داڑھی منڈے پیر و نعت خوان اور داڑھی کی شرعی حیثیت
ترجمہ : بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔
مسلمان مردوں کےلیے داڑھی ایک مشت (مٹھی ، چارانگل) رکھنا واجب ہے ۔ معاذ اللہ ! پوری ہی داڑھی منڈا دینا یا ایک مٹھی سے کم کروانا دونوں ہی کام حرام و گناہ ہیں اور ایسا کرنے والا فاسق معلن ہے ۔ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق پیر بنانے کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط اس کا فاسقِ معلن نہ ہونا بھی ہے ، لہٰذا داڑھی منڈے شخص کی بیعت کرنا ، جائز نہیں اگر کسی نے کرلی ہو تو اس بیعت کو توڑدے ۔
ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ جیسا کہ بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی و دیگر کتبِ احادیث میں ہے : ”والنظم للاول“ عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سےروایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مُٹھی میں لیتے اور جومٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے ۔ (صحیح البخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار جلد 2 صفحہ 398 مطبوعہ لاہور،چشتی)
فتح القدیر ، غنیۃ ، بحرالرائق ، حاشیہ طحطاوی علی المراقی ، درمختار اور درر شرح غرر وغیرہ کتبِ فقہ میں ہے : والنظم للآخر“وأما الأخذ من اللحیۃ وھی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل مجوس الأعاجم والیھود والھنود وبعض أجناس الإفرنج ۔
ترجمہ : بعض مغربی اور ہیجڑے لوگوں کی طرح داڑھی کاٹ کر ایک مٹھی سے کم کردینے کو کسی فقیہ نے بھی جائز نہیں کہا اور داڑھی مکمل کاٹ دینا عجمی مجوسیوں ، یہودیوں ، ہندؤوں اور بعض قسم کے انگریزوں کا طریقہ ہے ۔( درر شرح غرر کتاب الصیام فصل حامل او مرضع خافت جلد 1 صفحہ 208 داراحیاء الکتب العربیہ بیروت،چشتی)
داڑھی منڈا نے یا ایک مٹھی سے گھٹانے والا شخص فاسقِ معلن ہے ۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے : داڑھی منڈانا اور کتَروا کر حدِ شرع سے کم کرانا دونوں حرام و فسق ہیں اور اس کا فسق باِلاِعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 6 صفحہ 505 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
داڑھی منڈے کی بیعت جائز نہیں ۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ” جو اشخاص بوجہ لاعلمی کے خلاف شرع پیر مثل داڑھی منڈا اور کانوں میں مندرے پہنے ہوئے اور گیسو دراز کے مرید ہو چکے ہوں ان کی بیعت جائز ہوگی اور ان کو جائے دیگر بیعت ہونے کاحکم ہے یا نہیں ؟
تو آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : فاسق کے ہاتھ پر بیعت جائز نہیں ۔ اگر کرلی ہو فسخ کرکے کسی پیر متقی ، سنی ، صحیح العقیدہ ، عالم دین ، متصل السلسلۃ کے ہاتھ پر بیعت کرے ۔۔۔۔۔ ایسے شخص سے بیعت کاحکم ہے جو کم از کم یہ چاروں شرطیں رکھتا ہو : اول سنی صحیح العقیدہ ہو ۔ دوم علم دین رکھتا ہو ۔ سوم فاسق نہ ہو ۔ چہارم اس کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تک متصل ہو ، اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کی اجازت نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 21 صفحہ 603-602 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
امام مالک و احمد و بخاری و مسلم و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و طحاوی علیہم الرّحمہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں : خالفو المشرکین احفوا الشوارب و اوفروا اللحیۃ ۔
ترجمہ : مشرکوں کے خلاف کرو ، مونچھیں خوب پست کرو ، اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔ (صحیح البخاری ، کتاب اللباس،۲/۸۷۵)(صحیح مسلم ،کتاب الطہارۃ،باب خصال الفطرۃ،۱/۱۲۹،،چشتی)(سنن الترمذی،۵/۹۵،)(سنن النسائی المجتبی،۱/۱۶)(سنن ابی داؤد،۴/۸۴)(مسند احمد،۲/۱۶)(شرح معانی الآثار،۴/۲۳۰)(مؤطا ،۲/۹۴۷)
داڑھی ایک مشت یعنی چار انگل تک رکھنا واجب ہے (بعض نے سنت مؤکدہ لکھا ہے) اور اس سے کم کرنا نا جائز ہے ۔
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے ۔ (اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک ،۱/۲۱۲،فتاوی رضویہ،۲۲/۵۸۱،مطبوعہ جدید)
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کان یاخذ من لحیتہ من عرضھا و طولھا ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی ریش مبارک کے بال عرض و طول سے لیتے تھے ۔ (جامع الترمذی،ابواب الآداب ، باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ،۲/ ۱۰۰،امین کمپنی دھلی)
اعلی حضرت امام اھل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۴۰ھ) لکھتے ہیں : علماء فرماتے ہیں یہ اس وقت ہوتا تھا کب ریش اقدس ایک مشت سے تجاوز فرماتی بلکہ بعض نے یہ قید نفس حدیث میں ذکر کی ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲/ ۵۹۰،مطبوعہ جدید)
اعلی حضرت امام اھل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۴۰ھ) مزید لکھتے ہیں : اس سے زائد اگر طول فاحش حد اعتدال سے خارج بے موقع بد نما ہو تو بلا شبہہ خلاف سنت و مکروہ کہ صورت بد نما بنانا، اپنے منہ پر دروازہ طعن مسخریہ کھولنا ، مسلمانوں کو استہزاء و غیبت کی آفت میں ڈالنا ، ہرگز مرضی شرع مطہر نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲/ ۵۸۲،مطبوعہ جدید)
ان عبارات سے واضح ہوگیا کہ ایک مشت کی مقدار داڑھی رکھنا واجب ہے ، نیز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی داڑھی مبارک ایک مشت تھی ،جب تجاوز کرجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم طول و عرض میں سے کم فرماتے ،لیکن ایک مشت ہمیشہ رہی،نیز اس قدر لمبی رکھنا کہ بد نما صورت ہوجائے مکروہ ہے ۔
داڑھی کے متعلق 3 گروہ
پہلا کہتاہے کہ داڑھی؛” حکم دین“ ہی نہیں ہے ۔
دوسرا کہتاہے کہ بڑی داڑھی رکھنا عادت ہے ، سنت نہیں ۔
تیسرا اس کے ایک مشت سے زائدکے کاٹنے کو” غیر شرعی“ کہتا ہے ۔
افراط و تفریط کی ان گھاٹیوں سے بہت دور اہل سنت و جماعت کا مسلکِ اعتدال ہے ۔ دیکھیے جس پر آپ کو امت اسلامیہ کا جم غفیر چلتا ہوا نظر آئے گا ۔ اہل السنت و جماعت کاموقف یہ ہے کہ کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے۔ اس کو جو سنت کہا جاتاہے اس کا مطلب یہ ہے کہ داڑھی کا حکم سنت سے ثابت ہے یا یہ مطلب ہے کہ داڑھی رکھنا شرعی طریقہ ہے کیونکہ سنت کا ایک معنیٰ طریقہ بھی آتا ہے ۔ لہٰذا داڑھی کو سنت لکھنے اور کہنے سے یہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ”واجب“ نہیں ہے ۔ ائمہ اربعہ اور تمام علمائے اہل سنت و جماعت کا اتفاق ہے کہ کم از کم ایک مشت داڑھی رکھنا ”واجب“ ہےاور ایک مشت سے کم داڑھی نا جائز اور حرام ہے اس سلسلے میں چند احادیث پیش خدمت ہیں : ⬇
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خالفوا المشرکین اوفروا اللحیٰ واحفوا الشوارب۔ (بخاری :ج2 ص875)
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ مونچھیں کٹاؤ ۔
امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں : فی حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ عند مسلم خالفوالمجوس وھوالمراد فی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما فانہم کانوا یقصون لحاہم ومنہم من کان یحلقہا ۔ (فتح الباری جلد 10 صفحہ 429،چشتی)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث امام مسلم رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے اس میں خالفوالمشرکین کی بجائے خالفوالمجوس کے الفاظ ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بھی یہی مراد ہے کیونکہ مجوسیوں کی عادت تھی کہ وہ اپنی داڑھیاں کاٹتے تھے اور ان میں سے بعض لوگ اپنی داڑھیوں کو مونڈتے تھے ۔
عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جزوا الشوارب وارخوا اللحیٰ خالفوا المجوس ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 129)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: مونچھیں کٹواؤ، داڑھیاں بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو ۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ (صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 129،چشتی)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں داخل ہیں ان میں مونچھوں کو کٹانا اور داڑھی کو بڑھانا ۔
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : معناہ انہا من سنن الانبیاء اس کا معنی یہ ہے کہ دس چیزیں انبیاء کے سنتوں میں سے ہیں ۔ نیز امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فحصل خمس روایات، اعفوا، واوفوا، وارخوا، وارجو، ووفروا ۔ (شرح صحیح مسلم جلد 1 صفحہ 129)
خلاصہ یہ ہے کہ روایات میں داڑھی بڑھانے کے متعلق پانچ قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں اور پانچوں قریب المعنی ہیں یعنی داڑھی بڑھاؤ اور یہ پانچوں امر کے صیغے ہیں اور تمام علماء حقہ کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے اگرداڑھی رکھنا محض عادتاً تھا اور دین کا حکم نہیں تھا تو امت کو اتنی تاکید کے ساتھ حکم دینے کا کیا مطلب ؟
عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کان یاخذ من لحیتہ من عرضہا وطولہا ۔ (جامع ترمذی: ج 2 ص 105)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لمبائی اور چوڑائی سے اپنی داڑھی کے کچھ بال لے لیتے تھے ۔ نیز اس میں حج وعمرے کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بعث بکتابہ مع رجل الیٰ کسریٰ ……ودخلا علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وقد حلقا لحاھما و اعفیا شواربھما فکرہ النظر الیہما وقال ویلکما من امرکما بہذا؟ قالا امرنا ربنا یعنیان کسریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ولکن ربی امرنی باعفاء لحیتی وقص شاربی(البدایۃ والنہایۃ جلد 2 صفحہ 662)(حیاۃ الصحابۃ جلد 1 صفحہ 115)
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے ایک قاصد کو شاہ ایران کی طرف پیغام دے کر بھیجا …………… شاہ ایران کے دو قاصد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی طرف نظر کرنا بھی پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمہیں یہ شکل بگاڑنےکا کس نے حکم دیا ہے ؟ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہے ۔
عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ۔۔ ملائکۃ السماء یستغفرون لذوائب النساء ولحی الرجال یقولون سبحان اللہ الذی زین الرجال باللحیٰ والنساء بالذوائب ۔ (مسند الفردوس جلد 4 صفحہ 157 رقم الحدیث 6488،چشتی)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آسمان کے ملائکہ ان خواتین کےلیے جن کے سر کے لمبے بال ہوں اور ان مردوں کےلیے اللہ سے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو داڑھیوں کے ساتھ اور خواتین کو سر کے لمبے بالوں کے ساتھ خوبصورتی بخشی ۔
اس کے علاوہ بھی اس مضمون کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات قدر مشترک طور پر سامنے آتی ہے کہ جو لوگ مشت بھر داڑھی نہیں رکھتے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے احکام کی مخالفت کر کے مشرکین اور مجوسیوں کے طرز کو اپنائے ہوئے ہیں کل قیامت کے دن خداوند قہار کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائیں گے ؟ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پوچھ لیا کہ کیا تمہیں میری شکل و صورت سے مشرکین و مجوسیوں کی تہذیب زیادہ پسند تھی ؟ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منہ موڑ لیا تو کس ذات سے شفاعت کی امید رکھیں گے ؟ ان تمام نصوص کے پیش نظر فقہاء امت اس بات پر متفق ہیں کہ داڑھی کم از کم مشت بھر رکھنا واجب ہے یہ اسلام کا شعار ہے اور اس کا بالکل منڈانا یا مشت بھر سے کم کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔
داڑھی کی سنّت مقدار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ علیہم اجمعین
عن نافع کان ابن عمر رضی اللہ عنہما اذا حج او اعتمر قبض علی لحتیہ فما فضل اخذہ ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 875)
ترجمہ : حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ کر لیتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے اور زائد بالوں کو کاٹ دیتے ۔
پہلے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے داڑھی بڑھانے کا حکم نقل فرمایا پھر اس کی مقدار خود اپنے عمل سے بتائی ہے۔ممکن ہے کہ اس حدیث کو پڑھ کرکسی کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل عام نہیں بلکہ حج اور عمرہ کے ساتھ خاص ہے ۔
اس بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الذی یظہر ان ابن عمر کان لایخص ہذا التخصیص بالنسک بل کان یحمل الامر بالاعفاء علی غیر الحالۃ التی تتشوہ فیہا الصورۃ بافراط طول شعر اللحیۃ اوعرضہ ۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 10 صفحہ 430)
ترجمہ : ظاہر بات ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے اس عمل کو حج اور عمرہ کے ساتھ خاص نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ داڑھی بڑھانے کے حکم کو اس حالت پر محمول کرتے تھے جس میں داڑھی لمبائی چوڑائی میں اس قدر بڑھی ہوئی نہ ہو کہ بد صورت اوربدنما لگنے لگے ۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما انہ کان یقبض علیٰ لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضۃ ۔ (کتاب الآثار لامام محمد صفحہ 203)
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی داڑھی کے بالوں کو مٹھی میں لیتے اور زائد بال کاٹ دیتے تھے ۔
عن ابی زرعۃ قال کان ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یاخذ مافضل من القبضۃ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 6 صفحہ 108)
ترجمہ : حضرت ابو زرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑتے پھر جو مٹھی سے زائد بال ہوتے ان کو کاٹ دیتے ۔
عن الحسن قال کانوا یرخصون فیما زاد علی القبضۃ من اللحیۃ ان یؤخذ منہا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 6 صفحہ 109)
ترجمہ : حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین داڑھی کے ایک مشت سے زائد بالوں کے کاٹنے کی اجازت دیتے تھے ۔
عن ابراہیم قال کانوا یطیبون لحاہم ویاخذون من عوارضہا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 6 صفحہ 109)
ترجمہ : حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی داڑھیوں کو خوشبو لگاتے اور ان کی چوڑائی سےبال کاٹ لیتےتھے ۔
اقوال فقہاء اور داڑھی کا وجوب و مقدار
فقہاء احناف
واماالاخذ منہا وہی دون ذالک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد ۔ (فتح القدیر شرح ہدایہ جلد 2 صفحہ 270)
ترجمہ : داڑھی کے بال کاٹ کر اس کو ایک مشت سے کم کرنا جیسا بعض مغربی اور مخنث لوگ ایسا کرتے ہیں اس کو کسی نے بھی جائز قرار نہیں دیا۔
یحرم علی الرجل قطع لحیتہ وفیہ السنۃ فیہا القبضۃ ۔ (در مختار جلد 4 صفحہ 223)
ترجمہ : مرد کےلئے داڑھی کا کاٹنا حرام ہے اس کی مسنون مقدار ایک مشت ہے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں : حلق کردن لحیہ حرام است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است۔ (اشعۃ اللمعات جلد 1 صفحہ 228)
ترجمہ : داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مشت کی مقدار اس کو بڑھانا واجب ہے ۔
فقہ شافعی
محدث عبدالروف مناوی شافعی لکھتے ہیں : اعفاءا للحیہ و ترکہا متی تکثر بحیث تکون مظہرا من مظاہر الوقار فلا تقصر تقصیرا یکون قریبا من الحلق ولا تترک حتیٰ تفحش بل یحسن التوسط فانہ فی کل شیئ حسن ۔ (فقہ السنۃ جلد 1 صفحہ 38،چشتی)
ترجمہ : داڑھی کو بڑھانا اور اس کو چھوڑنا یہاں تک کہ داڑھی زیادہ ہو جائے لیکن ایسے طور پر کہ پُر وقار نظر آئے اور اتنی مقدار تک نہ کاٹے کہ مونڈی ہوئی دکھائی دینے لگے ۔ اور اس قدر لمبی بھی نہ ہونے دے کہ بدنما لگنے لگے بلکہ درمیانی [ مشت بھر ] داڑھی رکھے کیونکہ ہر چیز میں اعتدال بہتر ہے ۔
فقہ مالکی
فقہ مالکی کے نامور محدث اور فقیہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتےہیں : یکرہ حلقہا وقصہا وتحریقہا واما الاخذ من طولہا وعرضہا فحسن وتکرہ الشہرۃ فی تعظیمہا کما تکرہ فی قصہا وجزہا ۔ (شرح مسلم للنووی جلد 1 صفحہ 129)
ترجمہ : داڑھی کو مونڈنا اور زیادہ کانٹ چھانٹ کرنا مکروہ ہے البتہ اس کے طول وعرض سے کچھ بال کاٹ لینا بہتر ہے اور جیسا کہ داڑھی زیادہ کاٹنا چھانٹنا مکروہ ہے ایسے ہی لمبی داڑھی میں شہرت بھی مکروہ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ایک مشت سے کم اور زیادہ خلاف سنت اور ایک مشت سنت کے مطابق ہے ۔
فقہ حنبلی
الشیخ منصور بن یوسف حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ویعفی لحیتہ ویحرم حلقہا ۔ (الروض المربع جلد 1 صفحہ 19،چشتی)(مختصر المقنع صفحہ 96)
ترجمہ : داڑھی کو [مسنون مقدار تک] بڑھانا ضروری اور اس کا منڈا نا حرام ہے ۔
امام مالک و احمد و بخاری و مسلم و ابو داؤد و ترمذی و نسائی و طحاوی علیہم الرّحمہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم فرماتے ہیں : خالفو المشرکین احفوا الشوارب و اوفروا اللحیۃ ۔
ترجمہ : مشرکوں کے خلاف کرو ، مونچھیں خوب پست کرو ، اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔ (صحیح البخاری ،کتاب اللباس،۲/۸۷۵)(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ،۱/۱۲۹)(سنن الترمذی،۵/۹۵)(سنن النسائی المجتبی،۱/۱۶)(سنن ابی داؤد ،۴/۸۴،مسند احمد،۲/۱۶،چشتی)(شرح معانی الآثار ۴/۲۳۰ ، مؤطا ،۲/۹۴۷)
داڑھی ایک مشت یعنی چار انگل تک رکھنا واجب ہے (بعض نے سنت مؤکدہ لکھا ہے) اور اس سے کم کرنا نا جائز ہے ۔
شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دھلوی (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں : گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است و آنکہ آنرا سنت گیند بمعنی طریقہ مسلو ک دین است یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت است ، چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہا جاتا ہے ۔ (اشعۃ اللمعات،کتاب الطہارۃ ، باب السواک ،۱/۲۱۲،چشتی)(فتاوی رضویہ،۲۲/۵۸۱،مطبوعہ جدید)
اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کان یاخذ من لحیتہ من عرضھا و طولھا ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی ریش مبارک کے بال عرض و طول سے لیتے تھے ۔ (جامع الترمذی،ابواب الآداب ، باب ما جاء فی الاخذ من اللحیۃ،۲/ ۱۰۰،امین کمپنی دھلی)
اعلی حضرت امام اھل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۴۰ھ) لکھتے ہیں : علماء فرماتے ہیں یہ اس وقت ہوتا تھا کب ریش اقدس ایک مشت سے تجاوز فرماتی بلکہ بعض نے یہ قید نفس حدیث میں ذکر کی ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲/ ۵۹۰،مطبوعہ جدید)
اعلی حضرت امام اھل سنت مولانا الشاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۴۰ھ) مزید لکھتے ہیں : اس سے زائد اگر طول فاحش حد اعتدال سے خارج بے موقع بد نما ہو تو بلا شبہہ خلاف سنت و مکروہ کہ صورت بد نما بنانا ، اپنے منہ پر دروازہ طعن مسخریہ کھولنا ، مسلمانوں کو استہزاء و غیبت کی آفت میں ڈالنا ، ہرگز مرضی شرع مطہر نہیں ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۲/ ۵۸۲،مطبوعہ جدید)
ان عبارات و دلاٸل سے واضح ہوگیا کہ ایک مشت کی مقدار داڑھی رکھنا واجب ہے ، نیز حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی داڑھی مبارک ایک مشت تھی ، جب تجاوز کرجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم طول و عرض میں سے کم فرماتے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو داڑھی رکھنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے اور صحیح احادیث میں اس کی تعبیر بصیغہ امر کی گٸی ہے جو وجوب کی دلیل ہے ۔ واضح رہے کہ مردوں کےلیے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور قومی شعار ، اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل و صورت کی تکمیل اور صورت نورانی ہوتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہٰذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ ہے ۔ حدیث شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک روایت فرماتی ہیں : عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة ․․․ الخ ۔ (صحیح مسلم جلد ۱ صفحہ ۱۲۹)
یعنی دس چیزیں فطرت میں سے ہیں : ۱ مونچھوں کا کتروانا ۔ ۲ داڑھی بڑھانا ۔ ۳ مسواک کرنا ۔ ۴ ناک میں پانی ڈال کرناک صاف کرنا ۔ ۵ ناخن تراشنا ۔ ۶ بدن کے جوڑوں کو دھونا ۔ ۷ بغل کے بال اکھاڑنا ۔ ۸ زیر ناف بال صاف کرنا ۔ ۹ پانی سے استنجاء کرنا ‘ راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی ‘ فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو ۔ اس حدیث میں جو کہ سنداً نہایت قوی حدیث ہے ‘ دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایا گیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتا ہے جوکہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو ۔
صاحب مجمع البحار اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : ”عشر من ”الفطرة“ ای من السنة ای سنن الانبیاء علیہم السلام التی بالاقتداء بہم فیہا ای من السنة القدیمة التی اختارہا الانبیاء علیہم السلام‘ واتفقت علیہا الشرائع فکأنہا امر جبلی فطروا علیہ ۔ (مجمع البحار جلد ۴ صفحہ ۱۵۵)
ترجمہ : دس چیزیں فطرت (سنت) میں سے ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی ان سنتوں میں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا یعنی اس سنت قدیم میں سے ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار فرمایا اور اس پر تمام شرائع متفق ہیں‘ گویا کہ وہ امر جبلی ہے جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کو پیدا کیا گیا ہے ۔
امام نووی علیہ الرحمہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں: قالوا : ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم ۔ (شرح مسلم جلد ۱ صفحہ ۱۲۸)
ترجمہ : فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے ۔
اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہوگیا کہ داڑھی بڑھانے کا حکم تمام شریعتوں میں تھا اور یہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت رہی ہے ۔
ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ : ﺧَﺎﻟِﻔُﻮﺍ ﺍﻟْﻤُﺸْﺮِﮐِﮯْﻥَ، ﻭَﻓِّﺮُﻭﺍ ﺍﻟﻠِّﺤَﯽ، ﻭَﺍَﺣْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ۔ ﻭﻓﯽ ﺭﻭﺍﮮۃ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺍ : ﺍَﻧْﮩِﮑُﻮﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ ﻭَﺍﻋْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﻠِّﺤٰﯽ ۔ (صحیح ﺑﺨﺎﺭﯼ / ﺑﺎﺏ ﺗﻘﻠﯿﻢ ﺍﻻﻇﻔﺎﺭ ، ﻣﺴﻠﻢ / ﺑﺎﺏ ﺧﺼﺎﻝ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭ ﯾﻌﻨﯽ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﻮ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮨﯿﮟ : ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﭨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ۔
ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﻗﺎﻝ ﺫُﮐﺮ ﻟﺮﺳﻮﻝِ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﺍﻟﻤﺠﻮﺱ ﻓﻘﺎﻝ : ﺍِﻧَّﮩُﻢ ﮮُﻭْﻓُﻮْﻥَ ﺳِﺒَﺎﻟَﮩُﻢْ ﻭَﮮُﺣْﻠِﻘُﻮﻥَ ﻟِﺤَﺎﮨُﻢْ ﻓَﺨَﺎﻟِﻔُﻮْﮨُﻢ ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺑﻦ ﺣﺒﺎﻥ ۸ / ۴۰۸)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺠﻮﺱ (ﺁﮒ ﮐﯽ ﭘﺮﺳﺘﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ) ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﻧﮉﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﭘﺲ ﺗﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ ۔
ﻋﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہما ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﺍَﻧَّﮧ ﺍُﻣِﺮَ ﺑِﺎِﺧْﻔَﺎﺀ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏِ ﻭَﺍِﻋْﻔَﺎﺀِ ﺍﻟﻠِّﺤْﮯَۃِ ۔ ( ﻣﺴﻠﻢ / ﺑﺎﺏ ﺧﺼﺎﻝ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ )
ترجمہ :ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ رضی اللہ عنہم ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﮐﻮ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔
ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﮨﺮﯾﺮۃ رضی اللہ عنہ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ : ﺍِﻥَّ ﺍَﮨْﻞَ ﺍﻟﺸِّﺮْﮎِ ﮮُﻋْﻔُﻮْﻥَ ﺷَﻮَﺍﺭِﺑَﮩُﻢْ، ﻭَﮮُﺣْﻔُﻮْﻥَ ﻟِﺤَﺎﮨُﻢْ ﻓَﺨَﺎﻟِﻔُﻮﮨُﻢْ ، ﻓَﺎﻋْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﻠِّﺤٰﯽ ﻭَﺍﺣْﻔُﻮﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ ۔ (ﺭﻭﺍﮦ ﺍﻟﺒﺰﺍﺯ ﺑﺴﻨﺪ ﺣﺴﻦ)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﺸﺮﮎ ﻟﻮﮒ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺲ ﺗﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭ، ﺍﻭﺭﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﻮ ۔
ﻋﻦ ﺍﺑﯽ ﮨﺮﯾﺮۃ رضی اللہ عنہ ﻗﺎﻝ ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ : ﺟُﺰُّﻭﺍ ﺍﻟﺸَّﻮَﺍﺭِﺏَ ﻭَﺍَﺭْﺧُﻮﺍ ﺍﻟﻠِّﺤٰﯽ ﺧَﺎﻟِﻔُﻮﺍ ﺍﻟْﻤَﺠُﻮْﺱَ (صحیح ﻣﺴﻠﻢ ﺑﺎﺏ ﺧﺼﺎﻝ ﺍﻟﻔﻄﺮۃ،چشتی)
ترجمہ : ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ رضی اللہ عنہ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠّﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﻣﻮﻧﭽﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺎﭨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﮌﮬﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﻮﺳﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﮐﺮﻭ ۔
ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﺳﺐ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﯿﮟ : ⬇
ﻭﺍﻋﻔﻮﺍ - ﺍﻭﻓﻮﺍ - ﺍﺭﺧﻮﺍ - ﺍﺭﺟﻮﺍ - ﻭﻓﺮﻭﺍ ﮨﮯ ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮ ﻭﯼ ﺭحمة ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺷﺮﺡ ﻣﺴﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻓﺮ ﻣﺎ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻭﻣﻌﻨﺎﻩ ﻛﻠﻬﺎ : ﺗﺮﻛﻬﺎ ﻋﻠﻲ ﺣﺎﻟﻬﺎ ﻫﺬﺍ ﻫﻮ ﺍﻟﻈﺎﻫﺮ ﻣﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﺍﻟﺬﻱ ﺗﻘﺘﻀﻴﻪ ﺍﻟﻔﺎﻇﻪ ۔ (شرح صحیح مسلم ٣ / ١٥١)
ترجمہ : ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻟﻔﺎ ﻅ ﮐﺎ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎﯾﮩﯽ ﮨﮯ ۔
ﺍﯾﮏ ﺷﺒﮧ ﮐﺎ ﺍﺯﺍﻟﮧ
ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺖ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ۔ ﯾﮧ ﺷﺒﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﺟﮩﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﮯ ، ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﺟﺒﯽ ﺣﮑﻢ ﺳﻨﺖ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﭼﺎﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ۔
ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﻓﻘﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺪﺙ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ علیہ الرحمہ ”ﺣﺪﯾﺚ ﺧﺼﺎﻝ ﻓﻄﺮﺕ“ ﮐﯽ ﺷﺮﺡ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﺍﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﺗﺮﮐﮩﺎ ﻋﻠﯽ ﺣﺎﻟﮩﺎ ﻭﺍﻥ ﻻﯾﺘﻌﺮﺽ ﻟﮩﺎ ﺑﺘﻘﺼﯿﺮ ﻭﻻﻏﯿﺮﮦ ۔
ﺗﺮﺟﻤﮧ : ﻣﺬﮨﺐ ﻣﺨﺘﺎﺭﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﻭﺍﻧﮯ ﮐﺎ ﺗﻌﺮﺽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻮﻭﯼ علیہ الرحمہ ﻧﮯﺍﺳﮯ ﺭﺍﺟﺢ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ، ﻧﯿﺰ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ علیہ الرحمہ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺭﺍﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺋﮯ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ۔
ﺟﻤﮩﻮﺭ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﻭ ﻣﺤﻘﻘﯿﻦ ﻭ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻧﯿﺰ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺍﺋﻤﮧ (ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ، ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ، ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ، ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ علیہم الرحمہ) ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﮯ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺘﻔﻖ ﮨﯿﮟ ۔ ﻋﺼﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺗﻤﺎﻡ ﻣﮑﺎﺗﺐ ﻓﮑﺮ ﻗﺮﺁﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﻮﺏ ﮐﮯ ﮨﯽ ﻗﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﻌﻨﯽ ﺧﯿﺮ ﺍﻟﻘﺮﻭﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﯾﺎ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﯾﺎ ﺗﺒﻊ ﺗﺎﺑﻌﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺪﺙ ﯾﺎ ﻓﻘﯿﮧ ﯾﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﮯ ﻋﺪﻡِ ﻭﺟﻮﺏ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﺟﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺏ ﮐﺎ ﮨﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال : قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خالفوا المشرکین اوفروا اللحی واحفوا الشوارب‘ وفی روایة: انہکوا الشوارب واعفوا اللحی متفق علیہ ۔ (مشکوٰة‘ ص:۳۸۰)
ترجمہ : مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں پست کرو (چھوٹی کرو) اور داڑھی کو معاف رکھو (یعنی اسے نہ کاٹو) ۔
ایک اور حدیث میں ”وارخوا اللحی“ کے الفاظ مذکور ہیں ۔ یعنی داڑھی لمبی کرو ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ مونچھوں کو کٹواو اور داڑھی کو بڑھاو ۔ (صحیح مسلم ج ۱) ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مونچھوں کوکٹوانے اور داڈھی بڑھانے کا حکم فرمایا ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مشرکوں کی مخالفت کرو ،داڑھیاں بڑھاو اور مونچھیں کٹواو (مشکوۃ شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مونچھیں کٹواو اور داڑھی بڑھاو اور مجوسیوں کی مخالفت کرو ۔ (صحیح مسلم ج ۱)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جو مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (رواہ احمد والترمزی،چشتی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ر وایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پرجو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں ،اور اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں ۔ (رواہ البخاری ، مشکوۃ)
پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کٹانا اور داڑھی بڑھانا انسان کی فطرتِ سلیمہ کا تقاضا ہے ، اور مونچھیں بڑھانا اور داڈھی کٹانا خلافِ فطرت ہے ، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ فطرۃ اللہ کو بگاڑتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے کہ شیطان نے اللہ سے کہا تھا کہ میں اولاد آدم گمراہ کروں گا ، اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق کو بگاڑا کریں ۔ تفاسیر میں ہے داڈھی منڈوانا بھی تخلیقِ خداوندی کو بگاڑنے میں داخل ہے ۔ کیونکہ اللہ نے مردانہ چہرے کو فطرتاً داڑھی کی ز ینت و وجاہت عطا فرمائی ہے ۔
دوسری حدیث میں مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکمیل ہر مسلمان پر واجب اور اس کی مخالفت حرام ہے ۔ پس اس وجہ سے بھی داڑھی رکھنا واجب اور اس کا منڈانا حرام ہوا ۔ اور تیسری اور چوتھی حدیث میں فرمایا گیا ہے مونچھیں کٹوانا اور داڑھی رکھنا مسلمانوں کا شعار ہے اس کے بر عکس مونچھیں بڑھانا اور داڑھی منڈانا مجوسیوں اور مشرکوں کا شعار ہے اور ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو مسلمانوں کا شعار اپنانے اور مجوسیوں کے شعار کی مخالفت کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے : من تشبہ بقوم فھو منھم ۔
ترجمہ : جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہو گا ۔(جامع صغیر ج ۲)
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم انہ ”لعن المتشبہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء ۔ (سنن ابوداود : ج : ۲ ص ۲۱۲)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عورتوں میں سے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور مردوں میں سے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں‘ لعنت فرمائی ہے ۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال : قال رسول اللہ ” من تشبہ بقوم فہو منہم ۔ (ابوداود‘ ج:۲‘ص:۲۰۳)
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا ۔
عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال : لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الرجل یلبس لبسة المرأة‘ والمرأة تلبس لبسہ الرجل ۔ (ابوداؤد‘ ج:۲‘ ص: ۲۱۲)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنے‘ اسی طرح اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنے ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : لعن رسول اللہ المخنثین من الرجال والمترجلات من النساء وقال اخرجوہم من بیوتکم ۔ (مشکوٰة:۳۸۰)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ لعنت کرتے ہیں ان مردوں پر (جو داڑھی منڈا کر یا زنانہ لباس پہن کر) عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو ۔
داڑھی کا ایک مٹھی سے پہلے کٹانا یہ بھی یہود و نصاریٰ اور ایرانی پارسیوں کے ساتھ مشابہت ہے ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : حلق کردن لحیہ حرام است وروش افرنج وہنود است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است واورا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین است یا بہ جہت آنکہ ثبوت آں بہ سنت است ۔ (اشعة اللمعات ج:۱‘ ص:۲۱۲)
ترجمہ : داڑھی منڈانا حرام ہے اور اہل مغرب اور ہندؤں کا طریقہ ہے ‘ داڑھی ایک مشت رکھنا واجب ہے اور اس کو سنت اس اعتبار سے کہا جاتاہے کہ یہ دین میں طریقہ مسلوکہ ہے یا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ سنت سے ثابت ہے ‘ چنانچہ نمازِ عید کو (اسی معنیٰ کے اعتبار سے) سنت کہا جاتا ہے ‘ حالانکہ وہ واجب ہے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے : واما الاخذ منہا وہی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ احد ۔ (کتاب الصوم مطلب فی الاخذ من اللحیة ج:۲‘ ص:۱۵۵)
ترجمہ : داڑھی منڈانے اور کٹوانے کی حرمت پر اجماع کی تصریح ہے ۔
حدیث شریف میں ہے : عن رویفع بن ثابت قال: قال لی رسول اللہ ا یارویفع! لعل الحیوٰة ستطول بک بعد فاخبر الناس ان من عقد لحیتہ او تقلد وترا او استنجی برجیع دابة او عظم فان محمدا منہ برئ ۔ (مشکوٰة‘ ص:۴۳)
ترجمہ : حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے فرمایا کہ : میرے بعد قریب ہے کہ تیری زندگی دراز ہو ‘ لوگوں کو خبر دینا کہ جو شخص اپنی داڑھی میں گرہ لگائے یا داڑھی چڑھائے یا تانت کا قلادہ ڈالے یا گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس سے بری ہیں ۔
الاختیار شرح المختار میں ہے : اعفاء اللحی قال: محمد : عن ابی حنفیة ترکہا حتی تکث وتکثر والتقصیر فیہا سنة‘ وہو ان یقبض رجل لحیتہ فما زاد علی قبضہ قطعہ‘ لان اللحیة زینة وکثرتہا من کمال الزینة وطولہا الفاحش خلاف السنة ۔
ترجمہ : اعفاء اللحی یعنی داڑھی بڑھانا امام محمد کی روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہما الرحمہ نے فرمایا داڑھی کو چھوڑے رکھنا چاہیے ‘ یہاں تک کہ گھنی ہو جائے اور بڑھ جائے اور داڑھی میں قصر سنت ہے اور قصر یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی سے پکڑے جو مٹھی سے بڑھ جائے اس کو کاٹ دیں ۔ داڑھی سنت ہے اور اس کا بھر پور ہونا (گھنی ہونا) کمال زینت ہے اور داڑھی کی غیر معمولی درازی خلاف سنت ہے ۔ (الاختیار شرح المختار ج:۴‘ ص:۲۳۵)
حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : وقد اختلفوا فیما طال منہا فقیل : ان یقبض الرجل علی لحیتہ واخذ ما فضل عن القبضة فلا باس‘ فقد فعلہ ابن عمر وجماعة من التابعین‘ واستحسنہ الشعبی وابن سیرین‘ وکرہہ الحسن وقتادة وقالا: ترکہا عافیة احب لقولہ ا اعفوا اللحی ۔ (احیاء العلوم‘ ج:۱‘ ص:۱۴۸،چشتی)
ترجمہ : لوگوں نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ اگر داڑھی لمبی ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے ؟ بعض کا قول ہے کہ مقدار مشت چھوڑ کر باقی کاٹ ڈالے تو کچھ مضائقہ نہیں اس لیے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور بہت سے تابعین رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا ہے اور امام شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے‘ حسن اور قتادہ رضی اللہ عنہم نے اس کو مکروہ فرمایا ہے اور کہا ہے کہ : اس کو لٹکی رہنے دینا مستحب ہے ‘ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : ”اعفوا اللحی“ داڑھی بڑھاؤ“ ۔ (مذاق العارفین ترجمہ احیاء العلوم‘ ص:۱۵۹‘۱۶۰)
اور نصاب الاحتساب میں ہے : قال علیہ السلام : احفوا لشوارب واعفوا اللحی ای قصوا الشوارب واترکوا اللحی کما ہی ولاتقطعوہا ولاتحلقوہا ولاتنقصوہا من القدر المسنون وہو القبضة ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی بڑھاؤ یعنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھی کو اپنی حالت پر بڑھاؤ اور جب تک وہ ایک قبضہ بھر نہ ہوجاوے اس کو نہ کٹاؤ ‘ نہ منڈواؤ ‘ نہ گھٹاؤ اور صحیح مقدار ایک مٹھی ہے ۔
بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنا ہی واجب ہے اور داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کتروانا حرام ہے اور اس پر ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کا اتفاق ہے ۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی کتاب الآثار میں ہے : محمد قال اخبرنا ابوحنیفة رحمہ اللہ عن الہیثم عن ابن عمر انہ کان یقبض علی اللحیة ثم یقص ما تحت القبضة قال محمد: وبہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ ۔
ترجمہ : امام محمد امام اعظم ابوحنیفہ سے وہ حضرت ہیثم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کرمٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے ‘ امام محمد فرماتے ہیں کہ : ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم نے بھی یہی فرمایا ہے ۔
فقہ مالکی کے مشہور فقیہہ علامہ محمد بن محمد غیثنی مالکی علیہ الرحمہ ”المنح الوفیہ شرح مقدمہ العزیة“ میں فرماتے ہیں : ان ترک الاخذ من اللحیة من الفطرة‘ وامر فی الارسال بان تعفی ای تترک ولاحرج علی من طالت لحیتہ بان یأخذ منہا اذا زادت علی القبضة ۔
ترجمہ : داڑھی رکھنا فطرت میں سے ہے اور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ بڑھائی جائے ‘ لیکن جس شخص کی داڑھی ایک قبضہ سے لمبی ہو جائے تو ایسے شخص کو قبضہ سے زائد حصہ کو کتروا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ۔
مشہور شافعی فقیہ اور محدث امام نووی علیہ الرحمہ ”حدیث خصال فطرت“ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں : المختار ترکہا علی حالہا وان لایتعرض لہا بتقصیر ولاغیرہ ۔
ترجمہ : مذہب مختاریہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے ۔
فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ”کشاف القناع شرح متن الاقناع“ ج:۱‘ ص:۶۰ میں ہے : واعفاء اللحیة ،، بان لایاخذ منہا شیأ مالم یستہجن طولہا ویحرم حلقہا ولایکرہ اخذ ما زاد علی القبضة ۔
ترجمہ : اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت داڑھی کو چھوڑ دینا ہے اس طرح کہ اس میں سے کچھ بھی نہ تراشے جب تک کہ وہ لمبی ہو کر بڑی نہ لگنے لگے اور اس کا منڈانا تو بالکل حرام ہے ‘ البتہ قبضہ سے زیادہ حصہ کا تراشنا مکروہ نہیں ۔
بہرحال مذکورہ تمام احادیث اور فقہاء کرام علیہم الرحمہ کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت یعنی قبضہ سے کم کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور حرام ہے اور اتنی داڑھی رکھنا کہ لوگوں کی نگاہیں اس پر اٹھیں یعنی صرف یہ معلوم ہو کہ داڑھی رکھی ہوئی ہے ‘ یہ بات قرآن و سنت اور فقہاء کرام علیہم الرحمہ کے اقوال کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے اور اسلام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے جوکہ انتہائی خطرناک ہے ۔ لہٰذا جو لوگ اس قبیح فعل کے مرتکب ہیں یا دوسروں کےلیے اس فعلِ قبیح کا سبب بنے ہیں ‘ سب پر ضروری ہے کہ داڑھی ایک مٹھی رکھیں اور اب تک جو گناہ ہوا ہے اس سے صدق دل سے توبہ و استغفار کریں ۔ ورنہ آئندہ جو بھی ان کی وجہ سے داڑھی ایک مشت سے پہلے کتروائے گا تو ان کا وبال بھی ان ہی پر ہو گا ۔ حدیث شریف میں ہے : من سن فی الاسلام سنة حسنة فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل ولاینقص من اجورہم شیئ‘ ومن سن فی الاسلام سنة سیئة فعل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا ولاینقص من اوزار ہم شیئ ۔ (صحیح مسلم‘ ج:۲‘ ص:۳۴۱،چشتی)
ترجمہ : جس نے اسلام میں کسی نیکی کی بنیاد ڈالی اور اس نیکی پر بعد میں بھی عمل ہوتا رہا تو بعد میں عمل کرنے والوں کی نیکیوں کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو ثواب ملے گا ‘ لیکن اس سے عمل کرنے والوں کی نیکیوں میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور جس نے اسلام میں کسی بدی کی بنیاد ڈالی اور اس بدی پر بعد میں عمل ہوتا رہا تو آئندہ عمل کرنے والوں کے گناہ کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو گناہ ملتا رہے گا اور اس کے سبب برائی کرنے والوں کے گناہ میں سے کچھ کمی واقع نہ ہوگی ۔
جو امام ، خطیب ، پیر و نعت خوان داڑھی منڈاتے ہیں یا ایک مٹھی سے پہلے کتراتے ہیں تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہیں اور فاسق کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں ‘ بلکہ نمازیوں پر ضروری ہے کہ متقی پر ہیزگار عالمِ دین کو امام بنائیں جو شریعت اور سنت کا پابند ہو ‘ البتہ ایسے امام کی اقتداء میں جو نمازیں ادا کی گئی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ‘ وہ نمازیں ہوگئیں باقی ثواب پورا نہیں ملے گا ‘ جیساکہ درمختار میں واجبات صلوٰة میں یہ قاعدہ لکھا ہے : کل صلوٰة ادیت مع کراہة التحریم تجب اعادتہا “ اور رد المحتار میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کرکے تصحیح کےلیے یہ توجیہ کی ہے : الا ان یدعی تخصیصہا بان مرادہم بالواجب والسنة التی تعاد بترکہ ماکان من ماہیة الصلوٰة و جزائہا ۔
جو لوگ داڈھی منڈواتے ہیں وہ مسلمانوں کا شعار ترک کر کے اہلِ کفر کا شعار اپناتے ہیں ۔ جس کی مخالفت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حکم فرمایا ۔ اس لیے ان کو وعید نبوی سے ڈرنا چا ہیے ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو داڈھی منڈوانے کے گناہ سے اس قدر نفرت تھی کہ جب شاہِ ایران کے قاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڈھیاں منڈی ہوی اور مونچھیں بڑی ہوئی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کی طرف نظر کرنا پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمیں یہ شکل بگاڑنے کا کس نے حکم دیا ہے ۔ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہِ ایران کا حکم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڈھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہی ۔ پس جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر کے مجوسیوں کے خدا کے حکم کی پیروی کرتے ہیں ان کو سو بار سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائینں گے ۔ اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرمائیں کہ تم اپنی شکل بگاڑنے کی وجہ سے ہماری جماعت سے خارج ہو تو شفاعت کی امید کس سے رکھیں گے ۔
داڈھی رکھنا واجب ہے مگر اس کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے ۔ اسی لیے بعض لوگ سنت کہ دیتے ہیں ۔چناچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فر ماتے ہیں ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ داڈھی سنت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی طریقہ ہے یا اس کا واجب ہونا حدیث سے ثابت ہوا ہے ۔ بلکہ ہر واجب سنت ہی سے ثابت ہوتا ہی ۔ جیسے کہ در مختار باب وتر میں ہے یعنی نماز وتر کے واجب ہونے کا ثبوت سنت سے ثابت ہوا ہے نہ کہ قرآن سے ۔ (لمعات شرح مشکوۃ)
داڑھی کو سنت کہنا ایسا ہے جیسے کہ قربانی کو سنتِ ابراہیم علیہ اسلام کہا جاتا ہے ۔ پس جب کہ قربانی کو سنت ابرہیمی کہنے سے یہ قربانی فرض ہونے سے نکل کر مستحب نہیں بن جاتی ۔ اسی طرح داڈھی کو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کہ دینے سییہ واجب ہونے سے نہیں نکل جاتی بلکہ اس کا منڈوانا حرام ہی رہتا ہے ۔ خالقواالمشرکین و وفرواللحی واحفو الشوارب ۔ مسلم ۔ مشرکین کے طریق سے خلاف رہو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو اور کم کرو مونچھوں کو ۔ جز الشوارب وارخو اللحی خالقوا المجوس ۔ بخاری ۔ کتراٶ مونچھوں کو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو ۔ خلاف کرو مجوسیوں کے ۔ من لم یا خذ من شاربہ فلیس منا ۔ ترمذی ۔ جو شخص مونچھیں کم نہ کرائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ ابو داؤد وغیرہ ۔ دس چیزیں فطرت سے ہیں مونچھوں کا کٹوانا ، داڑھی کا بڑھانا ، مسواک کرنا وغیرہ ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑ لیتے تھے جو حصہ زائد ہوتا تھا اس کو کتروا دیا کرتے تھے ۔
داڑھی کے وجوب کا استنباط : اگر غور کیا جائے تو اسی سے داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس پر مواظبت بلا ترک فر مائی ہے یعنی ہمیشگی کے ساتھ داڑھی رکھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہوا جو اصولاً وجوب کی علامت ہے اگر مواظبت مع الترک ہو یعنی کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس عمل کو ترک بھی فر مادیا ہو تو وہ عمل سنت کہلاتا ہے ۔ لیکن داڑھی کا رکھنا کبھی ایک ساعت کےلیے بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ترک نہیں فر مایا اس لیے اس مواظبت بلا ترک سے ہم داڑھی رکھنے کے وجوب کا بھی استدلال کر سکتے ہیں ۔
داڑھی کے وجوب پر عملی ثبوت : حضرت حسان بن بلال رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا تو اپنی داڑھی میں خلال بھی کیا آپ سے عرض کیا گیا یہ کیا بات ہے آپ داڑھی میں خلال فر مارہے ہیں ۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو دیکھ چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ، تو مجھے اپنی داڑھی میں خلال کرنے سے کون سی بات روک سکتی ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما راویت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب وضو فر ماتے تھے تو رخسار مبارک کو کسی قدر ملا کرتے تھے پھر ''ریش مبارک'' میں انگلیاں نیچے کی طرف سے داخل کر کے جال سا بنا کر خلال کیا کرتے تھے ۔ ابن سکن نے اس روایت کی تصحیح فر مائی ہے ۔ نوٹ یہ روایتیں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی ، دار قطنی وغیرہ محدثین علیہم الرحمہ نے ذکر فر مائی ہیں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سر مبارک میں اکثر تیل لگایا کرتے تھے ، اور ریش مبارک میں کنگھی کیا کرتے تھے ۔
یزید بن فارسی جو کہ مصاحف لکھا کرتے تھے انہوں نے فر مایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ میں نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فر ما یا کرتے تھے کہ ''شیطان میری صورت '' نہیں بنا سکتا اس لیے جس شخص نے بھی مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے مجھ ہی کو دیکھا ۔ کیا تم اس شخص کا جس کو خواب میں دیکھا ہے حلیہ بیان کر سکتے ہو میں نے کہا ہاں ! وہ متوسط بدن اور قامت کے تھے ، گندم گو سفیدی مائل ، سر مگیں آنکھوں والے اچھا ہنسنے والے ، چہرہ کے خوبصورت دائروں والے ان کی داڑھی نے یہاں سے یہاں تک (دائیں سے بائیں تک) کے حصے کو بھر دیا ہے اور سینہ کو بھر دیا ہوا ہے (پہلے کلام میں داڑھی کو چوڑائی اور دوسرے کلام میں لمبائی بتلائی ہے) قال عوف ولا ادری ما کان مع ھذ النعت راوی عوف نے کہا کہ اس کے علاوہ جو چیزیں حلیہ کی ذکر کی تھیں ان کو میں اس وقت بھول گیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا کہ اگر تم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جاگتے ہوئے دیکھتے تو اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتے تھے ۔ (ترمذی فی الشمائل)
یہ روایت صاف بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی داڑھی لمبی اور چوڑی اتنی تھی کہ سینہ مبارک کی لمبائی اور چوڑائی کو اس نے ڈھنک لیا تھا ۔ ان احادیث مبارکہ سے دو باتیں مستنبط ہیں ۔
داڈھی منڈوانے کی تاریخ : تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ عمل قوم لوط علیہ اسلام سے شروع ہوا ۔ اغلب یہی ہے وہ مرد پرست تھے جب ان کے مردوں کی داڑھیاں آجاتی تھیں تو امرد ہی رہنے کی غرض سے وہ داڑھی منڈوایا کرتے تھے ۔ چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ دس برے کاموں کی وجہ سے قوم لوط ہلاک کی گئی ہے ان میں سے ایک لواطت ہے ، شراب پینا ، داڈھی منڈوانا ، اور مونچھیں بڑھانا بھی شامل ہے ۔ (تفسیر در منثور جلد ۴،چشتی)(تفسیر روح المعانی)
آج کل ہمارے معاشرے میں طرح طرح کی باتیں کر کے داڑھی نہ رکھنے کے بہانے بنائے جاتے ہیں مثلا داڑھی رکھ کر کوئی غلط کام کریں گے تو داڑھی والوں کی بدنامی ہو گی ان لوگوں کا جزبہ تو اچھا ہے پر حقیقت میں شیطان کی بڑی چال ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس سنت کو اپنائیں اور کفار کی دینِ اسلام کے خلاف تمام سازشوں کو ناکام بناٸیں ۔ داڑھی تمام انبیاء کرام علیہم الصلواة والتسلیمات کی متفقہ سنت ، مردانہ فطرت اور شعارِ اسلام ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بار بار داڑھی رکھنے کا حکم فرمایا ہے او راسے صاف کرانے پر غیظ و غضب کا اظہار فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ داڑھی رکھنا تمام ائمہ اربعہ علیہم الرحمہ کے ہاں متفقہ طور پر واجب ہے اور منڈانا ایک مٹھی سے کم ہونے کی صورت میں کترانا بالاتفاق حرام ، گناہ کبیرہ ، فسق ، فطرتِ انسانی کی خلاف ورزی ، شرافتِ انسانی کی توہین ، جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کی مخالفت اور اغوائے شیطان سے الله تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑنا ہے ، عورتوں کے ساتھ مشابہت کی بنا پر موجبِ لعنت ہے ، مجوس ، مشرکین ، یہود و نصاری ، فساق و فجار اور مغاربہ کا شیوہ ہے ، تمام اولیاء الله اور اکابرینِ امت علیہم الرحمہ کی عملاً مخالفت ہے ، نماز ، روزہ ، حج غرض ہر عبادت کے دوران ساتھ رہنے والا گناہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔
باقی یہ کہنا کہ” داڑھی تو اتنی رکھنا ضروری ہے کہ جس کا چالیس قدم کے فاصلے سے پتہ چل جائے اور داڑھی کی کم مقدار متعین نہیں جتنی بھی ہو بس داڑھی ہو اور حضرت عمر رضی الله عنہما کی داڑھی ایک مٹھی سے کم تھی وغیرہ “ بے بنیاد اور بے دلیل ہے ، دشمنانِ دین کا پروپیگنڈہ ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیہم اجمعین پر بہتان تراشی ہے ۔
جولوگ داڑھی والوں کا مذاق اس لیے اڑاتے ہیں کہ داڑھی رکھنے والوں نے اپنے چہروں پرسنتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سجا رکھا ہے اور وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کا صرف نکاح ہی نہیں ایمان بھی ختم ہو جاتاہے ، ان پرلازم ہے کہ ایمان اور نکاح دونوں کی تجدید کریں اور آئندہ کےلیے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین سے باز رہیں ۔ داڑھی رکھنے والوں پربھی لازم ہے کہ وہ خود بھی داڑھی کا احترام اور لحاظ رکھیں یعنی ایسی حرکات اور ایسے اعمال سے اجتناب کریں جن کی وجہ سے لوگ داڑھی کی توہین کے جرم میں مبتلاء ہوں ۔
داڑھی رکھنے کے طبی فوائد
داڑھی کی مرد ھارمون کی افزائش کےلیے معاون ثابت ہوتی ہے اس کی وجہ سے خون میں نر ہارمون بکثرت پیدا ہوتے ہیں جب کہ داڑھی منڈوانے کی صورت میں خون کے اندر مادہ ہارمون کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس صورت میں چہرہ عورتوں کے مشابہ ہوتا ہے اور مشہور ہے کہ باریش مردوں کی جنسی توانائی داڑھی منڈے ہوئے جوانوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ڈاکٹر میری قبانی نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے کہ داڑھی رہنے سے جنسی عمل کے وقت عورت زیادہ برانگیختہ ہوتی ہے غور کرنا چاہیے کہ داڑھی نہ ہونے سے مردوں اور عورتوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے ۔ (سلام اور جدید سائنس)
ان تمام نصوص کے پیشِ نظر فقہائے امت علیہم الرحمہ اس پر متفق ہیں کہ داڑھی بڑھانا واجب ہے ، اور یہ اسلام کا شعار ہے ، اور اس کا منڈانا یا کترانا جبکہ حدِ شرعی سے کم ہو حرام اور گناہ ہے ، جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں ۔ اللہ تعالٰی ہر مسلمان کو اس فعل حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
از فتاویٰ رضویہ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ : (۱) ریش ایک مشت سے زیادہ رکھنا سنت ہے یامکروہ ؟ ۔ (۲) اور فخر عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ریش مبارک اپنی کو کبھی زیادہ ایک مشت سے ترشوایا ہے یانہیں ؟ ۔ (۳) اور دیگر سوال یہ ہے کہ زید کہتاہے کہ سید الموجودات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ریش مبارک ایک مشت سے زیادہ کبھی نہ ہوئی یعنی پیدائشی آپ کی ایک ہی مشت تھی ۔ (۴) اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زیادہ ایک مشت سے تھی یا ایک ہی مشت ؟ بینوا توجروا (بیان کروا اور اجر پاؤ ۔ ت)
الجواب
جواب سوال اول : ریش ایک مشت یعنی چار انگلی تک رکھنا واجب ہے اس سے کمی ناجائز ۔ شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے:گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست وآنکہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک دین ست یا بجہت آنکہ ثبوت آن بسنت ست چنانچہ نماز عید راسنت گفتہ اند ۱؎۔داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہاجاتا ہے حالانکہ وہ واجب ہے۔ (ت)(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ کتاب الطہارۃ باب السواک مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۱۲)
فتح القدیر میں ہے:الاخذ منھا وھی دون ذٰلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال ۲؎۔داڑھی تراشنا یا کترنا کہ وہ مشت کی مقدار سے کم ہوجائے ناجائز ہے جیسا کہ بعض مغربیت زدہ لوگ اور ہیجڑے کرتے ہیں ۔ (ت)
(۲؎ فتح القدیر باب الصیام باب مایوجب القضاۃ والکفارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۷۰)
غرض لحیہ سے کچھ لینا بھی اسی حالت سے مشروط ہے جبکہ طول میں حد شرع تک پہنچ جائے۔فی الھندیہ من الملتقط لاباس اذا طالت لحیتہ طولا وعرضا لکنہ مقید بما اذا زاد علی القبضۃ ۳؎۔فتاوٰی ہندیہ میں بحوالہ ''الملتقط'' منقول ہے کہ جب داڑھی طول اور عرض میں بڑھ جائے تو ایک مشت مقدار سے زائد کاٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(ت)(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب التاسع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۸)
اور پر ظاہر کہ مقدار ٹھوڑی کے نیچے سے لی جائے گی یعنی چھوٹے ہوئے بال اس قدر ہوں وہ جو بعض بیباک جہال لب زیریں کے نیچے سے ہاتھ رکھ کر چار انگل ناپتے ہیں کہ ٹھوڑی سے نیچے ایک ہی انگل رہے یہ محض جہالت اور شرع مطہر میں بیباکی ہے غرض اس قدر میں تو علمائے سنت کا اتفاق ہے۔ اس سے زائد اگر طول فاحش حد اعتدال سے خارج بے موقع بدنما ہو تو بلا شبہہ خلاف سنت مکروہ کہ صورت بد نما بنانا اپنے منہ پر دروازہ طعن مسخر یہ کھولنا مسلمانوں کو استہزاء وغیبت کی آفت میں ڈالنا ہر گز مرضی شرع مطہر نہیں، نہ معاذا للہ زنہار کہ ریش اقدس حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عیاذا باللہ کبھی حد بدنمائی تک پہنچی سنت ہونا اس کامعقول نہیں۔
وان ذھب بعض العلماء من غیر اصحابنا الی اعفاء اللحی جملۃ واحدۃ وکراھۃ اخذ شیئ منھا مطلقا وھو الذی اختارہ الامام الاجل النووی والعجب من ابن ملک حیث تابعہ علی ذٰلک مستدرکا بہ علی قول نفسہ ان الاخذ من اطراف اللحیۃ طولھا وعرضھا للتناسب حسن کما نقل عنہ المولی علی القاری فی کتاب الطھارۃ من المرقاۃ ۱؎ والعجب انہ ایضا سکت علیہ ھھنا مع انہ خلاف ماعلیہ ائمتنا الکرام کما ترٰی۔
اگر چہ ہمارے اصحاب علم کے سوا کچھ دوسرے علماء کا خیال ہے کہ داڑھی کو یک لخت مجموعی طو ر پر بڑھنے دیا جائے اور محدود نہ کیا جائے وہ داڑھی کو تراشنے کے حق میں مطلقا نہیں اور وہ تراشنے کو مکروہ خیال کرتے ہیں جلیل القدر امام نووی نے اسی چیز کو پسند کیا ہے لیکن ابن ملک پر تعجب ہے کہ اس نے اس مسئلہ میں امام نووی کی متابعت کرتے ہوئے اپنے قول پر استدراک کیا کہ داڑھی کی اطراف طول وعرض سے تناسب قائم رکھنے کے لئے کچھ تراش خراش کرنامستحسن یعنی اچھا ہے جیسا کہ اس سے محدث ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کی بحث طہارت میں نقل کیا ہے اور ان پر بھی تعجب ہے کہ وہ یہاں خاموش رہے حالانکہ یہ اس کے خلاف ہے جس پر ہمارے ائمہ کرام قائم ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو۔ (ت)(۱؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب السواک الفصل الاول المکتبۃ الحبیبہ کوئٹہ ۲/ ۹۱)
ولہذا حدیث میں آیا حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:من سعادۃ المرء خفۃ لحیتہ ۲؎۔ اخرجہ الطبرانی فی الکبیر وابن عدی فی الکامل عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما۔آدمی کی سعادت سے ہے داڑھی کا ہلکا ہونا یعنی یہ کہ بیحد دراز نہ ہو۔ (امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور ابن عدی نے الکامل میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے تخریج فرمائی۔ ت)(۲؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۲۸۲۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۲/ ۲۱۱)(الکامل لابن عدی ترجمہ یوسف بن فرق بن لمازۃ قاضی الاھواز دارالفکر بیروت ۷/ ۲۶۲۴، ۲۶۲۵)
علامہ خفاجی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : المراد من ذٰلک عدم طولھا جدا لما ورد فی ذمہ ۱؎۔یقینا اس سے مراد غیر طویل ہے کیونکہ اس کی مذمت میں حدیث واردہوئی ہے۔ (ت)
(۱؎ نسیم الریاض الباب لثانی فصل الثالث ادارۃ تالیف اشرفیہ ملتان ۱/ ۳۳۱)
امام حجۃ الاسلام غزالی احیاء العلوم پھر مولانا علی قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں:قد اختلفوا فیما طال من اللحیۃ فقیل ان قبض الرجل علی لحیتہ واخذ ماتحت القبضۃ فلا باس بہ وقد فعلہ ابن عمر و جماعۃ من التابعین واستحسنہ الشعبی و ابن سیرین وکرھہ الحسن وقتادۃ ومن تبعھما وقالواترکھا عافیۃ احب لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اعفوا اللحی لکن الظاھر ھوالقول الاول فان الطول المفرط یشوہ الخلقۃ ویطلق السنۃ المغتابین بالنسبۃ الیہ فلا باس للاحتراز عنہ علی ہذہ النیۃ، قال النخعی عجبت لرجل عاقل طویل اللحیۃ کیف لایاخذ من لحیتہ فیجعلھا بین لحیتین ای طویل وقصیر فان التوسط من کل شیئ احسن ومنہ قیل خیر الامور اوسطھا ومن ثم قیل کلما طالت اللحیۃ نقص العقل ۲؎۔
بے شک داڑھی کے دراز حصہ میں (یعنی اس کی درازی کے بارے میں) اہل علم نے اختلاف کیا ہے پس یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی مشت بھر داڑھی کو پکڑ کر مشت سے زائدبالوں کو کاٹ ڈالے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرات تابعین کے ایک گروہ نے اس طرح کیا تھا اور امام شعبی اور محمد بن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا البتہ حضرت حسن بصری اور امام قتادہ اور ان کے ہمنوا لوگوں نے اس کو مکروہ کہا اور انھوں نے فرمایا کہ اسے بڑھتے ہوئے چھوڑ دینا زیادہ مناسب اور پسندیدہ بات ہے ، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ داڑھیاں بڑھاؤ، لیکن ظاہر وہی پہلی بات ہے کیونکہ فحش درازی صورت کوبد نمابنادے گی اور اس کی نسبت (لوگوں کی) زبانیں درازہوجائیں گی پھر اس نیت سے اس سے بچنے میں کوئی حرج نہیں پھر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اگر کوئی عقلمند آدمی لمبی داڑھی والا ہو یعنی اس کی داڑھی زیادہ لمبی ہونے لگے تو وہ کیونکر داڑھی نہ تراشے گا، پھروہ لمبی اور چھوٹی دوقسم کی داڑھیوں کے درمیان کردے گا اس لئے کہ ہر چیزمیں میانہ روی اچھی ہوتی ہے اسی لئے فرمایا گیا کہ بہترین کام درمیانہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بھی کہا گیا کہ جب بھی داڑھی لمبی ہو تو عقل کم ہوگی۔ (ت)(۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الثانی المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۲۳)
ردالمحتار میں ہے:اشتھر ان طول اللحیۃ دلیل علی خفۃ العقل ۱؎۔مشہور ہے کہ لمبی داڑھی بے وقوف ہونے کی علامت ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۶۱)
اور اگر حد سے زائد نہ ہو تو بعض ائمہ سلف رضی اللہ تعالٰی عنہم سے منقول امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی ریش مبارککما نص علیہ الامام ابن حجر فی الاصابۃ وکذالک نقل الفاضل ابن عبدﷲ الشافعی نزیل المدینۃ الطیبۃ فی کتابہ الاکتفاء فی فضل الاربعۃ الخلفاء عن الامام البغوی ۔
(جیسا کہ امام ابن حجر نے ''اصابہ'' میں تصریح فرمائی ہے اور اسی طرح امام بغوی کے حوالے سے فاضل بن عبداللہ شافعی جو مدینہ طیبہ کے باسی ہیں، نے اپنی کتاب''الاکتفاء'' فی فضل الاربعۃ الخلفاء''میں نقل کیا ہے۔ ت)
امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی قدس سرہ الشریف فرماتے ہیں:کان شیخنا شیخ الاسلام محی الدین ابو محمد عبدالقادر الجیلی نحیف البدن ربع القامۃ عریض الصدر عریض اللحیۃ طویلھا الخ۔ اخرجہ الامام الثقۃ الفقیہ امام القراء سیدی ابوالحسن نور الدین علی الشطنوفی فی قدس سرہ فی بھجۃ الاسرار ۲؎۔ہمارے مرشد حضور شیخ الاسلام محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بدن مبارک دبلا تھا اور قامت شریف میانہ، سینہ مقدس چوڑا، ریش منور پہن ودراز الخ ۔(مستند امام ، علم فقہ کے ماہر، قاریوں کے پیشوا سیدی ابوالحسن نورالدین علی شطنوفی قدس سرہ نے بہجۃ الاسرار میں اس کی تخریج فرمائی ہے۔ (ت)(۲؎ بہجۃ الاسرار نسبہ وصفتہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ مصطفی البابی مصر ص۹۰،چشتی)
شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں:عادت سلف دریں باب مختلف بود آوردہ اند کہ لحیہ امیر المومنین علی پرمی کرد سینہ اُورا وہمچنیں عمر وعثمان رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین و نوشتہ اند کان الشیخ محی الدین رضی ﷲ تعالٰی عنہ طویل اللحیۃ وعریضھا ۱؎۔اسلاف کی عادت اس بارے میں مختلف تھی چنانچہ منقول ہے کہ امیر المومنین حضر ت علی رضی اللہ عنہ کی داڑھی ان کے سینے کو بھردیتی تھی اس طرح حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہماکی مبارک داڑھیاں تھیں، اور لکھتے ہیں کہ شیخ محی الدین سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ لمبی داڑھی اور چوڑی داڑھی والے تھے۔ (ت)(۱؎ مدارج النبوت باب اول بیان لحیۃ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
شاید انھیں آثار کی بنا پر شیخ محقق نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا:مشہور قدر یک مشت ست چنانکہ کمتر ازیں نباید و اگر زیادہ براں بگزارد نیز جائز ست بشرطیکہ از حد اعتدال نگزرد ۲؎۔
مشہور مقدار ایک مشت ہے پس اس مقدار سے کم نہیں ہونی چاہئے اور اگر اس سے زیادہ چھوڑدے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ اعتدال برتا جائے۔ (ت)(۲؎ اشعۃ اللمعات کتاب الطہارۃ باب السواک فصل اول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۱۲،چشتی)
اور مدارج میں ایک قول یہ نقل فرمایا کہ علماء ومشائخ کو ایک مشت سے زیادہ رکھنا بھی درست ہے،حیث قال مشہور در مذہب حنفی چہار انگشت و ظاہر آنست کہ مراد آں باشد کہ کم ازیں نمی باید و لیکن در روایت آمدہ است کہ واجب ست قطع زیادہ برآں وگفتہ اند کہ اگر علماء ومشائخ زیادہ براں بگزارند نیز درست ست ۳؎۔جیسا کہ فرمایا مذہب حنفی میں مشہور یہ ہے کہ مقدار داڑھی چار انگشت ہو اور ظاہر یہ ہے کہ اس سے کم نہیں ہونی چاہئے لیکن حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس سے زائد کو قطع کرنا واجب ہے اور فرماتے ہیں اگر علماء اور مشائخ اس سے زائد رکھیں تو بھی جائز ہے۔ (ت)(۳؎ مدارج النبوۃ باب اول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
مگر سیدنا عبداللہ بن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اپنی ریش مبارک مٹھی میں لے کر جس قدر زیادہ ہوتی کم فرمادیتے ۔ بلکہ یہ کم فرمانا خود حضور پر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے ماثور امام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:اخبرنا ابوحنیفہ عن الھیثم عن ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنھما انہ کان یقبض علی لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضہ ۱؎۔ہم سے امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ان سے ابوالہیثم نے ان سے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے کہ حضرت عبداللہ اپنی داڑھی مٹھی میں پکڑ کر زائد حصہ کو کترڈالتے تھے۔ (ت) ۔ (۱؎ کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ ۹۰۰ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۹۸)
ابوداؤد ونسائی مروان بن سالم سے راوی :رأیت ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما یقبض علی لحیتہ فیقطع مازاد علی الکف ۲؎۔میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے۔ (ت)(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب القول عند الافطار آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۳۲۱)
مصنف ابوبکر بن ابی شیبہ میں ہے:کان ابوھریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یأخذ مافضل عن القبضہ ۳؎۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کتر ڈالتے تھے۔ (ت)(۳؎ المصنف ابن ابی شیبہ کتاب الحظروالاباحۃ باب ماقالوا من الاخذمن اللحیۃ ادارۃ القرآن کراچی ۸/ ۳۷۴،چشتی)
فتح القدیر میں ان آثار کو نقل کرکے فرمایا:انہ روی عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎۔باوجود اس کے کہ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راویت کی گئی ۔ (ت)
(۴؎ فتح القدیر کتاب الصوم باب مایوجب القضاء والکفارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۷۰)
ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اسی کو اختیار فرمایا اور عامہ کتب مذہب میں تصریح فرمائی کہ داڑھی میں سنت یہی ہے کہ جب ایک مشت سے زائد ہو کم کردی جائے بلکہ بعض اکابر نے اسے واجب فرمایا اگر چہ ظاہر یہی ہے کہ یہاں وجوب سے مراد ثبوت ہے نہ کہ وجوب مصطلح، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی بعد روایت حدیث مذکور فرماتے ہیں:بہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ ۵؎۔ہم اسی کو لیتے ہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ (ت)
(۵؎کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ ۹۰۰ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۹۸،چشتی)
نہایۃ سے منقول:بہ اخذ ابوحنیفۃ وابویوسف ومحمد ۱؎کذا ذکرا بوالیسر فی جامعہ الصغیر۔اسی کو حضرت امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، اورامام محمد نے اختیار کیا ہے۔ اسی طرح ابوالیسر نے اس کو جامع صغیر میں ذکر کیا ہے۔ (ت)(۱؎ العنایۃ علی ہامش فتح القدیر کتا ب الصوم باب مایوجب القضاء الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۶۹)
مرقاۃ باب الترجل میں ہے:مقدار قبضہ علی ماھوا لسنۃ والاعتدال المتعارف ۲؎۔مقدار مشت ہی سنت ہے اور مشہور مبنی برمیانہ روی ہے اور یہی راہ اعتدال ہے۔ (ت)(۲؎ مرقات المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الاول المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۱۱)
درمختار میں ہے:صرح فی النہایۃ بوجوب قطع مازاد علی القبضۃ بالضم ومقتضاہ الاثم بترکہ الاان یحمل الوجوب علی الثبوت ۳؎۔نہایہ میں تصریح کی گئی ہے کہ داڑھی کے جو بال مقدار مشت سے زیادہ ہوں انھیں کترڈالنا واجب ہے (القبضہ میں ''ق'' حرکت پیش کے ساتھ ہے) اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ اس کا ترک یعنی ایسا نہ کرنا گناہ ہے مگر یہ کہ یہاں وجوب سے ثبوت مرادلیا جائے۔ (ت)(۳؎ درمختار کتاب الصوم باب مایفسد الصوم مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۵۲)
ردالمحتار میں ہے:قولہ صرح فی النھایۃ ومثلہ فی المعراج وقد نقلہ عنہا فی الفتح و اقرہ قال فی النھر وسمعت من بعض اعزاء الموالی ان قول النھایۃ یحب بالحاء المھملۃ ولا باس بہ اھ قال الشیخ اسمٰعیل ولکنہ خلاف الظاھر واستعمالھم فی مثلہ یستحب قولہ الا ان یحمل یؤیدہ ان مااستدل صاحب النھایۃ لایدل علی الوجوب لما صرح بہ فی البحر وغیرہ ان کان یفعل لایقتضی التکرار والدوام ولذا حذف الزیلعی لفظ یجب وقال ومازاد یقص۔ وفی شرح الشیخ اسمعیل لا باس بان یقبض علی لحیتہ فاذا زاد علی قبضہ شیئ جنرہ کما فی المنیۃ وھی سنۃ کما فی المبتغی ۱؎۔
مصنف کا قول ''صرح فی النھایۃ'' اور یونہی معراج الدرایہ میں بھی ہے، اور محقق ابن الہمام نے اسی نہایہ سے نقل کرکے اس کو برقرار رکھا ہے، النہر میں فرمایا میں نے ( بعض موالی کی نسبت کرنے سے) سنا ہے کہ النہایۃ کا یحب کہنا صرف حابے نقطہ کے ساتھ ہے اور اس میں کچھ حرج نہیں اھ شیخ اسمعیل نے فرمایا لیکن یہ ظاہر کے خلاف ہے کیونکہ لوگ اس قسم پر لفظ یستحب استعمال کرتے ہیں مصنف کے قول ''الاان یحمل'' سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ صاحب نہایہ نے جو استدلال کیا ہے وہ وجوب پر دلالت نہیں کرتا، چنانچہ البحرالرائق وغیرہ میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے تھے تو یہ تکرار اور دوام نہیں چاہتا اس لیے علامہ زیلعی نے اس کلمہ یجب کو حذف کردیا اور فرمایا جو کوئی مشت سے زیادہ ہو اسے کتروائے اور شیخ اسمعیل کی شرح میں ہے کہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ آدمی اپنی داڑھی مٹھی میں پکڑے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوں انھیں کتر دے۔ جیسا کہ المنیہ میں ہے اور یہ سنت ہے جیسا کہ المبتغٰی میں ہے۔ (ت)(۱؎ ردالمحتار کتاب الصوم باب مایفسد الصوم داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۱۱۳)
مرقاۃ میں قول نہایہ نقل کرکے فرمایا:قولہ یحب بمعنٰی ینبغی اوالمراد بہ انہ سنۃ مؤکدۃ قریبۃ الی الوجوب والا فلا یصح علی اطلاقہ ۲؎۔صاحب نہایہ کا یحب کہنا ینبغی کے معنی میں ہے یعنی مناسب ہے یا اس سے ایسی سنت مؤکدہ مر اد ہے جو وجوب کے قریب ہے ورنہ یہ علی الاطلاق صحیح نہیں۔ (ت)(۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجیل المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۲۳)
ردالمحتار میں ہے:ھو ان یقبض الرجل لحیتہ فمازاد منہا علی قبضۃ قطعہ کذا ذکر محمد فی کتاب الآثار عن الامام قال وبہ ناخذ محیط اھ ط ۱؎۔مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے کر زائد حصہ کو کاٹ دے، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے کتا ب الآثار میں امام صاحب کے حوالہ سے یہی ذکر فرمایا ہے اور مزید فرمایا ہم اسی مؤقف کے قائل ہیں محیط اھ ط (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۶۱،چشتی)
ہندیہ میں محیط امام سرخسی سے ہے:القص سنۃ فیہا وھو ان یقبض الی آخر مامر ۲؎۔داڑھی کے زائد حصہ کو کتردینا سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ بقدر ایک مشت داڑھی چھوڑ کر باقی زائد کو کتر ڈالے (ت)(۲؎ فتاوی ہندیہ کتاب الحظروالاباحۃ الباب التاسع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۸)
اختیار شرح مختار سے منقول ہے۔التقصیر فیھا سنۃ وھو ان یقبض ۳؎ الخ۔ایک مٹھی بھر داڑھی سے زائد بالوں کا کتردینا سنت ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی بھر میں پکڑ کر زائد حصہ کتر ڈالا جائے الخ (ت)
(۳؎ الاختیار لتعلیل المختار کتاب الکراہیۃ فصل فی آداب ینبغی للمؤمن دارالمعرفۃ بیروت ۴/ ۱۶۷)
اسی طرح اور کتب مذہب میں ہے تو ہمارے علما کے نزدیک ایک مشت سے زائد کی سنت ہر گز ثابت نہیں بلکہ وہ زائد کے تراشنے کو سنت فرماتے ہیں۔ تو اس کا زیادہ بڑھانا خلاف سنت مکروہ تنزیہی ہوگا۔ لاجرم مولانا علی قاری نے جمع الوسائل شرح شمائل ترمذی شریف میں فرمایا:ان کان الطول الزائد بان تکون زیادۃ علی القبضۃ فغیر ممدوح شرعا ۴؎۔اگر داڑھی زیادہ لمبی ہو یعنی ایک مشت سے زائد ہو تو ایسا ہو ناشریعت میں قابل تعریف اور مستحسن ہے۔ (ت) ۔ (۴؎ جمع الوسائل فی شرح الشمائل باب ماجاء فی خلق رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۳۷)
رہاشیخ محقق کا اسے جائز فرمانا وہ کچھ اس کے منافی نہیں کہ خلاف اولٰی بھی ناجائزنہیں، بالجملہ ہمارے علماء رحمہم اللہ تعالٰی کا حاصل مسلک یہ ہے کہ ایک مشت تک بڑھانا واجب اور اس سے زائد رکھنا خلاف افضل ہے اور اس کا ترشوانا سنت ہاں تھوڑی زیادت جو خط سے خط تک ہو جاتی ہے اس خلاف اولٰی سے بالضرورۃ مستثنٰی ہونا چاہئے ورنہ کس چیز کا تراشنا سنت ہوگا۔ھذا ماظھرلی وﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم (یہ تحقیق مجھ پر ظاہر ہوئی۔اور اللہ تعالٰی پاک بلند وبالا اور بڑاہے۔)
جواب سوال دوم : جامع الترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی:ان النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یاخذ من لحیتہ من عرضھا وطولھا ۱؎۔یعنی حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی ریش مبارک کے بال عرض وطول سے لیتے تھے۔(۱؎ جامع الترمذی ابواب الآداب باب ماجاء فی الاخذ من اللحیۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۰۰)
علماء فرماتے ہیں یہ اس وقت ہوتا تھا جب ریش اقدس ایک مشت سے تجاوز فرماتی۔ بلکہ بعض نے یہ قید نفس حدیث میں ذکر کیکما نقل عن التنویر والمفاتیح والغرائب (جیسا کہ تنویر ، مفاتیح اور غرائب سے نقل کیا گیا ہے۔ ت) مرقاۃ شریف میں ہے:قید الحدیث فی شرح الشرعۃ بقولہ اذا زاد علی قدرا القبضۃ وجعلہ فی التنویر من نفس الحدیث وزاد فی الشرعۃ وکان یفعل ذٰلک فی الخمیس والجمعۃ ولایترکہ مدۃ طویلۃ ۲؎۔حدیث میں قید ''الشرعۃ'' کی شرح میں اس قول سے مذکور ہے جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے بال قدر مشت سے زائد ہوجاتے تو آپ زائد بالوں کو کتروادیتے تھے، اور ''تنویر'' میں قید مذکور کو نفس حدیث قرار دیا گیاہے۔ اور ''الشرعۃ'' میں اتنا اضافہ ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بروز جمعہ یا جمعرات کوایسا کرتے تھے اور زیادہ عرصہ نہیں چھوڑتے تھے۔ (ت) ۔ (۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الثانی المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۲۳)
ہمارے علماء کے اقوال گزرے کہ قبضہ سے زیادہ کا تراشنا سنت ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم (ا ور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم رکھتاہے ۔ ت)
جواب سوال سوم : یہ امر محض بے اصل ہے ۔ حدیث مذکور ترمذی اس کا صریح رد ہے کہ اگرقبضہ سے کبھی زائد نہ ہوتی تو عرض وطول سے لینا کیونکر متصور تھا۔
مدارج النبوۃ میں ہے:درلحیۃ شریف در طول قدرے معین در کتب بنظر نمی آید ودر وظائف النبی گفتہ کہ لحیہ آن حضرت صلی تعالٰی علیہ وسلم چہار انگشت بود طبعا یعنی ہمیں مقدار بود از روئے خلقت ودراز وکم نمی شد بریں یافتہ نمی شود ۱؎۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی کسی معین مقدار پر درازی کا ذکر مشہور کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی نظر سے نہیں گزرا البتہ وظائف النبی میں کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ریش مبارک چار انگشت کے بقدر تھی یعنی قدرتی طور پر ہی مٹھی بھر تھی۔ اور گھٹتی بڑھتی نہ تھی پس اس کا حوالہ نہیں پایا گیا۔ (ت) ۔ (۱؎ مدارج النبوۃ باب اول بیان لحیہ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۴،چشتی)
ہاں ظاہر کلمات مذکورہ علمایہ ہے کہ ریش انور مقدار قبضہ پر رہتی تھی جب زیادہ ہوتی کم فرمادیتے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، اور شفا شریف میں امام قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشادکث اللحیۃ تملؤ صدرہ ۲؎ (حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی داڑھی مبارک گنجان تھی جو سینہ مبارک پر چھائی ہوتی تھی۔ ت) اس کے منافی نہیں جبکہ صدر سے نحر یعنی اعلائے صدر مراد ہو۔
نسیم الریاض میں زیر قول مذکور متن ہے:مثلہ قولھم قد ملأت نحرہ ونحر الصدر اعلاہ اوموضع القلادۃ منہ فمراد المصنف رحمہ ﷲ تعالٰی اعلی الصدر والا لطالت وقد ثبت قصرھا ۳؎ الخ فاحفظہ فانہ مھم وﷲ تعالٰی اعلم۔اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے ملأت نحرہ یعنی اس سے ان کا نحر بھر جاتا تھا اور سینے کا نحر اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے یا سینے کی جگہ ہے لہذا مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی مراد سینے کا اوپر والاحصہ ہے ورنہ آپ کی مقدس داڑھی کہ طویل ماننا پڑے گا جو خلاف واقعہ ہے اور اس کا کترنا بھی ثابت ہے الخ، لہذا یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہئے اس لئے کہ یہ ضروری ہے، اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)(۲؎ الشفاء بتعریف المصطفٰی الباب الثانی فصل الثالث المطبعۃ الشرکۃ الصحافۃ ۱/ ۵۰)(۳؎ نسیم الریاض الباب الثانی مبحث شمائلۃ الشریفۃ ادارۃ تالیفات اشرفیہ ملتان ۱/ ۳۳۱)
جواب سوال چہارم: ریش مبارک امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی نسبت مدارج سے گزرا:پر می کرد سینہ اُورا ۴؎ (ان کے سینے کو بھردیتی تھی۔ ت) مگر اس میں وہی احتمال قائم کہ سینہ سے مراد سینہ کا بالائی حصہ متصل گلو ہوتو ایک مشت سے زیادت پر دلیل نہ ہوگی۔(۴؎ مدارج النبوۃ باب اول بیان لحیہ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
ہاں تہذیب الاسماء امام نووی سے اتنا منقول کانت کثۃ طویلۃ حضرت مولٰی کی ریش مبارک گھنی دراز تھی اس سے ظاہر قبضہ پر دلالت ہے کہ قبضہ تو اصل مقدار لحیہ شرعیہ ہے جس سے کمی جائز نہیں تو اتنی مقدار سے جب تک زائد نہ ہو طویل نہ کہیں گے ۔ ولہذا علامہ خفاجی نے ریش اطہر انور حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے تابسینہ ہونے کے انکار کی یہی وجہ لکھی کہ ایسا ہوتا تو ریش اقدس طویل ہوتی حالانکہ اس کا قصیر ہونا ثابت ہوا ہے اس تقدیر پر ریش مبارک امیر المومنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں وہ لفظ کہپرمی کرد سینہاورا (ان کے یسنے کو بھردیتی تھی۔ ت) اپنے معنی ظاہر پر محمول رہنا چاہئےاقول: وباللہ التوفیق (میں اللہ کی توفیق سے کے ساتھ کہتاہوں۔ ت) حضرات حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما کا یہ قول شاید بخیال جہاد ہو کہ بسیاری مو چشم عدو میں مورث زیادت ہیبت ہے ولہذا مجاہدین کو لبیں بڑھانے کی اجازت ہوئی حالانکہ اوروں کو بالاتفاق مکروہ۔
کما علی ذٰلک حمل ما عن بعض الصحابۃ الکرام کامیرا لمومنین عثمن الغنی و سیدنا الامام الحسن المجتبٰی رضی ﷲ تعالٰی عنہما من الاختضاب بالسواد مع صحۃ الحدیث بتحریم لغیر اھل الجھاد ۔جیسا کہ اسی پر محمول کیا گیا جو بعض صحابہ کرام سے ثابت ہوا ہے جیسے امیر المومنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سیدنا حسن مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ بالوں کو سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے حالانکہ غیر مجاہدین کےلیے حدیث صحیح سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ (ت)
بنظر اطلاق ارشاد اقدساعفوا اللحٰی ۱؎ (داڑھیاں بڑھاؤ۔ ت) ان کا اجتہاد اس طرف مودی ہواکما ذھب الیہ الحسن البصری وغیرہ (جیسا کہ حسن بصری وغیرہ اس طرف گئے ہیں۔ ت) تویہ آثار ہمیں اس امر سے عدول پرباعث نہیں ہوسکتے جو ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک سنت ثابت ہو اور حقیقت امریہ کہ ہم پر اتباع مذہب لازم۔ دلائل میں نظر ائمہ مجتہدین فرماچکےوﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (اور اللہ تعالٰی پاک وبرتر ہے اور خوب جانتاہے اور اس عظمت وشان والے کا علم کامل اور پختہ ہے۔ ت)
(۱؎ تہذیب الاسماء واللغات ترجمہ امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ ۴۲۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۳۴۸)(۲؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب اعفاء اللحی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۷۵) ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 22 صفحہ 580 تا 591)
شرعاً ایک مشت تک داڑھی بڑھانا واجب ہے چونکہ اس کا وجوب سنت سے ہے اس لیے عام طور پر لوگ اسے سنت کہہ دیتے ہیں در مختار میں ہے یحرم علی الرجل قطع لحیتہ ۔ یعنی مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے اور بہار شریعت جلد شانزدہم صفحہ نمبر ١٩٧ میں ہے داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین علیہم السلام سے ہے منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے ۔ داڑھی منڈے شخص کی بیعت کرنا جائز نہیں اگر کسی نے کرلی ہو تو اس بیعت کو توڑدے ۔ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ جیسا کہ بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ودیگر کتبِ احادیث میں ہے : ”والنظم للاول“ عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مُٹھی میں لیتے اور جومٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے ۔ (صحیح البخاری کتاب اللباس باب تقلیم الاظفار جلد 2 صفحہ 398 مطبوعہ لاہور)
فتح القدیر ، غنیۃ ، بحرالرائق ، حاشیہ طحطاوی علی المراقی ، درمختار اور درر شرح غرر وغیرہ کتبِ فقہ میں ہے : ”والنظم للآخر“وأما الأخذ من اللحیۃ وھی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد وأخذ کلھا فعل مجوس الأعاجم والیھود والھنود وبعض أجناس الإفرنج ۔
ترجمہ : بعض مغربی اور ہیجڑے لوگوں کی طرح داڑھی کاٹ کر ایک مٹھی سے کم کردینے کو کسی فقیہ نے بھی جائز نہیں کہا اور داڑھی مکمل کاٹ دینا عجمی مجوسیوں ، یہودیوں ،ہندؤوں اور بعض قسم کے انگریزوں کا طریقہ ہے ۔ (درر شرح غرر کتاب الصیام فصل حامل او مرضع خافت جلد 1 صفحہ 208 داراحیاء الکتب العربیہ بیروت،چشتی)
داڑھی منڈا نے یا ایک مٹھی سے گھٹانے والا شخص فاسقِ معلن ہے ۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے : داڑھی منڈانا اور کتَروا کر حدِ شرع سے کم کرانا دونوں حرام وفسق ہیں اور اس کا فسق باِلاِعلان ہونا ظاہر کہ ایسوں کے منہ پر جلی قلم سے فاسق لکھا ہوتا ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 6 صفحہ 505 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
داڑھی منڈے کی بیعت جائز نہیں ۔ جیسا کہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ : جو اشخاص بوجہ لاعلمی کے خلاف شرع پیر مثل داڑھی منڈا اور کانوں میں مندرے پہنے ہوئے اور گیسو دراز کے مرید ہوچکے ہوں ان کی بیعت جائز ہوگی اور ان کو جائے دیگر بیعت ہونے کاحکم ہے یا نہیں ؟
آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : فاسق کے ہاتھ پر بیعت جائز نہیں ۔ اگر کرلی ہو فسخ کر کے کسی پیر متقی ، سنی ، صحیح العقیدہ ، عالم دین ، متصل السلسلۃ کے ہاتھ پر بیعت کرے ۔ ایسے شخص سے بیعت کا حکم ہے جو کم از کم یہ چاروں شرطیں رکھتا ہو : اول سنی صحیح العقیدہ ہو ۔ دوم علم دین رکھتا ہو ۔ سوم فاسق نہ ہو ۔ چہارم اس کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک متصل ہو ، اگر ان میں سے ایک بات بھی کم ہے تو اس کے ہاتھ پر بیعت کی اجازت نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 21 صفحہ 603 - 602 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمة اللہ علیہ تحریر فرما تے ہیں : حلق کردن لحیہ حرام ست و رَوِش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں را قلندریہ گویند و گزاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست و آں کہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین ست ۔ یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : داڑھی منڈانا حرام ہے اور انگریزوں ۔ ہندوں اور قلندریوں کا طریقہ ہے ۔ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے اور یا تو اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے نماز عید کو مسنون فرمایا
(حالانکہ نماز عید واجب ہے ۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ نمبر ٢١٢
اور در مختار مع شامی جلد دوم صفحہ نمبر ١١٦)(رد المحتار جلد دوم صفحہ نمبر ١١،چشتی)(بحرالرائق جلد دوم صفحہ نمبر ٢٨٠)(فتح القدیر جلد دوم صفحہ نمبر ٢٧۰)
اور طحطاوی صفحہ نمبر ٤١۱ میں ہے : واللفظ للطحاوی الاخذ من اللحیت و ھو دون ذلک (ای القدر المسنون و ھو القبضہ) کما یفعلہ بعض المغاربت و مخنثت الرجال لم یجہ احد اخذ کلھا فعل یھود الھند و مجوس الاعاجم ۔
ترجمہ : داڑھی جبکہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کاٹنا جس طرح بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں ۔ اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایران کے مجوسیوں کا ہے ۔
ارشاداتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم : ⬇
اوفروااللحی ؛ داڑھیاں کثیرو وافر رکھو ۔ بخاری و مسلم شریف
اعفوااللحی ؛؛ داڑھیاں بڑھاؤ ۔ مسلم ؛ ترمذی و ابن ماجہ ؛ طحاوی
ارخوااللحی ؛ داڑھیاں بڑھنے دو ؛ مسند احمد ؛ مسلم ؛ شرح معنی الاثار
اوفوااللحی ؛ داڑھیاں پوری کرو ؛ طبرانی کبیر ۔
لہٰذا مذکورہ احادیثِ مبارکہ قبضہ کے وجوب پر دال ہیں ۔ مذکورہ بالا احادیث کتب فقہ و فتاوی و اقوال علما سے یہ ثابت ہو گیا کہ داڑھی رکھنا واجب ہے ۔
داڑھی کم ازکم ایک مٹھی رکھنا واجب ہے اور کتروا کر ایک مٹھی سے کم کرنا ناجائز و گناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مطلقاً داڑھی بڑھانے کا حکم ارشاد فرمایا : انھکوا الشوا رب واعفوا اللحی ۔
ترجمہ : مونچھیں مٹاؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ ۔ (صحیح البخاری جلد 20 نمبر 875)
دو جلیل القدر صحابہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم نے ایک مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ کر اس مجمل کی تفسیر کر دی کہ احادیث میں جو داڑھی بڑھانے کا امر فرمایا گیا وہ کم از کم ایک مٹھی تک ہے ۔ سنن ابو داؤد میں مروان بن سالم سے مروی ہے فرماتے ہیں : اللهم رایت ابن عمر رضی اللہ عنہما یقبض علی لحیتہ فیقطع مازادعلی الکف ۔
ترجمہ :میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے ۔ (سنن ابو داود جلد 1 صفحہ نمبر 321 مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہور)
یہ حدیث پاک صحیح بخاری میں ان الفاظ کے ساتھ ہے : عن ابن عمرعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین و فروا اللحی واحفوا الشوارب وکان ابن عمر اذاحج اواعتمر قبض علی لحیتہ فمافضل اخذہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے تھے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ نمبر 396 مکتب مطبوعہ لاہور)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے : کان ابوھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یاخذ مافضل عن القبضۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کتر ڈالتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 8 صفحہ نمبر 374 ادارۃ القرآن کراچی،چشتی)
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مقدار کا بیان غیر قیاسی ہے یعنی قیاس و عقل سے بیان نہیں ہو سکتا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا ایسا قول یا فعل جو غیر قیاسی ہو حدیث مرفوع کے حکم میں ہے گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ داڑھی کو بڑھاؤ اور دوسرے مقام پر اس کی تفسیر کر دی کہ یہ بڑھانے کا حکم ایک مٹھی تک ہے بلکہ ایک مٹھی سے زائد کو کرنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے جیسا کہ ان آثار کو نقل کرنے کے بعد صاحب فتح القدیر فرماتے ہیں : انہ روی عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔
ترجمہ : یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے ۔ (فتح القدیر جلد 2 صفحہ نمبر 270 مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)
حاصل یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گویا ایک مٹھی داڑھی رکھنے کا امر ارشاد فرمایا اور الامر للوجوب یعنی امر وجوب کےلیے آتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالاحوالہ جات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا کہ ایک مشت داڑھی رکھنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے اب لوگوں کو یہ کہنا کہ ایک مٹھی کی قید صرف شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے لگائی بے سرو پا اور بے بنیاد ہے ۔
ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اعفو االحیۃ و قصوا الشوارب ۔ یعنی تم لوگ داڑھی کو معافی دو یعنی داڑھی مت تراشو اور مونچھیں تراشو ۔
صحیح مسلم شریف کی دوسری روایت میں ہے : جزوا الشوارب وارخواللحیۃ و خالفو ا المجوس ۔
ترجمہ : تم لوگ مونچھیں تراشواور داڑھی کو لمبی کرو اور مجوس کی مخالفت کرو ۔
دوسری روایت میں ہے : خالفوا المجوس جزوا الشوارب واوفروا اللحی ۔
ترجمہ : مجوس کی مخالفت کرو، مونچھیں تراشواور داڑھیاں بڑھاؤ ۔
احادیثِ مذکورہ میں اعفوا ، ارخو ا ، اور اوفروا ، امر کا صیغہ ہے جس کا مقتضیٰ وجوب ہے اور یہاں وجوب سے پھیرنے والا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا داڑھی بڑھانا واجب ہے ۔ اگرچہ احادیث مذکورہ میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیاگیا ہے لیکن داڑھی بڑھانے کی مقدار مجہول ہے ۔ ان احادیث میں اس طرح داڑھی بڑھانا مراد نہیں ہے کہ داڑھی کو بالکلیہ تراشا نہ جائے ۔ اس لیے کہ داڑھی بہت زیادہ دراز ہونے کے بعد بد نما ہو جاتی ہے اور اس سے چہرہ کا حسن ختم ہو جاتا ہے ۔ حالاں کہ داڑھی چہرہ کا جما ل ہے ۔
البحرالرائق میں ہے : لان اللحیۃ فی اوانھا جمال فیلزمہ منہ کما ل الدیۃ کما لو قطع الاذنین الشاخصین و الدلیل علیٰ انہ جمال قولہ علیہ الصلوٰۃ و السلام: ان للہ ملٰئکۃ تسبیحھم ”سبحٰن من زین الرجال باللحاء والنساء بالقدود و الذوائب ۔
ترجمہ : اس لیے کہ داڑھی اپنے وقت میں جما ل ہے ۔ پس اس کو کاٹنے سے پوری دیت لازم آئے گی جیسا کہ اگر دونوں کان کی لو کاٹ دی جائے ۔ داڑھی کے جمال ہونے پر دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جن کی تسبیح یہ ہے ۔ اس ذات کےلیے پاکی ہے جس نے مردوں کو داڑھیوں سے اور عورتوں کو بال کی چوٹی اور گیسو سے مزین فرمایا ۔
اگر چہ مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں داڑھی بڑھانے کی مقدار مجہول ہے لیکن اس کا بیان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فعل ہے ۔ کیوں کہ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی تراشتے تھے ۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بھی داڑھی تراش کر ایک مشت سے کم نہیں کیا ہے ۔ پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ فعل احادیث مذکورہ میں داڑھی بڑھانے کی اجمالی مقدار کا بیان ہے ۔
مواھب الدنیہ میں مذکور ہے : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی داڑھی مبارک سینہ انور تک دراز تھی ۔
شرعۃ الاسلام میں ہے : کان یاخذ لحیتہ طولا و عرضا علیٰ قدر القبضۃ ۔
ترجمہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم داڑھی مبارک کو طول اور عرض میں قبضہ کی مقدار تراشتے تھے ۔
مصنف ابن ابو شیبہ میں حضرت ابو زرعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : کان ابو ھریرۃ یقبض علیٰ لحیتہ ثم یاخذ ما فضل عن القبضۃ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے تھے اور مٹھی سے زائد داڑھی کا کاٹ دیتے تھے ۔
بخاری شریف میں ہے : کان ابن عمر اذا حج او اعتمر قبض علیٰ لحیتہ فما فضل اخذ منہ ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑتے اور مشت سے زائد داڑھی کو کاٹ دیتے تھے ۔
علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مذکورہ فعل کو داڑھی بڑھانے کے خلاف قرینہ قرار دیا ہے جو کہ اُن کا تساہل ہے ۔ اس لیے کہ ان کے قول سے لازم آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی نہیں بڑھایا کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قول ”اعفوا اللحیۃ“ ”اوفروا اللحیۃ“ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو داڑھی بڑھانے کا حکم دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود داڑھی نہیں بڑھاٸی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے داڑھی بڑھاٸی ۔
علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کا فقہائے کرام کے قول ”والسنۃ فیہ القبضۃ“ اور اس جیسی عبارت سے مشت بھر داڑھی رکھنے کو سنتِ غیر مؤکدہ ہونے پر استدلال کرنا جائز نہیں ہے ۔ اس لیے کہ اس عبارت کا تعلق ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے کے مسنون ہونے سے ہے ۔ نہ کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کے مسنون ہونے سے ہے جیسا کی اس پر فقہائے کرام کی عبارت دلالت کر رہی ہے : ⬇
در مختار میں ہے : ولا باس بنتف الشیب و اخذ اطراف اللحیۃ ،، یعنی سفید بال کو اکھاڑنے اور داڑھی کے اطراف کو تراشنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داڑھی کے اطراف کو کتنی مقدار میں تراشنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس کوصاحبِ درمختار نے اپنے قول ”والسنۃ فیہ القبضۃ“ سے واضح کیا ہے ۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ”و السنۃ فیہ القبضۃ“ کی تشریح میں لکھتے ہیں : و ھو ان یقبض الرجل لحیتۃ فما زاد علیٰ قبضۃ قطعہ کذ ا ذکرہ محمد فی الآثار عن الاما م وقال بہ ناخذ ۔
ترجمہ : و السنۃ فیہ القبضۃ یہ ہے کہ آدمی اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑے اور جو داڑھی مٹھی سے زائد ہے اس کو کاٹ دے ۔
اما م محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اسی طرح ذکر کیا ہے اور ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسنون ہونے کا تعلق ایک مشت داڑھی کے رکھنے سے نہیں ہے بلکہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو تراشنے سے ہے ۔
الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : اما اللحیۃ قد ذکر محمد رحمہ اللہ تعالیٰ فی الآثار عن الامام ان السنۃ ان یقطع مازاد علی قبضۃ یدہ ۔
ترجمہ : رہی داڑھی تو امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا ہے کہ ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنا سنت ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری کی عبارت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ مسنون ہونے کو تعلق ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے سے ہے نہ کہ ایک مشت دارھی رکھنے سے ہے ۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے : والسنۃ فیہ القبضۃ وھو ان یقبض الرجل لحیتہ فان زاد منھا علیٰ قبضۃ قطعہ کذا ذکرہ محمد فی کتاب الآثار عن ابی حنیفۃ وقال بہ ناخذکذا فی محیط السرخسی ۔
ترجمہ : دارھی میں مسنون ایک مشت ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑے اور اس کے مشت جو داڑھی زائد ہے اس کو کاٹ دے ۔ اسی طرح امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الآثار میں ذکر کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ ایسا ہی محیط السرخسی میں ہے ۔
چوں کہ ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کو کاٹنے کے متعلق فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ بعض فقہائے کرام نے ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کے کاٹنے کو واجب قرار دیا ہے ، بعض نے مکروہ لکھاہے ، اور بعض نے حرام کہا ہے ۔ فقہائے احناف کے نزدیک مختار یہ ہے کہ ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کا کاٹنا مسنون ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک مشت سے زائد بڑھی ہوئی داڑھی کو کاٹا کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے القدر المسنون فیہ القبضۃ لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کی مقدار جو سنت سے ثابت ہے وہ ایک مشت ہے ۔
فقہائے کرام کی اس جیسی عبارت سے ایک مشت سے زائد داڑھی کو کاٹنے کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے نہ کہ ایک مشت داڑھی رکھنے کا سنت غیر مؤکدہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یہی موقف شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے مشکوٰۃ شریف اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں : وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است وآنکہآنرا سنت گویند بمعنی سلوک در دین است یا بجہت آں کہ ثبوت آں بسنت است چنانکہ نماز عید را سنت گفتہ اند ۔
ترجمہ : ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ جو لوگ ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت کہتے ہیں وہ اس بنا پر کہ ایک مشت داڑھی رکھنا دین رائج ہے یا اس بنا پر کہ اس کا ثبوت سنت سے ہے ۔ جیسا کہ فقہائے کرام نماز عید کو سنت کہتے ہیں (حالانکہ عید کی نماز واجب ہے) ۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ جلد سوم میں ہے : والمسنون فی اللحیۃ القبضۃ اما الاخذ من دون ذالک او اخذھا کلھا فلا یجوز ۔
ترجمہ : داڑھی میں مسنون ایک مشت ہے ۔ رہا داڑھی کو تراش کر ایک مشت سے کم کرنا یا پوری داڑھی تراشنا تو یہ جائز نہیں ہے ۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ کی مذکورہ عبارت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا سنت غیر مؤکدہ نہیں ہے بلکہ واجب ہے ۔ اس لیے کہ اگر ایک مشت داڑھی رکھنا سنتِٖٖ غیر مؤکدہ ہوتا اور داڑھی کو تراش کر ایک مشت سے کم رکھنا جائز ہوتا تو تو داڑھی تراش کر ایک مشت سے کم رکھنا جائز ہوتا ، اس لیے کہ سنتِ مؤکدہ کا ترک جائز ہے ۔
علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی غلطی یہ ہے کہ وہ مطلقاً داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنتِ غیر مؤکدہ اور مستحب قرار دیتے ہیں ۔ وہ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں : چوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے داڑھی منڈانے پر انکار کیا ہے اور داڑھی منڈانے سے داڑھی بڑھانے کے حکم کی بالکلیہ مخالفت ہوتی ہے اس لیے ہمارے نزدیک داڑھی منڈانا مکروہ تحریمی یا حرام ؓظنی ہے اور مطلقاً داڑھی رکھنا واجب ہے ۔
جب علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان میں مذکورہ ”اعفوا اللحیۃ“ اوفروا اللحیۃ وغیرہ کے امر کے صیغہ کو وجوب کےلیے نہیں مانتے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فعل یعنی ایک مشت داڑھی رکھنے کو ایک مشت داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کی دلیل نہیں مانتے ہیں تو کیا ان پر مطلقاً داڑھی رکھنے کے واجب ہونے پر کوئی وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان ”اعفوا اللحیۃ ٗ اوفروا اللحیۃ“وغیرہ سے اگر ایک مشت داڑھی رکھنے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا ہے تو اس سے مطلقاً داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت نہیں ہوگا ۔
علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ وہ اتنی مقدار داڑھی رکھنے کو واجب قرار دیتے ہیں جسے عرفاً و عادتاً داڑھی رکھنا تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان کے نزدیک خشخشی یا فرنچ کٹ داڑھی رکھنا شرعی داڑھی رکھنا نہیں ہے ۔ کیا ان کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک مشت داڑھی رکھنا اور فقہائے کرام کا ایک مشت داڑھی رکھنے کو مسنون قرار دینا عرف و عادت کے خلاف ہے ۔ انہوں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات سے قطع نظر کرتے ہوئے شریعتِ مطہرہ پر مکمل طور پر عمل نہ کرنے والے چند لوگوں کے عمل کو عرف و عادت کا معیار بنا لیا ۔
علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ انہوں نے نور الانوار کی عبارت ”ولا یثبت الوجوب الا من الامر دون الفعل“ سے یہ سمجھ لیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی فعل سے بھی کسی صورت میں وجوب ثابت نہیں ہو سکتا ہے ۔ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ فعل موجب ہے جس پر آپ نے مداومت فرمائی ہے ۔ اور اس کے ترک سے انکار فرمایا ہے ۔
البحر الرائق جلد اول میں ہے : والذی ظھر للعبد الضعیف ان السنۃ ما واجب النبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ لٰکن ان کا ن لا مع الترک فھی دلیل السنۃ المؤکدۃ وان کانت مع الترک احیانا فھی دلیل غیر المؤکدۃ وان قرنت بالانکار علیٰ امر فعلہ فھی دلیل الوجوب فافھم ۔
ترجمہ : وہ چیز جو اس کمزور بندے کےلیے ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سنت وہ ہے جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہمیشگی فرمائی ہے ۔ لیکن اگر ترک نہ کرنے کے ساتھ ہے تو وہ سنتِ مؤکدہ ہونے کی دلیل ہے ۔ ا گر کبھی ترک کرنے کے ساتھ ہے تو وہ سنتِ غیر و مؤکدہ ہے ۔ اگر اس فعل کو ترک کرنے سے انکار کرنا شامل ہے تو یہ وجوب کی دلیل ہے۔ پس تم اچھی طرح سمجھ لو ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مشت داڑھی رکھنے پر مداومت فرمائی ہے اور اپنے فرما ن ”اوفروا اللحیۃ“ وغیرہ داڑھی رکھنے کو ترک کرنے سے انکار بھی فرمایا ہے ۔ داڑھی کاٹنے کا حکم دینا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ پس ایک مشت داڑھی رکھنے اور مشت بھر داڑھی رکھنے کے واجب ہونے کا انکار کرنا جس دلیل پر مبنی تھا اس کا باطل ہونا ظاہر ہو گیا ۔
علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور علمائے کرام علیہم الرحمہ کو اپنی رائے سے شریعت گڑھنے والا کنایۃً قرار دیا ہے جو ایک مشت داڑھی رکھنے کے وجوب کے قائل ہیں اور وجوب پر ان لوگوں نے بہت سی دلیلیں قائم کی ہیں ۔ علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب مسلم شریف کی شرح میں ایک مشت داڑھی رکھنے والوں کے قول کو رد اور باطل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے ۔ یاد رکھیے ! ہم مبلغ ہیں شارع نہیں ہیں ۔ ہمارا کام احکامِ شریعت کو جوں کا توں پہنچانا ہے اور پس ہم اپنی طرف سے کسی حکم کو وضع کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)