Sunday, 30 March 2025

بحیثیت مسلمان ہم عید کیسے منائیں

بحیثیت مسلمان ہم عید کیسے منائیں

محترم قارئینِ کرام : عیدالفطر مسلمانون کےلیے اللہ کریم کی طرف سے ایک بہترین تحفہ ہے ۔ اللہ عزوجل کا کرم بالائے کرم ہے کہ اس نے ہمیں رمضانُ المبارک کے بعد عیدُ الفطر کی نعمت عطا فرمائی ۔ احادیثِ کریمہ میں عیدِ سعید کے کئی فضائل بیان کیے گئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے : جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ پاک فرشتوں کو بھیجتا ہے جو زمین پر اتر کر راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر ندا دیتے ہیں جسے انسان اور جنّ کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ، وہ کہتے ہیں : اے اُمّتِ محمدیہ ! اپنے رب کریم کی طرف آؤ ، وہ تمہیں بہت دے گا اور تمہارے بڑے گناہ معاف فرمائے گا ۔ جب لوگ عیدگاہ میں آجاتے ہیں تو اللہ پاک فرشتوں سے فرماتا ہے : اے میرے فرشتو ! مزدور کا بدلہ کیا ہے جب وہ اپنا کام مکمل کر لے ؟ ملائکہ عرض کرتے ہیں : اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک ! اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پوری اجرت دی جائے۔ اللہ پاک فرماتا ہے : اے میرے فرشتو ! میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ میں نے اپنی رضا اور مغفرت کوان کے رمضان میں روزے رکھنے اور قیام کرنے کا ثواب بنادیا ۔ (اخبار مکہ للفاکہی جلد 2 صفحہ 316 حدیث نمبر 1575)


ہمیں چاہیے کہ اس نعمت کے ملنے پر اپنے ربِّ کریم کا خوب شکر ادا کریں ۔ شکر ادا کرنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں ، مثلاً : سجدۂ شکر ادا کریں ، (سجدہ (شکر) کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہو کر اَللہُ اَکْبَرْ کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہے ، پھر اَللہُ اَکْبَرْ کہتاہوا کھڑا ہو جائے ۔ (بہار شریعت جلد 1 صفحہ 731،چشتی)


اپنے اعضاء کو نیکی کے کاموں میں لگائیں اور اس دن کو غفلت میں گزارنے کے بجائے اپنے رب کی اطاعت میں گزاریں ۔ پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں ۔ شکرانے کے نوافل ادا کریں ۔ زبان سے شکر ادا کریں یعنی اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کریں۔ غریبوں کی مدد کیجیے : اس موقع پر اپنی زکوٰۃ و صدقات میں غریب و نادار اور سفید پوش لوگوں کو بھی یاد رکھیں جس طرح ہو سکے ان کی مدد کریں اللہ ۔


اس دن غریب مسلمان بھائیوں کی صدقہ فطر کی صورت میں مدد کو اللہ پاک نے فرض قرار دیا ہوا ہے ۔ آج کل جس طرح مہنگائی اور بے روزگاری نے صورتحال اختیار کی ہوئی ہے ۔ اس میں تو بہت بڑی تعداد اپنے بچوں کو دو وقت کی خوراک مہیا کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ کجا یہ کہ وہ عید پر ان بچوں کی خوشیوں کےلیے کوئی کپڑے وغیرہ خرید سکیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ اسلامی عید الفطر کے تصور کے مطابق زیادہ سے زیادہ مدد کریں ۔ ایسے لوگوں کی اور اسمیں ہم صدقہ فطر صرف گندم کے حوالے سے ادا کرنے کی بجائے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دوسرے معیار کے مطابق زیادہ سے زیادہ ادا کریں اور جب اپنے بچوں کےلیے کپڑے خرید رہے ہوں تو کم از کم ایک غریب بچے کےلیے بھی اسی طرح کے کپڑے خرید لیں ، اسی طرع جب عید کے پکوانوں کےلیے خریداری کریں تو کم از کم ایک غریب گھر کے بھی خریداری کر کے باعزت طریقے سے ان کے گھر تک پہنچا دیں ۔ ہم سب نے رمضان میں خوب عبادات کی ہوتی ہیں اور ان روضوں اور عبادات کا اجر تو اللہ کریم ضرور ہمیں عطا فرمائیں گے لیکن اگر ہم اپنی عبادات کے ساتھ غریب بھائیوں کی مدد کا اہتمام کر لین تو یقین مانئے ہمیں کہیں زیادہ اجر مل جائے گا ۔ ہم ویسے بھی صدقات کا اہتمام تو کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اگر فطرانہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مزید صدقات بھی دے دیئے جائیں تو اس سے نہ صرف غریب مسلمان اچھی عید منا سکیں گے بلکہ ان کے دل سے نکلی دعاوں کے زیر اثر ہماری عید بھی بہترین ہو جائے گی ۔ (چشتی)


ہمیں یہ عید الفطر مناتے ہوئے اپنے غزہ فلسطین کے مجبور و مقہور مسلمانوں کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے اور من حیثُ القوم طرف سے خصوصی امدادی سامان کے ساتھ ساتھ عید الفطر کے حوالے سے اپنے ان مظلوم مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کےلیے لباس ، خوراک اور ادویات وغیرہ بھی بھجوانا چاہیے صرف دعائیں کافی نہی ہیں، دوائیں بھی بھجوانا چاہیے ۔ غزہ میں حالات بہت خراب ہیں ۔ 90 فیصد سے زیادہ شہری بغیر چھت کے نیلے آسماں تلے اپنی عید گزاریں گے ۔ ہمیں چاہیے کہ انہیں بھائیوں کی طرع بھائی کا درجہ دیتے ہوئے اپنی خوشیوں میں انہیں شریک کرین یا پھر کم از کم ہم خود بھی عید پہ ہونے والے اضافی اخراجات کرنے کی بجائے وہ تمام اخراجات مدد کی صورت میں ان مظلوموں تک پہنچا دیں اور حکومتِ وقت پر بھی اتنا پریشر ڈالیں کہ وہ خصوصی جہازوں کے ذریعے یہ امدادی سامان عید سے پہلے وہاں پہنچانے کا خصوصی بندوبست کرے ۔ اسی طرح پوری امت مسلمہ کو ہمیں یہ پیغام پہنچانا چاہیے کہ امت مسلمہ کا ہر ملک حکومتی سطح پر اس بات کو ممکن بنائے کہ ہر مسلم ملک سے عید الفطر کے حوالے سے خصوصی امدادی سامان غزہ کے مسلمانوں تک پہنچایا جائے ۔


مسلمان کا دل خوش کرنے کی نیّت سے اپنے رشتہ داروں اور دوست و احباب کو مبارکباد دیں ۔ خدانخواستہ  اگر کسی سے کوئی ناراضی ہے تو عید کے موقع سے فائدہ اٹھاکر ان سے بھی رابطہ کریں ، عید کی مبارک باد دیں اور اللہ عزوجل کی رضا حاصل کرنے کےلیے صلح کی جانب قدم بڑھائیں ۔ خوشیاں منائیے مگر ؟ عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے ، اس میں خوب خوشیاں منائیں مگر ایسا لباس ہرگز نہ پہنیں اورنہ ہی اپنی بچیوں کو پہنائیں جس سے بے پردگی کا اندیشہ ہو ۔ ایسے زیورات بھی نہ پہنیں جو شریعت نے منع فرمائے ہیں جیسے بعض صورتوں میں جھانجن یعنی گھنگرو والا زیور کہ حدیث پاک کے مطابق اُس گھر میں رحمت کےفِرِشتے نہیں آتے جس میں جھانج ہو ۔ (سنن ابوداؤد جلد 4 صفحہ 125 حديث نمبر 4231،چشتی)


عید کے نا م کے سا تھ ہی چہروں پر چمک آجا تی ہے ، خوشی و انبسا ط سے اطرا ف کا ما حول خوش کن نظر آ رہا ہو تا ہے چہا ر جانب بچو ں کی پکاریں ، رنگ رنگے پیراہن ، بناؤ سنگھار ، مہندی سے سجے ہاتھ ، گھروں سے امڈتی خوشبؤیں ، روایتی و جدیدیت کی خوشبو میں رچے بسے پکوان ، میل ملاپ سلام دعا ، عید کی خوشیوں کو دوبالا کررہے ہوتے ہیں ۔ کیا امیر کیا غریب ، سب اپنی اپنی استعداد کے مطا بق عید کی خوشیاں منانے میں مگن ہیں اور کیوں نہ منائیں ؟ عید امت مسلمہ کےلیے رب کا انعام بھی تو ہے ۔ خوشی کے موقع پر خوشی منانا اور اس کا اظہار کرنا انسان کا فطری تقاضہ بھی ہے ، لیکن تھو ڑی دیر کےلیے دل کو تو ٹٹول کر دیکھ لیں ، کیا دل واقعی خوش ہے ؟ کوئی کسک تو دل میں نہیں پنپ رہی ، کوئی پھانس تو دل میں نہیں اٹکی ہوئی ، بدگمانیوں کی زہریلی سوچوں نے تو دل کو آلودہ نہیں کر رکھا ، اپنے ہی جسم کو تو زخم زخم نہیں کر رکھا ؟ اگر ایسا ہے تو عید کی خوشیاں مصنوعی ہیں، ہر وہ خوشی جس میں اپنے عزیز و اقارب ، بھا ئی ، بہن ، اپنے دوست و پڑوسی آپ کی خوشی میں شریک نہ ہوں آپ سے ناراض ہوں تو وہ خوشی نہ صرف ماند پڑجائے گی ، ادھوری رہے گی بلکہ اللہ کی بھی ناراضگی کا باعث ہوگی ۔


عید رمضان المبارک کے روزوں کا انعا م ہے اور اخلاص نیت کے ساتھ رب کے حضور کیے جانے والے نیک اعمال کی قبولیت کے یقین کا ثمر بھی لیکن جب زبانیں نشتر بن جائیں ، نفسانفسی و خود غرضی کے بادل امڈ آئیں ، اپنے ہی بھائی کا قتل عام ہوتے دیکھ کر بھی بے حسی طاری رہے ، دلوں میں بغض و عداوت ، زبانوں میں لفظوں کی کاٹ ، برا گُمان ، حسد و انتقام کی آگ ، اشتعال انگیز جذبات ، اور غیبت و بدگوئی سے زبانیں آراستہ رہیں تو پھر یہ ماہ رمضان المبارک میں کیے جانے والی تمام نیکیوں کو اس طرح ادھیڑ کر رکھ دے گی جیسے کوئی سوت کات کر خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے ۔


تو آئیے اب بھی وقت ہے پہلے دلوں کو صاف کرلیں ، محبتو ں سے مالا مال کرلیں ، ندامت کے آنسؤوں سے دلوں میں جمی بے حسی کو دھو ڈالیں ۔ مسلمان مسلمان کا آئینہ ہے ، ایک جسم کی مانند ہے ، ایک عضو کو پہنچنے والی تکلیف کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے ، فلسطین میں ، غزہ میں ہمارے جگر گوشے جیسے کمسن بچوں کے سا تھ ہونے والا بہیمانہ سلوک کیا ہم کو عید سعید منانے دے گا ؟ تڑپ کر بلک کر اپنی آواز کو ظلم کے خلاف بلند کرلیں ، اقتدار کے ایوانوں کی مسندوں تک اپنا احتجاج پہنچادیں ، اپنے والدین کو راضی کرلیں ، اپنے روٹھے بہن بھائی کو منالیں ، اپنی زبان کو محبتوں کی چاشنی سے میٹھا کرلیں ، خود غرضی و نفسانیت کی حدود سے بھی دور رہیں پھر مل کر گلے لگ جائیں ، ایک دوسرے کو “تقبل اللہ منا” کہہ کر عید کی مبارکباد کہیں ، اور اس وقت دل کو ٹٹولیں تو سچی خوشی کے احساس سے دل مالا مال ہوگا ۔ عید کی مسرتوں میں اپنے ان خاندانوں کو بھی یاد رکھیں جن کا آپ سے مذہب کا رشتہ ہے ، انسانیت کا رشتہ ہے ، جن کی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں کی ویرانیاں آپ کی مدد سے دور ہوجائیں گی ، جہاں ہلال عید ان کےلیے بھی خوشیوں کا پیامبر ثابت ہوگا، بغیر کسی کسک کے ، بغیر کسی پھانس کے دل کی سچی خوشی ہی قلب کو طمانیت سے معمور کرتی ہے ، رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے تو عید اس کا پھل ہے ، اس کسان کی طرح اپنے موسم بہار کو انفاق سے ، ایثار سے ، ہمدردی و غم گساری سے تعلق باللہ سے ، عشق و محبت سے سرشار مشن نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکمیل میں اپنے اعمال سے سینچیں اور میٹھے پھل کی صورت عید کی خوشیاں منائیں ۔ (چشتی)


عید غریبوں سے ہمدردی اور اپنوں سے صلہ رحمی کا دن ہے ۔ یہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کے خاتمے اور حصول آزادی کے اس سلسلہ کی عملی جدوجہد کے عہد کا دن ہے ۔ یہ دن دلوں سے نفرتوں کو مٹانے ، روٹھے ہوئے چہروں کو منانے ، غریبوں ، مسکینوں کے کام آنے ، بھائی چارے ، محبت اور امن کا پیغام آگے بڑھانے سے منسوب ہے ۔


دنیا بھر کی سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے ، جسے ہر مذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق مناتے ہیں ۔ جس میں ”عیدالفطر“ ایک ایسا مذہبی تہوار ہے جو امتِ مسلمہ میں خاص مقام اور اہمیت کا حامل ہے ۔ عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے ، ماہِ صیام کے روزوں کی خوشی، قیام شب ہائے رمضان المبارک کی خوشی ، نزول قرآن کی خوشی ، لیلۃ القدر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کےلیے رحمت و بخشش اور عذابِ جہنم سے آزادی کی خوشی ۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر بھی کہا جاتا ہے ۔ جس سے عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ انہی وجوہات کی بناءپر اسے مومنوں کے لیے خوشی کا دن قرار دیا گیا ہے ۔ آقائے کل جہاں رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کےلیے دعا مانگتے ہوئے دو عیدوں کا تحفہ امتِ مسلمہ کو دیا ۔ مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو مسلمان عید الفطر مناتے ہیں۔ ”عید“ کے معنی خوشی اور ”فطر“ کے معنی کھولنا ہیں ۔ یہ دن ماہِ صیام کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر منانے کا دن ہے ۔ جسے امتِ مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دن دلوں سے نفرتوں کو مٹانے، روٹھے ہوئے چہروں کو منانے ، غریبوں ، مسکینوں کے کام آنے ، بھائی چارے ، محبت اور امن کا پیغام آگے بڑھانے سے منسوب ہے ۔


ہمارے اردگرد بہت سے افراد ، خاندان ایسے ہیں جن کے پاس عید کرنے تو دور دو وقت کی روٹی کے وسائل دستیاب نہیں ۔ مالی طور پر آسودہ طبقات کےلیے عید واقعی ایک خوشی کا موقع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسے ہوئے اور بنیادی ضرورتوں تک سے محروم مسلمانوں کےلیے عید بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی کیونکہ انہیں عید کی خوشیاں منانے کےلیے مطلوبہ وسائل میسر نہیں ہوتے جبکہ اُن کے معصوم بچے یہ تلخ حقیقت قبول کرنے کے لائق نہیں ہوتے ۔ عید کی خوشیوں میں مستحق و بے سہارا بچے آپ کے تعاون کے منتظر ہیں ۔ اور مستحق و بے سہارا بچوں کو مختلف دیہاتوں میں مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ان کے کھانے پینے و علاج معالجہ ، اور دینی کتب کی خریداری کے سلسلہ میں تعاون کیجیے جزاكم الله خیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑے بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبر : 03009576666 ۔ موبی کیش و ایزی پیسہ اکاؤنٹ نمبر : 03215555970 ۔ دعا گو ڈاکٹر مفتی فیض احمد چشتی خطیب لاہور پاکستان ۔


یہ ظلم ہے کہ ہم خود تو عیش و عشرت کریں اور غریب بے بسی کی تصویر بنے رہیں ۔ اسی لیے صدقہ فطر مقرر کیا گیا ۔ لیکن ہم حسب استطاعت نہیں دیتے ۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ آخری ایام میں کم از کم فطرانہ ادا کیا جائے ۔ کیا اس مہنگائی کے طوفان میں ایک غریب ہزار پندرہ سو میں خاندان کو عید کروا سکتا ہے ؟ ہمیں دوسروں کا احساس کرنا چاہیے ۔ جتنا اللہ تعالیٰ نے دِیا ہے اس حساب سے فطرانہ دیا جانا چاہیے تاکہ غربا ، مسکین ، نادار بھی شریک ہو سکیں ۔ خوشیاں منائیں نئے کپڑے نئے جوتے لیکن اس کے ساتھ ہی ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے غریب مسلمان بھائیوں اور بےسہارا بچوں کو بھی نہ بھولیں ۔ حسبِ توفیق انہیں بھی اپنی عید کی خوشیوں میں ضرور شریک کریں ۔ عید اصل میں ہے ہی دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا نام ہے یا دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا نام ہے ۔ یہ عید تیرے واسطے خوشیوں کا نگر ہو ۔


اگر ہمارے پڑوس میں خاندان میں کوئی عید کی خوشیوں شامل نہیں ہو سکتا غربت کی وجہ سے تو اس کی مدد کرنے سے ہی عید کی دلی خوشیاں ملیں گئیں۔ ”عید“ غریبوں سے ہمدردی اور اپنوں سے صلہ رحمی کا دن ہے ۔ یہ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی بے بسی کے خاتمے اور حصول آزادی کے اس سلسلہ کی عملی جدوجہد کے عہد کا دن ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی تا کہ وہ غریب مسلمان بھی مسرتوں اور خوشیوں کا تھوڑا سا حصہ حاصل کر سکیں اور ویسے بھی ایک غریب مسلمان کی خوشی کے موقع پر بے لوث مدد اور خدمت کرنے سے جو روحانی خوشی حاصل ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے ۔ اور ایسی مدد کرنے پر اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی خوش ہوتے ہیں اور اگر ہو سکے تو ابھی سے ان کی مدد کر دیں تاکہ وہ اپنے بچوں کےلیے کپڑے خرید سکے ۔ یہ ہمارا ان پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف سے ہم پر فرض ہے ۔ اللہ نے ہم کو دیا ہے تو ہماری ذمہ داری بھی بنتی ہے ۔


عید کے روز دل میں کوئی رنجش نہ رکھیں ۔ جن سے ماں باپ کی کوئی نافرمانی ہوئی ہے ان سے معافی مانگ لیں ۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے پیار محبت سے پیش آئیں ۔ اپنی خوشی میں غریبوں ، یتیموں ، بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کریں اور سب کے ساتھ اپنی خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹیں ۔ کیونکہ خوشی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اس کی چاشنی میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے ۔ ایسی بھی کیا خوشی ! کہ جس میں اللہ عزوجل کی یاد سے غفلت برتی جائے ! جس میں فرائض و واجبات کو فراموش کر دیا جائے ۔ لہٰذا خوشیاں مناتے ہوئے فرائض و واجبات کی بجا آواری کا بھی خوب خیال رکھیں اللہ عزوجل نے چاہا تو ان کی برکت سے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی و دیدار کی عیدی مل جائے گی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر چشم کشا مضمون

 مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر چشم کشا مضمون محترم قارئینِ کرام ارشادِ بارعی تعالیٰ ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا...