Thursday, 15 May 2025

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل

محترم قارئینِ کرام : اہلِ ایمان کا جہادوطن کےلیے نہیں اسلام کےلیے ہے ۔ اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں نسلی ، قبائلی ، وطنی ، لسانی وحدتوں کے بت توڑ کر ایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ، عربی ، ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔ یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیا کی ساری وحدتوں کو زِیر و زَبر کر دیا ۔ چند صدیوں سے اسلام دشمن قوتوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہو کر  بڑی چالاکی سے لوگوں میں پھر وطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کیے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر  پارہ پارہ کر دیں ۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذھب نہیں ہے جس کے نام پر تمام دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں ۔ اس لیے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کےلیے اسی کے نام پر جنگ  کرتے ہیں ، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دے کر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں ۔


مسلمانوں کو اللہ عزوجل نے ان سب چیزوں سے بالاتر  رکھا ہے ۔ وہ صرف اللہ عزوجل اور اسلا م کےلیے جہاد کرتے ہیں اور وطن یا نسب اللہ عزوجل اور اسلام کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتے ہیں ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرتِ مدینہ نے اور بدر و اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیا ہے ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔                                                                       


آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کا نعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہو گئے اور اپنے جہاد کو وطن کےلیے کہنے لگے ہیں ۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ ہمارے اکثر نوجوانوں کے خیالات اس سے پاک ہیں ۔ وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتےہیں نہ کہ وطن کےلیے ۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ  بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیالی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے مشرکانہ الفاظ سے بھی اجتناب  کیا جائے ۔


یاد رہے ہماراوطن اِ سلام ہے ۔ ہم وطن پرست نہیں ہاں مسلم وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصّہ ہے ۔ ہمیں اس وطن سے ہجرت کر جانے کا حکم ہے جس میں رہ کر ہم اسلام کے تقاضے پورے نہ کر سکیں ۔ یہی وہ نظریہ ہے جس نے پاکستان بنوایا اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر آمادہ کیا ۔ شاعر مشرق اقبال علیہ الرحمہ نے اس مضمون کو بڑی ہی لطافت سے ادا کیا ہے ۔ وطنیّت پر ان کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں : ⏬    


اس دور میں مےَ اور ہے جام اور ہے جم اور

ہے ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و کرم اور  


مسلم نے بھی تعمیر کیا  اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشو ائے صنم اور


ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کاکفن ہے


یہ بت کہ تراشیدۂ  تہذیب نوی ہے

غار تگر کاشانہ دینِ نبوی ﷺ  ہے                


بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ﷺ ہے  


نظارۂ دیرینہ زمانے کو د کھا دے

اے مصطفوی ﷺ خاک میں اس بت کو ملا دے


قرآن مجید میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمۡ بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ۔ (سورۃ الصف آیت نمبر 4)

ترجمہ : بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ قتال کرتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔


ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ عزوجل ان لوگوں  سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں جنگ کے دوران اس طرح صفیں  باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں ، ان میں  ایک سے دوسرا ملا ہوا ، ہر ایک اپنی اپنی جگہ جما ہوا اور دشمن کے مقابلے میں  سب کے سب ایک چیز کی طرح ہیں ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۲۶۲)


مقصود یہ ہے کہ اللہ عزوجل کو بہادر مجاہد پسند ہیں جو ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کریں اور پیٹھ نہ دکھائیں ، اس زمانہ میں چونکہ جہاد میں صفیں  باندھی جاتی تھیں ، اس لیے یہاں صف کا ذکر ہوا جبکہ موجودہ دور میں اب صفیں باندھ کربھی جہاد کی صورت ہو سکتی ہے اور دوسرے طریقے سے بھی اور اب ہر وہ طریقہ اس میں  شامل ہوگا جس میں ایک مفید نظم و ضبط ہو اور جو آپس میں  ایک دوسرے کی قوت و طاقت اور دوسروں  پر فتح کا ذریعہ بنے ۔


وَوَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ ۔ (سورۃ الأنفال آیت نمبر 60)

ترجمہ : اور (اے مسلمانو) تم بہ قدر استطاعت ، ان (سے مقابلہ) کےلیے ہتھیار تیار رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑے اور ان سے تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کرو اور ان کے سوا دوسرے دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے ، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس کا تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر بالکل ظلم نہیں کیا جائے گا ۔


 اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۲ صفحہ ۲۰۵،چشتی)


جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثمّ نسیہ صفحہ ۱۰۶۱ حدیث نمبر ۱۶۷ (۱۹۱۷)) ۔ فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دشمن سے لڑنے بھڑنے کی خواہش نہ کرو ، (لیکن) جب مقابلہ ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو ۔ (‌صحيح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ لاَ تَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ حدیث نمبر 3026،چشتی)


ابونضر سے روایت ہے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں میں سے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی ، جنہیں عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا ، کے خط سے روایت کی ، انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو ، جب انہوں نے (جہاد کی غرض سے) حروریہ کی طرف کوچ کیا ، یہ بتانے کےلیے خط لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض ایام (جنگ) میں ، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن سے مقابلہ ہوتا ، انتظار کرتے ، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (ساتھیوں) کے درمیان کھڑے ہوتے اور فرماتے : لوگو ! دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ، (لیکن) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے اللہ ! کتاب کو اتارنے والے ، بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے ! انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر نصرت عطا فرما ۔ (صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّي لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَالْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ حدیث نمبر 4542،چشتی)


جنگ کی تمنا کرنا مکروہ ہے اور ہمیشہ اللہ تعالٰی سے عافیت طلب کرنی چاہیے ۔ مگر جب دشمن کی طرف سے جنگ مسلط کر دی جائے تو پیٹھ پھیرنا (میدان جنگ سے فرار ہونا) حرام ہے ۔ یہ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں ۔ جنگ میں دلیری سے آخری سانس تک مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اگر اس وقت موت مقرر نہیں ہے تو شان کے ساتھ زندہ سلامت واپسی ہو گی اور اگر وہ وقت موت کا ہے تو میدان جنگ سے دور رہ کر بھی موت آ جائے گی ۔  جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کےلیے وضو ضروری ہے ۔ عبادت کے اَسباب جمع کرنا عبادت ہے اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کےلیے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کےلیے سفر کرنا حرام ہے ۔ کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رُعب ڈالنے کےلیے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کر سکتا ہے ۔


مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہو رہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر مسلمان مل کر اِس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کر سکے ۔


اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل : ⏬


جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ  رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی  اصطلاح میں ''رباط'' کہا جاتا ہے ۔ اورجہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضائل  قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح  دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا   تھا ۔ آج کل یہ فرائض ہماری رینجرز ، پولیس اور فوج انجام دیتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جذبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط'' کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ 


اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے : يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 200)

ترجمہ : اے ایمان والو صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہواس امید پر کہ کامیاب ہو ۔


تفسر بیضاوی میں ہے : وَرَابِطُوْا : اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں (1) سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کےلیے تیار رکھو ۔ (2) اللہ عوجل کی اطاعت پر کمر بستہ رہو ۔ (تفسر بیضاوی جلد ۲ صفحہ ۱۳۷)


علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مرابطہ کی دو قسمیں ہیں ‘ مسلمانوں کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت کرنا ‘ کہیں اس پر دشمن اسلام حملہ آور نہ ہوں اور دوسری قسم ہے نفس کا بدن کی نگہبانی اور حفاظت کرنا کہیں شیطان اس سے گناہ نہ کرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ‘ یہ دوسری قسم ہے اور پہلی قسم کے متعلق یہ آیت ہے : واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ۔ (سورہ الانفال آیت نمبر ٦٠)

ترجمہ : ان کےلیے بہ قدر استطاعت ہتھیاروں کی قوت اور گھوڑے باندھنے کو فراہم کرو ۔ (مفردات الفاظ القرآن صفحہ ١٨٦ ۔ ١٨٥ مطبوعہ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران ١٣٦٢ ھ،چشتی) 


سورہ آل عمران کی زیادہ کی زیادہ تر آیتیں جنگِ احد سے متعلق ہیں اور بعض مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی تھی جس کے نتیجہ میں وہ شکست سے دوچار ہوئے اور اس شکست پر آزردہ خاطر ہوئے ‘ اس لیے اس آیت کا ایک ظاہری محمل یہ ہے کہ کفار سے جنگ کے دوران ثابت قدم رہو اور جنگ میں ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرو ‘ اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو ‘ اور اس سلسلہ میں اللہ اور رسول کے احکام پر عمل کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور کسی قسم کی حکم عدولی نہ کرو تاکہ تمہیں کامیابی اور سرفرازی کی امید ہو ۔ 


امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ الرحمہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : راہِ خدا میں ایک دن سرحد کی نگہبانی کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۹ حدیث نمبر ۲۸۹۲)


امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمہ ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ‘ ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے افضل ہے ‘ اور اگر وہ مر گیا تو اس کا یہ اجر جاری رہے گا اور وہ فتنہ میں ڈالنے والے سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩١٣،چشتی)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٦٨‘ ٣٦٧)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٦٧)(مسنداحمد جلد ٢ صفحہ ١٧٧ ، جلد ٥ صفحہ ٤٤١‘ ٤٤٠)(تحفۃ الاشراف رقم الحدیث : ٩١ ٤٤)


فتنہ میں ڈالنے سے مراد یا تو منکر نکیر ہیں اور یا اس سے مراد شیطان ہے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے ثواب کو جاری رکھے گا اور جس حدیث میں ہے ابن آدم میں سے ہر ایک کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ماسوا تین کے اس کا مطلب ہے ان تین کا عمل منقطع نہیں ہوتا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کا ثواب جاری رکھے گا ۔


امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منی میں فرمایا اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی حفاظت کرنا اس کے علاوہ ہزار ایام سے افضل ہے ۔ (مسند احمد جلد ١ صفحہ ٥٧‘ ٦٦‘ ٦٤،چشتی)(سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٤٣١)


حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے ، حفاظت کرنے والا اگر مر گیا تو اس کے اِس عمل کا اجر جاری رہے گا اور وہ فتنۂ قبر سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل صفحہ ۱۰۵۹ حدیث نمبر ۱۶۳ (۱۹۱۳))


رباط کا مفہوم اسلامی سرحدات کی حفاظت ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کام ان ہی مقامات پر ہو سکتا ہے جو اسلامی ملک کی آخری حدود پر واقع ہیں ۔


لیکن اس زمانے کی فضائی  جنگ نے اس معاملہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے ، کیونکہ  چھاتہ  بردار فوج  ہر جگہ اتر سکتی ہے، بم بار طیاروں سے ہر جگہ بم گرائے  جاسکتے ہیں ، اس لیے جن مقامات پر بھی د شمن کی اسی یورش کا خطرہ ہو ، ان کے حفاظتی انتظامات بھی اسی رباط  کے حکم میں داخل ہوں  گے ۔


قدیم فقہائہ نے بھی رباط کے معاملہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس بستی پر ایک مرتبہ دشمن حملہ کر دے اس کی حفاظت  چالیس 40  سال تک رباط کے حکم میں داخل ہے ۔ (فتح القدیر جلد 4 صفحہ 278،چشتی)


پاکستان کے سابقہ جہاد میں سرگودھا ، پشاور ،  کراچی وغیرہ مقامات  جہاں چھاتہ بردار فوجیں اترنے کے خطرات پائے گئے اور جہاں دشمن کے بمباروں نے بمباری کی ، ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے ۔ یہ ایسا جہاد ہے  جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے ، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور  بھر اس میں کوشش کرے ۔


بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے : ⏬


ایسے خطرات کے وقت جن بستیوں میں حکومت کی طرف سے اندھیرا جاری رکھنے کی ہدایت جاری ہو ان کی تعمیل  بھی ان ہی حفاظتی انتظامات کے تحت رباط کے حکم میں داخل ہو کر ان شاء اللہ اس ثواب عظیم کا موجب ہوگی ۔ مسلمان اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ مفت کا ثواب  رباط حاصل کرنے پر خوش   ہوں اور شکر ادا کریں ۔


ظاہریعہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں بلیک آؤٹ کی ایک نظیر : ⏬


جنگی حالات اور ان کے تقاضے ہر زمانے اور ملک میں جدا ہوتے ہیں ۔ ملک کے مبصر اور اربابِ حکومت جس چیز کو شہری دفاع کےلیے ضروری قرار دیں ، اس کی تعمیل شرعی حیثیت سے بھی ضروری ہو جاتی ہے ۔ خواہ اس معین چیز  کا ثبوت قرونِ اولٰی کی روایات میں ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ مباحات میں اطاعتِ امیر کا ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے ، وہی ان تمام جا ئز  کاموں میں تعمیل حکم کی اصل علت ہے لیکن کوئی خاص کام اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہو تو اس کا محبوب و مشروع ہونا اور مبارک عمل ہونا ظاہر ہے ۔   


دورانِ جنگ پاکستان میں شہری دفاع کےلیے حکومت رات کو روشنی کرنے پر پابندی لگا دیتی ہے ۔ اطاعتِ حکم کے تحت تو اس کی تعمیل ضروری تھی ہی ، اتفاق سے اس کی ایک نطیر خود ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ملتی ہے جو قارٸین کی دلچسپی اور ایمان کو مستحکم کرنے کےلیے پیشِ خدمت ہے ۔ جمادالثانی 8 ھجری میں جہاد کےلیے ایک لشکر مدینہ طیبہ دس منزل کے فاصلہ پر لخم و جزام کے قبائل مقابلہ کےلیے بیھجا گیا تھا جس کے امیرحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے اس عزوہ میں دشمن کےسپاہوں نے پوری فوج کو حلقئہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے ۔ اسی لیے یہ غزوہ ''ذات السلاسل'' کے نام سے موسوم ہے ۔ (یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس کے بعد ہوئی ہے) ۔   


حدیث مشہور کتاب جمع الفوائد میں معجم کبیر طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس غزوہ ذات السلاسل میں امیر لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم نے اپنی فوج یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ ہی آگ جلایئں ۔ تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ بھاگتے ہوئی دشمن  کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو  لشکر میں موجود تھے ، تعاقب کرنا چاہا مگر امیر لشکر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے تعاقب سے بھی منع کر دیا ۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم کی ناگواری تھی ، کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوارہ گزرا ، مگر اطاعت امیر کی بناء پر تعمیل لازمی تھی ، اس لیے ان دونوں احکامات کی بلا چون  و چرا پابندی کی گئی ۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو بلا کروجہ دریافت فرمائی ۔ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی تھی ، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلتِ تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے اور اس کا حوصلہ نہ بڑھ جائے ۔ اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی  تو وہ کہیں لوٹ کر ان پر حملہ نہ کردے ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کی اس جنگی تدبیر اور عمل کو پسند فرما کر اس پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)

Wednesday, 14 May 2025

ماہِ ذی قعدہ کے فضائل و برکات اور غلط فہمیوں کا ازالہ

ماہِ ذی قعدہ کے فضائل و برکات اور غلط فہمیوں کا ازالہ

محترم قارئینِ کرام : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 36)

ترجمہ : بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔


حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، اُس دن سے لے کر آج تک زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آ گیا (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے ، بلکہ اب وہ ٹھیک ہوکر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصلی صورت میں تھا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ۔ ان میں 4 مہینے عزت و حرمت والے ہیں ، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، اور محرم ہیں ، اور ایک مہینہ (جو اِن سے علیحدہ آتا ہے) وہ رجب کا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان واقع ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3197،چشتی)


اللہ عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے ایک سال میں بارہ مہینے بنائے ہیں اور ہر مہینے کو علیحدہ ، علیحدہ ایک نمایاں مقام عطاء فرمایا ہے ۔ انہیں مہینوں میں سے ایک مہینہ جس کا نام ماہِ ”ذی قعدہ” ہے ۔ اسلامی سال میں شوال کے بعد آنے والے مہینے کا نام ‘ذو القعدہ’ ہے ، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اہلِ عرب (جنگ وغیرہ سے الگ ہو کر) اس مہینے میں بیٹھ جایا کرتے تھے ۔ اس کی جمع ‘ذوات القعدۃ‘ اور ’ذوات القعدات’ آتی ہے ۔ (لسان العرب) ۔ ذوالقعدہ اسلامی سال کا گیارھواں قمری مہینہ ہے ، اس کا تلفظ اس طرح ہے : ’ذ’ مضموم ، ‘ل’ ساکن ، ’ق’ مفتوح ، ’ع’ ساکن اور ‘د’ مفتوح یعنی ذُل قَع دَہ ۔ اس کے قاف پر زبر اور زیر دونوں طرح بولا جا سکتا ہے ، البتہ زبر زیادہ معروف ہے ، بعض اوقات اس کے آخر کی تائے فوقانی کو حذف کر کے ‘ذوالقعدہ’ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ یہ ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے ۔ ’ذو’ کے معنی ہیں ، ’اہل’ ، ‘والا’ ، ’صاحب’ اور ’مالک’ ۔ اس کی جمع ذوون آتی ہے ۔ ذو کا اعراب اسمائے خمسہ والا ہے ، یعنی حالتِ رفعی میں ذو (ذو القعدہ) ، حالتِ نصبی میں ذا (ذا القعدہ) اورحالتِ جری میں ذی (ذی القعدۃ) ہوتاہے ۔ (المعجم الوجیز)


ماہِ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن اشہر حج کہلاتے ہیں ۔ صحیح بخاری کتاب الحج باب قول اللہ تعالیٰ الحج اشھر معلومات میں روایت ہے کہ : وقال ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما اشھر الحج شوال و ذوالقعدۃ وعشر من ذی الحجۃ ۔

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے فرمایا : اشہر حج شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس ہیں ۔


ان مہینوں کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے ، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ ان میں عبادات کا ثواب (دیگر ایام کے بالمقابل) زیادہ ملتا ہے ، ان میں سے پہلا حکم تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہو گیا ، مگر دوسرا حکم احترام وادب اور ان میں عبادت گزاری کا (خصوصی) اہتمام ، اسلام میں بھی باقی ہے ۔


ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک صحابی کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ : صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو ! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو ۔ صحابی نے عرض کیا کہ : مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے ، لہٰذا میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : ہر مہینے میں 2 دن روزہ رکھ لیا کرو ۔ صحابی نے عرض کیا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے مزید اضافہ فرمادیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : ہر مہینے میں 3 دن روزے رکھ لیا کرو ۔ صحابی نے عرض کیا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : حرمت والے مہینوں ( ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزہ رکھو اور چھوڑو ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی 3 انگلیوں سے اشارہ فرما کر ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا (مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں 3 دن روزہ رکھا کرو ، پھر 3 دن ناغہ کیا کرو) اور اسی طرح کرتے رہا کرو ۔ (سنن ابوداؤد حدیث نمبر 2428)


حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حرمت و عظمت والے چاروں مہینوں (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزے رکھا کرتے تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر 7856)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے اصحاب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حرمت و عظمت والے ان 4 مہینوں (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزے رکھنا مستحب روزوں میں سے ہے ۔ (المجموع شرح المہذب جلد 6 صفحہ 386،چشتی)


اسی طرح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ : ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ جن مہینوں میں روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے وہ یہ ہی چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) ہیں ۔ (روضۃ الطالبین جلد 2 صفحہ 388)


قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو یہ واقعہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی شریعت اور کتاب دینے کےلیے کوہِ طور پر پہلے تیس راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا اور پھر مزید دس راتوں کا اضافہ فرما کر کل چالیس راتیں مکمل ہونے پر اُن کو شریعت اور کتاب (توریت) عطا فرمائی تو ان چالیس راتوں کے بارے میں حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چالیس راتیں ذی قعدہ کے پورے مہینے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی تھیں۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف کی میعاد عید الاضحی کے دن پوری ہوئی تھی اور اسی دن آپ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا تھا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 421،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کُل چار عمرے کیے ۔ (صحیح مسلم) ۔ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عہنا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ذوالقعدہ کے علاوہ (کسی مہینے میں) عمرہ نہیں فرمایا ۔ (سنن ابن ماجۃ)


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کُل چار عمرے کیے ، ایک عمرہ ، دوسرا عمرہ قضا ، تیسراعمرہ جعرانہ اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ۔ (سنن ابوداود)


حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس دن سے لے کر آج تک زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آگیا (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے ۔ بلکہ اب وہ ٹھیک ہو کر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصل صورت میں تھا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ۔ ان میں چار مہینے عزت و حرمت والے ہیں ، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ، اور ایک مہینہ (جو اِن سے علیحدہ آتا ہے) وہ رجب کا ہے جو جمادی الٓاخر اور شعبان کے درمیان واقع ہے ۔ (صحیح بخاری )


ماہ ذی قعدہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے ۔ یہ ماہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جو عصر جاہلیت میں بھی قابل احترام تھا اور اسلام نے بھی اسے کافی اہمیت دی ہے اور عظمت بخشی ہے ۔ اسلام نے اسے اتنی اہمیت اور عظمت دی ہے کہ اسلام کے دشمنوں سے بھی اس ماہ میں جنگ و جدال کرنا حرام ہے ۔ ہاں اگر اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو جنگ کرنے پر مجبور کریں اور وہ جنگ کا آغاز کریں تو پھر دفاعی صورت میں اپنا بچاؤ کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔


ایک غلط فہمی کا ازالہ : ⏬


مگر افسوس بعض ناخواندہ حضرات ماہِ ذی قعدہ کے مہینے کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں ، وہ شاید اس وجہ سے کہ یہ مہینہ اپنے سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے برعکس عیدالفطر و عیدالاضحی وغیرہ سے خالی ہوتا ہے ، اور خالی کا مطلب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں کسی نیک عمل و طاعت کی بالکل ضرورت نہیں ، یہ خیال بالکل غلط ، فاسد اور سراسر لاعلمی پر مبنی ہے ، اس سے بچنا چاہیے ۔


اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ چوں کہ یہ خالی کا مہینہ ہوتا ہے اس لیے اس مہینے میں نکاح اور شادی وغیرہ بھی نہیں کی جا سکتی کہ کہیں وہ خیر و برکت سے خالی نہ رہ جائے ، چنانچہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ماہِ شوال میں جلدی جلدی شادیاں کر کے فارغ ہو جاتے ہیں تاکہ کہیں ذی قعدہ کا مہینہ شروع نہ ہو جائے ۔ حالانکہ ماہِ ذی قعدہ سنہ 5 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُم المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 4 صفحہ 166)


اسی طرح ماہِ ذی قعدہ سنہ 7 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 2 صفحہ 239)


ماہِ ذی قعدہ میں نکاح و شادی وغیرہ عبادات کرنے کو خیر و برکت سے خالی سمجھنا زمانۂ جاہلیت کی باتیں اور توہمات پرستی ہے ، جن کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ماہ ذی قعدہ بہت برکتوں رحمتوں و فرحتوں والا مہینہ ہے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ شادیاں کی جائیں اور زیادہ سے زیادہ روزے اور دیگر عبادات کی جائیں تاکہ دامن حسنات سے بھر جائیں اور دنیا بھی سدھر جائے آخرت بھی سنور جائے ۔ اللہ تعالی ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور خاتمہ ایمان پر فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)

Thursday, 8 May 2025

مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کا حکم اور مسلمان

مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کا حکم اور مسلمان

محترم قارئینِ کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔ (سور المائدة آیت نمبر 51)

ترجمہ :  اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔


یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا ۔ حضرت عبادہ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں ، اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہوسکتا ، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا کہ’’ یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ، عبادہ کا یہ کام نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)


کفار سے دوستی و موالات کا شرعی حکم : ⏬


اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا ، اُن سے مدد چاہنا اور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے ۔ (تفسیر مدارک المائدۃ، تحت الآیۃ : ۵۱، ص۲۸۹،چشتی)


رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے : ھو مشرک مثلھم ، وہ انہیں کی طرح کا مشرک ہے ۔ (تفسیر ابن عباس)


امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ : کافر مثلہم ، وہ اُنہی کی طرح کافر ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن)


قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : أي : کافر منافق ، وہ کافر اور منافق ہے ۔ (تفسیر مظہری)


علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : یہاں ﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان یہود ونصاری کے ساتھ موالات رکھنے سے جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ، ممانعت فرمائی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہو سکتے ہیں ۔ اس کے بعد ﷲ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو تنبیہ اور وعید فرمائی ہے ۔ چنانچہ فرمایا ومن یتولھم منکم فانہ منھم یعنی جو تم میں سے ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہوگا ۔ علاّمہ ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ  رضی اللہ عنہ نے ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ (والیٔ بصرہ) کو اس بات پر سرزنش فرمائی کہ انہوں نے ایک عیسائی انشا پرداز کو محض اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنا مکتوب نگار کیوں رکھ لیا اور اپنی اس بات کی تائید میں یہی سورۂ مائدہ کی آیت پڑھی جو کہ اس مسئلہ کے ثبوت میں شروع کے اندر یہاں بیان ہوئی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء.... یعنی: اے اہل ایمان تم یہود اور نصاریٰ کو اپنا رفیق نہ بناؤ ۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یہ حوالہ دینے کے بعد فرمایا : اس کو نکال دو ۔ (تفسیر ابن کثیر)


علاّمہ ابن حزم نے المحلی میں لکھا : صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ، ترجمہ : اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے ، وہ انہی میں سے ہے ۔ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کفار کے جیسا کافر ہے ۔ یہ ایسی حق بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی دو مسلمانوں کا اختلاف نہیں ہے ۔


علاّم ابن تیمیہ نے کفار کا ساتھ دینے والے حکام کے متعلق لکھا : کیا ان حکام نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لاتتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔

ترجمہ : تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوا ، ان دو آیات میں اللہ نے بتایا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والا مومن نہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان سے دوستی کرنےوالا انہی میں سے ہے ۔ (مجموع الفتاوی 18/7)


علاّمہ ابن القیم نے لکھا : ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔

ترجمہ : تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا

اللہ سبحانہ نے فیصلہ فرمادیا اور اس سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کسی کا نہیں ہوسکتا کہ جو بھی یہودونصاری کو دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا جب قرآن کی صراحت کے مطابق ان سے دوستی کرنے والے انہی میں سے ہیں تو ان (یعنی دوستی کرنے والوں) کا حکم بھی وہی ہوگا جو ان (یہودونصاری) کا ہے اور یہ عام ہے جو بھی ان سے دوستی کرے اور اسلام کی پابندی کرنے کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے تو وہ نص اور اجماع کی رو سے مرتد ہوگیا اور اس سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ یاتو اسلام لائے یا پھر تلوار ۔ (احکام اھل الذ مة195/1)


علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : جو تاتار کے لشکر میں کود پڑے اور ان سے مل جائے وہ مرتد ہوگیا اور اس کی جان اور اس کا مال حلال ہوگیا ۔ (الاختیارات الفقھیة از علاّمہ ابن تیمیہ)


لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ (تفسیر مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱/۵۰۳،چشتی)


اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔ 


لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَۚ وَمَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنْہُمْ تُقٰىۃًؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہٗؕ وَ اِلَی اللہِ الْمَصِیۡرُ ۔ (سورہ آلِ عمران نمبر 28)

ترجمہ : مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کچھ علاقہ نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے ۔


لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ : مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اَحزاب کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں ، میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد حاصل کروں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی ۔ (تفسیر جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱/۳۹۳،چشتی)


وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ، اور جو کوئی بھی ایسا کرے ۔


فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ ، تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔


اس آیتِ مبارکہ کی تشریح میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یعني بذلک ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مراد ہے ۔ فقد بريئ مِنَ اللَّهِ ۔ کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا ، وہ اللہ سے بری ہو گیا ، وبرئ اللہ منہ ، اور اللہ اس سے بری ہوگیا ، بارتدادہ عن دینہ ،  کیونکہ یہ اس فعل کی وجہ سے دین سے مرتد ہو گیا ، ودخولہ في الکفر ۔ اور کفر میں داخل ہو گیا ۔ (تفسیر طبری)


دیگر مفسرین کے اقوال بھی دیکھیں تواسی طرح بالکل واضح تصریح کی گئی ہے ۔ شاید کم ہی مقامات ہیں کہ جہاں کسی قول یا کسی فعل پرمفسرین نے اتنی صراحت سے کفر کی بات یا تصریح کی ہے ۔


دین اور امت کا غدّار بے شک نماز روزہ کرتا ہو ، کافر ہو جاتا ہے : ⏬


ﷲ عزّ و جل اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اہل ایمان کا وفادار بن کر رہنا اور ﷲ و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اس اُمت کے دشمن سے دشمنی رکھنا ایمان کا بنیادی فرض ہے ۔ یہ نہیں تو قرآنِ مجید کا وہ ایک خاصا بڑا حصہ کچھ معنیٰ ہی نہیں رکھتا جو کہ آج تک برابر تلاوت ہوتا ہے اور جو کہ ان منافقین کا بار بار کفر بیان کرتا ہے جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں گانٹھتے تھے ۔


اسلام محض عقائد یا نماز روزہ ایسی عبادات کا مجموعہ نہیں ۔ حتی کہ یہ محض کوئی سیاسی اور معاشی ہدایات پر مشتمل سماجی نظام بھی نہیں ، جیسا کہ ہمارے بہت سے نکتہ داں طویل لیکچر دیا کرتے ہیں ۔ اسلام دراصل انسان کی وفاداریوں کا تعین بھی ہے اور اس کے تعلقات کی حدود کا دائرہ بھی اور اللہ عزّ و جل و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ و امت کیلئے غیرت کا امتحان بھی ۔


تعلق اور وفاداری اور مدد ونصرت کے معاملہ میں بھی دراصل آدمی کے ایمان کو امتحان سے گزارا جاتا ہے ۔ کفار جو اسلام اور اہل اسلام سے برسر جنگ ہوں یا دین اسلام کے خلاف یا اس کی کامیابی کے خلاف بغض رکھتے ہوں ایک مسلمان کیلئے دشمن ہی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو آدمی کو اپنے ایمان کی فکر ہو جانی چاہیئے ۔


اسلام کے دشمنوں سے دلی ہمدردی رکھنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی فتح مندی چاہنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی نصرت اور اعانت کرنا ، یا حتی کہ مسلمانوں کے خلاف محض ان کا حلیف بن کر رہنا صریحاً کفر ہے ۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا ۔


بنا بریں ہر وہ اتحاد alliance (تحالف) جو کسی مسلم ملک یا مسلم قوت یا مسلم جماعت کے خلاف آمادۂ جنگ ہو اس کا حصہ بننا ، اس کی معاونت کرنا ، اس کا پرچم اٹھانا ، اس کیلئے جاسوسی کرنا یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح اس کی مہم آسان کرنا محض کوئی گناہ نہیں ، یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کو متنبہ ہو جانا چاہیئے وہ اگر اپنے اس عمل سے تائب ہوئے بغیر مر جاتا ہے تو وہ کفر کی حالت پر مرتا ہے ، جس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم یقینی ہے ۔


کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہوجائے یہ عمل کفریہ نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالى نے آپس میں قتال کرنے والے مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو مؤمن قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے "وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا" ۔ اور یہ غلط فہمی , یا کسی بھی دیگر وجوہات کی بناء پر ہونے والی لڑائیوں میں ہے ۔

ہاں جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہو کفار کی معاونت میں تو یہ عمل کفریہ عمل ہے ۔

لیکن اس کفریہ عمل کے مرتکب پر ہم فتوى کفر اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک تکفیر کی شروط اس میں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ گو لوگ جب کفار کی صفوں میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں تو ان کا قتل پھر کیونکر جائز ہوگا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو میدانوں میں اہل اسلام کے خلاف لڑنے کے لیئے کفار کے ساتھ مل کر آتے ہیں ہم ان کا قتل اس لیئے درست قرار دیتے ہیں کیونکہ انکا یہ عمل کفر والا ہے اور تکفیر معین کی چھان بین کا موقع میدانوں میں نہیں ہوتا کہ جس کے ذریعہ حقیت حال کو معلوم کیا جائے لہٰذا مسلمان ان کے ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے ان کے ساتھ کفار والا سلوک روا رکھتے ہیں ۔


کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے ، انہیں راز دار بنانا ، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے ۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے ۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاؤ کی اجازت دی گئی ہے ، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدنا امامِ حسین  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا ۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے ۔


مسلمان مسلمان بھائی ہیں سرحدوں میں بٹے اہلِ اسلام کےلیے پیغام : ⏬


محترم قارئینِ کرام : مسلمان خواہ کسی ملک اور خطے کا ہو کسی بھی رنگ اور قبیلے کا ہو کوئی زبان بولتا ہو ان سب کو قرآن مجید نے ایک برادری قرار دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ  ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 10)

ترجمہ : مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔


مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں  کیونکہ یہ آپس میں  دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں  اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں  سے مضبوط تر ہے ، لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں  میں  جھگڑا واقع ہو تو ان میں  صلح کرا دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں  کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۱۶۸)(تفسیر مدارک صفحہ ۱۱۵۳)


حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسوا کرے ، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں  مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دورکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں  سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم  الخ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ الحدیث: ۲۴۴۲)


حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں ، جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سرمیں درد ہو تو سارے جسم میں دردہوگا ۔ (صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین ۔ الخ صفحہ ۱۳۹۶ الحدیث : ۶۷ ، ۲۵۸۶)


حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین ۔ الخ صفحہ ۱۳۹۶ الحدیث : ۶۵ ، ۲۵۸۵،چشتی)


اِسلام ایک عالمی دِین ہے اور اُس کے ماننے وَالے عرب ہوں یا عجم ، گورے ہوں یا کالے ، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رَکھتے ہوں ، مختلف زبانیں بولنے وَالے ہوں ، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اخوت کی بنیاد ہی اِیمانی رِشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اخوت کی بنیادیں ہیں ، سب کم زور ہیں اور اُن کا دَائرہ نہایت محدود ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ اِسلام کے اِبتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اخوتِ اِسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی ۔


کافر کوئی بھی عقیدہ رکھے ایک ہی ملت ہیں حدیث میں ارشاد ہے کہ اَلْکُفْر مِلَّۃ’‘ وَاحِدَہ ، کفر ایک ملت ہیں ۔ اس طرح قرآن و سنت نے دنیا کے تمام انسانوں کو دو الگ الگ ملتوں میں تقسیم کرکے فیصلہ کردیا کہ مسلمان ایک ملت اور کافر دوسری ملت ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کافروں کے ساتھ حسن سلوک ، انصاف ، خیرخواہی ، مدارات تو کرو لیکن محبت و دوستی کسی صورت میں تمہارے لیئے جائزہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اپنا راز دار بناؤ اور نہ ہی ان کے طور طریقے اختیار کرو بلکہ جو کفار تم سے لڑے تمہارے دین کے درپے ہوں ان کے ساتھ جنگ کرو ۔


دنیا میں مدینۃُ المنوّرہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اس کے بعد مملکت خداداد پاکستان وہ ریاست ہے جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی ۔ اس وقت دنیا میں جو ممالک موجود ہیں ان سب کی بنیاد جغرافیائی سرحدیں ہیں جو کہ دراصل مغرب کا نظریہ ہے اہل مغرب نے خاندانی ، نسلی اور قبائلی بنیادوں میں ذرا وسعت پیدا کرکے قومیت کی بنیادیں جغرافیائی حدود پر استوار کیں ۔ جبکہ پاکستان کی بنیاد نہ تو رنگ زبان و نسل ہے اور نہ ہی جغرافیائی حدود بلکہ اس کی بنیاد لاالہ الا اللہ ہے ۔ کہ ایک عقیدہ اور ایک کلمہ کی بنیاد پر جو قوم بنی ہے یعنی امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ وہ سب اس مملکت کے باشندے ہیں ۔


قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دِیا ہے اور اس اخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دِیا ہے اور اس محبت اور اِتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے ۔ اس اخوت کو قائم رَکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اَپنانا جن سے یہ اخوت کا رِشتہ مضبوط ہوتا ہے ، جیسے خیر خواہی ، محبت ، اِخلاص ، اِیثار ، ملنا ملانا ، صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعا پیش کرنا وَغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں  کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل محترم قارئینِ کرام : اہلِ ایمان کا جہادوطن کےلیے نہیں اسلام کےلیے ہے ۔ اسلام نے اپن...