Wednesday, 24 February 2016

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی محبت

محبوب نے فرمایا کہ بلال (رضی اللہ عنہ) کتنی بے وفائی ہے اتنا عرصہ گزر گیا کہ تم ہماری ملاقات کو نہیں آئے:صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں رویا کرتے تھے۔ چنانچہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ فرمایا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ پہلے تو یہاں محبوب کا دیدار ہوتا تھا۔ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اذان دیتا تھا اب میں اگر محبوب کا دیدار نہیں کرسکوں گا تو میں برداشت نہیں کرسکوں گا چنانچہ انہوں نے ملک شام میں ہجرت فرمائی۔ پھر اس کے بعد انہوں نے اذان نہیں کہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے صرف دو مرتبہ اذان دی۔ ایک اذان تو جب بیت المقدس فتح ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صحابہ کا دل مچل اٹھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا امیر المومنین آپ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہیے۔ یہ اللہ کے محبوب کے موذن تھے۔ آج ذرا یاد تازہ ہوجائے اور بیت المقدس میں ان کی اذان ہوجائے تو بلال رضی اللہ عنہ نے پہلے تو انکار کردیا جب امیر المومنین نے حکم دیا اب انکار کی گنجائش نہ تھی تو ایک تو انہوں نے قبلہ اول میں اذان دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پھر ایک مرتبہ ملک شام میں رات کو سوئے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا تو محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال (رضی اللہ عنہ) کتنی بے وفائی ہے اتنا عرصہ گزر گیا کہ تم ہماری ملاقات کو نہیں آئے۔ بس اس خواب کے آتے ہی اٹھ بیٹھے اپنی بیوی سے کہا کہ میری اونٹنی تیار کرو اور میں اب مدینہ جارہا ہوں۔ چنانچہ شام سے مدینہ طیبہ کا سفر کیا اب جب مدینہ طیبہ میں آئے تو نماز کا بھی وقت تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی چاہت تھی کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دور والی اذان سنیں اور محبوب کی یاد تازہ ہو۔ انہوں نے انکار فرمادیا۔ چنانچہ سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہم اجمعین دونوں شہزادوں کی خواہش تمنا ایسی تھی کہ اس کا انکار نہیں کرسکتے تھے چنانچہ کہنے لگے اچھا میں اذان دیتا ہوں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دینی شروع کی اب اچانک جب مدینے میں صحابہ نے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز سنی جس کو وہ دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سنا کرتے تھے تو ان کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد تازہ ہوگئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو مرغ نیم بسمل کی طرح رونے لگے۔ ایک آواز بلند ہوئی۔ مدینہ کی عورتیں بھی اپنے گھر سے چادریں سر پر کرکے مسجد نبوی کی طرف بھاگیں اور اس وقت ایک عجیب کیفیت پیدا ہوئی کہ جب عورتیں بھی رو رہی تھی اور مرد بھی رو رہے تھے۔ ایک چھوٹے بچے نے جو ماں کے کندھے پر بیٹھا تھا اس نے حضرت بلال رضی اللہ عنہم کو دیکھا تو اپنی ماں سے پوچھنے لگا امی بلال رضی اللہ عنہ تو اتنے عرصے کے بعد واپس آگئے تم بتائو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کب واپس آئیں گے؟
کہتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب اَشھَدُاَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللّٰہ پر پہنچے اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بے قرار ہوکر نیچے گرگئے۔ مہاجرین اور انصار مدینہ میں بہت آوازیں بلند ہوئیں۔

حسن و جمال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم



امام ترمذی نے اپنی سند متصل کے ساتھ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ذکر کی جس میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارکہ کو بیان کیا، فرماتے ہیں:

"حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے، آپ کا سینہ مبارک وسیع تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال گھنے تھے ،جن کی درازی کان کی لو تک تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ دھاری دار کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا، میں نے آپ سے زیادہ حسین کبھی کوئی چیزنہیں دیکھی۔ براء بن عازب کی اس بات کو حضرت حسان ابن ثابت رضی اللہ عنہ شاعرِ رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا:
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأً من کل عیب
کأنک قد خلقت کما تشاء
امام طبری نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حمیدہ کو اپنی مایاناز تصنیف "سیرة سید البشر" میں ذکر کیا ہے، اس کا ترجمہ حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہی نے کیا ہے، جو مختصر اور اتنا جاندار ہے کہ خود بخود پڑھتے ہوئے آنکھوں میں آنسوں کی لڑی بندھ جاتی ہے تو آئیے ہم اسی کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی صفات اور حلیہ مبارک وغیرہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلّم میانہ قد لوگوں میں تھے،نہ زیادہ دراز تھے، نہ ایسے پست قامت تھے کہ کوئی آنکھ آپ کی طرف سے اعراض کرکے دوسری کے طرف راغب ہو، بل کہ آپ متوسط قد والے تھے، دونوں کندھو ں کے درمیان کا رنگ سفید تھا، جس میں سرخی جھلکتی تھی ، بعض نے کہا ہے کہ: اس میں بجائے سرخی کے سنہرا پن تھا، خالص سفید چونے کی طرح نہیں تھا ،نہ بالکل گندمی تھا، جس میں سانولا پن ہو۔ بال مبارک گھونگھریالے تھے، جب دراز ہوتے تو کانوں کی لو تک پہنچ جاتے، جب چھوٹے ہوتے تو کانوں کے نصف تک رہتے، سفیدی سر اور ریش مبارک میں بیس بالوں تک بھی نہیں پہنچی تھی ۔گردن مبارک گویا چمکدار صاف خوشنماچاندی یاہاتھی دانت کی مورت تھی ،چہرہٴ انور روشن تھا ،چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا ،تمام اعضا نہایت معتدل اور مناسب تھے ،سر مبارک اچھا بڑاتھا،بال گنجان تھے ،سر کے بال اڑے نہیں تھے ،چہرہ مبارک دبلانہیں ہواتھا،بل کہ ہمیشہ تروتازہ اوربارونق رہا۔
آنکھوں کی سیاہی نہایت عمدہ اورتیزتھی، مزگان دراز تھیں، آوازمیں قوت اور گرج تھی ،گردن میں خوشنمادرازی تھی ،ریش مبارک گنجان تھی ۔
خاموشی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروقار طاری رہتاتھا،تکلم فرماتے تو رونق اورنورکا غلبہ ہو جاتا، دور سے دیکھوتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ بارونق اور جمیل۔ نزدیک سے دیکھوتوسب زیادہ شیر یں اورحسین، بات میں رس اورمٹھاس تھی، بات بہت زودفہم، درمیانہ درجہ کی اورصاف ہوتی تھی، نہ بالکل مختصر ،نہ زیادہ لمبی، الفاظ گویاکہ بیش بہاموتی ہیں، جوایک ایک کرکے پروئے ہوئے ہیں۔
پیشانی مبارک کشادہ، ابرو گنجان کشیدہ باریک، لیکن دونوں ابرو ملے ہوئے نہیں تھے، بل کہ ان کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کی حالت میں ابھرآتی تھی۔ ناک بلندی مائل تھی، اس پرایک شعلہ نماچمک تھی، اول وہلہ میں دیکھنے والایہ سمجھتاتھاکہ آپ کی ناک ہی اتنی اونچی ہے۔

آنکھ کی پتلی خوب سیا ہ تھی، دہن مبارک کشادہ تھا، دندان مبارک آب دارتھے ،سامنے کے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی، سینہٴ مبارک سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیرتھی جیسے تلوارکی دھار، سینہ اورشکم مبارک پر اس کے علاوہ بال نہیں تھے، کندھوں اوربازووٴں پربال تھے۔
آپ جسیم تھے اور بدن گٹھا ہوا تھا،آپ کاسینہ اور شکم دونوں ہموار تھے، جوڑوں کی ہڈیاں بڑی اورمضبوط تھیں، جسم مبارک کا کھلا ہوا حصہ چمکدار تھا، سینہ فراخ تھا، کلائیاں دراز تھیں،ہتھیلی کشادہ،ہاتھ اورپیر خوب گوشت سے پر تھے،انگلیاں اچھی لمبی تھیں،قد مبارک بالکل سیدھا تھا،تلوے گہرے تھے،قدم چکنے اورصاف تھے،جن پر پانی کا کوئی قطرہ نہیں ٹھہرتا تھا، چلتے وقت قدم قوت سے اٹھاتے اورکسی قدر آگے کو جھک کر تیزی اور نرمی سے چلتے تھے،چلتے وقت ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کسی بلندی سے اتررہے ہیں ، کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پورے جسم سے متوجہ ہوتے، آپ کے دونو ں کندھوں کے درمیان مہرنبوت تھی، جیسے مسہری کی گھنڈی ہو یا کبوتری کا بیضہ ہو ،اس کا رنگ جسم مبارک ہی جیسا تھا،اس پر تل تھے، پسینہ مبارک ایسا تھا جیسے موتی،پسینہ مبارک کی خوشبومشکِ اذفرکی خوشبو سے زیادہ نفیس تھی، آپ کے اوصاف بیان کرنے والا کہتا تھا کہ:میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا شخص نہیں دیکھا،صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت براء بن عازب  فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسرخ لباس پہنے ہوئے دیکھا تو آپ سے زیادہ حسین میں نے کوئی شے کبھی نہیں دیکھی۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ: میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم نہ کسی ریشم کو مس کیا نہ دیباج کو اور آپ کی خوشبو سے عمدہ کبھی کوئی خوشبو نہیں سونگھی اور انہیں سے روایت ہے کہ:حضرت ابو بکر جب آپ کو دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے:
أمین مصطفےٰ بالخیر یدعو
کضوء البدر زایلہ الظلام
ترجمہ :آپ امانت دار ہیں،چنیدہ ہیں،خیر کی دعوت دیتے ہیں، جیسے چودھویں رات کے چاندکی روشنی سے تاریکیاں دور ہوجاتی ہیں۔
حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر ،زھیر بن ابی سلمیٰ کا یہ شعر #
لو کنت من شيء سوی البشر
کنت مضيء لیلة البدر
ترجمہ:اگر آپ بشر کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتے،تو چودھویں رات کو روشن کر نے والے ہوتے۔ پھر حضرت عمر اور ان کے ہم مجلس کہتے کہ:یہ شان تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی،کسی اور کی نہیں تھی، آپ کی شان میں آپ کے چچا ابو طالب کہتے ہیں :
وأبیض یستسقیٰ الغمام بوجھہ
ثمال الیتامیٰ عصمةٌ للأرامل
یطیف بہ الھلاک من آل ھاشم
فھم عندہ فی نعمة وفضائل
میزان حق لا یخبس شعیرة
ووِزان عدل وزنہ غیر عائل
ترجمہ:آپ خوش نما سفید رنگ والے ہیں، آپ کی برکتوں سے پانی طلب کیا جاتا ہے، آپ یتیموں پر رحم کرنے والے اور بیواوٴں کی حفاظت کرنے والے ہیں،آل ہاشم کے ہلاک ہونے والے لوگ آپ کے پاس آکرٹھہرتے ہیں، تو وہ آپ کے پاس خوش عیشی اور فضائل میں ہیں،آپ حق کی ترازوہیں،ایک جو کی بھی کمی نہیں کرتے اور انصاف کے ساتھ وزن کرنے والے ہیں،آپ کا وزن کرنا ذرا بھی زیادتی نہیں کرتا، صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وازواجہ وصحبہ وسلم۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ معنویہ
جس میں صحابہ کے ساتھ اخلاق کریمانہ اور گذران ، خود اپنے متعلق اور صحابہ کے ساتھ برتاوٴ ، آپ کے بیٹھنے ،عبادت کر نے ، سونے ، بات چیت کرنے، ہنسنے، کھانے پینے ، لباس ، خوش بو، سرمہ ، کنگھا کرنے ، مسواک کرنے، حجامت، خوش طبعی فرمانے کا ذکر ہے۔
حضرت عائشہ سے آپ کے خلق کے متعلق دریافت کیا گیا؟ تو جواب آپ کا خلق قرآن (پر عمل) تھا، جس سے قرآن ناراض اس سے آپ ناراض، جس سے قرآن راضی اس سے آپ راضی۔آپ کا غصہ اور انتقام اپنے نفس کی خاطر نہیں ہوتا تھا، لیکن اللہ کی حرام کی ہوئی چیز وں کی ہتک ہوتی تو آپ اللہ کے لیے انتقام لیتے اور غصہفرماتے اور جب آپ غصہ فرماتے تو کوئی تاب نہیں لا سکتا تھا۔
آپ کا سینہ مبارک سب سے زیادہ سخت اور گھمسان کی لڑائی کے وقت ہم آپ کی پناہ میں اپنا بچاوٴ تلاش کیا کرتے تھے۔
سب سے زیادہ سخی اور جواد تھے، کبھی آپ نے سوال کے جواب میں" لا "نہیں فرمایا ،جود وسخا کا زیادہ زور ماہ رمضان المبارک میں ہوتا تھا۔دینا رو درہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ میں رات کو گزارا نہیں کر سکتے تھے، اگر کبھی کچھ بچ گیا اور لینے والا نہیں مل سکا اور اسی حالت میں رات ہوگئی ، تو آپ شب باشی کے لیے دولت خانہ پر تشریف نہیں لاتے تھے ۔ جب تک وہ بچا ہوا کسی حاجت مند کو دے کر فارغ البا ل نہ ہوجاتے۔
جو کچھ اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرماتے آپ اس میں صرف (سال بھر کے خرچ کے لیے ) اتنی مقدار رکھلیتے جو آپ کے لیے انتہائی ضرورت کی حالت میں کفایت کرتی، وہ بھی بہت معمولی درجہ کی چیز ،جیسے کھجور اور جو اور باقی سب کا سب اللہ کی راہ میں صرف فرماتے اور اپنی ذات کے لیے بطور ذخیرہ کچھ بھی نہ رکھتے تھے ، پھر اپنے اہل خانہ کی بقدر حاجت روزی میں سے بھی ایثار فرماتے ، حتی کہ بسا اوقات سال بھر گذرنے سے بھی پہلے ہی پہلے احتیاج ہوجاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سچے ، سب سے زیادہ پابند عہد، باوفا، سب سے زیادہ نرم طبیعت تھے، آپ کا قبیلہ سب سے زیادہ با کرامت تھا ، آپ مخدوم ومطاع تھے کہ خدام خدمت کے متمنی اور اطاعت کے لیے بسر وچشم حاضر تھے۔
آپ ترش رو، سخت مزاج نہیں تھے۔ آپ عظیم القدر اور معظم تھے، سب سے زیادہ حلیم تھے۔ پردہ نشین کنواری سے زیادہ باحیا تھے ، کسی کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے، نیچی نگاہ رکھتے تھے، نظر مبارک زمین کی طرف زیادہ رہتی تھی، آسمان کی طرف کم اٹھتی تھی، عامةً گوشئہ چشم سے جلدی سے دیکھنے کی عادت تھی۔
سب سے زیادہ متواضع ، منکسر المزاج تھے ، غنی ، فقیر، شریف، ادنیٰ، حر، عبد ، جو بھی دعوت پیش کرتا قبول فرمالیتے، فتح مکہ کے روز جب حضرت ابوبکر  اپنے والد کو قبول اسلام کے واسطے خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئے، تو ارشاد فرمایا کہ: " ان بڑے میاں کو کیوں تکلیف دی !ان کو وہیں رہنے دیتے، میں خود ان کے مکان پران کے پاس چلا جاتا۔ "جواب میں عرض کیا کہ : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجا ئیں ،اللہ کے رسول کی خدمت میں حا ضر ہونے کی سعادت کے یہی زیا دہ مستحق ہیں ۔
آ پ سب سے زیا دہ رحم فر ما نے وا لے تھے ، پا نی کا بر تن شفقة بِلِّی کے لیے جھکا دیتے تھے ، جب تک وہ سیراب نہ ہوجا ئے بر تن ہٹا تے نہ تھے، عین نماز کی حالت میں کسی بچہ کی رونے کی آواز سنتے اور اس کی ماں آپ کے پیچھے نماز میں ہوتی، تو آپ شفقة نما ز میں تخفیف فر ما دیتے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عفیف تھے ، اپنی منکوحہ ، محرم، باندی کے علاوہ کسی عورت کو دست مبا رک نے نہیں چھوا ۔
اپنے اصحاب کا اکرام کر نے میں آپ سب سے بڑھے ہوئے تھے ،کبھی کسی مجلس میں آپ کو کسی کی طرف پیر پھیلا ئے ہوئے نہیں دیکھا گیا ، جب ان کے لیے جگہ میں تنگی ہو جاتی ،تو آپ (سکڑ کر ) ان کے لیے گنجا ئش نکال لیتے ، آپ کے گھٹنے کبھی کسی ہم نشین کے گھٹنے سے آگے نہیں بڑھتے تھے ۔ جو شخص اچانک آپ کو دیکھتا ،تو غیر معمولی وقار کی وجہ سے ہیبت زدہ ہو جاتااور جو شخص میل جول کر کے آپ سے ربط پیدا کر تا ، تو انتہا ئی کما لات ظا ہرہ وبا طنہ کی وجہ سے آپ کا گرویدہ ہو جاتا ۔
آپ کے رفقا ء آپ کی صحبت میں آپ کے ارد گرد جمع رہتے تھے، اگر آپ کچھ فر ما تے تو سب سننے کے لیے خا موش ہو جا تے ،اگر کو ئی حکم دیتے تو سب تعمیل کے لیے پھرتی کر تے۔آپ اپنے اصحاب کو چلتے وقت آگے بڑھا کر خود پیچھے ہو جا تے ،جو بھی ملتا آپ ابتدا بالسلام فرماتے ۔
فرمایا کرتے تھے کہ میری تعریف میں مبالغہ مت کرو ، جیسا کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں نصاری نے مبالغہ کیا ، میں صرف بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ ہی کہا کرو، آپ جس قدر اپنے گھروالوں کی خاطر تجمل فرماتے، تو اصحاب کی خاطر اس سے زیادہ تجمل فرماتے اور ارشاد فرمایا کرتے کہ "اللہ پاک اپنے بندے کی اس با ت کو پسند فرماتے ہیں کہ جب اپنے بھائیوں سے ملاقات کے لیے نکلے ،تو لباس وغیرہ ٹھیک کر کے تجمل کے ساتھ نکلے"۔
آپ اپنے اصحاب سے بے فکر اور بے خبر نہ رہتے، بل کہ ان کی دیکھ بھال کرتے اور ان کے حالات کی خیروخبردریافت فرمایا کرتے تھے، بیمار کی عیادت کرتے،مسافر کے لیے غا ئبانہ دعا فرماتے، مرنے والے پر انا للہ پڑھ کر دعا فرماتے اور جس کو یہ خیال ہوتا کہ آپ جی میں اس سے کچھ ناراض ہیں، تو آپ خود فرماتے کہ:
"شاید فلاں شخص کسی بات کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے، یاہماراقصوردیکھا ہے،چلو اس کے پاس ہو کرآئیں ۔"پھرآپ اس کے مکان پر تشریف لاتے۔ آپ کبھی صحابہ کے باغوں میں تشریف لے جاتے اور جو شخص وہاںآ پ کی ضیافت کرتا توکچھ نوش بھی فرمالیتے۔
آپ اہل عزت وشرف سے الفت رکھتے اور اہل علم وفضل کا اکرام فرماتے تھے اور پیشانی پر بل کسی سے بھی ناراض ہو کر نہیں ڈالتے تھے، اوردرشتی وسخت گیری کا برتاؤ کسی کے ساتھ بھی نہیں کرتے تھے، بغیر پیشگی احسان کے کسی کی ثنا وتعریف کو قبول نہیں کرتے تھے، عذر خواہ کے عذر کو قبول کر لیتے تھے ، حق کے معاملہ میں آپ کے نزدیک ، قوی، ضعیف، قریب ، بعید سب یکساں تھے۔
آ پ کسی کو اپنے پیچھے چلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، بل کہ اس کو بھی اپنے ساتھ سوار کرلیتے تھے اور بحالت سواری کسی کو اپنے ہم رکاب پیدل چلنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے ،بل کہ اس کو بھی اپنے ساتھ سوار کر لیتے تھے ، اگر وہ انکار کر تا تو فر ماتے کہ: "جہاں جانا ہو مجھ سے آ گے چلے جاوٴ " ۔
قُبا تشریف لے جانے کے لیے ننگی کمرِ حمار پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور حضرت ابوہریرہ آپ کے ساتھ تھے ، تو ارشاد فرمایا کہ: " اچھا! آجاؤ ، تم بھی سوار ہوجاؤ " حضرت ابوہریرہ  میں کافی وزن تھا ، چڑھنے کے لیے اچھلے، مگر نہیں چڑھ سکے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لپٹ گئے، جس سے دونوں گرے ، پھر سوار ہوئے اور فرما یا کہ: " ابو ہریرہ  ! تمہیں بھی سوار کرلوں؟" عرض کیا ، جیسے رائے عالی ہو ،فر مایا کہ " اچھا چڑ ھ جاؤ" وہ نہیں چڑھ سکے، بل کہ حضور کو ساتھ لے کر گرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سوار کرنے کے لیے پوچھا ؟ تو ابو ہریرہ  نے عرض کیا کہ ، اس ذات پاک کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ! تیسری دفعہ میں آ پ کو نہیں گراؤں گا ، لہٰذا اب سوار نہیں ہوتا ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باندیاں غلام بھی تھے ، مگر آپ لباس وطعام میں ان سے برتر ہو کر نہیں رہا کرتے تھے اور جو بھی آپ کی خدمت کرتا آپ بھی اس کی خدمت فرماتے ۔
حضرت انس  فرماتے ہیں کہ میں نے تقریبا ً دس برس آپ کی خدمت کی ، خدا کی قسم! سفر حضر جہاں بھی مجھے خدمت کا موقعہ ملا ہے توجس قدر میں نے آ پ کی خدمت کی آ پ نے اس سے زیادہ میری خدمت کی ہے اور مجھے کبھی اُف تک نہیں فر مایا اور جو کام بھی میں نے کر لیا اس پر کبھی نہیں فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ اور جوکام میں نے نہیں کیا اس پر کبھی نہیں فرمایا کہ فلاں کام کیوں نہیں کیا؟
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے، ایک بکری پکانے کی تجویز ہوئی ، ایک شخص نے کہاکہ اس کا ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرا بولاکہ اس کی کھال کھینچنا میرے ذمہ۔ تیسرے نے کہا اس کا پکانا میرے ذمہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ لکڑیاں اکٹھا کرنا میرے ذمہ۔ آپ کے رفقا ء نے عرض کی کہ حضور! یہ بھی ہم ہی آ پ کی طرف سے کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ ہاں! مجھے معلوم ہے کہ تم میری طرف سے کرلوگے ، لیکن مجھے یہ بات ناگوار ہے کہ میں اپنے رفیقوں سے امتیازی شان میں رہوں اور اللہ پاک کو بھی ناپسند ہے اپنے بندے کی یہ بات کہ وہ اپنے رفیقوں سے امتیازی شان میں رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور خود لکڑیاں جمع فرمائیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں نماز کے لیے اترے اور مصلے کی طرف بڑھے، پھر لوٹے، عرض کیا گیا کہ کہاں کا ارادہ فرما لیا ہے؟ ارشاد فرمایا کہ اپنی اونٹنی کو باندھتا ہوں،عرض کیا کہ اتنے سے کام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف فرمانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم خدام ہی اس کو باندھ دیں گے، ارشاد فرمایا کہ" تم میں سے کوئی شخص بھی دوسرے لوگوں سے مدد طلب نہ کرے، اگرچہ مسواک توڑنے میں ہو"۔
ایک روز آپ صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوے کھجوریں تناول فرما رہے تھے ،کہ صہیب آشوب چشم کی وجہ سے ایک آنکھ کو ڈھانکے ہوئے آگئے ،سلام کر کے کھجوروں کی طرف جھکے ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:"آنکھ تو دکھ رہی ہے اور شیر ینی کھاتے ہو ؟"عرض کی کہ :یا رسول اللہ! اپنی اچھی آنکھ کی طرف سے کھاتا ہوں،اس پر حضور کو ہنسی آگئی ۔ ایک روز رطب تناول فر مارہے تھے،کہ حضرت علی آگئے ، ان کی آنکھ دکھ رہی تھی ، وہ بھی کھانے کے لیے قریب ہو گئے ،ارشاد فرمایاکہ:"آشوب چشم کی حالت میں بھی شیرینی کھاوٴگے ؟"وہ پیچھے ہٹ کر ایک طرف جا بیٹھے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا تو وہ بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہے تھے ، آپ نے ان کی طرف کھجور پھینک دی ،پھر ایک اور پھر ایک اور اسی طرح سات کھجوریں پھینکیں فرمایا کہ :"تم کو کافی ہیں ،جو کھجور طاق عدد کے موافق کھائی جائے وہ مضرنہیں"۔
ایک دفعہ حضرت ام سلمہ  نے ثرید کا ایک پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیة بھیجا، جب کہ آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف فرما تھے ، حضرت عائشہ نے اس کو پھینک کر توڑ دیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دوسرے پیالہ میں اکٹھا کرنے لگے اور فرمایا: "تمہا ری ماں کو غیرت آگئی، غیرت آگئی"۔
ایک دفعہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو قصہ سنایا ،ایک نے ان سے کہا کہ :یہ ایسی بات ہے جیسی خرافہ کی بات!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"جانتی بھی ہوخرافہ کیا تھا؟ خرافہ قبیلہٴ عذرہ کا آدمی تھا، زمانہ جاہلیت میں جنات نے اسے قید کر لیا تھا ،وہ زمانہٴ دراز تک ان میں رہا، پھر وہ اسے انسانوں میں چھوڑ گئے تھے اور جو کچھ عجائبات اس نے وہاں دیکھے تھے وہ لوگوں سے بیان کیا کرتا ، تو لوگ کہا کرتے کہ :یہ تو خرافہ کی بات ہے"۔
جب آپ دولت خانہ میں تشریف لے جاتے تو وہا ں کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرما دیتے ،ایک حصہ اللہ کی عبادت کے لیے ، ایک حصہ اپنے نفس کے لیے ،ایک حصہ اپنے اہل کے لیے ، پھر جو حصہ اپنے نفس کے لیے تجویز فرماتے ، اس کو اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے اور خواص کے ذریعہ سے اس وقت میں عوام کی حاجات پوری فرماتے ۔
جو وقت آپ نے امت کے لیے تجویز فرمایا تھا ، اس میں آپ کا طریقہ یہ تھا کہ(ان آنے والوں میں )اہل فضل کو(حاضری کی اجازت میں) ترجیح دیتے تھے اور جس قدر دین کے اعتبار سے کسی کو فضیلت ہوتی اسی قدر اس پروقت بھی زیادہ صرف فرماتے، کسی کی ایک حاجت، کسی کی دو، کسی کی زائد، آپ ان میں لگے رہتے اور دیگر صحابہ کو بھی مشغول فرمالیتے اور حوائج پورا کرنے کی ہدایت دیتے اور تدبیریں بیان فرماتے رہتے اور ارشاد فرماتے کہ: " جو حاضر ہے وہ غائب تک پہنچادے اور ایسے لوگوں کی حاجات مجھ تک پہنچاؤ جو خود نہیں پہنچاسکتے، تو اللہ پاک قیامت کے روز اس کو ثابت قدم رکھیں گے۔" اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی قسم کی چیزوں کا ذکر ہوتا تھا اور اس کے علاوہ دوسری باتیں وہاں قبول نہ ہوتی تھیں۔
لوگ طلبِ علم کے لیے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے اور ایک عجیب ذوق لے کر نکلتے، دوسروں کے لیے دلیلِ خیر اور ہادی بن کر نکلتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں الفت پیدا فرماتے تھے، نفرت سے بچا تے تھے، قوم کے ہر کریم کا اکرام فرماتے اور اسی کو ان پر والی بناتے تھے، قوم کے بہترین افراد کو آپ سے زیادہ قرب ہوتا تھا، آپ کے نزدیک افضل وہ تھا جو عام خیرخواہی اورنصیحت کرتا، آپ کے نزدیک بڑا رتبہ اس کا تھا جو مواساة اور بہتر طریق پر رہتا۔
آپ کی نشست بر خواست بغیر ذکر الہی کے نہیں ہوتی تھی، جب آپ کسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو کنارہٴ مجلس ہی میں بیٹھ جاتے، صدرِ مقام پر پہنچنے کی کوشش نہ فرماتے اور آپ کے حسنِ معاشرت کی بنا پر ہر شریکِ مجلس یہ سمجھتا تھا کہ میرا اکرام سب سے زیادہ فرمایا ہے۔
جب کوئی شخص خدمتِ اقدس میں حاضر ہو بیٹھتا، تو جب تک وہ خود نہ اٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ اٹھتے، مگر یہ کہ کوئی جلدی کا کام درپیش ہو، تو اس سے اجازت لیتے، کسی سے کوئی ایسا برتاوٴ نہ فرماتے جو اس کے لیے باعثِ گرانی ہو۔
کبھی کسی خادم کو نہیں مارا، نہ کسی عورت کو مارا، بل کہ کسی کو بھی علاوہٴ جہاد کے نہیں مارا۔
آپ صلہ رحمی فرماتے، مگر اس کو افضل واعلی پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔
برائی کا بدلہ بھی برائی سے نہ دیتے، بل کہ معاف اور درگزر فرماتے تھے۔
بیماروں کی عیادت فرماتے، مساکین سے محبت اور مجالست رکھتے تھے، ان کے جنازوں میں شریک ہوتے، کسی کو فقر کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے، کسی بادشاہ سے بادشاہت کی بنا پر مرعوب نہیں ہوتے تھے۔
نعمتِ خداوندی کی تعظیم فرماتے ، اگرچہ وہ کم ہو اور کسی طرح اس کی مذمت کے رودار نہیں تھے ۔
پڑوسی کے حق کی حفاظت فرماتے ، مہمان کا اکرام کرتے اور اکرام کی خاطر اپنی چادر اس کے لیے بچھادیتے، جس مرضعہ نے آپ کو دودھ پلایا تھا ایک روز وہ آگئی تو آپ نے اپنی چادر اس کے لیے بچھائی اور مرحبا کہہ کر ، اس پر اس کو بٹھایا ۔
سب سے زیادہ تبسم فرماتے اور سب سے زیادہ بشاش اور ہنس مکھ رہتے، حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم متواصل الا حزان، دائم الفکر تھے ، آپ کا جو وقت بھی گذرتا ، اللہ کے کسی عمل میں گذرتا، یا اپنی حوائج ضروریہ میں یا اپنے اہل کی ضروریات میں۔ جب بھی آپ کو دو چیز وں کا اختیار دیا گیا تو آپ نے امت پر شفقت ورحم کی خاطر ہلکی اور آسان چیز کو اختیار فرمایا، البتہ قطع رحمی سے حد درجہ اجتناب فرمایا ۔
آپ اپنی جوتی خود گانٹھ لیتے اور اپنے کپڑے میں پیوند بھی خود ہی لگالیتے، گھر کے معمولی چھوٹے کام بھی کرلیتے، گوشت بھی سب کے ساتھ بیٹھ کر کاٹ لیتے تھے، گھوڑ ے، خچر، گدھے پر سوار بھی ہوجاتے ، اپنے پیچھے اپنے علاوہ کو بھی بٹھالیتے ، اپنے گھوڑے کا منھ اپنی آستین اور چادر کے پلے سے پونچھ لیتے۔ لاٹھی پر ٹیک لگاتے اور ارشاد فرماتے کہ : "لاٹھی پر ٹیک لگانا اخلاقِ انبیاء میں سے ہے"، بکریاں بھی چراتے اور فرماتے کہ : "ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں"۔
نبوت عطاہونے کے بعد آپ نے اپنا عقیقہ بھی کیا اور اپنے گھر کے کسی بچہ کے عقیقہ کو ترک نہیں کیا ،پیدائش سے ساتویں روز بچے کا سر مونڈتے اور اس کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کو فر مایا کرتے تھے ۔
فال نیک کو آپ پسند فرماتے تھے اور بدفالی کو نا پسند اور ارشاد فرماتے کہ " ہم میں سے ہر شخص اپنے جی میں بد فالی کا اثر پاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اس کو کھو دیتے ہیں۔" جب آپ کوکوئی پسندیدہ چیزپیش آتی تو فرماتے: "الحمد للہ رب العلمین" اور جب ناگوار چیز پیش آتی تو فرماتے: "الحمدللہ علی کل حال "
اور جب کھانا بعد فراغت آپ کے سامنے سے اٹھایا جاتا ہے،تو فرماتے:"الحمد لله الذی اطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین اور یہ فرمانابھی منقول ہے: "الحمد لله حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مُکَفِّوٴی ولا مودعٍّ ولا مستغنًی عنہ ربَّنا"
جب آپ کو چھینک آتی، تو آواز پست فرماتے اور ہاتھ یا کپڑے سے چہرہٴ مبا رک کو چھپا لیتے اور "الحمدللہ" فر ما تے ۔
آپ کی نشست اکثر قبلہ رو ہوتی اور جب مجلس میں تشریف رکھتے تودونوں گھٹنے کھڑے کر کے اس طرح بیٹھتے کہ ایک ہا تھ دوسرے ہاتھ میں ڈال کر گو یا رانوں میں اور گھٹنو ں کو باندھ دیا ہے، ذکر زیا دہ کرتے،بے فائدہ بات نہ فرما تے،نما ز طویل اور خطبہ مختصر فر ما تے، ایک ایک مجلس میں سو سو مرتبہ استغفا رپڑ ھتے۔شر وع شب میں سو جاتے، پھر آ خیر شب میں قیام فر ما تے، پھر وتر پڑھتے اور اپنے بستر پر تشریف لاتے، پھر جب اذان سنتے فو را اٹھتے، اگر غسل کی ضرورت ہو تی تو غسل فر ما تے، ورنہ وضو کر کے نمازکے لیے تشریف لے جاتے، نما ز نفل بھی کھڑے ہو کر پڑھتے اور کبھی بیٹھ کر بھی پڑھی ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فر ما تی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے پہلے اکثر بیٹھ کر نماز پڑھی ہے۔اور آپ کے اندرون سے نماز کی حالت میں رونے کی وجہ سے ایسی آواز سنائی دیتی تھی 'جیسی ہانڈی کے جوش مارنے کی آواز۔
پیر او رجمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے تھے اور یومِ عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ رکھتے اور جمعہ کو کم افطار فرماتے اور آپ کے روزوں کے کثرت شعبان میں ہوتی تھی ۔
آپ کی آنکھ سویاکرتی تھی اور قلب مبارک انتظار وحی میں جاگتارہتاتھا، سوتے وقت سانس کی آواز ہوتی تھی، خراٹے نہیں لیتے تھے، جب خواب میں ناگوارچیز دیکھتے توفرماتے: "ھواللہ لاشریک لہ"۔جب سونے کے لیے لیٹتے تودا ہنی ہتھیلی رخسار کے نیچے رکھتے اور پڑھتے "رب قنی عذابک یوم تبعث عبادک "اوریہ بھی پڑھتے: "اللھم باسمک اموت واحیا" اور جب بیدار ہوتے توپڑھتے: "الحمد للہ الذی احیانا بعدما اماتنا والیہ النشور"

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نور بھی ہیں اور بشر بھی




امام اجل سیدنا امام مالک رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور امام ابجل سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے استاذ اور امام بخاری و امام مسلم کے استاذ الاستاذ حافظ الحدیث احد الاعلام عبد الرزاق ابوبکر بن ہمام نے اپنی تصنیف میں حضرت سیدنا و ابن سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ::
یعنی وہ فرماتے ہیں میں*نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں*باپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہ قربان مجھے بتادیجیے کہ سب سے پہلے اللہ عزوجل نے کیا چیز بنائی فرمایا اے جابر بے شک بالیقین اللہ تعالٰی نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا وہ نور قدرت الٰہی سے جہاں*خدا نے چاہا دورہ کرتا رہا اس وقت لوح و قلم جنت دوذخ فرشتے آسمان زمین سورج چاند جن آدمی کچھ نہ تھا پھر جب اللہ تعالٰی نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا اس نور کے چار حصے فرمائے پہلے سے قلم ، دوسرے سے لوح ، تیسرے سے عرش ، پھر چوتھے کے چار حصے کیے پہلے سے فرشتگان حامل عرش دوسرے سے کرسی تیسرے سے ملائکہ پھر چوتھے کے چارحصے فرمائے پہلے سے آسمان دوسرے سے زمین تیسرے سے بہشت و دوذخ بنائے پھر چوتھے کے چار حصے کئے ۔۔۔ الی اخر الحدیث ۔۔
علامہ حسین بن محمد دیار بکری تاریخ الخمیس ج 1 ص 22 ، شاہ عبد الحق محدث دہلوی مدارج النبوۃ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ج 2 ص 2 ، علامہ قسطلانی مواہب مع زرقانی ج 1 ص 55 علامہ زرقانی شرح مواہب ج 1 ص 55 علامی فاسی مطالع المرات مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور ص 221 اور عالم محقق عارف باللہ سیدی عبداق الغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقئہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں قد خلق کل شیء من نورہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ورد بہ الحدیث الصحیح ۔ علامہ عبد الغنی نابلسی الحدیقہ الندیہ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور ج 2 ص 305 ۔
ترجمہ بے شک ہر چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بنی جیسا کہ حدیث صحیح اس معنی میں*وارد ہوئی ۔
مطالع المرات شرح دلائل الخیرات میں ہے :
ترجمہ امام اجل امام اہلسنت سیدنا ابو الحسن اشعری قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نور ہے نہ نوروں کی مانند اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک اسی نور کی تابش ہے اور ملائکہ ان نوروں*کے ایک پھول ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے میرا نور بنایا اور میرے نور سے ہر چیز پیدا فرمائی ۔ ( علامہ فاسی مطالع المرات ،مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ لائلپور ص 265 )
اس کی مثال یوں سمجھئے ایک ایسا چراغ*جس سے بے شمار چراغ روشن ہوئے اس کے باوجود اپنی اصلی حالت پر باقی ہے اور اس کے نورمیں*کمی واقع نہیں ہوئی مزید واضح مثلا سورج ہے جس سے تمام سیارے روشن ہیں جن کا اپنا کوئی نور نہیں بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ سورج کا نور ان سیاروں*میں منقسم ہوگیاہے جبکہ فی الواقع ان سیاروں میں سورج ہی کا نور ہے جو سورج سےنہ تو جدا ہوا اور نہ ہی کم ہوا ، سیارے تو صرف اپنی قابلیت کی بناء پر چمکے اور سورج کی روشنی میں سے منور ہوئے ۔
اسی طرح نبی مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو اللہ جل مجدہ نے اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے نہ تو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کے نور کا ٹکڑا ہیں جس سے یہ لازم آئے کہ اللہ عزوجل سے نور کا ٹکڑا جدا ہوا بلکہ اللہ تعالٰی نے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نور کے فیض سے پیدا فرمایا جسے کہ ہم نے مثال سے اسے سمجھا دیا ۔ 
سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک بشر ہیں لیکن ہماری طرح بشر نہیں ۔
انسا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ 
علماء اہلسنت اور سیدی اعلٰی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رضی اللہ عنہ نے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا مطلقا انکار کفر ہے چنانچہ فتاوٰی رضویہ شریف میں آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں جو یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ظاہری بشری ہے حقیقت باطنی بشریت سے ارفع و اعلٰی ہے یا یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوروں کی مثل بشر نہیں وہ سچ کہتا ہے اور جو مطلقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے ۔ قال اللہ تعالٰی قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا ( فتاوٰی رضویہ ج 7 صفحہ 67 مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی )
آیت مذکور کا ترجمہ از کنزالایمان تم فرماؤ پاکی ہے میرے رب کو میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا ( سورۃ بنی اسرائیل آیت 93 )

نور کے معنٰی اور حضور نے سب کو چمکایا ، نور آفتاب و نور محمدی میں فرق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم



قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ پارہ 6 سورہ مائدہ رکوع 3)بے شک اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور آیا اور روشن کتاب۔یہ آیت کریمہ حضور اقدس صلے اللہ علیہ وسلم کی عظیم الشان نعت ہے، اس میں اہل کتاب کو مخاطب فرما کر ارشاد ہو رہا ہے کہ اے اللہ کے بندو تمہارے پاس بڑی شان والا نور اور کھلی ہوئی کتاب آپہنچی۔ اس آیت میں حضور علیہ السلام کو نور فرمایا۔ نور وہ ہے کہ جو آپ تو خود ظاہر ہو اور دوسروں کو ظاہر کردے۔ دیکھو آفتاب نور ہے کہ آفتاب کو دیکھنے کےلئے کسی روشنی کی ضرورت نہیں وہ خود روشن ہے اور جس پر اس نے خود توجہ کردی وہ بھی چمک گیا۔ دنیا میں کوئی اپنے خاندان سے مشہور ہوتا ہے۔ کوئی پیشہ کی وجہ سے، کوئی سلطنت کی وجہ سے، لیکن حضور علیہ السلام کسی وجہ سے نہیں چمکے، وہ تو خود نور ہیں، ان کو کون چمکاتا۔ بلکہ ان کی وجہ سے سب چمک گئے۔ اسی لئے کسی بادشاہی خاندان میں پیدائش پاک نہ ہوئی۔ دولتمند گھرانے میں جلوہ گری نہ فرمائی، حتٰی کہ ولادت پاک سے پہلے والد کا سایہ بھی سر سے اٹھالیا گیا۔ نبوت کے ظہور سے پہلے تقریباً سارے اہل قرابت آگے پیچھے دنیا سے چلے گئے، اور بعد نبوت جو باقی رہے وہ خون کے پیاسے، تاکہ کوئی نہ کہہ سکے کہ حضور علیہ السلام کی یہ شہرت ان کے خاندان یا اہل قرابت کی وجہ سے ہے۔ غرضکہ اس قدر بے سروسامانی ہے۔ مگر تمام دنیا پہچانتی ہے۔ کیسی پہچانتی ہے کہ ولادت پاک سے پہلے دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ کہ نبی آخر الزمان کا زمانہ قریب آگیا۔ دوستوں میں خوشی اور دشمنوں میں رنج پھیل گیا۔ جیسے کہ سورج کے نکلنے سے پہلے آسمان پر روشنی پھیل جاتی ہے، بچپن شریف میں تمام لوگ تو کیا جانور اور پتھر بھی پہچانتے ہیں کہ یہ نبی آخرالزمان ہیں۔حلیمہ دائی حضور علیہ السلام کو لے کر اپنے گھر چلیں، تو خچر نے کہا کہ اے حلیمہ! میری پشت پر نبی آخر الزمان ہیں (مدارج) پھر حضور کی وہ نورانیت ہے کہ آپ کو زمین جانے، آسمان پہچانے، فرشی جانیں اور عرشی خدمتگاری کریں، اشارے سے سورج ڈوبا ہوا لوٹے، پورا چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوجاوے کیونکہ جانتا ہے کہ حضور کا اشارہ ہے۔بعد وفات شریف آج تیرہ سو سال سے زیادہ سال گزر چکے ہیں مگر زمین کے ہر گوشہ میں دنیا کے ہر ملک میں آپ کا نام آپ کے سارے کام آپ کی زندگی مبارک کا ایک ایک حال شریف دنیا والوں کے سامنے ہے۔ اتنے عرصہ میں دنیا میں معشوق گزرے، بادشاہ بھی گزرے، بڑے بڑے عالم و فاضل بھی گزرے مگر کسی کا نام بھی نہ رہاکیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئےپر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبییہ ذکر تھا آپ کے ظاہر ہونے کا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی برکت سے دوسرے کس طرح ظاہر ہوئے۔ اس کے متعلق مختصراً یہ عرض ہے کہ دنیا میں بڑے بڑا اولاد والے، مال والے، بادشاہت والے، گذرے اور انہوں نے اپنا نام باقی رکھنے کےلئے بہت کوشش کی، کسی نے کوئی عمارت بنوا کر چھوڑی جیسے کہ تاج محل وغیرہ کسی نے کوئی کتاب لکھوائی، غرضکہ اپنا نام چلانے کی بہت تدبیریں کیں، لیکن نام نہ چلا، لیکن حضور علیہ السلام کے والدین کریمین حضرت آمنہ خاتون، حضرت عبداللہ، عبدالمطلب و ہاشم وغیرھم۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کی خدمت پرورش انجام دینے والے لوگ جیسے کہ حضرت حلیمہ دائی وغیرہ تمام دنیا میں قیامت تک کےلئے مشہور ہوگئے۔ کیونکہ صرف اس لئے کہ حضور علیہ السلام کی ذات سے ان کو نسبت ہوگئی، غرضکہ اپنے خاندان کو چمکایا اور اپنے ملک کو چمکایا، جس جگہ قدم پاک پہنچ گئے وہ جہان والوں کےلئے زیارت گاہ بن گئی۔ اگر ملک عرب میں آپ کا ظہور نہ ہوتا تو آج کعبہ کو کون جانتا اور مدینہ کو کون جانتا، دیکھو اس ملک میں نہ کوئی تماشاگاہ ہے، نہ کشمیر اور پیرس کی طرح تفریح کے انتظام نہ سبز زمین نہ میوے کے باغ مگر تمام دنیا اس کی طرف کچھی جارہی ہے۔ کیوں اس لئے کہ عرب کے چمن میں حضرت خلیل کے چمن سے ایک ایسا پھول کھلا کہ جس کی مہک سے دنیا معطر ہوگئی۔وہ پھول مدینہ کی کیاری میں جلوہ گر ہے، اس کی کشش سے سب ادھر بھاگے جارہے ہیں غرضکہ زمین و آسمان کی چکی سب کو پیس دیتی ہے، لیکن جو مدینہ والی کھونٹی مرکز عالم سے لگ جاتا ہے وہ اس چکی سے نہیں پس سکتا، سچ بچ جاتا ہے۔چکی کے پاٹن دیکھ کر اور دیا کبیرا روئےجو پاٹن میں آگیا سو ان میں بچانہ کوئےچکی چکی سب کہیں اور کیلی کہے نہ کوئےجو کیلی سے لاگا اس کا بال نہ بیکا ہوئےیہ تو دوستوں کا ذکر تھا جنہوں نے دشمنی کی وہ بھی مشہور ہوگئے جیسے ابو جہل وغیرہ۔ یہ تو نور کے معنے کی تحقیق تھی۔اب دو باتیں اور بھی قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ کہ نور کو کتاب کے ساتھ کیوں جمع فرمایا گیا؟ وجہ یہ ہے کہ کوئی کتاب بھی اندھیرے میں نہیں پڑھی جاتی، روشنی چاہئیے۔ اسی طرح کتاب الٰہی کو وہ جان اور سمجھ سکتا ہے جس کے دل میں وہ نور الٰہی جلوہ گر ہو، جب وہ دل میں آئے تو قرآن ہاتھ میں آیاوہ جس کو ملے ایمان ملا، ایمان تو کیا رحمان ملاقرآن بھی جب ہی ہاتھ آیا، جب دل نے وہ نور ہدٰی پایادوسرے یہ کہ نور کی تنوین تعظیم کےلئے ہے یعنی بڑا نور۔ حضور کا بڑا نور ہونا چند طرح ہے اولاً یہ کہ سورج کی روشنی دنیا میں کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ صبح کی ہلکی، دوپہر کو زیادہ، شام کو پھر کم، رات میں بالکل غائب مگر نور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کبھی کم نہیں، پھر سورج ہر وقت آدھی زمین کو روشن کرتا ہے۔ مگر نور حبیب علیہ السلام ساری زمین کو بلکہ فرش و عرش کو، سورج بدن کے ظاہر کو چمکاتا ہے، اور نور حبیب علیہ السلام دل و دماغ کو، خیال کو غرضکہ سب کو ہی چمکاتا ہے جو آدمی سورج سے بچنے کےلئے تہہ خانہ کوٹھڑی میں چھپ جاوے، تو دھوپ سے بچ جاوے گا۔ مگر نور محمدی تو تہہ خانہ میں، کوٹھڑی میں، پہاڑ پر، جہاں خدا کی خدائی ہے وہاں پہنچتا ہے، کسی کو محروم نہیں کرتا، جو خود اس سے فائدہ نہ اٹھائے وہ بدبخت ہے۔حضور کی ولادت مکہ معظمہ میں ہوئی، مکہ شریف بیچ زمین میں واقع ہے۔ کیونکہ محفل میں کناروں کے گیس خاص خاص جگہ روشنی دیتے ہیں، مگر درمیان کا بہت تیز گیس ساری محفل کو منور کرتا ہے دیگر انبیاء کرام اطراف عالم کے گیس تھے جو خاص جماعتوں کو ہدایت دیتے رہے۔ مگر حضور علیہ السلام ساری خدائی کے نور ہیں۔ لہٰذا بیچ میں جلوہ گری فرمائی۔ اسی لئے فرمایا۔ یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ حضرت یوسف مصر میں جاکر چمکے، جج کچہری میں، مولوی مدرسہ میں، بابو اسٹیشن پر مگر حضور علیہ السلام ہر وقت ہر جگہ چمکے، ان کا سکہ عرش و فرش، ہر بازار میں چلتا ہے۔رب نے اس آیت میں تو حضور کو نور فرمایا اور قرآن کو فرمایا مبین یعنی ظاہر کرنے والا، نور میں اور مبین میں کیا فرق ہے؟ نور تو آنکھ سے نظر آتا ہے بلکہ اندھے بھی کچھ نہ کچھ محسوس کرلیتے ہیں اس معنی سے تو حضور علیہ السلام نور ہوئے۔ کہ اندھے ابو جہل وغیرہ بھی آپ کے قائل ہوگئے۔ یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم مگر قرآن کریم کو وہ ہی پہچان سکا جو ایمان لے آیا۔ اور اس سے مسائل وہ ہی نکا سکتا ہے۔ جو علم و اجتہاد رکھتا ہو، قرآن کو پالینا ہر ایک کا حصہ نہیں، قرآن فرماتا ہے۔ فانھم لا یکذبونک ولٰکن الظٰلمین باٰیٰت اللہ یجحدون ۔ یعنی اے محبوب یہ کافر آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ یہ تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کافر بھی محبوب علیہ السلام کو امین، سچا، راستباز جانتے تھے، ہاں قرآن کو نہ مانتے تھے۔ یہ فرق ہے نور میں اور مبین میں۔ یا یوں سمجھ لو کہ قرآن کو حضور نے چمکایا کیونکہ آپ نور ہیں اور قرآن نے حضور علیہ السلام کے اوصاف جگہ جگہ بیان فرمائے، کیونکہ وہ بیان کرنے والا، مبین ہے صلی اللہ علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ وبارک وسلم

Tuesday, 23 February 2016

مسلمانان اہل سنّت و جماعت کو آئے دن مشرک ، بدعتی اور گمراہ کہنے والو کچھ سوال ہمارے بھی ہیں اب تک جواب کے منتظر ؟

ہماری طرف سے یہ 50 سوالات قوم کی عدالت میں ایک استغاثہ ہے اور ان لوگوں کو دعوت فکر دینی ہے جو دیوبندی وہابی نظریات سے متاثر ہوکر چند مستحب اعمال (مثلاً میلاد شریف، عرس، گیارہویں شریف، میلاد کے جلسے جلوس، جھنڈے وغیرہا) پر عمل کرنے کو شرک و بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں اور سیدھے سادھے مسلمانوں کو یہ کہہ کر یہ چیزیں دور رسالت مآبﷺ اور دور خلفاء و صحابہ علیہم الرضوان میں نہ تھیں لہذا بدعت و شرک ہیں۔
اب استغاثہ پیش کرنے کا موجب امر یہ ہے کہ دیوبند کا یہ مسلک اگر قرآن و حدیث پر مبنی ہے تو انہیں ہر حال میں اس پر قائم رہنا چاہئے تھا یعنی جن چیزوں کا وجود دور رسالت مآبﷺ اور دور خلفائے و صحابہ علیہم الرضوان میں نہ تھا تو ان چیزوں سے ان کو اور ان کی جماعت کو بھی بچنا چاہئے تھا۔ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے اور یہ کیسا اندھیر ہے کہ یہی چیز اگر غریب سنی مسلمان کرے تو شرک و بدعت لیکن خود کریں تو عین اسلام ملاحظہ کیجئے…!
سوال نمبر 1:
سوائے ’’عیدین اور حج کے اجتماع‘‘ کے نبی پاکﷺ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے (ظاہری) زمانے میں کوئی سالانہ اجتماع ہوتا تھا؟ یقینا نہیں! تو پھر دیوبندی وہابیوں کے سالانہ اجتماعات جائز ہوئے یا ناجائز؟
سوال نمبر2:
رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے لئے جلوس کی شکل میں ٹرینوں، بسوں، ویگنوں، کاروں وغیرہا میں جانا سنت ہے یا فرض یا مستحب یا واجب یا بدعت؟
سوال نمبر3 :
23 سالہ ظاہری دور نبوت میں (جس میں سرکار دوجہاںﷺ ظاہری طور پر موجود تھے) کافروں منافقوں نے بارہا گستاخیاں کیں، کیا ان کی مخالفت میں کوئی ریلی یا جلوس نکالا گیا تو حوالہ دیجئے اور ساری دنیا جانتی ہے کہ جب ڈنمارک کے اخبارات میں گستاخی کی گئی تو جہاں تمام اہلسنت حنفی بریلویوں نے جلسے جلوس منعقد کئے وہاں وہابی دیوبندیوں نے بھی ریلیاں اور جلوس نکالے۔ اب بتایا جائے کہ دیوبندیوں اور وہابیوں کا یہ عمل شرک ہوا یا بدعت؟
سوال نمبر4 :
(الف) 30 سالہ خلافت راشدہ میں اگر ایسی ریلی نکالی گئی ہو تو حوالہ دیجئے؟
(ج) ائمہ اربعہ میں سے کسی نے ریلی نکالی ہو یا شرکت کی ہو؟ مستند حوالہ دیجئے؟
(ھ) ایسی ریلی سب سے پہلے کب اور کہاں نکالی گئی، جلوس کس وقت نکلا؟
(د) صدارت کس نے کی؟ جلوس کس جگہ سے نکل کر کہاں اختتام پذیر ہوا؟
سوال نمبر5 :
حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی جو تمام بڑے بڑے دیوبندیوں کے پیرومرشد بھی ہیں، اپنی کتاب کلیات امدادیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولود میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف و لذت پاتا ہوں‘‘
(فیصلہ ہفت مسئلہ کلیات امدادیہ ص 80 سطر 4 مکتبہ دارالاشاعت کراچی)
اس کے تحت سوال یہ ہے کہ
(الف) اگر محفل میلاد منانا اور صلوٰۃ و سلام کیلئے قیام کرنا بدعت ہے تو حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمتہ اﷲ علیہ کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟
(ب) جو مرید پیر کے جائز اور مستحب اعمال کی مخالفت کرے، ایسے مرید پر کیا فتویٰ لگے گا؟
(ج) تمہارے بزرگوں سے بھی میلاد منانا ثابت ہے تو تم کیوں نہیں مناتے؟
سوال نمبر 6:
کیا صحابہ کرام علیہم الرضوان سے لے کر ائمہ اربعہ تک اور اس کے بعد آج تک کسی مسلمان نے نبی پاکﷺ کی ظاہری وفات شریف کا سالانہ سوگ منایا؟ نیز کیا کسی صحابی نے میلاد منانے سے منع فرمایا؟ نہیں اور ہرگز نہیں! تو تم کو نبی کی ولادت کی خوشی منانے میں کیوں تکلیف ہوتی ہے؟
سوال نمبر7 :
تاریخ سے ثابت ہے کہ ’’نبی پاکﷺ کی ولادت کے وقت شیطان ’’جبل ابی قبیس‘‘ پر چڑھ کر چلایا‘‘ اس کو تکلیف ہوئی جبکہ ساری کائنات خوش تھی یعنی صرف ابلیس اور ابلیسیوں کو خوشی نہ ہوئی، اب اگر ایک صف میلاد پر خوشی منانے والوں کی ہو اور دوسری طرف خوش نہ ہونے والوں کی، تو آپ کس صف میں کھڑا ہونا پسند کریں گے؟
سوال نمبر8 : بقول تمہارے ’’نبی پاکﷺ کی ولادت ۸ ربیع الاول کو ہوئی تھی تو تم ۸ ربیع الاول کو کیوں میلاد نہیں مناتے؟‘‘
سوال نمبر 9: کیا میلاد کی محفل میں جانا اور تقریر کرنا بدعت ہے؟
(الف) اگر دیوبندیوں کا جواب ہاں میں ہے تو پاکستان اسلامک فورم کی محفل میلاد میں احترام الحق تھانوی خطاب کرنے کیوں گئے؟ خطاب بھی کیا اور شرکت بھی کی۔ کیا فتویٰ لگنا چاہئے
(ملاحظہ کیجئے روزنامہ جنگ 28 مئی 2002ء)
(ب) عید میلاد النبیﷺ ہم بھی مناتے ہیں۔ پروفیسر غفور احمد (جماعت اسلامی) ملاحظہ کیجئے (روزنامہ قومی اخبار 23 اکتوبر 1989ء)
نوٹ: پروفیسر کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے جن کا عقیدہ ہے کہ میلاد النبیﷺ منانا شرک و بدعت ہے۔
سوال نمبر 10
حدیث شریف سے ثابت ہے کہ سرکار دوعالمﷺ ہر پیر کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپﷺ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا اس دن میری ولادت ہوئی
(مشکوٰۃ ص 179، قدیمی کتب خانہ کراچی)
کیا کبھی دیوبندی اور وہابی نے سرکار دوعالمﷺ کی اس سنت پر عمل کیا اور کروایا کہ پیر کے دن روزہ رکھ کر میلاد کی خوشی میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے لئے روزہ رکھا جائے۔ اگر میلاد شریف کے منکروں نے اس بارے میں کوئی فتویٰ دیا ہو تو حوالہ دیجئے۔
سوال نمبر 11:
مسلمان ہر سال پابندی سے میلاد مناتے ہیں جس پر پوچھا جاتا ہے کہ میلاد منانا فرض نہیں تو اتنا التزام کیوں کیا جاتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے یہ سوال ہے کہ وضو میں گردن کا مسح کرنا فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب؟ اگر مستحب ہے اور یقینا مستحب ہے تو اس کا اتنا التزام کیوں کیا جاتا ہے کہ ہر دیوبندی ہر وضو میں ہر دفعہ گردن کا مسح پابندی سے کرتا ہے اور وہ بھی روزانہ… ایسا کیوں؟
سوال نمبر 12:
بارہویں کی نسبت سے بارہواں سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث یا ائمہ اربعہ میں کسی ایک سے کوئی ایک حوالہ دیجئے جس میں لکھا ہو کہ ’’میلاد منانا بدعت و حرام ہے‘
سوال نمبر 13:
یوم آزادی پاکستان اور یوم دفاع پاکستان منانا بدعت ہے یا مباح یا حرام؟
سوال نمبر 14:
قومی اسمبلی میں جب قومی ترانہ پڑھا جاتا ہے تو اس کی تعظیم میں سارے وزراء بشمول فضل الرحمن سب کھڑے ہوجاتے ہیں۔ آیا یہ شرک ہوا یا بدعت؟ ذرا دو لائنوں کا فتویٰ دو اور اس کو اسمبلی میں پیش کرو۔
سوال نمبر 15:
یہ بتایئے مسجد کی تعمیر کے لئے غیر اﷲ سے مدد مانگنا جائز ہے یا نہیں۔ اگر جائز ہے توغیر اﷲ سے مدد مانگنا تو بقول تمہارے ناجائز ہے۔ کیا جواب ہے اور اگر جائز نہیں تو یہ ساری مساجد جو سیٹھوں سے مدد مانگ مانگ کر بنائی گئی ہیں۔ ان میں نماز پڑھنا جائز ہے یا ناجائز؟
سوال نمبر 16:
’’نماز کی نیت زبان سے کرنا‘‘ کسی بھی صحابی سے ثابت ہو تو حوالہ دیجئے۔ اگر ایسا حوالہ نہیں تو زبان سے نیت کرنا بدعت ہے یا شرک؟
سوال نمبر 17:
دنیا کے اندر بہت ساری نئی چیزیں ایجاد ہوگئی ہیں ان کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں حالانکہ صحابہ کرام کے دور میں ان کا نام و نشان نہ تھا؟ اگر استعمال کرنا جائز ہے تو کس قاعدے کے تحت؟ جیسے ریل، موٹر کار، ہوائی جہاز، ٹیلی فون، موبائل، ریڈیو، لائوڈ اسپیکر وغیرہا۔ کیا کوئی دیوبندی وہابی بغیر ان بدعات کے آسانی سے دنیاوی زندگی گزار سکتا ہے؟
سوال نمبر 18:
امامت اور موذنی کے پیسے لینا جائز ہے یا ناجائز؟ کیا نبی پاکﷺ نے امامت کی تنخواہ لی ہے۔ کیا حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے موذنی کی تنخواہ لی ہے؟ معتبر حوالہ دیں۔
سوال نمبر 19:
نبی پاکﷺ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ظاہری زمانے میں زکوٰۃ وغیرہا سونا، چاندی، درہم و دینار میں ادا کی جاتی تھی حالانکہ دیوبندی ریال، ڈالر اور روپے وغیرہا کی صورت میں بھی زکوٰۃ لیتے ہیں اور دیتے بھی ہوں گے تو کیا یہ چیز نبی پاکﷺ اور صحابہ کرام کی مخالفت نہیں کہلائے گی؟ اگر نہیں تو کیوں؟
سوال نمبر 20:
تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، مجلس احرار، مجلس ختم نبوت، حزب التحریر الدعوۃ والارشاد، جماعت اہل حدیث، سپاہ صحابہ، جمعیت علماء اسلام، جمعیت اشاعت التوحید والارشاد، لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ۔ کیا اس طرح کی جماعتوں کا صحابہ کے دور میں وجود تھا؟ اگر نہیں تو ان کو کون سی بدعت کہیں گے؟
سوال نمبر 21:
سیرت النبیﷺ کانفرنس، محمد رسول اﷲﷺ کانفرنس، سید البشرﷺ کانفرنس، ختم بخاری، دورہ حدیث کیا صحابہ کرام نے ایسی کانفرنس اور اس نام سے منعقد کی ہیں؟ اگر نہیں تو یہ سارے کام دیوبندیوں کے نزدیک کیا ہیں؟ شرک یا بدعت نیز دیوبندی وہابی خود کیاٹہرے؟ مشرک یا بدعتی؟
سوال نمبر 22:
رائے ونڈ سے تین روزہ، دس روزہ، چالیس روزہ چلہ، بستر باندھ کر چائے دانی، چولہا اور نسوار کی ڈبیہ لے کر اہل خانہ کے حقوق پس پشت ڈال کر گھر سے نکلنا سنت ہے یا بدعت؟ نیز ایسا کرنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
سوال نمبر 23:
اسکول اور مدرسوں میں بچوں کو چھ چھ کلمے ان کے نام اور ان کی ترتیب حضور اقدسﷺ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت نہیں لیکن اس کے باوجود سارے دیوبندی یہ کام کرتے ہیں تو آیا یہ کام سنت ہیں
یا بدعت؟
سوال نمبر 24:
نکاح کے وقت ایمان مفصل و مجمل پڑھانا کس صحابی کی سنت ہے؟ اگر کسی صحابی سے اس طرح ثابت نہیں تو دیوبندی اس عمل کو کیا سمجھ کر کرتے ہیں؟ سنت یا شرک یا بدعت؟
سوال نمبر 25:
قرآن کریم کو کتابی شکل میں جمع کرنا صحابہ سے ثابت ہے۔ لیکن حدیث پاک کو کتابی شکل میں جمع کرنا کس کا طریقہ ہے؟ آیا یہ کام جائز ہوا یا بدعت؟ ائمہ محدثین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ نیز دیوبندی مکتبوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
سوال نمبر 26:
اپنے اجتماع میں نعرہ لگوانے کے لئے لفظ ’’نعرہ تکبیر‘‘ کہنا تو ایسا کہنا یعنی ’’نعرہ تکبیر‘‘ کہنا یہ لفظ نہ قرآن میں اور نہ حدیث میں کہیں آیا ہے۔ تو اس جدید لفظ سے نعرہ کہلوانا جائز ہوگا یا بدعت؟ اور سارے دیوبندی وہابی نعرہ تکبیر اپنے جلسوں میں لگا کر بدعتی ہوئے یا نہیں؟ ہوئے اور یقینا ہوئے۔ اب کل بدعۃ ضلالۃ والے قاعدہ کا کیا ہوا؟
سوال نمبر 27:
مسجدوں پر مروجہ مینار بنانا قرآن و حدیث کے ظاہری الفاظ سے ثابت نہیں مگر سارے وہابی دیوبندی مینار بنواتے ہیں اور جو عمل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو اور کوئی کرے تو وہ کیا کہلائے گا؟
سوال نمبر 28:
حدیث شریف میں اونٹ، گائے، بکری، دنبہ جانوروں کی قربانی کا ذکر ہے اور ان کے دودھ کے پینے کا جواز ہے مگر بھینس کا وجود نہیں تو اس کے دودھ کا کیا حکم ہے اور جو روزانہ اس کے دودھ کی چائے اپنے مدرسہ میں پلائے تو کیا حکم لگنا چاہئے؟ نیز حلال کیسے کہلائے گا؟
سوال نمبر 29:
دیوبندیوں کے درس کی مشہور کتاب ’’تبلیغی نصاب‘‘ جس کا نام بدل کر فضائل اعمال رکھا گیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ
’’اگر ہر جگہ درود و سلام دونوں کوجمع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے یعنی بجائے السلام علیک یا رسول اﷲ کے الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ یعنی صلوٰۃ کالفظ بھی بڑھا دیا جائے تو بہتر ہے‘‘
(ملاحظہ کیجئے اعمال باب فضائل درود ص 23، مکتبہ محمد عبدالرحیم تاجر کتب لاہور)
کیا اس پر عمل کرنا چاہئے؟ اگر نہیں تو یہ منافقت کیوں؟
سوال نمبر 30:
یہ دو اشعار بدعت ہیں یا شرک؟
میری کشتی پار لگادو یا رسول اﷲ (حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی)
(کلیات امدادیہ ص 205، دارالاشاعت کراچی)
یارسول اﷲ بابک لی (اشرف علی تھانوی)
اے خدا کے رسول تیر دربار میرے لئے ہے
(نشر الطیب ص 164، دارالاشاعت کراچی)
سارے دیوبندی مل کر جواب دیں کہ حاجی صاحب اور تھانوی صاحب کے بارے میں کیا حکم ہے بدعتی ہونے کا یا پھر مشرک ہونے کا؟
سوال نمبر 31:
قرآن و حدیث نیز اشرف علی تھانوی سے (نشر الطیب میں) نبی پاکﷺ کی نورانیت ثابت ہے۔ قرآن و حدیث کو ماننے والے نبی پاکﷺ کی نورانیت کے قائل ہیں لیکن اشرف علی تھانوی کے ماننے والے منکر ہیں۔ اب جو تھانوی کی بات کو نہ مانے تو کیا فتویٰ ہے؟ نیز تھانوی صاحب کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟
سوال نمبر 32:
فتاویٰ رشیدیہ کے مصنف یعنی رشید احمد گنگوہی جو خدا نہیں، غیر اﷲ ہے اس کے لئے یہ اشعار کہنا کیسا ہے، کفر یا شرک؟
مردوں کو زندہ کیا اور زندوں کو مرنے نہ دیا
اس مسیحائی کو دیکھیں ذرا ابن مریم
سوال نمبر 33:
جو شخص خود کو دیوبندی کہے اور آپ کی جماعت بھی خود کو دیوبندی جماعت کہلواتی ہے ۔ کیا کسی صحابی نے خود کو دیوبندی کہا تھا؟
سوال نمبر 34:
جشن دیوبند کے تحت چند سوالات، صد سالہ جشن، دیوبند منایاگیا۔ اس میں ہندو عورت کو صدارت کے لئے بلایا گیا تو سوال یہ ہے کہ:
(الف) جشن دیوبند منانا جائز تھا یا حرام؟
(ب) ہندو عورت کو اجتماع میں بلاکر اور پھر اسے اپنے آگے بڑھا کر دعا مانگنا جائز ہے یا ناجائز؟
(ج) کیا ہندو عورت کو عزت مآب کہہ کر جشن دیوبند میں مخاطب کرنا جائز تھا یا حرام؟
(د) جشن دیوبند پر 75 لاکھ سے زائد رقم خرچ کرنا جائز تھا یا اسراف؟
(ہ) ننگے سر، ننگے منہ، برہنہ بازو عورت کے ساتھ دیوبندی مولویوں کا بیٹھنا جائز تھا یا حرام؟
(د) اجتماع میں ہندو عورت کو بلانا مسلمانوں کا طریقہ ہے یا کافروں کا؟
ملاحظہ کیجئے:
٭ روزنامہ مشرق، نوائے وقت لاہور 22-23 مارچ 1980ء ٭ روزنامہ جنگ کراچی 3 اپریل 1980ء ٭ روزنامہ جنگ راولپنڈی 2 اپریل 1980ء
٭ نوٹ: مزار کی نفی کرنے والو! اپنے کرتوتوں کو دیکھو! میلاد شریف اور اولیاء کے بغض کی وجہ سے تمہارا کیا انجام ہوا؟
سوال نمبر 35: معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ نبی پاکﷺ کے علم مبارک کو معاذ اﷲ چوپایوں کے ساتھ ملانا (ملاحظہ ہو حفظ الایمان، تھانوی کی گستاخانہ عبارات ص 13، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
اور معاذ اﷲ نماز میں آپﷺ کے خیال مبارک کو بیل و گدھے کے خیال سے زیادہ برا قرار دینا (صراط مستقیم صفحہ 86، فصل سوم در ذکر مخلات عبادت مطبع مجتبائی دہلی) گستاخی ہے یا نہیں؟ اگر ہے اور یقینا ہے پھر اشرف علی تھانوی اور اسماعیل دہلوی قتیل بالا کوٹ کیا کہلائیں گے جنہوں نے ایسا گستاخانہ فتویٰ دیا۔ اب اﷲ تعالیٰ کا ارشاد سنو۔
لا تعذروا قد کفرتم بعد ایمانکم
چند علمی سوالات
سوال نمبر 36:
ان الاصل فی الاشیاء الاباحۃ قاعدہ کلیہ کا کیا معنی ہے؟
سوال نمبر37:
اگر کوئی ہندو اپنے بت کے نام پر جانور پالے اور کوئی مسلمان اس جانور (بکری وغیرہا) کو معاذ اﷲ چوری کرے اور بوقت ذبح اﷲ کا نام لے اور ذبح کر ڈالے اس کا گوشت حلال ہوگا یا حرام؟
سوال نمبر 38:
ان چار چیزوں کی جامع مانع تعریف کیا ہے، جس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔
شرک بدعت دین عبادت
سوال نمبر 39:
کیا صحابہ کے دور میں اصول حدیث یا اصول فقہ وغیرہما کے قوانین کا وجود تھا۔
سوال نمبر 40:
جو کام نبی پاکﷺ یا صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نہ کیا ہو، وہ آپ کے نزدیک بدعت ہے۔ آیا بدعت کی یہ تعریف قرآن میں ہے تو کون سی سورت میں اور اگر حدیث میں ہے تو کون سی حدیث ہے؟
سوال نمبر 41:
جو شخص میلاد شریف، عرس، گیارہویں وغیرہا کو فرض و واجب نہ سمجھتا ہو، اس سے یہ کہنا کہ قرآن و حدیث سے اس کے ضروری ہونے کا حوالہ دو تو ایسے جاہل کو آپ کیا کہیں گے جو مستحب عمل پر نص قطعی سے ثبوت مانگے؟
سوال نمبر 42:
جمعہ کے خطبہ میں خلفائے اربعہ سیدنا صدیق اکبر، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان ذوالنورین اور سیدنا علی المرتضیٰ اور عشرہ مبشرہ علیہم الرضوان کا نام لینا قرون ثلاثہ میں لیا جاتا تھا یا نہیں؟ معتبر حوالہ دیں۔
سوال نمبر 43:
حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی لکھتے ہیں:
فقیر کا مشرب اس امر میں یہ ہے کہ ہر سال اپنے پیرومرشد کی روح مبارک پر ایصال ثواب کرتا ہوں اور اول قرآن خوانی ہوتی ہے اور گاہ گاہ اگر وقت میں وسعت ہو تو مولود پڑھا جاتا ہے پھر ماحضر کھانا کھلایا جاتا ہے اور اس کا ثواب بخش دیا جاتا ہے
(ملاحظہ کیجئے: فیصلہ ہفت مسئلہ کلیات امدادیہ ص 83)
(الف) آیا ایسا کرنا شرک ہے یا بدعت یا مستحب؟ حاجی صاحب کے بارے میں کیا حکم ہے؟
(ب) بالکل اسی طرح سنی مسلمان ایصال ثواب کی محفل گیارہویں وغیرہ کرتے ہیں لیکن تم لوگ گیارہویں شریف (یعنی ایصال ثواب کی محفل) کیوں نہیں کرتے حالانکہ تمہارے سارے بڑے بڑون اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی وغیرہم کے پیرومرشد ایصال ثواب کی محفل منعقد کرتے تھے۔
(ج) آپ کا یہ عمل پیر کی مخالفت یا موافقت… کیا کہلائے گا؟
سوال نمبر 44:
ہر سال دیوبندی وہابی مدارس کے لئے چرم قربانی کی باقاعدہ بڑے بڑے پوسٹر کے ذریعے اپیل کی جاتی ہے۔ کیا مروجہ اپیل کی طرح دور صحابہ میں کوئی مثال موجود ہے؟ یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر دیوبندی وہابی بدعتی ہوئے یا نہیں؟
سوال نمبر 45:
حال ہی میں دارالعلوم دیوبند کے سالانہ جلسہ دستار میں ہندو پنڈت نے نہ صرف شرکت کی بلکہ دیوبندی علماء و طلباء کو اپنے وعظ سے بھی محظوظ کیا جس پر لطف یہ ہے کہ ہندو پنڈت اپنے مخصوص لباس میں تھا۔ اس کے باوجود دیوبند کے اسٹیج پر اس کو بڑی عزت دی گئی۔ آیا کافر کی تعظیم کرنے سے ایمان سلامت رہتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
سوال نمبر 46:
چند ماہ قبل ایک انگریز کافرہ عورت کو بنوری ٹائون والوں نے انتہائی عزت دی حتی کہ وہاں کے مفتی نعیم نے اس کو اپنے ادارے کا وزٹ کروایا اور اس دوران وہ بھی اپنے مخصوص لباس میں تھی، کیا یہ سب کام وہاں جائز ہیں! اگر نہیں تو پھر نعیم کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نیز اگر محفل میلاد پاک میں خواتین اپنے اپنے گھروں میں پردے کا اہتمام کرکے ذکر سولﷺ کرتی ہیں تو دیوبندی اس کو شرک و بدعت سے تعبیر کرتے ہیں اور اپنے ادارے میں انگریز عورت کو نیم عریاں وزٹ کروانے سے وہی فتویٰ کہاں گیا؟
سوال نمبر 47:
دیوبندیوں کا حکیم لکھتا ہے کہ
طاعون کا ایک متبرک علاج منجملہ اور علاجوں کے ذکر نبی کریمﷺ بھی ہے اور یہ علاج تجربہ میں آیا ہے۔ یعنی میں نے ایک کتاب نشر الطیب لکھی ہے۔ حضورﷺ کے حالات میں اس کے لکھنے کے زمانہ میں خود اس قصبہ میں تھا جس میں طاعون تھا تو میں نے یہ تجربہ کیا۔ جس روز اس کا کوئی حصہ لکھا جاتا تھا، اس روز کوئی حادثہ نہیں سنا جاتا تھا اور جس روز وہ ناغہ ہوجاتی تھی۔ اس روز دو چار اموات سننے میں آتی تھیں تو مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ حضورﷺ کے ذکر مبارک کی برکت ہے۔ آخر میں یہ التزام کیا کہ روزانہ کچھ حصہ اس کا ضرور لکھ لیتا تھا۔ آج کل بھی لوگوں نے مجھے طاعون ہونے کے متعلق اطراف و جوانب سے لکھا ہے تو میں نے ان کو بھی جواب میں یہی لکھا ہے کہ نشر الطیب پڑھا کرو!!
ملاحظہ ہو(میلاد النبیﷺ از تھانوی ناشر بک کارنر شوروم جہلم)
اس پر سوال یہ ہے کہ طاعون (بیماری) سے نجات کے لئے نشر الطیب کتاب کا ختم پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو مشکلات کے لئے قصیدہ بردہ شریف یا ختم قادریہ وغیرہا کرنا کیوں ناجائز ٹھہرے؟
سوال نمبر 48:
یوم صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ! امیر المومنین حضرت فاروق اعظم، امیر المومنین حضرت عثمان غنی، امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہم کے دور خلافت میں بار بار آیا۔ کیا ان میں سے یا ان کے بعد تابعین یا تبع تابعین نے یوم صدیق اکبر منایا؟ اگر نہیں تو یوم صدیق اکبر منانا نیز یوم صدیق اکبر، یوم فاروق اعظم، یوم عثمان غنی اور یوم مولا علی رضی اﷲ عنہم اجمعین پر عام تعطیل کی اپیل کرنا فرض ہے یا سنت یا بدعت؟
سوال نمبر 49:
سپاہ صحابہ کی ریلی ہو یا کوئی اور ریلی رنگ برنگے جھنڈے لہرانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو میلاد النبیﷺ کی ریلی میں سبز نعلین والے جھنڈے لہرانا ناجائز کیسے ٹھہرے گا نیز تمہارا یہ رنگ برنگے جھنڈے لہرانا فرض ہے یا سنت یا بدعت؟
سوال نمبر 50:
آخری سوال آپ سے یہ ہے کہ رشید احمد گنگوہی کے اس فتوے کا کیا جواب ہوگا؟
سوال: جس جگہ زاغ معروفہ (یعنی مشہور و معروف عام کوا جسے کالا کوا کہتے ہیں) کو اکثر حرام جانتے ہیں تو ایسی جگہ اس کوا کھانے والے کو کچھ ثواب ہوگا یا نہ ثواب ہوگا نہ عذاب؟
الجواب: ثواب ہوگا
(فتاویٰ رشیدیہ، ص 597، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

Monday, 22 February 2016

نبی اکرم ﷺ کے اخلاق مبارکہ کی چند جھلکیاں

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے نبی کریم ﷺ کی بعثت کے جن مقاصد کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے ان میں سے ایک انسانوں کے قلوب کا تذکیہ اور اخلاق حسنہ کی تکمیل ہے۔ انسان کی طبعی خصلتوں اور پیدائشی عادتوں کو اخلاق کہتے ہیں۔ اخلاق ہی انسانیت کا وہ جوہر ہے جو درحقیقت انسان کو پستی سے نکال کر بلندی پر فائز کرتا ہے۔ یوں تو دنیا کے تمام مذاہب و ادیان میں اخلاق کی تعلیم موجود ہے۔ مگر مذہب اسلام نے خصوصی طورپر اخلاق حسنہ پر زور دیاہے۔ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق دعوت کے فرائض انجام دے۔ اور یہ اہم کام اچھے اخلاق و کردار کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ بداخلاقی سے نفرت و عداوت کو بڑھاوا ملتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ قرآن حکیم نے اس اہم نکتے کو یوں بیان کیا ہے ’’اگرآپ تند مزاج اور سخت دل ہوتے تو لوگ ضرور آپ سے منتشر ہوجاتے‘‘۔
سورہ قلم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ بیشک آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں‘‘پیغمبر اسلام نے اہل ایمان کو خوش اخلاقی کے ذریعہ زندگی کے تمام گوشوں کو آراستہ کرنے کاحکم دیا ہے۔ اور آپ نے پوری زندگی اس کا عملی نمونہ پیش کیا ۔ عام طورپر کمزوروں اور ما تحتوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ بے حد دشوار ہوتا ہے۔ لیکن میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا حال یہ تھا کہ جب آپ ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے تو شاداں و فرحاں رہتے اور مسرت و شادمانی آپ کے رخسار سے نمایاں ہوتا۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی شہادت اخلاق حسنہ کی بابت یہ ہے کہ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ، کمزوروں ، محتاجوں ، مفلسوں ، ضعیفوں ، غریبوں اور مسافروں کا بار گراں اپنے گردن اٹھاتے اور ان کی مالی مدد فرماتے، مہمانوں کی مہمان نوازی آپ کا شیوہ تھا۔ حضرت خدیجہ کس طرح آپ کے خصائل و شمائل بیان فرمارہی ہیںآپ کے اخلاق حسنہ کی گرویدہ دکھائی دے رہی ہیں۔ آپ کی رفیقہ حیات ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحابہ کرام نے آپ کے حسن اخلاق کے بارے میں پوچھا تو آپ نے برجستہ فرمایا’’ آپ کے اخلاق قرآن تھا،یعنی نبی کریم کی زندگی کا ہر لمحہ آپکے شب و روز، حیات طیبہ ، شام و سحر ،قول و فعل ، نشست و برخاست ، رفتار و گفتار، وضع قطع، آپ کی جلوت و خلوت ،آپ کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، الغرض آپ کی پوری زندگی قرآن کریم کی عمل تفسیر۔ گویا قرآن کریم قال اور سرکار دوجہاں اس کا حال ہے ۔جس طرح قرآن مقدس کی حد کوکوئی پانہیں سکتا۔ اسی طرح آپ کے اخلاق کریمہ کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے اخلاق حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں میں نے مسلسل دس سال سفر و حضر میں آپ کی خدمت میں رہا مگر حضور نے کبھی اف تک نہ کہا۔
جنگ احد میں آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے آپ کا چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا۔ صحابہ کرام نے آپ کو جب اس حال میں دیکھا تو عرض کیا کہ آپ ان کافروں کی ہلاکت کی دعا فرمائیں تاکہ انہیں اپنے کیے کی سزا ملے مگر رحمت عالم ﷺ نے ان ستمگروں اور عزیت پہنچانے والوں کے لئے دعا فرمائی اے اللہ میری قوم کو ہدایت نصیب فرما۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسن اخلاق اور اعلیٰ کردار کا جامع بنایا۔ تاکہ ساری انسانیت آپ کے اخلاق و محاسن کو اپنا کر رہنمائی حاصل کرسکے۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کی بزرگیوں اور اعمال کی خوبیوں کو مرتبہ کمال تک پہنچا کر انہیں کامل و مکمل کردوں ۔ انسان کی زندگی میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو ان کی زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ گزرے گی۔ اور دوسرے کے لئے بھی قلبی سکون اور رحمت کا باعث ہوگی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے عبداللہ ابن عمرسے روایت ہے تم سے سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ نیز حضور تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ جو اخلاق میں زیادہ اچھے ہیں۔ اخلاق حسنہ ایمان اور اسلام کی نظر میں ایک عظیم المرتبت صفت ہے اسلام نے اخلاق کو پائیداری عطا فرمانے کے لئے قول و فعل میں تضاد کی سخت مزمت کی اور ارشاد ربانی ہے لماتقولون مالا تفعلون ۔ ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کہو اسے کر دکھاؤ اور اگر آپ ایسانہیں کرتے تو آپ سے بداخلاق کوئی نہیں۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رحمت عالم کے ہمراہ تھا اور دوش مبارک پر ایک چادر تھی اچانک ایک اعرابی آیا اور اس زور سے چادر مبارک کو کھینچا کہ آپ اس کے برابر آگئے ۔ اور آپ کی گردن مبارک پر چادر کی خراش کے نشان آگئے ۔ اعرابی کہنے لگا آپ نے اللہ کے مال میں کچھ عطا فرمائیں۔ اعرابی کی اس حرکت پر رحمت عالم کو نہ غصہ آیا اور نہ آپ نے اس سے اعراض فرمایا۔ بلکہ ہنس کر اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اور عطیہ دینے کا حکم فرمایا۔ ۹؍ہجری میں اسلامی لشکر جب فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ یمن میں داخل ہوا تو لشکر اسلامی کے ڈر سے عدی بن حاتم یمن چھوڑ کر ملک شام راہ فرار اختیار کی اور ان کی بہن گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آگئیں اور رسول پاک کے اخلاق حسنہ سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ واپس جاکر اپنے بھائی عدی کو بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا ۔ عدی بہن کے مشورے پر مدیبہ طیبہ حاضر ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اللہ کے رسول عدی کا ہاتھ لیکر محبتانہ انداز میں کاشانہ نبوت کی طرف آرہے تھے کہ راستے میں ایک بڑھیا سے ملاقات ہوئی اس نے رسول اللہ ﷺ کو روک کر طویل گفتگو کی تو رسول اللہ کے خندہ پیشانی اورمحو گفتگو اور اخلاق حسنہ سے متاثر ہو عدی بن حاتم نے برجستہ کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
فتح مکہ کے دن تمام وہ مہاجرین جنہوں نے نبی کریم ﷺ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے سب کے سب گرفتار کرکے رحمت عالم ﷺ کے دربار میں حاضر کئے گئے۔ مکہ کے سارے ستمگر سرجھکا کر سرکار کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے اور ہر ایک مجرم اپنے اپنے مظالم کو یاد کر کے اپنے انجام کی فکر کرنے لگے۔ اتنے میں نگاہ نبوت اس کی طرف اٹھی اور ارشاد ہوا میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ تمام لوگ سہمی ہوئی آواز میں کہا ہم آپ کو کریم ابن کریم پاتے ہیں ہمیں آپ سے رحم کی امید ہے یہ سن کر رحمت عالم ﷺ نے فرمایا اے اہل مکہ سزا تو کجا میں تو یہ بھی نہیں پسند نہیں کرتا آج تمہارے لئے ملامت کا کوئی لفظ بولوں جاؤ تم سب آزاد ہو۔(ان لوگوں اپنے دلوں میں یہ خیال کیا تھا کہ آج ہمارے گھروں کو جلا دیا جائے گا ،بچے یتیم ہوجائیں گے ، بیویاں گرفتار کر لی جائیں گی ایک دم رسول اللہ ﷺ نے معافی کی بشارت دے دی) ۔رحمت عالم ﷺ کے خلق عظیم سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی آنکھوں سے ندامت کے آنسو نکل پڑے۔ اور سارے مجرموں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ حضور اکرم سراپا مجسم اخلاق تھے ۔موجودہ دور میں سب سے زیادہ کمی اخلاقی اقدار کی ہے ۔ سماج میں زیادہ تر برائیاں صرف اس وجہ سے پھیل رہی ہیں کہ ہمارے اندر اخلاقی تعلیمات کی کمی ہے اس کو اہمیت نہیں دیا جاتا۔ ہم مادیت پرستی کے دور میں سب کچھ فراموش کرتے جارہے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاق کو سنواریں اور اپنے معاشرے میں اچھے اخلاق کو پروان چڑھائیں ۔

Sunday, 21 February 2016

نبی علیہ السلام کو بشر یا بھائی وغیرہ کہنا حرام ہے

نبی جنس بشر میں آتے ہیں اور انسان ہی ہوتے ہیں۔ جن یا بشر یا فرشتہ نہیں ہوتے یہ دنیاوی احکام ہیں۔ ورنہ بشریت کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ کیونکہ وہ ہی ابو البشر ہیں اور حضور علیہ السلام اس وقت نبی ہیں جبکہ آدم علیہ السلام آب و کل میں ہیں خود فرماتے ہیں کنت نبیا وادم بین الماء والطین اس وقت حضور نبی ہیں بشر نہیں سب کچھ صحیح لیکن ان کو بشر یا انسان کہہ کر پکارنا یا حضور علیہ السلام کو یامحمد یا کہ اے ابراہیم کے باپ یا اے بھائی باوا وغیرہ برابری کے الفاظ سے یاد کرنا حرام ہے۔ اور اگر اہانت کی نیت سے پکارا تو کافر ہے۔ عالمگیری وغیرہ کتب فقہ میں ہے کہ جو شخص حضور علیہ السلام کو ھذا الرجل یہ مرد اہانیت کی نیت سے کہے تو کافر ہے بلکہ یا رسول اللہ یاحبیب اللہ یا شفیع المذنبین وغیرہ عظمت کے کلمات سے یاد کرنا لازم ہے۔ شعراء جو اشعار میں یامحمد لکھ دیتے ہیں وہ تنگی موقعہ کی وجہ سے ہے پڑھنے والے کو لازم ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لے۔ اسی طرح جو کہتے ہیں کہ۔
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحہ تیرا

یہ تیرا انتہائی ناز کا کلمہ ہے جیسے اے آقا میں تیرے قربان۔ اے ماں تو کہاں ہے ؟ اے اللہ تو ہم پر رحم فرما! اس تو اور تیرے کی حیثیت اور ہے۔

1) قرآن فرماتا ہے۔
لا تجعلوا دعآء الرسول بینکم کدعآء بعضکم بعضا (پارہ 18 سورہ 24 آیت 63)
ولا تجھروا لہ بالقول کجھر بعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لا تشعرون (پارہ 26 سورہ 49 آیت 2)
“رسول کے پکارنے کو ایسا نہ ٹھہرالو جیسا کہ تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جاویں اور تم کو خبر نہ ہو۔“

ضبطی اعمال کفر کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مدارج جلد اول وصل از جملہ رعایت حقوق اولیت میں ہے، “مخوانید اور ابنام مبارک اوچنانمکہ می خوایند بعضے از شما بعض را بلکہ بگوئیہ یارسول اللہ یانبی اللہ با توقیر و توضیح۔“ نبی علیہ السلام کو ان کا نام پاک لے کر نہ بلاؤ جیسے بعض بعض کو بلاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہو یارسول اللہ یانبی اللہ توقیر و عزت کے ساتھ۔

تفسیر روح البیان زیر آیت لاتجعلوا ہے۔
والمعنی لاتجعلوا نداءکم ایاہ و تسمیتکم لہ کندآء بعضکم بعضا لاسمہ مثل یامحمد و یا ابن عبداللہ ولکن بلقبہ المعظم مثل یانبی اللہ و یارسول اللہ کما قال اللہ تعالٰی یایھا النبی و یایھا الرسول
“معنٰی یہ ہیں کہ حضور علیہ السلام کو پکارنا یا نام لینا ایسا نہ بناؤ جیسا کہ بعض لوگ بعض کو نام سے پکارتے ہیں جیسے یامحمد اور یا ابن عبداللہ وغیرہ لیکن ان کے عظمت والے القاب سے پکارو جیسے یانبی اللہ یارسول اللہ جیسا کہ خود رب تعالٰی فرماتا ہے یا ایہاالنبی یا ایہاالرسول۔“

ان آیات قرآنیہ اور اقوال مفسرین و محدثین سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کا ادب ہر حال میں ملحوظ رکھا جاوے نداء میں، کلام میں، ہر ادا میں۔

2) دنیاوی عظمت والوں کو بھی ان کا نام لے کر نہیں پکارا جاتا۔ ماں کو والدہ صاحبہ، باپ کو والد ماجد، بھائی کو بھائی صاحب جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں اگر کوئی اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے یا اس کا نام لے کر پکارے یا اس کو بھیا وغیرہ کہے۔ تو اگرچہ بات تو سچی ہے مگر بے ادب گستاخ کہا جائیگا کہ برابری کے کلمات سے کیوں یاد کیا۔ حضور علیہ السلام تو خلیفۃ اللہ الاعظم ہیں ان کو نام سے پکارنا یا بھائی وغیرہ کہنا یقیناً حرام ہے۔ گھر میں بہن ماں بیوی بیٹی سب ہی عورتیں ہیں مگر ان کے نام و کام و احکام جداگانہ جو ماں کو بیوی یا بیوی کو ماں کہہ کر پکارے وہ بے ایمان ہی ہے اور جو ان سب کو ایک نگاہ سے دیکھے وہ مردود ہے ایسے ہی جو نبی کو امتی یا امتی کو نبی کی طرح سمجھے وہ ملعون ہے دیوبندیوں نے نبی کو امتی کا درجہ دیا ان کے پیشوا مولوی اسمعٰیل نے سید احمد بریلوی کو نبی کے برابر کرسی دی دیکھو صراط المستقیم کا خاتمہ۔ معاذاللہ

3) رب تعالٰی جس کو کوئی خاص درجہ عطا فرمائے۔ اس کو عام القاب سے پکارنا اس کے ان مراتب عالیہ کا انکار کرنا ہے اگر دنیاوی سلطنت کی طرف سے کسی کو نواب یا خان بہادر کا خطاب ملے تو اس کو آدمی کا بچہ یا بھائی وغیرہ کہنا اور ان القاب کو یاد کرنا جرم ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم حکومت کے عطا کئے ہوئے ان خطابات سے ناراض ہو تو جس ذات عالی کو رب کی طرف سے نبی رسول کا خطاب ملے اس کو ان القاب کے علاوہ بھائی وغیرہ کہنا جرم ہے۔

4) خود پروردگار نے قرآن کریم میں حضور علیہ السلام کو یامحمد یا اخامومنین کہہ کر نہ پکارا بلکہ یا ایھاالنبی یا ایھاالرسول یاایھاالمزمل یاایھاالمدثر وغیرہ وغیرہ پیارے القاب سے پکارا حالانکہ وہ رب ہے تو ہم غلاموں کو کیا حق ہے کہ ان کو بشر یا بھائی کہہ کر پکاریں۔

5) قرآن کریم نے کفار مکہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ انبیاء کو بشر کہتے تھے۔
قالوا ماانتم الا بشر مثلنا ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذالخسرون (پارہ 18 سورہ 36 آیت 15)
“کافر بولے نہیں ہو تم مگر ہم جیسے بشر اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی پیروی کی تو تم نقصان والے ہو وغیرہ وغیرہ۔“

اس قسم کی بہت سی آیات ہیں اسی طرح مساوات بتانا یا انبیاء کرام کی شان گھٹانا طریقہ ابلیس ہے کہ اس نے کہا۔
خلقتنی من نار و خلقتہ من طین “خدایا تو نے مجھے آگ سے اور ان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔“
مطلب یہ کہ میں ان سے افضل ہوں اسی طرح اب یہ کہنا کہ ہم میں اور پیغمبروں میں کیا فرق ہے۔ ہم بھی بشر وہ بھی بشر بلکہ ہم زندہ وہ مردے یہ سب ابلیسی کلام ہے۔
(اس پر جلد پوسٹیں بھی پیش کی جائیں گی ان شاء اللہ )

رضائے ربانی کا مفہوم

رَضِیَ کے معنیٰ ہیں: راضی ہونا اور خوش ہونا۔
رب کا اپنے بندے سے راضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے راضی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے خوش ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کسی شخص پر راضی ہو جائے اور پھر وہ بندہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا پر قائم رہے تو ایمان سے محروم نہیں ہوگا۔ اگر بندہ اس رضا پر قائم نہ رہ سکے اور خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے متعین کردہ صراط حق سے ہٹ جائے تو وہ گمراہ ہو جائے گا۔ شیطان ہمہ وقت کوشاں ہے کہ انسان کو کامیابی کی اُس راہ سے بھٹکا دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے متعین کی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتا ہے:
قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهمْ اَجْمَعِیْنَ
’’ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان (تیرے بندوں) کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا‘‘۔
اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهمُ الْمُخْلَصِیْنَ
’’سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو (میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں‘‘۔
قَالَ هذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ
’’اللہ نے ارشاد فرمایا: یہ (اخلاص ہی) راستہ ہے جو سیدھا میرے در پر آتا ہے‘‘۔
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْهمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰـوِیْنَ
’’بے شک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا سوائے ان بھٹکے ہوؤں کے جنہوں نے تیری راہ اختیار کی‘‘۔
الحجر، 15: 39 تا 42
جو بھٹک جائیں گے ان کو شیطان گمراہ کرے گا۔ درج ذیل آیات میں اس بات کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ کون لوگ ایمان سے محروم ہوسکتے ہیں:
کَیْفَ یَهدِی اﷲُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَاِیْمَانِهمْ وَشَهدُٓوْا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّجَآئَ همُ الْبَیِّنٰتُط وَاﷲُ لَایَهدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
’’اﷲ ان لوگوں کو کیونکر ہدایت فرمائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے حالانکہ وہ اس امر کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آ چکی تھیں، اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔
اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُهمْ اَنَّ عَلَیْهمْ لَعْنَة اﷲِ وَالْمَلٰٓئِکَة وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ
’’ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر اﷲ کی اور فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت پڑتی رہے‘‘۔
خٰلِدِیْنَ فِیْهاج لَایُخَفَّفُ عَنْهمُ الْعَذَابُ وَلَهمْ یُنْظَرُوْنَ
’’وہ اس پھٹکار میں ہمیشہ (گرفتار) رہیں گے اور ان سے اس عذاب میں کمی نہیں کی جائے گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی‘‘۔
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْاقف فَاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
’’سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور (اپنی) اصلاح کر لی، تو بے شک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِهمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهمْ ج وَاُولٰٓئِکَ همُ الضَّآلُّوْنَ
’’بے شک جن لوگوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی، اور وہی لوگ گمراہ ہیں‘‘۔
یٰٓـاَیُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ
’’اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کا بھی کہنا مانو گے تو وہ تمہارے ایمان (لانے) کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں گے‘‘۔
ال عمران، 3: 86۔ 90، 100
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا لَّمْ یَکُنِ اﷲُ لِیَغْفِرَلَهمْ وَلَا لِیَهدِیَهمْ سَبِیْلًا
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اور بڑھ گئے تو اللہ ہر گز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے‘‘۔
النساء، 4: 137
یٰٓاَیُّها الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓلا اَذِلَّة عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّة عَلَی الْکٰفِرِیْنَز یُجَهدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَة لَآئِمٍط ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْه مَنْ یَّشَآئُط وَاﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (تعمیری کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے‘‘۔
المائدة، 5: 54
مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِهٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِه وَقَلْبُهٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰـکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِج وَلَهمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
’’جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے‘‘۔
ذٰلِکَ بِاَنَّهمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰـوة الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَة وَاَنَّ اﷲَ لَا یَهدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ
’’یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت پر عزیز رکھا اور اس لیے کہ اللہ کافروں کی قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِهمْ وَسَمْعِهمْ وَاَبْصَارِهمْج وَاُولٰٓئِکَ همُ الْغٰفِلُوْنَ
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مُہر لگا دی ہے اور یہی لوگ ہی (آخرت کے انجام سے) غافل ہیں‘‘۔
لَا جَرَمَ اَنَّهمْ فِی الْاٰخِرَة همُ الْخٰسِرُوْنَ
’’یہ حقیقت ہے کہ بے شک یہی لوگ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہیں‘‘۔
ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ هاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهدُوْا وَصَبَرُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِها لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
’’پھر آپ کا رب ان لوگوں کے لیے جنہوں نے (ظلم و جبر کرنے والے کافروں کے ہاتھوں) آزمائشوں (اور تکلیفوں) میں مبتلا کیے جانے کے بعد ہجرت کی (یعنی اللہ کے لیے اپنے وطن چھوڑ دیے) پھر (دفاعی) جنگیں کیں اور (جنگ و جدال، فتنہ و فساد اور ظلم و جبر کے خلاف) سینہ سپر رہے تو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔
النحل، 16: 106۔ تا 110
وَلَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْاط وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَهوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةج وَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج همْ فِیْها خٰلِدُوْنَ
’’اور (یہ کافر) تم سے ہمیشہ جنگ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر (وہ اتنی) طاقت پاسکیں اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں (سب) اعمال برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
البقرة، 2: 217
معلوم ہوا کہ رب کی رضا پانے کے لیے دائمی استقامت ضروری ہے ورنہ ایمان لانے کے بعد بھی شیطان گمراہ کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رضا اور حکم میں فرق

اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ صادر کیا ہے، وہ احکام (حکم کی جمع) ہیں۔ جیسے ارشاد ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۔ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔النساء، 4: 59

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ.

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو۔البقرة، 2: 172

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.

اے ایمان والو! دو گنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔آل عمران، 3: 130

یہ احکامِ الٰہی کی چند ایک مثالیں ہیں۔ قرآنِ مجید میں بےشمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام بیان فرمائے ہیں۔

آپ نے اپنے سوال کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ کی خواہش کی وضاحت پوچھی ہے۔ خواہش کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، بلکہ اس کی بجائے رضا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام، صریح اور واضح انداز میں بیان کر دیے ہیں اور انسان کو بتا دیا ہے کہ اوامر کو بجا لانے اور نواہی کو ترک کرنے سے میں راضی ہوتا ہوں، مگر انسان کو ان اوامر و نواہی کے بجالانے پر مجبور نہیں کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ.

اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔الکهف، 18: 29

اور فرمایا:وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِOاور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے۔البلد، 90: 10

اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں پر انسان کو اختیار و ارادہ کی آزادی بخشی ہے، ان پر اسے اجر دینے اور مواخذہ کرنے کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے۔ یہ اختیار و ارادہ انسان کا ذاتی نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کا عطاکردہ ہے اور اس کا استعمال اگر انسان، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کرے تو اس سے رضائے الٰہی عطا ہوتی ہے۔ رضا، اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کی جانب سے ہوتی ہے قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رضوان کا لفظ مخصوص کیا ہے۔ بندے کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے راضی ہو، دین مبین اسلام سے راضی ہو، اللہ کے اس رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ر اضی ہو جنہوں نے یہ دین مبین ہم تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے یقین رکھے اور اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرے۔ پس جو شخص اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اپنا نصب العین بنائے اور اس کی خاطر پیہم کوشش کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔

فتویٰ لگانے میں احتیاط کی ضرورت:۔افادات امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اس مقام پر ایک خاص بات یہ ہے کہ جب علماے کرام سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ فلاں تحریک و ادارے یا فلاں شخص کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ تو بلا دلیل کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو خارج از اسلام ہے۔ فلاں تحریک تو بدعقیدہ تحریک ہے، یا فلاں شخص تو صلح کلی کا حامی ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جو ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہو باجماع مسلمین یقیناً قطعاً کافر ہے۔ اگرچہ کروڑ بار کلمہ پڑھے مگر اس کی وضاحت تو کر دی جائے کہ فلاں شخص نے ضروریاتِ دین میں سے فلاں چیز کا انکار کیا ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو علماء کرام کو بہ اتفاقِ رائے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تاکہ جماعتی انتشار ختم ہو اور معاملہ یک طرفہ ہو اور اگر معاملہ ایسا نہیں ہے تو کسی صحیح العقیدہ عالم کو یا کسی دینی تحریک اور ادارے کو صلح کلی، بدعقیدہ یا خارج از اسلام کہنے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے۔ سنی سنائی باتوں پر بلا تحقیق کسی کو مجرم مان کر اس پر سخت حکم شرعی نافذ کر دینا تو ویسے بھی خلاف شریعت عمل ہے اور فتویٰ نویسی کے تقاضوں کے منافی بھی ہے اور ذمہ دار علما کو یہ غیر محتاط، غیر ذمہ دارانہ اور طفلانہ طرز عمل زیب نہیں دیتا۔ ہم اس حوالے سے بھی امام احمد رضا قدس سرہ کے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں۔ امام اہلِ سنت فرماتے ہیں :

’’فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو، جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہوتو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں تو خیال میں نہ لائیں۔

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 317)

اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں :

’’حدیث میں ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کفوا من اهل لا الٰه الا الله لا تکفروهم بذنب فمن اکفر اهل لا الٰه الا الله فهو الی الکفر اقرب.

’’لا الٰہ الا اللہ کہنے والوں سے زبان روکو، انھیں کسی گناہ پر کافر نہ کہو، لاالٰہ الااللہ کہنے والوں کو جو کافر کہے وْہ خود کفر سے نزدیک تر ہے‘‘

(المعجم الکبير، ج : 12، ص : 272)

امام احمد رضا قدس سرہ اس کے بعد ایک دوسری حدیث نقل فرماتے ہیں :

’’ تین باتیں اصل ایمان میں داخل ہیں، لاالٰہ الااللہ کہنے والے سے (کفر منسوب کرنے سے) باز رہنا اور اسے گناہ کے سبب کافر نہ کہا جائے اور کسی عمل پر اسلام سے خارج نہ کہیں‘‘

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 318)

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز مزید فرماتے ہیں :

ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ ائمہ دین فرماتے ہیں، جو کسی مسلمان کی نسبت یہ چاہے کہ اس سے کفر صادر ہو، وہ کفر کرے یا نہ کرے، یہ چاہنے والا بھی کافر ہو گیا کہ اس نے مسلمان کو کافر ہونا چاہا۔

(فتاویٰ رضويه، ج : 12، ص : 403)

مجدد ملت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کی ان عبارتوں کی روشنی میں اب ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔ اس مقام پر ہم ایک بار پھر یہ وضاحت کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکابر نے جن کلمہ گو لوگوں کی تکفیر کی ہے، اس کی وجہ ان کا ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار ہے۔ اس لئے حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت اپنی جگہ مسلم ہے۔

آج بہت سے علماء امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کے اس مشرب کے برعکس تحریر و تقریر کے جوہر دکھاتے پھر رہے ہیں حالانکہ وہ صبح وشام مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کو حق و سچ ثابت کرتے نہیں تھکتے۔ آئے دن ان کی طرف سے کفریہ فتاوٰی جاری ہوتے ہیں۔ فریقِ ثانی کی دعوتِ دین اور اس کی مقبولیت عامہ سے خائف ہو کر حاسدانہ مخالفت کے ہاتھوں فتوؤں کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ کردار کشی کی بھی منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ انتہائی شنیع حرکت ہے۔ ہمیں اس قسم کی حرکتوں سے بہرصورت باز رہنا چاہیے۔

علم غیب مصطفیٰ ﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں

سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ علمِ غیب کے سلسلے میں اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ کیا ہے۔ اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ بےشک اللہ عزوجل کا غیب جاننے والا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے برگزیدہ اور پسندیدہ بندوں جتنا چاہا علم عطا فرمایا۔ اسی طرح علمِ غیب کی بھی دو اشکال ہیں۔ ایک تو علمِ ذاتی ہے اور دوسرا علمِ عطائی۔ علمِ ذاتی صرف اللہ عزوجل کا ہی خاصہ ہے اللہ عزوجل کا علم ذاتی نہ کہ کسی کا عطا کیا ہوا۔ اور علمِ عطائی سے مراد وہ علم جو اللہ عزوجل نے اپنے فضل وکرم سے مخلوق کو عطا کیا۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیئے کہ اللہ عزوجل بھی دیکھتا ہے، سنتا ہے۔ اور مخلوق بھی دیکھ سکتی ہے، سن سکتی ہے۔ لیکن اللہ عزوجل کی یہ صفات ذاتی ہیں نہ کہ عطائی۔ اور ہم مخلوق کی صفات سب اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ ہے، از خود ہم کسی قابل نہیں۔ اسی طرح اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے انبیا علیہ صلوۃ وسلام کا غیب کا علم اللہ عزوجل کی طرف سے عطا ہوا نہ کہ یہ ان صفتِ ذاتی ہے۔ از خود علمِ غیب کا حاصل ہونا محال ہے۔ جو کوئی اللہ عزوجل کے علاوہ کسی پر بھی ذاتی صفات کا اطلاق کرے اس کے خلاف اہلسنت والجماعت کے فتاوٰی موجود ہیں۔ جو آیات علمِ رسول اللہﷺ کی نفی کے طور پر پیش کی گئی ان کی توجیہات مفّسرین نے یہ بیان کی ہیں کہ؛

اول تو یہ کہ یہ علم غیب ذاتی کی نفی ہے

دوم یہ کلام تواضع وانکساری اور عاجزی کے طور پر بیان ہوا

سوم یہ کہ میں دعوےٰ نہیں کرتا کہ میں علمِ غیب جانتا ہوں یعنی دعوٰی علمِ غیب کی نفی ہے نہ کہ علم کی۔

اور ہمارا یہ موقف آپ کی پیشکردہ آیات کی تفاسیر پڑھنے سے بخوبی واضح ہوجائے گا۔ جیسے آپ ہی کی پیش کردہ سورۃ الانعام آیت 50 کی تفسیر دیکھیں۔

تفسیرِ نیشاپوری میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ؛
ويحتمل أن يكون عطفاً على { لا أقول } أي قل لا أعلم الغيب فيكون فيه دلالة على أن الغيب بالاستقلال لا يعلمه
اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ لااعلم کا عطف لا اقول پر ہو یعنی اے محبوب فرمادو کہ میں غیب نہیں جانتا تو اس میں دلالت اس پر ہو گی کہ غیب بالاستقلال یعنی ذاتی سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔

تفسیرِ خازن میں ہے کہ؛
وانما نفی عن نفسہ الشریفۃ ھذہ الاشیاء تواصنعا تعالٰی و اعترافا للعبودیۃ فلست اقوال شیئا من ذالک ولا ادعیہ
ان چیزون کی اپنی ذات کریمہ سے نفی فرمائی، رب کے لئے عاجزی کرتے ہوئے اور اپنی بندگی کا اقرار فرماتے ہوئے یعنی میں اسمیں سے کچھ نہیں جانتا اور کسی چیز کا دعوٰی نہیں کرتا۔

اسی طرح روح المعانی میں اس آیت کے ماتحت لکھا ہے کہ؛
عطف علی عندی خزائن اللہ ولا مذکرۃ للنفی ای ولا ادعی انی ولکن لا اقول لکم فمن قال ان نبی اللہ لا یعلم الغیب فقد اخطافیما اصاب ۔
اس کا عطف عندی خزائن اللہ پر ہے اور لا زائدۃ ہے نفی کا یاد دلانے والا یعنی میں یہ دعوٰی نہیں کرتا کہ خدا کے افعال میں غیب جانتا ہوں اس بناء پر کہ خزائن اللہ میرے پاس تو ہیں مگر میں یہ کہتا نہیں۔ تو جو شخص یہ کہے کہ نبی اللہ غیب نہیں جانتے تھے اس نے غلطی کی اس آیت میں جس میں یہ مصیب تھا۔

سورۃ الاعراف کی آیت 188 کے بارے میں بھی علما ومحققین کا یہی قول ہے جیسا کے نسیم الریاض شرح الشفا میں ہے کہ؛
قولہ ولوکنت اعلم فان المنقی علمہ من غیر واسطۃ واما اطلاعہ علیہ السلام باعلام اللہ تعالٰی
علم غیب کا ماننا اس آیت کے منافی نہیں کہ "ولو کنت اعلم الغیب الخ" کیونکہ نفی علم بغیر واسطہ کی ہے لیکن حضور علیہ السلام کا غٰب پر مطلع ہونا اللہ کے بتانے سے واقع ہے۔

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے ماتحت ہے کہ؛
وقد ذهب بعض المشايخ الى ان النبى صلى الله عليه وسلم كان يعرف وقت الساعة باعلام الله تعالى وهو لا ينافى الحصر فى الآية كما لا يخفى.

بعض مشائخ اس طرف گئے ہیں کہ نبی علیہ السلام قیامت کا وقت بھی جانتے ہیں اللہ کے بتانے سے اور ان کا یہ کلام اس آیت کے حق کے خلاف نہیں ۔ جیسا کہ مخفی نہیں

اب کچھ آیات علمِ نبویﷺ کے بارے میں۔

وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء۔(سورۃ آل عمران آیت 179)۔
اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ اسے عام لوگو تم کو علم غیب کا علم دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہے ۔

تفسیرِ کبیر میں امام رازی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں؛
فاما معرفۃ ذلک علی سبیل الاعلام من الغیب فھو من خواص الانبیاء (جمل) المعنی لکن اللہ یحتبی ان یصطفے من رسلہ من یشاء فیطلعہ علی الغیب (جلالین) وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب فتعرفوا المنافق قبل التمیز ولکن اللہ یحتبی و یختار من یشاء فیطلع علی غیبہ کما اطلع النبی علیہ السلام علی حال المنافقین۔
لیکن ان باتوں کا بطریق غیب پر مطلع ہونیکے جان لینا یہ انبیاء کرام کی خصوصیت ہے ۔ (مجمل) معنٰی یہ ہیں کہ اللہ اپنے رسولوں میں جسکو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس ان کو غیب پر مطلع کرتا ہے۔ خداتعالٰی تم کو غیب پر مطلع نہیں کرنے کا تاکہ فرق کرنے سے پہلے منافقوں کو جان لو۔ لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے چھانٹ لیتا ہے تو اسکو اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام کو منافقین کے حال پر مطلع فرمایا۔

تفسیر بیضاوی میں اسی آیت کے ما تحت ہے۔
وما کان اللہ لیوتی احدکم علم الغیب فیطلع علی ما فی القلوب من کفر و ایمان ولکن اللہ یجتبی لرسالتہ من یشاء فیوحی اللہ و یخبرہ ببعض المغیبات او ینصب لہ ما یدل علیہ۔
خدا تعالٰی تم میں سے کسی کو علم غیب دینے کا کہ مطلع کرے اس کفر و ایمان پر جو دلوں میں ہوتا ہے لیکن اللہ اپنی پیغمبری کیلئے جس کو چاہتا ہے چن لیتا ہے پس اسکی طرف وحی فرماتا ہے اور بعض غیوب کی ان کو خبر دیتا ہے یا ان کے لئے ایسے دلائل قائم فرماتا ہے جو غیب پر رہبری کریں

فلا یظھر علی غیبہ احد من ارتضی من رسول۔(سورۃ الجنّ آیت 26)۔
تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

تفسیرِ کبیر میں اس آیت کے تحت لکھا ہے؛
ای وقت وقوع القیمۃ من الغیب الذی لا یظھرہ اللہ لاحد فان قیل فاذا حملتم ذلک علی القیمۃ فکیف قال الا من ارتضی من رسول مع انہ لا یظھر ھذا لغیب لاحد قلنابل یظھرہ عند قریب القیمۃ۔
یعنی قیامت کے آنے کا وقت ان غیبوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالٰی کسی ہر ظاہر نہیں فرماتا پس اگر کہا جاوے کہ جب تم اس غیب کو قیامت پر محمول کر لیاتو اب رب تعالٰی نے یہ کیسے فرمایا! مگر پسندیدہ رسولوں کو حالانکہ یہ غیب تو کسی پر ظاہر نہیں کیا جاتا تو ہم کہیں گے کہ رب تعالٰی قیامت کے قریب ظاہر فرمادے گا۔

تفسیرِ الخازن میں اس آیت کے تحت لکھا ہے؛
{ إلا من ارتضى من رسول } يعني إلا من يصطفيه لرسالته ونبوته فيظهره على ما يشاء من الغيب حتى يستدل على نبوته بما يخبر به من المغيبات فيكون ذلك معجزة
جو چیز تمام مخلوق سے غائب ہو وہ غائب مطلقہے جیسے قیامت کے آنے کا وقت اور روزانہ اور ہر چیز کے پیدائشی اور شرعی احکام اور جیسے پروردگار کی ذات و صفات بر طریق تفصیل اس قسم کو رب کا خاص غیب کہتے ہیں۔پس اپنے خاص غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ اس کے سوا جسکو پسند فرمادے اور وہ رسول ہوتے ہیں خواہ فرشتے کی جنس سے ہوں یا انسان کی جنس سے جیسے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بعض خاص غیب ظاہر فرماتا ہے۔ سوا اس کے جس کو اپنی نبوت اور رسالت کے لئے چن لیا پس ظاہر فرماتا ہے جس پر چاہتا ہے غیب تاکہ انکی نبوت پر دلیل پکڑی جاوے ان غیب چیزوں سے جس کی وہ خبر دیتے ہیں پس یہ ان کا معجزہ ہوتا ہے۔

ولا یحیطون بشئ من علمہ الا بماشاء (سورۃ البقرہ آیت 255)۔
اور نہیں پاتے اس کے علم میں مگر جتنا وہ چاہے

تفسیر خازن میں لکھا ہے کہ؛
{ إلاّ بما شاء } يعني أن يطلعهم عليه وهم من الأنبياء والرسل ليكون ما يطلعهم عليه من علم غيبه دليلاً على نبوتهم كما قال تعالى: { فلا يظهر على غيبه أحداً إلاّ من ارتضى من رسول }
یعنی خدا تعالٰی ان کو اپنے علم پر اطلاع دیتا ہے اور وہ انبیاء اور رسل ہیں تاکہ ان کا علم غیب پر مطلع ہونا ان کی نبوت کی دلیل ہو جیسے رب نے فرمایا ہے کہ پس نہیں ظاہر فرماتا اپنے غیب خاص پر کسی کو سوائے اس کے رسول جس سے رب راضی ہے۔

تفسیرِ البغوی معالم التنزیل میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ؛
{ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ } أي من علم الله { إِلاَّ بِمَا شَآءَ } أن يطلعهم عليه يعني لا يحيطون بشيء من علم الغيب إلا بما شاء مما أخبر به الرسل
یعنی یہ لوگ علم غیب کو نہیں گھیر سکتے مگر جس قدر کہ خدا چاہے جس کی خبر رسولوں نے دی۔

یہ تو صرف چند آیات پیش کیں ہیں ورنہ ربِ کائنات نے قرآنِ کریم نے کئی مقامات پر میرے آقاومولیٰ مالک ومختارِ دوجہاں ﷺ کے علم کا بیان فرمایا ہے۔ اب اسی ضمن میں کچھ احادیث بھی پڑھ لیں۔

بخاری کتاب بدءالحلق اور مشکوٰۃ جلد دوم باب بدءالخلق و ذکر الانیباء میں حضرت فاروق سے روایت ہے۔

قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقاما فاخبرنا عن بدءالخلق حتٰی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم حفظ ذلک من حفظہ و نسیہ من نسیہ
حضور علیہ السلام نے ایک جگہ قیام فرمایا پس ہم کو ابتداء پیدائش کی خبر دےد ی۔ یہاں تک کہ جنتی لوگ اپنی منزلوں میں پہنچ گئے اور جہنمی اپنی میں جس نے یاد رکھا۔ اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا۔

مشکوٰۃ باب المعجزات میں مسلم بروایت عمرو ابن اخطب اسی طرح منقول ہے مگر اس میں اتنا اور ہے ۔

فاخبرنا بما ھو کائن الٰی یوم القٰمۃ فاعلمنا احفظنا
ہم کو تمام ان واقعات کی خبر دے دی جو قیامت تک ہونیوالے ہیں ۔ پس ہم میں بڑا عالم وہ ہے جو ان باتوں کا زیادہ حافظ ہے۔

مشکوٰۃ باب الفتن میں بخاری و مسلم سے بروایت حضرت حذیفہ ہے۔

ما ترک شیئا یکون مقامہ الٰی یوم القیمۃ الا حدث بہ و نسیہ من نسیہ
حضور علیہ السلام نے اس جگہ قیامت تک کی کوئی چیز نہ چھوڑی مگر اس کی خبر دے دی جس نے یاد رکھا یاد رکھا جو بھول گیا وہ بھول گیا۔

مشکوٰۃ باب المساجد میں عبد الرحٰمن بن عائش سے روایت ہے۔

رء یت ربی عزوجل فی احسن صورۃ فو صنع کفہ بین کتفی فو جدت بردھا بین ثدیی فعلمت فافی السمٰوت و الارض
ہم نے اپنے رب کو اچھی صورت میں دیکھا رب تعالٰی نے اپنا دست قدرت ہمارے سینہ پر رکھا۔ جسکی ٹھنڈک ہم نے اپنے قلب میں پائی پس تمام آسمان و زمین کی چیزوں کو ہم نے جان لیا

مسلم جلد دوم کتاب الجہاد باب غزوہ بدر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ھذا مصرع فلان یصنع یدہ علی الارض ھھنا ھھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے تھے راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور علیہ السلام کے ہاتھ کہ جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا۔

شرح مواہب لدنیہ میں زرقانی، حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے ۔

ان اللہ رفع لی الدنیا فانا انظر الیھا و الی ما ھو کائن فیھا الی یوم القیمۃ کانما انظر الی کفی ھذا
اللہ تعالٰی نے ہمارے سامنے ساری دنیا کو پیش فرما دیا پس ہم اس دنیا کو اور جو اس میں قیامت تک ہونیوالا ہے اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہیں

مسند امام احمد بن حنبل میں بروایت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہے ۔

ما ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قائد فتنہ الی ان تنقضی الدنیا یبلغ من ثلث مائۃ فصاعدا قد سماہ لنا باسمہ و اسم ابیہ و اسمقبیلتہ رواہ ابو داؤد
نہیں چھوڑا حضور علیہ السلام نے کسی فتنہ چلا نیوالے کو دنیا کے ختم ہونے تک جن کی تعداد تین سو سے زیادہ تک پہنچے گی مگر ہم کو اس کا نام اس کے باپ کا نام اس کے قبیلے کا نام بتا دیا۔

بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنتہ اور تفسیر خازن میں زیر آیت لا تسئلوا عن اشیاء ان تبدلکم ہے۔

قام علی المنبر فذکر الساعۃ و ذکر ان بین یدیھا امور اعظاما ثم قا ما من رجل احب ان یسئال عن شئی فلیسئل عنہ فواللہ لا تسئلونی عن شیئی الا اخبر کم ما دمت فی مقامی ھذا فقام رجل فقال این مدخلی قال النار فقام عبداللہ ابن حذافۃ فقال من ابی قال ابوک حذافۃ ثم کثر ان قول سلونی سلونی۔
حضور علیہ السلام منبر کھڑے ہوئے پس قیامت کا ذکر فرمایا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہیں پھر فرمایا کہ جو شخص جو بات پوچھنا چاہے پوچھ لے قسم خدا کی جب تک ہم اس جگہ یعنی منبر پر ہیں تم کوئی بات ہم سے پوچھو گے مگر ہم تم کو اس کی خبر دیں گے ایک شخص نے کھڑےہو کر عرض کیا کہ میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ فرمایا جھنم میں عبد اللہ ابن حذافہ نے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے فرمایا حذافہ۔ پھر بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو پوچھو ۔“

مشکوٰۃ باب ذکر الانبیاء میں بخاری سے بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے۔

خفف علی داود القراٰن فکان یامر دوآبہ فتسرج فیقرء القراٰن قبل ان تسرج
حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن ( زبور) کو اس قدر ہلکا کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کو زین لگانے کا حکم دیتے تھے تو آپ ان کی زین سے پہلے زبور پڑھ لیا کرتے تھے۔

نوٹ؛ یہ حدیث اس جگہ اس لئے بیان کی گئی کہ اگر حضور علیہ السلام نے ایک وعظ میں ازل تا آخر واقعات بیان فرمادئے تو یہ بھی آپ کا معجزہ تھا۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام آن کی آن میں ساری زبور پڑھ لیتے تھے۔

اور حضرت شیخ محقق کے جنہں منکرینِ علمِ غیب بھی مستند مانتے ہیں، مدارج النبوۃ جلد اول وصل رویۃ الہی میں فرماتے ہیں کہ:۔
فاوحی ۔۔۔۔۔۔۔ الآیۃ بتمام علوم علوم و معارف و حقائق و بشارات و اشارات، اخبار و آثار و کراماتو کمالات در احیطہء ایں ابہام داخلاست وہمہ راشامل و کثرت وعظمت اوست کہ مبہم آدردوبیان نہ کرداشارات بآنکہ جزعلم علام الغیوب ورسول محبوب بہ آں محیط نتواند شد مگر آں چہ آں حضرت بیان کردہ۔
معراج میں رب نے حضور علیہ السلام پر جو سارے علوم اور معرفت اور بشارتیں اور اشارے اور خبریں اور کرامتیں و کمالات وحی فرمائے وہ اس ابہام میں داخل ہیں اور سب کو شامل ہیں انکی زیادتی اور عظمت ہی کی وجہ سے ان چیزوں کو بطور ابہام ذکر کا بیان نہیں فرمایا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان علوم غیبیہ کو سوئے رب تعالٰی اور محبوب علیہ السلام کے کوئی نہ احاطہ کر سکتا۔ ہاں جس قدر حضور نے بیان فرمایا وہ معلوم ہے۔

علمائے دیوبند کے عقائد پر مستند کتاب جس پر بیشتر اکابرینِ دیوبند کے دستخط ہیں جن میں اشرف تھانوی، محمود الحسن اور مفتی کفایت اللہ وغیرہ شامل ہیں، المہند میں خلیل احمد انبھیٹوی رقمطراز ہیں کہ:۔

ہم زبان سے کہتے ہیں اور دل سے عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ خواہ ان علوم کا تعلق ذات وصفات سے ہو یا تشریعات سے، عملی احکام ہوں یا نظری احکام، واقعی حقیقتیں اور مخفی اسرار ہوں، وہ علوم جن کے پردوں تک کسی مخلوق کی رسائی نہیں ہوئی، نہ کسی مقرب فرشتے کی اور نہ کسی نبی رسول کی۔ آپﷺ کو اولین اور آخرین کا علم عطا کیا گیا اور آپ پر اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل تھا، لیکن اس سے ہر زمانے میں نوپیدا امور کی ہر جزئی کا علم لازم نہیں آتا۔

اس کے چند سطر آگے لکھتے ہیں کہ؛

لیکن توجہ نہ ہونے کی بنا پر بعض نوپیدا اور حقیر جزئیات کا نبیِ اکرمﷺ کی نگاہ سے اوجھل ہوجانا آپﷺ کے سب سے بڑے عالم ہونے میں موجبِ نقص نہیں ہے، جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپﷺ بلند مقام کے لائق علوم شریفہ کا تمام مخلوق سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔(المہند، 24-25-26)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اورکوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کڑوڑوں درود

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...