ووٹ کس کو دیں ؟ ووٹ دینے سے پہلے ضرور سوچیئے گا
ووٹ ایک مقدس امانت ہے ۔ ووٹ کے ذریعے ہم اپنے مستقبل کی سمت کا تعین کرتے ہیں ۔ عمومی انتخاب ہو یا ضمنی انتخاب ووٹ لازمی کاسٹ کیا جائے تاکہ شکوے شکایتوں کا ، ایوان بالا تک اپنی بات بزور پیار و بزور ناراضگی پہنچانے کا حق تو سلامت رہے ۔ ہمارے نزدیک جو لوگ ووٹ کو اہمیت نہیں دیتے ووٹ نہں کاسٹ کرتے انہیں کسی قسم کے شکوے کا بھی پھر حق نہیں ۔ ووٹ جیسی امانت کا حق ہے کہ اسے اسکے میرٹ پہ کاسٹ کیا جائے ۔ ووٹ دیتے ہوئے فرض ہے پاکستان اور اس حلقے کے جہاں انتخاب ہورہا ہے مفاد کو مقدم رکھاجائے ۔ پاکستان کو اسٹیٹسکو کی ضرورت ہے یا عام آدمی کی ۔ یہ خیال رکھا جائے کہ ووٹ اسے دیں جو دوبارہ پانچ سال کے بعد نہیں بلکہ آپ کو اپکی ضرورت کے وقت میسر ہو۔جو تعلیم یافتہ ہو جس کی سوچ تعلیم یافتہ ہو ۔ جو ہماری آپکی نسلوں کی ترقی کا ضامن ہو۔ووٹ دیتے ہوئے پاکستان کے مفاد کو فوقیت دی جائے کیونکہ ملکی پالیسی آپکے ووٹ کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں تشکیل دی جاتی ہے ۔
انتہا پسندوں کی سیاست کو ووٹ دینے کے بعد اعتدال و بھائی چارے کی فضاء کا متلاشی بننا پاگل پن ہی کہلایا جائے گا۔اس لیئے ووٹ دیتے ہوئے سوچیں کہ ان کو ووٹ دیا جائے جنہوں نے ارض پاک و افواج پاک کی توہین کی ، دشمنان اسلام سے دوستی اور مسلمانو سے دشمنی کی اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلّم سئ غداری کی یا انہیں جنہوں نے پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگائے اور افواج پاکستان کیلئے پنڈال سجائے ناموس رسالت کا تحفظ کیا ۔ انہیں ووٹ دیا جائے جو ہمارے بچوں کو اپنے مفادات کی جنگ میں جھوکیں جو پاکستان جیسے ملک میں بھی قتال کا درس دیں یا انہیں ووٹ دیا جائے جو روشن خیالی و برداشت کا درس دیں ۔ انہیں ووٹ دیا جائے جواپنے بچوں کو تو آکسفورڈ میں پڑھائیں یا انہیں جن کے بچے ہمارے بچوں کے ساتھ اسکولوں میں پڑھیں ۔ جو اپنا اور اپنے بچوں کا علاج تو غیر ممالک میں کرائیں اور آپ کو آپ کے بچوں کو آپ کے وطن میں ہی بے یارو مدد گار چھوڑ دیں ۔
یہ سوال ہم میں سے بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہے کہ ووٹ کسے دیا جائے ۔ کچھ لوگ تو خیر دیوتاؤں کے پجاری ہوتے ہیں اور اپنے سیاسی معبود تراش کر ان کے چرنوں میں بیٹھ جاتے ہیں، لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو واقعی یہ چاہتے ہیں کہ غیر جانبداری سے اسی پارٹی یا لیڈر کو ووٹ دیں جو کہ ملک کے حالات بہتر کر سکتا ہے ۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ ووٹ ضرور دینا چاہیے ۔ اگر نیک لوگ ووٹ نہیں دیں گے تو برے لوگ ہی ہم پر ہمیشہ مسلط رہیں گے۔ نیک لوگوں کی سستی ہی کی وجہ سے برے ان پر مسلط ہوتے ہیں۔ ہمار ےہاں اچھے لوگ الیکشن کے دن خاموشی سے گھر میں پڑے رہتے ہیں اور برے لوگ میدان مار جاتے ہیں۔ اس کے بعد یہی اچھے لوگ اگلے کئی سال تک روتے رہتے ہیں کہ حکومت بری ہے۔ ووٹ ایک امانت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کسی شخص کے حق میں گواہی دے رہے ہیں کہ ہم اسے حکومت کا اہل سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے یاد رکھیے کہ ہمیں اپنے ووٹ کے لیے اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سب سے پہلے تو یہ دیکھیے کہ آپ کے حلقے سے جو امیدوار ہیں، ان میں اخلاق اور کردار کے اعتبار سے کون سا امیدوار سب سے بہتر ہے۔ سیاستدانوں میں آئیڈیل ملنا تو مشکل ہے لیکن یہ دیکھ لیجیے کہ کس پر کرپشن کا الزام نہیں ہے؟ کسی کو اگر پہلے کامیابی ملی ہے تو اس نے اپنے حلقے میں ترقیاتی کام کتنے کروائے ہیں؟ عوام کی خدمت میں کون نسبتاً بہتر ثابت ہوا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ دیکھیے کہ کون سی سیاسی جماعت دوسروں کی نسبت بہتر ہے؟ ان کے منشور کا مطالعہ کیجیے اور اس کے ساتھ ساتھ سابق تجربہ کو مدنظر رکھیے کہ انہوں نے اس سے پہلے اپنے وعدے کس حد تک پورے کیے ہیں؟ سو فیصد تو شاید کوئی نہ مل سکے لیکن دوسروں کی نسبت جس کا ریکارڈ بہتر ہو، اسی کو ووٹ دیجیے۔
ہمارے ہاں ذات، برادری اور لسانیت کو دیکھا جاتا ہے۔ دین میں یہ کوئی معیار نہیں ہے۔ اگر ہماری برادری سے تعلق رکھنے والا شخص کردار کے اعتبار سے اچھا نہیں ہے اور کسی اور برادری کا شخص اچھا ہے، تو پھر ووٹ اسی اچھے شخص کو دینا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر اللہ تعالی کے ہاں ہمیں پرسش کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَنْ تَعْدِلُوا ۚ وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا .
اےاہل ایمان! اللہ کے لیے عدل کے ساتھ گواہی دینے کے لیے تیار ہو جائیے، اگرچہ یہ آپ کے اپنے، یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔(جس کے خلاف آپ گواہی دے رہے ہیں) وہ خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ ان کی نسبت فوقیت رکھتا ہے۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے عدل سے نہ ہٹ جائیے۔ اگر آپ حق کو چھپائیں گےیا منہ موڑیں گے تو پھر یاد رکھیے کہ جو آپ کر رہے ہیں، اللہ اس سے واقف ہے۔ (النسا 4:135)
اس بات کو نہ دیکھیے کہ کسی امیدوار کے منتخب ہونے کا چانس ہے یا نہیں۔ اگر ایک شخص اچھے کردار کا ہے تو خواہ اس کے منتخب ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو، ووٹ اسی کو دیجیے۔ اس طرح ہم اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی سے بچ جائیں گے۔
اگر آپ کے حلقے سے جتنے بھی امیدوار ہیں، وہ سب کے سب کرپٹ اور بدکردار ہیں تو پھر اسے ووٹ دیجیے، جو کرپشن اور بدکرداری میں دوسروں کی نسبت کم ہو۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے حلقے میں کوئی امیدوار اچھا انسان ہو مگر اس کی پارٹی اچھی نہ ہو۔ یا پھر پارٹی دوسروں کی نسبت بہتر ہو لیکن اس نے جس امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے، وہ اچھا نہ ہو۔ ایسی صورت میں دو رائے ہو سکتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ پارٹی کو دیکھتے ہوئے ووٹ دینا چاہیے کہ حکومت اسی نے چلانی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ امید وار کو دیکھتے ہوئے ووٹ دینا چاہیے کہ آپ کی نمائندگی اس امیدوار نے کرنی ہے۔ اس صورت میں آپ خود سوچیے اور آپ کا دل و دماغ جس رائے پر مطمئن ہو، اس پر عمل کیجیے ۔ خود سے سوچیں ، کسی ایک لیڈر یا پارٹی کے اندھے مرید مت بنیں ۔ دیکھیں کہ کس سے کیا امید ہے۔ حکومت کرنے فرشتے یہاں نہیں آئیں گے، جو موجود ہیں، تعصبات سے بالاتر ہو کر انہیں میں سے کسی کا انتخاب کریں۔ بنیادی شرط تعصبات سےبالاتر ہونے کی ہی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment