زیادہ بلندی پر کوئی شخص جائے گا، پھر آپ کو اس سے بھی اوپر لے گئے جس کا علم اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی کو نہیں، یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی ٰ کے پاس پہنچے، پھر اللہ رب العزت سے نزدیک ہوئے اور اس قدر نزدیک ہوئے جیسے کمان کے دو کونے، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک ہوئے، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی بھیجی جو وحی بھیجی، اس میں یہ تھا کہ آپ کی امت پر دن رات پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر نیچے اترے، حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور کہا اے محمد! تمہارے رب نے تم سے کیا عہد لیا، آپ نے فرمایا کہ مجھ سے دن رات پچاس نمازیں پڑھنے کا عہد لیا ہے، انہوں نے کہا کہ تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی اس لئے لوٹ جاؤ اپنے رب سے اپنے لئے اور اپنی امت کے واسطے تخفیف کراؤ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل کی طرف رخ کیا گویا آپ ان سے مشورہ لینا چاہتے تھے، جبرائیل نے مشورہ دیا کہ ہاں اگر آپ کی خواہش ہو چنانچہ جبرائیل آپ کو اللہ تعالیٰ کے پاس لے گئے، آپ نے اپنی پہلی جگہ پر کھڑے ہو کر عرض کیا کہ اے رب! نمازوں میں ہم پر کمی فرما، میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے پاس آئے انہوں نے روک لیا، حضرت موسی ٰ علیہ السلام آپ کو اسی طرح اپنے رب کے پاس بھیجتے رہے حتی ٰ کہ پانچ نمازیں رہ گیئں، پھر پانچ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روکا اور کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) میں نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس سے بھی کم نمازیں پڑھوانا چاہیں لیکن وہ ضعیف ہو گئے اور اس کو چھوڑ دیا، تمہاری امت تو جسم، بدن، آنکھ اور کان، کے اعتبار سے بہت ضعیف ہے لہذا واپس جاؤ تمہارا رب تمہاری نمازوں میں کمی کر دے گا، ہر بار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جبرائیل کی طرف دیکھتے تھے تاکہ ان سے مشورہ لیں اور جبرائیل علیہ السلام اس کو ناپسند نہیں کرتے تھے چنانچہ پانچویں بار بھی آپ کو لے گئے آپ نے عرض کیا اے میرے رب! میری امت کے جسم نا تو اں ہیں اور ان کے دل اور کان اور ان کے بدن کمزور ہیں اس لئے ہم پر تخفیف فرما، اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) آپ نے فرمایا " لبیک و سعد یک" اللہ تعالی ٰ نے فرمایا کہ میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی جو میں نے تم پر فرض کیا تھا وہ ام الکتاب (لوح محفوظ) میں ہے، اللہ نے فرمایا ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے اس لئے پانچ نمازیں جو تم پر فرض ہوئیں لوح محفوظ میں پچاس ہی رہیں، آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا آپ نے کیا کہا؟ آپ نے کہا ہمارے رب نے ہماری نماز میں بہت کمی فرما دی ہر نیکی کا دس گنا ثواب عطا کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے بنی اسرائیل سے اس سے بھی کم کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ دیا لہذا لوٹ کر اپنے رب کے پاس جاؤ اور اس میں کمی کراؤ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ اے موسی ! اللہ کی قسم مجھے اپنے سے شرم آتی ہے اس لئے کہ میں بار بار اس کے پاس جا چکا ہوں۔ حضرت موسی ٰ علیہ السلام نے کہا پھر اللہ کا نام لے کر اترو ۔ راوی کا بیان کہ آپ بیدار ہوئے تو اس وقت آپ مسجد حرام میں تھے ۔ (صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ توحید کا بیان ۔ حدیث 2410،چشتی)


حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : جبریلِ امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ اس وقت نوعمر لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ،انہوں نے آپ کو پکڑکر لٹایا ، پھر آپ کے سینے کو چیر کر اس میں سے دل کو نکالا، پھر دل سے ایک جمے ہوئے خون کو نکالا اور کہا:یہ آپ کے قلب میں شیطان کا حصہ تھا ،پھر آپ کے دل کو سونے کے طشت میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھوکرسینے میں اپنے مقام پر رکھ کر سی دیا ۔اس اثنا میں لڑکے دوڑتے ہوئے اُن کی رضاعی ماں کے پاس آئے اور کہا : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قتل کردیا گیا ہے ، وہ (گھبرا کر) آپ کی طرف آئیں اور دیکھا کہ آپ کا رنگ بدلا ہوا ہے، حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینے پرٹانکوں کے نشانات دیکھتا تھا ۔ (صحیح مسلم:162)


بچپن میں یہ شقِ صدر کس عمر میں ہوا ،اس کے بارے میں کئی اقوال ہیں ، ایک روایت میںہے کہ آپ کے قلبِ انور کو کینے اور حسد سے پاک کرکے رحم ومروّت سے بھر دیا اور رحمۃ للعالمین کے منصب پر فائز ہونے کے لیے یہ حکمت قابلِ فہم ہے اور ایک یہ بتائی گئی ہے کہ شیطانی ترغیبات کا آپ کے قلبِ انور کے پاس سے گزر بھی نہ ہو ، حدیثِ پاک میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک پر ایک ہمزاد جن (شیطان) مسلّط ہوتا ہے ،صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ پر بھی ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میرے ساتھ بھی ہمزادپیدا ہوا ، مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ مسلمان ہوگیا ، اب وہ مجھے خیر کے سوا کوئی بات نہیں کہتا ۔ (صحیح مسلم:2814)


حضرتِ حَنّہ نے اپنی صاحبزادی حضرت مریم کی پیدائش کے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی : (اے اللہ!) میں اِسے اور اِس کی اولاد کو شیطانِ مردودکے شر سے تیری پناہ میں دیتی ہوں ۔ (سورہ آل عمران:36) ، مفسرینِ کرام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کے قلوب کوشیطانی تحریکات سے محفوظ فرمادیا ۔

حدیثِ پاک میں ہے : ہر بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کے انگلی چبھوتا ہے تو وہ شیطان کے (انگلی چبھونے سے) چیخ مار کر روتا ہے سوا مریم اور ان کے بیٹے کے ، پھر حضرت ابوہریرہ نے آل عمران:36 پڑھی ۔ (صحیح البخاری:3431،چشتی)


اس پر کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت مریم و عیسیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اس جہت سے فضیلت حاصل ہوگئی ، ہم کہتے ہیں : یہ ان کی خصوصیت ہے ، لیکن سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر فضیلت نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تخلیقِ انسانی کے اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو کامل پیدا فرمائے ، پھر آپ کو اپنے ہمزاد پر غلبہ عطا فرمادے ، جیسا کہ انسان اپنے ناخن اورجسم کے بعض حصوں کے بال تراشتاہے ، لیکن اگرکسی کے بدن میں ناخن یا بال نہ ہوں تو اسے ناخن یا بال رکھنے والوں پر فضیلت نہیں سمجھا جاتا ۔ ایک بار آپ کا شقِ صدرمعراج کے موقع پر ہوا ۔


حضرت مالک بن انس بروایتِ ابوذر بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جب میں مکے میں تھا ، (ایک شب ) میرے گھر کی چھت پھٹی ، حضرت جبریل علیہ السلام اترے ،انہوں نے میرے سینے کو چاک کیا ، میرے دل کو نکال کرآبِ زمزم سے دھویا ، پھر ایمان وحکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اُسے میرے قلب میں ڈال دیا ،پھر میرے سینے کو سی دیا، پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمانِ دنیا کی طرف لے کر چڑھے ۔ (صحیح البخاری:349،صحیح مسلم:163) ۔ سنن ترمذی کی روایت میں ان کلمات کا اضافہ ہے : میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کی کیفیت میں تھا اور یہ کہ میرے سینے کو نیچے تک شق کیا گیا ، (سنن ترمذی:3346)


انسان کو جب اپنے روایتی ماحول سے مختلف ماحول میں جانا پڑے تو وہ اس کے لیے تیاری کرتا ہے ، وہاں کے گرم یا سردموسم کے بارے میں معلومات حاصل کرتا ہے ، اس کے مطابق لباس تیار کرتا ہے ،وہاں کی اشیائے خوراک اور آدابِ زندگی سے آگہی حاصل کرتا ہے ۔میں نے امریکہ کے شہر ہیوسٹن میں خلائی مرکز ناسا کو دیکھا ،وہاں چاند پر اور خلا میں جانے والے خلابازوں کے لیے تربیت گاہ ہے ،کیونکہ زمین کی کشش ثقل کے دائرے سے نکلنے کے بعد بے وزنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،کھلی فضا میں انسان چل پھر سکتا ہے ، جس کا اسے زمین پر رہتے ہوئے تجربہ نہیں ہوتا ،اسی طرح بقائے حیات کے لیے مصنوعی آکسیجن ،پانی اور حسبِ حال خوراک کا انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ ہماری نظر میں سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شقِ صدر کے واقعات اسی سے مشابہت رکھتے ہیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے حکمتوں کو بیان کیا ہے اور ہم اپنی تشریحات کے ساتھ انہیں لکھ رہے ہیں : پہلی بار آپ کاشقِ صدر دل میں جمے ہوئے خون کو نکالنے کے لیے ہوا تاکہ شیطان کی کسی منفی تحریک وترغیب کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق ہی نہ رہے ، دوسری بار اعلانِ نبوت سے پہلے نزولِ وحی کے وقت شقِ صدر اس لیے ہوا تاکہ آپ کے قلبِ انور میں وحیِ ربانی کو جذب کرنے کی روحانی استعداد اور ملکہ پیدا ہوجائے ۔قرآن کی جلالت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر میں بیان فرمایا ہے ۔ احادیث میں نزولِ وحی کی شدت کا بھی بیان ہوا ہے کہ کبھی شدید گرمی میں آپ پر کپکپی طاری ہوجاتی ، کبھی شدید سردی میں آپ کی جبینِ اطہر پر پسینے کے قطرے نمودار ہوجاتے ، آپ سواری پر ہوتے تو اونٹنی وحیِ ربانی کی ہیبت سے بیٹھ جاتی ۔ تیسری بارشبِ معراج کو ہوا تاکہ آپ کے قلبِ انور کو حکمت کے موتیوں سے بھر دیا جائے اور اس میں ایسی روحانی قوت پیدا کردی جائے کہ آپ کائنات کے اسرار اور اس میں قدرت کی نشانیوں کو جاگتی آنکھوں سے دیکھ سکیں ، ان کی حکمتوں کو سمجھ سکیں اورتجلیاتِ باری تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوسکیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا : اسی موقع پر میرے دو شانوں کے درمیان مہرِ نبوت رکھ دی گئی ،ایک اور موقع پر فرمایا: یہ مہر مسہری کی گھنڈی کی مانند ہے اور اس پر بال ہیں ۔ آج کل بائی پاس آپریشن یا اوپن ہارٹ سرجری کے وقت مریض کو بے ہوش کردیا جاتا ہے اور جب تک آپریشن مکمل نہیں ہوجاتا ،اس کے لیے تنفّس اور دورانِ خون کوجاری رکھنے کے لیے مصنوعی انتظام کیا جاتا ہے ،مریض بے ہوشی کے سبب آپریشن کے مراحل کو خود نہیں دیکھ پاتا ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان تمام مراحل میں ہوش وحواس میں رہے ، آپ نے تمام احوال خود بیان فرمائے ، شیخ الحدیث مفسرِ قرآن علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی حیات قلب کی محتاج نہیں ہے ،عام انسان کے جسم میں ایک معمولی کٹ بھی لگ جائے تو خون بہہ نکلتا ہے، لیکن شق صدر کے تمام مراحل میں آپ کے جسم سے نہ خون نکلا ،نہ آپ کو درد محسوس ہوا ۔ (شرح صحیح مسلم)


بعض علماء نے کہا : پہلی بار شقِ صدر اس لیے ہوا کہ آپ کو عالمِ غیب کے بارے میں علم الیقین حاصل ہو ،دوسری بار اس لیے ہوا کہ آپ کو عین الیقین حاصل ہو اور تیسری بار شقِ صدر اس لیے ہوا تاکہ آپ کو حق الیقین حاصل ہو۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : شفا میں ہے جب جبریل علیہ السلام نے آپ کے دل کو دھویا تو کہا یہ قلبِ سلیم ہے ، اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔ اہلِ ذوق کا اپنا اپنا زاویہ نظر ہوتا ہے ، علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض اہلِ علم نے کہا آپ کے قلبِ انور کو زمزم سے اس لیے دھویا گیا تاکہ اُسے زمزم کی برکت نصیب ہوجائے اور میں کہتا ہوں قلبِ پاکِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زمزم میں اس لیے دھویا گیا تاکہ آبِ زمزم آپ کے قلبِ انور کے لَمس سے مشرّف ومتبرّک ہوجائے ۔شرح صحیح مسلم)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے شق صدر کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بچپن یعنی دو سال کی عمر میں شق صدر کا واقعہ اور معراج کے موقع پر شق صدر کا واقعہ تو صحیحین کی روایات سے ثابت ہے، البتہ بقیہ دو مواقع کی روایات میں علماء کا  کلام اور اقوال موجود ہیں.بعض نے دس سال کی عمر کے واقعہ کو وہم قرار دیا ہے اور بعض نے اس کو خواب پر محمول کیا ہے . لیکن ہمارے علم کے مطابق یہ چاروں واقعات سند کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ ان کو ثابت  مانا  جائے ۔


 ایام طفولیت مبارکہ میں شق صدر کے بعد سینۂ اقدس کو ٹانکے لگائے گئے


صحیح مسلم جلد اول صفحہ نمبر ۹۲ پر حضرت انس سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بچوں کے ساتھ (اپنی شان کے لائق) کھیل رہے تھے ۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو زمین پر لٹا کر سینہ اقدس چاک کیا ۔ قلب مبارک کو باہر نکال کر اس سے منجمد خون نکالا اور زمزم کے پانی سے دھو کر سینہ اقدس میں رکھ کر سینہ مبارک بند کر دیا ۔ وہ بچے جن کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کھیل رہے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضاعی ماں (حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’اِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ‘‘ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قتل کر دئیے گئے تو لوگ دوڑتے ہوئے آئے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا رنگ مبارک بدلا ہوا تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینہ اقدس میں سوئی (سے سیئے جانے) کا نشان دیکھا تھا ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شق صدر مبارک کے متعلق روحانی ، منامی ، کشفی ، معنوی وغیرہ کی تمام تاویلات قطعاً باطل ہیں بلکہ یہ ’’شق‘‘ اور چاک کیا جانا حسی حقیقی اور امر واقعی ہے کیونکہ سینہ اقدس میں سوئی سے سیئے جانے کا نشان چمکتا ہوا نظر آتا تھا ۔ پھر حدیث پاک میں صاف الفاظ موجود ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینہ مبارک چاک کیا گیاتو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ کھیلنے والے لڑکے دوڑتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رضاعی ماں (حلیمہ سعدیہ) کے پاس آئے اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قتل کر دئیے گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سینہ پاک کے چاک ہونے اور قلب اطہر کے نکالے جانے اور اس سے منجمد خون کے باہر نکالے جانے کا واضح ذکر اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متغیر اللون ہونے کا بیان اس حقیقت کو بے نقاب کر رہا ہے کہ یہ واقعہ بالکل حسی ہے ۔ اس کو معنوی کہنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ۔


اس تفصیل کو ذہن نشین کر لینے کے بعد بیان سابق میں ہمارا یہ قول بالکل بے غبار ہو جاتا ہے کہ شق صدر مبارک بچپن میں ہو یا جوانی میں ۔ قبل البعثت ہو یا بوقت معراج ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد وفات حیات حقیقی کے ساتھ زندہ رہنے کی قوی دلیل ہے ۔ کیونکہ انسان کا دل اس کی روح حیات کا مستقر ہوتا ہے ۔ اس کا سینہ سے باہر آ جانا روح حیات کا بدن سے نکل جانا ہے ۔ گویا اس واقعہ میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح قلب مبارکہ کے سینۂ اقدس سے باہر ہو جانے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زندہ ہیں ، اسی طرح روح مقدس کے قبض ہو جانے کے بعد زندہ رہیں گے ۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عظیم ترین معجزات میں سے ہے ۔


فضیلت شقِ صدر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے طفیل باقی انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی عطا ہوئی ۔ جیسا کہ تابوت بنی اسرائیل کے قصہ میں طبرانی کی طویل روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’کَانَ فِیْہِ الطَّشْتُ الَّتِیْ یُغْسَلُ فِیْہَا قُلُوْبُ الْاَنْبِیَائِ‘‘ ۔ (فتح الملہم شرح صحیح مسلم جلد اول صفحہ ۱۰۰) ، یعنی تابوت سکینہ میں وہ طشت بھی تھا جس میں انبیاء علیہم السلام کے دلوں کو دھویا جاتا ہے چونکہ دیگر انبیاء علیہم السلام کو بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تبعیت میں حیات حقیقی عطا کی گئی لہٰذا شق صدر اور قلب مبارک کا دھویا جانا بھی ان کو عطا کیا گیا تھا تاکہ ان کی حیات بعد الوفات پر بھی اسی طرح دلیل قائم ہو جائے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات بعد الممات پر دلیل قائم کی گئی اور اس طرح بلا تخصیص و تقیید مطلقاً حیاتِ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام ثابت ہو جائے ۔ (مزید حصّہ سوم میں پڑھیں) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 24 February 2021

معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے

 معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے


محترم قارئینِ کرام : معراج شریف کا محال ہونا اس کے وقوع کی دلیل ہے : میں تو یہ عرض کروں گا کہ اگر فلاسفہ سفر معراج شریف کے استحالہ پر دلائل قائم نہ کرتے تو ہمارا مدعا ثابت نہ ہوتا۔ اس لئے کہ ہم معراج کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معجزہ کہتے ہیں اور معجزہ وہی ہے جس کا وقوع عادتاً محال ہو اور منکرین کو عاجز کرنے کے لئے ضروری تھا کہ پہلے اس کے استحالہ عادیہ کو ثابت کیا جائے تاکہ قدرت ایزدی سے اس کا ظہور وقوع معجزہ قرار پا سکے ۔

اب ظاہر ہے کہ یہ کام کسی مسلمان سے تو ممکن نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھنے کے باوجود معراج کے محال ہونے پر دلیلیں قائم کرے ۔ لہٰذا جس اللہ نے اپنی قدرت سے معراج جیسے محال کو ممکن نہیں بلکہ واقع کر دیا ۔ اسی قادرِ مطلق نے اپنی قدرتِ کاملہ سے فلاسفہ جیسے ملحدین اور بے دین لوگوں سے اس کے استحالہ پر دلیلیں قائم کرا دیں تاکہ ادعاء استحالہ کے بعد اس کا وقوع اس کے معجزہ ہونے کی دلیل قرار پا سکے ۔ وللّٰہ الحجۃ السامیۃ ۔

تعجب ہے کہ مادی ترقی کے اس دور میں بھی لوگوں کو مسئلہ معراج میں تردد ہے۔ جب کہ محض مادی اور برقی طاقت کے بل بوتے پر انسان مشرق و مغرب اور جنوب اور شمال کے قلابے ملا رہا ہے۔ زمین سے آسمانوں کی طرف ہوائی جہازوں کی پرواز اور راکٹوں کا ستاروں تک پہنچنے کا ادعاء چند منٹ میں ہزاروں میل مسافت طے کرنے کا زعم اور محض برقی طاقت سے۔ لیکن معراج کے معاملے میں اس حقیقت کو قطعاً نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ قیوم اپنی قدرت کاملہ سے اپنے ایسے روحانی، نورانی محبوب کو راتوں رات لے گیا جس کی روحانیت کا مادہ پرست انکار بھی نہیں کر سکے پھر براق پر لے گیا جو برق سے مشتق ہے۔ برق بجلی کو کہتے ہیں جس بجلی کے بل بوتے پر انسان ضعیف البنیان آج منٹوں میں ہزاروں میل مسافت طے کر سکتا ہے۔ فضائے عالم کو چیر کر آسمانوں اور ستاروں کی طرف بلند پروازی کا دعویٰ کر سکتا ہے اگر باقی تمام امور سے قطع نظر کر کے صرف اسی برقی طاقت کو مد نظر رکھ لیا جائے تب بھی مسئلہ معراج میں کسی قسم کا خلجان باقی نہیں رہتا ۔

باقی رہا آسمانوں کا خرق و التیام تو اس زمانہ میں لوگوں نے سرے سے آسمانوں ہی کا انکار کر دیا تو خرق والتیام کی کہاں گنجائش رہی ۔

ہمارے نزدیک تو آسمان ایسے اجسام لطیفہ ہیں جن میں خرق والتیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ’’قرآن اور آسمان‘‘ ملاحظہ کیجئے جس میں اجسام سماویہ کی لطافت پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے ۔

تصدیقِ صدیق رضی اللہ عنہ

جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قریش مکہ کے سامنے واقعہ معراج بیان فرمایا تو انہوں نے (معاذ اللہ) تمسخر کیا اور ابو جہل نے قریش مکہ کو جمع کر کے مذاق اڑایا۔ ہر طرف آدمی دوڑائے اور زیادہ سے زیادہ آدمی جمع کر کے تکذیب و تمسخر کے لئے واقعہ معراج سنایا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجے اور ان سے کہا کہ تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ میں راتوں رات مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں پر پہنچا اور تمام آسمانوں کی سیر کر کے واپس آ گیا۔ کیا ان کی ایسی بات کی بھی آپ تصدیق کریں گے۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ بعید چیزوں میں ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ اگر انہوں نے فرمایا ہے تو اس کے حق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ ’’حضور (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم)‘‘ میں نے بیت المقدس دیکھا ہوا ہے۔ حضور میرے سامنے اس کی صفت بیان فرمائیں۔ بیت المقدس منکشف ہو گیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مسجد اقصیٰ کے در و دیوار، اس کی ہیئت اور کیفیت وغیرہ امور بیان فرمائے ۔ (مواہب اللدنیہ جلد ثانی)

کفارِ قریش جو تکذیب و تمسخر کے در پئے تھے کہنے لگے کہ ہم نے آسمان تو دیکھے نہیں لیکن مسجد اقصیٰ دیکھی ہے ۔ آپ ہمارے سامنے اس کی پوری ہیئت، نوعیت و کیفت بیان فرمائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بیان فرمانے لگے تو اثنائے بیان میں ایک انقباض کی سی حالت طاری ہو گئی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے حضرت عقیل ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر کے قریب رکھ دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اسے دیکھتے جاتے تھے اور بیان فرماتے جاتے تھے۔ اس مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم کا انکار کرنا غلط ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر علم نہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرما دیتے تھے کہ مجھے ہر بات کا علم نہیں۔ علاوہ ازیں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے سب کچھ بیان فرما چکے تھے ۔ پھر علم نہ ہونے کے کیا معنی ؟ باوجود علم کے بعض چیزوں کی طرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا التفات نہ تھا جس کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ کیفیت لاحق ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حالت اور کیفیت کو دور فرمانے کے لئے مسجد اقصیٰ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے رکھ دی ۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمال اعزاز و اکرام ثابت ہوتا ہے کہ معمولی سی عدم توجہ کے باعث جو اضطرابی کیفیت لاحق ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کے ازالہ کے لئے خرق عادت کے طور پر اپنی قدرتِ کاملہ کو ظاہر فرمایا اور جس طرح واقعہ معراج معجزہ تھا بالکل اسی طرح اس کی دلیل میں بھی معجزہ ظاہر فرمایا تاکہ اعجازی شان میںدعویٰ اور دلیل آپس میں مطابق ہو جائیں اور اہل ایمان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ جو قادر و قیوم حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے پل جھپکنے سے پہلے بلقیس کا عظیم تخت لا سکتا ہے وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے مسجد اقصیٰ کو بھی حاضر کر سکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس صورت میں فلسطین کے رہنے والوں نے مسجد اقصیٰ کو گم کیوں نہیں پایا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کی عظیم قدرت سے یہ بعید نہیں کہ ملک شام میں مسجد اقصیٰ دیکھنے والوں کے سامنے اس کی ایسی مثال قائم فرمائے جس کا دیکھنا مسجد اقصیٰ کے حکم میں ہو ۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز ۔

جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسجد اقصیٰ کے متعلق ہر سوال کا مسکت جواب دے چکے تو کفارِ قریش حیران ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مسجد اقصیٰ نہیں دیکھی۔ مجبوراً انہیں کہنا پڑا کہ مسجد اقصیٰ کے متعلق جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا سب درست ہے لیکن اس خیال سے کہ شاید کسی سے سن کر بیان کر دیاہو کفارِ قریش کہنے لگے کہ مسجد اقصیٰ کا نقشہ تو آپ نے ٹھیک ٹھیک بیان فرما دیا لیکن یہ بتائیے کہ مسجد اقصیٰ جاتے یا آتے ہوئے ہمارا قافلہ بھی آپ کو ملا ہے یا نہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہاں (ایک شخص کا نام لے کر ارشاد فرمایا کہ) بنی فلاں کے قافلہ پر مقام روحاء پر میں گزرا ۔ ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا وہ اسے تلاش کر رہے تھے اور ان کے پالان میں پانی کا بھرا ہوا ایک پیالہ رکھا تھا۔ مجھے پیاس لگی تو میں نے پیالہ اٹھا کر اس کا پانی پی لیا۔ پھر اس کی جگہ اس کو ویسے ہی رکھ دیا جیسے وہ پہلے رکھا ہوا تھا۔ جب وہ لوگ آئیں تو ان سے دریافت کرنا کہ جب وہ اپنا گم شدہ اونٹ تلاش کر کے اپنے پالان کی طرف آئے تھے تو کیا انہوں نے اس پیالہ میں پانی ڈالا تھا یا نہیں ؟ انہوں نے کہا ، ہاں ٹھیک ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کا نام لے کر فرمایا کہ میں بنی فلاں کے قافلہ پر بھی گزرا اور فلاں اور فلاں (جن کا نام حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ذکر فرمایا لیکن راوی کو یاد نہیں رہا) دو آدمی مقام ذی طویٰ میں ایک اونٹ پر سوار تھے ان کا اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگااور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ جب وہ آئیں تو دونوں سے یہ بات دریافت کر لینا۔ انہوں نے کہا، اچھا یہ دوسری نشانی ہوئی۔ پھر انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ایک قافلہ کی بابت معلوم کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ میں اس قافلہ پر مقام تنعیم میں گزرا ہوں ۔ انہوں نے کہا اس کی گنتی بتائیے اور وہ قافلہ کیا چیز لاد کر لا رہا ہے۔ اس کی ہیئت کیا ہے اور اس میں کون کون لوگ ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ، ہاں اس کی ہیئت ایسی اور ایسی ہے اور اس قافلے کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ اس پر دھاری دار دو بوریاں لدی ہوئی ہیں اور سورج نکلتے ہی مکہ میں پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا، یہ تیسری نشانی ہوئی۔ پھر وہ پہاڑ کی گھاٹی کی طرف دوڑے کہتے تھے کہ محمد نے ایک چیز بیان کی ہے۔ پھر وہ کدیٰ پہاڑی پر آ بیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ سورج کب نکلے تاکہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تکذیب کریں ۔ (معاذ اللہ) ناگہاں ان میں سے ایک آدمی بولا خدا کی قسم! یہ سورج نکل آیا۔ دوسری طرف انہی کے ایک آدمی نے اسی وقت کہا۔ خدا کی قسم! یہ قافلہ بھی آ گیا۔ اس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے ۔ اس قافلہ میں فلاں فلاں آدمی ہیں ۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمایا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے اور یہ کہا کہ (معاذ اللہ) یہ کھلا جادو ہے ۔

بیت المقدس میں بابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم

ابن ابی حاتم نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ معراج کی رات جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جبریل علیہ السلام براق پر سوار کر کے بیت المقدس پہنچے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے بابِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کہا جاتا ہے تو جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ تھا ۔ جبریل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر سوراخ کر دیا اور براق اس میں باندھ دیا ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶)

معراج شریف پر ایلیاء کے بطریق کی شہادت

حافظ ابو نعیم اصبہانی نے دلائل النبوۃ میں حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ کو قیصر روم کی طرف بھیجا ۔ راوی نے حضرت دحیہ کے جانے اور پہنچنے کا پورا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ قیصر روم نے (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا پیغام مبارک سن کر) ملک شام سے عرب کے تاجروں کو طلب کیا ۔ حضرت ابو سفیان اور ان کے ہمراہی قیصر روم کے سامنے پیش کئے گئے ۔ قیصر روم نے ان سے وہ مشہور سوالات کئے جنہیں بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے ۔ (اس وقت) ابو سفیان نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح قیصر روم کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے امر کو (معاذ اللہ) حقیر و ذلیل کیا جائے ۔ اس روایت میں ابو سفیان کا قول ہے میں چاہتا تھا کہ ہرقل قیصر روم کے سامنے کوئی ایسی بات کروں جس سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قیصر روم کی نظروں میں گر جائیں۔ مگر مجھے خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرے جھوٹ کی گرفت کرے اور میری تمام باتوں کو جھٹلا دے ۔ اس طرح میں لوگوں میں بدنام ہو جاؤں اور میری سرداری پر دھبہ آئے ۔ ابو سفیان نے کہا میں اسی فکر میں تھا کہ مجھے شب معراج کے بارے میں ان کا قول یاد آ گیا ۔ میں نے فوراً کہا کہ اے بادشاہ (قیصر روم) کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جسے سن کر (معاذ اللہ) تو ان کے جھوٹا ہونے کو پہچان لے ۔ بادشاہ نے کہا ، وہ کیا بات ہے ۔ ابو سفیان نے جواب دیا کہ ان کا کہنا ہے کہ میں ایک رات میں ارضِ حرم (مسجد بیت الحرام) سے چلا اور ایلیاء (بیت المقدس) کی مسجد اقصیٰ میں آیا اور اسی رات صبح سے پہلے مکہ واپس پہنچ گیا ۔ ابو سفیان نے کہا کہ جس وقت میں یہ بات کر رہا تھا اس وقت عیسائیوں کا پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بڑا پادری تھا قیصر روم کے پاس کھڑا تھا ۔ بیت المقدس کے اس بطریق نے کہا مجھے اس رات کا علم ہے ۔ بادشاہ نے کہا کہ تجھے کیا علم ہے ؟ اس نے کہا کہ میری عادت ہے کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیا کرتا ہوں۔ اس رات میں نے تمام دروازے بند کر دئیے۔ باوجود انتہائی کوشش کے ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا اور ساری قوت صرف کر دی مگر وہ دروازہ نہ ہلا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا انہوں نے اسے دیکھ کر کہا (ایسا معلوم ہوتا ہے) کہ اوپر کی عمارت نیچے آ گئی ہے اور دروازہ کی چھاؤں (اوپر کی چوکھٹ) کا اس پر دباؤ پڑ گیا ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہو سکتا۔ صبح دیکھیں گے کہ کس طرف سے یہ خرابی واقع ہوئی ہے ۔ بطریق نے کہا دروازہ کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر ہم لوگ واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا۔ یکایک دیکھتا ہوں کہ مسجد کا دروازہ بالکل ٹھیک ہے گوشۂ مسجد کے پتھر میں سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آ رہا ہے۔ (یہ منظر دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج رات باوجود انتہائی کوشش کے دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا پھر اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں) میں نے اپنے ہمراہیوں سے کہا آج رات اس دروازہ کا کھلا رہنا صرف نبی معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے تھا ۔ یقینا اس نبی معظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی ۔ پھر پوری حدیث بیان کی ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶۴)

حدیث معراج کے راوی

حدیث اسراء اور معراج کو مندرجہ ذیل صحابہ کرام و اسلاف عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے روایت فرمایا ۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے حافظ ابو الخطاب سے تفسیر ابن کثیر میں نقل فرمایا :

حضرت عمر فاروق، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت انس بن مالک، حضرت مالک بن صعصعہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت شداد بن اوس، حضرت ابی بن کعب، حضرت عبد الرحمن بن قرظ، حضرت ابو حبہ، حضرت ابو لیلیٰ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت جابر انصاری، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت بریدہ اسلمی، حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت ابو امامہ، حضرت سمرہ بن جندب، حضرت ابو الحمراء، حضرت صہیب رومی، حضرت ام ہانی، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۶۴)

بعض علماء نے ان حضرات کے علاوہ مندرجہ ذیل صحابہ کرام کا اضافہ بھی فرمایا حضرت صدیق اکبر، حضرت عثمان غنی، حضرت ابو درداء، حضرت بلال بن سعد، حضرت عبد اللہ بن زبیر، حضرت ابو سفیان، حضرت سیدہ ام کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ۔

شب معراج شق صدر مبارک

مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سینۂ اقدس اوپر سے نیچے تک چاک کیا اور قلب مبارک باہر نکالا پھر اسے شگاف دیا اور اس سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر پھینکا اور کہا کہ آپ کے اندر یہ شیطان کا ایک حصہ تھا ۔


خون کا لوتھڑا یا شیطان کا حصہ

علامہ تقی الدین سبکی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دل میں خون کا لوتھڑا پیدا فرمایا ہے اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں شیطان جو کچھ ڈالتا ہے یہ لوتھڑا اس کو قبول کرتا ہے جس طرح قوت سامعہ آواز کو اور قوت باصرہ مبصرات کی صورتوں کو اور قوت شامہ خوشبو، بدبو کو اور قوت ذائقہ ترشی، تلخی وغیرہ کو اور قوت لامسہ گرمی، سردی وغیرہ کیفیات کو قبول کرتی ہے اسی طرح دل کے اندر یہ منجمد خون کا لوتھڑا شیطانی وسوسوں کو قبول کرتا ہے۔ یہ لوتھڑا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قلب مبارک سے دور کر دیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں ایسی کوئی چیز باقی نہ رہی جو القائے شیطانی کو قبول کرنے والی ہو۔ علامہ تقی الدین فرماتے ہیں اس حدیث پاک سے یہی مراد ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی میں شیطان کا کوئی حصہ کبھی نہیں تھا ۔

اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب یہ بات تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ میں اس خون کے لوتھڑے کو کیوں پیدا فرمایا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ پہلے ہی ذاتِ مقدسہ میں اسے پیدا نہ فرمایا جاتا ؟ تو جواب دیا جائے گا کہ اس کے پیدا فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اجزائے انسانیہ میں سے ہے۔ لہٰذا اس کا پیدا کرنا خلقت انسانی کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کا نکال دینا یہ ایک امر آخر ہے جو تخلیق کے بعد طاری ہوا ۔ (انتہیٰ)

ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس کی نظیر بدن انسانی میں اشیائے زائدہ کی تخلیق ہے جیسے قلفہ کا ہونا، ناخنوں اور مونچھوں کی درازی اور اسی طرح بعض دیگر زائد چیزیں (جن کا پیدا ہونا بدن انسانی کی تکمیل کا موجب ہے اور ان کا ازالہ طہارت و لطافت کے لئے ضروری ہے) مختصر یہ کہ ان اشیاء زائدہ کی تخلیق اجزائے بدن انسانی کا تکملہ ہے اور ان کا زائل کرنا کمال تطہیر و تنظیف کا مقتضٰی ہے ۔ (شرح شفاء لملا علی قاری ج اول ص ۲۷۴) اقول وباللّٰہ التوفیق چونکہ ذات مقدسہ میں حظ شیطانی باقی ہی نہ تھا اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہمزاد مسلمان ہو گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’ولٰکن اسلم فلا یاْمرنی الا بخیر‘‘ میرا ہمزاد مسلمان ہو گیا لہٰذا سوائے خیر کے وہ مجھے کچھ نہیں کہتا ۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں کہ قلب بمنزلہ میوہ کے ہے جس کا دانہ اپنے اندر کے تخم اور گٹھلی پر قائم ہوتا ہے اور اس سے پختگی اور رنگینی حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ منجمد خون قلب انسانی کے لئے ایسا ہے جیسے چھوہارے کے لئے گٹھلی۔ اگر ابتدائً اس میں گٹھلی نہ ہو تو وہ پختہ نہیں ہو سکتا ۔ لیکن پختہ ہو جانے کے بعد اس گٹھلی کو باقی نہیں رکھا جاتا بلکہ نکال کر پھینک دیا جاتا ہے ۔ چھوہارے کی گٹھلی یا دانہ انگور سے بیج نکال کر پھینکتے وقت کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ جو چیز پھینکنے کے قابل تھی وہ پہلے ہی کیوں پیدا کی گئی؟ اس طرح اگر یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ قلب اطہر میں خون کا وہ لوتھڑا اسی طرح تھا جیسے انگور کے دانہ میں بیج یا کھجور کے دانہ میں گٹھلی ہوتی ہے اور قلب اطہر سے اس کو بالکل اسی طرح نکال کر پھینک دیا گیا جیسے کھجور اور انگور سے گٹھلی اور بیج کو نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے تو یہ سوال ہی پیدا نہ ہو گا کہ اس لوتھڑے کو قلب اطہر میں ابتدائً کیوں پیدا کیا گیا ؟ ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض ج ثانی ص ۲۳۹)

رہا یہ امر کہ فرشتوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے یہ کیوں کہا کہ ’’ہٰذہ حظک من الشیطان‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ (معاذ اللہ) آپ کی ذات پاک میں واقعی شیطان کا کوئی حصہ ہے ۔ نہیں اور یقینا نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ذات پاک ہر شیطانی اثر سے پاک اور طیب و طاہر ہے بلکہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں اگر آپ کی ذات پاک میں شیطان کے تعلق کی کوئی جگہ ہو سکتی تو وہ یہی خون کا لوتھڑا تھا جب اس کو آپ کے قلب مبارک سے نکال کر باہر پھینک دیا گیا تو اس کے بعد آپ کی ذاتِ مقدسہ میں کوئی ایسی چیز باقی نہ رہی جس سے شیطان کا کوئی تعلق ممکن ہو۔ خلاصہ یہ کہ الفاظ حدیث کا واضح اور روشن مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ کی ذاتِ مقدسہ میں شیطان کا کوئی حصہ ہوتا تو یہی خون کا لوتھڑا ہو سکتا تھا مگر جب یہ بھی نہ رہا تو اب ممکن ہی نہیں کہ ذاتِ اقدس سے شیطان کا کوئی تعلق کسی طرح سے ہو سکے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذاتِ مقدسہ ان تمام عیوب سے پاک ہے جو اس لوتھڑے کے ساتھ شیطان کے متعلق ہونے سے پیدا ہو سکتے ہیں ۔

شق صدر مبارک کے بعد ایک نورانی طشت جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس میں بھر دیا گیا۔ ایمان و حکمت اگرچہ جسم و صورت سے متعلق نہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر قادر ہے کہ غیر جسمانی چیزوں کو جسمانی صورت عطا فرمائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایمان و حکمت کو جسمانی صورت میں متمثل فرما دیا اور یہ تمثل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حق میں انتہائی عظمت و رفعت شان کا موجب ہے ۔

شق صدر مبارک کی حکمت

شب معراج حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سینۂ اقدس کے شق کئے جانے میں بے شمار حکمتیں مضمر ہیں جن میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ قلب اطہر میں ایسی قوت قدسیہ بالفعل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے ۔

حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دلیل

علاوہ ازیں شق صدر مبارک میں ایک حکمت بلیغہ یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی حیات بعد الموت پر دلیل قائم ہو گئی ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عادتاً بغیر روح کے جسم میں حیات نہیں ہوتی لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام مقدسہ قبض روح کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں چونکہ روح حیات کا مستقر قلب انسانی ہے ۔ لہٰذا جب کسی انسان کا دل اس کے سینہ سے باہر نکال لیا جائے تو وہ زندہ نہیں رہتا ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قلب مبارک سینۂ اقدس سے باہر نکالا گیا پھر اسے شگاف دیا گیا اور وہ منجمد خون جو جسمانی اعتبار سے دل کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے صاف کر دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بدستور زندہ رہے جو اس امر کی روشن دلیل ہے کہ قبض روح مبارک کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم زندہ ہیں ۔ کیونکہ جس کا دل بدن سے باہر ہو اور وہ پھر بھی زندہ ہے اگر اس کی روح قبض ہو کر باہر ہو جائے تو وہ کب مردہ ہو سکتا ہے ۔

قلب مبارک میں آنکھیں اور کان

جبریل علیہ السلام نے شق صدر مبارک کے بعد قلب اطہر کو جب زمزم کے پانی سے دھویا تو فرمانے لگے ’’قلب سدید فیہ عینان تبصران واذنان تسمعان‘‘ ’’قلب مبارک ہر قسم کی کجی سے پاک ہے اور بے عیب ہے اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں ۔‘‘ (فتح الباری جلد ۱۳ ص ۴۱۰)
قلب مبارک کے یہ کان اور آنکھیں عالم محسوسات سے وراء الوراء حقائق کو دیکھنے اور سننے کے لئے ہیں جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’انی ارٰی مالا ترون واسمع ما لا تسمعون‘‘ ’’میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سن سکتے ۔‘‘

دائمی ادراک

جب اللہ تعالیٰ نے بطور خرق عادات حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قلب اطہر میں آنکھیں اور کان پیدا فرما دئیے ہیں تو اب یہ کہنا کہ وراء عالم محسوسات کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دیکھنا اور سننا احیاناً ہے دائمی نہیں قطعاً باطل ہو گیا ۔ جب ظاہری آنکھوں اور کانوں کا ادراک دائمی ہے تو قلب مبارک کے کانوں اور آنکھوں کا ادراک کیونکر عارضی اور احیاناً ہو سکتا ہے؟ البتہ حکمت الٰہیہ کی بنا پر کسی امر خاص کی طرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دھیان نہ رہنا اور عدم توجہ اور عدم التفات کا حال طاری ہو جانا امر آخر ہے جس کا کوئی منکر نہیں اور وہ علم کے منافی نہیں ہے ۔ لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی باطنی سماع اور بصارت عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے ۔

شق صدر مبارک اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نوری ہونا : علامہ شہاب الدین خفا جی فرماتے ہیں کہ بعض لوگ یہ وہم کرتے ہیں کہ شق صدر مبارک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نور سے مخلوق ہونے کے منافی ہے لیکن یہ وہم غلط اور باطل ہے ان کی عبارت یہ ہے کہ ’’وکونہ مخلوقا من النور لا ینافیہ کما توہم‘‘ ۔ (نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض ج ۲ ص ۲۳۸)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...