Saturday, 23 September 2017

شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک اور خطاب

شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک اور خطاب

خطاب استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔

اب شہادت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں عرض کرتا ہوں ۔
حضرات محترم! آپ جانتے ہیں کہ شہادت کی دو قسمیں ہیں ایک شہادت سری اور دوسری شہادت جہری۔
شہادت سری تو زہرسے ہے کہ خیبر میں زہر ملا گوشت پیش کیاگیا مع صحابہ آپﷺ نے تناول فرمایا لوگوں نے کہا آپﷺ کو علم نہ تھا۔ کیا خدا کو بھی علم نہ تھا۔ وحی کیوں نہ کردی کہ اسکو نہ کھایاجائے جو حکمت خدا کی تھی اس حکمت کی بنا پر حضور سید عالمﷺ نے کھایا بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس حکمت کی بنا پر حضور سید عالمﷺ نے زہر آلودگوشت کھایا تاکہ شہادت سری آپﷺ کے دامن میں آجائے۔
یہاں دو باتیں ضمناً عرض کرتا جائوں ایک یہ کہ سرکار مدینہ ﷺ بے عیب اور بے مثال بشر ہیں۔ ہم جیسے بشر نہیں مگر آپﷺ بشر ضرور ہیں۔ جنگ اُحد میں دندان مبارک سے خون کا بہنا بشریت کی دلیل ہے ۔ شق صدر میں خون نہ نکلا یہ نورانیت کی دلیل ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کھاتے پیتے تھے ہم یہ مانتے ہیں مگر نہ کھانے کو بھی دیکھو! کہ آٹھ آٹھ دن تک متواتر نہ کھاتے تھے نہ پیتے تھے۔ اگر کھانا بشریت کی دلیل ہے تو نہ کھانا بھی نورانیت کی دلیل ہے۔ اگر نبی سے کوئی خرق عادت بات ہوجائے تو وہ معجزہ ہے۔ تو کھانا پینا نورانیت کیلئے خرق عادت ہے اور بشریت کیلئے عادت ہے۔ نہ کھانا نورانیت کیلئے عادت ہے اور بشریت کیلئے خرق عادت ہے لہذا آقا کا ہر فعل معجزہ ہے۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ حضور سید عالمﷺ کے جسم اطہر پر زخم بھی آئے اور دندان مبارک کے کنارے جدا ہوئے۔ مکمل دانت جدا نہیں ہوا۔ دانت کا جدا ہونا چہرہ کیلئے ایک عیب ہے اور محبوب ہر عیب سے پاک ہے۔ یہ شہادت جہری کے آثار ہیں۔۔۔خدا معلوم! لوگ قطرات خون کو کیا سمجھتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر خون کے قطرے ظاہر نہ ہوتے تو شہیدوں کے خون کو کہاں پناہ ملتی اور یہ مرتبہ علیا کہاں سے حاصل ہوتا لہذا اللہ تعالیٰ نے شہادت جہری کو مقام احمدیت میں قائم کردیا۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ شہادت جہری اور سری کا مبداء آقاﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے حسنین کریمین طیبین طاہرین کو ان دونوں شہادتوں کا مظہر اتم بنایا یعنی امام حسن علیہ السلام کو شہادت سری کا مظہر بنایا کیونکہ آپ کو زہر دیا گیا تھا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت جہری کا مظہر بنایا کہ کربلا میں اشقیا کم بختوں نے آپکو شہید کیا۔ گویا یہ دو ٹہنیاں ہوگئیں ایک امام حسن علیہ السلام اور ایک امام حسین علیہ السلام اور یہ دونوں اصل سے سیراب ہوئیں اور ٹہنی کی حقیقت دراصل اصل کا اظہار ہوتی ہے لہذا جو حسنین کریمین طیبین طاہرین کی شہادت کو حقارت سے دیکھتے ہیں وہ دراصل آقاﷺ کی شہادت کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور درمیان میں لفظ اشقیاء کا بول گیاہوں کہ اشقیاء نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا اسکی وجہ یہ ہے کہ صالحیت اور برائی کو جتنا قرب حضورﷺ کے زمانہ سے ہوگا وہ اتنا زیادہ بھاری ہوگا یعنی آج ہزاروں صدیق جمع ہوں مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صدیقیت جتنا وزن کبھی نہیں ہوسکتا اور اسی طرح آج ہزاروں کافر جمع ہوں مگر ابو جہل کاکفر زیادہ بھاری ہوگا اور آج کا زمانہ اس سے بعید ہے۔ آج تو لوگ یزید کو بھی امیر المومنین کہتے ہیں اور اس پر وہ دلائل قائم کرتے ہیں اللہ اکبر! معاذ اللہ! معاذ اللہ۔ ہمارے کان یہ سننا بھی نہیں چاہتے۔
دراصل انکی دلیل یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لشکر روم پر چڑھائی کرے گا وہ لشکر مغفورلھم ہوگا۔ حدیث مبارکہ میں لفظ جیش آیا ہے اور جیش مفرد ہے۔ مگر اسکے معنی ہے لشکر۔ لشکر ایک کو نہیں کہتے یہ عام ہے اور ان افراد پر مشتمل ہے جو جیش میں داخل ہیں اور ’’ھم‘‘ ضمیر مذکر کی ہے اور یہ ضمیر اس بات کی دلیل ہے جیش عام ہے ’’مغفورلھم‘‘ کا حکم عام پر ہے اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یزید کیلئے کوئی تخصیص نہ لائیں گے اور یہ دلیل عام ہے اور جب دلیل خاص ‘ دلیل عام کے معارض ہوجائے تو وہاں خاص راجع ہوتی ہے۔ وہ خاص دلیل کیا ہے؟ وہ خاص دلیل یہ ہے ۔حدیث شریف میں ہے
مَنْ اَخَافَ اَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ یَذْوْبُ کَمَایَذُوْبُ الْمِلْحُ فِی الْمَائِ
دوسری حدیث میں ہے۔
مَنْ اَخَافَ اَہْلَ الْمَدِیْنَۃِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلِائِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ
میں آخری بات کہتا ہوں کہ جس دل میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی محبت ہوگی اس دل میں یزید کی محبت نہیں ہوگی اور جس دل میں یزید کی محبت ہوگی اس دل میں امام حسین علیہ السلام کی محبت نہیں آسکتی۔ خدا کرے جو یزید کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ان کا حشر اس کیساتھ ہو اور جو امام حسین کیساتھ محبت رکھتے ہیں انکا حشر امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ہو۔
مختصر یہ کہ حضور ﷺ کی شہادت سری اور جہری کا ظہور حضرت حسنین کریمین طاہرین میں ہوا۔وما علینا الاالبلاغ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...