Tuesday 14 June 2016

روزہ اور موجودہ سائنس حصّہ سوم

0 comments

روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ

اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہوگی۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے۔

مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے۔ ان نقائص و امراض کے لئے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کرکے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کرسکے۔

علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کے لئے جھاڑو کا کام دیتا ہے۔ ضبط نفس، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔

اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کے لئے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں۔

روسی ماہر الابدان پروفیسر وی۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنالئے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں۔ اول خوب محنت کیا کرو۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہئے۔

دوئم۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہئے۔

سوئم۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو۔

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی۔

کھجور سے افطار اور جدید سائنس

جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے۔ (النسائی)

روزے کے بعد توانائی کم ہوجاتی ہے اس لئے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہئے جو زود ہضم اور مقوی ہو۔

کھجور کا کیمیائی تجزیہ

پروٹین 2.4
نشاشتہ 2.0
کاربوہائیڈریٹس 24.0
کیلوریز 2.0
سوڈیم 4.7
پوٹاشیم 754.0
کیلشیم 67.9
میگنیشیم 58.9
کاپر 0.21
آئرن 1.61
فاسفورس 638.0
سلفر 51.6
کلورین 290.0
اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں۔

لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ۔

غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کے لئے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے۔

بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے۔

گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔