Friday 17 February 2017

وسیلہ مستند دلائل کی روشنی میں ( حصّہ اوّل )

0 comments
وسیلہ مستند دلائل کی روشنی میں ( حصّہ اوّل )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
توسل وسیلہ کا لغات العرب میں معنی مفہوم اور مطالب
حضرت علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی تفسیر تبیان القرآن میں ماتحت سورہ الفاتحہ آیت ۴ وسیلہ کے لغوی معنی پر سلف الصالحین کے اقوال پیش کیئے ہیں جو کہ یہاں دیئے جارہے ہیں مزید تخریج کے ساتھ۔
امام ابی القاسم الحسین بن محمد المعروف بالراغب الاصفھانیؒ لکھتے ہیں؛۔
وسل: الوسیلۃ التوسل الی الشئٰ۔۔۔۔۔۔۔۔ الیٰ سرقۃ۔۔
ترجمہ عبارت؛۔ الوسیلۃ: کے معنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے ہیں۔ چنانچہ معنی رغبت کو متضمن ہونے کی وجہ سے وصیلۃ سے اخص ہے۔ وابتغوالیہ الوسیلۃ (۳۵،۵) اور اسکا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرو۔ درحقیقت توسل الی اللہ، علم و عبارت اور مکارم ِ شریعت کی بجاآوری سے طریقِ الٰہی کی محافظت کا نام ہے اور یہی معنی تقرب الی اللہ کے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت کرنے والے کو واسل کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کے علاوہ توسل کے معنی چوری کرنا بھی آتے ہیں چنانچہ محاورہ ہے۔ اخذ فلاں اہل فلاں توسلا۔ اس نے فلا کے اونٹ چوری کرلیئے۔
حوالہ؛۔ المفردات فی غریب القرآن ۔ امام اللغت، راغب اصفھانیؒ ۔ کتاب الواو۔ صفحات ۵۲۳ و ۵۲۴ دارالمعرفۃ بیروت لبنان
علامہ ابن اثیر جزری لکھتے ہیں؛۔
ھی فی الاصل مایتوصل بہ الی الشیٗ و یتقرب بہ
جس چیز سے کسی شے تک رسائی حاصل کی جائے اور اس شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔نہایہ جلد ۵ ص ۱۸۵ مطبوعہ موسسۃ مطبوعاتی ایران۔ علامہ محمد بن اثیر جزریؒ)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
لغات کے ایک اور امام حضرت علامہ ابن منظور افریقی ؒ لکھتے ہیں۔
الجوھری؛۔ الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر۔ یعنی امام ِ لغت علامہ جوہری نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔
حوالہ؛۔ سید جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی متوفی ۷۱۱ھ ، لسان العرب ج ۱۱ ص ۷۲۵ ۔ ۷۲۴، مطبوعہ نشر ادب الجوذہ ایران
علامہ ابن منظور افریقی اور علامہ زبیدی نے علامہ جوہری کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے۔
جس چیز سے غیر کا تقرب کیا جائے وہ وسیلہ ہے۔ (الصحاح ج ۵ ص ۱۸۴۱ مطبوعہ دارالعلم بیروت
لفظ وسیلہ کا اصل منبع (وسل) (و، س، ل) سے نکلا ہے اور ایک اور مشہور امام الغات ابن فارس لکھتے ہیں؛۔
الاولی الرغبۃ والطب ، یقال وَسَلَ، اِذا رَغَب، و الواسل: الراغب الی اللہ عزوجل ، وھو فی قول لبید (بلی کل ذی دین الی اللہ واسل)۔
یعنی اول معنی رغبت و طلب کے ہیں فرمایا۔ واسل (یعنی وسیلہ کرنے والا) اللہ کی طرف ذریعہ ہوتا ہے۔
(بحوالہ ؛ معجم المقابین اللغۃ ج ۶ ص ۱۱۰ لابی الحسین احمد بن فارس بن زکریا (متوفیٰ ۳۹۵ھ) دارالفکر للطاعۃ والنشر والتوزیع۔
ایسے ہی حضرت الامام شیخ محمد بن ابی بکر بن عبدالقادر الرازی نے اپنی مختار الصحاح میں لکھا ہے؛۔
و س ل ۔ (الوسیلۃ) مایتقرب بہ الی الغیر والجمع (الوسیل) و الوسائل) و(التوسیل) و (التوسل) واحد یقال: (وسل) فلان الی ربہ وسیلۃً بالتشدیدِ و (توسل) الیہ بوسلیۃ اذا تقرب الیہ بعمل۔
یعنی فلاں کا وسیلہ رب کی طرف پیش کرنا اور کسی کے ذریعہ سے کسی اور کا قرب چاہنا توسل کہلاتا ہے۔ (حوالہ مختار الصحاح، ص ۳۰۰، باب الواو۔ مکتبۃ لبنان دائرۃ المعاجم فی )۔
دکتور عبد اللہ عباس الندوی جو کہ جامعۃ ام القریٰ مکہ مکرمہ کے مدرس بھی ہیں انکی قاموس میں وسیلے کے متعلق کچھ یوں لکھا ہے؛۔
الوسیلۃ؛۔ (اسم) رسائی کے ذرائع ،اور وسائل۔ پینچ کا راستہ ۔ رسائی۔ اس فعل کا مصدری مادہ نہیں ہے۔حوالہ؛۔ قاموس الفاظ القرآن الکریم ص ۴۵۰ مکتبہ دار الاشاعت کراچی پاکستان
المختار من صحاح اللغۃ تالیف محمد محی الدین عبدالحمید اور محمد عبداللطیف السبکی نے لکھا؛۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
و س ل ۔ الوسیلۃ : ما یتقرب بہ الی الغیر والجمع الوسیل، والوسائل۔ یعنی کسی کی طرف تقرب چاہنا، ذریعہ بنانا۔ باقی تمام معانی وہی ہیں جوامام رازی نے اپنی مختار الصحاح میں لکھے ہیں یعنی توسل کا مطلب ہے اللہ کی طرف ذریعہ واسطہ تلاش کرنا۔ جیسا کہ اعمال سے قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
المختار من صحاح اللغۃ ص ۵۷۲ (زیر تحت و س ل) مکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ لمصر۔ ومطبعۃ الاستقامۃ بالقاھرہ۔
مصباح المنیر میں لکھا ہے؛۔
وسل (وسلت) الی اللہ بالعمل اسِل من باب وعد رغبت و تقربت ومنہ استقاق الوسیلۃ وھی ما یتقرب بہ الی الشیٗ والمجمع الوسائل والسیل قیل جمع وسیلۃ وقیل لغۃ فیھا وتوسل الی ربہ بوسیلۃ تقرب الی بعمل۔
یعنی وسلت سے مراد کسی شے کی طرف قربت ، واسطہ ذریعہ حاصل کرنا ہے۔ اسکی جمع الوسائل اور الوسیل ہے، اور کہا کہ جمع وسیلۃ ہے ، اور کہا لغت میں اس سے مراد اللہ کی طرف ذریعہ (واسطہ) حاصل کرنا ہے (قربت کے لیئے) ۔
المصباح المنیر ، ص ۲۵۳،العالم العلامۃ احمد بن محمد بن علی الفیومی المقری متوفیٰ ۷۷۰ھ طبعۃ بِلونین میسرۃ مکتبۃ لبنان۔
المنجد فی اللغۃ والادب والعلوم ، میں بھی وسیلہ کا معنی (کوئی ایسا عمل اختیار کرنا کہ اللہ تک رسائی ہوسکے) اور (المنزلۃ عند الملوک) یعنی بادشاہوں(اختیار والوں) تک رسائی چاہنے کو وسیلہ کہتے ہیں۔المنجد فی اللغۃ والادب والعلوم ۔ لسنۃ تاسع عشر۔ ج ۱ ص ۹۰۰ المطبعۃ الکاثولیکیۃ بیروت۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
الاستاذ الطاھر احمد الزاوی لکھتے ہیں؛۔
وس ل۔ (الوسیلۃ) ۔ والواسلۃُ: المنزلۃ عند الملک، والدرجۃ والقربۃ ووسل الی اللہ تعالیٰ توسیلاً ۔ والواسل: الواجبُ۔ والراغبُ الی اللہ تعالیٰ: والتوسل: السرقۃ ۔ یعنی وہ راہ جو (بادشاہوں) تک رسائی کے لیئے قربت کے لیے حاصل کی جائے اور (شرعی معنی) کہ اللہ کی طرف رسائی کا ذریعہ پیش کیا جائے یعنی توسل کیا جائے اللہ کی جانب ۔
ترتیب القاموس المحیط علی طریقۃ المصباح المنیر واساس البلاغۃ ،ج ۴ باب الواو۔ صفحہ ۶۱۲۔دارالفکر بیروت
محیط المحیط میں بھی وسل یعنی وسلیۃ کے بارے میں وہی کچھ مندرج ہے جو اوپر بیان ہوچکا ۔
حوالہ ۔ محیط المحیط قاموس مطول للغۃ العربیۃ۔ تالیف۔ المعلم بُطرس البُستانی۔ ص ۹۶۹ مکتبۃ لبنان، ساحتہ ریاض الصلح بیروت
معجم النفائس الکبیر ، دارالنفائس صفحہ ۲۲۰۹ زیر تحت لفظ (وسل) وہی سب لکھا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وسل الی اللہ بوسیلۃ وتوسل:(اللہ کی جانب رجوع بواسطہ وسیلہ)۔وہ عمل جو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیئے کیا جائے یعنی وہ ذریعہ جو اللہ تک پہنچائےاسکے علاوہ وسیلہ نبی کا وہ بلند و ارفع درجہ ہے جو جنت میں ہوگا۔ (یعنی یہاں انکی مراد وہ وسیلہ بیان کرنا ہے جسکا حکم حدیث رسول میں بھی آیا ہے کہ نماز کے بعد دعا میں )۔
لغات کے ایک اور مشہور امام ، حضرت الامام جرجانیؒ نے لکھا ہے؛۔
الوسیلۃ؛ ھی ما یُتقرب بہ الی الغیر۔ (۱۹۷۰) صفحہ ۲۱۱معجم التعریفات۔ علامہ علی بن محمد السید الشریف الجرجانیؒ۔ دارالفضیلۃ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اسی طرح المعجم الوسیط عربی اردو ترجمہ میں لکھا ہے؛۔
وسل ۔ فلاں الی اللہ تعالیٰ۔ کوئی ایسا کام کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اور ۔ فلان الی اللہ بالعمل۔ یعنی۔ عمل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا۔ الی فلان بکذا۔ کسی سے بذریعہ قرابت تعلق چاہنا۔ (الواسل) واجب ، ضروری، لازمی (الواسلۃ) تانیث الواسل (۲) بادشاہ کے یہاں مقام و مرتبہ (۳) درجہ مقام و تقرب۔ (الوسیلۃ) الواسلۃ مقام و مرتبہ ، ۲ قربت ، تعلق، اور ۳ نبی کریم ﷺ کا جنت میں درجہ ۔
حوالہ؛۔ المعجم الوسیط ۔ صفحہ ۱۲۵۵ باب الواو ۔ مکتبہ رحمانیہ لاہور پاکستان۔
امام اللغت ابو الحسن احمد ابن الفارسؒ کی ایک اور تصیف میں لکھا ہے؛۔
وسل: الواسل: الراغب الی اللہ۔ جل ثناؤہ۔ باقی پہلے کی طرح جیسا پہلے بیان ہوا۔
حوالہ؛ مجمل اللغۃ۔ لابی الحسن احمد بن فارس بن زکریا اللغوی۔ متوفیٰ ۳۹۵ ھ۔ جز ۱ ص ۹۲۵ زیر تحت (وسل)۔موسسۃ الرسالۃ بیروت۔
مشہور امام اللغات مجدالدین فیروزآبادیؒ نے اپنی القاموس المحیط عربی میں وسیلہ کے وہی معنی دیئے ہیں جو متعدد بار اوپر بیان ہوچکے۔ حوالہ یہ رہا۔
القاموس المحیط۔(عربی) حرف الواو۔ لفظ (وسل) ۱۰۱۰۷۔ صفحات ۱۷۵۳ و ۱۷۵۴ دارالحدیث قاھرہ مصر۔
امام مجد الدین ابی السعادات المبارک بن محمد الجزری ابن الاثیرؒ لکھتے ہیں؛۔
فی حدیث الاذان: اللھم آتِ محمدا الوسیلۃ۔ ھی فی الاصل: مایتوصل بہ الی الشیٗ ویتقرب بہ ۔ والمراد بہ فی الحدیث القرب من اللہ۔تعالی۔ وقیل: ھی الشفاعۃ یوم القیامۃ۔ وقیل ھی منزلۃ من منازل الجنۃ کما جاٗ فی الحدیث۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی۔ اذان کی حدیث میں جو ذکر آیا ہے (یعنی اذان کے بعد کی دعا) وہ اس لفظ کی اصل ہے۔ اور اس کا مطلب ہے کسی شئے تک قربت رسائی حاصل کرنا۔ اور توسل سے مراد جیسا کہ حدیثِ قرب میں بیان ہوا ہے وہ اللہ کی جانب راہ کرنا ہے۔ اور فرمایا۔ اس سے مراد روزِ محشر شفاعت ہے (یعنی شفاعتِ کبریٰ) پھر فرمایا؛ یہ ایک درجہ ہے جنت کے درجوں میں جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔
حوالہ؛۔ النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر۔ امام مبارک بن محمد الجزری ابن الاثیرؒ۔ صفحہ ۹۷۲۔ دارابن الجوزی۔
حافظ سید فضل الرحمٰن اپنی تصنیف لطیف معجم القرآن میں لکھتے ہیں؛۔
وسیلۃ؛ وسیلہ، قرب، نزدیکی، اسم ہے ،جمع وسائل۔ رغبت کے ساتھ کسی شئے کی طرف پہنچنا۔ بحوالہ المفردات۔ ۵۲۳۔و ۵،۳۵ و۵۷۔۱۷۔ صفحہ ۴۹۱ باب الواو۔ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز۔ کراچی پاکستان۔
دیوبندیوں کے ایک مشہور عالم مولانا زین العابدین سجاد میرٹھی نے اپنی قاموس میں کچھ ایسے تحریر کیا ہے؛۔
وسیلۃ؛ نزدیکی، قرب ، وسیلہ۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں الوسیلہ،التوصل الی الشیٗ برغبت (رغبت کے ساتھ کسی شے کی طرف پہنچنا)۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وابتغواالیہ الوسیلۃ وجاھدو انی سبیلہ لعلکم تفلحون۔اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور ڈھونڈو اسکی طرف وسیلہ اور جہاد کرو اسکے راستہ میں تاکہ تم فلاح پاو۔ اس آیت مبارکہ میں وسیلہ سے مراد علم، عبادت اور شریعت کے اعلیٰ اخلاق کو اختیار کرکے سبیل اللہ کی محافظت ہے اور وہ قربۃ و نزدیکی ہی کے معنیٰ میں ہے۔ (مفردات)۔ مشہور صوفی مشرف مفسر شیخ اسماعیل حقی صاحبِ روح البیان لکھتے ہیں؛۔ ای!طلبوا لانفسکم الی توابہ والزلفیٰ منہ القربۃ بالاعمال الصالحہ(یعنی طلب کرو اپنے لیئے نیک اعمال کے ذریعہ نزدیکی اللہ تعالیٰ کے ثواب اوراسکے مقام ِ قرب کی طرف) آگے لکھتے ہیں:۔ یہ فعلیۃ کے وزن پر ہے وسل الی کذا تقرب الیہ سے اور اسکے معنےٰ ہیں وہ کام جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیاجاسکے۔ اسکی جمع وسائل ہے۔ (روح البیان ج ۲ ص ۳۸۷)۔ پھر مولانا نے ایک لمبی تفصیل لکھی ہے جس میں انور شاہ کشمیری کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے اسکے متعلق (یعنی توسل) کے متعلق یہ لکھا ہے کہ توسل جس انداز پر ہمارے زمانہ میں معروف ہے۔ سلف میں نہیں تھا ۔ جب وہ کسی بزرگ کے ذریعہ سے توسل کرتے تھے تو اسکی صورت یہ ہوتی تھی کہ وہ انہیں اپنے ساتھ دعا مین شامل کرتے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے اور اسی سے مدد طلب کرتے تھے اور ان بزرگ کی شمولیت کی برکت سے اپنی دعا کی قبول کی امید کرتے تھے۔ اور حدیث میں جو ضعفا وصالحین سے استعانت (مدد) ثابت ہوتی ہے وہ یہی ہے۔ جنانچہ حدیثِ استسقاٗ میں صحابہ کرام کا حضرت عباسؓ سے توسل اسی نوعیت کا ہے ۔ رہا بزرگوں کے ناموں سے توسل جیسا کہ ہمارے زمانے میں مروج ہے کہ ان بزرگوں کو اسکا علم بھی نہیں ہوتا۔بلکہ وہ زندہ بھی نہیں ہوتے۔ صرف انکے کاموں کے ذریعہ توسل کیا جاتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالی کے ہاں جو درجہ حاصل ہے انکو اسکی وجہ سے وہ ان کے ناموں کے ذکر کے سبب دعا مانگنے والوں کو محروم نہ رکھے گا۔ تو میں اسکی تفصیلات میں جانا ناپسند کرتا ہوں۔ پھر مولانا انور شاہ کے ہی حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ ابن تیمیہ نےتو اسے حرام کہا ہے لیکن صاحب درمختار نے اسکی اجازت دی ہے۔ مگر سلف سے کوئی دلیل اس پر قائم نہیں کی۔
حوالہ؛۔ قاموس القرآن ۔ از مولانا زین العابدین میرٹھی۔ صفحات ۶۳۸ و۶۳۹ ۔دارالاشاعت کراچی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تبصرہ:۔ جہاں تک مولانا انور شاہ کشمیری کی اس بات کا تعلق ہے کہ اسکا سلف سے کوئی ثبوت نہیں تو یہ فقط ان کی یاوہ گوئی ہ ے کیونکہ مستند تفاسیر اور احادیث سے ہم ثابت کرچکے ہیں اور کررہے ہیں کہ سلف کے مطابق بھی انبیا و اولیا کا باقاعدہ نام لے کرپکارنا بالکل جائز ہے۔ ورنہ عمرؓ نے عباسؓ کے متعلق یوں نہ ارشاد فرمایا ہوتا کہ (ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں) اور ایسے ہی حضرت معاویہؓ نے جو حضرت یزید بن الاسودؓ کا وسیلہ پیش کیا باقاعدہ ان سے التجا و ندا کی اسکے علاوہ انور شاہ کشمیری صاحب نے انتہائی بددیانتی کا ثبوت دیا ہے یہ کہہ کر کہ ابن تیمیہ نے اس کا مکمل انکار کیا ہے۔ وہ غالباً یہ بتانا بھول گئے تھے کہ اسی ابن تیمیہ کا خود تمام تر علمائے اسلام نے رد فرمایا ہے اور خود ابن تیمیہ نے بھی انہیں احادیث کو صحیح الاسناد مانا ہے تو پھر اس کا انکار فقط اپنی مذہبی دکانداریوں کو چمکانا ہے۔ نیز صاحب درمختار ہمارے لیئے ابن تیمیہ سے کروڑہادرجہ بلند ہیں کیونکہ حنفیت کو صاحبِ درمختار کے قول پر عمل واجب ہے نا کہ ابن تیمیہ، دیوبند یا وہابیت کے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف قربت تلاش کرنا ہی وسیلہ کا مفہوم ہے۔ جبکہ انہوں نے قرآنی آیت میں بھی ڈنڈی ماری ہے۔ کہ (ابتغوا الیہ الوسیلۃ بالاحسانہ) یعنی اللہ فرماتا ہے میری طرف وسیلہ ڈھونڈو بھلائی کے ساتھ۔ اور اللہ کی بارگاہ میں اسکے تمام محبوب بندے ہمارا وسیلہ واسطہ ار مددگار ہیں۔ اور دعا ہی میں شامل ہوتے ہیں۔ کوئی بھی سنی حنفی صوفی مسلمان کسی ولی کو یا نبی کو اللہ سمجھ کر نہیں پکارتا نا ہی ان شخصیات کو الوہیت اور اسکی صفات میں شمار کرکے ان کو مددگارِ مطلق سمجھ کر پکارتا ہے۔ بلکہ پکارنے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اللہ کے دربار میں انکی سفارش پیش کی جائے ہماری طرف سے تاکہ دعاوں کی قبولیت میں زیادتی کا امکان ہو۔ اللہ ہمیں ایسے ایمان کے راہزنوں سے بچائے۔
ان کے ہی ایک اور دیوبندی عالم نے اپنی قاموس الوحید میں وسیلہ کے معنوں میں تحریر کیا ہے کہ۔۔۔ الوسیلۃ؛ ذریعہ، واسطہ ، مقام ومرتبہ۔ قرب و تقرب۔ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا درجہ ومقام۔ ۔ یعنی انورشاہ کشمیری وپارٹی کے اپنے الفاظ کی تردید انکے اپنے ہی علمائے کرام سے موجود ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
(حوالہ؛۔ القاموس الوحید۔ صفحہ ۱۸۵۰ تالیف؛ مولانا وحید الزماں قاسمی کیرانوی۔ استاذ حدیث و ادب عربی و معاون مہتمم دارالعلوم دیوبند۔ ادارہ اسلامیات لاھور کراچی پاکستان۔
امام جوھری ؒ کی الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ کا ایک اور حوالہ و ایڈیش یہ رہا۔ صفحہ ۱۲۴۵ حرف الواو۔ دارالحدیث قاھرہ مصر۔
ائمہ لغت کی ان تین بنیادی تصریحات سے واضح ہوگیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے، اللہ تعالیٰ کا تقرب اعمالِ صالحہ اور عبادات سے ہوتا ہے، تاہم انبیا علیھم السلام اور اولیائے کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہب حاصل ہے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے لیئے اس عزت و وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے، زندگی میں اور بعد از وفات بھی۔
انبیائے کرام علیھم السلام اور اولیائے عظام کی ذوات سے توسل کے متعلق فقہاٗ اسلام کی عبارات؛۔
امام محمد بن جزری آداب دعا میں لکھتے ہیں؛۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاٗ علیھم السلام اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے۔(بحوالہ؛۔ حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ۳۴ مطبوعہ مطبع مصطفےٰ البابی مصر)۔
حضرت الامام ملا علی قاری علیہ الرحمتہ الباری اسکی شرح میں لکھتے ہیں؛۔
مصنف نے کہا دعا میں انبیاٗ اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا امور مستحبہ میں سے ہے کیونکہ (صحیح بخاری) کی کتاب الاستسقاٗ میں ہے:
حضرت عمرؓ نے فرمایا: پہلے ہم اپنے نبی ﷺ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو (اے اللہ!) تو بارش نازل فرماتا تھا، اب ہم اپنے نبی ﷺ کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں،تو ہم پر بارش نازل فرما، پھر ان پر بارش ہوجاتی ، اور جیسا کہ نابینا کی حدیث (حدیثِ ضریر) میں نبی کریم ﷺ کے وسیلہ سے دعا کا ذکر ہے جس کو امام حاکم نے اپنی (مستدرک) میں روایت کیا ہے اور یہ کہا کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے، اور امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث صحیح، غُریب ہے اور ہم نے اسکو (حصن) میں ذکر کیا ہے اور حدیثِ ابوامامہ کی بنا پر جس کو ہم نے صبح کی دعاوں میں ذکر کیا ہے، اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم الکبیر اور کتاب الدعاٗ میں ذکر کررکھا ہے۔ (الحرزالثمین ۱۷۶ مطبعہ امیریہ مکہ مکرمہ)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام جزری نے حضرت ابو امامہؓ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے:
اسئلک بنور وجھک الذی اشرقت لہ السمٰوات والارض وبکل حق ھو لک وبحق السائلین علیک۔
اے اللہ ! میں تجھ سے تیری ذات کے اس نور کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں جس سے آسمان اور زمین روشن ہیں اور تیرے ہر حق کے وسیلہ سے اور جو سوال کرنے والوں کا تجھ پر حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔(حصن حصین ص ۶۸)۔
اسی کی تشریح میں ملا علی قاری ؒ نے فرمایا؛۔
سوال کرنے والوں کا اللہ پراسلیئے حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے کرم سے) ان کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، گویا کہ بندے نے اللہ تعالیٰ سے بندوں پر اس حق کے وسیلہ سے، اور سائلین کا اللہ پر جو حق ہے اسکے وسیلہ سے سوال کیا، اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں، اسکی حمدوثناٗ کریں، اسکے احکام پر عمل کریں، اور اسکی منع کی ہوئی چیزوں سے رکیں، اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ان کو ثواب عطا کرے، کیونکہ اسکے وعدہ کا پورا ہونا واجب ہے، کہ اسکا وعدہ حق ہے اور اسکی خبر صادق ہے۔ (الحرز الثمین ص ۱۷۶)۔
ابن تیمیہ نے لکھا ہے؛۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاٗ اور صالحین وغیرہم کے حق سے سوال کرتا ہوں یا فلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند کرے، اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو انکی شفاعت قبول کرے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کرسکتا ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۱ ص ۲۱۱ مطبوعہ فہد بن عبدالعزیز)۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
غیرمقلد عالم قاضی شوکانی نے لکھا ہے؛۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو مسترد نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ مزید لکھا ہے؛۔ میں کہتا ہوں کہ انبیائے کرام علیھم السلام کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی نے روایت کرکے کہا: یہ حدیث حسن، صحیح اور غریب ہے۔ امام نسائی، امام ابن ماجہ، اور امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم نے اسکو روایت کرکے کہا: یہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ حضرت عثمان بن حنیفؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی نبی ﷺ کے پاس آیا ۔۔۔۔۔(اور پھر مشہور حدیث ضریر بیان کی)۔۔۔۔۔۔۔ شوکانی نے لکھا ہے۔۔۔۔حصن حصین کے باب صلوٰہ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا، اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے عم محترم یعنی چچا حضرت عباسؓ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کی اور حضرت عمرؓ نے کہا: اے االلہ! ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں۔
حوالہ تحفۃ الذاکرین ص ۳۷، مصطفےٰ البابی واولادہ مصر۔
وسیلہ (توسل) (استعانت) کا قرآن سے ثبوت؛۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ان کی ذات۔ ان کا نام ۔ ان کے تبرکات مخلوق کا وسیلہ ہیں۔ اس کا ثبوت قرآنی آیات ہیں۔ احادیثِ نبویہ ، اقوالِ بزرگان اجماع امت اور دلائل عقلیہ بلکہ خود مخالفین کے اقوال سے ثبوت موجود ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:۔
ولو انھم اذ ظلمو ا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفرلھم الرسول لوجد واللہ تواباً رحیما ۔ (سورۃ النسآء پارہ ۵ آیت ۶۴)۔
ترجمہ؛ ۔ اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کے آستانہ پر آجاویں اور اللہ سے معافی چاہیں اور آپ بھی یارسول اللہ ان کی سفارش کریں تو بے شک یہ لوگ اللہ کو توبہ قبول کرنے والامہربان پائیں گے۔
مخالفین کے علمائے کرام کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ وہابیہ کے مشہور مولانا جونا گڑھی اپنے ترجمہ (مطبع شاہ فہد قرآن کمپلیکس سعودی عرب) میں لکھتے ہیں؛
ترجمہ:۔ ہم نے ہر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آجاتے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے استغفار کرتے (١) تو یقیناً یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔
وہابیہ ہی کے فتح محمد کی ترجمہ ابن کثیر میں کچھ یوں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے اور یہ لوگ جب اپنے حق میں ظلم کر بیٹھتے تھے اگر تمہارے پاس آتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول (خدا) بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتے تو خدا کو معاف کرنے والا (اور) مہربان پاتے
وہابیہ دیابنہ کے مولانا اسحاق مدنی کے ترجمہ میں لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا اس لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت (فرمانبرداری) کی جائے اللہ کی اذن سے، اور اگر یہ لوگ (جنہوں نے یہ حماقت کی تھی) جب ظلم کر بیٹھے تھے اپنی جانوں پر، تو سیدھے آجاتے آپ کے پاس، اور اللہ سے معافی مانگتے (اپنے جرم کی) اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کیلئے (اپنے رب کے حضور) معافی کی درخواست کرتا، تو یقینا یہ لوگ اللہ کو پاتے بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان ۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دیوبندیوں کے مولانا عاشق الٰہی میرٹھی نے اپنے ترجمہ انوارالبیان میں اسی آیت کے ماتحت لکھا؛۔
ترجمہء آیت؛۔ اور ہم نے پیغمبر نہیں بھیجے مگر اسی لیے کہ بحکم خداوندی ان کی فرمانبر داری کی جائے اور جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آپ کے پاس آتے پھر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو ضرور اللہ کو توبہ قبول کرنے والے اور مہربانی فرمانے والے پاتے۔
ایک اور مفتی دیوبند تقی عثمانی نے اپنے ترجمہ آسان قرآن میں لکھا ؛۔
ترجمہء آیت؛۔ اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔
ڈاکٹر اسراراحمد نے اپنے ترجمہ بیان القرآن میں یوں ترجمہ کیا ہے؛۔
ترجمہ ء آیت؛۔ ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے اور اگر وہ ‘ جبکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ‘ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو وہ یقیناً اللہ کو بڑا توبہ قبول فرمانے والا اور رحم کرنے والا پاتے
وہابیہ کے ترجمہ القرآن الکریم میں حافظ عبدالسلام بھٹوی نے لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیتِ ہٰذا؛۔ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرماں برداری کی جائے اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تیرے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش مانگتا تو اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے۔
ترجمہ تیسیر القرآن میں وہابیہ کے مولانا عبدالرحمٰن کیلانی نے لکھا ہے؛۔
ترجمہء آیت ؛۔ اور (انہیں بتلائیے کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے اور جب انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کرلیا تھا، تو اگر وہ اس وقت آپ کے پاس آجاتے اور اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش طلب کرتا تو یقینا اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے ۔
وہابیہ کے ترجمہ عبدالکریم اثری میں مولوی عبدالکریم اثری نے بھی لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے جس کسی کو بھی منصب رسالت دے کر دنیا میں کھڑا کیا اس لیے کیا کہ ہمارے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور جب ان لوگوں نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرلیا تھا تو اگر اس وقت تمہارے پاس حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے پھر اللہ کا رسول بھی ان کیلئے بخشش طلب کرتا تو یہ لوگ دیکھ لیتے کہ اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحمت رکھنے والا ہے ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دیوبندیوں کے ترجمہ معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع نے لکھا ہے؛۔
ترجمہ آیت:۔ اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اس کا حکم مانیں اللہ کے فرمانے سے اور اگر وہ لوگ جس وقت انہوں نے اپنا برا کیا تھا آتے تیرے پاس پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کو بخشواتا تو اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان۔
ترجمہ حقانی ابومحمد عبدالحق حقانی نے تحریر کیا؛۔
ترجمہء آیت؛۔ اور ہم نے ہر ایک رسول کو اسی لئے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کا حکم مانا جاوے اور کاش وہ لوگ جنہوں نے اپنا برا کیا ہے آپ کے پاس آتے (اور) پھر خدا سے معافی مانگتے اور رسول (بھی) ان کے لئے معافی مانگتا تو البتہ وہ اللہ کو (بھی) معاف کرنے والا مہربان پاتے
دیوبند، وہابیہ کے ایک اور بزرگ مولوی احمد علی نے اپنے ترجمہ قرآن میں کچھ یوں ترجمہ کیا؛
ترجمہ آیت؛۔ اور ہم نے کبھی کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسی واسطے کہ اللہ کے حکم سے اس کی تابعداری کی جائے اور جب انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آتے پھر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کی معافی کی درخواست کرتا تو یقیناً یہ اللہ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پاتے ۔ حصّہ دوم اس لنک میں پڑھیں : https://www.facebook.com/DrFaizChishti/posts/1286908248066597

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔