Tuesday, 10 February 2015

ہمارے نبی ﷺ سب سے زیادہ حسین ہیں ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

 صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۴۸
۶۰۴۸۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحٰقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ يَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ عَظِيمَ الْجُمَّةِ إِلٰی شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ عَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ مَا رَأَيْتُ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

۶۰۴۸۔ محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، ابواسحاق، حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گنجان بالوں والے تھے جو کانوں کی لو تک آتے تھے، آپ پر ایک سرخ دھاری دار چادر تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین چیز کبھی نہیں دیکھی۔

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۴۹
۶۰۴۹۔ حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَأَبُو کُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحٰقَ عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرُهٗ يَضْرِبُ مَنْکِبَيْهِ بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ قَالَ أَبُو کُرَيْبٍ لَهٗ شَعَرٌ۔

۶۰۴۹۔ عمرو ناقد، ابوکریب، وکیع، سفیان، ابواسحاق، حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کسی پٹے والے کو سرخ جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال مبارک آپ کے کندھوں تک آرہے تھے آپ کے دونوں کندھوں کا درمیانی حصہ وسیع تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ زیادہ لمبے قد کے تھے اور نہ ہی چھوٹے قد کے۔

صحیح مسلم۔ جلد:۳/ تیسرا پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۵۰
۶۰۵۰۔ حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا إِسْحٰقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ يُوسُفَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي إِسْحٰقَ قَالَ سَمِعْتُ االببراءَ يَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا وَأَحْسَنَه خَلْقًا لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الذَّاهِبِ وَلَا بِالْقَصِيرِ۔

رسول اکرم نور مجسّم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی ایک ھی سزا اس کی گردن اڑا دو ۔

 اس وقت اسلام اور کفر کا مقابلہ بڑی شدت سے جاری ہے۔ اس معرکے کے بہت سے پہلو ہیں۔ آج یہ معرکہ اس انتہا پر پہنچ گیا ہے کہ اللہ کے دشمنوں نے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو نشانہ بنا لیا ہے۔ مسلسل گستاخیاں کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی طرف سے بہت شدید خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اسلام ان کو دنیا میں ابھرتا ہوا اور پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ فروغ اسلام کو روکنے میں وہ پوری طرح بے بس ہیں۔ اور شدید پیچ وتاب کھا رہے ہیں تو آج غصہ کہاں نکل رہا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاکے چھاپ کر اور اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن کے خلاف، اسلام کے خلاف، اور حامل قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف فلمیں بنا رہے ہیں، ان فلموں، خاکوں کی خوب تشہیر ہو رہی ہے۔مقصد کیا ہے ؟ صرف اور صرف اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے دلوں سے بنی کریم ۖ کی محبت اور توقیر کو ختم کرنا لیکن جس کا ذکر میرے رب کعبہ نے بلند کیا ہو اس کو نہ کسی مادی وسائل کو ضرورت ہے نہ کسی کی مدد کی۔ اللہ رب العزت نے قران پاک جو لاریب ( جس میں کوئی شک نہیں ) کتاب میں فرمایا ۔'' اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کیا۔و پھر کیوں کر کسی کی غلیظ حرکتوں سے میرے نبی کی شان اقدس میں کمی آسکتی ہے۔ی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کا تو غیر مسلم بھی اقرار کرتے تھے۔ رحمة اللعالمین صرف انسانوں کیلئے ہی نہیں حیوانات کیلئے بھی امام الانبیا علیہ السلام رحمت بن کر تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی سے ان کا درجہ کبھی نہیں گھٹتا بلکہ ان کا نام مزید پھیلتا رہا۔ گستاخوں نے فلم تو بنائی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی قونصلیٹ سے ان کا جھنڈا گرا دیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کا جھنڈا گھاڑ دیا گیا۔ اور اگر ساری دنیا خاموش بھی ہوجائے اور سب بے غیرت بن جائیں تو بھی اللہ تعالی کی یہ آیت کافی ہے۔قران پاک کی آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فریایا ''نا فینا المستہزِئین''
ترجمعہ: آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لئے ہم کافی ہیں۔ الحجر۔ 95
ایک اور جگہ میرے اللہ کریم نے قرآن میں فرمایا۔اِن الذِین یوذون اللہ ورسولہ لعنہم اللہ فِی الدنیا والاخِر۔ الاحزاب۔ 57
ترجمہ "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہےمطلب یہ کہ وہ لوگ جو اللہ کی گستاخیاں کریں اور اس کے رسول کی گستاخیاں کریں ان کو ایذا (تکلیف) پہنچائیں۔ اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر لعنتیں ہیں دنیا میں بھی وہ لوگ ملعون ہیں اور آخرت میں بھی ملعون ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان اقدس میں ان گستاخیوں کو سیاسی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ کا ایک معرکتہ الآرا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کی حقیقت واقعیت، اس کی شدت اور اس کی حساسیت کا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ رسمی سی قرار دادیں پیش کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کا حساب دنیا اور آخرت میں دینا پڑے گا۔ اللہ کے دشمن کس شدت سے اس مسئلے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہماری قراردادوں کا ان پر کوئی اثر نہیں، ہماری اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں میں ان گستاخوں کے متعلق کیا کہا جا رہا ہے، ان کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ ان باتوں کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دے رہے۔ آج مغرب اس بات پر مطمئن ہے کہ آج مسلمانوں کے رسول کی شان میں جتنی چاہیں گستاخیاں کر لیں، یہ محض قرار دادیں پاس کریں گے، جلوس نکالیں گے اور سڑکوں پر نکل کر اپنا غصہ ختم کر لیں گے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا، وہ اس بات سے پوری طرح مطمئن ہیں۔اے ایمان کے دعویدار مسلمانو!ایسے ملعونوں سے تمھیں نمٹنا ہے تاکہ تم محبت رسول کے سلسلے میں رب کے حضور سرخرو ہو سکو۔ ورنہ جہاں وہ اپنے برے انجام سے دوچار ہوں گے مسلمانو! تم بھی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر مجرم ٹھہرو گے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس آیت کو پیش کر کے اس سے یہ نتیجہ نقل فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول کی گستاخی کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدس پر سب وشتم کرے تو ایسا شخص ملعون ہے۔ اللہ کا قرآن کبھی کسی مسلمان شخص کو ملعون نہیں کہہ سکتا، ایسا ہر شخص جو گستاخی کرے اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ بالاتفاق امت مسلمہ کے نزدیک یہ طے شدہ مسئلہ ہے کہ ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، اس کا حکم (مرتد) کا ہے۔ ایسے فعل کا مرتکب ایک ہو یا پوری جماعت۔ ان کی سزا صرف ایک ہے کہ ایسے لوگوں اور ایسی قوموں کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے یہ فریضہ اللہ تعالی نے مسلمانوں پر عائد کیا ہے صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے ہمیں سمجھ آئے گا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ گستاخوں کی سزائیں، عہد رسول اللہ اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں کیا تھیں؟ انھوں نے اس مسئلہ پر امت مسلمہ کے لئے کیا اسوہ حسنہ چھوڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا، آپ کی ذات کو گالی بکنے والا خواہ مسلمان ہو یا کافر، تمام آئمہ، مجتہدین اور فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق واجب القتل ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوائے تب بھی قتل واجب ہے یہ مسئلہ ایسا حساس ہے کہ کوئی کافر بھی گستاخی کرے گا تو سزا قتل ہے۔سیدنا علی سے روایت ہے ایک یہودی عورت نبی کریمۖ کو گالیاں دیا کرتی تھی اور آپ کے بارے میں نا زیبا الفاظ بولتی تھی، تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ یہاں تک کہ وہ مر گئی، تو رسول اللہ نے اس کا خون ضائع قرار دیا۔ ابوداود، کتاب الحدود، باب الحکم فیمن سب النبی ۖ :۔ اخرجہ البیہقی:۔ علامہ ناصر الدین البانی کہتے ہیں: اسنادہ حسن علی شرط الشیخین۔ ارواالغلیل:۔ اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے، اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہے، شاتم رسول کے قاتل پر نہ کوئی قصاص ہے اور نہ ہی دیت۔ اس قانون میں مسلم و غیر مسلم سب برابر ہیں، یعنی جو بھی گستاخی کرے گا اس سے معافی کا مطالبہ کیے بغیر قتل کی سزا دی جائے گی، جرم ثابت ہونے پر حدود اللہ میں بالخصوص حرمت رسول کے مسئلہ میں کوئی رعایت نہیں ہے۔ جو کوئی گستاخ توبہ کر لے تو اس کی توبہ کا فائدہ اس کو آخرت میں ضرور ہوگا، لیکن دنیا میں اس کو سزا دی جائے گی۔ اس قانون کا نفاذ حکومت کرے گی تو امن و امان قائم رہے گا اور گستاخی کا دروازہ بند رہے گا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو بد امنی پیدا ہوگی اور غیرت ایمانی کی وجہ سے لوگ گستاخوں کو قتل کریں گے، قانون اپنے ہاتھ میں لیں گے جس سے حکومت کے لیے پریشانیاں پیدا ہوں گی ۔

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزاء آئمہ اربعہ کی نظر میں
محترم قارٸینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی سزائے قتل پر ائمہ اربعہ اور علماء امت علیہم الرّحمہ کا اجماع ہے : عربی لغت میں ”سب“ کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز کے بارے میں ایسے کلمات کہے جائیں جن سے اس چیز میں عیب و نقص پیدا ہو سکے ۔ (مرقاة شرح مشکواة) ۔ ابنِ تیمیہ لکھتے ہیں : جو کلام عرف میں نقص ، عیب ، طعن کےلیے بولی جاتی ہو ، وہ ”سب و شتم“ ہے ۔ (الصارم المسلول صفحہ نمبر ۵۳۴)

معاملہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور ذاتِ مقدسہ کا ہو تو احتیاط و ادب کا لازم ہونا کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیغام اور نبوت سے اختلاف بھی اباحتِ دم کے زمرے میں آتا ہے ، چہ جائیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت اور مذمت کی جائے ۔

علامہ ابنِ تیمیہ اس سلسلہ میں یوں رقم طراز ہیں : اس کی مزید توضیح یہ ہے کہ اس کے محض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے سے اعراض کرنے کی وجہ سے (جبکہ وہ معاہد نہ ہو) اس کا خون مباح ہو جاتا ہے اور ان حقوقِ واجبہ سے روگردانی کرنے کی بنا پر اس کو سزا دینا روا ہو جاتا ہے۔ یہ صور تحال محض اسے اس لیے پیش آتی ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اعزاز و احترام سے صرف سکوت اختیار کیا، لیکن جب اس کے عین برعکس وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی مذمت کرتا ، گالی دیتا اور توہین کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کی سزا اباحت سے بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ سزا کا تعین جرم کی نوعیت کے اعتبار سے کیا جاتا ہے ۔ (الصارم المسلول صفحہ ۵۹۳ مترجم اردو،چشتی)

علامہ ابنِ تیمیہ مزید صراحت کرتے ہیں کہ : جب ہم کسی مشرک یاکتابی کو سنیں کہ وہ الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دے رہا ہے تو ہمارے اور اس کے مابین کوئی عہد قائم نہیں رہتا بلکہ بقدرِ امکان و استطاعت ان سے جہاد و قتال ہم پر واجب ہے ۔ (الصارم المسلول صفحہ ۲۹۱)

گالی کے معنی و مفہوم معلوم ہو جانے کے بعد دیکھیے گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا سے متعلق احکام الفقہ کیا ہیں اور ائمہ اربعہ کے فتاویٰ اور تصریحات کیا ہیں : ⏬

امامِ اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب : ⏬

علامہ خیرالدین رملی حنفی فتاوٰی بزازیہ میں لکھتے ہیں : شاتمِ رسول اکو بہرطور حداً قتل کرنا ضروری ہے ۔ اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی ، خواہ یہ توبہ گرفت کے بعد ہو یا اپنے طور پر تائب ہو جائے کیونکہ ایسا شخص زندیق کی طرح ہوتا ہے ، جس کی توبہ قابلِ توجہ ہی نہیں اور اس میں کسی مسلمان کے اختلاف کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اس جرم کا تعلق حقوق العباد سے ہے ، یہ صرف توبہ سے ساقط نہیں ہو سکتا ، جس طرح دیگر حقوق (چوری، زنا) توبہ سے ساقط نہیں ہوتے اور جس طرح حد ِ تہمت توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ یہی سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، امام اعظم ، اہل ِکوفہ اور امام مالک علیہم الرّحمہ کا مذہب ہے ۔ (تنبیہ الولاة و احکام صفحہ ۳۲۸)

امام ابن عابدین شامی حنفی رحمةُ اللہ علیہ امت کی رائے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : تمام اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ گستاخِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قتل واجب ہے اور امام مالک ، امام ابولیث ، امام احمدبن حنبل ، امام اسحاق اور امام شافعی علیہم الرّحمہ ، حتیٰ کہ سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان تمام کا مسلک یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے ۔ (فتاویٰ شامی جلد ۳ صفحہ ۳۱۸)

فقہ حنفی کے معتبر امام ، اما م ابن ہمام لکھتے ہیں : جو بھی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض رکھے ، وہ مرتد ہو جاتا ہے ۔گالی دینے والا تو بطریقِ اولیٰ مرتد ہو گا ، ہمارے نزدیک ایسے شخص کو بطورِ حد قتل کرنا ضروری ہے اور اس کی توبہ کو قبول کرتے ہوئے قتل معاف نہیں کیا جائے گا ، اہلِ کوفہ، امام مالک ، بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہی منقول ہے ۔علماء نے یہاں تک فرمایا کہ گالی دینے والا نشے میں ہو تب بھی قتل کیا جائے گا اور معاف نہیں ہوگا ۔ (فتح القدیر جلد ۴ صفحہ ۴۰۷۔،چشتی)

علامہ طاہر بخاری اپنی کتاب خلاصہ الفتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ : محیط میں ہے کہ جو نبی ا کو گالی دے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دینی معاملات یا آپ اکی شخصیت یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف میں سے کسی وصف کے بارے میں عیب جوئی کرے چاہے گالی دینے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ہو خواہ اہل کتاب وغیرہ میں سے ہو ذمی یا حربی ، خواہ یہ گالی اہانت اور عیب جوئی جان بوجھ کر ہو یا سہواً اور غفلت کی بناء پر نیز سنجیدگی کے ساتھ ہو یا مذاق سے ، ہر صورت میں ہمیشہ کے لئے یہ شخص کافر ہوگا اس طرح کہ اگر توبہ کرے گا تو بھی اس کی توبہ نہ عنداللہ مقبول ہے اور نہ عند الناس اور تمام متقدمین اور تمام متاخرین و مجتہدین کے نزدیک شریعت مطہرہ میں اس کی قطعی سزا قتل ہے ۔حاکم اور اس کے نائب پر لازم ہے کہ وہ ایسے شخص کے قتل کے بارے میں ذرا سی نرمی سے بھی کام نہ لے ۔ (خلاصہ الفتاویٰ صفحہ ۳۸۶ جلد ۶)

خطابی کا قول ہے کہ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے بدگو کے قتل کے واجب ہونے میں اختلاف کیا ہو اور اگر یہ بدگوئی اللہ تعالیٰ کی شان میں ہو تو ایسے شخص کی توبہ سے اس کا قتل معاف ہو جائے گا ۔ (فتح القدیر صفحہ ۳۳۲ جلد ۵)

بزازی نے اس کی علت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حق العبد توبہ سے معاف نہیں ہوتا جیسے تمام حقوق العباد اور جیسا کہ حد قذف (تہمت کی سزا) توبہ سے ختم نہیں ہوتی۔ بزازی نے اس کی بھی تصریح کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی ایک کو برا کہنے کا یہی حکم ہے ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب : ⏬

ابنِ قاسم فرماتے ہیں کہ امام مالک سے مصر سے ایک فتویٰ طلب کیا گیا ، جس میں میرے فتویٰ کے بارے میں ، جس میں کہ میں نے شاتمِ رسو ل علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا تھا، تصدیق چاہی گئی تھی ۔ اس فتویٰ کے جواب میں امام مالک نے مجھ ہی کو اس فتویٰ کا جواب لکھنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ میں نے یہ جواب لکھا کہ ایسے شخص کو عبرتناک سزا دی جائے اور اس کی گردن اُڑا دی جائے۔ یہ کلمات کہہ کر میں نے امام مالک سے عرض کی کہ اے ابو عبدالله ! (کنیت اما م مالک) اگر اجازت ہو تویہ بھی لکھ دیا جائے کہ قتل کے بعد اس لاش کو جلا دیا جائے ۔ یہ سن کر امام مالک نے فرمایا ” یقیناً وہ گستاخ اسی بات کا مستحق ہے اور یہ سزا اس کے لیے مناسب ہے ۔ چنانچہ یہ کلمات میں نے امام موصوف کے سامنے ان کی ایماء پر لکھ دیے اور اس سلسلے میں امام صاحب نے کسی مخالفت کا اظہار نہ کیا۔ چنانچہ یہ کلمات لکھ کر میں نے فتویٰ روانہ کر دیا اور اس فتویٰ کی روشنی میں اس گستاخ کو قتل کر کے اس کی لاش کو جلا دیا گیا ۔ (کتاب الشفاء جلد ۲ صفحہ ۴۵۳ مترجم اردو،چشتی)

ابنِ کنانہ کا حکام کو مشورہ : مسبوط میں ابنِ کنانہ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی بارگاہِ رسالت میں گستاخی کا مرتکب ہو تو میں حاکمِ وقت کو مشورہ دیتا ہوں اور ہدایت کرتا ہوں کہ ایسے گستاخ کو قتل کر کے اس کی لاش کو پھونک دیا جائے یا براہ راست آگ میں جھونک دیا جائے ۔ (کتاب الشفاء جلد ۲ صفحہ ۴۵۳ از قاضی عیاض مالکی)

حکمِ قتل پر علمائے مالکیہ کی دلیل : ⏬

قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ہمارے علمائے مالکیہ نے ایسے گستاخ ذمی کے قتل کے حکم پر قرآنِ کریم کی اس آیت سے استدلال کیا ہے : اور اگر وہ اپنی قسموں کو توڑیں اور عہد شکنی کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے بارے میں بدگوئیاں کریں ، تو ان کفر کے سرغنوں سے لڑو ۔ (سورہ التوبہ آیت نمبر ۱۲) ۔ اس آیتِ قرآنی کے علاوہ علمائے مالکیہ نے سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعب بن اشرف کو اس کی گستاخیوں کی وجہ سے قتل کروایا تھا ۔ اس گستاخ کے علاوہ اور دوسرے گستاخ بھی تعمیلِ حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قتل کیے گئے تھے ۔ (کتاب الشفاء جلد ۲ صفحہ ۴۴۶ ۔ ۴۴۷،چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جو شخص بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات یا دین یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت میں نقص و عیب نکالے یا اسے ایسا شبہ لاحق ہو ، جس سے آپ اکو گالی دینے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیصِ شان ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض و عداوت اور نقص و عیب کا پہلو نکلتا ہو، وہ دشنام دہندہ ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو گالی دینے والے کا ہے اور وہ یہ کہ اسے قتل کیا جائے ۔ اس مسئلہ کی کسی شاخ کونہ مستثنیٰ کیا جائے اور نہ اس میں شک و شبہ روا رکھا جائے خواہ گالی صراحتاً دی جائے یا اشارةً ۔ وہ شخص بھی اسی طرح ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لعنت کرے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان پہنچانا چاہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بددعا کرے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے لائق نہ ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی چیز کے بارے میں رکیک ، بے ہودہ اور جھوٹی بات کرے یا جن مصائب سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم دوچار ہوئے ان کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عیب لگائے یا بعض بشری عوارض کی وجہ سے ، جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوچار ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیصِ شان کرے، اس بات پر تمام علماء اور ائمہ الفتویٰ کا عہدِ صحابہ سے لے کر اگلے تاریخی ادوار تک اجماع چلا آرہاہے ۔ (الصارم المسلول صفحہ ۷۴۵ اردو)

امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تفسیر میں لکھتے ہیں : مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں کہا کہ کعب بن اشرف کو بدعہدی کرکے قتل کیا گیا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اس کہنے والے کی گردن مار دی جائے ۔ (کیونکہ کعب بن اشرف کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا بلکہ وہ مسلسل بدگوئی اور ایذاء رسانی کی وجہ سے مباح الدم بن گیا تھا) ۔ اسی طرح کا جملہ ایک اور شخص ابن یامین کے منہ سے نکلا تو کعب بن اشرف کو مارنے والے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کی مجلس میں یہ بات کہی جا رہی ہے اور آپ خاموش ہیں۔خدا کی قسم! اب آپ کے پاس کسی عمارت کی چھت تلے نہ آؤں گااور اگر مجھے یہ شخص باہر مل گیا تو اسے قتل کر ڈالوں گا ۔ علماء نے فرمایا ایسے شخص سے توبہ کے لیے بھی نہ کہا جائے گا بلکہ قتل کردیا جائے گا جو نبی ا کی طرف بدعہدی کو منسوب کرے ۔ یہی وہ بات ہے ، جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا ،اس لیے کہ یہ تو زندقہ ہے ۔ (تفسیر قرطبی صفحہ ۸۲ جلد ۸،چشتی)

اسلام (کافر ساب) کے قتل کو ساقط نہ کرے گا ۔ اس لیے کہ یہ قتل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق کی وجہ سے واجب ہو چکا ہے ، کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے عزتی کی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نقص و عیب لگانے کا ارادہ کیا ہے ، اس لئے اسلام لانے کی وجہ سے بھی اس کا قتل معاف نہ ہوگا اور نہ یہ کافر مسلمان سے بہتر ہوگا ، بلکہ بدگوئی کی وجہ سے باوجود توبہ کے دونوں کو چاہے کافر ہو یا مسلم قتل کر دیا جائے گا ۔ (تفسیر قرطبی صفحہ ۸۴ جلد ۸)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب : ⏬

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے صراحتاً منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے سے عہد ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کر دینا چاہیے ۔ ابن المنذر ، الخطابی اور دیگر علماء نے ان سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔ امام شافعی اپنی کتاب ”الام“ میں فرماتے ہیں : جب حاکمِ وقت جزیہ کا عہد نامہ لکھنا چاہے تو اس میں مشروط کا ذکر کرے ۔ عہد نامے میں تحریر کیا جائے کہ اگر تم میں سے کو ئی شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا کتاب الله یا دینِ اسلام کا تذکرہ نازیبا الفاظ میں کرے گا تو اس سے الله تعالیٰ اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری اٹھ جائے گی ، جو امان اس کو دی گئی تھی ، ختم ہو جائے گی اور اس کا خون اور مال امیر المومنین کے لیے اس طرح مباح ہو جائے گا جس طرح حربی کافروں کے اموال اور خون مباح ہیں ۔ (الصارم المسلول صفحہ ۳۲ ۔ ۳۳ اردو)

امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بن سخنون بھی اجماع نقل کرتے ہیں : اس بات پر علماء کا اجماع منعقد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوگالی دینے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے والا کافر ہے اور اس کے بارے میں عذابِ خداوندی کی وعید آئی ہے ۔ امت کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے اور جو شخص اس کے کفر اور اس کی سزا میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔ (الدرمختار جلد ۳ صفحہ ۳۱۷)(نسیم الریاض شرح الشفاء جلد ۴ صفحہ ۳۳۸،چشتی)(الصارم المسلول صفحہ ۲۵ ۔ ۲۶ اردو)

صحیح بخاری کے مشہور شارح جلیل القدر محدث ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب فتح الباری صفحہ ۲۳۶ جلد ۱۲ میں لکھتے ہیں : ابن المنذر نے اس بات پر علماء کا اتفاق نقل کیا کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے ، اسے قتل کرنا واجب ہے ۔ ائمہ شوافع کے معروف امام ابو بکر الفارسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تہمت کے ساتھ برا کہے ، اس کے کافر ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے ، وہ توبہ کرے تو بھی اس کا قتل ختم نہ ہوگا کیونکہ قتل اس کے تہمت لگانے کی سزا ہے اور تہمت کی سزا توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب : ⏬

جو شخص رسو لِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرے ، خواہ وہ مسلم ہو یا کافر ، تو وہ واجب القتل ہے ۔ میری رائے یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے ۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں : ہر آدمی جو ایسی بات کرے جس سے الله تعالیٰ کی تنقیصِ شان کا پہلو نکلتا ہو ، وہ واجب القتل ہے ؛ خواہ مسلم ہو یا کافر ، یہ اہلِ مدینہ کا مذہب ہے ۔ہمارے اصحاب کہتے ہیں کہ الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف گالی کا اشارہ کرنا ارتداد ہے ، جو موجبِ قتل ہے ۔ یہ اسی طرح جیسے صراحتاً گالی دی جائے ۔
علامہ ابن ِتیمیہ اپنے امام کا عقیدہ ارقام لکھتے ہیں : ابوطالب سے مروی ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیتا ہو ۔ فرمایا : اسے قتل کیا جائے ، کیونکہ اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دے کر اپنا عہد توڑ دیا ۔ حرب کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے ایک ذمی کے بارے میں سوال کیاکہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی تھی ۔ آپ نے جواب دیاکہ اسے قتل کیا جائے ۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے جملہ اقوال میں ایسے شخص کے واجب القتل ہونے کی تصریح ہے ، اس لیے کہ اس نے عہد شکنی کا ارتکاب کیا ۔ اس مسئلہ میں ان سے کوئی اختلاف منقول نہیں ۔ (الصارم المسلول صفحہ ۲۷۔ ۲۸ اردو)

خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرنے والے کے کفر اور اس کے مستحقِ قتل ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ چاروں ائمہ (امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل علیہم الرّحمہ) سے یہی منقول ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد ۳ صفحہ ۳۲۱)

ائمہ اربعہ کی تصریحات کے بعد چاروں مذاہب کے جیّد اور محقق علمائے کرام نے اس خاص مسئلہ پر چار انمول کتب تصنیف فرما کر اتمامِ حجت کر دیا ہے اور ان میں گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا اپنے اپنے زاویہ نظر سے ”حداً قتل“ قرار دی گئی ہے ۔ ان کتب کے نام یہ ہیں : (کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قاضی عیاض اندلسی مالکی متوفی ۵۵۴ھ،چشتی)(الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول علامہ ابنِ تیمیہ حنبلی متوفی ۷۲۸ھ)(السیف المسلول علیٰ شاتم الرسول مولفہ امام تقی الدین سبکی شافعی متوفی ۷۵۶ھ)(تنبیہ الولاة وا لحکام علیٰ احکام شاتم خیر الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی مخالفت بھی کفر ہے
اگر کسی شخص نے بیان کیا کہ ناخنوں کا کاٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور سننے والے نے کہا ٹھیک ہے سنت تو ہے مگر میں پھر بھی نہیں کاٹتا ، اس سے بھی وہ کافر ہو جائے گا ۔ (خلاصة الفتاوٰی جلد ۴ صفحہ ۳۸۶)

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ مامون کے سامنے بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کدو پسند فرماتے تھے ۔ ایک آدمی فوراً بولا : میں اسے پسند نہیں کرتا ۔ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ تلوار اور چمڑا لایا جائے (جو قتل کےلیے منگوایا جاتا ہے) اس آدمی نے کہا میں نے جو کچھ ذکر کیا اس سے اور تمام موجبات کفر سے استغفار کرتا ہوں ۔ اشہد ان لا الہ اللّٰہ و اشہد ان محمدا عبدہ و رسولہ ۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے اسے چھوڑ دیا اور قتل نہیں کیا ۔ اسی قسم کا ایک واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ مامون کے زمانے میں ایک شخص سے پوچھا گیا کہ اگر کسی نے جولاہے کو قتل کیا تو کیا حکم ہے ؟ جواب دینے والے نے (قتل کے حکمِ شرعی کا) مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ایک خوبصورت تروتازہ باندی دینی ہو گی ۔ مامون نے یہ جواب سنا تو جواب دینے والے شخص کی گردن اڑانے کا حکم دیا جس پر عمل کیا گیا اور مامون نے کہا کہ یہ شریعت کے احکام کا استہزاء ہے اور شریعت کے کسی بھی حکم کا مذاق اڑانا کفر ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر للقاری صفحہ ۱۳۲ تا ۱۳۴)

امام اہلسنت امام احمد رضا خا ن قادری رحمۃ اللہ علیہ الاشباہ والنظائر کے حوالے سے فرماتے ہیں : نشے کی حالت میں کسی مسلمان کے منہ سے کلمہ کفر نکل گیاتو اسے کافر نہ کہیں گے اور نہ سزائے کفر دیں گے مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشے کی بے ہوشی سے بھی صادر ہو تو اسے معافی نہ دیں گے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ۶ صفحہ ۴۰،چشتی)

علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں : انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی اور اہانت کرنا کفر ہے ۔ (امداد الفتاویٰ جلد ۵ صفحہ ۳۹۳)

فتاویٰ دارالعلوم دیو بند میں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی طرف فواحش کی نسبت کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا : یہ کفر ہے ، کیونکہ یہ چیز انہیں گالی دینے اور ان کی توہین و تحقیر کے برابر ہے ۔ ( فتاویٰ دارالعلوم دیو بند صفحہ ۳۶۲)(فتاویٰ عالمگیری مصری جلد ۲ صفحہ ۳۶۳)

علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے الله یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی تو وہ کافر ہے ۔ (اکفار الملحدین صفحہ ۱۱۹،چشتی)(فتاویٰ شامی جلد ۳ صفحہ ۳۱۷)

علامہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں الفاظِ قبیحہ بولنے والا اگرچہ معنی حقیقتاً مراد نہیں لیتا بلکہ معنی مجازاً مراد لیتا ہے ، تاہم ایہام گستاخی و اہانت و اذیت ذاتِ پاک حق تعالیٰ شانہ اور جناب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خالی نہیں کہ اس میں گستاخی ، اہانت اور اذیت کا وہم پایا جاتا ہے اور یہی سبب ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے لفظ ” راعنا“ بولنے سے منع فرمایا اور ”انظرنا“ کا لفظ عرض کرنا ارشاد فرمایا ۔ پس ان کلماتِ کفر کے بکنے والے کو منع شدید کرنا چاہیے ۔اگر مقدور ہو اور اگر باز نہ آئے تو قتل کر دیا جائے کہ موذی حق تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجرم ہے ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ ۵۰)(لطائفِ رشیدیہ صفحہ ۲۲)

مذاہبِ اربعہ کی ان بے پایاں تصانیف اور خدمت کے بعد غیر مقلدین کے مشہور و معروف اور معتبر عالم علامہ وحید الزماں بھی اس موقف کی تائید کر تے ہوۓ لکھتے ہیں : کسی نبی علیہ السلام کی تحقیر یا توہین کفر ہے ۔۔۔ مسلمان نہ جناب خاتمِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے ادبی کرنے کو گوارہ کریں گے اور نہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ، نہ کسی اور نبی کے ساتھ اور جو کوئی جناب عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بے ادبی کرے گا ، اس مردود کو بھی ہم اسی طرح ماریں گے اور قتل کریں گے جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے ادبی کرنے پر اس کو ماریں گے اور قتل کریں گے ۔ (حاشیہ سنن ابنِ ماجہ مترجم علامہ وحید الزماں حاشیہ بربذکر البعاث صفحہ ۳۹۶ مطبوعہ الحدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور،چشتی)

گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے معافی ایک دھوکہ ہے : ⏬

بعض اخباروں میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ کارٹونسٹ نے معافی مانگ لی کہ ” اگر“ کسی کو تکلیف پہنچی ہو تومیں اس سے معافی چاہتا ہوں ، حالانکہ معروف ہستیوں کے نام لے لے کر اُن کی توہین کرنا آزادیِ اظہار نہیں ، لیکن پھر بھی معافی ایک دھوکہ ہے ، کیونکہ یہ پہلی مرتبہ ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بار بار کیا گیا اور کیا جاتا ہے اور اس پر تمام دنیا کے اہل ایمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ”معافیاں“ مانگی گئی ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ گستاخیاں کرنااور پھر اس پر ”معافی“ مانگنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے ۔ اللہ عزّوجل کی محبوب ترین ہستیوں کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنا بھی الله کے عذاب کو دعوت دینا ہے ۔ الله اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچانا ، دنیا اور آخرت میں اپنے اوپر ، اپنے حمایتیوں پر ، اپنے ہمنواٶں پر بلکہ ساتھ میں بہت سے عوام پر بھی عذابوں کا مطالبہ کر لینا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اوّل تو اُن سے معافی طلب نہیں کی گئی جس ہستی کو ایذا پہنچائی گئی ۔ دوسرے شریعت میں معافی کی گنجائش ہی نہیں اور وہاں سے معافی حاصل ہی نہیں ہو سکتی ، تو یہ سارے عالم کو دھوکہ دے کر اندھا بنانا ہے ۔ پھر یہ کہ کارٹونسٹ اور اُس کے سرپرستوں کے بیان میں ”اگر“ کا لفظ بتا رہا ہے کہ اب بھی اُن کے نزدیک کوئی بات اہانت ، تذلیل و تحقیر کی واقعی نہیں ہوئی ، اگر کسی کو خوامخواہ تکلیف ہوئی ہو تو معافی چاہتے ہیں ۔

ذرا غور تو کریں کہ معافی اور وہ بھی صرف اُس وقت کے متنبہ کرنے والوں سے اور پھر اپنی نظر میں غیر واقعی بات کہ ”اگر“ ہو تو ، یہ کیا معافی مانگنا ہوا ، یہ تمام دنیا کو دھوکہ دینے کے سوا اور کیا ہے ؟ یاد رکھئے الله تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ۔ وہ دلوں کا حال خوب جانتے ہیں ۔

دنیا بھر کے اربوں مسلمانوں کو جو اس وقت سخت اضطراب کی آگ میں بھن رہے ہیں اور تڑپ رہے ہیں ، کیا اس دھوکہ سے ان کو کوئی سکون ہو سکتا ہے ؟ جب مسلمانوں کو شرعی طور پر معاف کرنے کا حق ہی نہیں ہے تو کیا وہ عذاباتِ الٰہی جو ایسے عرش ہلا دینے والے گناہوں پر بے قرار ہو کر برس پڑتے ہیں ، اس سے ان کی کوئی رکاوٹ ہو سکتی ہے ؟

احکامِ الٰہی ، ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اجماعِ امت ، قیاسِ شرعی ، عقلِ سلیم ، ہتکِ عزّت کا قانون تمام دنیا کی قوموں اور مملکتوں میں دیکھ چکے ہیں تو اس کے سوا کیا چارہ کار ممکن ہے کہ ان توہین کرنے والوں اور ایذا دینے والوں کے وجود سے زمین و آسمان کو پاک کر دیا جائے ، یہی اصل توبہ ہے ، چاہے و ہ بدبخت مسلمان ہو ، ذمی ہو یا حربی کافر ہو ۔

عقلی وجوہات : ⏬

سب جانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الله تعالیٰ کی منتخب وہ اعلیٰ ہستی ہیں جن کےلیے الله نے اس دنیا کو قائم کیا اور تمام انبیاء پر مقدّم رکھا ، جو ان کی توہین کرے ، برا کہے یا مذاق اڑائے ایسے لوگ یا ان کا ساتھ دینے والے آخر کیسے الله کے عذاب سے بچ سکتے ہیں ، یہ خدائی احترامات کو پامال کرنے کا جرم ہے جو انتہائی خطرناک اور ناقابلِ معافی گناہ ہے ، چاہے ایسا کرنے والا پہلے مسلمان ہو پھر مرتد ہو کر دوبارہ اسلام قبول کر لے ، چاہے ذمی یا حربی کافر ہو اور توہین کرنے کے بعد اسلام قبول کر لے ۔ اسی طرح توہین کرنے والوں کو بے قصور تصور کرنا یا پھر یہ کہہ کر ان کے جرم کو ہلکا کرنا کہ وہ توہین کرتے ہیں تو کسی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کو اس بات کی اہمیت ہی معلوم نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے کیا ہیں ۔ یہ کہہ کر ان کو معاف کرنا اتنا ہی بڑا گناہ ہے جتنا کہ توہین کرنے والا شخص گناہگار ہے ۔ کیونکہ برائی کو برُا نہ سمجھنا بھی گناہ ہی ہے ، جس طرح ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کا ساتھ دینا ہوتا ہے ۔ پھر کافر اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے لئے کیا درجہ رکھتے ہیں، جبھی تو وہ اُن کی طرح طرح سے توہین کرتے ہیں ۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اگر کوئی شخص اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی سن کر خاموش رہے ، تو وہ شخص بھی اُس نبی کی امّت سے خارج ہو جاتا ہے ۔ (تحفظ ناموسِ رسالت اور گستاخِ رسول کی سزا صفحہ ۳۲۳ شائع کردہ عالمی تحفظ ختم نبوت ملتان)

ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ معمولی آدمی کی ہتکِ عزت بڑا جرم ہے اور ہر حکومت میں یہ جرم قابلِ سزا ہوتا ہے ۔اور جب ہتکِ عزت انتہائی معززین کی ہو تو انتہائی سزاٶں کا مستحق ہوتا ہے ۔

تمام قوموں سے ایک سوال : ⏬

اسرائیل ہو یا ساری دنیا ، مشرق و مغرب ، شمال و جنوب کی کوئی مملکت یا اقوامِ متحدہ یا کوئی ادارہ جس میں انسانیت کی کوئی رمق باقی ہو ، بلکہ دنیا بھر کے ہر ہر فرد سے یہ سوال ہے کہ اگر کوئی مسلمان یا دوسرے دین کا کوئی فرد آپ کے نبیوں ، مقتداؤں ، دین کے ستونوں اور ان کے اہلِخانہ کے نام لے لے کر یہ انتہائی برا کام کرے کہ ایک دن کو مقرر کر کے کارٹون ڈے منائے اور اس کو کرنے سے پہلے اعلان کرے کہ جو بھی حصہ لینا چاہے اسے دعوت عام ہے ، اور آپ کو اس پر طاقت و قدرت حاصل ہو تو آپ اُس کے ساتھ کیا کریں گے ؟

اگر یہ حرکت عالمِ انسانیت کسی طرح اپنے لیے قطعی برداشت نہیں کر سکتی تو اُس وقت وہ انسانیت کہاں غائب ہو جاتی ہے جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آجاتی ہے ؟ کیا آپ برداشت کر سکتے ہیں ؟ کیا آپ اُس وقت آگ بگولہ نہ ہوں گے ؟

مسلمانوں سے سوال : ⏬

اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دینے والوں سے متعلق قرآنی آیات آپ کے سامنے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گستاخوں کے ساتھ معاملہ آپ کے علم میں آ گیا ۔ احکاماتِ فقہ ، فتاوی ائمہ ، علماء کے ردعمل اور اجماعِ امت سے واقف ہونے کے بعد اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا قتل کے سوا کچھ نہیں اور معافی کا کوئی تصوّر نہیں ۔

آخر ہم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کا اب تک کتنا حق ادا کیا ؟ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمام عمر یہی دعا کرتے رہے کہ یا الله !میری امّت کو بخش دے اور جب اس دنیا سے تشریف لے جانے لگے تو اُن کے لبوں پر یہی الفاظ تھے کہ یا الله ! میری امّت کو بخش دے ۔ نہ کبھی اپنے لیے الله پاک سے سوال کیا نہ اپنی اولادوں کےلیے کچھ مانگا ، ہمیشہ امّت کا غم دل میں رکھا ۔ وہ جن کی دعاٶں سے آج ہم اجتماعی تباہی سے بچے ہوئے ہیں ، ورنہ وہ کون سا گناہ ہے جو امّت ِمحمد یہ نہیں کر رہی جن کی وجہ سے پچھلی قوموں کو الله جل شانہُ نے عذاب میں پکڑا اور صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ ہم ایسے کریم شفقت کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایسے الفاظ یا توہین آمیز خاکے کیسے برداشت کر لیتے ہیں ؟ اپنی بزدلی اور ایمانی کمزوری کا اقرار کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلّی دے لیتے ہیں کہ اب تو انہوں نے معافی مانگ لی ، حالانکہ شریعت میں اِس جرم کی تو معافی ہے ہی نہیں ۔

دین ہم تک پہنچانے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کےلیے ہم کھڑے نہ ہوئے تو ہمیں مسلمان کہلانے کا کیاحق ہے ؟ یہ آیت شاید ہم جیسوں کےلیے ہی نازل ہوئی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ : گنوار بولے ہم ایمان لائے تم فرماؤ تم ایمان تو نہ لائے ہاں یوں کہوں کہ ہم مطیع ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں کہاں داخل ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو گے تو تمہارے کسی عمل کا تمہیں نقصان نہ دے گا بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر ۱۴)

آج ہمارا زمانہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے قریب تر ہے ۔ جو اجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمیٹ لیا اب وہ کوئی اور نہیں پا سکتا ، انہوں نے اسلام کی بنیاد رکھی ، انہوں نے اُس وقت دین کو تقویت دی جب چاروں طرف کفر کی ظلمت چھائی ہوئی تھی ۔ انہوں نے اپنے چار وں طرف پھیلے کافروں سے ٹکر لی ، خاص طور پر اُس وقت کی دو بڑی سلطنتوں روم اور فارس کی شوکت کو توڑا ۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کو بلاواسطہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ۔ آج اسلام پھر غریب الوطن ہے ۔ آج ہمارے زمانے میں بھی ساری دنیا پر عالمِ کفر چھایا ہوا ہے اور کہنے کو تو بہت سارے اسلامی ممالک بھی ہیں ، لیکن کسی بھی ملک میں شرعی اسلامی حکومت نہیں ہے ، ہر اسلامی ملک نے سربراہ چننے کا جو نظام اپنایا ہوا ہے ، اس میں کسی صورت عالمِ کفر کی مرضی کے برخلاف کوئی اسلامی ذہن رکھنے والا شخص منتخب ہی نہیں ہو سکتا۔یہ اور بھی خطرناک وقت ہے کہ الله کی زمین پر الله کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرنے والوں کو صرف کفار سے ہی نہیں ٹکرانا ہوتا ہے بلکہ ان کی حفاظت کرنے والے مسلمان اتحادیوں کی مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ بعینہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح نہیں پھر بھی ان سے مماثلت رکھتا ہے ۔ہم میں سے اکثر یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہم اگر دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتے تو اسلام کی فلاں خدمت کرتے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کر کے انوارات سمیٹتے ۔ ذرا آنکھ بند کر کے تصّور کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے روضے مبارک میں تشریف فرما ہیں ، فرشتے امت کے اعمال اور حالات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کر رہے ہیں ۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم د ل گرفتہ ہیں ۔۔۔ ہاں مدینے کی طرف کان لگا کر سنیں ۔۔۔ رسو ل الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں : من یکفینی عدوی “ میرے شمن کی خبر کون لے گا ؟ یہ ہم کو ایذا دیتے ہیں ۔ اب آنکھ کھول لیں ․․․ ہاں ، اب آنکھ کھول ہی لیں ، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں ، آپ میں ایمان کی کتنی رمق باقی ہے ؟ یقیناً ہر مومن کہے گا ” میں حاضر ہوں اے الله کے ر سول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری وقتوں میں لوگوں کی ایک ایسی نسل ہو گی کہ جن میں سے ایک کا اجر پچاس کے برابر ہو گا ۔ صحابہ نے پوچھا کہ ہم میں سے پچاس یا اُن میں سے پچاس ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے پچاس ۔ (الله ہمیں فتح کےلیے تیار کر رہا ہے ۔ امام انورالعلوقی)

اتنے زیادہ اجر کا ذکر کیوں فرمایا ، حالات کی سختیوں کی وجہ سے ۔ توجب اجر بٹنے کا وقت ہے پھر پیچھے رہنا کون چاہے گا ۔ ہاں !جنت کے اعلیٰ درجات تو قربانیوں سے ہی حاصل ہوتے ہیں ، لہٰذا سوچیں اورسمجھیں اپنے اعمال پہ نظر کریں ، اپنی صلاحیتوں کو ٹٹولیں اور دین کی سربلندی اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کے لئے استعمال کریں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافروں سے اتنی تکلیف نہیں پہنچتی جتنی اپنی امّت کے رویہ سے پہنچتی ہے ۔ اس دنیا سے آگے بھی ایک دنیا ہے ، جہاں ہمیں جانا ہے ، کسی کی سفارش یا مصلحت کام نہیں آئے گی ، اس دنیا میں تو ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر وہاں الله تعالیٰ سب کھول کر رکھ دے گا ۔ جو صراطِ مستقیم پر چلے گا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت کرے گا اُسی کا بیڑا پار ہو گا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

احناف کی نماز احادیث کی روشنی میں 4 حصّے مکمّل

Wednesday, 4 February 2015

اسلام میں پردے کا تصوّر ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعثت نبوی سے قبل پوری دنیا فتنہ و فساد میں گرفتار تھی۔ بے حیائی وبے پردگی ، عریانیت و فحاشی عام تھی۔ عورتیں صرف نفسانی خواہشات کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ لڑکیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں۔ صنف نازک کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہ تھی۔ ظہور اسلام نے زمانہ جاہلیت کے تمام تر غیر فطری و غیر انسانی رسم و رواج کو یکسر بدل کر ایک مہذب اور پاکیزہ معاشرہ عطا کیا اور سماج سے تمام تر برائیوں کا قلع قمع کردیا۔ اسلام ہی وہ مذہب مہذب ہے جس نے عورتوں کے حالات میں بہتری لائی۔ اور سوسائٹی میں عزت و عظمت ،تہذیب و تمدن ، عدل و مساوات کا درجہ دے کر ایک پاکیزہ معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ انہیں عصمت و عفت اور شرم و حیاء کے زیور سے آراستہ کرکے علم و عمل کا پیکر بنایا۔
 پیغمبر اسلام نے معاشرے میں پر امن قیام کے لئے جوپہلی تدبیر اختیار کی وہ یہ ہے کہ انسانی جذبات کو ہمہ قسم کے ہیجان و میلان سے بچاتے ہوئے مردوزن میں پائے جانے والی فطری و غیر فطری کشش و میلان کی ضابطہ بندی۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو چیز قابل انتفاع ہوتی ہے۔ اسے پردے میں رکھا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر اسے بے پردہ چھوڑ دیا جائے تو بہت سی برائیاں جنم لے لیتی ہیں۔ جب آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے ہیں تو انصاف سے بتائیے کہ اگر ایک حسین و جمیل جوان خاتون اپنے حسن اور زیبائش کے ساتھ بے حجاب لوگوں کے سامنے آئے گی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرے گی تو ہوس پرست لوگوں کی بد نظری کا شکار ہوگی یا نہیں۔اللہ تعالیٰ سورہ نور آیت ۳۱میں فرماتا ہے : میرے حبیب مسلمان مردوں کو حکم دو کے اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ کو انکے کاموں کی خبر ہے اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت اور اپنا بناؤ سنگھار(غیروں)کو نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔ اسی طرح سورہ احزاب آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوتا ہے: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادر کا حصہ اپنے منھ پر ڈالے رہیں۔ مذکورہ آیات میں مردوں کو اجنبی عورتوں کی طرف دیکھنے اور عورتوں اجنبی مردوں کی طرف دیکھنے سے روکا گیا اور اعلان عام فرمایا گیا کہ اپنی زیب و زینت بناؤ سنگھارہرگز ہرگز غیرمردوں پر ظاہر نہ کریں کیونکہ یہ فتنے کا موجب ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ کی زوجہ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ وہ اور آپ کی دوسری زوجہ حضرت میمو نہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم دونوں اس سے پردے میں چلی جاؤ میں نے عرض کیا کہ یارسوللہ ﷺ کیا یہ نابینا نہیں ہے
،تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو کیا تم اس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث 2778)یہ حدیث پاک مسلم خواتین کے لئے باعث عبرت ہے کہ حضور ﷺ نے نابینا شخص سے بھی پردہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر زمانے کی عورتوں میں زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کرنا بننا سنورنا پایا جاتا ہے اور ہر عورت کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت خوبصورت نظر آئے ۔ اسلام نے عورتوں کی اس فطرت پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی البتہ زیب و زینت کے اظہار کی خواہش کی حد بندی ضرور کی ہے۔ اسلام نے مسلمان عورتوں کو پردے کا پابند بنایا تاکہ وہ با حیا ء، پارسا اور صالحہ بنیں۔ اور غیر محرموں اور حوس پرست لوگوں کی بد نگاہی سے بچیں۔ اور اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنائیں۔ مسلم خواتین بھی بناؤ سنگھار کرتی ہیں، ان کا بننا سنورنا ، زیب و زینت سے آراستہ ہونا صرف اور صرف ان کے اپنے شوہروں کے لئے ہونا چاہئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ نے فرمایاکہ اپنی زیبائش صرف اپنے شوہروں پر ظاہر کریں ، عورتوں کے ان محارم کا ذکر کیا ہے جن پر زیبائش کو ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ اس زیب وزینت سے مراد زیورات وغیرہ ہے ۔ رہے عورتوں کے بال تو ان کو ان کے شوہروں کے سوا اور کسی کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں۔ عہد حاضر میں مسلم عورتیں عریاں لباس زیب تن کر کے بن ٹھن کر بازاروں میں اورشادی بیاہ کی محفلوں اور گلی کوچوں میں پھرا کرتی ہیں اور اپنے حسن کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ایسی عورتوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورتیں عطر(پھیلنے والی خوشبو) لگا کر کسی محفل سے گزرتی ہیں تو وہ ایسی ایسی ہیں جیسے زانیہ۔ مغربی دنیا میں عورتوں کی بے پردگی اور آزادنہ مردو زن کے اختلاط نے جن منفی نتائج کو جنم دیا ہے وہ کسی انصاف پسند شخص سے پوشیدہ نہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو اسلامی قانون کے مطابق عورتوں کو پردے میں رہنے پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ پردہ اسلام میں ضروری نہیں کیونکہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے ، عورتیں بیمار ہوجاتی ہیں ، انہیں صاف شفاف تازہ ہوا نہیں ملتی ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈہ ہے جو حقائق سے بعید ہے۔ پردے کے اسلامی احکام کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو بے راہ روی ، عریانیت، فحاشی، بے حیائی ، شہوانی فتنہ انگیزی سے بچانا ہے۔ اور مسلم خواتین کو پردے میں رہ کرگھریلو معالات میں دلچسپی رکھنے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت دے کر ان کے اخلاق و کردار سنوارنے کی تلقین کرتا ہے اور آزادانہ جاہلی زمانے کی عورتوں کی طرح گلی کوچوں میں گھومنے پھرنے سے روک کر گھر کی ملکہ بنے رہنے کو ترجیح دیتا ہے تاکہ ان کی عزت و آبروکی حفاظت ہو سکے اورہوس پرست لوگوں کی فتنہ انگیزی سے محفوظ رہ سکیں۔مسلم ماں اور بہنیں خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرہ کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔ سیدہ فاطمہ کے اندر یہ وصف جمیل خاص طورپر تھا کہ آپ پردے کی سخت پابند اور شرم و حیاء کا مجسمہ تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ عورتوں کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ غیر مرد ان کو دیکھے۔ آپ کی شرم و حیاء کا لحاظ خداوند قدوس کو بھی ہے ۔چنانچہ حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن ایک ندا کرنے والا پردے سے ندا کرے گا اے حشر کے میدان میں جما ہونے والو! اپنی نگاہیں نیچی کرلو یہاں تک کہ فاطمہ بنت محمد ﷺ ستر ہزار حوروں کے ساتھ بجلی کی طرح گزر جائیں گی۔ میری ماں اور بہنوں ہم میں بے شمار سماجی و اخلاقی برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں ، بے حجابی اور بے حیائی کو فیشن تصور کیا جانے لگا ہے ۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے اخلاقی اقدار پامال ہورہے ہیں۔موبائیل و انٹرنیٹ کا غلط استعمال نوجوان لڑکے لڑکیوں کو جنسی بے راہ روی کا شکار بنا رہا ہے۔ اسلامی معاشرہ میں انگریزی تعلیم سے مثبت نتائج کے بجائے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلم بچیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں اور اپنا دین و ایمان ہوس پرستی کے ہاتھوں فروخت کرکے مرتد ہورہی ہیں (العیاذ باللہ)اور ارتداد کا تناسب دن بدن بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ان برائیوں کا اصل سبب یہ ہے کہ والدین اپنے بچے اور بچیوں کی تربیت اسلامی انداز سے نہیں کرتے اور ان کے اخلاق و عادات سنوارنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اگر ماں باپ اپنی اولاد کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں تو معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اگر معاشرے کے اچھے لوگ ،اصلاح و فلاح کے لئے سامنے آجائیں تو یقین ہے کہ ہمارا معاشرہ برائیوں سے پاک ہوجائے گا ، بگڑا ہوا ماحول سدھرجائے گا اور غلط روی اور بد عملی کا سد باب ہوجائے گا، مسلمانوں میں دینی حمیت پیدا ہوجائے گی ۔ اسلامی شعور بیدار ہوجائے گا ، اور خدا کے بندے احکام خدا وندی کے پابندہوجائیں گے۔ نیکوں کی صحبت اختیار کریں گے۔ صالحین کی وضع قطع اپنائیں گے اور اپنی شکل و صورت اسلامی بنائیں گے۔ اسلامی لباس پہنییں گے اور اپنی پاکیزہ شناخت باقی رکھیں گے ، اور رحمت الہٰی کے مستحق بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت میں کامیاب و کامراں فرمائے۔

اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تعلیمات روشنی میں خواتین کے حقوق : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلوع اسلام سے قبل اس دنیا کی حالت انتہائی خستہ تھی۔ ہر جانب کفر و شرک، ظلم و زیادتی ، بدکاری و عیاری عام تھی۔ انسان ایک کوہ آتش فشاں کی طرح ہر لمحے بغض و عناد کی جنگ میں جل رہا تھا۔ ہر قبیلہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا ہواتھا، جذبات اتنے مشتعل تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر جنگ چھڑ جایا کرتی تھی۔ کسی کے جان و مال ، ساز وسامان کا تحفظ نہ تھا۔بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں ۔عورتوں کی کوئی عزت و وقعت نہ تھی ، دنیا کی حالت عجیب و غریب ہو چکی تھی۔عورت مرد کے دامن تقدس کا داغ کہی جاتی۔ دنیا کی تمام قدیم قومیں ذلت و رسوائی کے عمیق گہرائی میں پڑی تھیں۔ روم و یونان خود کو مہذب کہنے والی قوم انسانیت کے نام پر بدنماد اغ تھے۔ رومیوں اور یونانیوں کے دانشوروں کے فکر و اذہان پر عجیب و غریب ، حیرت کن دیوی اور دیوتاؤں کے نام مرتسم تھے۔ ان نگارشات دہر میں بے شمار لوگ صاحب سلطنت و سطوت آئے اور بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ لیکن کسی نے بھی عورتوں کے حقوق کی فکر نہ کی۔ قوم یہود و نصاری بھی صرف عورتوں کو نفسانی خواہشات کی تکمیل اور تفریح کا ذریعہ سمجھتے۔ اور ان کے حسن وشباب میں کمی آتے ہی انہیں گھر سے بے گھر کر دیاکرتے ، حیض و نفاس والی عورتیں یک و تنہا کرکے گھر سے باہر ایک تاریک و تنگ کمرے میں بند کر دی جاتیں ۔ ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جاتا ، اور معمولی معمولی غلطیوں پر جانوروں کی طرح زدو کوب کیا جاتا۔اہل عرب بچیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی انہیں منحوس سمجھتے اور دفن کرنے کی فکرکرتے ۔جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’ اور جب ان کو لڑکی کی پیدائش کی خبر دی جاتی تو دن بھر ان کا منہ سیاہ ہوجاتا، بیٹی کی پیدائش کی خبر سنتے ہی چہرہ بگاڑ لیتے ‘‘۔

 اسے پالنے ،پوسنے اور شادی بیاہ کرنے کے خوف سے انہیں زندہ دفن کردیتے تھے۔جیسا کہ فرمان الہٰی ہے قد خسر الذین قتلوا اولادہم سفہابغیرعلم۔ (سورہ انعام پارہ ۸)۔ ترجمہ: بے شک تباہ و برباد ہوئے وہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں جہالت سے ۔ صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ قرآن کریم نے قتل اولاد کو گناہ کبیرہ و فعل حرام کہا ہے۔ آخرت کا ڈر دلایا اس برے فعل سے باز رہنے کی تاکید فرمائی۔

 اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام قرطبی فرماتے ہیں: رحمت عالم ﷺکے ایک صحابی ہمیشہ غمگین رہا کرتے تھے ، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دریافت کیا: کیا وجہ ہے کہ تم ہمیشہ غمگین رہتے ہو تو اس پر انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)میں نے زمانۂ جاہلیت میں ایک بڑا گناہ کیا کہ جس کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کبھی معاف نہیں فرمائے گا، اسی خوف سے میں غمگین رہتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنا گناہ بتاؤ تو انہوں نے پورا واقعہ سنایا کہ میری ایک خوبصورت بچی تھی اور جب وہ بڑی ہوئی تو اس کی شادی کے پیغامات آنے لگے تو میری غیرت نے جوش مارا، لہٰذا میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں فلاں قبیلہ میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جارہا ہوں ، بچی کو بھی میرے ساتھ جانے کے لئے تیار کردو۔ شوہر کی خواہش پر انہوں نے بچی کو اچھے عمدہ لباس پہنادیے اور اس کو ساتھ لے کر چلا کہ راستے میں ایک کنواں دکھائی دیا،میں اپنی بچی کو اس کنویں میں ڈالنے لگا تو بچی نے مجھے پکار پکار کر کہا کہ میرے بابا مجھے اس کنویں میں اکیلے چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ کیا میں تمہاری پیاری بیٹی نہیں ہوں؟ یہ میرے کس جرم کی سزا ہے؟ بچی کی ان باتوں سے میرا دل دہل گیا ، محبت پدری غالب آگئی ،میں نے اسے کنویں سے نکال لیا لیکن پھر مجھ پر شیطان نے غلبہ کیا اور دوبارہ میں نے اسے اسی کنویں میں ڈال کر ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا۔ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دلخراش انسانیت سوز واقعہ کو سنا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔ آپ نے انتہائی غضب کے عالم میں فرمایا : اگر زمانہ جاہلیت کے کاموں پر سزا دیتا تو یقیناًتم کو سزا دیتا، لیکن اسلام سے ما قبل کے تمام گناہ معاف ہیں اس لئے تم اس گناہ سے بری ہو۔

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی عزت افزائی کے ساتھ اولاد کی پرورش اوراس کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی۔ اور خاص طورپر بچیوں کی پرورش کرنے والے کو بے پناہ اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی دو لڑکی کی پرورش کی ، یہاں تک کہ وہ بڑی ہوگئی تو وہ شخص قیامت کے دن آئے گا اس حال میں کہ وہ میرے قریب ہوگا۔ نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور انہیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا اور ادب سکھا یا، ان پر شفقت و محبت کی، یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو بے نیاز کر دیا، (مال کے ذریعے یا شوہر کے ذریعے)تو اللہ تعالیٰ نے ان پر جنت واجب کر دیا ۔یہ بشارت کو سن کر ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی تو اس کو کیا ملے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو پر بھی یہی بدلہ ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک بچی کے بابت پوچھا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ایک بچی کی تعلیم وتربیت اور شفقت و محبت کا بدلہ بھی جنت ہے۔

 نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں پھیلے ہوئے غیر اسلامی وغیر انسانی جراثیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور صنف نازک کو ظلم و استبداد کے شکنجوں سے رہائی دلا کر عزت و وقار عطا کیا۔ رحمت عالم کے رحم و کرم نے ہی ان بے سہارا عورتوں کو سہارا دیا اور زندگی کے ہر موڑ پر مردوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ اور مردوں کی طرح عورتوں کے حقو ق مقرر کئے ، عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں۔چنانچہ قرآن کریم سورہ بقرہ پارہ ۲ میں ارشاد ہے ’’ ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف ‘‘۔ ترجمہ’’ عورتوں کے لئے بھی پسندیدہ طورپر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے لئے ہیں‘‘۔ رحمت عالم کے اس اسلامی و شرعی قوانین نے عورتوں کو ان کی مہر کی رقم ،میراث، تجارت ، جائیداد اور شوہر کی ہر چیز کا وارث بنادیا۔ پیغمبر اسلام نے دنیا کو ایک ایسا انقلابی دستور اور ضابطہ حیات دیا کہ جس میں زندگی کے داخلی و خارجی مسائل کا حل موجود ہو اور ایسا قانون دیا جو صرف عقائد و عبادات پر مبنی نہیں بلکہ تمام تر اعمال صالحہ کا سر چشمہ ہو۔

 الغرض:۔ وہ عورتیں جو آج تک سب سے زیادہ ذلیل و رسوا سمجھی جاتی تھی ،انہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے دلوں کا چین و سکون اور ان کے گھروں کی ملکہ بنادیا۔ اب انسانیت کا مزاج بدلنے لگا۔ سماج میں یہ آواز گونجنے لگی ، عورتیں مردوں کے دلوں کی تسکین ، روح کی راحت ، ذہن کا اطمینان اور بدن کی چین ہے ، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے : ’’وخلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا علیہا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ‘‘۔ (سورہ بقرہ ،پارہ ۲) ترجمہ’’ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تمہارے جنس سے بیویاں پیدا کی تاکہ تمہیں ان سے تسکین حاصل ہو ، اور اس نے درمیان میں محبت و شفقت پیدا کر دیا‘‘۔

 اس حکم خداوندی کے بعد اب کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی اپنے ساز و سامان ، مال و اسباب ، زمین و جائیداد سے بے دخل کر کے گھر سے باہر کرسکتاہے ۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: عاشرہن بالمعروف ‘‘ اور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ زندگی بسر کرو‘‘۔

 رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں کے بابت اس خاص پیغام نے کہ ’’وہ تمہارے لئے لباس ہے ، اور تم اس کے لئے لباس ہو‘‘ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ گویا عورتوں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان کے ساتھ احسان فرمایا’’ مرد عورت کے لئے لباس ،اور عورت مرد کے لئے لباس ہے‘‘ عورتوں کی عفت و عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے مقام و مرتبہ کو بلند فرمایا۔

 بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بیوہ عورتوں سے شادی کرنا ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا اور ان کے ساتھ مویشیوں سا سلوک کیا جاتاتھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بیواؤں اور مسکینوں کے سلسلے میں کوشش کرنے والے (یعنی ان کی نگہد اشت رکھنے والے )کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ۔ اس ضمن میں سب سے پہلی مثال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پیش کی اور چالیس سالہ بیوہ عورت سے شادی کرکے معاشرے کویہ پیغام دیا کہ بیوہ عورت قابل لعنت نہیں بلکہ قابل رحمت و شفقت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عین عالم شباب میں بیوہ سے نکاح کرنا ،بیوہ کو معاشرے میں عزت و وقار عطا کرنا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ام سلمہ کے شوہر کے انتقال ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد، حضرت صدیق اکبر ،حضرت فاروق اعظم ، حضرت عثمان غنی جیسے اجلہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ام سلمہ کو پیغام نکاح بھیجا۔ ذرا غور کیجئے وہی عرب جہاں بیوہ کو لعنتی کہتے،اور بیوہ ہوتے ہی انہیں بند اندھیری کوٹھری میں ڈھکیل دیا کرتے ،اورکسمپرسی کے عالم میں چھوڑ دیتے۔ یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی درسگاہ کا فیضان تھا کہ بیوہ عورتوں سے نکاح کے لئے ایک دوسرے پر سبقت کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور جب ام سلمہ نے ان اجلہ صحابہ سے شادی کرنے سے انکار کردیا توخود رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور انہیں ام المومنین کے لقب سے ملقب فرمادیا۔

Tuesday, 3 February 2015

ختم نبوّت سے کیا مراد ھے اور عقیدہ ختم نبوّت . ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے :

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo

’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہےo‘‘

الاحزاب، 33 : 40

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا اور نہ ہی منصب رسالت پر۔

قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایتاً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ لہٰذا اب قیامت تک کسی قوم، ملک یا زمانہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں اور مشیت الٰہی نے نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلسلہءِ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبانِ حق ترجمان سے اپنی ختمِ نبوت کا واضح لفظوں میں اعلان فرمایا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَ.

’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الرويا، 4 : 163، باب : ذهبت النبوة، رقم : 2272

اس حدیث پاک سے ثابت ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

قادیانیوں کے خاتم کے معنیٰ میں دھوکہ اور فریب کا جواب . ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گروہ قادیان آیت میں مذکور لفظ خَاتَم النّبیّین کے معنی ’’نبیوں کی ُمہر‘‘ کرتا ہے اوراس کا مطلب یہ لیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو انبیاء بھی آئیں گے وہ آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُہر لگنے سے نبی بنیں گے، یا بالفاظ دیگر جب تک کسی کی نبوت پر آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُہر نہ لگے وہ نبی نہ ہوسکے گا۔لیکن جس سلسلۂ بیان میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس کے اندررکھ کر اسے دیکھاجائے تو اِس لفظ کا یہ مفہوم لینے کی قطعاً کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ، بلکہ اگر یہی اس کے معنی ہوں تو یہاں یہ لفظ نے محل ہی نہیں، مقصود کلام کے بھی خلاف ہو جاتاہے۔ آخر اس بات کا کیا تُک ہے کہ اوپر سے تو نکاح زینب رضی اللہ عنہا پر معترضین کے اعتراضات اور ان کے پیدا کیے ہوئے شکوک و شبہات کا جوات دیا جا رہا ہو اور یکایک یہ بات کہہ ڈالی جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نبیوں کی مُہر ہیں، آئندہ جو نبی بھی بنے گا، ان کی مُہر لگ کر بنے گا۔ اس سیاق و سباق میں یہ بات نہ صرف یہ کہ باالکل بے تُکی ہے ،اِ س صورت میں تو معترضین کے لیے یہ کہنے کا اچھا موقع تھا کہ آپ یہ کام اِس وقت نہ کرتے تو کوئی خطرہ نہ تھا۔ اِس رسم کو مٹانے کی ایسی ہی کچھ شدید ضرورت ہے تو آپ کے بعد آپ کی مُہرلگ لگ کر جو انبیاء آتے رہیں گے اُن میں سے کوئی اسے مٹادے گا۔
ایک دوسری تاویل اس گروہ نے یہ بھی کی ہے کہ ’’ خاتم ا لنبیین‘‘ کے معنی افضل النبیین کے ہیں، یعنی نبوت کا دروازہ تو کُھلا ہوا ہے، البتہ کمالاتِ نبوّت نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ختم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم لینے میں بھی وہی قباحت ہے جو اوپر ہم نے بیان کی ہے۔ سیاق و سباق سے یہ مفہوم بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا ، بلکہ اُلٹا اس کے خلاف پڑتا ہے ۔ کفّا ر و منافقین کہہ سکتے تھے کہ کم تر درجے کے ہی سہی۔ بہر حال آپ کے بعد بھی نبی آتے رہیں گے۔ پھر کیا ضرور تھا کہ اس ر سم کو بھی آپ ہی مٹا کر جاتے ۔
اب اس آیت کی تفسیر میں علماءِ تفسیر کی رائے پڑھیے
تفسير الطبري(محمد بن جرير الطبري)
( ولكن رسول الله وخاتم النبيين ) أي : آخرهم
تفسير القرطبي(محمد بن أحمد الأنصاري القرطبي)
بمعنى أنه ختمهم ، أي جاء آخرهم
تفسير ابن كثير(إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي)
فهذه الآية نص في أنه لا نبي بعده ، وإذا كان لا نبي بعده فلا رسول [ بعده ] بطريق الأولى
تفسير البغوي(الحسين بن مسعود البغوي)
( ولكن رسول الله وخاتم النبيين ) ختم الله به النبوة
مجمع البيان في تفسير القرآن
{ وخاتم النبيين } أي وآخر النبيين ختمت النبوة به فشريعته باقية إلى يوم الدين
انوار التنزيل واسرار التأويل
{ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيّينَ } وآخرهم الذي ختمهم

اگر ان تفاسیر پر یقین نہیں تو اپنے نام نہاد نبی کی بات پر ہی یقین کر لو!

خود مرزا قادیانی کی اپنی کتابیں اس تفسیر کو جھٹلاتی ہیں۔ مرزا قادیانی اپنی کتاب تریاق القلوب میں صفحہ 157، خزائن جلد 15، صفحہ 479 پر اپنے متعلق تحریر کرتا ہے۔

"میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی ، جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا۔ اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکی یا لڑکا نہیں ہوا اور میں ان کے لیے خاتم الاولاد تھا"۔

جب مرزا قادیانی اور خود اسکی جماعت بھی خاتم الاولاد کا ترجمہ آخری ولد کرتے ہیں اور مرزا کو اپنے والدین کا آخری بیٹا مانتے ہیں کہ اس بعد کسی قسم کا کوئی جھوٹا، بڑا، بہرہ، گونگا بیٹا پیدا نہیں ہوا تو پھر خاتم النبین کا بھی یہی ترجمہ انہیں ماننا پڑے کہ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی ظلی، بروزی، مستقل، غیر مستقل نبی آنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ورنہ ان کے بنائے گئے خاتم النبین کے معنی "حضور ﷺ کی مہر سے نبی بنیں گے" کے مطابق خاتم الاولاد کا ترجمہ بھی مرزائیوں کو یہی کرنا ہوگا کہ مرزا کی مہر سے مرزا کے والدین کے ہاں بچے پیدا ہوں گے۔ اس صورت میں اب مرزا قادیانی مہر لگاتے جائیں گے اور مرزا قادیانی کی ماں بچے جنتی چلی جائے گی۔

خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر16 تا 22 ۔۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
16. عَنْ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِيَةِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

16 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : تعبير الرّؤيا، باب : رؤية النبي صلی الله عليه وآله وسلم فی المنام، 2 / 1283، الرقم : 3896، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 381، الرقم : 27185، وابن حبان في الصحيح، 13 / 411، الرقم : 6024.

’’حضرت ام کرز کعبیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات (نیک خواب) باقی رہ گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

17. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ قَالَ : قِيْلَ : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ أَوْ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ نَحْوَهُ.

17 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 454، الرقم : 23846 (23283)، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 179، الرقم : 3051، وابن منصور في السنن، 5 / 321، الرقم : 1068، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 247، الرقم : 3162، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 223، الرقم : 264، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 173، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 494.

’’حضرت ابو الطفیل رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘

اسے امام احمد اور اسی طرح طبرانی نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ عليهم السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَلِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ وَبِشَارَةُ عِيْسَی بِي وَرُؤيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَلِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ تَرَيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

وفي رواية عنه : قَالَ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فَذَکَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيْهِ : إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 127، 128، الرقم : (16700)، (16712)، وابن حبان في الصحيح، 14 / 313، الرقم : 6404، والحاکم في ’المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 252، 253، الرقم : 629، 630، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 134، الرقم : 1385، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 409، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 68، الرقم : 1736.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں : میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی بشارت ہوں اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘ اس حديث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حديث کی مثل حديث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا : ’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ کو حالتِ نور میں جنا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘

اس حديث کو امام احمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔

19. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} البقرة، 2 : 129، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.

19 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘

اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

20. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُوْنَ مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

20 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 396، الرقم : 23406، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 327، الرقم : 5450، وفي المعجم الکبير، 3 / 169، الرقم : 3026، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 454، الرقم : 8724، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 332، وقال : رواة أحمد والطبراني والبزار، ورجال البزار رجال الصحيح.

’’حضرت حذیفہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں جھوٹی نبوت کے دعویدار اور دجال ستائیس ہیں ان میں سے چار عورتیں ہیں اور بے شک میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘

اس حديث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.

21 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم عليہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) انہوں نے وحشت (و تنہائی) محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل عليہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحْمَدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ پڑھا تو حضرت آدم عليہ السلام نے دریافت کیا : (اے جبریل!) محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل عليہ السلام نے کہا : یہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

اس حديث کو امام ابونعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

22. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کَانَ هَارُوْنُ بْنُ عِمْرَانَ فَصِيْحَ اللِّسَانِ بَيِّنَ الْمَنْطِقِ يَتَکَلَّمُ فِي تُؤَدَةٍ وَيَقُوْلُ بِعِلْمٍ وَحِلْمٍ، وَکَانَ أَطْوَلَ مِنْ مُوْسَی طُوْلًا وَأَکْبَرَهُمَا فِي السِّنِّ وَکَانَ أَکْثَرَهُمَا لَحْمًا وَأَبْيَضَهُمَا جِسْمًا وَأَعْظَمَهُمَا أَلْوَاحًا، وَکَانَ مُوْسَی رَجُلًا جَعْدًا آدَمَ طِوَالًا کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ وَلَمْ يَبْعَثِ اﷲُ نَبِيًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنَی إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُّنَا صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : هَذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتِفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِيَائِ قَبْلِي لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

22 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 631، الرقم : 4105.

’’حضرت وہب بن منبہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہارون بن عمران عليہ السلام فصیح اللسان اور واضح کلام فرمانے والے تھے۔ آپ پر سکون لہجہ میں بات کرتے تھے اور علم و حلم سے بات کرتے تھے اور قد میں آپ حضرت موسیٰ عليہ السلام سے لمبے تھے اور عمر میں بھی ان سے بڑے تھے اور ان سے زیادہ پرگوشت اور سفید جسم والے تھے اور آپ کے جسم کی ہڈیاں بھی ان کے جسم کی ہڈیوں سے بڑی تھیں اور حضرت موسیٰ عليہ السلام گھنگریالے بالوں والے، گندم گوں اور لمبے قد کے مالک تھے گویا کہ آپ قبیلہ شنئوہ کے کوئی شخص ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے۔ پس آپ کی مہرِ نبوت آپ کے مبارک شانوں کے درمیان تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام عليہ السلام کی مہر ہے کیونکہ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے (اس لئے میرے بعد کسی کے لئے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی)۔‘‘

اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا۔

خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر 11 تا 15 ۔۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَکَرُوْا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ : تَقُوْلُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُـلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ.

11 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب، 1 / 45، الرقم : 121، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 108، الرقم : 8399، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32078.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضي اﷲ عنہ حج کے لیے تشریف لائے حضرت سعد رضي اﷲ عنہ ان کے پاس گئے وہاں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کا کچھ بے ادبی کے ساتھ ذکر ہوا جسے سن کر حضرت سعد رضي اﷲ عنہ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا : تم اس شخص کے بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : میں جس کا ولی ہوں علی بھی اس کے ولی ہیں اور فرمایاتھا : تم میری جگہ پر اس طرح ہو جیسے ہارون عليہ السلام، موسیٰ عليہ السلام کی جگہ پر تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں اور فرمایا : آج اس شخص کو عَلَم (جھنڈا) عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

12. عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

12 : أخرجه الدارمي فی السنن، باب : (8) ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم : 49، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم : 170، والبيهقی فی کتاب الاعتقاد، 1 / 192، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 254، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 10 / 223، والمناوی فی فيض القدير، 3 / 43.

’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘

اسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

13. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.

13 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عيسی بن مريم، 2 / 1359، الرقم : 4077، والحاکم في المستدرک، 4 / 580، الرقم : 8620، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 146، الرقم : 7644، والرويانی في المسند، 2 / 295، الرقم : 1239، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 28، الرقم : 861، وابن أبی عاصم في السنة، 1 / 171، الرقم : 391.

’’حضرت ابو امامہ باہلی رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام انبیاء کرام میں سے آخر میں ہوں اور تم بھی آخری امت ہو۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ : فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ : لَکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا : يَا رَسُوْل اﷲِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْئٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الرؤيا عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ذهبت النبوة و بقيت المبشرات، 4 / 533، الرقم : 2272، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 267، الرقم : 13851، والحاکم في المستدرک، 4 / 433، الرقم : 8178، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 206، الرقم : 2645.

’’حضرت انس بن مالک رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگوں پر گراں گزرا (کہ اب سلسلہ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لیکن مبشرات (باقی ہیں) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کے اجزاء کا ایک جزو ہے۔‘‘

اسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔

15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التعبير، باب : المبشرات، 6 / 2564، الرقم : 6589.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نیک خواب۔‘‘

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

خاتم النّبین ھونے کا بیان احادیث مبارکہ کی روشنی میں : ۔ حدیث نمبر 6 تا10 ۔ ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاھور پاکستان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَی : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيْمَ ابْنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : مَاتَ صَغِيْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَکِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من سمی بأسماء الأنبياء، 5 / 2289، الرقم : 5841، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء فی الجنائز، باب : ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وذکر وفاته، 1 / 484، الرقم : 1510، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 368، الرقم : 6638، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 135، والزيلعي في تخریج الأحاديث والآثار، 3 / 115.

’’حضرت اسماعیل کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی رضي اﷲ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

7. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِِيُّ وَ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ اﷲُ بَاعِثًا رَسُوْلًا بَعْدِي لَبَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.

7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب عمر بن الخطاب ص، 5 / 619، الرقم : 3686، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، والحاکم في المستدرک، 3 / 92، الرقم : 4495، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، 298، الرقم : 475، 822، والروياني في المسند، 1 / 174، الرقم : 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 68.

’’حضرت عقبہ بن عامر رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا (لیکن جان لو میں آخری نبی ہوں۔‘‘

اس حديث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔ ۔

اور ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ میرے بعد کسی کو نبی بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو یقینا عمر بن الخطاب کو نبی بنا کر بھیجتا۔‘‘ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

8. عَنْ سَعْدٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ إِلَی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا رضي اﷲ عنه فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ : أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، 3 / 1359، الرقم : 3503، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1870، 171 الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 640، 641، الرقم : 3730، 3731، وابن ماجه فی السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 1 / 42، 45، الرقم : 115، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 170، 173، 175، 177، 179، 182، 184، 185، 330، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 146، 148، الرقم : 328، 333.

’’حضرت سعد (بن ابی وقاص) رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) اپنا نائب مقرر فرما دیا۔ وہ عرض گزار ہوئے : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کو حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی، ماسوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔

9. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، أَ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی عليهما السلام؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

9 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عثمان بن عفان ص، 4 / 1871، 1870، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب ص، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الرقم : 6927، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 40.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کی حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘

یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

10. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي… الحديث.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.

10 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 638، الرقم : 3724.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو (اپنا قائم مقام بنا کر) پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضي اﷲ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد نبوت نہیں ہوگی۔‘‘

اس حديث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیدارِ الٰہی

معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیدارِ الٰہی محترم قارئینِ کرام : : شب معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے دیدار پر...