صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۴۸
۶۰۴۸۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحٰقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ عَظِيمَ الْجُمَّةِ إِلٰی شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
۶۰۴۸۔ محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گنجان بالوں والے تھے جو کانوں کی لو تک آتے تھے، آپ پر ایک سرخ دھاری دار چادر تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین چیز کبھی نہیں دیکھی۔
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۴۹
۶۰۴۹۔ حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَأَبُو کُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحٰقَ عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرُهٗ يَضْرِبُ مَنْکِبَيْهِ بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ قَالَ أَبُو کُرَيْبٍ لَهٗ شَعَرٌ۔
۶۰۴۹۔ عمرو ناقد، ابوکریب، وکیع، سفیان، ابواسحاق، حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کسی پٹے والے کو سرخ جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال مبارک آپ کے کندھوں تک آرہے تھے آپ کے دونوں کندھوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لمبے قد کے تھے اور نہ ہی چھوٹے قد کے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۵۰
۶۰۵۰۔ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا إِسْحٰقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يُوسُفَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحٰقَ قَالَ سَمِعْتُ االببراءَ يَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا وَأَحْسَنَه خَلْقًا لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الذَّاهِبِ وَلَا بِالْقَصِيرِ۔
Tuesday, 10 February 2015
رسول اکرم نور مجسّم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی ایک ھی سزا اس کی گردن اڑا دو ۔
اس وقت اسلام اور کفر کا مقابلہ بڑی شدت سے جاری ہے۔ اس معرکے کے بہت سے پہلو ہیں۔ آج یہ معرکہ اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ اللہ کے دشمنوں نے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو نشانہ بنا لیا ہے۔ مسلسل گستاخیاں کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے بہت شدید خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اسلام ان کو دنیا میں ابھرتا ہوا اور پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فروغ اسلام کو روکنے میں وہ پوری طرح بے بس ہیں۔ اور شدید پیچ وتاب کھا رہے ہیں تو آج غصہ کہاں نکل رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاکے چھاپ کر اور اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن کے خلاف، اسلام کے خلاف، اور حامل قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف فلمیں بنا رہے ہیں، ان فلموں، خاکوں کی خوب تشہیر ہو رہی ہے۔مقصد کیا ہے ؟ صرف اور صرف اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے دلوں سے بنی کریم ۖ کی محبت اور توقیر کو ختم کرنا لیکن جس کا ذکر میرے رب کعبہ نے بلند کیا ہو اس کو نہ کسی مادی وسائل کو ضرورت ہے نہ کسی کی مدد کی۔ اللہ رب العزت نے قران پاک جو لاریب ( جس میں کوئی شک نہیں ) کتاب میں فرمایا ۔'' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔و پھر کیوں کر کسی کی غلیظ حرکتوں سے میرے نبی کی شان اقدس میں کمی آسکتی ہے۔ی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کا تو غیر مسلم بھی اقرار کرتے تھے۔ رحمة اللعالمین صرف انسانوں کیلئے ہی نہیں حیوانات کیلئے بھی امام الانبیا علیہ السلام رحمت بن کر تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی سے ان کا درجہ کبھی نہیں گھٹتا بلکہ ان کا نام مزید پھیلتا رہا۔ گستاخوں نے فلم تو بنائی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی قونصلیٹ سے ان کا جھنڈا گرا دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا جھنڈا گھاڑ دیا گیا۔ اور اگر ساری دنیا خاموش بھی ہوجائے اور سب بے غیرت بن جائیں تو بھی اللہ تعالی کی یہ آیت کافی ہے۔قران پاک کی آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فریایا ''نا فینا المستہزِئین''
ترجمعہ: آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔ الحجر۔ 95
ایک اور جگہ میرے اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا۔اِن الذِین یوذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فِی الدنیا والاخِر۔ الاحزاب۔ 57
ترجمہ "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہےمطلب یہ کہ وہ لوگ جو اللہ کی گستاخیاں کریں اور اس کے رسول کی گستاخیاں کریں ان کو ایذا (تکلیف) پہنچائیں۔ اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر لعنتیں ہیں دنیا میں بھی وہ لوگ ملعون ہیں اور آخرت میں بھی ملعون ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں ان گستاخیوں کو سیاسی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ کا ایک معرکتہ الآرا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت واقعیت، اس کی شدت اور اس کی حساسیت کا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ رسمی سی قرار دادیں پیش کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کا حساب دنیا اور آخرت میں دینا پڑے گا۔ اللہ کے دشمن کس شدت سے اس مسئلے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہماری قراردادوں کا ان پر کوئی اثر نہیں، ہماری اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں میں ان گستاخوں کے متعلق کیا کہا جا رہا ہے، ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان باتوں کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دے رہے۔ آج مغرب اس بات پر مطمئن ہے کہ آج مسلمانوں کے رسول کی شان میں جتنی چاہیں گستاخیاں کر لیں، یہ محض قرار دادیں پاس کریں گے، جلوس نکالیں گے اور سڑکوں پر نکل کر اپنا غصہ ختم کر لیں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا، وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔اے ایمان کے دعویدار مسلمانو!ایسے ملعونوں سے تمھیں نمٹنا ہے تاکہ تم محبت رسول کے سلسلے میں رب کے حضور سرخرو ہو سکو۔ ورنہ جہاں وہ اپنے برے انجام سے دوچار ہوں گے مسلمانو! تم بھی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر مجرم ٹھہرو گے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کو پیش کر کے اس سے یہ نتیجہ نقل فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول کی گستاخی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس پر سب وشتم کرے تو ایسا شخص ملعون ہے۔ اللہ کا قرآن کبھی کسی مسلمان شخص کو ملعون نہیں کہہ سکتا، ایسا ہر شخص جو گستاخی کرے اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ بالاتفاق امت مسلمہ کے نزدیک یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، اس کا حکم (مرتد) کا ہے۔ ایسے فعل کا مرتکب ایک ہو یا پوری جماعت۔ ان کی سزا صرف ایک ہے کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے یہ فریضہ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے ہمیں سمجھ آئے گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ گستاخوں کی سزائیں، عہد رسول اللہ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں کیا تھیں؟ انھوں نے اس مسئلہ پر امت مسلمہ کے لئے کیا اسوہ حسنہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا، آپ کی ذات کو گالی بکنے والا خواہ مسلمان ہو یا کافر، تمام آئمہ، مجتہدین اور فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق واجب القتل ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوائے تب بھی قتل واجب ہے یہ مسئلہ ایسا حساس ہے کہ کوئی کافر بھی گستاخی کرے گا تو سزا قتل ہے۔سیدنا علی سے روایت ہے ایک یہودی عورت نبی کریمۖ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ کے بارے میں نا زیبا الفاظ بولتی تھی، تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئی، تو رسول اللہ نے اس کا خون ضائع قرار دیا۔ ابوداود، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب النبی ۖ :۔ اخرجہ البیہقی:۔ علامہ ناصر الدین البانی کہتے ہیں: اسنادہ حسن علی شرط الشیخین۔ ارواالغلیل:۔ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہے، شاتم رسول کے قاتل پر نہ کوئی قصاص ہے اور نہ ہی دیت۔ اس قانون میں مسلم و غیر مسلم سب برابر ہیں، یعنی جو بھی گستاخی کرے گا اس سے معافی کا مطالبہ کیے بغیر قتل کی سزا دی جائے گی، جرم ثابت ہونے پر حدود اللہ میں بالخصوص حرمت رسول کے مسئلہ میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ جو کوئی گستاخ توبہ کر لے تو اس کی توبہ کا فائدہ اس کو آخرت میں ضرور ہوگا، لیکن دنیا میں اس کو سزا دی جائے گی۔ اس قانون کا نفاذ حکومت کرے گی تو امن و امان قائم رہے گا اور گستاخی کا دروازہ بند رہے گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو بد امنی پیدا ہوگی اور غیرت ایمانی کی وجہ سے لوگ گستاخوں کو قتل کریں گے، قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے جس سے حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا ہوں گی ۔
ترجمعہ: آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔ الحجر۔ 95
ایک اور جگہ میرے اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا۔اِن الذِین یوذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فِی الدنیا والاخِر۔ الاحزاب۔ 57
ترجمہ "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہےمطلب یہ کہ وہ لوگ جو اللہ کی گستاخیاں کریں اور اس کے رسول کی گستاخیاں کریں ان کو ایذا (تکلیف) پہنچائیں۔ اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر لعنتیں ہیں دنیا میں بھی وہ لوگ ملعون ہیں اور آخرت میں بھی ملعون ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں ان گستاخیوں کو سیاسی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ کا ایک معرکتہ الآرا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت واقعیت، اس کی شدت اور اس کی حساسیت کا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ رسمی سی قرار دادیں پیش کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کا حساب دنیا اور آخرت میں دینا پڑے گا۔ اللہ کے دشمن کس شدت سے اس مسئلے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہماری قراردادوں کا ان پر کوئی اثر نہیں، ہماری اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں میں ان گستاخوں کے متعلق کیا کہا جا رہا ہے، ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان باتوں کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دے رہے۔ آج مغرب اس بات پر مطمئن ہے کہ آج مسلمانوں کے رسول کی شان میں جتنی چاہیں گستاخیاں کر لیں، یہ محض قرار دادیں پاس کریں گے، جلوس نکالیں گے اور سڑکوں پر نکل کر اپنا غصہ ختم کر لیں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا، وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔اے ایمان کے دعویدار مسلمانو!ایسے ملعونوں سے تمھیں نمٹنا ہے تاکہ تم محبت رسول کے سلسلے میں رب کے حضور سرخرو ہو سکو۔ ورنہ جہاں وہ اپنے برے انجام سے دوچار ہوں گے مسلمانو! تم بھی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر مجرم ٹھہرو گے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کو پیش کر کے اس سے یہ نتیجہ نقل فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول کی گستاخی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس پر سب وشتم کرے تو ایسا شخص ملعون ہے۔ اللہ کا قرآن کبھی کسی مسلمان شخص کو ملعون نہیں کہہ سکتا، ایسا ہر شخص جو گستاخی کرے اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ بالاتفاق امت مسلمہ کے نزدیک یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، اس کا حکم (مرتد) کا ہے۔ ایسے فعل کا مرتکب ایک ہو یا پوری جماعت۔ ان کی سزا صرف ایک ہے کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے یہ فریضہ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے ہمیں سمجھ آئے گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ گستاخوں کی سزائیں، عہد رسول اللہ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں کیا تھیں؟ انھوں نے اس مسئلہ پر امت مسلمہ کے لئے کیا اسوہ حسنہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا، آپ کی ذات کو گالی بکنے والا خواہ مسلمان ہو یا کافر، تمام آئمہ، مجتہدین اور فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق واجب القتل ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوائے تب بھی قتل واجب ہے یہ مسئلہ ایسا حساس ہے کہ کوئی کافر بھی گستاخی کرے گا تو سزا قتل ہے۔سیدنا علی سے روایت ہے ایک یہودی عورت نبی کریمۖ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ کے بارے میں نا زیبا الفاظ بولتی تھی، تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئی، تو رسول اللہ نے اس کا خون ضائع قرار دیا۔ ابوداود، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب النبی ۖ :۔ اخرجہ البیہقی:۔ علامہ ناصر الدین البانی کہتے ہیں: اسنادہ حسن علی شرط الشیخین۔ ارواالغلیل:۔ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہے، شاتم رسول کے قاتل پر نہ کوئی قصاص ہے اور نہ ہی دیت۔ اس قانون میں مسلم و غیر مسلم سب برابر ہیں، یعنی جو بھی گستاخی کرے گا اس سے معافی کا مطالبہ کیے بغیر قتل کی سزا دی جائے گی، جرم ثابت ہونے پر حدود اللہ میں بالخصوص حرمت رسول کے مسئلہ میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ جو کوئی گستاخ توبہ کر لے تو اس کی توبہ کا فائدہ اس کو آخرت میں ضرور ہوگا، لیکن دنیا میں اس کو سزا دی جائے گی۔ اس قانون کا نفاذ حکومت کرے گی تو امن و امان قائم رہے گا اور گستاخی کا دروازہ بند رہے گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو بد امنی پیدا ہوگی اور غیرت ایمانی کی وجہ سے لوگ گستاخوں کو قتل کریں گے، قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے جس سے حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا ہوں گی ۔
گستاخ رسول ﷺ کی سزا اور احناف پر اعتراضات کا منہ توڑ جواب ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل تجدد پسند دانشوروں کی طرف سے شاتم رسول کے مسئلہ پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفی فقہا کے اقوال کا بہ کثرت تذکرہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اجماعِ اُمت تو کجا،
قرآنی آیت واحادیثِ مبارکہ کو بھی کوئی وزن دینے کو تیار نہیں ۔اس کے باوجود میڈیا پر ان کے مسلسل بیانات کے دفاع میں ہم نے فقہاے کرام کے اس حوالے سے اہم اقوال کو جمع کردیا ہے۔حب ِنبوی ﷺ اور اتباعِ سنت کے حوالے سے کی جانے والی یہ کاوش آپ کی نطر ہے
عصر حاضر میں اُٹھنے والے فتنوں میں سے سب سے عظیم فتنہ جو دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہ شعائر اللہ کی توہین ہے اور رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس پر رکیک حملے کیے جارہے ہیں، یہود و نصاریٰ نت نئے طریقوں سے اُمت ِمسلمہ کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سعی میں مصروف ہیں،
نوبت بایں جارسید کہ اسلام کی دعویدار حکومتوں کی ریاست میں سرعام رسول اللہ ﷺ کی حرمت و ناموس کے حوالے سے عوام کے اَذہان و قلوب کو منتشر کیا جارہا ہے، انگریز کے زرِ خرید
غلام مسلمانوں کو محبت ِمصطفیٰ ﷺ سے تہی دامن کرنا چاہتے ہیں۔
فتنہ و فساد کی اس شورش میں یہود و ہنود کے کچھ گماشتے ملک پاکستان کی بنیادوں میں لادینیت اور سیکولر ازم کا زہر گھولنا چاہتے ہیں، کوئی کہتا ہے: قائداعظم سیکولر تھے، تو کوئی یہ راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے لئے نہیں بنا۔ انہی حالات میں جب آسیہ ملعونہ نے نبی کریم ﷺ کی عزت و ناموس پرحملہ کیا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی تو ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا۔ قانون ناموس رسالت کو ختم کروانے کے لئے انگریز کے وفادار نام نہاد مسلمان میدان عمل میں آگئے۔
اسی طرح ایک نام نہاد سکالر جاوید غامدی نے یہ شوشہ پھیلانے کی کوشش کی کہ فقہائے احناف کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں، لہٰذا 295سی، کو ختم کردیا جائے، اس شخص کا مقصد اُمتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کی فضا پیدا کرنا ہے۔اُمت ِمسلمہ کو ایسے اشخاص کے گھناؤنے کردار سے خبردار رہنا چاہئے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے احناف کے جلیل القدر علما کی آرا ملاحظہ فرمائیے:
امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل…. وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه) فتح القدیر: 5 /332(
’’ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمہ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔‘‘
علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ
کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما…. لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه…. وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب) الاشباه والنظائر: 158،159(
’’ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ یا شیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
امام ابن بزار علیہ الرحمہ
إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة) رسائل ابن عابدین: 2/327(
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق عبد کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔‘‘
علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ
الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر) درمختار: 6 /356(
”کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔”
علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ
واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما) روح البیان: 3 /394(
”تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔‘‘
علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ
ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل) احکام القرآن: 3 /112(
’’تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔‘‘
ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کاعہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔
امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
ابن تیمیہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی) الصارم المسلول:ص 260(
’’اگر کوئی ذمی نبی کریمﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔‘‘
امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
’’میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔‘‘) فتح القدیر: 5 /303(
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ
فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم) رد المحتار: 6 /331(
’’جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔‘‘
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ ،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابی کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا: لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله ’’
میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔‘ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں:إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم ) الصارم المسلول:ص24(
’’بے شک حضور نبی کریم ﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف قتل کیا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی محبت عطا فرمائے، او رقرآن و سنت کے مطابق ہمیں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کل تجدد پسند دانشوروں کی طرف سے شاتم رسول کے مسئلہ پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حنفی فقہا کے اقوال کا بہ کثرت تذکرہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ کرنے والے لوگ وہ ہیں جو اجماعِ اُمت تو کجا،
قرآنی آیت واحادیثِ مبارکہ کو بھی کوئی وزن دینے کو تیار نہیں ۔اس کے باوجود میڈیا پر ان کے مسلسل بیانات کے دفاع میں ہم نے فقہاے کرام کے اس حوالے سے اہم اقوال کو جمع کردیا ہے۔حب ِنبوی ﷺ اور اتباعِ سنت کے حوالے سے کی جانے والی یہ کاوش آپ کی نطر ہے
عصر حاضر میں اُٹھنے والے فتنوں میں سے سب سے عظیم فتنہ جو دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہ شعائر اللہ کی توہین ہے اور رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس پر رکیک حملے کیے جارہے ہیں، یہود و نصاریٰ نت نئے طریقوں سے اُمت ِمسلمہ کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سعی میں مصروف ہیں،
نوبت بایں جارسید کہ اسلام کی دعویدار حکومتوں کی ریاست میں سرعام رسول اللہ ﷺ کی حرمت و ناموس کے حوالے سے عوام کے اَذہان و قلوب کو منتشر کیا جارہا ہے، انگریز کے زرِ خرید
غلام مسلمانوں کو محبت ِمصطفیٰ ﷺ سے تہی دامن کرنا چاہتے ہیں۔
فتنہ و فساد کی اس شورش میں یہود و ہنود کے کچھ گماشتے ملک پاکستان کی بنیادوں میں لادینیت اور سیکولر ازم کا زہر گھولنا چاہتے ہیں، کوئی کہتا ہے: قائداعظم سیکولر تھے، تو کوئی یہ راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے لئے نہیں بنا۔ انہی حالات میں جب آسیہ ملعونہ نے نبی کریم ﷺ کی عزت و ناموس پرحملہ کیا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنادی تو ایک طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا۔ قانون ناموس رسالت کو ختم کروانے کے لئے انگریز کے وفادار نام نہاد مسلمان میدان عمل میں آگئے۔
اسی طرح ایک نام نہاد سکالر جاوید غامدی نے یہ شوشہ پھیلانے کی کوشش کی کہ فقہائے احناف کے نزدیک گستاخِ رسول کی سزا موت نہیں، لہٰذا 295سی، کو ختم کردیا جائے، اس شخص کا مقصد اُمتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کی فضا پیدا کرنا ہے۔اُمت ِمسلمہ کو ایسے اشخاص کے گھناؤنے کردار سے خبردار رہنا چاہئے۔ گستاخِ رسول کی سزا کے حوالے سے احناف کے جلیل القدر علما کی آرا ملاحظہ فرمائیے:
امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
کل من أبغض رسول الله ﷺ بقلبه کان مرتدًا فالساب بطریق أولى ثم یقتل حدًا عندنا فلا تقبل توبته في إسقاط القتل…. وإن سبّ سکران ولا یعفی عنه) فتح القدیر: 5 /332(
’’ہر وہ شخص جو دل میں رسول ﷺ سے بغض رکھے، وہ مرتد ہے اور آپ کو سب و شتم کرنے والا تو بدرجہ اولیٰ مرتد ہے اسےقتل کیا جائے گا۔ قتل کے ساقط کرنے میں اسکی توبہ قبول نہیں۔ اگرچہ حالت ِنشہ میں کلمہ گستاخی بکا ہو ، جب بھی معافی نہیں دی جائے گی۔‘‘
علامہ زین الدین ابن نجیم علیہ الرحمہ
کل کافر فتوبته مقبولة في الدنیا والآخرة إلا جماعة الکافر بسب النبي وبسبّ الشیخین أو إحداهما…. لا تصح الردة السکران إلا الردة بسب النبي ولا یعفی عنه…. وإذا مات أو قتل لم یدفن في مقابر المسلمین، ولا أهل ملته وإنما یلقی في حفیرة کالکلب) الاشباه والنظائر: 158،159(
’’ہر قسم کے کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے، مگر ایسے کفار جنہوں نے حضورﷺ یا شیخین میں سے کسی کو گالی دی تو اُس کی توبہ قبول نہیں۔ ایسے ہی نشہ کی حالت میں ارتداد کو صحیح نہ مانا جائے گا مگر حضورﷺ کی اہانت حالتِ نشہ میں بھی کی جائے تو اُسے معافی نہیں دی جائے گی۔ جب وہ شخص مرجائے تو اسے مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں، نہ ہی اہل ملت (یہودی نصرانی) کے گورستان میں بلکہ اسے کتے کی طرح کسی گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
امام ابن بزار علیہ الرحمہ
إذا سبّ الرسول ﷺ أو واحد من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حد واجب فلا یسقط بالتوبة ولا یتصور فیه خلاف لأحد لأنه حق تتعلق به حق العبد فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین وکحد القذف لا یزول بالتوبة) رسائل ابن عابدین: 2/327(
’’جو شخص رسول اللہ ﷺ کی اہانت کرے یا انبیا میں سے کسی نبی کی گستاخی کرے تو اسےبطورِ حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کا کوئی اعتبار نہیں، خواہ وہ تائب ہوکر آئے یا گرفتار ہونے کے بعد تائب ہو اور اس پر شہادت مل جائے تو وہ زندیق کی طرح ہے۔اس لیے کہ اس پر حد واجب ہے اور وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ یہ ایسا حق ہے جو حق عبد کےساتھ متعلق ہے، جو بقیہ حقوق کی طرح توبہ سے ساقط نہیں ہوتا جیسے حد ِقذف بھی توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔‘‘
علامہ علاء الدین حصکفی علیہ الرحمہ
الکافر بسبّ النبي من الأنبیاء لا تقبل توبته مطلقًا ومن شكّ في عذابه و کفره کفر) درمختار: 6 /356(
”کسی نبی کی اہانت کرنے والا شخص ایسا کافر ہے جسے مطلقاً کوئی معافی نہیں دی جائے گی، جو اس کے کفر و عذاب میں شک کرے، وہ خود کافر ہے۔”
علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ
واعلم انه قد اجتمعت الأمة علی أن الاستخفاف بنبینا وبأي نبي کان من الأنبیاء کفر، سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك، والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لا یعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما) روح البیان: 3 /394(
”تمام علماے اُمت کااجماع ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ ہوں یا کوئی اور نبی علیہ السلام ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر کرے یا حرام سمجھ کر، قصداً گستاخی کرے یا بلا قصد، ہر طرح اس پر کفر کافتویٰ ہے۔ شانِ نبوت کی گستاخی میں لا علمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا، حتیٰ کہ سبقت ِلسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ عقل سلیم کو ایسی غلطی سے بچنا ضروری ہے۔‘‘
علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی علیہ الرحمہ
ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي ﷺ بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل) احکام القرآن: 3 /112(
’’تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم ﷺ کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد مستحق قتل ہے۔‘‘
ذمی شاتم رسول کا حکم
جو شخص کافر ہو اور اسلامی سلطنت میں رہتا ہوں، ٹیکس کی ادائیگی کے بعد اسے حکومت تحفظ فراہم کرتی ہے، مگر جب وہ اہانت ِرسول کا مرتکب ہو تو اس کاعہد ختم ہوجاتا ہے اور اس کی سزا بھی قتل ہے۔
امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ
ابن تیمیہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فإن الذمي إذا سبه لا یستتاب بلا تردد فإنه یقتل لکفره الأصلي کما یقتل الأسیر الحربی) الصارم المسلول:ص 260(
’’اگر کوئی ذمی نبی کریمﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر قتل کردیں گے کیونکہ اسے اس کے کفر اصلی کی سبب قتل کیا جائے گا جیسے حربی کافر کو قتل کیا جاتا ہے۔‘‘
امام محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ
’’میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضورﷺ کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی، اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسے اللہ تعالی کی طرف اولاد کی نسبت یہ یہود و نصاریٰ کا عقیدہ ہے، جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔‘‘) فتح القدیر: 5 /303(
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ
فلو أعلن بشتمه أو إعتاده قُتل ولو امرأة وبه یفتٰی الیوم) رد المحتار: 6 /331(
’’جب ذمی علانیہ حضورﷺ کی اہانت کا مرتکب ہو تو اسے قتل کیا جائے گا، اگرچہ عورت ہی ہو او راسی پر فتویٰ ہے۔‘‘
حرفِ آخر
قاضی عیاض مالکی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ ،دونوں نے امام ابوسلیمان خطابی کا موقف نقل کرتے ہوئے لکھا: لا أعلم أحدا من المسلمین اختلف في وجوب قتله ’’
میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں سے کسی نے شاتم رسول کے قتل میں اختلاف کیا ہو۔‘ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں:إن الساب إن کان مسلما فإنه یکفرویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم ) الصارم المسلول:ص24(
’’بے شک حضور نبی کریم ﷺ کو سب و شتم کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کہلاتا ہو، وہ کافر ہوجائے گا۔ ائمہ اربعہ اور دیگر کے نزدیک اِسےبلا اختلاف قتل کیا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی محبت عطا فرمائے، او رقرآن و سنت کے مطابق ہمیں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
احناف کی نماز احادیث کی روشنی میں 4 حصّے مکمّل
احناف کی نماز احادیث کی روشنی میں 4 حصّے مکمّل
1 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624286594466899
2 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624286281133597
3 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624288561133369
4 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624291274466431
1 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624286594466899
2 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624286281133597
3 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624288561133369
4 . https://www.facebook.com/Islam.kap.3192/posts/1624291274466431
Wednesday, 4 February 2015
اسلام میں پردے کا تصوّر ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعثت نبوی سے قبل پوری دنیا فتنہ و فساد میں گرفتار تھی۔ بے حیائی وبے پردگی ، عریانیت و فحاشی عام تھی۔ عورتیں صرف نفسانی خواہشات کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ لڑکیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں۔ صنف نازک کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ظہور اسلام نے زمانہ جاہلیت کے تمام تر غیر فطری و غیر انسانی رسم و رواج کو یکسر بدل کر ایک مہذب اور پاکیزہ معاشرہ عطا کیا اور سماج سے تمام تر برائیوں کا قلع قمع کردیا۔ اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے جس نے عورتوں کے حالات میں بہتری لائی۔ اور سوسائٹی میں عزت و عظمت ،تہذیب و تمدن ، عدل و مساوات کا درجہ دے کر ایک پاکیزہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ انہیں عصمت و عفت اور شرم و حیاء کے زیور سے آراستہ کرکے علم و عمل کا پیکر بنایا۔
پیغمبر اسلام نے معاشرے میں پر امن قیام کے لئے جوپہلی تدبیر اختیار کی وہ یہ ہے کہ انسانی جذبات کو ہمہ قسم کے ہیجان و میلان سے بچاتے ہوئے مردوزن میں پائے جانے والی فطری و غیر فطری کشش و میلان کی ضابطہ بندی۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو چیز قابل انتفاع ہوتی ہے۔ اسے پردے میں رکھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر اسے بے پردہ چھوڑ دیا جائے تو بہت سی برائیاں جنم لے لیتی ہیں۔ جب آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں تو انصاف سے بتائیے کہ اگر ایک حسین و جمیل جوان خاتون اپنے حسن اور زیبائش کے ساتھ بے حجاب لوگوں کے سامنے آئے گی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرے گی تو ہوس پرست لوگوں کی بد نظری کا شکار ہوگی یا نہیں۔اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت ۳۱میں فرماتا ہے : میرے حبیب مسلمان مردوں کو حکم دو کے اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ کو انکے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت اور اپنا بناؤ سنگھار(غیروں)کو نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اسی طرح سورہ احزاب آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوتا ہے: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر کا حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں۔ مذکورہ آیات میں مردوں کو اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے سے روکا گیا اور اعلان عام فرمایا گیا کہ اپنی زیب و زینت بناؤ سنگھارہرگز ہرگز غیرمردوں پر ظاہر نہ کریں کیونکہ یہ فتنے کا موجب ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کی زوجہ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ وہ اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت میمو نہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس سے پردے میں چلی جاؤ میں نے عرض کیا کہ یارسوللہ ﷺ کیا یہ نابینا نہیں ہے
،تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث 2778)یہ حدیث پاک مسلم خواتین کے لئے باعث عبرت ہے کہ حضور ﷺ نے نابینا شخص سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر زمانے کی عورتوں میں زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کرنا بننا سنورنا پایا جاتا ہے اور ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت خوبصورت نظر آئے ۔ اسلام نے عورتوں کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی البتہ زیب و زینت کے اظہار کی خواہش کی حد بندی ضرور کی ہے۔ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردے کا پابند بنایا تاکہ وہ با حیا ء، پارسا اور صالحہ بنیں۔ اور غیر محرموں اور حوس پرست لوگوں کی بد نگاہی سے بچیں۔ اور اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں۔ مسلم خواتین بھی بناؤ سنگھار کرتی ہیں، ان کا بننا سنورنا ، زیب و زینت سے آراستہ ہونا صرف اور صرف ان کے اپنے شوہروں کے لئے ہونا چاہئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ نے فرمایاکہ اپنی زیبائش صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں ، عورتوں کے ان محارم کا ذکر کیا ہے جن پر زیبائش کو ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اس زیب وزینت سے مراد زیورات وغیرہ ہے ۔ رہے عورتوں کے بال تو ان کو ان کے شوہروں کے سوا اور کسی کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں۔ عہد حاضر میں مسلم عورتیں عریاں لباس زیب تن کر کے بن ٹھن کر بازاروں میں اورشادی بیاہ کی محفلوں اور گلی کوچوں میں پھرا کرتی ہیں اور اپنے حسن کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورتیں عطر(پھیلنے والی خوشبو) لگا کر کسی محفل سے گزرتی ہیں تو وہ ایسی ایسی ہیں جیسے زانیہ۔ مغربی دنیا میں عورتوں کی بے پردگی اور آزادنہ مردو زن کے اختلاط نے جن منفی نتائج کو جنم دیا ہے وہ کسی انصاف پسند شخص سے پوشیدہ نہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو اسلامی قانون کے مطابق عورتوں کو پردے میں رہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پردہ اسلام میں ضروری نہیں کیونکہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے ، عورتیں بیمار ہوجاتی ہیں ، انہیں صاف شفاف تازہ ہوا نہیں ملتی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ ہے جو حقائق سے بعید ہے۔ پردے کے اسلامی احکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ روی ، عریانیت، فحاشی، بے حیائی ، شہوانی فتنہ انگیزی سے بچانا ہے۔ اور مسلم خواتین کو پردے میں رہ کرگھریلو معالات میں دلچسپی رکھنے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت دے کر ان کے اخلاق و کردار سنوارنے کی تلقین کرتا ہے اور آزادانہ جاہلی زمانے کی عورتوں کی طرح گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے سے روک کر گھر کی ملکہ بنے رہنے کو ترجیح دیتا ہے تاکہ ان کی عزت و آبروکی حفاظت ہو سکے اورہوس پرست لوگوں کی فتنہ انگیزی سے محفوظ رہ سکیں۔مسلم ماں اور بہنیں خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرہ کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔ سیدہ فاطمہ کے اندر یہ وصف جمیل خاص طورپر تھا کہ آپ پردے کی سخت پابند اور شرم و حیاء کا مجسمہ تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ غیر مرد ان کو دیکھے۔ آپ کی شرم و حیاء کا لحاظ خداوند قدوس کو بھی ہے ۔چنانچہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا پردے سے ندا کرے گا اے حشر کے میدان میں جما ہونے والو! اپنی نگاہیں نیچی کرلو یہاں تک کہ فاطمہ بنت محمد ﷺ ستر ہزار حوروں کے ساتھ بجلی کی طرح گزر جائیں گی۔ میری ماں اور بہنوں ہم میں بے شمار سماجی و اخلاقی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں ، بے حجابی اور بے حیائی کو فیشن تصور کیا جانے لگا ہے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے اخلاقی اقدار پامال ہورہے ہیں۔موبائیل و انٹرنیٹ کا غلط استعمال نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جنسی بے راہ روی کا شکار بنا رہا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں انگریزی تعلیم سے مثبت نتائج کے بجائے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلم بچیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور اپنا دین و ایمان ہوس پرستی کے ہاتھوں فروخت کرکے مرتد ہورہی ہیں (العیاذ باللہ)اور ارتداد کا تناسب دن بدن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ والدین اپنے بچے اور بچیوں کی تربیت اسلامی انداز سے نہیں کرتے اور ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اگر ماں باپ اپنی اولاد کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں تو معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اگر معاشرے کے اچھے لوگ ،اصلاح و فلاح کے لئے سامنے آجائیں تو یقین ہے کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے پاک ہوجائے گا ، بگڑا ہوا ماحول سدھرجائے گا اور غلط روی اور بد عملی کا سد باب ہوجائے گا، مسلمانوں میں دینی حمیت پیدا ہوجائے گی ۔ اسلامی شعور بیدار ہوجائے گا ، اور خدا کے بندے احکام خدا وندی کے پابندہوجائیں گے۔ نیکوں کی صحبت اختیار کریں گے۔ صالحین کی وضع قطع اپنائیں گے اور اپنی شکل و صورت اسلامی بنائیں گے۔ اسلامی لباس پہنییں گے اور اپنی پاکیزہ شناخت باقی رکھیں گے ، اور رحمت الہٰی کے مستحق بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب و کامراں فرمائے۔
بعثت نبوی سے قبل پوری دنیا فتنہ و فساد میں گرفتار تھی۔ بے حیائی وبے پردگی ، عریانیت و فحاشی عام تھی۔ عورتیں صرف نفسانی خواہشات کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ لڑکیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں۔ صنف نازک کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ظہور اسلام نے زمانہ جاہلیت کے تمام تر غیر فطری و غیر انسانی رسم و رواج کو یکسر بدل کر ایک مہذب اور پاکیزہ معاشرہ عطا کیا اور سماج سے تمام تر برائیوں کا قلع قمع کردیا۔ اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے جس نے عورتوں کے حالات میں بہتری لائی۔ اور سوسائٹی میں عزت و عظمت ،تہذیب و تمدن ، عدل و مساوات کا درجہ دے کر ایک پاکیزہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ انہیں عصمت و عفت اور شرم و حیاء کے زیور سے آراستہ کرکے علم و عمل کا پیکر بنایا۔
پیغمبر اسلام نے معاشرے میں پر امن قیام کے لئے جوپہلی تدبیر اختیار کی وہ یہ ہے کہ انسانی جذبات کو ہمہ قسم کے ہیجان و میلان سے بچاتے ہوئے مردوزن میں پائے جانے والی فطری و غیر فطری کشش و میلان کی ضابطہ بندی۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو چیز قابل انتفاع ہوتی ہے۔ اسے پردے میں رکھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر اسے بے پردہ چھوڑ دیا جائے تو بہت سی برائیاں جنم لے لیتی ہیں۔ جب آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں تو انصاف سے بتائیے کہ اگر ایک حسین و جمیل جوان خاتون اپنے حسن اور زیبائش کے ساتھ بے حجاب لوگوں کے سامنے آئے گی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرے گی تو ہوس پرست لوگوں کی بد نظری کا شکار ہوگی یا نہیں۔اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت ۳۱میں فرماتا ہے : میرے حبیب مسلمان مردوں کو حکم دو کے اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ کو انکے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت اور اپنا بناؤ سنگھار(غیروں)کو نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اسی طرح سورہ احزاب آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوتا ہے: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر کا حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں۔ مذکورہ آیات میں مردوں کو اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے سے روکا گیا اور اعلان عام فرمایا گیا کہ اپنی زیب و زینت بناؤ سنگھارہرگز ہرگز غیرمردوں پر ظاہر نہ کریں کیونکہ یہ فتنے کا موجب ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کی زوجہ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ وہ اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت میمو نہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس سے پردے میں چلی جاؤ میں نے عرض کیا کہ یارسوللہ ﷺ کیا یہ نابینا نہیں ہے
،تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث 2778)یہ حدیث پاک مسلم خواتین کے لئے باعث عبرت ہے کہ حضور ﷺ نے نابینا شخص سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر زمانے کی عورتوں میں زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کرنا بننا سنورنا پایا جاتا ہے اور ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت خوبصورت نظر آئے ۔ اسلام نے عورتوں کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی البتہ زیب و زینت کے اظہار کی خواہش کی حد بندی ضرور کی ہے۔ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردے کا پابند بنایا تاکہ وہ با حیا ء، پارسا اور صالحہ بنیں۔ اور غیر محرموں اور حوس پرست لوگوں کی بد نگاہی سے بچیں۔ اور اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں۔ مسلم خواتین بھی بناؤ سنگھار کرتی ہیں، ان کا بننا سنورنا ، زیب و زینت سے آراستہ ہونا صرف اور صرف ان کے اپنے شوہروں کے لئے ہونا چاہئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ نے فرمایاکہ اپنی زیبائش صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں ، عورتوں کے ان محارم کا ذکر کیا ہے جن پر زیبائش کو ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اس زیب وزینت سے مراد زیورات وغیرہ ہے ۔ رہے عورتوں کے بال تو ان کو ان کے شوہروں کے سوا اور کسی کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں۔ عہد حاضر میں مسلم عورتیں عریاں لباس زیب تن کر کے بن ٹھن کر بازاروں میں اورشادی بیاہ کی محفلوں اور گلی کوچوں میں پھرا کرتی ہیں اور اپنے حسن کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورتیں عطر(پھیلنے والی خوشبو) لگا کر کسی محفل سے گزرتی ہیں تو وہ ایسی ایسی ہیں جیسے زانیہ۔ مغربی دنیا میں عورتوں کی بے پردگی اور آزادنہ مردو زن کے اختلاط نے جن منفی نتائج کو جنم دیا ہے وہ کسی انصاف پسند شخص سے پوشیدہ نہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو اسلامی قانون کے مطابق عورتوں کو پردے میں رہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پردہ اسلام میں ضروری نہیں کیونکہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے ، عورتیں بیمار ہوجاتی ہیں ، انہیں صاف شفاف تازہ ہوا نہیں ملتی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ ہے جو حقائق سے بعید ہے۔ پردے کے اسلامی احکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ روی ، عریانیت، فحاشی، بے حیائی ، شہوانی فتنہ انگیزی سے بچانا ہے۔ اور مسلم خواتین کو پردے میں رہ کرگھریلو معالات میں دلچسپی رکھنے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت دے کر ان کے اخلاق و کردار سنوارنے کی تلقین کرتا ہے اور آزادانہ جاہلی زمانے کی عورتوں کی طرح گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے سے روک کر گھر کی ملکہ بنے رہنے کو ترجیح دیتا ہے تاکہ ان کی عزت و آبروکی حفاظت ہو سکے اورہوس پرست لوگوں کی فتنہ انگیزی سے محفوظ رہ سکیں۔مسلم ماں اور بہنیں خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرہ کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔ سیدہ فاطمہ کے اندر یہ وصف جمیل خاص طورپر تھا کہ آپ پردے کی سخت پابند اور شرم و حیاء کا مجسمہ تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ غیر مرد ان کو دیکھے۔ آپ کی شرم و حیاء کا لحاظ خداوند قدوس کو بھی ہے ۔چنانچہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا پردے سے ندا کرے گا اے حشر کے میدان میں جما ہونے والو! اپنی نگاہیں نیچی کرلو یہاں تک کہ فاطمہ بنت محمد ﷺ ستر ہزار حوروں کے ساتھ بجلی کی طرح گزر جائیں گی۔ میری ماں اور بہنوں ہم میں بے شمار سماجی و اخلاقی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں ، بے حجابی اور بے حیائی کو فیشن تصور کیا جانے لگا ہے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے اخلاقی اقدار پامال ہورہے ہیں۔موبائیل و انٹرنیٹ کا غلط استعمال نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جنسی بے راہ روی کا شکار بنا رہا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں انگریزی تعلیم سے مثبت نتائج کے بجائے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلم بچیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور اپنا دین و ایمان ہوس پرستی کے ہاتھوں فروخت کرکے مرتد ہورہی ہیں (العیاذ باللہ)اور ارتداد کا تناسب دن بدن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ والدین اپنے بچے اور بچیوں کی تربیت اسلامی انداز سے نہیں کرتے اور ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اگر ماں باپ اپنی اولاد کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں تو معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اگر معاشرے کے اچھے لوگ ،اصلاح و فلاح کے لئے سامنے آجائیں تو یقین ہے کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے پاک ہوجائے گا ، بگڑا ہوا ماحول سدھرجائے گا اور غلط روی اور بد عملی کا سد باب ہوجائے گا، مسلمانوں میں دینی حمیت پیدا ہوجائے گی ۔ اسلامی شعور بیدار ہوجائے گا ، اور خدا کے بندے احکام خدا وندی کے پابندہوجائیں گے۔ نیکوں کی صحبت اختیار کریں گے۔ صالحین کی وضع قطع اپنائیں گے اور اپنی شکل و صورت اسلامی بنائیں گے۔ اسلامی لباس پہنییں گے اور اپنی پاکیزہ شناخت باقی رکھیں گے ، اور رحمت الہٰی کے مستحق بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب و کامراں فرمائے۔
اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات روشنی میں خواتین کے حقوق : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوع اسلام سے قبل اس دنیا کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ ہر جانب کفر و شرک، ظلم و زیادتی ، بدکاری و عیاری عام تھی۔ انسان ایک کوہ آتش فشاں کی طرح ہر لمحے بغض و عناد کی جنگ میں جل رہا تھا۔ ہر قبیلہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ہواتھا، جذبات اتنے مشتعل تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر جنگ چھڑ جایا کرتی تھی۔ کسی کے جان و مال ، ساز وسامان کا تحفظ نہ تھا۔بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں ۔عورتوں کی کوئی عزت و وقعت نہ تھی ، دنیا کی حالت عجیب و غریب ہو چکی تھی۔عورت مرد کے دامن تقدس کا داغ کہی جاتی۔ دنیا کی تمام قدیم قومیں ذلت و رسوائی کے عمیق گہرائی میں پڑی تھیں۔ روم و یونان خود کو مہذب کہنے والی قوم انسانیت کے نام پر بدنماد اغ تھے۔ رومیوں اور یونانیوں کے دانشوروں کے فکر و اذہان پر عجیب و غریب ، حیرت کن دیوی اور دیوتاؤں کے نام مرتسم تھے۔ ان نگارشات دہر میں بے شمار لوگ صاحب سلطنت و سطوت آئے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ لیکن کسی نے بھی عورتوں کے حقوق کی فکر نہ کی۔ قوم یہود و نصاری بھی صرف عورتوں کو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور تفریح کا ذریعہ سمجھتے۔ اور ان کے حسن وشباب میں کمی آتے ہی انہیں گھر سے بے گھر کر دیاکرتے ، حیض و نفاس والی عورتیں یک و تنہا کرکے گھر سے باہر ایک تاریک و تنگ کمرے میں بند کر دی جاتیں ۔ ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ، اور معمولی معمولی غلطیوں پر جانوروں کی طرح زدو کوب کیا جاتا۔اہل عرب بچیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی انہیں منحوس سمجھتے اور دفن کرنے کی فکرکرتے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’ اور جب ان کو لڑکی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو دن بھر ان کا منہ سیاہ ہوجاتا، بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرہ بگاڑ لیتے ‘‘۔
اسے پالنے ،پوسنے اور شادی بیاہ کرنے کے خوف سے انہیں زندہ دفن کردیتے تھے۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے قد خسر الذین قتلوا اولادہم سفہابغیرعلم۔ (سورہ انعام پارہ ۸)۔ ترجمہ: بے شک تباہ و برباد ہوئے وہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں جہالت سے ۔ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ قرآن کریم نے قتل اولاد کو گناہ کبیرہ و فعل حرام کہا ہے۔ آخرت کا ڈر دلایا اس برے فعل سے باز رہنے کی تاکید فرمائی۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺکے ایک صحابی ہمیشہ غمگین رہا کرتے تھے ، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ تم ہمیشہ غمگین رہتے ہو تو اس پر انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بڑا گناہ کیا کہ جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائے گا، اسی خوف سے میں غمگین رہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا گناہ بتاؤ تو انہوں نے پورا واقعہ سنایا کہ میری ایک خوبصورت بچی تھی اور جب وہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی کے پیغامات آنے لگے تو میری غیرت نے جوش مارا، لہٰذا میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں فلاں قبیلہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جارہا ہوں ، بچی کو بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار کردو۔ شوہر کی خواہش پر انہوں نے بچی کو اچھے عمدہ لباس پہنادیے اور اس کو ساتھ لے کر چلا کہ راستے میں ایک کنواں دکھائی دیا،میں اپنی بچی کو اس کنویں میں ڈالنے لگا تو بچی نے مجھے پکار پکار کر کہا کہ میرے بابا مجھے اس کنویں میں اکیلے چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ کیا میں تمہاری پیاری بیٹی نہیں ہوں؟ یہ میرے کس جرم کی سزا ہے؟ بچی کی ان باتوں سے میرا دل دہل گیا ، محبت پدری غالب آگئی ،میں نے اسے کنویں سے نکال لیا لیکن پھر مجھ پر شیطان نے غلبہ کیا اور دوبارہ میں نے اسے اسی کنویں میں ڈال کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دلخراش انسانیت سوز واقعہ کو سنا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔ آپ نے انتہائی غضب کے عالم میں فرمایا : اگر زمانہ جاہلیت کے کاموں پر سزا دیتا تو یقیناًتم کو سزا دیتا، لیکن اسلام سے ما قبل کے تمام گناہ معاف ہیں اس لئے تم اس گناہ سے بری ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی عزت افزائی کے ساتھ اولاد کی پرورش اوراس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی۔ اور خاص طورپر بچیوں کی پرورش کرنے والے کو بے پناہ اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی دو لڑکی کی پرورش کی ، یہاں تک کہ وہ بڑی ہوگئی تو وہ شخص قیامت کے دن آئے گا اس حال میں کہ وہ میرے قریب ہوگا۔ نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور ادب سکھا یا، ان پر شفقت و محبت کی، یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بے نیاز کر دیا، (مال کے ذریعے یا شوہر کے ذریعے)تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جنت واجب کر دیا ۔یہ بشارت کو سن کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی تو اس کو کیا ملے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو پر بھی یہی بدلہ ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک بچی کے بابت پوچھا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ایک بچی کی تعلیم وتربیت اور شفقت و محبت کا بدلہ بھی جنت ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں پھیلے ہوئے غیر اسلامی وغیر انسانی جراثیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور صنف نازک کو ظلم و استبداد کے شکنجوں سے رہائی دلا کر عزت و وقار عطا کیا۔ رحمت عالم کے رحم و کرم نے ہی ان بے سہارا عورتوں کو سہارا دیا اور زندگی کے ہر موڑ پر مردوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ اور مردوں کی طرح عورتوں کے حقو ق مقرر کئے ، عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔چنانچہ قرآن کریم سورہ بقرہ پارہ ۲ میں ارشاد ہے ’’ ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف ‘‘۔ ترجمہ’’ عورتوں کے لئے بھی پسندیدہ طورپر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لئے ہیں‘‘۔ رحمت عالم کے اس اسلامی و شرعی قوانین نے عورتوں کو ان کی مہر کی رقم ،میراث، تجارت ، جائیداد اور شوہر کی ہر چیز کا وارث بنادیا۔ پیغمبر اسلام نے دنیا کو ایک ایسا انقلابی دستور اور ضابطہ حیات دیا کہ جس میں زندگی کے داخلی و خارجی مسائل کا حل موجود ہو اور ایسا قانون دیا جو صرف عقائد و عبادات پر مبنی نہیں بلکہ تمام تر اعمال صالحہ کا سر چشمہ ہو۔
الغرض:۔ وہ عورتیں جو آج تک سب سے زیادہ ذلیل و رسوا سمجھی جاتی تھی ،انہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے دلوں کا چین و سکون اور ان کے گھروں کی ملکہ بنادیا۔ اب انسانیت کا مزاج بدلنے لگا۔ سماج میں یہ آواز گونجنے لگی ، عورتیں مردوں کے دلوں کی تسکین ، روح کی راحت ، ذہن کا اطمینان اور بدن کی چین ہے ، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے : ’’وخلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا علیہا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘۔ (سورہ بقرہ ،پارہ ۲) ترجمہ’’ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کی تاکہ تمہیں ان سے تسکین حاصل ہو ، اور اس نے درمیان میں محبت و شفقت پیدا کر دیا‘‘۔
اس حکم خداوندی کے بعد اب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی اپنے ساز و سامان ، مال و اسباب ، زمین و جائیداد سے بے دخل کر کے گھر سے باہر کرسکتاہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: عاشرہن بالمعروف ‘‘ اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو‘‘۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کے بابت اس خاص پیغام نے کہ ’’وہ تمہارے لئے لباس ہے ، اور تم اس کے لئے لباس ہو‘‘ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ گویا عورتوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان کے ساتھ احسان فرمایا’’ مرد عورت کے لئے لباس ،اور عورت مرد کے لئے لباس ہے‘‘ عورتوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے مقام و مرتبہ کو بلند فرمایا۔
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بیوہ عورتوں سے شادی کرنا ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا اور ان کے ساتھ مویشیوں سا سلوک کیا جاتاتھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بیواؤں اور مسکینوں کے سلسلے میں کوشش کرنے والے (یعنی ان کی نگہد اشت رکھنے والے )کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مثال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیش کی اور چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کرکے معاشرے کویہ پیغام دیا کہ بیوہ عورت قابل لعنت نہیں بلکہ قابل رحمت و شفقت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عین عالم شباب میں بیوہ سے نکاح کرنا ،بیوہ کو معاشرے میں عزت و وقار عطا کرنا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ام سلمہ کے شوہر کے انتقال ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، حضرت صدیق اکبر ،حضرت فاروق اعظم ، حضرت عثمان غنی جیسے اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ام سلمہ کو پیغام نکاح بھیجا۔ ذرا غور کیجئے وہی عرب جہاں بیوہ کو لعنتی کہتے،اور بیوہ ہوتے ہی انہیں بند اندھیری کوٹھری میں ڈھکیل دیا کرتے ،اورکسمپرسی کے عالم میں چھوڑ دیتے۔ یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی درسگاہ کا فیضان تھا کہ بیوہ عورتوں سے نکاح کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور جب ام سلمہ نے ان اجلہ صحابہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا توخود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور انہیں ام المومنین کے لقب سے ملقب فرمادیا۔
طلوع اسلام سے قبل اس دنیا کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ ہر جانب کفر و شرک، ظلم و زیادتی ، بدکاری و عیاری عام تھی۔ انسان ایک کوہ آتش فشاں کی طرح ہر لمحے بغض و عناد کی جنگ میں جل رہا تھا۔ ہر قبیلہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ہواتھا، جذبات اتنے مشتعل تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر جنگ چھڑ جایا کرتی تھی۔ کسی کے جان و مال ، ساز وسامان کا تحفظ نہ تھا۔بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں ۔عورتوں کی کوئی عزت و وقعت نہ تھی ، دنیا کی حالت عجیب و غریب ہو چکی تھی۔عورت مرد کے دامن تقدس کا داغ کہی جاتی۔ دنیا کی تمام قدیم قومیں ذلت و رسوائی کے عمیق گہرائی میں پڑی تھیں۔ روم و یونان خود کو مہذب کہنے والی قوم انسانیت کے نام پر بدنماد اغ تھے۔ رومیوں اور یونانیوں کے دانشوروں کے فکر و اذہان پر عجیب و غریب ، حیرت کن دیوی اور دیوتاؤں کے نام مرتسم تھے۔ ان نگارشات دہر میں بے شمار لوگ صاحب سلطنت و سطوت آئے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ لیکن کسی نے بھی عورتوں کے حقوق کی فکر نہ کی۔ قوم یہود و نصاری بھی صرف عورتوں کو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور تفریح کا ذریعہ سمجھتے۔ اور ان کے حسن وشباب میں کمی آتے ہی انہیں گھر سے بے گھر کر دیاکرتے ، حیض و نفاس والی عورتیں یک و تنہا کرکے گھر سے باہر ایک تاریک و تنگ کمرے میں بند کر دی جاتیں ۔ ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ، اور معمولی معمولی غلطیوں پر جانوروں کی طرح زدو کوب کیا جاتا۔اہل عرب بچیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی انہیں منحوس سمجھتے اور دفن کرنے کی فکرکرتے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’ اور جب ان کو لڑکی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو دن بھر ان کا منہ سیاہ ہوجاتا، بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرہ بگاڑ لیتے ‘‘۔
اسے پالنے ،پوسنے اور شادی بیاہ کرنے کے خوف سے انہیں زندہ دفن کردیتے تھے۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے قد خسر الذین قتلوا اولادہم سفہابغیرعلم۔ (سورہ انعام پارہ ۸)۔ ترجمہ: بے شک تباہ و برباد ہوئے وہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں جہالت سے ۔ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ قرآن کریم نے قتل اولاد کو گناہ کبیرہ و فعل حرام کہا ہے۔ آخرت کا ڈر دلایا اس برے فعل سے باز رہنے کی تاکید فرمائی۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺکے ایک صحابی ہمیشہ غمگین رہا کرتے تھے ، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ تم ہمیشہ غمگین رہتے ہو تو اس پر انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بڑا گناہ کیا کہ جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائے گا، اسی خوف سے میں غمگین رہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا گناہ بتاؤ تو انہوں نے پورا واقعہ سنایا کہ میری ایک خوبصورت بچی تھی اور جب وہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی کے پیغامات آنے لگے تو میری غیرت نے جوش مارا، لہٰذا میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں فلاں قبیلہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جارہا ہوں ، بچی کو بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار کردو۔ شوہر کی خواہش پر انہوں نے بچی کو اچھے عمدہ لباس پہنادیے اور اس کو ساتھ لے کر چلا کہ راستے میں ایک کنواں دکھائی دیا،میں اپنی بچی کو اس کنویں میں ڈالنے لگا تو بچی نے مجھے پکار پکار کر کہا کہ میرے بابا مجھے اس کنویں میں اکیلے چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ کیا میں تمہاری پیاری بیٹی نہیں ہوں؟ یہ میرے کس جرم کی سزا ہے؟ بچی کی ان باتوں سے میرا دل دہل گیا ، محبت پدری غالب آگئی ،میں نے اسے کنویں سے نکال لیا لیکن پھر مجھ پر شیطان نے غلبہ کیا اور دوبارہ میں نے اسے اسی کنویں میں ڈال کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دلخراش انسانیت سوز واقعہ کو سنا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔ آپ نے انتہائی غضب کے عالم میں فرمایا : اگر زمانہ جاہلیت کے کاموں پر سزا دیتا تو یقیناًتم کو سزا دیتا، لیکن اسلام سے ما قبل کے تمام گناہ معاف ہیں اس لئے تم اس گناہ سے بری ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی عزت افزائی کے ساتھ اولاد کی پرورش اوراس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی۔ اور خاص طورپر بچیوں کی پرورش کرنے والے کو بے پناہ اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی دو لڑکی کی پرورش کی ، یہاں تک کہ وہ بڑی ہوگئی تو وہ شخص قیامت کے دن آئے گا اس حال میں کہ وہ میرے قریب ہوگا۔ نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور ادب سکھا یا، ان پر شفقت و محبت کی، یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بے نیاز کر دیا، (مال کے ذریعے یا شوہر کے ذریعے)تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جنت واجب کر دیا ۔یہ بشارت کو سن کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی تو اس کو کیا ملے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو پر بھی یہی بدلہ ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک بچی کے بابت پوچھا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ایک بچی کی تعلیم وتربیت اور شفقت و محبت کا بدلہ بھی جنت ہے۔
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں پھیلے ہوئے غیر اسلامی وغیر انسانی جراثیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور صنف نازک کو ظلم و استبداد کے شکنجوں سے رہائی دلا کر عزت و وقار عطا کیا۔ رحمت عالم کے رحم و کرم نے ہی ان بے سہارا عورتوں کو سہارا دیا اور زندگی کے ہر موڑ پر مردوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ اور مردوں کی طرح عورتوں کے حقو ق مقرر کئے ، عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔چنانچہ قرآن کریم سورہ بقرہ پارہ ۲ میں ارشاد ہے ’’ ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف ‘‘۔ ترجمہ’’ عورتوں کے لئے بھی پسندیدہ طورپر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لئے ہیں‘‘۔ رحمت عالم کے اس اسلامی و شرعی قوانین نے عورتوں کو ان کی مہر کی رقم ،میراث، تجارت ، جائیداد اور شوہر کی ہر چیز کا وارث بنادیا۔ پیغمبر اسلام نے دنیا کو ایک ایسا انقلابی دستور اور ضابطہ حیات دیا کہ جس میں زندگی کے داخلی و خارجی مسائل کا حل موجود ہو اور ایسا قانون دیا جو صرف عقائد و عبادات پر مبنی نہیں بلکہ تمام تر اعمال صالحہ کا سر چشمہ ہو۔
الغرض:۔ وہ عورتیں جو آج تک سب سے زیادہ ذلیل و رسوا سمجھی جاتی تھی ،انہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے دلوں کا چین و سکون اور ان کے گھروں کی ملکہ بنادیا۔ اب انسانیت کا مزاج بدلنے لگا۔ سماج میں یہ آواز گونجنے لگی ، عورتیں مردوں کے دلوں کی تسکین ، روح کی راحت ، ذہن کا اطمینان اور بدن کی چین ہے ، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے : ’’وخلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا علیہا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘۔ (سورہ بقرہ ،پارہ ۲) ترجمہ’’ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کی تاکہ تمہیں ان سے تسکین حاصل ہو ، اور اس نے درمیان میں محبت و شفقت پیدا کر دیا‘‘۔
اس حکم خداوندی کے بعد اب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی اپنے ساز و سامان ، مال و اسباب ، زمین و جائیداد سے بے دخل کر کے گھر سے باہر کرسکتاہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: عاشرہن بالمعروف ‘‘ اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو‘‘۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کے بابت اس خاص پیغام نے کہ ’’وہ تمہارے لئے لباس ہے ، اور تم اس کے لئے لباس ہو‘‘ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ گویا عورتوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان کے ساتھ احسان فرمایا’’ مرد عورت کے لئے لباس ،اور عورت مرد کے لئے لباس ہے‘‘ عورتوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے مقام و مرتبہ کو بلند فرمایا۔
بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بیوہ عورتوں سے شادی کرنا ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا اور ان کے ساتھ مویشیوں سا سلوک کیا جاتاتھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بیواؤں اور مسکینوں کے سلسلے میں کوشش کرنے والے (یعنی ان کی نگہد اشت رکھنے والے )کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مثال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیش کی اور چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کرکے معاشرے کویہ پیغام دیا کہ بیوہ عورت قابل لعنت نہیں بلکہ قابل رحمت و شفقت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عین عالم شباب میں بیوہ سے نکاح کرنا ،بیوہ کو معاشرے میں عزت و وقار عطا کرنا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ام سلمہ کے شوہر کے انتقال ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، حضرت صدیق اکبر ،حضرت فاروق اعظم ، حضرت عثمان غنی جیسے اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ام سلمہ کو پیغام نکاح بھیجا۔ ذرا غور کیجئے وہی عرب جہاں بیوہ کو لعنتی کہتے،اور بیوہ ہوتے ہی انہیں بند اندھیری کوٹھری میں ڈھکیل دیا کرتے ،اورکسمپرسی کے عالم میں چھوڑ دیتے۔ یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی درسگاہ کا فیضان تھا کہ بیوہ عورتوں سے نکاح کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور جب ام سلمہ نے ان اجلہ صحابہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا توخود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور انہیں ام المومنین کے لقب سے ملقب فرمادیا۔
Tuesday, 3 February 2015
ختم نبوّت سے کیا مراد ھے اور عقیدہ ختم نبوّت . ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘
الاحزاب، 33 : 40
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایتاً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہءِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ.
’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ارشادِ خداوندی ہے :
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘
الاحزاب، 33 : 40
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔
قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایتاً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہءِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ.
’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272
اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
قادیانیوں کے خاتم کے معنیٰ میں دھوکہ اور فریب کا جواب . ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
گروہ قادیان آیت میں مذکور لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کرتا ہے اوراس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُہر لگنے سے نبی بنیں گے، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُہر نہ لگے وہ نبی نہ ہوسکے گا۔لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندررکھ کر اسے دیکھاجائے تو اِس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ، بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ نے محل ہی نہیں، مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتاہے۔ آخر اس بات کا کیا تُک ہے کہ اوپر سے تو نکاح زینب رضی اللہ عنہا پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات کا جوات دیا جا رہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نبیوں کی مُہر ہیں، آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مُہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ باالکل بے تُکی ہے ،اِ س صورت میں تو معترضین کے لیے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اِس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اِس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مُہرلگ لگ کر جو انبیاء آتے رہیں گے اُن میں سے کوئی اسے مٹادے گا۔
ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ’’ خاتم ا لنبیین‘‘ کے معنی افضل النبیین کے ہیں، یعنی نبوت کا دروازہ تو کُھلا ہوا ہے، البتہ کمالاتِ نبوّت نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ختم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق سے یہ مفہوم بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا ، بلکہ اُلٹا اس کے خلاف پڑتا ہے ۔ کفّا ر و منافقین کہہ سکتے تھے کہ کم تر درجے کے ہی سہی۔ بہر حال آپ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے۔ پھر کیا ضرور تھا کہ اس ر سم کو بھی آپ ہی مٹا کر جاتے ۔
اب اس آیت کی تفسیر میں علماءِ تفسیر کی رائے پڑھیے
تفسير الطبري(محمد بن جرير الطبري)
( ولكن رسول الله وخاتم النبيين ) أي : آخرهم
تفسير القرطبي(محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي)
بمعنى أنه ختمهم ، أي جاء آخرهم
تفسير ابن كثير(إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي)
فهذه الآية نص في أنه لا نبي بعده ، وإذا كان لا نبي بعده فلا رسول [ بعده ] بطريق الأولى
تفسير البغوي(الحسين بن مسعود البغوي)
( ولكن رسول الله وخاتم النبيين ) ختم الله به النبوة
مجمع البيان في تفسير القرآن
{ وخاتم النبيين } أي وآخر النبيين ختمت النبوة به فشريعته باقية إلى يوم الدين
انوار التنزيل واسرار التأويل
{ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيّينَ } وآخرهم الذي ختمهم
اگر ان تفاسیر پر یقین نہیں تو اپنے نام نہاد نبی کی بات پر ہی یقین کر لو!
خود مرزا قادیانی کی اپنی کتابیں اس تفسیر کو جھٹلاتی ہیں۔ مرزا قادیانی اپنی کتاب تریاق القلوب میں صفحہ 157، خزائن جلد 15، صفحہ 479 پر اپنے متعلق تحریر کرتا ہے۔
"میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی ، جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔ اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں ان کے لیے خاتم الاولاد تھا"۔
جب مرزا قادیانی اور خود اسکی جماعت بھی خاتم الاولاد کا ترجمہ آخری ولد کرتے ہیں اور مرزا کو اپنے والدین کا آخری بیٹا مانتے ہیں کہ اس بعد کسی قسم کا کوئی جھوٹا، بڑا، بہرہ، گونگا بیٹا پیدا نہیں ہوا تو پھر خاتم النبین کا بھی یہی ترجمہ انہیں ماننا پڑے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی، بروزی، مستقل، غیر مستقل نبی آنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ورنہ ان کے بنائے گئے خاتم النبین کے معنی "حضور ﷺ کی مہر سے نبی بنیں گے" کے مطابق خاتم الاولاد کا ترجمہ بھی مرزائیوں کو یہی کرنا ہوگا کہ مرزا کی مہر سے مرزا کے والدین کے ہاں بچے پیدا ہوں گے۔ اس صورت میں اب مرزا قادیانی مہر لگاتے جائیں گے اور مرزا قادیانی کی ماں بچے جنتی چلی جائے گی۔
گروہ قادیان آیت میں مذکور لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کرتا ہے اوراس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُہر لگنے سے نبی بنیں گے، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُہر نہ لگے وہ نبی نہ ہوسکے گا۔لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندررکھ کر اسے دیکھاجائے تو اِس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ، بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ نے محل ہی نہیں، مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتاہے۔ آخر اس بات کا کیا تُک ہے کہ اوپر سے تو نکاح زینب رضی اللہ عنہا پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات کا جوات دیا جا رہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نبیوں کی مُہر ہیں، آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مُہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ باالکل بے تُکی ہے ،اِ س صورت میں تو معترضین کے لیے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اِس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اِس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مُہرلگ لگ کر جو انبیاء آتے رہیں گے اُن میں سے کوئی اسے مٹادے گا۔
ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ’’ خاتم ا لنبیین‘‘ کے معنی افضل النبیین کے ہیں، یعنی نبوت کا دروازہ تو کُھلا ہوا ہے، البتہ کمالاتِ نبوّت نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ختم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق سے یہ مفہوم بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا ، بلکہ اُلٹا اس کے خلاف پڑتا ہے ۔ کفّا ر و منافقین کہہ سکتے تھے کہ کم تر درجے کے ہی سہی۔ بہر حال آپ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے۔ پھر کیا ضرور تھا کہ اس ر سم کو بھی آپ ہی مٹا کر جاتے ۔
اب اس آیت کی تفسیر میں علماءِ تفسیر کی رائے پڑھیے
تفسير الطبري(محمد بن جرير الطبري)
( ولكن رسول الله وخاتم النبيين ) أي : آخرهم
تفسير القرطبي(محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي)
بمعنى أنه ختمهم ، أي جاء آخرهم
تفسير ابن كثير(إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي)
فهذه الآية نص في أنه لا نبي بعده ، وإذا كان لا نبي بعده فلا رسول [ بعده ] بطريق الأولى
تفسير البغوي(الحسين بن مسعود البغوي)
( ولكن رسول الله وخاتم النبيين ) ختم الله به النبوة
مجمع البيان في تفسير القرآن
{ وخاتم النبيين } أي وآخر النبيين ختمت النبوة به فشريعته باقية إلى يوم الدين
انوار التنزيل واسرار التأويل
{ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيّينَ } وآخرهم الذي ختمهم
اگر ان تفاسیر پر یقین نہیں تو اپنے نام نہاد نبی کی بات پر ہی یقین کر لو!
خود مرزا قادیانی کی اپنی کتابیں اس تفسیر کو جھٹلاتی ہیں۔ مرزا قادیانی اپنی کتاب تریاق القلوب میں صفحہ 157، خزائن جلد 15، صفحہ 479 پر اپنے متعلق تحریر کرتا ہے۔
"میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی ، جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔ اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں ان کے لیے خاتم الاولاد تھا"۔
جب مرزا قادیانی اور خود اسکی جماعت بھی خاتم الاولاد کا ترجمہ آخری ولد کرتے ہیں اور مرزا کو اپنے والدین کا آخری بیٹا مانتے ہیں کہ اس بعد کسی قسم کا کوئی جھوٹا، بڑا، بہرہ، گونگا بیٹا پیدا نہیں ہوا تو پھر خاتم النبین کا بھی یہی ترجمہ انہیں ماننا پڑے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی، بروزی، مستقل، غیر مستقل نبی آنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ورنہ ان کے بنائے گئے خاتم النبین کے معنی "حضور ﷺ کی مہر سے نبی بنیں گے" کے مطابق خاتم الاولاد کا ترجمہ بھی مرزائیوں کو یہی کرنا ہوگا کہ مرزا کی مہر سے مرزا کے والدین کے ہاں بچے پیدا ہوں گے۔ اس صورت میں اب مرزا قادیانی مہر لگاتے جائیں گے اور مرزا قادیانی کی ماں بچے جنتی چلی جائے گی۔
خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر16 تا 22 ۔۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16. عَنْ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِيَةِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
16 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : تعبير الرّؤيا، باب : رؤية النبي صلی الله عليه وآله وسلم فی المنام، 2 / 1283، الرقم : 3896، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 381، الرقم : 27185، وابن حبان في الصحيح، 13 / 411، الرقم : 6024.
’’حضرت ام کرز کعبیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات (نیک خواب) باقی رہ گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ قَالَ : قِيْلَ : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ أَوْ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ نَحْوَهُ.
17 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 454، الرقم : 23846 (23283)، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 179، الرقم : 3051، وابن منصور في السنن، 5 / 321، الرقم : 1068، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 247، الرقم : 3162، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 223، الرقم : 264، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 173، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 494.
’’حضرت ابو الطفیل رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘
اسے امام احمد اور اسی طرح طبرانی نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ عليهم السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَلِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ وَبِشَارَةُ عِيْسَی بِي وَرُؤيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَلِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ تَرَيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وفي رواية عنه : قَالَ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فَذَکَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيْهِ : إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 127، 128، الرقم : (16700)، (16712)، وابن حبان في الصحيح، 14 / 313، الرقم : 6404، والحاکم في ’المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 252، 253، الرقم : 629، 630، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 134، الرقم : 1385، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 409، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 68، الرقم : 1736.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں : میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی بشارت ہوں اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘ اس حديث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حديث کی مثل حديث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا : ’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ کو حالتِ نور میں جنا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام احمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔
19. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} البقرة، 2 : 129، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
19 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُوْنَ مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
20 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 396، الرقم : 23406، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 327، الرقم : 5450، وفي المعجم الکبير، 3 / 169، الرقم : 3026، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 454، الرقم : 8724، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 332، وقال : رواة أحمد والطبراني والبزار، ورجال البزار رجال الصحيح.
’’حضرت حذیفہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں جھوٹی نبوت کے دعویدار اور دجال ستائیس ہیں ان میں سے چار عورتیں ہیں اور بے شک میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
21 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم عليہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) انہوں نے وحشت (و تنہائی) محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل عليہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحْمَدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ پڑھا تو حضرت آدم عليہ السلام نے دریافت کیا : (اے جبریل!) محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل عليہ السلام نے کہا : یہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام ابونعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کَانَ هَارُوْنُ بْنُ عِمْرَانَ فَصِيْحَ اللِّسَانِ بَيِّنَ الْمَنْطِقِ يَتَکَلَّمُ فِي تُؤَدَةٍ وَيَقُوْلُ بِعِلْمٍ وَحِلْمٍ، وَکَانَ أَطْوَلَ مِنْ مُوْسَی طُوْلًا وَأَکْبَرَهُمَا فِي السِّنِّ وَکَانَ أَکْثَرَهُمَا لَحْمًا وَأَبْيَضَهُمَا جِسْمًا وَأَعْظَمَهُمَا أَلْوَاحًا، وَکَانَ مُوْسَی رَجُلًا جَعْدًا آدَمَ طِوَالًا کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ وَلَمْ يَبْعَثِ اﷲُ نَبِيًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنَی إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُّنَا صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : هَذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتِفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِيَائِ قَبْلِي لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
22 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 631، الرقم : 4105.
’’حضرت وہب بن منبہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہارون بن عمران عليہ السلام فصیح اللسان اور واضح کلام فرمانے والے تھے۔ آپ پر سکون لہجہ میں بات کرتے تھے اور علم و حلم سے بات کرتے تھے اور قد میں آپ حضرت موسیٰ عليہ السلام سے لمبے تھے اور عمر میں بھی ان سے بڑے تھے اور ان سے زیادہ پرگوشت اور سفید جسم والے تھے اور آپ کے جسم کی ہڈیاں بھی ان کے جسم کی ہڈیوں سے بڑی تھیں اور حضرت موسیٰ عليہ السلام گھنگریالے بالوں والے، گندم گوں اور لمبے قد کے مالک تھے گویا کہ آپ قبیلہ شنئوہ کے کوئی شخص ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے۔ پس آپ کی مہرِ نبوت آپ کے مبارک شانوں کے درمیان تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام عليہ السلام کی مہر ہے کیونکہ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے (اس لئے میرے بعد کسی کے لئے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی)۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا۔
16. عَنْ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِيَةِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
16 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : تعبير الرّؤيا، باب : رؤية النبي صلی الله عليه وآله وسلم فی المنام، 2 / 1283، الرقم : 3896، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 381، الرقم : 27185، وابن حبان في الصحيح، 13 / 411، الرقم : 6024.
’’حضرت ام کرز کعبیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات (نیک خواب) باقی رہ گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
17. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ قَالَ : قِيْلَ : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ أَوْ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ نَحْوَهُ.
17 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 454، الرقم : 23846 (23283)، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 179، الرقم : 3051، وابن منصور في السنن، 5 / 321، الرقم : 1068، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 247، الرقم : 3162، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 223، الرقم : 264، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 173، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 494.
’’حضرت ابو الطفیل رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘
اسے امام احمد اور اسی طرح طبرانی نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ عليهم السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَلِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ وَبِشَارَةُ عِيْسَی بِي وَرُؤيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَلِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ تَرَيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وفي رواية عنه : قَالَ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فَذَکَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيْهِ : إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 127، 128، الرقم : (16700)، (16712)، وابن حبان في الصحيح، 14 / 313، الرقم : 6404، والحاکم في ’المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 252، 253، الرقم : 629، 630، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 134، الرقم : 1385، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 409، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 68، الرقم : 1736.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں : میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی بشارت ہوں اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘ اس حديث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حديث کی مثل حديث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا : ’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ کو حالتِ نور میں جنا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام احمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔
19. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} البقرة، 2 : 129، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
19 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
20. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُوْنَ مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
20 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 396، الرقم : 23406، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 327، الرقم : 5450، وفي المعجم الکبير، 3 / 169، الرقم : 3026، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 454، الرقم : 8724، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 332، وقال : رواة أحمد والطبراني والبزار، ورجال البزار رجال الصحيح.
’’حضرت حذیفہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں جھوٹی نبوت کے دعویدار اور دجال ستائیس ہیں ان میں سے چار عورتیں ہیں اور بے شک میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
21 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم عليہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) انہوں نے وحشت (و تنہائی) محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل عليہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحْمَدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ پڑھا تو حضرت آدم عليہ السلام نے دریافت کیا : (اے جبریل!) محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل عليہ السلام نے کہا : یہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام ابونعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
22. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کَانَ هَارُوْنُ بْنُ عِمْرَانَ فَصِيْحَ اللِّسَانِ بَيِّنَ الْمَنْطِقِ يَتَکَلَّمُ فِي تُؤَدَةٍ وَيَقُوْلُ بِعِلْمٍ وَحِلْمٍ، وَکَانَ أَطْوَلَ مِنْ مُوْسَی طُوْلًا وَأَکْبَرَهُمَا فِي السِّنِّ وَکَانَ أَکْثَرَهُمَا لَحْمًا وَأَبْيَضَهُمَا جِسْمًا وَأَعْظَمَهُمَا أَلْوَاحًا، وَکَانَ مُوْسَی رَجُلًا جَعْدًا آدَمَ طِوَالًا کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ وَلَمْ يَبْعَثِ اﷲُ نَبِيًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنَی إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُّنَا صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : هَذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتِفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِيَائِ قَبْلِي لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
22 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 631، الرقم : 4105.
’’حضرت وہب بن منبہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہارون بن عمران عليہ السلام فصیح اللسان اور واضح کلام فرمانے والے تھے۔ آپ پر سکون لہجہ میں بات کرتے تھے اور علم و حلم سے بات کرتے تھے اور قد میں آپ حضرت موسیٰ عليہ السلام سے لمبے تھے اور عمر میں بھی ان سے بڑے تھے اور ان سے زیادہ پرگوشت اور سفید جسم والے تھے اور آپ کے جسم کی ہڈیاں بھی ان کے جسم کی ہڈیوں سے بڑی تھیں اور حضرت موسیٰ عليہ السلام گھنگریالے بالوں والے، گندم گوں اور لمبے قد کے مالک تھے گویا کہ آپ قبیلہ شنئوہ کے کوئی شخص ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے۔ پس آپ کی مہرِ نبوت آپ کے مبارک شانوں کے درمیان تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام عليہ السلام کی مہر ہے کیونکہ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے (اس لئے میرے بعد کسی کے لئے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی)۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا۔
خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر 11 تا 15 ۔۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَکَرُوْا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ : تَقُوْلُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُـلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ.
11 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب، 1 / 45، الرقم : 121، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 108، الرقم : 8399، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32078.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضي اﷲ عنہ حج کے لیے تشریف لائے حضرت سعد رضي اﷲ عنہ ان کے پاس گئے وہاں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کا کچھ بے ادبی کے ساتھ ذکر ہوا جسے سن کر حضرت سعد رضي اﷲ عنہ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا : تم اس شخص کے بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : میں جس کا ولی ہوں علی بھی اس کے ولی ہیں اور فرمایاتھا : تم میری جگہ پر اس طرح ہو جیسے ہارون عليہ السلام، موسیٰ عليہ السلام کی جگہ پر تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں اور فرمایا : آج اس شخص کو عَلَم (جھنڈا) عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
12 : أخرجه الدارمي فی السنن، باب : (8) ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم : 49، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم : 170، والبيهقی فی کتاب الاعتقاد، 1 / 192، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 254، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 10 / 223، والمناوی فی فيض القدير، 3 / 43.
’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘
اسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
13. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.
13 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عيسی بن مريم، 2 / 1359، الرقم : 4077، والحاکم في المستدرک، 4 / 580، الرقم : 8620، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 146، الرقم : 7644، والرويانی في المسند، 2 / 295، الرقم : 1239، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 28، الرقم : 861، وابن أبی عاصم في السنة، 1 / 171، الرقم : 391.
’’حضرت ابو امامہ باہلی رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام انبیاء کرام میں سے آخر میں ہوں اور تم بھی آخری امت ہو۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ : فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ : لَکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا : يَا رَسُوْل اﷲِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْئٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الرؤيا عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ذهبت النبوة و بقيت المبشرات، 4 / 533، الرقم : 2272، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 267، الرقم : 13851، والحاکم في المستدرک، 4 / 433، الرقم : 8178، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 206، الرقم : 2645.
’’حضرت انس بن مالک رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگوں پر گراں گزرا (کہ اب سلسلہ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لیکن مبشرات (باقی ہیں) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کے اجزاء کا ایک جزو ہے۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التعبير، باب : المبشرات، 6 / 2564، الرقم : 6589.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نیک خواب۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَکَرُوْا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ : تَقُوْلُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُـلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ.
11 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب، 1 / 45، الرقم : 121، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 108، الرقم : 8399، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32078.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضي اﷲ عنہ حج کے لیے تشریف لائے حضرت سعد رضي اﷲ عنہ ان کے پاس گئے وہاں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کا کچھ بے ادبی کے ساتھ ذکر ہوا جسے سن کر حضرت سعد رضي اﷲ عنہ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا : تم اس شخص کے بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : میں جس کا ولی ہوں علی بھی اس کے ولی ہیں اور فرمایاتھا : تم میری جگہ پر اس طرح ہو جیسے ہارون عليہ السلام، موسیٰ عليہ السلام کی جگہ پر تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں اور فرمایا : آج اس شخص کو عَلَم (جھنڈا) عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
12 : أخرجه الدارمي فی السنن، باب : (8) ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم : 49، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم : 170، والبيهقی فی کتاب الاعتقاد، 1 / 192، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 254، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 10 / 223، والمناوی فی فيض القدير، 3 / 43.
’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘
اسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
13. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.
13 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عيسی بن مريم، 2 / 1359، الرقم : 4077، والحاکم في المستدرک، 4 / 580، الرقم : 8620، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 146، الرقم : 7644، والرويانی في المسند، 2 / 295، الرقم : 1239، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 28، الرقم : 861، وابن أبی عاصم في السنة، 1 / 171، الرقم : 391.
’’حضرت ابو امامہ باہلی رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام انبیاء کرام میں سے آخر میں ہوں اور تم بھی آخری امت ہو۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ : فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ : لَکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا : يَا رَسُوْل اﷲِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْئٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الرؤيا عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ذهبت النبوة و بقيت المبشرات، 4 / 533، الرقم : 2272، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 267، الرقم : 13851، والحاکم في المستدرک، 4 / 433، الرقم : 8178، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 206، الرقم : 2645.
’’حضرت انس بن مالک رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگوں پر گراں گزرا (کہ اب سلسلہ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لیکن مبشرات (باقی ہیں) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کے اجزاء کا ایک جزو ہے۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التعبير، باب : المبشرات، 6 / 2564، الرقم : 6589.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نیک خواب۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر 6 تا10 ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَی : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيْمَ ابْنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : مَاتَ صَغِيْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَکِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من سمی بأسماء الأنبياء، 5 / 2289، الرقم : 5841، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء فی الجنائز، باب : ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وذکر وفاته، 1 / 484، الرقم : 1510، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 368، الرقم : 6638، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 135، والزيلعي في تخریج الأحاديث والآثار، 3 / 115.
’’حضرت اسماعیل کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی رضي اﷲ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِِيُّ وَ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ اﷲُ بَاعِثًا رَسُوْلًا بَعْدِي لَبَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب عمر بن الخطاب ص، 5 / 619، الرقم : 3686، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، والحاکم في المستدرک، 3 / 92، الرقم : 4495، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، 298، الرقم : 475، 822، والروياني في المسند، 1 / 174، الرقم : 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 68.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا (لیکن جان لو میں آخری نبی ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔ ۔
اور ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ میرے بعد کسی کو نبی بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو یقینا عمر بن الخطاب کو نبی بنا کر بھیجتا۔‘‘ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ سَعْدٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ إِلَی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا رضي اﷲ عنه فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ : أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، 3 / 1359، الرقم : 3503، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1870، 171 الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 640، 641، الرقم : 3730، 3731، وابن ماجه فی السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 1 / 42، 45، الرقم : 115، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 170، 173، 175، 177، 179، 182، 184، 185، 330، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 146، 148، الرقم : 328، 333.
’’حضرت سعد (بن ابی وقاص) رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) اپنا نائب مقرر فرما دیا۔ وہ عرض گزار ہوئے : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کو حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی، ماسوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
9. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، أَ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی عليهما السلام؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
9 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عثمان بن عفان ص، 4 / 1871، 1870، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب ص، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الرقم : 6927، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 40.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کی حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘
یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
10. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي… الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
10 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 638، الرقم : 3724.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو (اپنا قائم مقام بنا کر) پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضي اﷲ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد نبوت نہیں ہوگی۔‘‘
اس حديث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَی : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيْمَ ابْنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : مَاتَ صَغِيْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَکِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من سمی بأسماء الأنبياء، 5 / 2289، الرقم : 5841، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء فی الجنائز، باب : ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وذکر وفاته، 1 / 484، الرقم : 1510، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 368، الرقم : 6638، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 135، والزيلعي في تخریج الأحاديث والآثار، 3 / 115.
’’حضرت اسماعیل کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی رضي اﷲ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
7. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِِيُّ وَ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ اﷲُ بَاعِثًا رَسُوْلًا بَعْدِي لَبَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب عمر بن الخطاب ص، 5 / 619، الرقم : 3686، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، والحاکم في المستدرک، 3 / 92، الرقم : 4495، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، 298، الرقم : 475، 822، والروياني في المسند، 1 / 174، الرقم : 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 68.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا (لیکن جان لو میں آخری نبی ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔ ۔
اور ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ میرے بعد کسی کو نبی بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو یقینا عمر بن الخطاب کو نبی بنا کر بھیجتا۔‘‘ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ سَعْدٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ إِلَی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا رضي اﷲ عنه فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ : أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، 3 / 1359، الرقم : 3503، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1870، 171 الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 640، 641، الرقم : 3730، 3731، وابن ماجه فی السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 1 / 42، 45، الرقم : 115، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 170، 173، 175، 177، 179، 182، 184، 185، 330، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 146، 148، الرقم : 328، 333.
’’حضرت سعد (بن ابی وقاص) رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) اپنا نائب مقرر فرما دیا۔ وہ عرض گزار ہوئے : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کو حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی، ماسوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
9. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، أَ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی عليهما السلام؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
9 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عثمان بن عفان ص، 4 / 1871، 1870، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب ص، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الرقم : 6927، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 40.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کی حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘
یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
10. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي… الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
10 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 638، الرقم : 3724.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو (اپنا قائم مقام بنا کر) پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضي اﷲ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد نبوت نہیں ہوگی۔‘‘
اس حديث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر 1 تا 5 ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية : عَنْ جَابِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَنَا مَوْضِعُ الَّلبِنَةِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْأَنْبِيَاءَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
وفي رواية : عَنْ أَبُيِّ ابْنِ کَعْبٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَأَنَا فِي النَّبِيِّيْنَ بِمَوْضِعِ تِلْکَ اللَّبِنَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
1 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : خَاتَم النَّبِيِّين صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1300، الرقم : 3341.3342، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : ذکر کونه صلی الله عليه وآله وسلم خاتم النَّبِيِّين، 4 / 1791، الرقم : 2286. 2287، والترمذي في السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 586، الرقم : 3613، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 436، الرقم : 11422، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 398، الرقم : 9156، 3 / 361، 5 / 136، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 324، الرقم : 31770، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 315، الرقم : 6405، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 5، وفي شعب الإيمان، 2 / 178، الرقم : 1484.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بولے : یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت بند ہو گیا ہے)۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میری آمد سے انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔‘‘
اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت ابی بن کعب رضي اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نبیوں میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ : أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم : 523، والترمذي في السنن، کتاب : السير عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی الغنيمة، 4 / 123، الرقم : 1553، وابن حبان في الصحيح، 6 / 87، الرقم : 2313، 14 / 311، الرقم : 6401، 6403، وأبو يعلی في المسند، 11 / 377، الرقم : 6491، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 12، الرقم : 506، وأبوعوانة في المسند، 1 / 330، الرقم : 1169، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 433، الرقم : 4063.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے ہیں اور میرے لئے (ساری) زمین پاک کر دی گئی ہے اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
3. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضي اﷲ عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقِبِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
3 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : ما جاء فی أسماء رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1299، الرقم : 3339، وفی کتاب : التفسير، باب : تفسير سورة الصف، 4 / 1858، الرقم : 4614، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 828، الرقم : 2354، والترمذي في السنن، کتاب : الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في أسماء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 135، الرقم : 2840، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 489، الرقم : 11590، ومالک في الموطأ، کتاب : أسماء النبی صلی الله عليه وآله وسلم، باب : أسماء النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 1004، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 80، 84، والدارمی فی السنن، 2 / 409، الرقم : 2775، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 219، الرقم : 6313، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4 / 44، الرقم : 3570، وفی المعجم الکبير، 2 / 120، الرقم : 1520.1529، وأبويعلی فی المسند، 13 / 388، الرقم : 7395، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2 / 140، الرقم : 1397، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1 / 105، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 284.
’’حضرت جبیر بن معطم رضي اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعہ کفر کو مٹا دیا جائے گا او رمیں حاشر ہوں، یعنی میرے بعد قیامت آ جائے گی اور حشر برپا ہو گا (اور کوئی نبی میرے اور قیامت کے درمیان نہ آئے گا) اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔‘‘
یہ حديث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي… الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : أحاديث الأنبياء، باب : ما ذکر عن بني إسرائيل، 3 / 1273، الرقم : 3268، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإمارة، باب : وجوب الوفاء ببيعة الخلفاء الأول فالأول، 3 / 1471، الرقم : 1842، وابن ماجه في السنن، کتاب : الجهاد، باب : الوفاء بالبيعة، 2 / 958، الرقم : 2871، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 297، الرقم : 7947، وابن حبان في الصحيح، 10 / 418، الرقم : 4555، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 464، الرقم : 37260، وأبو يعلی في المسند، 11 / 75، الرقم : 6211، وأبو عوانة في المسند، 4 / 409، الرقم : 7126، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 144، الرقم : 16325.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام بنو اسرائیل پرحکمران ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا لیکن (یاد رکھو) میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
5. عَنْ ثَوْبَانَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ نَحْوَهُ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذّابون، 4 / 499، الرقم : 2219، وأبو داود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 97، الرقم : 4252، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : ما يکون من الفتن، 2 / 130، الرقم : 3952، وابن أبی شيبة في المصنف، 7 / 503، الرقم : 3565، والحاکم في المستدرک، 4 / 496، الرقم : 8390، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 200، الرقم : 397، والشيباني في الآحاد والمثانی، 1 / 332، الرقم : 456، 3 / 24، الرقم : 1309، والدانی في السنن الواردة فی الفتن، 4 / 861، الرقم : 442، 4 / 863، الرقم : 444.
’’حضرت ثوبان رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابو داود اور اسی طرح امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية : عَنْ جَابِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَنَا مَوْضِعُ الَّلبِنَةِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْأَنْبِيَاءَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
وفي رواية : عَنْ أَبُيِّ ابْنِ کَعْبٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَأَنَا فِي النَّبِيِّيْنَ بِمَوْضِعِ تِلْکَ اللَّبِنَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
1 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : خَاتَم النَّبِيِّين صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1300، الرقم : 3341.3342، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : ذکر کونه صلی الله عليه وآله وسلم خاتم النَّبِيِّين، 4 / 1791، الرقم : 2286. 2287، والترمذي في السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 586، الرقم : 3613، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 436، الرقم : 11422، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 398، الرقم : 9156، 3 / 361، 5 / 136، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 324، الرقم : 31770، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 315، الرقم : 6405، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 5، وفي شعب الإيمان، 2 / 178، الرقم : 1484.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بولے : یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت بند ہو گیا ہے)۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میری آمد سے انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔‘‘
اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت ابی بن کعب رضي اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نبیوں میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ : أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم : 523، والترمذي في السنن، کتاب : السير عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی الغنيمة، 4 / 123، الرقم : 1553، وابن حبان في الصحيح، 6 / 87، الرقم : 2313، 14 / 311، الرقم : 6401، 6403، وأبو يعلی في المسند، 11 / 377، الرقم : 6491، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 12، الرقم : 506، وأبوعوانة في المسند، 1 / 330، الرقم : 1169، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 433، الرقم : 4063.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے ہیں اور میرے لئے (ساری) زمین پاک کر دی گئی ہے اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
3. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضي اﷲ عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقِبِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
3 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : ما جاء فی أسماء رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1299، الرقم : 3339، وفی کتاب : التفسير، باب : تفسير سورة الصف، 4 / 1858، الرقم : 4614، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 828، الرقم : 2354، والترمذي في السنن، کتاب : الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في أسماء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 135، الرقم : 2840، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 489، الرقم : 11590، ومالک في الموطأ، کتاب : أسماء النبی صلی الله عليه وآله وسلم، باب : أسماء النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 1004، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 80، 84، والدارمی فی السنن، 2 / 409، الرقم : 2775، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 219، الرقم : 6313، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4 / 44، الرقم : 3570، وفی المعجم الکبير، 2 / 120، الرقم : 1520.1529، وأبويعلی فی المسند، 13 / 388، الرقم : 7395، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2 / 140، الرقم : 1397، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1 / 105، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 284.
’’حضرت جبیر بن معطم رضي اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعہ کفر کو مٹا دیا جائے گا او رمیں حاشر ہوں، یعنی میرے بعد قیامت آ جائے گی اور حشر برپا ہو گا (اور کوئی نبی میرے اور قیامت کے درمیان نہ آئے گا) اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔‘‘
یہ حديث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي… الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : أحاديث الأنبياء، باب : ما ذکر عن بني إسرائيل، 3 / 1273، الرقم : 3268، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإمارة، باب : وجوب الوفاء ببيعة الخلفاء الأول فالأول، 3 / 1471، الرقم : 1842، وابن ماجه في السنن، کتاب : الجهاد، باب : الوفاء بالبيعة، 2 / 958، الرقم : 2871، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 297، الرقم : 7947، وابن حبان في الصحيح، 10 / 418، الرقم : 4555، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 464، الرقم : 37260، وأبو يعلی في المسند، 11 / 75، الرقم : 6211، وأبو عوانة في المسند، 4 / 409، الرقم : 7126، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 144، الرقم : 16325.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام بنو اسرائیل پرحکمران ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا لیکن (یاد رکھو) میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
5. عَنْ ثَوْبَانَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ نَحْوَهُ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذّابون، 4 / 499، الرقم : 2219، وأبو داود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 97، الرقم : 4252، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : ما يکون من الفتن، 2 / 130، الرقم : 3952، وابن أبی شيبة في المصنف، 7 / 503، الرقم : 3565، والحاکم في المستدرک، 4 / 496، الرقم : 8390، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 200، الرقم : 397، والشيباني في الآحاد والمثانی، 1 / 332، الرقم : 456، 3 / 24، الرقم : 1309، والدانی في السنن الواردة فی الفتن، 4 / 861، الرقم : 442، 4 / 863، الرقم : 444.
’’حضرت ثوبان رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابو داود اور اسی طرح امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
میرے نبی ﷺ کب سے نبی ﷺ ھیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۔ حدیث نمبر 11 تا 15 ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.
11 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات، 1 / 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 170، 3 / 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 131، والطبري في جامع البيان، 1 / 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 361، والسمرقندي في تفسيره، 3 / 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1 / 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1 / 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1 / 77.
’’حضرت خالد بن معدان حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت ) کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔
12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ : فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
12 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہرِ نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابو بکر رضي اﷲ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضي اﷲ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوْحَی اﷲُ إِلَی عِيْسَی عليهم السلام يَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَولَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
13 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں حضرت آدم عليہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہذا میں نے اس پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حديث صحيح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
14. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ ل، 5 / 592، الرقم : 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم : 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 / 459، الرقم : 7469، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم : 781، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 245، الرقم : 2028، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 153، وابن حيان فی العظمة، 5 / 1710.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مکّہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔
15. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
15 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (6)، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب : ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم : 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم : 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم : 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا : {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ}.‘‘
اسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث حسن اور صحيح الاسناد ہے۔
11. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ، وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.
11 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات، 1 / 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 170، 3 / 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 131، والطبري في جامع البيان، 1 / 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 361، والسمرقندي في تفسيره، 3 / 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1 / 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1 / 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1 / 77.
’’حضرت خالد بن معدان حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت ) کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔
12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ : فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
12 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہرِ نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابو بکر رضي اﷲ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضي اﷲ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوْحَی اﷲُ إِلَی عِيْسَی عليهم السلام يَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَولَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
13 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں حضرت آدم عليہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہذا میں نے اس پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حديث صحيح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
14. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ ل، 5 / 592، الرقم : 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم : 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 / 459، الرقم : 7469، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم : 781، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 245، الرقم : 2028، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 153، وابن حيان فی العظمة، 5 / 1710.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مکّہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔
15. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
15 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (6)، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب : ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم : 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم : 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم : 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا : {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ}.‘‘
اسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث حسن اور صحيح الاسناد ہے۔
میرے نبی ﷺ کب سے نبی ﷺ ھیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ۔ حدیث نمبر 6 تا 10 ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6. وفي رواية : عَنْ عُمَرَ رضي اﷲ عنه قاَلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السَّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
’’ایک اور روایت میں حضرت عمر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔‘‘
امام سیوطی اور ابن کثير نے فرمایا کہ اسے امام ابونعيم نے روایت کیا ہے۔
7. وفي رواية : عَنْ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عامر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ : أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : أَلاَ تُعْطِيْنِي شَيْئًا أَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ : فَأَفْرَجُوْا لَهُ، حَتَّی جَلَسَ، قَالَ : أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ : أَخَذَ اﷲُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَلاَ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} الأحزاب، 33 : 7 وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 333، الرقم : 835، وفي مسند الشاميين، 2 / 98، الرقم : 984، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 397، الرقم : 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 323.
’’حضرت ابو مریم (سنان) رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور جو مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ تو لوگوں نے کہا : رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، بے شک جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے اس شے کا علم ہو جائے، فرمایا : اس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی علاماتِ نبوت میں سے پہلی چیز کیا تھی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام عليہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (عليہ السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔
9. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِکَ، دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَی قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذَلِکَ تَرَی أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صلوات اﷲ عليهم أجمعين.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
9 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 127.128، الرقم : 17190، 17203، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 90، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 168، والطبری في جامع البيان، 28 / 87، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، 4 / 361، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وفي الدر المنثور، 1 / 334.
’’حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں، لوحِ محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔
10. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2 : 129[، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
10 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
اس حديث کو امام ابو نعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے
6. وفي رواية : عَنْ عُمَرَ رضي اﷲ عنه قاَلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السَّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
’’ایک اور روایت میں حضرت عمر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔‘‘
امام سیوطی اور ابن کثير نے فرمایا کہ اسے امام ابونعيم نے روایت کیا ہے۔
7. وفي رواية : عَنْ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عامر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
8. عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ : أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : أَلاَ تُعْطِيْنِي شَيْئًا أَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ : فَأَفْرَجُوْا لَهُ، حَتَّی جَلَسَ، قَالَ : أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ : أَخَذَ اﷲُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَلاَ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} الأحزاب، 33 : 7 وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 333، الرقم : 835، وفي مسند الشاميين، 2 / 98، الرقم : 984، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 397، الرقم : 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 323.
’’حضرت ابو مریم (سنان) رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور جو مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ تو لوگوں نے کہا : رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، بے شک جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے اس شے کا علم ہو جائے، فرمایا : اس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی علاماتِ نبوت میں سے پہلی چیز کیا تھی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام عليہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (عليہ السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔
9. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِکَ، دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَی قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذَلِکَ تَرَی أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صلوات اﷲ عليهم أجمعين.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
9 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 127.128، الرقم : 17190، 17203، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 90، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 168، والطبری في جامع البيان، 28 / 87، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، 4 / 361، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وفي الدر المنثور، 1 / 334.
’’حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں، لوحِ محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔
10. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2 : 129[، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
10 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
اس حديث کو امام ابو نعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...