کافر کی تعظیم کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام قرآنِ پاک میں ارشاد ہے : وَیٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۔ (سورہ ھود آیت نمبر 30)
ترجمہ : اور اے قوم مجھے اللہ سے کون بچالے گا اگر میں انہیں دور کروں گا تو کیا تمہیں دھیان نہیں ۔
پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہیں مثلِ یہودی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتے ہیں شراب
اس آیتِ مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ عقل اور شریعت ا س بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم کرنا جبکہ فاسق و فاجر اور کافر کی توہین کرنا ضروری ہے اور اس کے برخلاف کرنا یعنی فاسق و فاجر اور کافر کو تعظیم کے طور پر قربت سے نوازنا اور نیک ، متقی ، پرہیز گار مسلمانوں کو ان کی توہین کے طور پر اپنے آپ سے دور کر دینا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے لوگوں نے غریب مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں حضرت نوح علیہ السلام نے یہ جواب دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بفرضِ محال اگر میں شریعت کے حکم کے برخلاف کافر اور فاجر کی تعظیم کر کے اسے اپنی بارگاہ میں قرب سے نوازوں اور متقی مومن کی توہین کر کے اسے اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور اس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حق دار ٹھہروں گا ، مجھے بتاؤ! پھر اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کون بچائے گا؟ تو کیا تم اس بات سے نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ ایسا کرنا درست نہیں ۔ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۳۳۹ ۔ ۳۴۰)
کافر کی تعظیم کفر ہے جبکہ اس کے کفر کو اچھا جان کر تعظیم کرے اور اگر مذکورہ الفاظ تعظیم کےلیے نہیں کہے بلکہ کسی مجبوری میں کہے جیسے اسے مخاطب یا متوجہ کرنے کے لیے یا اگر نہیں کہتا تو وہ کوئی نقصان پہنچائےگا تو حرج نہیں ۔
اگر کافر کے کفر کو اچھا جان کر تعظیم کرے گا تو خود کافر ہو جائے گا ۔ شریعت میں مومن کی تکریم اور کافر کی تذلیل مطلوب ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل اور شرع اس بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم اور تکریم ضروری ہے اور کافر اور فاجر کی توہین کرنا ضروری ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون ۔ (سورہ المنافقون آیت نمبر ٨)
ترجمہ : عزت تو اللہ اور رسول اور ایمان والوں کےلیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے ۔
فاذا قہم اللہ الخزی فی الحیوۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اکبر ۔ (سورہ الزمر آیت نمبر ٢٦)
ترجمہ : سو اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کا مزہ چکھایا اور یقیناً آخرت کا عذاب سب عذابوں سے بڑا ہے ۔
لہم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ١١٤)
ترجمہ : ان (کافروں) کےلیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کےلیے بہت بڑا عذاب ہے ۔
کافر کی عزت و تعظیم اور دوستی کرنے کی ممانعت آئی ہے ، اس لیے کہ عزت دینا دوستی کا حصہ ہے اور یہ منع ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 51)
ترجمہ : اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔
یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا ۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں ، اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہو سکتا ، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ : یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ، عبادہ کا یہ کام نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)
اس آیتِ مبارکہ میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا ، اُن سے مدد چاہنااور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل صفحہ ۲۸۹)
لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود و نصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہر مخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے ۔ (تفسیر مدارک صفحہ ۲۸۹،چشتی)(تفسیر خازن جلد، ۱ صفحہ ۵۰۳)
اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔
نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا تبدءوا اليهود والنصارى بالسلام وإذا لقيتم أحدهم فى طريق فاضطروهم إلى أضيقه ۔
ترجمہ : تم یہود و نصاری کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب تم ان سے کسی راستہ پر ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو ۔ (صحيح مسلم ، كتاب السلام باب 4 حدیث نمبر 2167)(مسند احمد جلد 2 صفحہ 346)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : الإسلام يعلوا ولا يعلى عليه ۔
ترجمہ : اسلام بلند ہوتا ہے اور اس پر کسی چیز کو بلند نہیں کیا جا سکتا ۔ (السنن الكبرى للبيهقى جلد 6 صفحہ 205،چشتی)(سنن الدارقطنی جلد 3 صفحہ 252)
ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہ تحریر بھیجی کہ شام میں ایک نصرانی کاتب (کلرک) ہے اور شام کا خراج صرف اسی کے ذریعے وصول ہوتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب لکھا کہ ”نصرانی مرجائے“ والسلام ۔ یعنی اسے موت نصیب ہو ۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے : قیل لعمر بن الخطاب (رضي الله عنه): إن ههنا غلاماً من أهل الحیرة حفِظ کاتب، فلوا اتخذته کاتباً! فقال: قد اتخذت إذاً بطانةً من دون المؤمنین ۔
ترجمہ : حضرت فاروق اعظم سے کہا گیا کہ یہاں حیرہ کا رہنے والا ایک منشی ہے جو کہ اس فن کو خوب جاننے والا ہے، آپ اس کو اپنے ہاں منشی رکھوائیں ۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا : اس (غیر مسلم) کو منشی رکھنے سے قرآن کی (مندرجہ بالا) آیت کی مخالفت لازم آئے گی۔ اور اس وقت گویا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلم کو اپنا راز دان بناؤں گا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 234 مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،چشتی)
درمختارمیں ہے : یمنع من استکتاب ومباشرۃ یکون بھا معظما عند المسلمین وتمامہ فی الفتح وفی الحاوی ینبغی ان یلازم الصغار بینہ وبین المسلم، فی کل شیئ وعلیہ فیمنع من القعود حال قیام المسلم عندہ بحر، ویحرم تعظیمہ ۔
ترجمہ : ذمی کافر کو ایسا عہدہ دیناجس میں براہ راست وہ خود کام کرے جو مسلمانوں کے نزدیک عظمت والا ہو جائز نہیں ، اس کا پوار بیان فتح القدیر میں ہے۔ حاوی میں ہے وہ مسلمان کے ساتھ ہر معاملہ میں دبا ہوا ذلیل رہے تو جب تک ا س کے پاس کوئی مسلمان کھڑا ہواُسے بیٹھنے نہ دیں گے ، یہ بحرالرائق میں ہے، اور اس کی تعظیم حرام ہے ۔ (الدرالمختار فصل فی الجزیۃ صفحہ 342 دار الكتب العلمية بیروت)
تفسیر قرطبی میں ہے : وقد انقلبت الأحوال في هذه الأزمان باتخاذ أهل الکتاب کتبةً وأمناء، وتسودوا بذلک عند جهلة الأغنیاء من الولاة والأمراء ۔
ترجمہ : اِس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاری کو محرراور امین بنالیا گیا ، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے ۔ (تفسیر قرطبی جلد 2 صفحہ 345 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور،چشتی)
اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : نصرانی کو کاتب نہ رکھو اس لیے کہ کاتب (کلرک) کی حیثیت مشیر کی ہوتی ہے اور مسلمانوں کے امور و معاملات میں نصرانی سے مشورہ نہیں لیا جا سکتا ۔
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک فقیہہ خلیفۃ المسلمین مامون کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک یہودی کاتب (کلرک ، منشی) ہے ، جو ان کا مقرب اور محبوب نظر بنا ہوا ہے ، فقیہہ نے مامون کے سامنے یہ شعر پڑھا : ⏬
إن الذى شرفت من أجله
يزعم هذا انه كاذب
ترجمہ : اے مامون ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے تمہیں یہ عزت و شرف حاصل ہوا ہے ، اور اس نبی معصوم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اس یہودی کا عقیدہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے ۔
یہ شعر سنتے ہی خلیفۃ المسلمین مامون نادم و شرمندہ ہوا اور فوراً یہودی کو ٹانگوں سے پکڑ کر چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے نکالنے کا حکم دیا ، اور سرکاری حکم جاری کر دیا کہ آج کے بعد کسی کافر سے کسی سرکاری کام میں مدد نہیں لی جائے گی ۔
فقہاء علیہم الرحمہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ مجلسوں میں غیر مسلموں کو صدر بنانا یا ان کی عظمت کےلیے کھڑا ہونا جائز نہیں ، بلکہ جزیہ وصول کرتے وقت ان سے سخت معاملہ کیا جائے گا اور انہیں دیر تک کھڑا رکھا جائے گا ، نیز ان کے ہاتھوں کو کھینچا جائے گا ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے مسلمان شخص کی تکریم کی تو اللہ تعالیٰ اس کی تکریم کرے گا ۔ (العجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٦٤٠ مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض ١٤١٦ ھ)
وضین بن عطا بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ میں تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار نیکوکاروں کو اور ساٹھ ہزار بدکاروں کو ہلاک کرنے والا ہوں ۔ حضرت یوشع علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو بدکاروں کو تو ہلاک فرمائے گا ، نیکوکاروں کو کیوں ہلاک فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ بدکاروں کے پاس جاتے تھے ، ان کے ساتھ کھاتے اور پیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی وجہ سے ان پر غضب ناک نہیں ہوتے تھے ۔ (شعب الایمان جلد ٧ صفحہ ٥٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٠ ھ،چشتی)
حضرت نوح علیہ السلام کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں بالفرض شریعت کے حکم کے برعکس کروں اور کافر اور فاجر کی تکریم کر کے اس کو اپنی مجلس میں مقرب بناٶں اور مومن متقی کی توہین کر کے اس کو اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور اس صورت میں ، میں اللہ عزوجل کے عذاب کا مستحق ہوں گا تو پھر بتاٶ مجھے اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا ؟
خیال رہے کہ غیر مسلم کو استاد بنانے میں ایمان کو سخت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ غیر مسلم اپنے لیکچر کے دوران کفریات بھی کہہ دیتے ہیں اور کبھی دینِ اسلام پر ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ، سننے والا اگر اس کی اس بات سے راضی رہا یا ہاں میں ہاں ملائی ، تو بہت خطرہ ہے کہ خود مسلمان نہ رہے خصوصاً جبکہ اس غیر مسلم نے صریح کفریہ بات کی ہو ۔ نیز استاد جو بھی ہو اس کا ادب و تعظیم دل میں آجاتے ہیں اور غیر مسلم کی تعظیم سے کفر میں جا پڑنے کا امکان رہتا ہے ۔ کسی بھی غیر مسلم سے تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوانےکی شرعا اجازت نہیں کہ غیر مسلم کی صحبت ، اس کے ساتھ ملنا جُلنا ، قلبی لگاؤ اورخصوصاً اس کو استاذ بنانے میں ایمان کو سخت خطرہ ہوتا ہے ، کیونکہ غیر مسلم اپنے لیکچر کے دوران کفریات بھی کہہ دیتے ہیں اور کبھی دینِ اسلام پر ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ۔ نیز استاذ جو بھی ہو اس کا ادب و تعظیم دل میں آجاتے ہیں اور غیر مسلم کی تعظیم سے کفر میں جا پڑنے کا امکان رہتا ہے ۔
قرآن پاک میں ہے: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر 68)
مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ ملا احمد جیون رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی : 1130ھ/ 1718ء) لکھتے ہیں : وان القوم الظالمین یعم المبتدع والفاسق والکافر ، والقعود مع کلھم ممتنع ۔
ترجمہ : آیت میں موجود لفظ "الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ" بدعتی ، فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے ۔ (تفسیراتِ احمدیہ سورہ انعام آیت نمبر 68 صفحہ 388 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیر مذہب والیوں (یا والیوں) کی صحبت آگ ہے ، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں کے مذہب اس میں بگڑ گئے ہیں ۔ جب صحبت کی یہ حالت تو اُستاد بنانا کس دَرجہ بدتر ہے کہ اُستاد کا اثر بَہُت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے ۔ تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سِپُردگی یا شاگِردی میں اپنے بچّوں کو وُہی دے گا جو آپ دین سے واسِطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچّوں کے بَددین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 692 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیر مذہب والیوں (یا والوں) کی صُحبت آگ ہے ، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں کے مذہب (بھی) اس میں بگڑ گئے ہیں ۔ عمران بن حطان رقاشی کا قصّہ مشہور ہے ، یہ تابِعین کے زمانہ میں ایک بڑامُحدِّث تھا ، خارِجی مذہب کی عورت کی صُحبت میں مَعاذَاللہ خود خارِجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُسے سُنّی کرنا چاہتا ہے ۔ جب صُحبت کی یہ حالت تو اُستاد بنانا کس دَرجہ بدتر ہے کہ اُستاد کا اثر بَہُت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے ، تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سِپُردگی یا شاگِردی میں اپنے بچّوں کو وُہی دے گا جو (خود) آپ (ہی) دین سے واسِطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچّوں کے بَددین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 692 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)
البحرالرائق میں ہے : قال الطرسوسي إن قام تعظيما لذاته وما هو عليه كفر لأن الرضا بالكفر كفر فكيف يتعظم الكفر ۔
ترجمہ : علامہ طرسوسی نے فرمایا کہ اگر کوئی ذمی کی ذات یا جس حالت پر وہ ہے اس کی تعظیم میں کھڑا ہو تو یہ کفر ہے کہ کفر پر رضا کفر ہے تو کفر کی تعظیم کیسے کی جائے گی ۔ (البحرالرائق جلد 5 صفحہ 124 دار الكتاب الإسلامی)
کافر کی تعظیم کرنا کفر ہے جب کہ کسی مجبوری کی وجہ سے نہ ہو ، لہٰذا اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہو تو کفر نہیں ، چنانچہ آج کل کے دور میں کبھی پولیس کے آ جانے پر مسلمانوں کو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور کبھی عدالت کے کٹگھرے میں کھڑا ہونا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ ، حالانکہ اس سب میں بھی تعظیم ہے لیکن کفر نہیں ، کافر کو اگر حاجت کی وجہ سے سلام کیا ، مثلاً سلام نہ کرنے میں اس سے اندیشہ ہے تو حرج نہیں اور بقصد تعظیم کافر کو ہرگز ہرگز سلام نہ کرے کہ کافر کی تعظیم کفر ہے ۔ (درمختار الدرالمختار کتاب الحظر والإباحۃ فصل في البیع جلد ۹ صفحہ ۶۸۱)(بہار شریعت جلد سوم صفحہ نمبر 465 سلام کا بیان)
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ جو شخص ہنود کے خوش کرنے کے واسطے اپنے مذہب اسلام کی پروا نہ کرے اور ان کے مذہب کی تائید کرے تو یہ شخص کس چیز کا مرتکب ہوگا؟بینواتوجروا ۔
جواب : جوشخص خوشنودیِ ہنود کےلیے دین اسلام کی پروا نہ کرے اور مذہب ہنود کی تائید کرے اگر یہ بات واقعی یونہی ہے تو اس پر حکم کفر لازم ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ نمبر 364)
فتویٰ علماۓ دیوبندی : اگر مسلمان کفار کی اپنے افعال یا اقوال سے تعظیم کرے تو اگر یہ تعظیم ان کے کفر کی بناء پر ہو تو یہ مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا لیکن اگر یہ تعظیم کفر کی بناء پر نہ ہو بلکہ کسی اور وجہ سے ہو تو اس سے کافر تو نہیں ہو گا البتہ اس قدر تعظیم سے بھی احتراز کرنا چاہیے ، کیونکہ کافر کی تعظیم فی الجملہ کفر کی تائید کرتی یے ۔ (نجم الفتاویٰ جلد 1 صفحہ 240)
مام ابونعیم علیہ الرحمہ حلیۃ الاولیاء میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں : نھی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اَن یُصَافَحَ المُشْرِکُونَ اَو یُکَنُّوا او یُرَحَّبُ بِہِم ۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ مشرکوں سے مصافحہ کیا جائے یا انہیں کنیت سے یاد کریں یا آتے وقت مرحبا کہیں ۔ (حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۴۴۶ اسحٰق بن ابراہیم الحنظلی دارالفکربیروت جلد ۹ صفحہ ۲۳۶)
یہ ادنٰی درجہ تکریم کا ہے کہ نام لے کر نہ پکارا ، فلاں کا باپ کہا یا آتے وقت جگہ دینے کو آئیے کہا ، اللہ اکبر حدیث اس سے بھی منع فرماتی ہے اور ائمہ دین ذمی کافر کی نسبت وہ احکامِ تحقیر و تذلیل فرما چکے جن کا نمونہ ابھی گزرا کہ اسے محرر بنانا حرام ، کوئی کام ایسا سپرد کرنا جس سے مسلمانوں میں اس کی بڑائی ہو حرام ، اس کی تعظیم حرام ، مسلمان کھڑا ہو تو اسے بیٹھنے کی اجازت نہیں ، بیماری وغیرہ ناچاری کے باعث سواری پر ہو تو جہاں مسلمانوں کا مجمع آئے فوراً اتر پڑے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ کافر کی تعظیم کرنا کفر ہے ، لیکن تعظیمِ کافر اگر حاجتِ واقعیہ کی وجہ سے ہو تو کفر نہیں ، اس لیے کہ بندہ یہاں مجبور ہے ، اس صورت میں اس کےلیے تعظیم میں عذر ہے، مثلاً مسلمان کہیں گیا وہاں پر پولیس آگئی تو وہاں سلام کرنا یا کھڑا ہونا پڑتا ہے نہیں کرے گا تو مار بھی کھا سکتا ہے ، لہٰذا یہ کفر نہیں کیونکہ یہ ان کےلیے عذر ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment