اہلسنت نام کی چوری اور وھابیوں کی اصلیّت اُن کی ہی زبانی۔ ایک تحقیقی تجزیہ:برائے کرم وقت نکال کر تعصُّب کی عینک اُتار کر ضرور پڑھیں۔پھر انصاف کریں جزاک اللہ خیرا ۔ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان
انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زبان میری ہے بات ان کی
ایک عام سوال ہے جو بار بار دہرایا جارہا ہے اور مختلف مقامات سے استفسار کیا جارہا ہے کہ ایک کالعدم وہابی جماعت ( سپاہ صحابہ ) نے اپنا نام ’’اہلسنت و الجماعت‘‘ کیوں رکھ لیا جبکہ ان کے عقائد واعمال و معمولات بدستور وہابیانہ ہیں اور بانی وہابیت محمد بن عبدالوہاب نجدی اور بابائے وہابیت مولوی اسماعیل دہلوی کے وہابیانہ عقائد کے عامل و قائل ہیں، بکثرت مقامات پر یہ سوال سامنے آیا خطوط اور موبائل پر بار بار دریافت کیا گیا کہ وہابی اہلسنت والجماعت کیوں کہلانے لگے؟ فقیر اپنے انداز فکر اور مستقل نصب العین کے مطابق دیوبندی وہابی مکتب فکر کی وہابیت کا ثبوت اپنی طرف سے کچھ کہنے لکھنے کی بجائے ان کی اپنی مستند معتبر کتابوں سے پیش کرے گا۔
مگر پہلے یہ واضح کردوں کہ بیشتر کتب لغت میں وہابی کا معنی محمد بن عبدالوہاب نجدی کا پیروکار لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو فیروز اللغات، امیر اللغات، حسن اللغات وغیرہ وغیرہ۔
یہی کچھ اہلسنت وجماعت کے مسلمہ ومقتدر وموقر امام و فقیہ زبدۃ المحققین علامہ امین الدین محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی نے ردالمحتار حاشیہ در مختار جلد ثالث کتاب الجہاد باب البغاۃ میں ارقام فرمایا۔علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ جیسا ہمارے زمانے میں محمد بن عبدالوہاب کے پیروں (اتباع کرنے والوں) سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کرکے حرمین محترمین پر تغلب کیا (چڑھائی کی) اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا یہ عقیدہ تھا کہ بس وہی مسلمان ہیں اور جو ان کے مذہب پر نہیں وہ سب مشرک ہیں۔ اس لئے انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کا قتل مباح (جائز) ٹھہرا لیا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی شوکت توڑدی اور ان کے شہروں کو ویران کردیا اور تشکر مسلمین کو ان پر فتح دی ۱۲۳۳ھ میں۔
احناف کے مسلمہ امام و فقیہ کے غیر مبہم واضح ارشاد سے ثابت ہوا کہ وہابی محمد بن عبدالوہاب نجدی کو ماننے والے متبعین کو کہتے ہیں۔ انہوں نے اہلسنت و علماء اہلسنت کو قتل کیا اور مسلمانوں کو مشرک قرار دیا اور حرمین طیبین پر چڑھائی کی۔
اب آیئے اور دیکھئے۔ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین کو اچھا اور عامل بالحدیث کہنے والا کون ہے؟ اور اس کی قصیدہ خوانی کرنے والا کون ہے؟ مدرسہ دیوبند کے بانی ثانی اور ان کے اپنے بقول ان کے خود ساختہ قطب عالم و غوث اعظم مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی دیوبندی صاف لکھتے اور ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا اور اس کے مقتدی اچھے ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ جلد اول، ص 111، وجدید ایڈیشن فتاویٰ رشیدیہ)
اب خود وہابی ہوکر اہلسنت والجماعت کہلانے اور اپنا نیا نام اہلسنت والجماعت رکھنے والے خود بتائیں کہ بقول علامہ امام ابن عابدین شامی رحمتہ اﷲ علیہ اہلسنت اور علماء اہلسنت کو قتل کرنے والے مسلمانان اہلسنت کو مشرک قرار دینے والے حرمین شریفین پر چڑھائی کرنے والے کے عقائد کو اچھا کہنے والا اسے عامل بالحدیث کہنے والا۔ شرک و بدعت سے روکنے والا کہنے والا ان کے عقائد کو عمدہ کہنے والا مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اور گنگوہی کو ماننے والے کس طرح اہلسنت و الجماعت ہوسکتے ہیں؟ اور کون مان سکتا ہے؟
اور سنئے اور دیکھئے یہ ہے منہ بولتا ثبوت
دیوبندی وہابی مکتب فکر کے حکیم الامت مولوی اشرفعلی صاحب تھانوی ڈنکے کی چوٹ پر اپنے وہابی ہونے کا خندہ پیشانی سے اقرار و اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بھائی یہاں (ہماری مسجد و مدرسہ میں) وہابی رہتے ہیں، یہاں (ہمارے پاس) فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو‘‘ (اشرف السوانح جلد اول، ص 45)
ایک اور جگہ یہی تھانوی صاحب فانی فی الوہابیت سینہ تان کر کہتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں ’’اگر میرے پاس دس ہزا روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں‘‘ (الافاضات الیومیہ ملفوظات تھانویہ جلد 5ص 67، و جلد 2، ص 221)
لوگوں کوپیسے دے کر اپنے ہم عقیدہ وہابی بنانے کی کتنی تڑپ اور کتنی فکرو آرزو ہے تو پھر یہ حضرات اور ان کے عقیدت مند وہم عقیدہ اہلسنت والجماعت کیسے ہوسکتے ہیں؟
تھانوی صاحب کا مزید فراخدلانہ اقرار
کہتے ہیں ’’ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ اہل نجد (محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے متبعین) اہل نجد کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا رائے یہ ہے کہ وہ نجدی ہیں، وجدی نہیں، صرف یہی ایک کسر ہے… فرمایا کہ ابن سعود اپنی ذات سے بہت غنیمت ہے… یہ شکایت کرنے والے ہی کون سے پاک صاف ہیں یہ بھی وہاں جاکر گڑبڑ کرتے ہیں۔ وہ ان کی حرکات کو تشدد سے روکتے ہیں‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، جلد اول، ص 279 ملخصاً)
تھانوی صاحب نے جھٹ سے یہ تو کہہ دیا کہ بہت غنیمت ہے۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ، ام المومنین حضرت زینب، ام المومنین حضرت حفصہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم و دیگر ازواج مطہرات کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں۔ سیدنا امیر المومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورین سیدنا امام حسن مجتبیٰ سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابوذر، سیدنا عباس، سیدنا قتادہ سیدنا عثمان ابن مظعون، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سیدنا سعد ابن وقاص، شہزادہ رسول اکرم، سیدنا ابراہیم سیدنا طیب مطاہر، سیدنا قاسم رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم ،جیسے صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کہاں ہیں؟
بنت رسول حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا، بنت رسول سیدہ حضرت ام کلثوم بنت رسول سیدہ حضرت رقیہ بنت رسول حضرت زینب رضی اﷲ تعالیٰ عنہن کے مزارات مقدسہ و دیگر صحابہ کرام واہل بیت اطہار کے مزارات مقدسہ کو کس جرم میں توڑا گیا، کیوں شہید کیاگیا، کیا یہ مزارات مقدسہ مشرکین مکہ و مدینہ ابوجہل، ابولہب وغیرہ کفار بناکر گئے تھے۔ تھانوی وہابی صاحب جو بہت غنیمت ہونے کی ڈگری اور سند دے رہے ہیں، کیا یہ کھلی وہابیت نہیں اور پھر وہابی ہوکر اہلسنت و الجماعت کہلانا اور یہ نام رکھنا کہاں تک مناسب اور مبنی برحقیقت ہے۔ جلیل القدر صحابہ کرام عظیم المرتبت اہل بیت اطہار رضوان اﷲ تعالیٰ عنہم کے مزارات کی پامالی و بے حرمتی وانہدام کی مفصل جامع رپورٹ مولانا محمد علی جوہر مولوی سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد، ظفر علی خاں، مولانا محمد عرفان، سید خورشید حسن، مسٹر شعیب قریشی، عینی مشاہدوں پر مشتمل رپورٹ خلافت کمیٹی صفحہ 30-23، صفحات 879,88,85,80 پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مقالات مولانا محمد علی جوہر میں بھی واضح شواہد ملیں گے۔
وہابی کے معنی پر تھانوی صاحب جھوم گئے
تھانوی صاحب نے اپنے ملفوظ 638 کے تحت ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ مولانا فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی فرمایا کہ بدعتی کے معنی ہیں۔ باادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں۔ بے ادب با ایمان(الافاضات الیومیہ جلد 2، ص 326)
یہاں بھی وہابی سے حسن عقیدت و محبت ظاہر ہے مگر تھانوی صاحب نے مولوی فیض الحسن صاحب کے من گھڑت خلاف واقع اور خلاف تحقیق معنی اس لئے ظرافت کے معنی و مفہوم میں قبول کرلیا۔
مولوی منظور سنبھلی بڑے سخت وہابی
بخدا ہم بحلف شرعی کہتے ہیں واﷲ العظیم یہ ہمارا الزام نہیں، جناب نانوتوی صاحب گنگوہی صاحب، انبیٹھوی صاحب، تھانوی صاحب کی تنقیص آمیز قابل اعتراض خلاف شرع عبارات کی نوع بنوع تاویلیں کرکے تقویۃ الایمان، صراط مستقیم، تحذیر الناس، براہین قاطعہ فتویٰ گنگوہی، حفظ الایمان کی عبارات نت نئی تاویلات زلفیں سنوارنے والے اکابرین دیوبند مسلمہ و معتمد ترجمان و مناظر مولوی منظور سنبھلی بھی صمیم قلب سے صاف صاف اقرار کرتے ہیں ’’ہم خود اپنے بارے میں بھی بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں‘‘ (بعینہ و وبلفظ سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 192)
سنبھلی صاحب کے اس فراخدلانہ اقرار و اعتراف کے بعد نہلے پر دھلا مارتے ہوئے بڑے فخریہ انداز میں جواباً دیوبندی شیخ الحدیث مولوی ذکریا صاحب کہتے ہیں ’’مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا بڑا وہابی ہوں‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی، ص 193 بالفظہ)
مذکورہ بالا دلائل و حقائق اور روشن شواہد اور ان کے اپنے مسلمہ معتمد اکابر کی شہادتوں کے بعد کہ یہ وہابی ہیں، بڑے مضبوط وہابی ہیں پھر ہم کس طرح تسلیم کرلیں کہ یہ اہل سنت و جماعت ہیں اور کوئی بھی حقیقت پسند ذی فہم و شعور کس طرح ان کو اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟ ہم اپنی قبر و آخرت و میزان کو سامنے رکھ کر دیانتداری سے عرض کرتے ہیں یہ ہمارا الزام برائے الزام نہیں، ان کی کتابوں سے ان کے اکابر کے اقوال پیش کئے گئے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی عدالت اور کورٹ میں طلب کرے۔ ہم وہابی بھی ثابت کرسکتے ہیں پھر زورا زوری اہلسنت کہلانا خلاف واقع اور حقیقت کے برعکس ہے۔
یاد رہے… کہ دیوبندی وہابی مناظر مولوی منظور سنبھلی مدیر الفرقان لکھنؤ نے محمد بن عبدالوہاب نجدی بانی وہابیت کے فضائل کمالات پرایک کتاب بنام ’’شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علماء حق‘‘ بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے لکھی ہے جس میں وہابیت نجدیت پر جانثاری کا حق ادا کردیا اور اپنے اصلی اندرونی وہابیانہ رنگ روپ میں کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اب بھی ان کی وہابیت میں کوئی شک کرسکتا ہے؟
اور دیکھئے… ہمارا اپنا کوئی الزام نہیں ان کی اپنی کتابوں کے بفلظہ و بعینہ حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب سے ان حضرات کے بلند حوالہ جات پیش کررہے ہیں۔ ایک اور کتاب ان حضرات کے بلند پایہ مصنف وبزعم خود محقق مولوی مسعود عالم ندوی وہابی جوکہ تھانوی وہابی حکیم الامت کے معتمد خلیفہ ونیاز مند مولوی سلیمان ندوی وہابی کے غلام و دریوزہ گر ہیں، نے بنام ’’محمد بن عبدالوہاب، ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ بڑی دھونس داری کے ساتھ ارقام فرمائی ہے جس کی تدوین میں اپنی اور اپنے رفقاء و معاونین کی تمام ترتوانائیاں جھونک دیں اور جان کی بازی لگادی۔ اس کتاب کو وہابی المکتبہ السلفیہ شیش محل روڈ لاہور نے شائع کیاہے جو ان کے ہم عقیدہ و ہم مسلک ہونے کی دلیل اور سند ہے۔
اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کتاب کا انتساب مشہور وہابی دیوبندی مولوی سلیمان ندوی کے نام کیا ہے جس کو مصنف مسعود عالم نجدی ندوی نے اپنا استاد، مربی اور مخدوم تسلیم کیا ہے۔ جو دیوبندی، نجدی، ندوی مسلکی ہم آہنگی اور وہابی اتحاد و یکجہتی کی ناقابل تردید دلیل ہے۔
اور یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ حقائق و شواہد بتاتے ہیں کہ نجدی وہابی، غیر مقلد وہابی، دیوبندی وہابی ندوی وہابی ایک ہی چیز کے چار نام ہیں۔ بہرحال وہابیت قدر مشرک ہے وہابی ہونا سب کے لئے سعادت ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مولف کتاب ’’محمد بن عبدالوہاب نجدی ایک مظلوم اور بدنام مصلح‘‘ نے اس کتاب کی تالیف میں متعدد وغیر مقلدین وہابیہ کو بھی شامل رکھا اور اس باب میں مددومعاونت کی وہ یہ ہیں۔ ڈاکٹر عظیم الدین پٹنہ، پروفیسر حسن عسکری، مولوی عبدالرحمن کاشغری ندوی کلکتہ، مولوی دائود غزنوی غیر مقلد وہابی لاہور، شیخ عنایت اﷲ، ڈاکٹر حمید اﷲ حیدرآباد، شرف الدین بمبئی، مولوی عبدالمجید حریری بنارس، پروفیسر محمد اکبر ندوی کلکتہ، حافظ یوسف حسن بہار شریف، نجدی وہابی عالم شیخ محمد عمران بن محمد بن عمران ساکن نجد ریاض سے خصوصی مدد لی گئی ان مستند و معتبر حوالہ جات نے ثابت کردیا کہ دیوبندی، نجدی، ندوی سب وہابی ہیں تو پھر وہابیوں کو اہلسنت و الجماعت نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ کم از کم اپنے مذہب و مسلک سے تو دغا اور بے وفائی نہ کریں۔
ہم اس حقیقت کی نقاب کشائی بھی کردیں کہ محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی اور مولوی اسماعیل دہلوی میں مکمل اعتقادی و مسلکی ہم آہنگی تھی، محمد بن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید اور اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویۃ الایمان لے کر بیٹھ جائیں، کوئی بھی شخص منصف مزاج اس حقیقت واقعی کو جان سکتا ہے کہ عربی اور اردو میں دونوں کتب کے مندرجات ایک ہی ہیں۔ دونوں میں وہابیت کی روح کافرما ہے۔ مختلف النوع چکر چلانے لفاظی و مغالطہ آمیزی کے جال بچھانے کے باوجود مولوی مسعود عالم ندوی کو یہ تسلیم کرنا پڑا اور اس کے سوا چارہ ہی نہیں، خود لکھتا ہے ’’ہندوستان کی (اسماعیلی) تحریک وہابیت یعنی حضرت سید صاحب (واسماعیل دہلوی) کی تحریک تجدید و امامت نجد کی وہابی تحریک ہی کی ایک شاخ ہے، اس میں شک نہیں دونوں تحریکوں کا ماخذ ایک بامقصد ایک اور دونوں کو چلانے والے کتاب و سنت کے علمبردار یکساں سرگرم مجاہد تھے (کتاب محمد بن عبدالوہاب ص 8-7)
اسی کتاب کے صفحہ 77 پر محمد بن عبدالوہاب نجدی وہابی کی کتاب التوحید، مولوی اسماعیل دہلوی وہابی کی کتاب تقویۃ الایمان کی وکالت ہے۔ اور نجدی و دہلوی، کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان کی اعتقادی موافقت کا جگہ جگہ تذکرہ کرکے دونوں کی یکسانیت ثابت کی گئی ہے۔
مولوی رشید احمد گنگوہی تقویۃ الایمان کمال درجہ حسن عقیدت و موافقت کے طور پر رقم طراز ہیں۔ کتاب تقویۃ الایمان نہایت عمدہ اور سچی کتاب ہے موجب قوت و اصلاح ایمان کی ہے… بندہ کے نزدیک سب مسائل اس کے صحیح ہیں‘‘ (فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ص 356، و 357)
اندریں حالات ان اہلسنت کا لیبل لگانے والوں کے مسلمہ اکابر جب وہابیت کو اپنا رہے ہیں، وہابیوں کو کون اہلسنت تسلیم کرسکتا ہے؟
ابن عبدالوہاب نجدی وہابی کے سوانح نگاروں میں ایک نام شیخ احمد عبدالغفور عطار کا بھی ہے جس نے کمال درجہ جذبہ سرفروشی سے بنام ’’شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب‘‘ ارقام فرمائی جس کا ترجہ کسی مولوی محمد صادق خلیل نے اردو میں کیا ہے۔ اس میں واضح طور پر غیر مبہم انداز میں لکھا ہے جس طرح نجد و حجاز میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کا ظہور ہوا۔ بعینیہ اسی طرح ہندوستان میں حضرت الامام شاہ محمد اسماعیل منظر عام پر آئے‘‘ (ص 6)
’’نجد کے شیخ (محمد بن عبدالوہاب) نے چونکہ عبادتِ قبور کے خلاف جہاد کرکے شرکیہ مقامات (مزارات وازواج مطہرات کے مزارات طیبہ گرادیئے اورشہید کردیئے) منہدم کردیئے تھے۔ (اسی طرح) … شاہ (اسماعیل) صاحب نے دہلی میں فرمایا تھا کہ اس مہم (بالاکوٹ) سے فارغ ہوکر جائوں تو خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ بھی گرائوں گا… (ص 9) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ … انہوں نے (سید احمد اور اسماعیل دہلوی) نے قیام حجاز کے دوران شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کا مطالعہ بھی کیا… اور وہابی علماء کارکنوں سے ملاقات کے امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا (کتاب محمد بن عبدالوہاب تالیف احمد عبدالغفور عطار)
الحمدﷲ ہم نے بفضلہ تعالیٰ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اسماعیل دہلوی کی وہابیت میں اشتراک و ہم آہنگی کو ان کے اپنے اکابر کی مستند تصانیف سے ثابت کردیا۔ اب لمحہ فکریہ ہے کہ یہ لوگ وہابی ہوکر اہلسنت کا لیبل کیوں اختیار کررہے ہیں؟ اب چند سال پہلے اہلسنت کا لیبل استعمال کرنے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ پہلے سے ابتداء سے اہلسنت نہیں تھے۔
علاوہ ازیں ریکارڈ کنگھالاجائے تو پتہ چلے گا کہ مشہور دیوبندی وہابی شیخ التفسیر مولوی احمد علی صاحب لاہوری نے اپنی بیٹی کی شادی بھی غیر مقلد وہابی مولوی سے کی تھی اور مولوی عبدالمجید خادم سوہدروی (تلمیذ مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی وہابی کا تلمیذ مولوی احمد علی لاہوری دیوبندی کا داماد تھا (کتاب کرامات اہلحدیث ص 2)
اور یہ بھی ثابت ہے کہ مولوی احمد علی صاحب لاہوری دیوبندی وہابی اپنے وہابی بھائی مولوی دائود غزنوی کی اقتداء میں نماز عیدین ادا کرتے تھے (ہفت روزہ خدام الدین لاہور)
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ان کے اپنے اکابر کے اعترافات کہاں تک پیش کئے جائیں لکھتے ہیں۔ ’’میں نے شام سے لے کر ہند تک اس دیوبند (دیوبندی وہابی مولوی انور کاشمیری) کی شان کا کوئی محدث اور عالم نہیں پایا اگر قسم کھائوں کہ یہ (مولوی انور کاشمیری) امام اعظم ابو حنیفہ سے بھی بڑے عالم ہیں تو میں اپنے دعویٰ میں کاذب نہ ہوں گا‘‘ (خدام الدین لاہور 18 دسمبر 1964ئ)
کیا کوئی حقیقی واقعی اصلی اہلسنت ایسا دعویٰ کرسکتا ہے؟
سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے؟
اگر یہ عناصر فی الواقع حقیقی اہلسنت بننا چاہتے ہیں تو صمیم قلب اور خلوص نیت سچی پکی دائمی توبہ اور رجوع کرکے خلوص نیت عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنائیں اور عملی و اعتقادی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کریں۔ اہلسنت کہلانا ہے تو حضور اقدس نبی اکرم رسول محترمﷺ کو نور مجسم اور بے مثل بشر، حضور اقدسﷺ کو خداداد علم غیب اور حاضر و ناظر اور مختار کل قاسم ہر نعمت بعطاء الٰہی ماننا پڑے گا۔ عید میلاد وصلوٰۃ و سلام قیام و سلام نعرۂ رسالت ختم فاتحہ ایصال ثواب الصلوٰۃ و السلام علیک یارسول اﷲ وغیرہم جملہ عقائد و معمولات اہلسنت کو اپنانا اور اختیار کرنا پڑے گا اور شرک و بدعت کے جملہ فتاویٰ سے رجوع کرکے عملی طور پر مذہب اہلسنت کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر نیت صاف ہو تو یہ سب کچھ مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ عوام وخواص ہر کس ناکس اسی کو اہلسنت مانتے اور جانتے ہیں جو سرکار دوعالمﷺ کو نور مجسم نورانی بشر مانتا ہو علم غیب حاضر و ناظر اختیارات نبوی کا قائل ہو، عید میلاد کا جلسہ و جلوس قیام و سلام کرتا ہو، صلوٰۃ و سلام ختم فاتحہ و غیرہم کا قائل و عامل ہو، ورنہ کوئی ہزار مرتبہ شب و روز شکر قندیوں کو شکر قند پیڑا کہتا رہے۔ امرودوں کو الہ آباد یا لاڑکانہ کا پیڑا کہتا رہے، جو اصلی حقیقی خالص کھوئے کے بادام پستہ، الائچی لگے ہوئے اور چاندی کے ورق لگے پیڑے ہوتے ہیں، وہ حلوائیوں کی دکان پر شیشوں کی الماریوں میں رکھے ہوتے ہیں۔ امرودوںکی طرح ٹوکریوں میں گلی گلی نہیں بکتے پھرتے اور اصلی خالص پیڑوں کی آوازیں نہیں لگانی پڑتیں جس طرح یہ عناصر ہمارے اعتقادی نام اہلسنت کا سرقہ کررہے ہیں۔ ہم اہل حق اہلسنت نے کسی بھی مکتب فکر کے علامتی نام کا سرقہ نہیں کیا ۔
نہیں زیبا بتائے کوئی بلبل اپنے اُلّو کو
No comments:
Post a Comment