اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل
محترم قارئینِ کرام : اہلِ ایمان کا جہادوطن کےلیے نہیں اسلام کےلیے ہے ۔ اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں نسلی ، قبائلی ، وطنی ، لسانی وحدتوں کے بت توڑ کر ایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ، عربی ، ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔ یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیا کی ساری وحدتوں کو زِیر و زَبر کر دیا ۔ چند صدیوں سے اسلام دشمن قوتوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہو کر بڑی چالاکی سے لوگوں میں پھر وطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کیے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر پارہ پارہ کر دیں ۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذھب نہیں ہے جس کے نام پر تمام دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں ۔ اس لیے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کےلیے اسی کے نام پر جنگ کرتے ہیں ، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دے کر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں ۔
مسلمانوں کو اللہ عزوجل نے ان سب چیزوں سے بالاتر رکھا ہے ۔ وہ صرف اللہ عزوجل اور اسلا م کےلیے جہاد کرتے ہیں اور وطن یا نسب اللہ عزوجل اور اسلام کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتے ہیں ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرتِ مدینہ نے اور بدر و اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیا ہے ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔
آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کا نعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہو گئے اور اپنے جہاد کو وطن کےلیے کہنے لگے ہیں ۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ ہمارے اکثر نوجوانوں کے خیالات اس سے پاک ہیں ۔ وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتےہیں نہ کہ وطن کےلیے ۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیالی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے مشرکانہ الفاظ سے بھی اجتناب کیا جائے ۔
یاد رہے ہماراوطن اِ سلام ہے ۔ ہم وطن پرست نہیں ہاں مسلم وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصّہ ہے ۔ ہمیں اس وطن سے ہجرت کر جانے کا حکم ہے جس میں رہ کر ہم اسلام کے تقاضے پورے نہ کر سکیں ۔ یہی وہ نظریہ ہے جس نے پاکستان بنوایا اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر آمادہ کیا ۔ شاعر مشرق اقبال علیہ الرحمہ نے اس مضمون کو بڑی ہی لطافت سے ادا کیا ہے ۔ وطنیّت پر ان کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں : ⏬
اس دور میں مےَ اور ہے جام اور ہے جم اور
ہے ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و کرم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشو ائے صنم اور
ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کاکفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غار تگر کاشانہ دینِ نبوی ﷺ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ﷺ ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو د کھا دے
اے مصطفوی ﷺ خاک میں اس بت کو ملا دے
قرآن مجید میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمۡ بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ۔ (سورۃ الصف آیت نمبر 4)
ترجمہ : بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ قتال کرتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔
ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ عزوجل ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں جنگ کے دوران اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں ، ان میں ایک سے دوسرا ملا ہوا ، ہر ایک اپنی اپنی جگہ جما ہوا اور دشمن کے مقابلے میں سب کے سب ایک چیز کی طرح ہیں ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۲۶۲)
مقصود یہ ہے کہ اللہ عزوجل کو بہادر مجاہد پسند ہیں جو ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کریں اور پیٹھ نہ دکھائیں ، اس زمانہ میں چونکہ جہاد میں صفیں باندھی جاتی تھیں ، اس لیے یہاں صف کا ذکر ہوا جبکہ موجودہ دور میں اب صفیں باندھ کربھی جہاد کی صورت ہو سکتی ہے اور دوسرے طریقے سے بھی اور اب ہر وہ طریقہ اس میں شامل ہوگا جس میں ایک مفید نظم و ضبط ہو اور جو آپس میں ایک دوسرے کی قوت و طاقت اور دوسروں پر فتح کا ذریعہ بنے ۔
وَوَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ۔ (سورۃ الأنفال آیت نمبر 60)
ترجمہ : اور (اے مسلمانو) تم بہ قدر استطاعت ، ان (سے مقابلہ) کےلیے ہتھیار تیار رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑے اور ان سے تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کرو اور ان کے سوا دوسرے دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے ، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس کا تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر بالکل ظلم نہیں کیا جائے گا ۔
اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۲ صفحہ ۲۰۵،چشتی)
جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثمّ نسیہ صفحہ ۱۰۶۱ حدیث نمبر ۱۶۷ (۱۹۱۷)) ۔ فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دشمن سے لڑنے بھڑنے کی خواہش نہ کرو ، (لیکن) جب مقابلہ ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو ۔ (صحيح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ لاَ تَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ حدیث نمبر 3026،چشتی)
ابونضر سے روایت ہے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں میں سے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی ، جنہیں عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا ، کے خط سے روایت کی ، انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو ، جب انہوں نے (جہاد کی غرض سے) حروریہ کی طرف کوچ کیا ، یہ بتانے کےلیے خط لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض ایام (جنگ) میں ، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن سے مقابلہ ہوتا ، انتظار کرتے ، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (ساتھیوں) کے درمیان کھڑے ہوتے اور فرماتے : لوگو ! دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ، (لیکن) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے اللہ ! کتاب کو اتارنے والے ، بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے ! انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر نصرت عطا فرما ۔ (صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّي لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَالْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ حدیث نمبر 4542،چشتی)
جنگ کی تمنا کرنا مکروہ ہے اور ہمیشہ اللہ تعالٰی سے عافیت طلب کرنی چاہیے ۔ مگر جب دشمن کی طرف سے جنگ مسلط کر دی جائے تو پیٹھ پھیرنا (میدان جنگ سے فرار ہونا) حرام ہے ۔ یہ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں ۔ جنگ میں دلیری سے آخری سانس تک مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اگر اس وقت موت مقرر نہیں ہے تو شان کے ساتھ زندہ سلامت واپسی ہو گی اور اگر وہ وقت موت کا ہے تو میدان جنگ سے دور رہ کر بھی موت آ جائے گی ۔ جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کےلیے وضو ضروری ہے ۔ عبادت کے اَسباب جمع کرنا عبادت ہے اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کےلیے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کےلیے سفر کرنا حرام ہے ۔ کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رُعب ڈالنے کےلیے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کر سکتا ہے ۔
مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہو رہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر مسلمان مل کر اِس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کر سکے ۔
اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل : ⏬
جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی اصطلاح میں ''رباط'' کہا جاتا ہے ۔ اورجہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضائل قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا تھا ۔ آج کل یہ فرائض ہماری رینجرز ، پولیس اور فوج انجام دیتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جذبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط'' کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔
اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے : يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 200)
ترجمہ : اے ایمان والو صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہواس امید پر کہ کامیاب ہو ۔
تفسر بیضاوی میں ہے : وَرَابِطُوْا : اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں (1) سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کےلیے تیار رکھو ۔ (2) اللہ عوجل کی اطاعت پر کمر بستہ رہو ۔ (تفسر بیضاوی جلد ۲ صفحہ ۱۳۷)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مرابطہ کی دو قسمیں ہیں ‘ مسلمانوں کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت کرنا ‘ کہیں اس پر دشمن اسلام حملہ آور نہ ہوں اور دوسری قسم ہے نفس کا بدن کی نگہبانی اور حفاظت کرنا کہیں شیطان اس سے گناہ نہ کرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ‘ یہ دوسری قسم ہے اور پہلی قسم کے متعلق یہ آیت ہے : واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ۔ (سورہ الانفال آیت نمبر ٦٠)
ترجمہ : ان کےلیے بہ قدر استطاعت ہتھیاروں کی قوت اور گھوڑے باندھنے کو فراہم کرو ۔ (مفردات الفاظ القرآن صفحہ ١٨٦ ۔ ١٨٥ مطبوعہ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران ١٣٦٢ ھ،چشتی)
سورہ آل عمران کی زیادہ کی زیادہ تر آیتیں جنگِ احد سے متعلق ہیں اور بعض مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی تھی جس کے نتیجہ میں وہ شکست سے دوچار ہوئے اور اس شکست پر آزردہ خاطر ہوئے ‘ اس لیے اس آیت کا ایک ظاہری محمل یہ ہے کہ کفار سے جنگ کے دوران ثابت قدم رہو اور جنگ میں ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرو ‘ اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو ‘ اور اس سلسلہ میں اللہ اور رسول کے احکام پر عمل کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور کسی قسم کی حکم عدولی نہ کرو تاکہ تمہیں کامیابی اور سرفرازی کی امید ہو ۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ الرحمہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : راہِ خدا میں ایک دن سرحد کی نگہبانی کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۹ حدیث نمبر ۲۸۹۲)
امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمہ ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ‘ ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے افضل ہے ‘ اور اگر وہ مر گیا تو اس کا یہ اجر جاری رہے گا اور وہ فتنہ میں ڈالنے والے سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩١٣،چشتی)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٦٨‘ ٣٦٧)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٦٧)(مسنداحمد جلد ٢ صفحہ ١٧٧ ، جلد ٥ صفحہ ٤٤١‘ ٤٤٠)(تحفۃ الاشراف رقم الحدیث : ٩١ ٤٤)
فتنہ میں ڈالنے سے مراد یا تو منکر نکیر ہیں اور یا اس سے مراد شیطان ہے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے ثواب کو جاری رکھے گا اور جس حدیث میں ہے ابن آدم میں سے ہر ایک کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ماسوا تین کے اس کا مطلب ہے ان تین کا عمل منقطع نہیں ہوتا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کا ثواب جاری رکھے گا ۔
امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منی میں فرمایا اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی حفاظت کرنا اس کے علاوہ ہزار ایام سے افضل ہے ۔ (مسند احمد جلد ١ صفحہ ٥٧‘ ٦٦‘ ٦٤،چشتی)(سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٤٣١)
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے ، حفاظت کرنے والا اگر مر گیا تو اس کے اِس عمل کا اجر جاری رہے گا اور وہ فتنۂ قبر سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل صفحہ ۱۰۵۹ حدیث نمبر ۱۶۳ (۱۹۱۳))
رباط کا مفہوم اسلامی سرحدات کی حفاظت ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کام ان ہی مقامات پر ہو سکتا ہے جو اسلامی ملک کی آخری حدود پر واقع ہیں ۔
لیکن اس زمانے کی فضائی جنگ نے اس معاملہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے ، کیونکہ چھاتہ بردار فوج ہر جگہ اتر سکتی ہے، بم بار طیاروں سے ہر جگہ بم گرائے جاسکتے ہیں ، اس لیے جن مقامات پر بھی د شمن کی اسی یورش کا خطرہ ہو ، ان کے حفاظتی انتظامات بھی اسی رباط کے حکم میں داخل ہوں گے ۔
قدیم فقہائہ نے بھی رباط کے معاملہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس بستی پر ایک مرتبہ دشمن حملہ کر دے اس کی حفاظت چالیس 40 سال تک رباط کے حکم میں داخل ہے ۔ (فتح القدیر جلد 4 صفحہ 278،چشتی)
پاکستان کے سابقہ جہاد میں سرگودھا ، پشاور ، کراچی وغیرہ مقامات جہاں چھاتہ بردار فوجیں اترنے کے خطرات پائے گئے اور جہاں دشمن کے بمباروں نے بمباری کی ، ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے ۔ یہ ایسا جہاد ہے جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے ، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور بھر اس میں کوشش کرے ۔
بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے : ⏬
ایسے خطرات کے وقت جن بستیوں میں حکومت کی طرف سے اندھیرا جاری رکھنے کی ہدایت جاری ہو ان کی تعمیل بھی ان ہی حفاظتی انتظامات کے تحت رباط کے حکم میں داخل ہو کر ان شاء اللہ اس ثواب عظیم کا موجب ہوگی ۔ مسلمان اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ مفت کا ثواب رباط حاصل کرنے پر خوش ہوں اور شکر ادا کریں ۔
ظاہریعہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بلیک آؤٹ کی ایک نظیر : ⏬
جنگی حالات اور ان کے تقاضے ہر زمانے اور ملک میں جدا ہوتے ہیں ۔ ملک کے مبصر اور اربابِ حکومت جس چیز کو شہری دفاع کےلیے ضروری قرار دیں ، اس کی تعمیل شرعی حیثیت سے بھی ضروری ہو جاتی ہے ۔ خواہ اس معین چیز کا ثبوت قرونِ اولٰی کی روایات میں ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ مباحات میں اطاعتِ امیر کا ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے ، وہی ان تمام جا ئز کاموں میں تعمیل حکم کی اصل علت ہے لیکن کوئی خاص کام اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہو تو اس کا محبوب و مشروع ہونا اور مبارک عمل ہونا ظاہر ہے ۔
دورانِ جنگ پاکستان میں شہری دفاع کےلیے حکومت رات کو روشنی کرنے پر پابندی لگا دیتی ہے ۔ اطاعتِ حکم کے تحت تو اس کی تعمیل ضروری تھی ہی ، اتفاق سے اس کی ایک نطیر خود ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ملتی ہے جو قارٸین کی دلچسپی اور ایمان کو مستحکم کرنے کےلیے پیشِ خدمت ہے ۔ جمادالثانی 8 ھجری میں جہاد کےلیے ایک لشکر مدینہ طیبہ دس منزل کے فاصلہ پر لخم و جزام کے قبائل مقابلہ کےلیے بیھجا گیا تھا جس کے امیرحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے اس عزوہ میں دشمن کےسپاہوں نے پوری فوج کو حلقئہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے ۔ اسی لیے یہ غزوہ ''ذات السلاسل'' کے نام سے موسوم ہے ۔ (یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس کے بعد ہوئی ہے) ۔
حدیث مشہور کتاب جمع الفوائد میں معجم کبیر طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس غزوہ ذات السلاسل میں امیر لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم نے اپنی فوج یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ ہی آگ جلایئں ۔ تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ بھاگتے ہوئی دشمن کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو لشکر میں موجود تھے ، تعاقب کرنا چاہا مگر امیر لشکر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے تعاقب سے بھی منع کر دیا ۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم کی ناگواری تھی ، کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوارہ گزرا ، مگر اطاعت امیر کی بناء پر تعمیل لازمی تھی ، اس لیے ان دونوں احکامات کی بلا چون و چرا پابندی کی گئی ۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو بلا کروجہ دریافت فرمائی ۔ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی تھی ، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلتِ تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے اور اس کا حوصلہ نہ بڑھ جائے ۔ اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی تو وہ کہیں لوٹ کر ان پر حملہ نہ کردے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس جنگی تدبیر اور عمل کو پسند فرما کر اس پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)