Saturday, 30 September 2017
Friday, 29 September 2017
Thursday, 28 September 2017
آیئے واقعہ کربلا کی حقیقت کو سمجھیں
آیئے واقعہ کربلا کی حقیقت کو سمجھیں
آج کل کے یزیدی سادہ لوح مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ واقعہ کربلا دو شہزادوں کی جنگ تھی آیئے واقعہ کربلا کی حقیقت کو تعصب کی عینک اتار کر حقائق و دلائل کی روشنی میں سمجھیں:عام نظریہ یہ ہے کہ کربلائے معلی میں امام حسین رضی اﷲ عنہ اور یزیدیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی جنگ ہی نہیں تھی کیونکہ جنگ کے لئے جس طرح کی سروسامانی، قوت و طاقت اور فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ایک طرف تو تھی مگر امام حسین رضی اﷲ عنہ کی طرف ان کے اہل وعیال کے علاوہ چند وفا پیشہ جاں نثار رفقاء تھے، کیا کوئی شوق میں اپنی اہل وعیال کو قتل کے بھینٹ چڑھانا گوارا کرے گا؟ دراصل کربلا کی تاریخ کا پورا پس منظر اس محور پر گردش کررہا ہے کہ دور یزید میں ایک ناقابل درست نظریہ (یعنی بیعت یزید) کو امام حسین رضی اﷲ عنہ پر تھوپنے کی کوشش کی گئی اور امام نے اس نظریہ کا سختی سے انکار کیا اور ہر موقع پر دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ اس لئے کربلا کے حادثے کو فکرونظر کی جنگ کا نتیجہ تو کہا جاسکتا ہے مگر اسے حقیقی جنگ نہیں قرار دیا جاسکتا۔
(اس جگہ کا متعلقہ پیرا گراف ساتھ دی گئی پوسٹ میں لکھا گیا ہے)
جب مروان کی دال نہیں گلی تو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے شام، مصر، عراق اور دیگر شہروں میں یزید کی ولی عہدی کی زمین ہموار کرنے کے لئے امراء کو خفیہ احکام جاری فرمائے اور تقریبا ہر طرف سے زمین ہموار ہوچکی۔ لے دے کر حجاز مقدس کی زمین بچی ہوئی تھی، یہاں اسلام کی مقتدر ہستیاں تشریف فرما تھیں۔ چنانچہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ خود مدینہ آئے اور مدینہ کے باہر امام حسین، عبداﷲ بن عمر، عبداﷲ بن زبیر اور حضرت عبدالرحمن رضی اﷲ عنہم کو بلوایا، لیکن امیر معاویہ اور صحابہ کرام میں سخت کلامی ہوگئی اور یزید کی ولی عہد کا معاملہ حل نہ ہوسکا اور یہ چاروں حضرات دل برداشتہ ہوکر مدینہ چھوڑ کر مکہ آگئے۔ کچھ دنوں بعد پھر حضرت امیر معاویہ مکہ آئے۔ یہاں معاملہ بالکل برعکس نکلا، حضرت امیر معاویہ نے ان چاروں صحابہ کرام کے ساتھ انتہائی حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔ سب کو تنہائی میں بلاکر امیر معاویہ نے فرمایا تم بیعت کرلو۔ عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ نے تین تجویز رکھیں، مگر کوئی بھی منظور نہ ہوسکی۔ یہاں سے یہ بات بھی صاف طور پر واضح ہوگئی کہ یزید کی خلافت و امارت کے استصواب پر اکابر صحابہ کا اختلاف تھا، اس لئے یزید کی امارت متفق علیہ نہیں تھی۔
امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سیاسی اور دینی تدبر
60ھ میں جب یزید تخت نشین ہوا تو اس نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان سے کہا! انہیں بیعت پر مجبور کرو اور پوری سختی کرو، ولید نے حکم پورا کیا مگر اسے اپنے منہ کی کھانی پڑی۔ امام حسین نے دانش مندی اور سیاسی تدبرسے جواب دیا کہ میرے ایسے شخص کی بیعت کو کافی نہ سمجھو گے، جب یہ معاملہ مجمع عام میں رکھو گے تو مجھ سے مطالبہ کرنا (الطبری 188/6، الکامل 264/3، بحوالہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب ص 326/8)
دوسرے دن امام حسین مدینہ سے مکہ تشریف لائے، مکے میں عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ عنہ کا اثرورسوخ ہونے کے باوجود لوگوں کا ہجوم آپ کے پاس اکھٹا ہوگیا۔ حتی کہ لوگوں نے بیعت کے لئے پیشکش بھی کی مگر امام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کیونکہ وہ امت میں فساد نہیں چاہتے تھے۔ اگر آپ بیعت کرلیتے تو حضرت عبداﷲ بن زبیر کی جانب سے ردعمل سامنے آسکتا تھا۔ اس لئے آپ نے یہاں بھی حسن تدبیر سے کام لیا اور خاموشی میں بہتری سمجھی (البدایہ 143/8)
دوسری جانب کوفے میں یزید کے خلاف بدامنی پھیل گئی۔ اہل کوفہ کی جانب سے پیہم خطوط آنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے آپ کو اپنا قائد، امام تسلیم کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ امام حسین کے سامنے یہاں کئی چیزیں تھیں، ایک طرف قوم خود بخود ظالم و جابر حکمران کے ظلم و زیادتی سے تنگ آکر دوسری قیادت و خلافت کا مطالبہ کررہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف کوفیوں کی سابقہ بدعہدی اور بے وفائی کی داستان بھی امام کے پیش نظر تھی۔ اور ان کی بے وفائی کی وجہ سے صحابہ کرام بھی شدت کے ساتھ منع کررہے تھے۔ اس دوراہے پر امام حسین نے جس دانش مندی، دوربینی اور سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا ہے، دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ امام حسین کو نہ سیاسی اقتدار کی خواہش تھی اور نہ خلافت و بیعت کا شوق تھا، ورنہ آپ مکے ہی میں لوگوں کی پیشکش قبول کرچکے ہوتے مگر ایسا نہیں کیا۔ لیکن جب آپ کو یقین ہوگیا کہ امت فساد کا شکار ہوچکی ہے، ان پر ظلم و زیادتی کی ایسی انتہا ہوچکی ہے کہ اب وہ بہ زبان خود دوسری قیادت کا مطالبہ کررہی ہے، اس لئے اس وقت امت کو شروفساد سے محفوظ کرنے کے لئے کھڑا ہونا گویا واجب ہوچکا تھا اور تیسری طرف یزید کا کیا عالم تھا، مندرجہ ذیل تصریحات پڑھیئے.ظہر فسق یزید عندالکافۃ من اہل عصرہ… (مقدمہ ابن خلدون ص 180) یزید کا فسق وفجور تمام اہل زمانہ پر آشکارا ہوگیا۔
یعنی مروی ہے کہ یزید سرور ونغمہ، شراب نوشی اور سیروشکار کے لئے مشہور تھا۔ نوعمر لڑکوں، گانے والیوں اور کتوں کو اپنے گرد جمع رکھتا تھا۔ لڑاکا مینڈھوں، سانڈھوں اور بندروں کے درمیان لڑائی کا مقابلہ کرواتا تھا۔ ہر دن صبح کے وقت مخمور رہتا تھا۔ زین کسے ہوئے گھوڑوں پر بندروں کو اسی سے بندھوا دیتا تھا اور ادھر ادھر پھرواتا تھا، بندروں اور نوخیز لڑکوں کو سونے کی ٹوپیاں پہناتا تھا، گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کرواتا تھا اور جب کوئی بندر مرجاتا تو اس کا سوگ مناتا تھا۔ (البدایہ والنہایہ، ابن کثیر)
ابن کثیر مزید فرماتے ہیں
یزید کے اندر شہوتوں کی طرف میلان بھی زیادہ تھا اور بعض نمازیں ترک کرنے اور اکثر اوقات انہیں نذر غفلت کردینے کا عادی تھا۔ایسی رستہ خیز اور قیامت آشوب دور میں امام حسین کے لئے امت کو ایسی قیادت فراہم کرنا واجب ہوگیا تھا جو یزیدی عہد حکومت کے مفاسد کی اصلاح اور ملت کی تطہیر کا فریضہ انجام دیتی اور سلطان جائر (یزید) کے سامنے کلمہ حق کی آواز بلند کرتی اور اس قیادت کی سب سے زیادہ اہلیت آپ کے اندر تھی۔ابن کثیر لکھتے ہیں : لانہ السید الکبیر، وابن بنت رسول اﷲﷺ فلیس علی وجہ الارض یومئذ احد یسامیہ ولایساویہ، ولکن الدولۃ الیزیدیۃ کانت کلھا تناوئہ (البدایۃ 144/8)ابن خلدون رقم طراز ہیں : فاما الاہلیۃ فکانت کماظن وزیادۃ (ابن خلدون / مقدمہ 180)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
یعنی جہاں تک اہلیت و صلاحیت کا تعلق ہے تو وہ بلاشک و شبہ ان میں تھی جیسا کہ ان کا گمان بلکہ اس سے بھی زیادہ تھی۔
خود امام حسین نے قادسیہ کے راستے سے کربلا کی طرف پلٹتے وقت جو تاریخی خطبہ دیا ہے، اقدام کا پس منظر سمجھنے کے لئے خطبے کا حرف حرف ضمانت ہے
ترجمہ: لوگو! رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلیا ہے۔ پیمانہ الٰہی کو توڑ رہا ہے، سنت نبوی کی مخالفت کررہا ہے، اﷲ کے بندوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتا ہے، ایسی صورت حال میں بھی وہ اپنے قول و عمل سے شر کو نہ مٹائے تو اﷲ کا حق ہے کہ وہ اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچادے۔ (ابن اثیر الکامل فی التاریخ 40/4)
خبردار ہوجائو! ان لوگوں (یزیدیوں) نے اپنے اوپر شیطان کی پیروی لازم کرلی ہے۔ خدا کی عبادت ترک کردی ہے ،ہر طرف فساد برپا کردیا ہے ،شرعی حدود کو معطل کردیا ہے ،سرکاری مال اپنے مفاد پر خرچ کررہے ہیں اور اﷲ کے حرام کو حلال اور اس کے حلال کوحرام کردیا ہے اور سن لو! ان مفاسد اور شر کو مٹانے کا میں سب سے زیادہ حق دار ہوں۔
گویا امام حسین کے سامنے پہلے نکتے کے تحت دوسری قیادت فراہم کرنے کے سارے شرعی و عصری تقاضے فراہم ہوچکے تھے، مگر دوسری طرف کوفے والوں کی بدعہدی بھی ایک زمینی حقیقت تھی، اسی وجہ سے صحابہ کرام منع بھی کررہے تھے اور بہت سے ان میں مجتہد بھی تھے۔ چنانچہ امام حسین نے اسی پورے معاملے کی انکوائری کرنے کے تجرباتی طور پر مسلم بن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ صحابہ کا گمان بھی غلط نہ ہو اور اقدام کے لئے اتمام حجت بھی ہوجائے۔
چنانچہ امام مسلم بن عقیل کوفہ روانہ ہوگئے اور تقریبا 18 ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، اس کے بعد امام مسلم بن عقیل نے کوفہ والوں کی وفائی کا توثیق نامہ لکھ کر امام حسین کو تشریف لانے کی دعوت دی (البدایہ والنہایہ 144/8)
امام مسلم کے خط سے گویا صحابہ کرام کو ظاہری اطمینان بھی ہوگیا اور امام حسین نے تجرباتی طور پر اتمام حجت بھی کرلی، اس لئے خط ملتے ہی آپ اہل وعیال کے ساتھ کوچ کرگئے۔ امام حسین کے پاس اہلیت تو تھی ہی ساتھ ہی طاقت و شوکت بھی ان کے پاس تھی، یہاں امام طبری نے ایک نہایت کچی بات کی ہے کہ امام حسین کے پاس دنیاوی شوکت نہیں تھی۔
امام حسین سے شرعی لغزش تو نہیں ہوئی، جہاں تک قوت و شوکت کا تعلق ہے، تو اس کے سمجھنے میں غلطی ہوئی، اﷲ ان پر رحم فرمائے‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ص 181)
امام طبری کی بات کی ناپختگی کی وجہ یہ ہے کہ جن کوفیوں نے امام مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی تھی انہوں نے تو دراصل امام حسین کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور وہ پوری فوج امام کی فوج تھی۔ امام کے حکم پر کچھ بھی کرسکتی تھی، اس لئے امام کو دنیاوی شوکت بھی حاصل تھی۔ ممکن ہے طبری کو یہ غلط فہمی اس وجہ سے ہوئی ہو کہ جس وقت امام حسین خروج کررہے تھے، ان کے پاس کوئی دنیاوی شوکت و طاقت نہیں تھی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ امام کسی جنگ کے ارادے سے نکل ہی نہیں رہے تھے کہ ان کے پاس لشکر جرار ہونا ضروری تھا ورنہ ان کے ساتھ چند نفوس قدسیہ مع اہل خانہ نہیں ہوتے اور تاریخ یہ ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر ہے کہ انہوں نے مکے اور مدینے والوں میں کسی فرد کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی اور اگر مان لیا جائے کہ یزید کی طرف سے ان سے جنگ بھی ہوسکتی تھی، تو امام حسین کے 18 ہزار کوفی وفادار دفاع کرنے کے لئے کافی تھے۔ گویا امام کو اپنی دنیاوی شوکت کا بھرپور اندازہ تھا۔ یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جنگ کے لئے قائد کا بذات خود وہاں موجود ہونا ضروری نہیں۔ صرف اس کا حکم ہونا ضروری ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری فوجی طاقت تو دراصل قائد کی ہی ہوتی ہے۔ ان نکات کو پیش نظر رکھ کر امام طبری کے نظریئے کا تجزیہ کیجئے اور بے لاگ ہوکر فیصلہ کیجئے۔
فریب ہی فریب
امام عالی مقام مکہ سے کوفے کے لئے نکلے تھے مگر ایک سچی سمجھی سازش کے تحت قادسیہ کے آگے مقام ذوحشم میں حربن یزید نے امام کو محاصرہ میں لے لیا اور کوفے کی بجائے کربلا تک پہنچادیا (اردو دائرہ معارف اسلامیہ 328/8)
مقام ذو حشم میں امام نے حر وغیرہ کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ میں تمہارے دعوتی خطوط پر آیا ہوں، مجھے تمہارے قول و قرار پر یقین ہے، اس لئے اطاعت کرلو، ورنہ میں جہاں سے آیا ہوں مجھے جانے دو، لیکن مجھے بیعت یزید ہرگز قبول نہیں (اردو دائرہ معارف اسلامیہ 328/8)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اسی طرح کربلا تک لوگوں سے ملاقات رہی، لوگوں نے سوالات کئے مگر امام نے یہی جواب دیا کہ میں تمہارے دعوتی خطوط کی بنیاد پر آیا ہوں۔ جب آپ میدان کربلا پہنچے تو کوفے کا سارا نقشہ بدل چکا تھا، جنہوں نے حسینی ہونے اور اپنی وفاداری کی قسمیں کھائی تھیں، اب وہ اپنے قسموں کے پیمانے توڑ چکے تھے اور سامنے یزیدیوں کا ایک لشکر جرار موجود تھا، عمر بن سعد کو ابن زیاد نے حکم دے دیا تھا کہ یا تو حسین سے بیعت کرلو یا انہیں قتل کردو۔ امام حسین کو صرف کربلا ہی میں نہیں راستے ہی میں یقین ہوچکا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، لیکن آپ نے ہر موقع پر امت کو یزید کے ظلم و جور سے بچانے کے لئے ان کے عہد ناموں کی یاد دہانی کرائی اور عزیمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تشریف لائے مگر قوم نے ساتھ نہ دیا۔ جب کربلا میں یہ امر واضح ہوگیا کہ ان پر جنگ مسلط کی جاچکی ہے اور عمرو بن سعد جبراً بیعت لینا چاہتا ہے تو آپ نے اولا بیعت سے انکار کیا اور پھر اصول جنگ کے مطابق دو بنیادی تجویزیں پیش کیں۔
(1) یا تو وہ جہاں سے آئے ہیں وہیں جانے دیا جائے۔
(2) یا انہیں چھوڑ دیا جائے کہ وہ وسیع و عریض زمین میں جہاں چاہیں نکل جائیں (البدایہ 166/8)
مگر ان کی کوئی تجویز منظور نہیں کی گئی اور یہ جبرواکراہ جنگ پر مجبور کیا گیا۔
بعض مورخین نے یہاں امام حسین کی تیسری تجویز یہ نقل کی ہے کہ آپ نے یہ کہا کہ مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے، تاکہ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرلوں، اس تجویز کی تردید و تضعیف کے لئے کربلا کے واقعات کے عینی شاہد، امام عالی مقام کے رفیق سفر اور تمام مورخین کے مستند راوی عقبہ بن سمعان کا صرف یہ قول نقل کردینا کافی ہے:لقد صحبت الحسین من مکۃ الی حین قتل، واﷲ مامن کلمۃ قالہا فی موطن الاوقد سمعتہا، وانہ لم یسال ان یذہب الی یزید فیضع یدہ الی یدہ ولا ان یذہب الی ثغرمن الشغور، ولکن طلب منہم احد امرین، امام ان یرجع من حیث جائ، وامام ان یدعوہ، یذہب فی الارض العریضۃ حتی ینظر یایصیر امر الناس الیہ (البدایۃ لابن کثیر 166/8، دارالحدیث القاہرہ 1998)
کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ امام نے ہمیشہ سے جن نظریئے کی تردید کی ہو، وہ کربلا میں جاکر اسی کو گلے لگالیا؟ اگر یہ تجویز سامنے آچکی تھی تو یزیدیوں کا جنگ کے لئے تیار ہونا، چہ معنی دارد؟ کیوں کہ وہ تو اسی کے لئے لڑنے آئے تھے۔
ایک طائرانہ نظر
آپ دور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے آغاز سے لے کر شہادت امام عالی مقام تک نظر ڈالیں تو فکرونظر کی کشمکش ہر جگہ نظر آتی ہے، مگر امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نظریاتی کشمکش صحیح ودرست تھے کیونکہ وہ خود مجتہد تھے۔ اس لئے ان کا اجتہاد بھی درست تھا مگر یزیدی دور میں یزید صالح و طاہر آدمی نہیں تھا بلکہ وہ فاسق معلن تھا اور امام عالی مقام کو اسی ظالم و جابر کی بیعت لینے پر مجبور کیا جاتا رہا، مگر انہوں نے بھی اس باطل نظریئے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ کیوں کیا؟ گفتگو ہوچکی ہے اور اس نظریئے کے لئے وہ آخر تک جدوجہد کرتے رہے، اس کے لئے انہوں نے وفا پیشہ جاں نثاروں سمیت ریگزار کربلا پر اپنا آخری سجدہ کرنا گوارا تو کرلیا مگر ایک نادرست اور غیر اسلامی نظریئے کو باطل کے سامنے سجدہ ریز ہونے نہیں دیا۔ امام حسین کی یہ نظریاتی جیت دراصل اسلام، ایمان اور یقین کی ایک فکری جیت تھی اور باطل فکرکی ایک ناقابل تردید شکست فاش ۔
ولادت : امام حسین رضی اﷲ عنہ کی ولادت عام شہرت کے مطابق شعبان 4ھ / جنوری 26ء کو مدینہ طیبہ میں ہوئی (تاریخ طبری 39/3)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
نبی کریمﷺ نے آپ کے کان میں اذان دی۔ منہ میں لعاب دہن ڈالا اور پھر آپ کے لئے بارگاہ خداوندی میں دعا فرمائی۔ ساتویں دن آپ کا نام حسین رکھا اور اسی دن عقیقہ کیا۔ آپ کی کنیت ’’ابوعبداﷲ‘‘ اور لقب ’’سبط الرسول‘‘ اور ’’ریحانتہ الرسول‘‘ ہے۔ آپ کی صحابیت پر امت کا اجماع ہے، اسی وجہ سے امام بخاری سمیت دیگر جمہور محدثین نے صحابیت کے لئے بلوغ کی قید کو مردود قرار دیا ہے، کیونکہ حسنین رضی اﷲ عنہما کی صحابیت مسلمات سے ہے اور دلیل و حجت مسلمات سے ہی قائم کی جاتی ہے۔
فضائل و کمالات : امام حسین رضی اﷲ عنہ نے جس گھر اور جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی، وہ گھرانہ علم وحکمت کا مخزن، فضل و کمال کا سرچشمہ اور پورا ماحول انوار نبوت سے روشن تھا۔ جہاں ہر وقت قال اﷲ وقال رسول اﷲ کی صدائیں بلند ہوئی تھیں، جہاں گرتوں کو اٹھانے، محتاجوں کی دستگیری کرنے اور دنیا سے غلامی کے خاتمے کا درس بھی دیا جاتا تھا اور اس کو عملی جامہ بھی پہنایا جاتا تھا اور پھر امام حسین تو اہل بیت نبوت کے خاص جوہر تھے، جن پر فیضان نبوت کی ہمیشہ بارش ہوا کرتی تھی، بیک وقت کئی پاکیزہ نفوس کی صحبت نے آپ کے ظاہر وباطن کو ایسا شفاف آئینہ بنادیا تھا کہ اس پر میل و کچیل تو کجا گردوغبار کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ امام حسین رضی اﷲ عنہ کی پاکیزہ ذات و صفات کے لئے رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’حسین منی وانا من الحسین، احب اﷲ من احب حسینا، حسین سبط من الاسباط‘‘ (ترمذی ج 2،ص 218، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان)
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین کو محبوب رکھتا ہو وہ اﷲ کو محبوب رکھتا ہے، حسین فرزندوں میں ایک فرزند ہیں۔
ایک مرتبہ حضور اکرمﷺ، حضرت فاطمہ زہرا رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لائے اور حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسین کریمین رضی اﷲ عنہم سب کو چادر میں لے کر فرمایا ۔ اللھم ہؤلاء اہل بیتی، اللھم اذہب عنہم الرجس وطہرم تطہیرا اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئیانما یرید اﷲ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہر کم تطہیرا (احزاب 33)اﷲ تو یہی چاہتا ہے اے (رسول کے) گھر والو! کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور رکھے اور تمہیں خوب خوب کرکے صاف ستھرا رکھے۔
یہ آیت اہل بیت نبوت کے فضائل کا منبع ہے اور آیت میں متعدد کلمات حصر سے پتا چلتا ہے کہ اس سے معمولی طہارت مراد نہیں، بلکہ سب سے عہدہ اور نہایت اعلیٰ اور غیر معمولی قسم کی پاکیزگی مراد ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت کو اﷲ تعالیٰ نے ہر طرح کی اعتقادی عملی، اخلاقی اور دیگر ناپاکیوں اور برائیوں سے پاک و منزہ فرماکر ان کے ظاہر و باطن کو وہ عظیم مقام عطا فرمایا جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممتاز اور فائق ہیں، لہذا اس آیت قرآنی پر ایمان رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کا قلب مبارک حبُ جاہ و مال اور ہوس اقتدار اور تمام رذائل دنیا سے پاک اور مبرا تھا (امام پاک اور یزید پلید ص 236)
حضورﷺ نے حضرت عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر گفتگو کے لئے نجران کے وفد کے پاس مباہلے کے لئے حضرت حسنین کریمین حضرت فاطمہ، حضرت علی رضی اﷲ عنہم کو لے کر باہر تشریف لارہے تھے، یہ نورانی صورتیں دیکھ کر لاٹ پادری نے کہا! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جن کی دعا پہاڑوں کو ان کی جگہ سے سرکا سکتی ہے۔ ان سے مباہلہ کرکے ہلاک نہ ہو، چنانچہ یہودیوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا (اردو دائرہ معارف اسلامیہ 325/8)
امام حسین قرآن کریم کے مطالب اور رسول اﷲﷺ کی احادیث بیان فرماتے تھے۔ عبادت و ریاضت آپ کا معمول تھا، بہ کثرت نوافل پڑھتے تھے، قیام اللیل آپ کا عام دستور تھا۔ روزے بہ کثرت رکھا کرتے تھے اور سادہ غذا سے افطار کیا کرتے تھے، پچیس حج کئے۔ رمضان المبارک میں کم از کم ایک مرتبہ قرآن مجید ضرور ختم کرتے (سیر اعلام النبلا للذہبی 196/3 بحوالہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ 325/8، دانش گاہ، پنجاب لاہور)
حضرت جابر بن عبداﷲ فرماتے ہیں کہ میں حجتہ الوداع میں عرفہ کے دن حضورﷺ کو ناقہ قصواء پر خطبہ فرماتے ہوئے سنا کہ:یاایھا الناس انی ترکت فیکم ما ان اخدتم بہ لن تضلوا کتاب اﷲ وعترتی اہل بیتی (ترمذی باب مناقب الحسن والحسین ج 218/2)
اے لوگو! بے شک میں نے تم میں دو چیز چھوڑی ہے اگر اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو گی تو گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ کتاب اﷲ (قرآن مجید) اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں۔
حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کے متعلق فرمایا:انا حرب لمن حاربہم وسلم لمن سالہم
جو ان سے لڑے، میں ان سے لڑنے والا ہوں اور جو ان سے صلح رکھے، میں ان سے صلح رکھنے والا ہوں۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا:من سرہ ان ینظر الی رجل من اہل الجنۃ فی لفظ الی سید شباب اہل الجنۃ فلینظر الی الحسین بن علی (ابن عساکر)
جو کسی جنتی مرد کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے، اور ایک روایت کے الفاظ میں ہیں، جو کسی جنتی نوجوانوں کے سردار کو دیکھ کر خوش ہو تو وہ حسین بن علی کو دیکھ لے۔
اﷲ و رسول کے ارشادات سے ثابت ہوا کہ اہل بیت کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے، امام حسین رضی اﷲ عنہ خدا اور رسول کے محبوب و مقبول اور جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔ آپ سے محبت گویا ایمان کی پہچان ہے اور آپ سے بغض گمرہی کی نشانی۔ آپ کے فضائل و مناقب خیالی ہی نہیں بلکہ حقیقی ہیں، جن کے تذکرے سے اہل ایمان کے دلوں کو جلا اور روح کو تازگی ملتی ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
مختصر سیرت سیّد الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مختصر سیرت سیّد الشہداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
عن ابی رافع رضی اللہ عنہ ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم اَذَّنَ فی اذن الحسن والحسین علیہم السلام حین ولدا ۔ (مجمع الزوائد)
حضرت ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود ان دونوں کے کانوں میں آذان دی۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم عق عن الحسن و الحسین کبشا کبشا۔ (ابوداؤد شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک دنبہ ذبح کیا۔
عن المفضل قال ان اللہ تعالیٰ حجب اسم الحسن و الحسین حتیٰ سمی بہما النبی صلّی اللہ علیہ وسلم ابنیہ الحسن و الحسین۔ (ابن کثیر)
حضرت مفضل سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا۔
عن یحییٰ بن ابی کثیر ان النبی صلّی اللہ علیہ وسلم سمع بکاء الحسن و الحسین فقام زعما فقال ان الولد لفتنۃ لقد قمت الیہما وما اعقل۔ (ابن ابی کثیر)
حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا رونا سنا تو آپ پریشان ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا بیشک اولاد آزمائش ہے میں بغیر غور کرنے کے کھڑا ہوگیا ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہوگئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑدو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی۔(ابن ماجہ)
حضرت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔(مشکوٰۃ)
شہادت سے قبل شہات کی خبریں
مذکورہ روایت کی طرح اور بھی کئی روایات موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وسلم کس طرح امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے تھے، کس طرح امام حسین کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے، کس طرح امام حسین کا رونا آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتا تھا۔ کس طرح امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے جنت سے کپڑے آتے تھے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید کربلا امام عالی مقام میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے تھے اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس معرکہ عظیم کے دن کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تربیت بھی فرماتے تھے۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں صراحۃ فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ ”یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل“۔ (معجم الکبیر عربی)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
اے ام سلمہ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کیا گیا۔میرے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلائ“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا۔
ایسے دور میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کے لیے آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان“ (البدایہ والنہایہ ج ۸)
یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔ اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ ”اللّٰہم انی اعوذبک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“ اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“ بیشک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا۔ (مسند احمد بن حنبل)
مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے میرے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور پیار کیا تھا اس کا مثال ملنا محال ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھادیا کہ تیری شہادت کب، کہاں اور کیوں ہوگی۔
اب ہم اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے، کبھی تلاوت میں، کبھی مخلوق کی خدمت میں، کبھی سخاوت میں، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جب حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم برقعہ پوش ہوگئے تو اس وقت عالم اسلام کے لیے قیامت کا منظر تھا۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کے لیے خلفائے راشدین اس گلشن کو اپنے محبوب قائد صلّی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے بڑھاتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے۔
اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کردیا، زنا عام ہوگئی، قتل و غارت عام ہوگئی، ظلم بڑھنے لگا۔ اب یہ وقت تھا جب شہید کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا ”کہ میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، بت پرستی عام تھی، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، جہالت و ظلم کی انتہا تھی۔ ایسے پرفتن دور میں میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح توحید کا اعلان کیا تھا، میرے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے ناشائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کی پہلی غلام عورت حضرت بیبی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرعام شہید کردیا تھا۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کے لیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کے لیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں۔ میرے محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کے لیے اپنے دانت مبارک شہید کروادیے تھے۔
یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کررہا تھا، اب جب ایک ظالم نے اس گلشن اسلام کی ویرانی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی، آنکھوں کے سامنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے۔
اس دین محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تن من دھن، اپنا وطن، اولاد، مال، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کررہے تھے۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا۔
درحقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ بھی ڈگمگاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک، خوف، مال، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں۔
لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آ پہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا۔
اور آخر وہ گھڑی بھی آگئی جب معصوم علی اصغر کی شہادت واقع ہوئی۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا۔ اور پھر یہ مرد مجاہد مرد غازی جس نے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کا مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے۔
پیغام شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ
حضرت امام عالی مقام کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔ محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل و حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے۔
یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی، مسجدیں بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں، میں حکمران بھی ہوں، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے، ابولہبی ہے۔ یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، امانت کی دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے۔ اسلام سے دھوکہ فریب یزیدیت کا نام ہے۔ بیت المال میں خیانت کرنا، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور ووٹ لینا یزیدیت کا نام ہے۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ”میری محبت کا دم بھرنے والوں میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج کے وقت یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں۔ روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے۔
حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال، جان، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔
پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو، پھر اس قوت حسینی سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت حسین رضی اللہ عنہ ہو۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا، معصوموں کا خون بہایا، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی، شریعت کی پیروی کی، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے، اور حسینیت محبت و اخوت و بہادری کا نام ہے۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہوجاتا ہے۔ یہی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا فلسفہ تھا۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام و مقصد کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Tuesday, 26 September 2017
قرآنِ مجید میں جو اہلِ بیت کا ذکر آیا ہے اس سے کون مراد ہیں ؟
قرآنِ مجید میں جو اہلِ بیت کا ذکر آیا ہے اس سے کون مراد ہیں ؟
امام اللغۃ حسین بن محمد راغب اصفہانی اور محمد مرتضیٰ الزبیدی فرماتے ہیں:اهل الرجل من يجمعه و اياهم نسب او دين او مايجري مجراهما من صناعة و بيت و بلد فاهل الرجل في الاصل من يجمعه و اياهم مسکن واحد ثم تجوز به فقيل اهل بيت الرجل لمن يجمعه اياهم نسب و تعورف في اسرة النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم مطلقا اذا قيل اهل البيت لقوله عزوجل {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} [احزاب، 33: 33] وغير باهل الرجل عن امراته و اهل الاسلام الذين يجمعهم ولما کانت الشريعة حکمت برفع حکم النسب في کثير من الاحکام بين المسلم و الکافر قال تعالیٰ {إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ} [هود، 11: 46]
ترجمہ : کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہل بیت کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید کی اس آیت میں ہے {بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے} کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب انسانوں کے ماننے والے ہوں۔ چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے درمیان نسب کا رشتہ منقطع کر دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا {بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے}(اصفهانی، المفردات فی غريب القرآن، 1: 29، بيروت، لبنان: دارالمعرفة زبيدي، تاج العروس، 28: 41، دارالهداية)
قرآنِ مجید میں اہلِ بیت سے مراد ازواج اور اولاد ہے:قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ.
ترجمہ : فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔(هُوْد، 11: 73)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اہل بیت کا لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ سلام اللہ علیہا کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی روزجہ محترمہ کے لیے قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا.
ترجمہ : جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے)۔(طهٰ، 20: 10)
عزیز مصر کی بیوی کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے:قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.
ترجمہ : وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب دیا جائے۔(يُوْسُف، 12: 25)
حضرت ایوب علیہ السلام کے زوجہ اور بچوں کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے:فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ.
ترجمہ : تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیئے)۔(الْأَنْبِيَآء، 21: 84)
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل بیت میں ازواج اور اولاد دونوں شامل ہیں۔ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اور آپ کی اولاد تو اہلِ بیت ہیں ہی، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کو بھی اپنی اہلِ بیت میں شامل فرمایا ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَائَنَا وَأَبْنَائَکُمْ}، [آل عمران، 3: 61]، دَعَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِی.
ترجمہ : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی: ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔‘‘[آل عمران، 3: 61]، تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین سلام اللہ علیہم کو بلایا، پھر فرمایا:یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔(مسلم، الصحيح، 4: 1871، رقم: 2404، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 185، رقم: 1608، مؤسسة قرطبة مصر)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
عَنْْ عَائِشَةَ رضی الله عنها قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَدَةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه فَأَدْخَلَهَ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ رضی الله عنه فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلِیٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: {إِنَّمَا يُرِيدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِرَکُمْ تَطْهِيرًا}[الآحزاب، 33: 33]
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ اس چادر میں داخل ہوگئے، پھر حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اس چادر میں لے لیا پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آیت مبارکہ پڑھی: بس اﷲ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک ونقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ [الآحزاب، 33: 33](مسلم، الصحيح، 4: 1883، رقم: 2424)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 15۹، رقم: 4707، دار الکتب العلمية بيروت)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا.
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت: ’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن وحسین)(طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)
قرآنِ مجید میں مذکور اہلِ بیت سے مراد رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدنا حسنین کریمین علیہما السلام ہیں۔ ان سے علاوہ تمام سادات آلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل قیامت تک موجود رہے گی۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
Subscribe to:
Posts (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...