Wednesday, 22 February 2017
وجد تواجد صوفیا علیہم الرّحمہ کا جواز دلائل کی روشنی میں
وجد :وجد ایک ایسا روحانی جزبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہو جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس جزبہ کے وارد ہونے سے باطن کی ہیت بدل جاتی ہے اور اس کے اندر رجوع اِلَی الله کا شوق پیدا ہوتا ہے گویا وجد ایک قسم کی راحت ہے یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کی صفات نفس مغلوب ہوں اور اس کی نظریں اللہ تعالٰی کی طرف لگی ہوں۔
وجد بعض اہل ایمان میں سے ایسے لوگوں کو ہوتا ہے کہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت یا نعت سنتے ہیں یا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو خشیت الٰہی یا محبت الٰہی یا محبت رسول ﷺ کی وجہ سےیا اولیاء اللہ کی منقبت یا تعریف و توصیف سننے کی وجہ سے ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہےتو ذاکرین پہ انوار و تجلیات کا ورود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم مختلف حرکات کرنے لگتے ہیں ۔ کبھی وہ رونے لگتے ہیں کبھی بھاگنے لگتے ہیں کبھی بیہوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ادھر کبھی اُدھر کبھی آگے کبھی پیچھے جھکتے اور گرتے ہیں اور کبھی ان کے جسم تڑپنے لگتے ۔ یہ تمام حرکات غیر اختیاری ہوتی ہیں اس وقت انسان کا اپنے جسم پہ کوئی قابو نہیں ہوتا ۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے انسان کو جب چھینک یا کھانسی وغیرہ آتی ہے تو وہ انہیں قابو نہیں کر پاتا کیونکہ یہ غیر اختیاری افعال ہیں ۔ ایسے ہی وجد کی کیفیت بھی غیر اختیاری ہوتی ہے ۔
کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ وجد کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ یہ وہ غم ہے جو محبت میں ملتا ہے اس لیے بیان سے باہر ہے نیز وجد طالب اور مطلوب کے درمیان ایک راز ہے جسے بیان کرنا مطلوب کی غیبت کے برابر ہے وجد عارفوں کی صفت ہے۔‘‘(کشف المحجوب)۔
تواجد :حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ تواجد وجد لانے میں ایک تکلف ہوتا ہے ۔ اور یہ انعامات و شواہد حق کو دل کے حضور پیش کرنا ہے اور محبوب کے وصال کا خیال اور انسانی آرزووں کا جوش میں آنا ہے۔
حضورﷺ نے فرمایا:’’جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ اسی سے ہوتا ہے‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:’’ جب تم قرآن پڑھو تو روو، اگر رونا نہ آے تو تکلف سے روو‘‘
اور یہ حدیث تواجد کے مباح ہونے پر گواہ ہے۔ ‘‘(کشف المحجوب)
شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ذکر اور فکر سے وجد کو حاصل کرنا تواجد کہلاتا ہے۔ ‘‘(عوارف المعارف)
علامہ عبدالغنی ناطبی قدس سرہ فرماتےہیں:’’تواجد یہ ہے کہ ایک شخص کو حقیقتہ وجد حاصل نہ ہو لیکن وہ تکلف سے وجد کو اختیار کرتا ہے اور اسے ظاہر کرتا ہے ، اس میں شک نہیں کہ تواجد میں حقیقی وجد والوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مطلوب ہے۔رسول اکرمﷺ نے فرمایا:’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے‘‘۔(الحدیث النسدیہ ج۲ ص٥۲٥)
وجد کی اقسام :وجد کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں جیسے رونا، رقص کرنا، بھاگنا، تڑپنا (جس کو دیکھ کر بعض لوگ کرنٹ سے تشبیہ دیتے ہیں) کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی وجد میں ہوتا ہے جبکہ دیکھنے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ بلکل نارمل حالت میں ہے۔اور کئی بار تو آدمی وجد کی حالت میں ایسی حرکتیں کرتا ہے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ڈرامہ کر رہا ہے لیکن وہ ایسا جان بوجھ کر ہر گز نہیں کرتا بلکہ غلبہ انوار خداوندی اور غلبہ خشیتہ خداوندی کی وجہ سے یہ حرکات ہوتی ہیں۔کسی بزرگ نے وجد کے بارے میں فرمایا جس کا مفہوم عرض کرتا ہوں کہ جب وجد کا اثر زبان پر ہوتا ہے تو بندا روتا ہے چیختا ہے اور منہ سے مختلف الفاظ ادا کرتا ہے اور جب وجد کا اثر ہاتھوں پر ہوتا ہے تو وہ کپڑے پھاڑتا ہے منہ پر تماچے لگاتا ہے کبھی سینے پر مارتا ہے اور جب وجد کا اثر پاوں پر ہوتا ہے تو رقص کرتا ہے (کبھی تو بھاگتا بھی ہے)۔
وجد کی چند اقسام یہاں بیان کی جاتی ہیں:
(1) کل بدن کی حرکت اور اضطراب
(2) بعض بدن کی حرکت مثلاً لطائف کی حرکت
(3) رقص کرنا
(4) منہ سے کچھ الفاظ کا جاری ہو جانا مثلاً ھو، ھو، ھا، ھا، آہ، اف، اللہ، اللہ وغیرہ ﴿ اور یا رسول اللہ ﷺ بھی منہ سے جاری ہونا واللہ میں نے خود ایسا دیکھا ہے ﴾
(5) بکا و رونا بلا صوت بہنا
(6) کپڑے پھاڑنا دوڑنا اور چیخنا وغیرہ
(7) اعضاء کا ٹوٹ جانا موت کا خطرہ بلکہ واقع ہو جانا جیسا کہ حضرت داود علیہ السلام کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سینکڑوں کی تعداد وجد کی وجہ سے فوت ہو جاتے تھے۔ اورحضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجالس میں بھی ۲ سے لے کر جنازے تک اٹھتے تھے۔
(8) نعرہ لگانا اور کبھی نارہ لگا کر بےہوش ہو جانا
(9) نماز میں وجد بے اختیاری ، بےہوش ہونا وغیرہ بعض اوقات خارج نماز وجد طاری ہونا۔
وجد پر اعتراضات :وجد کی ویسے تو اوپر مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں لیکن سب سے زیارہ منکرین صوفیاء کے رقص پہ اعتراضات کرتے ہیں اور اسی سلسلہ میں کچھ فقہاء کی عبارات پیش کرتے ہیں جن میں رقص کو ناجائز کہا گیا ہے ۔ لیکن یہاں یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو نہیں بلکہ ایسے رقص کو ناجائز کہا ہے جو کسی دنیاوی غرض کے لیے ہو یا پھر دکھلاوے کے لیے ہو یا پھر ایسا رقص ہو جس میں زنانہ قسم کی حرکات ہوں یا پھر کسی غیر مرد یا عورت کے ساتھ کیا جائے یا پھر ایسا رقص ہو جو گانے بجانے کے ساتھ کیا جائے جیسا کہ فلموں میں آج کل ہوتا ہے یا پھر ایسا رقص ہو جو دباروں پہ ملنگ (اپنے آپ سے تنگ) کرتے ہیں جس میں گھنگھرو وغیرہ ڈال کے نشہ وغیرہ کر کے اور ڈھولوں پے کرتے ہیں اور ساتھ کچھ عورتیں بھی کھلے بالوں کے ساتھ ناچ رہی ہوتی ہیں یاد رکھیے گا یہ وجد نہیں ہوتا ۔ اور اس قسم کے رقص کو ہی علماء نے ناجائز کہا ہے ۔
یہاں واضح کر دوں کہ اس قسم کے رقص کو تو ہم بھی ناجائز کہتے ہیں اور ہمارے علماء کے اس پر فتوے موجود ہیں انشاءاللہ عزوجل آگے وہ بھی پیش کیے جائیں گے ۔
لیکن بعض منکرین ایسے رقص کو صوفیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ یہ بلکل غلط ہے نہ تو صوفیاء اسطرح کا رقص کرتے ہیں اور نہ ہی جائز سمجھتے ہیں بلکہ صوفیاء جو رقص کرتے ہیں وہ غلبہ عشق کی وجہ سے ہوتا ہے جو بے اختیار ہوتا ہے نہ کہ دکھلاوے کہ لیے اور اس قسم کے وجد و رقص کو فقہاء نے جائز کہا ہے ۔
میں نے کچھ دن پہلے ایک آرٹیکل دیکھا جو غیر مقلدین نے لکھا تھا جس میں انتہائی دھوکہ دہی سے کام لیا گیا اس میں حنفی فقہاء اور علماء کی کتابوں سے چند عبارات جو کہ جعلی صوفیاء (جن کو ملنگ بھی کہتے ہیں جو نشہ وغیرہ کرتے ہیں) کے بارے میں اور دنیاوی رقص جس میں سیٹیاں مارنا تالیاں بجانا وغیرہ جیسے افعال کیے جاتے ہیں کو ناجائز کہا گیا تھا ان کو صوفیاء پہ زبردستی چسپایا گیا جبکہ انہی فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو دلائل سے ثابت کیا ہے ۔
اور ظالم یہ نہ جانتے تھے کہ جس چیز کے ناجائز ہونے پہ وہ دلائل پیش کر رہے ہیں وہ صوفیاء میں نہیں بلکہ خود ان میں موجود ہیں جن کہ آگے ثبوت بھی دیے جائیں گے انشاءاللہ عزوجل ۔
قرآن کرم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ:اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اس سے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں.(سورة الزمر٣٩:٢٣)
تفسیر :(1) قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں یعنی اللہ کی رحمت اور عموم مغفرت کا جب وہ ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر کی وجہ سے ان کے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ رحمت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اصل تو رحمت ہی ہے اللہ کی رحمت غضب پر غالب ہے اِلٰی ذکر اللہ میں بمعنی لام ہے یعنی اللہ تعالٰی کے ذکر کی وجہ سے لیکن ذکر کے اندر چونکہ سکون و اطمینان کا مفہوم داخل ہے اس لیے بجائے لام کے اِلٰی کہا گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں آیاتِ وعید کا ذکر آتا ہے۔ تو مومنوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جلد بدن سکڑ جاتی ہے اس میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے اور جب آیات کا ذکر آتا ہے تو کھالوں کا انقباض جاتا رہتا ہے ۔ کھا لیں نرم ہو جاتی ہیں اور دلوں میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔
مزید قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اسی آیت کی تفسیر میں تفصیلاً وجد و حال پہ بحث کر کے اس کو ثابت کیا ہے ۔ ضرورت پڑنے پر پوری عبارت پیش کی جا سکتی ہے اور سکین پیج بھی لگایا جا سکتا ہے ۔(تفسیر مظہری سورة الزمر آیت ۲۳)
(2) اسی طرح مفسر جلیل القدر فقیہ اعظم علامہ ابو البرکات عبداللہ نفسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مدارک میں سورۃ زمر کی آیت ٢٣ کی تفسیر میں بدن کا لرزنا وجد اور حال کے اثبات اور شرافت کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :
قرآن کریم کی آیت کی تلاوت سن کر ان لوگوں کی کھال حرکت میں آئی ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ کھال کا اکڑ جانا اور پھر لرزنا نیز معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والے جب قرآن سنتے ہیں تو اس کے سننے سے ان کی کھال لرزنے لگتی ہے اور اس میں مضطراب اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں الفاظ ہیں کہ: ’’ جب مؤمن کی کھال اللہ تعالٰی کے خوف سے حرکت میں آتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔ ‘‘(تفسیرمدارک ج ٤ ص ٣٦ سورة الزمر آیت ۲۳)
تفسیر الجلالین میں تقشعر کا معنٰی ترتعد ﴿ کانپنا / لرزنا ﴾ تحریر کیا ہے ۔
تفسیر مدارک میں تقشعر کا معنٰی تتحرک اور تضطرب تحریر کیا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ:اور موسٰی نے اپنی قوم سے ستر (۷۰) مرد ہمارے وعدہ کے لئے چُنے پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا موسٰی نے عرض کی اے رب میرے تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولٰی ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے.(سورة الأعراف ٧:١٥٥)
تفسیر:اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں:حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کے اشراف سے ستر(۷۰) ایسے افراد کا انتخاب کیا جو صاحبان استعداد اور سلوک تھے۔جب ان پر تجلیات کا ظہور ہوا تو ان کے جلد اور بدن حرکت کرنے لگے اور ان کو زلزلے نے آ لیا۔ یعنی وہ کانپنے لگے اور کانپنا جو بدن پر تجلی صفاتیہ اور انوار و خوارق کے ظہور کے سبب سے لگتا ہے جو بدن پر بال کھڑے ہونے اور بدن کی حرکت سے عبارت ہے ، ایسی حالت اکثر سالکین پر ظاہر ہوتی ہے جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے سننے یا اشعار سننے سے آتی ہے قریب ہے کہ اس سے ان کے اعضاء ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ۔( وہ اشعار جن میں رسول اکرم ﷺ کی صفت کی گئی ہو یا اولیاء کرام کی مدح پر مشتمل ہوں ) اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا حضرت خالد رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں جو طریقہ نقشبندیہ میں تھے اور نماز کے دوران یہ حالت عارض ہونے کی وجہ سے اکثر وہ نماز میں چیختے تھے۔ اسی وجہ بعض سالکین نماز کا اعادہ کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے ان لوگوں پر بہت انکار کیا جاتا ہے اور میں نے بعض منکرین سے سنا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ حالت عقل و شعور کی موجودگی کے با وجود عارض ہو جائے تو یہ بےادبی ہے اور اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اگر یہ حالت عقل و شعور کی عدم موجودگی میں آ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وضو نہیں کرتے۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں جن کا خیال ہے کہ وجد اور اس حالت سے نماز اور وضو دونو ٹوٹ جاتے ہیں کہ یہ حالت غیر اختیاری ہے عقل و شعور کے ساتھ اس کی مثال کھانسی یا چھینک جیسی ہے اس لیے اس سے نہ تو نماز باطل ہوتی ہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے۔ اور شوافع نے کہا ہے کہ اگر نمازی پر ہنسنا غالب آجائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہے اور نمازی اس صورت میں معذور سمجھا جائیگا ۔ بعید نہیں کہ تجلیات غیر اختیاریہ کے آثار کو بھی اس کے ساتھ ملحق کیا جائے اور عدم فساد صلٰوۃ پر حکم کیا جائے اور کسی چیز کے غیر اختیاری ہونے سے اس چیز کا غیر شعوری ہونا لازم نہیں کیونکہ مرتعش کی حرکت غیر اختیاری ہے اور غیر شعوری نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عقل اور شعور موجود ہوتے ہیں اور یہ تو ظاہر باہر کا معاملہ ہے ۔ پس اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔(تفسیر روح المعانی سورة الأعراف آیت١٥٥)
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں۔
تفسیر : اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں یعنی حقیقت میں مومن مومن نہیں ہوتا مگر خشوع قلب کے ساتھ اور رونا اور بے اختیار گرنا ﴿یعنی وجد و حال﴾ باعث زیادتی خشوع قلب ہے۔(تفسیر کبیر ص ۹۳ جلد ۸)
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ: اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔(سورة الحشر ٥٩:٢۱)
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : قلب کی طما نیت ،شدت خوف سے جسم کی لرزش ، قلب کی رقت ، نرمی اور خشوع وجد ہی کے مختلف مظاہر ہیں، اگرچہ یہ مظاہر حالات کے قبیل سے ہیں ، مکاشفات کے قبیل سے نہیں ، لیکن کبھی کبھی یہ حالات بھی مکاشفات کا سبب بن جاتے ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع و الوجد ص٤٦٦ )
یہ آیت کریمہ اثبات وجد پر صریح دلیل ہے جب قرآن کریم کے نزول سے پہاڑ ٹکڑے ٹکڑ ے ہوتا ہے تو چاہئے کہ انسان کے بدن اور دل پر بھی اس کے آثار طاری ہوں جیسے رونا ، بے ہوش ہونا ، لرزہ طاری ہونا یا دیگر احوال جو وجد کی حالت میں پیش آتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ : اور جب موسٰی ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا عرض کی اے رب میرے مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا اسے پاش پاش کر دیا اور موسٰی گرا بے ہوش پھر جب ہوش ہوا بولا پاکی ہے تجھے میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔ (سورة الأعراف ٧:١٤٣)
تفسیر مظہری میں اس آیت کی تفسیر دیکھیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ : تو جب زلیخا نے ان کا چرچا سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دی اور یوسف سے کہا ان پر نکل آؤ جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنس بشر سے نہیں یہ تو نہیں مگر کوئی معزز فرشتہ ۔ (سورة يوسف ١٢:٣١)(دیکھیں تفسیر روح البیان)
احادیث مبارکہ، صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین اور اولیائے کرام سے
حدیث نمبر (1) حدّثنا عبد الله حدثني أبي، ثنا عبد الصمد قال: ثنا حماد ، عن ثابت ، عن أنس قال: كانت الحبشة يزفنون بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلّم ويرقصون ويقولون: محمد عبد صالح ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلّم: ما يقولون؟ قالوا: يقولون: محمد عبد صالح
ترجمہ : ’’حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حبشی حضور ﷺ کے سامنے موجود تھے اوررقص کرتے تھے (یرقصون) اور کہتے تھےمحمدﷺ عبد صالح حضور نبی اکرم ﷺ نے پوچھا یہ کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا محمد ﷺ عبد صالح‘‘
(مسند احمد ابن حنبل جلد۳ ص۱۵۲)اس حدیث کے تمام راوی صحیح بخاری اور مسلم والے ہیں ۔ شیخ شعیب الارنؤوط نے اس حدیث کے بعد کہا : إسناده صحيح على شرط مسلم ۔
امام ابن حجر الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ﴿رف ترجمہ﴾
کبہ بجانا ممنوع ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن رقص کرنا نہیں ، نہ ہی ممنوع ہے اور نہ ہی ناپسندیدہ ، کیونکہ یہ صرف حرکات ہیں جو جھک کر اور کھڑے ہو کر کی گیئں، اور مزید کیونکہ آپ ﷺ نے عید کے دن حبشیوں کا مسجد نبوی ﷺ میں ایسا کرنے پر اتفاق کیا (یعنی ایسا کرنے دیا) جیسا کہ بخاری اور مسلم نے روایت کیا ۔بولڈ میں جو لکھا ہوا ہے وہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی المنھاج سے ہے جبکہ باقی امام ابن حجر کی شرح ہے ۔﴿تحفہ المحتجا فی شرح المنھاج ﴾
امام احمد ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ جو کہ خود سلف ہیں کے علاوہ مزید جن آئمہ حدیث اور آئمہ لغت نے اسے رقص کہا ہے :
(1) امام طبرانی رحمتہ اللہ علیہ نے رقص کہا ، جلد ٩ ص۱۲۱ حدیث ۳
(2) امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے سنن الکبری میں ج ٥ ص ۳۰٥
(3) امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ، شرح بخاری ص۱۲۳
(4) امام جوہری نے اپنی کتاب الغت ص٤٦
(5) امام ابن منظور ، لِسان العرب جلد ۱۳ ص١٩٨٧،١٩٧
(6) امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے ، شرح صحيح مسلم ص ٣٤٧
(7) قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ، شرح صحيح مسلم ص ٤٢٩
(8) علامہ المرتضیٰ الزبیدی رحمتہ اللہ علیہ ، تاج العروس جلد ۱۸ ص ۲٢١،۲۰٦
حدیث نمبر (2) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ قَالَ فَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ مَوْلَايَ فَحَجَلَ قَالَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَنْتَ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي قَالَ فَحَجَلَ وَرَاءَ زَيْدٍ قَالَ وَقَالَ لِي أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ قَالَ فَحَجَلْتُ وَرَاءَ جَعْفَرٍ
ترجمہ :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، نبی کریم ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا:زید! آپ ہمارے آزاد کردہ غلام ہیں ( أَنْتَ مَوْلَايَ) تو اس پر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے گرد ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجل) ،پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت جعفر سے فرمایا : جعفر! آپ صورت اور سیرت میں میرے مشابہ ہیں اس پر حضرت جعفر نے بھی حضرت زید کے پیچھے ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجل) ،پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا : علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں اس پر انہوں نے بھی حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجلت) ‘‘
(مسند احمد ابن حنبل جلد۱ ص۵۳۷ ، حدیث۸۵۷)
محدث شیخ احمد شاکر نے اپنی مسند احمد کی تحقیق میں کہا ’إسناده صحيح‘ (مسند احمد جلد ١ ص٥٣٧ حدیث ٨٥٧)
امام البزار رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ﴿ البزار ، المسند جلد ٢ ص ٣١٦ حدیث ٧٤٤ ﴾
امام الهیثمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام البزار رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اس کو صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ، (مجمع الزوائد جلد٥ ص۱۵۷)
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سنن الکبری میں روایت کیا ہے (جلد ١٠ ص ٢٢٦ حدیث ٢٠٨١٦)
امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ ﴿ نسائی ، السنن الکبریٰ جلد ٥ ص ۱٦٨،۱٢٧ ۔ ٨٥٧٨، ٨٤٥٦ ﴾
امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ ﴿ ابن حبان الصحیح جلد ١١ ص ٢٢٩ حدیث ٤٨٧٣ ﴾
امام ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی طبقات میں (جلد ٤ ص ٢٢)
امام الحافظ البیہقی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وفي هَذَا إنْ صَحَّ دلالةٌ على جوازِ الحَجْلِ، وهو أَنْ يَرْفَعَ رِجْلاً ويَقْفِزَ على الأُخْرَى مِنَ الفَرَحِ، فالرقصُ الَّذِي يكونُ عَلَى مِثَالِهِ يكونُ مِثْلَهُ في الجوازِ. والله أعلمُ
رف ترجمہ:اس حدیث میں صحیح ثبوت اور جواز ہے حجل (رقص) کا جس میں خوشی کی حالت میں اوپر اٹھنا اور کودنا شامل ہے اور اسی طرح رقص کرنا جو اس جیسا ہو کا بھی جواز ہے ۔ واللہ اعلم۔ (سنن البیہقی الکبری ١٥/٣٣٣)
نوٹ:اس حدیث کے ایک راوی هانی بن هانی جن پر سلفی جرح ثابت کرتے ہیں ، یہ رہی اس پر مفسر تعدیل:محدثین نے کہا :هانئ بن هانئ عن على رضى الله عنه. قال ابن المدينى: مجهول. وقال النسائي: ليس به بأس. وذكره ابن حبان في الثقات
ترجمہ:ھانی بن ھانی نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا، ابن المدينى نے کہا: وہ مجھول ہے ، امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا :اس میں کوئی نقص نہیں، اور ابن حبان نے اس کا ذکر اپنی ثقات میں کیا ۔(امام ذہبی، میزان الاعتدال ٧/٧١)
نوٹ:یاد رکھیے کچھ محدثین کی نظر میں مجھول ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ راوی کمزور ہے ، کیونکہ تمام محدثین تمام رجال کے بارے میں نہیں جانتے تھے ، اس لیے اگر دوسرے محدثین نے تعدیل کی ہو اور کچھ نے مجھول کہا ہو تو تعدیل کو ترجیح دی جائے گی ۔۔
(1) امام ترمزی رحمتہ اللہ علیہ:
امام ترمزی نے ھانی بن ھانی سے کئی احادیث کو ’حسن صحیح‘ قرار دیا ہے
(سنن ترمزی جلد ٥ حدیث ۳۷۹۸)
(2) امام ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ:
امام ابن ماجہ نے اس سے رویت کیا اور سکوت کیا
(سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث ۱٤۳)
(3) امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ: امام ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں ھانی بن ھانی کا ذکر کیا (٥/٥٠٨)
(4) امام الاجلی رحمتہ اللہ علیہ:امام الاجلی نے کہا :هانىء ابن هانىء، كوفي، تابعي ثقة
(ثقات الاجلی جلد۱ ص٤٥٤)
(5) امام الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ:امام الھیثمی نے کہا :ورجال أحمد والبزار رجال الصحيح غير هانىء بن هانىء وهو ثقة
ترجمہ:احمد اور البزار کے رجال صحیح والے ہیں سوائے ھانی بن ھانی کے جو ثقہ ہے
(مجمع الزوائد ٨/١٠٢)۔
(6) امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ : امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ھانی بن ھانی سے احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔﴿مستدرک الحاکم ۱۷۹ /۳)
(7) ناصر الدین البانی : وھابی سلفیوں کےشیخ نے بھی ھانی بن ھانی سے احادیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح سنن ابن ماجہ ، البانی ۱/١١٩)
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وھابیہ / سلفیوں کے معروف محدث شیخ احمد شاکر نے اپنی مسند احمد کی تحقیق میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور البانی نے ھانی بن ھانی سے احادیث کو صحیح قرار دیا ہے تو اس کے بعد اب وھابیہ کے لیے کوئی گنجائیش نہیں رہ جاتی اعتراض کرنے کی ۔ الحمدللہ یہ دو ﴿٢﴾ احادیث صوفیاء کے وجد و رقص کے لئے قوی دلیل ہیں ۔
حدیث نمبر (3) اسی طرح امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے عذاب قبر کے باب میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی راوایت نقل کی :’’ قالت قام رسول اللہ ﷺ خطیبا فذکر فتنه القبر تفتن فیھا المرء فلما ذکر ذالک ضج المسلمون ضجة ای صاحوا صیحة ‘‘
ترجمہ:حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو فتنہ قبر کا ذکر کیا جو بندے سے امتحان ہوتا ہے۔ جب قبر کی حالت کا ذکر ہوتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے چیخیں مارنا شروع کیں۔
اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ ان الفاظ کا اضافہ کیا !’’ حتی حالت بینی وبین ان افھم کلام رسول اللہ ﷺ فلما سکنت ضجتھم قلت لرجل قریب منی ای بارک اللہ فیک ماذا قال رسول اللہ ﷺ فی آخر قوله؟ قال : قد اوحی الی انکم تفتنون فی القبور قریبا من فتنة الدجال‘‘
ترجمہ:یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا وہ شور میرے اور حضورﷺ کا کلام مبارک سمجھنے کے درمیان حائل ہوا جب حضورﷺ کا خطبہ مبارک ختم ہوا تو میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ آخر میں نبی کریمﷺ نے کیا فرمایا ؟ تو انہوں نے کہا حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ فتنہ دجال کے وقت تم قبر کے فتنے میں ڈالے جاؤ گے۔
(1) بخاری ، کتاب الجنائز ج ١ ص ۱۳۸
(2) سنن نسائی ، کتاب الجنائز ج ١ ص٢٢٤ ،کتاب التعوذ من عذاب القبر
(3) مشکوٰۃ شریف ، باب اثبات عذاب القبر ج ١ ص ٢٦
اب غور کرنا چاہئے کہ نبی اکرم ﷺ کا وعظ و خطبے کے دوران صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا خوفِ الٰہی کے سبب چیخیں مارنا خلافِ ادب تصور کیا جائے گا یا نہیں حضور اکرم ﷺ کی محفل اقدس میں اور حضور ﷺ کی آواز مبارکہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کی آوازیں خوفِ الٰہی کی وجہ سے بلند ہو گئی تھیں۔ کہ چیخیں مار رہے تھے اور اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔ سورۃ حجرات آیت ٢
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا خوف الٰہی کے سبب چیخیں مارنا اور رونا غیر اختیاری تھا۔ عقل و شعور کے باعث یہ چیخیں مارنا وجد کے باعث تھا اور یہ بھی اقسام وجد میں سے ایک قسم ہے جس طرح علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ۔
حدیث نمبر (4) اسی طرح امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں : حضور اکرم ﷺ نے ایسا بے مثل خطبہ دیا جس کا مثل کوئی خطبہ میں نے کبھی نہیں سنا۔ اس خطبے میں فرمایا : اگر تم جانتے ، جو کچھ میں جانتا ہوں تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے اثر کے باعث صحابہ کرام نے اپنے چہرے چھپا لئے اور رونا گریا و زاری کرنا سسکیاں لینا شروع کیں۔﴿بخاری شریف ، کتاب التفسیر باب قو له تعالٰی ’ لا تسئلوا عن اشیاء ‘ الآیۃ ج ٢ ص ٦٦٥﴾
اس روایت سے بھی وجد ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خوف الٰہی کے باعث رونا ، سسکیاں لینا یہ بھی وجد کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔
یہاں تھوڑی سی وضاحت لازمی ہے ۔ کچھ لوگ یہ روایت پڑھ کے کہیں گے کہ یہ تو خشیت کی وجہ سے تھا پھر وجد کیسا ؟
تو جواب یہ ہے کہ یہی تو بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ بلکل خشیت کے باعث ہی تھا لیکن خوف و خشیت تو دل میں ہوتا ہے لیکن اس کے اثر کی وجہ سے جو حرکات صادر ہوتی ہیں۔ اسے وجد کہتے ہیں ۔
خوف و خشیت کی زیادتی کی وجہ سے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں کبھی آدمی چیخیں مارتا ہے اور کبھی منہ سے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں بے اختیار کبھی جسم کانپنے لگتا ہے کبھی آدمی گر جاتا ہے اور تڑپنے لگتا ہے کبھی آدمی بیہوش ہو کہ گر جاتا ہے اور کئی اللہ کے نیک بندے تو فوت بھی ہو جاتے ہیں ۔ اور نماز میں بھی ایسی حرکات بے اختیار ہو جاتی ہیں فقہ کی کتابوں میں اسکو جائز کہا گیا ہے۔
اور جب خوشی عشق و محبت کی کیفیت غالب آجائے تو انسان بے اختیار رقص شروع کردیتا ہے کبھی کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور کبھی دوڑنے لگتا ہے ۔
عشق الٰہی ، خوف الٰہی، عشق رسول ﷺ یا اپنے شیخ کی محبت یا کسی ولی اللہ کی محبت جیسی کیفیات جب کسی پہ غالب آجائیں تو اس وقت جو حرکات اس سے صادر ہوتی ہیں وہ وجد کہلاتی ہیں یہ بے اختیار ہوتی ہیں جیسے کھانسی اور چھینک وغیرہ جیسے افعال بے اختیار ہوتے ہیں ۔
اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اثرات اور کیفیات احادیث مبارکہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تابعینؓ ، تبع تابعینؓ اور اولیائے کرامؓ سے ثابت ہیں ۔ پہلے بھی یہ بات کہی پھر وضاحت کرتے ہیں کہ ہم ہر گز جعلی صوفیاء کے رقص یا ریا کاری اور دکھلاوے کے وجد کے حق میں نہیں ہیں نہ ہی اسکو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان پہ فتوے بھی ہمارے اہل سنت و الجماعت کے اپنے علماء نے لگائے ہیں انشاءاللہ آگے پیش کیے جائیں گے ۔
حدیث نمبر (5) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : جب رب الکریم نے اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت کریم نازل کی جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ۔
ترجمہ:’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘
یہ آیت کریمہ ایک دن نبی کریمﷺ نے اپنے اصحاب کے سامنے تلاوت کی ایک نوجوان لڑکا سنتے ہی بے ہوش ہوگیا۔نبی کریم ﷺ نے اس کے دل پر اپنا ہاتھ مبارک رکھا اس کا دل دھڑک رہا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا !کہو ’’ لا اِله الا اللہ ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی جنت کی خوشخبری سنائی۔﴿الترغیب والترھیب جلد ٤ ص ٢٣٣﴾
حدیث نمبر (6) حضرت عقبہ بن مسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ شفیا الاصجی نے فرمایا ہے کہ : میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا میں نے ایک آدمی دیکھا جس کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں لوگوں نے جواب میں کہا یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں شفیا الاصجی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھ گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو حدیث بیان کر رہے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ چلے گئے تو میں نے عرض کیا کہ مجحھے کوئی ایسی حدیث بیان کریں جو آپرضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو اور یاد کی ہو ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں تم کو ایسی حدیث بیان کرونگا جو مجھے نبی کریم ﷺ نے بیان کی ہو جو میں نے سمجھی ہو اور یاد کی ہو ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ سردار کونین ﷺ کے اسم شریف کو پہنچ جاتے تو بیہوش ہو جاتے۔ پھر جب بیدار ہوتے تو نبی کریم ﷺ کا نام لیتے ہی بے ہوش ہو جاتے ۔ پھر بیدار ہوتے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مسخ کرتے۔﴿ جامع الترمزی ج ٦ ص ٦١ ابواب الزھد﴾
یہ حدیث شریف بھی اثبات وجد کیلئے قوی دلیل ہے اس لئے کہ غشی اور بے ہوشی بھی وجد کی انواع میں سے ایک نوع ہے ۔
حدیث نمبر (7) ’’ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال : اکثر وا ذکر اللہ تعالٰی حتی یقولوا مجنون ‘‘
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں مجنون ﴿دیوانہ﴾ کہیں۔
( احمد ابن حنبل المسند ج٣ ص ٦٨، ج ٣ ص ٧١
ابن حبان الصحیح ج ٣ ص ٩٩
ابو یعلٰی المسند ج ٢ ص ٥٢١
حاکم المستدرک ج ۱ ص ٦٧٧
بیھقی شعب الایمان ج ١ ص ٣٩٧
منذری الترغیب والتریب ج ٢ ص ٢٥٦
ھیثمی مجمع الزوائد ج ١٠ص ٧٥
قرطبی الجامع لاحکام القرآن ج ٢ ص ١٩٧
ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم ج ٣ ص ٤٩٦)
ایک اور روایت میں ہے :’’ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ اذکرو اللہ ذکا یقول المنافقون : انکم تراؤون ‘‘
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ کا ذکر اس قدر کرو کہ منافق تمہیں ریا کار کہیں ۔
( الکنز الثمین فی فضیلۃ الذکر والذاکرین ص ٩٤
طبرانی المعجم الکیر ج ٢ ص ٨١
ابن رجب جامع العلوم والحکم ج ١ ص ٤٤٤
ابن کثیر ج ٣ ص ٤٩٦
ابو نعیم حلیۃ الولیاء و طبقات الاصفیاء ج ٣ ص ٨١)
حدیث نمبر (8) حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ ترجمہ :’’اور جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں ‘‘
پھر فرمایا! یہ آگ ہزار سال تک جلتی رہی حتٰی کہ سرخ ہو گئی پھر ہزار سال تک جل کر سیاہ ہوئی نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک کالا آدمی تھا اس نے چیخ مار کر رونا شروع کر دیا ۔ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا : یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے سامنے رونے والا کون ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ یہ حبش کا ایک آدمی ہے ۔ آپ ﷺ نے اس کی اچھی صفت و مدح بیان فرمائی پھر فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : کسی انکھ سے میرے خوف کی وجہ سے آنسو نہیں بہتا مگر میں ضرور جنت میں اس کے لیے ہنسنا زیادہ کرونگا ۔ ﴿ الترغیب والترھیب ج ٤ ص ٣٤۔٢٣٣ ﴾
حدیث نمبر (9) امام ترمذی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ نے شمائل ترمذی میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک رویت نقل کی ہے : ایک دفع حضور اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں سورج گرہن ہو گیا آپ ﷺ نماز کیلئے اٹھے اور اتنا لمبا قیام فرمایا کہ محسوس ہوا کہ رکوع ہی ادا نہ فرمائینگے بعد اذاں رکوع ادا فرمایا رکوع بھی طویل فرمایا قریب تھا کہ سر مبارک حالت رقوع سے اٹھا نہ فرمائیں گے پھر سر مبارک اٹھایا اور پھر بہت دیر کھڑے رہے پھر سجدہ ادا فرمایا سجدہ بھی طویل فرمایا اور سجدوں کے درمیان جلسہ بھی نہایت طویل فرمایا۔ پھر دوسرا سجدہ ادا فرمایا یہ بھی طویل سجدہ تھا سجدے میں حضورﷺ اوہ اوہ فرما رہے تھے اور گریہ و زاری جاری تھی۔
﴿ رواہ الترمذی : ١٦٩ ، باب : ما جاء فی بکاء النبی ﷺ﴾اور ابو داؤد شریف میں یہ الفاظ موجود ہیں : ﴿و قال فی سجدته اُف اُف﴾ حضور نبی اکرم ﷺ نے حالت نماز میں اُف اُف کہا۔
اس حدیث سے بھی وجد ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا حالت نماز میں اف اف کرنا کثرت خشیت کی وجہ سے ہے اور فقہائے کرام نے فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص حالت نماز میں اللہ کے خوف کی وجہ سے یا پھر جنت یا دوزخ کے خیال سے روتا ہے اور رونے میں اف و آہ کرتا ے یا الفاظ حاصل ہوتے ہیں اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ یہ خوف عین اللہ کا خوف اور یاد الٰہی کی وجہ سے ہے ۔ اوپر پیش کی گئی علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت پڑھیں مزید اس پر بھی دلائل دیے جائیں گے۔ ان شاءاللہ عزوجل ۔
حدیث نمبر ( 10 ) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی باب میں حضرت مطرب بن عبداللہ بن شخیر رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ اپنے والد سے : ’’ قال اتیت رسول اللہ ﷺ وھو یصلی ولجوفه ازیر کازیر المرجل من البکاء۔ و فی روایۃ ازیر الرحی‘‘
ترجمہ:وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے قریب حاضر ہوا تو آپ ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ابلتی ہوئی ھانڈی کی طرح آواز آرہی تھی جو کہ آپ ﷺ کے گریہ کے سبب تھی۔﴿رواہ الترمذی باب : ما جاء فی بکاء النبی ﷺ﴾
دوسری روایت میں یہ ہے کہ چکی گھومنے کی طرح آواز خارج ہو رہی تھی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :بعض صوفیاء عظام پر جب خوف الٰہی غالب آجاتا ہے تو وہ رونے لگتے ہیں اور ان کے اعضاء حرکت کرتے ہیں جیساکہ :
حضور پاکﷺ جب رات کو نماز پڑھتے تو آپ ﷺ کے سینے مبارک سے ہانڈی کے جوش مارنے کی آواز آتی۔﴿حجتہ اللہ البالغہ ج٢ ص ٩٩﴾
فتح القدیر میں اس حدیث شریف سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ:یہ حدیث مبارکہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر حجت ہے اس لئے کہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اہ اوہ اور رونا مطلقاً نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ جب ان سے حروف حاصل ہو جائیں حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ھانڈی کے ابلنے سے حروف ضرور حاصل ہوتے ہیں اگر کوئی شخص کان لگا کر سن لے۔﴿فتح القدیر شرح ھدایه: باب یفسد الصلٰوۃ وما یکره فیھا ج ١ ص ٣٤٦﴾
حدیث نمبر ( !1 ) امام ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں : ابواراکہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے فجر کی نماز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی اور جب آپ دیئں جانب مڑے تو آپ ٹھہر گئے ، گویا آپ غمگین ہیں اور جب مسجد کی دیوار پر سورج ایک نیزہ بھر آیا تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر فرمایا’ خدا کی قسم میں نے محمد مصطفیٰ ﷺ کے اصحاب کو دیکھا ہے اور آج میں ان کی مانند کسی چیز کو نہیں دیکھتا ‘ وہ صبح کو خالی پیٹ پرا گندہ مُو غبار آلودہ حالت میں اٹھتے‘ اور خدا کی خشنودی کی خاطر رات گزارتے اور کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر باری باری آرام کرتے اور صبح کرتے تو اس طرح جھومتے جیسے آندھی کے روز درخت جھومتا ہے اور ان کی آنکھیں اشک ریزی کرتیں حتٰی کہ ان کے کپڑے بھیگ جاتے ‘ خدا کی قسم لوگ غفلت میں رات گزار دیتے ہیں پھر آپ اٹھے اور اس کے بعد آپ کو مسکراتے نہیں دیکھا حتٰی کہ دشمن خدا ‘ فاسق ابن ملجم نے آپ کو قتل کر دیا۔
﴿ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ج ٨ ص ۱٤ ﴾
حدیث نمبر ( 12 ) اسی طرح امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ :قال ’’ سمعت النبی ﷺ یقرأ فی المغرب بالطور فلما بلغ ھٰذه الأیۃ ﴿ ام خلقوا من غیر شئ ام ھم الخالقون ﴾ کاد قلبی ان یطیر ‘‘
ترجمہ:جبیر بن مطعم رضی اللہ تعا لٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ مبارک نماز مغرب میں سورہ طور تلاوت فرما رہے تھے جب اس آیت کریمہ پر پہنچے ﴿ام خلقوا﴾ تو قریب تھا میرا دل اڑنے لگ جائے۔﴿رواہ البخاری ج ۲ ص ۷۲۰ ﴾
یہ حدیث شریف بھی اثبات وجد پر صریح دلالت کرتی ہے اس لئے کہ دل کا اُڑ جانا بھی وجد کی ایک قسم ہے مگر چونکہ قلب جسم سے متصل ہے اور جسم عالم سفلی ہے اور قلب عالم علوی ہے لہٰذی قلب حالتِ وجد میں اڑنے کا تقاضا کرتا ہے۔ جبکہ جسم بر خلاف ہو تا ہے ، نتیجۃً غیر اختیاری فعل سر انجام پاتا ہے۔
حدیث نمبر ( 13 ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:’’وَ اِذَا رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْكًا كَبِیْرًا ‘‘
ترجمہ:اور جب تو ادھر نظر اٹھائے ایک چین دیکھے اور بڑی سلطنت (سورۃ الدھر آیت ٢٠)
تو ایک حبشی نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ کیا میری آنکھیں جنت کی نعمتیں اس طرح دیکھیں گی جس طرح آپ ﷺ کی آنکھیں دیکھیں گی؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں ! اس حبشی نے رونا شروع کر دیا حتیٰ کے اسکی روح اس کے جسم سے پرواز کر گئی۔ اور فوت ہوئے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول ﷺ کو دیکھ رہا تھا کہ حبشی کو قبر میں رکھ رہے تھے ۔﴿ الترغیب والترھیب ج ٤ ص ۳۹۹ ﴾۔
حدیث نمبر ( 14 ) اسی طرح عبدالغنی نابلسی رحمتہ اللہ علیہ نے حدیقۃ الندیه پر علامہ شعرانی رحمتہ اللہ علیہ نے تنبیه المغترین میں روایت کی ہے :’’حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ایک قاری سے یہ آیت کریمہ سنی ﴿ وان جھنم لمو عداھم اجمعین ﴾ تو چیخ ماری اور دونوں ہاتھ سر پر رکھ لئے اور سر گردان و پریشان باہر نکل گئے اور یہ سمجھ نہیں رہے تھے کہ کس جانب جائیں، تین دن تک اسی کیفیت میں رہے ۔‘‘﴿ حدیقۃ الندیه ص ١٠٩ ﴾
یہ چند ایک احادیث مبارکہ پیش کی ہیں اور ابھی بہت سی احادیث اور روایات کہ جن سے وجد کا ثبوت ملتا ہے آرٹیکل لمبا ہونے کے ڈر سے پیش نہیں کیں لیکن ضرورت پڑنے پر وہ بھی پیش کی جاسکتی ہیں ۔انکے بعد اب مزید کچھ اور حکایات و واقعات کہ جن سے تابعینؓ، تبع تابعینؓ اور اولیاءؓ کے وجد میں حالات اور کیفیات کا پتہ چلتا ہے ملاحظہ فرمائیے۔
(1) امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ : امام ابن حجر مکی الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ الخیرۃ الحسان میں جلیل القد ہستی امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں :’’ ایک دن حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ نے فجر کی نماز میں اس آیت مبارکہ کی تلاوت کی ﴿ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون﴾ تو لرزنے لگے یہاں تک کہ لوگوں نے ان کا لرزنا دیکھ لیا۔ ‘‘﴿الخیرۃ الحسان ص ٣٦ فصل ١٥﴾
یہ واقعہ بھی نماز میں وجد کے وارد ہونے کیلئے قوی دلیل ہو گیا ۔
(2) امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ : اسی طرح ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں تحریر کیا ہے : ’’روایت ہے کہ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک قاری کو یہ آیت کریمہ تلاوت کرتے ہوئے سنا ﴿ھذا یوم لا ینطقون ولا یؤذن لھم فیعتذرون﴾ تو امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ لرزنے لگے اور بے ہوش ہو گئے۔‘‘﴿مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج١ ص ٦٦﴾
جلیل القدر مجتہد جو تبع تابعین میں سے ہیں ایک مسلک کے امام ہیں ان پر جو کیفیت طاری ہوئی خاصکر قرآن کریم کی تلاوت سنتے وقت یہ بھی وجد کی اثبات پر قوی دلیل ہے کہ بزرگان دین پر وجد کی حالت طاری ہوتی تھی۔
(3) جلیل القدر تابعی ربیع بن اخثم رضی اللہ تعالٰی عنہ:امام غزالی احیاء العلوم الدین میں حضرت ربیع بن اخثم تابعی رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ نقل کرتے ہیں :’’ ایک دن ربیع بن اخثم رحمتہ اللہ علیہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ لوہار کی بھٹی کے پاس سے جا رہے تھے ، جب ربیع بن اخثم نے لوہار کی بھٹی کو دیکھا کہ اس کو ہوا دی جا رہی ہے اور آگ کے شعلے لپک رہے تھے تو چیخ ماری اور بیہوش ہو کر گر گئے ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعلٰی عنہ ان کے قریب کھڑے تھے۔ اس دوران نماز کا وقت ہو گیا اور آپ ہوش میں نہ آئے تو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعلٰی عنہ نے آپ کو پیٹھ پر اٹھا کر ان کے گھر تک پہنچا دیا۔ دوسرے دن صبح تک وہ بے ہوش رہے اسی دوران پانچ نمازیں ان سے قضاء ہوئیں بعد ازاںحضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعلٰی عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم خوفِ الٰہی کے باعث ان پر یہ کیفیت طاری ہوئی ۔ ‘‘
﴿احیاء العلوم ج ١ ص ١٧١﴾
(4) زراہ بن اوفی تابعی رضی اللہ تعالٰی عنہ: امام غزالی رحمتہ اللہ تعلٰی علیہ نے زراہ بن اوفی تابعی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ نقل کیا ہے : روایت ہے کہ زراہ بن اوفی رضی اللہ تعالٰی عنہ جو تابعی ہیں لوگوں کو مقام رقہ میں امامت کروایا کرتے تھے جب یہ آیت کریمہ تلاوت کی ﴿ فاذا نقر فی الناقور ﴾ تو دورانِ نماز محراب میں گر گئے اور وفات پا گئے ۔
( احیاء العلوم ج ٢ ص ٢٩٧ ، الترغیب والترھیب ج: ٤ ص ٤٧٤)
(5) امام شبلی رحمتہ اللہ علیہ:ایک دن امام شبلی رحمتہ اللہ علیہ مسجد میں امام کے پیچھے ماہ رمضان میں نماز عشاء پڑھ رہے تھے امام نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔
’’وَ لَىِٕنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ‘‘ ﴿سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٨٦﴾
تو امام شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے وجد کی وجہ سے ایک چیخ ماری لوگوں نے یہ خیال کیا کہ امام شبلی رحمتہ اللہ علیہ وفات پا گئے ہیں ، آپ رحمتہ اللہ علیہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور باقی اعضاء حرکت میں آ گئے۔﴿احیاء العلوم ج ٢ ص ۲٩٤﴾
(6) ابو القاسم قشیری رحمتہ اللہ علیہ : حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ انوار القدسیہ میں جناب ابو القاسم قشیری رحمتہ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں :اشعار اور قوالی ہر وقت نفع بخش ہے خاص کر ضعیفوں کے لیے مفید ہے اس لیے کہ سماع سے ہر عضو پر خاص اثر ہوتا ہے آنکھیں اس کے اثر سے روتی ہیں زبان پر اثر ہو تو وہ چیخ مارتی ہے ۔ ہاتھ متاثر ہو تو کپڑے پھاڑے جاتے ہیں اور چہرے پر تھپڑ مارا جاتا ہے اور جب پاؤں پر اثر ہو تو رقص کرنے لگتے ہیں۔﴿انوار القدسیہ ج۱ ص۱٨٦﴾
(7) حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ : حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ دوران وجد بے قابو ہو جاتے ہیں اور وجد میں گھومتے ہیں اس کے بارے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کیا رائے ہے ؟انہوں نے فرمایا ان لوگوں کو اللہ کی محبت میں چھوڑ دو کیونکہ طریقت نے انکے دل کاٹ دیے ہیں اگر تم ان کی لزت سے آشنا ہو جاؤ تو چیخنے چلانے اور کپڑے پھاڑنے میں ان کو معزور سمجھو گے۔
﴿رسائل ابن عابدین شامی ج ١ ص ١٧٢﴾
(8) حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رضی اللہ عنہ : محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی سیرت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں تقریر فرمانے کے بعد جب توجہ فرماتے تو پوری مجلس پہ وجد و حال طاری ہو جاتا آپ کی تو نگاہ اور توجہ کا یہ عالم تھا کہ ٢ سے لیکر ۷۰ جنازے اٹھتے تھے ۔ لیکن آج جب آپ کے غلام کسی کو توجہ فرمائیں اور اسکی وجہ سے ہلکا سا وجد ہو تو لوگ کرنٹ سے تشبیہ دیتے ہیں اور لاعلمی میں کئی چیزوں کا انکار کر جاتے ہیں ۔
کتاب بہجتہ الاسرار میں حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کا ارشاد پاک ہے :
’’الخوف للمزنین والرھبة للعابدین ولخشیة للعالمین والوجد للمحبین۔‘‘
ترجمہ:یعنی، خوف گنہگاروں کے لیے ہے اور رہبت عابدوں کے لیے اور خشیت عالموں کے لیے اور وجد عاشقوں کے لیے ہے۔﴿ بہجتہ الاسرار ﴾
(9) حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ :حضرت مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ نفحات الانس میں نقل کرتے ہیں کہ:حضرت خواجہ نظام الدیں رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قیامت میں کوئی کسی چیز پر فخر کرے گا اور کوئی کسی پر میں صاحب وجد و حال امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ کے سوز سینہ پر فخر کروں گا ۔﴿ نفحات الانس ﴾
(10) خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ :خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت قاضی حمید الدین رحمتہ اللہ علیہ مجلس سماع میں حاضر تھے ، اور قوالوں نے شعر : کشتگان خنجر تسلیم را ھر زماں از غیب جان دیگر است ۔
پڑھا اس شعر پر حضرت خواجہ قطب الدین علیہ رحمتہ کو وجد ہوا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ چاہتے تھے کہ نعرہ ماریں مگر قاضی حمید الدین رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے منہ کے آگے ہاتھ دے دیا اور کہا جہاں جل جائے گا۔﴿سیر المشائخ﴾
یہ چند ایک واقعات پیش کئے ہیں اور ایسے کئی واقعات ہیں جن کو نہیں لکھا گیا کیونکہ سب کو لکھنا بہت مشکل ہے اس لئے مختلف ادوار کی معروف و مشہور شخصیات جن میں تابعینؓ تبع تابعینؓ مجتہدینؓ اور اولیائے کرامؓ شامل ہیں کے واقعات نقل کیے ہیں تاکہ یہ بات ظاہر ہو جائے کہ وجد و حال نبی کریم ﷺ سے لے کر آج تک اس امت میں بلکہ ہم سے پہلی امتوں میں بھی موجود تھا
اور وھابیہ کا اس نعمت سے انکار اس لئے ہے کیونکہ یہ اول درجہ کے بے وقوف جاہل ہیں اور ان کی عقلوں پہ شیطان کا قبضہ ہے ۔
ان کے لئے امام غزالی کا ایک قول نقل کروں گا :’’یعنی جو شخص سماع اور وجد کے اثرات سے انکار کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی کوتاہ علمی ہے ۔ اس شخص کے پاس وہ علم نہیں جسکے ذریعے وہ صوفیاء کرام کے احوال جان سکے ایسے شخص کی مثال اس ہجڑے کی طرح ہے جو اپنی نامردی اور قوت شہوت کی عدم موجودگی کے باعث لزت جماع سے انکار کرے۔‘‘﴿کیمیائے سعادت رکن دوم ص ١٩٨﴾۔
ویسے تو قرآن و حدیث سے ہی وجد ثابت ہے لیکن آگے کچھ مزید علماء ، فقہاء اور محدثین سے اس کے جائز ہونے کے ثبوت دیے جائیں گے کیونکہ میں نے آن لائن ایک آرٹیکل پڑھا ہے جس میں منکرین نے نہ صرف صحیح احادیث کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ فقہاء اور علماء اور محدثین کی کتابوں سے عبارات کو غلط طریقے سے پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی گئی ہے وجد ناجائز ہے ۔ لہٰذا انہی فقہاء کی کتابوں سے وجد کے دلائل بھی پیش کئے جائیں گے اور انشاءاللہ وھابیہ کی خیانتیں اور جال سازیاں بھی کھول کر بیان کی جائیں گی ا نشاء اللہ عزوجل
علماء، محدثین اور فقہاء علیہم الرّحمہ سے :
علامہ ابن عابدین شامی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ : اسی طرح علام محقق اور مدقق سید محمد آمین افندی شہیر بابن عابدین شامی رحمتہ اللہ علیہ جو فقہ حنفی کے بہت بڑے عالم اور فقیہ گزرے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فتاوای سے بعض منکرین حوالہ دیتے ہیں جس میں علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ نے رقص کو حرام قرار دیا ہے ۔
یاد رہے انہوں نے جس رقص کو حرام قرار دیا ہے وہ جھوٹے اور جعلی صوفیاء کا رقص ہے یا کہ ایسا رقص جو شہوات نفسانی میں ہیجان پیدا کرے ۔ جبکہ سچے صوفیاء کرام جو معرفت خداوندی سے اسرار اور واصلین ہیں ان کے رقص و وجد کو انہوں نے حرام و منع نہیں فرمایا۔
علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف مجموعہ رسائل میں وجد و تواجد اور تمایل اور کپڑے پھاڑنے کے بارے پیں لکھتےہیں :’’ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ ہم صادق سادات صوفیہ کرام رحمتہ اللہ علیہ کے بارے پیں زبان درازی نہیں کر سکتے اس لئے کہ یہ تمام اخلاق رذیلہ سے مبرا ہیں۔ یہ پاک باطن لوگ ہیں۔ امام طائفتین سیدنا جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے سوال کیا کہ بعض صوفی ایسے ہیں جو تواجد کرتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی کے عشق میں انہیں چھوڑ دو کہ خوشحالی کریں اسلئے کے یہ ایک ایسی قوم ہے کہ طریقت نے ان کے دل پھاڑ دئے ہیں اور مصیبتیں برداشت کرتے ہوئے ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں اب ان کے حوصلے تنگ ہو گئے ہیں۔ آہ کے ساتھ سانس لیتے ہیں ان پر کوئی حرج نہیں۔ اس حالت کی دائمیت کے لئے اگر تمہیں ان کی حالت حاصل ہو جائے اور انوار و تجلیات کا مزہ حاصل ہو جائے تو ان چیخوں اور نعروں میں تم بھی شامل ہو کر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالو ۔ تم ان کو انکے چیخیں مارنے اور کپڑے پھاڑنے میں معزور سمجھو۔
اسی طرح حضرت ابن کمال پاشا صاحب سے اسی مسئلے کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ آپ نے اپنے شعر میں فرمایا : ما فی التواجد ان حقیقت من حرج۔والتمایل ان اخلصت من باس ۔
اس شعر میں یہ فرمایا ہے کہ تواجد کرنے میں کوئی حرج اور نہ ہی جسم کے ہلنے میں کوئی حرج ہے جبکہ باطنی علتوں سے پاک لوگوں میں یہ آجائے۔
وجد کی وجہ سے اٹھ کر بھاگنا بھی جائز ہے اسلئے کہ اپنا مالک و مولٰی جب بلائے تو انہیں اپنے سر کے بل بھاگنا چاہئے۔ محفل ذکر و محفل سماع میں کامل عارفوں کے لئے وجد و رقص کی رخصت ہے کیونکہ یہ لوگ اپنا قیمتی وقت بہترین اعمال میں صرف کرتے ہیں ۔طریقت کے سالکین ہوتے ہیں جو اپنے نفسوں کو قبیح اعمال کرنے سے منع کرتے ہیں ۔ وہ ان صفات سے متصف ہوتے ہیں کہ جب صوفیہ کرام سنتے ہیں تو اپنے پروردگار کی جانب سے سنتے ہیں ۔ جب اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو روتے ہیں اور جب کبھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ جب محبوب حقیقی کی جانب سے تجلیات و انوارات کا مشاہرہ کرتے ہیں تو آرام پاتے ہیں۔ جب شوق سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو روتے ہیں اور جب محبوب حقیقی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آرام پاتے ہیں ۔اور جب قرب کے مراتب میں انہیں حصہ نصیب ہوتا ہے تو اس میں سیر کرتے ہیں اور بلند مقامات طہ کرتے ہیں ۔
جب ان پر وجد غلبہ کرتا ہے تو اللہ تعالٰی کی اردات و واردات سے بعض سالکین پر ہیبت اور تجلیات کا عروج ہوتا ہے تو گر پڑتے ہیں ، یا بے دم ہو جاتے ہیں ۔بعض سالکوں پر لطف خداوندی کی انوار نازل ہوتے ہیں تو خوشی کا اظہار کرتے ہیں بعض سالکین پر قرب خداوندی اور مطلع جب ظاہر ہوتا ہے تو سکر ﴿مستی﴾ کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اپنے جسم اور جان سے بے خبر ہو جاتے ہیں ﴿جسے مقام سکر اور مقام غیبت کہا جاتا ہے﴾ یہ تمام مذکور حالات ثابت اور جائز ہیں ۔ یہی مجھے جواب دینے میں ظاہر ہوا ہے اور اللہ تعالٰی حق بات پر خوب عالم ہے ۔
شعر : جس کسی کو صحیح وجد نصیب ہوا ہو۔ تو اسکو مغنی کے گیت بجانے کی صرورت نہیں کیونکہ اسکو اللہ تعالٰی کی ذات اقدس سے ازلی مستی نصیب ہوتی ہے اور شراب کے برتن کے بغیر اسے حقیقی شراب محبت کا دائمی سکر نصیب ہوتا ہے ۔۔۔ ‘‘
﴿ مجموعۃ الرسائل ج: ١ ص: ١٧٣ و ایضا فتاوی رد المحتار ج: ٣ ص: ٣٠٧﴾
علامہ مفتی سید احمد طحطاوی حنفی مصری رحمتہ اللہ علیہ :
جلیل القدر فقہی علامہ مفتی سید احمد طحطاوی حنفی مصری رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار میں وجد ، رقص اور سماع ذکر کے بارے میں فرماتے ہیں :
فقہاء کرام میں سے بعض فقہاء کرام رقص سے منع نہیں کرتے کیونکہ انہوں نے خود شہود کی لذت کو پالیا ہے جس وقت سالک پر وجد غلبہ پاتا ہے۔ اور یہ فقہاء کرام اس حدیث تقریری سے استدلال کرتے ہیں کہ جعفر ذوالجناحین کو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : آپؓ کے اخلاق و شکل و شباہت مجھ ﷺ سے مشابہت رکھتے ہیں تو اس خطاب کے سننے سے حضرت جعفرؓ ایک پاؤں پر چلنے لگے اور دوسری روایت میں ہے کہ اس خطاب کی لزت سے رقص اور دوران کرنے لگے اور نبی اکرمﷺ نے انؓ پر انکار نہیں فرمایا ۔ پس ان فقہاء کرامؓ نے اس حدیث کو صوفیہ کرام کے رقص و دوران کے اثبات کیلئے ماخذ استدلال بنایا ہے کیونکہ صوفیہ کرام بھی محافل ذکر اور مجالس سماع میں وجد کی لزت کی وجہ سے ایسا ہی کرتے ہیں ۔فتاوی تاتارخانیہ میں ہے کہ مغلوب الحال سالک کیلئے حرکات اور چیخنا جائز ہے جبکہ اس کی حرکات مرتعش کی طرح غیر اختیاری ہوں ﴿ اور اگر مشابہت بالمجذوبین کی وجہ سے اختیاری حرکات کثیرہ کرتا ہے جو کہ تواجد سے مسمی ہے تو نماز کے اندر ناجائز اور نماز کے باہر جائز ہے کما صرح بہ النابلیسی رحمتہ اللہ علیہ فے الحدیقۃ ﴾ اسی طرح کا فتویٰ علامہ بلقینی رحمتہ اللہ علیہ اور برہان الدین انباسی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی دیا ہے ۔ ‘‘﴿حاشیہ الطحطاوی علی درالمختار ج: ٤ ص: ١٧٦ تا ١٧٧﴾
علامہ سید احمد طحطاوی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ نے شرح مراقی الفلاح میں وجد کے اسباب کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے ﴿ مجمع الانھر ﴾ میں وجد کی بہت سی قسمیں ہیں جہاں اختیار سلب ہو جاتا ہے۔ مطلق انکار کیلئے کوئی وجہ نہیں ۔
﴿حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص: ١٧٤ ، قبیل باب مایفسد الصلوٰۃ ﴾
علامہ شیخ عبدالغنی نابلیسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ : اسی طرح علامہ مفتی ، فقیہ افخم علامہ شیخ عبدالغنی نابلیسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب حدیقۃ الندیہ شرح طریقہ محمدیہ ﷺ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:’’ اور خبردار رہے کہ متن حدیقۃ میں فقہاء اور علماء کی جو عبارات تردید وجد کے بارے میں میں مذکور ہوئیں تمام کی تمام طائفہ متصوفہ ﴿ خلاف شریعت ناقص پیروں ﴾ کے حق میں ہیں۔ اور انہیں پر محمول ہیں۔ پس تم ان عبارات تنقیدیہ کو ہر شخص پر چسپان نہ کرو کہ متصوفہ کے ساتھ مشابہت صوری کی وجہ سے کامل مکمل اشخاص کو بھی ان پر قیاس کیا جائے کیونکہ شیطان انسان کیلئے ظاہر دشمن ہے ﴿ پس مذکورہ قیاس مع الفارق شیطان کی مداخلت کا سبب ہے﴾ ورنہ اولیاء صادقین کا وجد و تواجد اس زمانہ میں اور آئندہ زمانہ میں بھی گزشتہ زمانے کے موافق نور اور ہدایت ہے اور اللہ تعالٰی کی توفیق کا اثر ہے اور اللہ تعالٰی کی خاص مہربانی اور عنایت ہے ۔۔۔۔
﴿حدیقۃ الندیه شرح طریقه محمدیه ج: ٢ ص: ٥٢٣﴾
طویل ہونے کی وجہ سے پوری عبارت نقل نہیں کی صرف پہلا حصہ نقل کیا ہے باقی تفصیلاً شیخ عبدالغنی نابلیسی رحمتہ اللہ علیہ نے بزرگوں کے واقعات سے دلائل دئے ہیں وجد پہ۔
اس عبارت میں شیخ عبدالغنی نابلیسی رحمتہ اللہ علیہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ فقہاء اور علماء کی جو عبارات تردید وجد کے بارے میں ہیں جن کو وھابی منکرین بطور دلیل پیش کرتے ہیں جیسے امام قرطبی ، علامہ شامی اور صاحب روح المعانی اور فتاوی عالمگیری وغیرھا کی عبارات جو وھابی پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب خلاف شریعت ناقص پیروں اور جعلی صوفیاء کے حق میں ہیں نہ کہ حقیقی صوفیاء کے وجد پہ ۔ بلکہ خود انہی علماء اور فقہاء نے اسلی وجد کو نہ صرف جائز کہا ہے بلکہ وہ خود بھی اس کیفیت سے واقف ہیں جیسا کہ آپ انکی عبارات میں پڑھ سکتے ہیں اور وھابیہ کا ان کی دوسری عبارات کو غلط انداز میں صوفیاء کے اوپر چسپانا ان کی جال سازی، دجل اور فریب ہے ۔
مزید آگے وھابیہ کی خیانتوں کا رد اور ان کے اپنے گھر سے وجد کے دلائل دیے جائیں گے ۔ فتاوی ہندیہ ﴿عالمگیری﴾ :
اسی طرح وھابیہ فتوی عالمگیری کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں جعلی صوفیاء کے رقص اور ناچ گانے کی تردید کی گئی ہے اور اپنی شیطانی عادتوں سے مجبور وھابی یہاں بھی عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجئے فتاوی علمگیری کی عبارت جس میں واضح طور پر اصلی اور جعلی صوفیاء کے درمیان فرق کر کے جعلی صوفیاء کے رقص کا رد کیا گیا ہے : ’’ حقیقی عارفوں کے زمانے میں بہت مرتبہ شعر بنتا جس کا معنی انکے حال کے موافق ہوتا تو جس کا دل نرم ہوتا تو وہ اس شعر کے ساتھ موافقت کرتا تو کئی دفعہ اس کی عقل پر مدہوشی آجاتی اور بے اختیار کھڑے ہو جاتا اور اس سے بے اختیار حرکات صادر ہو جاتیں اور یہ بعید نہیں کہ یہ کام جائز کام ہے اور اس پر مواخذہ نہیں اور حقیقی مشائخ طریقت پر یہ گمان نہیں ہو سکتا۔ اور ہمارے زمانے میں فاسق جاہلوں کی طرح خلاف شرع امور کرتے ہیں حلانکہ یہ فاسق لوگ اہلِ دین اور مشائخ حقیقی کی دلیل پکڑتے ہیں جو کہ خلاف شرع کام کرتے ہیں جبکہ صوفیہ کرام رحمتہ اللہ تعلٰی علیہم تو ان کی طرح نہ تھے ، اسی طرح جواہر الفتاوی میں بھی لکھا ہے ۔ ‘‘
﴿فتاوی ھندیه ج: ٥ ص: ٣٥٢ ، باب ١٧﴾
تو اس عبارت سے فتاوی ہندیہ کی دوسری عبارت کا محمل بھی معین ہوا۔ جس میں سماع، رقص اور وجد پر رد کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ فتاویٰ ہندیہ کی اس عبارت میں واضح طور پر اصلی اور جعلی صوفیاء کا فرق کر کے رد کیا گیا ہے اور جعلی صوفیاء کے ناچ گانے کو ہی ناجائز کہا گیا ہے جبکہ اصلی صوفیاء کرام کے رقص اور وجد کو جائز کہا گیا ہے ۔ وھابیوں کی عادت ہے کہ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے نفی کی عبارات لیتے ہیں اور ان کو حقیقی صوفیاء کرام پر چسپاتے ہیں اور حق کو چھپاتے ہیں اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ۔
فتاوی ھندیه کی وہ عبارت جس میں رقص و سماع کی تدید کی گئی ہے وہ یہ ہے :
’’ السماع والقوال والرقص الذی یفعله المتصوفۃ فی زماننا حرام لا یجوز القصد الیه والجلوس علیه ‘‘
یاد رکھیں یہ بات کہ ایک صوفیہ کرام ہوتے ہیں اور ایک متصوفہ
متصوفہ وہ ہوتے ہیں جو تصوف کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور نہ شریعت کے ظاہر پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور نہ ہی باطن کے حال سے واقف ہوتے ہیں بلکہ دھوکے کے شیخ اور ریا کار اور فاسق ہوتے ہیں اور تصوف کو اپنے عیب چھپانے کے لئے بطور پردہ استعمال کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کا رقص و سماع و تواجد بلکل حرام ہے لہذا جن مقامات پر فقہاء کرام نے تردید کی ہے تو وہ سب ان متصوفہ پر محمول ہے تو ان دونوں کے درمیان فرق کرنا لازمی ہے ، اور فتاوی ہندیہ میں جس رقص سماع کی تردید کی ہے تو وہاں ﴿ المتصوفہ فی زماننا ﴾ کی قید موجود ہے ۔ اور متصوفہ کی تردید میں کوئی نزع نہیں ہے ۔۔
حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی حنفی رحمتہ اللہ علیہ :
اسی طرح میرے آقا !! امام ربانی سیدنا مجدد و منور الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی حنفی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں :
’’ اے بیٹے ! عشق کے شور اور ولولہ اور محبت اور شوق سے بھرے ہوئے نعرے اور درد کی چیخیں اور وجد و تواجد اور رقص یہ تمام حالات ظلال کے مقام میں آتے ہیں۔ ظلی تجلیات کے ظہور کے وقت یہ وارد ہوتے ہیں ۔۔ ‘‘
﴿مکتوبات شریف ، ج: ۱ حصہ: ٥ مکتوب : ٣٥٢﴾
علامہ حامد بن علی بن عبدالرحمٰن آفندی عمادی حنفی رحمتہ اللہ علیہ : اسی طرح علامہ حامد بن علی بن عبدالرحمٰن آفندی حنفی رحمتہ اللہ علیہ مفتی دمشق و شام نے علامہ جلال الدین دوانی رحمتہ اللہ علیہ نے ﴿شرح ھیاکل نور ﴾ کے حوالے سے لکھا ہے کہ:’ انسان کبھی شرعی عبادات ادا کرنے کی وجہ سے پاکیزہ انوار کے لئے مستعدد بلکہ تجرید محققین اولیاء اپنے اندر پاکیزہ انوامستی کا مشاہدہ کرتے ہیں اس کی وجہ سے وہ حرکات کا باعث بنتا ہے تو وہ حرکت میں لگ جاتے ہیں۔ رقص اور تالیاں بجانا یوں بھاگنا دوڑنا اس طرح کی حرکتیں ان سے سرزد ہوتی ہیں کیونکہ ان پر انوار کا نزول ہوتا ہے یہاں تک کہ ان کا حال ختم ہوجاتا ہے کسی سبب کے ساتھ اور عام سالکوں کا تجربہ اس پر گواہ ہے ۔﴿تنقیح فتاوی حامدیه ج: ٢ ص: ٣٥٤ ، باب الحظر والاباحۃ﴾
علامہ خیر الدین رملی حنفی رحمتہ اللہ علیہ :اسی طرح علامہ خیر الدین رملی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے فتویٰ خیریہ ﴿ نفع البریہ ﴾ میں فتویٰ تنقیح الحامدیہ میں وجد کے بارے میں لکھا ہے : رقص میں فقہاء کرام کا کلام ہے بعض منع کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔ کب جب شہود کی لزت موجود ہو اور سالک پر وجد کی کیفیات طاری ہوں اور وہ دلیل کے طور پر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ جواز کی دلیل بناتے ہیں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : آپ شکل و شباہت اور اخلاق میں میرے مشابہ ہیں۔ ایک اور جگہ آپ ﷺ نے فرمایا : اوروں میں جعفر رضی اللہ تعالٰی عنہ مجھ ﷺ سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔ اخلاق میں بھی اور شکل صورت میں بھی۔ یہ خطاب سن کر حضرت جعفر ؓ نے ایک پاؤں پر بھاگنا شروع کر دیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت جعفرؓ نے رقص شروع کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس رقص کو منع نہیں کیا ۔ یہ واقعہ اہل تصوف کے نزدیک ایک دلیل ہے جب ذکر و سماع میں لزت محسوس کرے۔ فتویٰ تاتارخانیہ میں جواز کے دلائل موجود ہیں۔ اسی طرح امام بلقینی اور علامہ برہان الدین نے جواز کا فتویٰ دیا ، اس کے علاوہ جواز کا فتویٰ حنفیوں اور مالکیوں نے بھی دیا ہے ۔ ‘‘
﴿فتاوی خیریه علی ھامش تنقیح الحامدیه ج: ٢ ص: ٢٨٣﴾
اس عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ جب بعض علماءِ احناف اور بعض علامءِ مالکیہ سے وجد کے بارے میں پوچھا گیا تو سب نے جواز پر فتویٰ دیا۔ اسی طرح امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ جو کہ شافعی المسلک ہیں انہوں نے بھی جواز بلکہ استحباب کا حکم دیا ، ملاحظہ کیجئے امام جلاالدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کا فتوی۔
امام جلاالدین عبدالرحمٰن سیوطی رحمتہ اللہ علیہ : محدث، مفسر ، فقیہ اور ادیب و صوفی حضرت امام جلاالدین سیوطی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ جو کہ چاروں مذاہب میں مقبول ہیں خود شافعی ہیں اپنی کتاب الحاوی للفتاوی میں تصوف کے متعلق باب میں وجد ، رقص ، سماع اور مجالس ذکر ، قیامِ ذکر کے اثبات میں یوں رقمطراز ہیں کہ :
’’ مسئلہ : صوفیاء کرام رحمتہ اللہ تعالٰی علیہم کی ایک جماعت جو کہ ذکر کیلئے جمع ہوئے ہوں اور پھر ایک شخص مجلس سے ذکر کرتے ہوئے کھڑا ہو جائے اور انوار الہیہ کے ورود کی وجہ سے یہ حالت اس سالک پر مداومت سے طاری ہو جائے پس کیا یہ کام اس سالک کیلئے جائز ہے یا نہیں ؟ خواہ اختیار کیساتھ اٹھے یا بے اختیار ہو کر کھڑا ہو جائے۔ اور کیا اس سالک کو اس حال سے منع کرنا چاہئے یا نہیں ؟ اور اسے زجر دینا چاہئے یا نہیں ؟
الجواب : اس سالک پر اس حال میں کوئی اعتراض اور انکار نہیں۔ شیخ الاسلام سراج الدین بلقینی رحمتہ اللہ علیہ سے یہ سوال پوچھا گیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سالک پر کوئی اعتراض نہیں۔ اور کسی کو جائز نہیں کہ اس سالک کو اس حال سے منع کرے بلکہ منع کرنے والے کو تعزیر ﴿سزا﴾ دینا لازم ہے۔ علامہ برہان الدین انباسی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اس طرح جواب دیا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ سالک صاحب الحال مغلوب ہے اور اس سے انکار کرنے والا محروم ہے منکر نے تواجد کی لذت حاصل نہیں کی اور عشق حقیقی کی شراب منکر کو نصیب نہیں حتٰی کہ علامہ موصوف نے اپنے جواب کے آخر میں فرمایا ہے کہ : خلاصہ یہ ہے کہ صوفیہ کرام کے حال کو تسلیم کرنے میں سلامتی ہے اسی طرح بعض آئمہ احناف اور مالکیہ نے بھی یہ جواب دیا ہے تمام کے تمام نے اس سوال کا جواب اتفاقی طور پر دیا ہے جس میں کسی مخالفت کی گنجائش تک بھی نہیں ﴿میں کہتا ہوں﴾ کہ کس طرح کھڑے ہو کر ذکر سے منع کیا جائے گا ؟
حلانکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ : ﴿ عاقل لوگ وہ ہیں جو کھڑے ہو کر ذکر کرتے ہیں اور بیٹھنے ، لیٹنے میں بھی اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے ہیں ﴾ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی فرماتی ہیں کہ : رسول اکرم ﷺ تمام اوقات میں اللہ تعالٰی کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اگر قیام کیساتھ اس سالک نے رقص دوڑ یا چیخ و پکار وغیرہ ﴿مثلاً کپڑے پھاڑنا ، دوڑنا اور آہ و اف وغیرھا﴾ بھی پیوست کیا تو تب بھی کوئی انکار اور اعتراض ان پر نہیں کیونکہ یہ حالت شہود اور مواجید کی لذت کی وجہ سے سالکین پر طاری ہوتی ہے اور حدیث شریف میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کا رقص نبی اکرم ﷺ کے سامنے ثابت ہے جب کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے مخاطب ہو کہ فرمایا کہ آپ اخلاق اور شکل و شباہت میں مجھ سے مشابہ ہیں ، پس اس خطاب کی لذت کی وجہ سے ان پر رقص طاری ہو گیا اور نبی اکرم ﷺ نے ان پر کوئی انکار ظاہر نہیں فرمایا۔ پس یہ حدیث تقریری صوفیہ کرام کے رقص اور وجد و تواجد میں اصل اور دلیل ہے کیونکہ حقیقی صوفیہ کرام پر بھی یہ حالات مواجید کی لذت کی وجہ سے طاری ہوتے ہیں۔ اسی طرح مجالس ذکر اور محافل سماع میں قیام اور رقص بھی جائز اور ائمہ کبار سے ثابت ہیں جن میں شیخ الاسلام عزیز الدین بن عبدالسلام کا نام مبارک سر فہرست ہے۔۔۔ ‘‘﴿ الحاوی للفتاوی ج: ٢ ص: ٢٢٤ ﴾
علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب انوار القدسیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : سیدنا علامہ یوسف عجمی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ مشائخ نے سالک کیلئے جو آداب ذکر بیان فرمائے ہیں تو وہ مختار اور غیر مجزوب سالک کے حق میں ہیں۔ اور مسلوب الاختیار سالک اپنے اسرار وارادہ کیساتھ رہنے دو کیونکہ بے اختیار ہو کر اس کی زبان پر بھی اللہ ، اللہ ، اللہ ، اللہ جاری ہو جاتا ہے اور کبھی اس کی زبان پر بے اختیار بے اختیار ہو ہو ہو ہو جاری ہو جاتا ہے اور کبھی لا لا لا لا اور کبھی آہ آہ آہ آہ اور عا عا عا عا اور آ آ آ آ اور کبھی ہا ہا ہا ہا اسکی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور کبھی اس کی زبان پر بغیر حروف کے آوازیں جاری ہو جاتی ہیں ۔ اور کبھی بعض کو بعض سے خلط کر کے چیختا ہے ۔ ﴿مثلاً اللہ ہو ہو اللہ ہو عا عا آ آ ہو آ لا وغیرھا اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے ﴾ اور اس کے لئے ادب یہ ہے کہ وارد کو تسلیم ہو گا پس جب وارد ختم ہو جائے تو اسکے لئے بھی آداب یہ ہے کہ سکون وقار سے بیٹھ کر کچھ نہ کہے۔۔۔۔ ‘‘اور انوار القدسیہ کی جلد دوئم کے صفحہ ٨۲ سے لیکر ٨٩ تک بھی حضرت امام شعرانی رحمتہ اللہ علیہ نے وجد کے ثبوت میں دلائل پیش کیے ہیں۔﴿انوار القدسیه ج: ۱ ص: ٣٩﴾
حضرت اسماعیل حقی بروسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ : اسی طرح مفسر جلیل جامع بین الظواھر والبواطن عارف باللہ حضرت اسماعیل حقی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر روح البیان میں سب سے پہلے معترضین کے اعتراضات نقل کئے اور آخر میں فرمایا :
’’ فقیر کہتا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قباحت اور جرح ان لوگوں پر کیا جاتا ہے جو کہ ریا کار اور باطل دعوی کرنے والے ہوں۔ اپنے آپ پر جو لوگ کنٹرول کرنے کی قدرت رکھتے ہیں جیسا کہ اس حدیث مبارکہ میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ، حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
جو لوگ اللہ کے عاشق ہوتے ہیں اور اپنے عشق کا اظہار نہیں کرتے اور اپنے عشق کو اپنے دل میں چھپانے کی قدرت رکھتے ہیں اور مر جاتے ہیں ، شہید ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنی حالت پر غالب ہوتے ہیں تو ان لوگوں کے لئے ادب یہ ہے کہ ناجائز حرکت نہ کریں، جو حال پر غالب نہیں ہوتے اور اہل حق ہوتے ہیں اہل باطل نہیں ہوتے، ان سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے اور ان کی حرکت پر ان کو معذور سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ یا تو یہ مبتدی ہوتے یا متوسط ہوتے ہیں، منتہی نہیں۔ اسلئے کہ منتہی جن باتوں پر قادر ہوتا ہے ۔ غیر منتہی ان پر قادر نہیں ہوتا۔ مبتدی اور متوسط کی حالت منتہی کی طرح نہیں۔ صحابہ کرام اور صحابہ کی مثل ہر حالت اور مقام میں ادب کا لحاظ ان کیلئے ضروری ہے قوتِ تمکین کے ساتھ بلکہ شدتِ تلوین فی التمکین میں خود قابو رکھتے ہیں یعنی منتہی پر عام لوگوں کا قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سارے اہل تلوین وہ کام کرتے ہیں جو اہل تمکین نہیں کرتے اسلئے اہل تمکین خود پر قابو رکھتے ہیں جب کہ اہل تلوین پر حال غالب ہوتا ہے اور اختیار ان کا سلب ہو چکا ہوتا ہے تو عقل مند حق کی راہ سے بغیر ریا اور دعوی کوشش نہ کرے اور ہر وہ کام جس کا تعلق فتوی یا تقوی سے ہو ادب کا لحاظ رکھے اور اپنے اوپر لازم کرے کہ ظاہر اور باطن میں اپنے آپ کو عیب سے محفوظ رکھے اور ان چیزوں سے جن میں شک اور میل پیدا ہوتا ہو تو اس سے اپنے آپ کو بچائے ۔۔۔۔ ‘‘
اسی طرح علامہ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ علیہ نے روح البیان ج: ۲ ص: ١٦٧ سورۃ آل عمران میں ذکر بلجہر ، وجد و حال مضبوط اور مدلل دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے ۔ تفصیلی عبارت وہاں ملاحظہ کریں ۔ ﴿تفسیر روح البیان ج: ٨ ص ١٠٠ تا ١٠١ سورۃ زمر آیت ٢٣﴾
خلاصہ یہ ہوا کہ جو لوگ مغلوب الحال نہیں ہوتے ان کو خلاف شرع حرکت ہر گز نہیں کرنی چاہئے اور جو لوگ مغلوب الحال ہو جائیں تو ہر قسم کی حرکات ان سے صادر ہوتی ہیں ، ہر حال میں ایسے لوگوں کی حرکات پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اس وقت وہ اپنے اوپر قابو نہیں پا سکتے ۔ اور اگر بندے پر حال غالب نہ ہو تو اسکو کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے جو خلافِ شرع ہو ۔ ہاں شریعت کے مطابق حرکات تواجد محمودہ میں کر سکتا ہے ۔
علامہ محمود الوسی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ : جلیل القدر مفسر محقق مفتی بغداد حضرت علامہ مولانا محمود الوسی حنفی نقشبندی مجددی خالدی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں منکرین کو جواب دیتے ہوئے جو کہ نماز کی حالت میں وجد کا انکار کرتے تھے فرماتے ہیں : ’’ میں نے بعض منکرین سے سنا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ حالت عقل و شعور کی موجودگی کے با وجود عارض ہو جائے تو یہ بےادبی ہے اور اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اگر یہ حالت عقل و شعور کی عدم موجودگی میں آ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وضو نہیں کرتے۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں جن کا خیال ہے کہ وجد اور اس حالت سے نماز اور وضو دونو ٹوٹ جاتے ہیں کہ یہ حالت غیر اختیاری ہے عقل و شعور کے ساتھ اس کی مثال کھانسی یا چھینک جیسی ہے اس لیے اس سے نہ تو نماز باطل ہوتی ہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے۔ اور شوافع نے کہا ہے کہ اگر نمازی پر ہنسنا غالب آجائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہے اور نمازی اس صورت میں معذور سمجھا جائیگا ۔ بعید نہیں کہ تجلیات غیر اختیاریہ کے آثار کو بھی اس کے ساتھ ملحق کیا جائے اور عدم فساد صلٰوۃ پر حکم کیا جائے اور کسی چیز کے غیر اختیاری ہونے سے اس چیز کا غیر شعوری ہونا لازم نہیں کیونکہ مرتعش کی حرکت غیر اختیاری ہے اور غیر شعوری نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عقل اور شعور موجود ہوتے ہیں اور یہ تو ظاہر باہر کا معاملہ ہے ۔ پس اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ‘‘(تفسیر روح المعانی سورة الأعراف آیت١٥٥)
وھابی ان کی عبارات بھی پیش کرتے ہیں جن میں انہوں نے جعلی صوفیاء کے ناچ گانے کا رد کیا ہے جبکہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تو نماز اور نماز کے علاوہ بھی وجد کو جائز کہتے ہیں بلکہ منکرین کو جواب بھی دیتے ہیں ۔ اور وھابی شائد یہ نہیں جانتے کہ یہ بھی سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے بزرگوں میں سے ہیں، ایک صوفی۔ اور نہ صرف یہ بلکہ کئی فقہاء جن کے حوالے وھابی دیتے ہیں اسی سلسلہ کے بزرگ گزرے ہیں الحمد للہ میں بھی اسی سلسلہ میں مرید ہوں ۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے احیاءالعلوم الدین جلد ٢ میں پورا باب قائم کیا ہے وجد و تواجد اور سماع کے موضوع پر اور قرآن و حدیث سے دلائل دیے ہیں ۔ لیکن چونکہ تفصیل کے ساتھ ان کی کتاب سے حوالے نہیں دے سکتا اس لیے ان کی کتاب کیمیائے سعادت سے صرف دو ٢ اقوال ان کے قوٹ کر رہا ہوں ایک میں منکرین کو ان کی طرف سے جواب ہے جبکہ دوسرے میں وجد کے مباح ہونے پر ثبوت ہیں ۔
(1) یعنی جو شخص سماع اور وجد کے اثرات سے انکار کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی کوتاہ علمی ہے ۔ اس شخص کے پاس وہ علم نہیں جسکے ذریعے وہ صوفیاء کرام کے احوال جان سکے ایسے شخص کی مثال اس ہجڑے کی طرح ہے جو اپنی نامردی اور قوت شہوت کی عدم موجودگی کے باعث لزت جماع سے انکار کرے۔﴿کیمیائے سعادت رکن دوم ص ١٩٨﴾
(2) امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رقص مباح ہے کیونکہ حبشی لوگ مسجد نبوی ﷺ میں رقص کرتے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اسے دیکھنے جاتی تھیں اور جب حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ :
تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوشی کے مارے رقص شروع کر دیا۔ جو لوگ وجد کو حرام جانتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اس کی انتہا مستی ہے جبکہ مستی بھی حرام نہیں۔﴿کیمیائے سعادت رکن دوم ص ۲٠٥﴾
مزید امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی احیاء العلوم الدین جلد دوم ٢ کا مطالعہ کیجئے ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، جب برکات اور تجلیات کی بارش بکثرت ہوتی ہے اور صوفی کا حوصلہ تنگ اور استعداد کمزوری ہوتی ہے تو بیہوشی کی حالت طاری ہو جاتی ہے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ظرف وسیع تھے اور صحبت رسول ﷺ کی برکت سے استعداد قوی ہوتی تھی۔اس کے باوجود برکات کی کثیر بارش کے ان پر بیہوشی طاری نہیں ہوتی تھی۔ صحابہ کے علاوہ دوسروں کو یہ چیز میسر نہیں اس لیے دو وجوہ سے ان پر بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے ۔ یا نزول برکات ہی کم ہوتا ہے یا ان کا ظرف تنگ ہوتا ہے اور حوصلہ میں سمائی نہیں ہوتی ۔ ﴿تفسیر مظہری ج ١٠ص ۱٦٣﴾۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ صوفیاء کے وجد کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بعض صوفیاء عظام پر جب خوف الٰہی غالب آجاتا ہے تو وہ رونے لگتے ہیں ۔ اور ان کے اعضاء حرکت کرتے ہیں جیساکہ : حضور پاکﷺ جب رات کو نماز پڑھتے تو آپ ﷺ کے سینے مبارک سے ہانڈی کے جوش مارنے کی آواز آتی۔ ‘‘﴿حجتہ اللہ البالغہ ج: ٢ ص: ٩٩﴾
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ : منقول ہےکہ حضرت شیخ عبدلقادر جیلانی رضی اللہ عنہ جب وعظ کے لیے کرسی پر تشریف فرما ہو تے تقریر انواع علوم پر ہوتی تھی ۔ حاضرین حضرت شیخ رضی اللہ عنہ کی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے خاموش بیٹھے رہتے۔ اچانک آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ﴿مضی اتعال و عطفنا بالحال﴾ اس جملے کے ساتھ ہی حاضرین پر وجد طاری ہو جاتا کچھ رونے لگتے، بعض کپڑے پھاڑنے لگتے اور بعض بیہوش ہو کر جان دے دیتے۔﴿شیخ عبدالحق محدث دہلوی، اخبار الاخیار﴾
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر عزیزی میں حضرت خوجہ باقی باللہ حنفی رحمتہ اللہ علیہ مرشد امام ربانی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ:’’ ایک نانبائی یا نان فروش نے حضرت باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کے مہمانوں کیلئے کھانا پکایا حضرت باقی باللہ اس طرز عمل سے نہایت خوش ہوئے اور نان فروش سے فرمایا کہ جو مانگنا چاہتے ہو مانگو۔ اس نان فروش نے کہا کہ آپ کی طرح بننا چاہتا ہوں حضرت باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ اس کو اندر لے گئے اور اس کو توجہ اتحادی فرمائی۔
تو حضرت محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : مجبورًا حضرت باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ اسے خانقاہ کے اندر لے گئے اور توجہ اتحادی فرمائی۔ باہر آنے پر حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ اور نان بائی کی صورت ایک جیسی نظر آ رہی تھی۔ لوگوں کے لئے ان کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا تھاْ اتنا فرق اندازہ سے ہوتا کہ حضرت خواجہ ہوش میں تھے اور نان بائی بے ہوش اور مجذوب آخر تین دن بعد اسی بے ہوشی میں دارالفناء سے دارالبقاء کی جانب رحلت فرما گئے۔ ان للہ و انا الیه راجعون ۔ ‘‘
﴿تفسیر عزیزی ج: آخر ص: ٣٣٨ ، سورۃ علق﴾
اعلیحضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ : یہاں تک کہ حضور پر نور عظیم البرکت امام اہل سنت قاطع بدعت مجدد دین و ملت اعلٰی حضرت شاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ وجد و تواجد کے بارے میں فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں : ’’ تواجد یعنی اہل وجد کی صورت بنانا اگر معاذ اللہ بطورِ ریا ہے تو اس کی حرمت میں شبا نہیں کہ ریا کیلئے تو نماز بھی حرام ہے اور اگر نیت صالح ہے تو ہر گز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔ ‘‘ ﴿فتاوی رضویہ ج: ١٠ ص: ٤٤٥ ۔ مطبوعہ المجدد احمد رضا اکیڈمی﴾
اعلٰی حضرت رحمتہ اللہ علیہ کا ایک اور فتوا ملاحظہ فرمائیے جس میں انہوں نے بھی اصلی وجد کو جائز کہا اور ریا کاری کو حرام : ﴿احکام شریعت ج: ٢ ص: ٢٧﴾
سبحان اللہ!! اب وھابی کہاں چھپیں گے ؟ جن علماء نے جعلی رقص پر فتوے دیے ہیں وہ خود ہمارے اپنے اہل سنت و جماعت کے فقہاء اور علماء ہیں ۔ اور وھابی انہی کی نفی والی عبارات صوفیاء کرام پہ چسپا کے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرت ہیں۔ الحمدللہ علماء اہل سنت و جماعت جو کہ بے شک علماء حق ہیں انہوں نے ریا اور جعلی صوفیاء کے رقص اور ناچ گانے کو حرام کہا ہے جبکہ اصلی صوفیاء کے وجد کو جائز کہا ہے اس کے برعکس وھابیوں کے ناصر الدیں البانی نے عورتوں کا اپنے شوہر اور غیر عورت کے سامنے دنیاوی غرض سے رقص کرنے کو جائز کہا ہے ۔
یعنی جو اللہ اور اللہ کے حبیب ﷺ کی محبت میں بے اختیار ہو کر وجد و رقص کرے اس کو وھابی ناجائز کہیں اور اپنی عورتوں کے رقص کو دوسری عورتوں کے سامنے جائز کہیں ۔
کیا یہ وھابیوں کی منافقت نہیں ؟؟ انشاء اللہ آگے عبارت اور اس کا فتوی پیش کیا جائے گا ۔
نماز کے اندر وجد : اللہ سے ڈرنے والے عارفوں کا وجد اور حال بہت سارے دلائل کے ساتھ ثابت ہے اور ان کی بہت ساری اقسام میں سے اللہ کا ذکر، تلاوت قرآن اور قرآن کریم کی سماعت کے وقت وجد اور حال کی کیفیات وارد ہوتی ہیں۔ چونکہ نماز اللہ کے ذکر اور تلاوت قرآن کریم پر مشتمل ہے تو نماز کی حالت میں یقیناً وجد اور حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ لہذا وجد و حال خاشعین پر نماز کی حالت میں یا نماز سے باہر دونوں صورتوں میں جائز بلکہ ثابت ہے۔
ہدایہ شریف میں ہے : اگر نمازی نے نماز میں آہ کی یا اوہ کیا یا اتنا رویا کہ اس کا رونا حروف پر مشتمل ہوجائے تو پس اگر یہ حالت جنت یا دو زخ کے خوف کی وجہ سے طاری ہوئی تو نماز فاسد نہیں ہو تی کیونکہ یہ خشوع پر دلالت کرتی ہے اور اگر دنیاوی درد یا مصیبت کیوجہ سے یہ حالت ہو جائے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں بے چینی اور افسوس کا اظہار ہے ۔ ﴿ھدایۃ ج: ١ ص: ١٢٠﴾
کفایه شرح ھدایه علی ھامش فتح القدیر پر اسطرح لکھا ہے کہ : ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نماز کے دوران رونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر اللہ کے خوف سے ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی اگر دنیاوی درد یا مصیبت کی وجہ سے ہو تو نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔
﴿کفایه شرح ھدایه علی ھامش فتح القدیر ج: ١ ص: ٣٤٢﴾
اسی طرح بحر العلوم واقف مزاہب اربعہ حضرت علامہ عبدالرحمٰن جزیری رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الفقہ المذاہب اربعہ پر تحریر فرماتے ہیں : نماز میں آہ اوہ اف کنا اور اسی طرح رونا کہ حروف مسموعۃ پر مشتمل ہوں تو یہ چیزیں نماز کو فاسد کرتی ہیں مگر جب یہ حالت اللہ کے خوف کی وجہ سے صادر ہو یا ایسے مریض کیوجہ سے ہو جس میں حالت مذکورہ کے منع کرنے کی طاقت نہ ہو تو پھر نماز فاسد نہیں ہوتی اور یہ حکم مذکورہ بابت خشیت حنفیہ ، مالکیہ اور حنابلہ کے مابین متفقہ ہے ۔۔ ﴿یعنی نماز فاسد نہیں ہوتی﴾
﴿الفقہ المذاہب اربعہ ج: ١ ص: ٣٠٠﴾
اسی طرح فتاوی تاتارخانیہ پر علامہ علاؤ الانساری رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:
اگر کسی نے نماز میں آہ ، اوہ کی یا رویا اور اس کا رونا مرتفع ﴿اونچا﴾ ہو گیا اور فتاوی خانیہ میں ہے کہ مرتفع رونا یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حروف حاصل ہو جائیں پس اگر یہ حالت جنت اور دوزخ کی یاد کی وجہ سے طاری ہو جائے تو نماز تام اور کامل ہے اور اگر دنیاوی درد اور مصیبت کی وجہ سے طاری ہو تو اس کی نماز فاسد ہو گی۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ اور امام محمد رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ دونوں کا قول ہے۔
﴿فتاوی تاتارخانیہ ج: ۱ ص: ٥٧٩﴾
چند عبارات لکھ دی ہیں باقی کا صرف حوالہ دے دیتا ہوں لیکن اگر ضرورت پڑی تو وہ بھی پیش کر دی جایئں گی
( فتح القدیر شرح ہدایہ ج: ١ ص: ٣٢٦
عنایہ شرح ہدایہ ج: ١ ص: ٣٤٥
شیخ زین الدین ابن نجیم: بحر الرائق ج : ٢ ص: ٣ سے ٤
شیخ احمد طحطاوی: مراقی الفلاح ص: ١٧٤
فتاوی عالمگیری ج: ١ ص: ١٠٠
فتوی بزازیہ علی ھامش عالمگیری ج : ۱ ص ١٣٢
تفسیر روح المعانی ج: ٣ حصہ: ٩ ص:٨٦
علامہ شامی : ردمختار، ج: ١ ص: ٤١٦
علامہ حصفکی حنفی : درمختار ، ج: ١ ص: ٤١٦ )
قارئین محترم آپ کو وجد کے جائز ہونے اور منکرین کے دھوکہ دینے کا علم ہو گیا ہو گا ۔زندگی نے وفا کی تو ان شاء اللہ اس موضوع پر مزید لکھا جائے فی الحال تو اتنا کافی ہے۔
نماز میں پہلی تکبیرکے سوا رفع یدین نہ کرنے کے دلائل
علماء_امت
کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت" سے ثابت
ہیں، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعآ درست سمجھنا
ضروری ہے. اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلک_مختار (اختیار شدہ
راستہ) کا اتنا اصرار کرے، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض، دشنام طرازی اور
دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار
دیا گیا ہے. باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و فقہ
میں صرف ناسخ و منسوخ، راجح و مرجوح یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و
غیرافضل) کا ہوتا ہے.
رفع
(یعنی بلند کرنا) یدین (یعنی دونوں ہاتھ). یہ رفع یدین (یعنی دونوں ہاتھ
بلند کرنا) ہر مسلمان نماز (کے شروع) میں کرتا ہے، لہذا اختلاف یہ نہیں کہ
رفع یدین نہیں کیا جاتا ، بلکہ اختلاف تو صرف نماز میں رفع یدین کتنی بار
اور کن کن موقعوں پر کیا جانا چاہیے، اسی بات کا ہے. مثَلاً: جو لوگ نماز
کے اندر رفع یدین کرتے ہیں، وہ سجدوں میں جاتے اور اٹھتے ہوۓ کیوں نہیں
کرتے، جب کہ اس پر صحیح احادیث بھی موجود ہیں؟ جیسے:
سجدوں
میں رفع یدین کی احادیث :كَمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ،
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ
الأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ،
عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ ،
وَرَفْعٍ ، وَرُكُوعٍ ، وَسُجُودٍ وَقِيَامٍ ، وَقُعُودٍ بَيْنَ
السَّجْدَتَيْنِ ، وَيَزْعُمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ " .
[مشكل الآثار للطحاوي » بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ... رقم الحديث: 5140] المحلى(ابن حزم ) : 4/93
المحدث: ابن القطان - المصدر: الوهم والإيهام - الصفحة أو الرقم: 5/611 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/709 - خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
حَدَّثَنَا
عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَا :
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ،
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : "
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَرْفَعُ
يَدَيْهِ فِي الصَّلَاةِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ ،
وَحِينَ يَرْكَعُ ، وَحِينَ يَسْجُدُ " .[سنن ابن ماجه:850 - مسند أحمد بن
حنبل:5995 - فوائد تمام الرازي: 1534 - جزء من حديث أبي عبد الله القطان
:166 - شرح معاني الآثار للطحاوي:842]
المحدث: ابن كثير - المصدر: الأحكام الكبير - الصفحة أو الرقم: 3/312
خلاصة حكم المحدث: لا بأس بإسناده
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 9/22
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 707
خلاصة حكم المحدث: صحيح
حَدَّثَنَا
أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ
الثَّقَفِيُّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ
وَالسُّجُودِ " .[مسند أبي يعلى الموصلي » بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ ...
رقم الحديث: 3701 - مصنف ابن أبي شيبة : رقم الحديث2365 - الأحاديث
المختارة: رقم الحديث1834 - المحلى بالآثار لابن حزم: رقم الحديث613 (3 :
9) - فوائد ابن أخي ميمي الدقاق (سنة الوفاة: 390) : رقم الحديث172 - الجزء
الأول من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس (سنة الوفاة: 412) : رقم
الحديث110 - عروس الأجزاء للثقفي (سنة الوفاة:562) : رقم الحديث61 - جزء من
مشيخة تقى الدين الأشنهى (سنة الوفاة: 738): رقم الحديث9]
المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/708
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح جدا
حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ
نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ , عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ ، أَنَّهُ رَأَى
نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَرْفَعُ يَدَيْهِ
فِي صَلَاتِهِ , إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ رُكُوعِهِ ، وَإِذَا سَجَدَ ،
وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ سُجُودِهِ , حَتَّى يُحَاذِيَ بِهَا فُرُوعَ
أُذُنَيْهِ " .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 15292 - سنن النسائى
الصغرى » كِتَاب التَّطْبِيقِ » بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ لِلسُّجُودِ ...
رقم الحديث: 1074 - المحلى بالآثار لابن حزم » كِتَابُ الصَّلاةِ »
الأَعْمَالُ الْمُسْتَحَبَّةُ فِي الصَّلاةِ وَلَيْسَتْ ... رقم الحديث:
612]
المحدث: ابن القطان - المصدر: الوهم والإيهام - الصفحة أو الرقم: 5/611 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث:
ابن حجر العسقلاني - المصدر: فتح الباري لابن حجر - الصفحة أو الرقم:
2/261 - خلاصة حكم المحدث: أصح ما وقفت عليه في هذا الباب
المحدث:
العظيم آبادي - المصدر: عون المعبود - الصفحة أو الرقم: 2/256 - خلاصة حكم
المحدث: صحيح الإسناد [و] لا يستلزم من صحة إسناده صحته
حَدَّثَنَا
أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَكِيلُ , ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ ,
ثنا هُشَيْمٌ , عَنْ حُصَيْنٍ , وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ
إِسْمَاعِيلَ ، وَعُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالا : نا
يُوسُفُ بْنُ مُوسَى , نا جَرِيرٌ , عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
, قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَهُ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ
, قَالَ : صَلَّيْنَا فِي مَسْجِدِ الْحَضْرَمِيِّينَ , فَحَدَّثَنِي
عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ , عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِينَ يَفْتَتِحُ
الصَّلاةَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا سَجَدَ ".
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ ذِكْرِ التَّكْبِيرِ وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ ... رقم الحديث: 974]
الراوي: وائل بن حجر الحضرمي والد علقمة المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/707
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح على شرط مسلم
نا
مُعَاذٌ , قَالَ : نا عَلِيُّ بْنُ عُثْمَانَ اللاحِقِيُّ , قَالَ : نا
مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , عَنْ غَيْلانَ بْنِ جَرِيرٍ , عَنْ مُطَرِّفٍ ,
قَالَ : صَلَّيْتُ أَنَا , وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ
أَبِي طَالِبٍ , فَكَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا رَكَعَ , وَإِذَا رَفَعَ
رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ , وَإِذَا سَجَدَ , فَقَالَ عِمْرَانُ : أَرَى
لَقَدْ أَذْكَرَنِي صَاحِبُكُمْ صَلاةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ
اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَقَدْ أَذْكَرَنِي هَذَا
صَلاةَ رَسُولِ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .[الثالث عشر
من الفوائد المنتقاة لأبي حفص البصري (سنة الوفاة:357) رقم الحديث: 104]
ہر
اٹھتے اور جھکتے وقت (یعنی سجدوں میں بھی) رفع یدین:حَدَّثَنَا يَحْيَى ,
ثنا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ : ثنا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ
مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ,
أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ , وَيَقُولُ : "
أَنَا أَشْبَهُكُمْ صَلاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ " .[السادس من الفوائد المنتقاة لابن أبي الفوارس (سنة
الوفاة:412) رقم الحديث: 87]
ہر تکبیر (الله اکبر کہتے یعنی سجدے میں جاتے اٹھتے) وقت رفع یدین:
حَدَّثَنَا
أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ رِيَاحٍ ،
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ،
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كَانَ
يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ " .[سنن ابن ماجه » رقم
الحديث: 855 - حديث أبي بكر الأزدي: 50 - المعجم الكبير للطبراني:10781]
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 712
خلاصة حكم المحدث: صحيح
حَدَّثَنَا
هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا رِفْدَةُ بْنُ قُضَاعَةَ
الْغَسَّانِيُّ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ
عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ
حَبِيبٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ مَعَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ فِي الصَّلَاةِ
الْمَكْتُوبَةِ " .[سنن ابن ماجه » رقم الحديث: 851 - المعجم الكبير
للطبراني:13590 - أنساب الأشراف للبلاذري:2678 - معجم الصحابة لابن
قانع:1150 - معرفة الصحابة لأبي نعيم:4810 - حلية الأولياء لأبي نعيم:4554 -
تاريخ بغداد للخطيب البغدادي:439(3 : 49) + 3919(13 : 335) - تاريخ دمشق
لابن عساكر : 16405 (18 : 154) + 38353 (37 : 373) + 43005 (41 : 248) +
56200 (52 : 350) - تهذيب الكمال للمزي : 869](دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 1/260
خلاصة حكم المحدث: صحيح
عن ابنِ عمرَ رضي الله عنهما أنه كان يرفعُ يدَيْه مع كلِّ تكبيرةٍ.
[شرح بلوغ المرام لابن عثيمين - الصفحة أو الرقم: 2/408 - خلاصة حكم المحدث: ثابت]
عَنْ
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ مِنَ
الصَّلَاةِ .[مسند أحمد بن حنبل » رقم الحديث: 14042 - إتحاف المهرة » رقم
الحديث: 2556]
بس،
بعض روایات میں جو طریقہ ان الفاظِ حدیث کا ((سجدے کے درمیان ہاتھ نہ
اٹھانے))کا صراحت سے مذکور ہے، یہ بعد میں رفع یدین نہ کرنے (یا جاری نہ
رہنے) کو، واضح کرنے کی دلیل ہے. (ورنہ کیوں کہے جاتے؟) بس اسی طرح نبوی
طریقہ نماز کے متعلق یہ طریقہ الفاظِ حدیث کا کہ (( نہیں رفع یدین کیا مگر
ایک دفعہ ہی ... یعنی نماز کے شروع میں ہی)) واضح کرتا ہے نماز کی بقیہ رفع
یدین کے انکار ونفی کو.
اور
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق ایک دفعہ بعض صحابہ کو رفع یدین کرتے دیکھتے
اسے "شریر" گھوڑوں کی دموں (کی حرکت) کی طرح کی مثال دیتے یہ حکم فرمانا کہ
(( سکون اختیار کرو نماز میں ))، واضح کرتا ہے نماز کے اندر کی (ساری) رفع
یدین کی حرکات کا پہلا (منسوخ کردہ) طریقہ نبوی ہونا اور سکون کے منافی
اور پسندیدہ طریقہ نہ رہنا.
ہم سنی (حنفی) مسلمان شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
صحیح
مسلم اور رفع یدین:حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو
كُرَيْبٍ ، قَالَا : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ،
عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ ، عَنْ
جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي
أَيْدِيكُمْ ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ، اسْكُنُوا فِي
الصَّلَاةِ "... [صحيح مسلم » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الأَمْرِ
بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ ... رقم الحديث: 656]
حضرت
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور
فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں رافعی ایدیکم (یعنی تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے)
دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، سکون اختیار کرو نماز میں ...
[صحيح مسلم » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الأَمْرِ بِالسُّكُونِ فِي الصَّلَاةِ وَالنَّهْيِ ...رقم الحديث: 656(432)
تنبیہ : یہاں عام گھوڑے کی بجاۓ سرکش (شرارتی) گھوڑے کی مثال دی گئی ہے، جس کی دم اوپر نیچے ہوتی ہے.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
تخريج الحديث : أخرجه الطيالسى (ص 106، رقم 823)،وأحمد
(20876+20958+20964+21027)
، ومسلم (1/322، رقم 430) ، وأبو داود (1/262، رقم 1000) ، والنسائى (3/4،
رقم 1184) ، وابن حبان (1878+1879) . وأخرجه أيضًا: مصنف عبد الرزاق
(2/251، رقم: 3252) ، ابن أبى شيبة (2/231، رقم 8447) ، وأبو عوانة (1/419،
رقم 1552) ، والطبرانى(1822+1824+1825+1826+1827+1828) ، والبيهقى
(3520+3521) ، والبزار (10/202، رقم:4291) ، وأبي يعلى (7472+7480) ، شرح
مشكل الآثار(5926)، شرح معاني الآثار(2632)۔
امام
بخاریؒ (جزء رفع الیدین) میں فرماتے ہیں یہ انکار اس رفع یدین پر ہے جو
التحیات میں سلام کے وقت ہوتی تھی اس کی وضاحت اس حدیث سے ہورہی ہے:
حضرت
جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے
ہم السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ اور السَّلَامُ عَلَيْکُمْ
وَرَحْمَةُ اللَّهِ کہتے اور اپنے ہاتھوں سے دونوں طرف اشارہ کرتے تھے تو
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسا
کہ سرکش گھوڑے کی دم تم میں سے ہر ایک کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنی ران پر
ہاتھ رکھے پھر اپنے بھائی پر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کرے۔صحیح
مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 965، نماز کا بیان
دوسری
حدیث میں خاص "جماعت" کی نماز میں "سلام" کے خاص وقت میں "اشارہ" کے خاص
عمل کے کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، جب کہ پہلی حدیث میں حکم عام سے ہر نماز
کے اندر، حکم عام سے ہر رفع یدین سے روکنے کے لیے سکون کا حکم عام یعنی ہر
ایک مرد وعورت کے لیے دیا گیا ہے.
فقہ
الحدیث :لہذا، اس حدیث کا موقع ومحل اور اس سے پہلی حدیث کا موقع ومحل میں
فرق ہونے کے سبب اس حدیث کو اس پہلی حدیث سے جوڑتے یہ کہنا درست نہیں کہ
یہ سکون اختیار کرنے کا حکم پوری نماز کے رفع یدین پر نہیں سلام کے وقت
کرنے کے متعلق ہے، کیونکہ:
پہلی حدیث میں اکیلے (نفل) نماز پڑھتے رفع یدیں کرتے دیکھا گیا تھا، لیکن یہاں دوسری حدیث میں خاص "جماعت" کی نماز کا موقعہ ہے.
پہلی حدیث میں سلام کے وقت کا اشارہ ہی نہیں جبکہ دوسری حدیث میں سلام کے وقت "اشارہ" کرنے کی ممانعت ہے.
پہلی
حدیث میں حکم عام ہے "نماز میں سکون" کا یعنی نماز کے اندر سکون کا حکم
ہے، جبکہ اس دوسری حدیث میں حکم_عام نہیں بلکہ خاص سلام کے وقت اور موقعہ
پر کی جانے والے عمل کی ممانعت کا حکم ہے.
4.پہلی
حدیث میں سکون اختیار کرنے کا حکم دے رہے ہیں اور دوسری حدیث میں یہ ارشاد
فرمارہے ہیں کہ تم اپنے ہاتھوں کو اپنی ران پر رکھ کر دائیں بائیں اپنے
بھائی ہر سلام کرو۔
لہذا، یہ دو الگ الگ حدیثیں ہیں، ان کہ خلط ملط کرکے ایک کہنا بہت غلط ہے۔
قال
الْبُخَارِي ، أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ الْمَرْوَزِيُّ قال :
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قال : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ
كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ،
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ
رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ
يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً " .[سنن النسائى الصغرى »
كِتَاب التَّطْبِيقِ » الرُّخْصَةُ فِي تَرْكِ ذَلِكَ ... رقم الحديث:
1047]
ترجمہ
: حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کورسول اﷲﷺ کی نماز
پڑھ کہ نہ دکھاؤں پھر انہوں نے نماز پڑھی ، پس نہیں اٹھاۓ اپنے ہاتھ صرف
(شروع نماز میں) ایک مرتبہ۔
(نسائی ص161، قدىمی کتب خانہ نسائی (مترجم) ج1 ص345 دارالاشاعت)
تخريج الحديث
وأخرجه
مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي (18) ، ابن أبي شيبة (2441)، وأبو داود
(748) ، والترمذي (257) حديث حسن ، والنسائي (2/195، رقم:1058) ، وأبو يعلى
(5040+5302) ، وأبي يعلى (5302) والطحاوي في "شرح معاني الآثار"
1/224(1357)، والبيهقي في "السنن" 2/112(2531)، وفی معرفة السنن
والآثار(3280)، من طريق وكيع -شيخ أحمد-، بهذا الإسناد.
کیا آپ جاتنے ہیں کہ ترک رفع الیدین والی حدیث کو کن کن محدثین نے صحیح قرار دیا ہے:
تنبیہ!
اصول فقہ و حدیث کا ضابطہ ہے کہ جس حدیث سے کوئی فقیہ و مجتہد ومحدث
استدلال کرے وہ اس کے نزدىک صحیح ہے۔تدریب الراوی ج 1ص 48، تلخىص الحبیر
ج2ص143، قواعد فی علوم الحدیث 57]
حضرت
ابر اہیم النخعیؒ 96ھ ۔ مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص 13، مسند ابی حنیفہ
بروایت ابی یوسف ص21،موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ لامام محمد ج1ص96،مسند
ابن الجعد ص292، سنن الطحاوی ج1ص162,163، مشکل الآثار للطحاوی ج2ص11، جامع
المسدنید ج1ص352، معجم الکبیر للطبرانی ج 22ص22، سنن دار قطنی ج1ص394، سنن
الکبری للبیہقی ج2ص81]
امام
اعظم ابو حنیفہ التابعی ؒ 150ھ ۔ مسند ابی حنیفہ بروایت حسن ص13، مسند ابی
حنیفہ بروایت ابی یوسف ص 21، موطا امام محمد ص93، کتاب الحجہ ج 1ص96، سنن
الطحاوی ج1ص162، جامع المسانید ج1ص353، الاوسط لا بن المنذر ج3ص148،
التجريد للقدروی ج5ص272، حلیة العماءللشاشی ج1ص189، المحلی ابن حزم ج4ص119
۔ج1ص301، التمیہد ج9ص213، الاتذکار لا بن البر ج4ص 99، مناقب المکی ج1ص130،
مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام ج1ص263، شرح سنن ابن ماجہ
المغلطائی ج5ص1466,1467، عمدة القاری ج5ص272]
امام
سفیان ثوری ؒ161ھ ۔ جزء رفع الیدین ص46، ترمذی ج 1ص59، الاوسط لابن منذر
ج3ص148، حلیة العماء للشاشی ج1ص189، التجرید للقدوری ج1ص272، شرح البخاری
لابن بطال ج 2ص423، التمہید ج 9ص213،الاستذکار ج4ص99، شرح السنة للبغوی ج2
ص24،مغنی لابن قدامہ ج2ص172، دلائل الاحکام لابن شداد ج1ص263، شر ح سنن ابن
ماجہ للمغلطائی ج5ص1466، عمدة القاری ج5ص272]
امام ابن القاسم المصریؒ 191ھ [المدونة الکبری لامام مالک ج1ص71]
امام وکیع بن الجراح الکوفی ؒ 197ھ [جزءرفع الیدىن للبخاری ص46، عمدة القاری ج5ص272]
امام اسحاق بن ابی اسرائیل المروزی ؒ 246ھ [سنن دار قطنی ج1 ص399,400 سند صحیح]
امام محمد بن اسماعیل البخاری256ھ [جزء رفع الیدین للبخاری ص25، للزئی ص 112]
امام ابو داؤد السجستانی275ھ [تاریخ بغداد الخطیب ج 9ص59، تذکرة الحفاظ ج2ص127، النکت لابن حجرص141]
امام ابو عیسی ترمذی ؒ 279ھ [ترمذی ج1ص59، شرح الھدایہ للعینی ج2ص294]
المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم:257، خلاصة حكم المحدث: حسن
امام احمد بن شعیب نسائی 303ھ [النکت لابن حجر ص165، زہر الربی للسیوطی ص3]
امام ابو علی الطوسی 312ھ [مختصر الاحکام مستخرج الطوسی علی جامع الترمذی ج 2ص103، شرح ابن ماجہ للحافظ للمغلطائی ج 5ص1467]
امام ابو جعفر الطحاوی ؒ 321 ھ [الطحاوی ج1ص162، الرد علی الکرانی بحوالہ جوہر النقی ص77,78]
امام ابو محمد الحارثی البخاری ؒ 340ھ [جامع المسانید ج 1ص353 مکة المکرمة]
امام ابو علی النسابوری ؒ349ھ [النکت لابن حجر ؒ ص165، زہر الربی علی النسائی للسیوطی ص3]
امام ابو علی ابن السکن المصری ؒ353ھ [النکت لا بن حجر 164 زہر الربی للسیوطی ص3]
امام محمد بن معاویہ االاحمر ؒ 358ھ [النکت لابن حجر ص164، زہر الربی للسیوطی 3]
امام ابو بکر ابن السنی ؒ 364ھ [الارشاد لامام الخلىلی ص زہر الربی للسیوطی ص 3]
امام ابن عدی ؒ365ھ [النکت لا بن حجر ص164 زہر الربی ص3]
امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ 385ھ [کتاب العلل ج 5ص172، النکت ص164 زہر الربی ص3]
امام ابن مندة 390ھ [النکت لا بن حجر 164، زہر الربی للسیوطی ص3]
امام ابو عبد اﷲ الحاکم ؒ 405ھ [النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3]
امام عبد الغنی بن سعید ؒ 409ھ [النکت لابن حجر ص164 زہر الربی للسیوطی ص3]
امام ابو الحسین القدوری ؒ 428ھ [التجرید للقدوری ؒ ج2ص518]
امام ابو یعلی الخلیلی ؒ446ھ [الارشاد للخلیلی ص النکت ص164 زہر الربی للسیوطی ص3]
امام ابو محمد ابن حزم 456ھ [المحلی لا بن حزم ج 4ص121 مصر]
امام ابوبکر الخطیب للبغدادی ؒ 463ھ [النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3]
امام ابوبکر السرخسی ؒ 490ھ [المبسوط للسرخسی ج 1ص14]
امام موفق المکی ؒ568 ھ [مناقب موفق المکی ج1ص130,131]
امام ابو طاہر السلفی ؒ 576ھ [النکت الابن حجر ص163 زہر الربی للسیوطی ص3]
امام ابوبکر کاسانی ؒ587ھ [بدائع الصنائع للکاسانی ؒ ج1ص40]
امام ابن القطان الفاسیؒ 628ھ [بیان الوھم والا ےھام لابن القطان الفاسی ج3ص367]
امام محمد الخوارزمی 655ھ [جامع المسانید]
امام ابو محمد علی بن زکریا المنجی ؒ686ھ [اللباب فیا الجمع بین السنة والکتاب ج1 ص256]
امام ابن الترکمانی ؒ745ھ [الجوہر النقی علی البیہقی لا بن الترکمانی ج2ص77,78]
امام حافظ مغلطائی 762ھ [شرح ابن ماجہ الحفاظ المغلطائی ج 5 ص1467]
امام حافظ زیلعی ؒ 672ھ [نصب الرایہ للزیلعی ج1ص396وفی نسخة ج1ص474]
المحدث: الزيلعي - المصدر: نصب الراية - الصفحة أو الرقم: 1/394، خلاصة حكم المحدث: صحيح
امام حافظ عبد القادر القرشی ؒ 775ھ [الحاوی علی الطحاوی ج 1ص530]
امام فقیہ محمد البابرقی 786ھ [العنایہ شرح الھدایہ ج1ص269]
امام فقیہ محمد الکردری 826 ھ [مناقب کردری ج1ص174]
محدث احمد بن ابی بکر البوصیری ؒ 840ھ [اتحاف الخیرة المھرہ للبوصیری ج10ص355,356]
محدث محمود العینی ؒ 855ھ [شرح سنن ابی داؤد للحافظ العینی ؒ ج 3ص341,342 ، شرح الھدایہ عینی ج2 ص294]
امام ابن الھمام ؒ 861ھ [فتح القدیر شرح الھدایہ لابن الھمام ج1ص269,270]
ملا علی قاری ؒ1014ھ [مرقات ج2ص269، شرح الفقایہ ج1ص257,58، شرح مسند ابی حنیفہ للعلی قاری ص38]
امام محمد ھاشم السندھی ؒ1154ھ [کشف الدین مترجم لمصمدہاشم السندھی ص15,16]
امام حافظ محدث محمد الزبیدی ؒ 1205ھ [عقود الجواھر المنفىہ للزبیدی]
امام محمد بن علی النیموی ؒ 1344ھ [آثار السنن مع التعلیق للنمیوی ؒ ص132]
ص56,57,58,64,66,61]
علامہ محمد زہیر الشاویش ؒ [تعلیق علی شرح السنة للبغوی ج3ص24 بیروت]
علامہ احمد محمد الشاکر المصری غیر مقلد [الشرح علی الترمذی لاحمد شاکر المصری ج2ص41 دارالعمران بیروت]
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 5/251، خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
المحدث: أحمد شاكر - المصدر: شرح سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2/40، خلاصة حكم المحدث: صحيح
علامہ شعیب الارناؤط [تعلیق علی شرح السنہ للبغوی ج3ص24 بیروت]
الشیخ حسین سلیم اسد [تعلیق علی مسند ابی یعلی شیخ حسین سلیم اسد ج8ص454۔ ج9ص209 دمشق بیروت]
ناصر الدین البانی غیر مقلد [مشکوة بتحقیق الالبانی ج1ص254بیروت]
المحدث: الألباني - المصدر: أصل صفة الصلاة - الصفحة أو الرقم: 2/610، خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 257، خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 1057، خلاصة حكم المحدث: صحيح
المحدث: الألباني - المصدر: صحيح أبي داود - الصفحة أو الرقم:748، خلاصة حكم المحدث: صحيح
سجدوں
میں جاتے وقت رفع یدین کرنا: غیر مقلدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ
غیر مقلدین سجدوں کی رفع یدین کیوں نہیں کرتے ؟جبکہ سجدوں میں جاتے وقت کا
رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔
غیر مقلدین کے مانے ہوئے اور مستند شدہ محقق اور محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
ْْ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سجدہ میں جاتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔
یہ
رفع یدین 10 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور ابن عمر، ابن عباس
رضی اللہ عنہم اور حسن بصری، طاؤس، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نافع،
سالم بن نافع، قاسم بن محمد، عبداللہ بن دینار، اور عطاء اس کو جائز سمجھتے
ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مھدی نے اس کو سنت کہا ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ
اللہ نے اس پہ عمل کیا ہے، امام مالک رح اور امام شافعی رح کا بھی ایک قول
یہی ہے۔''
( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 131)
جب
سجدوں کا رفع یدین حضرت عبداللہ ابن عمرؓ اور ان کے ساتھ ساتھ دس صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سےصحیح سند کے ساتھ غیر مقلدین کے تصدیق شدہ محقق کی
تصریح کے ساتھ ثابت ہے تو غیر مقلد ان صحیح احادیث پہ عمل کیوں نہیں کرتے؟
یہ وہی عبداللہ ابن عمرؓ ہیں جن سے غیر مقلدین اپنی رفع یدین کی حدیث روایت
کرتے ہیں۔
سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا:
علامہ ناصر الدین البانیؒ سجدوں سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کو صحیح کہتے ہیں:
ّ''امام
احمدؒ اس مقام پر رفع یدین کے قائل ہیں بلکہ وہ ہر تکبیر کے وقت رفع یدین
کے قائل ہیں، چنانچہ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ ابن الاثیرؒ، امام احمدؒ
سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے رفع یدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا
کہ جب بھی نمازی اوپر یا نیچے ہو دونوں صورتوں میں رفع یدین ہے نیز اثرمؒ
بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ کو دیکھا وہ نماز میں اٹھتے بیٹھتے وقت
رفع یدین کرتے تھے۔
یہ رفع یدین انسؓ، ابن عمرؓ، نافعؒ، طاؤسؒ، حسن بصریؒ، ابن سیرینؒ اور ایوب سختیانیؒ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے''۔
( نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، علامہ ناصر الدین البانی، صفحہ 142)
یہاں علامہ البانیؒ نے حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے سجدوں سے سر اٹھاتے وقت کا رفع یدین صحیح سند سے ثابت کیا۔
غیر مقلدین سجدوں میں جاتے وقت اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟
حدیث
: حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ
عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ
عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا
أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
" . قَالَ : وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ أَبُو
عِيسَى : حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ
[جامع
الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ...,رقم الحديث: 238](دعا گو
ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
ترجمہ
: حضرت علقمہؒ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں
تمہیں حضور ﷺ جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور
پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کرنے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع
یدین نہیں کیا.
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے،
غیرمقلدوں
کے امام ابن حزم ظاہری نے اسے صحیح قرار دیا ہے؛ حافظ زیلعی نے نصب
الرایہ(1/39) میں حافظ ابن دقیق العید سے نقل کیا ہے کہ ابن ا لقطان نے
کتاب" الوہم والایہام" میں اسے صحیح قرار دیا ہے، علامہ عینی نے نخب
الافکار میں اس کو صحیح کہا ہے، اور علامہ احمد شاکر نے بھی مسند احمد کی
تعلیق(2/40) میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور دیگر اور بہت سے حضرات
نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے، اور البانی نے(صحيح الترمذي - الصفحة أو
الرقم: 257)اور تخریج مشکاة میں کہا ہے: والحق أنہ حدیث صحیح وإسنادہ
صحیح علی شرط مسلم، ولم نجد لمن أعلّہ حجة یصلح التعلق بہا ورد الحدیث من
أجلہا (۱/۲۵۴، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ودمشق)
سند
پر اعتراض کا جواب:اس حدیث کے راوی سفیان الثوری جیسے ثقه تابعی امام پر
بعض لوگ مدلس ہونے کی بےوزن جرح کرتے اس حدیث کا انکار کرتے ہیں، تو انھیں
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صحاح ستہ میں اور صحیح بخاری و مسلم میں ان کی
روایات کا ہونا ان کے ثقہ (قابل_اعتماد) ہونا ثابت کرتا ہے ، ورنہ صحاح-ستہ
احادیث کے امام ان کی روایت کو اپنی کتاب میں نہ لاتے. اس کی احادیث کے
صحیح ہونے پر تو اہل_حدیث کا اجماع ہے: ابو الولید سلیمان بن خلف الباجی (
متوفی ۴۷۴ھ) نے لکھا ہے؛ ’’ والذی أجمع علیہ أھل الحدیث من حدیث أبی إسحاق
السبیعی ما رواہ شعبة وسفیان الثوری [عنہ] فإذا اختلفا فالقول قول الثوری
‘‘( التعدیل والتجر یح ۱؍۳۰۷)
ترجمہ
: اور اس پر اہل حدیث کا اجماع ہے کہ ابو اسحاق السبیعی کی حدیثوں میں سے
جو شعبہ اور سفیان ثوری نے بیان کی ہیں ( وہ صحیح ہیں) پھر اگر ان دونوں
میں اختلاف ہو تو سفیان ثوری کی روایت راجح ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد
چشتی)
ایک
دو محدثین کے اقوال سے جو لوگ صحاح-ستہ کی اس حدیث (ترمذی کی حسن روایت)
میں موجود راوی "عاصم بن کلیب" پر کلام کرتے ہیں ، انھیں جان لینا چاہیے کہ
یہ راوی صحیح مسلم کا ثقه (قابل اعتماد) راوی ہے، اکثر محدثین نے انھیں
"ثقه" مانا ہے ، اگر ان کی روایت مردود ہے تو صحیح مسلم کے علاوہ اس کی
جہاں جو جو روایت آتی ہے کیا اس کا بھی رد کروگے؟؟؟
اور
یہ روی اس روایت میں منفرد بھی نہیں، حدیث_ابن_مسعود کو "عاصم بن کلب" کے
علاوہ دوسرے راویوں سے اس حدیث کا مروی ہونا (یعنی اس کے شواہد دوسرے ترق
سے بھی) ثابت ہے، لہذا اس راوی کے منفرد ہونے کے سبب اس روایت کے رد
کرناصحیح نہیں.
عَنِ
الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " كَانَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لافْتِتَاحِ
الصَّلاةِ ، رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَ إِبْهَامَاهُ قَرِيبًا مِنْ
شَحْمَتَيْ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ لا يَعُودُ " .
(شرح
معانی الآثار للطحاوی ج1 ص154، سنن ابی داود ج1 ص109 ، مصنف عبد الرزاق ج2
ص70 ، مسند ابی یعلٰی ج 3 ص249،248، سنن دار قطنی ج1 ص294،293، مسنداحمد
ج4ص303، المدونة الکبری ج1ص69، مصنف ابن ابی شیبة ج1 ص236 )
ترجمہ
: حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب نماز شروع کر نے کے لئے
تکبیر کہتے تو رفع یدین کرتے یہاں تک کہ آپ کے انگوٹھے کانوں کی لو کے قریب
ہوجاتے۔ پھر (رفع یدین) نہیں کرتے تھے۔(سنن طحاوی)
تخريج
الحديث:وأخرجه أبو داود (749) ، والطحاوي في شرح معاني الآثار(1347)،
والبغوی فی شرح السنة (3/24) ، وأخرجه أبو يعلى (1690) من طريق شريك، بهذا
الإسناد.
وأخرجه الدارقطني (1129) من طريق إسماعيل بن زكريا، عن يزيد بن أبي زياد, به.
وأخرجه
ابن أبي شيبة 1/ 233، وأحمد (18487)، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة
والتاريخ" 3/ 80، وأبو يعلى (1658) و (1691) من طريق هشيم بن بشير،
وأحمد
(18674) و (18682)، والبيهقي 2/ 26 من طريق أسباط بن محمد، وأحمد (18692)،
ويعقوب بن سفيان 3/ 80، والدارقطني (1127) من طريق شعبة، وأحمد (18702)،
وعبد الرزاق (2530)، والبخاري في "رفع اليدين" (35)، ويعقوب بن سفيان 3/ 79
- 80، والدارقطني (1126) من طريق سفيان الثوري، وأحمد في "العلل" (715) من
طريق الجراح بن مليح الرؤاسي، ويعقوب بن سفيان 3/ 80، والدارقطنى (1131)
من طريق خالد بن عبد الله، وأبو يعلى (1692) من طريق ابن إدريس، والدارقطني
(1132) من طريق علي بن عاصم، عن محمد بن أبي ليلى، والخطيب في "تاريخ
بغداد" 5/ 41 من طريق حمزة بن حبيب الزيات، و 7/ 254 من طريق جرير بن عبد
الحميد، العشرة عن يزيد بن أبي زياد، به. ولم يذكروا فيه: "ثم لا يعود"،
وقال الدارقطني: قال علي بن عاصم: فلما قدمت الكوفة قيل لي: إن يزيد حي،
فأتيته فحدثني بهذا الحديث ... فقلت له: أخبرني ابن أبي ليلى أنك قلت: ثم
لم يعد، قال: لا أحفظ هذا، فعاودته فقال: ما أحفظه.وانظر رواية سفيان بن
عيينة عن يزيد الآتية بعده، وانظر (752).(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ
يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ،
عَنْ الْبَرَاءِ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ
مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُودُ ".[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ »
أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 639]
خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
حضرت
براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب نماز شروع فرماتے (یعنی تکبیر
تحریمہ کہتے) تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اپنے کانوں کے قریب تک۔ پھر
اسے (رفع یدین کو) دوبارہ نہ کرتے.(سنن ابی داود ج1 ص336)
امام
ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار)
کروں (یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم نہ لگاؤں) تو وہ احتجاج (حجت و دلیل
ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢]
حَدَّثَنَا
سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي
سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاةَ
رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ ،
وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ، فَلا يَرْفَعُ وَلَا
بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ " .
[مسند الحميدي » أَحَادِيثُ رِجَالِ الأَنْصَارِ » أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ... رقم الحديث: 594]
ترجمہ:
(امام حمیدیؒ روایت فرماتے ہیں کہ) ہم سے حدیث بیان کی سفیانؒ نے ، ان سے
زہریؒ نے ، ان سے سالم بن عبد اللہ (ابن عمرؓ) نے ، ان سے ان کے والد
(عبدللہ ابن عمرؓ سے) راویت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ جب
نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے
اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے اور نہ دونوں سجدوں کے
درمیان۔ (مسند الحمیدی:۲/۲۷۷۔ حدیث:۶۱۴)
تخريج الحديث:طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة
1
إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعدما
يرفع من الركوع فلا يرفع بين السجدتين عبد الله بن عمر الثالث من الخلعيات
10 --- علي بن الحسن الخلعي 492
نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیلِ حدیث مسند حمیدی پر بودے اعتراض کا کامل جواب
حَدَّثَنَا
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَسَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ ،
وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو فِي آخَرِينَ ، قَالُوا : ثَنَا سُفْيَانُ بْنُ
عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ :
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا
افْتَتَحَ الصَّلاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا " ، وَقَالَ
بَعْضُهُمْ : حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ
وَبَعْدَ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ ، لا يَرْفَعُهُمَا ،
وَقَالَ بَعْضُهُمْ : وَلا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ، وَالْمَعْنَى
وَاحِدٌ.
[مستخرج أبي عوانة » كِتَابُ الصَّلَاةِ » بَيَانُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 1240(1572)]
ترجمہ
: حضرت امام زہریؒ حضرت سالمؒ سے اور وہ اپنے والد حضرت عبد الله بن عمرؓ
سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ
نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے مونڈھوں تک۔ اور جب آپ ارارہ فرماتے کہ
رکوع کریں اور رکوع سے سر اٹھالےنے کے بعد آپ رفع یدین نہ کرتے۔ اور بعض
(راویوں) نے کہا ہے کہ آپ دونوں سجدوں کے درمیان بھی رفع یدین نہ کرتے۔
مطلب سب راویوں کی روایت کا ایک ہی ہیں۔(صحیح ابی عوانہ ج2 ص90؛ ١/٥١٥ ،
حدیث # ٦٢٦)
اعتراض:
امام سفیان بن عیینہؒ کی یہی روایت صحیح مسلم میں رکوع سے پہلے اور رکوع
کے بعد والے رفع یدین کے اثبات کےساتھ موجود ہے، جبکہ مسند ابی عوانہ والے
مطبوعہ نسخہ میں "واو" رہ گئی ہے اور صحیح مسلم میں واو موجود ہے۔
جواب:
اگر محدث ابو عوانہؒ، صحیح مسلم والا طریق (یحیٰی وغیرہ عن سفیان) ذکر
کرتے تب "واو" رہ جانے والا اعتراض درست تھا، حالانکہ انہوں نے اپنی مسند
میں صحیح مسلم والا طریق ذکر نہیں کیا، جس میں "واو" ہے بلکہ (حمیدی
وعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَيُّوبَ الْمُخَرِّمِيُّ ، وَسَعْدَانُ بْنُ نَصْرٍ ،
وَشُعَيْبُ بْنُ عَمْرٍو فِي آخَرِينَ ، عن سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ)
والے طرق ذکر کیے ہیں جن میں "واو" موجود نہیں ہیں۔
نماز
میں خشوع اور رفع یدین:القرآن: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾
الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ [سورہ المومنون] ترجمہ:
پکی بات ہے کہ وہ ایمان لانے والے کامیاب ہوگۓ، جو نماز میں خشوع
اختیارکرنے والے ہیں.
حضرت
ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: خشوع کرنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو نماز میں
تواضع و عاجزی اختیار کرتے ہیں اور دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے اور"نہ ہی
نماز میں رفع یدین کرتے ہیں.[تفسیر_ابن_عباس](دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
حضرت
حسن بصری رح سے اس کی تفسیر مروی ہے کہ: (نماز میں) خشوع کرنے والے وہ ہیں
جو نہیں کرتے رفع یدین(ہاتھ اٹھانا) نماز میں مگر (صرف) تکبیر_اولیٰ (پہلی
تکبیر) میں. [تفسیر سمرقندی:٢/٤٠٨]
متعصب غیر مقلد زبیر علی زئی کی جرح کی حقیقت نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیل_تفسیر ابن عباس پر بودے اعتراضات کے کامل جوابات
عَنِ
ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ
مَوَاطِنَ ، فِي افْتِتَاحِ الصَّلاةِ ، وَعِنْدَ الْبَيْتِ ، وَعَلَى
الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ، وَبِعَرَفَاتٍ ، وَبِالْمُزْدَلِفَةِ ، وَعِنْدَ
الْجَمْرَتَيْنِ " .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ مَنَاسِكِ الْحَجِّ » بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ ...رقم الحديث: 2438]
ترجمہ
: حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : سات (٧) جگہوں پر رفع
یدین (دونوں ہاتھوں کو اٹھانا) کیا جاتا ہے : (١) شروع نماز میں، (٢) بیت
الله کے پاس، (٣) صفا پر، (٤) مروہ پر، (٥) عرفات میں، (٦) مزدلفہ میں، (٧)
جمرات کے پاس.[سنن طحاوی : ١/٤١٦]
المحدث : الطحاوي | المصدر : شرح معاني الآثار
الصفحة أو الرقم: 2/176 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
فائدہ: یھاں پہلی جگہ میں شروع نماز فرمانا دلیل ہے احناف کی نماز میں (اندر) مزید رفع یدین نہ کرنے پر.
اعتراض
: یہ حدیث ضعیف ہے. جواب : گو ضعیف ہے مگر اس پر عمل ہے (فتاویٰ علماۓ
حدیث :٢/١٥٦)؛ ضعیف روایت موضوع (من گھڑت) نہیں ہوتی، اور یہ روایت تو شدید
الضعیف بھی نہیں، جبکہ اس کی تائید ایک صحیح سند سے بھی ہوجاتی ہے اور
حضرت ابن عمر کی روایت سے بھی تائیدی شواہد ملتے ہیں، جس سے اصول حدیث کے
مطابق اس روایت کو قوت حاصل ہوجاتی ہے اور حسن کا حکم رکھتی ہے.
صحیح
سند :وَقَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ : حَدَّثَنَا هِشَامٌ هُوَ ابْنُ
سُلَيْمَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ حُدِّثْتُ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ
عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنٍ :
فِي بَدْءِ الصَّلاةِ ، وَإِذَا رَأَيْتَ الْبَيْتَ ، وَعَلَى الصَّفَا
وَالْمَرْوَةِ ، وَعَشِيَّةَ عَرَفَةَ ، وَبِجَمْعٍ ، وَعِنْدَ
الْجَمْرَتَيْنِ ، وَعَلَى الْبَيْتِ " .
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر ... » كتاب الحج » بَابُ دُخُولِ مَكَّةَ وَفَضْلِهَا؛ رقم الحديث: 1243]
عن
عاصم بن كليب عن أبيه أنَّ عليًّا كانَ يرفعُ يديهِ في أوَّلِ تكبيرةٍ منَ
الصَّلاةِ ثمَّ لا يرفعُ بعدُ۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد۱ صفحہ 154
،مصنف ابن ابی شیبة جلد اول صفحہ 236، موطا امام محمد جلد۱ صفحہ90)
ترجمہ:
حضرت عاصم بن کلیبؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نماز کی
پہلی تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے پھر اسکے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
المحدث: العيني - المصدر: عمدة القاري - الصفحة أو الرقم:5/400 - خلاصة حكم المحدث: صحيح على شرط مسلم
المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الدراية - الصفحة أو الرقم: 1/152 - خلاصة حكم المحدث: رجاله ثقات
المحدث: الزيلعي - المصدر: نصب الراية - الصفحة أو الرقم:1/406 - خلاصة حكم المحدث: صحيح
عَنْ
عَلِيٍّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَّهُ
كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ الصَّلَاةِ ثُمَّ لَا يَعُودُ "
.[العلل الواردة في الأحاديث النبوية للدارقطني » مُسْنَدُ عَلِيِّ بْنِ
أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ ... » الثَّانِي مِنْ حَدِيثِ عَلِيِّ بْنِ
أَبِي طَالِبٍ ...,رقم الحديث: 602(457)]
ترجمہ: حضرت علیؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے، پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔
( العلل الواردة فی الا حادیث النبویة، دارقطنی ج4 ص106)
تخريج الحديث
[السنن الكبرى للبيهقي » جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَةِ, رقم الحديث: 2315(2:79)]
الراوي : كليب بن شهاب الجرمي المحدث : ابن حجر العسقلاني
المصدر : الدراية الصفحة أو الرقم: 1/152 خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات، وهو موقوف
المحدث : الزيلعي
المصدر : نصب الراية الصفحة أو الرقم: 1/406 خلاصة حكم المحدث : صحيح
عَنْ
عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ
أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ ، " أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ
يَدَيْهِ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى إِلَى فُرُوعِ أُذُنَيْهِ ، ثُمَّ
لَا يَرْفَعُهَا حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ " .[مسند زيد » كِتَابُ
الصَّلَاةِ » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 55]
ترجمہ
: حضرت علیؓ پہلی تکبیر (تحریمہ) میں اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے کانوں تک
اٹھاتے، پھر ہاتھ نہ اٹھاتے حتیٰ کہ نماز پوری کرلیتے.(دعا گو ڈاکٹر فیض
احمد چشتی)
صليتُ
مع النبي ومع أبي بكرٍ ومع عمرَ رضي الله عنهما فلم يرفعوا أيديهِم إلا
عندَ التكبيرَةِ الأولى في افتتاحِ الصلاةِ قال إسحاقُ به نَأْخُذ في
الصلاةِ كلها۔
(دار قطنی : 2/52 (ج1ص295 ) ،بیہقی ج2 ص79 )
[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابُ ذِكْرِ التَّكْبِيرِ وَرَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ ...,رقم الحديث: 1133]
ترجمہ:
حضرت عبدﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت
عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی، ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر پہلی تکبیر کے وقت
نماز کی ابتدا میں.
محدث اسحق (بن ابی اسرائیل ؒ) کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو اپناتے ہیں پوری نماز میں۔
حضرت عبدﷲ بن عمر ؓ کا عمل اور رفع یدین:عن مجاہد قال صلیت خلف ابن عمر
فلم یکن یرفع یدیہ الا فی التکبیرة الاولی من الصلوة ۔(شرح معانی الآثار
للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام
محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)
ترجمہ
: حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبدﷲ بن عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی
تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
تو
یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا
لیکن نبی ﷺ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب
آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے
خلاف دلیل قائم ہوگئی.
اگر
کوئی کہے کہ یہ حدیث منکر ہے ؟ تو اسے جواب میں کہا جاۓ گا کہ اس (دعوا)
پر کیا دلیل ہے ؟ تو ہرگز تم نہیں پاؤگے اس (دعوا) تک کوئی راہ ؟
اعتراض
اور اس کا جواب:غیر مقلدین کہتے ہیں کہ امام مجاہدؒ رفع کے قائل تھے اور
میں نے ابھی تک کوئی "صحیح سند" کے ساتھ روایت نہیں دیکھی نہ حضرت عبداللہ
ابن عمرؓ سے اور نہ امام مجاہد سے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض مان لیا
جاۓ کہ غیر مقلدین اس روایت کا صرف اس وجہ سے انکار کر رہے ہیں کہ امام
مجاہد رفع "نہیں" کرتے تو حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے رفع کی تمام روایات کا
انکار کر دیں کیونکہ "انکا" ترکِ رفع ثابت ہو چکا۔ چوتھی بات یہ ہے کہ اس
روایت پر جتنی بھی جرح ہے وہ سب قائلینِ رفع کی ہے اور اس جرح کا حال یہ ہے
کہ امام بخاری کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے کہا کہ ابو بکر بن عیاش مختلط
ہو گئے تھے تو یہ کیا عجیب بات ہوئی کہ خود تو امام بخاریؒ اپنی کتاب "صحیح
بخاری" میں ابو بکر بن عیاش سے احتجاج کرتے اس کی روایات لیتے ہیں اور جب
ہم احتجاج (حجت و دلیل پکڑتے ثابت) کریں تو مخالفین کے لئے ابو بکر بن عیاش
مختلط ہو جاتا ہے۔ اور ایک بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے تو اپنے "جز رفع
یدین" میں رفع عند السجود کی روایت کو بھی نقل کیا ہے انکو تو امام بخاری
نے صحیح مان کر نقل کیا ہے اور غیر مقلدین انکو ضعیف قرار دیتے نہیں تھکتے
تو پوچھا جاۓ گا کہ جب تمہارے مطلب کی روایت آتی ہے تو امام بخاریؒ امیر
المومنین فی الحدیث بن جاتے ہیں اور جب تمہارے خلاف کوئی ان سے روایت آجاۓ
تو امام بخاریؒ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے، یہ کیا دوغلہ پن ہے؟؟؟ بہرحال
یہ روایت بلکل ٹھیک ہے میں نے جو سکین دیا ہے اس میں ساتھ پین سے لکھا بھی
ہوا ہے کہ یہ روایت (بخاری و مسلم کی شرطوں کے مطابق صحیح ہیں۔ اور غیر
مقلدین کا شور مچانہ انکے ضدی ، متعصب، اندھے مقلد ، اور دوغلے ہونے کی
دلیل ہے جو میں اکثر ثابت کرتا رہتا ہوں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی حدیث_ابن عمر پر بودے اعتراض کا کامل جواب
اعتراض:
زئی صاحب نے لکھا: ”یہ روایت قاری ابوبکر بن عیاشؒ کے وہم وخطا کی وجہ سے
ضعیف ہے……کسی ایک قابل اعتماد محدث نے اس کی تصحیح نہیں کی“
(مضروب حق: شماره 06 ص 30)
جواب:
اولاً ۔۔۔ امام ابوبکر بن عیاش صحیح بخاری ،صحیح مسلم (مقدمہ) اور سنن
اربعہ کے راوی ہیں، عند الجمہور "ثقہ" ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک، امام
احمد بن حنبل ، امام عثمان دارمی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابن حبان،
امام ابن عدی، امام عجلی، امام ابن سعد، امام سفیان ثوری، امام یعقوب بن
شیبہ، امام ساجی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کی تعدیل و توثیق اور مدح وثناء کی
ہے۔ تہذیب التہذیب ج 7ص 320 تا(366
مام محمد بن حسن الشیبانی م 600 ھ ثقہ وصدوق نے ان کی متابعت معنوی کررکھی ہے۔ )موطاامام محمد ص 93 ، کتاب الحجۃ ج 6ص (71
اس
روایت کی سند علی شرط الشیخین ہے۔ پس علی زئی کا اسے ضعیف بتلانا باطل ہے۔
رہا بعض محدثین کا اس روایت کو ابوبکر بن عیاش کی وجہ سے وہم وغیرہ کهنا،
تو عرض ہے کہ امام نووی نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا
ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ
پر محمول ہیں۔ (تہذیب الاسماء للنووی ج 6ص 040)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد
چشتی)
اور
ہماری پیش کردہ روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے مروی ہے
اور یہی طریق صحیح بخاری (ج 6ص 074) میں موجود ہے۔ معلوم ہو کہ یہ روایت
قبل الاختلاط مروی ہے۔ پس وہم والا اعتراض بھی باطل ہے۔
تنبیہ:
علی زئی نے لکھا ” :بہت سے ثقہ راویوں اور صحیح وحسن لذاتہ سندوں سے ثابت
ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع
کے بعد رفع یدین کرتے تھے“ )مضروب حق: شماره 06 ؛ ص 3)
اللہ
تعالیٰ جناب کو فہم نصیب فرماے۔۔ مذکورہ مواضع میں رفع یدین کے اثبات میں
اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری
عمل تھا۔ نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً سجدوں کی رفع یدین
بھی ثابت ہے۔
(مصنف
ابن ابی شیبہ ج 6ص 011 ،مشکل الآثار للطحاوی ج 0ص 02 ،جزء رفع یدین
للبخاری ص 40 ،المعجم الاوسط للطبرانی ج 6ص 03 ،سنن ابن ماجہ ج 6 ص 16
وغیرہ)
لہٰذا اگر صرف ثبوت ہی کی بات کرتے ہیں وف پھر تمام غیرمقلدین اب سجدوں میں بھی رفع یدین کرنا شروع کردیں۔
نوٹ:
اگر غیرمقلدین کہیں کہ سجدوں کی رفع یدین کا ترک ثابت ہے تو عرض ہے کہ
رکوع والے رفع یدین کا بھی ترک ثابت ہے۔ایک اقرار اور دوسرے کا انکار؟!
قارئین
کرام! بحمداللہ ہم نےزئی صاحب کے تمام شبہات و وساوس جو موصوف کی کل
کائنات تھی، کا تحقیقی جواب دے دیا ہے، ن سے واضح و گیا ہے کہ حضرت
الاستاذ متکلمِ اسلام مولانامحمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کے پیش کردہ دلائل
اپنے دعوی پر ناطق وصریح ہیں اور زئی صاحب کےاعتراضات محض عداوت، بغض اور
احناف دشمنی پر مشتمل ہیں، حقیقت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔قرآن و
سنت کے ان واضح دلائل کو جھٹلانے والے جان لیں کہ قیامت قریب ہے۔ و اللہ
اعلم بالصواب
عن
الا سود قال صلیت مع عمر فلم یرفع یدیہ فی شی ء من صلوة الا حین افتتح
الصلوة الحدیث۔ (مصنف ابن ابی شیبة ج۱ ص237، شرح معانی الآثار للطحاوی ج۱
ص156)
ترجمہ
: حضرت اسودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی تو انہوں
نے نماز میں کسی جگہ بھی رفع یدین نہیں کیا سوائے ابتداء نماز کے ۔
عن
ابراہیم عن عبدﷲ انہ کا ن یرفع یدیہ فی اول ما یستفتح ثم لا یرفعھما۔(
مصنف ابن ابی شیبة ج۱ صفحہ236، شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 156
،مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ71)
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے کہ حضرت عبد ﷲ بن مسعودؓ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔
عن اشعث عن الشعبی انہ کان یرفع یدیہ فی اول التکبیر ثم لا یرفعھما۔( مصنف ابن ابی شیبة ج1 ص 236)
ترجمہ: امام شعبیؒ سے مروی ہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہی رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔
عن جابر عن الاسود و علقمة انھما کان یرفعان ایدیھما اذا افتتحا ثم لا یعودان۔( مصنف ابن ابی شیبة جلد اول ص 236)
ترجمہ: حضرت جابرؒ سے مروی ہے کہ حضرت اسود یزیدؒ اور حضرت علقمہؒ علیہ نماز کے شروع میں رفع یدین کرتے تھے پھر نہیں کرتے تھے۔
توضیح
مسئلہ رفع یدین:اختلاف ثبوت میں نہیں بلکہ دوام وبقاء (جاری رکھنے) میں ہے
جو ان احادیث سے ثابت نہیں۔ مذکورہ ترکِ رفع یدین کے دلائل کے قرینہ سے،
یہ احادیث ابتدا پر محمول ہیں، بعد میں رفع یدین متروک ہوگئی اور اس کی
سنیت(عادت وھمیشگی)منسوخ ہوگئی لیکن جواز باقی ہے۔[اوجز المسالک:1/203]
خصوصاََ
حضرت ابن عمرؓ سے ترکِ رفع یدین کا ثبوت تین(۳) روایات سے اور بعض خلفاء
راشدین، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے ترکِ رفع یدین پر بہت مضبوظ قرینہ
(یعنی کلام کی مراد متعین کرنے والی لفظی یا احوالی علامت) ہے۔
صحیح
بخاری اور رفع یدین:حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ :
حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ
عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ،
وَحَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، وَيَزِيدَ
بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ ، عَنْ
مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، " أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ
نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،
فَذَكَرْنَا صَلَاةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،
فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ : أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ
لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُهُ
إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ
أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ ، فَإِذَا
رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ ،
فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا
وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ الْقِبْلَةَ ، فَإِذَا
جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ
الْيُمْنَى ، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ
الْيُسْرَى وَنَصَبَ الْأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ "
[صحيح
البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب
سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ ... رقم الحديث: 788](دعا گو ڈاکٹر
فیض احمد چشتی)
(امام
بخاریؒ فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیرؒ نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے
لیثؒ نے خالدؒ کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعیدؒ نے ان سے محمد بن
عمر بن {حلحلةؒ} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاءؒ} نے (حدیث بیان کی)....
اور
(دوسری سند سے امام بخاریؒ فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی
حبیبؒ اور یزید بن محمدؒ کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن
{حلحلةؒ} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاءؒ} نے (حدیث بیان کی)....
کہ
وہ
چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نمازِ نبوی کا ذکر ہوا
تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدیؓ نے کہا کہ مجھے نبی ﷺ کی نماز (کی
تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ نے
تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک
اٹھائے، اور جب آپ ﷺ نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما
لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ ﷺ نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو
اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا،
اور جب آپ ﷺ نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو
بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ ﷺ نے قبلہ
رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ ﷺ دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر
بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ ﷺ نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو
آپ ﷺ نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور
اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے.صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ »
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ,
رقم الحديث: 789(828)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
فقہ
الحدیث : (١) صحابی رسول ابو حمید ساعدیؓ عنہ نے دعویٰ کیا کہ مجھے تم سب
سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز یاد ہے، اور اس پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں
کیا یعنی ان کے دعوے پر خاموش اتفاق کیا. (٢) اور اس صحیح سند والی حدیث
میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں. (٣)
اس حدیث (کی سند) سے معلوم ہوتا ہے کے یہ واقعہ دور_نبوّت کے بعد کا ہے، تو
اس سے آخری طریقہ نماز معلوم ہوتا ہے. کیونکہ: محمد بن عمر بن {عطاء} نے
(حدیث بیان کی)......کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ
تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابوحمید ساعدیؓ نے کہا کہ
مجھے نبیﷺ کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....
نماز_نبوی
کا احوال سب سے زیادہ محفوظ (یاد) رکھنے والے صحابی سے "تابعی" پوچھ رہا
ہے، جو ظاھر کرتا ہے کہ یہ سوال کرنا دورِ نبوی کے بعد تھا.
نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیل_بخاری پر بودے اعتراض کا کامل جواب
أصول : السكوت في معرض البيان بيان (مراعاة المصابيح لعبيد الله المباركبوري : ٣/٣٨٥، روح المعاني : ٧/١٨)
ترجمہ : وہ مقام جہاں ایک شے کو بیان کرنا چاہیے، وہاں اس کو بیان کو چھوڑنے کا مطلب اس شے کا عدم (نہ ہونا) بیان کرنا ہوتا ہے.
معیارِ
مقبول حدیث میں اہلحدیث علماء کا اختلاف:عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ
إِبْرَاهِيمَ ، أَنَّهُ قَالَ فِي وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ : " وَأَعْرَابِيٌّ
لَمْ يُصَلِّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً
قَبْلَهَا قَطُّ ، هُوَ أَعْلَمُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ وَأَصْحَابِهِ ،
حَفِظَ وَلَمْ يَحْفَظُوا ، يَعْنِي : رَفْعَ الْيَدَيْنِ " ، وَفِي
رِوَايَةٍ : أَنَّهُ ذَكَرَ حَدِيثَ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، فَقَالَ :
أَعْرَابِيٌّ مَا أَدْرِي صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ صَلَاةً قَبْلَهَا ، هُوَ أَعْلَمُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ.
وَفِي
رِوَايَةٍ : ذُكِرَ عِنْدَهُ حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ : أَنَّهُ رَأَى
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَفَعَ يَدَيْهِ عِنْدَ
الرُّكُوعِ وَعِنْدَ السُّجُودِ " ، فَقَالَ : هُوَ أَعْرَابِيٌّ لَا
يَعْرِفُ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ ، لَمْ يُصَلِّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَلَاةً وَاحِدَةً.
وَقَدْ
حَدَّثَنِي مَنْ لَا أُحْصِي ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ : أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فِي بَدْءِ الصَّلَاةِ فَقَطْ ،
وَحَكَاهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وَعَبْدُ
اللَّهِ عَالِمٌ بِشَرَائِعِ الْإِسْلَامِ وَحُدُودِهِ ، مُتَفَقِّدٌ
لِأَحْوَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، مُلَازِمٌ
لَهُ فِي إِقَامَتِهِ وَفِي أَسْفَارِهِ ، وَقَدْ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالَا يُحْصَى.[مسند أبي حنيفة رواية
الحصكفي » كِتَابُ الصَّلَاةِ]
ترجمہ
: ابوحنیفہؒ حمادؒ سے، وہ ابراہیم نخعیؒ سے، حضرت وائل بن حجرؓ کے متعلق
کہتے ہیں کہ یہ دیہات میں رہنے والے صحابی تھے، نبی ﷺ کے ساتھ اس سے پہلے
کوئی نماز پڑھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا، کیا حضرت عبدالله بن مسعودؓ ان
جیسے دوسرے صحابہ سے بڑے عالم ہوسکتے ہیں کہ انہوں (حضرت وائل بن حجرؓ) نے
رفع یدین کا مسئلہ یاد کرلیا ہو اور حضرت عبدالله بن مسعودؓ یاد نہ کرسکے
ہوں؟
ایک
اور روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ابراہیم نخعیؒ کے سامنے حدیث_وائل بن حجر
کا ذکر کیا گیا کہ انہوں نے نبی ﷺ کو رکوع و سجود کے وقت رفع یدین کرتے
دیکھا ہے تو فرمایا کہ وہ (حضرت وائل بن حجرؓ) دیہات کے رہنے والے تھے،
اسلام کے بارے میں مکمل معرفت نہیں رکھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ صرف ایک نماز پڑھ سکے تھے اور مجھے اتنے راویوں نے حضرت عبدالله بن
مسعودؓ کی یہ حدیث پہنچائی ہے کہ میں انھیں شمار نہیں کرسکتا کہ حضرت ابن
مسعودؓ صرف ابتداۓ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے اور نبی ﷺ کی طرف منسوب
کرکے نقل کیا کرتے تھے. حضرت عبدالله بن مسعود اسلام کے شرائع و حدود سے
واقف تھے، نبیﷺ کے احوال کی جستجو میں رہا کرتے تھے، ان کے ساتھ سفر و حضر
میں چمٹے رہا کرتے تھے، اور نبی ﷺ کے ساتھ بیشمار نماز پڑھنے کا شرف رکھتے
تھے.
[مسند
امام اعظم : باب رفع یدین کا بیان-حدیث # ٩٦ ، ابن ابی شیبہ:١/٢٣٦ ، موطا
امام محمّد ، طحاوی:١٣١٨-١٣١٩ ، دارقطنی، ابو یعلی](دعا گو ڈاکٹر فیض احمد
چشتی)
[فتح القدير - كتاب الصلاة - باب صفة الصلاة- الجزء رقم1 ص: 312]
قَالَ
: اجْتَمَعَ أَبُو حَنِيفَةَ وَالْأَوْزَاعِيُّ فِي دَارِ الْحَنَّاطِينَ
بِمَكَّةَ ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِأَبِي حَنِيفَةَ : مَا بَالُكُمْ
لَا تَرْفَعُونَ أَيْدِيَكُمْ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ
الرَّفْعِ مِنْهُ ؟ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ : لِأَجْلِ أَنَّهُ لَمْ
يَصِحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ
شَيْءٌ ، قَالَ : كَيْفَ لَا يَصِحُّ ، وَقَدْ حَدَّثَنِيالزُّهْرِيُّ ،
عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ
الصَّلَاةَ ، وَعِنْدَ الرُّكُوعِ ، وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ ".[مسند أبي
حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 94]
(حضرت
سفیان بن عینیہؒ) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ کے "دار الحناطین" میں
امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ اکٹھے ہوگئے، امام اوزاعیؒ نے امام ابو
حنیفہؒ سے کہا کہ آپ لوگ نماز میں رکوع کرتے ہوۓ، اور رکوع سے سر اٹھاتے
ہوۓ رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ امام صاحب نے فرمایا : اس لئے کہ اس سلسلے
میں رسول الله ﷺ سے کوئی صحیح حدیث موجود نہیں، امام اوزاعیؒ نے فرمایا کہ
یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھے خود امام زہری نے سالم کے واسطے سے، وہ اپنے
ابو (حضرت ابن عمرؓ) کی یہ روایت نقل کی ہے کہ ((رسول الله ﷺ نماز کے شروع
کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے)).
فَقَالَ
لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ : حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ
عَلْقَمَةَ وَالْأَسْوَدِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : " أَنَّ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ
إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ ، وَلَا يَعُودُ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ "
، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ : أُحَدِّثُكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ
سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَتَقُولُ : حَدَّثَنِي حَمَّادٌ ، عَنْ
إِبْرَاهِيمَ ! فَقَالَ لَهُ أَبُو حَنِيفَةَ : كَانَ حَمَّادٌ أَفْقَهَ
مِنَ الزُّهْرِيِّ ، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ أَفْقَهُ مِنْ سَالِمٍ ،
وَعَلْقَمَةُ لَيْسَ بِدُونِ ابْنِ عُمَرَ فِي الْفِقْهِ ، وَإِنْ كَانَتْ
لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَةٌ ، أَوْ لَهُ فَضْلُ صُحْبَةٍ ، فَالْأَسْوَدُ لَهُ
فَضْلٌ كَثِيرٌ ، وَعَبْدُ اللَّهِ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ ، فَسَكَتَ
الْأَوْزَاعِيُّ .[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الصَّلَاةِ ...
رقم الحديث: 95]
امام
صاحب نے فرمایا : اس کے برعکس ہمارے پاس یہ حدیث اس سند سے موجود ہے ہم سے
حدیث بیان کی حماد بن ابراہیمؒ نے، انہوں نے علقمہؒ اور اسودؒ سے، انہوں
نے حضرت (عبداللہ) ابن مسعودؓ سے کہ رسول اللهﷺ نہیں رفع یدین کرتے تھے مگر
ابتداۓ نماز میں، امام اوزاعیؒ یہ سن کر فرمانے لگے کہ میں آپ کو عَنِ
الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ کی (سند سے) حدیث بیان کررہا
ہوں اور آپ حَدَّثَنِي حَمَّادٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ کی (سند سے) حدیث کہتے
ہو، تو امام صاحب نے فرمایا : کہ حماد (آپکی سند کے راوی) زہری سے زیادہ
فقیہ (سمجھ والے) تھے، علقمہ (دینی) فقہ کے معاملہ میں حضرت ابن عمر (رض)
سے کم نہ تھے، اگرچہ ابن_عمر کو صحبت_نبوی حاصل ہے، لیکن اسود کو بہت دوسرے
فضائل حاصل ہیں، اور حضرت عبدالله (بن مسعود رض) تو عبدالله ہیں. یہ سن کر
امام اوزاعیؒ خاموش ہوگئے.(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الصَّلَاةِ، رقم الحديث: 94-95(360)]
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة، ص: 657 ]
[فتح القدير » كتاب الصلاة، مسألة: الجزء الأول، الحاشية رقم: 1 ص: 310 ]
[البحر
الرائق شرح كنز الدقائق » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة » فصل ما يفعله من
أراد الدخول في الصلاة » مسألة: الجزء الأول، ص: 341 ]
[أدب الاختلاف في الإسلام » تاريـخ الاختـلاف وتطـوره، الخلاف في عهد التابعين وآدابه: ]
[المبسوط » كتاب الصلاة » كيفية الدخول في الصلاة، مسألة: الجزء الأول، ص: 15 ]
مسند
ابی حنیفة للحصکفی: حدیث 18 کتاب الصلاة | مسند الإمام الأعظم أبي حنيفة
بروایة الحارثی: 1/484 و 485 و 486 حدیث 778 | المبسوط للسرخسی: 1/14 کیفیة
الدخول فی الصلاة | العنایة شرح الهدایة للبابرتی: 1/310 و 311 باب صفة
الصلاة | البنایة شرح الهدایة للعینی: 2/261 و 262 قول سبحان ربی الاعلی فی
السجود | فتح القدیر لابن الهمام: 1/311 باب صفة الصلاة | مرقاة المفاتیح
شرح مشکاة المصابیح: 2/656 کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة | شرح مسند ابی
حنیفة للقاری الهروی: ص 35 تا 38 اجتماع ابی حنیفة والاوزاعی | شرح سِفْر
السعادة للمحدث عبد الحق الدهلوی: ص 66 | عقود الجواهر المنیفة فی ادلّة
مذهب الامام ابی حنیفة: 1/61 بیان الخبر الدال علی ان رفع الیَدَیْن فی
تکبیرة الافتتاح فقط | مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة للموفق المکی: 1/130 و
131 مناظرة الامام مع الأوزاعی فی مسألة رفع اليَدَيْن سوی تکبیرة
الافتتاح | تخریج احادیث احیاء علوم الدین: 1/353 و 354 في بعض الروايات
أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا كبر أرسل يديه وإذا أراد أن يقرأ وضع
اليمنى على اليسرى | تنسیق النظام فی شرح مسند الامام للعلامة المحدث
السنبلی: ص 155 حدیث 97 مسألة رفع الیدین | منحة الخالق لابن عابدین علی
هامش البحر الرائق: 1/341 | إعلاء السنن للتهانوی: 3/74 و 75 تحت حدیث 826
باب ترک رفع الیدین فی غیر الافتتاح | إعلاء السنن للتهانوی: 19/299 و 300 |
قواعد فی علوم الحدیث للتهانوی العثمانی: 299 و 300 | تنسیق النظام فی
مسند الامام: ص 156 کتاب الصلاة، مسألة رفع الیدین
نماز میں رفع یدین نہ کرنے کی دلیل_مسند ابی حنیفہ پر بودے اعتراضات کے کامل جوابات
علامہ
ابن تیمیہ، فتاوی ابن تیمیہ جلد 22ص 253 پر لکھتے ہیں:ترجمہ: اور مومنین
پر (لازم ہے) کہ اپنے امام کی اتباع کرے، کہ نبی ﷺ نے فرمایا : " امام اس
لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا (پیروی) کی جائے "{صحیح بخاری:جلد
اول:حدیث نمبر 655} اور برابر ہے اگر کسی رفع یدین کیا یا نہ کیا تو اس کی
نماز میں کوئی نقص نہیں ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی امام احمد اور امام
مالک کسی کے یہاں بھی نہیں ۔اسی طرح امام اور مقتدی مین سے کسی ایک نے کیا
تب بھی کوئی نقص نہیں.
الشیخ
عبدالعزیز ابن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب فرماتے ہیں:السنة رفع اليدين
عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد
التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل
سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن
أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات
وهكذا المؤمنة۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم
يرفع صحت صلاته اه
"تکبیر
تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے
تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب
نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور
صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں
اسے اپنانا چاہیے،۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں
ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست
ہے۔(مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نائب
مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ محمد بن صالح العثیمین کا کہنا ہے:وهذا الرفع
سنۃ، إذا فعلہ الإنسان كان أكمل لصلاتہ، وإن لم يفعلہ لا تبطل صلاتہ، لكن
يفوتہ أجر ھذه السنۃ
"رفع
الیدین کرنا سنت ہے، اسے کرنے والا انسان اپنی نماز مکمل ترین صورت میں
ادا کرتا ہے۔ اگر کوئی اسے چھوڑ دے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن وہ
اس سنت کے اجر سے محروم رہ جاتا ہے"۔(مجموع فتاویٰ و رسائل العثمین جلد 13 ص
169)
ترکِ
رفع پر غیر مقلدین کے گھر کی گواہیاں :۔غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے
ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اسکی نماز نہیں ہوی آیے دیکھتے ہیں کہ انکے بڑے
اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں:
کہ
رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم ﷺ
سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔(فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 441)
مولانا
ثناء اللہ امرتسری کہتے ہیں:ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے
جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا.
(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 579)اسی کتاب میں کہتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں.(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 608)
نواب
صدیق حسن خان صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد
وقت تھے ، ان کی کتاب روضۃ الندیۃ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے،
نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں:
۔"رفع
یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ
علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں
بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(روضۃ الندیۃ:
صفحہ 148)"۔
اور
اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں: ولا
یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو
ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے۔
غیر
مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک
رفع یدین کرنا وار نہ کرنا دونوں آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے ثابت
ہیں اور دونوں سنت ہیں، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات
دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے
اور دوسری سنت سے انکار ہے، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اسکو برا
بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی
گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو
اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
دعاء
قنوت میں رفع یدین کرنا :دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی
اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان
نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میںہمارے ساتھ دعاء
قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر
ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس کو دیکھا کہ نماز
فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ ماہِ رمجان میںدعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو
قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میںاپنے ہاتھوں کو اٹھاتے
اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہوکر تکبیر کہتے
اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور
روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل
کو کہا کہ قنوت وتر میںیوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے
قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھاپنے عمر بن عبدالعزیز
نے نماز صبح میںدعاء قنوت کے لیے اپنے دونوںہاتھ اتھائے اور سفیان سے
روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی
تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اوردونوں ہاتھ اٹھاوے
پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میںاپنے
دونوں ہاتھ اٹھاوے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں
نے امام احمدؒ کو اپنے دونوںہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن
علی المقریزیؒ کی کتاب مختصر قیام اللیل میںہے اور حضرت ابو مسعودؓ اور
ابوہریرہؓ اور انسؓ سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں
مارے گئے قنوتِ وتر میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا مروی ہے۔ انسؓ نے کہا کہ
تحقیق میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو قتل کیا تھا
ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایسے ہی بیہقیؒ کی کتاب مسمیٰ
معرفت میں ہے۔حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ (فتاویٰ غزنویہ ص ۵۱) فتاویٰ
علمائے حدیث : جلد 04 ص 283]
Subscribe to:
Posts (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...