شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
خطاب استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۔ ترتیب و پیشکش : ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
حضورﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ! اے معاویہ تو مغلوب نہیں کیاجائے گا۔(یعنی)تو مغلوب نہیں ہوگا۔
حضرات محترم! حوالہ صحیح دکھانا میرا کام ہے باقی اس روایت کی صحت کا مسئلہ ہے وہ ان حضرات کا ہے جنہوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ انہوں نے اس روایت کو ضعیف کہا اور نہ موضوع بلکہ مناسبت کے مقام کے ساتھ اس کو نقل کردیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’حضورﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ! اے معاویہ تو مغلوب نہیں کیاجائے گا تو مغلوب نہیں ہوگا۔‘‘
حضرت علی المرتضیٰ اور امیر معاویہ کے بارے میں امام اہلسنّت کا مؤقف
بے شک حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے بازو میں حضورﷺ کی شجاعت کا جلوہ تھا مگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی پشت پر حضورﷺ کی دعا لگی ہوئی تھی میں جانتا ہوں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم حق پر تھے۔ مگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں کوئی نازیبا کلمہ کہنا یا گستاخی کرنا، مومن کاکام نہیں ہے۔ اس وقت اس مسئلہ پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی دلیل میں نے آپ کو بتا دی کہ دونوں مجتہد ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی مجتہد اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ۔ اگر مجتہد سے خطا ہو، تب بھی وہ عذاب کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک اجر کا حقدار ہوتا ہے۔
کیا یزید بھی مجتہد تھا؟ اس کا جواب
شاید کسی کے ذہن میں یہ خیال آجائے کہ اگر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے تو ہم یہ کیوں نہ کہہ دیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید بھی مجتہد تھے ٹھیک ہے حق پر امام حسین رضی اللہ عنہ تھے مگر یزید بھی تو مجتہد تھا۔ لہٰذا اس کے حق میں بھی کچھ مت کہا جائے۔
شبہ کا ازالہ
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یزید کے متعلق محدثین، علماء، اسماء الرجال نے خصوصاً امام ذہبی نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں صاف لفظوں میں یہ لکھا ہے کہ یزید بن معاویہ بن سفیان کے متعلق ہم کیا کہیں اور اس کا کیا ذکر کریں کہ ’’وہ روایت حدیث کا بھی اہل نہ تھا‘‘ آپ مجھے بتائیں جو روایت حدیث کا بھی اہل نہ ہو کیا وہ بھی مجتہد ہوسکتا ہے۔ اتنی بات آپ کے ذہن کو صاف کرنے کے لئے کافی ہے کہ جو روایت حدیث کا بھی اہل نہ ہو تو اس کو مجتہد تو وہی کہے گا جس کا دماغ بالکل مائوف ہوچکا ہو۔
بہر حال میں یہ مانتا ہوں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بالکل حقانیت، صداقت اور اخلاص کی بنیادوں پر تشریف لے گئے تھے لیکن میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ یزید بھی مجتہد تھا لہٰذا اس کو بھی خطائے اجتہادی پر اجر مل جائے گا۔ لاحول و لا قوۃ الا باللّٰہ۔ اور جو لوگ یزید کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں اور اس کی تعریف میں ان کی زبانیں رطب السان ہیں اور ان کے دل یزید کی محبت سے بھرے ہوئے ہیں تو وقت نہیں ہے بڑی لمبی بحثیں ہیں، کتاب اجتہاد میں ایک دو حدیثیں ہیں ان کو پڑھ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور میں ہزاروں دفعہ ان حدیثوں کے مطالب واضح کرچکا ہوں اس وقت موقع نہیں ہے تو میں اتنا کہوں گا کہ جو لوگ یزید کے ساتھ محبت رکھتے ہیں الٰہی ان کا حشر یزید کے ساتھ کرنا اور ہمارا حشر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرنا۔ کیونکہ ہمیں تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے خلفایٔ راشدین
کی حقانیت پر مہر لگادی: سوال کا جواب
ایک رقعہ ملا ہے جس میں شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ پر مختلف اعتراضات کے ساتھ خلفائے راشدین سے اہل بیت کے اختلافات کو بیان کیا گیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حق ہے۔ لیکن یہ جو باتیں لکھی گئیں ہیں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے یہ بتا دیا کہ جس چیز کو اہل بیت باطل سمجھیں اس کے ساتھ موافقت نہیں کرتے اور کیا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اہل بیت میں ہیں یا نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر مجھے یہ بتائو کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی نظر میں اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ معاذ اللہ باطل پر ہوتے جیسا کہ لوگ آج ان کو باطل پر سمجھتے ہیں تو پھر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا کردار اور طرز عمل ان کے ساتھ کیا ہوتا۔ میں کہتا ہوں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا طرزِ عمل وہی ہوتا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا طرز عمل یزید کے ساتھ تھا لیکن مجھے یہ بتائو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں مشاورت فرمائی کہ نہیں فرمائی۔ معلوم ہوا کہ کسی کے ساتھ اہل بیت کی موافقت کرنا ہی حقانیت کی دلیل ہے۔ یزید کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ نے خون دے دیا مگر موافقت نہیں کی میں کہتا ہوں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا کے میدان میں اپنے خون سے مہر لگا دی کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حق پر تھے ورنہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ان کے ساتھ کبھی موافقت نہ کرتے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے خلفائے راشدین کی خلافت پر حقانیت کی مہر لگا دی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ (البقرۃ: ۱۵۴)
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیئے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو۔‘‘
بَلْ اَحْیَآ ئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ
’’بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں شعور نہیں۔‘‘
تم ان کو زندہ نہ کہتے ہو اور نہ ہی زندہ سمجھتے ہو۔
اور شہداء یقینا زندہ ہیں، زندہ ہیں، زندہ ہیں، ان کی زندگی کے تصور سے ہمارے اندر زندگی کی لہر پیدا ہوجاتی ہے اور ان کی زندگی کے انوار و برکات سے ہماری موت زندگی سے بدل جاتی ہے میں شہداء کی حیات کا قائل ہوں اور میں شہداء کی حیات کو حیات انبیاء کا فیض سمجھتا ہوں۔
عبداللہ بن ابی کے جنازہ کی حقیقت
سوال: کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کی نماز جنازہ پڑھی ، کرتہ منگوایا مگر وہ بھی مشکل کشا ثابت نہ ہوا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے منافق کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا۔
جواب: اس میں دو باتیں ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی اور حضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے منع بھی کیا تھا کہ منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی اور پھر حضورﷺ نے اپنا کرتہ مبارک بھی منگوا کر پہنا دیا۔ حالانکہ ان دوباتوں کا جواب میں اس شخص کو دے چکا ہوں رقعہ لکھنے والا تو بے چارہ اور ہے میں نے اس کو یہ بتایا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیاگیا تھا اور حضورﷺ نے اس کے باوجود نماز جنازہ پڑھ لی اگر رسول خدا ﷺ نے باوجود منع کرنے کے منافق کی نماز جنازہ پڑھی تو یہ گویا قرآن کریم کی مخالفت ہوئی جو ایک بہت بڑا گناہ ہے اور ہم ان کی پیروی میں قرآن کریم کی مخالفت کریں تو یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہوگی۔ نعوذ باللّٰہ من ذالک بھائی یہ بکواس ہے۔
حضورﷺ نے بالکل قرآن کریم کی مخالفت نہیں کی۔ بات اور تھی بات یہ تھی کہ حضورﷺ کو کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھنے سے نہیں روکا گیا تھا اور جس بات کے روکنے کا حکم نہ آئے اس کام کے کرنے کا گناہ نہیں ہوتا گناہ وہ ہوتا ہے کہ جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ روکے اور پھر وہ کام کیا جائے کوئی ایسی آیت اتری تھی اور نہ کوئی ایسا حکم آیا تھا لہٰذا حضورﷺ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھ لی اور وہ نماز اس لئے نہیں پڑھی تھی کہ حضورﷺ کو خبر نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضورﷺ سے نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کرنے والا پکا مومن تھا جو عبداللہ بن ابی کا بیٹا تھا اور مومن کے دل کو خوش رکھنا عبادت ہے اور یہ کام اس وقت ناجائز بھی نہ تھا اس لئے حضورﷺ نے عبداللہ بن ابی کے لئے دعا کی ہے وہ دعا کیا تھی وہ دعا یہ تھی جو ہم نماز جنازہ میں پڑھتے ہیں۔ آپ بتائیں اس دعا کے کیا معنی ہیں؟ حضورﷺ نے یہ دعا پڑھی کہ
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاہِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثٰـنَا
’’یا اللہ بخش دے ہمارے زندوں کو اور ہمارے مردوں کو الٰہی بخش دے ہمارے حاضرین کو اور ہمارے غائبین کو الٰہی بخش دے ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو الٰہی بخش دے ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔‘‘
حضورﷺ نے یہ دعا کس کے لئے کی؟ اب بتائو کیا عبداللہ ابن ابی ہمارا تھا؟ وہ ہمارا نہیں تھا۔ اس لئے دعا ادھر متوجہ نہیں ہوئی۔ ہاں، البتہ اعتراض کرنے والا پرچہ لکھنے والا اگر کہے کہ وہ ہمارا تھا تو وہ اس کو مبارک ہو۔
شبہ
اگر کوئی یہ کہے کہ جب آپ کا یہ کہنا ہے کہ وہ ہمارا تھا ہی نہیں تو حضورﷺ نے پھر اس کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی؟
شبہ کا ازالہ
تو اس شبہ کا ازالہ عرض کردوں۔ یہ ایک جائز کام تھا اور اس جائز کام سے ایک مومن کا دل خوش ہوتا تھا اور مومن کا دل خوش کرنا ثواب ہے لہٰذا میرے آقاﷺ نے ثواب کا کام کیا۔ حضورﷺ نے اس لئے نماز جنازہ نہیں پڑھی کہ عبداللہ ابن ابی کی مغفرت ہوجائے کیونکہ وہ ہمارا تھا ہی نہیں تو حضورﷺ نے اپنوں کے لئے مغفرت طلب فرمائی۔
یزیدی لشکر کے بیان کردہ واقعات بیان کرنا کیسا ہے؟
یزیدی لشکر کے بیان کردہ واقعات، شہادت کربلا کے لئے کیسے معتبر ہوسکتے ہیں؟
جواب: میں توکہتا ہوں کہ جوواقعات یزیدی لشکر نے بیان کئے، ان واقعات کو وہ لوگ بیان کرتے ہیں جو یزید کو برا کہتے ہیں وہ لوگ یزید کو برا کہہ کر بھی یزیدی لشکر کی روایات کو بیان کرتے ہیں لیکن میں ان روایات کو بیان کرتا ہوں نہ معتبر جانتا ہوں اور نہ ہی میں یزید کو مانتا ہوں ہاں شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔جن کا انکار دنیا کا کوئی مورخ اور اہل علم نہیں کرسکتا وہ واقعات جو حقائق پر مبنی ہیں ان واقعات کا یزیدی روایت سے کوئی تعلق نہیں وہ تو حقائق ہیں۔ ان کے سوا میں کبھی کوئی بات بیان نہیں کرتا اور میں اس لئے بیان نہیں کرتا کہ ان واقعات میں وہ چیزیں آجاتی ہیں جو یزید کے لشکر وں سے تعلق رکھتی ہیں۔
سوال: دمشق فتح کرنے والوں کے لئے بشارت جنت ہے۔
جواب: یہ ایسی بحثیں ہیں کہ کئی دنوں تک ختم نہیں ہونگی۔ ہاں، اجمالی طورپر میں یہ کہتا ہوں کہ دمشق فتح کرنے والے اسلامی لشکر میں یزید شامل نہیں تھا۔ بھائی اس کا جواب ہوگیا کہ نہیں ہوگیا؟
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یزیدکی ولی عہدی
سوال: اب دوسری بات یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد کیوں مقرر کردیا تھا۔
جواب: ہاں، بے شک انہوں نے یزید کو ولی عہد مقرر کیا تھا اس لئے نہیں کہ خلافت ، مملکت اور حکومت کو اپنے خاندان میں بند کردیں۔ یہ بدگمانی ہم نہیں کرسکتے کیوں؟ اس لئے کہ وہ حضورﷺ کے صحابی ہیں اور حضورﷺ کے صحابہ کے حق میں مومن کو حسن ظن سے کام لینا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ
’’مومن کے حق میں خیر کا گمان کرو۔‘‘ (۱)
معاذ اللہ یا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو تم کافر کہو اور اگر مومن کہتے ہو تو قرآن کریم کہتا ہے کہ مومن کے حق میں بدگمانی مت کرو میں کہتا ہوں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومن ہیں لہٰذا ہم اس کے حق میں بدگمانی نہیں کریں گے اور جب بدگمانی نہیں کریں گے تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہوں نے اپنے خیال میں وہ بہتر سمجھ کرکیا اگرچہ اس کا نتیجہ بہتر نہیں نکلا۔
ہاں، میں عرض کررہا تھا کہ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ جو میرے آقاﷺ نے پڑھی اس لئے نہیں پڑھی کہ اس کی مغفرت ہوجائے بلکہ اس کے پڑھنے میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ جب اس کی قوم کے لوگ یہ دیکھیں گے کہ ایسے دشمن کے ساتھ میرا حسن سلوک یہ ہے تو وہ مسلمان ہوجائیں گے اور سید عالم ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک بھی عطا فرمایا اس لئے نہیں کہ آپ ﷺ اس کو نفع پہنچانا چاہتے تھے بلکہ اس لئے کہ جب آپﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بدر کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے تو اس وقت ان کو ایک قمیص کی ضرورت تھی کیونکہ ان کا بدن بھاری تھا اس نے اپنی قمیص اتار کر حضورﷺ کو دی کہ وہ اپنے چچا کو پہنا دیں۔ اس وقت حضورﷺ نے عبداللہ بن ابی کی وہ قمیص لے کر اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنا دی لیکن سرکار دوعالم ﷺ اتنے غیور ہیں کہ حضورﷺ نے گوارا نہیں فرمایا کہ اس عبداللہ بن ابی کا احسان مجھ پر رہ جائے۔ سید عالم ﷺ نے اس کے مرنے کے بعد اپنی قمیص مبارک اتار کر اس کو پہنا کر وہ احسان اتار دیا۔
شبہ
آپ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے لعاب دہن مبارک بھی لگایا تو کوئی نفع بخش ثابت نہ ہوا۔
شبہ کا ازالہ
لعاب دہن مبارک اس لئے نہیں لگایا کہ اس کو نفع پہنچے اس لئے لگایا کہ اس کا بیٹا جو پکا مومن تھا جس کی درخواست پر نماز جنازہ پڑھائی گئی تھی اس کی درخواست پر لعاب دہن عطا کیاگیا تاکہ ایک مومن خوش ہوجائے اور خود حضورﷺ کی حدیث ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ’’میرے آقاﷺ اس خبیث کی آپ ا نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں اور ساتھ ہی قمیص اقدس بھی عطا فرمارہے ہیں۔ اس نے فلاں موقع پر یہ جرم کیا فلاں موقع پر اس نے یہ بکواس کی‘‘ تو حضورﷺ نے فرمایا
’’اے عمر! میرے جنازہ کی نماز اور میری قمیض اس کو اللہ کے عذاب سے کچھ بھی نفع نہ دے گی اور نہ ہی میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے کہ یہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے بلکہ اے عمر! میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے کہ اس کی قوم کے ایک ہزار آدمی اس وقت مسلمان ہوجائیں اور وہ یہ دیکھ کر کہ اس نے کیاکیا اور حضورﷺ اس کے ساتھ کیا حسن سلوک کر رہے ہیں۔‘‘
چنانچہ حضورﷺ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی ادھر جنازہ کی نماز ختم فرمائی اور ادھر اسی وقت عبداللہ بن ابی کی قوم کے ایک ہزار آدمی مسلمان ہوگئے۔ آپ رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ جس غرض کے لئے حضورﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی تھی تو وہ غرض پوری ہوگئی۔ حضورﷺ تو پہلے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو فرما چکے تھے کہ میں اس کو فائدہ پہنچانے کے لئے یہ کام کر ہی نہیں رہا اور آپ ﷺ نے لعاب دہن مبارک اور کرتہ مبارک بھی عطا فرمایا۔
تبرکات سے ایمان والوں کو فائدہ پہنچتا ہے عدو اللہ کو نہیں
لوگ کہیں گے کہ آخر اس کا کچھ فائدہ بھی تو ہونا چاہیے تھا۔
لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے اور آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہ کوئی نقصان پہنچانے والی چیز نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ کوئی نفع پہنچانے والی چیز نفع پہنچا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں کو نقصان والی چیزوں کے ضرر سے بچاتا ہے اور اپنے محبوبوں کو اپنے محبوبوں کے تبرکات سے نفع پہنچاتا ہے لیکن میں آپ سے کیا کہوں؟ میرے آقاﷺ لعاب پاک دے رہے ہیں۔ کرتہ مبارک دے رہے ہیں مگر ساتھ ہی اس حقیقت کا اظہار بھی فرمارہے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے آگ میں ڈالا تھا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا
’’اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا۔ بے شک ہم نے تجھے جلانے کی صلاحیت اور صفت دی ہے مگر سن لے کہ تیرے اندر میرا خلیل آرہا ہے اس پر تو سلامتی والی بن جا۔‘‘
معلوم ہوا جب خلیل اللہ ہو تو نقصان پہنچانے والی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور جب عدو اللہ ہو تو نفع پہنچانے والی چیز نفع نہیں پہنچا سکتی۔ بھائی! آگ میں جلانے کی طاقت ہے مگر آگے خلیل جلوہ فرما ہیں۔ حضورﷺ کی قمیص میں نفع دینے کی طاقت ہے مگر سامنے عدو اللہ ہے۔ خلیل اللہ کو ضرر والی چیز سے ضرر نہیں پہنچا اور عدو اللہ کو نفع والی چیزوں سے نفع نہیں پہنچتا اور یہ میرے آقاﷺ کا کتنا کمال ہے؟ کہ اپنے تبرکات کا نفع بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے جسے چاہیں نفع پہنچائیں جسے چاہیں نہ پہنچائیں۔ دوستوں کو نفع پہنچے گا دشمن کو نہیں۔ اب یہ گفتگو ہوگئی آخر میں میں ایک بات کہہ کر آپ سے رخصت ہوتا ہوں زندگی ہے تو پھرا نشاء اللہ کبھی ملاقات ہوگی۔
چند نصائح
میرے دوستو! یہ عشرہ محرم ہے۔ یہ امن و سکون سے گزر جائے ۔ آپ امن و سکون کا مظاہرہ فرمائیں آپ اس جگہ نہ جائیں جہاں آپ کے بزرگوں کے حق میں بدگوئی ہورہی ہو۔ آپ ایسے لوگوں کے پاس نہ جایا کریں کہ جو آپ کے دلوں کو مجروح کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے الگ رہیں نماز پڑھا کریں۔ اب میں کیا عرض کروں۔ اللہ اکبر۔
نماز تو مومن کی معراج ہے
نماز تو مومن کی معراج ہے۔ نماز تو تمہارے ظاہر اور باطن کو پاک کرنے والی چیز ہے اور نماز وہ چیز ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے حلقوم پر خنجر ہے مگر پھر بھی آپ نے نماز نہیں چھوڑی تو امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کا دعوی کرنا اور نماز نہ پڑھنا یہ مسلمان کا کام نہیں ہے۔ تم تو محب اہل بیت ہو، محب صحابہ ہو، محب ازواج مطہرات ہو۔ تمہیں حضورﷺ سے محبت ہے اور حضورﷺ کی ادا کیا ہے؟ اور وہ ادا یہی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا
قرۃ عینی فی الصلواۃ
’’نماز میں تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔‘‘
اس لئے مسلمانو! نماز کی پابندی کرو۔ اگر ہر مسلمان یہ عہد کرے کہ میں پانچوں وقت کی نماز پڑھوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہماری قوم پر، ہماری ملت پر، ہمارے ملک پر کوئی تباہی نہیں آئے گی۔ سب عہد کریں کہ ہم نماز پڑھیں گے۔ لہٰذا اہل بیت کی محبت کا دعوی جبھی صحیح ہوگا کہ جب ہم ان کی سیرت کو ان کے کردار کو اپنائیں گے۔
ترجمہ وحاشیہ کلام پاک
الحمد للّٰہ! میں نے بِسْمِ اللّٰہِ سے والنَّاس تک ۲۰ رجب شریف کو کلام پاک کا ترجمہ لکھ لیا ہے۔ اب میں اس کا حاشیہ لکھ رہا ہوں آپ دعا فرمائیں کہ یہ حاشیہ بھی مکمل ہوجائے تاکہ وہ پورا قرآن کریم ترجمہ مع حاشیہ آپ کے سامنے آجائے۔
مجموعہ احادیث
اور میں احادیث کا مجموعہ بھی لکھ رہا ہوں دعا کریں کہ وہ بھی مکمل ہوکر آپ کے سامنے آجائے جسے میں چند جلدوں میں ترتیب دے رہا ہوں اور یہ میری خواہش ہے کہ میری زندگی میں ہی یہ سب چیزیں شائع ہوجائیں۔
دعائیہ کلمات
آپ نے آخر میں عالم اسلام کے لئے دعا فرمائی خاص طورپر افغانستان کے مجاہدین اور انجمن طلباء اسلام کو خصوصی دعائوں سے نوازا۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment