Monday, 18 July 2016

دلوں کی پاکیزگی ہی اصل طہارت اور مقصود تعلیمات اسلام ہے

جس دل کو باری تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور محبت کے لئے چنا اس دل رکھنے والی ذات کے لئے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی.

’’اے حبیب ہم آپ کو اتنا کچھ عطا کریں گے کہ آپ راضی ہوجائیں گے‘‘۔

(الضحٰی، 93: 5)

اب ہم احوال قلب کی دونوں صورتوں اور دونوں قسموں کا حال اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
دلوں کی زنگ آلودگی

ہماری بات قلب زیغ تک ہوچکی ہے۔ جب یہ دل ہدایت سے محروم ہوتے ہیں تو یہ ٹیڑھے ہوجاتے ہیں اور یہ کج روی کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ضلالت و گمراہی کو اختیار کرتے ہیں۔ قرآن دلوں کے احوال میں یہ بھی ذکر کرتا ہے کہ کچھ دلوں میں گناہوں کے باعث زنگ لگ جاتا ہے اور پھر گناہوں کے باعث ان کا زنگ بڑھتا رہتا ہے۔ ان کی چمک دمک، اجلا اور شفاف پن ختم ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کَلَّا بَلْ سکته رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا يَکْسِبُوْنَ.

’’(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)‘‘۔

(المطففين، 83: 14)

جوں جوں انسان گناہ کرتا ہے، دل پر زنگ چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے وجود میں نافرمانی کی رغبت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دل کے زنگ کے باعث گناہوں کی طرف رغبت ہونے لگتی ہے۔ ادھر بندہ فعل بد کرتا رہتا ہے نافرمانی کے عمل کو اپنائے رکھتا ہے۔ معصیت کو اپنی علامت بنائے رکھتا ہے، شر کو اپنی پہچان بنائے رکھتا ہے۔ اللہ کی اطاعت سے دوری کو اپنی خصلت بنائے رکھتا ہے۔ ہر عمل سوء کو اپنائے رکھتا ہے جس کے لئے فرمایا: ماکانوا یکسبون یعنی گناہوں کو مسلسل کرتا رہتا ہے۔ گناہ آلود افعال کو مسلسل جاری رکھتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے بل ران علی قلوبہم یعنی ان گناہوں کے باعث لوگوں کے دل زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں اور اس زنگ کی وجہ سے وہ نیکی اور اطاعت سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر گناہ ان کے دل کو سیاہ کرتا چلا جاتا ہے، ادھر گناہ بڑھتے رہتے ہیں ادھر دل کی تاریکی بڑھتی رہتی ہے۔ دل کی سیاہی اور دل کی زنگ آلودہ کیفیت دل کو قلب اثم بنا دیتی ہے۔ اب اس ظلمت کدہ دل سے گناہ تو جنم لیتا ہے نیکی ظاہر نہیں ہوتی۔
پتھر نما دل

اسی طرح قرآن، قلب قاسیہ کا بھی ذکر کرتا ہے کچھ دل ایسے ہوتے ہیں جو پتھر نما ہوتے ہیں جو پتھروں کی طرح سخت ہوتے ہیں۔ یہ دل بھی نافرمانی اور معصیت کو اختیار کرتے ہیں۔ یہ دل بھی گناہ آشنا ہوتے ہیں، یہ دل بھی اپنی قساوۃ اور سختی کے باعث نیکی کی طرف نہیں بلکہ بدی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ط وَکَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ.

’’پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے، اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں‘‘۔

(الحديد، 57 :16)

اسی طرح سورہ الحج میں ارشاد فرمایا:

فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ.

’’جن کے دلوں میں (منافقت کی) بیماری ہے اور جن لوگوں کے دل (کفر و عناد کے باعث) سخت ہیں‘‘۔

(الحج، 22: 53)

اور اسی طرح سورہ الانعام میں ارشاد فرمایا:

وَلٰـکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَاکَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.

’’لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دل سخت ہوگئے تھے اور شیطان نے ان کے لیے وہ (گناہ) آراستہ کر دکھائے تھے جو وہ کیا کرتے تھے‘‘۔

(الانعام، 6: 43)

سورہ المائدہ میں ارشاد فرمایا:

وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰـسِيَةً.

’’اور ہم نے ان کے دلوں کو سخت کر دیا (یعنی وہ ہدایت اور اثر پذیری سے محروم ہوگئے‘‘۔

(المائدة، 5: 13)

قرآن انسانی دلوں کی سختی کو پتھروں اور چٹانوں کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے۔
پتھروں کی اقسام اور دلوں پر ان کا اطلاق

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ط وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآئُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اﷲِط وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ.

’’پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہوگئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہوگئے) ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت (ہو چکے ہیں، اس لیے کہ) بے شک پتھروں میں (تو) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور یقینا ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے، اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی) اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 74)

اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ اپنے بندوں کو متوجہ کررہا ہے کہ تم اپنے رب کی نافرمانی میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہو کہ تمہارے دل پتھروں جیسے ہوگئے ہیں اور تمہارے دلوں میں پتھروں جیسی سختی و قساوت آگئی ہے۔ ان دلوں میں نرمی نہیں رہی، ان دلوں میں رحمت نہیں رہی، ان دلوں میں رافت نہیں رہی، یہ دل ہے تو گوشت کا ایک لوتھڑا مگر یہ گناہوں کے باعث پتھروں کی طرح سخت ہوگیا ہے اور چٹانوں کی طرح ان میں قساوت آگئی ہے۔ اس آیہ کریمہ میں باری تعالیٰ نے انسان کو متوجہ کیا ہے کہ ابھی بھی تم اگر اپنے رب کی طرف لوٹ آؤ تو ان دلوں کی سختی نرمی سے بدل سکتی ہے۔ ان کی قساوت خستگی اور شکستگی میں ڈھل سکتی ہے۔

فرمایا: اگر تم پتھر دل ہی ہوگئے ہو تو تم پتھروں کے احوال پر ہی نظر کرکے دیکھ لو، وہ بھی اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں، وہ پتھر بھی اپنے رب سے لاتعلق نہیں ہیں وہ پتھر بھی اپنے رب کی فرمانبرداری سے دور نہیں، وہ پتھر ہوکر بھی اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔ عجب ہے انسان تو انسان ہوکر بھی اور اشرف المخلوقات ہوکر بھی، خلافت فی الارض کا اعزاز پاکر بھی اور الوہی نیابت سے سرفراز ہوکر بھی اسی کریم رب سے لاتعلق ہے جس کی نیابت کا شرف رکھتا ہے جس کی خلافت کا اعزاز رکھتا ہے جس رب نے تجھے ولقد کرمنا بنی آدم کا اعزاز بخشا اور جس رب نے تجھے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم کی صورت عطا کی ہے۔ اے پتھر دل انسان!، پتھروں ہی سے درس حیات لے لے۔
پتھروں کا نہروں اور چشموں میں بدلنا

فرمایا: اے انسان تمہارا دل پتھروں کی طرح سخت ہوگیا ہے اور فرمایا: کہ تم میں سے بعض کے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوگئے ہیں اور ان کے دلوں میں قساوت اور سختی، پتھروں سے بھی زیادہ آگئی ہے لیکن اے انسان! اگر تم پتھروں ہی کو دیکھو تو پتھر بھی اللہ کی یاد سے خالی نہیں ہیں اور ان پر بھی خوف الہٰی طاری ہوتا ہے، ان میں بھی خشیت الہٰی کے مناظر نظر آتے ہیں، اسی خوف اور خشیت کی بناء پر ان پتھروں کی پہلی قسم اور پہلی صورت تم کو یوں دکھائی دے گی۔

وان من الحجارة لما يتفجر منه الانهر.

’’ان ہی پتھروں میں سے بعض پتھر ایسے ہیں جن سے اللہ کے خوف کے باعث نہریں پھوٹ پڑتی ہیں‘‘۔

ان پتھروں سے اللہ کی خشیت کے سبب چشمے اور نہریں جاری ہوں گی، وہ پتھر اللہ کے خوف سے اس طرح پھٹ پڑے ہیں کہ ان سے نہریں رواں دواں ہیں۔ ان پتھروں نے خوف الہٰی کے باعث اپنا سینہ شق کردیا ہے، اب ان کے سینے سے دریاؤں کے سوتے نکلتے ہیں۔ پتھروں کی قساوت پر جب من خشیۃ اللّٰہ کا رنگ چڑھتا ہے تو ان کے سینے شق ہوجاتے ہیں اور ان سے نہریں اور دریا بہنے لگتے ہیں۔ یہ درحقیقت ان قساوت رکھنے والے پتھروں کی، اللہ کی خوف کی وجہ سے گریہ زاری ہے۔ اللہ کے خوف سے ان کا رونا ہے یہ پانی ان کے آنسو ہیں جو من خشیۃ اللّٰہ کی وجہ سے جاری ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا رونا اور گریہ و زاری اپنے حسب حال ہے یہ پتھروں کا رونا ہے اور گریہ زاری کرنا ہے جو نہروں اور دریاؤں کی صورت میں جاری و ساری ہے۔
انسان بھی اللہ کے حضور گریہ زاری کرے

پتھروں کی یہ قسم، وان من الحجارۃ لما یتفجر منہ الانہر بندوں کو اس طرف متوجہ کرتی ہے، کبھی ان کی زندگی میں بھی ایسے دن آئیں اور ایسی راتیں آئیں جب ان کی آنکھیں بھی اللہ کے خوف اور اللہ کی خشیت کی بناء پر، چھم چھم برسنے لگیں۔ وہ آنکھیں بھی اللہ کی یاد میں بے پناہ گریہ زاری کریں وہ آنکھیں اپنے آنسوؤں سے جسم کو وضو کرائیں اور وہ آنکھیں اپنے آنسوؤں سے جسم کو غسل کرائیں۔ ان آنکھوں سے اس قدر آنسو بہیں کہ ان آنکھوں کے، جسم میں موجود دل بھی، مولا کی طرف بہہ جائیں۔ اس دل کا سفر رب کی طرف اس طرح ہوجائے جس طرح دریاؤں اور نہروں کا پانی بہتا ہے اس طرح یہ دل بھی اسی کیفیت کے ساتھ رب کی طرف بہنے لگیں، رب کی طرف چلنے لگیں، رب کے دھیان میں مچلنے لگیں، رب کی یاد میں تڑپنے لگیں اور ان دلوں میں رب کی یاد کی کثرت اس طرح ہوجائے جس طرح دریاؤں اور نہروں میں پانی کی کثرت ہے۔
انسان اور خشیت الہٰیہ کی کیفیات

آگے ارشاد فرمایا پتھروں کی دوسری قسم یہ ہے:

وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ.

’’اور یقینا ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے‘‘۔

(البقرة، 2: 74)

اس آیہ کریمہ میں واضح کیا جارہا ہے کہ قساوت کے اعتبار سے پتھروں کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن پر من خشیۃ اللہ کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو وہ اپنی مضبوطی اور سختی کے باوجود، لما یشقق وہ پھٹ جاتے ہیں۔ ان کا سینہ بھی شق ہوجاتا ہے تو ان سے نہریں اور چشمے تو جاری نہیں ہوتے۔ البتہ ان سے پانی رسنے لگتا ہے اور تھوڑا تھوڑا پانی ٹپکنے اور بہنے لگتا ہے، ان میں بھی پانی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں بھی پانی بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتے ہیں اور اپنے وجود سے پانی جاری کرکے آنسو بہاتے ہیں۔ پتھروں کی یہ قسم بھی ان بندوں کو متوجہ کرتی ہے جن کے دل سخت ہیں اور جن کے دل پتھر بن گئے ہیں۔ اگر یہ دل پتھر ہوگئے ہیں تو پھر بھی یہ مولا کے حضور ایسے ہوجائیں کہ ان کی آنکھیں کبھی مولا کی یاد میں نمناک ہوجائیں ان آنکھوں سے آنسو کی جھڑی تو نہ لگے اور برسات کی کیفیت نہ ہو اور موسلا دھار بارش کی طرح گریہ و زاری تو نہ ہو مگر یہ مولا کی یاد میں اور رب کے خوف میں نمناک ضرور ہوجائیں۔ یہ آنسو سے تر ہوجائیں، یوں غفلت دور ہوجائے اور معرفت الہٰیہ اور وصال الہٰیہ کی کچھ خیرات مل جائے اور حق بندگی کا کچھ فرض ادا ہوجائے اور اس کی فرمانبرداری کی کوئی صورت ہوجائے، اس کی یاد آنسوؤں کے موتیوں سے آباد ہوجائے، یہ بہتے ہوئے آنسوؤں کی لڑی ایک مالا بن جائے اور بندے کے لئے خوبصورت طوق عبدیت کا روپ دھار لے۔
انسان اور خوف الہٰی کے احساسات

اس کے بعد قرآن حکیم پتھروں کی تیسری قسم کا ذکر کرتا ہے۔

وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اﷲِ.

’’اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی)‘‘۔

(البقرة، 2: 74)

فرمایا پتھروں میں سے بعض ایسے ہیں جن سے نہریں اور چشمے تو جاری نہیں ہوتے اور وہ پھٹتے تو نہیں ہیں مگر وہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ وہ اپنی بلندیوں کو چھوڑ کر نشیب کی طرف آتے ہیں۔ وہ اونچائیوں کو ترک کرکے پستی کی طرف آتے ہیں۔ وہ اپنی مضبوط جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ مولا کے لئے گر پڑتے ہیں۔ اس کی یاد میں سقوط کرتے ہیں، اس کے خوف کی وجہ سے اپنی جگہ کو ساقط کردیتے ہیں۔ پتھروں کی یہ تیسری قسم بندوں کو اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہمارے دلوں کی کم از کم یہ حالت ہوکہ جس طرح پتھر، اللہ کے خوف سے گرتے ہیں اس طرح ہم بھی اپنی زندگیوں میں گناہوں کو گرادیں۔ اپنی زندگی سے اللہ کی نافرمانی کو ساقط کردیں، اپنی زندگی سے رب کی سرکشی اور ناآشنائی کو ختم کردیں۔ اپنی زندگی سے ہر معصیت و برائی کو رفع کردیں۔ اپنی زندگی سے ہر شر کو دور کردیں۔
فرمانبرداری ہمارے وجود کی پہچان

ہمارے وجودوں میں اگر فرمانبرداری اور عبادت گزاری اپنے کمال پر دکھائی نہ دے کم از کم ایسے تو ہوجائیں کہ ان وجودوں سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ ہمارے وجودوں سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، ہمارے وجودوں سے کسی کو شر نہ پہنچے، ہمارے وجود دوسروں کے لئے سلامتی کے وجود ہوں ہمارے وجود دوسروں کے لئے خیر اور امن کے وجود ہوں، ہمارے وجود عباد اللہ کی اعلیٰ صفات سے مزین ہوں، ہمارے وجود اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل ہوں، ہمارے وجود عالم انسانیت کے لئے باعث فخر ہوں۔ باعث عار اور ندامت نہ ہوں۔ یہ تبھی ہوگا جب تک ہم اپنے شعوری فیصلے کے ذریعے، اللہ کی فرمانبرداری اور اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کا عزم مصمم نہ کرلیں اور اپنے وجود سے ہر شر کا خاتمہ نہ کردیں اور اپنے وجود میں ہر خیر کو اپنا نہ لیں۔
انسانی عمل تعلیمات اسلام کے موافق ہو

سورہ بقرہ اس آیت 74 کے آخر میں ان پتھروں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ.

’’اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں‘‘۔

(البقرة، 2: 74)

وہ رب اپنے بندوں کے ہر ہر عمل کو دیکھ رہا ہے، رب اپنے بندے کے عمل کو فرمانبرداری میں دھلا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ رب بندے کو قول و عمل کی اصلاح کا حکم دیتا ہے۔ ہماری عبدیت یہ کہتی ہے کہ ہمارا عمل وہ ہو جو عباد اللہ کا عمل ہے۔ ہمارا عمل وہ ہو، جو صالحین کا عمل ہے، ہمارا عمل وہ ہو، جو احکام الہٰیہ کے مطابقت اور موافقت میں ہو۔ اس لئے وہ رب بندے کو متوجہ کرتا ہے کہ اس کائنات کی ہر ایک چیز تمہیں راست عمل کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ تمہاری فطرت تمہارا ضمیر، تمہارا باطن اور تمہارا سلیم الفطرت قلب، تمہیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ عمل صالح کو اپناؤ اور یہ پتھر بھی تمہیں اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ تم پتھروں کی پہلی قسم کی طرح ہی ہوجاؤ کہ تمہاری آنکھیں اللہ کی یاد میں چھم چھم برسیں اور تمہاری آنکھوں کی گریہ زاری کی ایک جھڑی لگ جائے۔ تم اپنے مولا کی یاد میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگو، اگر ایسا نہ کرسکو تو پھر خود کو ان پتھروں جیسا کرو جن کے سینے اللہ کے خوف سے پھٹ پڑتے ہیں۔

تمہاری آنکھیں اللہ کی یاد میں نمناک ہوجائیں، اللہ کی یاد میں رطوبت و تری آجائے اور تمہاری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجائیں اور اگر تم پتھروں کی اس قسم میں بھی نہ ڈھل سکو تو تیسری قسم کی طرح ہوجاؤ جو اللہ کے خوف سے بلندی سے گر پڑتے ہیں۔ تم میں بھی اپنی زندگی سے تمام نافرمانیوں کو گرادو۔ تمام گناہوں کو گرادو، تمام معصیتوں کا خاتمہ کردو۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...