Thursday, 22 May 2025

منافق کسے کہتے ہیں ، منافقت کی علامات اور منافقین کی پہچان

منافق کسے کہتے ہیں ، منافقت کی علامات اور منافقین کی پہچان

محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کی معروف اصطلا حات میں سے ایک اصطلاح منافق بھی ہے ۔ اسلامی سو سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ، ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ ’’دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔
سورۃ العنکبوت کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَيَـعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ ۔ (سورۃ العنكبوت آیت نمبر 11)
ترجمہ : اور ضرور الله ظاہر کردے گا ایمان والوں کو اور ضرور ظاہر کردے گا منافقوں کو ۔

"منافق" نفق سے ماخوذ ہے ۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے ۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے کا نام قاصعاء ہے ۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے ۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے ، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے ۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں ۔ ایک کفر ، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے ۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتا ہے ۔ (لسان العرب)

مُنافقت کا معنیٰ ہے اپنے قول او رعمل سے وہ کچھ ظاھر کرنا جو دِل میں موجود عقائد و عزائم کے خِلاف ہو اور اِسلام میں منافقت کا مفہوم ، دِل میں کفر ، شرک اور گناہوں کا اقرار اور عمل کے وجود کے ساتھ ، اپنے آپ کو قولی اور عملی طور پر اِیمان والا ، اللہ کی توحید کو ماننے والا، اور گناہوں سے دُور رہنے و الا ظاہر کرنا ۔
اللہ تعالیٰ نے جہنم کا سب سے نچلا درجہ ، منافقین ، یعنی ، منافقت کرنے والوں کا ٹھکانہ مقرر فرما رکھا ہے : اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ فِى الدَّرۡكِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ‌ ۚ وَلَنۡ تَجِدَ لَهُمۡ نَصِيۡرًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 145)
ترجمہ : بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور (اے مخاطب) تو ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہیں پائے گا ۔

خواہ یہ مُنافق ، نفاق اکبر (بڑی مُنافقت) پر عمل کرنے والے ہوں ، یا نفاق اصغر (چھوٹی مُنافقت) پر ، اعتقادی نفاق والے ہوں یا عملی مُنافقت والے ، سب کا ٹھکانہ وہی ہے ۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا منافق آگ کے سب سے نچلے درک میں ہوں گے ، ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ درک کا معنی منزل ہے اور جہنم میں کئی منازل ہیں اور منافق سب سے نچلی منزل میں ہوں گے ، ابن الانباری نے کہا ہے کہ درک سیڑھی کے ڈنڈے کو کہتے ہیں ، ضحاک نے کہا جب منازل میں یہ لحاظ کیا جائے کہ بعض ، بعض سے اوپر ہیں تو ان کو درج (درجہ) کہتے ہیں اور جب یہ لحاظ کیا جائے کہ بعض بعض سے نیچے ہیں تو ان کو درک کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا جنت میں درجات ہیں اور دوزخ میں درکات ہیں ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت کی تفسیر میں فرمایا منافق لوہے کہ ایک ایسے تابوت میں ہوں گے جس کا کوئی دروازہ نہیں ہوگا ۔ (جامع البیان جز ٥ صفحہ ٤٥٤)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : دوزخ کے سات طبقات ہیں ، پہلا طبقہ جہنم ہے دوسرا لظی ہے ، تیسرا الحطمہ ہے چوتھا السعیر ہے ، پانچواں سقر ہے چھٹا جحیم ہے اور ساتواں ھاویہ ہے اور کبھی ان تمام طبقات پر جہنم کا اطلاق بھی کردیا جاتا ہے ، ان طبقات کو درکات اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تہ در تہ ہیں ، اور منافقوں کا آخری طبقہ میں ہونا ان کے شدت عذاب پر دلالت کرتا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی جلد ٥ صفحہ ١٧٧ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٦٨٢‘ ٣٣،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٩)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦)(مسند احمد جلد ٣ رقم الحدیث : ٩١٦٩)(سنن کبری للبیہقی جلد ٦ صفحہ ٢٨٨)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہوگا ، اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی حتی کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے ، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے ، اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٦٨٢ ‘ ٣٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٩،چشتی)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦)(مسند احمد جلد ٣ رقم الحدیث : ٩١٦٩)(سنن کبری للبیہقی جلد ٦ صفحہ ٢٨٨)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہوگا ‘ اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی حتی کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے ‘ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٤٥٩ ، ٣٤)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٨)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٤١)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٦٨٨)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٠٣)(مسند احمد جلد ٢ رقم الحدیث : ٦٧٨٢)(سنن کبری جلد ٩ صفحہ ٢٣٠)

بظاہر اس حدیث میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے اس میں نفاق کی خصلت ہوگی ، محدثین کرام نے اس حدیث کے متعدد جوابات ذکر کیے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں : ⏬

یہ علامتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص تھیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وحی کے نور سے لوگوں کے دلوں میں کے حال پر مطلع تھے ، اور آپ جانتے تھے کہ کون منافق ہے اور کون منافق نہیں ہے اور چونکہ یہ غیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا اس لیے آپ نے اپنے اصحاب کو یہ نشانیاں بتائیں تاکہ وہ ان علامتوں سے منافقوں کو پہچان لیں اور ان سے احتراز کریں اور آپ نے معین کر کے نہیں بتایا کہ فلاں فلاں منافق ہے تاکہ فتنہ پیدا نہ ہو اور یہ لوگ مرتد ہو کر مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ جو شخص حلال اور جائز سمجھ کر یہ چار کام کرے وہ منافق کے حکم میں ہوگا ۔

جو شخص ان اوصاف کے ساتھ متصف ہو وہ منافقین کے مشابہ ہوگا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تغلیظا اور تہدیدا منافق کا اطلاق فرمایا ہے اور یہ اس شخص کے متعلق فرمایا ہے جو عادۃ یہ چار کام کرتا ہو اور اس کے متعلق نہیں فرمایا جس سے نادرا یہ کام سرزد ہوں ۔

عرف میں منافق اس شخص کو کہتے ہیں جس کا ظاہر باطن کے خلاف ہو سو ایسا شخص عرفا منافق ہے شرعا منافق نہیں لہٰذا ایسے شخص کا کافر نہیں قرار دیا جائے گا نہ وہ اس آیت کی وعید کا مصداق ہوگا ۔

دینی معاملات میں ایسے شخص کا حکم منافق کا ہوگا اور اس کی خبر معتبر نہیں ہوگی ۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں تین کاموں کو منافق کی علامت فرمایا ہے اور دوسری میں چار کاموں کو منافق کی علامت قرار دیا ہے ، یہ اختلاف مقتضی حال اور مقام کے اعتبار سے ہے ۔ کبھی آپ کے سامنے ایسے منافق تھے جس میں چار خصلتیں تھیں اور کبھی ایسے تھے جن میں تین خصلتیں تھی اس وجہ سے کبھی آپ نے تین علامتیں بیان فرمائیں اور کبھی چار ۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور (اے مخاطب) تو ان کےلیے کوئی مددگار نہیں پائے گا اس آیت میں منافقین کی نصرت کی نفی کی تخصیص کی ہے اور یہ تخصیص اس وقت صحیح ہوگی جب مخلص مسلمانوں کی نصرت اور ان کی شفاعت کی جاسکے ، اور تب ہی منافقین کی مدد کا نہ کیا جانا ان کےلیے باعث حسرت اور افسوس ہوگا اور اگر مخلص مسلمانوں کی بھی مدد نہ کی جائے تو منافقین کو کیوں ندامت اور حسرت ہوگی ۔

بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رذائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چالاکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔

اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل مومن کی پہچان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)

امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ، اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن ہے : ⬇

۱۔ امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا، اچھے مال سے خراب مال بدل لینا۔
۲ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے۔
۳۔ ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔
۴۔ راز بھی امانت ہے، اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے۔
۵۔ وقت کا ضیاع، کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے۔
۶۔ رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے۔
کذب بیانی
منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے، اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں:
۱۔ اللہ کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتا نا۔
۔ اللہ کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا،
۳۔ جھوٹی خبریں، اور جھوٹے واقعات بیان کرنا، سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔
۴۔ جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے، جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد خدا وندی ہے:’’ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا‘‘۔( آل عمران: ۷۷)
اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نا فرمانی کرنا، سنو! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی)
جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا، غلط طریقے سے سامان بیچنا ،اور خریدار کو فریب دینا بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے، اس ضمن میں نبیؐ کا ارشاد ہے:’’ تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت اللہ تعالی نہ دیکھے گا، نہ ان کا تزکیہ کرے گا، اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا(۱) تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا (متکبر)، (۲) احسان جتانے والا، (۳) جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے والا۔
۵۔ ایک اور انتہائی درجہ بد اخلاقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث ہے، بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’بے شک جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور: ۳۳)
اسلامی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈالا جائے اور کسی بھی مومن یا مومنہ کی سرِ بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت، بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقاً کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔

منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل)
’’ اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے، لیکن عادتاً اور عرفاََاُن کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو، جس نوعیت کا بھی عہد ہو، اگر وہ خلاف شریعت نہیں ہے تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔ عہد کی دو قسمیں ہیں:
الف) اللہ اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا اللہ سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ معاملات میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘۔( سورۃ المائدۃ، آیت:۱)
’’ یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں ‘‘
عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے، اس کی مثال ہے کام چوری کرنا، دھوکہ دینا، وعدہ پورا نہ کرنا، وغیرہ
بد زبانی و بد کلامی
منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کلامی ہے، یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا ہے، نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے‘‘(ترمذی) جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی لا یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے، جیسا سورۃ الواقعۃ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعۃ: ۲۵۔۲۶)
سطور بالاکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی منافقت کے مہلک مرض میں مبتلا تو نہیں ہو رہے ہیں ؟

عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں : ⏬

محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ  وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر 8)
ترجمہ : کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اُسے جو نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔

یعنی منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ، اللّٰہ تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ، اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد اللّٰہ بن اُبی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون : ۸، ۴/۲۷۴)

عبد اللّٰہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول تھے ، جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واللّٰہ میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ، اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،غزوۃ بنی المصطلق ،۲/۳۹۳،چشتی)(مدارج النبوۃ، قسم سوم، باب پنجم، ۲/۱۵۷)

ہر مومن عزت والا ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے ۔ مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ، روپیہ پیسہ سے نہیں ۔ مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی لاش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔ جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے ، غریب مسکین مومن عزت والا ہے جبکہ مالدار کافر بد تر ہے ۔

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر 13)
ترجمہ : اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔

آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔

شانِ نزول : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا : جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا ، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ، پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے ، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸،چشتی)

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : فتحِ مکہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1) نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ (2) گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘ ۔
ترجمہ : اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو ، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)

حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ، پھر فرمایا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘ ۔
ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔
تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸/۱۲، الحدیث: ۱۶،چشتی)

حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : ’’اے میرے بندو ! میں نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ، آج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ، میں ہی غالب حکمران ہوں ، کہاں ہیں مُتَّقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱/۳۳۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے ۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو : ⏬

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932)(طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568،چشتی)(منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679)

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یصف اھل النار فیمُرُبِھِم ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فلان! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شربَۃً و قال بعضھم اناالّذی وھبتُ لک وضوءً فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ:3685،مشکوٰۃ،494)
ترجمہ : گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صفِ بستہ کھڑے ہوں گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فلاں موقع پر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کےلیے پانی لا کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا ۔

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُنَافِقَ الْعَلِیمَ ، میں اس اُمت پر صاحبء علم منافقوں کے بارے میں بہت ڈرتا ہوں ۔ پوچھا گیا ، منافق صاحبء علم کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو أمیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے اِرشاد فرمایا عَالِمُ اللِّسَانِ، جَاهِلُ الْقَلْبِ وَالْعَملِ ، زبان کا عِالم لیکن دِل اور عمل سے جاھل ۔ (الاحادیث المختارہ حدیث نمبر 236 روایۃ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ، ابو عثمان عبدالرحمٰن بن مل النھدی عن عمر رضی اللہ عنہ،چشتی)

صاحب کتاب امام محمد بن عبدالواحد المقدسی علیہ الرحمہ کا کہنا ہے کہ اسے مخلتف اسناد سے روایت کیا گیا ہے ، جن میں مرفوع بھی ہیں اور موقوف بھی ہیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ، یعنی عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ۔

حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ منافق کون ہے ؟ فرمایا الَّذِی یصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا یعْمَلُ بِهِ ، یعنی وہ جو اِسلام کا دعویٰ دار ہو لیکن اُس پر عمل نہ کرتا ہو ۔ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ ہم حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات (یعنی ان کی تعریف ہی) کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کے خلاف بات کرتے ہیں " تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا ہم اُسے مُنافقت میں گنا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب 27) ۔ مختلف الفاظ میں یہ اثر بہت سی کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً سُنن ابن ماجہ حدیث 3975 کتاب الفتن باب 12 ، مسند احمد حدیث 5829)

منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو ۔ سورۃ البقرہ کی آیات 8 تا 20 میں مسلسل منافقین کی علامات بیان کی گئی ہیں ۔ یہ علامات منافقین پر قرآن حکیم کا واضح چارٹر ہے جو اس لیے دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے سکے اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کر سکے ۔ منافقت کی علامات درج ذیل ہیں : ⏬

(1) دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
(2) محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
(3) دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا۔
(4) یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
(5) یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
(6) قلب و باطن کا بیمار ہونا۔
(7) جھوٹ بولنا۔
(8) نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔
(9) دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
(10) امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔
(11) اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔
(12) کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔
(13) اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔
(14) مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
(15) باطل کو حق پر ترجیح دینا۔
(16) سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔
(17) تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔
(18) اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا۔
(19) اہل حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔
(20) اپنے مفادات کے حصول کے لئے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔
(21) حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔

گذارش : ہم سب ذرا اپنے بارے میں سوچیں تو کہ ہم کونسی سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ؟ اور ہمارے اَرد گِرد کس کس میں کیا کیا نشانی پائی جاتی ہے ؟ اور اگر ہمارے اندر اِن میں سے کوئی نشانی ہے تو اُس سے نجات کی کوشش کریں ، اور اپنے جِس مُسلمان بھائی بہن میں اِن میں سے کوئی نشانی پائیں اُسے بھی حِکمت اور نرمی کے ساتھ آگاہ کرتے ہوئے اصلاح کی رغبت دلائیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو مُنافقت اور مُنافقین سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...