Friday 15 July 2016

حسن و جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم

2 comments

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضورسرورکائنات، فخر موجودات ،خاتم پیغمبراں، نبی آخرالزماں، جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ رب العزت نے جس طرح کمال سیرت میں سب سے منفرد ویکتا بنایا اسی طرح حسن صورت میں بھی آپ کو بے مثل بے مثال پیدا فرمایا۔آپ ظاہری و باطنی حسن و جمال کے اس مرتبہ کمال پر فائز ہیں جہاں سے ہر حسین کو آپ سے حسن کی خیرات مل رہی ہے۔ آپ کے حسن بے مثال کو دیکھ کر زبان کو عالم حیرت میں یہ کہنا پڑا:
”لم ار قبلہ ولا بعدہ مثلہ “ (مشکوة)آپ جیسا حسین و جمیل نہ آپ سے پہلے کوئی دیکھا گیا اور نہ آپ کے بعد۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کی ظاہری صورت اس کی باطنی سیرت کا عکاس ہوتی ہے ،اس لیے کہ ایک انسان جب کسی اجنبی سے ملاقات کرتاہے تو نظر پہلے اس کی صورت پہ پڑتی ہے اس کے بعد اس کی سیرت کو جاننے کا شوق پیدا ہوتاہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن لا زوال کا پیکر بنا کر مبعوث فرمایا ۔جن مقدس نگاہوں نے جمال مصطفیٰ کا نظارہ کیا انھوں نے آپ کے جمال بے مثال کی جو مصوری کی ہے اس کو پڑھ کر ہر صاحب ایمان کے دل میں آپ کی زیارت کی امنگیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ صحابیت جو ہر امتی کے لیے سب سے بڑاسرمایہ افتخار ہے، اس کا تعلق بھی آپ کے ظاہری جمال سے ہے،ایمان اگر رخ مصطفی کا مشاہدہ کر لے تو اس کے سر پرصحابیت کا تاج جگمگانے لگے اور اس کی ایک نیکی اوروں کی لاکھوں نیکیوں پر بھاری پڑ جائے۔
صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین جنہوں نے حضور ﷺ کے جمال جہاں آرا کا مشاہدہ اپنی چشم سر سے کیا ہے ،انہوں نے آپ کے حلیہ مبارکہ کی مختلف تشبیہات اور استعارات کے ذریعہ بیان کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔یہ سچ ہے کہ وہ تشبیہات ذات مصطفی کی کماحقہ تمثیل پیش کرنے سے قاصر ہیں مگر ان کو پڑھ کر بے چین دل کو سکون وقرار ضرور مل جاتا ہے، اس لیے آنے والی سطروں میں مختصر طور پر حضورﷺ کے حسن و جمال کی جھلک پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ملاحظہ فرمائیں!
حدیث و سیرکی متعدد کتابوں میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب بچے کی تلاش میں مکہ مکرمہ پہنچیں اور حضور ﷺ کے گھر آئیں اس وقت آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا گھر میں موجودتھیں،حضرت حلیمہ نے ان سے بچے کے بارے میں دریافت کیا تووہ آپ کولے کر جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں ،اس وقت آپ ایک چادر میں لپٹے ہوئے محو خواب تھے ۔ آگے کا واقعہ وہ خود بیان فرماتی ہیں:
”میں نے محمد ﷺ کو ان کے حسن وجمال کی وجہ سے جگانا مناسب نہیں سمجھا، البتہ ان کے قریب گئی اور (پیار سے ) ان کے سینہ اطہر پر اپنا ہاتھ رکھا ،اتنے میں آپ بیدار ہو گئے اور مسکرا کر ہنس پڑے اور آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھنے لگے۔میں دیکھا آپ کی مبارک آنکھوں سے ایک نور نکلا اور آسمان کی وسعتوں میں سما گیا۔( انوار محمدیہ)
حضرت ابو طالب جنہوں نے حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے بعد حضور ﷺ کفالت فرمائی وہ فرماتے ہیں :
”محمد (ﷺ) کا جسم اطہر نہایت ہی نرم و نازک اور اس طرح خوشبودار تھا جیسے کستوری میں ڈوبا ہوا ہو۔(حسن سراپائے رسول ﷺٰ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ جو حضورﷺ کے خادم خاص تھے اور تقریبا دس سال تک آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا وہ فرماتے ہیں:
”میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو مس نہیں کیا جو نبی کریم ﷺ کی مبارک ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہو“(بخاری شریف)
یعنی حضورﷺ کا نوری بدن ریشم اور دیباج جیسے نرم کپڑوں سے بھی زیادہ ملائم اور نازک تھا۔
ایک بار حضور اقدس ﷺ سرخ جامہ زیب تن کئے ہوئے بستر استراحت پر تشریف فرما تھے، آنکھیں محو خواب تھیں اور دل بیدار،اتنے میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ آ پہنچے ،چودھویں کی رات تھی، او پر چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہاتھا اور سامنے رسول پاک ﷺ کا مبارک چہرہ اپنی نوری کرنیں بکھیر رہاتھا،حضرت جابر کبھی چمکتے چاند کو دیکھتے اور کبھی جمال مصطفی کا مشاہدہ فرماتے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ چاند زیادہ روشن ہے یا آقا ئے کریم ﷺ کارخ زیبا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک نظر آپ کی طرف دیکھتا اور دوسری نظر چاند کی طرف ۔یقین جانئے ! آپ ﷺ کا مجھے چاند سے زیادہ حسین لگ رہے تھے۔( نور سرمدی)
ایک چاند ہی کیا، حضورﷺ کا چہرہ انور ساری کائنات سے زیادہ حسین و جمیل تھا، اس لئے کہ کائنات کی ہر چیز کو آپ کے حسن کا صدقہ ملا ہے ۔آپ ﷺ خود ہی فرماتے ہیں :”اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایااور اس نور سے ساری کائنات کو بنایا اور میں اللہ کا نور ہوں “۔ (انوار محمدیہ)
گویا کائنات کے ذرے ذرے میں حضور ﷺ کے نور کی تابانیاں بکھری ہوئی ہیں۔
یہ جو مہر میں ہے حرارتیں ،وہ ترا ظہور جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی ، وہ ترا غبار جمال ہے
سید محمد اشرف مارہروی
حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حسن و جمال عطا فرمایا تھا ۔آپ کے حسن زیباکے آگے مصر کے سارے زہرہ جبینوں نے اپنے جبین نیاز خم کر دئے تھے، حضرت زلیخا علیہا السلا م کی سہیلیوں نے آپ کے چہرہ مبارکہ کو دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ لی تھیں مگر انھیں انگلیوں کے کٹنے کا احساس تک ہواتھا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جب یہ واقعہ بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:”حضرت زلیخا علیہا السلام کی سہیلیاں اگر رسول پاک ﷺکی موہنی صورت کی ایک جھلک دیکھ لیتیںتو اپنی انگلیوں کوکا ٹنے کے بجاے اپنے دلوں کو کاٹ لیتیں۔“ ( المدیح النبوی)
ہو سکتا ہے کسی کے دل میں خیال پیدا ہو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی رفیقہ حیات تھیں شائد اسی لیے انھوں آپ کی ایسی تعریف فرمائی، اس لیے اس شبہہ کو دور کرنا ضروری ہے ۔
حضرت ام معبد جنہوں نے کبھی رسول اکرم ﷺ کو نہیں دیکھا تھا اور نہ آپ کے بارے میں پہلے سے کچھ جانتی تھیں ،جب انھوں نے مکہ شریف سے ہجرت کے وقت رسول کریم ﷺ جمال جہاں آرا کا مشاہدہ کیا تو اپنے شوہر کے سامنے آپ کے بارے میں جانکاری دیتے ہوئے ان الفاظ میں آپ کے وجود مسعود کا نقشہ کھینچا :
”میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حسن نمایا تھا،جس کی ساخت بڑی خوب صورت اور چہرہ ملیح تھا، نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کر رہا تھا۔بڑا حسین ،بہت خوبرو،آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں ،پلکیں لمبی تھیں ،اس کی آواز گونج دار تھی،سیاہ چشم، سرمگیں ،دونوں ابرو باریک ملے ہوئے ۔گردن چمکدارتھی،ریش مبارک گھنی تھی،جب وہ خاموش ہوتے تو پر وقار ہوتے، جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور بارونق ہوتا۔شیریں گفتار،گفتگوواضح ہوتی، نہ بے فائدہ ہوتی نہ بے ہودہ ،گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے،دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ با رعب اور جمیل نظر آتے اور قریب سے سب سے شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔۔۔( الحدیث) ( ضیاءالنبی)
ام معبد نے رسول پاک ﷺ کے حسن کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کو تصور میں لائیے اور اپنے دل سے پوچھئیے کہ بھلا کائنات میں ان اوصاف اور خوبیوں کا حامل ذات مصطفٰی ﷺ کے علاوہ کوئی اور ہے؟ توآپ کا ایمان وہی کہے گا جو حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے ایمان نے فرمایا تھا:
”یا رسول اللہ ﷺ! آپ جیسا حسین صورت میری آنکھوں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ ہی آپ سا جمال صورت بچہ کا ئنات کی کسی عورت نے جنا،اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر (جسمانی و روحانی) عیب سے پاک وصاف بنا کر پیدا فرمایا ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسا آپ چاہ رہے تھے اللہ نے آپ کو ویسا ہی بنایا۔“
امام محمد مہدی الفاسی نے شیخ ابو محمد عبد الجلیل القصری کا قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں :
’’حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر حسینان عالم کا حسن و جمال حضور ﷺ کے حسن و جمال کے مقابلے میں محض ایک جز کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کے حسن کو ہیبت ووقار کے پردوں سے نہ چھپایا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ ﷺ کے دیدار سے اندھا نہ کیا ہوتا تو کوئی شخص آپ کی طرف ان دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔( حسن سراپائے رسول ﷺ)
سچ تو یہ ہے کہ حضور ﷺ کے حسن کا کما حقہ کوئی بھی ادراک ہی نہیں کر سکتا اس لیے کہ ذات مصطفی کاادراک انسان کی عقل ناقص کے بس کا کام نہیں ہے
وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں ۔ یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں۔امام احمدرضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ

2 comments:

  • 16 August 2018 at 18:22

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم
    اخی مسلم
    اس سے پہلے کہ کچھ عرض کروں ایک واقعہ پڑھیں
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    "میں ایک سال کا تھا جب میرے والدین البانیہ سے ہجرت کر کے امریکہ آئے. میرا باپ اس ملک (امریکہ) سے محبت کرتا تھا اور وہ یہاں آزادی کی تلاش میں آیا تھا. مجھے ایک 'غیر مسلم مسلمان' کی طرح پالا گیا....."

    یہ الفاظ ہیں باش فاسٹن (Bosch Fawstin) کے جو آگے چل کر "غیر مسلم مسلمان" کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے،

    "وہ مسلمان جو سیکولر زندگی گزارتے ہوں...!!!"
    (کم از کم ہمارے یہاں کے سیکولرز کی نسبت اسکا کنسیپٹ کلئیر ہے)

    پھر سیکولر زندگی کی وضاحت میں جس چیز کو وہ سب سے اہم سمجھتے ہوئے بتاتا ہے، وہ یہ کہ،
    "ہم سال میں ایک بار نماز پڑھنے مسجد جاتے اور گھر میں قرآن کا ایک نسخہ بھی طاق (طاقِ نسیاں) پر کہیں پڑا تھا جو ہم نے کبھی کھول کر نہ دیکھا...!!!"
    (انفرادی سطح کا سیکولر ازم)

    پھر یہ ملعون کہتا ہے کہ نائن الیون کے بعد اس نے قرآن کھولا تو اس پر اسلام کی جبر و استبداد پر مبنی تعلیمات کا انکشاف ہوا(نعوذبااللہ) جسکی وجہ سے یہ دہریہ بن گیا. اب یہ اپنے آپکو "علاج یافتہ" مسلمان کہتا ہے...!!!

    (یہاں ان لوگوں کیلئے بھی سبق ہے جو کہتے ہیں کہ حدیث کی کتابیں پڑھ کر لوگ ملحد بن جاتے ہیں، لہذا قرآن ہی کافی ہے. جس نے الحاد کا طوق پہننا ہے وہ قرآن پڑھ کر بھی گمراہ ہو سکتا ہے...!!!)

    یہ باش فاسٹن ہے کون خبیث؟

    یہ ٹیکسس میں ہونے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بنائے جانے والے کارٹون کنٹیسٹ میں پہلے نمبر پر آنے والا لعنتی ہے.
    اور اب یہ نیدرلینڈ میں ملعون گیرٹ وائلڈر کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کارٹون مقابلے میں جج کے فرائض انجام دے گا...!!!

    ہم کیا کریں؟
    یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ایک امتی کے ایمان کا امتحان ہوتا ہے. واللہ کوئی بھی مسلمان اگر ان خبثاء تک پہنچ پائے تو انکی گردن مارنے میں ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر نہ کرے. لیکن ہمیں 57 سے زائد ٹکڑوں میں کاٹ کر اب یہ لوگ ہمارے عتاب سے بہت حد تک محفوظ ہو چکے ہیں.
    اب ہمارے غم و غصے کا اظہار محض احتجاجی مظاہرے ہی رہ گئے ہیں جو کم از کم ہمارے جذبات تو ان تک پہنچا سکتے ہیں. جو کم از کم اتمام حجت کا کوئی معمولی سا حصہ تو شاید بن سکیں. جو ہمیں روز قیامت اپنی صفائی میں کچھ تو کہنے کا موقعہ دے سکیں. جو شاید اس ایک چھوٹے سے بظاہر بے ضرر سے عمل سے شاید ہمیں ہمارے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر کا مستحق بنا دیں. جو شاید ہم سیاہ کاروں کو انکی شفاعت کا مستحق بنا دیں...

    تو آئیں ہمارے ساتھ 17 اگست بروز جمعۃ المبارک، سہ پہر 3 بجے حبیب آباد محمدی چوک شیرگڑھ روڈ نزد جامعہ مسجد حنفیہ غوثیہ اڈے والی میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے دفاع میں منعقدہ مظاہرے میں شرکت فرمائیں.

    اور ہاں، باش نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسلمان جو اسلام کو سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ ہمارے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور جو نہیں لیتے وہ نہیں...!!!

    تو کیا آپ اپنے دین کو سنجیدگی سے لیتے ہیں؟!!!

  • 16 August 2018 at 18:23

    🌹 ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻧﮑﺎﺡ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ - ﻧﮑﺎﺡ ﺧﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺩﻟﮩﺎ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍ ﺳﮑﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ - ﺩﻟﮩﺎ ﺍﺱ ﺳﻮﺍﻝ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﺧﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﻢ ﺩﻭ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮩٰﺬﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﮐﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ - ﯾﮧ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﭼﻼ‌ ﮔﯿﺎ -
    ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ -
    ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ -
    ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﻢ ﺳﻢ ﺧﺎﻣﻮﺵ
    ﺩﻟﮩﺎ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﺷﺪﯾﺪ ﻃﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﻝ ﻓﻮﻝ ﺑﮑﺘﺎ ﺭﮨﺎ - ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻟﻤﮧ ﺳﻨﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺳﯽ ﻣﺤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﮯ - ﯾﮧ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ - ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺳﮑﻮﻝ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮩﮟ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺗﻮ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ -
    ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ
    " ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﮐﺸﯽ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ -"
    ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺳﻨﮯ ﺗﻮ ﺗﮍﭖ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﮒ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﻟﻮ ﭘﮭﺮ ﺟﻮ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﮰ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ -
    ﭼﻨﺪ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻗﺪﺍﻡ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺳﻨﻮ -
    ﭘﻮﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﺐ ﮨﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮔﻮﯾﺎ ﮨﻮﺋﯽ -
    ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻭﺍﻟﺪ ، ﭼﭽﺎ ، ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺮﺩ ﻭ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻋﺎﺯﻡ ﺳﻔﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﺎﻓﻠﮯ ﭘﺮ ﮨﻨﺪﻭ ﺑﻠﻮﺍﺋﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺮﺩ ﺟﺎﻥ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻟﮍﮮ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮑﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺷﮩﯿﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ - ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮨﻢ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼ‌ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ -
    ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﭽﺎ ﺑﮭﯽ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ - ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻥ ﺗﻮ ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯾﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﭼﻞ ﭘﮍﺗﯽ ﺟﻮ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺮﺩ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﺬﮐﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ - ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﯽ ﺁﮔﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﻻ‌ﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﺮ ﺧﻮﺍﺭ ﺑﭽﮧ ﭘﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ - ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﺁﺧﺮ ﮐﺎﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ - ﻣﮩﺎﺟﺮ ﮐﯿﻤﭙﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﻧﻈﺮ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﺗﮏ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺭﮦ ﮔﺌﯽ - ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﻢ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ--
    ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﻗﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺗﻨﮩﺎ ﮨﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﻭﮦ ﺑﭽﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﮯ --
    ﺍﺏ ﺑﺘﺎﺅ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻻ‌ﺷﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﻥ ﺑﺘﺎﺗﺎ ؟
    ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺗﮏ ﮨﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﺍﺷﮑﺒﺎﺭ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺟﻠﯽ ﮐﭩﯽ ﺳﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﻤﻨﻮﻧﯿﺖ ﮐﺎ ﭘﮩﺎﮌ ﺑﻨﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ -- ﭘﮭﺮ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﺣﺴﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ --
    ﺟﺲ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺩﻋﻮٰﯼ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﯿﻨﯽ ﺷﺎﮨﺪ ﮨﯿﮟ --
    ﺁﺝ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﺴﻞ ﮐﻮ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻣﻨﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﻣﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﯿﺴﯽ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻻ‌ﮐﮭﻮﮞ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﯾﻢ ﮨﻤﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻥ ﻻ‌ﮐﮭﻮﮞ ﻗﺮﺑﺎﻧﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﺛﻤﺮ "ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ " ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ
    -- ﺁﻣﯿﻦ ۔۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔