Sunday, 21 September 2025

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے


محترم قارئینِ کرام : علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : خیرالدین رملی رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے ، مثلاً : نومولود کے کان میں ، پریشان ، مرگی زدہ ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں ، کسی لشکر کے حملے کے وقت ، آگ لگ جانے کے موقع پر ۔ (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵،چشتی)


اِن مواقع میں اذان سنت ہے : فرض نمازکے وقت ، بوقتِ ولادت بچہ کے کان میں ، آگ لگنے کے وقت ، کفار سے جنگ کے وقت، مسافر کو جب شیاطین ظاہر ہوکر ڈرائیں ، غم کے وقت ، غضب کے وقت ، جب مسافر راستہ بھول جائے ، جب کسی آدمی یا جانور کی بد خُلقی ظاہر ہو تو اُس کے کان میں ، اورجب کسی کو مِرگی آئے ۔ ما في ’’ الشامیۃ ‘‘ : وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسنّ الأذان لغیر الصلاۃ کما في أذن المولود والمہموم والمصروع والغضبان ، ومن ساء خُلقہ من إنسان أو بہیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق ۔ (۲/۴۶ ، مطلب في المواضع التي یُندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ)(الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲/۳۷۲ ، ۳۷۳)


نماز کے علاوہ بعض دیگر مواقع کے لئے بھی فقہاء نے اذان کا ذکر فرمایا ہے


وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ ، کما في أذن المولود ، والمہموم ، والمصروع ، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب ، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا ۔ وکذا یندب الأذان وقت الحریق ووقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع ۔


خلاصہ عربی عبارت


(1) بچہ کے کان میں اذان دینا ۔


(2) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے ۔


(3) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں ، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے ۔


(4) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے ۔


(5) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے ۔


(6) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو ، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)


(7) آگ پھیل جانے کے وقت بھی اذان دینے کا حکم ہے ۔


(8) سرکش جنات کے شر سے بچنے کے لئے بھی اذان دینا ثابت ہے ۔ (اس بارے میں ایک صحیح حدیث موجود ہے)


(9) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے ۔ (شامي ۲؍۵۰ ، ۱؍۳۸۵ مطبوعہ کراچی)،(منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)،(الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)


خوف ودہشت کے وقت اس عقیدے سے اذان دینا کہ خوف ودہشت دور ہو ، جائز ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : عن سہیل قال أرسلني أبي إلی بني حارثۃ قال ومعي غلام لنا (أو صاحب لنا) فناداہ مناد من حائط باسمہ قال : فأشرف الذي معي علی الحائط فلم یر شیئاً فذکرت لأبي ، فقال : لو شعرتُ أنک تلقی لہٰذا لم أرسلک ولٰکن إذا سمعت صوتا فناد بالصلاۃ فإني سمعت أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلاۃ وليّ ولہ حُصاص ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / فضل الأذان وہرب الشیطان عند سماعہ ۱؍۱۶۷ رقم: ۳۸۹،چشتی)


حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہار شریعت میں ہے : وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 466 صفحہ نمبر 1)،(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 370)


جب حضرت آدم علیہ السّلام جنَّت سے ہندوستان میں اُترے اُنھیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ السّلام نے اُتر کر اذان دی ۔ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۵ ص ۱۲۳ حدیث ۶۵۶۶)


اے علی رضی اللہ عنہ میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (جامِع الحدیث لِلسُّیُوطی رحمۃ اللہ علیہ ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷) ، یہ روایت نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ جلد5 صَفْحَہ 668 پر فرماتے ہیں : مولیٰ علی رضی اللہ عنہ اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: فَجَرَّ بْتُہُ فَوَجَدْ تُہُ کَذٰلِکَ ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۲ ص۳۳۱،جامِعُ الحدیث ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷)


جس بستی میں اَذان دی جائے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ ص۲۵۷حدیث ۷۴۶)


مذکورہ بالا دلائل سے مصیبت کے وقت اذان پڑھنے کا ثبوت تو ملتا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب بوقت مصیبت اذان پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں مَنع نہیں کیا گیا اگر منع کیا گیا ہے تو معترضین ثبوت پیش کریں ؟ اسی لیئے عرض ہے جب جواز موجود ہے اور ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے تو مَنع نہ ہونا خود بخود ’’اِجازت‘‘ بن گیا اور اچھی اچھی باتیں اسلا م میں ایجاد کرنے کی تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نے ترغیب ارشاد فرمائی ہے اور’’مسلم‘‘ کے باب ’’کتابُ العلم‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کا یہ ارشاد مبارک موجود ہے : مَنْ سَنَّ فِی الْاِ سْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ ۔ (صَحیح مُسلِم ص۱۴۳۷حدیث۱۰۱۷،چشتی))

ترجمہ : جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس ( یعنی جاری کرنے والے) کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کمی نہیں ہوگی ۔


مطلب یہ کہ جو اسلام میں اچھّا طریقہ جاری کرے وہ بڑے ثواب کا حقدار ہے توبلاشُبہ مصیبت کے وقت اذان پڑھنے والا بھی ثواب کا مستحق ہے ، قِیامت تک جومسلمان اِس طریقے پرعمل کرتے رہیں گے اُن کوبھی ثواب ملے گا اور جاری کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور دونوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔


ہوسکتا ہے کسی کے ذِہن میں یہ وسوسہ آئے کہ حدیثِ پاک میں ہے : کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّاریعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) ، اِس حدیث شریف کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ پاک حق ہے ۔ یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سیِّئَۃ یعنی بُری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو ۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا شیخ عبد الحق مُحدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :جو بدعت اُصول اور قواعدِ سنّت کے موافِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے ( یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خِلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۱ص۱۳۵)


کل بدعۃ ضلالہ کا صحیح مفہوم غیر مقلد وہابی حضرات کے بڑوں کی زبانی


علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)


علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ۔

ترجمہ : اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔ ( منهاج السنة، 4 : 224 )


علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل ۔

ترجمہ : اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ( کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16،چشتی)


حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر (المتوفی 774ھ)


حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔

ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔( تفسیر ابن کثیر 1 : 161،چشتی)


شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی غیر مقلد (المتوفی 1255ھ)


یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة ۔

ترجمہ : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔( نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63،چشتی)


نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1307ھ)


غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل ۔

ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117)


نواب وحید الزمان غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1327ھ)


مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل ۔

ترجمہ : باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117،چشتی)


عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد اھلحدیث (1353ھ)


عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : بقوله کل بدعة ضلالة (1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح ۔

ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے) ۔ ( جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378،چشتی)


الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نجدی وھابیوں کا مفتی اعظم (1421ھ)


عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.

ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.

ترجمہ : علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔ ( فتاويٰ اللجنة، 2 : 325 ،چشتی)


ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.


أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.

ترجمہ : بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔( فتاويٰ اللجنة،2 : 329)


بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں : البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء.

ترجمہ : ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة، 2 : 321) 


اذان سے بستی کا عذاب ٹل جاتا ہے : عن أنس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِذَا اُذِّنَ فِی قَرْیَۃٍ أمِنَہَا اللّٰہُ مِنْ عَذَابِہٖ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے تو وہ جگہ اس دن سے عذاب سے مامون ہو جاتی ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، ۱/۲۳۱)(الترغیب و الترہیب للمنذری ۱/۱۸۲)( تلخیص الحبیر لابن حجر ، ۱/۳۲۸)( کنز العمال للمتقی، ۲۰۸۹۳، ۷/۶۸۱)(مجمع الزوائد للہیثمی، ۱/۳۲۸ )(الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۲۹)


امیرُ المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے : قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے ہیں مجھے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا : اے علی میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 310، مطبوعہ دارالکتاب بیروت لبنان،چشتی)،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح مترجم اردو جلد دوم صفحہ 495 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)


امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا : فجر بتہ فوجدتہ کذالک ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ ذکرہ ابن حجر کما فی المرقاۃ ۔ (فتاوی رضویہ ۲/ ۶۷۶)


حضرت آدم علیہ السّلام کی وحشت اذان کے ذریعہ دور ہوئی


عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْہِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فََنَزلَ جِبْرَئِیْلُ عَلیہِ السَّلامُ فَنَادٰی بِالْأذَانِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام جنت سے ہندوستان میں اترے تو انہیں گھبراہٹ ہوئی ۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام، نے اتر کر اذان دی ۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ۵/۱۹۷)(کنز العمال للمتقی، ۳۲۱۳۹، ۱۱/۴۵۵)


اذان کی برکت سے آگ بجھ جاتی ہے


عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أطْفِئُوْا الْحَرِیْقَ بِا لتَّکْبِیْرِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :آگ کو تکبیر کے ذریعہ بجھاؤ ۔ (مجمع الزوائد للہیثمی، ۳/۱۳۸)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۱۵۰)


عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : اِذَا رَأیْتُمُ الْحَرِیْقَ فَکَبِّرُوْا فَاِنَّہٗ یُطْفِیُٔ النَّارَ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرما یا : جب آگ دیکھو اللہ اکبر ، اللہ اکبر کی بکثرت تکرار کرو ۔ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۴۵)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۹۳)(المسند للعقیلی ۲/۲۹۶)(المطالب العالیۃ لابن حجر۳۴۲۴)(میزان الاعتدال لحلبی ۴۵۳۰،چشتی)(الکامل لابن عدی ۴/۱۵۱)(الکنی والاسماء للدولانی ۲/۱۳۷)(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی ۲۸۹)


علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : فکبروا ای قولوا اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، و کرر وہ کثیرا ، یعنی اللہ اکبر کی خوب تکرار کرو۔


یہ احادیث ضعیف ہیں کا جواب


معترضین کی طرف سے احادیثِ مبارکہ کے ضعف کو یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ضعیف احادیث مطلقاََ قابل احتجاج نہیں جبکہ جمہورمحدثین علیہم الرّحمہ کا مؤقف اس کے بلکل برعکس ہے ۔


(1) وباء کے زمانے میں ہم اذان کو مستحب مانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہوتی ہے ۔


(2) جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے ۔ محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل اعمال یعنی فضائل اعمال مین ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا اگر وہ موضوع نہ ہو ۔

تدریب الراوی میں ہے کہ ضعیف حدیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا ۔

یہی مؤقف امام اعظم ابو حنیفہ ، امام سفیان ثوری ، امام شافعی ، امام سفیان بن عینیہ ، امام احمد بن حنبل ، امام ابن حجر عسقلانی ، امام بیہقی ، امام حاکم ، امام سیوطی ، ابن صلاح ، امام نووی ، امام سخاوی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے ۔


(3) فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا مؤقف موجودہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے بڑے علما ء کا ہے جن میں اہل حدیث کے مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ، شیخ الکل فی الکل نذیر حسین محدث دہلوی ، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری ، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ، شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی وغیرہ شامل ہیں ۔


اس کے علاوہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اذان کا ایک وقت مقرر ہے اور اذان نماز کے علاوہ نہیں دی جا سکتی ۔ جبکہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی ۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض کہ اذان نماز کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں دی جا سکتی ، باطل ثابت ہوتا ہے ۔ بعض حضرات اسے چھت پر چڑھ کر یا عدد خاص کرنے کی وجہ سے بدعت قرار دیتے ہیں ۔ ان کی یہ منطق تو عجیب تر ہے ۔ اونچی جگہ پر اذان دینا سنن ابوداؤد کی ایک صحیح روایت سے ثابت ہے اور عدد متعین کرنا تب بدعت قرار پائے جب اس متعین عدد کو فرض ، واجب یا سنت نبوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم سمجھا جائے ۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ہم اس عمل ہی کو مستحب سمجھتے ہیں کجا کہ متعین عدد کو فرض و واجب کا درجہ دیں ۔


محترم قارئینِ کرام : چاہئے تو یہ تھا کہ معترضین مسلمانوں کے اس فعل کو سراہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ مسلمانوں سے اس وبا کو دور فرما لیکن شیطان کو کہاں منظور تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کا کلمہ بلند کریں ۔ الٹا بدعت و جہالت کے فتوے جڑنا شروع کر دیئے ۔ آئیے اب معترضین کے اعتراض کی طرف آتے ہیں ۔ معترضین نے کہا اور لکھا کہ وبا میں اذان دینا بدعت ہے کیونکہ اس بارے میں جو احادیث پیش کی گئیں وہ ضعیف ہیں ۔


تو جنابِ من عرض ہے کہ جب مختلف احادیث ایک ہی معنیٰ کی ہوں تو سب مل کر قوی درجہ کو پہنچ جاتی ہیں ۔ دوسرے نمبر پر چلو بالفرض تمہارے بقول اگر ان احادیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی غیرمقلد وہابی حضرات محدث کے اصول کے مطابق ان پر عمل کرنا جائز ہے اور بدعت کہنا تشدد فی الدین ہے ۔


وہابیہ کے مناظرِ اعظم ، اور محدث جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : بعد نمازِ فرض ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر دو روایتوں میں آیا ہے جن کو حضرت میاں (نذیر حسین) صاحب دہلوی نے اپنے فتوے میں نقل کیا ، گو وہ ضعیف ہیں مگر ضعیف حدیث کے ساتھ بھی جو فعل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا ، ایسا تشدد کرنا اچھا نہیں ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 508، مطبوعہ ملکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)


غیر مقلد وہابیہ کے امام نے مانا کہ جو فعل ضعیف حدیث سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا اس کو بدعت کہنا تشدد ہے ۔ اور خود وہابیہ کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی بھی انہی ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے ۔


اب اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے کہ وبا وعذاب میں اذان والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے شیخ الاسلام کے اصول کے مطابق اس پر عمل جائز اور اس کو بدعت کہنے والا متشدد فی الدین ہے ۔ اور اگر پھر بھی بدعت کہو گے تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سمیت مولوی نذیر حسین دہلوی بھی بدعتی اور جہمنی ٹھہریں گے ۔ کیونکہ آپ کا مشہور ورد ہے کل ضلالة فی النار ۔


جناب ثناء الله امرتسری غیرمقلد نے اسی فتاویٰ کی دوسری جلد میں لکھا کہ : (ضعیف) حدیث کے معنے ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں ۔ وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس کے مقابل میں صحیح حدیث نہیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ، جیسےنماز کے شروع میں "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر اس پر ساری امت عمل کرتی ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول,، صفحہ76، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)


اب اگر اسی اصول کے تحت ایسی صحیح حدیث پیش کر دیں کہ جس میں ہو کہ وباء کے وقت اذان دینا جائز نہیں ۔ تب تو عمل ترک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث موجود نہیں تو آپ کے نزدیک پھر عمل کرنا جائز ہے ۔ یا تو واضح حدیث پیش کرو کہ وبا و بلا میں اذان دینا جائز نہیں بدعت ہے ۔ یا پھر تسلیم کر لو کہ کہ اذان دینا جائز ہے ۔


غیرمقلد وہابی حضرات کے دو محقق (1) حافظ حامد الخضری (2) عبد اللہ ناصر رحمانی لکھتے ہیں : تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے "سبحانك اللھم" پڑھنا سنت ہے ۔ (خیال رہے ثناء الله نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے) ۔ (نمازِمصطفیٰ صفحہ نمبر 272 مطبوعہ انصار السنة پبلیکیشنز لاہور،چشتی)


اس روایت کو غیرمقلد وہابی عالم جناب ابراہیم میر صادق سیالکوٹی نے بھی منسون لکھا ۔ (صلٰوة الرسول، صفحہ نمبر 193، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور)


اب اگر وبا و بلا میں اذان کہنا اس لئے بدعت ہے کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے ۔ پھر تو ہر غیرمقلد وہابی بدعتی ہو جائے گا کیونکہ آپ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے لکھا کہ نماز میں ثناء یعنی "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ اور سارے غیرمقلد وہابیوں کا اس پر عمل ہے ۔ نہ صرف عمل بلکہ اسی ضعیف حدیث سے ثابت شدہ عمل کو سنت بھی لکھا ۔


ہم کریں تو ضعیف اور بدعتی ، تم کرو تو ضعیف و سنت ۔ جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے ۔


غیرمقلد وہابیوں کے ایک اور محقق جناب عبدالغفور اثری نے کچھ ضعیف روایتیں اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا کہ : محدثین کے طریقہ کے مطابق ضعیف روایات فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب میں قابلِ عمل ہوتی ہیں (آگے امام سیوطی کے استاد علامہ سخاوی کی عبارت نقل کی مزید لکھا) شیخ الاسلام ابوزکریا یحییٰ شرف الدین نووی اور دیگر علماء ، محدثین ، فقھاءکرام وغیرہ ھم نے فرمایا کہ : جائز اور مستحب ہے کہ فضائلِ اعمال اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے مگرشرط یہ ہے کہ وہ موضوع اور جعلی نہ ہو ۔ (احسن الکلام، صفحہ نمبر 43,44، مطبوعہ محلہ احمد پورہ سیالکوٹ،چشتی)


غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول وبا و بلا و آفت میں اذان پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے محقق عبد الغفور اثری نے مانا کہ ضعیف حدیث پر عمل مستحب ہے ۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اذان مستحب ہے ۔


غیرمقلد وہابی حضرات کے مجتہد عبد اللہ روپڑی نے لکھا کہ : فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے ۔ (فتاویٰ اھلحدیث، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 218 مطبوعہ ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا)


اختصار کے پیشِ نظر ان حوالوں کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں ۔ ورنہ اس موضوع یعنی ضعیف حدیث ترغیب و ترہیب میں قابلِ عمل ہے پر ان کی کتب سے اتنے حوالے ہیں کہ پورا کتابچہ ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔ اور ہم کچھ عرصہ قبل اس پر تفصیل مکمل مضمون پوسٹ کر چکے ہیں غیرمقلد وہابی اور ضعیف احادیث پر عمل مکمل اسکینز کے ساتھ ضرورت پڑی تو دوبارہ پوسٹ کر دینگے ان شاء اللہ ۔


محترم قارئینِ کرام : ان دلائل و حقائق سے ثابت ہوا کہ اگر ان احادیث کو ضعیف غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول ضعیف بھی مانا جائے تو بھی ان پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے ۔ اور اس کو بدعت کہنا جہالت ہے ۔ اور انہی جیسی احادیث کو نقل کر کے غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث نے حجت پکڑی اور مشکلات میں اذان دینے کی تعلیم دی ۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے نواب صدیق حسن خان بھوپالوی کے تعامل سے ہی غیرمقلد وہابی حضرات کو ان احادیث کو درجہ صحت پر مان لینا چاہئے ۔ کیونکہ مشکلات میں یہ اذان کا عمل ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ طریقہ محدث وہابیہ نے بھی اپنی کتاب ”کتاب الدعا“ میں نقل کر کے مجرّب لکھا ہے ۔ مانعین کہتے ہیں کہ فرض نماز کے علاوہ اذان دینا کہیں سے بھی ثابت نہیں اور بدعت و جہالت ہے۔ آئیے فرض نمازوں کے علاوہ اذان کہنے کا ثبوت ہم انہی کے محدث سے پیش کرتے ہیں ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث ومجدد نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں کہ : زید بن اسلم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بعض معاون پر والی تھے ۔ لوگوں نے کہا یہاں پر جنات بہت ہیں ۔ کثرت سے اذانیں (ایک ہی) وقت پر کہا کرو ، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور پھر کسی جن کو وہاں نہ دیکھا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نماز کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ اکٹھی اذانیں دینے سے بلائیں بھاگ جاتی ہیں ۔ تو کیا فتویٰ لگے گا آپ کے محدث بھوپالی پر ؟


غیرمقلد وہابیہ کے یہی محدث بھوپالی اپنی کتاب میں ”مشکلات سے نکلنے کیلئے“ کے نام سے عنوان قائم کر کے اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ کو مہموم (پریشان) دیکھ کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کو حکم دے کہ وہ تیرے کان میں اذان کہہ دیں کہ یہ دواءِ ھم (یعنی پریشانی کی دواء) ہے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مجھ سے غم دور ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


مشکلات ٹالنے کیلئے اذان


غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے بھی تسلیم کیا کہ اذان سے غم دور ہوتا ہے ۔ اور مشکلات ٹَلتی ہیں ، تو سوچو جب مسلمانوں کی اذانوں کی آواز اتنے لوگوں کے کانوں میں پڑی تو کتنا سکون ملا ہو گا ۔ اگر نماز کے علاوہ اذان دینا جہالت و بدعت ہے تو کیا حکم لگے گا آپکے محدث بھوپالی صاب پر ؟


مرگی کے علاج کیلئے اذان


وغیرمقلد ہابیہ کے مجدد بھوپالی نے اپنی کتاب میں ”مرگی کا علاج“ کے نام سے عنوان قائم کیا، پھر اسکے تحت لکھتے ہیں کہ : بعض علماء نے مرگی والے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی ، وہ اچھا ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 77، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور،چشتی)


مزید عنوان دیا ”راستہ بھول جانے کا علاج“ اسکے تحت لکھا کہ : بعض علماء صالحین نے کہا ہے کہ آدمی جب راستہ بھول جائے اور وہ اذان کہے تو اللّٰہ تعالٰی اسکی رہنمائی فرماوے گا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


مزید اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ : جس کو شیطان خبطی کر دے یا اس کو آسیب کا سایہ ہو .... تو اسکے کان میں سات بار اذان کہے ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76،105، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


تو ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مصیبت و پریشانی کے وقت اذانیں دینے سے مصیبتیں ، وبائیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں ۔ بس اسی جذبے کے تحت مسلمانوں نے "کرونا وائرس" جیسی وباء سے چھٹکارے کے لئے اللّٰہ تعالٰی کے ذکر یعنی اذان کی تدبیر کی تاکہ اللّٰہ عز و جل اپنے ذکر کی برکت سے اس آفت کو ٹال دے اور مسلمانوں کو خوف وہراس سے نکال دے ۔ لیکن کچھ لوگ برا مان گئے نہ صرف برا مانے بلکہ اذانوں کا یہ سلسلہ دیکھ کر مسلمانوں کو نہ صرف بدعتی بلکہ جاھل کہنا شروع کر دیا ۔ الحمد للہ ہم نے اِتمامِ حجت کے لئے نہ صرف احادیث سے اس کے جواز کے شواہد و براہین پیش کیئے بلکہ ان کے اس محدث کے حوالے بھی پیش کیے ہیں ۔۔۔۔ یقیناً اذان سن کر شیطان ہی کو تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کو جاہل کہتا ہے کیونکہ اذان سن کر کرشیطان 36 میل دور بھاگ جاتا ہے ۔ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا ۔

ترجمہ : حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

سلیمان نے کہا : میں نے ان (اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع ) سے مقامِ روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یہ مدینہ منورہ سے چھتیس میل (کے فاصلے) پر ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان... إلخ، الحدیث:854، مطبوعہ دار السلام ریاض سعودیہ،چشتی)


لہٰذا کم از کم مسلمان کو اذان سن کر خوش ہونا چاہئے اور آفت ٹلنے کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ پڑھنے والوں کو جاہل و بدعتی کہہ کر اپنا رشتہ شیطان سے ظاہر کرنا چاہیے ۔ مذکورہدلائل سے ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں ۔ اگر احادیث ضعیف بھی ہیں تب بھی فضائل اعمال میں جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک مقبول ہیں اور جبکہ مخالفین کے گھر کی گواہی بھی موجود ہے تو انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا ! ہاں اگر وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسب سابق اپنے علماء کو "جوتے کی نوک پر " رکھیں تو الگ بات ہے ۔ کیونکہ اس طبقے کا ہر چھوٹا بڑا اپنے تئیں بذات خود بہت بڑا محدث ، مفسر اور محقق ہے ۔


لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں کوئی وقت خاص نہیں ہے ۔ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاء اللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے ۔ اور اللہ عز و جل امان نصیب فرمائے گا ۔ اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا ، وبا اور آفت سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و

No comments:

Post a Comment

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے محترم قارئینِ کرام : علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : خیرالدین رملی رحمۃ اللہ ...