Sunday, 27 November 2022

یارسول اللہ انظر حالنا پڑھنا کیسا ؟

یارسول اللہ انظر حالنا پڑھنا کیسا ؟
محترم قارئینِ کرام : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں کے سپہ سالار جلیل القدر صحابی حضرت خالد بن ولید اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو براہ راست مدد کےلیے پکارا ۔ چنانچہ منقول ہے : کان شعارھم یومئذٍ یا محمداہ - یعنی اس دن مسلمانوں کا طریقہ اور شعار حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مدد کےلیے پکارنا تھا - (البدایہ والنہایہ مطبوعہ بیروت لبنان جلد ششم صفحہ نمبر 24)

یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنظُرْ حَالَنَا
یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ اِسمَعْ قَالَنَا

اِنَّنِی فِی بَحرِْ ھَمِّ مُّغْرَقٌ
خذْیَدِیْ سَھِّلْ لَّنَا اَشْکَالَنَا

ترجمہ : اے اللہ کے رسول ، ہماری حالت پر توجہ فرمایۓ اے اللہ کے حبیب ، ہماری عرض سماعت فرمایۓ ، بیشک میں غموں (پریشانیوں کے) سمندر میں غرق ہوں ، میرا ہاتھ پکڑیں اور ہماری مشکلات کو (باذن خداوندی) آسان فرمادی ۔ (کلام غوث اعظم رضی اللہ عنہ)

جناب رشید احمد گنگوہی یوبندی سے کسی نے سوال کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟

یا رسول اللہ انظر حالنا
یا حبیب اللہ اسمع قالنا

اننی فی بحر ھم مغرق
خذ یدی سھل لنا اشکالنا

یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ
سواک عند حلول الحادث العمم

تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳صفحہ ۵)
رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : یہ خود آپ کو معلوم ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل اعتقاد کرے ورنہ شرک نہیں ‘ مثلا یہ جانے کے حق تعالیٰ ان کو مطلع فرمادیوے گا ‘ یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا درود کی نسبت وارد ہے یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطاب بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ‘ پس انہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل مبوب صفحہ ٦٨ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی،چشتی)

جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اس کو نہ دیے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی ﷲ نے انہیں دی اور اللہ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہو جائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے) حی ہو (زندہ) یا میت (مردہ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴ صفحہ ۹۹)

حکیمُ الاُمتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب لکھتے ہیں : ⬇

یا شفیع العباد خذبیدی
دستگیری کیجئے میری نبی

انت فی الضطرار معتمدی
کشمکش میں تم ہی ہو میرے ولی

لیس لی ملجاء سواک اغث
جز تمہارے ہے کہاں میری پناہ

مسنی الضر سیدی سندی
فوج کلفت مجھ پہ آ غالب ہوئی

غشنی الدھر ابن عبداللہ
ابن عبداللہ زمانہ ہے خلاف

کن مغیثا فانت لی مدری
اے مرے مولٰی خبر لیجئے مری

نام احمد چوں حصینے شد حصین
پس چہ باشد ذات آں روح الامین

کچھ عمل ہی اور نہ اطاعت میرے پاس
ہے مگر دل میں محبت آپ کی

میں ہوں بس اور آپ کا دریا یارسول
ابر غم گھیرے نہ پھر مجھ کو کبھی

خواب میں چہرہ دکھا دیجئے مجھے
اور میرے عیبوں کو کر دیجئے خفی

درگزر کرنا خطاو عیب سے
سب سے بڑھ کر ہے یہ خصلت آپ کی

سب خلائق کیلئے رحمت ہیں آپ
خاص کر جو ہیں گناہگار و غوی

کاش ہو جاتا مدینہ کی میں خاک
نعل بوسی ہوتی کافی آپ کی

آپ پر ہوں رحمتیں بے انتہا
حضرت حق کی طرف سے دائمی

جس قدر دنیا میں ہے ریت اور سانس
اور بھی ہے جس قدر روئیگی

اور تمہاری آل پر اصحاب پر
تابقائے عمر دار اخروی

الصّلوٰۃ والسّلام علیک یارسول اللہ پڑھنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ عالمِ امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا فرمان مرشد اکابرین دیوبند جناب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ امداد المشتاق صفحہ نمبر 60 ۔ کیا حاجی صاحب کے اس فرمان پر تھانوی صاحب سمیت کسی بھی دیوبندی عالم نے شرک و گمراہی کا فتویٰ لگایا اگر لگایا ہے تو ہمارے علم میں اضافہ کےلیے بتایا جائے ؟

اگر نہیں لگا تو مسلمانان اہلسنت کیا کیا قصور ہے کہ وہ یہ درود پڑھیں تو دیوبند کی شرک و گمراہی کی توپیں کھل جاتی ہیں اور امت مسلمہ پر فتوے لگا کر انتشار و فساد پھیلایا جاتا ہے آخر یہ دوغلہ پن و دہرا معیار فتویٰ کیوں ؟

یاد رہے اس جملہ پر بھی غور کیا جائے کہ : عالم امر مقید نہیں ہے دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ جب دور و نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو دور و نزدیک بحث عبث یعنی بے کار ہے ۔

یا پھر مان لیجیے اپنے لیے فتوے اور ہیں اور مسلمانان اہلسنت کےلیے اور ہیں اور اس طرح کے دہرے معیار سے آپ لوگ امتِ مسلمہ پر شرک کے فتوے لگا کر فتنہ و انتشار پھیلاتے ہیں ۔

اعتراض : یارسول اللہ انظر حالنا پڑھنا یہ استغاثہ ہے اور دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کی جاتی ہے دعا میں استغاثہ کی صورت میں غیر اللہ کی عبادت کا شبہ آتا ہے ۔

جواب : دعا کو اپنے گمان میں " ایاک نعبد " کی طرح پرستش سمجھ بیٹھنا
یعنی یہ اشعار پڑھنے والا : ⬇

یارسول اللہ انظر حالنا
یاحبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذ یدی سہل لنااشکالنا

پڑھتا تو اس کا مطلب کہ اللہ تعالیٰ عزوجل کے  سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی پرستش کا شبہ آتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کا اصطلاحی معنی بیان کردیا جائے تاکہ وسوسہ شیطانی اور گمراہ فرقوں کے فریب کا ازالہ ہو جائے حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : عبادت کا اصطلاحی معنی ، عبادت کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ کسی کو خالق یا خالق کا حصہ دار مان کر اس کی اطاعت کرنا جب تک یہ نیت نہ ہو تب تک اسے عبادت نہیں کہا جائے گا ۔ اب بت پرست " بت " کے سامنے سجدہ کرتا ہے اور مسلمان کعبہ کے سامنے وہاں بھی پتھر ہی ہیں  لیکن وہ مشرک ہے اور ہم موحد کفار اپنے دیوتاؤں رام چندر وغیرہ کو مانتا ہے مسلمان نبیوں ولیوں کو پھر کیا وجہ کہ وہ مشرک ہو گیا اور یہ موحد رہا فرق یہی ہے کہ وہ انہیں "الوہیت" میں حصہ دار مانتا ہے ہم ان کو اللہ کا خاص بندہ مانتے ہیں بہر حال "عبادت" میں یہ قید ہے کہ جس کی اطاعت کرے اس کو اپنا خالق مانے ۔ (تفسیر نعیمی جلد اول صفحہ نمبر 73)

 رہا یہ سوال کہ : ⬇

یارسول اللہ انظر حالنا
یاحبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق
خذیدی سہل لنااشکالنا

کہنے سے غیر اللہ کی پرستش  کا شبہ اورشرک تو نہیں تو اس سلسلے میں حضرت حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ : انبیاء ٬ اولیاء سے امداد لینا حقیقت میں رب ہی سے امداد لینا ہے کیونکہ ؛ اس کی امداد " دو " طرح کی ہے ۔ 1 بالواسطہ ۔ 2 بِلاواسطہ ۔ اللہ کے بندوں کی مدد رب کے فیضانِ کا واسطہ ہے قرآن کریم نے غیر خدا سے امداد لینے کا خود حکم فرمایا ارشاد بار تعالیٰ ہے ،،استعینوا بالصبر والصلوہ،، مسلمانوں مدد لو ! صبر و نماز سے ٬ صبر و نماز بھی غیر خدا ہیں ۔ نیز فرماتا ہے  " ان تنصرواللہ ینصرکم " اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ۔ رب تعالیٰ غنی ہوکر بندوں سے مدد طلب فرماتا ہے تو اگر ہم محتاج بندے کسی بندے سے مدد مانگیں تو کیا برائی ۔ نیز حضرت ذوالقرنین کا قول نقل فرماتا ہے " اعینونی بقوۃ " تم لوگ میری مدد کرو! اپنی قوت سے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا " من انصاری الی اللہ " میرا مددگار کون ہے اللہ کی طرف ۔ نیز قرآن کریم نے فرمایا " وتعاونوا علی البر والتقوی " یعنی ایک دوسرے کی مدد کرو ! بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔ غرض کہ ؛ قرآن کریم نے جگہ جگہ غیر خدا سے مدد لینے کا حکم فرمایا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کا نام ہے " انصار " جس کے معنیٰ ہیں " مددگار " اگر غیر خدا سے مدد لینا شرک ہو تو یہ نام ہی مشرکانہ ہو ۔ (تفسیر نعیمی جلد اول صفحہ نمبر 81/82،چشتی)

اس تفصیل سے بخوبی واضح ہوگیا کہ ان اشعار کا : ⬇

یارسول اللہ انظر حالنا
یاحبیب اللہ اسمع قالنا
اننی فی بحر ھم مغرق 
خذیدی سہل لنااشکالنا

کہنا ٬ پڑھنا جائز و درست ہے ۔ اس دعا سے غیر خدا کی عبادت کا شبہ آنا وسوسہ شیطانی اور گمراہ فرقوں کا فریب ہے ۔

 یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پکارنا شرک نہیں ہے

محترم قارئینِ کرام : کچھ لوگ جوشِ توحید میں صیغۂ خطاب کے ساتھ آقائے دوجہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام کو استعانت بالغیر کہہ کر شرک قرار دیتے ہیں اوراسے ناجائز سمجھتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنے سے منع نہیں کیا بلکہ پکارنے کے آداب سکھائے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۔

ترجمہ : (اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بیشک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا ۔ (النور، 24 : 63)

اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ائمہ تفسیر نے حضرت سیدنا عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارتے وقت ’’یا محمد‘‘ اور ’’یا ابا القاسم‘‘ کہا کرتے تھے ۔

امام محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فنهاهم ﷲ تعالي عن ذالک بقوله سبحانه : لا تجعلوا. . . الآية إعظاما لنبيه صلي الله عليه وآله وسلم، فقالوا : يا نبي ﷲ يا رسول ﷲ ۔
ترجمہ : پس اللہ عزوجل نے انہیں اپنے اس فرمان ’’ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ‘‘ کے ذریعہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر منع فرمایا۔ پس صحابہ نے بوقت نداء یا نبی ﷲ، یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کہنا شروع کر دیا۔‘‘(آلوسی، روح المعانی، 18 : 204،چشتی)

تمام علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاپرواہی اور بے توجہی و بے اعتنائی کے طور پر ذاتی نام سے پکارنا حرام ہے اور یہ حکم حیاتِ ظاہری کے ساتھ مختص نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے ۔ تمام اہلِ ایمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا جائز ہے خواہ قریب ہوں یا بعید اور خواہ حیاتِ ظاہری ہو یا بعد از وصال ۔ آیتِ مبارکہ میں وارد ہونے والی نہی کا محل دراصل وہ عامیانہ لہجہ اور طرزِ گفتگو ہے جو صحابہ اور اہلِ عرب ایک دوسرے سے بلا تکلف اختیار کرتے تھے۔ اس حکمِ نہی میں مطلق ندا سے منع نہیں کیا گیا اس لیے تعظیم و تکریم پر مشتمل ندا جائز ہے ۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ مدعائے کلام بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کی تعلیم ہے لہٰذا اگر صیغہ خطاب کے ساتھ ادب و تعظیم کا تقاضا پورا نہ ہو اور عرفاً و معناً اس ندا سے گستاخی اور اہانتِ رسول کا پہلو نکلتا ہو تو وہ ندا ممنوع اور حرام ہوگی وگرنہ نہیں ۔ اہلِ ایمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیے بغیر، منصبِ نبوت و رسالت کے ساتھ پکارتے ہیں تو اس میں محبت، ادب، تعظیم اور توقیر مراد ہوتی ہے ۔

نداء کے جواز کا تیسرا سبب یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریب و بعید اور حیاتِ ظاہری اور بعد از وصال تمام اہلِ ایمان کو تشہد میں سلام پیش کرنے کا جو طریقہ تعلیم فرمایا اس میں دعا و پکار اور نداء بطریقِ خطاب ہی وارد ہے ۔ یہ تلفّظ محض حکایۃً نہیں کہ اللہ تعالیٰ عزوجل نے شبِ معراج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا تھا بلکہ ضروری ہے کہ ہر نمازی اپنی طرف سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه. (یا نبی! آپ پر خاص سلامتی ، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں) کے کلمات کے ساتھ سلام پیش کرے ۔ تمام اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے بطور انشاء بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام بھیجنا لازم ہے۔ ذیل میں ہم اس سلسلے میں محدثین و محققین کی آراء پیش کرتے ہیں ۔

علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اجمع الأربعة علي أن المصلي يقول : أيُّهَا النَّبِيُّ. وأن هذا من خصوصياته عليه السلام، إذ لو خاطب مصلٍ أحدًا غيره و يقول السلام عليک بطلت صلاته ۔
ترجمہ : ائمہ اربعہ کا اس امر پر اجماع ہے کہ نمازی تشہد میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ کہے اور یہ اندازِ سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے ۔ اگر کوئی نمازی آپ کے علاوہ کسی ایک کو بھی خطاب کرے اور ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ‘‘ کہے تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی ۔ (ملا علی قاري، شرح الشفاء، 2 : 120)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے الخصائص الکبریٰ میں ایک مکمل باب قائم کیا ہے اور اس خصوصیت کو درج ذیل عنوان سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے : باب اختصاصه صلي الله عليه وآله وسلم بأن المصلي يخاطبه بقوله ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ ولا يخاطب سائر الناس ۔
ترجمہ : یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امر کے ساتھ مختص ہیں کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صیغہ خطاب کے ساتھ اس طرح سلام پیش کرتا ہے ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ‘‘ اور وہ تمام لوگوں کو مخاطب نہیں ہو سکتا ۔ (الخصائص الکبري، 2 : 253،چشتی)

امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ المواہب اللدنیہ میں اور امام زرقانی شرح المواہب میں اسی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ومنها أن المصلي يخاطبه بقوله : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه کما في حديث التشهد والصلوٰة صحيحة. ولا يخاطب غيره من الخلق ملکا أو شيطانا أو جمادًا أو ميتاً ۔
ترجمہ : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ نمازی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه‘‘ کے کلمات کے ساتھ خطاب کرتا ہے جیسا کہ حدیثِ تشہد میں ہے اور اس کے باوجود اس کی نماز صحیح رہتی ہے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی فرشتے یا شیطان اور جماد یا میت کو خطاب نہیں کر سکتا ۔ (زرقانی، شرح المواهب اللدنيه جلد 5 صفحہ 308)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں کیا ایمان افروز عبارت لکھی ہے فرماتے ہیں : واحضر فی قلبک النبي صلي الله عليه وآله وسلم وشخصه الکريم، وقُلْ : سَلَامٌ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه. وليصدق أملک في أنه يبلغه و يرد عليک ما هو أوفٰي منه.
ترجمہ : (اے نمازی! پہلے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کریم شخصیت اور ذاتِ مقدسہ کو اپنے دل میں حاضر کر پھر کہہ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه . تیری امید اور آرزو اس معاملہ میں مبنی پر صدق و اخلاص ہونی چاہیے کہ تیرا سلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے کامل تر جواب سے تجھے نوازتے ہیں ۔ (إحياء علوم الدين جلد 1 صفحہ 151)

اس عبارت سے یہ امر واضح ہوا کہ اگر خطاب اپنے ظاہری معنی و مفہوم میں نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ کو مستحضر سمجھ کر سلام پیش کرنے کی تلقین نہ کی جاتی ۔

نماز میں صیغۂ خطاب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب ہونے کی حکمت امام طیبی نے بھی بیان کی ہے جسے امام ابنِ حجر عسقلانی نے فتح الباری میں نقل کیا ہے : إن المصلين لما استفتحوا باب الملکوت بالتحيات أذن لهم بالدخول في حريم الحي الذي لا يموت، فَقَرَّت أعينهم بالمناجاة. فنبهوا أن ذلک بواسطة نبي الرحمة وبرکة متابعته. فالتفتوا فإذا الحبيب في حرم الحبيب حاضر فأقبلوا عليه قائلين : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَة ﷲِ وَ بَرَکَاتُه ۔
ترجمہ : بے شک نمازی جب التحیات سے ملکوتی دروازہ کھولتے ہیں تو انہیں ذاتِ باری تعالیٰ حَیٌّ لَا يَمُوْتُ کے حریمِ قدس میں داخل ہونے کی اجازت نصیب ہوتی ہے، پس مناجاتِ ربانی کے سبب ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک عطا ہوتی ہے۔ پھر انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت اور آپ کی متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔ پس وہ ادھر توجہ اور التفات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کریم رب کے حضور میں موجود ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یوں سلام پیش کرتے ہوئے متوجہ ہوتے ہیں : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه ۔ (فتح الباري، 2 : 314)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ صیغہ خطاب کی وجہ پر محققانہ کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : و بعضے از عرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریان حقیقۃ محمدیہ است در ذرائر موجودات وافراد ممکنات۔ پس آن حضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است۔ پس مصلی باید کہ ازیں معنی آگاہ باشد وازین شہود غافل نبود تا بانوار قرب و اسرار معرفت متنور و فائز گردد ۔
ترجمہ : بعض عرفاء نے کہا ہے کہ اس خطاب کی جہت حقیقتِ محمدیہ کی طرف ہے جو کہ تمام موجودات کے ذرہ ذرہ اور ممکنات کے ہر ہر فرد میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازیوں کی ذاتوں میں حاضر و موجود ہیں لہٰذا نمازی کو چاہئے وہ اس معنی سے آگاہ رہے اور اس شہود سے غافل نہ ہو یہاں تک کہ انوارِ قرب اور اسرارِ معرفت سے منور اور مستفید ہوجائے ۔ (اشعة اللمعات، 1 : 401،چشتی)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ذکر کن او را و درود بفرست بروے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و باش در حال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالتِ حیات، و می بینی تو او را امتادب با جلال و تعظیم و ہیبت وحیاء۔ بد آنکہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم می بیند ترا و می شنید کلام ترا زیرا کہ وے متصف است بصفات ﷲ تعالیٰ ۔ ویکے از صفات الٰہی آنست کہ انا جلیس من ذکرنی و پیغمبر را نصیب وافر است ازیں صفت ۔
ترجمہ : (اے مخاطب!) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کر اور ان پر درود بھیج اور حالتِ ذکر میں اس طرح سمجھ کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات ظاہری میں تیرے سامنے موجود ہیں، اور تو جلالت و عظمت کو ملحوظ رکھ کر اور ہیبت و حیاء کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہے۔ یقین جان کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے دیکھتے ہیں اور تیرا کلام سنتے ہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ موصوف و متصف ہیں۔ ان صفاتِ ربانی میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا جَلِيْسُ مَنْ ذَکَرَنِيْ (میں اس کا ہم نشین ہوں جو مجھے یاد کرے) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفتِ الہٰیہ سے وافر حصہ حاصل ہے ۔ (اشعة اللمعات، 2 : 621)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم دور نہیں ہیں یا مجتبیٰ پکارنا آپ مدد گار ہیں

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی لکھتے ہیں : یا مرتضیٰ یا مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلّم آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ہمارے دلوں کا حال بیان کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلّم کو مرحبا آپ صلی اللہ علیہ وسلّم غائب ہوں  تو موت آجائے دنیا تاریک ہوجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلّم لوگوں کے مدد گار اور خیر خواہ  ہیں ۔ (حیات المسلمین صفحہ 51 حکیم الامت دیوبند جناب اشر فعلی تھانوی مطبوعہ مکتبہ امیزان اردو بازار لاہور) ۔ (حیات المسلمین صفحہ 9 ، 10 حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ ختم نبوت بند روڈ کراچی) ۔ (حیات المسلمین صفحہ نمبر  9  ۔ حکیم الامت دیوبند علامہ اشرف علی تھانوی مکتبہ معارف القرآن کراچی نمبر 14)

مفتیانِ دیوبند سے سوال حکیمِ دیوبند اس طرح پکار اور لکھ کر مشرک ہوئے کہ نہیں اگر ہوئے تو علمائے دیوبند کی طرف سے آج تک کوئی فتویٰ اس پر لگایا گیا ہو تو ثبوت دیں اگر مشرک نہیں ہوئے اور یہ شرک نہیں تو پھر مسلمانانِ اہلسنت پر شرک کے فتوے کیوں ؟

احبابِ دیوبند سے گذارش ہے آیئے حکیمِ دیوبند کے بیان کردہ عقیدہ کو ہی مان لیجیئے اختلاف ختم ہو سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محبت و ادب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عطاء فرمائے آمین ۔

دیوبندیوں کے امامُ الحدیث جناب علامہ محمد زکریا کاندہلوی لکھتے ہیں کہ : بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ (اؤجزُالمسالک  جز ثانی صفحہ نمبر  225  مطبوعہ دارالقلم دمشق،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حاضر و ناظر ہیں وہابیوں کا اقرار

غیر مقلدوں کے امام نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر حال اور ہر آن میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ، خصوصیات کی حالت میں انکشاف اور نورانیت ذیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے ، بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے ، چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لئے نماز پڑھنے والوں کو چائیے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تاکہ قرب و معیت کے انوارات اور عرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں ۔ ( مسک الختام شرح بلوغ المرام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 244)

ایک شبہ اور اس کا ازالہ : بعض لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام بعد از وصالِ نبوی اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کی بجائے اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ کہتے تھے لہٰذا اب سلام بصیغہ خطاب کہنا جائز نہیں ہے اس لئے شرک ہے۔ ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف اور صرف اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ ﷲِ وَ بَرَکَاتُه کے اندازِ نداء و خطاب میں ہی سلام پیش کرنے کا طریقہ سکھلایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعاً یہ نہیں فرمایا کہ میری ظاہری حیات میں تو مجھ پر سلام نداء و خطاب کے ساتھ پیش کریں اور بعد از وصال بدل دی ں۔ اگر بعد از وصال نداء و خطاب کے انداز میں سلام پیش کرنا جائز نہیں تھا تو گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشہد کے بارے میں تعلیم ادھوری اور ناقص رہ گئی؟ (معاذ ﷲ) کیا کوئی عام مسلمان بھی یہ تصور کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں منبر پر بیٹھ کر نداء و خطاب پر مشتمل تشہد و سلام کی تعلیم دی اور اکابر صحابہ کی موجودگی میں یہ تلقین فرمائی اور کسی صحابی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنے پر اجماعِ صحابہ ہے۔ خلفائے راشدین اور دیگر اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کے صیغہ خطاب کے ساتھ سلام پیش کیا ہے ۔ تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نداء و خطاب کے صیغہ کے ساتھ سلام پیش کرنا واجب نہیں ہے لیکن وجوب کی نفی سے جواز بلکہ استحباب کی نفی بھی لازم نہیں آتی کیونکہ خلفائے راشدین اور اہلِ مدینہ کا اجماع اور جمہور امت کا اسی پر مداومت کے ساتھ عمل اس پر شاہدِ عادل اور دلیلِ صادق ہے۔ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس پر قول بطور دلیل ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں کہ جمہور امت کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ نداء و خطاب کے ساتھ سلام پیش کرنا بالکل جائز ہے ۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ وآلہ و صحبہ وسلم کو آپ کی ظاہری حیاتِ طیبہ اور بعد از وصال صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سلف صالحین نے قریب اور بعید کی مسافت کے فرق کے بغیر بصیغہ نداء و خطاب پکارا۔ مستند کتبِ احادیث اور سیر میں درجنوں واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ اکابر اور سلف صالحین کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بصیغہ خطاب پکارنے میں کسی قسم کے الجھاؤ اور شک و شبہ میں مبتلا نہیں رہے ۔ انہوں نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدہ صحیحہ کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ واضح کیا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 23 November 2022

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے گمراہ کُن عقائد و نظریات

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے گمراہ کُن عقائد و نظریات
محترم قارئینِ کرام : دور حاضر کا مشہور اسکالر ‘ کوٹ ٹائی میں ملبوس ماڈرن اسلام کا شیدائی ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی غیرمقلدین اہلحدیث فرقے سے تعلق رکھتا ہے کچھ عرصے قبل نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ میرا تعلق اہلحدیث فرقے سے ہے اور میں ذاتی طورپر اہلحدیث ہوں ۔ (جیو ٹی وی انٹرویو 2008 ) ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے جواب سے واضح ہو گیا ہے کہ جو عقائد غیر مقلدین فرقے کے ہیں‘وہی عقائد ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جو شعائر اسلام کے خلاف باتیں کیں ہیں وہ بھی ملاحظہ ہوں : ⬇

ذاکر نائیک خارجی کہتا ہے اللہ عزوجل انسانی شکل میں دنیا میں آکر خدا نہ رہے گا : ہندؤں کے نزدیک ان کے دیوتا اور بھگوان انسانی شکل میں دنیا کے اندر آسکتے ہیں اور دنیا میں اپنی کارستانیاں دکھا سکتے ہیں ۔ وہابی بھی بالکل یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی شکل میں دنیا میں آ سکتا ہے ۔ حیرت بالائے حیرت یہ کہ ہندؤں کے نزدیک ان کا خدا ‘ اگر دنیا میں آجائے تو وہ پھر بھی ان کے نزدیک خدا ہی رہتا ہے ‘ لیکن وہابیوں کے نزدیک جب اللہ ‘ انسانی شکل میں دنیا میں آئے گا تو وہ خدا ہی نہیں رہے گا ‘ نعوذ بااللہ ۔ چنانچہ اہل حدیث فرقہ کے پیشوا غیر مقلد خارجی ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا : خدا اگر چاہے تو انسانی شکل و صورت میں آ سکتا ہے مگر جونہی وہ انسانی پیکر میں ظاہر ہوگا وہ خدا نہیں رہے گا اور خدا کے مرتبہ اور منصب سے معزول ہو جائے گا ۔ (خطبات ذاکر نائیک جلد 1 صفحہ 76 مطبوعہ مونال پبلی کیشنز راولپنڈی)

اف یہ جوش تعصب آخر
بھیڑ میں کمبخت کے ہاتھ سے ایمان گیا

ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اگر ہندو سوال کرے گا توجواب میں اس کو وہ میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 259 سٹی بک پوائنٹ اردو بازار کراچی)
تبصرہ : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے کیا کبھی کافر مسلمان کا بھائی ہو سکتا ہے؟

قرآن و حدیث میں یہ ذکر کہیں بھی نہیں ہے کہ عورتیں مساجد میں جا سکتیں۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 272 سٹی بک پوائنٹ اردو بازار کراچی)
تبصرہ : کیا ذاکر نائیک نے تمام حدیثیں پڑھ لیں ؟

اسلام میں فرقوں کی گنجائش نہیں ہے۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 316 مطبوعہ سٹی بک پوائنٹ اردو بازار لاہور)
تبصرہ : جب ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک فرقوں کی گنجائش نہیں ہے تو پھر ٹی وی چینلز پر اپنے آپ کو اہلحدیث فرقے کا مولوی کیوں کہلواتا ہے؟

جب کسی مسلمان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کون ہو عموماً جواب یہ ملتا ہے کہ میں سنی ہوں یا میں شیعہ ہوں اسی طرح کچھ لوگ اپنے آپکو حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی کہتے ہیں اور کوئی یہ کہتا ہے کہ میں دیو بندی ہوں یا بریلوی ہوں۔ ایسے لوگوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کیا تھے ؟ کیا وہ حنبلی‘ شافعی‘ حنفی یا مالکی تھے؟ بالکل نہیں ۔ (کتاب : خطباتِ ذاکر نائیک صفحہ نمبر 317سٹی بک پوائنٹ اردو بازار کراچی،چشتی)
تبصرہ : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سنی‘ حنبلی‘ حنفی‘ شافعی اور مالکی نہ تھے تو کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اہلحدیث تھے ؟ بالکل نہیں ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لکھنا ‘ پڑھنا نہیں جانتے تھے ۔ (معاذ اللہ)
(خطبات ذاکر نائیک صفحہ نمبر 57`58 )
تبصرہ : ڈاکٹر ذاکر نائیک اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیان کی ہوئی حدیثیں پڑھ کر خود کو پڑھا لکھا ظاہر کرتا ہے اور جن کی حکمت و دانائی سے بھر پور حدیثیں بیان کر تا ہے اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متعلق یہ لکھتاہے کہ وہ (معاذ اللہ) پڑھے لکھے نہ تھے دوسری زبان میں یوں سمجھ لیں کہ نائیک نے اللہ تعالٰی کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کوان پڑھ لکھا ۔ کیا اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان پڑھ کہنے والا خود پڑھا لکھا ہو سکتا ہے ؟ یا جاہل ؟

تین طلاقیں تین نہیں بلکہ ایک ہیں ۔ (طلاق کے عنوان سے سی ڈی میں بیان)
تبصرہ : تین طلاق کے تین ہونے پر پوری امت مسلمہ کا اجتماع ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک تین طلاقیں ایک ہیں لہذا جماع امت کا انکار کرنے والا گمراہ ہے ۔

معرکہ کربلا سیاسی جنگ تھی اور یزید پلید کو ( رحمة اللہ علیہ) کہا ۔ (مشہور سی ڈی سوالات کے جوابات‘ سی ڈی ادارے کے پاس موجود ہے)
تبصرہ : ڈاکٹر ذاکر نائیک نے معرکہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار دے کر گھرانہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی قربانیوں کا مذاق اڑایا ہے اور دشمن اسلام اور دشمن اہلبیت یزید پلید کو رحمة اللہ علیہ کہہ کر ثابت کردیا ہے کہ میں یزیدی ہوں ۔

مزارات پر حاضری دینا ‘ غیر اللہ کا وسیلہ پیش کرنا اور میلاد کی محافل کا انعقاد شرک ہے ۔
تبصرہ : ڈاکٹر ذاکر نائیک دراصل ہندوستان کے شہر مدراس کا رہنے والا ہے یعنی مدراسی ہے نہ وہ کسی درالعلوم سے فارغ التحصیل ہے وہ عالم دین نہیں ہے اپنی طرف سے جو جواب سمجھ میں آتا ہے وہ دینا شروع کر دیتا ہے اگر وہ واقعی عالم دین ہوتا تو ایسے جوابات ہرگز نہ دیتا لہٰذا ذاکر نائیک سے ہماری گزارش ہے کہ وہ علم دین سیکھ لے تاکہ گمراہیت سے بچ جائے ۔

فجر کی سنتوں کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے مولویوں نے اسے اہمیت والا بنا دیا ہے ۔ (پروگرام پیس ٹی وی چینلز 2007)
تبصرہ : ڈاکٹر ذاکر نائیک اگر صحاح ستہ پڑھ لیتا یعنی بخاری شریف‘ مسلم شریف‘ ابودائود شریف وغیرہ پڑھ لیتا تو کبھی اس طرح اہمیت والی عبادت کو غیر اہم قرار نہ دیتا مگر افسوس کہ اس نے کبھی علم سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ 

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اجماع امت سے ہٹ کر دین کی نئی راہیں گھڑ لیں

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھ

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا خیال یہ ہے کہ سلف کے طریق سے ہٹ کر دین کی جدید تشریح کی ضرورت ہے ۔

ائمہ اربعہ کی تقلید (جس پر پوری امت متفق چلی آرہی ہے) امت کی گم راہی کی اصل بنیاد ہے ۔

مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں (حالانکہ متعدد ہدایات میں فرق بیان کیا گیا ہے،چشتی)

دین کے بارے میں ہر شخص فتویٰ دے سکتا ہے فتویٰ کا مطلب اپنی رائے دینا ہے ۔ (یہ دین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے)

مردعورت سے ذمہ داری میں اونچا ہے نہ کہ فضیلت میں (یہ آیات قرآنیہ میں تحریف معنوی ہے ۔

ننگے سر نمازپڑھنا جائز ہے ۔ (یہ بے ادبی کا انداز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عمامہ پہنتے تھے)

بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا جائز ہے (یہ بات قرآن وحدیث کے مفہوم کے خلاف ہے،چشتی)

آیت ﴿ویعلم مافی الارحام﴾ کے معنٰی سمجھنے میں مفسرین کو غلطی ہوئی ہے ، اس میں جنین کی جنس نہیں، بلکہ اس کی فطرت مراد ہے ۔ (یہ تفسیر بالرائے ہے،چشتی)

آیت ﴿اذا جاء ک المومنات یبایعنک﴾ الایة میں بیعت کے لفظ میں آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی داخل ہے ۔ (یہ بھی تفسیر بالرائے ہے)

خون بہہ جانے کی صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا ،اس بارے میں فقہ حنفی کا فتویٰ غلط ہے ۔ (جب کہ حدیث میں خون بہہ جانے سے وضو ٹوٹنے کا حکم ہے)

حالتِ حیض میں عورت قرآن پڑھ سکتی ہے۔ (جمہور علماء اس کی اجازت نہیں دیتے)

خطبہ جمعہ عربی کے بجائے مقامی زبان میں ہونا چاہیے (یہ بات نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم کے دائمی عمل کے خلاف ہے وعظ و نصیحت اور چیز ہے اور خطبہ دوسری چیز ۔ خطبہ جو کہ دورکعت کے قائم مقام ہے عربی میں ہی ضروری ہے)

تین طلاق سے صرف ایک طلاق واقع ہوتی ہے ۔ (جب کہ تین پراجماع منعقد ہوچکا ہے)

 پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک ہی دن عید کرنا چاہیے ۔ (حالاں کہ ایسا ممکن نہیں)

ڈاکٹر صاحب کے نزدیک مدت اقامت صرف پانچ ،چھے دن ہے ۔ (جب کہ حدیث میں پندرہ دن کا ذکر ہے،چشتی)

ان کے ہاں تراویح آٹھ رکعت ہے ۔ (جب کہ بیس رکعت پر پوری امت کاا جماع ہے)

عورت کے چہرے کا پردہ ضروری نہیں ۔ (حالاں کہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا مردوں کے سامنے سے گزر تے ہوئے چہرے کا پردہ کرنا حدیث سے ثابت ہے)

چند مواقع کے علاوہ ہر جگہ ایک عورت کی گواہی معتبر ہے ۔ (یہ قرآن حکیم کے حکم کی صاف مخالفت ہے،چشتی)

نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم نے متعدد شادیاں سیاسی مفادات کی خاطر کیں ۔ (جب کہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه و آلہ وسلم کے تمام نکاح اللہ کے حکم سے ہوئے ، ان میں بہت سی دینی حکمتیں تھیں، نہ کہ سیاسی مفادات،چشتی)

ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دریا کے کیڑے مکوڑے بھی حلال ہیں (جب کہ حدیث میں صرف مچھلی کی حلت کا ذکرہے اور مچھلی کی تمام قسمیں حلال ہیں ۔ مچھلی وہ ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی ہو ، سانس لینے کے گل پھڑے ہوں اور تیرنے کےلیے پر ہوں ، جب کہ کیکڑے میں یہ تینوں چیزیں نہیں ہوتیں)

ڈاکٹر ذاکر کے ہاں مشینی ذبیحہ بھی حلا ل ہے ۔ (جب کہ ان کا نظریہ قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے)

ڈاکٹر ذاکر نائیک نبی کریم صلى الله عليه و آلہ وسلم  کی حیات کے منکر ہیں ۔ (جب کہ عقیدہ حیات صلى الله عليه و آلہ وسلم پر امت کا اجماع ہے ، صرف معتنرلہ اورروافض اس کے منکر ہیں)

قرآن و صحیح حدیث میں وسیلہ کرنے کا ذکر نہیں ۔ (حالانکہ صحیح احادیث سے وسیلہ ثابت ہے)

ہم نے یہ تمام مسائل ذاکر نائیک کی ان کتب سے اخذ کیئے ہیں جو تصدیق کرنا چاہیں وہ یہ کتب پڑھیں خطبات ذاکر نائیک ، اسلام پر چالیس اعتراضات ، اسلام اور عالمی اخوت ، اسلام میں خواتین کے حقوق اور ٹی وی پروگرام ”گفتگو“)

ذاکر نائیک سے کوئی بھی سوال کیا جائے تو فوراً جواب آتا ہے سورہ انفال آیت 17 حالانکہ کوئی شخص بھی اس طرح برجستہ جواب نہیں دے سکتا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک پر الزام نہیں لگاتا آپ خود ہی تحقیق کر لیں جو یہ آیت نمبر بتاتا ہے اس سوال کا جواب اس آیت میں ہوتا ہی نہیں ہے یعنی اپنی طرف سے آیت نمبر کہہ کر قرآنی آیت کا مفہوم بتا کر آگے بڑھ جاتا ہے ‘ تحقیق ضرور کیجیے گا ۔ محترم قارئین ! یہ تو چند جھلکیاں ڈاکٹر ذاکر نائیک کے عقائد کی تھیں اس کے علاوہ جتنے اہلحدیث فرقے کے عقائد و نظریات ہیں یہ انہی عقائد و نظریات پر کار بند ہے لہٰذا عوام الناس کو چاہیئے کہ وہ ایسے لوگوں کے خطبات سننے سے پرہیز کریں یاد رکھیے تقابلِ ادیان کا علم رٹ لینے سے فقط کوئی عالمی مذہبی اسکالر نہیں بن جاتا بلکہ علم کے ساتھ رب کا فضل بھی ہونا چاہیے جو صرف سنی صحیح العقیدہ شخص کو ہی مل سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو ان فتنوں سے بچائے آمین ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday, 22 November 2022

فتنہ مودودیت حقائق و دلائل حصّہ اوّل

فتنہ مودودیت حقائق و دلائل حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : مودودی اور ان کی جماعت جناعتِ اسلامی کا شمار دیوبندی فرقے میں ہوتا ہے مگریہ لوگ دیوبندیوں سے بھی دو ہاتھ بد عقیدگی میں آگے ہیں یہ بھی دیوبندی ہی کہلاتے ہیں مگر دیوبندی بھی اندرونی طور پر ان سے بیزار ہیں لیکن بد عقیدگی میں سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں ۔ مودودی کی نگاہِ بصیرت ایسی ہے کہ ہر طرف اس کو کمزور یاں ہی کمزوریاں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ سے لے کر ہر نبی علیہ السلام و صحابی رضی اللہ عنہ اور ولی اللہ علیہ الرحمہ کی شان میں نکتہ چینی کی ہے ۔ مودودی نے اپنی مستعار زندگی میں جس کام کو مقصود  بنایا وہ انبیاء علیہم السلام سلف صالحین اور اکابرین امت علیہم الرحمہ پر تنقید اور ان کی تنقیص ہی نہیں بلکہ ان پر سے امت کے اعتماد کو ہٹانا ہے بلخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کا تختہ مشق بنی رہی مودودیت کے علمبردار اس کو تاریخی حقاٸق کا نام دے کر اپنے آپ کو بری الزمہ کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں انہی نام نہاد تاریخی حقا ہق کی روشنی نے انبیاء کو نازیبا القاب سے نوازا ۔ کسی کو ڈکٹیٹر کہا کسی کو قاتل تو کسی کو جلد باز اور بشری کمزوریوں کاحامل اور اسرائلی چرواہ قراردیا بلکہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن بھی اس کی تنقیص سے نہ بچ سکیں ۔ مجددین اور مجتہد ین امت میں سے کوئی بھی ان کے میعار پر پورا نہ اتر سکا - اس لیے ان کی اصطلاح میں کامیابی کی سند کوئی بھی حاصل نہ کر سکا ۔ مودودی لکھتا ہے : تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلومہ ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد پیدا نہیں ہوا ہے قریب تھا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ اس منصب پرفائز ہو جاتےمگروہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ ان کے بعد جتنے مجدد پیدا ہوئےان میں سے ہر ایک نے کسی خاص شعبے یا چند شعبوں ہی میں کام کیا - چنانچہ مجدد کامل کا مقام ابھی تک خالی ہے ۔ (تجدید و احیائے دین صفحہ 49)

اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام نہ صرف نبوت کے بعد بلکہ نبوت سے پہلے بھی معصوم ہوتے ہیں مگر اس کے برعکس مودوی کا عصمت انبیاء علیہم السلام کےبارے میں عقیدہ ملاحظہ فرمائیں مودودی یورپ والوں کو " نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کاتعارف ان الفاظ میں کراتا ہے : اسلام میں رسول کی حثیت اس طرح واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ ہم ٹھیک ٹھیک یہ بھی جان سکتے ہیں کہ رسول کیا ہے ؟ اور یہ بھی کہ وہ کیا نہیں ہے ۔ وہ نہ فوق البشر ہے نہ بشری کمزوریو ں سے با لاتر ہے ۔ (ماخوزازمقالہ“اسلام کس چیز کا علمبردار ہے“ ازابواعلی مودودی براےاسلامک کو نسل آف یورپ لندن منعقدہ اپریل1976ء بحوالہ مودودی ماہنامہ ترجمان القران)(خطبات یورپ صفحہ 178)

مودودی نےسورہ نصرکی شر یح میں لکھا ہے : اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنج گیا ۔ جس پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو مامور کیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ارشاد ہوتا ہےکہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر کہیں فخر نہ کرنےلگنا ۔ نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمہارے رب کی ہے ۔ لہٰذا اس کارِ عظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمد و ثناء اور اس زات سے درخوا ست کرو کہ مالک اس 23 سال کے زمانہ خدمت میں اپنے فرائض ادا کر نے میں جو خامیاں اور کوتاہیاں مجھ سے سرزر ہوگئی ہوں انہں ماف فرما دے ۔ (قران کی چار بنیادی اصطلاحیں صفحہ 152 چودہواں ایڈیشن تصنیف مودودی)

کوئی گنہگار سے گنہگار مسلمان بھی یہ تصور کر سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے نعوز باللہ 23 سال کے زمانہ نبوت میں یا اس سے پہلے خامیاں یا کوتاہیاں سرزرد ہوئی تھیں ؟

مودوی نے اپنی کتاب “الجہادفی الاسلام“ میں لکھا ہے : لیکن وعظ و تلقین میں ناکامی کے بعد داعی اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) نے ہاتھ میں تلوار لیی ۔ (الجہاد فی الاسلام صفحہ 17)
 
اس عبارت میں مودودی نے نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر دو الزام لگاۓ : ⬇

(1) وعظ و تلقین میں نا کامی ۔
(2) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بزور شمشیر اسلام پھیلایا ۔

مودودی کے نزدیک داڑھی بدعت اور تحریف دین ہے: ⬇

مودودی نے "رسائل و مسائل" میں لکھا ہے : میں اسوہ اورسنت و بدعت وغیرہ اصلاحات کے ان مفہومات کو غلط بلکہ دین میں تحریف کا موجب سمجھتا ہوں جو بالعموم آپ حضرات کے یہاں رائج ہے ۔ آپ کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جتنی بڑی داڑھی رکھتے تھے اتنی ہی داڑھی رکھنا سنت یا اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے بلکہ میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ اس قسم کی چیزوں کو سنت قرار دینا اور پھر ان کی اتباع پر اصرار کرنا ایک سخت قسم کی بدعت اور ایک 
 خطر ناک تحریف دین ہے ۔ (رسائل و مسائل حصہ اول صفحہ 247،248)(انکشافات صفحہ 74)

یہ عجیب لطیفہ ہے کہ مودودی کو اپنے عقیدے کے بر عکس آخر کار لمبی ڈاڑھی ہی رکھنی پڑی

اسلام کے ارکان خمسہ کے متعلق مودودی صاحب کا باطل نظریہ : ⬇

عام طور پر لوگ کہتے رہے ہیں کہ اسلام کے پانچ ارکان کلمہ ‘ توحید و رسالت ‘ نماز ‘ روزہ ‘ حج اور زکواة ۔ لوگ یہ سمجھتے رہےہیں اور ایک مدت سے  یہ غلط فہمی رہی ہے کہ ان چیزوں میں کا نام اسلام ہے اور واقعہ یہ ہےکہ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ۔ اس سے مسلمانوں کا طریقہ اور طرزِ عمل پوری طرح سے بگڑتا گیا ہے ۔ (کوثر 9 فروری1951ء بیان مودودی بحوالہ تنقیدالمسائل صفحہ 167)

دجال کے بارے میں مودودی کا نظریہ : ⬇

یہ دجال وغیرہ تو افسانے ہیں جن کی کوئی شرعی حثیت نہیں ہے ان کو تلاش کرنے کی ہمہیں کوئی ضرورت نہیں ۔ عوام میں اس قسم کی جو با تیں مشہور ہیں ان کی کوئی ذمہ داری اسلام پر نہیں ہے اور ان میں سے کوئی چیز اگر غلط ثابت ہو جائے تو اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ (ترجمان القران رمضان،شوال 1364 ھ،چشتی)

عصمت انبیاء علیہم السلام سے متعلق مودودی کے نظریات و الزامات : ⬇

حضرت مو سی علیہ السلام کے بارے میں مودودی نے "رسائل و مسائل" میں لکھا ہے کہ : نبی ہونے سے پہلے تو حضرت مو سی علیہ السلام سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہو گیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کر دیا ۔ (رسائل و مسائل حصہ اول صفحہ 31 طبع دوم)

مودودی نے ایک فرعونی حربی کو قتل کی بجائے انسان کا قتل لکھ دیا

ایک اور جگہ لکھتا ہے : موسی علیہ السلام کی مثال اس جلد باز فاتح کی سی ہے جو اپنے اقتدار کا استحکام کیے بغیر مارچ کرتا ہوا چلا جاۓ اور پیچھے جنگل کی آگ کی طرح مفتوعہ علاقہ میں بغاوت پھیل جائے ۔ (ماہنامہ ترجمانالقرآن ستمبر 1946ء)

حضرت یونس علیہ السلام کی شان میں گستاخی : حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت میں کچھ کوتائیاں ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ پس جب  نبی ادائے رسالت میں کوتاہی کر گیا ۔ (تفہیم القرآن حصہ دوم طبع اول حاشیہ)

حضرت یوسف علیہ السلام کی شان میں گستاخی : یہ محض وزیر مالیات کے منصب  کا مطالبہ نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ۔ بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں حضرت یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن  تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حا صل ہے ۔ (تفہیمات صفحہ 122مطبع چہارم،چشتی)
 

کیا اللہ کے پاک نبی کی طرف "ڈکٹیٹر" اور اٹلی کے مسو لینی کی طرف تشبیہ دینا توہین کے زمرے میں نہیں آتا ؟

حضرت داود علیہ السلام کی شان میں گستاخی : حضرت داود علیہ السلام نے اپنے عھد کی اسرائیلی سوسائٹی  کے عام رواج سے متاثر ہو کر اوریاسے طلاق کی درخواست کی تھی ۔ (تفہیمات حصہ دوم صفحہ 42طبع دوم)

ایک اور جگہ لکھتا ہے : حضرت داود علیہ السلام  کے فعل میں خواہش نفس کا کچھ دخل تھا ۔ اس کا حاکمانہ اقتدار کے نا مناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنیوالے کسی فرمانروا کو زیب نہ دیتا تھا ۔ (تفہیم القرآن جلد 4 صفحہ 327 طبع اول،چشتی)

حضرت نوح علیہ السلام کی شان میں گستاخی : حضرت نوح علیہ السلام اپنی بشری کمزوریوں سے مغلوب اور جاہلیت کے جذبہ کا شکار ہو گئے تھے ۔ (تفہیم القرآن صفحہ 344 جلد 2)

مودودی کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں گستاخیاں : ⬇

مودودی لکھتا ہے : چنانچہ یہ یہودی اخلاق کا ہی اثر تھا کہ مدینہ میں بعض انصار اپنے مہاجر بھائیوں کی خاطر اپنی بیویوں کوطلاق دے کر ان سے بیاہ دینے پر آمادہ ہو گئے تھے ۔ (تفیہمات حصہ دوم حاشیہ صحہ 35 طبع دوم،چشتی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاد فی سبیل اللہ کی اصلی اسپرٹ سمجھنے میں بار بار غلطیاں کر جا تے تھے ۔ (ترجمان القرآن ص292‘ 1957ء)

ایک مرتبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا بے نفس متورع اور سراپا للہیت بھی اسلام کے نازک ترین مطالبہ کو پورا کرنے سے چوک گیا ۔ (ترجمان القرآن صفحہ 30‘ 1957)

خلفاۓ راشدین رضی اللہ عنہم کے فیصلے بھی اسلام میں قانون نہیں قرار پاتےجو انہوں نے قاضی کی حثیت سے کیے تھے ۔ (ترجمان القران جنوری 57)

نبی ہونے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا ۔ (رسائل و مسائل صفحہ 31)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے متعلق مودودی لکھتا ہے کہ صحرائے عرب کایہ ان پڑھ بادیہ نشین دورِ جدید کا بانی اور تمام دنیا کا لیڈر ہے ۔ (تفہیمات صفحہ نمبر 210)

ہر فرد کی نماز انفرادی حیثیت ہی سے خدا کے حضور پیش ہوتی ہے اور اگر وہ مقبول ہو نے کے قابل ہو تو بہر حال مقبول ہو کر رہتی ہے ۔ خواہ امام کی نماز مقبول ہو یا نہ ہو ۔ (رسائل و مسائل صفحہ 282)

خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے ۔ جس کی بناء پر اہل حدیث حنفی ، دیوبندی ، بریلوی ، سنی وغیرہ الگ الگ اُمتیں بن سکیں یہ اُمتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔ (خطبات مودودی صفحہ 82)

اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں علیہم السلام تک کو اس نفس شریر کی رہزنی کے خطرے پیش آئے ۔ (تفہیمات صفحہ 163)

ابو نعیم اور احمد ، نسائی اور حاکم نے نقل کیا ہے کہ ید چالیس مرد جن کی قوت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو عنایت کی گئی تھی ۔دنیاکے نہیں بلکہ جنّت کے مرد ہیں اور جنت کے ہر مرد کو دنیا کے سو مردوں کے برابر قوت حاصل ہوگی ۔یہ سب باتیں خوش عقیدگی پر مبنی ہیں اللہ کے نبی کی قوتِ باہ کا حساب لگانا مذاقِ سلیم پر بار ہے الخ ۔(بحوالہ :تفہیمات ص 234)

قرآن مجید نجات کےلیے نہیں بلکہ ہدایت کے لئے کافی ہے ۔ (تفہیمات صفحہ 321)

میں نہ مسلک اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کیساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفیت کا یا شافعیت کا پابند ہوں ۔ (رسائل و مسائل صفحہ 235)

تٸیس 23 سالہ زمانہ اعلانِ نبوت میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے اپنے فرائض میں خامیاں اور کوتائیاں سرز د ہوئیں ۔ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں)

جو لوگ حاجتیں طلب کرنے کےلیے خواجہ اجمیر یا مسعود سالار کی قبر پر یا ایسے دوسرے مقامات پر جاتے ہیں زنا اور قتل کا گناہ کم ہے ۔ یہ گناہ اس سے بھی بڑا ہے ۔(تجدید و احیاء دین صفحہ 62،چشتی)

اصولِ فقہ ، احکام فقہ ، اسلامی معاشیات ، اسلام کے اصول عمران اور حکمتِ قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کےلیے کار آمد نہیں ہیں ۔ (تفہیمات صفحہ 213)

خدا کی چال : ان سے کہو اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ۔ (تفہیم القرآن پارہ نمبر 11رکوع 8)

نبی اور شیطان : شیطان کی شرارتوں کا ایسا کامل سدّباب کہ اسے کس طرح گھس آنے کا موقع نہ ملے ۔ انبیاء علیہم السلام بھی نہ کرسکے ۔ تو ہم کیا چیز ہیں کہ اس میں پوری طرح کامیاب ہونے کا دعوٰی کرسکیں ۔ (ترجمان القرآن جون ۱۹۴۶؁ء ص 57)

ہر شخص خدا کا عہد ہے : مومن بھی اور کافر بھی ۔ حتّٰی کہ جس طرح ایک نبی اس طرح شیطانِ رجیم بھی ۔ (ترجمان القرآن جلد 25عدد 1،2،3،4ص 65) (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه)

نبی اور معیار مومن : انبیاء بھی انسان ہوتے ہیں اورکوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہو سکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر رہے ۔ جو مومن کےلیے مقرّر کیا گیا ہے ۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشر ف انسان بھی تھوڑی دیر کےلیے اپنی بشر ی کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے ۔ (ترجمان القرآن)

ایلچی : محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی وہ ایلچی ہیں ۔ جن کے ذریعہ سے خدانے اپنا قانون بھیجا ۔ (کلمہ طیّبہ کا معنی صفحہ نمبر 9) (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه)

منکرات پر خاموش : مکّہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے منکرات (برائیوں) کا ارتکاب ہوتا تھا ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان کو مٹانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اس لیے خاموش رہتے تھے ۔ (ترجمان القرآن 65 ؁ ء صفحہ 10،چشتی)

محمد ی مسلک : ہم اپنے مسلک اور نظام کو کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں مودودی تو در کنار ہم اس مسلک کومحمدی کہنے کےلیے بھی تیار نہیں ہیں ۔ (رسائل و مسائل جلد 2 صفحہ 437)

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے مودودی کے عقائد پڑھے یہی عقائد ان کی جماعت اسلامی کے بھی ہیں مودودی کے بارے میں دیوبندی مولوی محمد یوسف لُدھیانوی اپنی کتاب ’’اختلاف اُمّت اور صراطِ مستقیم‘‘ میں لکھتا ہے کہ مودودی وہ آدمی ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حجّۃالا سلام امام غزالی علیہ الرحمہ تک تمام عظیم ہستیوں کے ذات میں نکۃ چینی کی ہے ۔ مودودی کی کتاب تفہیمات غلاظتوں سے بھری پڑی ہے ۔ جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے عقائد کیا تھے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday, 12 November 2022

حضرت خواجہ نظامُ الدّین اَولیاء رحمۃ اللہ علیہ

حضرت خواجہ نظامُ الدّین اَولیاء رحمۃ اللہ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : سر زمینِ ہند پر اللہ تعالیٰ نے جن اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ علیہم اجمعین کو پیدا فرمایا اُن میں سے ایک سِلسِلۂ چشتیہ کے عظیم پیشوا اور مشہور ولیُ اللہ حضرت سیّدنا خواجہ نظامُ الدِین اَولیاء رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں ۔

ولادت اور نام و نسب : آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد اور اَلقابات شیخ المشائخ ، سلطانُ المشائخ ، نِظامُ الدّین اور محبوبِ اِلٰہی ہیں ، آپ نَجیبُ الطَّرَفَیْن (یعنی والد اور والدہ دونوں کی طرف سے) سیّد ہیں ، آپ کی ولادت 27صفر المظفر 634ھ بدھ کے روز یُوپی ہند کے شہر بدایوں میں ہوئی ، والد حضرت سیّد احمد رحمۃ اللہ علیہ مادَرزاد (پیدائشی) ولی تھے ، والدہ بی بی زُلیخا رحمۃ اللہ علیہا بھی اللہ کی ولیہ تھیں ۔ آپ کا اصل نام محمد تھا۔ سلسلۂ نسب حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم تک پہنچتا ہے ۔ (محبوبِ الٰہی صفحہ90،91)(شانِ اولیاء صفحہ 383)

تعلیم و تربیت : ناظرہ قراٰنِ پاک و ابتدائی تعلیم اپنے  محلّے سے ہی حاصل کی ، پھر بدایوں کے مشہور عالمِ دِین مولانا علاءُ الدِّین اُصُولی رحمۃ اللہ علیہ سے بعض عُلُوم کی تکمیل کی اور انہوں نے ہی آپ کو دستار باندھی ، بعداَزاں بدایوں و دِہلی کے ماہرینِ فن عُلَما اور اَساتذہ کی درسگاہوں میں تمام مُرَوَّجَہ عُلوم و فنون کی  تحصیل کی ۔ (سیرالاولیاء صفحہ 167)۔(محبوبِ الٰہی صفحہ 94،225)

بیعت و خلافت : مختلف مَقامات اور شُیوخ سے عُلوم و مَعرِفَت کی مَنازِل طے کرتے ہوئے آپ حضرت سیّدنا بابا فریدُالدِّین مسعود گنج شکر علیہ رحمۃُ اللہِ الاکبر کی بارگاہ میں پہنچے اور پھر اِسی دَر کے غلام و مُرید ہوگئے، جب رُوحانی تربیَت کی تکمیل ہوئی تو پیر و مُرشد نے خلافت سے نوازا ۔ (سیر الاولیاء صفحہ 195،چشتی)(محبوبِ اِلٰہی صفحہ 115)ا

مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے لیے دہلی پہنچے جہاں آپ نے مولانا شمس الدین ، مولانا کمال الدین اور مختلف مشاہیر علما سے مختلف علوم کی تحصیل کی ۔ علمی مہارت واستعداد کی بنا پر معاصرین کے مابین ’’ نظام الدین منطقی اصولی‘‘ اور ’’نظام الدین محفل شکن‘‘ کے لقب سے معروف ہوگئے ۔

خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں : زمانۂ طلب علمی ہی میں برہان العاشقین خواجہ فرید الدین گنج شکر قدس سرہٗ کے روحانی فضائل وکمالات نے کشورِ دل کو فتح کرلیا تھا۔ بیس سال کی عمر میں اجودھن (پاک پٹن شریف) میں فرید وقت کی بارگاہ قدس میں حاضر ہوئے۔ اپنی اس حاضری اور ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے خود ہی فرماتے ہیں: جب میں شیخ کبیر کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا : ⬇

 اے آتش فراقت دلہا کباب کرد 
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کرد

تیری فرقت اور جدائی کی آگ نے کئی دلوں کو کباب کر دیا اور تیرے شوق کی آگ نے کئی جانیں خراب کر دیں ۔ خواجہ شیخ کبیر کی حیات میں تین بار اجودھن حاضر ہوئے ۔ کس حاضری میں خلافت سے مشرف ہوئے ، تذکرہ نگاروں نے اس کی صراحت نہیں کی ہے ، ہاں یہ صراحت ضرور ملتی ہے کہ آپ شیخ فرید کی بارگاہ سے علمی وروحانی فیضان اور خلافت سے سرفراز ہوکر دہلی لوٹے ۔

خانقاہی نظام کا قیام اور صوفیانہ شان : دہلی کے قریب بستی غیاث پور میں نظام خانقاہی قائم کی اور مسند رشد وہدایت کو زینت بخشی ۔ آپ صاحبِ کشف وکرامت تھے ۔ متعدد کرامات کا آپ سے ظہور ہوا جو زبان زد عام وخاص ہے۔ غیاث پور میں قیام کے ابتدائی دور میں کافی تنگ دستی اور فاقوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دور میں سلطان وقت نے ایک گائوں کی پیش کش کی۔ آپ نے صوفیانہ شانِ استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اور میرے خدمت گاروں کو تمھارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں، خداوند قدوس بڑا کارساز ہے۔ پھر غیب سے آپ کی امداد ہوئی، مقبولیت کا ستارہ چمکا، یہاں تک کہ اس عسر کے بعد یسر کا دور آگیا۔ آپ مرجع عوام وخواص، شاہ وگدا بن گئے۔ لوگوں کا آپ کی طرف رجوع اس قدر ہوا کہ سلاطینِ دہلی کی عظمتیں ماند پڑگئیں۔ اب خانقاہی نظام سے دست گیری، غریب نوازی، انسان سازی کا کارنامہ انجام دیا جانے لگا۔ روزانہ لنگر خانے سے ہزاروں لوگ شکم سیر ہونے لگے مگر آپ کا حال یہ تھا کہ مسلسل روزے رکھتے اور سحری میں خاد م کھانا پیش کرتا تو اس خیال سے نہ کھاتے کہ نہ جانے اس وقت کتنے لوگ بھوکے پیاسے سورہے ہوں گے۔ خلق کی درد مندی کی ایسی انوکھی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے ۔ یقیناً یہ ایک صاحب دل اور مرد حق آگاہ ہی کی صفت ہوسکتی ہے ۔

مریدین و خلفا : اس دور میں جو آپ نے انسان سازی کا سب سے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ مریدین کی باطنی اصلاح فرماکر انھیں کشورِ ولایت کی حکمرانی عطا کی ۔ مریدین وخلفا کی ایک طویل فہرست ہے جو زہد وتقویٰ، علم وروحانیت اور معرفت وولایت غرض ہر اعتبار سے اپنے عہد میں یکتائے روز گار شمار کیے جاتے ہیں۔ ان حضرات نے بھی بزرگان چشت کے مشن کو آگے بڑھایا، گلشنِ اسلام کی آبیاری کی اور انسانی اقدار کے احیا کا فریضہ انجام دیا۔خاص کر خواجہ نصیرالدین محمود اودھی چراغ دہلوی ، حضرت خواجہ امیر خسرو،خواجہ برہان الدین غریب،خواجہ امیر حسن علاسجزی ، خواجہ شمس الدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی دینی وعلمی وادبی اور صوفیانہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔

تبلیغ دین : مسلمانوں کی اصلاح وتزکیہ کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں میں دین اسلام کا کام کیا اور اپنے مریدین کو تبلیغ اسلام کی خاطر مختلف بلاد وامصار میں بڑی تعداد میں متعین کردیا۔ اسلام کی جڑیں جس طرح دورِ نظامی میں ہند میں مضبوط ہوئیں وہ ہماری دعوتی تاریخ کا روشن حصہ ہے۔ جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے خواجہ برہان الدین غریب ہانسوی کو خلافت واجازت عطا فرمائی اور انھیں سات سو مریدوں کے ہم راہ جنوبی ہندوستان کے علاقہ دکن میں دعوت وارشاد کے لیے روانہ کیا۔ دکن میں آج جو اسلام کی فصل بہار ہے، اس میں خواجہ نظام الدین اور ان کے مریدین وخلفا علیہم الرحمہ کا خون جگر شامل ہے ۔

شریعت کی پاس داری اور تصلب فی الدین : بلاشبہ شریعت کے زینے کے بغیر منزلِ ولایت تک رسائی تقریبا ناممکن ہے؛ اس لیے کہ شریعت زینہ ہے اور طریقت جلوۂ بالائے بام ۔ دین پر استقامت سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عمل آوری کے بغیر ولایت کا خواب دیکھنا ریت کا محل بنانے کے مترادف ہے، جو خود ہدایت یافتہ نہیں وہ بھلا لوگوں کی رہ نمائی کیسے کرسکے گا؟ اسی لیے جاہل صوفی کو شیطان کا مسخرہ کہا گیا ہے۔جو خود گم راہ ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی گم راہ کرتا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے کردار وعمل کو شریعت اسلامی کے سانچے میں ڈھالا جائے تاکہ آگے رسائی ممکن ہوسکے۔ اس ضمن میں جب ہم خواجہ نظام الدین اولیا کی کتابِ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہر ہر ورق سے اطاعت وشرعی پاس داری کے ساتھ تصلب فی الدین کے ناقابل فراموش واقعات اور نصیحت آمیز ارشادات ملتے ہیں۔ جو سالکین کے لیے بہترین زادِ راہ ہیں۔ بادشاہوں کی بارگاہوں سے پرہیز، خلوت وگوشہ نشینی کے باوجود خلق خدا کی امداد ودست گیری، حاجت روائی، ذہنی وفکری رہنمائی، تربیت روحانی، انسانی اقدار واوصاف کی تعمیر وتصحیح، آسودگی وتنگ دستی ہر دو حالت میں شکر خداوندی محبوبِ الٰہی رحمۃ اللہ علیہ کے نمایاں اوصاف رہے ہیں ۔

دو محتشم و مکرم واسطوں سے : نائب رسول فی الہند، سلطان الہند، عطائے رسول، غریب نواز، ہندالولی، خواجہ خواجگان، خواجہ اجمیر، سلطان سنجرحضرت معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ جناب سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے "شیخ طریقت" ہیں ۔

سولہ پُر عظمت واسطوں سے : سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی  (رحمۃ اللہ علیہ)" حضرت پیر طریقت سید آل احمد معینی چشتی رحمۃ اللہ علیہ [جگر گوشۂ (آل پاک) حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ] کے شیخ طریقت ہیں ۔

سترہ قابل فخر واسطوں سے : سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی (رحمۃ اللہ علیہ)" حضرت پیر طریقت جناب پیرزادہ سید آل ابطحی معینی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  (جناب صوفی سید جاوید احمد) [جگر گوشۂ (آل پاک) حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ]  اور حضرت پیرطریقت خواجہ سید محمد سراج معینی چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ [جگر گوشۂ (آل پاک) حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ] کے شیخ طریقت بھی ہیں ۔

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کے القابات : ⬇

 • نظام الدین اولیاء 

• محبوب الہی

• سلطان المشائخ 

• سلطان الاولیاء

• سلطان السلاطین

 اور 

• زری زر بخش

نجیب الطرفین سید : حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں ۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ  کا سلسلۂ نسب پندرہ واسطوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور خاتون جنت حضرت  بی بی فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا سے جا ملتا ہے ۔

خا ندان : حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا "سید علی بخاری رحمۃ اللہ علیہ"  اور ان کے چچا زاد بھائی "حضرت سید عرب رحمتہ اللہ علیہ (آپ کے نانا)" دونوں بزرگ اپنے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوۓ تھے ۔

والدین : آپ کے نانا سید عرب کی صاحبزادی "سیدہ زلیخا رحمۃ اللہ علیہا (آپ کی والدہ ماجدہ)"  جو زھد و تقوی میں کمال درجہ رکھتی تھیں ۔ عبادت گزار اور شب بیدار تھیں۔ اپنے وقت کی ولیہ کاملہ تھیں ۔ ان کو اپنے وقت کی "رابعہ عصری" کہا جاتا تھا ۔

آپ کے دادا حضرت سید علی بخاری کے صاحبزادے "سید احمد (آپ کے والد ماجد) رحمۃ اللہ علیہ "  جو  نیک سیرت اور صاحب فضل و کمال تھے ۔ آپ کے دادا "حضرت سید علی بخاری رحمۃ اللہ علیہ"  اور آپ کے نانا "سید عرب بخاری رحمۃ اللہ علیہ" دونوں بزرگ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے ۔ دونوں بزرگوں نے باہمی مشورے سےاپنے خاندانی رشتے کو مضبوط کرتے ہوۓ "حضرت سید احمد علی رحمۃ اللہ علیہ"   کی شادی "حضرت سیدہ زلیخا رحمۃ اللہ علیہا " سے کردی ۔

کم سِنی ہی میں والد ماجد کا وصال : ابھی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا - لیکن آپ کی نیک دل ، پاک سیرت اور بلند ہمت والدہ حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہ  نے سوت کات کات کر اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی ۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی مادر گرامی حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہ ایک امیر و کبیر بزرگ حضرت خواجہ عرب رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی تھیں - لیکن آپ نے اپنے والد کی دولت کے ذخائر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا ۔ انتہا یہ ہے کہ بیوگی کا لباس پہننے کے بعد اس دروازے کی جانب نگاہ نہ کی ۔ جہاں آپ کا پورا بچپن اور جوانی کے ابتدائی چند سال گزرے تھے ۔ آپ دن رات سوت کاتتیں اور پھر اسے ملازمہ کے ہاتھ بازار میں فروخت کرا دیتیں ۔ اس طرح جو کچھ رقم حاصل ہوتی، اس سے گزر اوقات کرتیں۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا ۔ تنگ دستی کا یہ حال تھا کہ شدید محنت کے باوجود ہفتے میں ایک فاقہ ضرور ہو جاتا - جس روز فاقہ ہوتا اور حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ مادر گرامی سے کھانا مانگتے تو حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا بڑے خوشگوار انداز میں فرماتیں ’’ بابا نظام! آج ہم سب اللہ کے مہمان ہیں ‘‘ حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا کا بیان ہے کہ میں جس روز "سید محمد" سے یہ کہتی کہ آج ہم لوگ اللہ کے مہمان ہیں تو وہ بہت خوش ہوتے ۔ سارا دن فاقے کی حالت میں گزر جاتا مگر وہ ایک بار بھی کھانے کی کوئی چیز طلب نہ کرتے اور اس طرح مطمئن رہتے کہ اللہ کی مہمانی کا ذکر سن کر انہیں دنیا کی ہر نعمت میسر آگئی ہو ۔ پھر جب دوسرے روز کھانے کا انتظام ہوجاتا تو حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنی محترم ماں کے حضور عرض کرتے ’’ مادر گرامی ! اب ہم کس روز اللہ کے مہمان بنیں گے ؟ ‘‘ والدہ محترمہ جواب دیتیں ’’ بابا نظام! یہ تو ﷲ کی مرضی پر منحصر ہے ۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ دنیا کی ہر شے اس کی دست نگر ہے ۔ وہ جب بھی چاہے گا تمہیں اپنا مہمان بنالے گا‘‘ ۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ مادر گرامی کی زبان سے یہ وضاحت سن کر چند لمحوں کے لئے خاموش ہوجاتے اور پھر نہایت سرشاری کے عالم میں یہ دعا مانگتے ۔ اے ﷲ ! تو اپنے بندوں کو روزانہ اپنا مہمان بنا ۔

ﷲ کی مہمانی کا واضح مطلب یہی تھا کہ اس روز فاقہ کشی کی حالت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ 

پانچ سال کی عمر میں یہ دعا، یہ خواہش اور یہ آرزو! اہل دنیا کو یہ بات بڑی عجیب معلوم ہوگی… مگر وہ جنہیں اس کائنات کا حقیقی شعور بخشا گیا اور جن کے دل و دماغ کو کشادہ کردیا گیا- وہ اس راز سے باخبر ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا تھا-

 اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ انتہائی کم سنی کے عالم میں اﷲ کا مہمان بننے کی آرزو کیوں کرتے تھے ۔

 آپ رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ کا  فضل و کرم تھا اس لیے آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کر لیا- اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت اختیار فرمائی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے استاد محترم مولانا علاءالدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے علمی ذوق کو دیکھتے ہوۓ آپ پر خصوصی توجہ دی ۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقہ حنفی کی مشہور کتاب "قدوی" ختم کی ۔

دستار فضیلت

جب امام قدوری رحمۃ اللہ علیہ کی  کتاب قریب الختم تھی ۔ تو ایک دن آپ کے استاد محترم مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین علیہ الرحمہ سے فرمایا : سید ! اب تم ایک منقبت اور بڑی کتاب ختم کررہے ہو۔ اس لئے تمہیں لازم ہے کہ اپنے سر پر دانشمندی کی دستار بندھواؤ ۔ حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا اپنے فرزند کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں ۔ پھر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی زندگی کا وہ یادگار دن بھی آیا جب آپ نے فقہ حنفی کی اس عظیم کتاب کو ختم کرلیا ۔ اس کے بعد حضرت بی بی زلیخا رحمۃ اللہ علیہا نے کھانا تیار کرایا اور بدایوں کے جلیل القدر علماء کو دعوت دی ۔ جب بدایوں کے ممتاز و جلیل القدر علماء جمع ہوچکے تو "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد کے سر پر دستار فضیلت باندھی ۔ حاضرین نے اس مجلس روحانی میں بڑا جانفزا منظر دیکھا۔ زمانۂ حال کا عالم مستقبل کے عالم کو اپنے علم کی امانت منتقل کررہا تھا ۔ دستار بندی کے بعد "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے "حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ" سے دعا کی درخواست کی ۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک نظر حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی طرف دیکھا اور دعا کےلیے ہاتھ اٹھا دیے : اے خدائے بحروبر ! جس طرح تونے مجھ گم راہ کو صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق بخشی ۔ اسی طرح اس بچے پر بھی اپنے رحم و کرم کی بارش فرما ۔ میں تو بت پرستوں کی اولاد تھا اور قزاقی میرا پیشہ تھا ۔ لیکن سید محمد (نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ) تو تیرے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل پاک کا نمائندہ ہے ۔ پرہیزگاروں کی اولاد ہے ۔ اس کی خاندانی عظمت کو برقرار رکھ اور "سید زادے" کو علمائے دین میں شامل فرمالے اور اپنی قدرت بے پناہ کے صدقے میں اسے جرأت و صداقت کے اعلیٰ درجے پر پہنچا دے ۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کے لہجے میں اس قدر گداز تھا کہ اہل مجلس بے اختیار ہوکر رونے لگے ۔ مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھیں بھی نمناک ہو گئیں ۔ خود حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ بھی آب دیدہ نظر آرہے تھے ۔ پھر جب حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کی دعاؤں کا سلسلہ ختم ہوا اور دستار بندی کی رسم ادا ہوچکی تو حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنی نشست سے اٹھے ۔ سب سے پہلے آپ نے "حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی کی کہ اس وقت بدایوں میں وہی ولایت کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے ۔ حضرت خواجہ علی رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی کے بعد "حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ"  اپنے استاد گرامی کی طرف بڑھے اور "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی سے شرف یاب ہوئے ۔ مولانا اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے محبوب ترین شاگرد کو اس طرح دعائیں دیں کہ شدت جذبات سے اہل مجلس کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ پھر عام رسم دعا ادا کی گئی اور اس طرح تمام علمائے بدایوں کی دعاؤں کے سائے میں حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے علم کے نئے سفر کا آغاز ہوا ۔ اسی تقریب میں "مولانا علاء الدین اصولی رحمۃ اللہ علیہ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا : اللہ نے چاہا تو اس بچے کا سر کسی انسان کے آگے خم نہیں ہوگا ۔

شیخ طریقت حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات : دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے قرب میں ہی  "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ"  کے بھائی "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ" کی رہائش گاہ تھی ۔ 

 حضرت نظام الدین اولیاء رحتمہ اللہ علیہ اکثر  "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ"  سے ملاقات فرماتے تھے-

 "حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رحمۃ اللہ علیہ"  کی زبانی "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ"  علیہ کی فضیلت و مرتبہ کے بارے میں پتہ چلتا رہتا تھا-

 "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ غائبانہ طور پر "شیخ شیوخ العالم حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ"  کے معتقد ہو گئے-

 اور "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں یہ خواہش غلبہ پانے لگی کہ "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" سے ملاقات کی جاۓ -

چنانچہ "حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنے دل کی خواہش سے مغلوب ہو کر پاک پتن شریف روانہ ہو گئے- 

جب "حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ" کی خدمت میں پہنچے تو  آپ کو دیکھ کر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شعر پڑھا : ⬇

اے آتش فراغت دل ہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جا نہا خراب کردہ

ترجمہ : تیری فرقت کی آگ نے قلوب کو کباب کردیا اور تیرے شوق کے سیلاب نے جانوں کو برباد کر دیا ۔

بیعت و خرقۂ خلافت

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گۓ ۔ حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ فرید الدین مسعود رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا - 

حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو گاہے بگاہے  ظاہری و باطنی علوم سے نوازا اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی شفقت فرمائی - مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک کے چھ پارے تجوید و قرآت کے ساتھ پڑھے ۔

مرشد پاک حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ ہی کے حلقۂ درس میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی "تصنیف عوارف المعارف"  کے چھ باب پڑھے ۔ اس کے علاوہ مرشد پاک مرشد حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو ابو شکور سالمی کی "تمہید" بھی شروع سے آخر تک پڑھائی ۔

ایک مدت کے بعد شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے مرتبۂ کمال کو پہنچے تو شیخ العالم مرشد پاک حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو خلقِ خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر659 ہجری کو دہلی میں روانہ فرمایا ۔

ولی کامل کی نظر کیمیا اثر کی تاثیر

پیر و مرشد کے حکم پر ہی دہلی آکر محلہ غیاث پورہ میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ سلوک و معرفت کی تمام منزلیں حاصل کرنے کے باوجود آپ نے تیس سال تک نہایت ہی سخت مجاہدہ کیا۔ محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب تھے ۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اپنی گفتگو میں قرآن و حدیث، سیرت و تاریخ، فقہ و تصوف اور لغت و ادب کے حوالے دیا کرتے تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ہدایت فرماتے تھے ۔ آپ علوم القرآن پر دسترس رکھتے تھے۔ بعض اوقات کسی آیتِ مبارکہ کی تفسیر فرماتے اور اپنے سامعین کو قرآنی معارف سے آگاہ فرماتے ۔ آپ کی برکات کے اثرات سے ہندوستان لبریز ہے ۔ آپ جیسے اسرارِ طریقت و حقیقت میں اولیاء کامل و مکمل تھے ویسے ہی علومِ فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو، منطق، معانی ، ادب میں فاضل اجل عالم اکمل تھے ۔ حضرت  نظام الدین  اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے  بہت مقبولیت دی ۔ عام و خاص سب لوگ آپ کی طرف رجوع کرنے  لگے ۔ اس کے بعد دست غیب اور فتوحات کے دروازے آپ پر کھولے گئے ۔اور ایک جہاں اللہ تعالیٰ کے احسان و انعام کی مدد سے آپ کے ذریعہ سے فائدہ حاصل کرنے لگا ۔ آپ کا اپنا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدہ میں گزارتے، ہمیشہ  روزہ رکھتے اور افطار کے وقت تھوڑا  سا پانی پی لیتے، بوقت سحری عام طور پر کچھ نہ کھاتے ۔ فیض باطنی کا یہ حال تھا کہ جو شخص صدق اعتقاد سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا نظر کیمیا اثر کی تاثیر سے فیض باطنی سے ولی کامل ہو جاتا ۔
 
شہرت عام

اللہ تعالٰی نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ اہلِ دہلی کو آپ کی بزرگی کا علم ہوا تو آپ کی زیارت اور فیض و برکت کے حصول کی خاطر گروہ در گروہ آنے لگے اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا ۔ وقت کے بادشاہ اور امراء بھی آپ سے عقیدت کا اظہار کرتے لیکن آپ ان کی طرف التفات نہ فرماتے ۔ 

خدمتِ فقراء اور مساکین

 خانقاہ عالیہ میں ہزاورں کی تعداد میں فقراء اور مساکین آپ کے لنگر خانہ سے کھانا کھاتے ۔ وصال سے قبل آپ علیل ہوئے تو آپ نے وصیت کی گھر اور خانقاہ کے اندر جس قدر اثاثہ ہے ۔ سارے کا سارا مساکین اور غرباء میں تقسیم کر دیا جائے ۔ آپ کے حکم پر خواجہ محمد اقبال داروغہ لنگر نے ہزارہا من غلہ بانٹ دیا اور ایک دانہ بھی نہ چھوڑا ۔

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے اَخلاقِ عظیمہ

 حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی طلبِ علم ، عبادت و رِیاضت ، مُجاہَدہ اور لوگوں کی تربیت و اِصلاح میں گزار دی، آپ نہایت متقی، سخی، اِیثار کرنے والے، دِل جوئی کرنے والے، عَفْو و دَرگزر سے کام لینے والے، حلیم و بُردبار، حُسنِ سُلوک کے پیکر اور تارِکِ دُنیا تھے ۔

ہم عصر سلاطین

سلطانہ رضیہ بنت شمس الدین التمش،سلطان معز الدین بہرام شاہ،سلطان علاؤ الدین مسعود شاہ،سلطان ناصر الدین محمود،سلطان غیاث الدین بلبن،سلطان معز الدین کیقباد،فیرز شاہ خلجی،ابراہیم خلجی،علاؤ الدین خلجی،شہاب الدین عمر شاہ،قطب الدین مبارک،ناصر الدین خسروخان،غیاث الدین تغلق،محمد بن تغلق ۔ (بہ تحقیق صحیح کل 14عدد سلاطین)۔

ہنوز دلی دور است

جب "غیاث الدین تغلق"  ہندوستان کا بادشاہ بنا تو اس نے سماع کے جواز اور عدم جواز پر ایک مذہبی مجلس منعقد کی تاکہ اس میں حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مخالف درباری علماء کے ذریعے حضرت محبوبِ الٰہی کو نیچا دکھایا جا سکے ۔ حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ اس مجلس میں تشریف لے گئے اور مباحثے میں علماء کے الزامات کا ایسا مدلل جواب دیا کہ وہ جید علماء جو اپنے علم و فضل پر نازاں تھے لاجواب ہو کر رہ گئے ۔ بادشاہ غیاث الدین تغلق کو بےحد شرمندگی ہوئی ۔ چونکہ اسی دن اسے ایک مہم میں بنگال روانہ ہونا تھا اس لیے اس نے جاتے جاتے حکم جاری کیا ۔ حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاء  اس کے دہلی واپس آنے سے پہلے شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ۔ آپ کے عقیدت مندوں کو اس شاہی حکم نے رنجیدہ و فکر مند کر دیا ۔ لیکن آپ نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی اور بدستور اپنے معمولات میں مشغول رہے ۔ لیکن اس وقت آپ کے مریدوں اور حلقہ بگوشوں کی پریشانی حد سے بڑھ گئی جب بادشاہ دہلی کے قریب پہنچ کر ایک عارضی محل میں مقیم ہوا - کیونکہ اگلے دن اس کے فاتحانہ استقبال کے لیے شہر میں زبردست تیاریاں کی جا رہی تھیں ۔ عقیدت مندوں کے فکر و تشویش ظاہر کرنے پر آپ نے فرمایا : 

ہنوز دلی دور است

اسی رات کو وہ عارضی محل گر پڑا اور بادشاہ ملبے میں دب کر مر گیا ۔ آپ کا تاریخی جملہ "ہنوز دلی دور است" ضرب المثل بن گیا ۔

صُلبی اولاد

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے تجرد اختیار فرمایا تھا ۔ لہٰذا صُلبی اولاد کوئی نہ تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ  اللہ تعالیٰ کی عبادت اور لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھانے اور ان کے دکھ درد دور کرنے میں مشغول رہے ۔ البتہ آپ نے اپنی ہمشیرہ کی اولاد کو اولاد کی طرح پالا اور تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمایا ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ خلفاء

سُلطان المشائخ محبوبِ الٰہی حضرت سید محمد خواجہ نظام الدین اولیاء  چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے تقریبا"  700 صاحب ِ حال و باکرامت خلفاء برائے رُشد و ہدایت مقرر فرمائے چند معروف خلفاء کے نام درج ذیل ہیں : ⬇

 • حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ

• حضرت شیخ برھان الدین غریب رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت شیخ شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ

 • حضرت خواجہ حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ

جانشین و خلٰیفہ اکبر

وصال سے قبل 18 ربیع الثانی 725ھ کو بعد نمازِ ظہر "حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ" نے "حضرت شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ"  کو طلب کیا - اور خرقہ، عصا، مصلا، تسبیح اور کاسہ،چوبیں وغیرہ تبرکات جو حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر سے پہنچے تھے ۔ انہیں عنایت فرمائے اوردہلی میں رہ کر رشدو ہدایت کرنے اور اہلیانِ دہلی کی قضا و جفا اٹھانے کی تلقین کی ۔ انہیں اپنا نائب اور جانشین مقرر کیا ۔

تصانیف

راحت القلوب 
ملفوظات حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر
مرتبہ : حضرت سلطان نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ

افضل الفوائد
مرتبہ حضرت خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ

فوائدالفواد
مرتبہ : حضرت امیر حسن علا سجزی رحمۃ اللہ علیہ

سیر الاولیاء

حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ بھی ان بندگانِ خاص میں سےتھے جنہیں نماز سے بے پناہ محبت اور رغبت تھی ۔ شریعت کی پاس داری کا خیال اس قدر رہتا کہ جب لوگ ملاقات کے لیے آتے اور مہینہ رمضان کا ہوتا تو ان سےصدقۂ فطر اور نماز تراویح کے اہتمام کے بارے میں ضرور پوچھتے، نمازوں کی پابندی اور احکام شرع پر عمل آوری کی تلقین کرتے۔ آپ کی مجالس ذکر اور ملفوظات کے مجموعوں میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ۔ آپ کے معمولات میں نماز اوّابین ، ایام بیض کے روزے ، نماز چاشت ، صلاۃ السعادت (چار رکعت) ، تلاوت قرآن خاص طور سے تھے ۔ پوری زندگی شریعت پر تصلب کی برکت سے آخری وقت بھی نماز کی پابندی کا ثمرہ ملا۔ ہوا یوں کہ وصال شریف سے چالیس روز پیشتر استغراق کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ جب آپ نے کھانا ترک کردیا اور سکر (جو اہل اللہ کا وصف ہے) کا عالم پیدا ہوتا تو اس میں نماز کی پابندی فرماتے رہے ۔ لوگوں سے پوچھتے کہ کیا میں نے نماز ادا کرلی ہے ؟ جواب ملتا ، جی ! آپ ادا کرچکے ہیں ۔ ارشاد فرماتے: میں دوبارہ پڑھتا ہوں ۔ غرض آخری ایام میں ہر نماز تکرار سے پڑھا کرتے تھے ۔ حضرت محبوبِ الٰہی کی کتابِ حیات بڑی انوکھی ہے ، ہر موافق ومخالف کے لیے درسِ عبرت ہے اور دعوتِ عمل بھی ۔

اَخلاق وکردار : آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی طلبِ علم ، عبادت و رِیاضت ، مُجاہَدہ اور لوگوں کی تربیت و اِصلاح میں گزار دی ، آپ نہایت متقی ، سخی ، اِیثار کرنے والے ، دِل جوئی کرنے والے ، عَفْو و دَر گزر سے کام لینے والے ، حلیم و بُردبار ، حُسنِ سُلوک کے پیکر اور تارِکِ دُنیا تھے ۔ (محبوبِ الٰہی صفحہ 208 تا 250)

منقول ہے کہ چھجو نامی ایک شخص کو خواہ مخواہ آپ سے عَداوت (یعنی دشمنی) تھی ، وہ بلا وجہ آپ کی برائیاں کرتارہتا، اس کے اِنتقال کے بعد آپ اس کے جنازے میں تشریف لے گئے ، بعدِ دفن یوں دعا کی : یااللہ ! اس شخص نے جو کچھ بھی مجھے کہا یا میرے ساتھ کیا ہے میں نے اس کو معاف کیا ، میرے سبب سے تُو اس کو عذاب نہ فرمانا ۔ (سیرتِ نظامی صفحہ111،چشتی)

کرامت : آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مشہور کرامَت یہ بھی ہے کہ ایک دن آپ کے کسی مُرید نے محفل مُنعقد کی ، جس میں ہزاروں لوگ اُمنڈ آئے جبکہ کھانا پچاس ساٹھ افراد سے زائد کا نہ تھا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خادِمِ خاص سے فرمایا : لوگوں کے ہاتھ دُھلواؤ ، دَس دَس کے حلقے بناکر بٹھاؤ ، ہر روٹی کے چار ٹکڑے کرکے دَستر خوان پر رکھو ، بِسْمِ اللہ پڑھ کر شروع کرو ۔ ایسا ہی کیا گیا تو نہ صرف ہزاروں لوگ اُسی کھانے سے سَیر ہو گئے بلکہ کچھ کھانا بچ بھی گیا ۔ (محبوب الٰہی صفحہ 280 ، 281)(شان اولیاء صفحہ 387)

 چند ملفوظاتِ مبارکہ : کچھ مِلے تو جمع نہ کرو، نہ مِلے تو فکر نہ کرو کہ خدا ضرور دے گا ۔ کسی کی بُرائی نہ کرو ۔ (بلا ضرورت) قرض نہ لو ۔ جَفا (ظلم) کے بدلے عطا کرو ، ایسا کرو گے تو بادشاہ تمہارے دَر پر آئیں گے ۔ فَقْر و فاقَہ رَحمتِ اِلٰہی ہے ، جس شب فقیر بھوکا سویا وہ شب اُس کی شبِ مِعراج ہے ۔ بلا ضرورت مال جمع نہیں کرنا چاہیے ۔ راہِ خدا میں جتنا بھی خرچ کرو اِسراف نہیں اورجو خدا کیلئے خرچ نہ کیا جائے اِسراف ہے خواہ کتنا ہی کم ہو ۔ (شان اولیاء صفحہ 402)(محبوب الٰہی صفحہ 293)

وِصال و مزارِ پُراَنوار : خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے بعمر 94 برس 18 ربیع الثانی بروز بدھ 725ھ کو آفتاب غروب ہونے سے قبل ہی علم و عرفان،رشد و ہدایت اور شریعت و طریقت کا یہ نیرِ تاباں اپنی جلوہ سامانی بکھیر کر دہلی میں غروب ہوگیا - مزار سے متصل مسجد کی دیوار پر تاریخ وفات کندہ ہے : ⬇

نظام دو گیتی شہ ماہ وطیں
سراج دو عالم شدہ بالیقیں
چو تاریخ فوتش بر حبتم زغیب
نداداد ہاتف شہنشاہ دیں
(۷۲۵ھ - 1324ء)

سیّدنا ابوالفتح رُکنُ الدِّین شاہ رُکنِ عالَم سُہروردی علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی ، دِہلی میں ہی آپ کا مزارشریف ہے ۔ (محبوب الٰہی صفحہ 207) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday, 11 November 2022

اللہ عزوجل نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

اللہ عزوجل نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
محترم قارئینِ کرام : اللہ عزوجل کی یہ سنت ہے کہ وہ ایسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جو اپنی حالت کو خود ہی نہ بدلنا چاہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ ۔ (سورہ الرعد آیت نمبر11)
 ترجمہ : بے شک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خوداپنی حالت نہ بدل دیں ۔

اس آیت میں  قدرت کا ایک قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس نہیں  لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے اچھے اعمال کو برے اعمال سے تبدیل نہ کر دے ۔ (تفسیر صاوی سورہ الرعد آیت نمبر ۱۱ جلد ۳ صفحہ ۹۹۴)

قوموں  کے زوال سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ کا قانون ۔ قدرت کا یہی اٹل قانون سورۂ اَنفال کی اس آیت میں  بھی بیان ہو چکا ہے : ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۔ (سورہ انفال آیت ۵۳)
ترجمہ : یہ اس وجہ سے ہے کہ اللّٰہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں  بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔

اسلامی تاریخ میں  اس قانون کی بے شمار مثالیں  موجود ہیں  جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین برِّ اعظموں  پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا، 800 سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں سے سلطنتِ اسلامیہ کے سورج کا غروب ہو جانا ، اَسلاف کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے مسلمانوں کے پہلے قبلے ’’بیتُ المقدس‘‘ کا یہودیوں کے قبضے میں چلے جانا ، اسلام کی متحد حکومت کا بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا اور ماضی قریب میں پاکستان کے دوٹکڑے ہو جانا ، عراق اور افغانستان پر غیروں کا قبضہ ہو جانا ، مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر ہو جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں  ہیں ۔ آج اگر ہم خود کو دیکھیں تو یہی وجہ ہے کہ ہمارے حالات نہیں بدلتے کیونکہ ہم خود ہی نہیں بدلنا چاہتے ۔ آج اس معاشرے میں اگر کوئی ایک دھوکہ دے تو اسکی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی وہی شروع کر دیتے ، چوری کرنا دوسروں کا حق مارنا ، مجبوری کا فائدہ اٹھا کر پیسے اینٹھنا ۔ غرض یہ چیز ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے کہ جو جیسے چاہتا ہے بس اپنا فائدہ ہو جس میں وہی کرتا ہے اور لوگ اس کو روکنے کے بجائے وہی کام شروع کر دیتے ۔ ہم یہ تو چاہتے کہ ہمارے حالات بدل جائیں مگر ہم خود بدلنا نہیں چاہتے ۔ اس قوم کے بگاڑ میں اس قوم کا ہی اپنا ہاتھ ہے ۔ ہم اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی بے ایمانی اور دھوکہ دہی کرنا نہیں چھوڑتے ۔ ہر برائی کی جڑ خود ہم سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔ اگر کسی بھی برائی کو ختم کرنا ہے تو خود سے شروع کرنا ہوگا نہ کہ دوسروں سے ۔ ہمارے معاشرے میں منافقت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ جو غلط کام ہم خود کر رہے ہوتے اسی پر دوسروں کو کھلم کھلا لعنت ملامت کرتے ہیں آخر ہم دوسروں پہ انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان کیوں نہیں جھانکتے ۔ لوگوں کو جج کرنا ہمیں خوب آتا ہے مگر ہر انسان خود کو کیوں اسی مقام پر نہیں رکھتا ؟ پھر ہمیں اپنے معاشرے سے ڈھیروں شکایتیں ہیں مگر ان شکایتوں کو ہم خود میں سے دور کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ دوسروں کو ان کے غلط کام پر ہمیں کٹہرے میں کھڑا کرنا خوب آتا ہے مگر ہماری اپنی باری کبھی آتی ہی نہیں ۔ آج اگر ہمیں اپنے معاشرے سے چھوٹی برائیوں سے لیکر بڑی برائیوں تک کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں خود سے ہی شروع کرنا ہوگا جو کام اگر کوئی دوسرا کرے اور ہمیں برا لگے دیکھیے کہ وہی کام کہیں آپ خود بھی تو نہیں کرتے ؟ اگر کرتے ہیں تو پہلے خود کے اندر سے اس برائی کو دور کریں تبھی وہ برائی باقی معاشرے سے بھی. دور ہوگی وگرنہ کبھی نہیں ۔ ہر برائی کو دور کرنے کی ابتدا خود سے کریں پہلے خود کو بدلیں اسکے بعد ہی حالات بدلیں ورنہ حالات بدل جانا ایک خواب ہی رہے گا ۔

آج ہمارے معاشرے میں بے شمار برائیاں جنم لے چکی ہیں ۔ ہم اخلاقی پستی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ وہ تعلیمات جو اللہ اور اسکے رسول نے ہمیں دیں انہیں تو ہم بس کتابوں میں پڑھنا پسند کرتے ہیں اسکے آگے اپنی زندگی میں اسے لاگو کرنے کا تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔۔وہ تعلیمات وہ زندگیوں کے نمونے ہمارے لیے مشعل راہ تھے. مگر ہم نے ان سب کو بس کتابوں اور تاریخ کا حصہ بناکر رکھدیا جبکہ ان ساری تعلیمات کو آج ہماری زندگیوں کا حصہ ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔جو ہمارے لیے مشعل راہ تھا، اسے تو ہم نے پس پشت ڈال دیا پھر جب ہم ناکام ہیں تو اسکا، سارا قصور وار ہم دوسروں کو سمجھتے ہیں جبکہ قصور وار تو ہم ہی ہیں ۔ ہم اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتے ۔دھوکہ دینا نہیں چھوڑتے توبڑے معاملات میں ہم کیسے سچ بول پائیں گے ؟
آج اگر کوئی اور بھی سچائی پہ گامزن ہوتا ہے تو ہم اسکا ساتھ تک نہیں دے پاتے یہی وجہ یے کہ حق کیا ہے ہم یہ جان ہی نہیں پاتے ۔ ہر چمکتی چیز کی طرف ہم دوڑتے ہیں ہر گناہ کی طرف ہم بھاگے بھاگے جاتے ہیں ۔ ہم اپنا مقصد زندگی تو بھول ہی گئے ۔ ہماری زندگی کا مقصد پیسے کمانا ، نام کمانا چاہے وہ کسی بھی طرح سے ہو بس یہی رہ گیا ہے ۔۔ اچھائی اور برائی کی تمیز کو الماری میں لاک کرچکے ہیں جسکی چابی بھی ہم نے جان بوجھ کر کھودی ہے ۔ ہماری زندگی کا مقصد تو اصل میں اس امتحان میں کامیابی حاصل کرنا تھا جس کیلیے ہمیں اس دنیا میں آزمائش کیلیے بھیجا گیا ۔۔۔مگر ہم نے اپنا مقصد زندگی بھلادیا اور اس زندگی کو دائمی سمجھ لیا ہے ۔ اس معاشرے کو بدلنے کیلیے خود سے آغاز کیجیے کہ جب تک آپ خود کو بدلنا نہیں چاہیں گے تو ہمارا حال یہی رہے گا
بقول شاعر : ⬇

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت کو بدلنے کا

معقبات کے متعدد محامل معقبات کے معنی ہیں : ایک دسرے کے پیچھے آنے والے اور جمہور مفسرین کے نز دیک اس سے مراد رات اور دن کے فرشتے ہیں، رات کے فرشتے آتے ہیں تو دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے آتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے تمہارے پاس آگے پیچھے آتے ہیں اور فجر کی نماز میں عصر کی نماز میں جمع ہوجاتے ہیں، پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری تھی وہ اوپر جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب پوچھتا ہے حالا ن کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا تھا، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جب ان کو چھو ڑا تو وہ نماز پڑھ رہا تھے اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے اس وقت بھی نماز پڑھ رہے تھے ۔ (صحیح البخاری رقم الحیث :555،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث :632)(سنن النسائی رقم الحدیث :487 ۔ 486)(الموطا رقم الحدیث :413)

اس آیت کی دو سری تفسیر یہ ہے کہ معقبات سے مراد وہ فرشتہ ہیں جو انسان کے دائیں بائیں ہوتے ہیں ۔ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے بتاء یے کہ بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ایک فرشتہ تمہاری دائیں جانب تمہاری نیکیوں پر مقرر ہوتا ہے اور یہ بائیں جانب والے فرشتے پر امیر (حاکم) ہوتا ہے، جب تم ایک نیکی کرتے ہو تو اس کی دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب تم ایک برائی کرتے ہو تو بائیں جانب والا فرشتہ دائیں جانب والے فرشتے سے پو چھتا ہے، میں لکھ لوں ؟ وہ کہتا ہے نہیں ! ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے لے ! جب وہ تین مرتبہ پو چھتا ہے تو وہ کہتا ہے ہاں لکھ لو ! ہمیں اللہ تعالیٰ اس سے راحت میں رکھے، یہ کیسا برا ساتھی ہے یہ اللہ کے متعلق کتنا کم سوچتا ہے ! اور یہ اللہ سے کس قدر کم حیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ۔ (سورہ ق : ١٨)  وہ زبان سے جو بات بھی بات کہتا ہے تو اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اور دو فرشتے تمہارے سامنے اور تمہاری پیچھے سے ہوتے ہیں اللہ فرماتا ہے لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۔ (سورہ الرعد : ١١) ۔ اس کے لیے باری باری آنے والے محافظ فرشتے ہیں جوں اللہ کے حکم سے اس کے سامنے سے اور اس کے پیچھے سے اس کی حفا ظت کرتے ہیں اور ایک فرشتہ ہے جس نے تمہاری پیشانی کو پکڑا ہوا ہے جب تم اللہ کے لیے تواضع کرتے ہو تو وہ تمہیں سر بلند کرتا ہے اور جب تم اللہ کے سامنے تکبر کرتے ہو تو وہ تمہیں ہلاک کردیتا ہے۔ اور دو فرشتے تمہارے ہو نٹوں پر ہیں وہ رتمہارے لیے صرف محمد صلوات کی حفا ظت کرتے ہیں اور ایک فرشتہ تمہاتے منہ پر مقرر ہے وہ تمہارے منہ میں سانپ کو داخل ہونے نہیں دیتا، اور دو فرشتے تمہاری آنکھوں پر مقرر ہیں، ہر آدمی پر یہ دس فرشتے مقرر ہیں، رات کے فرشتے دن کے فرشتے پر نازل ہوتے ہیں کیونکہ رات کے فرشتے دن کے فرشتوں کے علاوہ ہیں، ہر آدمی پر بیس فرشتے مقرر ہیں اور ابلیس دن میں ہوتا ہے اور اس کی اولاد رات میں ہوتی ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :15352،چشتی)(تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 557 ۔ 558)(الدرالمنثور جلد 4 صفحہ 615 ۔ 616)

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر ہے جو نیند اور بیداری میں اس کی جنابت، انسانوں اور حشرات الارض سے حفاظت کرتا ہے، سوا اس چیز کے جو اللہ کے اذن سے اس کو پہنچتی ہے ۔ (جامع البیان رقمالحیث 15369)

ابو مجاز بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص مراد (ایک جگہ) سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ اس وقت نماز پرھ رہے تھے۔ اس نے کہا آپ اپنی حفاظت کرلیں کیونکہ مراد کے لوگ آپ کے قتل کی سازش کر رہے ہیں حضرت علی نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے ہیں جو ان مصاء ب سے تمہاری حفا ظت کرتے ہیں جو تمہارے لیے مقدر نہیں کیے گے اور جب تقدیر آجاتی ہے تو وہ مصاء ب کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور موت بہت مضبوط ڈھال ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :15317)

امام ابن ابی حاتم نے عطا سے روایت کیا ہے کہ یہ کراما کاتبین ہیں جو اللہ کی طرف سے ابن آدم کی حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :12188)

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ امام عبدرحمن محمد ابن ابیحاتم متوفی 327 ھ امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی 516 ھ اور حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ نے لکھا ہے کہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ معقبات سے مراد وہ فرشتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات اور دن میں نقصان پہنچانے والوں سے حفا ظت کرتے ہیں پھر انہوں نے دو یہو دی شخصوں عامر بن اطفیل اور ربد بن ربیعہ کا قصہ بیان کیا ہے جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس کو ہم نے تفصل سے اس سورت کے تعارف میں ذکر دیا ہے ۔ (جامع البیان رقم الحدیث :15374،چشتی)(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحد یث :12193)(معالم التنزیل جلد 3 صفحہ 6 ۔ 7)(الدرالمنثور جلد 4 صفحہ 616 ۔ 617)

من امر اللہ کا معنی یہ ہے کہ فرشتے اللہ کے حکم سے اور اس کی اعانیت سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ فرشتوں میں از خود یہ طاقت اور قدرت نہیں ہے کہ کسی انسان کی آفات اور مصائب سے حفا ظت کریں اور نہ کسی اور مخلوق میں یہ طا قت ہے کہ وہ کسی کی مصاء ب سے حفا ظت کرسکے مگر جس کو اللہ تعالیٰ یہ قدرت اور طاقت عطا فرماے ۔

فرشتوں کو جو انسانوں پر مقرر کیا گیا ہے اس کی متعدد وجوہات اور حکمتیں ہیں : ⬇

 (1) شیاطین انسانوں کو برے کاموں اور گناہوں کی طرف راغب کرتے ہیں اور یہ فرشتے انسانوں کو نیک کو موں اور عبادات کی طرف راغب کرتے ہیں۔ 
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے، صحا بہ نے پو چھا یا رسول اللہ ! آپ کے ساتھ بھی ! آپ نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی، لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری مدد فرمائی وہ مجھے نیکی کے سوا کوئی مشورہ نہیں دیتا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2814،چشتی)(مسند احمد ج 1 ص 397، طبع قدیم، مسنداحمد رقم الحدیث :3697، عالم الکتب)(سنن الدارمی رقم الحدیث :2737)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث :5143)(صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :658) 
(3) ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے دل میں کبھی بغیر کسی ظاہری سبب کے کسی کام کی قوی تحریک پیدا ہوتی ہے اور پھر انجام کا ریہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کام میں اس کے لیے نیکی اور خیر ہے اور کبھی انجام کار اس پر منکشف ہوتا ہے کہ اس کام میں اس کے لیے آفت اور مصیبت ہے اور یہ کام فی نفسہ معصیت ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے کام کا محرک اس کے حق میں خیر اور نیکی کا ارادہ کرنے والا ہے تھا اور وہی فرشتہ ہے اور دوسرے کام کا محرک اس کے حق میں برائی اور گناہ کا ارادہ کرنے والا تھا اور وہی گمراہ کرنے والا اور شیطان ہے۔
(4) انسان کو جب یہ علم ہوگا کہ فرشتے اس کی نیکیوں اور براء یوں کو لکھ لیتے ہیں تو وہ گناہ کا ارتکان کرنے سے ڈرے گا۔ 
(5) فرشتے جن نیکیوں اور برائیوں کو لکھتے ہیں ان کے رجسٹروں کا قیامت کے دن میزان میں وزن کیا جاے گا اور جس کی نیکیوں کا پلڑاجھکا ہو اہو گا اس کی آسانی سے نجات ہو جاے گی۔ قرآن مجید میں ہے :
وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ ۔ (سورہ الانبیاء : ٤٧) ۔ اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو (میں اعمال ناموں کو) رکھیں گے، پس کسی شخص پر ظلم نہیں ہوگا، اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر ہو تو ہم اسے (بھی) لے آئیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں ۔ 
وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (٨) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ ۔ (سورہ الاعراف : ٩) ۔ اس دن اعمال کا وزن کرنا برحق ہے، پھر جن (کی نیکیوں) کے پلڑے بھاری ہوے سو وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور جب ( کی نیکیوں) کے پلڑے ہلکے ہوے سو یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارہ میں مبتلا کیا، کیونکہ وہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ کو محبوب ہیں، زبان پر (پڑھنے میں) ہلکے اور میزان میں بھاری ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 7563)(صحیح مسلم رقم الحدیث :2694)(سنن الترمذی رقم الحدیث :3467)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3806)(مسند احمد رقم الحدیث :7167، عالم الکتب)(مصنف ابن ابی شیبہ ج 10 ص 288)(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 831 ۔ 841)(شرح السنہ رقم الحدیث :1264) 
(6) جب انسان کو مسلسل یہ تجربہ ہوگا کہ اس کے دل میں نیکی اور گناہ سے بچنے کی زبر دست تحریک پیدا ہوتی ہے پھر اچانک اس پر شہوت کا غلبہ ہوتا ہے اور اس کا سارا منصو بہ دھرے کا دھرے رہ جاتا ہے اور وہ گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو پھر اس پر یہ منکشف ہوتا ہے کہ فرشتے اس کے دل میں نیکی کے دواعی اور محر کات پیدا کرتے ہیں لیکن تقدیر کے آگے ان کا پس نہیں چلتا اور جب فرشتے قضاء و قدر کے آگے مجبور ہیں۔ سلاطین، حکام اور سرمایہ دار لوگ جو اپنی جان اور مال کی حفا ظت کے قوی انتظامات کرتے ہیں لیکن اگر تقدیر میں ان کی جان ومال کا نقصان ہونا ہو تو ساتے انتظام دھرے رہ جاتے ہیں اور تقدیر غالب آجاتی ہے۔ امریکہ کے صدر کی حفاظت سے بڑھ کر اور دنیاوی انتظام کیا ہوسکتا ہے لیکن امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی کو گو لی مار کر ہلاک کردیا گیا، اند راگاندھی کو اس کے معتمد محافظوں نے گو لی مار کر ہلاک کردیا اور بنگلا دیش کے صدر شیخ مجیب الرحمن کو اس کی حاظتی حصار سے نکال کر گو لی مار دی گئی، اس معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ ۔ (سورہ الرعد : ١١) ۔ اور اللہ جب کسی قوم کو مصیبت میں ڈالنے کا ارادہ کرے تو اس کوئی روکنے والا نہیں ہے اور اس کے سوا کوئی ان کا مددگار نہیں ہے ۔ تقدیر تو اٹل ہے لیکن ہمارا یہ منشاء نہیں ہے کہ حفا ظت کے اسباب کو با لکل اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان اسباب پر تکیہ نہیں کر چاہیے ۔

 نعمت کی ناقدری والوں سے اللہ کا نعمت واپس لینا

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اللہ کسی قوم کی نعمت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدل دیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کسی قوم کو آزادی، سلامتی، استکام خوشی حالی اور عافیت کی نعمت عطا فرماتا ہے اور وہ نعمت ان سے اس وقت تک سلب نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانی کرکے اپنے آپ کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہیں کردیتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الأنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ ۔ (سورہ الانعام :6) ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلی کتنی ان قوموں کو ہلاک کردیا جن کو ہم نے زمین میں ایسی قوت دی تھی جو تم کو نہیں دی اوار ہم ان پر موسلادھار بارش نازل کی اور ہم نے دریا بناے جو ان کے (باغوں کے) نیچے سے بہتے تھے پس ہم نے ان کو ان کے گنا ہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور ان کے بعد ہم نے دوسر قوم پیدا کی دی ۔

جمہور مفسرین علیہم الرحمہ کے نزدیک ان فرشتوں  سے دن اور رات میں  حفاظت کرنے والے فرشتے مراد ہیں ، انہیں  بدل بدل کر باری باری آنے والا اس لیے کہا گیا کہ جب رات کے فرشتے آتے ہیں  تو دن کے فرشتے چلے جاتے ہیں  اور دن کے فرشتے آتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں ۔ (تفسیرکبیر سورہ الرعد الآیۃ : ۱۱، ۷ / ۱۷)

فرشتوں  کی یہ تبدیلی فجر اور عصر کی نماز کے وقت ہوتی ہے اور جو لوگ یہ دونوں  نمازیں  ادا کرتے ہیں  انہیں  یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ فرشتوں  کی تبدیلی کے وقت وہ حالتِ نماز میں  ہوتے ہیں  ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’رات اور دن کے فرشتے تم میں  باری باری آتے رہتے ہیں  اور نمازِ فجر اور نمازِ عصر میں  اکٹھے ہوتے ہیں  پھر جو تمہارے پاس آئے تھے وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں  تو ان کا رب عَزَّوَجَلَّ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ انہیں  خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں  کو کس حال میں  چھوڑا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں  ’’ہم نے انہیں  چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر، ۱ / ۲۰۳، الحدیث: ۵۵۵، مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیہما، ص۳۱۷، الحدیث: ۲۱۰(۶۳۲))

امام مجاہد رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں  کہ ہر بندے کے ساتھ ایک فرشتہ حفاظت پرمامور ہے جو سوتے جاگتے جن و اِنس اور موذی جانوروں  سے اس کی حفاظت کرتا ہے اور ہر ستانے والی چیز کو اس سے روک دیتا ہے سوائے اس کے جس کا پہنچنا مَشِیَّت میں  ہو ۔ (تفسیر خازن سورہ الرعد الآیۃ: ۱۱، ۳ / ۵۵)

اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ حفاظت کرنے کی قدرت عطا فرمائے وہ بھی حفاظت کر سکتے ہیں  اور کرتے بھی ہیں  اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے حفاظت کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود کسی کوجو اَذِیَّت یا تکلیف پہنچ جاتی ہے اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کا پہنچنا اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں  ہوتا ہے اور جو چیز اللّٰہ تعالیٰ کی مشیت میں  ہو اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندے اس کے خلاف نہیں  کرتے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں  کو اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے بلاؤں  اور آفتوں  سے حفاظت کرنے والا ماننا اور ان سے حفاظت کی اِلتجا کرنا درست ہے اور اگر التجا کے باوجود حفاظت نہ ہو تو ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنا غلط و باطل ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں

تم ہو حفیظ و مغیث کیا ہے وہ دشمن خبیث
تم ہو تو پھر خوف کیا تم پہ کروڑوں  درود

اس آیت میں  قدرت کا ایک قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس نہیں  لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے اچھے اعمال کو برے اعمال سے تبدیل نہ کر دے ۔ (تفسیر صاوی سورہ الرعد الآیۃ : ۱۱، ۳ / ۹۹۴)

قوموں  کے زوال سے متعلق اللّٰہ تعالیٰ کا قانون

قدرت کا یہی اٹل قانون سورۂ اَنفال میں  ہے : ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۔ (سورہ انفال:۵۳)
ترجمہ : یہ اس وجہ سے ہے کہ اللّٰہ کسی نعمت کو ہرگز نہیں  بدلتا جو اس نے کسی قوم کو عطا فرمائی ہو جب تک وہ خود ہی اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔

آپ مسلمانوں کی تا ریخ پر ایک نظر ڈالیں، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو باربار اپنی عظیم نعمتوں سے نوازہ، ایک وقت تھا جب ایشیاء، افریقا اور یورپ تین براعظموں کے علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن مسلمانوں نے اپنی نا اہلی سے ان حکومتوں کو اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کو گنوادیا، اسپین میں مسلمانوں نے اٹھ سو سال حکومت کی لیکن انہوں نے اپنیررنگا رنگ عیا شیوں رقصوسرود کی محفلوں اور شراب وکباب کی مجسلوں میں اپنی آزادی سلامتی اور استحکام کو غرق کردیا۔ انہوں نے اپنے قوی اتحاد اور مرکزیت کو طواء ف الملوکی اور چھو ٹے چھوٹے ٹکڑوں پر اقتدار حاصل کرنے کے شوق میں صء ع کردیا اور اب پورا اسپین عیسائی قومیت میں ڈھل چکا ہے اور وہاں براے نام مسلمان رہ گے ہیں غرناطہ اور قرطبہ نے بڑے نام ور اسلام کے اسکالر پیدا کیے۔ قاضی عیاض اندلسی، امام ابن عبد البر، علامہ ابو العباس قرطبی، علامہ ابو عبداللہ قرطبی علامہ ابی، علامہ سنوسی، قاضی ابوبکر ابن العربی اور علامہ باجی یہ سب بہت پاے کے محقق تھے، تفسیر، حدیث اور فقہ میں ان کی عظیم اور ضخیم تصنیفات ہمارے پاس موجود ہیں جن کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسپین میں اسلامی علوم پر کتنا عظیم کام ہو رہا تھا۔ میں جب ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں تو یہ سوچ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آج ان کے مقابر ان کے مکا تب، ان کے مدارس اور ان کی مساجد ویران ہوچکی ہیں۔ 
ماضی بعید کی تاریخ کا ذکر چھوڑیں، قریب کے حالات کو دیکھیں۔ ہم نے اسلام کے نام پر یہ خطہ زمین حاصل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو آزادی دی سلامتی اور استحکام کے ساتھ اقتدار عطا فرمایا اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے : الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمُورِ ۔ (سورہ الحج : ٤١) ۔ ان لوگوں کو اگر ہم زمین میں اقتدار عطا فرمائیں (تو) وہ نماز قائم کریں اور زکوہ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور تمام کاموں کا انجام ہی کے اختیار میں ہے ۔

اسلامی تاریخ میں  اس قانون کی بے شمار مثالیں  موجود ہیں  جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین برِّ اعظموں  پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا ، 800 سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں  سے سلطنتِ اسلامیہ کے سورج کا غروب ہو جانا ، اَسلاف کی بے شمار قربانیوں  کے بعد حاصل ہونے والے مسلمانوں  کے پہلے قبلے ’’بیتُ المقدس‘‘ کا یہودیوں  کے قبضے میں  چلے جانا ، اسلام کی متحد حکومت کا بیسیوں  ٹکڑوں  میں  تقسیم ہو جانا اور ماضی قریب میں  پاکستان کے دو ٹکڑے ہو جانا ، عراق اور افغانستان پر غیروں  کا قبضہ ہو جانا ، مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر ہو جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں  ہیں ۔ چاہیے تھا کہ مسلمانوں نے جس وعدہ اور جس نعرہ سے یہ ملک مانگا تھا یہ اس کو پورا کرتے اور نماز اور زکوہ کا نظام قائمکر تے لیکن جب چوبیس سال تک انہوں نے اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اسلام کو نافز کرنے بجاے حکام سے لکر عوام تک سب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں دن رات مشغول رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے آدھا ملک لے لیا۔ اب باقی آدھا ملک بھی اندرونی اور بیرونی خطرات کی زد میں ہے لوٹ کھسوٹ قتل اور غارت گری کا بازار گرم ہے دشمن ہماری سرحدوں پر اپنی فو جوں کی تعداد بڑھا رہا ہے اور ہم ایک دوسرے سے دست بازو و گریبان ہیں اور انارکی لاقانونیت کا دور دورہ ہے اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی قدر کرنے اور ان کا شکر بجا لانے کی تق فیق دے ، ہمارے عوام اسلام کے احکام پر عمل کریں اور یہی لوگ اسمبلیوں میں پہنچیں ، نماز اور زکواہ کا نظام قائم کریں ، اسلامی حدود اور دیگر احکام کو جاری کریں اللہ اس باقی ماندہ پاکستان کو سلامت رکھے اور اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں  کو عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 6

حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حصّہ نمبر 6
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ارشاداتِ غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ

اللہ عزوجل کی اطاعت کرو

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ عزوجل کی نافرمانی نہیں کرنی چاہئیے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے ، اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ تو اللہ عزوجل کا بندہ ہے اور اللہ عزوجل ہی کی ملکیت میں ہے ، اس کی کسی چیز پر اپنا حق ظاہر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کا ادب کرنا چاہئیے کیونکہ اس کے تمام کام صحیح درست ہوتے ہیں ، اللہ عزوجل کے کاموں کو مقدم سمجھنا چاہیے ۔ اللہ تبارک و تعالٰی ہر قسم کے امور سے بے نیاز ہے اور وہ ہی نعمتیں اور جنت سے عطا فرمانے والا ہے ، اور اس کی جنت کی نعمتوں کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس نے اپنے بندوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کےلیے کیا کچھ چھپا رکھا ہے ، اس لیے اپنے تمام کام اللہ عزوجل ہی کے سپرد کرنا چاہیے ، اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنا فضل و نعمت تم پر پورا کرنے کا عہد کیا ہے اور وہ اسے ضرور پورا فرمائے گا ۔ بندے کا شجر ایمانی اس کی حفاظت اور تحفظ کا تقاضا کرتا ہے ، شجر ایمانی کی پرورش ضروری ہے ، ہمیشہ اس کی آبیاری کرتے رہو ، اسے (نیک اعمال) کھاد دیتے رہو تاکہ اس کے پھل پھولیں اور میوے برقرار رہیں اگر یہ میوے اور پھل گر گئے تو شجر ایمانی ویران ہو جائے گا اور اہلِ ثروت کے ایمان کا درخت حفاظت کے بغیر کمزور ہے لیکن تفکر ایمانی کا درخت پرورش اور حفاظت کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتوں سے فیضیاب ہے ، اللہ عزوجل اپنے احسان سے لوگوں کو توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کو ارفع و اعلٰی مقام عطا فرماتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کی نافرمانی نہیں کر ، سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اس کے دربار میں عاجزی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی حاجت دکھاتے ہوئے عاجزی کا اظہار کر ، آنکھوں کو جھکاتے ہوئے اللہ عزوجل کی مخلوق کی طرف سے توجہ ہٹاکر اپنی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے دنیا و آخرت میں اپنی عبادت کا بدلہ نہ چاہتے ہوئے اور بلند مقام کی خواہشات دل سے نکال کر رب عزوجل کی عبادت و ریاضت کرنے کی کوشش کرو ۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر صفحہ 44)

ایک مومن کو کیسا ہونا چاہیے ؟

حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے : محبت الٰہی عزوجل کا تقاضا ہے کہ تو اپنی نگاہوں کو اللہ عزوجل کی رحمت کی طرف لگادے اور کسی کی طرف نگاہ نہ ہو یوں کہ اندھوں کی مانند ہو جائے ، جب تک تو غیر کی طرف دیکھتا رہے گا اللہ عزوجل کا فضل نہیں دیکھ پائے گا پس تو اپنے نفس کو مٹاکر اللہ عزوجل ہی کی طرف متوجہ ہو جا ، اس طرح تیرے دل کی آنکھ فضل عظیم کی جانب کھل جائے گی اور تو اس کی روشنی اپنے سر کی آنکھوں سے محسوس کرے گا اور پھر تیرے اندر کا نور باہر کو بھی منور کر دے گا ، عطائے الٰہی عزوجل سے تو راحت و سکون پائے گا اور اگر تو نے نفس پر ظلم کیا اور مخلوق کی طرف نگاہ کی تو پھر اللہ عزوجل کی طرف سے تیری نگاہ بند ہو جائے گی اور تجھ سے فضل خداوندی رک جائے گا ۔ تو دنیا کی ہر چیز سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کی طرف نہ دیکھ ، جب تک تو چیز کی طرف متوجہ رہے گا تو اللہ عزوجل کا فضل اور قرب کی راہ تجھ پر نہیں کھلے گی ، توحید ، قضائے نفس، محویت ، ذات کے ذریعے دوسرے راستے بند کردے تو تیرے دل میں اللہ تعالٰی کے فضل کا عظیم دروازہ کھل جائے گا تو اسے ظاہری آنکھوں سے دل ، ایمان اور یقین کے نور سے مشاہدہ کر دے گا ۔ مذید فرماتے ہیں : تیرا نفس اور اعضاء غیراللہ کی عطا اور وعدہ سے آرام و سکون نہیں پاتے بلکہ اللہ تعالٰی کے وعدے سے آرام و سکون پاتے ہیں ۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر صفحہ 103)

اللہ عزوجل کے ولی کا مقام

شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد مبارک ہے : جب بندہ مخلوق، خواہشات، نفس، ارادہ اور دنیا و آخرت کی آرزوؤں سے فنا ہو جاتا ہے تو اللہ عزوجل کے سوا اس کا کوئی مقصود نہیں ہوتا اور یہ تمام چیز اس کے دل سے نکل جاتی ہیں تو وہ اللہ عزوجل تک پہنچ جاتا ہے، اللہ عزوجل اسے محبوب و مقبول بنا لیتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کے دل میں اس کی محبت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر بندہ ایسے مقام پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ صرف اللہ عزوجل اور اس کے قرب کو محبوب رکھتا ہے اس وقت اللہ تعالٰی کا خصوصی فضل اس پر سایہ فگن ہو جاتا ہے۔ اور اس کو اللہ عزوجل نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اور اس سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ رحمت الٰہی عزوجل کے یہ دروازے کبھی اس پر بند نہیں ہوں گے اس وقت وہ اللہ عزوجل کا ہو کر رہ جاتا ہے، اس کے ارادہ سے ارادہ کرتا ہے اور اس کے تدبر سے تدبر کرتا ہے، اس کی چاہت سے چاہتا ہے، اس کی رضا سے راضی ہوتا ہے، اور صرف اللہ عزوجل کے حکم کی پابندی کرتا ہے ۔ (فتوح الغیب مع قلائد الجواہر المقالہ السادستہ و الخمسون صفحہ 100،چشتی)

طریقت کے راستے پر چلنے کا نسخہ

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : اگر انسان اپنی طبعی عادات کو چھوڑ کر شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے تو حقیقت میں یہی اطاعت الٰہی عزوجل ہے، اس سے طریقت کا راستہ آسان ہوتا ہے۔اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:وما اتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا ۔(پ28، الحشر: 7) ۔ ترجمہ : اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔کیونکہ سرکار مدینہ، قرار قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی اللہ عزوجل کی اطاعت ہے، دل میں اللہ عزوجل کی وحدانیت کے سوا کچھ نہیں رہنا چاہیے، اس طرح تو فنافی اللہ عزوجل کے مقام پر فائز ہو جائے گا اور تیرے مراتب سے تمام حصے تجھے عطا کئے جائیں گے اللہ عزوجل تیرے حفاظت فرمائے گا، موافقت خداوندی حاصل ہو گی۔اللہ عزوجل کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے ان اعمال کو شریعت کی پیروی کرتے ہوئے بجا لانا چاہئیے، بندے کو ہر حال میں اپنے رب عزوجل کی رضا پر راضی رہنا چاہئیے، اللہ عزوجل کی نعمتوں سے شریقت کی حدود ہی میں رہ کر لطف و فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان دینوی نعمتوں سے تو حضور تاجدار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بھی حداد شرع میں رہ کر فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلائی ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : خوشبودار عورت مجھے محبوب ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ ( مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقائق، الفصل الثالث، الحدیث 5261، جلد 2 صفحہ 258چشتی) ۔ لہٰذا ان نعمتوں پر اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اللہ عزوجل کے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالٰی کو نعمت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کو اللہ عزوجل کی حدود میں رہ کر استعمال فرماتے ہیں، انسان کے جسم و روح کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ احکام شریعت کی تعمیل ہوتی رہے اور اس میں سیرت انسانی کی تکمیل جاری و ساری رہتی ہے ۔ (فتوح الغیب مترجم صفحہ 72)

رضائے الٰہی عزوجل

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : جب اللہ تعالٰی اپنے بندے کی کوئی دعا قبول فرماتا ہے اور جو چیز بندے نے اللہ تعالٰی سے طلب کی وہ اسے عطا کرتا ہے تو اس سے ارادہ خداوندی میں کوئی فرق نہیں آتا اور نہ نوشتہء تقدیر نے جو لکھ دیا ہے اس کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ اس کا سوال اپنے وقت پر رب تعالٰی کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے اس لیے قبول ہو جاتا ہے اور روز ازل سے جو چیز اس کے مقدر میں ہے وقت آنے پر اسے مل کر رہتی ہے ۔ (فتوح العیوب مع قلائد الجواہر المقالۃ الثالمنۃ والستون صفحہ 115،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں ہے، اللہ عزوجل جو چاہتا کرتا ہے، جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کردے، عرش سے فرش اور تحت الثرٰی تک جو کچھ ہے وہ سب کا سب اللہ عزوجل کے قبضے میں ہے، ساری مخلوق اسی کی ہے، ہر چیز کا خالق وہ ہی ہے، اللہ عزوجل کے سوا کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے تو ان سب کے باوجود تو اللہ عزوجل کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہراتا ہے ؟ ۔ اللہ عزوجل جسے چاہے اور جس طرح چاہے حکومت و سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے، اللہ عزوجل کی بہتری سب پر غالب ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی عطا فرماتا ہے ۔ ( فتوح الغیب مترجم صفحہ 80 )

ہر حال میں اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو

حضرت سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : پروردگار عزوجل سے اپنے سابقہ گناہوں کی بخشش اورموجودہ اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے سوا اور کچھ نہ مانگ، حسن عبادت، احکام الٰہی عزوجل پر عمل کر، نافرمانی سے بچنے قضاء و قدر کی سختیوں پر رضامندی، آزمائش میں صبر، نعمت و بخشش کی عطا پر شکر کر، خاتمہ بالخیر اور انبیاء علیہم السلام صدیقین، شہداء صالحین جیسے رفیقوں کی رفاقت کی توفیق طلب کر، اور اللہ تعالٰی سے دنیا طلب نہ کر، اور آزمائش و تنگ دستی کے بجائے تونگر و دولت مندی نہ مانگ، بلکہ تقدیر اور تدبیر الٰہی عزوجل پر رضامندی کی دولت کا سوال کر۔ اور جس حال میں اللہ تعالٰی نے تجھے رکھا ہے اس پر ہمیشہ کی حفاظت کی دعا کر، کیونکہ تو نہیں جانتا کہ ان میں تیری بھلائی کس چیز میں ہے، محتاجی و فقرفاقہ میں ہے یا دولت مندی اور تونگری میں آزمائش میں یا عافیت میں ہے، اللہ تعالٰی نے تجھ سے اشیاء کا علم چھپا کر رکھا ہے۔ ان اشیاء کی بھلائیوں اور برائیوں کے جاننے میں وہ یکتا ہے۔امیر الؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں کس حال میں صبح کروں گا آیا اس حال پر جس کو میری طبیعت ناپسند کرتی ہے، یا اس حال پر کہ جس کو میری طبیعت پسند کرتی ہے، کیونکہ مجھے معلوم نہیں کہ میری بھلائی اور بہتری کس میں ہے۔ یہ بات اللہ تعالٰی کی تدبیر پر رضامندی اس کی پسندیدگی اور اختیار اور اس کی قضاء پر اطمینان و سکون ہونے کے سبب فرمائی ۔ (فتوح الغیب، مع قلائد الجواہر المقالۃ التاسعۃ والستون صفحہ 117)

محبت کیا ہے ؟

ایک مرتبہ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “محبت کیا ہے ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : محبت ، محبوب کی طرف سے دل میں ایک تشویش ہوتی ہے پھر دنیا اس کے سامنے ایسی ہوتی ہے جیسے انگوٹھی کا حلقہ یا چھوٹا سا ہجوم، محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے، عاشق ایسے محو ہیں کہ اپنے محبوب کے مشاہدہ کے سوا کسی چیز کا انہیں ہوش نہیں، وہ ایسے بیمار ہیں کہ اپنے مطلوب (یعنی محبوب) کو دیکھے بغیر تندرست نہیں ہوتے، وہ اپنے خالق عزوجل کی محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے اور اس کے ذکر کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں رکھتے ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 229)

توکل کی حقیقت

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے توکل کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ : دل اللہ عزوجل کی طرف لگا رہے اور اس کے غیر سے الگ رہے۔“ نیز ارشاد فرمایا کہ “ توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ سے جھانکنا اور “مذہب معرفت“ میں دل کے یقین کی حقیقت کا نام اعتقاد ہے کیونکہ وہ لازمی امور ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والا نقص نہیں نکال سکتا ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 232،چشتی)

توکل اور اخلاص

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “توکل کیا ہے ؟“ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : توکل کی حقیقت اخلاص کی حقیقت کی طرح ہے اور اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عمل، عوض یعنی بدلہ حاصل کرنے کے لئے نہ کرے اور ایسا ہی توکل ہے کہ اپنی ہمت کو جمع کرکے سکون سے اپنے رب عزوجل کی طرف نکل جائے ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 233)

دنیا کو دل سے نکال دو

حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ سے دنیا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ “ دنیا کو اپنے دل سے مکمل طور پر نکال دے پھر وہ تجھے ضرر یعنی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ ص 233)

شکر کیا ہے ؟

سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے شکر کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ “ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ عاجزی کرتے ہوئے نعمت دینے والے کی نعمت کا اقرار ہو اور اسی طرح عاجزی کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے احسان کو مانے اور یہ سمجھ لے کہ وہ شکر ادا کرنے سے عاجز ہے ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 234،چشتی)

صبر کی حقیقت

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ “ صبر یہ ہے کہ بلا و مصیبت کے وقت اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ادب رکھے اور اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کردے ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 234)

صدق کیا ہے ؟

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے صدق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ (1) ۔ اقوال میں صدق تو یہ ہے کہ دل کی موافقت قول کے ساتھ اپنے وقت میں ہو ۔

(2) ۔ اعمال میں صدق یہ ہے کہ اعمال اس تصور کے ساتھ بجا لائے کہ اللہ عزوجل اس کو دیکھ رہا ہے اور خود کو بھول جائے ۔

(3) ۔ احوال میں صدق یہ ہے کہ طبیعت انسانی ہمیشہ حالت حق پر قائم رہے اگرچہ دشمن کا خوف ہو یا دوست کا ناحق مطالبہ ہو ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 235)

وفا کیا ہے ؟

حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ وفا کیا ہے ؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : وفا یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیزوں میں اللہ عزوجل کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے نہ تو دل میں ان کے وسوسوں پر دھیان دے اور نہ ہی ان پر نظر ڈالے اور اللہ عزوجل کی حدود کی اپنے قول اور فعل سے حفاظت کرے، اس کی رضا والے کاموں کی طرف ظاہر و باطن سے پورے طور پر جلدی کی جائے ۔ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ ممایدل علی قدم راسخ صفحہ 235)

وجد کیا ہے ؟

حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے وجد کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : روح اللہ عزوجل کے ذکر کی حلاوت میں مستغرق ہو جائے اور حق تعالٰی کے لئے سچے طور پر غیر کی محبت دل سے نکال دے ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ ص 236)

خوف کیا ہے ؟

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے خوف کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ “ اس کی بہت سی قسمیں ہیں : ⬇

(1) ۔ خوف ۔ ۔ ۔ یہ گنہگاروں کو ہوتا ہے ۔

(2) ۔ رہبہ ۔ ۔ ۔ یہ عابدین کو ہوتا ہے ۔

(3) ۔ خشیت ۔ ۔ ۔ یہ علماء کو ہوتی ہے ۔

نیز ارشاد فرمایا : گنہگار کا خوف عذاب سے ، عابد کا خود عبادت کے ثواب کے ضائع ہونے سے اور عالم کا خوف طاعات میں شرک حنفی سے ہوتا ہے ۔ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا : عاشقین کا خوف ملاقات کے فوت ہونے سے ہے اور عارفین کا خوف ہیبت و تعظیم سے ہے اور یہ خوف سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ کبھی دور نہیں ہوتا اور ان تمام اقسام کے حاملین جب رحمت و لطف کے مقابل ہو جائیں تو تسکین پا جاتے ہیں ۔ (بہجۃ الاسرار ذکرشی من اجوبتہ مما یدل علی قدم راسخ صفحہ 236)

یا اللہ عزوجل ہمیں حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاداتِ مبارکہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمارے دلوں میں غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی محبت کو مذید پختہ فرما دے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...