روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے ،اللہ تعالی نے امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پرہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزوں کو فرض کیاہے ۔جیساکہ سبل الہدی والرشادمیں ہے :وفی السنۃ الثانیۃ فرض شہر رمضان۔ (سبل الہدی والرشاد،جماع ابواب سیرتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الصوم والاعتکاف، الباب السادس فی صومہ صلی اللہ علیہ وسلم التطوع) اور سورۂبقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے :یاایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرہ ۔ 183) سورۂ بقرہ کی ایک اور آیت مبارکہ میں ہے ۔ شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس وبینٰت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشہر فلیصمہ۔(سورۃ البقرہ ۔ ) ترجمہ:ماہ رمضا ن وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اس حال میں کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے والی روشن دلیلیں ہیں ، تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزہ رکھے۔
رمضان المبارک کی آمد پر خوشخبری
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کی عظمت وشان آشکار کی ہے، آمد رمضان سے پہلے اس کے فضائل سے متعلق خطبے ارشاد فرمائے ہیں، استقبال رمضان سے متعلق بنیادی طورپر تین روایتیں ہیں ، جواستقبال رمضان کے عنوان پر تین بلیغ خطبوں کی حیثیت رکھتی ہیں ، ماہ رمضان کی آمد سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس کی آمد کی خوشخبری سناتے ۔ جیساکہ مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے : عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَال قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُبَشِّرُ اَصْحَابَہُ قَدْ جَاءَکُمْ شَہْرُ رَمَضَانَ شَہْرٌ مُبَارَکٌ افْتَرَضَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ یُفْتَحُ فِیہِ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَیُغْلَقُ فِیہِ اَبْوَابُ الْجَحِیمِ وَتُغَلُّ فِیہِ الشَّیَاطِینُ فِیہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَہْرٍ مَنْ حُرِمَ خَیْرَہَا فَقَدْ حُرِمَ . ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘آپ نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشادفرمایا:تمہارے پاس ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، یہ ایک برکت والامہینہ ہے ۔ اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں ، اس میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ، دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کیا جاتاہے ، اس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو شخص اُس رات کی بھلائی سے محروم رہا تو حقیقت میں وہ محروم رہ گیا۔ (مسند امام احمد،مسند ابوہریرۃ،حدیث نمبر:9227)
روزے کے مختصر فوائد
دین اسلام کے ہر حکم میں انسان کے لئے دنیا و آخرت کی سعادت مندی اور کئی فوائد مضمر ہوتے ہیں ، روزہ جہاں اخروی لحاظ سے باعث اجر و ثواب ہے وہیں روزہ کے طبی ‘ معاشرتی و اجتماعی فوائد بھی ہیں ۔ روزہ کے معاشرتی و اجتماعی من جملہ فوائد کے ایک یہ ہے : جب معاشرے کے مالدار افراد روزہ رہ کر بھوک و پیاس کی سختی کو برداشت کریں گے تو انہیں بھوک و پیاس کی شدت کا احساس ہوگا ، اس طرح وہ محتاج و تنگدست افراد کی ضرورت کو سمجھ سکیں گے اور ان کی طرف دست تعاون دراز کریں گے، اس طرح معاشرہ اخوت و بھائی چارگی کا گہوارہ بن جائے گا۔ طبی لحاظ سے توروزہ کے کئی فوائد ہیں ، روزہ رکھنے سے انسانی صحت ہمیشہ برقرار رہتی ہے ۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ معدہ کو طویل وقت تک غذا سے خالی رکھنا کئی جسمانی امراض کا علاج ہے، اسی طرح بھوک کی وجہ سے معدہ کے فاسد مادے زائل ہوجاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں روزہ انسان کو درپیش ہونے والے کئی امراض کا موثر ذریعۂ علاج ہے ۔ بلڈ پریشر، شوگر، بدہضمی اور اس جیسے کئی عوارض جسمانیہ کی روک تھام کیلئے بے حد مفید ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کے لئے مسلسل رکھنا ضروری نہیں، روزے فصل (gap) دے کر بھی رکھ سکتے ہیں- جیسا کہ رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم میں ہے: ( قَوْلُهُ وَبِلَا وِلَاءٍ ) بِكَسْرِ الْوَاوِ أَيْ مُوَالَاةً بِمَعْنَى الْمُتَابَعَةِ لِإِطْلَاقِ قَوْله تَعَالَى : - { فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم)
اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا بیمار ہو تو اس کے لئے اس بات کی اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں اس روزہ کی قضاء کرلے‘ بیماری کے سلسلہ میں ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہئے‘ اگر ماہر ڈاکٹر کہے کہ اس حالت میں روزہ رکھنا مریض کے لئے نقصان دہ ہوگا تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لئے ان کے مخصوص ایام میں روزہ رکھنا جائز نہیں‘ دیگر ایام میں فوت شدہ روزوں کی قضاء کرنی چاہئے۔ ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے‘ آپ نے انہیں دین کی طرف توجہ دلائی اور اپنا حق ادا کیا‘ وہ خاتون باشعور اور صاحب عقل ہیں ممکن ہے واقعۃً ان کے پاس کوئی عذر رہا ہو‘ ورنہ وہ اپنے عمل کی ذمہ دار ہیں‘ آپ ثبوت طلب کرنے کے بجائے صحیح معلومات فراہم کرنے پر اکتفاء کریں۔
گلوکوس اور انجکشن کے بارے میں علماء کے دوقول ہیں،بعض حضرات کا کہنا ہیکہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اور بعض حضرات کی تحقیق کے مطابق اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اورٹوٹنے والا قول ہی قرین احتیاط ہے،کیونکہ گلوکوس اور انجکشن کی وجہ سے جو دوا اور غذا جسم کے اندر پہنچائی جاتی ہے، گوکہ وہ طبعی منافذ(سوراخ) "کان ناک حلق وغیرہ" کے ما سوا مقامات سے پہنچائی جا تی ہو تب بھی غذائیت یا دوا ہونے کی وجہ سے بدن کے لئے تقویت، صحت وتندرستی کا باعث ہوتی ہے، اور جو دوا یا غذا طبعی منافذ سے راست معدہ میں پہنچتی ہے وہ بھی ہضم ہوکر بدن ہی کو تقویت پہنچاتی ہے اسی لئے گلوکوس اور انجکشن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ بحالت روزہ گلوکوس اور انجکشن سے گریز کریں، علاوہ ازیں معدہ میں جو غذا پہنچائی جاتی ہے معدہ اسے ہضم کرکے جسم میں تقویت پیدا کرتا ہے،اور انجام کار کے لحاظ سے یہ دوا یا غذا جسم کے لئے تقویت یا تندرستی کا باعث ہوتی ہے،اس وجہ سے ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جاتاہے، اسی طرح گلوکوس اور انجکشن کے ذریعہ دوا یا غذا خون میں محلول ہوکر جسم کی تقویت یا تندرستی کا سبب بنتی ہے لہذا انجام کار کے اعتبار سے اس صورت میں بھی روزہ ٹوٹ جاتاہے، روزہ کا مقصد محدود وقت کے لئے معدہ کوخالی رکھنا اور جسم میں غذا یا دوا نہ پہنچانا ہے،اگر بحالت روزہ گلوکوس اور انجکشن کی گنجائش مل جائے تو روزہ کا مقصد ہی باقی نہیں رہتا ، بنابریں جس طرح دوا یا غذا معدہ میں پہنچانے کی صورت میں روزہ ٹوٹنے کا حکم لگایاجارہاہے اسی طرح احتیاط پر مبنی اور مقصد کے قریب یہی قول ہے کہ گلوکوس اور انجکشن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے ورنہ آدمی گلوکوس یا انجکشن استعمال کرکے روزہ کی حالت میں بھی سیراب وتوانا رہتاہے۔ فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ پیٹ یا دماغ کے زخم میں دوا ڈالی جائے اور دوا پیٹ یا دماغ کے اندر چلی جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتاہے جیساکہ درمختار کتاب الصوم روزہ کے مفسدات کے بیان میں ہے: (او احتقن او استعط) فی انفہ شیئا (او اقطر فی اذنہ دہنا او داوی جائفۃ او آمۃ) فوصل الدواء حقیقۃ إلی جوفہ ودماغہ ۔ ۔ ۔ (قضی) فی الصور کلہا۔
شریعت اسلامیہ میں انسانوں کیلئے مقرر کردہ عبادات ومعاملات میں اسکے حالات کے لحاظ سے سہولتیں بھی رکھی گئی ہیں اور کسی پر اسکی وسعت و طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی نفس پر ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر اسکی وسعت کے مطابق۔(البقرہ: 286 ) اگر آپ فی الوقت اسقدر علیل ہیں کہ روزہ رہنا دشوار ہے اور روزہ رہنے سے آپکی صحت متاثر ہوسکتی ہے تو طبعیت ٹھیک ہونے کے بعد ان روزوں کی قضاء کرلیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ۔ ترجمہ: اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزے رکھ لو۔ ﴿البقرة : 184﴾ فتاوی عالمگیری ج1، کتاب الصوم ، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي الْأَعْذَارِ الَّتِي تُبِيحُ الْإِفْطَارَ ، ص 207 میں ہے : ( وَمِنْهَا الْمَرَضُ ) الْمَرِيضُ إذَا خَافَ عَلَى نَفْسِهِ التَّلَفَ أَوْ ذَهَابَ عُضْوٍ يُفْطِرُ بِالْإِجْمَاعِ ، وَإِنْ خَافَ زِيَادَةَ الْعِلَّةِ وَامْتِدَادَهَا فَكَذَلِكَ عِنْدَنَا ۔ اگر طبعیت ٹھیک ہو اور روزہ رہنے سے اس پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑتا ہو تو اس صورت میں روزہ رہنا لازم و ضروری ہے۔ جہاں تک بحالت روزہ بلڈ ٹسٹ کرنے کا سوال ہے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ بلڈ ٹسٹ کیلئے خون نکالا جاتا ہے اور شریعت مطہرہ میں فاسد خون نکالنے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس سے روزہ دار کوکمزوری لاحق نہ ہوتی ہو۔
پچھنا (Cupping) جسم سے فاسد خون نکالنے کے عمل کو کہا جاتا ہے‘ صحیح بخاری شریف میں احادیث شریفہ وارد ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں اور احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ احادیث شریفہ کی روشنی میں فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ احرام کی حالت میں پچھنا لگوانا ازروئے شریعت مباح ہے اور بحالت روزہ پچھنا لگوانا اس وقت بلا کراہت جائز ہے جبکہ اس کی وجہ سے کمزوری نہ ہوتی ہو‘ اگر کمزوری پیدا ہوتی ہو تو کراہت سے خالی نہیں‘ تاہم ہر حال میں غروب آفتاب تک مؤخر کرنا‘ مناسب ہے۔ ردالمحتار‘ کتاب الصوم‘ باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد ہمیں ہے: قولہ (وکذا لا تکرہ حجامۃ) ای الحجامۃ التی لاتضعفہ عن الصوم وینبغی لہ ان یؤخرہا إلی وقت الغروب والفصد کالحجامۃ۔ ردالمحتار‘ کتاب الحج‘ باب الجنایاتمیں ہے: قولہ (محاجمہ) ای موضع الحجامۃ من العنق کما فی البحر قولہ (وإلا فصدقۃ) ای وإن لم یحتجم بعد الحلق فالواجب صدقۃ۔ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میںہے : اَثَرُ الْفَصْدِ عَلَی الإِْحْرَامِ ذَکَرَ الْحَنَفِیَّۃُ الْفَصْدَ ضِمْنَ مُبَاحَاتِ الإِْحْرَامِ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ‘ فَصْد)
اگر قئے بے اختیار ہوجائے تو اس سے نہ روزہ ٹوٹے گا اور نہ قضاء لازم آئے گی اگرچہ قئے منہ بھر ہو ۔ لیکن اگر کوئی شخص قصداً قئے کرے اور قئے منہ بھر ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزہ کی قضاء لازم آئیگی ۔ فتاوی عالمگیری ج 1 ص 203 ما یوجب القضاء دون الکفارۃ کے بیان میں ہے ’’ اذا قاء او استقاء ملأ الفم او دونہ عاد بنفسہ او اعاد او خرج فلا فطر علی الاصح الا فی الاعادۃ والاستقاء بشرط ملأ الفم ھکذا فی النھر الفائق ‘‘۔
دھواں خواہ گاڑیوں سے نکلا ہو یا اور کوئی دھواں ہو، اگر کسی روزہ دار شخص کے منہ میں بلا قصد و بے اختیار چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ فتاوی عالمگیری ج 1ص 203میں ہے :وَلَوْ دَخَلَ .... أَوْ الدُّخَانُ أَوْ مَا سَطَعَ مِنْ غُبَارِ التُّرَابِ بِالرِّيحِ أَوْ بِحَوَافِرِ الدَّوَابِّ ، وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ لَمْ يُفْطِرْهُ كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ . ترجمہ: دھواں اور ہوا سے یا جانوروں کے کھروں سے اڑنے والی گرد وغبار اور اس جیسی چیزیں اگر روزہ دار کے حلق میں داخل ہوجائیں تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا گاڑیوں سے نکلنے والا یہ دھواں اگر بلا قصد و ارادہ کسی طرح روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
اگر کوئی شخص بحالت روزہ بھول کر کھاپی لے تو ایسے شخص سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ اپنا روزہ مکمل کر لے ‘جیساکہ صحیح بخاری شریف میں ہے:إِذَا نَسِیَ فَأَکَلَ وَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَہُ اللَّہُ وَسَقَاہُ-(صحیح بخاری شریف،کتاب الصوم,باب الصائم إذا أکل أوشرب ناسیا،حدیث نمبر1933) ترجمہ:جب کوئی شخص روزہ کی حالت میں بھول کر کھاپی لے تو چاہئے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرلے کیونکہ اسے اللہ تعالی نے کھلایا اور پلایا ہے- اسی لئے اگر روزہ دار بھولے سے کچھ کھا پی لے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا فتاوی عالمگیری،ج1،ص 202، کتاب الصوم, الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد ،میں ہے:إذا أکل الصائم أو شرب أو جامع ناسیا لم یفطر ، ولا فرق بین الفرض والنفل- فتاوی عالمگیری،ج1،ص 206، کتاب الصوم, الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد ،میں ہے: لو أکل أو شرب أو جامع ناسیا وظن أن ذلک فطرہ فأکل متعمدا لا کفارۃ علیہ- لھذا آپ نے جو بھول کر کھالیا تھا اس سے آپ کا روزہ نہیں ٹوٹا،اگر آپ اس کے بعد افطار تک کھانے پینے سے رکے رہے اور روزہ کے منافی کوئی عمل نہیں کیا تھا تو آپ کا روزہ مکمل ہوگیا اس کی قضاء کرنے کی ضرورت نہیں- اگر آپ نے بھول کر کھانے کے بعد یہ سمجھ کر کہ روزہ ٹوٹ گیا بلاارادہ کچھ کھایا پیا تو اس صورت میں آپ کے ذمہ روزہ کا کفارہ تو نہیں ہوگا البتہ روزہ کی قضاء کرنا ضروری ہے-
روزہ دار کا آپریشن کرنے سے روزہ فاسد ہو گا یا نہیں ؟ اس بارے میں بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور جسم سے کوئی چیز باہر نکالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے : وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَعِکْرِمَۃُ الصَّوْمُ مِمَّا دَخَلَ ، وَلَیْسَ مِمَّا خَرَجَ. ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: روزہ کسی چیز کے داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے کسی چیز کے نکلنے سے نہیں۔ (صحیح بخاری ، باب الحجامتہ والقیء للصائم،حدیث نمبر1937 ) نیز حضرت سیدتنا عائشہ رضی ا ﷲعنہا سے اسی طرح کی روایت موجود ہے: انما الافطار مما دخل ولیس مما خرج۔ ( مجمع الزوائد،حدیث نمبر4970 ) آپریشن کے ذریعہ جسم سے کوئی چیز نکال دی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، بشرطیکہ آپریشن کے لئے جو آلات استعمال کئے جاتے ہیں ان آلات کے ذریعہ اندر کوئی دوا نہ پہنچائی جائے-البتہ اگر کسی غیر کا عضو مثلاً گردہ وغیرہ جوڑدیا جائے، کیپسول، پاؤڈر یا سیال ((Liquid کی شکل میں دوا رکھ دی جائے تو روزہ ٹوٹ جائیگا اور صرف قضا لازم ہوگی ۔ آپریشن سے پہلے جسم کو سُند کرنے کی غرض سے ریڑھ کی ہڈی میں انجکشن دیا جاتا ہے ماہر ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق اس کا اثر معدہ یا دماغ یا خون کی رگوں تک نہیں پہنچتا اور نہ وہ دوا یا غذا کا کام کرتا ہے، اگر نفس الامر ایسا ہی ہو تو اس انجکشن کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر اس دوران بلڈ پریشر یا شوگر کا یا کوئی اور انجکشن دیا جائے جس کا اثر معدہ یا دماغ یا خون کی رگوں تک راست یا بالواسطہ پہنچتا ہو تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔ علامہ طاہر بن عبد الرشید بخاری رحمۃ ا ﷲعلیہ فرماتے ہیں: وما وصل الی جوف الراس والبطن من الاذن بالا نف والد بر فہو مفطر بالا جماع وفیہ القضاء ۔ (خلاصۃ الفتاوی ج 1ص 253 الفصل الثالث فیما یفسد الصوم)۔نیز خلاصۃ الفتاوی میں ہے : ولو طعن برمح فوصل الی جوفہ ثم نزعہ لا تفسد صومہ۔ (خلاصۃ الفتاوی ج 1ص 253 الباب الثالث فیما یفسد)
روزہ میں مسواک کے علاوہ بلا عذر شرعی ٹوتھ پیسٹ یا پاوڈر وغیرہ کا استعمال کرنا مکروہ ہے؛ کیو ںکہ اس میں ایک قسم کا ذائقہ بھی ہوتا ہے۔ اگر بحالت روزہ احتیاط کے ساتھ ان کو استعمال کیا جائے تب بھی کراہت سے خالی نہیں ہے اور اگر کچھ ذرات حلق میں چلے جائیں تو روزہ فاسد ہوجاتا ہے ۔ لہذا ٹوتھ پیسٹ ‘ٹوتھ پاوڈر یا منجن ہرگز استعمال نہ کریں ۔ فتاوی عالمگیری ج 1ص 199 میں ہے ۔ وکرہ ذوق شیء ۔ روزہ کی حالت میں ٹوتھ پاوڈر یا ٹوتھ پیسٹ کے بجائے مسواک کا استعمال کرنا مسنون و مستحب ہے بلکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت روزہ مسواک کے استعمال کو روزہ دار کی بہترین صفت قرار دیا ہے ۔ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال خیرخلال الصائم السواک۔ ترجمہ:حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روزہ دار کی بہترین صفت مسواک کرنا ہے ۔ (بدائع الصنائع ج 1 ص 269) فتاوی عالمگیری ج 1ص 199 میں ہے:ولا باس بالرطب والیابس فی الغداوۃ والعشی۔ترجمہ : روزہ دار کے لئے صبح و شام تریا خشک مسواک استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مسواک استعمال کرنے کے متعدد فضائل اور طبی نقطہ نظر سے کئی ایک فوائد ہیں ۔ مسواک کا ادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ منہ کی بو دور ہوجاتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ۔ جیساکہ درمختار ج 1ص 85میں ہے :ادناہ اماطۃ الاذی واعلاہ تذکیر الشھادۃ عندالموت ۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہاجاتاہے، اس دن روز ہ رکھنا سنت ہے ، دراصل یہود بھی عاشوراء کوروزہ رکھتے تھے، اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچانے کے لئے حکم فرمایا کہ دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھ لیا جائے ، جیسا کہ زُبدۃ المحدثین سیدی محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ نے زجاجۃ المصابیح ، ج1، ص:572 ، میں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے حدیث شریف ذکر کی ہے:
عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صوم یوم عاشوراء : صوموہ وصوموا قبلہ یوما او بعدہ یوما ، ولاتتشبہوا بالیہود۔
رواہ الطحاوی۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ سے متعلق روایت کرتے ہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد روزہ رکھو! اوریہود کی مشابہت مت اختیارکرو۔( زجاجۃ المصابیح ، ج1، ص:572)
اگر کوئی شخص صرف دسویں کا روزہ رکھے تو روزہ ادا ہوجائے گا تاہم یہ عمل یہود سے مشابہت کی بنا پر مکروہ ہے ، حاشیہ زجاجۃ المصابیح ، ج:1، ص: 572، میں ہے :
قال الشیخ ابن الھمام : یستحب صوم یوم عاشوراء ، ویستحب ان یصوم قبلہ یوماً او بعدہ یوما ، فان افردہ فہو مکروہ للتشبہ بالیہود۔
ردالمحتار ج2، ص 91، میں ہے :
ای مفرداً عن التاسع او عن الحادی عشر امداد لانہ تشبہ بالیہود محیط ۔
ہر چیز کی زکوٰۃ ہے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے
حدیث شریف: ابو دائود میں ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار اعظمﷺ شعبان کا اس قدر تحفظ کرتے کہ اتنا اور کسی ماہ کا نہ کرتے پھر رمضان کا چاند نظر آتا دیکھ کر روزہ رکھتے اور اگر ابر ہوتا تو تیس دن پورے کرکے روزہ رکھتے۔
انسان کے جسم میں پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعے سے کوئی چیز بدن کے اندر داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
1… منہ یعنی حلق کے ذریعے سے کوئی چیز اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
2… ناک کے ذریعے سے کوئی چیز اندر چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
3… کان کے ذریعے سے کوئی چیز اندر چلی جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
4… پیشاب کے مقام سے کوئی چیز اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا (اس میں مرد کا استثناء ہے)
5… پاخانے کے مقام سے کوئی چیز اندر داخل ہوجائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اگر کسی نے جان بوجھ کر روزہ توڑا تو اس کا کفارہ پے درپے ساٹھ روزوں کا رکھنا ہے اور ایک روزہ اس کی قضا کا اور باقی ساٹھ روزے کافارے کے ٹوٹل 61 روزے رکھے گا۔
مسئلہ: روزہ ٹوٹنے یا توڑنے کی صورت میں وہ پورا دن روزے کا سا گزارے گا، رمضان کا احترام کرے گا۔
مسئلہ: ایسی بیماری ہے کہ روزہ توڑنا ضروری ہے تو ایسی صورت میں صحت یاب ہونے کے بعد وہ ایک روزہ رکھ کر اس کی صرف قضا کرے گا۔
مسئلہ: منہ میں کوئی زخم ایسا آیا جس سے خون نکلا اور آپ کو غالب گمان ہے کہ خون کو نگل لیا گیا ہے تو ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور یہ ساری ٹوٹنے کی صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں صرف ایک روزے کی قضا واجب آئے گی۔
مسئلہ: دانت میں کوئی چیز پھنسی ہوئی تھی، اس کی مقدار علماء نے سمجھانے کے لئے چنا برابر لکھا چنے کے برابر کوئی چیز دانت میں پھنسی ہے یا منہ میں رہ گئی اور اسے جان کر کے نگل گیا تو ایسی صورت میں بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔ باریک کوئی چیز نگل گئے تو روزہ نہیں جائے گا بلکہ چنے کے برابر کوئی چیز حلق سے نیچے اتر جائے تو بھی روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: ذرہ کتنا ہی چھوٹا ہو، اسے منہ سے باہر نکال کر پھر دوبارہ منہ میں ڈال کر نگل لے گا، روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: اگربتی جل رہی تھی یہ جاننے کے لئے کہ خوشبو کیسی ہے اس نے جان بوجھ کر دھوئیں کو کھینچا اور وہ اس کے حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: راستے سے گزر رہا تھا گاڑی وغیرہ کا دھواں نادانستہ طور پر حلق میں چلا گیا اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا جان بوجھ کر اگر کھینچے گا روزہ ٹوٹ جائے گا یہی حکم کھانے پکانے والوں کا بھی ہے،روزے کی حالت میں لوبان اور اگربتی جلانے سے پرہیز کریں۔ فقیر قسم کے لوگ جو دکانوں پر لوبان کی دھونی دیتے پھرتے ہیں انہیں سختی سے منع کیا جائے۔
مسئلہ: عطر لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ عطر کے سونگھنے سے اس کے کوئی اجزاء پیٹ میں نہیں پہنچتے
مسئلہ: ایک شخص نہا رہا ہے نہانے کے دوران ناک میں پانی چڑھایا یا وضو میں ناک میں پانی چڑھانے میں پانی حلق کے نیچے یا دماغ میں پہنچ گیا دونوں حالتوں میں روزہ ٹوٹ جائے گا، دماغ میں پانی پہنچنے کی علامت یہ ہے کہ ایک تلخی دماغ میں محسوس ہوتی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ پانی دماغ میں پہنچ گیا ہے، اس طرح روزہ ٹوٹنے پر صرف ایک روزہ قضا کرنا ہوگا۔
مسئلہ: آپ سو رہے تھے احتلام ہوگیا روزہ نہیں ٹوٹے گا خدانخواستہ بدنگاہی سے احتلام ہوگیا اب بھی روزہ نہیں ٹوٹے گا عموما بندہ رات میں ناپاک ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ سحری کرنے سے پہلے غسل کرلے تاکہ غرغرہ بھی صحیح ہوجائے اور ناک میں پانی بھی صحیح پہنچ جائے، فرض کریں کہ ایک شخص پر غسل فرض ہوگیا اور جب سحری کے لئے اٹھا تو روزہ بند ہونے میں چند منٹ باقی بچے، اب اگر وہ غسل کرے گا تو سحری کا وقت ختم ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں وہ دو منٹ کے اندر کلی کرے اور غرغرہ کرلے۔ اس کے بعد ناک میں پانی اچھی طرح چڑھالے پھر جلدی سے سحری کرنے کے بعد اب وہ پورے بدن پر پانی ڈال لے کہ کوئی بال برابر جگہ سوکھی نہ رہے تو غسل ہوجائے گا۔
مسئلہ: اگر کان میں پانی ڈالا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا مثلا آپ نہا رہے تھے، نہانے میں اگر کان میں پانی آپ نے خود ڈالا یا نادانستہ طور پر چلا گیا۔ دونوں صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
مسئلہ: پانی کے علاوہ جان بوجھ کر اگر کان میں دوا یا تیل ڈالا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: روزے کی حالت میں آپ بیت الخلاء گئے اور پاخانہ کیا پاخانہ کرے کے بعد عموماً پاخانے کے مقام کو زور دے کر استنجاء کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاخانے کے اندر کا مقام باہر آجاتا ہے۔ اس طرح اگر آپ نے پانی استعمال کیا تو ظاہر ہے اس اندر کے مقام والے راستے سے پانی اوپر چلا جائے گا جس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: پیٹ کے درد کی وجہ سے مریض کے پاخانے کے مقام سے ایک مادہ داخل کیا جاتا ہے جس سے مریض کو دست ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: ہمارے یہاں بیماری یہ نکل آئی ریڈیو، ٹی وی ہونے کے باوجود ہم جب تک اذان نہ سن لیں یا جب تک اذان ختم نہ ہوجائے اس وقت تک کھانے کی کارروائی جاری رکھتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ سحری کا جو وقت ختم ہونے کا ہے۔ اس سے پانچ منٹ پہلے روزہ بند کرلیں تاکہ اگر گھڑی آگے پیچھے ہو تو روزہ ضائع نہ ہوجائے اذان کا انتظار نہ کریں کیونکہ اذان روزہ بند کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ نماز کے لئے ہوتی ہے اور اذان کا وقت سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
مسئلہ: غروب آفتاب کا وقت معین ہے اس میں بھی دو چار منٹ تاخیر میں کوئی حرج نہیں۔
کن چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا
مسئلہ: قے یعنی الٹی منہ بھر بھی آجائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا روزہ اس وقت ٹوٹے گا جب آپ نے جان بوجھ کر انگلی ڈالی ہو۔
مسئلہ: تھوک کو نگلنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا، مگر تھوک کو جمع کرکے ایک ساتھ نگلنا برا ہے۔
مسئلہ: کھانسی آئی اور بلغم بھی آگیا تو بلغم تھوک دے۔ اگر حالت نماز میں بلغم آگیا تو نگل جائے کیونکہ بلغم کے نگلنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ: قے آئی تو قے کا کچھ حصہ آپ نے نگل لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: حالت روزہ میں انجکشن لگانے میں دو رائے ہیں۔ اگر دوائی والا لگائیں تو نہیں ٹوٹے گا اور غذا والا لگائیں تو ٹوٹ جائے گا۔ اس سلسلے میں مشورہ یہی ہے کہ حالت روزہ میں انجکشن کوئی بھی نہ لگایا جائے۔ سحری سے پہلے لگالیں یا افطاری کے بعد لگالیں۔
روزہ نہ رکھ سکیں تو کیا احکامات ہیں
کوئی شخص بیمار ہے، روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ایسا شخص جتنے روزے پالے، وہ رکھ لے، جو رہ جائیں، صحت یابی کے بعد اس کی قضا کرے۔ مسافر پر روزے کی وقتی طور پر چھوٹ ہے۔
مسئلہ: ایک شخص کی مسافری میں تین دن کے روزے رہ گئے، مثلا تیسواں چاند تھا۔ ستائیس روزے اس نے رکھے، تین رہ گئے تو کوشش کرے کہ وہ عید کے بعد فورا رکھ لے۔
مسئلہ: عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ وہ ناپاک ہے۔ نفاس والی ہے۔ وہ روزہ نہیں رکھے گی اسی طرح کسی عورت کو حیض آتا ہو، وہ بھی روزہ نہیں رکھے گی لیکن یہاں کچھ ابہام ہے کہ عورت کو جتنے دن حیض آئے، اگر اسے عادت مسلسل سات دن کی ہے اور چھ دن میں حیض بند ہوجائے تو وہ ساتویں دن کا بھی انتظار کرے، اپنی عادت پوری کرے۔
مسئلہ: نفاس کی مدت چالیس دن نہیں جیسا کہ عورتوں میں مشہور ہے۔ بچے کی ولادت کے ایک ہفتہ بعد عورت مطمئن ہوگئی کہ خون بند ہوگیاہے۔ اس کے بعد وہ روزے بھی رکھے اور نمازیں بھی پڑھے۔ اگر بیس دن کے بعد مطمئن ہوجائے کہ اب خون نہیں آرہا تو وہ بیس دن کے بعد غسل کرکے نمازیں بھی پڑھے اور روزے بھی رکھے۔
مسئلہ: چالیس دن کے بعد بھی اگر عورت کو خون آئے تو اب اس کو نفاس نہیں کہیں گے بلکہ اس کا نام فقہاء نے استحاضہ رکھا ہے استحاضہ اصل میں بیماری ہے۔
مسئلہ: کینسر جب ایسی حد کو چھو جائے کہ اب مریض کی صحت یابی ممکن نہیں یعنی مریض اب پوری زندگی روزے نہیں رکھ سکے گا ایسی صورت میں ایسا مریض فدیہ دے گا۔
مسئلہ: ایک شخص شوگر میں مبتلا ہے اس مرض میں بھوکا رہنا شوگر کو بڑھاتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی وہ فدیہ دے گا۔
مسئلہ: آج کل ہلکا سا بخار ہوجائے، ڈاکٹر نماز روزے کا منع کردیتے ہیں۔ ان ڈاکٹروں کی بات نہیں مانی جائے گی۔ شرعی اعتبار سے ڈاکٹروں کا دیندار ہونا ضروری ہے کیونکہ دیندار ڈاکٹر ہلکی پھلکی بیماری میں نماز، روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دے گا۔
فدیہ کی رقم
فدیہ کتنا ہے علماء نے اس کی مقدار سوا دو سیر آٹے کی قیمت بتائی۔ اس زمانے میں جو دو کلو اور کچھ اوپر بنتا ہے۔ آپ ایک روزے کا فدیہ دو کلو اور دو سو گرام آٹا یا اس کی قیمت دے دیں۔ یہ ایک روزے کا فدیہ ہے۔
مسئلہ: فدیہ کی رقم نقدی کی شکل میں بھی دے سکتے ہیں اسی طرح تیس روزے کا فدیہ بھی ایک ہی شخص کو دے سکتے ہیں۔
مسئلہ: فدیہ صحیح العقیدہ سنی مسلمان کو دیں بدمذہبوں کو دینے سے فدیہ ادا نہ ہوگا۔
مسئلہ: فدیہ شرعی فقیر کو دیں۔شرعی فقیر کو جو زکوٰۃ کا مستحق ہو، اس کو فدیہ دیا جاسکتا ہے۔
مسئلہ: ماں باپ اگر بہت زیادہ ضعیف ہیں، کہ ان میں وزہ رکھنے کی طاقت نہیں اور نہ ہی آئندہ طاقت آنے کی امید ہے تو ان کو اجازت ان کی نیت شامل کرکے اولاد ان کی طرف سے فدیہ دے سکتی ہے پھر اگر طاقت آگئی تو ان کو سارے روزے قضا کرنے ہوں گے۔
روزے کی قسمیں
فرض کی دو قسمیں ہیں۔
(1) فرض معین
(2) فرض غیر معین
واجب کی دو قسمیں ہیں
(1) واجب معین
(2) واجب غیر معین
رمضان کے روزے فرض معین ہیں۔ ان کی قضا غیر معین ہے۔ اگر کسی نے یہ کہا کہ میرا فلاں کام ہوگیا تو پیر کے دن روزہ رکھوں گا یہ واجب معین ہے
اگر کسی نے یہ کہا کہ میرا یہ کام ہوگیاتو میں تین روزے رکھوں گا یہ واجب غیر معین ہے۔
مسئلہ: ذی الحجہ کی دس، گیارہ، بارہ، تیرہ تاریخ اور ایک عید الفطر کے دن یہ پانچ روزے رکھنا حرام ہے۔
مسئلہ: جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی دینا، بے ہودہ باتیںکرنا، کسی کو تکلیف دینا یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں۔روزہ میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ بھی مکروہ ہوتا ہے۔
مسئلہ: روزہ دار کو بلا عذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔ چکھنے کے لئے عذر یہ ہے کہ مثلا شوہریا آقا بدمزاج ہے، نمک کم و بیش ہوگا تو اس کی ناراضگی کا باعث ہوگا تو اس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں، چبانے کے لئے یہ عذر ہے کہ اتناچھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں کھا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں، جو سے کھلائی جائے نہ اور کوئی ایسا ہے جو اسے چبا کردے تو بچہ کوکھلانے کے لئے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں ۔ (در مختار)
چکھنے کے معنی وہ نہیں جو آج کل بولا جاتا ہے، کہ کسی کا مزہ معلوم کرنے کے لئے اس میں سے تھوڑا سا کھالیا کہ ایسے چکھنے سے مکروہ ہونا تو درکنار روزہ ہی جاتا رہے گا بلکہ اگر کفارہ کے شرائط پائے جائیںتو کفارہ بھی لازم ہوگا بلکہ چکھنے سے مراد یہ ہے کہ زبان پر رکھ کر مزہ پہچان لیں اور اسے تھوک دیں۔ اس میں سے حلق میں کچھ جانے نہ پائے ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ: کوئی چیز خریدی اور اس کا چکھنا ضروری ہے اگر نہ چکھا تو نقصان ہوگا تو چکھنے میں حرج نہیں (در محتار)
مسئلہ: منہ میں تھوک اکھٹا کرکے نگل جانا بغیر روزہ کے بھی درست نہیں، اور روزے کی حالت میں ایسا کرنا مکروہ ہے (عالمگیری)
مسئلہ: ایک آدمی دن بھر روزہ رکھنے کے بعد وہ یہ سمجھ کر کہ جتنی تکلیف زیادہ ہوگی ثواب اس قدر زیادہ ملے گا تو وہ افطار کے وقت نہ افطار کرے اور نہ سحری کے وقت سحری کرے اور جان بوجھ کر دوسرے دن روزہ رکھ لے، اس کو علماء نے مکروہ تنزیہی لکھا۔
مسئلہ: اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہہ دیا کہ تو میری ماں جیسی ہے یہ الفاظ اگر طلاق کی نیت سے کہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ الفاظ اگر غصے میں اپنی بیوی سے کہہ دیئے تو علماء نے اس کا نام ظہار رکھا۔ ظہار کے معنی یہ ہیں کہاگر کسی نے اپنی بیوی کو ماں کہہ دیا تو اس پر اس کی بیوی حلال نہیں۔ایسے شخص کو اب ساٹھ روزے پے درپے رکھنے ہوں گے۔ساٹھ روزے رکھنے کے بعد اب اس کی بیوی اس کے لئے حلال ہوگی۔ اگر اس نے انسٹھ روزے رکھے اور ایک روزہ چھوڑ دیا تو پھر شروع سے دوبارہ ساٹھ روزے رکھے گا۔
نیت کا وقت
مسئلہ: ایک آدمی اگر رات میں یہ نیت کرلے کہ میںصبح کا روزہ رکھوں گا۔ اس نے سحری نہیں کی اس کی نیت ہوگئی۔
مسئلہ: ایک شخص سوگیا۔ اس نے سحری نہیں کی اس کی آنکھ صبح دس بجے کھلی۔ اب وہ نیت کرلے تو روزہ ہوجائے گا۔
مسئلہ: نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے کہہ لینا بہتر ہے۔ ایک شخص رات کو روزے کی نیت کرکے سوگیا۔ وہ سحری کے وقت نہ اٹھا اور صبح دس بجے آنکھ کھلی تو اب نیت بھی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ رات کو وہ نیت کرکے سویا تھا۔ اس کا روزہ ہوگیا۔
مسئلہ: سحری کا کرنا بھی روزے کی نیت ہی ہے کیونکہ سحری روزے کے لئے ہی کی جاتی ہے۔ کیا کوئی شخص رات میں اٹھ کر اہتمام سے کھانا کھاتا ہے۔
مسئلہ: ایک آدمی کی آنکھ سحری کا وقت ختم ہونے سے دس منٹ پہلے کھلی وہ ناپاک بھی ہے۔ ایسی صورت میں وہ شخص کلی بھی کرے، وضو کرے اور سحری بھی کرے۔ اب سحری کرنے کے بعد روزے کا وقت شروع ہوگیا۔ اب وہ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے غسل کرے اور نماز ادا کرلے۔ مطلب یہ کہ ناپاکی کی حالت میں بھی روزے کی نیت بھی ہوجائے گی اور روزہ بھی ہوجائے گا۔
مسئلہ: ایک شخص کی آنکھ صبح دس گیارہ بجے کھلی۔ اب اس شخص نے یہ نیت کی کہ میں اب سے روزہ دار ہوں۔ اس نیت سے روزہ فاسد ہوجائے گا کیونکہ گیارہ بجے سے روزہ نہیں ہوتا۔ روزہ اس وقت ہوگا جب یہ نیت کی جائے کہ میں آج کے روزے کی نیت کرتا ہوں۔ یہ نیت صحیح ہے۔ اب روزہ ہوجائے گا۔
مسئلہ: روزے کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے۔
مسئلہ: روزے کی حالت میں ٹوٹھ پیسٹ اور منجن استعمال نہ کیا جائے کیونکہ اس میں غالب گمان ہے کہ کہیں اس کے ذرات حلق سے نیچے نہ اتر جائیں جس سے روزے ٹوٹ جائے گا۔
اعتکاف کے مسائل
اعتکاف بیٹھنے کیلئے مساجد کے ترتیب وار درجے بتلائے گئے ہیں جس میں سب سے افضل مسجد حرام ہے پھر مسجد نبوی علی صاحبہ افضل الصلوۃ واکمل السلام‘ پھر مسجد اقصیٰ ہے ان تین مقدس مساجد کے بعد اپنے مقام کی جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے پھر اس مسجد کادرجہ ہے جہاں جماعت میں کثیر افراد شریک ہوتے ہوں ۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری ج 1 ص 218 میں ہے افضل الاعتکاف ماکان فی المسجد الحرام ثم فی مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم فی بیت المقدس ‘ ثم فی الجامع ثم فیما ماکان اھلہ اکثرو اوفر ۔
عورت کےلیئے اعتکاف کی جگہ
عورت کیلئے مسجد میں اعتکاف بیٹھنا مکروہ ہے اگر عورت اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو اس کوچاہئے کہ گھر میں ہی اس جگہ اعتکاف کا اہتمام کرے جہاں وہ پنجوقتہ نمازیں ادا کرتی ہے ۔ اگر گھر میں نمازادا کرنے کی خاص جگہ مقرر نہیں ہے تو کوئی جگہ مختص کرلے اور اس جگہ کو پاک وصاف رکھے ۔ فتاوی عالمگیری ج 1 ص 211 میں ہے ’’ والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ فی حقھا کمسجد الجماعۃ فی الرجل ۔ ۔ ۔ فیصح من المرأۃ والعبد باذن المولی والزوج ان کان لھا زوج کذا فی البدائع ۔
چار یا پانچ دن کا اعتکاف
ماہ رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا سنت مؤکدہ کفایہ ہے اگر ایک شخص بھی اس کا اہتمام کرلے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے ۔ ردالمحتار ج 2 ص 141 میں ہے ۔ ( قَوْلُهُ أَيْ سُنَّةُ كِفَايَةٍ ) نَظِيرُهَا إقَامَةُ التَّرَاوِيحِ بِالْجَمَاعَةِ فَإِذَا قَامَ بِهَا الْبَعْضُ سَقَطَ الطَّلَبُ عَنْ الْبَاقِينَ
رد المحتار ج 1 ص 521 میں ہے وَهَلْ الْمُرَادُ أَنَّهَا سُنَّةُ كِفَايَةٍ لِأَهْلِ كُلِّ مَسْجِدٍ مِنْ الْبَلْدَةِ أَوْ مَسْجِدٍ وَاحِدٍ مِنْهَا أَوْ مِنْ الْمَحَلَّةِ. . . . وَيَظْهَرُ لِي الثَّالِثُ ، لِقَوْلِ الْمُنْيَةِ : حَتَّى لَوْ تَرَكَ أَهْلُ مَحَلَّةٍ كُلُّهُمْ الْجَمَاعَةَ فَقَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ وَأَسَاءُوا .
اعتکاف سنت مؤکدہ کا وقت بیسویں رمضان کے غروب آفتاب سے عید کا چاند نکلنے تک ہے ۔ درمختار کے اسی صفحہ پر ہے: ( وَسُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ فِي الْعَشْرِ الْأَخِيرِ مِنْ رَمَضَانَ)
اگر آپ مشاغل ضروریہ کی بناء دس دن سے کم مدت کا اعتکاف بیٹھنا چاہتے ہیں تو یہ اعتکاف مستحب ہوگا سنت مؤکدہ نہیں ۔ اگر محلہ کاکوئی بھی فرد اعتکاف نہ کرے تو سب لوگ سنت موکدہ کے تارک ہوں گے ‘ اور اہل محلہ کا یہ عمل برا سمجھا جائیگا، اس لئے محلہ سے کم از کم ایک شخص اعتکاف بیٹھے تاکہ سب کے ذمہ سے ادا ہو اور اعتکاف کی فضیلت حاصل ہو ‘ حدیث شریف میں وارد ہے کہ معتکف کو تمام نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث شریف ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ فِى الْمُعْتَكِفِ « هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا ».
ترجمہ :حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ معتکف گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اس کو اس قدر ثواب ملتا ہیکہ گویا اس نے تمام نیکیاں کیں ۔ ﴿سنن ابن ماجہ شریف ،کتاب الصوم ، باب فی ثواب الاعتکاف ،حدیث نمبر:1853﴾ اعتکاف نہ بیٹھنے والوں سے متعلق عظیم المرتبت تابعی امام ابن شھاب زہری فرماتے ہیں لوگوں پرتعجب ہے! اعتکاف چھوڑ دیتے ہیں جبکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی عمل فرماتے تو کبھی اس کو ترک بھی فرماتے لیکن آپ مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد سے پردہ فرمانے تک اعتکاف ترک نہیں فرمائے وَعَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ : عَجَبًا لِلنَّاسِ تَرَكُوا الِاعْتِكَافَ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَيَتْرُكُهُ وَلَمْ يَتْرُكْ الِاعْتِكَافَ مُنْذُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ إلَى أَنْ مَاتَ
( بدائع الصنائع ج 2 ۔ ص 273 ) ۔
No comments:
Post a Comment