Thursday, 8 May 2025

مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کا حکم اور مسلمان

مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کا حکم اور مسلمان

محترم قارئینِ کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔ (سور المائدة آیت نمبر 51)

ترجمہ :  اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔


یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا ۔ حضرت عبادہ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں ، اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہوسکتا ، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا کہ’’ یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ، عبادہ کا یہ کام نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)


کفار سے دوستی و موالات کا شرعی حکم : ⏬


اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا ، اُن سے مدد چاہنا اور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے ۔ (تفسیر مدارک المائدۃ، تحت الآیۃ : ۵۱، ص۲۸۹،چشتی)


رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے : ھو مشرک مثلھم ، وہ انہیں کی طرح کا مشرک ہے ۔ (تفسیر ابن عباس)


امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ : کافر مثلہم ، وہ اُنہی کی طرح کافر ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن)


قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : أي : کافر منافق ، وہ کافر اور منافق ہے ۔ (تفسیر مظہری)


علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : یہاں ﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان یہود ونصاری کے ساتھ موالات رکھنے سے جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ، ممانعت فرمائی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہو سکتے ہیں ۔ اس کے بعد ﷲ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو تنبیہ اور وعید فرمائی ہے ۔ چنانچہ فرمایا ومن یتولھم منکم فانہ منھم یعنی جو تم میں سے ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہوگا ۔ علاّمہ ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ  رضی اللہ عنہ نے ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ (والیٔ بصرہ) کو اس بات پر سرزنش فرمائی کہ انہوں نے ایک عیسائی انشا پرداز کو محض اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنا مکتوب نگار کیوں رکھ لیا اور اپنی اس بات کی تائید میں یہی سورۂ مائدہ کی آیت پڑھی جو کہ اس مسئلہ کے ثبوت میں شروع کے اندر یہاں بیان ہوئی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء.... یعنی: اے اہل ایمان تم یہود اور نصاریٰ کو اپنا رفیق نہ بناؤ ۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یہ حوالہ دینے کے بعد فرمایا : اس کو نکال دو ۔ (تفسیر ابن کثیر)


علاّمہ ابن حزم نے المحلی میں لکھا : صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ، ترجمہ : اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے ، وہ انہی میں سے ہے ۔ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کفار کے جیسا کافر ہے ۔ یہ ایسی حق بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی دو مسلمانوں کا اختلاف نہیں ہے ۔


علاّم ابن تیمیہ نے کفار کا ساتھ دینے والے حکام کے متعلق لکھا : کیا ان حکام نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لاتتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔

ترجمہ : تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوا ، ان دو آیات میں اللہ نے بتایا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والا مومن نہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان سے دوستی کرنےوالا انہی میں سے ہے ۔ (مجموع الفتاوی 18/7)


علاّمہ ابن القیم نے لکھا : ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔

ترجمہ : تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا

اللہ سبحانہ نے فیصلہ فرمادیا اور اس سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کسی کا نہیں ہوسکتا کہ جو بھی یہودونصاری کو دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا جب قرآن کی صراحت کے مطابق ان سے دوستی کرنے والے انہی میں سے ہیں تو ان (یعنی دوستی کرنے والوں) کا حکم بھی وہی ہوگا جو ان (یہودونصاری) کا ہے اور یہ عام ہے جو بھی ان سے دوستی کرے اور اسلام کی پابندی کرنے کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے تو وہ نص اور اجماع کی رو سے مرتد ہوگیا اور اس سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ یاتو اسلام لائے یا پھر تلوار ۔ (احکام اھل الذ مة195/1)


علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : جو تاتار کے لشکر میں کود پڑے اور ان سے مل جائے وہ مرتد ہوگیا اور اس کی جان اور اس کا مال حلال ہوگیا ۔ (الاختیارات الفقھیة از علاّمہ ابن تیمیہ)


لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ (تفسیر مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱/۵۰۳،چشتی)


اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔ 


لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَۚ وَمَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنْہُمْ تُقٰىۃًؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہٗؕ وَ اِلَی اللہِ الْمَصِیۡرُ ۔ (سورہ آلِ عمران نمبر 28)

ترجمہ : مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کچھ علاقہ نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے ۔


لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ : مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اَحزاب کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں ، میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد حاصل کروں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی ۔ (تفسیر جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱/۳۹۳،چشتی)


وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ، اور جو کوئی بھی ایسا کرے ۔


فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ ، تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔


اس آیتِ مبارکہ کی تشریح میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یعني بذلک ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مراد ہے ۔ فقد بريئ مِنَ اللَّهِ ۔ کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا ، وہ اللہ سے بری ہو گیا ، وبرئ اللہ منہ ، اور اللہ اس سے بری ہوگیا ، بارتدادہ عن دینہ ،  کیونکہ یہ اس فعل کی وجہ سے دین سے مرتد ہو گیا ، ودخولہ في الکفر ۔ اور کفر میں داخل ہو گیا ۔ (تفسیر طبری)


دیگر مفسرین کے اقوال بھی دیکھیں تواسی طرح بالکل واضح تصریح کی گئی ہے ۔ شاید کم ہی مقامات ہیں کہ جہاں کسی قول یا کسی فعل پرمفسرین نے اتنی صراحت سے کفر کی بات یا تصریح کی ہے ۔


دین اور امت کا غدّار بے شک نماز روزہ کرتا ہو ، کافر ہو جاتا ہے : ⏬


ﷲ عزّ و جل اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اہل ایمان کا وفادار بن کر رہنا اور ﷲ و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اس اُمت کے دشمن سے دشمنی رکھنا ایمان کا بنیادی فرض ہے ۔ یہ نہیں تو قرآنِ مجید کا وہ ایک خاصا بڑا حصہ کچھ معنیٰ ہی نہیں رکھتا جو کہ آج تک برابر تلاوت ہوتا ہے اور جو کہ ان منافقین کا بار بار کفر بیان کرتا ہے جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں گانٹھتے تھے ۔


اسلام محض عقائد یا نماز روزہ ایسی عبادات کا مجموعہ نہیں ۔ حتی کہ یہ محض کوئی سیاسی اور معاشی ہدایات پر مشتمل سماجی نظام بھی نہیں ، جیسا کہ ہمارے بہت سے نکتہ داں طویل لیکچر دیا کرتے ہیں ۔ اسلام دراصل انسان کی وفاداریوں کا تعین بھی ہے اور اس کے تعلقات کی حدود کا دائرہ بھی اور اللہ عزّ و جل و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ و امت کیلئے غیرت کا امتحان بھی ۔


تعلق اور وفاداری اور مدد ونصرت کے معاملہ میں بھی دراصل آدمی کے ایمان کو امتحان سے گزارا جاتا ہے ۔ کفار جو اسلام اور اہل اسلام سے برسر جنگ ہوں یا دین اسلام کے خلاف یا اس کی کامیابی کے خلاف بغض رکھتے ہوں ایک مسلمان کیلئے دشمن ہی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو آدمی کو اپنے ایمان کی فکر ہو جانی چاہیئے ۔


اسلام کے دشمنوں سے دلی ہمدردی رکھنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی فتح مندی چاہنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی نصرت اور اعانت کرنا ، یا حتی کہ مسلمانوں کے خلاف محض ان کا حلیف بن کر رہنا صریحاً کفر ہے ۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا ۔


بنا بریں ہر وہ اتحاد alliance (تحالف) جو کسی مسلم ملک یا مسلم قوت یا مسلم جماعت کے خلاف آمادۂ جنگ ہو اس کا حصہ بننا ، اس کی معاونت کرنا ، اس کا پرچم اٹھانا ، اس کیلئے جاسوسی کرنا یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح اس کی مہم آسان کرنا محض کوئی گناہ نہیں ، یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کو متنبہ ہو جانا چاہیئے وہ اگر اپنے اس عمل سے تائب ہوئے بغیر مر جاتا ہے تو وہ کفر کی حالت پر مرتا ہے ، جس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم یقینی ہے ۔


کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہوجائے یہ عمل کفریہ نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالى نے آپس میں قتال کرنے والے مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو مؤمن قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے "وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا" ۔ اور یہ غلط فہمی , یا کسی بھی دیگر وجوہات کی بناء پر ہونے والی لڑائیوں میں ہے ۔

ہاں جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہو کفار کی معاونت میں تو یہ عمل کفریہ عمل ہے ۔

لیکن اس کفریہ عمل کے مرتکب پر ہم فتوى کفر اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک تکفیر کی شروط اس میں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ گو لوگ جب کفار کی صفوں میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں تو ان کا قتل پھر کیونکر جائز ہوگا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو میدانوں میں اہل اسلام کے خلاف لڑنے کے لیئے کفار کے ساتھ مل کر آتے ہیں ہم ان کا قتل اس لیئے درست قرار دیتے ہیں کیونکہ انکا یہ عمل کفر والا ہے اور تکفیر معین کی چھان بین کا موقع میدانوں میں نہیں ہوتا کہ جس کے ذریعہ حقیت حال کو معلوم کیا جائے لہٰذا مسلمان ان کے ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے ان کے ساتھ کفار والا سلوک روا رکھتے ہیں ۔


کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے ، انہیں راز دار بنانا ، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے ۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے ۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاؤ کی اجازت دی گئی ہے ، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدنا امامِ حسین  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا ۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے ۔


مسلمان مسلمان بھائی ہیں سرحدوں میں بٹے اہلِ اسلام کےلیے پیغام : ⏬


محترم قارئینِ کرام : مسلمان خواہ کسی ملک اور خطے کا ہو کسی بھی رنگ اور قبیلے کا ہو کوئی زبان بولتا ہو ان سب کو قرآن مجید نے ایک برادری قرار دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ  ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 10)

ترجمہ : مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔


مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں  کیونکہ یہ آپس میں  دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں  اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں  سے مضبوط تر ہے ، لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں  میں  جھگڑا واقع ہو تو ان میں  صلح کرا دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں  کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۱۶۸)(تفسیر مدارک صفحہ ۱۱۵۳)


حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسوا کرے ، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں  مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دورکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں  سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم  الخ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ الحدیث: ۲۴۴۲)


حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں ، جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سرمیں درد ہو تو سارے جسم میں دردہوگا ۔ (صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین ۔ الخ صفحہ ۱۳۹۶ الحدیث : ۶۷ ، ۲۵۸۶)


حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین ۔ الخ صفحہ ۱۳۹۶ الحدیث : ۶۵ ، ۲۵۸۵،چشتی)


اِسلام ایک عالمی دِین ہے اور اُس کے ماننے وَالے عرب ہوں یا عجم ، گورے ہوں یا کالے ، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رَکھتے ہوں ، مختلف زبانیں بولنے وَالے ہوں ، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اخوت کی بنیاد ہی اِیمانی رِشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اخوت کی بنیادیں ہیں ، سب کم زور ہیں اور اُن کا دَائرہ نہایت محدود ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ اِسلام کے اِبتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اخوتِ اِسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی ۔


کافر کوئی بھی عقیدہ رکھے ایک ہی ملت ہیں حدیث میں ارشاد ہے کہ اَلْکُفْر مِلَّۃ’‘ وَاحِدَہ ، کفر ایک ملت ہیں ۔ اس طرح قرآن و سنت نے دنیا کے تمام انسانوں کو دو الگ الگ ملتوں میں تقسیم کرکے فیصلہ کردیا کہ مسلمان ایک ملت اور کافر دوسری ملت ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کافروں کے ساتھ حسن سلوک ، انصاف ، خیرخواہی ، مدارات تو کرو لیکن محبت و دوستی کسی صورت میں تمہارے لیئے جائزہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اپنا راز دار بناؤ اور نہ ہی ان کے طور طریقے اختیار کرو بلکہ جو کفار تم سے لڑے تمہارے دین کے درپے ہوں ان کے ساتھ جنگ کرو ۔


دنیا میں مدینۃُ المنوّرہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اس کے بعد مملکت خداداد پاکستان وہ ریاست ہے جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی ۔ اس وقت دنیا میں جو ممالک موجود ہیں ان سب کی بنیاد جغرافیائی سرحدیں ہیں جو کہ دراصل مغرب کا نظریہ ہے اہل مغرب نے خاندانی ، نسلی اور قبائلی بنیادوں میں ذرا وسعت پیدا کرکے قومیت کی بنیادیں جغرافیائی حدود پر استوار کیں ۔ جبکہ پاکستان کی بنیاد نہ تو رنگ زبان و نسل ہے اور نہ ہی جغرافیائی حدود بلکہ اس کی بنیاد لاالہ الا اللہ ہے ۔ کہ ایک عقیدہ اور ایک کلمہ کی بنیاد پر جو قوم بنی ہے یعنی امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ وہ سب اس مملکت کے باشندے ہیں ۔


قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دِیا ہے اور اس اخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دِیا ہے اور اس محبت اور اِتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے ۔ اس اخوت کو قائم رَکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اَپنانا جن سے یہ اخوت کا رِشتہ مضبوط ہوتا ہے ، جیسے خیر خواہی ، محبت ، اِخلاص ، اِیثار ، ملنا ملانا ، صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعا پیش کرنا وَغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں  کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

کا۔فر کی تعظیم کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں

کا۔فر کی تعظیم کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام قرآنِ پاک میں ارشاد ہے : وَیٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَ...