Saturday, 30 November 2019

حضرت سیدنا غوثُ الاَعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت سیدنا غوثُ الاَعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسم گرامی عبدالقادر تھا ۔ کنیت ابو محمد تھی اور لقب محی الدین تھا ۔ عامۃ المسلمین میں آپ غوث اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) کے عرف سے مشہور ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نجیب الطرفین سید ہیں۔ والد ماجد حضرت ابو صالح موسیٰ (رحمۃ اللہ علیہ) تھے اور والدہ ماجدہ ام الخیر فاطمہ (رحمۃ اللہ علیھا) تھیں۔ ان کا لقب امۃ الجبار تھا ۔

ولادت : آپ کی پیدائش یکم رمضان 470 ھ بمطابق 17 مارچ 1078عیسوی میں ایران کے صوبہ کرمانشاہ کے مغربی شہر گیلان میں ہوئی، جس کو کیلان بھی کہا جاتاہے اور اسی لئے آپ کا ایک اورنام شیخ عبدالقادر کیلانی بھی ماخوذ ہے۔

جائے ولادت : حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مولد مبارک اکثر روایات کے مطابق قصبہ نیف علاقہ گیلان بلاد فارس ہے۔ عربی میں گیلان کے ’’گ‘‘ کو بدل کر جیلان لکھا جاتا ہے۔ اس طرح آپ رضی اللہ عنہ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی قصیدہ غوثیہ میں اپنے آپ کو جیلی فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں :

انا الجيلی محی الدين اسمی
واعلامی علی راس الجبال

حضرت سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سن ولادت و وصال : حضرت قدس سرہ العزیز کی ولادت باسعادت کے متعلق تمام تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں بلکہ جملہ محققین نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ آپ کی ولادت ملک ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ گیلان (جیلان) کے نیف نامی قصبہ میں میں گیارہ ربیع الثانی 470ھ کو سادات حسنی و حسینی کے ایک خاندان میں ہوئی۔ اس وجہ سے آپ گیلانی یا جیلانی کے لقب سے معروف ہوئے اور بغداد شریف میں گیارہ ربیع الاول 561 کو 91 سال کی عمر پاکر واصل بحق ہوئے ۔

زمانۂ رضاعت : سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ مادر زاد ولی تھے۔ شب ولادت کی صبح رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کو اپنے جلو میں لئے ہوئے تھی گویا یکم رمضان المبارک اس دنیائے رنگ و بو میں آپ کی آمد کا پہلا دن تھا۔ حضرت نے روز اول ہی روزہ رکھ کر ثابت کردیا کہ آپ جن صلاحیتوں سے بہرہ مند تھے ان کی سعادت کسبی نہیں وہبی تھی۔ پورے رمضان شریف میں یہ حالت رہی کہ دن بھر دودھ نہیں پیتے تھے۔ جس وقت افطار کا وقت ہوتا دودھ لے لیتے۔ نہ وہ عام بچوں کی طرح روتے چلاتے تھے اور نہ کبھی ان کی طرف سے دودھ کے لئے بے چینی کا اظہار کرتے۔ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خود بھی ایک شعر میں اپنے زمانہ رضاعت کے روزوں کا ذکر کیا ہے:

بداية امری ذکره ملاء الفضا
وصومی في مهدی به کان

’’میرے زمانہ طفولیت کے حالات کا ایک زمانہ میں چرچا ہے اور گہوارہ میں روزہ رکھنا مشہور ہے‘‘۔

آغاز تعلیم : جیلان میں ایک مقامی مکتب تھا۔ جب حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی عمر پانچ برس کی ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اس مکتب میں بٹھادیا۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی۔ دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم میں کافی دسترس ہوگئی۔ (تذکرہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، طالب ہاشمی ، ص36،35،چشتی)

اعلیٰ تعلیم کا حصول : حضرت سیدنا غوث اعظم 488ھ میں 18 سال کی عمر میں حصول علم کی غرض سے بغداد شریف لائے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب حضرت امام غزالی رضی اللہ عنہ نے راہ طریقت کی تلاش میں مسند تدریس سے علیحدگی اختیار کی اور بغداد کو خیر باد کہا۔ گویا مشیت ایزدی یہ تھی کہ ایک سر بر آور دہ علمی شخصیت نے بغداد کو چھوڑا ہے تو نعم البدل کے طور پر بغداد کی سر زمین کو ایک دوسری نادر روزگار ہستی کے قدومِ میمنت لزوم سے مشرف فرمادیا جائے۔

بغداد میں پہنچنے کے چند دن بعد سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے۔ یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکز علوم و فنون تھا اور بڑے بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے۔ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت پاکر اس دور کے دوسرے علماء سے بھی خوب استفادہ کیا۔

علم قرات، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم شریعت، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو۔ غرض آٹھ سال کی طویل مدت میں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ رضی اللہ عنہ نے ماہ ذی الحجہ 496ھ میں ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہیں تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کرسکے۔ سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے عمر بھر دینی علوم کی ترویج و اشاعت کا بھرپور کام کیا۔ آپ علم کو اپنے مرتبہ کی بلندی کا راز گردانتے۔ فرماتے ہیں:

درست العلم حتی صرت قطبا
ونلت السعد من مولی الموالی

میں علم پڑھتے پڑھتے قطبیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوگیا اور تائید ایزدی سے میں نے ابدی سعادت کو پالیا ۔
مسند تدریس : آپ رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی اپنے جدِّ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان: تعلموا العلم وعلموا الناس۔ علم پڑھو اور لوگوں کو پڑھائو سے عبارت تھی۔ تصوف و ولایت کے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے اور خلق خدا کی اصلاح و تربیت کی مشغولیت کے باوصف آپ نے درس و تدریس اور کار افتاء سے پہلو تہی نہ کی۔

آپ تیرہ مختلف علوم کا درس دیتے اور اس کے لئے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مقرر تھا۔ اگلے اور پچھلے پہر تفسیر، حدیث، فقہ، مذاہب اربعہ، اصول اور نحو کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید و قرات کے ساتھ قرآن کریم کی تعلیم ہوتی۔ مزید برآں افتاء کی مشغولیت تھی۔

شیخ موفق الدین ابن قدامہ آپ کے تدریسی انہماک کا حال یوں بیان کرتے ہیں:

ہم 561ھ میں بغداد حاضر ہوئے۔ اس وقت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو علم، عمل اور فتویٰ نویسی کی اقلیم کی حکمرانی حاصل تھی۔ آپ کی ذات میں متعدد علوم ودیعت کئے گئے تھے۔ علم حاصل کرنے والوں پر آپ کی شفقت کے باعث کسی طالب علم کا آپ کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اتباع شریعت : سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ نے تمام زندگی اپنے نانا جان حضور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں بسر کی۔ آپ جاہل صوفیوں اور نام نہاد پیروں کی طرح طریقت و شریعت کو جدا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی نظر میں راہ تصوف و طریقت کے لئے شریعت محمدیہ پر گامزن ہونا ضروری ہے، بغیر اس کے کوئی چارہ کار نہیں۔ سچ یہ ہے کہ آپ کی ذات بابرکات شریعت و طریقت کی مجمع البحرین ہے۔

مسند وعظ و ارشاد : سرکار غوثیت مآب رضی اللہ عنہ نے ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کے بعد درس و تدریس اور وعظ و ارشاد کی مسند کو زینت بخشی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ستر ستر ہزار افراد کا مجمع ہوتا۔ ہفتہ میں تین بار، جمعہ کی صبح، منگل کی شام اور اتوار کی صبح کو وعظ فرماتے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شرکت کرتے۔ بادشاہ، وزراء اور اعیان مملکت نیاز مندانہ حاضر ہوتے۔ علماء و فقہاء کا جم غفیر ہوتا۔ بیک وقت چار چار سو علماء قلم دوات لے کر آپ کے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے ۔(چشتی)

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رضی اللہ عنہ رقمطراز ہیں : حضرت شیخ کی کوئی محفل ایسی نہ ہوتی جس میں یہودی، عیسائی اور دیگر غیر مسلم آپ کے دست مبارک پر اسلام سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور جرائم پیشہ، بدکردار، ڈاکو، بدعتی، بد مذہب اور فاسد عقائد رکھنے والے تائب نہ ہوتے ہوں ۔

تمام مے کدہ سیراب کردیا جس نے
وہ چشم یار تھی، جام شراب تھا، کیا تھا؟

آپ رضی اللہ عنہ کے مواعظ حسنہ توحید، قضا و قدر، توکل، عمل صالح، تقویٰ و طہارت، ورع، جہاد، توبہ، استغفار، اخلاص، خوف و رجاء، شکر، تواضع، صدق وراستی، زہد و استغنا، صبرو رضا، مجاہدہ، اتباع شریعت کی تعلیمات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے آئینہ دار ہوتے ۔

آپ رضی اللہ عنہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے حکمرانوں کو بلاخوف خطر تنبیہ فرماتے۔ علامہ محمد بن یحییٰ حلبی رقمطراز ہیں:

آپ رضی اللہ عنہ خلفاء و وزراء، سلاطین، عدلیہ اور خواص و عوام سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرماتے اور بڑی حکمت و جرات کے ساتھ بھرے مجمع اور کھلی محافل و مجالس میں برسر منبر علی الاعلان ٹوک دیتے۔ جو شخص کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ملامت کی پرواہ نہ کرتے۔ (سفرِ محبت، محمد محب اللہ نوری، ص62تا 64)

ملفوظات عالیہ : آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اکابر صوفیاء و مشائخ اور عرفاء و فقراء حاضر ہوکر اسرار و معارف کی نسبت سوال کرتے تو آپ جواب مرحمت فرماتے تھے:

محبت: محبت ایک نشہ ہے جس کے ساتھ ہوش نہیں، ذکر ہے جس کے ساتھ محو نہیں۔ اضطراب ہے جس کے ساتھ سکون نہیں۔

ہمت: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے نفس کو دنیا سے، روح کو تعلقات آخرت سے، اپنے قلب کو ارادوں سے اور اپنے سرکو موجودات سے علیحدہ کرلینا ہمت ہے۔

ذکر: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا دلوں میں حق کے اشاروں سے ایک ایسا اثر ہو جس کو غفلت مکدر نہ کرے۔ اس وصف کے ساتھ چپ رہنا، سانس لینا، قدم چلنا، پھرنا سب ذکر ہی ہوگا ۔(چشتی)

شوق : آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا عمدہ شوق یہ ہے کہ مشاہدہ سے وہ ملاقات سے سست نہ پڑ جائے، دیکھنے سے ساکن ہو، قرب سے ختم نہ ہو اور محبت سے زائل نہ ہو بلکہ جوں جوں ملاقات بڑھتی جائے شوق بھی بڑھتا جائے۔

توکل: حضرت شیخ رضی اللہ عنہ سے توکل کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا کہ دل کا خدا کی طرف مشغول ہونا اور غیر خدا سے الگ ہونا توکل ہے۔ جس پر پہلے بھروسہ کرتا تھا اس کی وجہ سے اب اس کو بھول جائے اور اس کے سبب ہر غیر سے مستغنی ہوجائے۔

توبہ : آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا توبہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندے کی طرف اپنی عنایت سے دیکھے اور اس عنایت سے اپنے بندے کے دل کی طرف اشارہ کرے، اس کو خاص اپنی شفقت سے اپنی طرف قبضہ کرتے ہوئے کھینچ لے۔

صبر: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا صبر یہ ہے کہ بلا کے ہوتے ہوئے اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب و ثبات پر قائم رہے اور اس کے کڑوے فیصلوں کو فراخ دلی کے ساتھ احکام کتاب و سنت کے مطابق مانے۔

صدق: آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا صدق کی تین اقسام ہیں:

صدق اقوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام دل کی موافقت پر ہو۔

اعمال میں یہ کہ ان کا قیام حق کی رؤیت پر ہو۔

احوال میں یہ ہے کہ ان کا قیام خود حق پر مبنی ہو، انہیں نہ رقیب کا مطالبہ مکدر کرے اور نہ فقیہہ کا جھگڑا۔

رضا: حضرت شیخ رضی اللہ عنہ سے رضا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ یہ ہے کہ تردد کو اٹھا دیا جائے اور جو کچھ اللہ کی طرف سے ہو اسی پر کفایت کرے اور جب کوئی قضا نازل ہو تو دل اس کے زوال کی طرف نہ جھانکے۔

دعا: حضرت شیخ سے دعا کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا کہ اس کے تین درجے ہیں:

تصریح
اشارہ
تعریض

تصریح: یہ ہے کہ اس کا تلفظ ہو تصریح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس قول میں ہے کہ اے میرے رب! مجھے اپنا آپ دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھ لوں۔ یہ رؤیت کی تصریح ہے۔

اشارہ: یہ وہ قول ہے جو قول میں چھپا ہوا ہو یعنی اشارہ قول مخفی ہے۔ اشارہ ابراہیم خلیل علیہ السلام کا یہ قول ہے کہ اے میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ یہ رؤیت کی طرف اشارہ ہے۔

تعریض: تعریض وہ التجا ہے جو دعا میں چھپی ہوئی ہو۔ تعریض میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول ہے کہ خداوند ہم کو ایک لحظہ کے لئے بھی ہمارے نفسوں کے سپرد نہ کر۔ (ماخوذ زبدۃ الآثار،بہجۃ الاسرار ، نزہۃ الخاطر قلائد الجواہر ، الفتح الربانی،چشتی)


سلسلہ : عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تعلق حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کے روحانی سلسلے سے ملتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمات و افکارکی وجہ سے شیخ عبدالقادر جیلانی کو مسلم دنیا میں غوثِ اعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ہے۔

اکابرینِ اسلام کی عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے بارے پیشین گوئی

حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ : قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله.

کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں؟ فرمایا، اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔ سوائے اولیاء اللہ کے اْسے کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک عجمی نوجوان ظاہر ہوگا۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص و عام جان لے گا اور وہ فرمائے گا کہ قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله. میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

سالک السالکین میں ہے کہ جب سیدنا عبدالقادر جیلانی کو مرتبہء غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے: قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔

منادئ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں ۔ (تلخيص بهجة الاسرار،چشتی)

بچپن کے ایام : تمام علماء و اولیاء اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا عبدالقادر جیلانی مادرزاد یعنی پیدائشی ولی ہیں۔ آپ کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ آپ ماہِ رمضان المبارک میں طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کبھی بھی دودھ نہیں پیتے تھے اور یہ بات گیلان میں بہت مشہور تھی کہ ’’سادات کے گھر انے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان میں دن بھر دودھ نہیں پیتا‘‘۔

بچپن میں عام طور سے بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں لیکن آپ بچپن ہی سے لہو و لہب سے دور رہے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ

’’جب بھی میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتا تو میں سنتا تھا کہ کوئی کہنے والا مجھ سے کہتا تھا اے برکت والے، میری طرف آ جا‘‘۔

ولایت کا علم : ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو ولایت کا علم کب ہوا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں مکتب میں پڑھنے کے لئے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جس کو تمام اہلِ مکتب بھی سْنا کرتے تھے کہ ’’اللہ کے ولی کے لئے جگہ کشادہ کر دو‘‘۔

پرورش وتحصیلِ علم : آپ کے والد کے انتقال کے بعد ،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے کی۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کا شجرہء نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن اور والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین سے ملتا ہے اور یوں آپ کا شجرہء نسب حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اٹھارہ ( 18) سال کی عمر میں شیخ عبدالقادر جیلانی تحصیل ِ علم کے لئے بغداد (1095ء) تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور تفسیرکے لئے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے۔

ریاضت و مجاہدات : تحصیل ِ علم کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے بغدادشہر کو چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی ۔

1127ء میں آپ نے دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک پھیل گئی۔ 40 سال تک آپ نے اسلا م کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سلسلہ تبلیغ کو مزید وسیع کرنے کے لئے دور دراز وفود کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ خود سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے تبلیغِ اسلام کے لئے دور دراز کے سفر کئے اور برِصغیر تک تشریف لے گئے اور ملتان (پاکستان) میں بھی قیام پذیر ہوئے ۔

حلیہ مبارک : جسم نحیف، قد متوسط، رنگ گندمی، آواز بلند، سینہ کشادہ، ڈاڑھی لمبی چوڑی، چہرہ خوبصورت، سر بڑا، بھنوئیں ملی ہوئی تھیں۔

فرموداتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اے انسان! اگر تجھے محد سے لے کر لحد تک کی زندگی دی جائے اور تجھ سے کہا جائے کہ اپنی محنت، عبادت و ریاضت سے اس دل میں اللہ کا نام بسا لے تو ربِ تعالٰی کی عزت و جلال کی قسم یہ ممکن نہیں، اْس وقت تک کہ جب تک تجھے اللہ کے کسی کامل بندے کی نسبت وصحبت میسر نہ آجائے۔

اہلِ دل کی صحبت اختیار کر تاکہ تو بھی صاحبِ دل ہو جائے۔

میرا مرید وہ ہے جو اللہ کا ذاکر ہے اور ذاکر میں اْس کو مانتا ہوں، جس کا دل اللہ کا ذکر کرے۔

القاباتِ غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

غوثِ اعظم
پیران ِ پیر دستگیر
محی الدین
شیخ الشیوخ
سلطان الاولیاء
سردارِ اولیاء
قطب ِ ربانی
محبوبِ سبحانی
قندیل ِ لامکانی
میر محی الدین
امام الاولیاء
السید السند
قطب اوحد
شیخ الاسلام
زعیم العلماء
سلطان الاولیاء
قطب بغداد
بازِ اشہب
ابوصالح
حسنی اَباً
حسینی اْماً
حنبلی مذہبا ً

علمی خدمات : حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے طالبین ِ حق کے لئے گرانقدر کتابیں تحریرکیں، ان میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں:

الفتح الربانی والفیض ِ الرحمانی
ملفوظات
فتوح الغیب
جلاء الخاطر
ورد الشیخ عبدالقادر الجیلانی
بہجۃ الاسرار
آدابِ سلوک و التوصل الی ٰ منازل ِ سلوک

وصال مبارک : حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال 1166ء کو ہفتہ کی شب (8 ربیع الاوّل561 ہجری) کو نواسی (89) سال کی عمر میں ہوا اور آپ کی تدفین، آپ کے مدرسے کے احاطہ میں ہوئی۔

سیرت غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشدوہدایت کے لئے مختلف وقتوں اور خطوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ہرنبی ورسول اللہ تعالی کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہر بن کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی کْل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعْوث فرمایا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تو رْشدوہدایت اور احیا دین و ملت کے لئے مظہر ذات خدامحبوب رب العلیٰ نے غیبی خبر دی کہ’’ ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیداہوگا‘‘ (مشکوٰۃشریف) نیز فرمایاکہ ’’ اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے‘‘ (ابوداود) حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ’’ علمائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں‘‘ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’چالیس ابدال (اولیا) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر فتح حاصل ہوگی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا(مشکوۃشریف) آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’علماء کی زندگی کے لئے مچھلیاں دْعاکرتی ہیں‘‘ (مشکوٰۃ شریف) نیز فرمایا کہ ’’میری اْمت میں ہمیشہ تین سو اولیاء حضرت آدم علیہ السالم کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہوگا اور تین حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر اور ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم مسلمانوں سے پوری کردی جاتی ہے‘‘۔ (مرقاۃ ملاعلی قاری)

علما حق فرماتے ہیں کہ’’ اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیا رحمت عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے اور اْولیا و علما اِس کا ذریعہ ہیں ‘‘اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ملت مصطفویہ کے سامنے علما و مشائخ نے ایک خوبصورت اور زریں اْصول یہ پیش کردیاہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دوجہاں سیدعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اْولیا اللہ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اِن اولیا اللہ کی صف ِ اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیاء اتقیاء اور دیگر اولیاء بھی شامل ہیں۔ اولیا کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ علم و فضل، کشف و کرامات، مجاہدات وتصرفات اور حسب ونسب کی بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو اولیاء کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔ یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ کو جب ہم ولیوں کا تاجدار کہتے ہیں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت کو شامل نہیں کرناچاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو مقام ولایت عطافرماتا ہے اْن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔آپ غوث اعظم، غوث الثقلین، امام الطرفین، رئیس الاتقیائ، تاج الاصفیائ، قطبِ ربانی، شہبازلامکانی، محی الملت والدین، فخرشریعت وطریقت، ناصرسْنت، عماد حقیقت، قاطع بدعت، سیدوالزاہدین، رھبرِ عابدین، کاشف الحائق، قطب الاقطاب، غوث صمدانی، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ۔(چشتی)

آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اْم الخیر بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظم رمضان میں دن بھر میں کبھی دودھ نہیں پیتے تھے۔ ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29شعبان کو چاند کی رؤیت نہ ہوسکی لوگ تردوّمیں تھے لیکن اِس مادر زادولی حضرت غوث اعظم نے صبح کو دودھ نہیں پیا۔ بالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودہ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کایہ معمول رہتاتھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودہ نہیں پیتے تھے۔خواہ کتنی ہی دودہ پلانیکی کوشش کی جاتی یعنی رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطارکرتے توآپ بھی دودہ پینے لگتے تھے۔ ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکارغوث اعظم کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپ کے مرتبہ فلک کو چھوسکتا یا اِس کااندازہ کرسکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظم اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میںجب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتاتو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہوولعب سے بازرہو۔جِسے سْن کر میں رْک جایاکرتاتھا اور اپنے گردوپیش جو نظرڈالتاتومجھے کوئی آوازدینے والا نہ دِکھائی دیتاتھاجس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتی اور میں جلدی سے بھاگتاہواگھرآتااور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتاتھا۔

اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سْناکرتاہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آکرکے مجھے متنبہ کردیتی ہے کہ تم کو اِس لئے نہیں پیداکیاہے کہ تم سویاکرو۔ حضرت غوث اعظم فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہاتھا کہ ایک گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََاِس نے کلام کیا اے عبدالقادر! تم اِس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہو تو میںنے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اْوپرایک ہیبت سی طاری ہوگئی۔ مشہور روایت ہے کہ جب سیدناسرکار غوث اعظم کی عمر شریف چارسال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدناشیخ ابوصالح جن کا لقب’’ جنگی دوست ‘‘ ہے اِس کی وجہ سے ’’قلائدالجواہر‘‘میں بتائی گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہادفرماتے تھے اور نفس کشی کوتزکیہ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ وہ آپ کو رسم بسم اللہ خوانی کی ادائیگی اور مکتب میں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اْستاد کے سامنے آپ دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے اْستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18 پارے زبانی پڑھ ڈالے۔ استاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا....؟ اور کیسے پڑھا...؟ تو آپ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ ہیں جن کا وہ اکثر وردکیاکرتی تھیں جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ سپارے سْنتے سْنتے مجھے بھی یاد ہوگئے تھے (یہ شان ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظم آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کومن وعن سچ ثابت کرچکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جوکچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اورپڑھ رہی ہوتی ہے تو اْس کااثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے) والے بچے پر ضرور پڑ رہا ہوتاہے اور آج چاند کو چھولینے اور اِس پر چہل قدمی کرنے کی دعویدار 21ویں صدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکا کے سائنسدان اپنی تحقیقوں سے یہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یامثبت سوچ رکھتی ہے اِس کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پر پڑتا ہے یہ بات سائنس نے آج دریافت کی ہے، جبکہ حضور غوث اعظم نے صدیوں قبل اِسکا عملی ثبوت دنیاکے سامنے خود پیش کردیاتھا اِس سے ہم اْمت مسلمہ کو فخرہوناچاہئے کہ موجودہ دنیا کی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہرنہیں ہوسکتی)۔(چشتی)

اور یوں آپ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طور پر قرآن کریم ختم کیااور چند دوسری دینی کتابیں پڑھ ڈالیں تھیں۔ حضرت غوث اعظم نے حضرت شیخ حماد بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے۔ سرکارغوث اعظم نے528سنہ ھ میں درس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ سے شرف تلمذ حاصل کرکے علوم دینیہ سے مالامال ہونے لگے آپ کی بزرگی وولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے غوث اعظم ہونے پر تمام اْمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ’’کسی ولی کی کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں تواتر سے منقول ہیں(نزہۃ الخاطر)۔خلق خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبرواصاغرسب ہی عالم استعجاب میں مبتلاہوجاتے ہیں۔ مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظم کا مداح اور آپ کے فیض کا حاجت مند نظرآتاہے۔ مقبولیت وہردلعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔اِسے آپ یوںبھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حیات مقدس کاایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے علمی کمال کا تویہ حال تھاکہ جب بغدادمیں آپ کی مجالس وعظ میں ستر، ستر (70,70) ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسدہونے لگاکہ ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کرگیاہے۔

چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمدبغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میں علم کے سمندر اور حدیثوں کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے آپ کی مجلس وعظ میں بغرض امتحان حاضرہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے۔ پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کودیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلادیں۔ اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایاکہ اب ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش کی کیفیت اور اضطراب پیداہوگیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے ۔ (بہجتہ الاسرار) بغیر کسی مادی وسیلہ (یعنی ساؤنڈ سسٹم کے بغیر) ستر ہزار کے مجمع تک اپنی آواز پہنچانااور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے جو روزانہ ظاہرہوتی رہتی تھی۔

سیدناعوث اعظم کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں اولیاء وصلحاء بھی موجودتھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں میں تعدادموجودتھی)دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایاکہ (قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله) ترجمہ:-میرایہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے‘‘تو مجلس میں موجود تمام اولیاء نے اپنی گردنوں کو جھکا دیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اولیاء نے کشف کے ذریعے آپ کے اعلان کو سنا اور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کردیں ۔ حضرت خواجہ شیخ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے گردن خم کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آقا آپ کا قدم میری گردن پر بھی اور میرے سر پر بھی‘‘ ۔ (اخبار الاخيار، شمائم امدادية، سفينة اوليا، قلائدالجواهرِ، نزهته الخاطر، فتاویٰ افريقه کرامات غوثية اعلی حضرت) ۔ حضور غوث اعظم کی حیات مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا اور وہیں پر آپ کا وصال ہوااور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے ساتھ طوافِ زیارت کیاکرتے ہیں اور فیوض و برکات سمیٹتے ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

درسں قرآن موضوع : عَفَا اللہُ عَنْہَا ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ۔ اشیاء میں اصل جواز ہے

درسں قرآن موضوع : عَفَا اللہُ عَنْہَا ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ۔ اشیاء میں اصل جواز ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسْـَٔلُوۡا عَنْ اَشْیَآءَ اِنۡ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَ اِنۡ تَسْـَٔلُوۡا عَنْہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ؕعَفَا اللہُ عَنْہَا ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ۔ ﴿سورہ مائدہ آیت نمبر 101﴾
ترجمہ : اے ایمان والوایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے ۔

لَا تَسْـَٔلُوۡا عَنْ اَشْیَآءَ اِنۡ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ : ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں ۔ اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک روز سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ حذافہ ۔ پھر فرمایا ’’اور پوچھو ، تو حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اُٹھ کر ایمان و رسالت کا اقرار کرکے معذرت پیش کی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)

امام ابنِ شہاب زہری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی والدہ نے اُن سے شکایت کی اور کہا کہ ’’تو بہت نالائق بیٹا ہے ،تجھے کیا معلوم کہ زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کا کیا حال تھا؟ خدانخواستہ ،تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی ۔ اس پرحضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اگر سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کسی حبشی غلام کو میرا باپ بتادیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا ۔ (تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۵۷۔)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ’’ لوگ بطریقِ اِستہزاء اس قسم کے سوا ل کیا کرتے تھے ، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ؟ کوئی پوچھتا کہ میری اونٹنی گم ہوگئی ہے، وہ کہاں ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا تسألوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم، ۳/۲۱۸، الحدیث: ۴۶۲۲)

مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔ اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے ۔ (مسلم، کتاب الحج۔، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص ۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷)،چشتی)

اس آیت اور ا س کی تفسیر میں جو روایات ذکر ہوئیں ان سے چار اہم باتیں معلوم ہوئیں
(1) ۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا علم غیب : ان روایات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں کیونکہ کسی کا حقیقی باپ کون ہے ؟ اس کا تعلق غیب سے ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کلی علم عطا فرمایا گیا ورنہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ نہ فرماتے کہ جو چاہو پوچھو بلکہ فرماتے کہ فلاں فلاں شعبے کے متعلق پوچھ لو یا فرماتے کہ صرف شریعت کے متعلق جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ سرورِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بغیر کسی قید کے فرمانا کہ جوپوچھنا ہے پوچھو اور پوچھنے والوں کا بھی ہر طرح کی بات پوچھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سب کچھ جانتے ہیں اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہی عقیدہ رکھتے تھے ۔
(2) ۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اختیارات : آخری روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جس چیز کو فرض فرمادیں وہ فرض ہوجائے ۔

(3) ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت پر شفقت : آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی امت پر نہایت شفیق ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اگر ایک مرتبہ ہاں فرمادیتے تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا لیکن تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے امت پر آسانی فرمائی اور ہاں نہیں فرمایا ۔
نوٹ : سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کے متعلق فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ان کتابوں کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔ (1)خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ(علم غیب سے متعلق 120دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب)(2)اَنْبَاءُ الْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرٍّ وَاَخْفٰی(حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کومَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کاعلم دیئے جانے کا ثبوت)(3)اِزَاحَۃُ الْعَیْبِ بِسَیْفِ الْغَیْبِ (علم غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اوربدمذہبوں کا رد)۔اور سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے کائنات اور شریعت دونوں کے متعلق اختیارات جاننے کیلئے فتاوی رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم تصنیف اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاء (مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کے لئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں ۔

(4) ۔ حلت و حرمت کا اہم اصول: اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس امر کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح و جائز ہے ۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ حلال وہ ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اورحرام وہ ہے جس کو اُس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا تووہ معاف ہے ۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفرائ، ۳/۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)

الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے۔
اسلام آسان دین ہے، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوںکی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
جامع ترمذی کتاب الباس : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ.
ترجمہ : سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفرائ، ۳/۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲،چشتی)
یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ۔ هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی ۔ حدیث پاک میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔
مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن
ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید ۔
ترجمہ ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے۔
جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة. ترجمہ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔
ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية ۔ سيوطي، الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔ ابن عابدين شامي، رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر ۔
ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.
ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة
الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع.،چشتی)
ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔
ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95 ۔ عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية ۔ ابن حزم، المحلی، 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده
الأصل في الأشياء الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه
مبارک پوری، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔
الأصل في الأعيان الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
الحل هو الأصل في الأشياء.
’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر ، ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167 ۔
أصل الأفعال الإباحة.
’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے۔‘‘
إبن قيم، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل
الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر
’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205 ۔
الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع.
’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے۔
رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
حلال و حرام :جس چیز کو اللہ نے حرام کیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا اس میں گنجائش اور توسیع رہی اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔(تفسر عثمانی جلد اوّل صفحہ نمبر 577 علاّمہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی)
نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی۔
اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے۔
لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے۔
شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام
کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔( ہدیتہ المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی )
او رنواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔( ھدیتہ المھدی )
مشھو رنجدی عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ ) اسی طرح شیخ عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی،چشتی)
مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے ا س نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں ۔’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘ ۔ (مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند)
یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اورسنت کے موافق نہ ہوں ۔اگر آج کل کا وہابی ہربدعت کو گمراہی کہے تووہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتاہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ او ران کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے او ران کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا۔ان میں رکوع قائم کرنا ،اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ،اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ،گاڑیوں او رموٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتاتھا ۔پھریہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہوسکتاہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے او ردنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیاجائے تو ا سپربھی ثوا ب ملتاہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں ص 167پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتاہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کرپڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کیلئے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہواتھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہربدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطافرمائے (آمین ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...