Friday 17 February 2017

وسیلہ مستند دلائل کی روشنی میں ( حصّہ دوم)

0 comments
وسیلہ مستند دلائل کی روشنی میں ( حصّہ دوم)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیوبند ہی کے مولانا محمودالحسن نے ترجمہ عثمانی میں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے کوئی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا آتے تیرے پاس پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کو بخشواتا تو البتہ اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان ف ٤
دیوبند کے ہی مولوی اشرف علی تھانوی نے بیان القرآن میں لکھا ہے؛۔
اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے معبوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کیجاوے اور اگر جس وقت اپنانقصان کر بیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور الله تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے۔ (ف ٢)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دیوبندیوں کے ہی ترجمہ شاہ عبدالقادر میں عبدالقادر نے لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ ٦٤۔ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانئے (اطاعت کریں اس کی) اللہ کے فرمان سے۔ اور اگر ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا، آتے تیرے پاس، پھر اللہ سے بخشواتے اور رسول ان کو بخشواتے، (یقیناً ) اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان۔
علمائے اہلسنت وجماعت ،بمع مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان قادری ماترید ی الہندی البریلوی نے اپنی معرکۃ الآراء ترجمہ قرآن کنزالایمان شریف میں یوں اس آیت کا ترجمہ تحریر فرمایا؛۔
ترجمہ آیت از کنزالایمان شریف؛۔ اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے (ف ١٧٥) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (ف ١٧٦) تو اے محبوب ! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (ف ١٧٧)
اہلسنت وجماعت کے ایک اور مشہور عالم دین ترجمہ ضیاء القرآن میں جسٹس پیر کرم شاہ الازھری صاحب نے لکھا ہے؛
ترجمہ آیت؛۔ اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے اور اگر یہ لوگ جب ظلم کربیٹھے تھے اپنے آپ پر حاضر ہوتے آپ کے پاس اور مغفرت طلب کرتے اللہ تعالیٰ سے نیز مغفرت طلب کرتا ان کے لیے رسول (کریم) بھی تو وہ ضرور پاتے اللہ تعالیٰ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا نہایت رحم کرنے والا۔
سرخیلِ سلف الصالحین حضرت علامہ حافظ جلال الدین ابوبکر السیوطی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور ترجمہ درمنثور میں یوں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے پیغمبر نہیں بھیجے مگر اسی لئے کہ بحکم خداوندی ان کی فرمانبرداری کی جائے اور جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آپ کے پاس آتے پھر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول ان کے لئے استغفار کرتا تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربانی فرمانے والا پالیتے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مجرم کے لیئے ہروقت تاقیامت وسیلہٗ مغفرت ہیں۔ ظلموا میں کوئی قید نہیں اور اذنِ عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔
قرآن کی سورت المائدہ پارہ ۶ آیت ۳۵ میں اللہ رب العزت فرماتا ہے؛۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔
ترجمہ ؛۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور رب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اسکی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈنا ضروری ہے۔کیونکہ اعمال تو اتقوااللہ میں آگئےاور اسکے بعد وسیلہ کا حکم فرمایا ۔ معلوم ہوا کہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔
ذیل میں مختصراً قرآنِ کریم کی آیات بطور سند پیش کی جارہی ہیں ۔ وسیلہ (جسکا لغوی معنی تقرب حاصل کرنا۔ یا کسی بڑے ذریعہ تک پہنچنے کا راستہ ہوتا ہے، بحوالہ لغات العرب، لسان العرب و تاج العروس)قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے اور اس حکم کا ذکر ان مندرجہ ذیل آیات میں موجود ہے۔
سورۃ التوبہ ۔ پارہ ۱۱۔ سورہ جمعہ پارہ ۲۸ آیت ۲۔ پارہ اول سورہ البقرہ ۔ آیت نمبر ۸۹ ۔و۔ ۳۷۔ پارہ دوئم ۲۔ سورہ بقر آیت نمبر ۱۴۴۔
ان تمام آیتوں سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم ان کے فعل پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ تائید کرتا ہے اور فرمایا گیا کہ ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ پھر دوسرے حوالے کے مطابق۔ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے انکی دعا قبول فرمائی۔ بہت سے مفسرین ِ کرام فرماتے ہیں کہ آدم ؑ نے جب نبی کریم ؑ کے نام کے وسیلہ سے دعا کی جو مقبول ہوئی ۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺانبیائے کرام کابھی وسیلہ ہیں۔ پھر قرآن حکیم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ۔ ہم آپ کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہےہیں۔ اچھا ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیرے دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں۔ ۔ یعنی معلوم ہوا کہ تبدیلیٗ قبلہ صرف اسی لیئے ہوئی کہ نبی کریم ﷺ کی یہ خواہش تھی ۔ یعنی مکہ معظمہ حضور علیہ السلام کے وسیلے ہی سے تو قبلہ بنا ۔ جب کعبہ نبی کریم ﷺ کے وسیلے کا محتاج ہے تو ماوشما کا کیا پوچھناہے۔
قرآن ہی میں فرمایا گیا ؛۔وکان ابوھما صالحاً فارادربک ان یبلغا اشدھما ویستخرجا کنزھما۔
ترجمہ؛۔ حضرت خضر(علیہ السلام) نے دیوار بنا کر موسی ٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیم بچوں کا سرمایہ ہے ان کا باپ نیک تھا اس لیئے رب نے چاہا کہ ان کا خزانہ محفوظ رہے اوریہ جوان ہوکر اپنا خزانہ نکال لیں۔ (بحوالہ پارہ ۱۶ سورہ الکہف۔ آیت نمبر ۸۲)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
معلوم ہوا کہ ان یتیم بچوں پر رب کا یہ کرم ہوا کہ ان کی شکستہ دیوار بنانے کے لیئے دومقبول بندے بھیجے گئے اسکی وجہ یہ تھی کہ ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ یعنی نیک باپ کے وسیلہ سے اولاد پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے۔
اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ ایھم اقرب ویرجون رحمتہ ویخافون عذابہ۔
ترجمہ؛۔ وہ مقبول بندے جن کی بت پرست پوجا کرتے ہیں وہ خود اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اسکی رحمت کی ماید رکھتے ہیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ جن نیک بندوں کی کفار پوجا کرتے ہیں ان میں سے ہرایک اللہ سے زیادہ قرب والے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس تلاشِ وسیلہ پر اعتراض نہیں فرمایا۔ نا ہی کہیں پر یہ لکھا کہ وسیلہ کرنا (غیراللہ سے مدد ہے یا کفر شرک یا بدعت کہلائے گا)۔ پھر فرمایا؛۔
ولولا رجال مومنون ونساء مومنات لم تعلموھم ان تطاھم فتصیبکم منھم معرۃ بغیر علم لیدخل اللہ فی رحمتہ من یشآء لو تزیلو العذبنا الذین کفروا منھم عذاباً الیما۔
ترجمہ؛۔ اگر کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں جن کو تم نہیں جانتے ( اگر اس امر کا اندیشہ نہ ہوتا) کہ تم ان کو پیس ڈالتے پھر تم پر خرابی آپڑتی ان کی طرف سے بے خبری میں (فتح توہوجاتی) لیکن اس میں دیر اسلیئے ہوئی تاکہ اللہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمائے۔ اگر وہ مسلمان کفارِ مکہ سے جدا ہوجاتے تو ہم کافروں کو دردناک عذاب کی سزا دیتے۔
معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کچھ مسلمان رہ گئے تھے ۔ یعنی شہر میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا ہونا بے دینوں کے امن کا وسیلہ ہوتا ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
وقال الذین غلبوا علی امرھم لنتخذن علیھم مسجدا۔
ترجمہ؛۔ غالب آنے والے لوگ بولے کہ ہم اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے۔ (پار ہ ۱۵ سورہ الکہف آیت ۲۱)۔
قرآن مجید فرقانِ حمید کی اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ بزرگوں کی قبروں کے پاس مسجد بنانا تاکہ ان کے وسیلہ سے نماز میں برکت ہو اور زیادہ قبول ہو ہمیشہ سے مسلمانوں کا دستور رہا ہے۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کی قبر کے پاس نماز کے لیئے مسجد بنانے کا ذکر کیا اور اسکی تردید نہیں کی جس سے پتہ لگا کہ ان کا یہ کام اللہ تعالیٰ کو پسند ہوا۔
اذھبوا بقمیصی ھذا فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا۔ (پارہ ۱۲ سورہ یوسف)۔
ترجمہ؛۔ یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے فرمایا کہ میری قمیص لے جاو اور میرے والد ماجد کے چہرے پر ڈال دو ۔ ان کی آنکھیں بینا ہوجائیں گی۔
معلوم ہوا کہ بزرگوں کے لباس کے وسیلہ سے دکھ درد دور ہوجاتے ہیں اور شفا ملتی ہے۔ یعنی تبرکاتِ بزرگ (کفر شرک یا تبلیغیوں کی متعارف کردہ بدعت نہیں )۔
لا اقسم بھذا البلد۔ وانت حل بھذا البلد۔ ترجمہ۔ میں قسم فرماتا ہوں اس شہرِ مکہ کی کہ اے محبوب! اس میں تم تشریف فرما ہو ۔ معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت ملی کہ رب نے اسکی قسم فرمائی (سورہ البلد۔ پارہ ۳۰۔ آیت نمبر ا تا ۲)۔
قرآن حمید میں ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
والتین والزیتون وطور سینین وھذا البلد الامین۔ ترجمہ۔ یعنی قسم ہے انجیر زیتون اور طور کی اور اس امانت والے شہر کی۔ (پارہ ۳۰ سورۃ التین آیت نمبر ۱تا ۲)۔
اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے انجیر اور طور کے پہاڑ کو عزت ملی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے مکہ شریف کو ایسی برکت حاصل ہوئی کہ اس کی قسم رب نے فرمائی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ کا نفع بے جان چیزوں کو بھی پہنچ جاتا ہے۔
ان ایۃ ملکہ ان یاتیکم التابوت فیہ سکینۃ من ربکم وبقیۃ مما ترک ال موسی و ال ھرون تحملہ الملٰئکۃ۔ (پارہ ۲ سورہ البقرۃ)۔
شموئیل علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ طالوت کی بادشاہت کی دلیل یہ ہے کہ ان کے پاس تابوتِ سکینہ آئے گا جس میں حضرت موسیٰ وہارون علیھما السلام کے تبرکات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ صندوق دیا تھا جس میں موسیٰ علیہ السلام کا نعلین مبارک اور ہارون علیہ السلام کی دستار مبارک اور دیگر تبرکات تھے جسے بنی اسرائیل جنگ میں اپنے آگے رکھتے تھے جس کی مدد وسیلہ اور برکت سے دشمنوں پر فتح پاتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ بزرگوں کے تبرکات کے وسیلہ سے بھی آفات دور ہوتی ہیں مشکلات حل ہوتی ہیں ۔ اور کہیں بھی ایسے وسلیے کو کسی نے (غیراللہ سے مدد) کا گھٹیا نام نہیں دیا۔
انی اخلق لکھم من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیراً باذاللہ۔ (پارہ ۳۔ سورہ آل عمران)
ترجمہ؛۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں مٹی سے پرندے کی شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں۔ جس سے وہ باذنِ پروردگار پرندہ بن جاتا ہے۔
یعنی پتہ یہ چلا کہ بزرگوں کے دم کے وسیلہ سے مٹی میں جان پڑجاتی ہے اور بیماروں کو شفا ملتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتھا وکذلک سولت لی نفسی۔
ترجمہ؛۔ سامری بولا کہ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی گھوڑی کی ٹاپ کے نیچے سے ایک مٹھی مٹی لی اور سونے کے بچھڑے کے منہ میں دی (اوربچھڑا آواز دینے لگا)۔ (سورہ طٰہٰ آیت نمبر ۹۶)۔
پتہ لگا کہ جبرائیل امین علیہ السلام کی گھوڑی تک کے پاوں کی خاک کے وسیلہ سے سونے کے بے جان بچھڑے میں جان پڑگئی۔
قال یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم۔ ترجمہ۔ فرمادو کہ تم کو ملک الموت وفات دیں گے جو تم پر مقرر کئے گئے ہیں معلوم ہوا کہ حضرت ملک الموت کے وسیلہ سے جان نکلتی ہے۔ (پارہ ۲۱ سورہ السجدہ)۔
قل انما انا رسول ربک لاھب لک غلاماً زکیا۔ (پارہ ۱۶ سورہ مریم آیت نمبر ۱۹)۔
ترجمہ؛۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں تمہارے رب کا قاصد ہوں اسلیے آیا ہوں کہ تمہیں ستھرا بیٹا بخشوں۔
یعنی پتہ چلا کہ حضرت جبریل علیہ السلام کے وسیلہ سے اللہ کی عطا سے لڑکا ملا۔
وماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم ۔ ترجمہ۔ اللہ انہیں عذاب نہ دیگا حالانکہ آپ ان میں تشریف فرما ہیں۔ (پارہ ۹ سورہ الانفال)۔
یعنی اہل مکہ عذاب سے اسلیئے بچے ہوئے ہیں کہ ان پر آپ جلوہ گر ہیں معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ بابرکات عذابِ الٰہی سے امن کا وسیلہ ہے۔
واذ قلتم یاموسیٰ لن نصبر علی طعام واحد فادع لنا ربک یخرج لنا مماتنبت الارض من بقلھا۔ (پارہ ۱ سورہ البقرہ)۔
ترجمہ؛۔ اور جب تم (بنی اسرائیل) نے کہا اے موسیٰ ہم ایک کھانے (یعنی من و سلویٰ) پر ہرگز صبر نہ کریں گے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار نکالے۔
یعنی بنی اسرائیل جب کوئی بات رب سے عرض کرنا چاہتے تو پہلے موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوتے اور پھر ان کے ذریعے مدد استعانت وسیلہ کے بل پر دعا کرتے جو کہ مقبول ہوجاتی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ھنالک دعا زکریا ربہ۔ ترجمہ۔ یعنی حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو بے موسم پھل کھاتے ہوئے دیکھ کر زکریا علیہ السلام نے مریم رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوکر فرزند کے لیئے دعا مانگی۔ (پارہ ۳ سورہ آلِ عمران)۔
پتہ چلا کہ بزرگوں کے پاس دعا مانگنا زیادہ باعثِ قبولیت ہے اگرچہ دعا مانگنے والا زیادہ بزرگ ہو۔
جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ قرآن مجید کی سورہ النسا کی آیت ۶۴ ایک واضح دلیل ہے اور اس پر ابن کثیر کا یہ قول بھی دیا گیا کہ حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفیٰ ۷۷۴ھ نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عاصیوں اور گنہگاروں کو یہ ہدایت دی ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ ہوجائے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوں اور آپ علیہ السلام کے پاس آکر استغفار کریں اور رسول کریم علیہ السلام سے یہ گزارش کریں کہ آپ بھی ان کے لیئے اللہ دے سفارش فرمائیں اور جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کو قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پائیں گے۔ مفسرین کی ایک جماعت نے بیان کیا ان میں شیخ ابومنصور الصباغ بھی شامل ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب الشامل میں عتبی کی یہ مشہور حکایت بھی تحریر فرمائی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ انور یعنی (قبر نبی) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی نے آکر کہا (السلام علیک یارسول اللہ، میں نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد سنا ہے: ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاوک ۔۔۔۔الی الآخر) اور میں آپ کے پاس آگیا ہوں اور اپنے گناہ پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کی بارگاہ میں آپ سے شفاعت طلب کرنے والا ہوں، پھر اس نے دو شعر پڑھے:۔
یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ ۔ فطاب من طیبھن القاع الاکم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ ۔ فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
ترجمہ؛۔ اے وہ جو زمین کے مدفونین میں سب سے بہتر ہیں ۔ جن کی خوشبو سے زمین اور ٹیلے خوشبودار ہوگئے
میری جان اس قبر پر فدا ہو جس میں آپ ساکن ہیں ۔ اس مین عفو ہے اس میں سخاوت ہے اور لطف و کرم ہے
امام ابن کثیر آگے لکھتے ہیں ۔
تم انصرف الاعرابی ، فغلبتنی عینی ، فرایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی النوم فقال: (یا عتبی الحق الاعرابی فبشرہ ان اللہ قد غفرلہ)۔
یعنی پھر وہ اعرابی چلا گیا ، عتبی بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر نیند غالب آگئی ، میں نے خواب میں سرورکائنات ﷺ کی زیارت کی اور آپ نے فرمایا اے عتبی! اس اعرابی کے پاس جاکر اس کو خوشخبری کی نوید دو کہ اللہ نے اسکی مغفرت کردی ہے۔
حوالہ؛ تفسیر ابن کثیر جلد ۴ زیر تحت سورہ النسا آیت ۶۴ صفحہ ۱۴۰ مطبعہ الفاروق الحدیثۃ للطاعۃ والنشر ھاتف۔ القاھرہ۔
ایسا ہی بیان الجامع الاحکام القرآن ج ۵ ص ۲۶۵، تفسیر البحر المحیط ج ۳ ص ۲۹۴ ، تفسیر مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ۱ ص ۳۹۹ پر بھی موجود ہے۔ اور احادیث کے باب میں مزید اسی حدیث پر تحقیق پیش کی جائے گی وہاں سے استفادہ کیجئے۔
مخالفین کے مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:۔
یہ آیت اگرچہ خاص منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، لیکن اس کے الفاظ سے ایک عام ضابطہ نکل آیا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ اسکے لیئے دعا مغفرت کردیں اسکی مغفرت ضرور ہوجائے گی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیاوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے، اسکے بعد مفتی صاحب نے بھی عتبی کی مذکورالصدر حکایت بیان کی ہے۔ (بحوالہ تفسیر معارف القرآن ج ۲ صفحات ۔ ۴۵۹ اور ۴۶۰ ، مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دیوبندیوں کے ایک اور مشہور عالم محمد سرفراز گکھڑوی نے لکھا ہے؛۔
عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین نے اسکا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے اسی طرح دیگر متعدد علماء کرام نے قدیماً و حدیثاً اس کو نقل کیا ہے اور حضرت تھانوی لکھتے ہیں کہ مواہب میں بہ سند امام ابومنصور صباغ اور ابن النجار اور ابن عساکر اور ابن الجوزی رحمہم اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی سے روایت کیا ہے کہ میں قبرمبارک کی زیارت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی ۤیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیرالرسل، اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاء وک فاستغفرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ تواباً رحیما اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوں اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے۔ اور اس محمد بن حرب کی وفات ۲۲۸ھ میں ہوئی ہے، غرض زمانہ خیرالقرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں، پس حجت ہوگیا (بحوالہ نشر الطیب ص ۲۵۴) اور حضرت مولانا تھانوی یہ آیت کریمہ لکھ کر فرماتے ہیں؛( کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں، اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیئے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں(بحوالہ آب حیات ص ۴۰) اور حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی یہ سابق واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں: پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بھی باقی ہے۔ (بحوالہ اعلا السنن ج ۱۰ ص ۳۳۰)۔
یعنی منکرینِ توسل کے اپنے ان اکابرین کے بیان سے بھی معلوم ہوگیا کہ قبر پر حاضر ہوکر شفاعت مغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے، بلکہ امام سبکی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے۔ (بحوالہ شفا السقام ص ۱۲۸) اور خیرالقرون میں یہ کاروائی ہوئی، مگر کسی نے انکار نہیں کیا جو اسکے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے۔ (تسکین الصدور ص ۳۵۶ و ۳۶۶ ملخصاً مطبوعہ ادارہ نصرت العلوم گوجرانوالہ)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تفسیر ضیا القرآن جلد ۱ ص ۳۵۹ و ۳۶۰ زیر تحت اسی آیت حضرت جسٹس کرم شاہ الازھری تحریر فرماتے ہیں؛۔
یعنی اےرحمتِ مجسم ! اگر یہ دنیا بھر کے قصور کرکے اور اپنی جانوں پر طرح طرح کے ظلم توڑنے کے بعد بھی نادم و تائب ہوکر تیرے حضور میں حاضر ہوتے ہوں تو ان پر اپنا درِ کرم باز رکھ۔ جب ان کی شفاعت و بخشش و رستگاری کے لیئے تیرا ہاتھ میری بارگاہ ِ جودوعطا میں اٹھے گا تو خواہ وہ کتنے گنہ گار رُوسیاہ اور بدکار کیوں نہ ہوں تیرے رب کی رحمت ان کو مایوس نہیں کرے گی بلکہ ان کی توبہ قبول کرلی جائے گی اور ان بیگانوں کو اپنا بنا لیا جائے گا۔ حصورِ اکرم شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ برکت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی تک محدود نہ تھی بلکہ تاابد ہے ۔ اہل دل اور اہل نظر ہرلمحہ اور ہرآن اسکا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے تین روز بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا اور (فرطِ رنج و غم سے) مزارِ پرانوار پر گرپڑا اورصلی اللہ علیہ وسلم خاکِ پاک کو اپنے سر پر ڈالا۔ اور عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو آپ نے فرمایا ہم نے سنا، جو آپ نے اپنے رب سے سیکھا وہ ہم نے آپ سے سیکھا اور اسی میں یہ آیت بھی تھی ولو انھم اذ ظلموا انفسھم (الخ) میں نے اپنی جان پر بڑے بڑے ستم کیئے ہیں۔ اب آپکی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ اے سرابا شفقت و رحمت ! میری مغفرت کے لیئے دعا فرمائیے۔ فنودی من القبر انہ قد غفرلک۔ (القرطبی) تو مرقد منور سے آواز آئی تجھے بخش دیا گیا۔
(بحوالہ تفسیر قرطبی جلد ۳ پارہ ۵ سورہ النسا آیت ۶۴اردو ص ۲۶۹ ضیا القرآن پبلیکیشنز لاھور و تفسیر الجامع لاحکام القرآن للقرطبی عربی جلد ۶ ص ۴۳۹ موسسۃ الرسالۃ بیروت پبلشرز)۔
تفسیر مدارک اور خازن میں بھی یہی مندرج ہے اور اسی کو تفسیر نعیمی میں بھی صفحہ ۱۹۴ پر درج کیا گیا ہے اور فرماتے ہیں؛۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاجات عرض کرنے کے لیئے اسکے مقبول بندوں کو وسیلہ بنانا کامیابی کا ذریعہ ہے قبر پر حاجت کے لیئے جانا بھی جاوک میں داخل ہے اور زمانہ صحابہ میں مروج تھا۔ مقبولانِ خدا کو (یا) کہہ کر پکارنا جائز ہے ، رب کے مقبول بندے بعد وفات بھی مدد کرتے ہیں اور ان کی دعا سے حاجتیں پوری ہوتی ہے۔ (خزائن العرفان)۔ چھٹا فائدہ : حضور کی بارگاہ میں حاضری کے لیئے مدینہ پاک جانا ضروری نہیں۔ جہاں سے رہ کر بھی ان کا توسل کیا جائے تو بھی حاضری میسر ہوجاتی ہے دیکھو یہاں جاٗوک تو فرمایا مگر فی المدینۃ کی قید نہ لگائی۔ (بحوالہ اشرف التفاسیر تفسیر نعیمی از حضرت حکیم الامت مولانا مفتی احمد یارخاں نعیمی بدایونی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ مکتبہ اسلامیہ ۴۰ اردو بازار لاھور)۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مدد استعانت کا یہی عقیدہ صفحہ ۱۷۵ و ۱۷۶ پر بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی سفارش کے بنا کسی کی توبہ بھی مقبول نہیں اور یہ کہ خالص صدق دل سے توبہ اسی وقت مقبول ہوتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفارش فرمادیں اور اللہ کے نزدیک آپ کی سفارش کا درجہ عظیم ہے
(مکمل حوالہ ۔ تفسیر حدائق الروح والریحان فی روابی علوم القرآن۔ للشیخ علامہ محمد الامین بن عبداللہ الارمی العلوی الھرری الشافعی ، مکہ المکرمہ جلد ۶ دارطوق النجاۃ)۔
تفسیر الجیلانی میں بھی لکھا ہے کہ ؛۔
جاٗوک ۔ تائبین معتذرین مما صدر عنھم (فاستغفراللہ) مخلصین نادمین (واستغفرلھم الرسول) ایضاً بالاستشفاع والاستدعاٗ من اللہ بالقبول بعدما جا وا معتذرین (لوجدوا اللہ) وصادقوہ مفضلاً کریماً (تواباْ) یقبل توبتھم (رحیما) ۔ لھم یفقھم علیھا۔
یعنی گنہ گاروں تائبین کے لیئے ضروری ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی سفارش فرمائیں تو بے شک اللہ انکی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ ، شیخ نے (واستغفرلھم الرسول) کے بارے میں فرمایا کہ (من وجودھم مع الیٰ الآخر) یعنی رسول کریم علیہ السلام کا سفارش فرمانا انکے انقلابِ قلب کی دلالت ہے اور ان کی شہادت کے بنا توبہ کا حصول اصل کے بنا ہے۔
(حوالہ؛ تفسیر الجیلانی الغوث الربانی والامام الصمدانی ۔ للشیخ سیدی محی الدین عبدالقادر الجیلانیؓ المتوفیٰ ۷۱۳ھ۔تحقیق شیخ احمد فرید المزیدی، جلد ۱ صفحات ۳۷۲ و ۳۷۳المکتبۃ المعروفیہ کوئٹہ پاکستان عربی تفسیر)۔
اب ذیل میں چند دیگر مشہور قدیم تفسیراتِ قرآنی کے صرف حوالے درج کیئے جارہے ہیں کہ جس میں فرداً فرداً یہی سب جو کچھ اوپر بیان ہوچکا موجود ہے
تفسیر الکشاف عن حقائق التنزیل ، تالیف ابی القام امام جاراللہ محمود بن عمر الزمخشری الخوارزمی ویلیہ الکافی الشٰاف فی تخریج احادیث الکشاف از امام الحافظ احمد بن حجر العسقلانی، زیر تحت سورہ النسا صفحہ آیت ۶۴ صفحہ ۲۷۷ و ۲۷۸جلد ۱ دارالمعرفۃ بیروت لبنان
تفسیر القاسمی ، المسمی محاسن التاویل تالیف العلامۃ الشام محمد جمال الدین القاسمی ۔طبعۃ محمد فواد عبدالباقی صفحات ۱۳۶۰ و ۱۳۶۰ (استغفارالرسول صارت مستحقۃ للقبول) باب تنبیہات۔ وجہ نمبر ۷۔
انوار التنزیل المعروف بتفسیر البیضاوی تالیف ناصر الدین ابی الخیر عبداللہ بن عمر بن محمد الشیرازی الشافعی البیضاوی (ت ۶۹۱ھ) ، (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)ص ۸۱ ج ۲ دار احیاٗ التراث العربی ، و، موسستہ التاریخ العربی بیروت ۔
تفسیر حاشیۃ محی الدین شیخ زادہ علیٰ تفسیر القاضی البیضاوی۔ محمد بن مصلح الدین مصطفیٰ القوجوی الحنفی جز ۳ ص۳۵۳ و ۳۵۶، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
تفسیر تیسیر الکریم المنان ، ص ۳۱۹ (زندگی اور موت دونوں میں آپ کی مدد کا حکم) از عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی، دار ابن الجوزی
امام نسفی لکھتے ہیں؛۔
بلتحاکم الی الطاغوت (جآءوک) تائبین من النفاق، معتذرین عما ارتکبوا من الشقاق (فاستغفراللہ) من النفاق والشقاق (واستغفرلھم الرسول) بالشفاعہ لھم۔ والعامل فی (از ظلموا) خبر ان وھو (جاؤوک) والمعنی : ولو وقع مجیئھم فی وقت ظلمھم مع استغفارھم واستغفار الرسول۔ (لوجدوا اللہ توبا) لعلموہ تواباً، ای : لتاب علیھم ، ولم یقل : استغفرت لھم، و عدل عنہ الی طریقۃ الالتفات تفخیماً لشانہ صلی اللہ علیہ وسلم و تعظیماً لاستغفارہ، وتنبیھاً علی ان شفاعتہ من اسمہ الرسول من اللہ بمکان۔ (رحیما) بھم۔ قیل: جاء اعرابی بعد دفنہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمی بنفسہ علی قبرہ، وحثا من ترابہ علی راسہ، وقال: یارسول اللہ! قلت فسمعنا ، وکان فیما انزل علیک (ولو انھم از ظلموا انفسھم۔۔۔) الآیۃ وقد ظلمت نفسی ، وجئتک استغفراللہ من ذنبی ، فاستغفر لی من ربی ۔ فنودی من قبرہ: قد غفرلک!۔
ترجمہ؛۔ وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ (نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول کبھی بھی مگر اسلیئے تاکہ اسکی اطاعت کی جائے اللہ تعالیٰ کے اذن سے) باذن اللہ کا مطلب۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کی توفیق بخشی اور اس میں آسانی فرمائی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی کا ترجمہ۔۔۔۔۔اور جبکہ انہوں نے طاغوت کے پاس فیصلہ کرانے کے لیئے جانے کے سبب اپنے نفسوں پر ظلم کرلیا تھا (جآءوک) (آپ کے پاس آجاتے) نفاق ے سچی توبہ کرکے اور رسول ﷺ کی مخالفت کرنے کی معذرت کرلیتے۔ فاستغفراللہ (پھر نفاق شقاق سے سچی توبہ کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتے) واستغفرلھم الرسول (اور رسول اللہ ﷺ بھی ان کے لیئے استغفار فرماتے) ان کی معافی کی سفارش کرکے (لوجدوا اللہ تواباً) وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا (رحیما) (مہربان پاتے)۔ جاٗوک پھر مزید تفسیر میں فرمایا ہے۔ اگر ان کی آمد اس ظلم کے وقت میں استغفارِ ذاتی اور شفاعت رسول کے ساتھ ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما لیتا۔ استغفرت لھم نہیں فرمایا بلکہ اسکی بجائے استغفرلھم الرسول فرمایا اس سے آپ کی عظمتِ شان اور آپ کے استغفار کا مقام و مرتبہ ظاہر فرمانا مقصود ہے۔ اور اس پر متنبہ فرمایا کہ جس ہستی کو رسول کہتے ہیں ان کی شفاعت کا بارگاہ الٰہی مین بڑا مرتبہ ہے۔ پھر فرماتے ہیں۔ ایک بدو آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے اورآپ ﷺ کے دفن ہونے کے بعد آپ ﷺ کی قبر مبارک پر آیا ۔۔۔۔۔ (پھر وہی حدیث بیان کی اور آخر میں لکھا ہے) آپ ﷺ کی قبر انور سے صدا آئی اللہ تعالیٰ نے تمہیں بخش دیا ۔ (حوالہ ؛ مدارک التنزیل وحقائق التاویل جلد ۱ ص ۳۷۰ از ابی البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی ۔ دارالکلم الطیب بیروت۔ جبکہ اسی کی اردو ترجمہ صفحہ ۶۲۸ جلد ۱ پر خوارج کے مترجم نے ایک بریکٹ میں یہ شوشا چھوڑا ہے اور تفسیر میں اپنے الفاظ کو امام سے نتھی کرنے کی ایسے کوشش کی ہے کہ بریکٹ میں لکھا ہے۔ ۔۔۔۔ (احادیث کی معتبر کتابوں میں اس روایت کا ثبوت نہیں ملتا۔ اسی لیئے علامہ نسفی نے قیل کے کمزور الفاظ سے ذکر کیا ہے)۔ صحابہ کرامؓ نے اسکو قبر مبارک کے پاس اسطرح کیونکر چھوڑا ہوگا۔ (معاذ اللہ یہ تحریف اور جاہلانہ بکواس صفحہ ۶۲۸ پر مولانا شمس الدین کا کارنامہ ہے اور اس بیہودہ اور غلط چیز کو چھاپنے والا ان کا اپنا ادارہ مکتبۃ العلم لاہور پاکستان ہے۔
یعنی آپ سوچیں کہ شروع اسلام سے جو چیز قرآن کا حکم، شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت، صحابہ کا عملِ حجت اور سلف الصالحین کے مطابق مستند ترین روایت ہے جسکا آگے ذکر احادیث کے باب میں جرح و تعدیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اور جس کو امام الشیخ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر میں دیگر سلف الصالحین کی تفسیرات کے مطابق ذکر کیا ہے اس سے اپنے دلی بغض اور انکار کا اظہار وہ دورجدید کا گمراہ مُلا کررہا ہے جس کو استاذ التفسیر والحدیث کے لقب دے کر انہوں نے یہ تحریف شدہ کام سرانجام دیا ہے۔ اللہ ایسے ایمان کے راہزنوں سے ہم کو محفوظ فرمائے اور ان کو ہدایت کا راستہ عطا کرے۔ یہ تو ان کی کل بساط و اوقات ہے اور اسی کے بل پر ان لوگوں کی مذہبی دکانداری چمک رہی ہے اور عوام گمراہ ہوتی ہے۔ میرے پاس اسی تفسیر کا مخطوطہ اور اسکے عکس محفوظ ہیں اس میں ایسا کوئی انکار نہیں لکھا گیا۔ حوالہ مخطوطہ ۔ مکتبۃ جامعۃ الملک سعود (کنگ سعود یونیورسٹی ریاض) قسم المخطوطات۔ الرقم ۴۹۲۳ ف ۱۱۰۷۳۔موجود ہے۔ جو کہ آخر میں دیئے گئے ویب سائٹ لنکس میں بھی پڑھا اور ڈاونلوڈ کیا جاسکتا ہے۔
عتبی والی حدیث کا یعنی اسی حدیث کا ذکر ایک اور سلف الصالح امام سخاوی نے بھی فرمایا ہے اور اشعار بھی لکھے ہیں ان کی تفسیر کے صفحہ ۱۸۷ و ۱۸۸ پر رسول اللہ علیہ السلام سے یہ روایت بھی کی گئی ہے کہ انہوں نے زبیرؓ سے بھی دعا کروانے کی روایت لکھی ہے۔ بحوالہ تفسیر القرآن العظیم ۔ علامہ ابی الحسن علی بن محمد السخاوی المصری الشافعی ؒ جلد ۱ دار النشر للجامعات ۔ دار ابن حزم قاھرہ۔
تفسیر السمرقندی المسمیٰ بحر العلوم ص ۳۴۰ و ۳۴۱ جلد ۱ دارالفکر بیروت۔ تالیف الامام الفقیہہ المحدث الصوفی نصر بن محمد بن احمد ابواللیث السمرقندی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ میں بھی زبیر رضی اللہ عنہ والی حدیث کا ذکر ہے۔اور توسل پر یہی کچھ تحریر ہے جو پہلے بیان ہوچکا۔
اسی طرح جیسے کہ پہلے ذکر ہوا کہ توسل کا ذکر مختلف معنوں میں اور واقعات میں قرآن مجید فرقان حمید میں بارہا آیا ہے جیسے کہ سورۃ آلِ عمران کی آیت ۵۲ ہے:۔
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْھُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ ۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران آیت ۵۲)۔
ترجمہ کنزالایمان شریف:۔ پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا (ف ١٠٦) بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف ، حواریوں نے کہا (ف ١٠٧) ہم دین خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے ، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں (ف ١٠٨)
ترجمہ درِ منثور از امام جلال الدین سیوطیؒ:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے انکار دیکھا تو کہنے لگے کہ کون ہیں جو میرے مددگار ہوجائیں اللہ کی طرف، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
ترجمہ ضیاٗ القرآن از پیر کرم شاہ الازھریؒ:۔
پھر جب محسوس کیا عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ان سے کفر (و انکار) (تو) آپ نے کہا کون ہے میرے پروردگار کی راہ میں ؟ ( یہ سن کر) کہا حواریوں نے کہ ہم مدد کرنے والے ہیں اللہ (کے دین) کی ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ گواہ ہو جائیو کہ ہم (حکمِ الٰہی کے سامنے) سر جھکائے ہوئے ہیں۔
ترجمہ عرفان القرآن از ڈاکٹر طاہر القادری:۔
پھر جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا : اللہ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں ؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا : ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں
ترجمہ وہابیہ؛ از عبدالکریم اثری:۔
پھر عیسیٰ نے بنی اسرائیل میں کفر دیکھا تو وہ پکار اٹھا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو ؟ اس پر اس کے چند حواریوں نے اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور تم گواہ رہو کہ ہم اس کی فرمانبرداری میں مکمل طور پر داخل ہو گئے
ترجمہ تیسیر القرآن مولانا عبدالرحمٰن کیلانی دیوبندی:۔
پھر جب عیسیٰ کو ان کے کفر و انکار کا پتہ [٥١] چل گیا تو کہنے لگے : کوئی ہے جو اللہ (کے دین) کے لیے میری مدد کرے ؟” حواری [٥٢] کہنے لگے : ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور گواہ رہئے کہ ہم مسلمان (اللہ کے فرمانبردار) ہیں
ترجمہ سلفی: فہم القرآن از میا محمد جمیل:۔
پھر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر محسوس کیا تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون ہوگا ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں
ترجمہ وہابیہ: از حافظ عبدالسلام بھٹوی:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر محسوس کیا تو اس نے کہا کون ہیں جو اللہ کی طرف میرے مددگار ہیں ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور گواہ ہوجا کہ بیشک ہم فرماں بردار ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ وہابیہ سلفیہ؛ بیان القرآن از ڈاکٹر اسرار احمد:۔
پس جب عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ ‘ لیا تو انہوں نے پکار لگائی کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں ؟ کہا حواریوں نے کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار ہم ایمان لائے اللہ پر اور آپ ( علیہ السلام) بھی گواہ رہیے گا کہ ہم اللہ کے فرماں بردار ہیں
ترجمہ آسان قرآن از مفتی تقی عثمانی دیوبندی:۔
پھر جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ وہ کفر پر آمادہ ہیں، تو انہوں نے (اپنے پیرووں سے) کہا : کون کون لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہوں ؟ حواریوں (٢٢) نے کہا : ہم اللہ ( کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لاچکے ہیں، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔
ترجمہ انوارالبیان از مولانا عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے انکار دیکھا تو کہنے لگے کہ کون ہیں جو میرے مددگار ہوجائیں اللہ کی طرف، حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیے کہ ہم فرمانبر دار ہیں
ترجمہ مدنی (وہابیہ) مولانا اسحاق مدنی:۔
پھر جب عیسیٰ نے ان کی طرف سے کفر ہی محسوس کیا، تو کہا کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں ؟ تو آپ کے حواریوں نے (جو کی آپ کے خاص ساتھی تھے، انہوں نے) کہا کہ ہم ہیں مددگار اللہ (کے دین) کے، ہم (سچے دل سے) ایمان لائے اللہ پر، اور آپ گواہ رہیے کہ ہم پکے فرمانبردار ہیں
ترجمہ ابن کثیر (فتح محمد) وہابیہ:۔
جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے نافرمانی (اور نیت قتل) دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو خدا کا طرفدار اور میرے مددگار ہو حواری بولے کہ ہم خدا کے (طرفدار آپکے) مددگار ہیں ہم خدا پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں
ترجمہ مکہ از مولوی جونا گڑھی (وہابیہ سلفیہ، مطبع شاہ فہد کمپلیکس ریاض)۔
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ عثمانی از مترجم مولانا محمود الحسن دیوبندی:۔
پھر جب معلوم کیا عیسیٰ نے بنی اسرائیل کا کفر ف ١ بولا کون ہے کہ میری مدد کرے اللہ کی راہ میں ف ٢ کہا حواریوں نے ہم ہیں مدد کرنے والے اللہ کے ف ٣ ہم یقین لائے اللہ پر اور تو گواہ رہ کہ ہم نے حکم قبول کیا ف ٤
ترجمہ بیان القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی:۔
سو جب حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ان سے انکار دیکھا تو آپ نے فرمایا کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مددگار ہوجاویں الله کے واسطے حواریین بولے کہ ہم ہیں مددگار الله (کے دین) کے ہم الله تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ اس کے گواہ رہئیے کہ ہم فرمابردار ہیں۔
ترجمہ قرآن از شاہ عبدالقادر(دیوبندی وہابی):۔
٥٢۔ پھر جب معلوم (محسوس) کیا عیسیٰ نے بنی اسرائیل کا کفر، بولا، کون ہے کہ میری مدد کرے اللہ کی راہ میں ؟ کہا حواریوں نے، ہم ہیں مدد کرنے والے اللہ کے، ہم یقین لائے اللہ پر اور تو گواہ رہ کہ ہم نے حکم قبول کیا۔
تفسیر روح القرآن ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی اس آیت کے ماتحت لکھتے ہیں؛۔
(اور جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کو بھانپ لیاتو آپ نے دعوت دی کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے جواب دیا ہم ہیں اللہ کے مددگار اور ہم ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور آپ گواہ رہئے کہ ہم مسلم ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لائے اس چیز پر جو تو نے اتاری اور ہم نے رسول کی پیروی کی، سو تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ) (٥٢ تا ٥٣)
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قوم کے قابل ذکر اور با اثر لوگوں سے مایوس ہو کر عام لوگوں کی طرف رخ فرمایا۔ اس سے ہمیں پیغمبروں کی سنت سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے اور حکمت تبلیغ کو جاننے کی بھی۔ پیغمبروں کی سنت ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ دعوت تو سب کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن اپنا خصوصی ہدف ان لوگوں کو بناتے ہیں، جن کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر یہ لوگ راہ راست پر آجائیں تو ان کے زیر اثر لوگ ان کی اس نئی تبدیلی کی پیروی کریں گے کیونکہ لوگوں میں ہمیشہ یہ کمزوری رہی ہے کہ اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مَلُوْکِہِمْ (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں) کسی بھی قوم کا فیڈ کرنے والا طبقہ بالعموم وہی لیڈ بھی کرتا ہے۔ جن باتوں کو وہ قبول کرلیتے ہیں وہی باتیں عام لوگوں کا معمول بن جاتی ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جو پیغمبروں کی دعوت میں ہمیشہ پیش نظر رہی ہے۔ مدینہ طیبہ میں حضرت اسعد بن زرارہ نے، حضرت مصعب بن عمیر کو اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ ان کی کوششوں نے عام لوگوں سے پہلے اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ کو اپنا ہدف بنایا اور ان کے واسطے سے چند ہی دنوں میں ان کے قبیلوں کے بیشتر لوگوں کو مسلمان کردیا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی حکمت کے پیش نظر اشرافِ قریش کو اپنی توجہات کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔ لیکن سورة عبس و تولی اور بعض دوسری آیات میں آپ کو توجہ دلائی گئی کہ ان تلوں میں تیل نظر نہیں آتا، آپ عام لوگوں کو اپنی توجہات کا مرکز بنایئے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
وہابیہ کی تفسیر مدنی میں مولانا اسحٰق مدنی نے کچھ یوں تحریر کیا:۔
یعنی جب حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل میں کفر و انکار، اور بغض وعناد، ہی محسوس کیا، اور آپ نے دیکھا کہ یہ بدبخت لوگ ایمان و اطاعت کے بجائے الٹا آپ کے قتل اور ایذاء رسانی کے درپے ہوگئے ہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا معاون و مددگار ہو، انصار جمع ہے نصیر کی، جیسے اشراف جمع ہے شریف کی اور اس سے مراد ہے انتہائی ہمدرد مددگار، اور حواریوں جمع ہے حواری کی جس کے معنی ہوتے ہیں انتہائی مخلص اور خیر خواہ ساتھی۔ یہ حضرت عیسیٰ کے خاص ساتھیوں کا لقب اور وصف تھا۔ سو انہوں نے اپنے صدق و اخلاص کی بناء پر حضرت عیسیٰ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار، ہم سچے دل سے ایمان لے آئے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے فرمانبردار ہیں
وہابیہ کی ہی تفسیر کبیر مولانا اسحٰق مدنی میں لکھا ہے:۔
حضرت عیسیٰ کی پکار حق کی نصرت و امداد کے لیے : سو حضرت عیسیٰ نے فرمایا ” کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں ؟ سو اس طرح حضرت عیسیٰ نے اللہ کی راہ میں نکلنے والے مددگاروں کیلئے اعلان فرمایا تاکہ وہ راہ حق میں ان کا ساتھ دیں۔ یعنی ایسا مددگار جو اللہ کی راہ میں میرے ساتھ نکلے اور ان ناہنجاروں اور ظالموں کے مقابلے میں راہ ِحق میں میرا ساتھ دے، جو کہ مجھ پر ایمان لانے کی بجائے میرے قتل کے در پے ہوگئے ہیں۔ یہاں پر ” الی اللہ ” کے کلمہ سے یہ مضمون نکلتا ہے کہ میں تو اللہ کی راہ میں بہرحال چل رہا ہوں اب تم میں سے کون ایسا ہے جو اس راہ میں میرا ساتھ دے۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جبکہ آپ نے اپنی قوم کے بارے میں یہ محسوس کرلیا کہ اب یہ حق کو قبول کرنے والے نہیں بلکہ اب یہ لوگ الٹا میری جان ہی کے دشمن ہوگئے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو حضرت عیسیٰ نے جب بنی اسرائیل کے علماء اور سرداروں کے رویے سے یہ محسوس کرلیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر کر ساری توجہ اپنے ان غریب ساتھیوں کی طرف کردی جو اگرچہ دنیاوی جاہ و منصب نہیں رکھتے تھے لیکن صدق واِخلاص اور دولت ایمان سے سرشار ومالا مال تھے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
وہابیوں ہی کی تفسیر دعوۃ القرآن از ابونعمان سیف اللہ خالد میں لکھا ہے:۔
سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو پوری طرح معلوم ہوچکا تھا کہ یہود اور ان کے علماء دلائل کے میدان میں مات کھا کر اب ان کی زندگی کے درپے ہوچکے ہیں اور اس کام کے لیے سازشیں تیار کر رہے ہیں تو اب انھیں فکر تھی تو یہ کہ دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام نہیں رکنا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے پیروکاروں سے پوچھا کہ کون ہے جو اس سلسلہ میں میری مدد کرے۔ قوم کے اکثر لوگوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا، البتہ چند لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق دی، وہ ایمان لائے اور پوری تندہی اور جانفشانی سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی مدد کرتے رہے۔ یہی وہ لوگ تھے جو بعد میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاص الخاص جاں نثار اور مددگار یعنی حواری کہلائے۔
دیوبندی مولانا عاشق الٰہی کی تفسیر انوار البیان میں لکھا ہے:۔
عامۃً بنی اسرائیل کا کفر اختیار کرنا اور حواریوں کا حضرت عیسیٰ کی مدد کے لیے کھڑا ہونا
سیدنا عیسیٰ ( علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو اپنے اتباع اور اطاعت کی دعوت دی اور انجیل پر ایمان لانے کا حکم فرمایا اور ان کو بتایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں تم میری اطاعت و فرمانبر داری کرو۔ لیکن بنی اسرائیل نے عناد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ لی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہود سے خطاب فرماتے اور حق کی دعوت دیتے تھے اور وہ لوگ ان کا مذاق بناتے تھے ان کے انکار اور ہٹ دھرمی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس فرما لیا کہ بنی اسرائیل ایمان لانے والے نہیں ہیں لہٰذا انہوں نے پکارا کہ کون ہے جو میرا مددگار بنے ؟ اس پر بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے ایمان قبول کیا اور ایک جماعت نے کفر اختیار کیا جیسا کہ سورة صف کی آخری آیت میں مذکور ہے وہیں پر حواری بھی موجود تھے انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد کی تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے:۔
یہاں پھر درمیانی عرصے کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کو دعوت دیتے ہوئے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو کئی سال بیت چکے تھے۔ اس دعوت سے جب علماء یہود کی مسندوں کو خطرہ لاحق ہوگیا اور ان کی چودھراہٹیں خطرے میں پڑگئیں تو انہوں نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی شدید مخالفت کی۔ اس وقت تک یہودیوں پر ان کے علماء کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ جب آپ ( علیہ السلام) نے ان کی طرف سے کفر کی شدت کو محسوس کیا کہ اب یہ ضد اور مخالفت پر تل گئے ہیں۔ تو آپ ( علیہ السلام) نے ایک پکار لگائی ‘ ایک ندا دی ‘ ایک دعوت عام دی کہ کون ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہیں ؟ یعنی اب جو کشاکش ہونے والی ہے ‘ جو تصادم ہونے والا ہے اس میں ایک حزب اللہ بنے گی اور ایک حزب الشیطان ہوگی۔ اب کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں اس جدوجہد اور کشاکش میں ؟ دین کا کام کرنے کے لیے یہی اصل اساس ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی شخص اٹھے کہ میں دین کا کام کرنا چاہتا ہوں ‘ کون ہے کہ جو میرا ساتھ دے ؟ یہ جماعت سازی کا ایک بالکل طبعی طریقہ ہوتا ہے۔ ایک داعی اٹھتا ہے اور اس داعی پر اعتماد کرنے والے ‘ اس سے اتفاق کرنے والے لوگ اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔
سلفیوں وہابیوں کے ہی میاں محمد جمیل نے اپنی تفسیر فہم القرآن میں لکھا:۔
حالات اس قدر نازک صورت حال اختیار کرگئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس صورت حال میں انہوں نے ہر جگہ لوگوں کو بتلایا اور سمجھایا کہ میری دعوت قبول کرو اسی میں تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے لیکن حکومت کے خوف، یہودیوں کے الزامات اور سازشوں کے ڈر سے لوگ ان سے دور بھاگ گئے۔ بالآخر انہوں نے اپنے شاگردوں کو اللہ کے نام پر دہائی دی کہ کون ہے جو اللہ کے لیے میرا ساتھ دے ؟ ہزاروں شاگردوں میں سے صرف بارہ آدمیوں نے موت کی پروا کیے بغیر کہا کہ ہم ہیں اللہ کی خاطر آپ کی نصرت وحمایت کرنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلایا اور کہا کہ گواہ رہنا کہ ہم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہیں گے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سلفیوں کے ہی محمد لقمان سلفی نے تیسیر الرحمٰن لبیان القرآن میں لکھا ہے:۔
پس عیسیٰ نے ان کی جانب سے کفر کو بھانپ لیا، تو کہا کہ اللہ کی خاطر میری کون مدد کرے گا ؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں، اور (اے عیسی) آپ گواہ رہئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں
تفسیر تبیان القرآن (سنیِ حنفی) میں مولانا غلام رسول سعیدی صاحبؒ لکھتے ہیں؛۔
آپ نے اپنے حواریوں سے فرمایا اللہ کے دین میں تم میں سے کون میری مدد کرے گا ؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے دین کی مدد کریں گے ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔
وہابیوں کی تفسیر عروۃ الوثقی میں لکھا ہے؛۔
دوسری طرف اس بات کی بھی وضاحت ہو گئى کہ اہل دین کی نصرت کے لیے معاونت طلب کرنا تو کل کے خلاف نہیں ہے۔ ہاں ! معاونت کرنے والا کوئى نہ ہو تو دین سے منحرف ہونا توکل کے بھی خلاف ہے اور ایمان کے بھی۔ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے انحراف نہ ہو کیونکہ وہ جان سے زیادہ عزیز چیز ہے۔
یہاں یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ جیسا آپ نے تراجم میں اور تفسیراتِ قرآنی میں پڑھا کہ منکرین و خوارج کے اپنا مولوی حضرات بھی وہی تحریر کررہے ہیں جو سنی علمائے کرام نے بیان فرمایا لیکن بعض معدودے چند ایسے لوگ بھی ان منکرین میں پائے جاتے ہیں جو کہ اپنی خودساختہ تفسیرات میں اپنے الفاظ گھسیڑ کر اسکے معنی کو کچھ سے کچھ بیان کرتے ہیں اور پھر اسی کے تناظر میں اپنی فطری خباثت کا مظاہرہ کرکے وہ تفسیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سلف میں سے کسی نے نہیں کی۔ یعنی تحریفِ تفسیر جیسا کہ تفسیر مکہ میں وہابیوں کے مولوی صلاح الدین یوسف نے اپنی فطرت کے مطابق تفسیر کرتے ہوئے کچھ یوں لکھا ہے:۔
بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے با شعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابتداء میں جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگار بننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انہوں نے قبل ہجرت مدد کی۔ اس طرح یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد طلب فرمائی یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کرسکتے تھے۔ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول مَن انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے
آپ نے ملاحظہ کیا کہ ان کی تفسیر میں قبر پرستوں کی طرف اشارہ کیا گیا جو کہ وہابی دھرم میں عامۃ المسلمین کو کہا جاتا ہے جو کہ سب سے بڑی اکثریت ہیں یعنی اہلسنت و جماعت کی دلیلِ قرآنی کو رد کرنے کی خاطر مولوی صاحب نے ڈینگ ماردی اور تفسیر میں اپنی خودساختہ تشریح دے ڈالی اور اسطرح تین جرائم کے مرتکب ہوئے۔ اول۔ قرآن کی تفسیر جو سلف الصالحین کرتے آئے ہیں اور کسی نے کسی قبرپرست کا نام تک نہیں لیا نا ہی اسکو نتھی کرنے کی کوشش کی۔ افسوس مولوی صاحب نے اپنا مذہبی کاروبار چمکانے کی خاطر یہ تحریف کی۔ دوم یہ کہ قرآن کی تفسیر اگر ہر ایرا غیرا نتھوخیرا خوارج کا پرروردہ کرے گا تو یہی انجام ہوتا ہے اور سوئم۔ ان کے دلی بغض کا اظہار بھی یہاں پر ہوجاتا ہے کہ پوری اسلامی دنیا اور اسلامی لٹریچر میں کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا لیکن اس کو کوئی اور رخ دینے کی خاطر مولوی صاحب نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ واقعی اللہ ان کو ہدایت دے (اگر ان کے نصیب میں ہو تو)۔ میرا بہت کچھ لکھنے کو دل کرتا ہے یہاں لیکن میرا خیال ہے کہ ان کی تفسیر ہی کافی ہے انکی دلی حالت کا اور اصلیتِ خوارج کا پتہ بتانے کے لیئے۔ نیز آپ دیکھیئے کہ خود شروع میں لکھتے ہیں کہ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آکر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کی۔۔۔۔ یہ الفاظ انہیں مولوی صاحب کے ہیں۔ اب سوال تو یہ بنتا ہے کہ کوئی ان کو پوچھے کہ حضت یہ تو بتائیے کہ انبیائے کرام کی سنت پر عمل کرنا ہی دین کہلاتا ہے یا نہیں؟۔ کوئی ان سے یہ بھی پوچھتا کہ حضت قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کرنا (کفر شرک بدعت قبر پرستی یا بریلویت) کیوں نہیں لکھی انہوں نے؟۔ قوم کے باشعور لوگوں سے مدد طلب کرنا کیا غیراللہ سے مدد طلب کرنا نہیں کہلائے گا؟۔ ظاہر ہے یہ توسل ہی ہے اور قرآن نے جس کو قبر پرستی نہیں کہا مولوی صاحب کی فطری خباثت نے تفسیر میں تحریف و ردوبدل کرکے خودساختہ معنی پہنا دیئے۔ واقعی اللہ ہی ہدایت دے (اگر خوارج کے نصیب میں ہو تو)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دیوبند کی تفسیر احسن البیان میں اسی آیت کے ماتحت لکھا ہے؛
احس (اس نے محسوس کیا ۔ اس نے دیکھا ۔ احساس سے ماضی) ۔ انصاری (میرے مددگار ۔ مجھے مدد دینے والے ۔ یہ جمع ہے ۔ نصیر و ناصر واحد) ۔ الحواریون (حواری ۔ اصحاب ۔ واحد حواری) ۔
تشریح :۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی طرف سے اپنی تکذیب اور کفر یہ کلمات سنے اور ان لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کا احساس ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے میں میرا ہاتھ بٹائے اور میری مدد کرے ؟ ۔
اب ذرا سلف الصالحین اور قدیم تفسیرات سے بھی ذکر کردیا جائے تاکہ کسی کے ذہن میں ابہام نہ رہے؛۔
الجامع الاحاکم القرآن یعنی تفسیر ِ قرطبیؒ میں اسی آیت کے ماتحت درج ہے؛۔
قال من انصاری الی اللہ۔۔۔۔۔ استنصر علیھم ۔ قال السدی والثوری وغیرھما۔ المعنی: مع اللہ، و (الی) بمعنی مع، کقولہ تعالیٰ (ولا تاکلوا اموٰلھم الی اموٰلکم ۔ النساٗ آیت ۲)۔ ای : مع واللہ اعلم۔
ترجمہ؛۔ فرمایا: کون ہے وہ جس سے میں ان کے خلاف مدد طلب کروں؟۔ سدی اور ثوری وغیرہما نے کہا: یہاں الی اللہ بمعنی مع اللہ ہے۔ یعنی الی بمعنی مع ہے۔ جیسا کہ ارشاد میں ہے (النساٗ ایت ۲) یعنی تم اپنے مالوں کے ساتھ ان کے مال نہ کھاو۔ واللہ اعلم
حوالہ؛ الجامع لاحکام القرآن ۔ از ابی عبداللہ محمد بن احمد بن ابی بکر القرطبیؒ۔ جلد ۵ صفحہ ۱۴۸ موسسۃ الرسالۃ بیروت ایڈیشن
یعنی ثابت ہوا کہ سلف کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے خود فرمایا کہ کون ہے وہ جس سے میں ان کے خلاف مدد طلب کرو۔ ممکن ہے اگر ان کے دور میں (وہابی دیوبندی طائفہ) ہوتا تو وہ فوراً عیسیٰ علیہ السلام پر (کفر شرک بدعت یا بریلویت) کا الزام دھر دیتے کہ انہوں نے تو ایسا کہا اور اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ سے مدد مانگی۔ اللہ ہی ان جہلاٗ کو ہدایت دے جنہوں نے دین کا تماشہ بنا کر رکھ دیا فقط اپنی مذہبی دکانداری کی خاطر۔ یہ وہ تاجر ہیں جنہوں نے دنیا بھی گنوا دی اور ایمان بھی۔
امام ابن کثیر شافعیؒ جن پر وہابیوں کو بڑا اعتماد ہے وہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں؛۔
ترجمہٗ تفسیرِ عربی از پیر کرم شاہ الازھریؒ ؛۔ پھر جب عیسیٰ نے یہ محسوس کیا کہ وہ کفر اور گمراہی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہے؟۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اسکا معنی یہ ہے کہ اللہ کے لیئے میری کون اتباع کرتا ہے۔ حضرت سفیان الثوریؒ وغیرہ فرماتے ہیں اللہ کی معیت میں میرا کون مددگار ہے۔ مجاہد کا قول ہی زیادہ واضح ہے۔ کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہی ارادہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینے میں میرا مددگار کون ہے۔ جیسا کہ مدینہ طیبہ ہجرت کرنے سے پہلے نبی کریم ﷺ حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے۔ کون ہے؟ جو مجھے پناہ دے تاکہ میں اپنے رب کے پیغام کو پہنچاوں کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے سے روک دیا ہے۔ حتیٰ کہ انصارِ مدینہ اس کام کے لیئے کمر بستہ ہوگئے۔ انہوں نے آپ کو پناہ و نصرت دینے کا وعدہ کیا۔ تو آپ ہجرت کرکے مدینہ کے لیئے تشریف لے گئے۔
حوالہ؛ تفسیر ابن کثیر۔ از حافظ عماد الدین ابی الفداٗ اسماعیل بن کثیر الدمشقی الشافعی۔ جز ۳ صفحہ ۶۷۔ ط۔ موسسۃ قرطبۃ نشر و توزیع۔ جیزہ۔ و مکتبہ اولاد الشیخ للتراث۔ عمرانیہ غربیہ جیزہ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی ان مشہور تفاسیر سے معلوم ہوا کہ (غیراللہ سے مدد) اللہ کے اسباب سمجھ کر اس تک رسائی کا ذریعہ سمجھ کر مانگنا اور توسل کرنا کوئی (کفر شرک بدعت) نہیں بلکہ اس کو ایسا کہنا فقط خوارج کا طریقہ ہے اور دین میں اپنی من مانی کرنے کے مترادف ہے۔
ایسے ہی قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ محمد آیت ۷ کہتی ہے؛۔
ان تنصرواللہ ینقرکم۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔ اگر تم مدد کروگے اللہ (کے دین کی) مدد کرے گا وہ تمہاری۔
یہاں رب کریم نے جو خود غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلب کی ہے۔ یعنی ان کو ارشاد فرمایا ہے کہ میرے دین کی راہ میں مدد کرنے پر میں تمہاری مدد کروں گا۔
ایسے ہی سورۃ البقرہ کی آیت ۱۵۳ ہے کہ استعینوا بالصبر والصلوٰۃ؛۔ یعنی مدد طلب کرو صبر اور ساتھ نماز کے۔
یہاں پر جیسا کہ توسل کی اقسام میں ذکر آئے گا۔ اس توسل کا ذکر ہے جو کہ اعمال کے ذریعے اللہ سے طلب کیا جاتا ہے۔ نماز اور صبر دونوں اعمال میں سے ہیں اور اعمال مخلوق الٰہی ہے یعنی (مخلوق) اور (غیراللہ) ہیں جبکہ ان مخلوقات (یعنی اعمال) کے ذریعے یعنی توسل سے اللہ خود مومنوں کو ارشاد فرما رہا ہے اس تعلیم کا کہ نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو۔
سورہ الکہف کی آیت ۹۵ (فاعینونی بقوۃِِ) یعنی میری مدد کرو انفرادی قوت کے ساتھ:۔ یہاں حضرت ذوالقرنین نے آہنی دیوار بنانے کے لیئے (غیراللہ) یعنی (مخلوق) یعنی لوگوں سے مدد طلب کی۔ اور قرآن کریم خود اسکو بیان فرمارہا ہے۔ الغرض آپ قرآن کریم کو اگر پرانی تفاسیر اور صحابہ و سلف الصالحین کے بیان کے مطابق پڑھیں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے تو جو کچھ ہم نے یہاں لکھا اور جو کچھ اگلے ابواب میں بیان ہوگا وہ سب کا سب دین ِ اسلام اور اسلامی تعلیمات ہیں جنکے منکر ہی توسل کے منکر ہیں اور جنکا خود کا وجود نامسعود ایک بدعت ہے کیونکہ ۱۳۰۰ سال کی اسلامی تاریخ میں ان چیزوں پر سوائے ابن تیمیہ اور بعد میں اسکے پیروکاروں یعنی (وہابیہ دیوبندیہ) کے علاوہ کسی پرانے خوارجی نے بھی انکار نہ کیا تھا۔ اس عمل یعنی (مدد) مانگنے کو (غیراللہ کی مدد یا کفر شرک بدعت) کہنا فقط انکی دین سے لاعلمی ، مکمل طور پر بے راہ روی اور تشدد کی علامت ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔