نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ وَعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ
وَاَزْوَاجِہِ الطَّیِّبِیِنَ الطَّاھِرِیْنَ
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بالخصوص حضور رحمۃ للعالمین ﷺ حیات حقیقی جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں۔ اپنی نورانی قبروں میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق کھاتے ہیں۔ نمازیں پڑھتے ہیں۔ گوناگوں لذتیں حاصل کرتے ہیں۔ سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، جانتے ہیں، کلام فرماتے ہیں اور سلام کرنے والوں کو جواب دیتے ہیں ۔ چلتے پھرتے اور آتے جاتے ہیں جس طرح چاہتے ہیں۔ تصرفات فرماتے ہیں اپنی امتوں کے اعمال کا مشاہدہ فرماتے ہیں اور مستفیضین کو فیوض و برکات پہنچاتے ہیں۔ اس عالم دنیا میں بھی ان کے ظہور کا مشاہدہ ہوتا ہے ۔ آنکھوں والوں نے ان کے جمالِ جہاں آراء کی بار ہا زیارت کی اور ان کے انوار سے مستنیر (منور) ہوئے۔
سردست ہمارا روئے سخن خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کی طر ف ہے۔ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام اور حضرات شہدائے عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی حیات کا مسئلہ ہمارے کلام میں ضمناً مذکور ہو گا۔ حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات مقدسہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے ثابت ہے ۔
پہلی آیت : اللہ تعالیٰ فرماتاہے
وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن َط (س انبیاء آیت ۱۰۷)
’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو (اے محمد ﷺ ) مگر رحم کر نے والا تمام جہانوں کے لئے ‘‘
وجہ استد لال یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ بمو جب آیۃ کریمہ تمام عالموں کیلئے رحمت ہیں اور جمیع ممکنات پر ان کی قابلیت کے موافق واسطہ فیض الٰہی ہیں اور اول مخلوقات ہیں اور عطاء الٰہی کو اس کی مخلوقات پر تقسیم فرمانے والے ہیں۔
تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کریمہ کے تحت مرقوم ہے۔
وکونہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم رحمۃ لِلجَمِیعِ باعتبارانہ علیہ الصلـوٰۃ والسلام واسطۃ الفیض الالٰہی علی الممکنات علیٰ حسب القوابل ولذا کان نورھ صلی اللہ علیہ وسلم اول المخلوقات ففی الخبر اول ما خلق اللہ تعالٰی نور نبیک یا جابر وجاء ’’اللہ تعالیٰ المعطی وانا القاسم‘‘ (روح المعانی پ ۱۷ ص ۹۶)
اور نبی کریم ﷺ کا تمام عالموں کے لئے رحمت ہو نا اس اعتبار سے ہے کہ حضور ﷺ تما م ممکنات پر ان کی قابلیتوں کے موافق فیض الہٰی کا واسطہ ہیں اور اسی لئے حضور ﷺ کا نور اول مخلوقات ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے
’’اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالٰی نُوْ رُ نَبِیِّکَ یَا جَابِرُ ‘‘
ترجمہ: ’’اے جابر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نو ر پیدا کیا ۔ ‘‘
دوسری حدیث میں وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ معطی ہے اور میں تقسیم کرتاہوں آگے چل کر صاحب روح المعانی فرماتے ہیں۔
والذی اختا رہ انہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم انما بعث رحمۃ لکل فرد من العالمین ملٰئکتھم وانسھم و جنھم ولا فرق بین المؤمن والکافر من الا نس والجن فی ذالک والرحمۃ متفاوتۃ‘‘ (ص۹۷پ ۱۷)
ترجمہ: ’’اور میرے نزدیک مسلک مختار یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ عالمین کے ہر فرد کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ فرشتوں، انسانوں اور جنات حضور ﷺ سب کے لئے رحمت ہیں اور اس امر میں جن وانس کے مومن و کا فر کے مابین بھی کوئی فرق نہیں اور رحمت ہر ایک کے حق میں الگ الگ اور متفاوت نوعیت رکھتی ہے۔ ‘‘
اسی آیت کریمہ پر کلام کر تے ہوئے صاحب روح المعانی آگے چل کر فرماتے ہیں۔
’’وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ اکثر الصوفیۃ قدست اسرارھم علٰی ان المراد من العالمین جمیع الخلق وھوصلی اللّٰہ علیہ وسلم رحمۃ لکل منھم الاان الحظوظ متفاوتۃ ویشترک الجمیع فی انہ علیہ الصـلٰوۃ والسلام سبب لوجودھم بل قالوا ان العالم کلہ مخلوق من نورہٖ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وقد صرح بذالک الشیخ عبدالغنی النابلسی قدس سرہ فی قولہٖ وقد تقدم غیر مرۃ
طٰہٰ النبی تکونت من نورہٖ
کل الخلیقۃ ثم لو ترک القطا
واشار بقولہٖ ’’لو ترک القطا‘‘ الیٰ ان الجمیع من نورہٖ علیہ الصلوٰۃ والسلام ( روح المعانی پ ۱۷ ص ۱۰۰)
ترجمہ: اور آیۂ کریمہ ’’وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ کے بارے میں اکثر صوفیائے کرام قدست اسرار ہم کا مسلک یہ ہے کہ عالمین سے تمام مخلوق مراد ہے اور یہ واقعہ ہے کہ حضور ﷺ عا لمین میں سے ہر ایک کے لیے رحمت ہیں لیکن ہر ایک کی رحمت کا حصہ مختلف اور جدا گا نہ ہے ۔ البتہ اتنی بات میں سب شریک ہیں کہ حضور ﷺ سب کے وجود کا سبب ہیں ۔ بلکہ صو فیائے کرام نے یہ فر مایا کہ تما م عالم حضور ﷺکے نور سے مخلوق ہے۔ سید نا شیخ عبدا لغنی نابلسی قدس سرہ العزیز اپنے اس قول میں تصریح فرماتے ہیں اور ان کا یہ قول بار بار گزر چکا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
’’طٰہٰ نبی کے نور سے تمام مخلوقا ت پیدا کی گئی ۔ پھر جمیع افراد اس کے ضمن میں آگئے اور کو ئی ایسا فرد با قی نہ رہا جو اس عموم میں شامل نہ ہوا ہو ۔
اس شعر میں لوترک القطا سے اس بات کی طر ف اشا رہ کیا گیا ہے کہ جمیع کائنات کا ایک ایک ذرہ حضور ﷺ کے نور سے ہے ۔‘‘
ان تمام عبا رات سے ثا بت ہو ا کہ آ یت کر یمہ ’’وَمَااَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ‘‘ کا مفاد یہ ہے کہ حضور ﷺ اٹھا رہ ہزار عالم کے ہر ہر فرد کو فیض پہنچا رہے ہیں۔ جس طرح اصل تمام شاخوں کو حیات بخشی ہے ۔ اسی طرح تمام عالم ممکنات اور جملہ مو جوداتِ عالم کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ اصل الاصول ہے اور ہر فرد ممکن حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے لیے فرع اور شا خ کا حکم رکھتا ہے۔
جس طرح درخت کی تمام شا خیں جڑ سے حیاتِ نباتی حا صل کر تی ہیں اسی طر ح عالم امکان کا ہر فرد حضور ﷺ سے ہر قسم کے فیو ض و برکات اور حیات کا استفادہ کر تا ہے اور حضورعلیہ ا لصلوٰۃ و السلام ہر فرد ممکن کو اس کے حسب حال حیات واقعی عطا فرماتے ہیں اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عالم کے ہر ذرہ کی طرف حضور ﷺ متوجہ ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اس کے حسب حال فیض رسانی فرماتے ہیں چنا نچہ حضرت شاہ ولی اللہ صا حب محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مشہو ر کتاب فیوض الحر مین میں حضور ﷺ کی اس رحمت اور فیض رسانی کا اس طرح بیان فرمایا ہے۔
فتفطنت ان لہ خا صیۃمن تقویم روحہٖ بصورۃ جسدہٖ علیہ الصـلٰـوۃ والسلا م وانہ الذی اشار الیہ بقولہٖ ان الانبیاء لا یموتون وانھم یصلون و یحجون فی قبورھم وانھم احیاء الٰی غیر وذالک لم اسلم علیہ قط الاوقد انبسط الی وانشرح وتبدی وظھر وذالک لانہ رحمۃ للعا لمین (فیوض الحرمین ص ۲۸ طبع دیو بند )
ترجمہ: ’’ پس مجھ کو دریا فت ہو ا کہ آ پ ﷺ کا خاصہ ہے ۔روح کو صورت جسم میں قائم کر نا اور یہ وہی بات ہے جس کی طرف آ پ نے اپنے اس قول سے اشارہ فر مایا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہیں مر تے اور نماز پڑھا کر تے ہیں اپنی قبروں میں اور انبیا ء حج کیا کر تے ہیں اپنی قبروں میں اور وہ زندہ ہیں وغیرہ وغیرہ اور جب میں نے آ پ پر سلام بھیجا تو آپ مجھ سے خوش ہو ئے اور انشراح فرمایا اور ظاہر ہو ئے اور یہ اس واسطے کہ آ پ رحمۃ للعا لمین ہیں۔‘‘
نیز حضر ت شا ہ ولی اللہ صاحب اسی کتا ب فیوض الحرمین میں ایک دوسرے مقام پر رقم طراز ہیں کہ
لما دخلت المدینۃالمنورۃوزرت الروضۃالمقدسۃعلٰی صاحبھا افضل الصلٰوۃ والتسلیما ت رأ یت روحہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ظا ھرۃ با رزۃ لا فی عالم الارواح فقط بل فی المثا ل القریب من الحس فا درکت ان العوام انما یذکرون حضور النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الصلٰوۃ واما مۃ با لنا س فیھا وامثا ل ذالک من ھٰذہٖ الدقیقۃ (فیو ض الحرمین ص ۲۷ )
ترجمہ: ’’ جب میں مد ینہ منورہ میں دا خل ہوا اور رسو ل اللہ ﷺ کے رو ضئہ مقدسہ کی زیا رت کی تو آ پ ﷺ کی روح مبارک کو ظاہراور عیاں دیکھا نہ صرف عا لمِ ارواح میں بلکہ عا لم مثال میں ان آ نکھوں سے قریب، پس میں نے معلو م کیا کہ جو لوگ کہا کرتے ہیں کہ آ نحضرت ﷺ نمازوں میں بنفسِ نفیس تشریف لاتے ہیں اور لوگوں کی اما مت فر ما تے ہیں اور ایسی ہی اور باتیں اسی نا زک مسئلہ سے متعلق ہیں۔‘‘
حضرت شاہ ولی اللہ صا حب رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اور عبارت ملا حظہ ہو ۔فرما تے ہیں
لم یزل ﷺ ولا یزال متوجہا الی الخلق مقبلا الیہم بوجہہ (فیو ض الحرمین ص۳۰ )
ترجمہ: ’’آ نحضرت ﷺ ہمیشہ خلقت کی طر ف متوجہ ہیں اور انکی طر ف اپنا رخ انور فرمائے ہوئے ہیں ۔‘‘
اسی سلسلہ میں آ گے چل کر حضر ت شاہ صا حب مو صوف ایک نہا یت ہی بصیرت افروز تقریر فرماتے ہیں۔
ورایتہ ﷺ مستقرا علی تلک الحا لۃ الوا حدۃ دا ئما لا یزعجہ فی نفسہ ارادۃ متجددۃ ولا شیء من الدواعی نعم لما کا ن وجھہ ﷺ الی الخلق کا ن قریبا جدا من ان یرتفع انسا ن الیہ بجھدہمتہٖ فیغیثہٗ فی نا ئبۃ او یفیض علیہ من بر کاتہ حتی یتخیل انہ ذوارادات متجددۃ کمثل الذی بھمۃ اغا ثۃ الملھو فین المحتا جین (فیو ض الحرمین ص ۳۰ )
ترجمہ: ’’اور دیکھا میں نے آنحضرت ﷺ کو قائم ہمیشہ اسی حا لت واحدہ پر کہ وہاں سے نہ تو آپ کو کو ئی ارادہ متجد دہ ہٹا سکتا ہے او ر نہ کو ئی داعیہ ۔ ہا ں جس وقت آپ متوجہ ہو تے ہیں خلق کی طرف تو نہا یت قریب ہو تے ہیں کہ انسان اپنی کو شش و ہمت سے عر ض کرے اور آ پ فریاد رسی کر یں اس کی مصیبت میں یا اس پر ایسی بر کتیں افا ضہ فرما ئیں کہ وہ خیال کرے کہ آ پ صاحب ارادات متجددہ ہیں ۔ جیسے کو ئی شخص مظلوموں محتاجوں کی مدد میں مصروف ہو ۔ ‘‘
صاحب روح المعا نی اور حضر ت شا ہ ولی اللہ صا حب محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہما کی ان عبارات سے یہ حقیقت آ فتا ب سے زیادہ روشن ہو کر سا منے آ گئی کہ رسول اللہ ﷺ کا رحمۃ للعا لمین ہو نا حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مرکز حیات ہونے کی چمکتی ہوئی دلیل ہے کیونکہ جب تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام متصف بحیات نہ ہو ں کسی کو فیض نہیں پہنچا سکتے ۔ تمام عالم اور کل مخلو قات کے ہر ہر فرد کو فیض پہنچا نا اس وقت تک ممکن ہی نہیںجب تک ہرذرہ کا ئنا ت میں پائے جانے والے کمال کا وجود ذات مقدسہ میں نہ ہو ۔ حیات ِ ارواح روحِ اقدس کے زندہ ہو نے کی دلیل ہے اور حیاتِ اجسام جسم پاک کی حیات کی دلیل ہے۔
دو سر ی آ یت جو رسو ل اللہ ﷺکی حیا تِ مقدسہ کو ثابت کر تی ہے اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے ۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہٖ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ
ترجمہ: ’’اور نہ کہو ان لو گو ں کے لیے جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں جا نتے ۔‘‘ (البقرۃ : ۱۵۴)
بظا ہر یہ آ یت کر یمہ شہدا (غیر انبیا ء) کی حیا ت پر دلا لت کر تی ہے لیکن درحقیقت انبیاء علیہم السلام با لخصو ص نبی کر یم ﷺ اس میں شا مل ہیں ۔ اس لئے کہ دلائل و واقعات کی رو شنی میں یہ حقیقت نا قابل انکار ہے کہ تمام انبیا ء علیہم السلام شہید ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں شہا دت کا درجہ پا یا اور ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ کے عموم میں حضو ر علیہ الصلوٰۃ و السلام بلاشبہ دا خل ہیں ۔ اس اجما ل کی تفصیل یہ ہے کہ ’’ یقتل‘‘ قتل سے ما خوذ ہے اور قتل کے معنی ہیں اماتت یعنی مار ڈا لنا ۔
رسو ل اللہ ﷺ کا مقام ( اس حیثیت سے کہ حضو ر ﷺ کی ذا ت مقدسہ سے بڑے بڑے عظیم الشان معجزات کا ظہو ر ہو ا) یہ تھا کہ کوئی شخص حضو ر ﷺ کو قتل کرنے اور مار ڈا لنے پر قادر نہ ہو۔ اس لئے کہ ایسا ہو نا بادی النظر میں معجزاتِ عظام کے منا فی (۱) تھا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فر مایا ۔ ’’وَاللّٰہُ یََعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ (المائدہ : ۶۷) یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو لو گو ں سے بچا ئے گا ۔ اور کو ئی شخص آپ ﷺ کے قتل کر نے اور مار ڈالنے پر قادر نہ ہو گا ۔ قتل اور اماتت کے معنی میں ایک باریک فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے امام راغب اصفہانی قتل کے معنی بیان کرتے ہوئے اس فرق کو ظاہر فرماتے ہیں مفردات راغب میں ہے۔
(قتل) اصل القتل ازالۃ الروح عن الجسد کالموت لٰکن اذا اعتبر بفعل المتولی لذٰلک یقال قتل واذا اعتبر بفوت الحیاۃ یقال موت
ترجمہ: ’’ قتل‘‘ قتل کے اصل معنی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں ۔ جیسے موت لیکن جب متولی اور متصرف ازالہ کے فعل کا اعتبار کیا جائے تو قتل کہا جائے گا اور جب فوت حیات کا اعتبار کیا جائے تو موت کہا جائے گا۔
قتل میں چونکہ فاعل کا فعل معتبر ہوتا ہے اور فعل کا اختیار عبد کیلئے بھی حاصل ہے۔ اس لئے قتل کی اسناد عبد کی طرف صحیح ہے اور عبد کو قاتل کہا جاسکتا ہے بخلاف اماتت کے کہ اس میں فعل مذکور معتبر نہیں بلکہ فوت حیات کا اعتبار ہے اور عبد کا اختیار فعل سے متجاوز ہوکر فوت حیات تک نہیں پہنچتا۔ حیات کا فوت ہونا قدرت خداوندی ہی سے متعلق ہے اس لئے اماتت کی اسناد صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہوسکتی ہے ازالہ ٔ حیات صرف اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ اور ممیت اس کے سوا کوئی نہیں۔
ہمارے اس بیان سے ناظرین کے ذہن میں ایک اشکال پیدا ہوگیا ہوگا۔ اور وہ یہ کہ حضور ﷺ کا ’’من یقتل‘‘ کے عموم میں داخل ہونا ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ کے منافی ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ان کی جان پاک کو لوگوں سے بچانے کا وعدہ فرماچکا۔ تو اب انہیں کس طرح قتل کیا جاسکتا ہے اور بغیر قتل ہوئے ’’ مَنْ یُّقْتَلُ‘‘میں حضور ﷺ کا شامل ہونا ممکن نہیں۔
اس کے حل کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں کہ قتل میں فعل فاعل کا اعتبارہوتا ہے اور اماتت میں فوت حیا ت کا۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ وعدئہ الہٰیہ کے الفاظ ہیں ’’وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ‘‘ اس میں نہ قتل کا لفظ ہے نہ موت کا۔ اس وعدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کے مار ڈالنے سے اللہ آپ کو بچائے گا۔ یعنی آپ ﷺ کی ذات پاک کیلئے کوئی ایسا فعل نہ کرسکے گا جس سے عادتاً علی الفور آپ کی موت واقع ہوجائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور کسی شخص نے آپ ﷺ کو مارڈالنے پر قدرت نہ پائی ۔
رہا یہ امر کہ ’’مَنْ یُّقْتَلُ‘‘کے عموم میں حضور ﷺ کیسے داخل ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قتل سے مراد وہ فعل ہے جو فوت حیات کا موجب ہوجائے۔
فعل قتل کا فوت حیات کیلئے موجب ہونا دوطریقے سے ہوتا ہے ایک عادتاً دوسرا خارقاً للعادۃ۔عادۃً فعل قتل سے علی الفور ازالہء حیات ہو جا تا ہے اور خر ق عادت کے طور پر علی الفور ازالہ حیات نہیں ہو تا ۔ بلکہ ایک مدت طو یلہ کے بعد ہی اس کا سبب موت ہو نا ظاہر ہو سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے رسو ل اللہ ﷺ کو پہلی قسم کے قتل سے بچا کر اپنے و عدے کو پورا فرما دیا اور دوسری قسم کا فعل قتل حضور ﷺ کے لیے بر بنا ء حکمت متحقق کر دیا تاکہ حضور ﷺ ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے عمو م میں داخل ہو کر شہادت کا مرتبہ پائیں اور کسی بے دین کے لئے حضور ﷺ کو مردہ کہہ کر حیات نبو ت کے انکار کی مجا ل باقی نہ رہے ۔
ہمارے اس دعویٰ کی دلیل اما م بخاری اور امام بیہقی کی وہ حدیث ہے جو امام جلال الدین سیو طی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہو ر کتا ب ’’ انباء الا ذکیا بحیاۃ الانبیا ء ‘‘ میں نقل فرما ئی ہے۔
واخرج البخاری والبیہقی عن عائشۃ قالت کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول فی مرضہ الذی توفی فیہ لم ازل اجدالم الطعام الذی اکلت بخیبر فہٰذا او ان انقطع ابہری من ذالک السم(انبا ء الاذکیاء ص ۱۴۹)
تر جمہ: ’’ امام بخاری اور امام بیہقی نے حضر ت عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انہو ں نے فرمایا کہ رسو ل اللہ ﷺ اپنے مر ض میں فرماتے تھے کہ میں نے خیبر میں جو زہر آ لود ، لقمہ کھایا تھا میں اس کی تکلیف ہمیشہ محسو س کرتا رہا ہو ں پس اب وہ وقت آ پہنچا کہ اسی زہر کے اثر سے میر ی رگ جا ن منقطع ہو گئی ۔‘‘
نیز اما م زرقانی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں
وقد ثبت ان نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم مات شہیدا لاکلہ یوم خیبر من شاۃ مسمومۃ سما قاتلا من ساعتہ حتّٰی مات منہ بشر (بکسر الموحدۃ) وسکون المعجمۃ (ابن البراء) بن معرور (وصار بقاؤہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم معجزۃ فکان بہ الم السم یتعاہدہ) احیانا (الی ان مات بہ) ( زرقانی جلد ۸ ص۳۱۳)
ترجمہ: ’’اور بیشک یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی وفات پائی ۔ اس لئے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ایسی زہر ملائی ہو ئی بکری کے گوشت کا ایک لقمہ تنا ول فرمایا، جس کا زہر ایسا قا تل تھا کہ اس کے کھانے سے اس وقت علی الفور مو ت واقع ہو جائے ۔یہا ں تک کہ اس زہر کے اثر سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحا بی بشر بن براء بن معرور اسی و قت فوت ہو گئے اور حضور ﷺ کا با قی رہنا معجزہ ہو گیا ۔ وہ زہر حضور ﷺ کو اکثر تکلیف دیتا تھا ۔یہاں تک کہ اسی کے اثر سے حضور ﷺ کی موت وا قع ہو ئی۔‘‘
بخاری ،بیہقی ، سیو طی اور زرقانی کی ان پیش کردہ روایات سے ہمارا دعویٰ بخوبی ثابت ہو گیا اور وہ یہ کہ حضور ﷺ کو قتل کر نے کے لیے زہر دیا گیا اور اسی زہر سے حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی مو ت واقع ہو ئی ۔ اگر چہ زہر دینے اور مو ت وا قع ہونے میں تین سال کا وقفہ تھا لیکن وفات شر یف اسی زہر دینے کے فعل سے وا قع ہو ئی اور تین سال تک حضور ﷺ کا باقی رہنا زہر دینے اور اس فعل قتل کی کمزوری کی بنا ء پر نہ تھا بلکہ خرق عادت اور حضور ﷺ کے معجزہ کے طور پر تھا جیسا کہ ہم عبارات منقولہ سے ثابت کر چکے ہیں ۔
امام جلال الدین سیو طی رحمتہ اللہ علیہ ’’انباء الا ذکیا بحیاۃ الا نبیاء‘‘ میں فرماتے ہیں
واخرج احمد و ابو یعلٰی والطبرانی والحاکم فی المستدرک والبیھقی فی دلائل النبوۃ عن ابن مسعود قال لان احلف تسعا ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قتل قتلا احب الی من ان احلف واحدۃ انہ لم یقتل وذالک ان اللّٰہ تعالٰی اتخذہ نبیا واتخذہ شہیدا۔ (انباء الاذکیاء ص۱۴۸،۱۴۹مطبوعہ مصر)
ترجمہ: ’’احمد، ابو یعلیٰ، طبرانی اور مستدرک میں حاکم نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نو مرتبہ قسم کھا کر یہ بات کہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کئے گئے تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ محبو ب ہے کہ میں ایک دفعہ قسم کھا کر یہ کہہ دوں کہ حضور ﷺقتل نہیں کئے گئے اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ ؑکو نبی بھی بنایا اور شہید بھی !
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ظاہر ہو گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ ’’مَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کے عموم میں داخل ہیں۔ اس بناء پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زندہ ہو نا نص قطعی سے ثابت ہے۔
علاوہ ازیں یہ کہ اللہ تعالیٰ نے منعم علیہم کے چار گروہ قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں۔ نبیین ، صدیقین ، شہدا اور صالحین اور ہر نعمت کی اصل رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ ہے۔ جیساکہ سابقاً تفصیل سے معلوم ہو چکا۔ نبوت، صدّیقیت اور صالحیت کے اوصاف کا حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں پایا جا نا تو سب کے نزدیک قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اب اگر وصف شہادت حضور ﷺ کیلئے (ہمارے بیان کردہ دلائل کی روشنی میں ) تسلیم نہ کیا جائے تو حضور ﷺ کی ذات مقدسہ کمال شہادت سے محروم رہے گی۔ جو حضور ﷺ کے رحمۃللعٰلمین ہونے اور تمام کمالات وانعاماتِ الٰہیہ کے لئے حضور ﷺ کے اصل ہو نے کے منافی اور معارض ہے جو باطل محض اور دلائل کی روشنی میں مردود ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ نبوت و صدیقیت اور صالحیت کی طرح وصفِ شہادت بھی حضور اکرم کی ذات مقدسہ میں بلاشبہ پا جا تا ہے ۔ ’’وھو المراد‘‘
نبوت و ر سالت ، رُسل و انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیات پر روشن دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس وقت بھی کوئی نبی اور رسول دنیا میں مبعوث فرمایا تو وصف نبوت اور رسالت کو جسم اور روح دونوں کے ساتھ متعلق فرمایا اور حقیقی نبوت و رسالت جسم و روح کے مجموعے کیلئے ہی متحقق ہے۔ عالم ارواح میں حضور ﷺ کا نبی ہو نا اور حضور ﷺ کا ’’کنت نبیا و اٰدم بین الروح والجسد‘‘ فرمانا، ہمارے اس بیان کے منافی نہیں۔ اس لئے کہ عالم ارواح میںروحانی نبوت متحقق تھی۔ جس کو اس عالم میں پائی جانے والی نبوت کے مقابلہ میںحکمی نبوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقی نبوت و رسالت وہی ہے جو مجموعہ جسد و روح کے لئے متحقق ہو۔ علامہ زرقانی صرف روح کے لئے نبوت و رسالت ماننے کے قول پر تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں
(وتعقب) ھٰذا التعلیل (بان الانبیاء احیاء فی قبورہم) کما صرحت بہ الاحادیث (فوصف النبوۃ فی الجسد والروح معا) ای الاتصاف بالنـبوۃ مـع الرسالۃ وان انقطع العمل بشر ائعہم سوی شریعۃ نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم (زرقانی جلد ۶ص ۱۶۹)
ترجمہ: ’’اور (منکرین کی) اس تعلیل کا تعاقب اس طرح کیا گیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح مو جو د ہے۔ لہٰذا وصف نبوت و رسالت جسم و روح دونوں کیلئے ایک ساتھ باقی ہے۔ یعنی ’’اتصاف بالنبوۃ مع الرسالۃ‘‘ اگرچہ ان کی شرائع پر عمل منقطع ہو چکا۔ سوا ہمارے نبی کریم ﷺؑ کی شریعت کے۔ ‘‘
اس عبارت سے ثابت ہو ا کہ نبوت صرف روح کیلئے نہیں بلکہ جسم و روح دونوں کیلئے ہے ایسی صورت میں حیات جسمانی کا انکار نبوت و رسالت حقیقیہ کا انکار ہے جیسا کہ بعض گمراہوں کا غلط عقیدہ ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
امام زرقانی فرماتے ہیں
(فان قلت ہل ہو علیہ الصلٰوۃ والسلام باق علٰی رسالتہ الی الآن) بعد الموت الی الابد اجاب ابو المعین (النسفی) منہ (بان الاشعری قال انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام الآن فی حکم الرسالۃ وحکم الشیء یقوم مقام اصل الشیء) الخ ( زرقا نی جلد ۶، ص ۱۶۸، ۱۶۹، مطبو عہ مصر)
اگر سوال کیا جا ئے کہ نبی کریم ﷺ اپنی رسا لت پر اب با قی ہیں یا نہیں تو اس کے جواب میں ابو المعین نسفی نے کہا کہ اما م اشعری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اب رسا لت کے حکم میں ہیں اور کسی شے کا حکم اصل شے کے قا ئم مقام ہو ا کر تا ہے ۔ الخ۔
اس عبارت سے ظا ہر ہو تا ہے کہ اما م اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک حضور ﷺ کی وفات کے بعد حضور کی رسالت حقیقی نہیں بلکہ حکمی ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ امام اشعری رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضور ﷺ کے لیے حیات جسمانی کی نفی با لضرور لازم آ ئے گی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا دعویٰ کر نے وا لے بہت سے لو گ ایسے ہیں جنہوں نے محض اپنی ضد پر اصرار کرنے کی وجہ سے بہت سی غلط با تیں ائمۂ اہلسنت کے سر تھوپ دیں اوربعض علماء اہل حق نے محض سادہ لو حی کی بنا پر انہیں نقل کر دیا لیکن تحقیق کے بعد ان با توں کا کذب صریح ہو نا ثابت ہو گیا ۔ یہ بات بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امام اشعری رضی اللہ عنہ پر یہ کھلا بہتا ن ہے اور افتراء صریح ہے ۔ دیکھئے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ اسی بہتا ن کے جوا ب میں فرماتے ہیں۔
ثم قال ویمکن ان یقال انہا باقیۃ حکما بعد موتہ وکان استحقاقہ بحقیقۃ الرسالۃ لابالقیام بامور الامۃ اھ ولا یخفٰی ما فی کلامہٖ من ایہام انقطاع حقیقتہا بعدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد افادفی الدر المنتقی انہ خلاف الاجماع قلت واما ما نسب الی الامام الاشعری امام اہل السنّۃ والجماعۃ من انکار ثبوتہا بعد الموت فہو افتراء وبہتان والمصرح فی کتبہٖ وکتب اصحابہ خلاف مانسب الیہ بعض اعدائہٖ لان الانبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام احیاء فی قبورہم وقد اقام النکیر علی افتراء ذلک الامام العارف ابو القاسم القشیری فی کتابہ شکایۃ اہل السنّۃ وکذا غیرہ کما بسط ذلک الامام ابن السبکی فی طبقات الکبرٰی فی ترجمۃ الامام الاشعری انتہٰی(شامی جلد سوم ص ۲۵۹)
ترجمہ: ’’پھر (مقدسی نے کہا) کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کی رسالت حضور کی موت کے بعد حکماً باقی ہے اور حضور ﷺ کا (غنیمت کے حصے کا ) مستحق ہو نا امور امت کے قیام کے ساتھ نہیں بلکہ حقیقت رسالت کے ساتھ متعلق تھا ۔مقدسی کے اس کلام میں حضور ﷺ کے بعد حضور کی حقیقت رسالت کے انقطاع کا جو ایہام پایا جا تا ہے مخفی نہیں۔ در منتقی میں مذکو ر ہے کہ حضور ﷺ کے بعد حقیقت رسا لت کے انقطاع کا قو ل خلافِ اجماع ہے۔ میں کہتا ہوں کہ امام اہلسنت امام اشعری رضی اللہ عنہ کی طرف حضور کے بعد حضور کی رسالت حقیقیہ کے ثبوت کا جو انکار منسوب کیا جاتا ہے، وہ افتراء اور بہتان ہے۔ امام اشعری رضی اللہ عنہ اوران کے اصحاب کی کتا بوں میں اس کے خلاف تصریحات موجود ہیں کیونکہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبر وں میں زندہ ہیں اور اس افتراء عظیم پر امام عارف باللہ ابوالقاسم القشیری نے اپنی کتا ب شکا یت اہلسنت میں اوراسی طرح انکے علاوہ دیگر ائمہ دین نے زبردست انکار کیا جیسا کہ امام سبکی نے طبقات کبریٰ میں اما م اشعری رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اس بہتان طرازی کا نہایت تفصیل سے جواب دیا ہے ۔‘‘ انتہیٰ
علامہ شامی امام ابو القاسم قشیری امام ابن سبکی اوران کے علاوہ دیگر علمائے اعلام کی تصریحات سے یہ با ت آفتاب سے زیادہ روشن ہوگئی کہ امام اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کی حیا ت کا انکا ر کر کے معا ذ اللہ حضور ﷺ کی رسالت حقیقیہ کے ہرگز منکر نہیں اور ایسی ناپا ک بات ان کے دشمنوں نے ان کی طرف منسوب کرکے ان پر بہتان باندھا ہے۔
تیسری آیت جو حیات النبی ﷺ کی روشن دلیل ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَرَبِّھِمْ یُرْ زَ قُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَـضْلِہٖ (س: آل عمران آیت ۱۶۹، ۱۷۰)
علامہ شوکا نی (غیر مقلدین کے پیشوا ) اس آیت کے تحت اپنی ’’تفسیر فتح القدیر‘‘میں لکھتے ہیں
ومعنی الایۃ عند الجمھور انھم احیاء حیاۃ محققۃ ثم اختلفوا فمنھم من یقول انھاتردالیھم اروا حھم فی قبور ھم فیتنعمون وقا ل مجاھد یر زقون من ثمرالجنۃ ا ی یجدون ریحھا ولیسوا فیھا وذھب من عدا الجمھور الی انھا حیاۃ مجازیۃ والمعنی انھم فی علم اللّٰہ مستحقون التنعم فی الجنۃ والصحیح الاول ولا موجب المصیر الی المجاز وقدوردت السنۃ المطھرۃ بان اروا حھم فی اجواف طیور وانھم فی الجنۃ یرزقون ویا کلون ویتمتعون (فتح القدیر ص ۱۶۵)
ترجمہ: ’’جمہور اہلسنت کے نزدیک آیت کے معنی یہ ہیں کہ شہدا ء کرام حیات حقیقیہ کے ساتھ زندہ ہیں ۔(حیاۃ حقیقی تسلیم کر نے کے بعد )اس کی کیفیت میں جمہور کے در میا ن اختلاف ہے کہ بعـض نے کہا ہے کہ ان کی روحیں ان کی قبروں میں لوٹا دی جا تی ہیںاور وہ عیش وطرب میں رہتے ہیں اور مجا ہد کا قول ہے کہ انہیں جنت کے پھل دئیے جانے سے یہ مراد ہے کہ وہ ان کی خوشبو محسوس کرتے ہیں اور وہ جنت میں نہیں ہیں ۔جمہور کے علاوہ لوگوں کا قول ہے کہ شہداء کی حیات حقیقی نہیں ہے۔ بلکہ وہ مجازی طور پر زندہ ہیں ۔ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ علم الہٰی میں جنت کی نعمتوں کے حقدار ہیں ۔مگر صحیح وہ پہلا قول ہے جو جمہور نے اختیار کیا مجازی معنی لینے کی کوئی وجہ نہیں ۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ شہیدوں کی روحیں پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں اور وہ جنت میں ہیں ۔انہیں رزق دیا جاتا ہے اور وہ کھاتے ہیں اور ہرقسم کے فوائد حیات حاصل کرتے ہیں ۔‘‘
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ انباء الاذ کیا ء بحیاۃ الانبیاء میں فرماتے ہیں
وقد قال اللّٰہ تعا لیٰ فی الشھداء (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَائٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ)والانبیاء اولی بذلک فھم اجل واعظم وما من نبی الاوقد جمع مع النبوۃ وصف الشھادۃ فید خلون فی عموم لفظ الایۃ (انباء الا ذکیا ص۱۴۸)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے شہداء کے بارے میں فرمایا(اور نہ گمان کرو ان لوگوں کے بارے میں جو قتل کئے گئے اللہ کی راہ میں مردہ بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے نزدیک رزق دئیے جاتے ہیں )اور انبیاء اس کے ساتھ اولیٰ ہیں اور وہ اجل واعظم ہیں اور کوئی نبی نہیں لیکن اس نے نبوت کے ساتھ وصف شہادت کو بھی جمع کر لیا ہے۔ لہٰذا وہ لفظ آیت کے عموم میں ضرور داخل ہوں گئے ۔‘‘
امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کی اس عبارت سے یہی واضح ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام میں وصف شہادت پایا جاتا ہے ۔لہذاحیات انبیاء علہیم السلام بطریق اولیٰ ثابت ہو گی۔شہداکی حیات اہلسنت کے نزدیک اس قدر اہمیت رکھتی ہے کہ شوافع نے اس آیت’’ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ ‘‘کو اس مسئلہ کی دلیل بنالیا ۔کہ شہید کے جنازے کی نماز نہیں ہوتی ۔شوافع کہتے ہیں ۔
لقولہ تعا لیٰ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِ یْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا والصلوٰۃ علی المیت لا علی الحی (مبسوط امام سرخسی جلد ۲ص۵۰)
شوافع کی اس دلیل کے جواب میں اختلاف حیات شہدا کا انکار نہیں کر تے بلکہ انہیں زندہ ما ن کراحکام حیات کو دنیا کی بجائے آخرت سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ دیکھئے مبسوط جلد ۲صفحہ۵۰۔
سوال: حیات بعد الموت شہداء کے لئے خا ص نہیں بلکہ ہر مومن صا لح کیلئے ثابت ہے ۔ اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے
فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ط (س: النحل آیت ۹۷)
پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ مردہ کہنے کی مما نعت صرف شہدا کے حق میں کیوں وارد ہوئی۔
جواب: صرف مومن صالح نہیں بلکہ مومن و کافر سب کے لئے نفس حیات ثا بت ہے ۔کما سنبینہ ان شاء اللّٰہ تعا لیٰ اس کے باوجود مردہ ـ کہنے کی ممانعت صرف شہداء کے حق میں اس لئے وارد ہوئی کہ شہداء مقتول فی سبیل اللہ ہوتے ہیں اور اپنی جانیں خدا کے لئے دیتے ہیں اور خاص طور پر اپنی عزیز ترین متا ع حیات (دنیا)کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور ان کا یہ وصف دیگر اوصاف پر غالب ہوتا ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں انعام خاص کے طور پر حیات دنیویہ کے بدلے میں ایسی حیات عطا فرما تا ہے۔جس کے اثرات بعض احکام دنیاوی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔مثلا ان کو غسل نہ دینا اور ان کے حق میں مردہ نہ کہنااللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا (الانعام ۱۶۰)
’’جو ایک نیکی کرے اسے اس کی مثال دس نیکیاں ملیں گی۔‘‘
لہٰذا ایک جان دینے والے کو دس جانیں عطا کیا جانا ثا بت ہوا۔
دنیا میں ایک جان کے ساتھ زندہ انسان جب اپنے آپ کو زندہ سمجھتا ہے تو جیسے اس ایک جان کے بد لے دس جانیں عطا کی گی ہیں وہ کیونکر مردہ ہو سکتا ہے اور اسے مردہ کہنا یا سمجھنا کس طرح درست قرار پا سکتا ہے۔اس بناء پر شہداء کے حق میں مردہ کہنے کی نہی وارد ہوئی چونکہ تمام انبیاء علیہم السلام شہید ہیں لہٰذا مردہ کہنے کی ممانعت انبیاء علیہم السلام کے حق میں پہلے ہو گی اور محض شہدا کے حق میں ان کے بعد
’’فائدہ ان دونوں آیتوں ‘‘وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ اور وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا میں لفظ ’’انبیاء‘‘ سے لِمَنْ یُّقْتَلُ اور اَلَّذِ یْنَ قُتِلُوْاکی طرف عدول فرمانے میں بھی یہی نکتہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اگرچہ شہید ہیں لیکن ان کی شہادت وصف نبوت سے مغلوب ہے اور دونوں آیتوں میں مضمون کلام کی مناسبت وصف شہادت سے تھی اس لئے انبیاء کی بجائے مَنْ یُّقْتَلُ اور اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْا فرمایا گیا۔
علاوہ ازیں اگر لفظ ’’انبیاء ‘‘لایا جا تا تو مردہ کہنے کی ممانعت اور ’’بل احیاء‘‘کا حکم انبیاء کے ساتھ خاص ہو جاتا جو صحیح نہ تھا ۔ نیز ’’لِمَنْ یُّقْتَلُ‘‘ کا عموم اور ’’اَلَّذِیْنَ قُتِلُوْا ‘‘ کا مفہوم عامۃ المسلمین کوجہاد کی رغبت دلا تا ہے ۔اس کی بجائے ’’لفظ انبیاء ‘‘یہ فائدہ نہیں دیتا۔لہٰذا منقولہ بالا دونوں آیتوں میں لفظ انبیاء کا نہ ہونا نکتہ اور حکمت پر مبنی ہے اس بناء پر نہیں کہ معاذ اللہ حضرات انبیاء علیہم السلام مضمون آیت سے خارج ہیں۔ فافہم و تدبر۔
احادیث کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کی حیات کا مسئلہ
(۱) ابو یعلیٰ نے اپنی مسند میں اور امام بیہقی نے کتاب حیات الانبیاء میں روایت کی عن انس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الانبیاء احیا ء فی قبور ھم یصلو ن
حضرت انس سے مر وی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں نمازپڑھتے ہیں ۔
(۲) ابو نعیم نے حلیہ میں روایت کی ہے کہ
عن یوسف بن عطیۃ قال سمعت ثابت البنانی رحمۃ اللّٰہ علیہ یقول لحمید الطویل ھل بلغک ان احدایصلی فی قبر ہ الا الانبیاء قال لا
ترجمہ: ’’یوسف بن عطیہ سے مروی ہے کہ میں نے ثابت بنانی کو حمید طویل سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ کیا تمہیں کوئی ایسی حدیث پہنچی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی قبر میں نماز پڑھتا ہوانہوں نے جواب دیاکہ نہیں۔‘‘
ان دونوں حدیثوں سے یہ ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں اور اپنی قبرو ں میں نماز پڑھتے ہیں ۔
(۳) ابوداؤد اور بیہقی نے روایت کی
عن اوس بن اوس الثقفی رضی اللّٰہ تعا لیٰ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال من افضل ایا مکم یوم الجمعۃ فا کثروا علی الصلٰـوۃ فـیہ فـان صلا تکم تعـرض عـلی قالوا یا رسول اللّٰہ وکیف تعرض علیک صلاتنا وقد ارمت یعنی بلیت فقال ان اللّٰہ حرم علی الا رض ان تا کل اجساد الا نبیاء (ابوداؤد ص۱۵۰)
ترجمہ: ’’اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارے سب دنوں میں افضل تر ین دن یوم جمعہ ہے۔ لہٰذا جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جا تا ہے ۔صحا بہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا ؟حالا نکہ آ پ تو بو سیدہ ہو جائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرما یا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھائے ۔‘‘
(۴) بیہقی نے شعب الا یمان اور اصبہانی نے ترغیب میں روایت کی ہے کہ :
عن ابی ھـریرۃ رضی اللّٰہ تعا لیٰ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی علی عند قبر ی سمعتہ ومن صلی علی نا ئیا ابلغتہ
’’حضرت ابو ہریرہ ر ضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشا د فر ما یا جس نے میری قبر کے نز دیک مجھ پر درود پڑ ھا میں اسے خصو صی توجہ کے ساتھ خود سنتا ہوں اور جس نے دور ہونے کی حالت میں مجھ پر درود پڑھا وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے ۔‘‘
(۵) امام بخاری نے اپنی تار یخ میں روایت کی
عن عمار رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال سمعت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ان للّٰہ ملکا اعطاہ اسماع الخلا ئق قا ئم علی قبر ی فما من احد یصلی علی صلا ۃ الا بلغنیھا
’’حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فر ما تے ہو ئے سنا کہ بیشک اللہ تعا لیٰ کا ایک خاص فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی اسماع (یعنی سب کی آوازیں سننے کی طاقت) عطا فرمائی ہے اور وہ میری قبر انور پر کھڑا ہے، پس کوئی شخص نہیں جو مجھ پر درود بھیجے، مگر وہ فرشتہ اس کا درود مجھ پر پہنچا دیتا ہے۔‘‘
(۶) امام بیہقی نے حیات الانبیاء میں اور اصبہانی نے تر غیب میں روایت کی
عن انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلی علی ما ئۃ فی یوم الجمعۃ و لیلۃ الجمعۃ قضی اللّٰہ لہ مائۃ حاجۃ سبعین من حوائج الاٰخرۃ وثلا ثین من حوائج الد نیا ثم وکل اللّٰہ بذالک ملکا ید خلہ فی قبر ی کما ید خل علیکم الھدایا ان علمی بعد موتی کعلمی فی الحیا ۃ ولفظ البیھقی یخبرنی من صلی علی باسمہ ونسبہ فاثبتہ فی صحیفۃ بیضاء
’’حـضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ فرما تے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں مجھ پر سو دفعہ درود شریف پڑھا اس کی سو حاجتیں پوری ہو ں گی ۔ستر حوائج آخرت سے اور تیس حوائج دنیا سے پھر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درود شریف پر ایک فر شتہ مقرر کر دیا ہے جو اسے میری قبر میں داخل کر تا ہے ۔جس طرح تم پر ہدایا داخل کئے جاتے ہیں ۔بیشک موت کے بعد میرا علم ایسا ہی ہے جیسا حیا ت میں میرا علم ہے اور بیہقی کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ فرشتہ درود پڑھنے والے کا نام اور اس کا نسب مجھے بتا تا ہے تو میں اسے ایک چمکتے ہوئے صحیفہ میں لکھ لیتا ہوں ۔‘‘
(۷) امام بیہقی نے روایت کی
عن انس ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ان الانبیاء لا یتروکون فی قبور ھم بعد اربعین لیلۃ ولکنھم یصلون بین یدی اللّٰہ سبحانہ وتعالٰی حتی ینفخ فی الصور
’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مر وی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بیشک انبیاء علیہم السلام چالیس راتوں کے بعد اپنی قبروں میں نہیں چھوڑ ے جاتے اور لیکن وہ اللہ سبحانہ وتعا لیٰ کے سامنے نماز پڑ ھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صور پھونکا جائے ۔‘‘
(۸) سفیا ن ثوری نے جامع میں روایت کی اور کہا کہ
قال شیخ لنا عن سعید بن المسیب قال ما مکث نبی فی قبرہ اکثرمن اربعین لیلۃ حتی یرفع
’’ہما رے شیخ نے سعید بن مسیب سے روایت کی۔ انہوں نے فرمایا کوئی نبی اپنی قبر میں چالیس راتوں سے زیادہ نہیں ٹھہرتا یہاں تک کہ وہ اٹھالیا جا تا ہے ۔‘‘
(۹) امام بیہقی نے واقعہ معراج میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اور اس میں رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ ہیں ۔
وقد رأیتنی فی جماعۃ من الانبیاء فاذا موسٰی قائم یصلی واذارجل ضرب جعد کانہ من رجال شنؤۃ واذا ابن مریم قائم یصلی واذ ا ابراھیم قائم یصلی اشبہ الناس بہ صا حبکم یعنی نفسہ فحانت الصلٰوۃ فا ممتھم
’’اور بیشک میں نے خود اپنے آپ کو بھی جماعت انبیاء علیہم السلام میں دیکھا پھر موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ کھڑ ے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں ۔ نا گہاں ایک ایسے آدمی ہیں جو دبلے پتلے گھنگھریالے بالوں والے ہیں گویا کہ وہ شنوہ کے آدمیوں میں سے ہیں اور اچانک ابن مریم کو دیکھا کہ وہ کھڑے ہوئے نمازپڑھ رہے ہیں ۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلا م کھڑے ہوئے نماز پڑ ھ رہے ہیں ۔وہ تمہارے صاحب سے بہت زیادہ مشابہ ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لفظ صاحب سے آپنے آپ کو مراد لیا پھر نماز کا وقت آگیا تو میں نے ان سب انبیاء علہیم السلام کی امامت کی ۔‘‘
(۱۰) امام بیہقی نے یہ حدیث بھی روایت کی۔
اِنَّ النَّا سَ یُصْعَقُوْنَ فَاَ کُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ
’’حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (نفخہ اولیٰ کے وقت ) سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے تو سب سے پہلے جس کو افاقہ ہو گا وہ میں ہو ں گا۔‘‘
اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام قیامت تک زندہ رہیں گے۔ اس لئے کہ زندگی کے بغیر کسی پر بے ہو شی کا حال طاری ہو نا ممکن نہیں۔پھر یہ بے ہوشی احساس و شعور کے لیے محض ایک حجاب ہو گی ۔ جسے موت کہنا جائز نہیں۔
(۱۱) ابویعلیٰ نے روایت کی
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول والذی نفسی بیدِہٖ لینزلن عیسی ابن مریم ثم لَاِن قام علی قبری فقال یا محمّدُ لاجبتہ
’’حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسو ل اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ عیسیٰ ابن مریم ضرور نازل ہو نگے پھر وہ اگر میری قبر پر کھڑے ہو ں اوریا محمد ﷺ کہہ کر مجھے پکاریں تو میں انہیں ضر ور جواب دوں گا۔‘‘
(۱۲) ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں روایت کی
عن سعید بن المسیّب قال لقد رأیتنی لیا لی الحرّۃ وما فی مسجد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غیری وما یاتی وقت الصّلٰوۃ الا وسمعت الاذان من القبر
’’سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا جنگ حرہ کے زمانہ میں میں نے اپنے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ مسجد نبوی میں میرے سوا اس وقت کوئی نہ تھا۔ ان ایا م میں کسی نماز کا وقت نہ آ تا تھا، مگر قبر انور سے میں اذان کی آواز سنتا تھا ۔‘‘
(۱۳) زبیر بن بکار نے اخبارِ مدینہ میں روایت کی
عن سعید بن المسیّب قال لم ازل اسمع الاذان والاقامۃ فی قبر رسول اللّٰہ ﷺ ایام الحرۃ حتّٰی عاد الناس
’’سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا میں ہمیشہ اذان اور تکبیر کی آواز رسول اللہ ﷺ کی قبر انور میں سنتا رہا۔ جنگ حرہ کے زمانہ میں یہاں تک کہ لوگ واپس آ گئے۔‘‘
( ۱۴) ابن سعد نے طبقات میں روایت کی
عن سعید بن المسیّب انہ کان یلازم المسجد ایام الحرۃ والناس یقتتلون قال فکنت اذا حانت الصلٰوۃ اسمع اذانا من قبل القبر الشریف
’’سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنگ حرہ کے زمانہ میں وہ مسجد نبوی میں ٹھہرے رہے اور لوگ آپس میں قتال کر رہے تھے۔ سعید بن مسیب نے فرمایا کہ جب نماز کا وقت آ تا تو میں مسجد نبوی کی طرف سے اذان کی آواز سنتا تھا۔‘‘
(۱۵) دارمی نے اپنی مسند میں روایت کی انہوں نے کہا ہمیں مروان بن محمد نے خبر دی
عن سعید بن عبد العزیز قال لما کان ایام الحرّۃ لم یؤذن فی مسجد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہ وسلم وان سعید بن المسیّب لم یبرح مقیما فی المسجد وکان لا یعرف وقت الصلٰوۃ الا بہمہمۃ یسمعہا من قبر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
’’سعید بن عبدالعزیز سے مروی ہے انہو ں نے کہا جب حرہ کی جنگ کا زمانہ تھا تو رسول اللہ ﷺ کی مسجد شریف میں نہ اذان ہوتی نہ اقامت اورسعید بن مسیب رضی اللہ عنہ مسجد شریف ہی میں مقیم رہے انہیں نماز کے وقت کا علم نہ ہو تا تھا لیکن ایک آواز سے جسے وہ نبی کریم ﷺ کی قبر شریف سے سنتے تھے۔‘‘
یہ احادیث وروایات حضرات انبیاء کرام علیہم السلام بالخصو ص سید عالم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات جسمانی اور حقیقی پر صاف اور واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں ۔جن میں کسی قسم کی تاویل نہیں ہو سکتی۔
(۱۶) امام احمد نے اپنی مسند میں،ابو داؤد نے اپنی سنن میںاور بیہقی نے شعب الایمان میں بسند صحیح روایت کی ہے۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ ﷺ قال ما من احد یسلم علی الا رد اللّٰہ علی روحی حتّٰی ارد علیہ السلام
’’حضرت ابو ہر یر ہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیشک رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، کوئی جو مجھ پر سلام بھیجے لیکن اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کو اس کے سلام کا جواب دیتاہوں۔‘‘
احادیث منقولہ بالا سے انبیاء علیہم السلام کی حیات حقیقی کے ساتھ حسبِ ذیل امور مستفاد ہوئے
۱۔انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبروں میں نماز پڑھنا اوردفن کے بعد چا لیس راتیں گزرنے کے بعد انکا قبروں سے اٹھا لیا جانا ۔
۲۔ہمارے نبی اکرم ﷺ پر درود شریف پیش کیا جانا اورسرکا ر ﷺ کا درود شریف سننا
۳۔ انبیا ء علیہم السلام کے اجساد مقدسہ کا کھانا زمین پر حرام ہے۔
۴۔ دور سے پڑھنے والے کا درود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچا دیا جا تا ہے۔
۵۔ایک فرشتہ حضور ﷺ کی قبر انور پر مقرر ہے جوتمام مخلوق کی آوازیں سنتا ہے اور ہر ایک درود پڑھنے والے کا درود حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کرتا ہے ۔
۶۔ حضور ﷺ کی قبرِ انور میں درود شریف ہدایا کی صورت میں داخل کیاجاتا ہے۔
۷۔ حضور ﷺ کا علم وفات شریف کے بعد ایسا ہی ہے جیسے حیاتِ مقدسہ میں تھا۔
۸۔ حضور ﷺ درود بھیجنے والوں کا نام و نسب روشن صحیفے میں لکھتے ہیں۔
۹۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شبِ معراج خود اپنے آ پ کو بھی جماعت انبیاء علیہم السلام میں دیکھا ۔
۱۰۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی قبرِ انور میں کھڑے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا ۔
۱۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابنِ مریم علیہما السلام و ابراھیم علیہ السلام کو نماز پڑھتے دیکھا۔
۱۲۔حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے نماز میں انبیاء علیہم السلام کی امامت فرمائی۔
۱۳۔تما م لوگ نفخہ اولیٰ کے وقت بیہوش ہوجائیں گے۔ سب سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افاقہ ہوگا۔
۱۴۔عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار مبارک پر کھڑے ہوکر اگر حضور ﷺ کو پکاریں تو حضور ﷺ انہیں ضرور جواب دیں گے ۔
۱۵۔قبرِ انور سے ہر نماز کے وقت اذان اور تکبیر کی آواز کا آنا۔
۱۶۔ہر سلام بھیجنے والے کے سلام بھیجنے کے وقت رسول اﷲ ﷺ پر ردّ روح ہونا اور ہر ایک کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جواب دینا۔
امور مفصلہ بالا سے حیات بعد الوفات کے علاوہ مندرجہ ذیل عنوانات نکلتے ہیں
۱۔ انبیا ء علیہم السلام کا اپنی قبروں میں نماز پڑھنا۔
۲۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود وسلام پیش کیا جانا۔
۳۔ اجساد انبیاء علیہم السلام کا بعد الوفات محفوظ رہنا۔
۴۔ بعد الوفات انبیاء علیہم السلام کے علم و ادراک اور سمع و بصر کا برقرار رہنا ۔
۵۔ قبورِ مقدسہ میں انبیاء علیہم السلام کے اعمال و تصرفات کا برقرار رہنا۔
۶۔ بارگاہِ اقدس میں درودشریف کا بصورت ہدیہ پیش کرنا۔
۷۔ قبور سے اجساد انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا اٹھایا جانا۔
موت و حیات
سب سے پہلے ہم موت اور حیات پر معروضات پیش کرتے ہیں علامہ سید محمود الوسی حنفی بغدادی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر روح المعانی میں ارقام فرماتے ہیں
والموت علی ما ذہب الکثیر من اھل السنۃ صفۃ وجودیۃ تضاد الحیاۃ واستدل علی وجودیتہ بتعلق الخلق بہ وھو لا یتعلق بالعدمی لازلیۃ الاعدام… وذہب القدریۃ وبعض اھل السنۃ الی انہ امر عدمی ھو عدم الحیات عماھی من شانہ وھو المتبادر الی الذہن والاقرب الی الفہم واجیب عن الاستدال بالاٰیۃ بان الخلق فیھا بمعنی التقدیر وھو یتعلق بالعدمی کما یتعلق بالوجودی اوان الموت لیس عدما مطلقا صرفا بل ھو عدم شیٔ مخصوص ومثلہ یتعلق بہ الخلق والا یجاد بناء علی انہ اعطاء الوجود ولو للغیر دون اعطاء الوجود للشیٔ فی نفسہ او ان الخلق بمعنی الانشاء والاثبات دون الایجاد وھو بھذا المعنی یجری فی العدمیات او ان الکلام علی تقدیر مضاف ای اسباب الموت او ان المراد یخلق الموت والحـیـاۃ خلق زمان ومدۃ معینۃ لھما لایعلمھا الا اﷲ فایجاد ھما عــبــارۃ عـن ایـجــاد زمـانـھـا مـجـازا ولا یخفی الحال فی ہذہ الاحتمالات … والموت علی ماسمعت والحیاۃ صفۃ وجودیۃ بلا خلاف وھی مایصح بوجودہ الاحساس اومعنی زائد علی العلم والقدرۃ یـوجب لـلمـوصوف بـہ حالا لم یکن قبلہ من صحۃ العلم والقدرۃ (روح المعانی جلد نمبر ۲۹ص۴/۵طبع مصر)
اکثر اہلسنت کے نزدیک ’’ موت‘‘ صفت وجود یہ ہے جو حیات کی ضد ہے۔ ا س کے صفت وجودیہ ہونے پر آیت قرآنیہ خلق الموت والحیات سے استدلال کیا گیا۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ ازلیت عدم کی وجہ سے امرِ عدمی کے ساتھ خلق متعلق نہیں ہوسکتی … او ر قدر یہ اور بعض اہلسنت اس طرف گئے ہیں کہ موت امرِ عدمی ہے اور موت کے معنی ہیں قابلِ حیات چیز میں حیات کا نہ ہونا یہی معنی متبادر الی الذہن اور اقرب الی الفہم کے ہیں۔
ان قائلین کی طرف سے آیت سے استدلال کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ یہان خلق بمعنی تقدیر ہے اور وہ جس طر ح امرِ وجودی سے متعلق ہوتی ہے اسی طرح عدمی سے بھی متعلق ہوتی ہے یا یہ کہ موت صرف عدم مطلق نہیں، بلکہ وہ شیٔ مخصوص کا عدم ہے اور اس جیسے عدمی کے ساتھ اس بنا پر خلق متعلق ہو سکتی ہے کہ وہ اعطائے وجود ہے۔ اگرچہ یہ اعطاء فی نفسہ کسی شے کیلئے ہو نے کی بجائے غیر ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔ بہر صورت اعطاء وجود ضرور ہے۔ لہٰذا بایں معنی اس کے ساتھ خلق ایجاد کا متعلق ہو نا درست ہو گا یا یہ کہ اس آیت میں خلق ایجاد کے معنی میں نہیں بلکہ انشاء واثبات کے معنی میں ہے اور بایں معنی فعل خلق کا عدمیات میں جاری ہو نا صحیح ہے یا یہ کہ کلام تقدیرِ مضاف پر ہے ’’ای خلق اسباب الموت‘‘ یعنی موت نہیں بلکہ اسباب موت کو پیدا کیا یا یہ کہ اس آیت میں خلق موت و حیات سے موت وحیات کے زمانے اور ان کی مدت معینہ کا پیدا کرنا مراد ہے۔ جسے (ذاتی طورپر) اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ لہٰذا ان کی ایجاد مجازی طور پر عبارت ہے ان کے زمانے کی ایجاد سے یہ احتمالات ایسے ہیں جن کا حال اہلِ علم سے مخفی نہیں۔
حیات کے معنی
مو ت کے عدمی اور وجودی ہو نے میں اختلافِ اقوال تو آ پ سن چکے ۔ اب حیات کا حال سنیئے کہ حیات بغیر کسی خلاف کے صفت وجود یہ ہے۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ جس صفت کے پائے جانے سے احساس کاوجود صحیح قرار پائے۔ وہ حیات ہے یا ایسے معنی کا نام حیات ہے جس کا وجود علم وقدرت کے وجود پر زائد ہو اور وہ اپنے موصوف کے لیے صحت وعلم وقدرت کے ایسے حال کو واجب کردے جواس سے پہلے نہ تھا۔ (روح المعانی، ص ۵، ج ۴)
۲۔ قاضی ثناء اللہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں
والحـیـاۃ مـن صـفات اللّٰــہ تعالیٰ وھی صفۃیستتبعہا العلم والقدرۃ والارادۃ وغیرھا من صفات الکمال وقد استودعھا اللّٰہ تعالیٰ فی الممکنات وخلقھا فیھا علی حسب ارادتہ واستعداد اتھا فظھرت فی الممکنات علی مراتب شتی ظھر ت فی بعضھا بحیث یستتبع المعرفۃ وفی بعضھا بحیث یستتبع الحس و الحرکۃ الحیوانیۃ المعبر عنھا و عما یقابلھا بقولہ تعالیٰ ’’کُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَ حْیَا کُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ‘‘ والموت فی کل مرتبۃ من المراتب المذکورۃ عبارۃ عن عدم الحیاۃ او مطلقـا اوعدم الحیاۃ عمامن شانہ ان یکون حیا فالتقابل بینھما اما تقابل العدم و الملکۃ اوالا یجاب والسلب فھی صفۃ عدمیۃ وقال بعض العلماء الموت صفۃ وجودیۃ والتقابل بالتضاد فہی کیفیۃ فی الاجسام مانعۃ من العلم و القدرۃ والحس والحرکۃ و نحوھا الخ (تفسیر مظہری پ ۲۹ ص۱۸)
’’اور حیات اللہ تعالیٰ کی صفات سے ہے اور وہ ایسی صفت ہے۔ جس کے ساتھ علم و قدرت ، ارادہ وغیرہ تمام صفات کمالیہ وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صفت حیات ممکنات میں ودیعت فرمائی اور افراد ممکنات میں اسے اپنے ارادے اوران کی قابلیتوں کے موافق پیدا کیا۔ چنانچہ و ہ صفت حیات ممکنات میں مختلف مراتب پر ظاہر ہوئی۔ بعض میں اس طرح کہ اس کے ساتھ معرفت وابستہ ہے اور بعض میں اس طرح کہ حس و حرکت حیوانیہ اس کے ساتھ مربوط ہے جسے مع اس کے مقابل کے ’’کُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَ حْیَا کُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ‘‘ کے ساتھ تعبیر کیا گیا اور موت مراتب مذکورہ میں سے ہر مرتبہ میں عبارت ہے عدم حیات سے ، یامطلقاًعدم سے ’’یا عدم الحـیاۃ عما من شانہ ان یکون حیا‘‘سے۔ پس تقابل ان دونوں کے درمیان یا تقابل عدم والملکہ ہے یا تقابل الایجاب والسلب ہے ۔ ان دونوں صورتوں میں موت صفت عدمیہ قرار پائے گی اور بعض علماء نے کہا کہ موت صفت وجودیہ ہے اور ان دونوں کے درمیان تقابل تضاد ہے۔ اس قول پر موت اجسام میں ایسی کیفیت کا نام ہے جو علم وقدرت اور حس و حرکت وغیرہ سے مانع ہو۔ ‘‘
(۳) علامہ نسفی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مدارک میں فرماتے ہیں (والحیٰوۃ) ای مـا یصح بوجودہ الاحساس والموت ضدہ و معنیٰ خلق الموت والحیوٰۃ ایجاد ذلک المصحح واعدامہ(تفسیر مدارک جلد ۴ص۲۰۶)
’’حیات وہ ہے جس کے پائے جانے سے احساس کا و جو د صحیح قرار پائے اور موت اس کی ضد ہے اور ’’خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ‘‘کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مصحح کا ایجاد واعدام فرمایا۔ ‘‘
(۴) امام راغب اصفہانی مفردات میں فرماتے ہیں
الحیاۃ تستعمل علی اوجہ الاول للقوۃ النامیۃ …… الثانیۃ للقوۃ الحساسۃ (مفردات امام راغب ص۱۳۸طبع مصر)
’’حیات کا استعمال کئی وجہ پر ہے اول قوت نامیہ کے لئے …… دوم قوت حساسہ کیلئے۔ ‘‘
(۵) امام جلال الدین تفسیر جلالین میں فرماتے ہیں۔
الحیٰـوۃ وھی مابہ الاحساس والموت ضدھا اوعدمہ قولان والخلق علی الثانی بمعنی التقدیر (جلالین ص۴۶۴)
’’حیات وہ صفت ہے جس کے ساتھ احساس ہو اور موت اس کی ضد ہے یا اس کا عدم یہ دو قول ہیں اور قول ثانی کی بناء پر خلق بمعنی تقدیر ہے۔ ‘‘
(۶) علامہ خازن تفسیر خاز ن میں فرماتے ہیں۔
و قیل ان الموت صفۃ و جو د یۃ مضا دۃ للحیاۃ وقیل الموت عـبـارۃعـن زوال الـقـوۃ الحیوانیۃ وابانۃ الروح عن الجسد و ضدہ الحیاۃ وھی القوۃ الحساسۃ مع و جود الروح فی الجسد و بہ سمی الحیوان حیواناً (تفسیر خازن جلد۷ص۱۰۳، ۱۰۴)
’’بعض نے کہا کہ موت صفت و جو د یہ ہے جو حیات کی ضد ہے اور بعض نے کہا کہ موت قوت حیوانیہ کے زائل ہو جانے اور جسم سے روح کے جدا ہو جانے کا نا م ہے۔ اس کی ضد حیات ہے اور حیات ایسی قوت حساسہ کو کہتے ہیں جو عادتاًبدن میں روح کے پائے جانے کے ساتھ پائی جائے اور اسی وجہ سے حیوان کا نام حیوان رکھا گیا ہے۔‘‘
ان تمام عبارات و اقتباسات سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آگئی کہ حیات ایسی صفت کا نا م ہے جو علم وقدرت سمع و بصر کا سبب ہو اور موت وہ صفت ہے جو علم وقدرت سمع و بصر سے مانع ہو یا ان امورِ مخصوصہ کے عدم کا نام موت ہے جن علماء نے ازالہ قوت حیوانیہ اور ابانۃ الروح عن الجسد (قوت حیوانیہ کا زائل ہو نا اور جسم سے روح کا جدا ہو نا ) موت کے معنی بیان کئے ہیں۔ ان کے کلام کا مفاد بھی اسی صفت کا انعدام ہے جو علم و احساس قوت وارادہ کی مصحح تسلیم کی جاتی ہے ۔ رہا یہ امر کہ روح کا بدن میں ہو نا حیات ہے اور بدن سے اس کا مجرد خروج موت ہے تو موت و حیات کی یہ تعریف آج تک کسی نے نہیں کی پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی حیات پر تو یہ تعریف کسی طرح صادق نہیں آسکتی۔ اس لئے کہ وہ جسم و روح سے پاک ہے ۔ اس تقدیر پر حیات النبی کے انکار کے ساتھ حیات الٰہی کا بھی انکار لازم آئے گا۔ معاذاللہ ثم معاذ اللہ!
کائنات میں روح سبب حیات ہو سکتی ہے۔ لیکن اسے نفس حیات کہنا کسی طرح درست نہیں علی ہذا روح کو خالق حیات کہنا بھی باطل محض بلکہ کفر خالص ہے۔ ’’خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَـیٰوۃَ‘‘ اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے۔ کہ موت و حیات کی ایجاد یا تقدیر محض اللہ تعالیٰ کا فعل ہے ۔
ہاں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ممکنات عالم کے افراد میں علم و ادراک ، قوت وارادہ حرکت و احساس کی صفت مصححہ پائے جانے کے لئے ان میں عادۃً روح کا ہو نا ضروری ہے کیونکہ روح سبب حیات ہے اور سبب کا بغیر مسبب کے پایا جانا محال عاد ی ہے۔
اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ بدن میں روح کا مجرد دخول اور اس سے مطلق خروج حقیقتاً مو ت و حیات نہیں حقیقی موت و حیات جسم میں صفت مصححہ للعلم والقدرۃ (اوما یقوم مقامھا ) کا ہو نا یا نہ ہو نا ہے البتہ روح کے اس د خول و خروج کو موت عادی و حیات عادی سے تعبیر کیا جا سکتاہے ۔ اور اسے حقیقی موت و حیات کیلئے سبب عادی کہا جا سکتاہے ۔ اسباب و عادات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور خالق و موجد حقیقی اپنی تاثیر و ایجاد میں اسباب و علل کا محتاج نہیں ہو ا کرتا۔ اس کی شان ’’یَفْعَلُ مَایَشَآئُ‘‘ اور ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ہے ۔اگر وہ چاہے تو عادت کے خلاف بھی کر سکتاہے اور سبب کے بغیر ہی مسبب کو وجود میں لا سکتاہے بلکہ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ سبب کے باوجود مسبب کو نہ ہو نے دے۔ دیکھئے !مر دوعورت کا و جو د اور ان کا اجتماع معہود انسانی پیدائش کا سبب عادی ہے ۔ جیسا کہ تمام دنیا کے انسان اسی سبب کے ماتحت پیدا ہو رہے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت کے مو افق اپنی قدرت کا اظہار چاہا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سبب عادی کے بغیر پیدا کر دیا اور آدم و حوا علیہما السلام کی تخلیق بھی اسی سبب معہود کے بغیر ہوئی۔ پھر یہ حقیقت بھی نا قابل انکار ہے کہ ہزاروں نہیں بلکہ بے شمار مواقع ایسے ہیں کہ جہاں پیدائش انسانی کا سبب معہود مو جو د ہے ۔ لیکن تخلیق انسانی مفقود ہزاروں گھر بے چراغ ملیں گے ۔ جہاں میاں بیوی ہزاروں جتن کر نے کے باو جو د بھی اولاد کی نعمت سے محروم ہیں تو کیا اس کے باو جو د بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ روح کے بغیر تاثیر حیات معاذ اللہ تحت قدرت نہیں ۔
خلاصہ یہ کہ موت و حیات ہر ایک کی دو قسمیں ہیں۔ موت عادی، موت حقیقی۔ حیات عادی، حیات حقیقی۔ جسم میں روح کا نہ ہونا یا ہونے کے بعد نکل جانا موت عادی ہے اور جسم میں روح کا موجود ہونا حیاتِ عادی ہے اور جسم میں صفت مصححہ للعلم والقدرۃ (اوما یقوم مقامہا) کا پایا جانا حیاتِ حقیقی ہے اور اس کا نہ پایا جانا موتِ حقیقی ہے۔
اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کسی جسم میں روح کے بغیر حیات حقیقی پیدا کر دے اور اسی طرح وہ اس پر بھی قادر ہے کہ کسی جسم میں روح کے مو جو د ہو تے ہوئے حیات حقیقی کو پیدا نہ ہو نے دے یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی حکمت کی بناء پر ایسا نہیں کر تا لیکن اگر کرنا چاہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں۔
اس مقام پر یہ شبہ پیدا نہ کیا جائے کہ قبض روح کے باوجود بھی کسی جسم میں علم و ادراک اور قدرت و احساس پایا جائے تو بیک وقت موت و حیات کا اجتماع لازم آئے گا جو باطل ہے کیونکہ ہم اس کے جواب میں عرض کر یں گے کہ مجرد قبض روح موت عادی ہے ۔ حقیقی نہیں اور قبض روح کے بعد علم و ادراک سمع و بصر اور قدرت و تصرف کا پا یا جا نا حیات حقیقی ہے۔ عادی نہیں۔ موت عادی حیات عاد ی کے منافی ہے اور حیات حقیقی موت حقیقی کے ۔ حقیقی کو عادی کے اور عادی کو حقیقی کے منافی سمجھنا جہالت ہے۔
لہٰذا قبض روح کے ساتھ حیات حقیقی کا پایا جانا بلاشبہ جائز ہے اگرچہ یہ بیان اپنے مقام پر اس قدر پختہ ہے کہ کسی قسم کی تائید و تقویت کا محتاج نہیں۔ لیکن ناظرین کرام کے اذہان میں راسخ کر نے کے لئے ہم بعض شواہد پیش کر تے ہیں۔ تاکہ ادنیٰ خفاکا امکان بھی باقی نہ رہے۔
(۱) بخاری شریف میں وار د ہے کہ رسول اللہ ﷺ منبر شریف کے بننے سے پہلے کھجور کی ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب منبر شریف بن گیا تو حضور ﷺ اس لکڑی کو چھوڑ کر منبر پر جلور گر ہوئے وہ لکڑی حضور ﷺ کے فراق میں اس طرح روئی جیسے کسی اونٹنی کا بچہ گم ہو جائے اور وہ درد ناک آواز سے روئے۔ ملاحظہ فرمایئے، بخاری شریف میں ہے ۔
فلما وضع لہ المنبر سمعنا للجذع مثل اصوات العشار حتی نزل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فوضع یدہ علیہ (بخاری جلد اول ص۱۲۵)
جب حضور ﷺ کیلئے منبر رکھا گیا (اور حضور ﷺ کھجور کے تنے کوچھوڑ کر منبر پر جلوہ گر ہوئے )تو ہم نے اس لکڑی کی ایسی درد ناک آواز سنی جیسے گم کردہ اولاد اونٹنیوں کی غم ناک آوا ز ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ منبر شریف سے اُترے اور اس پر اپنادست کرم رکھ دیا۔
اسی بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام نے فرمایا کھجور کا وہ خشک تنا ایسی درد ناک آواز سے رو یا جسے سن کر قریب تھا کہ ہمارے جگر پھٹ جائیں۔
علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کی شرح میں فرماتے ہیں وفیہ دلیل علی صحۃ رسالتہ وہو حنین الجمادو ذالک ان اللّٰہ تعالٰی جعل للجذع حیاۃ حن بہا۔ عینی حاشیہ بخاری ص ۱۲۵ (۱۲)
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی صحت رسالت کی دلیل ہے اور وہ جسم بے جان کا (جانداروں کی طرح ) رونا ہے ۔ اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کی خشک بے جان لکڑی میں ایسی حیات پیدا کر دی جس کی وجہ سے وہ غم ناک آواز کے ساتھ روئی۔
’’جماد‘‘ غیر ذی روح کو کہتے ہیں۔ اس کے رونے کو علامہ عینی شارح بخاری نے اس کی حیات قرار دیا۔معلوم ہو اکہ بغیر روح کے حیات ممکن ہے۔
(۲) علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے مقدمہ صحیح مسلم کی شرح میں ربعی، ربیع، مسعود تینوں بھائیوں کے مرنے کے بعد ہنسنا اور کلام کر نا حسب ذیل عبارت میں بیان فرمایا ہے
وھو ربعی بن حراش بن جحش العسبی بالموحدۃ الکوفی ابو مریم اخو مسعود الذی تکلم بعد الموت و اخوھما ربیع و ربعی تابعی کبیر جلیل لم یکذب قط و حلف انہ لا یضحک حتی یعلم این مصیرہ فما ضحک الا بعد موتہ و کذالک حلف اخوہ ربیع ان لا یضحک حتی یعلم افی الجنۃ ھو اوفی النار قال غاسلہ فما زال متبسما علی سریرہ و نحن نغسلہ حتی فرغنا۔ (شرح مقدمہ صحیح مسلم جلد اول ص ۷)
ترجمہ: اور وہ ربعی بن حراش بن حجش ہیں۔ ان کی کنیت ابو مریم ہے۔ یہ مسعود کے بھائی ہیں۔ جنہوں نے مرنے کے بعد کلام کیا اور ان دونوں (ربعی اور مسعود ) کے بھائی ربیع ہیں۔ ربعی جلیل القدر تابعی ہیں جنہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور انہوں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک انہیں اپنا ٹھکانہ معلوم نہ ہو جائے وہ نہ ہنسیں گے۔ چنا نچہ وہ موت کے بعد ہی ہنسے اسی طرح ان کے بھائی ربیع نے قسم کھائی کہ وہ اس وقت تک نہیں ہنسیں گے جب تک کہ انہیں اپنے جنتی یا ناری ہو نے کا علم نہ ہو جائے۔ ان کی لاش کو غسل دینے والے نے کہا کہ ربیع ہمارے غسل دینے کے ا ثناء میں اپنے سر یر پر برابر ہنستے رہے۔ یہاں تک کہ ہم ان کے غسل سے فارغ ہوئے۔
(۳) امام جلال الدین سیوطی نے بروایت ابو نعیم و بیہقی ربعی بن حراش کی ایک روایت نقل فرمائی ہے، جس میں انہوں نے اپنے بھائی ربیع بن حراش کے مرنے کے بعد ان کے کلام کر نے کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔ روایت حسب ذیل ہیں۔
و اخرج ابو نعیم عن ربعی قال کنا اربعۃ اخوۃ وکان ربیع اخی اکثرنا صلوٰۃ واکثرنا صیاما وانہ توفی فبینا نحن حولہ اذ کشف الثوب عن وجہہ فقال السلام علیکم فقلنا وعلیکم السلام ابعد الموت؟ قال نعم انی لقیت ربی بعد کم فلقیت ربا غیر غضبان فاستقبلنی بروح وریحان واستبرق الاوان ابالقاسم ینتظر الصلوٰۃ علی فعجلو ابی ولا تؤخروانی ثم طفی فنحی الحدیث الی عائشۃ رضی اﷲ عنہا فقالت اما انی سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول یتکلم رجل من امتی بعد الموت قال ابو نعیم حدیث مشہور واخرج البیہقی فی الدلائل وقال صحیح لاشک فی صحتہ(شرح الصدور ص ۲۸ مطبوعہ مصر)
امام ابو نعیم نے ربعی سے روایت کیا ہے ربعی فرماتے ہیں ہم چار بھائی تھے اور میرا بھائی ربیع ہم سب میں زیادہ نماز روزہ کی کثرت کرنے والا تھا۔ اس کی وفات ہوگئی ۔ اس کے مرنے کے بعد ہم سب اس کے آس پا س بیٹھے تھے ۔ یکدم اس نے اپنے منہ سے کپڑا ہٹا دیا اور السلام علیکم کہا ہم نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا اور کہا کہ موت کے بعد کلام؟ اس نے کہا کہ ہاں موت کے بعد میں نے اپنے رب سے اس حال میں ملاقات کی کہ وہ غضبناک نہیں تھا۔ میرے رب نے اعلیٰ درجہ کی نعمتوں اور ریشمی لباس کے عطیہ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ خبردار ہوجاؤ کہ بے شک ابوالقاسم حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ مجھ پر نماز پڑھنے کا انتظار فرمارہے ہیں۔ تم میرا جنازہ جلدی لے کر چلو میرے لیجانے میں دیر نہ کرو۔ پھر سکوت موت کے ساتھ خاموشی اختیارکی۔ انہوں نے حدیث کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا تک پہنچایا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا خبردار بیشک میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سنا ہے فرماتے تھے میری امت میں سے ایک آدمی موت کے بعد کلام کرے گا۔ ابو نعیم نے کہا یہ مشہور حدیث ہے اور امام بیہقی نے بھی دلائل میں اس کی تخریج کی اور یہ کہا کہ یہ حدیث ایسی صحیح ہے جس کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔
ان تینوں جلیل القدر تابعین کا مرنے کے بعد اثنا غسل میں ہنسنا اور قبل الدفن کلام کرنا روح کے بغیر حیات پائے جانے کی ایسی روشن دلیل ہے جس کا انکار جاہل معاند کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔
(۴) حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے خود نبی اکرم ﷺ کے قبر انور میں جلوہ گرہونے کے بعد دفن سے پہلے کلام فرمانے کو نقل کیا ہے ۔ مدارج النبوۃ میں ہے
وبود قثم بن عباس آخر کسے کہ برآمداز قبرو ازوے می آرند کہ گفت آخر کیسکہ روئے مبارک آنحضرت ﷺ رادید در قبر من بودم نظر کردم در قبر کہ آنحضرت علیہ السلام لب ہائے مبارک خودرامی جنبانید۔ پس گوش پیشِ دہان وے داشتم شنیدم کہ می فرمود’’ رب امّتی، امّتی‘‘ انتہیٰ (مدارج النبوۃ جلد ۲ ص ۵۶۸ مطبوعہ نو لکشور)
حضرت قثم بن عباس قبر انور سے باہر آنیوالوں میں سب سے آخر تھے ۔ ان سے مروی ہے جس نے قبر انور میں رسول اللہ ﷺ کا آخری دیدار کیا وہ میں تھا۔ میں نے قبر انور میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے لب ہائے اقدس کو متحرک فرمارہے ہیں۔ دہن اقدس کے آگے میں نے اپنے کان لگادئیے۔ میں نے سنا کہ حضور ﷺ رب امّتی امّتی فرمارہے تھے ۔
اس روایت کے بعد کسی مجادل کو یہ کہنے کا موقع نہ رہا کہ قبض روح کے بعد ثبوت حیات کیلئے خاص رسول اﷲ ﷺ کے متعلق کوئی دلیل موجو د نہیں ۔الحمد للہ! یہ آخری حجت بھی تمام ہو ئی ۔
روح کے بغیر حیات پائے جا نے کا مسئلہ امام زرقانی رحمتہ اللہ علیہ نے نہایت تفصیل سے لکھا ۔اس مو قع پر ان کا نمونہ کلام بھی ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے ۔ دیکھئے امام زرقانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
وقد ثبت ان اجساد الا نبیا ء لا بتلی وعود الروح الی الجسد ثابت فی الصحیح لسائر الموتی فضلا ای نھایۃ عن الشھداء فضلاعن الانبیاء وانما النظر فی استمر ارھا فی البدن وفی ان البدن یصیر حیا کحالتہ فی الدنیا اوحیا بدونھا وھی حیث شاء اللّٰہ تعالیٰ فان ملازمۃ الروح للحیاۃ امر عادی اجری اللّٰہ بہ العادۃ فیجوز تخلفہ (لا عقلی)فیمتنع تخلفہ فہذا ای الحیاۃ بلاروح مما یجوزہ العقل فان صح بہ سمع اتبع وقد ذکرہ جماعۃ من العلماء و یشھدہ صلوۃ موسٰی فی قبرہ کما ثبت فی الصحیح (زرقانی جلد پنجم ص ۳۳۴ مطبوعہ مصر)
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اجساد انبیاء علیہم السلام بو سیدہ نہیں ہوتے اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں کل اموات کیلئے جسم میںروح کا لو ٹنا بھی ثابت ہو چکا ہے۔ چہ جائیکہ شہدا ء پھر چہ جائیکہ انبیاء کرام علیہم السلام اعادہ روح فی الجسد میں نہیں بلکہ ہماری نظر تو صرف اس بات میں ہے کہ اعادہ کے بعد ارواح اجسام کریمہ میں دائم اور مستمر رہتی ہیں اور اس بات میں کہ بدن مبارک حیات دنیا کی طرح زندہ ہو جا تا ہے ۔ یا ارواح کے بغیر ہی زندہ رہتا ہے اور مقدس روحیں وہا ں رہتی ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ چا ہتا ہے کیونکہ روح و حیات کا آپس میں لازم ملزوم ہو نا محض امر عادی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح عادت کو جاری فرما دیا ہے ۔ ایسی صورت میں ایک دوسرے کے بغیر ہو نا ممکن (بلکہ امر واقع ) ہے ۔ یہ ملازمہ عقلی نہیں کہ روح و حیات کا ایک دوسرے کے بغیر پایا جا نا ممتنع ہو لہٰذا یہ حیات بلا روح ایسے امور سے ہے جنہیں عقل جائز رکھتی ہے۔ اگر کوئی دلیل سمعی اس کے ثبوت میں درجہ صحت کو پہنچ جائے تو ضرور اس کی اتباع کی جائیگی اور دلیل سمعی کو علماء کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے اور موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا بھی اس دعویٰ کی دلیل ہے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ (زرقانی جلد ۵ص ۳۳۴)
علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عبارت ہمارے بیان سابق کی ایسی روشن تائید ہے جسے پڑھ کر کوئی اہل علم اس کی صحت میں تردد نہیں کر سکتا۔
روح کے لئے موت نہیں
موت و حیات کے بیان میں یہ امر ملحوظ ہے کہ روح کے حق میں موت کے صرف یہ معنیٰ ہیں کہ وہ بدن سے خارج ہو جائے۔یہ نہیں کہ طریان موت روح کو معدوم کر دے ۔ ا س لئے کہ موت کے بعد ارواح کا باقی رہنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ۔ دیکھئے قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے شہد ا کی حیات کو بیان فرمایا ہے ، وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
’یُرْزَقُوْنَ فَرِحِیْنَ بِمَا اٰتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ‘‘ (س: آل عمران آیت ۱۶۹، ۱۷۰)
وہ رزق دئیے جاتے ہیں اور خوش باش رہتے ہیں۔ اس چیز کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے دی۔
اگر ان کی ارواح معدوم ہو جائیں تو اجسام بھی ’’جماد‘‘ محض ہو کر رہ جائیں گے ۔ ایسی صورت میں ان کو رزق دیا جا نا اور ان کا خوش باش رہنا کیونکر متصور ہو سکتا ہے ؟ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ یَالَیْتَ قَوْمِیْ یَعلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ۔ (یٰسین : ۲۶)
(مرنے والے کو عالم برزخ میں ) کہا جائے گا جنت کی راحتوں میں داخل ہو جا۔ وہ کہے گاکاش میری قوم جان لیتی کہ میرے رب نے میری کیسی بخشش فرمائی اور کس طرح مجھے عزت والوں میں سے کیا یہ تو شہدا ء اور مومنین کے بارے میں ارشاد خدا و ندی تھا۔ اب کفار کے حق میں ملاحظہ فرمایئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰ یَاتِنَا وَ اسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَا ئِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَا طِ وَ کَذَالِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ (س: اعراف آیت ۴۰)
جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر کیا ان کے لئے آسمانوں کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔ یہاں تک کہ داخل ہو اونٹ سوئی کے ناکے میں اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں گہنگاروں کو ۔
اس آیت سے ثابت ہو ا کہ مجرمین کی ارواح بھی موت کے بعد معدوم نہیں ہوتیں بلکہ آسمانوں پر لے جائے جانے کے بعد انتہائی ذلت سے واپس آتی ہیں اور اپنے جرائم کا بدلہ پاتی ہیں اور احادیث تو اس مسئلہ میں بے شمار ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (ابتدا ء امر میں) جب سماع موتی کا انکار کیا تھا تو ارواح کے علم کا انکار نہیں فرمایا چنا نچہ بخاری شریف میں ان کی حدیث میں یہ الفاظ مو جو د ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
وقالت انما قال انہم الان لیعلمون انما کنت اقول لہم حق
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف اتنی با ت ارشاد فرمائی تھی کہ مقتولین بدر اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ میں ان سے کہتا تھا۔ وہ حق ہے۔
اس کے علاوہ احادیث صحیحہ کثیرہ جن میں مرنے کے بعد تنعیم و تعذیب کا بیان وارد ہے سب اس بات کی روشن دلیل ہیں کہ مرنے کے بعد اروح معدوم نہیں ہوتیں بلکہ علم و ادراک ، سمع و بصر قول و عمل کے ساتھ متصف ہو کر مو جو د رہتی ہیں۔
روح کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ’’وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً (بنی اسرائیل : ۸۵)
’’(اے محبوب ﷺ) لو گ آپ سے روح کے متعلق سوال کر تے ہیں فرما دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم نہیں دئیے گئے علم سے مگر تھوڑا ‘‘
روح کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے سوال کر نے والے یہودی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے بھی روح کا علم قلیل ثابت فرمایا ۔ جب یہودیوں کیلئے روح کے مسئلہ میں علم قلیل ثابت ہے تو مو منین بالخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ان کے بعد ائمہ دین رحمہم اللہ تعالیٰ کیلئے تو یقینا اس علم قلیل سے زیادہ علم حاصل ہو گا جس کا یہودیوں کیلئے ا ثبات کیا گیا۔ پھر حضور ﷺ کی شان تو سب سے بلند ہے اس لئے سب سے زیادہ روح کا علم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے تسلیم کرنا پڑے گا ۔ یہ صحیح ہے کہ بعض علماء نے روح کے بارے میں کچھ کہنے سے تو قف کیا ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جن لوگوں نے روح کے متعلق کلا م کیا انہیں اس بارے میں سائلین عن الروح سے کہیں زیادہ علم حاصل تھا ورنہ وہ اس نازک مسئلہ میں ہر گز کلام نہ فرماتے ۔ مختصر یہ کہ اسی علم کی بناء پر جمہور اہلسنت نے روح کی تعریف اس طرح کی
انھا جسم و ھٰؤلاء تنوعوا انواعاً امثلہا قول من قال انھا اجسام لطیفۃ مشتبکۃ بالا جسام الکثیفۃ جر ی اللّٰہ العادۃ بالحیاۃ مع مقامہا وھو مذہب جمھور اہل السنۃ والی ذالک یشیر قول الاشعری والعلامۃ الباقلانی وامام الحرمین وغیرہم ویوافقھم قول کثیر من قدماء الفلاسفۃ و منھم من قال انھا عرض خاص ولم یعینہ ۔
و منھم من عینہ و منھم من قال انھا جو ھر فرد متحیزۃ۔۔۔۔۔ واتفق الاطباء علی ان فی بدن الانسان ثلثۃ ارواح روح طبیعی ۔۔۔ و روح حیوانی۔۔۔ و روح نفسانی۔۔۔ ولم یتکلمو فی النفس الناطقۃ الخاصۃ بالانسان التی ھی غرضنا ھنا۔ (شفاء السقام ص ۱۷۷ مطبوعہ مصر)
کہ وہ (روح) جسم ہے۔ پھر انہوں نے جسم کہہ کر بھی کئی قسم کے قول کئے۔ سب سے بہتر قول یہ ہے کہ روحیں اجسام لطیفہ ہیں جو اجسام کثیفہ پر چھائی ہوئی ہیں ان کے قیام مع البدن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے حیات پائے جانے کی ایک عادت جاریہ مقرر فرما دی ہے۔ یہ جمہور اہلسنّت کا مذہب ہے۔ امام اشعری علامہ باقلانی اور امام الحرمین و غیرہم کا قول اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ وہ عرض خاص ہے۔ اس قائل نے اسے متعین نہیں کیا۔ بعض نے اس کی تعیین بھی کی ہے۔
بعض نے کہا، وہ جوہر فرد متحیزہ ہے اور اطبّا کا اتفاق اس امر پر ہے کہ بدن انسان میں تین روح ہیں۔ روح طبعی، روح حیوانی، روح نفسانی اور نفس ناطقہ خاصہ بالانسان کے بارے میں انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا، جس کے ساتھ اس مقام پر ہماری غرض وابستہ ہے۔ (شفاء السقام ص ۱۷۷)
حقیقت انسان
امام تقی الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ شفاء السقام میں فرماتے ہیں، ’’والانسان فیہ امران، جسد(۱) ، و نفس (۲) ‘‘
انسان میں دو چیزیں ہیں، جسم (۱) اور روح (۲)۔
فاضل محشی نے اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے
(قولہ فیہ امران) قال السبکی للسید الصفوی ہنا تحقیق فی مسئلۃ المعاد فلیراجع وعبارتہ الانسان ہو مجموع الجسد والروح وما فیہ من المعانی فان الجسد الفارغ من الروح والمعانی تسمی شجاوجثۃ لا انسانًا وکذا الروح المجرد لا یسمی انسانا وکذا المعانی المحققۃ لا تسمی علی الانفراد انسانًا لاعرفًا ولا عقلًا ۱ھ من الاصول المنقول عنہا
(قولہ فیہ امران)امام سبکی نے سید صفوی سے فرمایا یہاں مسئلہ معاد میں ایک تحقیق ہے جس کی طرف مراجعت کرنی چاہئے۔ ان کی عبارت یہ ہے کہ انسان جسم و روح اور ان تمام معانی کا مجموعہ ہے ۔ جو اس میں پائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ وہ جسم جو روح اور اس میں پائے جانے والے معانی سے فارغ ہو اس کا نام شج اور جثہ رکھا جا تا ہے ۔اسے انسان نہیں کہا جا تا۔ اسی طرح روح مجرد کا نام بھی انسان نہیں اور ایسے ہی اس میںپائے جانے والے معانی کو بھی علی الانفر اداز روئے عرف و عقل انسان نہیں کہا جاتا۔
نفس انسانی کی حقیقت کیا ہے ؟
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
’’اصل‘‘ حقیقۃ النفس الانسانیۃ عند نا انھا برزۃ للنفس الکلیۃ مدبرۃ للنسمۃ والنسمۃ حالۃ فی البدن مدبرۃ لہ حاملۃ للقوی
’’اصل‘‘ الاصل الذی بہ زید زید و عمر و عمر و عند التحقیق لیس ھی المشخصات بل نحو البرزۃ الذی بہ صارت ھذہ البرزۃ نفس زید و تلک نفس عمر و۔۔۔۔۔
’’اصل‘‘ معنی الموت انفکاک النسمۃ عن البدن لا انفکاک النفس عن النسمۃ فاحفظ
’’اصل‘‘ لما کان من خاصیۃ ھذہ البرزۃ ان تحل فی النسمۃ نسمۃ لا یمکن ان تصیر مجردۃ محضۃ ولکن تتقوم بالنسمۃ فقط (فتاویٰ عزیزی ص۵۹، ج۱)
اصل نفس انسانیہ کی حقیقت ہمارے نزدیک یہ ہے کہ وہ نفس کلیہ کے لئے ’’حقیقت لطیفہ‘‘ کا برزہ یعنی اس کی ایک صورت ہے جو نسمہ جان کیلئے مدبرہ ہے اور نسمہ بدن میں حال ہے اس کے لئے مدبرہ ہے تمام قویٰ کیلئے یہی حاملہ ہے۔
’’اصل ‘‘وہ اصل حقیقت جس کی وجہ سے زید فی الواقع زید ہے اور عمر و عمر و ہے عند التحقیق مشخصات نہیں بلکہ برزہ جیسی ایک حقیقت ہے جس کی وجہ سے بہ صورت نفس زید اور بہ صورت نفس عمر و قرار پائی۔
اصل موت کے معنی بدن سے نسمہ کا جد ا ہو نا ہیں نسمہ کا نسمہ سے جدا ہو نا نہیں ۔ یا د رکھو!
’’اصل‘‘ جبکہ اس برزہ کی خاصیت سے یہ بات ہے کہ وہ نسمہ میں حلول کرے تو اس کا مجردہ محضہ ہو نا ممکن نہیں اس کا تقوم ہمیشہ نسمہ کے ساتھ ہو گا۔(فتاویٰ عزیزی )
حقیقت انسان یا نفس انسانی کی حقیقت کے بارے میں مختلف عنوانات سے جو اقوال متعددہ پائے جاتے ہیں۔ ان تمام کا احصاء اور ان پر تبصرہ اس وقت ہمارا مقصود نہیں ۔ ہمیں صرف یہ بتا نا ہے کہ علیٰ اختلاف الاقوال جس چیز کو بھی اصل حقیقت قرار دیا جائے۔ وہ بعد الوفات بھی مو جو د ہے ۔ ورنہ کتاب و سنت میں وارد ہو نے والے وہ تمام حالات جن کا تعلق انسان اور اس کی حقیقت سے ہے ۔ معاذ اللہ خلاف واقع اور کذب محض قرا ر پائیں گے۔ اس لئے وفات کے بعد روح یا با الفاظ دیگر حقیقت نفس انسانی کا باقی اور مو جو د رہنا تسلیم کر نا پڑے گا۔ اور وہ حالات جب ہر ایک کے حسب حال ہیں تو بقاء حیات پر روشن دلیل ہوں گے۔
موت و حیات سے متعلق بقیہ ضروری تفصیلات انشاء اللہ اگلے عنوانات میں ہدیہ ناظرین کی جائیں گی۔ سردست ہم امور مذکورہ سابقہ میں سے امر اول پر کلا م شروع کرتے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کا قبروں میں نماز پڑھنا
رسول اللہ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قبروں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھاہے۔ یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ لیکن اس مضمون پر حسب ذیل شکوک و شبہات اور اعتراضات پیدا ہو تے ہیں، جن کا جواب دینا اثبات مد عا کے لئے ضروری ہے لہٰذا پہلے اعتراضات کو بیان کیا جا تا ہے ۔ پھر ان کے جوابات عرض کئے جائیں گے۔
اعتراضات حسب ذیل ہیں
(۱) انبیاء کرام علیہم السلام کو دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی روحوں یا مثالی صورتوں کو دیکھا ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں بھی ہوں اور بیت المقدس میں بھی اور پھر اپنے اپنے مقامات پر آسمانوں میں بھی مو جو د رہیں۔
(۲) اگریہ تسلیم کر لیا جائے کہ قبروں میں اور بیت المقد س میں اور آسمانوں پر انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اصلی جسموں کے ساتھ مو جو د تھے تو بیت المقدس اور آسمانوں پر ہو نے کے وقت لازم آئے گا۔ کہ ان کی قبریں ان کے جسموں سے خالی ہوں ۔اسی طرح چالیس راتوں کے بعد انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبروں سے اٹھا لیا جا نا بھی اس بات کو مستلزم ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تمام قبریں ان کے وجود سے خالی ہوں حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر انور کا حضور ﷺ سے خالی ہو نا لازم آئے گا جو دلائل و واقعات کی روشنی میں صراحتاً باطل ہے ۔
(۳) اگر انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو آپ قبور میں تسلیم کر تے ہیں تو ان کی زندگی کیسے ثابت ہو گی جبکہ ان کی ارواح کا اعلیٰ علیین میں ہو نا قطعی طو ر پر معلو م ہے ۔
پہلے اور دوسرے اعتراض کا جو اب
ان اعتراضات کے جوابات نمبر و ار ملاحظہ فرمایئے۔
زمان و مکان کی قیودو حدود مادی کثافتوں تک محدود رہتی ہیں۔ کثافتیں جس قدر دور ہوتی جائیں گی زمان و مکان کی قیود اسی قدر مر تفع ہوتی چلی جائیں گی۔ ایک جسم کا آن واحد میں متعد د مقامات پر پائے جانے کا استحالہ اسی مادی کثافت کا نتیجہ ہے ۔ جہاں یہ کثافتیں مو جو د نہ رہیں وہاں زمان ومکان کی حد بندیاں بھی باقی نہیں رہتیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام محققین کے نزدیک ایسے لطیف تھے کہ ان میں اور ارواح میں کوئی فرق نہ تھا۔ معترضین کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں اپنے اکابر کی عبارات کو دیکھیں آپ کے مو لا نا رشید احمد صاحب گنگوہی نے فرمایا موت سب کو شامل ہے مگر انبیاء علیہم السلام کی ارواح مشاہد ہ جمال و جلا ل حق تعالیٰ شانہ و تقابل آفتاب و جو د باری تعالیٰ سے اس درجہ تک پہنچ جاتی ہیں کہ اجزا ء بدن پر ان کا یہ اثر ہو تاہے کہ تمام بدن حکم (۱) روح پیدا کر لیتا ہے اور تمام جسم ان کا عین ادراک اور عین حیات ہو جا تا ہے اور یہ حیات دوسری قسم کی ہو تی ہے اور اس تحقیق سے نکتہ ان اللّٰہ حرم علی الارض ان تأکل اجساد الانبیاء بھی ظاہر ہو جا تا ہے۔
شمائم امدادیہ میں جناب گنگوہی صاحب کے پیر و مرشد حاجی امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں، ’’اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے مضائقہ نہیں کیونکہ عالم خلق مقید بزمان و مکان ہے لیکن عالم امر دونوں سے پاک ہے ۔ پس قدم رنجہ فرمانا ذات بابرکات کا بعید نہیں۔‘‘ ( شمائم امدایہ ص۹۳)
گنگوہی صاحب کے اقتباس سے اتنی بات تو معلوم ہو گئی کہ انبیاء علیہم السلام کا تمام بدن حکم روح پیدا کر لیتا ہے ۔ اب یہ سنیئے کہ وہ روح جس کو قرآن نے ’’الروح الامین‘‘ قرار دیا اور لسانِ شرع میں جبرائیل سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔ اسی زمان و مکان کے باب میں اس کا کیا حال ہے ۔ صاحب روح المعانی فرماتے ہیں
ان جبریل علیہ السلام مع ظھورہ بین یدی النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام فی صورۃ دحیۃ الکلبی او غیرہ لم یفارق سدرۃ المنتھیٰ (روح المعانی ص۳۵پ۲۲)
ترجمہ: بے شک جبرائیل علیہ السلام دحیہ کلبی و غیرہ کی صورت میں نبی کریم ﷺ کے سامنے ظاہر ہونے کے باوجود سدرۃالمنتہیٰ سے جدا نہیں ہوئے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح طیبہ تو ارواح ملائکہ سے کہیں زیادہ قوت و تصرف کی صفت سے متصف ہیں۔ بالخصوص ہمارے نبی کریم ﷺ کی روح اقدس تو روح الا رواح ہے۔ جب ان کے اجسام کریمہ ان کی ارواح مقدسہ کا حکم پیدا کرلیں گے تو ان کیلئے یہ کو ن سی بڑی بات ہو گی کہ وہ آسمانوں اور بیت المقدس میں ظاہر ہو نے کے باوجو د اپنی قبور شریفہ سے جدا نہ ہوں۔
اس مضمون کی تائید کنز العمال کی ایک حدیث سے بھی ہو تی ہے۔ فیض الباری میں اس حدیث کو حسب ذیل عبارت میں نقل کر کے اس کی مراد کو واضح طو ر پر بیان کیا
وفی کنز العمال ان اجساد الانبیاء نابتۃ علی اجساد الملائکۃ و اسنادہ ضعیف و مرادہ ان حال الا نبیاء علیھم السلام فی حیاتھم کحال الملائکۃ بخلاف عامۃ الناس فان ذالک حالھم فی الجنۃ فلا تکون فضلا تھم غیر رشحات عرق۔ انتھی۔ (فیض الباری جز اول ص ۲۵۱)
اور کنز العمال میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے جسموں کی پیدا ئش اجسام ملائکہ کے موافق ہوتی ہے۔ اس کی اسناد ضعیف ہے ۔ اور اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات دنیا میں ان کا حال ملائکہ کے حال کی طرح ہو تا ہے ۔ بخلاف عامۃ الناس کے کہ ان کا یہ حال جنت میں ہو گا اسی وجہ سے انبیاء کرام علیہم السلام کے فضلات پسینے کے قطروں کے سوا نہیں ہوتے۔ (فیض الباری)
اگرچہ اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے مگر باب مناقب میں وہ بالاتفاق مقبول ہے ۔ دیکھئے اعلا ء السنن میں ہے۔
ولا یخفی ان الضعاف مقبولۃ معمولۃ بھافی فضائل الاعمال و مناقب الرجال علی ما صرحوا بہ۔ انتھٰی۔ (اعلاء السنن حصہ چہارم ص۶۵) مصدقہ مو لوی اشرف علی صاحب تھانوی مطبوعہ اشرف المطابع تھانہ بھون
اور مخفی نہ رہے کہ محدثین کی تصریح کے موافق ضعیف حدیثیں فضائل اعمال اور مناقب رجال میں مقبول ہیں۔ معمول بہاہیں۔
اجسادانبیاء علیہم السلام جب اجساد ملائکہ کے موافق ہوئے حتی کہ ان کے فضلات بھی پیسنے کے چند قطروں سے متجاوز نہیں ہوتے تو اب ان کا قیاس عامۃ الناس کے اجسام پر کرنا غلطی نہیں تو اور کیا ہے؟
انبیاء علیہم السلام کے اپنی قبروں میں نماز پڑھنے اور آسمان و بیت المقدس اور قبور میں انبیاء علیہم السلام کے پائے جانے کے مسئلہ میں اسی قسم کے معترضین کو ان کی غلطی پر متنبہ کر نے کیلئے امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں
ورأی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صورتہ ھناک فی اشخاص السعداء فشکر اللّٰہ تعالیٰ و علم عند ذالک کیف یکون الانسان فی مکانین وھو عینہ لا غیرہ ۔۔۔۔ و فیہا شھود الجسم الواحد فی مکانین فی آن واحد کمارأی محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم نفسہ فی اشخاص بنی آدم سعداء حین اجتمع بہ فی السماء الاولٰی کما مر وکذالک آدم و موسٰی و غیرھما فانھم فی قبورھم فی الارض حال کو نھم ساکنین فی السماء فانہ قال رأیت آدم رأیت موسٰی رأیت ابراھیم واطلق وما قال روح آدم ولا روح موسٰی فراجع صلی اللّٰہ علیہ وسلم موسیٰ فی السماء وھو بعینہ فی قبرہ فی الارض قائما یصلی کما ورد فیا من یقول ان الجسم الواحد لا یکون فی مکانین کیف یکون ایمانک بھذا الحدیث(الیواقیت و الجواہر ج ۲ ص ۳۴)
ترجمہ: اور نبی کریم ﷺ نے اس جگہ (آدم علیہ السلام کے پاس) نیک بختوں کے افراد میں اپنی صورت مبارک بھی دیکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا اور اس وقت حضور ﷺ نے علم مشاہدہ کے ساتھ اس بات کو جان لیا۔ کہ ایک انسان دو جگہ میں کس طرح پا یا جا تا ہے۔ درآن حالیکہ وہ اس کا عین ہے، غیر نہیں…فوائد معراج سے یہ بھی ہے کہ ایک جسم کا ایک ہی آن میں دو جگہ حاضر ہو نا جیسا کہ حضور ﷺ نے اپنی ذات مقدسہ کو بنی آدم کے نیک بخت افراد میں دیکھا۔ جب کہ حضور ﷺ پہلے آسمان میں آدم علیہ السلام کے ساتھ جمع ہو ئے۔ جیسا کہ ابھی گزر چکا اور اسی طرح آدم و موسیٰ اور ان کے علاوہ انبیاء کرام کہ وہ زمین میں اپنی قبروں میں بھی موجود ہیں اور اسی وقت آسمانوں میں بھی ساکن ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے آدم کو دیکھا۔ میں نے موسیٰ کو دیکھا ۔ میں نے ابراھیم کو دیکھا اورروح کی قید لگا کر یہ نہیں فرمایا کہ میں نے روحِ آدم کو دیکھا اور نہ یہ فرمایا کہ میں نے روحِ موسیٰ کو دیکھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ آسمان میں گفتگو بھی فرمائی۔ حالانکہ موسیٰ علیہ السلام بعینہٖ زمین میں اپنی قبر کے اندر کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا، پس اے وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ ایک جسم دوجگہ نہیں پایا جا سکتا اس حدیث پر تیرا ایمان کیسے ہو گا؟ (الیواقیت والجواہر)
عالمِ مثال
عبارات منقولہ سے معترض کے اعتراض کا جہالت اور بے دینی پر مبنی ہونا اچھی طرح واضح ہوگیا۔ لیکن اگر ان تمام حقائق سے قطع نظر کر لی جائے تو ہم دوسرے طریقہ سے بھی جواب دے سکتے ہیں اوروہ یہ کہ صوفیہ عارفین کے نزدیک عالم کئی قسم کا ہے، ان میں سے ایک عالم اجسام ہے، دوسرا عالم مثال اور تیسرا عالم ارواح، ایک ہی چیز بیک وقت تینوں عا لموں میں پائی جاتی ہے اور ان میں سے کوئی وجود دوسرے کا غیر نہیں بلکہ ان میں سے جس کا بھی اعتبار کیا جاوے باقی اس کا عین ہوں گے، غیر نہ ہوں گے۔ لہٰذا انبیاء کرام کے ان اجسام کر یمہ کو جو ان کی قبور اور بیت المقدس اورآسمانوں میں پائے گئے۔ عالم مثال پر حمل کر دیا جائے تو کو ئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ انور شاہ صاحب کشمیر ی مقدمہ فیض الباری میں لکھتے ہیں
العوالم عند الصوفیۃ علی انحا ء عا لم الاجساد العنصریۃ وہی التی فیہا المادۃ والمقدار وعالم الامثال وہی التی لامادۃ فیہا مع بقاء الکم وا لمقدار کا لشج المرئی فی المرأ ۃ وعالم الارواح وھی التی لا مادۃ فیھا ولا کم ولا مقدار وقد صرحوا ان عالم المثال لتجردہ عن المادۃ اقوی من عالم الاجساد ولیس کما زعمہ بعض الجھلاء انہ من التخیلات الصرفۃ وقالوا ان زید افی آن واحد موجودفی مواطن ثلا ثۃ عالم الا جساد والمثال والارواح بدون تفاوت ولاتغیر انتھٰی (مقدمہ فیض الباری جز اول ص ۶۵)
عارفین صوفیہ کے نزدیک عالم کی چند قسمیں ہیں ایک ان میں سے عالم اجساد عنصر یہ ہے اور وہ وہ ہے جس میں مادہ اور مقدار دونوں چیزیں پائی جائیں ۔ دوسرا عالم مثال اور وہ وہ ہے جس میں مادہ نہ ہو صرف کمیت اور مقدار پائی جائے جیسے آئینہ میں نظر آنے والی شکل، تیسرا عالم ارواح اس میں نہ مادہ ہوتا ہے اور نہ کمیت اور نہ مقدار۔ عارفین کرام نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ عالم مثال تجرد عن المادہ کی وجہ سے عالم اجسام سے زیادہ قوی ہے اوریہ بات نہیں جیسا کہ بعض جہلاء نے گمان کر لیا کہ عالم مثال محض تخیلات کا مجموعہ ہے ۔ صوفیائے کرام نے یہ فرمایا کہ زید آ ن واحد میں تین جگہ موجود ہے۔ ایک عالم اجساد، دوسرے عالم مثال اور تیسرے عالم ارواح میں۔ ان تینوں جگہ زید بغیر کسی تفاوت اور تغیر کے پایا جاتا ہے۔ پھر آگے چل کر اگلے صفحے پر فرماتے ہیں
ثم ان عا لم المثال لیس اسما للحیز کما یتوھم بل ھواسم لنوع من الموجودات فما کان من عالم المثال ربما یوجد فی ھٰذ ا العالم بعینہٖ کا لملٰئکۃ فانھم فی عالم المثال عند ھم ومع ذالک تتعاقب فی ھٰذا العالم بکرۃ واصیلا انتھٰی (مقدمہ فیض الباری ص ۶۶)
پھر عالم مثال کسی چیز کا نام نہیں۔ جیسا کہ وہم کیا جاتا ہے بلکہ وہ موجودات کی ایک قسم کا نام ہے تو بسا اوقات عالم مثال کی چیز اس عا لم میں بعینہٖ پائی جاتی ہے جیسے فرشتے کہ وہ ان کے نزدیک عالم مثال میں ہیں اور اس کے باوجود اس عالم میں بھی ایک دوسرے کے پیچھے صبح و شام آتے ہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ
شاید کو ئی کہہ دے کہ صاحب فیض الباری نے صو فیاء کا مذہب نقل کر دیا ۔ جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا اپنا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ اول تو صوفیاء کا عقیدہ ہی ہماری دلیل ہے۔ دوم یہ کہ صاحب فیض الباری نے اس مسئلہ میں اپنے عقیدہ کی خود تصریح کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں
وقد ثبت عندی تجسد المعا نی وتجوھر الاعراض با لعقل والنقل فلا بعد عندی فی صعودھا ( فیض الباری جز ۲ص۳۰۲)
میر ے نزدیک اعراض ومعانی کا جسد مثالی اور جوہر مثالی میں ظاہر ہونا عقل ونقل سے ثابت ہوچکاہے۔
اس لیے کلمات طیبات کے آسمانوں کی طر ف چڑھنے میں کوئی بعد نہیں پایا جاتا۔ اس عبارت سے ثابت ہو اکہ صاحب فیض الباری نے عالم مثال کا قول محض نقل نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک اس کا وجود عقل ونقل سے ثابت ہے۔
عا لم مثال کابے حقیقت ہو نا
شاید کو ئی جھگڑا لو آدمی یہ کہہ دے کہ عالم مثال تخیلاتِ صرفہ اور فراغ متوہم کا نام ہے۔ اس کی حقیقت کچھ نہیں۔
تو اس کا جواب مقدمہ فیض الباری سے ہماری نقل کی ہوئی عبارت میں واضح طور پر آ چکا ہے۔ کیونکہ اس میں صاف مو جود ہے کہ عالم مثال کو تخیلات محضہ قرار دینا جہلاء کا کا م ہے۔ اسی طرح اسے محض فراغ متوہم ما ننا بھی وہم ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عالم مثال موجودات کی ایک نوع کو کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ عالم مثال کی چیزیں بسا اوقات اس عالم میں بعینہٖ پائی جاتی ہیں۔
اتنی روشن تصریحات کے باوجود بھی عالم مثال کی حقیقت وواقعیت سے انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کیاہو سکتا ہے۔ قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ عالم مثال پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
والصوفیۃ العلیۃ لما ظھرلھم من العوالم عالم المثال و فیہ مثال لکل جوھر وعرض بل للمجردات ایضاً بل للّٰہ سبحانہٗ ایضاً مع کونہ متعال عن الشبہ والمثال ذالک ھو المحل لحدیث رأیت ربی علی صورۃ امرد شاب قطط فی رجلیہ نعلا الذھب وقد ینتقل الصورۃ المثالیۃ من عالم المثال الی عالم الشھادۃ بکمال قدرتہ تعالٰی وقد اشتھر ذالک کرامۃ عن کثیر من الاولیاء ولعل اللّٰہ تعالٰی یحضر الصورۃ المثالیۃ للموت من عالم المثال فی الاٰخرۃ الی عالم الشھادۃ فیؤمر بذبحہ حتی یظھر علی اھل الجنۃ والنارانہ خلود ولا موت وھکذا التاویل فی حشر الاسلام والایمان والقرآن والاعمال والامانۃ والرحم وایام الدنیا کما نطق بہ الاحادیث الصحیحۃ التی لا یسع ذکرھا المقام قال السیوطی فی البدور السا فرۃ الاعمال والمعانی کلھا مخلوقۃ ولھا صورۃ عنداللّٰہ تعالی وان کنا لا نشاھد ھا وقد نص ارباب الحقیقۃ علی ان من انواع الکشف الوقوف علی حقائق المعانی و ادراک صورھا بصور الاجسام والا حادیث شاھدۃ بذالک وھی کثیرۃ انتھٰی و ھذا القول من السیوطی حکایۃ عن عالم المثال واللّٰہ تعالٰی اعلم۔
اور صوفیاء عُلیہ پر عوالم میں سے عالم مثال ظاہر ہوا۔ جس میں ہر جو ہر و عرض بلکہ مجردات بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی مثال ہے باو جو د یکہ اللہ تعالیٰ شبہ و امثال سے پاک ہے ۔ صوفیاء نے کہا۔ یہی عالم مثال اس حدیث کا محل ہے کہ میں نے اپنے رب کو گھنگھریالے بالوں والے نوجوان کی شکل میں دیکھا جس کے پائو ں میں سونے کی جوتیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی عالم مثال سے صورت مثالیہ عالم شہادت کی طرف اپنی کمال قدرت کے ساتھ منتقل فرما دیتاہے اور اسی عالم مثال کی بناء پر آن واحد میں مقامات متعددہ پر مو جو د ہو نے کی یہ کرامت بکثرت اولیا ء اللہ سے مشہور ہو گئی اور شاید ا للہ تعالیٰ موت کے لئے آخرت میں عالم مثال سے عالم شہادت کی طرف ایک صورت مثالیہ حاضر فرمائے گا۔ پھر اسے ذبح کر نے کا حکم دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ جنتیوں اور دوزخیوں پر ظاہر ہو جائے گا کہ خلود ہے موت نہیں۔ یہی تاویل حشر، اسلام، ایمان ، قرآن ، اعمال ، امانت، رحم اور ایام دنیا کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ بکثرت احادیث صحیحہ اس پر ناطق ہیں۔ جن کے ذکر کی گنجائش نہیں۔
اما م سیوطی نے بدور سافرہ میں کہا اعمال اور معانی سب مخلوق ہیں۔ اور ان کیلئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک صورتیں پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ ہم ان کا مشاہد ہ نہیں کر سکتے ارباب حقیقت نے اس بات پر نص کی ہے ۔ کہ منجملہ انواع کشف کے وقوف حاصل کرنا ہے حقائق معانی پر اور ان صورتوں کے ادراک پر جو اجسام کی سی صورتیں ہو ں اور احادیث کثیرہ اس کیلئے شاہد ہیں انتہیٰ ! اور یہ قول امام سیوطی کا ہے جس کے ذریعہ انہوں نے عالم مثال کی حکایت کی ہے ۔ ’’اللہ تعالیٰ بہتر جا نتا ہے۔ (تفسیر مظہر ی پ ۲۹ص۲۱،۲۰)
ان تما م عبارات سے عالم مثال کا و جود اظہر من الشمس ہو گیا اور یہ بات واضح ہو گئی کہ مو جو دات عالم مثال و جو د واقعی رکھتے ہیں اور وہ انواع کائنات میں سے ایک نو ع ہیں ۔ نیز یہ کہ جو چیز عوالم ثلٰثہ میں بیک وقت مو جو د ہو گی اس کا وجو د تینوں میں سے کسی عالم کے و جو د کا غیرنہ ہو گا۔ لہٰذا انبیاء کرام علیہم السلام جو مقامات متعددہ پر دیکھے گئے ان سب کا و جو د ہر جگہ و جو د واقعی ہے اور وہ ان کا غیر نہیں بلکہ عین ہے ۔
امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ’’لا یترکون فی قبورھم بعد اربعین لیلۃ‘‘کے متعلق امام بیہقی سے نقل کیا ہے ۔
قال البیھقی ان صح فالمراد انھم لا یترکون یصلون الا ھذا المقدار و یکونون مصلین بین یدی اللّٰہ (زرقانی جلد پنجم ص۳۳۵)
بیہقی نے کہا اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس کی مراد یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اس عرصہ معینہ کے بعد نماز پڑھنے کیلئے نہیں چھوڑے جا تے ۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور خاص میں نماز پڑھتے ہیں۔
بہر حال معترضین کے شبہات محدثین و علماء محققین کی تصریحات کی روشنی میں لغو اور بے بنیاد ہیں۔ ہمارے اس جو اب میں دوسرے اعتراض کا جواب بھی آگیا۔ جس کو دوبارہ لکھنا تطویل لا طائل ہے ۔
تیسرے اعتراض کا جو اب
رہا تیسرا اعتراض تو ہم پو چھتے ہیں کہ معترض کو ارواح انبیا ء کرام علیہم السلام کے اعلیٰ علیین میں ہونے کا علم قطعی کس دلیل سے حاصل ہوا۔
جب دلائل سے ہم نے ثابت کر دیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں تو یہ کیوں نہ کہا جائے کہ ارواح مقدسہ ابدان شریفہ میں ہونے کے باوجود اپنی روحانی قوت اور طاقت تصرف کی بناء پر اعلیٰ علیین سے بھی اس طرح متعلق ہیں کہ گویا وہ وہا ں مو جو د ہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے مسلک پر پھر بھی کوئی زد نہیں پڑتی ۔ اس لئے کہ جب اجسام مقدسہ کا امکنہ متعددہ میں ہو نا باہمی غیریت کو مستلزم نہیں تو روح اقدس کے لئے تو بطریق اولیٰ یہ بات ماننی پڑے گی اور اس میں شک نہیں کہ ارواح مقدسہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ابدان مبارکہ میں مو جو د ہونے کے باوجو د بھی اعلیٰ علیین میں مو جو د ہیں۔ غیر مرئی پر مرئی سے دلیل لانا اور ایک عالم پر دوسرے عالم کا قیاس کر نا صحیح نہیں۔
بارگاہ اقدس میںدرود شریف کا پیش ہو نا
امراول سے فراغت پاکرامر دوم کی طرف متوجہ ہو تا ہو ں۔ حضور سیدعالم ﷺ پر درود شریف پیش ہو نے کا مضمون ناظرین کرام اس سے پہلے ہمارے بیا ن میں ملاحظہ فرما چکے ہیں۔جو اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے کہ حضور ﷺ قبر انور میں زندہ ہیں ورنہ درود شریف پیش ہو نے کے معنی متحقق نہیں ہو سکتے ۔ اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو درود کا علم کس طرح ہو تا ہے۔ حضور خود سنتے ہیں یا حضور ﷺ کو پہنچا دیا جا تا ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبر انور پر درود پڑھا جا ئے تو حضور سنتے ہیں اور دور سے پڑھنے والوں کا درود حضور نہیں سنتے ۔ بلکہ فرشتے حضور ﷺ کو پہنچا دیتے ہیں۔ یہ لو گ اپنے قول کی دلیل میں حضرت ابو ہریرہ کی حدیث پیش کر تے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
ترجمہ: یعنی جس شخص نے میری قبر کے پاس آکر مجھ پر درود پڑھا میں اسے سنتاہوں اور جس نے مجھ پر دور سے درود پڑھا تو وہ مجھے پہنچا دیاجا تا ہے۔
معلو م ہو ا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سننا اسی وقت ہو تا ہے۔ جب قبر شریف کے پاس درود پڑھا جائے اور جو درود دور سے پڑھا جا ئے۔ اسے حضور نہیں سنتے ۔ وہ فرشتوں کے ذریعے حضور کو پہنچا دیا جا تا ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک ہر شخص کا درودو سلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سنتے ہیں۔ درود وسلام پڑھنے والا خواہ قبر انور کے پاس حاضر ہو یا کہیں دور ہو قریب اور دور کا فرق رسول کے لئے نہیں بلکہ درود و سلام پڑھنے والے کیلئے ہے۔ ہم پہلے ثابت کر چکے ہیں کہ نزدیک اور دور کی قید عالم خلق کے لئے ہے، عالم امر کے لئے نہیں۔ اس لئے روح زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے ۔ جب عام ارواح اس قید میں مقید نہیں تو روح اقدس جو روح الارواح ہے قرب و بعد کی قید میں کیوں کر مقید ہو سکتی ہے؟
علاوہ ازیں اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے یہ کہاں ارشاد فرمایا ہے کہ دور سے درود پڑھنے والے کا درود صرف فرشتوں کے ذریعہ مجھے پہنچتا ہے۔ میں اسے مطلقاً نہیں سنتا۔ حضور ﷺ کے درود و سلام سننے اور آپ کی خدمت میں پہنچائے جانے کے متعلق متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ا گر ان سب کو سامنے رکھ کر فکر سلیم سے کا م لیا جائے تو یہ مسئلہ بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس باب میں ایک حدیث تو ناظرین پڑھ چکے ہیں کہ جس نے میری قبر انور پر آکر درود پڑھا تو میں اسے سنتا ہوں اور جس نے دور سے پڑھا وہ مجھے پہنچا دیا جا تا ہے۔ دوسری حدیث میں وارد ہے
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللّٰہ من صلی علی عند قبری وکل اللّٰہ بہ ملکا یبلغنی وکفٰی امر دنیاہ وآخرہ وکنت لہ یوم القیامۃ شہیدا او شفیعا
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ نے کہا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص میر ی قبر کے پاس آکر مجھ پر درود پڑھتا ہے۔ تو اللہ تعا لیٰ نے اس پر ایک فرشتہ مقر ر کیا ہو ا ہو تا ہے۔ جو اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے اور وہ اپنے امر دنیا اور آخرت کی کفایت کیا جا تا ہے اور میں اس کے لئے قیامت کے دن شہید یا شفیع ہو ں گا۔
اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ قبرشریف پر جو درود پڑھا جا تا ہے ۔ اسے بھی حضور ﷺ کے سامنے فرشہ پیش کرتا ہے۔ اب اگر فرشہ کا حضور ﷺ کی بارگاہ میں درود پیش کر نا حضور ﷺ کے سننے کے منافی ہو تو اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ میری قبر انور پر جو درود پڑھا جائے۔ میں اسے بھی نہیں سنتا۔ ایسی صورت میں یہ حدیث پہلی حدیث کے معارض ہوگی۔ جس میں صاف مو جو د ہے۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ
’’جو میری قبر پر درود پڑھتا ہے میں اسے سنتاہوں۔‘‘
علاوہ ازیں جس طرح اس حدیث سے قبر انور کے پاس درود پڑھنے والے کے درود کا حضور ﷺ کو پہنچا یا جا نا ثابت ہوا ۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے دور کا درود شریف سننا حضور ﷺ کے لئے ثابت ہے۔ جیسا کہ احادیث کے ذیل میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسو ل ﷺ نے ارشاد فرمایا
ما من احد یسلم علی الا رد اللّٰہ الی روحی حتّٰی ارد علیہ السلام(رواہ احمد وابی داؤد و بیہقی فی شعب الایمان)
ترجمہ: نہیں کوئی جو سلام پڑھے مجھ پر لیکن اللہ تعالیٰ میری طرف میری روح لوٹا دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔
اس حدیث میں ’’ما‘‘ نافیہ ہے ۔’’احد‘‘ نکرہ ہے سب جانتے ہیں کہ نکرہ حیز نفی میں عموم کا فائد ہ دیتا ہے۔ پھر ’’من‘‘ استغراقیہ عموم و استغراق پر نص ہے یعنی مجھ پر سلام بھیجنے والا کوئی شخص ایسا نہیں جس کے سلام کی طرف میری توجہ مبذول نہ ہوتی ہو خواہ وہ قبر انور کے پا س ہو یا دور ہو ہر ایک کے سلام کی طرف میں متوجہ ہو تا ہوں اور ہر شخص کے سلا م کا خود جواب دیتا ہوں۔
یہ حدیث اس امر کی روشن دلیل ہے کہ درود پڑھنے والے ہر فرد کا درود حضور ﷺ خود سنتے ہیں اور سُن کر جواب بھی دیتے ہیں خواہ وہ شخص قبر انور کے پا س ہو یا دور ہو۔ دیکھئے امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اسی حدیث ’’الا رد اللّٰہ الی روحی‘‘ پر کلام کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں۔
و یتو لد من ھذا الجواب جواب آخر وھو ان یکون الروح کنایۃ عن السمع و یکون المراد ان اللّٰہ تعالیٰ یر د علیہ سمعہ الخارق للعادۃ بحیث یسمع سلام المسلم ’’وَاِن بَعُدَ (۱) قُطرُ ہٗ(انباء الاذکیاء بحیوٰۃالانبیاء )
ترجمہ: اور اس جواب سے ایک اور جواب پیدا ہو تا ہے۔ وہ یہ کہ رد روح سے یہ مراد ہو کہ اللہ تعالیٰ حضور ﷺ پر آپ کی سمع خارق للعادۃ کو لوٹا دیتا ہے ۔ اس طرح کہ حضورﷺ سلام بھیجنے والے کے سلام کو سنتے ہیں۔ خواہ وہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو اس حدیث سے ثابت ہو ا کہ رسول اللہﷺ دور سے پڑھنے والے کا درود بھی سنتے ہیں۔
اسی باب میں اور بھی احادیث وارد ہیں لیکن ہم نے قدر ضرورت پر اکتفا کیا اور ہماری پیش کر دہ حدیثوں سے ثابت ہو گیا کہ جس طرح قبر انور کے پاس درود پڑھنے والے کا درود حضور ﷺ سنتے ہیں۔ اسی طرح دور والے کا درود بھی حضور ﷺ اپنی سمع مبارک سے سنتے ہیںاور جس طرح دور کا درود حضور کو پہنچا یا جا تا ہے ۔ اسی طرح قبر انور پر جو درود پڑھا جا ئے اسے بھی ایک فرشتہ حضور ﷺ پر پہنچا تا ہے۔
ثابت ہو ا کہ پہنچا نا سننے کے منافی نہیں اور سننا پہنچا نے کے معارض نہیں یعنی قریب اور دور کا درود حضور سنتے بھی ہیں اور یہی دور اور نزدیک کا درود حضور ﷺ کو پہنچا یا بھی جا تا ہے۔ اس تقریر پر یہ شبہ وارد ہو گا کہ پہلی حدیث
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
میں’’ابلغتہ‘‘اور ’’سمعتہ‘‘باہم متقابل معلوم ہوتے ہیںاور تقابل کی صورت میں سمع کا ابلاغ کے ساتھ جمع ہو نا محال ہے لہٰذا تسلیم کر نا پڑے گا کہ جب فرشتے درود پہنچاتے ہیں تو اس وقت حضور ﷺ نہیں سنتے ۔
جس کے جواب میں ہم یہ عرض کر یںگے کہ جب ہم نے احادیث کی روشنی میں ثابت کر دیا کہ جو درود قبر انور کے پاس پڑھا جائے۔ اسے بھی فرشتے پہنچاتے ہیں۔ نیز یہ کہ نزدیک و دور سے ہر ایک درود پڑھنے والا جب درود پڑھتا ہے تو وہ اس حال میں پڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی طرف حضور کی روح مقدس اور سمع مبارک لوٹائی ہوئی ہوتی ہے اور حضور ﷺ ہر ایک کا درود سن کر خود جواب دیتے ہیں تو اس کے بعد اس شبہ کیلئے کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔
رہا تقابل تو اس کے لئے مطلق سمع ضروری نہیں بلکہ سمع مخصوص بھی تقابل کیلئے کافی ہے اور وہ التفات خصوصی ہے اور بر تقدیر صحت حدیث مطلب یہ ہے کہ قبر انور پر آکر درود پڑھنے والا چونکہ حاضری کی خصوصیات کا حامل ہے ۔اس لئے اس کا درود اس قابل ہے کہ اسے التفات خاص کے ساتھ سنا جائے۔
بلکہ قبر انور پر حاضری کی خصوصیات پر کیا منحصر ہے ۔ دور کے لو گ بھی اگر اسی قسم کی کوئی خصوصیت رکھتے ہوں۔ مثلاً کمال محبت و اشتیاق سے درود پڑھیں تو ان کے درود و سلام کیلئے بھی سمع خصوصی اور مخصوص التفات و توجہ کے ساتھ سمع اقدس کا پایا جانا کچھ بعید نہیں بلکہ دلائل الخیرات کی ایک حدیث اس دعویٰ کی مثبت ہے۔ صاحب دلائل الخیرات نے حضور ﷺ کا ارشاد بایں الفاظ وارد کیا
اسمع (۱) صلٰوۃ اہل محبتی واعرفہم
مختصر یہ کہ ابلاغ اور سمع خصوصی کا تقابل مراد لینے کے بعد حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جو شخص خصوصیت کے ساتھ میری قبر انور پر حاضر ہوکر (یا مثلاً کمال محبت و اشتیاق کی خصوصیت کا حامل ہوکر) مجھ پر درود پڑھتا ہے، میں اس کے درود کو خاص توجہ کے ساتھ سنتا ہوں اور جو شخص دور سے (ان خصوصیات کے بغیر) مجھ پر درود پڑھتا ہے (سماع معتاد کے باوجود) میں اس کی طرف خاص توجہ نہیں فرماتا صرف ملا ئکہ میری بارگاہ میں پہنچا دیتے ہیں۔
ابلاغ ملائکہ
فرشتوں کے درود پہنچانے کو جن لوگوں نے مطلق سماع اقدس کے منافی قرار دیا ہے۔ دراصل وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ابلاغ اور تبلیغ ملائکہ کا سبب حضور ﷺ کی لاعلمی ہے ۔ حالانکہ یہ محض غلط ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ہم ثابت کر چکے ہیں کہ قبر انور پر جو درود پڑھا جائے اسے حضور ﷺ سنتے بھی ہیں اور اسے ملائکہ بھی حضور ﷺ کے دربار میں پہنچاتے ہیں اگر فرشتوں کا پہنچانا لاعلمی کی وجہ سے ہوتا تو مزار مبارک پر جس درود کو حضور ﷺ خود سن رہے ہیں اس کے ابلاغ کی کیا ضرورت تھی؟
فرشتوں کے درود پہنچانے کی حکمت
درود کے الفاظ درحقیقت ایک تحفہ اور ہدیہ ہیں ۔ تحفہ اور ہدیہ کے معنی کی تکمیل (مہدی لہ) کے محض سننے اور جاننے سے نہیں ہوتی بلکہ انہیں الفاظ کی پیش کش سے ہوتی ہے ۔ جو درود شریف کیلئے استعمال کئے گئے ہیں۔
معلوم ہواکہ فرشتوں کے درود پہنچانے کو مہدی لہ کے جاننے یا نہ جاننے سے کوئی تعلق نہیں یہ پہنچانا تو صرف اس لئے ہے کہ ہدیہ اور تحفہ کے معنی متحقق ہوجائیں اور بس ۔ ہم اپنے اس بیان کی تائید کیلئے فیض الباری کی ایک عبار ت ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔
واعلم ان حدیث عرض الصلٰوۃ علی النبی ﷺ لا یقوم دلیلاً علی نفی علم الغیب وان کانت المسئلۃ فیہ ان نسبۃ علمہ ﷺ وعلمہ تعالٰی کنسبۃ المتناہی بغیر المتناہی لان المقصود بعرض الملٰئکۃ ھو تلک الکلمات بعینھا فی حضرۃ العالیۃ علمہا من قبل اولم یعلم کعرضہا عند رب الـعزۃ ورفع الاعمال الیہ فان تلک الکلمات ممایحیا بہ وجہ الرحمٰن فلا ینفی العرض العلم فالعرض قد یکون للعلم واخری لمعان آخر فاعرف الفرق (انتہٰی)(فیض الباری جز ۲ ص ۳۰۲)
جاننا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ پر درود پیش کرنے کی حدیث علم غیب کی نفی پر دلیل نہیں بن سکتی۔ اگرچہ علم غیب کے بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے علم کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ایسی ہے جیسے غیر متناہی کے ساتھ متناہی کی نسبت۔ یہ دلیل نہ ہونا اس لئے ہے کہ فرشتوں کے پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ درود شریف کے کلمات بعینھا بارگاہِ عالیہ نبویہ میں پہنچ جائیں۔ حضور ﷺ نے ان کلمات کو پہلے جانا ہو یا نہ جانا ہو بارگاہِ رسالت میں کلمات درود کی پیشکش بالکل ایسی ہے جیسے رب العزت کی بارگاہ میں یہ کلمات طیبات پیش کئے جاتے ہیں اور اس کی بارگاہِ الوہیت میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کلمات ان چیزوں میں سے ہیں جن کے ساتھ ذاتِ رحمن جل مجدہ کو تحفہ پیش کیا جاتا ہے اس لئے یہ پیش کرنا علم کے منافی نہیں۔ لہٰذاکسی چیز کا پیش کرنا کبھی علم کیلئے بھی ہوتا ہے اور بسا اوقات دوسرے معانی کیلئے بھی اس فرق کو خوب پہچان لیا جائے۔ انتہیٰ (فیض الباری)
سماع کا تعلق صرف آواز سے ہے اور فرشتوں کی پیشکش صلوٰۃ وسلام کے کلمات بعینھا سے متعلق ہے ۔ رہا یہ امر کہ وہ کلمات بعینھا فرشتے کیونکر پیش کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ صلوٰۃ وسلام کے بعینھا اصل کلمات کا پیش کئے جانے کے قابل ہوجانا امر محال نہیں لہٰذا تحت قدرت داخل ہوگا۔ وَاﷲُ عَلٰی مَا یَشَا ئُ قَدِیْرٌ
فیض الباری کی منقولہ بالا عبارت سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ بارگاہِ رسالت میں فرشتوں کا درود شریف پیش کرنا حضور ﷺ کی لاعلمی پر مبنی نہیں۔ بلکہ کلمات درود بعینہا کو بطور تحفہ و ہدیہ پیش کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ سننے اور جاننے کو اس پیشکش سے کوئی تعلق نہیں۔
اس لئے قبر انور پر جو درود پڑھا جائے حضور ﷺ اسے سنتے بھی ہیں اور فرشتہ بھی اسے پیش کرتا ہے ۔ علی ہذا دور سے جو لوگ درود شریف پڑھتے ہیں اسے فرشتے بھی پیش کرتے ہیں اور سمع خارق للعادۃ سے حضور ﷺ استماع بھی فرماتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ’’سمعتہ اور ابلغتہ‘‘ کے مابین تقابل پر زور دے کر جس سماع کی نفی کی جاتی ہے، وہ مطلق سماع نہیں بلکہ سماع مقید (بقید التفات خصوصی) ہے۔ جس کے نظائر قرآن و حدیث میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا
ترجمہ: (ان کفار جن و انس) کی آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں۔ (س: اعراف آیت ۱۷۹)
یہاں مطلق سمع و بصر کی نفی مراد نہیں۔ بلکہ سمع مخصوص اور بصر خصوصی کی نفی مراد ہے۔ نیز اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، وَلاَ یَنظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
’’ اور نہ دیکھے گا اﷲ تعالیٰ ان کی طرف قیامت کے دن‘‘ (س: آل عمران آیت ۷۷)
یہاں بھی مطلقاً دیکھنے کی نفی نہیں بلکہ ایک خاص قسم کے دیکھنے کی نفی فرمائی گئی ہے جو نظر رحمت کے ساتھ دیکھنا ہے۔
حدیث شفاعت میں وارد ہے
’’ قُلْ تُسْمَعْ‘‘ آ پ کہیئے سنے جائیں گے۔ (بخاری شریف)
یہاں بھی مطلق سمع مراد نہیں بلکہ سماع خاص مراد ہے ایسے ہی ’’سمعتہ‘‘ سے سماع خصوصی یعنی توجہ اور التفات خاص کے ساتھ سننا مراد ہے اور گر بر بنائے تقابل ابلغتہ کو نفی سماع پر محمول کیا جائے تو نفی اسی کی ہوگی۔ جس کا سمعتہ سے ثبوت ہوا تھا اور ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ثبوت سماع خصوصی کا ہے لہٰذا نفی بھی اسی سماع خاص کی ہوگی۔
ایک شبہ
اگر ابلاغ ملائکہ کے باعث سماع خاص کی نفی مراد لی جائے تو جو درود قبر انور پر پڑھا جاتا ہے اس کو بھی ملائکہ پہنچاتے ہیں۔ ایسی صورت میں قبر انور پر پڑھے جانے والے درود کا بھی سماع خصوصی کے ساتھ سننا منفی قرار پائے گا۔
جواب
ہم نے جس ابلاغ کو سماع خصوصی کا مقابل مانا ہے وہ ’’من صلی علی نائیا‘‘ کی شرط سے مشروط ہے ۔ مطلق ابلاغ ہمارے نزدیک سماع خصوصی کے منافی نہیں۔ پھر نَائِیاًسے بھی محض ظاہری دوری والے مراد نہیں۔ بلکہ وہ تمام افراد مراد ہیں جو قرب ظاہری و معنوی کی خصوصیت سے محروم ہوں جیسا کہ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ کے عموم میں وہ تمام اشخاص شامل ہیں جو عندیت ظاہری یا باطنی کی خصوصیت کے حامل ہوں۔
یہ تمام گفتگو اس تقدیر پر ہے کہ اس حدیث کو صحیح مان لیا جائے اور اگر صحیح نہ ہوجیسا کہ ان شاء اﷲ آگے چل کر معلوم ہوگا تو نفی سماع کی بنیاد ہی باقی نہیں رہتی۔
سردست اس پر مضمون کی تکمیل کیلئے ہم ایک اور حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کو مؤخر رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پر مولوی اشرف علی صاحب تھانوی نے کچھ کلام کیا ہے مناسبت مقام کی وجہ سے ہم بھی ان کے کلام پر کلام کریں گے اور اسی ضمن میں حدیث زیرِ نظر
’’مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَقَبْریْ سَمِعْتُہٗ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا اُبْلِغْتُہٗ‘‘
کی صحت و سقم پر بھی مکمل بحث آجائے گی۔ اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اس پوری بحث کو آخر میں رکھا جائے۔
جلاء الافہام کی حدیث
وہ حدیث جلا ء الافہام مصنفہ ابن قیم جوزی سے مع سند نقل کرتا ہوں
۱۰۸ قال الطبرانی حدثنا یحییٰ بن ایوّب العلاف حدثنا سعید بن ابی مریم عن خالد بن زید عن سعید بن ابی ھلال عن ابی الدرداء قال قال رسول اﷲ ﷺ اکثر وا الصلٰوۃ علی یوم الجمعۃ فانہ یوم مشہود تشہدہ الملا ئکۃ لیس من عبدٍ یصلی علی الا بلغنی صوتہ حیث کان قلنا وبعد وفاتک قال وبعد وفاتی ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ذکرہ الحافظ المنذری فی الترغیب وقال رواہ ابن ماجہ (۱) باسناد جید ( جلاء الافہام ص ۶۳۔ ۷۴)
طبرانی نے بسند مذکور کہا حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو۔ اس لئے کہ وہ یوم مشہود ہے اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ کوئی بندہ (کسی جگہ سے)مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے ۔ وہ جہاں بھی ہو حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ ہم (صحابہ) نے عرض کیا حضور! آپ کی وفات کے بعد بھی؟ فرمایا ہاں! میری وفات کے بعد بھی ۔ بیشک اﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ نبیوں کے جسموں کو کھائے۔
(۱) اس حدیث کو حافظ منذری نے ترغیب میں ذکر کیا اور کہا کہ ابن ماجہ نے اسے بہ سند جیّد روایت کیا۔
حدیث جلاء الافہام پر تھانوی صاحب کا کلام
یہ حدیث ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب جلا ء الافہام میں نقل کی ہے ۔ جس میں صراحۃً مذکور ہے کہ درود پڑھنے والا جہاں بھی ہو اس کی آواز رسول اللہ ﷺ کو پہنچ جاتی ہے ۔ مولوی اشرف علی تھانوی کو کسی نے یہ حدیث مع سند لکھ کر بھیجی اور سوال کیا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ ہر شخص کی آواز کو سماع فرماتے ہیں ۔ علاوہ اس کے کوئی معنی بیان فرمادیں۔ تاکہ تردد رفع ہو یا ایسا ہی عقیدہ رکھنا چاہیے۔ آنحضور کا کیا ارشاد ہے۔ (بو ادرالنوادر جلد اول ص ۲۰۵)
تھانوی صاحب نے اس کے جواب میں سند اور متن حدیث دونوں پر کلام کیا ہے سند پر کلام کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں
’’ اس سند میں ایک راوی یحییٰ بن ایوب بلانسب مذکور ہیں جو کئی راویوں کا نام ہے ۔ جن میں ایک غافقی ہیں۔ جن کے باب میں ربما اخطاء لکھا ہے ۔ یہاں احتمال ہے کہ وہ ہوں(انتہیٰ) (بوادر النوادر، ج ۱، ص ۳۰۵)
اقول: تھانوی صاحب جس سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ احتمال پیدا کررہے ہیں۔ اس سوال کو انہوں نے بوادرلنوادر کے صفحہ ۲۰۵ پر خود ارقام فرمایا ہے اور اس میں یہ عبارت موجود ہے ۔
حدثنا یحییٰ بن ایوب العلاف حدثنا سعید بن ابی مریم الخ
کتب اسماء الرجال میں یحییٰ بن ایوب العلاف اور یحییٰ بن ایوب الغافقی دونوں کو’’ علاف‘‘ اور ’’غافقی‘‘ کے الفاظ میں ممتاز کرکے الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ احتمال کہا ں سے پیدا ہوگیا؟ دیکھئے تہذیب التہذیب جلد ۱۱ صفحہ۱۸۵ پر یحییٰ بن ایوب العلاف کا تذکرہ ان الفاظ میں موجود ہے ۔
یحییٰ بن ایوب بن بادی الخولانی العلاف روی عن ابی صالح عبدالغفار بن داؤد و عمر و بن خالد الھرانی ویحییٰ بن عبداﷲ بن بکرو سعید بن ابی مریم………… قال نسائی ؛ صالح
اس عبارت میں یحییٰ بن ایوب العلاف کا نسب مذکور ہے اور ساتھ ہی ان کے شیوخ میں سعید بن ابی مریم کا نام بھی لکھا ہے ۔ جن سے انہوں نے زیرِ بحث حدیث کو روایت کیا ہے اور امام نسائی کی توثیق منقول ہے اور توثیق کے سوا کسی کی کوئی جرح منقول نہیں۔ اس کے بعد اگلے صفحہ۱۸۶ پر یحییٰ بن ایوب الغافقی کا تذکرہ ہے۔ ان کے شیوخ میں سعید بن ابی مریم مذکور نہیں۔ ان کے متعلق بعض کی توثیق اور بعض کا تخطیہ طویل عبارت میں بالتفصیل منقول ہے۔ تھانوی صاحب کا بلا دلیل نہیں بلکہ خلاف دلیل ’’علاف‘‘ کے بارے میں ’’ غافقی‘‘ کا احتمال پیدا کرنا دیانت اور انصاف کا خون نہیں تو اور کیا ہے ؟
آگے چل کر تھانوی صاحب نے فرمایا
دوسرے ایک راوی خالد بن زید ہیں یہ بھی غیر منسوب ہیں اس نام کے رواۃ میں سے ایک کی عادۃ ارسال کی ہے اور یہاں عنعنہ ہے۔ جس میں راوی کے متروک ہونے کا اور اس متروک کے غیر ثقہ ہونے کا احتمال ہے ۔ انتہیٰ(بوادرالنوادر جلد اول صفحہ ۲۰۵)
حدیث معنعن پر کلام
اقول: تھانوی صاحب کے یہ تمام احتمالا ت بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ورنہ حدیث معنعن کا مطلقاً ساقط الاعتبار ہونا لازم آئے گا۔ خالد بن زید نام کے کسی راوی میں ارسال کی عادت کا پایا جانا زیر نظر راوی کو متعین نہیں کرتا اور اگر بالفرض تعیین ہو بھی جائے تو ارسال اتصال کے منافی نہیں تاوقتیکہ معنعن (بالکسر) کا مدلس ہونا ثابت نہ ہو اور راوی و مروی عنہ کی لقاء کا امکان منتفی نہ ہوجائے۔ تدریب الراوی میں ہے۔
۱۔ فروع: احدہاالاسناد المعنعن وھو قول الراوی(فلاں عن فلاں بلفظ عن من غیر بیان التحدیث والاخبار والسماع (قیل انہ مرسل) حتی یتبین اتصالہ (والصحیح الذی علیہ العمل وقالہ الجماہیر من اصحاب الحدیث والفقہ والاصول انہ متصل) … بشرط ان لا یکون المعنعن بکسر العین مدلس بشرط امکان لقاء بعضہم بعضاای لقاء المعنعن من رویٰ عنہ بلفظ عن فحینئذ یحکم بالاتصال الا ان یتبین خلاف ذٰلک انتہیٰ (تدریب الراوی ص ۱۳۲)
یہ عبارت اس مضمون میں صریح ہے کہ عنعنہ میں اگر راوی کا مروی عنہ سے امکان لقا پایا جائے اور معنعن (ی) مدلسی نہ ہو تو وہ حدیث متصل مانی جائے گی۔ تاوقتیکہ اس کا خلاف ظاہر نہ ہو۔
اگر تھانوی صاحب میں ہمت تھی تو وہ کسی دوسرے طریق سے اس کا خلاف ثابت کرتے محض کسی ہم نام راوی کی عادت ارسال کا دعویٰ اس حدیث کے ساقط الاعتبار ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
ارسال اور تدلیس کا فرق
علاوہ ازیں یہ کہ تھانوی صاحب نے ارسال کو اتصال کے منافی قرار دیاتھا۔ مگر عبارت منقولہ بالا سے ثابت ہوگیا کہ تدلیس اتصال کے منافی ہوسکتی ہے ۔ محض ارسال کو اس کے منافی قرار دینا غلط ہے۔
ممکن ہے تھانوی صاحب ارسال ہی کو تدلیس سمجھتے ہوں۔ تو واضح رہے کہ تدلیس وارسال ایک نہیں۔ ملاحظہ فرمایئے ۔ تدریب الراوی صفحہ ۱۴۰۔
(تدلیس الاسناد بان یروی عمن عاصرہ) زاد ابن صلاح اولقیہ (مالم یسمعہ) بل سمعہ من رجل عنہ (موھما سماعہ) حیث اورد بلفظ یوھم الاتصال ولا تقتضیہ اور ارسال کے معنی ہیں ان الارسال روایتہ عمن لم یسمع منہ صفحہ ۱۴۰
معلوم ہوا تدلیس اور ارسال دونوں الگ الگ ہیں ۔ عنعنہ میں تدلیس مضر ہے ارسال مضر نہیں۔ لہٰذاتھانوی صاحب کے وہ تمام احتمالات جو بلادلیل محض ان کے ظن فاسد کی بناء پر پیدا ہوئے تھے لغواور بے بنیاد ہو کر رہ گئے۔
اس کے بعد تھانوی صاحب نے فرمایا ’’ تیسرے ایک راوی سعید بن ابی ہلال ہیں جن کو ابن حزم نے ضعیف اور امام احمد نے مختلط کہا۔ وھذاکلہ من التقریب۔ پھر کئی جگہ اس میں عنعنہ ہے جس کے حکم بالا تصال کے لئے ثبوت تلاقی کی حاجت ہے ‘‘ انتہیٰ (بوادر النوادر ص ۱۰۵، جلد اول)
اقول: عنعنہ کے مسئلہ میں تھانوی صاحب کا یہ کلام ہی غلط ہے کیوںکہ حدیث معنعن کے حکم بالا تصال کیلئے ثبوت تلاقی ضروری نہیں صرف امکان تلاقی کافی ہے جیسا کہ تدریب الراوی سے نقل کر چکا ہوں۔ (وبشرط امکان لقاء بعضہم بعضا) تدریب الراوی صفحہ ۱۳۲
تیسرے راوی سعید بن ابی ہلال جن کی تضعیف تھانوی صاحب نے ابن حزم سے نقل کی ہے تو مجھے حیرت ہے کہ تھانوی صاحب نے تضعیف تو دیکھ لی ۔ مگر توثیق انہیں نظر نہ آئی۔ ذرا میزان الاعتدال اٹھا کر دیکھئے۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں۔
(سعید بن ابی ھلال) ثقۃ معروف فی الکتب الستۃ یروی عن نافع و نعیم المجمر وعنہ سعید المقبری احد شیوخہ قال ابن حزم وحدہ لیس بالقوی (میزان الاعتدال جلد اول صفحہ ۳۹۳)
ناظرین کرام غور فرمائیں جو راوی کتب ستہ (بخاری‘ مسلم ‘ ترمذی‘ ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ) میں معروف اور ثقہ ہو اور اس کے بعض شیوخ بھی اس سے روایت کرتے ہوں اسے ابن حزم کے قول کی آڑ لے کر متروک قرار دے دینا تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟
اگر ابن حزم کا قول تھانوی صاحب کے نزدیک ایسا ہی معتبر ہے تو انہیں جامع ترمذی سے بھی ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ کیونکہ ابن حزم نے ترمذی کو مجہول کہا ہے۔
(کما ذکر فی ماتمس الیہ الحاجۃ صفحہ ۲۵ عن التعلیق الممجد ناقلا عن الذہبی)
آخرمیں اتنی بات عرض کروں گا کہ حدیث زیر بحث کے متعلق حافظ منذری کا یہ قول کہ رواہ ابن ماجہ بسند جید تھانوی صاحب کے تمام احتمالات واہیہ کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس بحث میں ان کی پوری درد سری کو مہمل اور بیکار بنا کر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ تھانوی صاحب کے کسی احتمال میں ذرا بھی جان ہوتی یا ان کی تضعیف منقول میں کچھ بھی قوت پائی جاتی تو ایک عظیم و جلیل محدث اس کے بارے میں بسند جید کے الفاظ نہ بولتا۔ شاید کوئی کہے کہ وہ کوئی اور سند ہو گی۔ تو میں عرض کروں گا کہ سند جید سے کسی اور سند کا مراد ہونا ہمارے لئے مزید تقویت کا موجب ہے ۔ کیونکہ تعدد طرق زیادتی قوت کا موجب ہے ۔ بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ سند بھی سند جید ہو۔
ناظرین کرام نے تھانوی صاحب کی تحقیق کو ہمارے کلام سے ملا کر اندازہ کرلیا ہوگا کہ ان کی تحقیق کہاں تک تحقیق کہلائے جانے کی مستحق ہے؟
آگے چل کر تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں۔’’ یہ تو مختصر کلام ہے سند میں، باقی رہا متن‘‘ سواولاً معارض ہے دوسری احادیث صحیحہ کے ساتھ چنانچہ مشکوٰۃ میں نسائی اور دارمی سے بروایت ابن مسعود یہ حدیث ہے۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ ان للّٰہ ملٰئکۃ سیا حین فی الارض یبلغون من امتی السلام
او ر یہی حدیث حصن حصین میں بحوالہ مستدرک حاکم و ابن حبان بھی مذکور ہے اور نیز مشکوٰۃ میں بیہقی سے بروایت ابوہریرہ حدیث ہے۔
قال رسول اللّٰہ ﷺ من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ
اور نسائی کی کتاب الجمعہ میں بروایت اوس ابن اوس یہ حدیث مرفوع ہے
’’فان صلٰو تکم معروضۃ علی‘‘ یہ سب حدیثیں صریح ہیں عدم السماع عن بعید میں اور ظاہر ہے کہ جلا ء الافہام ان کتب کے برابرقوۃ میں نہیں ہوسکتی لہٰذا اقویٰ کو ترجیح ہو گی۔ (بوا درالنوادر جلد اول صفحہ ۲۰۵)
اقول: سند میں جو کلام فرما یا تھا اس کی حقیقت واضح ہوچکی اب متن میں جو کچھ ارشاد فرما یا ہے اس کا حال بھی ناظرین پر کھل جائے گا۔
دور سے سننے کی بحث
تھانوی صاحب کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جلاء الافہام کی حدیث بلغنی صوتہ حیث کان ان تینوں صحیح حدیثوں کے معارض ہے جو تھانوی صاحب نے نقل فرمائی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جلاء الافہام کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ ہر ایک درود پڑھنے والے کے درود کی آواز سن لیتے ہیں۔
اور ان تینوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ درود جو دور سے پڑھا جائے اسے حضور کے سامنے فرشتے پیش کرتے ہیں ۔ فرشتوں کا عرض و ابلاغ عدم سماع میں صریح ہے اور سماع عدم سماع کے معارض ہے لہٰذا جلاء الافہام کی حدیث ان تینوں صحیح حدیثوں کے معارض قرار پائی یہ تینوں حدیثیں جن کتابوں میں پائی جاتی ہیں چونکہ جلاء الافہام ان کے برابر قوت میں نہیں لہٰذا ان ہی تینوں حدیثوں کو ترجیح ہو گی جو اقویٰ ہیں اور جلاء الافہام کی حدیث ساقط الاعتبار ہو گی۔ میں عرض کر وں گا کہ نسائی اور دارمی کی حدیث بروایت ابن مسعود ’’ان للّٰہ ملئکۃ سیا حین فی الارض یبلغون من امتی السلام‘‘ اور اسی طرح نسائی کی دوسری حدیث بروایت اوس بن اوس ’’فان صلٰوتکم معروضۃ علی‘‘ میں صرف اتنا مذکورہے کہ ملائکۃ سیاحین فی الارض‘‘حضور ﷺ کی خدمت میں امت کا سلام پہنچاتے ہیں اور امت کا درودبارگاہ رسالت میں پیش ہو تا ہے ملائکہ کے اس عرض و تبلیغ کو تھانوی صاحب کا عدم سماع میں صریح قرار دینا یقینا ظلم صریح ہے کیونکہ سابقاً نہایت تفصیل کے ساتھ ہم یہ بیان کر چکے ہیں۔ کہ عرض و تبلیغ کا علم اور لاعلمی ’’سماع ‘‘ یا عدم سما ع سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ فیض الباری کی عبارت ناظرین کے سامنے آچکی ہے ۔جس میں صاف مو جو د ہے کہ عرض صلوٰۃ علم کے منافی نہیں۔
ایک فرشتہ ساری مخلوق کی آوازیں سنتا ہے
پھر جذب القلوب اور جلاء الافہام سے ایک حدیث ہدیہ ناظرین ہو چکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’من صلی علی عند قبری وکل اللّٰہ بہ ملکا یبلغنی‘‘ جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری قبر انور پر ایک فرشتہ مقر ر کیا ہو ا ہو تا ہے جو اس کا درود مجھے پہنچا دیتا ہے۔ اگر تبلیغ ملائکہ عدم سمع میں صریح ہو تو اس حدیث سے لازم آئے گا کہ جو درود قبر انور پر پڑھا جاتا ہے۔ حضور ﷺ اسے بھی نہیں سنتے جو با لا تفاق باطل ہے۔ جب یہ فرشتوں کا پہنچا نا عدم سما ع کے معنی میں نہ ہو ا تو تعارض باقی نہ رہا۔ عدم تعارض کی صورت میں ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ رہی حدیث بیہقی بروایت ابو ہریرہ جسے تھانوی صاحب نے مشکوٰۃ شریف سے نقل فرمایا ہے تو درحقیقت اس مسئلہ میں تھانوی صاحب کے استدلال کی جان یہی ایک حدیث ہے۔
تھانوی صاحب کی پیش کر دہ حدیث پر کلام
جس طرح تھانوی صاحب نے ہماری پیش کر دہ حدیث کی سند پر اور متن پر کلام کیا ہے۔ ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ تھانوی صاحب کے دعویٰ کی بنیا دی حدیث کے متن و اسناد پر ہم بھی کلام کریں۔ متن حدیث پر ہمارا کلام گذشتہ صفحات پر ناظرین کرام نے ملاحظہ فر ما لیا ہو گا۔ اب اس کی اسناد پر کلام کر تے ہیں۔
تھانوی صاحب نے بیہقی کی اس حدیث کو بروایت ابو ہریرہ مشکوٰۃ سے نقل کیا ہے۔ جس میں سند مذکور نہیں ہے۔ ہم اس حدیث کو خود امام بیہقی کی تصنیف رسالہ ’’حیاۃ الانبیاء ‘‘ سے مع سند نقل کرتے ہیں۔ اور امام بیہقی نے نیز ان کے رسالہ ’’حیاۃ الانبیاء ‘‘ کے شارح نے اس کی سند پر جوکلا م کیا ہے ۔ اسے بھی بلفظہٖ نقل کر تے ہیں۔
اخبرنا علی بن محمد بن بشر ان انباء ابو جعفر الرازی ثنا عیسیٰ بن عبداللّٰہ الطیالسی ثنا العلاء بن عمر و الحنفی ثنا ابو عبد الرحمٰن عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ عَن النَّبی ﷺ قَالَ مَن صَلّٰی عَلی عِندَ قَبرِی سمِعتُہ وَمَن صَلی علی نَائیا اُبلغِتُہ۔ ابو عبدالرحمٰن ھذا ھو محمد بن مروان السدی فیما اریٰ و فیہ نظر (رسالہ حیات الانبیاء للبیھقی صفحہ ۱۲)
حدیث حضرت ابو ہریرہ پر اما م بیہقی کی جرح
دیکھئے امام بیہقی نے اس حدیث کے راوی ابو عبدالرحمن کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ میرے نزدیک ابو عبدالرحمن ہی محمد بن مروان سدی ہے اور اس میں نظر ہے وفیہ نظر الفاظ جرح میںسے ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال جلد اول صفحہ ۳ (طبع مصر)
حدیث ابوہریرہ پر شارح حیات الانبیاء کی جرح
اس حدیث کے تحت محمد بن محمد انحانجی البوسنوی شارح حیات الانبیاء فرماتے ہیں
حدیث ابی ہریرۃ ہٰذا نسبہ السیـوطی فی الخصائص الکبریٰ الی الاصبہانی فی الترغیب والترہیب ونسبہ فی الجامع الصغیرالی البہیقی ومحمد بن مروان السدی الصغیر ضعیف اتہم بالکذب وقد ذکر الحافظ الذہبی ہذا الحدیث فی میزان الاعتدال فی ترجمۃالسدی المذکور (حیاۃ الانبیاء للبیھقی مع شرح صفحہ ۱۴)
ترجمہ: ابوہریرہ کی اس حدیث کو سیوطی نے خصائص کبریٰ میں اصبہانی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’ الترغیب والترہیب‘‘ میں اس کی روایت کی ہے اور جامع صغیر میں بیہقی کی طرف منسوب کیا ہے اور ابو عبدالرحمن محمد بن مروان السدی الصغیر ضعیف ہے ۔ متہم بالکذب ہے اور حافظ ذہبی نے اس حدیث (ابوہریرہ) کو میزان الاعتدال میں اسی سدی مذکور کے ترجمہ میں ذکر کیا ہے ۔
ناظرین کرام غور فرمائیں ۔ تھانوی صاحب کے دعوے کی سب سے بڑی دلیل حدیث ابوہریرہ تھی۔ جس کی سند کا یہ حال ہے کہ اس کے راوی ابو عبدالرحمن محمد بن مروان السدی الصغیر پر خود امام بیہقی نے وفیہ نظر کہہ کر جرح کی پھر ان کے رسالہ حیات الانبیاء کے شارح نے اسے ضعیف اور متہم بالکذب کہا اور امام ذہبی کے حوالہ سے یہ بتایا کہ انہوں نے میزان الاعتدال میں اسی کے تذکرہ میں تھانوی صاحب کی پیش کردہ حدیث کو ذکر کیا ہے ۔
حدیث ابوہریرہ پر امام ذہبی کی جرح
اب میزان الاعتدال اصل کتاب کو ملاحظہ فرمایئے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں۔ (محمد بن مروان) السدی الکوفی وھوالسدی الصغیر عن ہشام بن عـروۃ و الاعـمـش تـرکـوہ واتہمہ بعضہم بالکذب وھو صاحب الکلبی قال البخاری سکتو اعنہ وھو مولی الخطابیین لا یکتب حدیثہ البتۃ وقال ابن معین لیس بثقۃ وقال احمد ادرکتہ وقد کبر فترکتہ قال العلاء بن عمرو الحنفی حدثنامحمد بن مروان عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ہریرۃ مرفو عامن صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ انتہٰی (میزان الاعتدال جلد ثالث صفحہ ۱۳۲ طبع مصر)
محمد بن مروان السدی کوفی ہے اور وہ سدی صغیر ہے وہ ہشام بن عروہ اور اعمش سے روایت کرتا ہے ۔ محدثین نے اسے ترک کردیا ہے اور بعض نے اسے متہم بالکذب کہا اور وہ صاحب کلبی ہے ۔ بخاری نے کہا۔ سکتواعنہ اور وہ مولائے خطابئین ہے اس کی حدیث یقینا نہیں لکھی جاتی اور ابن معین نے کہا وہ ثقہ نہیں ہے۔ امام احمد نے کہا میں نے اسے پایا وہ بوڑھا ہوگیا تھا میں نے اسے ترک کر دیا۔ علاء بن عمرو الحنفی نے کہاہم سے محمد بن مروان نے حدیث بیان کی۔ اس نے اعمش سے روایت کی اعمش نے ابو صالح سے ابو صالح نے ابوہریرہ سے مرفوعاً روایت کی کہ جس نے میری قبر کے پاس آکر مجھ پر درود پڑھا میں اسے سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے درود پڑھا وہ مجھے پہنچا دیا جاتا ہے۔ انتہیٰ‘‘ (میزان الاعتدال جلد ۳ صفحہ ۱۳۲)
میزان الاعتدال سے علامہ ذہبی کا جو بیان ہم نے نقل کیا ہے۔ اس سے یہ شبہ بھی دور ہوگیا کہ امام بیہقی نے فیما اریٰ فرمایا ہے جو تردد کا مظہر ہے میں عرض کروں گا کہ اگر فی الواقع یہ محل تردد ہوتا تو امام ذہبی اس کو ظاہر فرمادیتے لیکن انہوں نے اس کے ترجمہ میں بعینہا اسی روایت کو نقل کرکے اس شبہ کی جڑکاٹ دی اور حقیقت حال کو بے نقاب کردیا ۔
ہمارے ناظرین نے تھانوی صاحب کی جرح بھی دیکھی۔ اب ان کی پیش کردہ روایت پر ہماری جرح بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہماری پیش کر دہ حدیث کی سند میں کسی راوی کو تھانوی صاحب متہم بالکذب ثابت نہیں کر سکے مگر ان کی پیش کر دہ حدیث کی سند میں محمد بن مروان کو ہم نے متہم بالکذب ثابت کر دیا۔ اگرچہ جرح رواۃ کے باب میں صحت روایت کا معیار اپنے مسلک کی روشنی میں ہم نے یہاں بیان نہیں کیا لیکن تھانوی صاحب کے پیش کر دہ معیار پر تو یقینا محل گفتگو باقی نہیں رہا ۔ اور یہ بات صاف ہو گئی کہ تھانوی صاحب نے سمعتہ کا ابلغتہ سے تقابل کر کے ابوہریرہ کی جس حدیث کو عدم سماع میں صریح قرار دیاتھا۔ وہ حدیث صحیح نہیں اور اس کی صحت پر انہوں نے اپنے احتمالا ت اور تاویلات کی جتنی عمارت قائم کی تھی وہ سب منہدم ہو کر رہ گئی۔
اس کے بعد جناب تھانوی صاحب نے ثانیا کی بجائے ثالثاًفرما کر ’’بلغنی صو تہ‘‘کو محتمل تاویل قرار دیا ہے۔ اور صوتہ کی تاویل صلٰوتہ کے ساتھ فرمائی ہے اور اس احتمال تاویل کی دلیل ان ہی احادیث منقولہ بالا کو قرار دیا ہے۔ لیکن ناظرین کرام نے سمجھ لیا ہو گا کہ احادیث منقولہ بالا احتمال تاویل کی دلیل اس وقت تک ہو سکتی ہیں۔ جبکہ تبلیغ و عرض ملائکہ عدم سماع پر مبنی ہو حالانکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ عرض و تبلیغ لا علمی کو مستلزم نہیں۔ حضور ﷺ قبر انور کا درود سماع فرماتے ہیں اور ملائکہ کی تبلیغ بھی بارگاہ رسالت میں پیش ہو تی ہے۔ معلوم ہو ا کہ فرشتوں کا درود و سلام بارگاہ اقدس میں پہنچانا یا پیش کر نا علم و سماع کے منافی نہیں۔
جب یہ منافات ختم ہو گئی تو ان احادیث کا احتمال تاویل کے لئے دلیل قرار پانا بھی ختم ہو گیا۔ جب دلیل نہ رہی تو احتمال تاویل خود باطل ہو گیا ۔ ایسی صورت میں ’’بلغنی صوتہ کو بلغنی صلٰو تہ کے ساتھ مؤول کر نا قطعاًباطل قرار پا یا ۔
جواب لکھنے کے بعد تھانوی صاحب اس حدیث کا ایک اور جواب تحریر فرماتے ہیں بعد تحریر جواب ہذا بلا تو سط فکر قلب پروار د ہو ا کہ اصل حدیث میں صوتہ نہیں ہے بلکہ صلٰوتہ ہے کاتب کی غلطی سے لا م رہ گیا ہے۔
اقول: یہ جو اب واقعی بہترین جو اب ہے کیونکہ اس پر کسی قسم کا نقص منع یا معارضہ وارد نہیں ہو سکتا ۔ الہامات کا جواب الہام ہی سے ہو سکتا ہے۔ ہمیں اب تک اس باب میں کوئی الہا م نہیں ہوا۔ مگر تھانوی صاحب کے جواب کی داد دئیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے۔ کہ جب کسی بات کا جو اب نہ ہو سکے تو اسے کاتب کی غلطی قرار دے کر اپنے الہام کو اس کی دلیل میں پیش کر دیا جائے۔
سمع و بصر خارق للعادۃ
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لو گ نبی کریم ﷺ کے خارق للعادۃ سننے اور دیکھنے کا انکار اس قدر شدت کے ساتھ کیوں کرتے ہیں۔ جب کہ عام اولیاء کرام جو قرب نوافل کے درجہ پر فائز ہو تے ہیں ۔ ان کے لئے بخاری شریف کی حدیث میں وارد ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِیْ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُبِیْ
اور امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر میں اس حدیث کی تشریح کر تے ہوئے فرماتے ہیں
فاذا صار نور جلال اللّٰہ سمعا لہ سمع القریب والبعید واذا صار ذٰلک النور بصرا لہ رأی القریب والبعید(تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۶۸۸ طبع مصر)
اللہ کے جلال کا نو ر جب بندے کی سمع ہو جاتا ہے تو وہ قریب اور دور کی چیزوں کو سنتا ہے اور یہی نور جلال جب بندے کی بصر ہو جا تا ہے تو وہ قریب اور دور کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔
دور کی چیزوں کو دیکھنا اور سننا جب اولیاء کرام کے لئے دلیل شرعی سے ثابت ہے تو نبی کریم ﷺ جو ولایت کاملہ کی صفت سے متصف ہیں، کی ذات مقدسہ سے یہ کمال کیسے منفی ہو سکتا ہے؟
گزشتہ صفحات میں ناظرین کر ام پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی قبر انور پر ایک فرشتہ مقر ر فرمایا۔ جسے تمام مخلوقات کی آوازیں سننے کی طاقت دی گئی ہے۔ وہ سب کا درود سنتا ہے اور بارگاہ اقدس میں پہنچا تا ہے۔ تمام آوازوں کو سننے کی صفت اگر غیراللہ کیلئے محال قرار دی جائے تو آخرفرشتہ بھی تو غیراللہ ہے۔ اس کو یہ صفت کیسے عطاہوگئی اور اگر ممکن ہے تو رسول اللہ ﷺ کے حق میں اس امکان کا عقیدہ کیوں ضلالت قرار پایا حالانکہ حضور ﷺ کیلئے ایسے باطنی کا ن اور آنکھیں ثابت ہیں جو ماورائے عالم اجسام کا ادراک کرتے ہیں۔
باطنی آنکھیں اور کان
دیکھئے جب حضور ﷺ کا شق صدر مبارک ہو ا تو جبرائیل علیہ السلام نے قلب انور کو زم زم کے پانی سے دھوتے ہوئے فرمایا۔
قلب سدید فیہ عینان تبصران واذنان تسمعان (فتح الباری جلد ۱۳ص۱۰ ۴)
اس قلب اطہر میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں دوکان ہیں جو سنتے ہیں ۔
قلب اطہر کے ان کا نوں اور آنکھوں کا دیکھنا اور سننا عالم محسوسات سے وراء الوراء خرق عادت کے طو ر پر ہے ۔ جیسا کہ خود حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
انی اری مالا ترون واسمع مالا تسمعون
دائمی سمع و بصر
قلب اطہر کی سمع و بصر عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے۔ اس لئے کہ جب ظاہر ی سمع و بصر کی بینائی اور شنوائی عارضی نہیں بلکہ دائمی ہے تو قلب اطہر کی یہ صفت بطریق اولیٰ دائمی ہو گی ۔ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں
’’بدانکہ وے ﷺ مے بیندو مے شنود کلام ترازیر ا کہ وے متصف است بصفات اللہ تعالیٰ ویکے از صفات الہٰی آن است کہ ’’انا جلیس من ذکرنی‘‘ مر پیغمبر را ﷺ نصیب و ا فراست ازیں صفت (مدارج النبوۃ جلد دوم ص۸۸۷)
ترجمہ: جاننا چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا کلا م بھی سنتے ہیں۔ اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ متصف ہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس کا ہم نشین ہو ں جو مجھے یاد کرے اور آنحضرت ﷺ کو اس صفت سے پوار پورا حصہ ملا ہے۔
یہ عبارت بھی اس باب میں صریح ہے کہ نبی اکرم ﷺ دور و نزدیک کی سب آوازوں کو سنتے ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ تھانوی صاحب کے نزدیک درود شریف میں معاذ اللہ ایسی کو ن سی قباحت پائی جا تی ہے کہ حضور ﷺ سب آوازیں سنیں اور درود شریف ہی کی آواز نہ سنیں؟
اس کے بعد حضر ت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کا بیان بھی سننے اور دیکھنے کے قابل ہے ۔ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آیت کریمہ … وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاکی تفسیر میں فرماتے ہیں
’’یعنی و باشد رسول شمابر شما گواہ زیر ا کہ او مطلع است بنو رِنبوت بر رتبہ ہر متدین بدین خود کہ در کدام درجہ از دین من رسیدہ و حقیقت ایمان اوچیست و حجابیکہ بداں از ترقی محجوب ماندہ است کدام است پس او شنا سد گناہا ن شمار او درجات ایمان شمار او اعمال نیک و بد شمار ا و اخلاص و نفاق شمارا لہٰذا شہادت او در دنیا بحکم شرع در حق امت مقبول و واجب العمل است ۔ (تفسیر عزیزی جلد اول ص ۵۸۹)
اس عبارات سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو نورنبوت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ یہ علم و ادراک اور تحمل شہادت و ادائے شہادت و غیرہ تمام امور اسی پر مبنی ہیں چو نکہ نور نبوت دائمی ہے اور اس سے متعلقہ امور کی انجام دہی بھی عارضی نہیں۔ اس لئے حضور ﷺ کے اس باطنی دیکھنے اور سننے کو عارضی کہنا انتہائی نادانی ہو گا۔
جب علی الدوام و علی الاستمرا رحضور ﷺ سب کچھ دیکھ رہے رہیں او ر سب کچھ سن رہے ہیں تو قبر انور سے دور رہ کر جو شخص درود شریف پڑھے اس کے درود کانہ سننا کیا معنی رکھتا ہے۔
عقل سلیم کی روشنی میں بھی دور سے درود شریف سننے کا استحالہ قابل تسلیم نہیں ہو سکتا ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ قبر انور پر جو درود پڑھا جاتا ہے، اسے حضور ﷺ ضرور سنتے ہیں۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ قبر انور پر درود پڑھنے والے کی آواز کس ذریعہ سے حضور ﷺ کو پہنچتی ہے۔ جس طرح عادتاً دور کی آواز کا حضور ﷺ تک پہنچنا محال عادی ہے بالکل اسی طرح قبرا نور پر صلوٰۃ وسلام کا حضور ﷺ کی سمع اقدس تک پہنچ جا نا بھی یقیناً محال عادی ہے کیونکہ قبر انور میں جس مقام پر رسول اللہ ﷺ جلوہ گر ہیں وہاں نہ دنیا کی کوئی ہو ا پہنچ سکتی ہے۔ نہ عالم اسباب کے مطابق کسی آواز و غیرہ کا پہنچنا ممکن ہے ۔ اس کے باو جو د بھی حضو ر ﷺ قبر انور میں درود و سلام کی آوازیں سن لیتے ہیں تو اگر اسی طرح بعید کی آوازیں بھی سن لیں تو کون سا استحالہ لازم آتاہے؟
سمع و بصر، تصرف و ادراک دلیل حیات ہے
الغرض سمع و بصر علم و ادراک بغیر حیات کے ممکن نہیں حیات ہی ایسی صفت ہے جو ان اوصاف کے وجو د کا سبب ہے۔ اسی طرح تصرف و عمل بھی دلیل حیات ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے اعمال مثلاً نماز پڑھنا ، حج کر نا ، تلبیہ کہنا ملکو ت سموات والارض میں سیر کر نا اور تصرف فرمانا ایک ایسی حقیقت ثابتہ ہے ۔ جس کا انکار نہیں ہو سکتا۔ بخاری شریف میں وادی ارزق کا واقعہ کسی اہل علم سے مخفی نہیں۔ حیات کے بغیر یہ امور کس طرح انجام پذیر ہو سکتے ہیں۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام امور مذکورہ بالا سے متعلق احادیث و روایات کو جمع کر کے ارشاد فرمایا
فحصل من مجموع ھذہ النقول والا حادیث ان النبی ﷺ حی بجسدہ و روحہ و انہ یتصرف و یسیر حیث شاء اللّٰہ فی اقطار الارض وفی الملکوت وھو بھیئتہ التی کان علیھا قبل و فاتہ لم یتبدل منہ شیء وانہ مغیب عن الابصارکما غیبت الملائکۃ مع کو نھم احیاء باجسادھم فاذا اراد اللّٰہ رفع الحجاب عمن اراد اکر امہ برؤیتہ رآہ علی ھیئتہ التی ھو علیھا لامانع من ذلک ولا داعی الی التخصیص برؤیۃ المثال (الحاوی للفتاویٰ جلد ۲ ص۲۶۵)
ان نقول اور احادیث کے مجموعہ کا ماحصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے جسم اقدس اور روح مبارک کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ تصرف فرماتے ہیں اور اقطار زمین و عالم ملکوت میں جہاں چاہتے ہیں تشریف لے جا تے ہیں اور اپنی اسی ہیئت پر ہیں۔ جس پر وفات سے پہلے تھے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور یہ کہ حضور ﷺ ہماری آنکھوں سے اس طرح غائب کر دیئے گئے جس طرح فرشتے اپنے اجساد کے ساتھ زندہ ہونے کے باوجود ہماری آنکھوں سے غائب کر دیئے گئے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کی روئیت کے ساتھ کسی کو عزت و ا کرام عطا فرما نا چاہتا ہے تو اس سے حجاب کو اٹھا لیتا ہے اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسی ہیئت پر دیکھتا ہے جس پر حضور ہیں۔ کوئی امر اس سے مانع نہیں ہے اور رؤیت مثال کی تخصیص کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
یہاں یہ شبہ وارد نہ کیا جائے کہ اگر یہ رؤیت حضور ﷺ کی ذات مقدسہ کی واقعی رؤیت ہے تو لازم آتا ہے کہ دیکھنے والے سب صحابی ہو جائیں۔ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ جب عالم ملک سے عالم ملکوت کی طرف رحلت فرما گئے تو اب یہ رؤیت رؤیت ملکوتی ہو گی اور صحابیت کے لئے عالم ملک یعنی اس جہاں میں رؤیت معتادہ کے ساتھ دیکھنا شرط ہے۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس جواب کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے، جن میں یہ وارد ہوا کہ عالم ملکوت میں حضور ﷺ کی ساری امت حضور ﷺ کے سامنے پیش کی گئی۔ حضور ﷺ نے ساری امت کو دیکھا اور ساری امت نے حضور ﷺ کو دیکھا۔ اس کے باوجود بھی تمام امت کے لئے صحابیت ثابت نہیں ہوئی۔ صرف اس لئے کہ یہ رؤیت عالم ملکوت میں تھی جو صحابیت کا فائدہ نہیں دیتی۔ (دیکھیے الحاوی للفتاوی جلد نمبر ۲، ص ۲۶۵، ۲۶۶، طبع مصر)
حیات برزخی
بعض لو گ کہہ دیتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی حیات پر جتنی دلیلیں پیش کی جاتی ہیں۔ ان سب سے حیات برزخی ثابت ہو تی ہے۔ حیات حقیقی جسمانی کا ثبوت نہیں ہوتا۔
میں عرض کر وں گا کہ جس شخص نے حیات کے معنی کو صحیح طو ر پر سمجھ لیا۔ وہ یہ بات نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ ارواح تو پہلے ہی زندہ ہیں ۔ اب وفات کے بعد اگران کی زندگی کا صرف یہی مفہوم ہو کہ عالم برزخ میں ان کی روحیں زندہ ہیں تو اس حیات بعد الوفات کا کوئی ماحصل نہیں نکلتا جب تک کہ حیات جسمانی کا قول نہ کیا جائے ہاں اس اعتبار سے اس کو برزخی کہہ سکتے ہیں کہ وہ انبیاء کرام و مقربین عظام جنہیں حیات حقیقی عطا ہوئی ہے عالم برزخ میں رونق افروز ہیں اور برزخ ان کی ذوات قدسیہ اور حیات طیبہ کے لئے بمنزلہ ظرف مکان کے ہے۔
بعدالموت انبیاء لوازمات حیات سے خالی ہو تے ہیں؟
اگر انبیاء علیہم السلام کی زندگی حقیقی اور جسمانی ہو تو اس کے لوازمات کا پایا جانا بھی ضروری ہے ۔ قاعدہ ہے۔ اذا ثبت الشیء ثبت بجمیع لوازمہ لیکن یہ حقیقت ناقابل انکار ہے۔ کہ انبیاء علیہم السلام کے لئے جسمانی اور حقیقی زندگی کے لوازمات بالکل منتفی ہیں۔ نہ وہ جسمانی غذا کھاتے ہیں نہ ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ نہ پانی پیتے ہیں نہ ان کا جسم متحرک ہو تا ہے نہ کسی قسم کا جسمانی فعل ان سے سرزد ہو تا ہے۔ ایسی صورت میں حقیقی اور جسمانی حیات کیسے تسلیم کی جائے؟
اس اعتراض کا جوا ب
اس کا جو اب یہ ہے کہ ہم نے دعویٰ یہ کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجساد کریمہ مع ارواح طیبہ کے بلا شائبہ مجاز حقیقتاً زندہ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم انہیں عالم برزخ میں بھی تسلیم کرتے ہیں اور حیات حقیقی جسمانی کے لوازمات و مناسبات ہر عالم میں یکساں نہیں ہوا کرتے عالم کے بدل جا نے سے لو ازمات و مناسبات کی نوعیت میں بھی تبدیلی واقع ہو جا تی ہے۔
لوازمات حیات ہر عالم میں متفاوت ہو تے ہیں
دیکھئے بچہ پیدا ہو نے سے پہلے ماں کے پیٹ میں جسمانی حقیقی حیات کے ساتھ زندہ ہو تا ہے اور پیدا ہو نے کے بعد بھی وہ زندہ رہتا ہے لیکن دونوں حالتوں میں لوازمات حیات یکساں نہیں۔ با و جو دیکہ حیات ہر حال میں یکساں ہے۔ بس اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی حیات کو بھی سمجھ لیجئے کہ وہ قبل الوفات اور بعد الوفات دونوں حالتوں میں حقیقی جسمانی ہے لیکن دنیا میں اور برزخ میں لوازمات حیات یکساں نہیں ہیں عالم برزخ میں انبیاء علیہم السلام اور شہداء کرام رزق دیئے جاتے ہیں ۔ کھاتے پیتے ہیں ۔ فرحت و سرور پاتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس تمام لوازمات و مناسبات حیات حقیقی انہیں حاصل ہیں لیکن ان کی نوعیت اسی طرح بدلی ہوئی ہے۔ جس طرح پیدا ہو نے والے بچے کے لو ا زمات حیات کی نو عیت ماں کے پیٹ میں اور پیدائش کے بعد اس عالم میں بدلی ہوئی ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے لو ا زمات حیات
اس سے بھی زیادہ روشن مثال عیسیٰ علیہ السلام کا وجو د گرامی ہے کہ وہ بالاتفاق اور بالا جماع اب تک آسمانوں پر زندہ ہیں اور اسی جسمانی حقیقی حیات کے ساتھ زندہ ہیں۔ جو انہیں دنیا میں حاصل تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ آسمانوں پر ان کیلئے وہ لوازمات حیات مفقو د ہیں ۔ جو اس عالم میں حاصل تھے۔ مثلاً دنیاوی غذا کھانا ، پانی پینا دنیاوی لباس و غیرہ پہننا وغیر ذالک
جب عیسیٰ علیہ السلام کیلئے اس عالم دنیا کے لو ا زمات کے بغیر آسمانوںپر حیات حقیقی جسمانی حاصل ہے تو دیگر انبیاء علیہم السلام و شہدا کرام کو عالم برزخ میں لوازمات دنیویہ کے بغیر جسمانی حقیقی حیات کیوں حاصل نہیں ہوسکتی ۔
اصل بات یہ ہے کہ جسم کے ساتھ روح کا تعلق جو حیات جسمانی کیلئے سبب ظاہری ہے ہر عالم میں یکساں نہیں ہو تا جیسا عالم ہو گا۔ جسم کے ساتھ روح کا تعلق بھی ویسا ہی ہو گا۔ تعلق روح کی نوعیت بدلنے سے لو ازمات کی نو عیت بدل جا تی ہے لیکن سطحی نظر رکھنے والے لو گ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے اور شکو ک و شبہات میں مبتلا ہو کر حقیقت ثابتہ کا انکار کر بیٹھتے ہیں ۔
حیات انبیا ء علیہم السلام کے مسئلہ پر اجمالی نظر
انبیاء علیہم السلام کی حیات کے دلائل اور متعلقہ مسائل پر تفصیلی گفتگو ناظر ین کرام ملاحظہ فرما چکے اب اس مسئلہ کو ایک اجمالی نظر کے ضمن میں ہم اپنے ناظر ین کرام کی خدمت میں پیش کر نا چاہتے ہیں۔
ارشاد خدا وندی ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ المَوْتِ‘‘کے پیش نظر انبیاء علیہم السلام قانون موت سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا۔ ’’اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ‘‘رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ انی مقبوض بنابریں جو شخص انبیاء علیہم السلام کے حق میں موت اور قبض روح کا مطلقاً انکار کر ے، وہ نصوص قرآنیہ اور احادیث متواتر ہ کا منکر اور دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے۔
مو ت اور قبض روح کے معنی
انبیاء علیہم السلام کی موت اور قبض روح کے معنیٰ مطلقاً یقینا و ہی ہیں جو آج تک ساری امت نے سمجھے یعنی بدن اقدس سے روح مبارک کا نکل کر رفیق اعلیٰ کی طرف جا نا انبیاء علیہم السلام کی موت ہے پھر اس کے بعد ان کی حیات کے معنیٰ یہ ہیں کہ اجساد مقدسہ سے باہر نکلی ہوئی ارواح طیبہ اپنے تمام اوصاف و کمالات سابقہ کے ساتھ رفیق اعلیٰ سے دوبارہ اجسام شریفہ میں لوٹ آتی ہیں۔ لیکن باوجود اس کے ان کی حیات اور آثار حیات عادۃ ہم سے مستور رہتے ہیں اور ہماری نظروں سے وہ اس طرح غائب کر دئیے جاتے ہیں۔ جس طرح ملائکہ ہماری نظروں سے غائب کر دئیے گئے ہیں۔
پھر خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے بارے میں مزید اتنی بات کہنی پڑے گی کہ حضور ﷺ کا وصف حیات بالنسبتہ الی الممکنات بالذات ہے اور یہ وصف حضور ﷺ کے فضائل و کمالات میں سے ہے۔ لہٰذا کسی دوسرے کیلئے حیات بالذات کا وصف ثابت نہیں۔
اجمالی نظر کی تفصیلی جھلک
اس اجمالی نظر کی تفصیلی جھلک سامنے لانے سے پہلے ہم اپنے ناظرین کرام کو یاد دہانی کر انا چاہتے ہیں کہ گزشتہ صفحات میں ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ حقیقی نبوت و رسالت کا وصف نبی کے جسم و روح دونوں کے مجموعے کیلئے حاصل ہے۔ خالی جسم اور فقط روح کے لئے حقیقی نبوت و رسالت کا وصف حاصل نہیں۔ خالی جسم سے مراد وہ جسم ہے جس میں نہ روح ہو نہ حیات اگر کسی جسم سے روح نکل گئی ہو لیکن اس میں حیات حقیقی مو جو د ہو تو اس جسم کو خالی جسم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس پر بھی مجمو عہ کا حکم لگایا جائے گا۔ اس لئے کہ روح کا اصل مفاد حیات کے سوا کچھ نہیں جب حیات مو جو د ہے۔ تو گویا روح مو جو د ہے۔
اس کے ساتھ ہی اتنی بات اور بھی شامل کر لیجئے کہ مو صوف کے بغیر صفت کا وجود ایسا ہی ہے جیسے کہ عین کے بغیر معنیٰ یا جو ہر کے بغیر عرض۔
سب جانتے ہیں کہ رسالت و نبوت صفت ہے اور نبی و رسول مو صوف جب مو صوف کے بغیر صفت کی بقاء محال ہے تو نبی اور رسول کے وفات پا جا نے کے بعد اس کی نبوت و رسالت کیونکر باقی (۱) رہے گی۔ حالانکہ ہر نبی کی نبوت اس کی وفات کے بعد باقی رہتی ہے۔ بالخصوص ہمارے نبی کریم ﷺ کی نبوت تو قیامت تک باقی رہے گی کیونکہ حضو ر ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اس اشکال کا حل بعض لو گوں نے یو ں پیش کیا کہ نبوت و رسالت روح کی صفت ہے اور وفات کے بعد روح باقی ہے۔ لہٰذا نبوت و رسالت بھی باقی ہے لیکن ہم بتا چکے ہیں کہ روح نبی کی نبوت حکمی ہے حقیقی نہیں۔ اور ہمارا کلام حقیقی و صف نبوت و رسالت میں ہے۔
بعض بد مذہب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ حقیقی وصف نبوت و رسالت حضور ﷺ کی حیات نبوی تک تھا۔ وفات کے بعد حکمی رسالت باقی رہ گئی لیکن اہل حق جمہور امت مسلمہ کا مذہب مہذب یہی ہے کہ بعد الوفات بھی نبی کی حقیقی نبوت و رسالت باقی رہتی ہے۔
اس قول پر مذکورہ بالا اشکال بہت قوی ہوجا تاہے ۔
اس قو ل کے قائلین کے ایک گروہ نے موت اور قبض روح کے معنیٰ میں تصرف کیا اور یہ کہا کہ نبی کی موت کے وقت اس کی روح قبض ہو کر بدن سے باہر نہیں نکلتی بلکہ اسے سمیٹ کر نبی کے قلب مبارک میں محفوظ و مستور کر دیا جا تا ہے۔ پھر بعد از دفن اسے تمام جسم میں پھیلایا دیا جا تا ہے ۔ اور اس طرح نبی جسم اور روح کا مجموعہ ہی رہتا ہے ۔ اس کی حقیقی نبوت و رسالت بھی باقی رہتی ہے اور وہ بعد الوفات اپنی قبر میں زندہ بھی رہتا ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی موت کے یہ معنیٰ بیان کر نا کہ ان کی روحیں ان کے ابدان شریفہ سے با ہر نہیں نکالی جا تیں بلکہ انہیں سمیٹ کر اور قبض کر کے ان کے قلوب مبارکہ کے اندر ہی محفوظ کر دیا جا تا ہے ۔ قطعاً غلط اور باطل محض ہے۔
مو ت اور قبض روح کے الفاظ قرآن و حدیث میں وارد ہیں۔ الفاظ قرآن وحدیث کے ایسے معنیٰ بیان کرنا جو نہ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہوں نہ صحابہ کرام سے نہ امت مسلمہ میں سے کسی نے وہ معنیٰ بیان کئے ہو ں ایسے معنیٰ الفاظ قرآن و حدیث کے بیان کر نا بہت بڑی جرأت اور دین میں فتنہ عظیم کا دروازہ کھولنا ہے درحقیقت اسی کا نام بدعت سیئہ ہے ۔ جس کے متعلق ارشاد ہو ا
کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ
آب حیات میں یہی مسلک اختیار کیا گیا ہے اور روشن چراغ پر ہانڈی رکھنے کی مثال دی گئی ہے۔ (دیکھئے آب حیات ص۱۶۰)
ہمارا مسلک
ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر نبی کی روح مبارک عندالوفات جسم شریف سے قبض ہو کر باہر نکلتی ہے اور رفیق اعلیٰ کی طرف جا تی ہے۔ جیسا کہ صحیحین و دیگر کتب حدیث میں وارد ہے کہ وفات شریف کے وقت رسول اللہ ﷺ کا آخری کلا م ’’اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی‘‘تھا ۔ چنا نچہ علماء محدثین نے اسی حدیث کو ارواح انبیاء علیہم السلام کے اعلیٰ علیین کی طرف صعود کر نے کی دلیل ٹھہرایا ہے۔
شکال کاحل
رہا اشکال مذکور تو اس کا جواب ہماری طر ف سے یہ ہے کہ ہم قبض روح اقدس کا اعتقاد رکھنے کے باو جو د یہ سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺ کا جسم اقدس کسی وقت ایک آن کیلئے بھی حیات حقیقی سے خالی نہیں ہو ا حتیٰ کہ جب روح اقدس قبض ہو رہی تھی اس وقت بھی جسم اقدس میں حیاتِ حقیقی موجود تھی۔ روحِ اقدس قبض ہو نے کے بعد بھی بدن مبارک متصف بحیات حقیقی تھا اور ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ جسم اقدس میں حیات کا رہنا حقیقی نبوت و رسالت کیلئے کافی ہے رہا یہ امر کہ قبض روح کے وقت بھی حضو ر ﷺ کا جسم مبارک حیات سے خالی نہیں ہے یہ مستلزم ہے بیک و قت موت اورحیات کے اجتماع کو جو صراحۃً باطل ہے۔
تو اس کا جواب پچھلے صفحات میں نہایت تفصیل سے گزر چکا ہے کہ جسم سے روح کا نکلنا مو ت عاد ی ہے اور جسم میں ایسی صفت کا پا یاجا نا جو سمع و بصر ادراک و احساس کیلئے مصححہ ہو حیات حقیقی ہے اور یہ ممکن بلکہ واقع ہے کہ روح کے بغیر حیات پائی جائے کیونکہ روح اور حیات کے درمیان ملازمت عادیہ ہے عقلیہ نہیں لہٰذا ممکن ہے کہ قبض روح کے باوجود خرق عادت کے طو ر پر جسم میں احسا س و ادراک پایا جائے اس کے نظائر و شواہد ہم تفصیل کے ساتھ پیش کر چکے ہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ کے متعلق مدارج النبوۃ جلد دوم ص ۵۶۸ سے ایک روایت ہدیہ ناظرین کر چکے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب قبر انور میں رونق افروز ہوئے تو حضور ﷺ اپنے لب ہائے اقدس کو متحرک فرما کر رب امتی امتی فرما رہے تھے ۔
شق صدر
علاوہ ازیں شق صد ر مبارک کا واقعہ حضور ﷺ کی حیات طیبہ اور ہمارے اس دعویٰ کی روشن دلیل ہے ۔ سب جا نتے ہیں کہ روح حیات کا مستقر قلب ہو تا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے دل کی حرکت بند ہو جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے لیکن کو ن نہیں جانتا کہ رسول اللہ ﷺ کے سینہ مقدس کو فی الواقع چا ک کیا گیا اور قلب اطہر کو جسم مبارک سے باہر نکا لا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلا معاونت آلات و اسباب عادیہ اسے شگاف بھی دیا گیا لیکن اس کے باوجود بھی حضور ﷺ جسمانی حقیقی حیات کے ساتھ زندہ رہے کیونکہ شق صدر کے واقعہ کو آج تک کسی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں موت قرار نہیں دیا۔
حیات بعدالممات کی دلیل
شق صدرکے اس واقعہ میں حضور ﷺ کی حیات بعد الممات پر دلیل قائم کی گئی اور یہ دکھایا گیا کہ جس طرح قلب اقدس جسم مبارک سے باہر ہے ۔ مگر اس کے باوجود بھی جسم شریف زندہ ہے اسی طرح عندالوفات جب روح مبارک قبض ہو کر جسم اقدس کے باہر ہو گی تو اس وقت بھی جسم شریف اسی طرح زندہ ہو گا جیسا کہ اب زندہ ہے اس واقعہ سے متعلق دیگر مسائل کو ہم اپنے دوسرے مضامین میں بالتفصیل بیان کر چکے ہیں۔
اسباب عادیہ کا حیات عادی سے تعلق
اہل علم سے مخفی نہیں کہ اسباب عادیہ سے حیات عادی کا تعلق محض امر عادی ہے عقلی نہیں جس کا خلاف ممکن ہو ۔ اس لئے ہمارا یہ مسلک ان تمام شکوک و شبہات سے بے غبار ہے جو محض عادت کے پیش نظر پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمارے بیان سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ یہ سب امور خرق عادت سے متعلق ہیں جن پر کتاب و سنت سے شہادتیں پیش کی جا چکی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ قبض روح کے بعد عالم بدل جانے کی وجہ سے جسم کے ساتھ روح کے تعلقات اور لوازم حیات میں جو تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ ا س کا لازمی نتیجہ حیات انبیاء علیہم السلام کا استتار ہے بعد الوفات اگر کسی نبی کے جسم مبارک کا مشاہدہ کسی خوش نصیب کو نصیب ہو تو اسے عادتاً حیات کا کوئی اثر محسوس نہ ہو گا اور وہ اس کو بظاہر جسم بے جان کی طرح پائے گا لیکن حقیقت اس کے خلاف ہو گی۔ جیسا کہ ایک سونے والا خواب کی حالت میں کسی پر فضا مقام کی سیر و تفریح میں مشغول ہو اور طرح طرح کی نعمتوں اور لذتوں سے محظوظ ہو رہا ہو اگر ہم اسی حال میں اسے سو تا ہو ا دیکھیں تو اس کی ان تمام کیفیات کے باوجود ہمیں کچھ محسوس نہیں ہو گا۔ اس کا چلنا پھرنا، کھانا پینا، نعمتوں لذتوں سے محظوظ ہو نا ہمیں قطعاً معلوم نہ ہو سکے گا اور اس سوتے ہوئے جسم کو دیکھ کر ہم بظاہر یہی سمجھیں گے کہ یہ جس طرح ہمیں نظر آرہا ہے فی الواقع اسی طرح بے ہو ش پڑاہو ا ہے لیکن سونے والے کا حال ہمارے خیال کی تکذیب کر تا ہے بالکل اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی حیات واقعی ہمارے اس گمان کو جھٹلاتی ہے۔
مختصر یہ کہ جس طرح سوتے میں خواب دیکھنے والا عالم خواب کی لذتوں اور نعمتوں سے مستفیض ہو کر ہمارے سامنے مستور الحال ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام بعد الوفات مستور الحیات ہو تے ہیں۔ ’’الا من اکرمہ اللّٰہ برؤیتہم فی حال حیاتہم وما ذالک علی اللّٰہ بعزیز‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سوا
کوئی متصف بحیات بالذات نہیں
اسی ضمن میں یہ بھی عرض کر دوں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات مقدسہ چونکہ اصل کائنات ہے اس لئے بالنسبتہ الی الخلق حضو ر ﷺ متصف بحیات بالذات قرار پائیں گے۔ حضو ر ﷺکے مقابلہ میں کسی دوسرے کو متصف بحیات بالذات قرار دینا اور اس کے حق میں امتناع انفکاک حیات کا قول کر نا بارگاہ رسالت میں انتہائی جرأت کے ساتھ سوء ادبی ہے بالخصوص دجال لعین کے حق میں یہ کہنا کہ جیسے رسول اکرم ﷺ بوجہ منشائیت ارواح مومنین جس کی تحقیق سے ہم فارغ ہو چکے ہیں متصف بالذات ہوئے ایسے ہی دجال بوجہ منشائیت ارواح کفار جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ متصف بحیات بالذات ہو گا اور اس وجہ سے اس کی حیات قابل انفکاک نہ ہو گی۔ اور موت و نو م میں استتار ہو گا انقطاع نہ ہو گا اور شاید یہی وجہ معلوم ہو تی ہے کہ ابن صیاد جس کے دجال ہو نے کا صحابہ کرام کو ایسا یقین تھا کہ قسم کھا بیٹھے تھے اپنے نوم کا وہی حال بیا ن کر تا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے اپنی نسبت ارشاد فرمایا یعنی بشہادت احادیث وہ بھی یہی کہتا تھا کہ
تنام عینای ولا ینام قلبی (آب حیات ص ۱۶۹)
بارگاہ رسالت میں سو ء ادبی کا انتہائی خوف ناک مظاہرہ ہے اس قائل نے اتنا نہیں سوچا کہ نبی اکرم ﷺ کی روح اقدس ، روح الارواح ہے اور حضور ﷺ کی ذات مقدسہ تمام عالم ممکنات کیلئے منشاء و جو د ہے۔ دجال لعین کیلئے منشائیت ارواح کفار کا قول درحقیقت ایک بنیادی غلطی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دجال منشاء ارواح کفار نہیں بلکہ منشاء کفر ارواح کفار ہے ، ارواح کفار نے عالم ارواح میں کفر نہیں کیا بلکہ اس عالم تکلیف میں آنے کے بعد ان سے کفر سر ز د ہو ا۔ دجال منشاء ارواح نہیں بلکہ ارواح کفار کے کفر کا منشاء ہے اور کفر خود مو ت ہے ۔
قال اللّٰہ تعالٰی ’’اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی‘‘ ای موتی القلوب وہم الکفار
اس لئے دجال منشاء موت قرار پائے گا اور جو موت کا منشاء ہو ا سے حیات سے کیا واسطہ وہ تو حیات بالذات کی بجائے موت بالذات (۱) سے متصف ہو گا۔ ایسی صورت میں دجال لعین کو متصف بحیات بالذات کہنا اور اس کے حق میں امتناع انفکاک حیات کا قول کر نا قلب مومن پر بہت شاق ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ دجال لعین کی موت اور نو م کا رسول اکرم ﷺ کی موت اور نوم سے پورا پورا تطابق کر نے کیلئے تَنَامُ عَیْنَایَ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ کا وصف نبوت بعینہ دجال لعین کیلئے ثابت کر دیا اور اس کے ثبوت میں خود دجال کے قول کو دلیل بنا یا ۔ ٹھیک ہے دجال کا کمال اسی کے قول سے ثابت ہو سکتا ہے۔ رسو ل اللہ ﷺ کا قول مبارک دجال کا کمال ثابت کر نے کیلئے کہاں مل سکتا ہے؟
ناظرین کر ام غور فرمائیں کہ یہ اقتباس اس کتاب کا ہے جس کا نام لے کر آج تک ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ ایسی بہترین کتاب حیات النبی کے مسئلہ پر آ ج تک کسی نے نہیں لکھی۔
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
رسالہ دینیات کا اقتباس
لگے ہا تھوں اس باب میں مو دودی صاحب کا ایک اقتباس بھی ہدیہ ناظرین کر تا جائوں تاکہ اس قسم کے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا نظریہ واضح ہو کر سامنے آجائے۔ دیکھیئے رسالہ دینیات میں وہ ارقام فرماتے ہیں۔
پیغمبر کی زندگی دراصل اس کی تعلیم و ہدایت کی زندگی ہے جب تک اس کی تعلیم و ہدایت زندہ ہے۔ اس وقت تک گویا وہ خود زندہ ہے۔ پچھلے پیغمبر مر گئے کیونکہ جو تعلیم انہوں نے دی تھی۔ دنیا نے اس کو بدل ڈالا جو کتابیں وہ لائے تھے۔ ان میں ایک بھی آج اصل صورت میں مو جو د نہیں۔ (رسالہ دینیات ص۷۹)
انبیاء علیہم السلام کی حقیقی مو ت و حیات کے بارے میں اس عبارت سے کوئی روشنی نہیں پڑتی۔ ہمیں صرف یہ بتا نا مقصود ہے کہ مودودی صاحب نے اس بیان میں انبیاء علیہم السلام کے جس وصف کو ان کے حق میں بمنزلہ موت و حیات کے قرار دیا ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس اقتباس میں ان کی بعض تعبیرات انبیاء کرام علیہ السلام کے حق میں سویٔ ادبی کا حکم رکھتی ہیں۔ مثلاًان کا یہ کہنا کہ پچھلے پیغمبر مر گئے کیونکہ جو تعلیم انہوں نے دی تھی دنیا نے اس کو بدل ڈالا۔
تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات زندہ ہیں
حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی روح اور ان کا خلاصہ وہ عقائد اور اصول دین اور مقاصد کلیہ ہیں جو سب میں قدر مشترک کا حکم رکھتے ہیں۔ اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدیٰ سے تعبیر فرمایا۔ ان کی تعلیمات کی اصل بنیاد یہی ہیں اور وہ سب محفوظ و مو جو د ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورئہ انعام میں اٹھارہ نبیوں کا ذکر فرما کر ارشا د فرمایا
اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰہُمُ اقْتَدِہْ (س: الانعام آیت ۹۰)
یہ وہ لو گ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تو اے محمد ﷺ آپ ان کی سیرت کی اقتداء کر یں۔
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انبیاء سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کو لو گوں نے اس طرح بدل ڈالا کہ وہ بالکل مٹ گئیں اور ان کی لائی ہوئی کوئی چیزاپنی اصل صورت پر باقی نہیں رہی تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گا کیونکہ اس ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ اصولی طور پر آپ کا راستہ انبیاء سابقین علیہم السلام کے راستے سے جدا نہیں ۔ رہا فروعی اختلاف تو وہ پہلے بھی تھا اور اب بھی اس کے واقع ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں حدیث شریف میں آیا ہے کہ
دینہم واحد وامہاتہم شتّٰی
انبیاء کا دین ایک ہے اور ان کی مائیں مختلف ہیں۔ قرآن بار بار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ وہی دین ہے جس کی وصیت انبیاء سابقین علیہم السلام فرماتے رہے ۔ مختصریہ کہ اگر انبیاء سابقین کی تعلیمات مر دہ قرار دے دی جائیں تو رسول اللہ ﷺ کو ان کی سیرت کی اقتداء کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔ اس حکم سے ثابت ہو تا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں اور ان کی کل تعلیمات رسول اللہ ﷺ کے پاس موجو د ہیں اور حضور ﷺ سب کی سیرتوں کے جامع ہیں۔ اسی طرح کتب سابقہ کی تعلیمات کا حامل قرآن مجید ہے ۔ اسی لئے قرآن مجید کو مُھَیمِن کہا گیا ہے۔ جس کے معنیٰ ’’امین‘‘ ہیں یعنی انبیاء سابقین علیہم السلام کی کتابوں کی امانتیں قرآن مجید کے اندر محفوظ ہیں۔ مختصر یہ کہ کتب سابقہ اور انبیاء سابقین علیہم السلام کی تعلیمات کو بالکل معدوم قرار دینا صحیح نہیں ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اقوام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو گئیں اور ان کے پاس انبیاء علہیم السلام کی تعلیمات کا و جو د باقی نہ رہا ۔ ایسی صورت میں ان تعلیمات کا معدوم ہو جانا ان اقوام کی موت ہوگی جو ان تعلیمات سے محروم ہو گئیں۔ تعلیمات انبیاء علیہم السلام کے فقدان کو انبیاء کی موت قرار دینا انبیاء علیہم السلام کی شان میں سوء ادبی اور گستاخی ہے ۔ سب نبیوں کی صالحیت پاکیزگی نذاروتبشیر اور دعوت الی الحق اور ان کے اصول و عقائد اور دین کا جامع بیان قرآن پاک اور سیرت حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ضمن میں قطعاً محفوظ اور زندہ ہے۔
اس لئے وہ سب انبیاء علیہم السلام اس اعتبار سے بھی یقینازندہ ہیں۔ بااعتبار مذکور اگر مردہ کہا جا سکتا ہے تو انہی اقوام کو جو ان انبیاء علیہم السلام کے دین پر ہونے کا دعویٰ کر نے کے باوجو د ان کی حقیقی تعلیمات سے یکسر خالی ہو چکی تھیں۔ اقوام کی موت کو انبیاء کے سر تھوپنا اور یہ کہنا کہ پچھلے انبیاء مر گئے خوف ناک قسم کی بے باکی اور شان نبوت میں سوء ادبی ہے۔
نعوذ باللّٰہ من ذالک
حیات محمدی کی جامعیت
حضرت محمد ﷺ ؑتمام جہانوں کیلئے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا (الفرقان ۱)
اور خود رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا
ارسلت الی الخلق کافۃ (مسلم شریف)
رسالت رسول اور مرسل الیہ کے مابین ایک علمی اور عملی قسم کا مخصوص رابطہ ہے جس کے بغیر رسالت کا کوئی تصور قائم نہیں ہو سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف جہانوں کے مرسل الیہم کے احوال وکیفیات کے اختلاف اور تفاوت کی و جہ سے اس رابطہ اور تعلق کی نوعیت مختلف اور جداگانہ ہو لیکن فی نفسہ اس تعلق کا وجود رسالت کے لئے ضروری ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تمام جہانوں کے لئے اسی وقت رسول ہو سکتے ہیں۔ جبکہ ان کا یہ رابطہ ہر جہان والوں کے ساتھ قائم ہو ۔ علمی اور عملی رابطہ ’’حیات کا ‘‘ مقتضی ہے ۔ اس لئے عموم رسالت کے اعتقاد کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ایسی جامع اور کامل حیات کے ساتھ متصف ہیں جو ہر عالم کے حسب حال ہے۔
سردست ہم تینوں عالموں کو سامنے رکھتے ہیں۔ دنیا، برزخ اور آخرت عموم رسالت کا وصف دائمی ہے۔ جب حضور ﷺ دنیا میں جلوہ گر تھے ، تب ہی تینوں جہانوں کے رسول تھے اور برزخ میں جلوہ افروز ہو کر بھی حسب سابق عوالم ثلاثہ کے رسول رہے اور عالم آخرت میںرونق افروز ہونے پر بھی عموم رسالت منفی نہیں ہو سکتا یہ الگ بات ہے کہ کسی وقت آخرت کے سوا کوئی دوسرا عالم باقی نہ رہے کیونکہ یہ عدم بقاء عالم عموم رسالت پر اثر نہیں ڈال سکتا اس کی مثال تو ایسی ہے کہ جیسے چمکتے ہوئے سورج کے سامنے دس آئینے رکھ دئیے جائیں تو سب اس کے نور سے چمک جائیں گے لیکن اگر ان سب کو یا ان میں سے بعض کو اٹھا لیا جائے تو آفتاب کی چمک بد ستور اپنے حال پرباقی رہے گی۔
مختصر یہ کہ حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں ہر وقت ہر عالم کے مناسب حیات کا پا یا جا نا ضروری ہے تاکہ مرسل الیہم کے ساتھ رسالت کا رابطہ قائم ہو سکے ۔ مثلاً اگر حضور ﷺ دنیا میں ہو ں تو دنیا برزخ اور آخرت تینوں جہانوں کے مناسب حیات سے متصف ہوں گے۔ اسی طرح برزخ میں رونق افروز ہوں تو برزخ دنیا اور آخرت کے لائق حیات کے حامل ہوں گے۔ علیٰ ہذا آخرت میں جلوہ گر ہوں تب بھی ایسی حیات سے مو صو ف ہو ں گے جو ہر عالم کے حسب حال ہو ۔
اللہ تعالیٰ نے باقی مخلوقات کو خاص خاص ماحول کے مناسب حیات بخشی ہے۔ چنانچہ پانی کی مخلوق آگ میں اور ہو ا کی مخلوق پانی میں زندہ نہیں رہ سکتی ۔ حتیٰ کہ جبرائیل علیہ السلا م کیلئے بھی ایک مخصوص ماحول سے آگے زندہ رہنا ممکن نہیں ۔ اس لئے انہوں نے شب معراج عرض کر دیا کہ ’’لَو تَجَاوَزتُ اَنملَۃً لَّا حتَرَقتُ‘‘ یعنی اگر اپنے ماحول سے ذرا بھی آگے بڑھوں جل کر خاک ہو جائوں۔ مگر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام خصوصا ً حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو ایسی حیات کا ملہ جامعہ عطا فرمائی گئی جو ہر عالم کے ہر ماحول سے پوری طرح مناسبت رکھتی ہے۔ اس کی وجہ وہی تعلق نبوت اور رابطہ رسالت ہے جو علم و عمل کی بنیادوں پر قائم ہو تا ہے۔ اور علم و عمل ہی حیات ہے۔ اس لئے جہاں تک ان کے علم و عمل کا تعلق ہوتاہے۔ وہاں تک ان کی حیات پہنچتی ہے۔ دیکھئے قرآن مجید میں ہے کہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور اگر تسبیح کی شرط نہ پائی جا تی تو قیامت تک بطن حوت ہی میں ٹھہرے رہتے۔
بخاری شریف میں حدیث مو جو د ہے کہ رسول اللہ ﷺصحابہ کرام علیہم الرضوان کی معیت میں دو قبروں کے پاس سے گزرے ان دونوں قبروں والوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں۔ فَسَمِعَ صَوْتَ اِنْسَانَیْنِ یُعَذَّ بَانِ فِیْ قُبُوْرِھِمَا حضور ﷺنے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں ٹھہرگئے۔ صحابہ کرام سے فرمایا یہ دونوں قبروں والے عذاب قبر میں مبتلا ہیں اور کسی بڑی بات میں عذاب نہیں دیئے جارہے۔ ایک ان میں سے پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے پرہیز نہیں کرتا تھا۔ دوسرا چغل خور ی کرتا تھا۔ حضور ﷺ نے کھجور کی ایک ٹہنی منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کئے دونوں قبروں پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا اور فرمایا جب تک یہ خشک نہ ہو ں ان کی تسبیح کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان دونوں کے عذاب میںتحفیف فرمائے گا۔
رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف فرما تھے اور قبروں والوں کو عالم برزخ میں عذاب ہو رہا تھا۔ حضور ﷺ نے ان کی آواز اپنے مبارک کانوں سے سنی۔ پھر یہ بھی بتایا کہ ان دونوں کو عذاب کس وجہ سے ہو رہا ہے۔ معلوم ہو ا کہ حضور ﷺ جیسے دنیاوی حیات سے متصف ہیں اسی طرح برزخ والوں کی حیات سے بھی متصف تھے۔ ورنہ اس عالم کی آوازوں کا سننا اور وہاں کے حقائق ور موز کا جاننا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ پھر کھجور کی ٹہنی کے دو ٹکڑے دونوں قبر وں پر رکھ کر ان کی تسبیح کی وجہ سے قبروں والوں کے عذاب میں تخفیف کا اظہار فرمانا اپنے عمل سے انہیں فائدہ پہنچانا ہے۔
اہل برزخ سے یہ علم و عمل کا رابطہ اس امر کی روشن دلیل ہے کہ برزخ والوں کی حیات بھی حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں پائی جاتی تھی۔
اس واقعہ میں ایک اور لطیف اشارہ پا یا جاتا ہے اور وہ یہ کہ اس وقت رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ تھے۔
حضور ﷺ نے ہر دو معذب انسانوں کی آواز سن کر صحابہ کرام کو بتایا پھر اسباب عذاب کا اظہار فرما کر گویا اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے میرے صحابہ عالم دنیا میں اس وقت میں تمہارے ساتھ ہو ں مگر یہ نہ سمجھنا کہ میں اسی عالم میں صرف تمہارے ہی ساتھ ہوں اس کے علاوہ کسی عالم میں کسی کے ساتھ نہیں بلکہ دنیا میں تمہارے ساتھ ہونے کے با و جو د عالم برزخ میں برزخ والوں کے ساتھ بھی ہو ں اور ان کے حال سے خبردار ہوں اور ان کے دکھ درد میں ان کا حامی و مد دگا ر ہوں۔
نیز یہ کہ میں جس طرح دنیا میں ہو کر برزخ سے دور نہیں اسی طرح جب برزخ میں جلوہ گر ہو ں گا تو تم سے دو ر نہ ہوں گا اور تمہارے حال سے بھی اسی طرح باخبر رہوں گا جیسے اب اہل برزخ کے حال سے باخبر ہوں اور تمہارے دکھ درد میں ایسے ہی تمہارا حامی و مدد گار ہوں گا جیسے دنیا میں ہو کر برزخ والوں کا حامی اور مدد گار ہوں۔
اس کے بعد عالم آخرت کی طر ف آیئے تو آپ کو معلو م ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی دنیاوی حیات میں جس طرح عالم برزخ کی حیات کے حامل تھے۔ اسی طرح عالم آخرت کی حیات بھی حضور ﷺ کی ذات مقدسہ میں پائی جاتی تھی۔ شب معراج حضور ﷺ کا آسمانوں پر جلو ہ گر ہو نا انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات فرمانا اور سفر معراج میں تمام پیش آنے والے واقعات اس امر کی روشن دلیل ہیں کہ حضور ﷺ اس دنیاوی حیات کے ضمن میں اخروی حیات سے بھی متصف تھے۔ مختصر یہ کہ جس طرح عالم دنیا میں حضور ﷺ برزخ و آخرت کی حیات سے خالی نہ تھے۔ اسی طرح اب عالم برزخ میں دنیاوی حیات سے بھی خالی نہیں۔ وہو المراد ۔
حیات محمد ی ﷺ کے آفتاب کی شُعاعیں
اس حیثیت سے کہ حضور ﷺ اصل کائنات ہیں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حیات مقدسہ آسمان و جو د ممکنات کا چمکتا ہو ا آفتاب ہے۔ مخلوقات کے تمام انواع و ا فراد بمنزلہ آئینوں کے ہیں۔ ہر آئینہ اپنے مقام پر مخصوص کیفیت اور جداگانہ قسم کی استعداد کا حامل ہے۔ اس لئے ہر فرد اپنے حسب حال اس آفتاب حیات سے اکتساب حیات کر رہا ہے۔ خلق و امر، اجسام و ارواح، اعیان و معانی، ارض و سما، تحت و فوق سب کا نور حیات اسی آفتاب حیات محمدی کی شعاعیں ہیں البتہ عالم ممکنات کا اس معدن حیات سے قرب و بعد اور افراد کائنات میں استعداد کی قوت و ضعف مراتب حیات میں ضرور موجب تفاوت ہے نفس حیات سب میں پائی جاتی ہے۔ لیکن ہر ایک کی حیات اس کے حسب حال ہے۔ مومن ہو یا کافر نیک ہو یا بدہر ایک کا مبداء فیض حضور ﷺ ہی ہیں اور حضو ر ﷺ ہی کے آفتاب حیات سے ہر ایک میں حیات کی روشنی پائی جاتی ہے۔ آفتاب غروب ہوجائے تو تمام آئینے نور سے محروم ہو جائیں آئینوں میں نور کا پا یا جا نا آفتاب کے چمکنے کی دلیل ہے ۔ اسی طرح عالم ممکنات کے کسی ایک ذرہ میں نور حیات کا پا یا جا نا آفتاب حیات محمد ی کے مو جو د ہو نے کی دلیل ہے۔
یو ں سمجھئے کہ ایک بہت بڑا کار خانہ جس میں ہزاروں قسم کے کام ہوتے ہیں۔ سینکڑوں مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ہر ایک مشین اپنی نوعیت کا جداگانہ کام کر رہی ہے۔ کہیں کپاس صاف ہو رہی ہے۔ کہیں روئی کی گانٹھیں تیار ہو رہی ہیں۔ کوئی مشین سوت کا ت رہی ہے۔ کسی میں کپڑا بنا جا رہا ہے۔ کہیں آٹا پس رہا ہے ۔ پھر وہاں بے شمار بلب لگے ہوئے ہیں۔ ہر بلب جداگانہ پاور کا ہے ۔ ان کا رنگ بھی مختلف ہے۔ پھر کسی مشین سے کہیں پانی گرم ہو رہا ہے، کسی جگہ برف جمائی جارہی ہے ۔ کوئی مشین آگ پیدا کر رہی ہے ۔ کوئی پانی کھینچ رہی ہے ۔ کسی کی رفتار ہلکی ہے کوئی تیز رفتار ہے ۔ ان سب کی حرکت اور ہر ایک کا کام ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن حرکت و عمل کی قوت کا مرکز ایک پاور ہا ئو س ہے جو ہر ایک کو اس کی استعداد اور اس کے حال کے موافق حرکت و عمل کی قوت تقسیم کر رہا ہے۔ اگر پاور ہائو س ختم ہوجائے تو تمام کارخانہ معطل ہو کر رہ جائے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
انما اللّٰہ یعطی وانا قاسم و خازن
بے شک اللہ تعالیٰ دیتاہے اور میں تقسیم کر نے والا اور خازن ہو ں ۔
اس تمثیل سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مومنین و شہدا اور انبیاء کی حیات کا تفاوت اسی عمل پر مبنی ہے۔ یہاں اتنی بات اور عرض کر دوں کہ بسا اوقات نفس حیات ہوتی ہے۔ مگر منافع حیات نہیں ہوتے ۔ اس وجہ سے حیات کی نفی کر دی جاتی ہے۔ مگر اس نفی سے نفی حیات مراد نہیں ہوتی بلکہ منافع حیات کا انتفاء مراد ہو تا ہے ۔ ناواقف لوگ اصل حیات کی نفی سمجھ لیتے ہیں۔ اس غلطی میں اکثر لو گ مبتلا ہیں۔ انہیں قرآن مجید کی اس آیت کو دیکھنا چاہئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰ (س: طٰہٰ آیت ۷۴)
ٍ کافر دوزخ میں نہ مرے گا نہ جئے گا۔ موت کی نفی تو ظاہر ہے ’’ہُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ‘‘مگر حیات کی نفی محض اس لئے فرمائی گئی کہ دوزخ میں منافع حیات منتفی ہوں گے ۔
ایک شبہ کا ازالہ
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کافر بھی قبر میں زندہ ہوتے ہیں تو قبر کی زندگی میں کیا فضیلت ہوئی؟ ان کا جواب بھی گزشتہ بیان میں آ گیا۔ وہ یہ کہ کافر قبر میں زندہ ضرور ہے، مگر معذب ہونے کی وجہ سے منافع حیات سے محروم ہے۔
عذاب قبر
کفار کا قبروں میں زندہ ہو نا اور انہیں عذاب دیاجا نا بے شمار دلائل سے ثابت ہے ۔ سردست ہم ایک روایت اما م جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الحاوی للفتاویٰ سے پیش کرتے ہیں ۔ جو ناظرین کیلئے مزید معلومات کا مو جب ہوگی۔
واخرج ابن ابی الدنیا فی کتاب القبور و الطبر انی فی الاوسط عن ابن عمر قال بینا انا اسیر بجنبات بدراذخرج رجل من حـفرۃ فـی عنقـہ سلسلـۃ فنادانی یا عبداللّٰہ اسقنی و خرج رجل آخر من تلک الحفرۃ فی یدہ سو ط فنادانی یا عبداللّٰہ لا تسقہ فانہ کافر ثم ضربہ بالسوط حتی عادالی حفرتہ فاتیت النبی ﷺفاخبرتہ فقال لی اوقد رایتہ قلت نعم قال ذالک عدواللّٰہ ابوجہل و ذاک عذابہ الی یو م القیامۃ (الحاوی للفتاویٰ جلد ۲ص ۲۶۸ طبع مصر)
ابن ابی الدنیا نے کتاب القبور میں اور طبرانی نے اوسط میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ میں نواح بدر میں جا رہا تھا کہ اچانک قبر کے ایک گڑھے سے ایک شخص نکلا جس کی گردن میں زنجیر تھی اس نے مجھے آواز دے کر کہا اے عبدا ﷲ! مجھے پانی پلا۔ اسی گڑھے سے ایک اور شخص برآمد ہوا جس کے ہاتھ میں کوڑا تھا اس نے مجھے پکار کر کہا اے عبداللہ! اسے پانی نہ پلانا یہ کافر ہے پھر اسے کوڑا مارتا رہا یہاں تک کہ وہ اپنے گڑھے کی طرف واپس لوٹ گیا۔ عبدا ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے یہ واقعہ حضور ﷺ کے سامنے عرض کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا، کیا تونے اسے دیکھا؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور! میں نے اسے دیکھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، وہ اللہ کا دشمن ابوجہل تھا اور وہ اس کا عذاب تھا جو اسے قیامت تک ہوتا رہے گا۔(انتہیٰ) الحاوی للفتاویٰ جلد نمبر ۲ ص ۲۶۸
قرآن وحدیث میں حضور ﷺ کی موت کا بیان اور اس کی حقیقت
اب اس کے بعد ایک مستقل بحث پیش نظر ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں عام نصوص سے بھی انبیاء علیہم السلام اور حضور ﷺ کی موت و وفات ثابت ہے اور خاص رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی ایسی نصوص موجود ہیں جو قطعی طور پر حضور ﷺ کی موت کو ثابت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ (آل عمران ۱۴۴) دوسری جگہ فرمایا۔ اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھُمْ مَّیِتُّوْنَ (الزمر ۳۰) عام نصوص میں کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ (آل عمران ۱۸۵) ایک ہی آیت اثبات مد عا کیلئے کافی ہے پھر عزیر علیہ السلام کے حق میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
فَاَمَا تَہُ اللّٰہُ مِأَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ، قَالَ لَبِثْتُ یَوْماً اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِأَۃَ عَامٍ‘‘ (البقرہ ۲۵۹)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کو مر نے کے بعد کسی قسم کا علم و ادراک نہیں ہو تا یہی ان کی موت ہے اس کے بعد احادیث کی طرف آیئے تو رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے متعلق ارشاد فرمایا۔ انی مقبوض علاوہ ازیں حضور ﷺ کی موت کا واقعہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جس کا انکار کیاجائے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ ’’من کان یعبد محمدا فان محمدا قد مات‘‘ کتب احادیث میں مشہور و معروف ہے۔ ایسی صورت میں حیات انبیاء کا عقیدہ کیونکر درست ہو سکتا ہے؟
اس کے جواب میں گزارش ہے ۔ کہ ہماری گفتگو اس بات میں نہیں کہ انبیاء علیہم السلام یا خاص طور پر ہمارے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر موت طار ی ہو ئی یا نہیں ۔ ہم سب انبیاء علیہم السلام اور بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں موت طاری ہو نے پر ایمان رکھتے ہیں۔ گفتگو اس بات میں ہے کہ موت طاری عادی تھی یا حقیقی؟ نیز یہ کہ اس موت کے بعد حیات ملی یانہیں؟ قرآن و حدیث کی تمام نصوص کا مفاد صرف اتنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر موت طار ی ہوئی اور ان کی ارواح مقدسہ ان کے اجسام مطہرہ سے قبض کی گئیں ۔ یہ کس آیت یا حدیث میں آیا ہے کہ قبض روح کے ساتھ حس و ادراک بھی باقی نہ رہا کیا معترض کے نزدیک روح اور حیات میں ملازمۃعقلیہ ہے؟
ہم نہایت وضاحت کے ساتھ ثابت کر چکے ہیں کہ روح اور حیات کے مابین عقلاً کوئی ملازمہ نہیں صرف ملازمۃ عادیہ ہے جو خرق عادت کے ساتھ منتفی ہو سکتی ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ روح قبض ہو نے کے بعد بھی جسم میں حیات باقی رہے ۔ روح کا قبض ہو نا مضمون نصوص کی صحت کیلئے کافی ہے ۔ یہ ہرگز نہیں کہ قبض روح کے ساتھ علم و ادراک ، قوت و احساس اور سمع و بصر کا منتفی ہو نا بھی مضمون نصوص موت کی صحت کے لئے ضروری ہو۔ ومن ادعٰی فعلیہ البیان لہٰذا قرآن و حدیث کی کوئی نص ہمارے عقیدہ حیات النبی ﷺ کے منافی نہیں بلکہ اگر ادنیٰ تامل سے کام لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ انبیاء علیہم السلام کی موت عوام کی موت سے مختلف ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ
اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ میں رسول اللہ ﷺ کو اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمانے کیلئے دوسروں سے الگ کر کے ذکر فرمایا ہو ورنہ اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ کی بجائے اگر اِنَّکُمْ مَّیِّتُوْنَ فرمایا جا تا تو ا س میں رسول اللہ ﷺ بھی شامل ہو جاتے اور مختصر کلام میں سب کے لئے موت کا حکم ثابت ہو جاتا۔ جیسا کہ اس کے بعد ’’ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ‘‘ (الزمر ۳۱) میں دوسروں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو بھی شامل فرمالیا گیا ہے۔ مگر موت کا حکم لگانے میں اِنَّکَ مَیِّتٌ الگ فرمایا اور اِنَّہُمْ مَّیِّتُوْنَ (علیحدہ) ارشاد ہوا تاکہ سننے و الے سمجھ جائیں کہ رسول اللہ ﷺ کی موت دوسروں کی موت سے الگ ہے۔
حضور ﷺ کی موت ہماری موت سے بو جوہ ذیل مختلف ہے۔
۱۔ حضور سید عالم ﷺ کو اختیار تھا کہ حضور دنیا میں رہیں یا رفیق اعلیٰ کی طرف تشریف لے جائیں لیکن ہمیں دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف جانے میں کوئی اختیار نہیں ہوتا بلکہ ہم موت کے وقت سفرآخرت پر مجبور ہوتے ہیں۔ (بخاری شریف)
۲۔ غسل کے وقت ہمارے کپڑے اتارے جاتے ہیں لیکن رسول اللہ کو انہیں کپڑوں میں غسل مبارک دیا گیا۔ جن میں حضور ﷺ نے وصال فرمایا تھا۔(بخاری شریف)
ٍ۳۔ حضور ﷺکی نماز جنازہ ہماری طرح نہیں پڑھی گئی بلکہ ملائکہ کرام ، اہل بیت عظام اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جماعت کے بغیر الگ الگ حضور ﷺ پر نماز پڑھی اور اس پر معروف دعائیں بھی نہیں پڑھیں بلکہ حضور ﷺ کی تعریف و توصیف کے کلمات طیبات عرض کئے گئے اور درود شریف پڑھا گیا۔(مواہب اللدنیہ)
۴۔ ہماری موت کے بعد جلدی دفن کر نے کا تاکیدی حکم ہے لیکن حضور ﷺ وصال کے بعد سخت گرمی کے زمانہ میں پورے دو دن کے بعد قبر میں دفن کئے گئے۔(زرقانی شریف)
۵۔ حضور ﷺ کا مدفن مبارک بحکم شرع وہی مقام رہا جہاں حضور ﷺ نے وصال فرمایا تھا۔ ہمارے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ (زرقانی شریف)
۶۔ ہماری موت کے بعد ہماری میراث تقسیم ہو تی ہے حضور ﷺ اس سے مستثنٰی ہیں۔ (بخاری شریف)
۷۔ ہمارے مرنے کے بعد ہماری بیویاں ہمارے عقد نکاح سے باہر ہو جاتی ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات ہمیشہ حضور ﷺ کے نکاح میں باقی ہیں اور ابد تک یہ حکم جار ی رہے گا۔ (قرآن مجید)
ایک شبہ کا ازالہ
بعض لو گ انتہائی دریدہ دہنی کے ساتھ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر حضور ﷺکو تم زندہ مانتے ہو تو نعوذ باللہ صحابہ کرام نے حضور کو زندہ در گور کر دیا؟ نیز یہ کہ حضور ﷺ زند ہ ہیں تو ابوبکرصدیق، عمر فاروق ، عثمان غنی، اور علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین خلیفہ کیسے ہو گئے۔
گذشتہ صفحات کو غور سے پڑھا جائے تو اس شبہ کا ازالہ خود بخود ہو جا تا ہے۔ ناظرین کرام ہمارے مضمون میںپڑھ چکے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کیلئے موت عادی اورحیات حقیقی تسلیم کر تے ہیں۔ غسل ، کفن، دفن، خلافت ، سب امور موت عادی کا مقتضی ہیں اور اس ضمن میں حضور ﷺ کے جملہ امتیازی امور حیات حقیقی پر مبنی ہیں اور لوازمات حیات بعد الموت کی نوعیت لو ازمات حیات قبل الموت سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ اختلاف نوعیت ہمارے مدعا کو مضر نہیں۔ البتہ وہ امور جو بمقتضائے حیات حقیقی ہیں منکرین حیات کے انکار کو یقینا باطل قرار دیتے ہیں۔
صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ
رہا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ تو اس کا بھی یہی مقصد ہے اور ابانۃ الروح عن الجسد کے معنی میں حضو ر ﷺ کیلئے اس میں موت کا بیان ہے ۔ ہم نے جس حیات کو روح کے بغیر ثابت مانا ہے۔ اس کی نفی کہاں وارد ہوئی ہے ۔ پھر یہ کہ صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اسی خطبہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ
لن یجمع اللّٰہ علیک موتتیناے آقا ﷺ اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔
دوسری موت سے حیات بعد الموت کے بعد آپ کو جو حیات ملے گی اس کے بعد آپ پر کوئی موت نہیں آئے گی۔ (دیکھئے قسطلانی جلد ۶ص۴۷۰طبع مصر)
وصیت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
پھر حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت جو انہوں نے اپنے وصال سے قبل فرمائی تھی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور ﷺ کو قبر انور میں زندہ مانتے ہیں۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر کبیر جلد ۵ ص ۶۸۵ پر فرماتے ہیں۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ حضور ﷺ کے حجرہ مبارکہ کے سامنے رکھ دینا اگر دروازہ کھل جائے اور قبر انور سے آواز آئے کہ ابوبکر کو اندر لے آؤتب تو مجھے حجرہ مبارکہ میں دفن کر نا ورنہ عام مومنین کے قبرستان میں دفن کر دینا چنانچہ ایساہی ہو ا جب حجرہ مبارکہ کے سامنے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا جنازہ رکھا گیا تو دروازہ کھل گیا اور قبر انور سے آوازآئی ادخلوا الحبیب الی الحبیب اگر صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضور ﷺ کی حیاۃ بعد الممات کے قائل نہ ہوتے تو اس وصیت کے کیا معنی؟
عزیر علیہ السلام کا واقعہ
رہا عزیر علیہ السلام کا واقعہ تو سب سے پہلے تو یہ عرض کر وں گا کہ قرآن مجید میں حضرت عزیر علیہ السلام کا نام نہیں آیا ۔ قرآن میں اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ کے الفاظ ہیں اور اَلَّذِیْ سے کون مراد ہے؟ اس میں مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے ۔ عطاء نے کہا کہ ارمیاء مراد ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ عزیر مراد ہیں۔مجاہد فرماتے ہیں کہ اَلَّذِیْ سے رجل کا فر مراد ہے ۔ (دیکھئے تفسیر کبیر جلد ۲ص ۴۸۳طبع مصر)
ایسی صورت میں حیات انبیاء کے خلاف اس آیت کو پیش کر نا کیسی شدید حماقت ہے اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے۔ کہ اَلَّذِیْ سے حضرت عزیر علیہ السلام ہی مراد ہیں تب بھی مخالفین کو کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو تا کیونکہ اس آیت سے زیادہ سے زیادہ حضرت عزیز علیہ السلام کی ایک واقعہ سے لا علمی ثابت ہو گی اور لاعلمی عدم حیاۃ کو مستلزم نہیں۔ آپ لو گ رسول اللہ ﷺ کی حیات دنیا کے زمانہ میں کئی واقعات سے حضور کی لا علمی ثابت کر نے کی کوشش کر تے ہیں لیکن اس وقت حضور ﷺ کو زندہ بھی مانتے ہیں۔ تو کیا آپ ہی کے مسلک پر یہ ممکن نہیں کہ عزیر علیہ السلام کو موت کے بعد حیات بھی حاصل ہو اور اس حیات میں ایک واقعہ سے وہ لا علم بھی ہوں؟
رہا ہمارا مسلک تو ہم لا علمی کی بجائے عدم التفات کا قول کریں گے اور یہ کہیں گے کہ عزیر علیہ السلام چونکہ عالم برزخ میں مشغول تھے اس لئے انہیں دنیا کے زمانہ طویلہ اور سو سال کی مدت کی طرف التفات نہ ہوا۔ ا س لئے انہوں نے ’’یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ‘‘کہہ دیا ۔ اس واقعہ سے حیات بعد الموت کی نفی کس طرح ثابت ہو گئی۔
اس آیت پر کسی دوسری جگہ ہم نے طویل کلام کیا ہے اس لئے یہاں قدر ضرورت پر اکتفا کرتے ہیں۔
شہدا ء کی ازواج نکاح کر سکتی ہیں، ان کا ترکہ تقسیم ہو تا ہے
ہم بارہا عرض کر چکے ہیں کہ شہداء و انبیاء علیہم السلام پر موت بھی آتی ہے اور انہیں حیات بعد الممات بھی عطاء کی جا تی ہے۔ دنیا میں ان پر موتٰی کے جس قدر احکام جاری ہو تے ہیں ۔ وہ سب قبض روح کی وجہ سے ہیں۔ باقی رہی حیات تو بعض امور میں اس کے احکام بھی مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً حنفیہ کے نزدیک شہداکو غسل میت نہ دیا جانا اور شافعیہ کے نزدیک غسل اور نماز دونوں کا نہ ہو نا ۔
ازواج و میراث کے مسئلہ کو بھی حیات میں ضرور دخل ہے لیکن اس مسئلہ میں انبیاء اور شہدا ء کے درمیان جو فرق ہے وہ نفس حیات کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا منبع درجات حیات کا تفاضل اور تفاوت ہے۔
ان تمام بحثوں کے بعد انبیاء علیہم السلام کے اجساد کریمہ کا ان کی قبور منورہ میں محفوظ رہنے کا مسئلہ بھی سامنے آجا تا ہے۔ دلائل کی روشنی میں ہمارا مسلک یہ ہے کہ صرف انبیاء نہیں بلکہ بعض شہداء اور صالحین اور علماء کے اجسام شریفہ بھی گلنے سڑنے اور خراب و متغیر ہونے سے صحیح و سالم رہتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ فرعون کے جسم کا سالم رہنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہے فرق یہ ہے کہ فرعون کا جسم اہانت کے لئے سالم رکھا گیا کہ اس کا جسم دیکھ کر لو گوں کو عبرت ہو اور وہ سمجھیں کہ خدا اوراس کے رسولوں کی نافرمانی کر نے والوں کا ایسا ہی انجام ہو تا ہے چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً (یونس : ۹۲، پ ۱۱)
آج ہم تجھ کو تیرے بدن کے ساتھ نجات دیں گے۔ تاکہ تو اپنے پچھلوں کے لئے ’’ہمارے عذاب‘‘ کا نشان ہوجائے۔
تحقیق جدید سے معلوم ہو ا کہ فرعون کی لا ش آج تک محفوظ چلی آتی ہے۔ اور یہ اس کی انتہائی اہا نت کا مو جب ہے کہ جو بھی اسے دیکھتا ہو گا اس کے ذہن میں فوراًیہ بات مرکوز ہو جاتی ہو گی کہ یہی ہے اللہ اور ا س کے رسول کا باغی جو اپنے جرائم اور معاصی کیوجہ سے اللہ کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہلا ک ہو ا لیکن انبیاء علیہم السلام کے اجسام کریمہ کمال عزت اور انتہائی عظمت کا نشان بن کر صحیح و سالم رہتے ہیں کہ جس ذہن میں بھی ان کے مبارک جسموں کے صحیح و سالم رہنے کا تصور آتا ہے وہ ساتھ ہی اس حقیقت سے روشنا س ہو جاتے ہیں کہ یہ اجسام مقدسہ ان پاکیزہ اور نورانی ہستیوں کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہو ئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حیات ابدی کے ساتھ زندگی بخشی۔
کمال عزت و عظمت کے ساتھ اجساد انبیاء علیہم السلام کا محفوظ رہنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہے ۔
سلیمان علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے
فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلٰی مَوْتِہٖ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَأْکُلُ مِنْسَأَتَہٗ فَلَمَّا خَرَّتَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ (سبا آیت ۱۴)
پھر جب ہم نے ا ن پر موت واقع کر دی تو جنات کو ان کی مو ت پر کسی نے رہنمائی نہ کی۔ سوائے دیمک کے کیڑوں کے کہ وہ دیمک کے کیڑے ان کے عصا کو کھاتے رہے۔ جب عصا کے دیمک خوردہ ہو کر گر جانے کی وجہ سے سلیمان علیہ السلام گرے تو جنوں کو معلوم ہو ا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے عذاب میں اتنے عرصے تک مبتلا نہ رہتے ۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام جو عصا کا سہارا لگا ئے کھڑے تھے اپنی حشمت و شوکت کے ساتھ جنات سے کام لے رہے تھے ۔ اسی حال میں انہیں موت آگئی اور مو ت کے بعد اسی عصا کے سہارے اتنے طویل عرصہ تک کھڑے رہے کہ عصا کو دیمک لگ گئی اور ا س دیمک نے عصا کو یہاں تک کھالیا کہ وہ ٹھہر نہ سکا اور اس کے ساتھ ہی سلیمان علیہ السلام کا جسم مبارک بھی زمین پر آپڑا۔
تفاسیر سے معلو م ہو تا ہے کہ یہ ایک سال کی مدت تھی اگر تفاسیر سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو الفاظ قرآن سے اتنا ضرور ثابت ہو تا ہے کہ وہ مدت چند روز کی نہ تھی بلکہ اتنا طویل زمانہ تھا جس میں کا م کر نے کو جنات جیسی قوی ہیکل اورسخت جان مخلوق کیلئے ’’مَالَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ‘‘سے تعبیر کیاگیا ہے۔ معلوم ہو ا کہ ازروئے قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے اجساد کریمہ کا عرصہ دراز تک صحیح سالم رہنا حق اوردرست ہے۔
اسی طرح یونس علیہ السلام کا واقعہ قرآن کریم میں مذکور ہے ۔جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔’’لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَومِ یُبْعَثُوْنَ‘‘ (صٰفّٰت ۱۴۴) کہ یونس علیہ السلام جنہیں مچھلی نے نگل لیا تھا اور وہ کچھ عرصہ تک مچھلی کے پیٹ میں رہ کر زندہ اور صحیح سالم نکل آئے۔ اگر مُسَبِّحِیْن میں سے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ ہی میں ٹھہرے رہتے۔
ظاہر الفاظ قرآن سے واضح ہو تا ہے کہ یو نس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک صحیح سالم ٹھہرے رہتے اور قیامت کے دن جب دوسرے لو گ اپنی قبروں سے نکلتے تو یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر آتے۔
قرآن کریم کے بعد احادیث شریفہ کو دیکھا جائے تو انبیاء علیہم السلام کے مبارک جسموں کے صحیح سالم رہنے کی دلیل میں بکثرت احادیث ملیں گی۔ جن میں سے بعض حدیثیں گزشتہ صفحات میں ہم بیان کر چکے ہیں اور ایک حدیث حضرت دانیال علیہ السلام کے جسم اقدس کے متعلق اس وقت پیش کرتے ہیں۔
البدایہ والنہایہ میں بروایت یونس بن بکیر حضرت ابو العالیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم نے قلعہ تستر فتح کیا تو ہر مزان کے گھر کے مال و متاع میں ایک تخت پایا جس پر ایک آدمی کی میت رکھی ہوئی تھی اور اس کے سر کے قریب ایک مصحف تھا ہم نے وہ مصحف اٹھاکر حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھیج دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب کو بلایا۔ انہوں نے اس کو عربی میں لکھ دیا۔ کل عرب میں میں پہلا آدمی ہوں جس نے اس کو پڑھا میں نے اسے اس قرآن کی طرح پڑھا۔ ابو خالد بن دینار کہتے ہیں، میں نے ابو العالیہ سے کہا اس صحیفہ میں کیا تھا انہوں نے کہا تمہارے احوال، امور اور تمہارے کلام کے لہجے اور آئندہ ہونے والے واقعات ہیں۔ میں نے کہا تم نے اس آدمی کا کیا کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے دن کے وقت متفرق طو ر پر تیرہ قبریں کھو دیں جب رات آئی تو ہم نے انہیں دفن کر دیا اور تمام قبروں کو برابر کردیا تاکہ وہ لو گوں سے مخفی رہیں اور کوئی انہیں قبر سے نہ نکالنے پائے۔ میں نے کہا۔ ان سے لو گوں کی کیا امیدیں وابستہ تھیں؟ انہوں نے کہا جب بارش رک جاتی تھی تو لوگ ان کے تخت کو باہر لے آتے تھے۔ تو بارش ہو جاتی تھی۔ میں نے کہا تم اس رجل مبارک کے متعلق کیا گمان رکھتے تھے کہ وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ انہیں دانیال کہا جا تا تھا۔ الخ۔اس کے بعد اگلے صفحہ پر ایک حدیث مرقوم ہے
قال رسول اللّٰہ ان دانیال دعاربہ عزوجل ان یدفنہ امۃ محمد ﷺ فلما افتتح ابو موسٰی الا شعری تستر وجدہ فی تابوت تضرب عروقہ ووریدہ (البدایہ والنہایہ، ج ۲، ص ۴۱)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دانیال علیہ السلام نے اپنے رب عزوجل سے یہ دعا کی تھی کہ انہیں حضرت محمد ﷺ کی امت دفن کرے۔ جب ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے قلعہ تستر فتح کیا تو انہیں ان کے تابوت میں اس حال میں پایا کہ ان کے تمام جسم اور گردن کی سب رگیں برابر چل رہی تھیں۔ انتہیٰ
ان دونوں روایتوں سے اتنی بات بلا تر ددواضح ہے کہ دانیال علیہ السلام کا جسم مبارک سینکڑوں سال گزر جانے کے باوجود صحیح سالم تھا۔ اس کے بعد یہ بات بھی ان دونوں روایتوں سے پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا توسل حق ہے اور ان حضرات کے توسل سے بارش طلب کی جاتی تھی اور لو گ سیراب بھی ہوتے تھے۔ نیز یہ کہ دانیال علیہ السلام کا جسم مبارک صد ہا برس کے بعد نہ صرف صحیح سالم تھا بلکہ اس کی نبضیں اور وریدیں بھی چل رہی تھیں۔
ایک سوال کا جواب
اس مسئلہ میں بعض لو گ یہ پو چھا کرتے ہیں کہ اگر انبیاء علہیم السلام کے اجسام کریمہ ایک لمحہ کیلئے بو سیدہ نہیںہو تے توانہیں بعض اوقات عظام سے کیوں تعبیر کیا جا تاہے ۔ اس کا جو اب یہ ہے کہ عظام کہنے کی یہ وجہ نہیں کہ معاذ اللہ سارا بدن گلنے کے بعد ہڈیاں رہ جا تی ہیں ۔ بلکہ عظام استعارہ ہے جسم کے نہ گلنے سے کہ جس طرح بعض ہڈیاں نہیں گلتیں اسی طرح انبیاء علیہم السلام کا بدن گلنے سے پا ک ہو تاہے۔ اس مقام پر لفظ عظام سے بغیر گوشت کے ہڈیاں مراد نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی جسمانی حقیقی حیات پر ایک اور تصریح ملاحظہ فرمایئے مواہب اللدنیہ میں ہے
ونقل السبکی فی طبقاتہ عن ابن فورک انہ علیہ السلام حی فی قبرہ رسول اللّٰہ ابدا لاباد علی الحقیقۃ لا المجاز۔ انتھٰی(مواہب اللدنیہ، ج ۲، ص ۵۴)
اما م سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طبقات میں ابن فورک سے نقل کیا کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی قبر انور میں زندہ ہیں اللہ کے رسول ہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آپ کا رسول ہو نا حقیقت پر محمول ہے مجاز پر نہیں۔ انتہیٰ
ابن عقیل حنبلی کا قول
امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت ، زرقانی علی المواہب، میں ارشاد فرماتے ہیں
لحیاتہ فی قبرہ یصلی فیہ باذان و اقامۃ قال ابن عقیل الحنبلی و یضاجع ازواجہ و یستمتع بھن اکمل من الدنیا وحلف علیٰ ذلک وھو ظاہر ولا مانع منہ (زرقانی علی المواہب جلد دس ص۱۶۹)
حضور ﷺ کا حقیقتاً رسول ہو نا اس لئے ہے کہ قبر انور میں حضور ﷺ کو حیات حقیقی حاصل ہے۔ حضور ﷺ اپنی قبر انور میں اذان اور اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ابن عقیل حنبلی نے کہا حضور ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ استراحت فرماتے ہیں اور ان سے ایسا استمتاع فرماتے ہیں جو دنیا سے اکمل ہے ۔ ابن عقیل نے یہ بات قسم کھاکر کہی۔ امام زرقانی فرماتے ہیں اور یہ کھلی ہوئی بات ہے اس میں کوئی امر مانع نہیں۔
اللہ تعالیٰ امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو جزاء خیر دے کہ انہوں نے وھو ظاہر ولا مانع منہ کہہ کر ابن عقیل حنبلی کے قول کو بے غبار کردیا۔ میں ہزار مرتبہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ابن عقیل حنبلی کے اس قول کو مکروہ نہیں جانے گا۔ مگر وہی نفس کا بندہ جو خواہشات نفسانی میں مبتلا ہے اور اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات مقدسہ اور حضور ﷺ کے حالِ مطہرہ کا قیاس اپنی مکروہ ذات اور نجس حال پر کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ تو عالم دنیا میں بھی ان تمام مکروہات سے پاک رہے جن کا تصور کسی کے حق میں کیا جاسکتا ہے ۔ چہ جائیکہ عالم برزخ میں تشریف لے جانے کے بعد سرکار ﷺ کی ذات مقدسہ کے حق میں کوئی سیاہ باطن اس قسم کا ناپاک تصور پیدا کرے۔
قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء و شہدا ء کرام علیہم السلام جنت میں رزق دئیے جاتے ہیں اور وہ طرح طرح کی نعمتیں کھاتے اور اللہ کے دئیے ہوئے رزق سے لذتیں اٹھاتے ہیں تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ رزق اور نعمتیں اور ان سے لذت کا حصول دنیاوی رزق اور دنیاوی نعمتوں اور دنیا کی لذتوں کی قسم سے ہے ۔ ہم اس سے پہلے بارہا تنبیہ کرچکے ہیں کہ برزخ کے حال کا قیاس دنیا کے حال پر صحیح نہیں اور وہاں کے لوازم حیات کی نوعیت دنیا کے لوازم حیات کی نوعیت سے قطعاً جداگانہ اور مختلف ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے وہاں کی کسی چیز کا قیاس یہاں کی کسی چیز پر نہیں ہوسکتا۔
صالحین اور اہل جنت کے حق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَلَھُمْ فِیْہَا اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ (البقرۃ ۲۵)
جنتیوں کیلئے جنت میں ازواج مطہرہ (پاک بیویاں) ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ حدیث شریف میں وارد ہے
القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفرات النیران
جب عام مؤمنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی قبر انور تو بطریقہ اولیٰ جنت کے باغوں میں سے ایک عظیم وجلیل باغ قرار پائے گی اور جنت کے باغوں میں جنت کی ازواج سے استمتاع حقیقت ثابتہ ہے ۔ اگر وہاں کوئی امر مانع نہیں تو یہاں کیونکر مانع ہوسکتا ہے ۔
ابن عقیل حنبلی کے کلام میں لفظ ازواجہ میں تین احتمال نکل سکتے ہیں۔ (۱) ازواج دنیا (۲) ازواج آخرۃ(۳) ازواج مطہرہ کے حقائق لطیفہ موجود فی عالم المثال۔
لیکن کسی تقدیر پر بھی استراحت اور استمتاع کی دنیوی نوعیت کا احتمال نہیں نکل سکتا ۔ اس لئے کہ حضور ﷺ عالم برزخ میں جلوہ گر ہیں اور اس عالم کے تمام امور کی نوعیت اس عالم دنیا کی نوعیت سے مختلف اور جداگانہ ہے۔
ایک غلط روایت
بعض جہلا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ایک غلط روایت بیان کردیا کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا تھاکہ حضور ﷺ کے بدن کی بو ایسے ہی بدل جائے گی جیسے عام لوگوں کے بدن کی بوبدل جاتی ہے حالانکہ یہ روایت کذبِ محض اور دروغ بے فروغ ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی روایت جو ابن ماجہ اور مراسیل ابودائود میں موجود ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو غسل دیا اور کسی ایسی چیز کو دیکھنے لگا جو مریض سے نکلتی ہے لیکن میں نے ایسی کوئی چیز نہ پائی۔ فَقُلْتُ طِبْتَ حَیًّا وَّمَیِّتاً تو میں نے عرض کیا کہ حضور ﷺ آپ حیات ظاہری میں اور بعد الممات پاکیزہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
وَسِعَتْ مِنْہُ رِیْحٌ طَیّبَۃٌ لَمْ یَجِدُوْا مِثْلَھَا قَطُّیعنی پھر حضور ﷺ سے ایسی پاکیزہ خوشبو مہکی جس کی مثل لوگوں نے کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی تھی۔ (ابن ماجہ ،ابودائود) از نسیم الریاض جلد اول صفحات ۴۴۲/۴۴۳
معلوم ہوا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرف جس روایت کو منسوب کیا گیا ہے وہ باطل محض اور کذب صریح ہے۔
جسم اقدس کے تغیرات
رسول اللہ ﷺ کے جسد اطہر کے بارے میں جو لوگ تغیرات کاقول کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے۔ کہ یہ ایسا قول ہے کہ علماء نے اس کے کفر ہونے میں اختلاف کیا ہے ( دیکھئے علامہ شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں)
اختلفو افی کفر من قال ان النبی ﷺ لما انتقلت روحہ للملاء الاعلیٰ تغیر بدنہ وروی ان و کیع بن الجراح حدث عن اسماعیل بن ابی خالد ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم لما توفی لم یدفن حتیٰ ربا بطنہ وانثنی خصرہ (۱) وخضرت اظفارہ لانہ ﷺ توفی یوم الاثنین وترکہ الی اللیلۃ الا ربعاء لا شغالھم بامر الخلافۃ و اصلاح امر الا مۃ و حکمتہ ان جماعۃ من الصحابۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھم قالوا لم یمت فار ادا للّٰہ ان یریھم ایۃ الموت فیہ ولما حدث وکیع بھذا بمکۃ رفع الی الحاکم العثمانی فاراد صلبہ علی خشبۃ نصبہا لہ خارج الحرم فشفع فیہ سفیان بن عیینۃ واطلقہ ثم ندم علی ذلک ثم ذھب وکیع المدینۃ فکتب الحاکم لا ھلھا اذا اقدم الیکم فارجموہ حتّٰی یقتل فادبرلہ بعض الناس بریدا اخبرہ بذالک فرجع للکوفۃ خیفۃ من القتل وکان المفتی بقتلہ عبدالمجید بن رواد قال سفیان لایجب علیہ القتل و انکر ھذا الناس وقالوا رأینا بعض الشھداء نقل من قبرہ بعداربعین سنۃ فو جد رطبالم یتغیر منہ شیٔ فکیف بسید الشھداء والا نبیاء علیہ وعلیھم الصلوٰۃ والسلام وھذہ زلۃ قبیحۃ لا ینبغی التحدث بھا۔ (نسیم الریاض جلد اول صفحات ۳۹۰/۳۹۱ غیر ہامشی)
علماء نے اس کے کفر میں اختلاف کیا ہے۔ جس نے یہ کہا کہ
رسول اللہ ﷺ کے روح مبارک ملاء اعلیٰ کی طرف منتقل ہو نے کے بعد حضور ﷺ کا جسم شریف متغیر ہو گیا مرو ی ہے کہ وکیع بن جراح نے اسماعیل بن ابی خالد سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ کی جب وفات ہوگئی تو حضور ﷺ دفن نہیں کئے گئے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کا شکم مبارک پھو ل گیا اور حضور ﷺ کی چھنگلیا (سب سے چھوٹی انگلی) ٹیڑھی ہوگئی اور حضور ﷺ کے ناخن سبز ہوگئے کیونکہ پیر کے دن حضو ر کی وفات ہوئی تھی اور بدھ کی رات تک حضو ر ﷺ دفن نہیں کئے گئے۔ صحابہ کرام کے امر خلافت اور اصلاح امت کے کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے اور اس تغیر میں حکمت یہ تھی کہ صحابہ کی ایک جماعت نے یہ کہہ دیا تھاکہ حضور ﷺ کو موت نہیں آئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے بدن میں ان کی موت کی علامت دکھادی۔
جب وکیع نے مکہ میں یہ روایت بیان کی تو انہیں حاکم عثمانی کی طرف لے جایاگیا۔ اس نے خارج حرم میں ایک لکڑی نصب کر کے وکیع کو سولی پر چڑھانے کا ارادہ کر لیا۔ سفیان بن عیینہ نے وکیع کی سفارش کی اور حاکم نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر حاکم اپنے اس فعل پر سخت نادم ہو ا اور وکیع مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ حاکم نے مدینہ والوں کو لکھا کہ جس وقت وکیع تمہارے پاس پہنچے اسے فوراً سنگسار کر کے قتل کردو۔ بعض لوگوں نے مکہ سے اس کے پیچھے قاصد روانہ کیا اور اس نے وکیع کو راستے ہی میں خبردار کر دیا تو وکیع قتل کے خوف سے کوفے روانہ ہوگیا جس مفتی نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا اس کا نام عبدالمجید بن رواد ہے۔
سفیان کا قول یہ تھا کہ قتل واجب نہیں وکیع کی اس روایت کاتمام لوگوں نے سخت انکار کیااور کہا کہ ہم نے بعض شہداء کو دیکھا کہ وہ چالیس سا ل کے بعد اپنی قبر سے منتقل کئے گئے تو وہ ایسے تروتازہ تھے کہ ان میں کچھ بھی تغیر نہ تھا تو کس طرح سید الشہداء اور سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق یہ روایت صحیح ہو سکتی ہے ۔ یہ بدترین قسم کی لغزش ہے جس کا ذکر کسی حال میں مناسب نہیں۔ انتہیٰ (نسیم الریاض اول ص۳۹۰/۴۹۱طبع مصر)
الحمد للہ! علامہ شہاب الدین خفاجی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان سے وکیع کی اس روایت کا حال بخوبی معلوم ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ اجساد انبیاء علیہم السلام کی محفوظیت اور ہر قسم کے تغیرات سے ان کا پا ک ہو نا ہی حق و ثواب ہے ۔ اس کے خلاف کوئی قول امت مسلمہ کے نزدیک قابل التفات نہیں۔
حضور اکرم ﷺ قبر انور میں ہیں یا بہشت میں
شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں ارشاد فرماتے ہیں
اما آنکہ قونوی تفضیل و ترجیح دادہ بودن آنحضرت ﷺ دربہشت اعلیٰ ’’استمرار آورد‘‘ در قبر شریف جو اب وے آنست کہ قبر احاد مومنین روضہ ایست از ریاض جنت پس قبر شریف سید المرسلین افضل ریاض جنت باشدو تو اند بودکہ وے ﷺ ہم در قبر از تصرف و نفوذ حالتی بو د کہ از سموات وارض جنان حجاب مرتفع باشد بے تجاوزو انتقال زیر ا کہ امور آخرت و احوال برزخ رابراحوال دنیا کہ مقید و مضیق حدود و جہات است قیاس نتواں کرد۔ (جذب القلوب)
اور علامہ قونوی نے جو حضور ﷺ کے قبر انور میں ہونے پر حضور ﷺ کے بہشت بریں میں ہو نے کو ترجیح دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب عام مومنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو حضور ﷺ کی قبر انور ان سب میں افضل ترین باغیچہ جنت ہوگی۔
اور ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قبرِ انور میں ایسا تصرف دیا گیا ہو اور ایسی حالت عطاء کی گئی ہو کہ آسمانوں ، زمینوں اور جنت سب سے حجاب اٹھ گیا ہو بغیر اس کے حضور ﷺ اپنے مقام سے آگے بڑھیں یا کہیں منتقل ہوں ۔ اس لئے کہ امور آخرت اور احوال برزخ کا قیاس اس دنیا کے احوال پر نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقید ہے اور جس کے حدود اور جہات نہایت تنگ ہیں۔ انتہیٰ
اس عبارت سے بہت سے اشکال رفع ہوگئے اور احادیث کے درمیان تطبیق ہوگئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے مقام میں جلوہ گر ہیں اور بغیر اس کے کہ اپنے مقام شریف سے تجاوز فرمائیں یا کہیں منتقل ہوں۔ زمینوں اور آسمانوں اور قبر انور جمیع امکنہ کے ساتھ حضور ﷺ کو مساوی نسبت ہے اور ایک جگہ ہو نے کے باو جو د ہر جگہ مو جو د ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حجاب کو اٹھادیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ہر جگہ ہو نے میں رکاوٹ کا مو جب ہو۔
رہا یہ امر کہ دنیا میں یہ بات ناممکن ہے کہ ایک ہی وجود کئی جگہ یکساں مو جو د ہو تو اس کا جواب حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح دیا کہ دنیا کی حدود جہات بہت ہی تنگ واقع ہوئی ہیں اور عالم دنیا قیود کے ساتھ مقید ہے اس لئے عالم آخرت اور برزخ کا قیاس دنیا پر نہیں کیا جا سکتا۔
اور اس میں شک نہیں کہ حضر ت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بجا اور درست فرمایا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقید پر غیر مقید کا قیاس کر لیا جائے کسی کو تاہ اور تنگ چیز کو فراخ اور وسیع شئے کی طرح تسلیم کر لیا جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر انور میں بھی ہیں اور جنت اعلیٰ میں بھی لہٰذا کوئی تعارض اور اشکال باقی نہ رہا ۔
اس بیان سے دونوں مسلکوں کی تائید ہو جاتی ہے ۔ یعنی حضور ﷺ کے جسد اقدس کی حیات روح مبارک کے اس میں پائے جانے کی وجہ سے ہے یا کمال اتصال کی بناء پر۔ ہمارے نزدیک پہلا مسلک قوی اور راجح ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے متعلق اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے
وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی (الضحیٰ آیت ۴)
اے محبوب ﷺ آپ کیلئے ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔
اس سے ثابت ہو ا کہ حضور ﷺ کیلئے کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا۔ جس میں حضو ر ﷺ کی کوئی فضیلت پہلے سے کم ہو بلکہ ہر آنے والی گھڑی میں حضور کی فضیلتیں پہلے سے زیادہ ہوںگی۔
روح اقدس کا استقرار اگر جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام میںہو تو ’’وَلَـلْاٰخِـرَۃُ خَیْـرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘ کے خلاف لازم آئے گا۔ ا س لئے کہ جسم اقدس سے روح مبارک کے قبض ہونے کے بعد اسے کوئی ایسی جگہ نہیں مل سکتی جو جسم مبارک سے زیادہ فضیلت والی ہو زیادہ تو درکنار تمام کائنات میں کوئی جگہ حضور ﷺ کے جسم اقدس کے برابر بھی فضیلت رکھنے والی نہیں کیونکہ علماء محققین نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ قبر انور اور زمین کا وہ حصہ جو حضور ﷺ کے اعضاء شریفہ سے متصل ہے تمام زمینوں اور آسمانوں اور کرسی اور یہاں تک کہ کعبہ مکرمہ اور عرش الٰہی سے افضل ہے۔ جسم اقدس سے اتصال (تعلق) رکھنے والی زمین عرش اور کعبہ سے افضل ہوئی ۔ تو خود جسم اقدس کا تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ چنانچہ الدر المنتقیٰ میں علامہ محمد علاء الدین الامام فرماتے ہیں
وما ضم اعضاء الشریفۃ افضل البقاع علی الاطلاق حتیٰ من الکعبۃ ومن الکرسی وعرش الرحمٰن
جو زمین اعضاء شریفہ سے متصل ہے (یعنی قبر ا نور ) مطلقاً تمام مقامات سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ سے اور کرسی اور عرش رحمن سے بھی افضل ہے۔ (الدر المنتقی بہا مش مجمع الانہار جلد اول ص ۳۱۲) (یہ مضمون درمختار جلد دوم اور شامی جلد دوم ص ۳۵۲/۳۵۱پر مر قوم ہے )
اگر روح مبارک جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام پر ہو تو حضور ﷺ کی فضیلت پہلے سے کم ہو جائے گی۔ لہٰذا یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ روح اقدس جسم مبارک سے باہر نکلنے کے بعد پھر جسم اقدس میں واپسی آگئی اور باہر نکلنا صرف قانون خداوندی کو پورا کر نے کے لئے تھا۔ روح مبارک کا جسم اقدس میں واپس آجانا حضور ﷺ کی حسی، حقیقی اور جسمانی حیات طیبہ کو مستلزم ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ وَنُوْرِ عَرْشِہٖ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔ آمِیْن بحق طٰہٰ و یٰس۔
فہرست ماخذ و مراجع
قرآن کریم
تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی
تفسیر عزیزی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی
تفسیر مدارک علامی نسفی
جلالین علامہ جلال الدین سیوطی
تفسیر خازن علامہ علی بن محمد خازن
روح المعانی سید محمود الوسی
مفردات راغب امام راغب اصفہانی
بخاری شریف امام محمد بن اسمٰعیل بخاری
مسلم شریف امام مسلم
جامع ترمذی امام ابو عیسیٰ ترمذی
ابو داؤد امام ابو داؤد
سنن نسائی امام نسائی
سنن ابن ماجہ امام ابن ماجہ
مسند ابو یعلیٰ حضرت ابو یعلیٰ
سنن بیہقی امام احمد بن حسین بیہقی
جامع سفیان ثوری حضرت سفیان ثوری
مشکوٰۃ ولی الدین عراقی
سنن دارمی امام دارمی
مسند احمد امام احمد بن حنبل
عمدۃ القاری بدر الدین عینی
شرح صحیح مسلم علامہ شرف الدین زکریا نووی
حصن حصین محمد بن محمد جزری
انباء الاذکیاء امام جلال الدین سیوطی
زرقانی علامہ عبد الباقی زرقانی
شامی علامہ ابن عابدین شامی
درِ مختار علامہ ابن عابدین شامی
طبقاتِ کبریٰ امام تقی الدین سبکی
شکایت اھل السنۃ امام ابو القاسم القشیر ی
تفسیر فتح القدیر علامہ شوکافی
مبسوط امام سرخسی
فیوض الحرمین حضرت شاہ ولی اللہ
حلیہ الاولیاء ابو نعیم اصفہانی
حیات الانبیاء امام بیہقی
تاریخ بخاری امام بخاری
الترغیب والترہیب امام اصفہانی
دلائل النبوۃ ابو نعیم اصفہانی
اخبار مدینہ زبیر بن بکار
طبقاتِ ابن سعد ابن سعد
شرح الصدور جلال الدین سیوطی
مدارج النبوۃ شیخ عبد الحق محدث دہلوی
شفاء السقام علامہ تقی الدین سبکی
فتاویٰ عزیزی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
شمائم امدادیہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی
فیض الباری مولانا انور شاہ کشمیری
الیواقیت والجواہر امام عبد الوہاب شعرانی
اعلاؤ السنن مصدقہ اشرف علی تھانوی
قسطلانی امام احمد قسطلانی
جذب القلوب شاہ عبد الحق محدث دہلوی
مواہب اللدنیہ امام احمد قسطلانی
البدایہ والنھایہ حافظ ابن کثیر
نسیم الریاض امام شہاب الدین خفا جی
جلاء الافہام ابن قیم جوزی
تہذیب التہذیب علامہ ابن حجر عسقلانی
الترغیب حافظ منذری
بوادر النوادر اشرف علی تھانوی
تدریب الراوی جلال الدین سیوطی
میزان الاعتدال علامہ ذہبی
رسالہ حیات الانبیاء امام احمد بن حسین بیہقی
الحاوی للفتاویٰ امام جلال الدین سیوطی
آبِ حیات مولوی محمد قاسم نانوتوی
رسالہ دینیات سید ابو الاعلیٰ مودودی
الدر المنتقی علامہ محمد علاؤ الدین
No comments:
Post a Comment