Wednesday, 12 March 2025

فضائل و مناقب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

فضائل و مناقب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

محترم قارئینِ کرام : ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا ۔ جو مومنہ ، مہاجرہ اور بیوہ تھیں ۔ ان کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے شادی فرمائی ۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ ذہین اور مضبوط حافظے کی مالکہ تھیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی جملہ ازواج میں سب سے زیادہ محبت و الفت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے فرماتے تھے ۔ علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں ان کا رتبہ بڑا بلند تھا ۔ بل کہ اکثر صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ عالمہ بھی تھیں اور بڑے بڑے علما صحابہ آپ سے بعض ایسے احکام کے بارے میں سوال کرتے تھے جو انہیں مشکل لگتے تھے ۔


حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مَیں نے طب ، فقہ اور شعر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا ۔ ‘‘ احادیث اور سیرت کی کتابیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیش بہا علم اور سمجھ داری کی گواہ ہیں ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانا بڑی حکمتوں کا حامل تھا ۔ چناں چہ عورتوں سے متعلق اکثر احکام و مسائل آپ ہی سے روایت کردہ ہیں ۔ آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سوالات کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو باتیں ارشاد فرماتے انھیں  ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے ۔ امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی ۔ شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : اِن (حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ، علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے ۔ (نزہۃ القاری شرح بخاری ص ۱۷۷،چشتی)


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت اور کردار پر یوں تو کئی ضخیم کتابیں لکھی گئیں ۔ رحمانی پبلی کیشنز کی تاریخی شخصیات سیریز کے لیے بچّوں کی عمر اور ان کی نفسیات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پیشِ نظر کتاب تالیف کی گئی ہے بہ ظاہر اسے کوئی اضافہ نہ قرار دیا جائے لیکن پھر بھی اس کتاب سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مختصر سوانح اور آپ کی زندگی کے اہم واقعات سے آگاہی ہو جاتی ہے۔ اہل علم سے التماس ہے کہ کتاب پر اپنی گراں قدر رائے سے ضرور نوازیں ۔

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام ’’عائشہ‘‘ اور لقب ’’صدیقہ‘‘ اور ’’ حمیرا‘‘ ہے۔ اُن کی کنیت ’’اُم عبداللہ ‘‘ اور خطاب ’’ اُم المؤمنین‘‘ ہے۔ آپ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے محبوب بیوی ہیں ۔ آپ کے والد ماجد خلیفۂ  اول امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور والدۂ  ماجدہ مشہور صحابیہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ہیں ۔ والدِ گرامی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کا سلسلۂ  نسب اس طرح ہے : عائشہ بنت ابو بکر بن ابو قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک ۔

والدۂ  ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ  نسب اس طرح ہے : ام رومان بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذنیہ بن سبع بن دھمان بن حارث بن غتم بن مالک بن کنانہ ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ  نسب ساتویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے اور والدۂ  ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے بارہویں پشت پر کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے والدِ ماجد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سفر و  حضر کے ساتھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جو بے مثال قربانیاں ہیں وہ اسلامی تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے یارِ غار اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ کے لقب سے سرفراز ہوئے ۔ آپ کی شرافت اور بزرگی بڑی بے مثال ہے ، وصال کے بعد بھی آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ  ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے لیے اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے عظیم المرتبت صحابیات میں نمایاں مقام کی حامل ہیں ۔آپ کی وفات   ۶   ھ میں ہوئی ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن کی قبر میں اترے اور فرمایا کہ : جو کوئی جنت کی حورِ عین کو دیکھنا چاہتا ہو وہ امِ رومان (رضی اللہ عنہا) کو دیکھ لے ۔

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ  ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا ۔ عبداللہ کی موت کے بعد آپ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے  بطن سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک بیٹا حضرت عبدالرحمان اور ایک بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نصیب فرمائے ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقدس اور مبارک خاندان میں پیدا ہوئیں ۔ جس میں سب سے پہلے اسلام کی کرنوں نے اپنا اجالا بکھیرا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر ابتدا ہی سے نبوت کے نور سے روشن و منور رہا ۔ کفر و شرک کا اس گھرا نے میں دور دور تک پتا نہ تھا اسی نورانی ماحول میں آنکھ کھولنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا دامن بھی ہمیشہ کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک و صاف رہا ۔ بچپن ہی سے آپ نے اسلامی اور ایمانی فضا میں اپنی گزر بسر کی ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بے پناہ ذہین اور مثالی قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں ۔ آپ کے والدِ ماجد خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی بڑے علم و فضل والے اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی دوسری اولاد کی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرمائی ۔ اور انھیں تاریخ و ادب کے علاوہ اُس زمانے کے ضروری علوم بھی پڑھائے ۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہو گیا اُس کے بعد بھی اُن کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعلیم و تربیت فرماتے رہے۔ والدِ ماجد کی اِن ہی تربیت کا اثر تھا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ نکاح میں آ جانے کی وجہ سے مسلمان عورتوں کے زیادہ ترمسائل اور اُن کی ضروریات کی باتیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہی پہنچیں ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدِ گرامی کے زیرِ سایا تعلیم و تربیت حاصل کرتی رہیں اور جلد ہی انھوں نے اپنے خداداد مثالی قوتِ حافظہ اور ذہن کی وجہ سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کر لی۔ جب آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آ گئیں تو یہ دور اُن کی تعلیم و تربیت کا حقیقی دور بنا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّمکے کاشانۂ  اقدس میں آ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سیکھا وہ آج پوری امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمان عورتوں کے لیے بھلائی اور نجات کا سامان بنا ہوا ہے ۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی جملہ ازواج کے ایک ایک فعل کی نگرانی فرماتے اور کہیں کوئی لغزش نظر آتی تو فوراً اصلاح فرماتے ۔اس سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جو امتیاز حاصل ہوا وہ ایک مثال رکھتا ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر شریف نکاح کے وقت کم تھی اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام لینا مقصود تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی اس کے ہوتے آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسئلہ واضح فرما دیتے تو وہ انھیں ازبر کر لیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے ۔ امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھا ، ناظرہ قرآن پڑھا ، علم انساب سے واقفیت حاصل کی ، علمِ طب میں مہارت پیدا کی ، شریعت کے باریک باریک نکات یاد کیے،خطابت میں عبور حاصل کیا، ضروریاتِ دین اور قرآنی و نبوی علوم میں ملکہ پیدا کیا۔ اللہ جل شانہٗ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قرآن و سنت سے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا شعور بخشا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کے اثر نے آپ کو امت کی ایک بہترین فقیہ اور عالمہ بنا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل سے مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کنیت

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی کنیت ام عبداللہ ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  سے کنیت مقرر کرنے کی درخواست کی چنانچہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا: اپنے بھانجے ( یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے اپنی کنیت رکھ لو ۔ ایک اور روایت میں آیا ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجب اپنی بہن کے نوزائیدہ فرزند حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارگاہِ رسالت میں لے کر حاضر ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کے منہ میں لعاب دہن ڈال کر فرمایا :یہ عبداللہ ہے اور تم ام عبداللہرضی اللہ تعالیٰ عنہما ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۸،چشتی)

خواب میں سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صورت

 ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں :رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:تم تین راتیں مجھے خواب میں دکھائی گئیں ایک فرشتہ تمہیں (تمہاری تصویر)ریشم کے ایک ٹکڑے میں لے کر آیااوراس نے کہا:یہ آپ کی زوجہ ہیں ان کاچہرہ کھولئے۔ پس میں نے دیکھاتووہ تم تھیں میں نے کہا:اگریہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تووہ اسے پوراکرے گا ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فی فضل عائشۃ، الحدیث۲۴۳۸ ،ص ۱۳۲۴،چشتی)

 دوسری روایت میں یہ لفظ بھی ہیں ، یہ تمہاری زوجہ ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب ،باب فضل  عائشۃ،الحدیث۳۹۰۶، ج۵،ص۴۷۰)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا: میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور پیغام سنایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح عائشہ بنت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے فرمادیا ہے ، اوران کے پاس عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک تصویرتھی۔(شرح العلامۃ الزرقانی،المقصد الثانی،الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات،ج۴،ص۳۸۷)  

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا نکاح مدینہ طیبہ میں چھ سال کی عمر میں ماہ شوال میں ہوا،اور ماہِ شوال ہی میں نو سال کی عمر میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی خدمت میں نو سال تک رہیں ۔ جب سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے وصال فرمایا تو اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی عمر اٹھارہ سال تھی ۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ،ج۸،ص۴۶،۴۸،چشتی)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہابیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح کیااوررخصتی بھی شوال کے مہینے میں ہوئی تو کون سی عورت مجھ سے زیادہ خوش نصیب ہے!ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااس بات کوپسندکرتی تھیں کہ عورتوں کی رخصتی شوال میں ہو ۔ (صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استحباب التزوج ...الخ، الحدیث ۱۴۲۳،ص۷۳۹،چشتی)

حبیبہ حبیب خداعزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و رضی اللہ تعالیٰ عنہا

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اعظم فضائل ومناقب میں سے ان سے حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کا بہت زیادہ محبت فرمانا بھی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  اپنی نعلین مبارک میں پیوند لگارہے تھے جبکہ میں چرخہ کات رہی تھی۔ میں نے حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کے چہرہ پر نور کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا اور اس پسینہ سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے جمال میں ایسی تابانی تھی کہ میں حیران تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے میری طرف نگاہ کرم اٹھاکر فرمایا: کس بات پر حیران ہو؟ سیدہ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے رخِ روشن اور پسینۂ جبین نے مجھے حیران کردیا ہے اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کھڑے ہوئے اور میرے پاس آئے اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: اے عائشہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے تم اتنا مجھ سے لطف اندوز نہیں ہوئی جتنا تم نے مجھے مسرور کردیا ۔ (حلیۃ الاولیائ،ذکر النساء الصحابیات، عائشۃ زوج رسول اللہ ،الحدیث۱۴۶۴،ج۲،ص۵۶)

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ!رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس سے میں محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو گی؟ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا: ضرور یارسول اللہ !صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  میں محبت رکھوں گی۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا :تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے محبت رکھو ۔ (صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فی فضل عائشۃ، الحدیث ۲۴۴۲،ص۱۳۲۵)

حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے کسی کو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بارے میں بدگوئی کرتے سنا تو حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: او ذلیل و خوار! خاموش رہ، کیا تو اللہ عزوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی حبیبہ پربد گوئی کرتا ہے ۔ (حلیۃ الاولیائ،ذکر النساء الصحابیات،عائشۃ زوج رسول اللہ،الحدیث۱۴۶۰، ج۲،ص۵۵،چشتی)

حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق روایت

حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکابر تابعین میں سے ہیں ، جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت کرتے تو فرمایا کرتے :’’حدثتنی الصدیقۃ بنت الصدیق حبیبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ‘‘مجھ سے حدیث بیان کی صدیقہ بنت صدیق، محبوبۂ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے یا کبھی اس طرح حدیث بیان کرتے حبیبۃ حبیب اللہ المبرّأۃ من السماء  اللہ کے حبیب کی محبوبہ جن کی پارسائی کی گواہی آسمان سے نازل ہوئی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۹)

سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نازو نیاز

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محبوب کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کے ساتھ گفتگو کرنے کی بہت قدرت تھی اور وہ جو چاہتیں بلاجھجک عرض کردیتی تھیں اور یہ اس قرب و محبت کی وجہ سے تھا جو ان کے مابین تھی۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۱)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنی گڑیا ں گھر کے ایک دریچہ میں رکھ کر اس پر پردہ ڈالے رکھتی تھی۔ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے دریچہ کے پردہ کو اٹھایا اور گڑیاں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کو دکھائیں ۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا: یہ سب کیا ہیں ؟ میں نے عرض کیا:میری بیٹیاں (یعنی میری گڑیاں ) ہیں ، ان گڑیوں میں ایک گھوڑا ملاحظہ فرمایا جس کے دو بازو تھے۔ فرمایا: کیا گھوڑوں کے بھی بازو ہوتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا:کیاآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے تھے اور ان کے بازو تھے۔حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے اس پر اتنا تبسم فرمایاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں ۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۱،چشتی)

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا: کوئی شخص جنت میں داخل نہ ہوگا مگر حق تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے۔ سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کیا آپ بھی جنت میں داخل نہ ہوں گے مگر خدا کی رحمت سے؟ فرمایا: ہاں !میں بھی داخل نہ ہوں گا مگر یہ کہ مجھے حق تعالیٰ نے اپنی رحمت میں چھپا لیا ہے۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۲)

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن حضورپر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے درآنحالیکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کے ساتھ بلندآواز سے باتیں کررہی تھیں ،توحضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہوئے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی طرف بڑھے کہ اے ام رومان کی بیٹی!کیاتورسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  پراپنی آوازکوبلندکرتی ہے۔تونبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم درمیان میں حائل ہوگئے۔جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے چلے گئے تو حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کومناتے ہوئے فرمایا:کیاتم نے نہ دیکھاکہ میں تمہارے اوران( حضرت ابوبکرصدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ)کے درمیان حائل ہوگیا۔راوی فرماتے ہیں :پھرجب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضرہوئے توسیدعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بہت خوش پایا توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بہت خوش ہوئے۔(المسندللامام أحمدبن حنبل،مسند الکوفیین، حدیث النعمان بن بشیر،ج۲،ص۲۵۴،چشتی)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا: میں جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی رہتی ہو اور جب تم خفا رہتی ہو میں نے پوچھا:آپ کیسے پہچانتے ہیں ؟ فرمایا:جب تم مجھ سے خوش رہتی ہو توکہتی ہو محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے رب عزوجل کی قسم! اور جب ناراض رہتی ہوتوکہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! میں نے عرض کیا: ہاں ! یہی بات ہے میں صرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا نام ہی چھوڑتی ہوں ۔ (صحیح البخاری،کتاب النکاح،باب غیرۃ النساء ...الخ،الحدیث ۵۲۲۸، ج۳، ص۴۷۱)

مطلب یہ ہے کہ اس حال میں صرف آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا نام نہیں لیتی۔ لیکن آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی ذات گرامی اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی یاد میرے دل میں اور میری جان آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی محبت میں مستغرق ہے۔

تفقہ فی الدین

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فقہا و علما و فصحا بلغا اور اکابرمفتیانِ صحابہ میں سے تھیں اور حدیثوں میں آیا ہے کہ تم اپنے دو تہائی دین کو ان حمیرا(یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)سے حاصل کرو ۔ (مدارج النبوت، قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۶۹،چشتی)

عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے کسی کو معانی قرآن احکام حلال و حرام، اشعار عرب اور علم انساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ عالم نہیں دیکھا ۔ (حلیۃ الاولیائ،ذکر النساء الصحابیات،عائشۃ زوج رسول اللہ،الحدیث۱۴۸۲، ج۲،ص۶۰)

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ہم کوکسی حدیث کے بارے میں  مشکل پیش آتی ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کرتے تو ان کے پاس اس کے متعلق علم پاتے ۔ (سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فضل عائشۃ،الحدیث:۳۹۰۸،ج۵،ص۴۷۱)

برکاتِ آلِ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

ایک سفر میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہار مدینہ طیبہ کے قریب کسی منزل میں گم ہوگیا، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اس منزل پر پڑاؤ ڈالا تاکہ ہار مل جائے، نہ منزل میں پانی تھا نہ ہی لوگوں کے پاس، لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکایت لائے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے،دیکھا کہ راحت العاشقین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش میں اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرمارہے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاپر سختی کا اظہار کیا لیکن سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اپنے آپ کو جنبش سے باز رکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سرکار دوعالم  صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی چشمانِ مبارکہ خواب سے بیدا رہوجائیں چنانچہ صبح ہوگئی اور      نمازکے لئے پانی عدم دستیاب ، اس وقت اللہ عزوجل نے اپنے لطف و کرم سے آیت تیمم نازل فرمائی اور لشکر اسلام نے صبح کی نماز تیمم کے ساتھ ادا کی حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’ما ھی با ول برکتکم یا ال ابی بکر‘‘ اے اولاد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہیہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔( مطلب یہ کہ مسلمانوں کو تمہاری بہت سی برکتیں پہنچی ہیں ) سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد جب اونٹ اٹھایا گیا تو ہار اونٹ کے نیچے سے مل گیا( گویا حکمت الٰہی عزوجل یہی تھی کہ مسلمانوں کے لئے آسانی اور سہولت مہیا کی جائے ۔ (صحیح البخاری ، کتاب التیمم ، باب التیمم ، الحدیث۳۳۴، ج۱، ص۱۳۳،چشتی)

ارفع شان

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :قبل اس کے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  میرے لئے پیام نکاح دیں جبرئیل علیہ السلام نے ریشمی کپڑے پر میری صورت حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کودکھائی۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم درذکرازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۰،چشتی)

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی تھیں :بے شک اللہ عزوجل کی نعمتوں میں سے مجھ پریہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کا وصال میرے گھر میں اور میری باری میں ، میرے سینے اور گلے کے درمیان ہوا،اور اللہ تعالیٰ نے میرے اوران کے لعاب کوان کے وصال کے وقت جمع فرمایا،عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی،اوررسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  مجھ پرٹیک لگائے ہوئے تھے،تومیں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کودیکھاکہ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں ،میں نے پہچاناکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  مسواک کوپسندفرماتے ہیں ، میں نے پوچھا :آپ کے لئے مسواک لے لوں ؟ توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے سر انور سے اشارہ فرمایاکہ ہاں ! میں نے مسواک لی(مسواک سخت تھی )میں نے عرض کی: اسے نرم کردوں ؟ توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے سرسے اشارہ فرمایا کہ ہاں !تومیں نے( اپنے منہ سے چبا کر) اسے نرم کردیا،پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے اس کواپنے منہ میں پھیرا۔( اس طرح میرا اورسرور دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کالعاب جمع ہوگیا۔)(صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ووفاتہ ، الحدیث۴۴۴۹،ج۳، ص۱۵۷)

خلفائے مسلمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ایمان افروز اقوال

مروی ہے کہ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمسے عرض کی:(ام المؤمنین پر افترا کرنے والے) منافقین قطعاً جھوٹے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کواس سے محفوظ رکھاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکے جسم اطہرپرمکھی بیٹھے، اس لئے کہ وہ نجاست پر بیٹھتی اوراس سے آلودہ ہوتی ہے، توجب اللہ عزوجل نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکواتنی سی بات سے بھی محفوظ رکھاپھر یہ کیسے ہوسکتاہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکو ایسے کی صحبت سے محفوظ نہ فرماتاجوایسی بے حیائی سے آلودہ ہو۔(تفسیر النسفی،الجزء الثانی عشر،النورتحت الآیۃ۱۲،ص۷۷۲،چشتی)

حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے سائے کو زمین پر نہیں پڑنے دیااس لئے کہ کوئی شخص اس سائے پراپناپاؤں نہ رکھے توجب کسی کوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کے سائے پرپاؤں رکھنے کابھی موقع نہ دیاتوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلمکی زوجہ کی آبرو پرکسی کوکیسے اختیار دے دیتا ۔ (تفسیر النسفی،الجزء الثانی عشر،النورتحت الآیۃ۱۲،ص۷۷۲)

 حضرت سیدناعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :بے شک جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کواس بات پربھی مطلع کیاکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی نعلین پرمیل لگاہواہے ،اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے عرض کی کہ اسے اپنے پاؤں سے اتاردیجئے کیونکہ اس میں میل لگاہواہے،لہٰذا اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو الگ کردینے کا حکم بھی نازل ہوجاتا۔(تفسیر النسفی،الجزء الثانی عشر،النورتحت الآیۃ۱۲،ص۷۷۲)

انفاق فی سبیل اللہ عزوجل

مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  سے عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  میرے لئے دعا فرمائیں کہ حق تعالیٰ مجھے جنت میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں رکھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  نے فرمایا :اگر تم اس رتبہ کی تمنا کرتی ہو تو کل کے لئے کھانا بچاکر نہ رکھو۔ اور کسی کپڑے کو جب تک اس میں پیوند لگ سکتا ہے بے کار نہ سمجھو، سیدہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی اس وصیت ونصیحت پر اس قدر کاربند رہیں کہ کبھی آج کا کھانا کل کے لئے بچا کر نہ رکھا۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین ، حضرت عائشۃ، ج۲،ص۴۷۲)

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ستر ہزار درہم راہِ خدا میں صدقہ کرتے دیکھا حالانکہ ان کی قمیص کے مبارک دامن میں پیوند لگا ہوا تھا۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین، حضرت عائشۃ،ج۲،ص۴۷۳)

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اسی دن وہ سب دراہم  اقارب و فقرا میں تقسیم فرمادیئے ۔ اس دن روزہ سے ہونے کے باوجود شام کے کھانے کے لئے کچھ نہ بچایا۔ باندی نے عرض کیا کہ اگر ایک درہم روٹی خریدنے کے لئے بچالیتیں تو کیا ہوتا؟ فرمایا: یاد نہیں آیا اگر یاد آجاتا تو بچالیتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین،حضرت عائشۃ،ج۲،ص۴۷۲)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے کتب معتبرہ میں دوہزاردوسودس حدیثیں مروی ہیں ان میں سے بخاری و مسلم میں ایک سو چوہتر متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری میں چوَّن اور صرف مسلم میں سٹر سٹھ ہیں ، بقیہ تمام کتابوں میں ہیں صحابہ و تابعین میں سے خلق کثیر نے ان سے روایتیں لی ہیں ۔(مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،ذکر امہات المؤمنین ، حضرت عائشۃ،ج۲،ص۴۷۲)

وصال

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں ۵۷ھ؁ میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب،المقصدالثانی،الفصل الثالث،عائشۃ ام المؤمنین ،ج۴،ص۳۹۲)

 سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات، ج۲، ص۴۷۳)

جب سیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم  کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت، قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

محترم قارئینِ کرام : پہلے کھلے رافضی اور اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی یہ جھوٹ بول کر کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا اس طرح یہ کذّاب لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور توہین بھی کرتے ہیں آیئے حقائق کیا ہیں پڑھتے ہیں مستند دلائل کی روشنی میں ۔  ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں آپ کا وصال 17  رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب ، المقصدالثانی ، الفصل الثالث،عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۲،چشتی)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

جب ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17  رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية، لابن کثير، ج : 4، جز : 7، ص : 97)

امام بخاري رحمۃ الله علیہ (المتوفى256) صحیح بخاری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا ۔ (صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753،چشتی)

ترجمہ : ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے ۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔ اس جھوٹ اور بہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو ۔ نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا ۔(صحيح ابن حبان: 16/ 41)

عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔ بلکہ حاکم کی روایت میں ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ : جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی،چشتی)

یہ روایات اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی وفات فطری طور پر ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔ آپ کا وصال 17  رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کا بھی ہے ۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا نے پڑ ھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ (اسد الغابہ،ج:۵/ص:۵۰۴)


عَنْ أَبِي سَلَمَةَ: إِنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَوْمًا: يَا عَائِشَةُ، هَذَا جِبْرِيْلُ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ. فَقُلْتُ: وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُةُ، تَرَي مَا لَا أَرَي تُرِددُ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرائیل تمہیں سلام کہتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور الله کی رحمت اور برکات ہوں ۔ لیکن آپ (یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: فضل عائشة، 3 / 1374، الرقم: 3557، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة، 4 / 1895، الرقم؛ 2447، و الترمذي في السنن، کتاب: الاستئذان، باب: ما جاء في تبليغ السلام، 5 / 55، الرقم: 2693)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أُرِيْتُکِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أَرَي أَنَّکِ فِي سَرَقَةٍ مِّنْ حَرِيْرٍ وَ يُقَالُ: هَذِهِ امْرَأَتُکَ، فَاکْشَفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُوْلُ إِنْ يَکُ هَذَا مِن عِنْدِ اللهِ يُمْضِهِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا میں نے دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں نے کہا کہ اگر یہ الله تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: فضائل أصحاب النبي، باب: تزويج النبي عائشة، 3 / 1415، الرقم: 3682، و في کتاب: النکاح، باب: قول الله ولا جناح عليکم فيما عرضتم به من خطبة النساء، 5 / 1969، ومسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل عائشة، 4 / 1889، الرقم: 2438، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 41، الرقم: 24188،چشتی)


عَنْ أَبِي عُثْمَانَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلٰى جَيْشٍ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلٰىکَ؟ قَالَ: عَائِشَةُ. قُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ: أَبُوْهَا. قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: عُمَرُ. فَعَدَّ رِجَالًا فَسَکَتُّ مَخَافَةَ أَنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ ۔

ترجمہ : حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر فرمایا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! آپ کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے ؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا : مردوں میں سے؟ فرمایا: اس کا والد، میں نے عرض کیا: ان کے بعد کو ن ہے؟ فرمایا: عمر، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دیگر حضرات کے نام لئے لیکن میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ آئے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة ذات السلاسل، 4 / 1584، الرقم: 4100، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل أبي بکر، 4 / 1856، الرقم 2384، و الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: فضل عائشة، 5 / 706، الرقم: 3885، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 308، الرقم: 6885)


عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً وَ إِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَي. قَالَتْ: فَقُلْتُ: وَ مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَلِکَ؟ فَقَالَ: أَمَّا إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً فَإِنَّکِ تَقُولِيْنَ: لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَ إِذَا کُنْتِ غَضْبَي قُلْتِ: لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ وَاللهِ، يَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: میں بخوبی جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ یہ بات آپ کس طرح معلوم کرلیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ رب محمد کی قسم! اور جب تم ناخوش ہوتی ہو تو کہتی ہو رب ابراہیم کی قسم! وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ خدا کی قسم! یارسول الله! اس وقت میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: غيرة النساء ووجدهن، 5 / 2004، الرقم: 4930، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: فضل عائشة، 4 / 1890، الرقم: 2439، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 49، الرقم: 7112، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 61، الرقم: 24363،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها: أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ يَبْتَغُوْنَ بِهَا أَوْ يَبْتَغُوْنَ بِذَلِکَ مَرْضَاةَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے، اور اس عمل سے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتے تھے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب: قبول الهدية، 2 / 910، الرقم: 2435، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة، 4 / 1891، الرقم: 2441، و النسائي في السنن، کتاب: عشرة النساء، باب: حب الرجل بعض نسائه أکثر من بعض، 7 / 69، الرقم: 3951، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم: 11723)


عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنْ کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لَيَتَعَذُّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ ؟ أَيْنَ أَنَا غَدًا ؟ اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا کَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللهُ بَيْنَ سَحْرِي وَ نَحْرِي وَ دُفِنَ فِي بَيْتِي ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مرض الوصال) میں (میری) باری طلب کرنے کے لیے پوچھتے کہ میں آج کہاں رہوں گا؟ کل میں کہاں رہوں گا؟ پھر جس دن میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سرانور میری گود میں تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ کی روح مقدسہ قبض کرلی اور میرے گھر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہوئے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجنائز، باب: ما جاء في قبر النبي ﷺ، 1 / 486، الرقم: 1323، و مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: في فضل عائشة رضی الله عنها ، 4 / 1893، الرقم؛ 2443)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، قَالَتْ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ وَ أَنَا أَنْظُرُ إِلٰى الْحَبَشَةِ يَلْعَبُوْنَ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّي أَکُوْنَ أَنَا الَّتِي أَسْأَمُ فَاقْدُرُوْا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيْثَةِ السِّنِّ الْحَرِيْصَةِ عَلَي اللَّهْوِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے لیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں کھیل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ میں ان کا کھیل دیکھتی رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ جو لڑکی کم سن اور کھیل کی شائق ہو وہ کب تک دیکھے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: النکاح، باب: نظر المرأة إلي الحبش و نحوهم من غير ريبة، 5 / 2006، الرقم: 4938، و مسلم في الصحيح، کتاب: صلاة العيدين، باب: الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 / 608، الرقم: 892، و النسائي في السنن، کتاب: صلاة العيدين، باب: اللعب في المسجد يوم العيد و نظر النساء إلي ذلک، 3 / 195، الرقم: 1595، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 85، الرقم: 24596، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 179، الرقم: 282،چشتی)


عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ. قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قُبَيْلَ مَوْتِهَا عَلَي عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوْبَةٌ. قَالَتْ: أَخْشَي أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيْلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ مِنْ وُجُوْهِ الْمُسْلِمِيْنَ قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ؟ فَقَالَ: کَيْفَ تَجِدِيْنَکِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنْ اتَّقَيْتُ. قَالَ: فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالَي، زَوْجَةُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَمْ يَنْکِحْ بِکْرًا غَيرَکِ وَ نَزَلَ عُذْرُکِ مِنَ السَّمَاءِ، وَ دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلَافَهُ فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثَنَي عَلَيَّ وَ وَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا ۔

ترجمہ : امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف کریں گے۔ حاضرین نے کہا: یہ تو رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اچھا انہیں اجازت دے دو۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ جواب دیا: اگر پرہیزگارہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا: ان شاء الله بہترہی رہے گا کیونکہ آپ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی براءت آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے فرمایا: حضرت عبد الله بن عباس آئے تھے وہ میری تعریف کر رہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام ہوتی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التفسير، باب: ولولا إذ سمعتموه، 4 / 1779، الرقم: 4476،چشتی)


عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ رضی الله عنها لَا تُمْسِکُ شَيْئًا مِمَّا جَاءَ هَا مِنْ رِزْقِ اللهِ تَعَالَي إِلَّا تَصَدَّقَتْ بِهِ ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مناقب قريش، 3 / 1291، الرقم: 3314)


عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَارِسِيًا کَانَ طَيبَ الْمَرَقِ فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ: وَ هَذِهِ لِعَائِشَةَ فَقَالَ: لاَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا، فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَ هَذِهِ قَالَ: لَا، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَ هَذِهِ، قَالَ: نَعَمْ، فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتَّي أَتَيَا مَنْزِلَهُ ۔

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سالن بنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دینے کیلئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس نے عرض کیا: نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں (میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس آدمی نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا۔ اس شخص نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی، اس نے عرض کیا: ہاں یہ بھی، پھر دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه صاحب الطعام و استحباب إذن صاحب الطعام للتابع، 3 / 1609، الرقم: 2037، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 123، الرقم: 12265)


عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ جِبْرِيْلَ جَاءَ بِصُوْرَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيْرٍ خَضْرَاءَ إِلٰى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم. فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُکَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله ﷺ، باب: من فضل عائشة، 5 / 704، الرقم: 3880، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 6، الرقم: 7094، و ابن راهويه في المسند، 3 / 649، الرقم: 1237، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 140، 141،چشتی)


عَنْ أَبِي مُوْسَي، قَالَ: مَا أَشْکَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَدِيْثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا ۔

ترجمہ : حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پالیتے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3883، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 179، و المزي في تهذيب الکمال، 12 / 423، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18)


عَنْ مُوْسَي بْنِ طَلْحَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ ۔

ترجمہ : حضرت موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب عن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب: من فضل عائشة، 5 / 705، الرقم: 3884، و الحاکم في المستدرک، 4 / 12، الرقم: 6735، و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 182، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 191، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 876، الرقم: 1646، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجاله رجال الصحيح،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها في رواية طويلة: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ لِفَاطِمَةَ: إِنَّهَا (أَي عَائِشَةَ) حِبَّةُ أَبِيْکَ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا ایک طویل حدیث میں روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی الله عنہا سے فرمایا: رب کعبہ کی قسم! بے شک عائشہ تمہارے والد کو بہت زیادہ محبوب ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: الأدب، باب: في الانتصار، 4 / 274، الرقم: 4898، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 322)


عَنْ ذَکْوَانَ حَاجِبِ عَائِشَةَ: أَنَّهُ جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنُ عَلَي عَائِشَةَ... فَقَالَتْ: ائْذِنْ لَهُ إِنْ شِئْتَ، قَالَ: فَأَدْخَلْتُهُ فَلَمَّا جَلَسَ، قَالَ: أَبْشِرِي، فَقَالَتْ: أَيْضًا، فَقَالَ: مَا بَيْنَکِ وَ بَيْنَ أَنْ تَلْقَي مُحَمَّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَ الْأَحِبَّةَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ الرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدِ، کُنْتِ أَحَبَّ نِسَاءِ رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وَ لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يُحِبُّ إِلَّا طَيِّبًا وَ سَقَطَتْ قِلاَدَتُکِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ فَأَصْبَحَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَتَّي يُصْبِحَ فِي الْمَنْزِلِ وَ أَصْبَحَ النَّاسُ لَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللهُ عزوجل (فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا) فَکَانَ ذَلِکَ فِي سَبَبِکِ، وَ مَا أَنْزَلَ اللهُ عزوجل لِهَذِهِ الْأُمَّةِ مِنَ الرُّخْصَةِ، وَ أَنْزَلَ اللهُ بَرَاءَ تَکِ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ جَاءَ بِهِ الرُّوْحُ الْأَمِيْنُ، فَأَصْبَحَ لَيْسَِﷲِ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ اللهِ يُذْکَرُ اللهُ فِيْهِ إِلَّا يُتْلَي فِيْهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ: دَعْنِي مِنْکَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَ الَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي کُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًا ۔

ترجمہ : حضرت ذکوان جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کے دربان تھے، روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ملنے کی اجازت طلب کرنے کیلئے تشریف لائے۔. . تو آپ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو انہیں اجازت دے دو، راوی بیان کرتے ہیں پھر میں ان کو اندر لے آیا پس جب وہ بیٹھ گئے تو عرض کرنے لگے: اے ام المومنین! آپ کو خوشخبری ہو، آپ نے جواباً فرمایا: اور تمہیں بھی خوشخبری ہو، پھر انہوں نے عرض کیا: آپ کی آپ کے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات میں سوائے آپ کی روح کے قفس عنصری سے پرواز کرنے کے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام ازواج مطہرات سے بڑھ کر عزیز تھیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے پاکیزہ چیز کے کسی کو پسند نہیں فرماتے تھے، اور ابوا والی رات آپ کے گلے کا ہار گر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح تک گھر نہ پہنچے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے صبح اس حال میں کی کہ ان کے پاس وضو کرنے کیلئے پانی نہیں تھا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی ’’پس تیمم کرو پاکیزہ مٹی کے ساتھ۔‘‘ اور یہ سارا آپ کے سبب ہوا اور یہ جو رخصت اللہ تعالیٰ نے (تیمم کی شکل میں) نازل فرمائی (یہ بھی آپ کی بدولت ہوا) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی براءت سات آسمانوں کے اوپر سے نازل فرمائی جسے حضرت جبریل امین علیہ السلام لے کر نازل ہوئے پس اب اللہ تعالیٰ کی مساجد میں سے کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے جس میں اس (سورئہ براءت) کی رات دن تلاوت نہ ہوتی ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: اے ابن عباس! بس کرو میری اور تعریف نہ کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مجھے یہ پسند ہے کہ میں کوئی بھولی بسری چیز ہوتی (جسے کوئی نہ جانتا ہوتا) ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 276، الرقم: 2496، و ابن حبان في الصحيح في الصحيح، 16 / 41، 42، الرقم: 7108، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 321، الرقم: 10783، و أبو يعلي في المسند، 5 / 5765، الرقم: 2648،چشتی)


عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسٍ وَ هُوَ يُکَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ: رَأَيْتُکَ وَاضِعًا يَدَيْکَ عَلٰى مَعْرَفَةِ فَرَسِ دِحْيَةَ الْکَلْبِيِّ وَ أَنْتَ تُکَلِّمُهُ، قَالَ: وَ رَأَيْتِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ: ذَاکَ جِبْرِيْلُ عليه السلام وَ هُوَ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ، قَالَتْ: وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَکَاتُهُ، جَزَاهُ اللهُ خَيْراً مِنْ صَاحِبٍ وَ دَخِيْلٍ، فَنِعْمُ الصَاحِبُ وَ نِعْمَ الدَّخِيْلُ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ایک آدمی سے کلام فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ان سے کلام فرما رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے یہ منظر دیکھا؟ آپ نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تجھے سلام پیش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں، اور اللہ تعالیٰ دوست اور مہمان کو جزائے خیر عطا فرمائے، پس کتنا ہی اچھا دوست (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس) اور کتنا ہی اچھا مہمان (حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 674، الرقم: 24506، 2 / 871، الرقم: 1635، و الحميدي في المسند، 1 / 133، الرقم: 277، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 46، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 20)


عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا رَأَيْتُ مِنَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طَيِّبَ نَفْسٍ قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ اللهَ لِي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ، اغْفِرْ لِعَائِشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهَا وَ مَا تَأَخَّرَ مَا أَسَرَّتْ وَمَا أَعْلَنَتْ فَضَحِکَتْ عَائِشَةُ حَتَّي سَقَطَ رَأْسُهَا فِي حِجْرِهَا مِنَ الضِّحْکِ، قَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: أَيَسُرُّکِ دُعَائِي، فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا يَسُرُّنِي دُعَاؤُکَ، فَقَالَ ﷺ: وَاللهِ، إِنَّهَا لَدُعَائِي لِأُمَّتِي فِي کُلِّ صَلَاةٍ ۔

ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوشگوار حالت میں دیکھا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! عائشہ کے اگلے پچھلے، ظاہری و باطنی، تمام گناہ معاف فرما (ایسا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرائے مزاح فرمایا) یہ سن کر حضرت عائشہ رضی الله عنہا اتنی ہنسیں یہاں تک کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں آ پڑا (یعنی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں) اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میری دعا تمہیں اچھی لگی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعا مجھے اچھی نہ لگے، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! بے شک ہر نماز میں میری یہ دعا میری امت کیلئے خاص ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، 6 / 48، الرقم: 7111، الحاکم في المستدرک، 4 / 13، الرقم: 6738، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 390، الرقم: 32285، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 498، الرقم: 2032، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 145، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243)


عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: کَانَتْ عَائِشَةُ أَفْقَهَ النَّاسِ وَ أَعْلَمَ النَّاسِ وَ أَحْسَنَ النَّاسِ رَأْيًا فِي الْعَامَّةِ ۔

ترجمہ : حضرت عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں ۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 15، الرقم: 6748، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18)


عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِشِعْرٍ، وَلَا فَرِيْضَةٍ، وَلَا أَعْلَمَ بِفِقْهٍ مِنْ عَائِشَةَ ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر، شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 276، الرقم: 26044، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 234، و ابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1883، و العسقلاني في الإصابة، 8 / 18،چشتی)


عَنِ الزُّهْرِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: لَوْ جُمِعَ عِلْمُ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِيْهِنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کَانَ عِلْمُ عَائِشَةَ أَکْثَرُ مِنْ عِلْمِهِنَّ ۔

ترجمہ : حضرت زہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس امت کی تمام عورتوں کے جن میں امہات المومنین بھی شامل ہوں علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہے ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 184، الرقم: 299، و العسقلاني في تهذيب التهذيب، 12 / 463، و المزي في تهذيب الکمال، 35 / 235، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 33، و الخلال في السنة، 2 / 476، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 185، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243، و قال: رجال هذا الحديث ثقات،چشتی)


عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا رَأَيْتُ خَطِيْبًا قَطُّ أَبْلَغَ وَلَا أَفْطَنَ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ۔

ترجمہ : قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو عائشہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 183، الرقم: 298، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 5 / 398، الرقم: 3027، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 243)


عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَ لَا بِفَرِيْضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَ لَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيْثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے بڑھ کر کسی کو قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں کی باتیں، اور نسب کا عالم نہیں دیکھا ۔ (أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 49، 50، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 32)


عَنْ أُمِّ ذَرَّةَ وَ کَانَتْ تَغْشَي عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَعَثَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلٰىهَا بِمَالٍ فِي غَرَارَتَيْنِ ثَمَانِيْنَ أَوْ مِائَةَ أَلْفٍ فَدَعَتْ بِطَبْقٍ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صَائِمَةٌ فَجَلَسَتْ تَقْسِمُ بَيْنَ النَّاسِ فَأَمْسَتْ وَ مَا عِنْدَهَا مِنْ ذَلِکَ دِرْهَمٌ فَلَمَّا أَمْسَتْ، قَالَتْ: يَا جَارِيَةُ، هَلُمِّي فِطْرِي فَجَاءَ تْهَا بِخُبْزٍ وَ زَيْتٍ، فَقَالَتْ لَهَا أُمُّ ذَرَّةَ: أَمَا اسْتَطَعْتِ مِمَّا قَسَمْتِ الْيَوْمَ أَنْ تَشْتَرِي لَنَا لَحْمًا بِدِرْهَمٍ نَفْطُرُ عَلَيْهِ، قَالَتْ: لاَ تُعَنِّفِيْنِي، لَوْ کُنْتِ ذَکَرْتِيْنِي لَفَعَلْتُ ۔

ترجمہ : حضرت ام ذرہ، جو کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں کہ حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ نے (مال رکھنے کے لئے) ایک تھال منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئیں، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہو گئی تو آپ نے فرمایا: اے لڑکی! میرے لیے افطار کیلئے کچھ لاؤ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی، پس ام ذرہ نے عرض کیا: کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں جس سے آج ہم افطار کرتے، حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا: اب میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی ۔ (أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 47، و هناد في الزهد، 1 / 337، 338، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 187، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 8 / 67،چشتی)


عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ امْرَأَ تَيْنِ أَجْوَدَ مِنْ عَائِشَةَ وَ أَسْمَاءَ وَ جُوْدُهُمَا مَخْتَلِفٌ: أَمَّا عَائِشَةُ، فَکَانَتْ تَجْمَعُ الشَّيْئَ إِلٰى الشَّيْيئِ حَتَّي إِذَا کَانَ اجْتَمَعَ عِنْدَهَا قَسَمَتْ وَ أَمَّا أَسْمَاءُ فَکَانَتْ لَا تُمْسِکُ شَيْئًا لِغَدٍ ۔

ترجمہ : حضرت عبد الله بن زبیر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی الله عنہما سے بڑھ کر سخاوت کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی اور دونوں کی سخاوت میں فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا تھوڑی تھوڑی اشیاء جمع فرماتی رہتی تھیں اور جب کافی ساری اشیاء آپ کے پاس جمع ہو جاتیں تو آپ انہیں (غربا اور محتاجوں میں) تقسیم فرما دیتیں، جبکہ حضرت اسماء (بھی) اپنے پاس کل کیلئے کوئی چیز نہیں بچا کر رکھتی تھیں ۔ (أخرجه البخاري في الأدب المفرد، 1 / 106، الرقم: 286، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 58، 59)


عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلٰى عَائِشَةَ بِطَوْقٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيْهِ جَوْهَرٌ قُوِّمَ بِمِائَةِ أَلْفٍ، فَقَسَّمَتْهُ بَيْنَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔

ترجمہ : حضرت عطا سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو سونے کا ہار بھیجا جس میں ایک ایسا جوہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرما دیا ۔ (أخرجه هناد في الزهد، 1 / 337، الرقم: 618، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 29،چشتی)


عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ عَائِشَةَ رضی الله عنها ، کَانَتْ تَسْرَدُ الصَّوْمَ. وَ عَنِ الْقَاسِمِ، أَنَّ عَائِشَةَ کَانَتْ تَصُوْمُ الدَّهْرَ وَ لاَ تَفْطُرُ إِلَّا يَوْمَ أَضْحَي أَوْ يَوْمَ فِطْرٍ ۔ و في رواية عنه: قَالَ: کُنْتُ إِذَا غَدَوْتُ أَبْدَأُ بِبَيْتِ عَائِشَةَ أُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَغَدَوْتُ يَوْمًا فَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تَسَبِّحُ وَ تَقْرَأُ: (فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) وَ تَدْعُوْ وَ تَبْکِي وَ تُرَدِّدُهَا فَقُمْتُ حَتَّي مَلَلْتُ الْقِيَامَ فَذَهَبْتُ إِلٰى السُّوْقِ لِحَاجَتِي ثُمَّ رَجَعْتُ فَإِذَا هِي قَائِمَةٌ کَمَا هِيَ تُصَلِّي وَ تَبْکِي ۔

ترجمہ : حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔ اور قاسم روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عید الاضحی اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں ۔ اور ان ہی سے روایت ہے کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس جاتا، پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیہ کریمہ پڑھ رہی تھیں (فَمَنَّ اللهُ عَلَيْنَا وَ وَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمِ) اور دعا کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں، پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا، پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اسی حالت میں کھڑی نماز ادا کر رہیں ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں ۔ (أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 2 / 451، الرقم: 4048، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 375، الرقم: 2092، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 164، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 31)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نسبت “جبیر بن مطعم ” کے بیٹے سے ہوئی تھی مگر جبیر نے اپنی ماں کے ایماء پر یہ نسبت اس لیے فسخ کردی کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق عتیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے اہل مسلمان ہوچکے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم کی تحریک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے عقد مبارک مکہ مکر مہ ماہ شوال المکرم  میں ایک روایت کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل بروایت دیگر تین سال قبل 621 عیسوی میں انتہائی سادہ و سادگی سے ہوا ۔ امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خود نکاح پڑھایا, پانچ سو درہم حق مہر مقرر ہوا ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کے تین سال بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ شریف تشریف لے گئے ۔ مدینہ منور پہنچ کر سرور کائنات نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن حارثہ , حضرت ابورافع ‘ اور حضرت عبداللہ بن اریقط رضی اللہ عنہم کو اپنے اہل وعیال کولانے کےلیے مکہ مکرمہ بھیجا ۔ واپسی پر حضرت زید بن حارثہ کے ہمراہ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا ‘حضرت ام کلثوم ‘ حضرت سودہ بنت زمعہ ‘حضرت ام ایمن اور حضرت اسامہ بن زید تھے ۔ اور حضرت عبداللہ بن اریقط کے  ہمراہ حضرت عبداللہ بن ابوبکر’ حضرت ام رومان’ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم اجمعین تھیں ۔ (مدارج نبوۃ جلد دوم ‘ازواج مطہرات)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں آپ کا مقام و مرتبہ اور آپ سے جو محبت تھی وہ نا قابلِ بیان ہے : حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب غزوۂ سلاسِل سے واپس آئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا *عائشہ* ، انہوں نے عرض کی مردوں میں ؟ فرمایا ان کے والد (حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) ۔ {بخاری شریف}

ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن  میں آپ کا درجہ فقہ وحدیث علم وفضل میں بہت ہی بلند ترین اور ممتاز ہے ۔ خود آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے دین کا نصف علم اس حُمیرا یعنی بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سیکھو ۔ اور حضرت امام زہری کے یہ پیارے الفاظ آپ کے علم و ہنر میں مہارت تامہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں فرماتے ہیں: اگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے علم کے مقابلے میں تمام امّھات المؤمنین ، بلکہ تمام عورتوں کے علوم کو رکھا جائے تو حضرتِ عائشہ صدیقہ کے علم کا پلہ بھاری ہوگا - ام المومنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ‘ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور امیرالمومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہم کے دور میں آپ فتوی دیاکرتی تھیں ‘اکابر صحابہ ‘صحابیہ آپ کے علم وفضل کے معترف تھے اورمسائل میں آپ سے استفسار کیا کرتے تھے آپ سے دوہزار دوسو دس (2210) حدیثیں مروی ہیں جن میں سے ایک سوچوہتر (174)حدیثوں پر بخاری و مسلم نے اتفاق کیاہے ۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی آپ سے منقول ہے ۔ تفسیر ‘ حدیث ‘ اسرار شریعت ‘خطاب, ادب اور انساب میں آپ کو بہت کمال حاصل تھا ۔ (زرقانی جلد دوم’ جلد سوم فضائل اہلیت ‘شان صحابہ)

اوصاف وکمالاتِ ‘علم و فضل ‘فہم و فراست ‘ تبلیغِ دین ‘ زہد وتقوی اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لحاظ سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  کو کافی فوقیت حاصل تھی ۔

ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ خود فرماتی ہیں : دس خوبیوں (اوصاف) سے مجھے دیگر ازواجِ مطہرات پر فوقیت حاصل ہے ۔
(1)  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سوا کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا ۔
(2)  میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مُہاجر ہوں ۔
(3)  اللہ تعالٰی نے میری پاکدامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا ۔
(4)  نکاح سے قبل حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں مجھے خواب میں دیکھتے رہے ۔
(5)  میں اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے کر غسل کیا کرتے تھے یہ شرف میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا ۔
(6)  حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نمازِ تہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی ہوئی رہتی تھی امہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی ۔
(7)  میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ اعزازِ خداوندی ہے جو میرے سوا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی کسی زوجہ محترمہ کو حاصل نہیں ہوا ۔
(8)  وفاتِ اقدس کے وقت میں حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو اپنی گود میں لیے ہوئی تھی اور آپ کا سرِ انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا وصال ہوا ۔
(9)  حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے میری باری کے دن وصال فرمایا ۔
(10)  نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزار مبارک خاص میرے گھر (حجرۂ عائشہ) میں بنی ۔ (سیرت المصطفی)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا خدمت دین کے باب میں کردار اور مقام و مرتبہ کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کےلیے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین پر استقامت اور ریاضت و مجاہدہ میں آپ کو کتنا تمکن حاصل تھا ۔ خدمت دین اس وقت تک مقبول اور مبارک نہیں ہوتی جب تک دین کی خدمت کرنے والے خود اپنی زندگی سیرت و کردار کو اور اپنے شب و روز کو عملی نمونہ نہ بنالیں ۔ ام المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مقبول ترین زوجہ مطہرہ تو تھیں مگر خود وہ اپنی عملی زندگی میں دین کا عظیم الشان نمونہ تھیں ۔ یہاں آپ کی حیات مبارکہ چند گوشے اختصار کے ساتھ بیان کیے جارہے ہیں جس کی روشنی میں آپ کے کردار کے مبارک پہلو کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔

آپ رضی اللہ عنہا کا ذوق عبادت اور ریاضت و مجاہدہ اس قدر بلند مرتبے کا تھا کہ نماز میں طویل قیام فرماتیں۔ جس کو احمد بن حنبل نے اپنی المسند میں نقل کیا ہے ۔ اس طرح نفلی نمازیں ادا کرتیں تو قرات کے دوران جب آیت وعید کا ذکر آتا آپ پر گریہ و زاری طاری ہوجاتی ، آپ ان کا تکرار کرتیں ۔ نماز کے بعد دیر تک آپ پر گریہ کی کیفیت طاری رہتی ۔ فرض نمازوں کا یہ عالم تھا کہ آپ اکثر و بیشتر نماز پنجگانہ با جماعت اداکرتیں ۔ وہ یوں کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارک متصل تھا ۔ امام کی آواز آتی تھی سو مسجد نبوی کے امام کی اقتداء میں متصل اپنے حجرہ مبارک میں نماز ادا کرتی تھیں ۔ جب خواتین زیادہ جمع ہوجاتیں تو الگ سے اہتمام کرتیں اور خود صف کے وسط میں قیام فرماکر انہیں نماز پڑھاتیں ۔ آپ صائم الدھر تھیں اکثر و بیشتر روزے کا اہتمام فرماتیں ۔ سخت گرمیوں میں بھی نفلی روزہ ترک نہ کرتیں ۔ امام احمد بن حنبل نے المسند ، امام ابن سعد طبقات میں آپ کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ایک مرتبہ گھر پر تھیں ، حج پر نہیں گئی تھیں نویں ذوالحج تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان کے مطابق روزہ رکھا تھا کیونکہ سخت گرمی تھی ۔ آپ اپنے اوپر پانی گرارہی تھیں ۔ آپ سے افطار کرلینے کا کہا گیا فرمایا : میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے ۔ جو لوگ حج پر نہ گئے ہوں ان کے لیے یوم عرفہ کا روزہ پچھلے پورے سال کےلیے کفارہ بن جاتا ہے ۔

عبادت میں کوئی ایک فضیلت کا امر اپنی حیات میں ترک نہ کرتی تھیں ۔ حتی کہ سفر میں بھی روزہ ترک نہ کرتی تھیں ۔ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے سوال کیا کہ آپ نے جہاد کو افضل ترین اعمال قرار دیا ہے ۔ کیا ہم جہاد نہ کیا کریں ؟ یعنی شوق جہاد پیدا ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : سب سے افضل عبادت حج مبرور ہے دوسری روایت میں ہے ۔ حج و عمرہ افضل عبادت ہے آپ اس پر اکتفاء کریں ۔ اسی طرح آپ کی حیات طیبہ میں اور عادت مبارک میں جود و سخا کمال درجے کا تھا ۔ تھوڑا زیادہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دست مبارک تک پہنچ جاتا یا آپ کی ملکیت میں آجاتا اسی وقت خیرات کر دیتیں ۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے فرمان کو اکثر بیان فرماتیں ۔ ’’دوزخ کی آگ سے بچائو اختیار کرو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کی خیرات کے ذریعے سے ہو ۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بہت فتوحات ہوئیں ۔ اموال کثرت سے آنے لگے جو مال آپ رضی اللہ عنہا کے حصے میں آئے آپ اس مال کو اسی لمحے خرچ کر دیتیں ۔

امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں بیان فرمایا ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم آپ کے حصہ میں آئے۔ آپ نے سورج غروب ہونے سے پہلے پورا ایک درہم خیرات کردیا۔ ایک روز آپ کی خادمہ نے عرض کیا : اگر آپ ایک درہم بچا کر رکھ لیتی اس سے ہمارے لیے کچھ گوشت آجاتا ۔ فرمایا : بیٹے ! اگر مجھے پہلے بتادیتیں تو میں بچا لیتی ۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی زہد و ورع بھی کمال درجے کا تھا آپ نے پوری حیات مبارکہ میں فرائض و واجبات اور سنن کا پوری صحت سے اہتمام کیا اور شبہات سے بچیں ۔ ایک روز ایک نابینا شخص سوال کرنے کے لیے آیا تو آپ نے اس سے پردہ کرلیا جس پر آپ سے کہا گیا کہ وہ تو دیکھتا نہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ میں تو دیکھتی ہوں ۔

آپ کے حجرہ مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا مزار مبارک تھا ۔ بعد ازاں حضرت صدیق اکبر بھی وہاں مدفون ہوئے جب سیدنا فاروق اعظم تو آپ پردے کا زیادہ اہتمام کرتیں کیونکہ وہ آپ کےلیے نامحرم تھے اس سے آپ کے اعتقاد کا اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب مزار حاضر ہونے والے کو دیکھتا ہے ۔

اس طرح دعوت و تبلیغ میں آپ کا کردار بڑا نمایاں تھا ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا بڑا اہتمام کرتیں ، جب کسی کے عمل میں کوئی کمی بیشی آپ مشاہدہ فرماتیں اسی وقت اس کو حکمت و بصیرت اور محبت سے اصلاح اور تربیت کرتیں ۔ آپ کا علم دین اتنا وسیع تھا کہ جس قرآن کے علم، علم التفسیر ، علم الحدیث ، علم فقہ میں گہرائی و گیرائی ، عربی ادب، شعر و نثر ، علم میراث ، علم تاریخ ، علم انساب، علم طب پر کمال درجے کی مہارت رکھتیں ۔ علم میں آپ کا درجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات رضی اللہ عنہن میں بلند تھا ۔ ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں ۔

جسے امام ترمذی نے روایت کیا جب بھی صحابہ کرام کو علمی مسائل میں اشکال ہوتا اور کسی سے کوئی حل نہ ہورہا ہوتا تو آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلہ کو حل فرما دیتیں ۔ آپ کے دروازے پر علم کا کوئی طلبگار بھی آتا مشکل حل کروائے بغیر واپس نہ جاتا ۔ جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور آکر سوال کرتے تھے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبداللہ ابن عباس ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم آپ سے اخذ فیض ، استفادہ اور مسائل دریافت کرتے ۔ اس وجہ سے 100 سے زائد صحابہ کرام ، تابعین عظام رضی اللہ عنہم نے آپ سے علم اور احادیث نبوی روایت کی ہیں ۔ آپ کا درجہ صحابہ اور صحابیات میں استاذ کا تھا ۔

امام زہری فرماتے ہیں آپ کے علم کو جملہ خواتین علماء کے علم کے ساتھ سے موازنہ کیا جائے بلکہ سب کے علم کو جمع کرلیا جائے تو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ان سب سے وسیع تر ہے ۔ امام بدرالدین زرکشی نے الاجابہ کے نام سے کتاب لکھی جس میں آپ کی دقت علم کو بیان کیا ہے ۔

امام جلال الدین سیوطی نے عین الصحابہ کے نام سے ایک رسالہ رقم فرمایا ہے آپ کے علم کی گہرائی ، گیرائی ، فقہ اجتہاد علم کا بیان کیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو آپ کا ہی حجرہ مبارک محبط وحی تھا اکثر و بیشتر نزول وحی آپ کے ہی حجرہ مبارکہ میں ہوتا ۔ اسی وجہ سے آپ صحابہ کرام تابعین عظام کےلیے معلمہ تھیں ۔ آپ مفسرہ ، محدثہ ، مجتہدہ ، فقیہہ ، زاہدہ ، عابدہ ، طیبہ طاہرہ تھیں ۔ پوری امت مسلمہ کی ماں ہیں ۔ آپ کا شمار کبار حفاظ حدیث و سنت میں ہوتا ہے ۔ آپ پردہ کے پیچھے سے تعلیم دیتی تفسیر پڑھاتیں ، حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی حدیث روایت کرتیں ۔ سنت نبوی کے احکام سمجھاتیں ، استنباط اور اجتہاد کے ذریعے پوری امت کی رہنمائی فرماتیں ۔ آقا صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے وصال کے بعد کم و بیش 50 برس تک حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی سنت کو امت تک پہنچایا ، حدیث نبوی کی تعلیم دی ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرویات 2210 ہیں یہ مسند عائشہ ہیں ۔ اس میں متفق علیہ 174 ہیں جو بخاری اور مسلم دونوں میں روایت ہوئی ہیں۔ بقیہ میں سے صحیح بخاری میں 54 اور صحیح مسلم میں 69 بیان ہوئی ہیں ۔ بقیہ حدیث دیگر کتب احادیث ہیں ۔

اگر آپ کی مرویات نہ ہوتیں تو سنت نبوی کا بہت بڑا حصہ امت کو معلوم نہ ہوسکتا۔ خاص کر سنت فعلیہ کا حصہ، آپ کا حجرہ مبارک اس امت کا سب سے بڑا مدرسہ، حدیث و سنت تھا۔ جہاں علم، فقہ، علم، حدیث، علم قرآن، علم تفسیر کے چشمے بہتے تھے۔ صحابہ کرام تابعین عظام مختلف شہروں سے اطراف عالم سے سفر کرکے آپ سے اکتساب فیض کرتے۔ آپؓ کا فیض آج بھی امت کو جاری ہے۔ آج بھی عالم رئویا میں ام المومنین حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا حدیث کی اجازت فرماتیں ہیں حدیث کی سند حدیث کا سبق دیتی اور حدیث کا سبق سنتی ہیں ۔ بخاری و مسلم کی کتب کی اجازت اور سند خود دیتی ہیں ۔ آج بھی آپ کا فیض امت محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم میں جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک یہ طریق جاری رہے گا ۔

آپ نے حدیث میں روایت بالمعنی کا طریق اختیار نہیں اپنایا بلکہ روایت بالفظ پر تمسک کیا۔ ضبط الفاظ حدیث کا بڑی اہتمام کیا۔ امت کی سب بڑی فقیہ تھیں۔ کبار مجتہدین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ صحابہ کرام کی طرف سے آپ سے فتویٰ طلب کیا جاتا احکام میں اجتہاد اور استنباط کرتیں، آپ نے بہت سے شاگرد چھوڑے جن میں عروہ بن زبیر ہیں جنہیں عالم المدینہ کا لقب دیا جاتا تھا یہ آپ کے بھانجے اور حضرت اسما بن ابی بکر کے صاحبزادے ہیں ۔ انہوں نے طویل عمر آپ کی صحبت میں رہ کر اخذ علم اور اکتساب فیض کیا اور مدینہ طیبہ کے سب سے بڑے عالم بنے۔ اس طرح آپ کے تلامذہ میں حضرت قاسم بن ابی بکر آپ کے بھتیجے ہیں جو اتنے بڑے زاہد اور اتنے بڑے صوفی زہد و ورع کے پیکر تھے کہ دور دراز سے تابعین چل کر آپ سے اکتساب فیض کے لیے تشریف لاتے ۔

آپ کے معمولات کو دیکھ کر دین سیکھتے ۔ یہ قاسم بن محمد بن ابی بکر وہ ہستی آپ کے درس کے دوران جن کی مسجد نبوی میں مسند حدیث تھی اور مسجد نبوی بھری رہتی تھی ۔ طلبہ ان سے حدیث کا درس لیتے یہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فیض کے قاسم ہیں ۔ بعد ازاں ان کی مسند پر عبدالرحمن بن قاسم بن محمدبن ابی بکر بیٹھے ۔ انہوں نے علم حدیث کے چشمے بنائے ۔ یہی وہ نشست ہے جس پر بعد ازاں امام مالک بیٹھے ۔ آپ کے تلامذہ میں ان تابعین کے علاوہ سعید بن مسیب جیسی جلیل القدر ہستیاں ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عامر حضرت مسروق بن اجداء بھی ہیں ۔ آپ سے حضرت عکرمہ نے بھی براہ راست اخذ علم اور اکتساب فیض کیا ۔

اسی طرح خواتین میں بھی بہت سی مفسرہ، محدثہ اور فقیہہ ہوئیں جن کے ذریعے آپ نے امت میں علم کے چشمے اور دریا بہائے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں میں امت میں کسی ایسی عالمہ،محدثہ، فقیہا، مفسرہ سے واقف نہیں ہوں جن کا علم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جتنا ہو ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم سے علم کا بہت سا حصہ یاد کرلیا اور 50 برس تک اس نبوی علم کی امانت امت کو پہنچاتی رہیں اور کثیر تعداد میں خلق نے آپ سے اخذ علم کیا اور استفادہ کیا ۔ اور دین کے احکام و اداب سیکھے اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں شریعت کے کم و بیش ایک چوتھائی احکام ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں ۔ آپ سے استفادہ کرنے والے جلیل القدر تلامذہ کا عدد 88 ہے ۔ جیسے خلق کثیر کہا جاتا ہے ۔ حضرت عائشہ بنت طلحہ کہتی ہیں کہ آپ مرجع خاص و عام تھیں ہر شہر سے طالبان علم سفر کرکے آپ کی بارگاہ میں آتے ۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں کہاں ہے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا چشمہ علم محمدی صلی اللہ علیہ والہ و سلم تھیں ۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے علم کے دریا بہادیے ۔ کتب حدیث آپ کی مرویات سے معمور ہیں۔ نسلاً بعد نسل امت کے علماء، محدثین ، مجتہدین، فقہاء بالواسطہ یا بلاواسطہ آپ سے فیض لیتے رہے۔ دین میں آپ کی خدمات کا یہ عالم ہے کہ آپ ام المومنین تو ہیں ہی مگر محسنہ المومنین بھی ہیں۔ علم کے باب میں پوری امت کی سرپرستی فرمانے والی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ سے اکتساب فیض کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے علم سے حاصل ہونے والے نور سے اپنی زندگیوں کو منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

عبادت و ریاضت میں بھی آپ کا مقام و مرتبہ بہت ہی اَرفع و اعلیٰ ہے ۔ آپ بکثرتِ فرائض کے علاوہ نوافل پڑھتیں اور اکثر روزہ دار رہتیں، ہر سال حج کرتیں ۔ آپ کے بھتیجے حضرتِ قاسم بن محمدبن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہم کا بیان ہے کہ بی بی عائشہ صدّیقہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا بلا ناغہ تہجد کی نماز پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتیں ۔
(ازواج مطہرات)

خوفِ خداوندی اور خشیتِ ربانی کا یہ عالم کہ ایک بار دوزخ کی یاد آگئی تو رونا شروع کر دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو عرض کیا کہ مجھے دوزخ کا خیال آگیا اس لیے رو رہی ہوں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو شعروشاعری میں بھی بہت مہارت حاصل تھی - جب کوئی ضرورت درپیش ہوتی تو فی البدیہ اشعار میں گفتگو کرتی تھیں ۔

ام المومنین رضی اللہ عنہا کے یہ دو شعر نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مدح میں مروی ہیں : ⬇

لوسمعوافی مصر اوصاف خدہ
لمابذلو فی سوم یوسف من نقد
لواحی زلیخالوراین حبیبۂ
لاثرن بالقطع القلوب علی الایدی
(زرقانی جلد سوم)

ماہ رمضان المبارک کی سترہ تاریخ 57 یا 58 ہجری مطابق 13 جولائی 678 عیسوی چھیاسٹھ (66) سال کی عمر میں آپ کا وصال مدینہ منوّرہ میں ہوا طانا للہ و انا الیہ راجعون ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8،چشتی)

حضرت سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیّت کے مطابق رات میں آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں تدفین ہوئی ۔
ام المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذاتِ مبارکہ حُسن علم و ادب فضل وکمال ‘ ریاضت و روحانیت’ پیکرِ شرم و حیا ‘ مجسمۂ عفّت و عصمت ‘ سیرت و خصلت ‘ ذہانت و فطانت ‘ علم و ہنر کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا مجموعہ کمالات تھیں  آپ کی ذاتِ مبارکہ خواتین کے لئے حُسنِ صورت اور حُسنِ سیرت کا ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے جن کی زندگی کے آئینہ میں دنیا اور دین دونوں سنوارے جا سکتے ہیں ۔ حضرت ام المؤمنین کی سیرتِ مبارکہ سے ہماری ماں بہنوں کو اپنی زندگی سنوارنی چاہیے اور ہم سب کو زیادہ سے خراج عقیدت پیش کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی بارگاہ اقدس کا قرب حاصل کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔


ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا وصال مبارک : پہلے کھلے رافضی اور اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی یہ جھوٹ بول کر کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا اس طرح یہ کذّاب لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور توہین بھی کرتے ہیں آئیے حقائق کیا ہیں پڑھتے ہیں مستند دلائل کی روشنی میں ۔ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب ، المقصدالثانی ، الفصل الثالث،عائشۃ ام المؤمنین جلد ۴ صفحہ ۳۹۲)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

جب ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية، لابن کثير، ج : 4، جز : 7، ص : 97)

امام بخاري رحمۃ الله علیہ (المتوفى256) صحیح بخاری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا ۔ (صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753،چشتی)
ترجمہ : ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے ۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔ اس جھوٹ اور بہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو ۔ نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا ۔(صحيح ابن حبان: 16/ 41)

عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔ بلکہ حاکم کی روایت میں ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ : جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی،چشتی)

یہ روایات اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طور پر ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔ آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کا بھی ہے ۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا نے پڑ ھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ (اسد الغابہ،ج:۵/ص:۵۰۴،چشتی)

کیا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد ماتم کیا ؟

ہمارے پیج کے ان باکس میں شیعہ حضرات کی طرف سے کیے گئے اعتراض کے بارے میں ہم سے جواب طلب کیا گیا جس کا ہم مدلل جواب تحریر کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔

شیعہ جب بھی دلیل دیتے ہیں تو صرف اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں اور پوری بات نہیں کرتے۔ جس طرح حضرت عائشہ کا ماتم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں لیکن مکمل روایت نقل نہیں کی اور یہ مکمل روایت ہے اور فیصلہ خود کریں : ⬇

حدثنا يعقوب قال حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال حدثني يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير عن أبيه عباد قال سمعت عاشة تقول مات رسول الله صلى الله عليه وسلم بين سحري ونحري وفي دولتي لم أظلم فيه أحدا فمن سفهي وحداثة سني أن رسول الله قبض وهو في حجري ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ألتدم مع النسا وأضرب وجهي ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال میری گردن اور سینہ کے درمیان اور میری باری کے دن میں ہوا تھا ، اس میں میں نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا، لیکن یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی کہ میری گود میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اور پھر میں نے ان کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور خود عورتوں کے ساتھ مل کر رونے اور اپنے چہرے پر ہاتھ مارنے لگی ۔ (مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 6258 إسناده حسن)

اس میں ماتم کا جواز نہیں ملتا بلکہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرما رہی ہیں کہ “یہ میری بیوقوفی اور نوعمری تھی” ۔
یہ وفات کسی عام بندے کی نہیں تھی بلکہ افضل البشر ورحمۃ اللعالمین کی وفات تھی اور عائشہ رضی اللہ عنھا سے یہ عمل ہو بھی گیا ہے تو اس کو ماتم کرنے کی دلیل نہیں لی جا سکتی ۔
ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے اور شیعہ جنہیں امام معصوم سمجھتے ہیں ان سے بھی کافی غلطیاں ہوئیں تھی.جیساکہ شیعہ کتاب “ملاذ الاخیار / ج10/ صفحہ 126 پر لکھا ہے علی ع نے غلطی سے آدمی کو چوری کے الزام میں ہاتھ کٹوا دیئے لیکن اصل چور کوئی اور تھا۔
اگر حضرت عائشہ سے ایک بارماتم ثابت ہے اور جس میں وہ خود اپنی غلطی کا ازھار بھی کر رہی ہے تو کیا اسے جس طرح شیعہ ماتم کرتے ہیں اس کی دلیل لی جا سکتی ہے؟ کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے ہر سال ماتم کیا ؟
اگر شیعہ سمجھتے ہیں کی ماتم کرنا محبت کی نشانی ہے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک پر حضرت علی، فاطمہ، حسن وحسین رضی اللہ عنھم اجمعین نے ماتم کیوں نہ کیا ؟ کیوں سینہ نہیں پیٹا ؟ کیوں تلوار سے ماتم نہیں کیا ؟ کیوں قمی زنی نہیں کی؟ کیا ان حضرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی؟
کیا شیعہ حضرات نبی ص کی وفات پر ہر سال ماتم کرتے ہیں ؟ کیونکہ ماتم تو شیعہ کے نزدیک عبادت ہے ، اور بعض کے نزدیک تو اصل نماز ہی ماتم ہے ۔
ہم شیعہ حضرات کو دعوت دیتے ہیں کہ اللہ عزوجل سے ڈریں اور جب بھی بات کریں تو مکمل کیا کریں صرف اپنے مطلب کی بات کاٹ کر لوگوں کو گمراہ نہ کریں ۔

اللہ عزوجل نے ہمیں اشرف المخلوقات میں سے پیدا کیا اگر وہ چاہتا تو ہمیں جانوروں میں سے بھی پیدا کر سکتا تھا اس وجہ سے اللہ کا شکر ادا کریں اللہ سبحان وتعالی نے ہمیں صحت جیسی نعمت دی، ہمیں دماغ دیا سوچنے کیلئے اس وجہ سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا کفر نہ کریں اپنا خون بہا کر ۔

اللہ ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان صبر کرنے والوں میں سے کردے جنہیں اللہ نے قرآن میں بشارت دی ہے آمین ۔

القرآن۔ سورۃ البقرۃ ۔ آیت 155-156

اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے

جنہیں ، جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نکاح اور رخصتی کے وقت عمر کی تحقیق : ⏬

محترم قارئینِ کرام : منکرین حدیث نے اس بات کو بہت اچھالا ہے کہ حدیث شریف میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی شادی کے وقت 9 سال عمر بتائی گئی ہے جو عقل و نقل کی رو سے غلط ہے ۔ اس سے غیر مسلموں بلکہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی انکار حدیث کا بہانہ مل گیا ہے ۔ فقیر کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک شادی کے وقت کم سے کم 17 یا 19 سال تھی ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی بڑی بہن سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا  طویل العمر صحابیات میں سے ہیں ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی والدہ محترمہ ہیں ۔ بڑی خدا رسیدہ عبادت گذار اور بہادر خاتون ان کی عمر تمام مورخین نے سو سال لکھی ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں ۔ سیدہ اسماء حضرت عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے پانچ یا دس دن بعد فوت ہوئیں ۔ سن وفات 73ھ ہے ۔ اس حساب سے سیدہ اسماء کی عمر ہجرت کے وقت 27 سال ہوئی اور سیدہ عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  ان سے دس سال چھوٹی ہیں تو آپ کی عمر ہجرت کے وقت 17 سال ہوئی ۔ اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  کی رخصتی 2ھ کو مانی جائے تو رخصتی کے وقت آپ کی عمر مبارک 19 سال ہوئی۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔

اسلمت اسماء قديما وهم بمکة فی اول الاسلام... وهی آخر المهاجرين والمهاجرات موتا. وکانت هی اکبر من اختها عائشة بعشر سنين.. بلغت من العمر ماته سنة ۔
ترجمہ : اسماء مکہ میں اوائل اسلام میں مسلمان ہوئیں۔ مہاجرین مردوں عورتوں میں سب سے آخر فوت ہونے والی ہیں۔ اپنی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے دس سال بڑی تھیں ۔ (ابن کثير، البدايه والنهايه 8 / 346 طبع بيروت)

اسلمت قديما بعد اسلام سبعة عشر انسانا... ماتت بمکة بعد قتله بعشره ايام وقيل بعشرين يوماً وذلک فی جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : مکہ معظمہ میں سترہ آدمیوں کے بعد ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔۔۔ اور مکہ مکرمہ میں اپنے بیٹے (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ) کی شہادت کے دس یا بیس دن بعد فوت ہوئیں اور یہ واقع ماہ جمادی الاولیٰ سن 73ھ کا ہے ۔ (علامه ابن حجر عسقلانی، تهذيب التهذيب 12 ص 426 طبع لاهور، الامام ابوجعفر محمد بن حرير طبری، تاريخ الامم والملوک ج 5 ص 31 طبع بيروت، حافظ ابونعيم احمد بن عبدالله الاصبهانی م 430ه، حلية الولياء وطبقات الاصفياء 2 ص 56 طبع بيروت)

اسلمت قديما بمکة وبايعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.. ماتت اسماء بنت ابی بکرالصديق بعد قتل ابنها عبدالله بن الزبير وکان قتله يوم الثلثاء لسبع عشرة ليلة خلت من جمادی الاولیٰ سنة ثلاث وسبعين ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  مکہ معظمہ میں قدیم الاسلام ہیں ۔ آپ نے رسول اللہ A کی بیعت کی ۔ اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیر کی شہادت کے چند دن بعد فوت ہوئیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کی شہادت بروز منگل 12 جمادی الاولیٰ 73ھ کو ہوئی ہے ۔ (محمد ابن سود الکاتب الواقدی 168ه م 230ه الطبقات الکبریٰ ج 8 / 255 طبع بيروت)

کانت اسن من عائشة وهی اختها من ابيها.. ولدت قبل التاريخ لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسمائ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  سے زیادہ عمر کی تھیں۔ باپ کی طرف سے سگی بہن تھیں۔ ہجرت سے 27 سال قبل پیدا ہوئیں ۔ (امام ابن الجوزی، اسدالغايه فی معرفة الصحابة ج 5 ص 392 طبع رياض)

اسلمت قديما بمکة قال ابن اسحق بعد سبعة عشر نفسا .. بلغت اسماء مائة سنة ولدت قبل الهجرة لسبع وعشرين سنة ۔
ترجمہ : سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا  مکہ مکرمہ میں ابتدائً مسلمان ہوئیں ۔ ابن اسحاق نے کہا سترہ انسانوں کے بعد سو سال عمر پائی ہجرت سے 27 سال پہلے پیدا ہوئیں ۔ (شهاب الدين ابوالفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی، الاصابة فی تميز الصحابة 4 ص 230 م 773ه طبع بيروت، سيرة ابن هشام م 1 ص 271 طبع بيروت، علامه ابن الاثير، الکامل فی التاريخ 4، ص 358 طبع بيروت،چشتی،علامه ابوعمر يوسف ابن عبدالله بن محمد بن عبدالقرطبی 363ه، الاستيعاب فی اسماء الاصحاب علی هامش الاصابة 463ه ج 4 ص 232 طبع بيروت، حافظ شمس الدين محمد بن احمد الذهبی، تاريخ الاسلام ودفيات المشاهير والاسلام ج 5 ص 30 طبع بيروت، الروض الانف شرح سيرة ابن هشام ج 1 ص 166 طبع ملتان)

حضرت عائشہ کی عمر اور حضرت اسماء کی عمر کی نسبت
بقول عبدالرحمن ابن ابی الذناد۔ حضرت اسماء، حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں ۔ (سیار العلم النبالہ، الذہابی ، جلد 2 ، صفحہ 289 عربی ۔ موسستہ الرسالہ، بیروت ، 1992،چشتی)

بقول ابن کثیر: حضرت اسماء اپنے بہن حضرت عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص371، دار الفکر العربی الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن کثیر : حضرت اسماء نے اپنے بیٹے کو 73ھ میں مرتے ہوئے دیکھا۔ اور پھر 5 دن، یا 10 دن یا 20 دن یا' کچھ دن' یا 100 دن بعد( دنوں کی تعداد مورخ یا محدث پر منحصر ہے) ان کی وفات 100 برس کی عمر میں ہوئی ۔ (البدیاہ والنہایہ، ابن کثیر، جلد 8، ص 372، دار الفکر العربی، الجزاہ، 1933)

بحوالہ ابن حجار الاثقلینی : حضرت اسماء - 100 سو برس زندہ رہیں اور 73ھ یا 74 ھجری میں وفات پائی ۔ (تقریب التہذیب، ابن حجار الاثقلینی، ص 654، عربی۔ باب فی النساء، الحرف الیف، لکھنئو،چشتی)

تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماء کی وفات - سو برس کی عمر میں 73ھ یا 74 ھ میں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ھجرت کے وقت ، 27 یا 28 برس کی تھیں ۔ جس کے حساب سے حضرت عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت 17 یا 18 سال اور رسول اللہ کے گھر 19 یا 20 سال کی عمر سے رہنا شروع کیا ۔

حجار ، ابن کثیر ، اور عبدالرحمن کی درج روایات کے مطابق ، حساب کرنے سے ، حضرت عائشہ کی عمر ، شادی کے وقت 19 یا 20 سال بنتی ہے ۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سن ہجری کا آغاز نہیں ہوا اور سن عیسوی یا کسی اور سن کا عرب معاشرے میں تعارف یا چلن نہ تھا۔

اہل عرب کسی مشہور تاریخی واقعہ سے سالوں کا حساب کرتے تھے مثلاً واقعہ اصحاب فیل، سے اتنا عرصہ پہلے یا بعد وغیرہ۔ باقاعدہ سن ہجری کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں کیا اور اس کا آغاز سال ہجرت سے کیا ۔

پہلی سن ہجری ، دوسری سن ہجری، تیسری سن ہجری میں کم سے کم امکانی مدت ۔ پہلی سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ لیں اور دوسری سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم ، دو سنوں میں وقفہ ایک دن ۔ دوسرے رخ سے دیکھیں پہلی سن ہجری کا پہلا دن یعنی یکم محرم، دوسری سن ہجری کا آخری دن یعنی 30 ذی الحجہ، کل مدت دو سال مکمل۔ دونوں صورتوں میں سن بدل گئے مگر ایک طرف ایک دن ملا اور دوسری طرف پورے دو سال ۔ جب تک تاریخ اور مہینہ متعین نہ ہو یہ فرق باقی رہ کر ابہام پیدا کرتا رہے گا ۔

آج کل پرنٹ میڈ یا کتنی ترقی کر چکا ہے مگر کتابوں میں ، اخبارات میں ، حد تو یہ کہ قرآن کریم کی طباعت و کتابت میں غلطی ہوجاتی ہے ، پہلا دور تو ہاتھوں سے کتابت کا دور تھا ، ممکن ہے ’’تسع عشر‘‘ انیس سال عمر مبارک ہو ، مگر کتابت کی غلطی سے تسع یا تسعاً رہ گیا اور عشر کا لفظ کتابت میں ساقط ہوگیا ہو ، تسع عشر انیس سال کی جگہ تسعاً یا تسع یعنی نو سال باقی رہ گیا اور آنے والوں نے نقل درنقل میں اسی کو اختیار کرلیا کہ نقل کرنے والے اعلیٰ درجہ کے ایماندار ، پرہیزگار ، علوم وفنون کے ماہر ، صحیح و سقیم میں امتیاز کرنے والے ، نہایت محتاط لوگ تھے ۔ وجہ سقوط کچھ بھی ہونا ممکن نہیں ۔ حقائق بہر حال حقائق ہوتے ہیں ، ان کے چہرے پر گردو غبار تو پڑ سکتا ہے مگر ہمیشہ کےلیے اسے مسخ نہیں کیا جا سکتا ۔ احادیث کی تمام کتب میں ایسے تسامحات کا ازالہ کیا جانا چاہیے تاکہ بد اندیش کو زبان طعن دراز کرنے کی ہمت نہ رہے ۔

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا وصال مبارک : ⏬

محترم قارئینِ کرام : پہلے کھلے رافضی اور اب سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضی یہ جھوٹ بول کر کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قتل کروایا اس طرح یہ کذّاب لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں اور توہین بھی کرتے ہیں آیئے حقائق کیا ہیں پڑھتے ہیں مستند دلائل کی روشنی میں ۔ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ حکومت میں آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری میں ۶۶ سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں ۔ (شرح الزرقا نی علی المواہب ، المقصدالثانی ، الفصل الثالث،عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۲)

ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وصال کے وقت فرمایا : کاش کہ میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے کاش کہ پتھر ہوتی کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

جب ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا تو ان کے گھر سے رونے کی آواز آئی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنی باندی کو بھیجا کہ خبر لائیں ۔ باندی نے آکر وصال کی خبر سنائی تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی رونے لگیں اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت فرمائے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اپنے والد ماجد کے بعد ۔ (مدارج النبوت،قسم پنجم،باب دوم،درذکر ازواج مطہرات وی،ج۲،ص۴۷۳)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کو بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے ۔ آپ کا نماز جنازہ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز وتر کے بعد پڑھایا تھا ۔ (البداية والنهاية، لابن کثير، ج : 4، جز : 7، ص : 97)

امام بخاري رحمۃ الله علیہ (المتوفى256) صحیح بخاری میں روایت لکھتے ہیں : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَبْلَ مَوْتِهَا عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ مَغْلُوبَةٌ، قَالَتْ: أَخْشَى أَنْ يُثْنِيَ عَلَيَّ، فَقِيلَ: ابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمِنْ وُجُوهِ المُسْلِمِينَ، قَالَتْ: ائْذَنُوا لَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدِينَكِ؟ قَالَتْ: بِخَيْرٍ إِنِ اتَّقَيْتُ، قَالَ: «فَأَنْتِ بِخَيْرٍ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، زَوْجَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَنْكِحْ بِكْرًا غَيْرَكِ، وَنَزَلَ عُذْرُكِ مِنَ السَّمَاءِ» وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ خِلاَفَهُ، فَقَالَتْ: دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَثْنَى عَلَيَّ، وَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ نِسْيًا مَنْسِيًّا ۔ (صحيح البخاري: 6/ 106 رقم 4753،چشتی)
ترجمہ : ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں ۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں (اس لئے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں خدا کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ انشاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات (قرآن مجید میں) آسمان سے نازل ہوئی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے ۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اوراس کے اوپر سے اسے چھپا کر وہاں پر ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلوایا ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا وہاں پہچنچی تو گڈھے میں گرگئی اور ان کی وفات ہوگئیں ۔ اس جھوٹ اور بہتان کے برعکس بخاری کی اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو ۔ نیز بخاری کی یہی حدیث صحیح ابن حبان میں بھی ہے اوراس میں ابن عباس کے لئے عیادت کے الفاظ ہیں ، ملاحظہ ہو : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ صَالِحِي بَنِيكَ جَاءَكِ يَعُودُكِ , قَالَتْ: فَأْذَنْ لَهُ فَدَخَلَ عَلَيْهَا ۔(صحيح ابن حبان: 16/ 41)

عیادت کا لفظ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طریقہ پرہوئی تھی ۔ بلکہ حاکم کی روایت میں ام المومنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بیماری کی پوری صراحت ہے ملاحظہ ہوں الفاظ : جاء ابن عباس يستأذن على عائشة رضي الله عنها في مرضها ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/ 9 ، صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی)

یہ روایات اس بات کی زبردست دلیل ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات فطری طور پر ان کے گھر پر ہوئی تھی ۔ آپ کا وصال 17 رمضان المبارک سن 57 / ہجری میں ہوا ۔ ایک قول 58 / ہجری کا بھی ہے ۔ نماز جنازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہا نے پڑ ھائی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔ (اسد الغابہ،ج:۵/ص:۵۰۴)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

فضائل و مناقب حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ

فضائل و مناقب حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ محترم قارئینِ کرام : تین (3) ہجری میں پندرہ (15) رمضان المبارک کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ...