Saturday, 11 June 2016

فضائل و مناقب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا


















































































حضرت سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو "الزہرہ کیوں کہتے ہیں ؟

لسان العرب میں زہرا کا معنی ہے دُرۃ زہراء چمکتا موتی، یعنی بہت خوبصورت۔
(لسان العرب، 6 : 99)
کلی، یعنی باغ نبوت کی کلی
امام شافعی لکھتے ہیں :
و فاطمة الزهراء لانقطاعها عن نساء زماننا فضلا و دينا و حسبا و قيل عن الدنيا الی ربها.
فاطمہ کو زہراء اس لیے کہتے ہیں کہ آپ کو تمام خواتین پر دین کے لحاظ سے اور نسب کے لحاظ سے فضیلت دی گئ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ دنیا سے بے رغبتی اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والی تھیں۔
(شامی، 3 : 300)
--------------------------------------------------------------------------------
حضرت صفیہ بنت شیبہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺصبح کے وقت باہر تشریف لائے درآنحالیکہ آپ ﷺنے ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپﷺنے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ ﷺنے ان کو اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ ﷺنے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپﷺنے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کردے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النبي، 4 / 1883، الرقم : 2424، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 36102، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 672، الرقم : 1149، و ابن راهويه في المسند، 3 / 678، الرقم : 1271، و الحاکم في المستدرک، 3 / 169، الرقم : 4707، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، و الطبري في جامع البيان، 22 / 6، 7.


حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضورﷺ پر حضرت اُمّ سلم رضی اﷲ عنہا کے گھر میں یہ آیت مبارکہ. اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔ نازل ہوئی۔ تو آپﷺنے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کو بلایا اور ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضورﷺکے پیچھے تھے، آپﷺنے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے نجاست دور کر اور ان کو خوب پاک و صاف کر دے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 351، 663، الرقم : 3205، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 292، وفي فضائل الصحابة، 2 / 587، الرقم : 994، والحاکم في المستدرک، 2 / 451، الرقم : 3558، 3 / 158، الرقم : 4705، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 52، الرقم : 2662.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چھ (6) ماہ تک حضورﷺکا یہ معمول رہا کہ جب نمازِ فجر کے لئے نکلتے اور حضرت فاطمہرضی اللہ عنہا کے دروازہ کے پاس سے گزرتے تو فرماتے : اے اہل بیت! نماز قائم کرو (اور پھر یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے : )۔ اے اھلِ بیت! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 352، الرقم : 3206، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 259، 285، و في فضائل الصحابة، 2 / 761، الرقم : 1340، 1341، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32272، و الشيباني في الآحادو المثاني، 5 / 360، الرقم : 2953، و عبد بن حميد في المسند : 367، الرقم : 12223، و الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الرقم : 4748.

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے اس اِرشاد مبارکہ. اے اھلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے۔ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ پانچ ہستیوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 380، الرقم : 3456، و في المعجم الصغير، 1 / 231، الرقم : 375، و ابن حبان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 384، والخطيب في تاريخ بغداد، 10 / 278، و الطبري في جامع البيان، 22 / 6.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3510، و في کتاب : المناقب، باب : مناقب فاطمة، 3 / 1374، الرقم : 3556، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1903، الرقم : 2449، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32269، و أبو عوانة في المسند، 3 / 70، الرقم؛ 4233، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 361، الرقم : 2954، و الطبراني في المعجم الکبير، 202 / 404، الرقم : 1012.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا : بے شک فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ کوئی شخص اسے تکلیف پہنچائے خدا کی قسم کسی شخص کے پاس رسول اﷲ اور دُشمنِ خدا کی بیٹیاں جمع نہیں ہو سکتیں۔یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : ذکر أصهار النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1364، الرقم : 3523، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1903، الرقم : 2448، وابن ماجة في السنن، کتاب : النکاح، باب : الغيرة، 1 / 644، الرقم : 1999، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 759، الرقم : 1335، وابن حبان في الصحيح، 15 / 407، 408، 535، الرقم : 6956، 6957، 7060، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 18، 19، الرقم : 18، 19، 22 / 405، الرقم : 1013.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہیں، پس جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3510، و في کتاب : المناقب، باب : مناقب فاطمة، 3 / 1374، الرقم : 3556، و ابن أبي شيبة، المصنف، 6 / 388، الرقم : 32269، و أبو عوانة في المسند، 3 / 70، الرقم؛ 4233، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 361، الرقم : 2954، و الطبراني في المعجم الکبير، 202 / 404، الرقم : 1012.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ اُنہوں نے حضورﷺکو منبر پر فرماتے سنا : بنی ہشام بن مغیرہ نے اپنی بیٹی کا علی سے رشتہ کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے۔ میں انہیں اجازت نہیں دیتا دوبارہ میں انہیں اجازت نہیں دیتا، سہ بارہ میں انہیں اجازت نہیں دیتا اور حضورﷺنے یہ بھی فرمایا : میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے، اُس کی پریشانی مجھے پریشان کرتی ہے اور اُس کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے۔اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1902، الرقم : 2449، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الرقم : 3867، و أبو داود في السنن، کتاب : النکاح، باب : ما يکره أن يجمع بينهن من النساء، 2 / 226، الرقم : 2071، و ابن ماجة في السنن، کتاب : النکاح، باب : الغيرة، 1 / 643، الرقم : 1998، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 147، الرقم : 8518، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 328، و في فضائل الصحابة، 2 / 756، الرقم : 1328۔

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ تو بس میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1903، الرقم : 2449، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 97، الرقم : 8370، و البيهقي في السنن الکبري، 10 / 201، و الشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 361، الرقم : 2955، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 404، الرقم : 1010، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 2 / 40، والأندلسي في تحفة المحتاج، 2 / 585، الرقم : 1795۔

حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الرقم : 3869، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 5، و في فضائل الصحابة، 2 / 756، الرقم : 1327، و الحاکم في المستدرک، 3 / 173، الرقم : 4751، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 314، 315، الرقم : 274، و العسقلاني في فتح الباري، 9 / 329، و الشوکاني في درالسحابة، 16 / 274.

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ سے فرمایا : بیشک اﷲ تعالیٰ تیری ناراضگی پر ناراض ہوتا ہے اور تیری رضا پر راضی ہوتا ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4730، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 363، الرقم : 2959، و الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 108، الرقم : 182، 22 / 401، الرقم : 1001، و الدولابي في الذرية الطاهرة : 120، الرقم : 235، و القزويني في التدوين في أخبار قزوين، 3 / 11.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک فاطمہ میری ٹہنی ہے، جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اورجس چیز سے اُسے تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم اور احمد نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 12 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4734، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 332، و في فضائل الصحابة، 2 / 765، الرقم : 1347، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 362، الرقم : 2956، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 25، الرقم : 30، و أبونعيم في حلية الأولياء، 3 / 206، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 203.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پھر ان سے کچھ سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام اﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3511، و کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1327، الرقم : 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 296، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 77، و في فضائل الصحابة، 2 / 754، الرقم : 1322.

حضرت جمیع بن عمیر تیمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کون زیادہ محبوب تھا؟ اُمُّ المؤمنین رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ سلام اﷲ علیہا۔ عرض کیا گیا : مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا)؟ فرمایا : اُن کے شوہر، جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، و الحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4744، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403، 404، الرقم : 1008، 1009، و ابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 219، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 125، و المزي في تهذيب الکمال، 4 / 512، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 273.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا سے تھی اور مردوں میں سے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الرقم : 3868، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 140، الرقم : 8498، و الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4735، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 199، الرقم : 7262، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 131، و الشوکاني في درالسحابة، 10 / 274۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضورﷺجب سفر کا اِرادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہوتیں۔

أخرجه أبوداود في السنن، 4 / 87، الرقم : 4213، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 275، و البيهقي في السنن الکبري، 1 / 26، و زيد البغدادي في ترکة النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 57.

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کو آتے ہوئے دیکھتے تو انہیں خوش آمدید کہتے، پھر ان کی خاطر کھڑے ہو جاتے، انہیں بوسہ دیتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر لاتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے اور جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف تشریف لاتے ہوئے دیکھتیں تو خوش آمدید کہتیں پھر کھڑی ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، 392، الرقم : 9236، 9237، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 403، الرقم : 6953، و الحاکم في المستدرک، 4 / 303، الرقم : 7715، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 336، الرقم : 947، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 367، الرقم : 2967، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 242، الرقم : 4089، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 100، الرقم : 184.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم کی طرف نظرِ اِلتفات کی اور فرمایا : جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا، جو تم سے صلح کر ے گا میں اُس سے صلح کروں گا (یعنی جو تمہارا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے اور جو تمہارا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے)۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 442، و في فضائل الصحابة، 2 / 767، الرقم : 1350، و الحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4713، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2621، و الخطيب في تاريخ بغداد، 7 / 137، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 122، 3 / 257، 258.

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ سلام اﷲ علیہا کو خوش آمدید کہتے، کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی نشست پر بٹھا لیتے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الرقم : 4732، و النسائي في فضائل الصحابة، 1 / 78، الرقم : 264، و ابن راهوية في المسند، 1 / 8، الرقم : 6، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 101، و في شعب الإيمان، 6 / 467، الرقم : 8927، و المقري في تقبيل اليد، 1 / 91، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 50.

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے، انہیں بوسہ دیتے خوش آمدید کہتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست پر بٹھالیتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے ہاں رونق افروز ہوتے تو سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھڑی ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ دیتیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 174، الرقم : 4753، والمحب الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 85، و الهيثمي في موارد الظمآن : 549، الرقم : 2223، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 50، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 279.

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو کر کے سفر پر روانہ ہوتے وہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہوتیں، اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ سلام اﷲ علیہا ہی ہوتیں، اور یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے فرماتے : (فاطمہ!) میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 169، 170، الرقم : 4739، 4740، وابن حبان في الصحيح، 2 / 470، 471، الرقم : 696، والهيثمي في موارد الظمآن : 631، الرقم : 2540، وابن عساکر في ’تاريخ دمشق الکبير، 43 / 141.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کو میرے اور حضرت فاطمہ میں سے کون زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہے، اور تم میرے نزدیک اس سے زیادہ عزیز ہو۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه طبراني في المعجم الأوسط، 7 / 343، الرقم : 7675، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 173، والمناوي في فيض القدير، 4 / 422.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا آئیں اور ان کا چلنا ہو بہو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے جیسا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لختِ جگر کو خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا، پھر چپکے چپکے ان سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں۔ تو میں نے ان سے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کوئی بات چپکے چپکے کہی تو وہ ہنس پڑیں۔ پس میں نے کہا کہ آج کی طرح میں نے خوشی کو غم کے اتنے نزدیک کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے (حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا سے) پوچھا : آپ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا : میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو فاش نہیں کر سکتی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وِصال ہو گیا تو میں نے ان سے (اُس بارے میں) پھر پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے یہ سرگوشی کی کہ جبرئیل ہر سال میرے ساتھ قرآن کریم کا ایک بار دور کیا کرتے تھے لیکن اس سال دو مرتبہ کیا ہے، میرا خیال یہی ہے کہ میرا آخری وقت آ پہنچا ہے اور بے شک میرے گھر والوں میں سے تم ہو جو سب سے پہلے مجھ سے آ ملو گی۔ اس بات نے مجھے رلا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم تمام جنتی عورتوں کی سردار ہو یا تمام مسلمان عورتوں کی سردار ہو! تو اس بات پر میں ہنس پڑی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1326، 1327، الرقم : 3426، 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 282.

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اے فاطمہ! کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تم مسلمان عورتوں کی سردار ہو یا میری اِس اُمت کی سب عورتوں کی سردار ہو!‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستئذان، باب : من ناجي بين يدي الناس ولم يخبر بسر صاحبه، 5 / 2317، الرقم : 5928، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابم، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 263، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الطيالسي في المسند : 196، الرقم : 1373، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 247.

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک فرشتہ جو اِس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اُترا تھا، اُس نے اپنے پروردگار سے اِجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہو اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ فاطمہ اھلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، 5 / 660، الرقم : 3871، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 80، 95، الرقم : 8298، 8365، و النسائي في فضائل الصحابة : 58، 76، الرقم : 193، 260، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 391، وفي فضائل الصحابة، 2 / 788، الرقم : 1406، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32271، و الحاکم في المستدرک، 3 / 164، الرقم : 4721، 4722.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار (4) لکیریں کھینچیں اور فرمایا : تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : اﷲ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اہل جنت کی عورتوں میں سے افضل ترین (چار) ہیں : خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران رضی اﷲ عنھن اجمعین۔‘‘ اسے امام احمد بن حنبل اور امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 293، 316، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 93، 94، الرقم : 8355، 8364، و النسائي في فضائل الصحابة : 74، 76، الرقم : 250، 259، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 470، الرقم : 7010، و الحاکم في المستدرک، 2 / 539، الرقم : 3836، 3 / 174، الرقم : 4752، 4754، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 760، 761، الرقم : 1339.

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے فاطمہ! کیا تو نہیں چاہتی کہ تو تمام جہانوں کی عورتوں، میری اس اُمت کی تمام عورتوں کی اور مؤمنین کی تمام عورتوں کی سردار ہو!‘‘ اسے امام نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 27 : أخرجه النسائي في السنن الکبري، 4 / 251، الرقم : 7078، 5 / 146، الرقم : 8517، والحاکم في المستدرک، 3 / 170، الرقم : 4740، وابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 247، 248، 8 / 26، 27، و ابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 218.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان کے ایک فرشتے نے میری زیارت نہیں کی تھی، پس اُس نے اﷲ تعالیٰ سے میری زیارت کی اجازت لی اور اُس نے مجھے خوشخبری سنائی (یا) مجھے خبر دی کہ فاطمہ میری اُمت کی عورتوں کی سردار ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے اور امام بخاری نے ’التاریخ الکبير‘ میں روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403، الرقم : 1006، و البخاري في التاريخ الکبير، 1 / 232، الرقم : 728، و الذهبي في سير اعلام النبلاء، 2 / 127، و المزي في تهذيب الکمال، 26 / 391.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور اُس کی ناراضگی مجھے پسند نہیں۔ خدا کی قسم کسی شخص کے پاس رسول اﷲ اور دُشمن خدا کی بیٹیاں جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : ذکر أصهار النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1364، الرقم : 3523، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1903، الرقم : 2448، و ابن ماجة في السنن، کتاب : النکاح، باب : الغيرة، 1 / 644، الرقم : 1999، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 759، الرقم : 1335، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 407، 408، 535، الرقم : 6956، 6957، 7060، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 18، 19، الرقم : 18، 19، 22 / 405، الرقم : 1013.

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا : بنی ہشام بن مغیرہ نے اپنی بیٹی کا علی سے رشتہ کرنے کی مجھ سے اجازت مانگی ہے۔ میں انہیں اجازت نہیں دیتا دوبارہ میں انہیں اجازت نہیں دیتا، سہ بارہ میں انہیں اجازت نہیں دیتا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے، اُس کی پریشانی مجھے پریشان کرتی ہے اور اُس کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1902، الرقم : 2449، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الرقم : 3867، و أبو داود في السنن، کتاب : النکاح، باب : ما يکره أن يجمع بينهن من النساء، 2 / 226، الرقم : 2071، و ابن ماجة في السنن، کتاب : النکاح، باب : الغيرة، 1 / 643، الرقم : 1998، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 147، الرقم : 8518، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 328، و في فضائل الصحابة، 2 / 756، الرقم : 1328.

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی اور سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہما کی شادی کی رات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مجھے ملے بغیر کوئی عمل نہ کرنا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوایا، اس سے وضو کیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر پانی ڈال کر فرمایا : اے اﷲ! ان دونوں کے حق میں برکت اور ان دونوں پر برکت نازل فرما، ان دونوں کے لئے ان کی اولاد میں برکت عطا فرما۔‘‘ اس حدیث کو امام نسائی امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه النسائي في السنن الکبري، 6 / 76، الرقم : 10088، و في عمل اليوم و الليلة : 253، الرقم : 258، و الروياني في المسند، 1 / 77، الرقم : 35، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 20، الرقم : 1153، و ابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 217، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 / 21، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 209.

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 156، الرقم؛ 10305، والحسيني في البيان و التعريف، 1 / 174، الرقم؛ 455، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 204، و الحلبي في الکشف الحثيث، 1 / 174، و المناوي في فيض القدير، 2 / 215.

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : یہ جبرئیل علیہ السلام مجھے بتا رہے ہیں کہ اﷲ تعالی نے فاطمہ سے تمہاری شادی کر دی ہے اور تمہارے نکاح پر چالیس ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیا، اور شجر ہائے طوبی سے فرمایا : ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو پھردلکش آنکھوں والی حوریں اُن موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں۔ جنہیں (تقریب نکاح میں شرکت کرنے والے) فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحائف دیں گے۔‘‘ اس حدیث کو محب طبری نے روایت کیا ہے۔

أخرجه محب الدين الطبري في الرياض النضرة في مناقب العشرة، 3 / 146، وفي ذخائر العقبي في مناقب ذَوِي القربي، 1 / 72.

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتہ نے آ کر عرض کیا : اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : میں نے آپ کی بیٹی فاطمہ کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ کا نکاح علی سے کر دیں۔ اس حدیث کو محب طبری نے روایت کیا ہے۔

أخرجه محب الدين الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 / 73.

حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا : میری بیٹی سیدہ فاطمہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گی کہ اس پر عزت کا جوڑا ہو گا جسے آب حیات سے دھویا گیا ہے۔ ساری مخلوق اسے دیکھ کر دنگ رہ جائے گی، پھر اسے جنت کا لباس پہنایا جائے گا جس کا ہر حلہ ہزار حلوں پر مشتمل ہو گا، ہر ایک پر سبز خط سے لکھا ہو گا : محمد کی بیٹی کو اَحسن صورت، اَکمل ہیبت، تمام تر کرامت اور بے پناہ عزت و احترام سے جنت میں لے جاؤ۔ پس آپ کو دلہن کی طرح سجا کر ستر ہزار حوروں کے جھرمٹ میں جنت کی طرف لایا جائے گا۔‘‘ اس حدیث کو محب طبری نے روایت کیا ہے۔

أخرجه محب الدين الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 / 95.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام اﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3511، و کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1327، الرقم : 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 296، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 77، و في فضائل الصحابة، 2 / 754، الرقم : 1322.

حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع تھیں اور کوئی ایک بھی ہم میں سے غیر حاضر نہ تھی، اِتنے میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنھا وہاں تشریف لے آئیں، تو اﷲ کی قسم اُن کا چلنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے سے ذَرّہ بھر مختلف نہ تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستئذان، باب : من ناجي بين الناس ومن لم بسر صاحبه فإذا مات أخبر به، 5 / 2317، الرقم : 5928، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 263، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الطيالسي في المسند : 196، الرقم : 1373، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 247، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 101، 102، الرقم : 188.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام اَزواج جمع تھیں اور کوئی بھی غیر حاضر نہیں تھی۔ اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا آئیں جن کی چال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے کے مشابہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مرحبا (خوش آمدید) میری بیٹی! پھر اُنہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا۔‘‘ اسے امام مسلم، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، 1906، الرقم : 2450، و ابن ماجة في السنن، کتاب : ماجاء في الجنائز، باب : ماجاء في ذکر مرض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 518، الرقم؛ 1620، و النسائي في السنن الکبري، 4 / 251، الرقم : 7078، 5 / 96، 146، الرقم : 8368، 8516، 8517، و في فضائل الصحابة، 77، الرقم : 263، و في کتاب الوفاة، 1 / 20، الرقم : 2.

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا سے بڑھ کر کسی کو عادات و اَطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابوداود نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : ماجاء في فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 700، الرقم : 3872، و أبوداود في السنن، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في القيام، 4 / 355، الرقم : 5217، و النسائي في فضائل الصحابة : 78، الرقم : 264، و الحاکم في المستدرک، 4 / 303، الرقم : 7715، و البيهقي في السنن الکبري، 5 / 96، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 248، و إبن جوزي في صفة الصفوة، 2 / 6، 7.

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے ’’ الادب المفرد‘‘ میں اور امام نسائی و ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 326، 377، الرقم : 947، 971، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 391، الرقم : 9236، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 403، الرقم : 6953، و الحاکم في المستدرک، 3 / 167، 174، الرقم : 4732، 4753، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 242، الرقم : 40890، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 101، و ابن راهوية في المسند، 1 / 8، الرقم : 6.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب آیت : ’’جب اﷲ کی مدد اور فتح آ پہنچے۔‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو بلایا اور فرمایا : میری وفات کی خبر آ گئی ہے، وہ رو پڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مت رو، بے شک تم میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھ سے ملو گی تو وہ ہنس پڑیں، اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعض ازواج نے بھی دیکھا۔ انہوں نے کہا : فاطمہ! (کیا ماجرا ہے)، ہم نے آپ کو پہلے روتے اور پھر ہنستے ہوئے دیکھا ہے؟ آپ نے جواب دیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا : میری وفات کا وقت آ پہنچا ہے۔ (اس پر) میں رو پڑی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مت رو، تم میرے خاندان میں سب سے پہلے مجھے ملو گی، تو میں ہنس پڑی۔‘‘ اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

اأخرجه الدارمي في السنن، 1 / 51، الرقم : 79، و ابن کثير في تفسير قرآن العظيم، 4 / 561.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺنے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے لئے خصوصی دعا فرمائی : اے اﷲ! میں (اپنی) اس (بیٹی) اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن حبان، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 394، 395، الرقم : 6944، و الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 409، الرقم : 1021، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الهيثمي في موارد الظمآن، 550، 551، الرقم : 2225، و ابن الجوزي في تذکرة الخواص، 1 / 277، و المحب الطبري في ذخائر العقبي، 1 / 67.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کوئی بھی شخص حضرت حسن بن علی اور حضرت فاطمہ الزہراء (رضی اللہ عنھم) سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔الحديث رقم 51 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 164.

حضرت امّ سلمی رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیھا اپنی مرض موت میں مبتلا ہوئیں تو میں ان کی تیمارداری کرتی تھی۔ بیماری کے اس پورے عرصہ کے دوران جہاںتک میں نے دیکھا ایک صبح ان کی حالت قدرے بہتر تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کسی کام سے باہر گئے۔ سیدۂ کائنات نے کہا : اے اماں! میرے غسل کے لیے پانی لائیں۔ میں پانی لائی۔ آپ نے جہاں تک میں نے دیکھا بہترین غسل کیا۔ پھر بولیں : اماں جی! مجھے نیا لباس دیں۔ میں نے ایسا ہی کیا آپ قبلہ رخ ہو کر لیٹ گئیں۔ ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے کر لیا پھر فرمایا : اماں جی : اب میری وفات ہو جائے گی، میں (غسل کر کے) پاک ہو چکی ہوں، لہٰذا مجھے کوئی نہ کھولے پس اُسی جگہ آپ کی وفات ہوگئی۔ حضرت اُمّ سلمی بیان کرتی ہیں کہ پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ تشریف لائے تو میں نے انہیں ساری بات بتائی۔‘‘ اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 461، الرقم : 27656. 27657، والدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 113، والزيلعي في نصب الراية، 2 / 250، والطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي، 1 / 103، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 210، وابن الأثير في أسد الغابة، 7 / 221.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا : ہر ماں کی اولاد کا عصبہ (باپ) ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتی ہے، سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، کہ میں ہی اُن کا ولی اور میں ہی اُن کا نسب ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 179، الرقم : 4770، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف بحب اَقرباء الرسول صلي الله عليه وآله وسلم و ذَوِي الشرف، 1 / 130.

حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میرے نسب اور رشتہ کے سوا قیامت کے دن ہر نسب اور رشتہ منقطع ہو جائے گا۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 153، الرقم : 4684، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 625، 626، 758، الرقم : 1069، 1070، 1333، و البزار في المسند، 1 / 397، الرقم : 274، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، 45، الرقم : 2633، 2634، و في المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم : 5606، 6 / 357، الرقم : 6609.

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺکی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضورﷺکے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4736، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم : 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم : 2952، والخطيب في تاريخ بغداد، 4 / 401.

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک فاطمہ نے اپنی عصمت و پاک دامنی کی ایسی حفاظت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اور اُس کی اولاد کو آگ پر حرام فرما دیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 407، الرقم : 1018، و البزار في المسند، 5 / 223، الرقم : 1829، و الحاکم في المستدرک، 3 / 165، الرقم : 4726، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 188، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 115، 116.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہاری اولاد کو آگ کا عذاب نہیں دے گا۔

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 263، الرقم : 11685، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 202، و السخاوي في اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 117.

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے فاطمہ رضی اﷲ عنہا سے افضل اُن کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی شخص نہیں پایا۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 137 الرقم : 2721، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 201، و الشوکاني في درالسحابة، 1 / 277، الرقم : 24.

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنھا سے فرمایا : میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تو مجھ سے ملے گی۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے ’’فضائل الصحابہ‘‘ میں امام ابونعیم نے روایت کیا ہے۔

أخرجه أحمد بن حنبل في فصائل الصحابة، 2 / 764، الرقم : 1345، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 40.


حضرت عمرو بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے بابا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا میں نے فاطمہ سے زیادہ سچا کائنات میں کوئی نہیں دیکھا۔

أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 41، 42.

حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے جدا کر دیا ہے۔

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 346، الرقم : 1385، و الهندي في ’کنز العمال، 12 / 109، الرقم : 34227، و السخاوي في ’اِستجلاب اِرتقاء الغرف، 1 / 96.


حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا ترازو ہوں، علی اس کا پلڑا ہے، حسن اور حسین اُس کی رسیاں ہیں، فاطمہ اُس کا دستہ ہے اور میرے بعد اَئمہ اَطہار (اُس ترازو کی) عمودی سلاخ ہیں، جس کے ذریعے ہمارے ساتھ محبت کرنے والوں اور بغض رکھنے والوں کے اَعمال تولے جائیں گے۔

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 44، الرقم : 107، و العجلوني في ’کشف الخفاء، 1 / 236۔

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...