Wednesday, 23 November 2016
Monday, 21 November 2016
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت 12 ربیع الاوّل کو ہوئی اور دلائل میلاد
جمہور امت مسلمہ کے نزدیک تاریخ ولادت و وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم
جمہور علماء اہل السنة والجماعة کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش ۱۲/ ربیع الاول ہی ہے۔ سیکڑوں علماء کے اقوال کتابوں میں موجود ہیں۔ لہٰذاصحیح تاریخ ولادت کے متعلق علماء امت کے اقوال کا نقل کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
(۱)حضرت عبداللہ ابن عباس ص اور حضرت جابر ص فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ربیع الاول کو ہوئی۔
(۲) مشہورموٴرخ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں: وُلِدَ رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة (۱۲) لیلةً خَلَتْ مِنْ شَہْرِ ربیعِ الأول عامَ الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام۱/۲۸۴،تاریخ الطبری۲/۱۵۶، مستدرک حاکم۴۱۸۲، شعب الایمان للبیہقی ۱۳۲۴، الکامل فی التاریخ لابن الاثیر۱/۲۱۶)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔
(۳)مشہورموٴرخ ومحدث امام ابوحاتم ابن حبان(متوفی ۳۵۴ ہجری)لکھتے ہیں:
وُلِدَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عامَ الفیل یومَ الاثنین لاثنتی عشرة(۱۲) لیلةً مَضَتْ من شہر ربیعِ الأول․(السیرة لابن حبان۱/۳۳)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی)میں ہوئی۔
(۴)امام ابوالحسن ماوردی شافعی (متوفی ۴۵۰ ہجری)لکھتے ہیں:
وُلِدَ بعدَ خمسین یوماً من الفیل وبعدَ موتِ أبیہ فی یومِ الاثنین الثانی عشر من شہر ربیع الاول․(أعلام النبوة۱/۲۴۰)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اپنے والدکے انتقال کے بعد،اور واقعہ فیل کے پچاس دن بعد پیرکے دن ۱۲/ ربیع الاول کو ہوئی۔
(۵)علامہ قسطلانی(متوفی ۹۲۳ ہجری) لکھتے ہیں:
والمشہورُ أنہ وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر(۱۲) شہر ربیع الأول، وہو قول ابن إسحاق وغیرہ․(المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱/۸۵)
ترجمہ: مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ۱۲/ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔ اور یہی قول حضرت ابن اسحاق (تابعی) وغیرہ کا ہے۔
(۶)شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی(متوفی ۹۳۰ ہجری)لکھتے ہیں:
قال علماء السیر: ولد النبیﷺ فی ربیع الأول یوم الاثنین بلا خلافٍ․ ثم قال الأکثرون: لیلة الثانی عشر(۱۲) منہ․(حدائق الأنوار ومطالع الأسرار۱/۱۰۵)
ترجمہ: علماء سیرت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کے مہینہ پیرکے دن ہوئی، اور جمہور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کی تاریخ تھی۔
(۷)علامہ مناوی(متوفی۱۰۳۱ ہجری)لکھتے ہیں:
الأصحُّ أنہ وُلِدَ بمکةَ بالشَّعَبِ بعدَ فجرِ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول عام الفیل․ (فیض القدیر۳/۵۷۳)
ترجمہ: صحیح بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کی صبح شعب مکہ میں واقعہٴ فیل کے سال پیرکے دن پیدا ہوئے۔
(۸)علامہ ابوعبداللہ محمد زرقانی مالکی(متوفی۱۱۲۲ہجری) المواہب اللدنیة کی شرح میں لکھتے ہیں۔
(والشہور أنہ صلی اللہ علیہ وسلم وُلِدَ یومَ الاثنین ثانی عشر ربیع الاول، وہو قول محمد بن إسحاق) بن یسار إمام المغازی، وقول (غیرہ) قال ابن کثیر: وہو المشہور عند الجُمْہور، وبالغَ ابن الجوزی وابن الجزار فنقلاً فیہ الإجماعَ․ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیة۱/۲۴۸)
ترجمہ: مشہورقول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بارہ(۱۲)ربیع الاول پیرکے دن ہوئی۔اور یہی قول مغازی اورسیرت کے امام حضرت محمدابن اسحاق بن یسار (تابعی)اور دیگر اہل علم کا ہے، علامہ ابن کثیرفرماتے ہیں جمہور کا یہی قول ہے، علامہ ابن جوزی اور ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیاہے۔
(۹) اشرف علی تھانوی(متوفی۱۳۶۲ ہجری)لکھتے ہیں:
جمہورکے قول کے موافق بارہ(۱۲)ربیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے۔ (ارشاد العباد فی عید المیلاد ،ص۵)
(۱۰)سیدسلیمان ندوی (متوفی ۱۳۷۳ ہجری)لکھتے ہیں:
پیدائش ۱۲/تاریخ، ربیع الاول کے مہینہ میں پیرکے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر(۵۷۱)برس بعد ہوئی۔سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی۔ (رحمت عالم ،ص ۱۵)
(۱۱)مفتی محمدشفیع دیوبندی (متوفی۱۳۹۶ہجری) صدرمفتی دارالعلوم دیوبند ومفتی اعظم پاکستان لکھتے ہیں:
الغرض جس سال اصحابِ فیل کا حملہ ہوا، اس کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز دوشنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالا دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد، لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کا فخر، کشتی نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروزِ عالم ہوتے ہیں۔(سیرت خاتم الانبیاء، ص۱۱)
(۱۲)ابوالاعلی مودودی (متوفی۱۳۹۹ ہجری)لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول میں ہوئی، ولادت پیر کے روزہوئی، یہ بات خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کے سوال پر بیان فرمائی،(صحیح مسلم بروایت قتادہ)، ربیع الاول کی تاریخ کون سی تھی؟ اس میں اختلاف ہے؛ لیکن ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت جابر بن عبداللہ کا یہ قول نقل کیاہے کہ آپ ۱۲/ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے، اسی کی تصریح محمد بن اسحاق نے کی ہے، اور جمہور اہل علم میں یہی تاریخ مشہور ہے۔(سیرت سرور عالم،جلددوم،صفحہ ۹۳،۹۴)
(۱۳) مفتی محمودحسن گنگوہی (صدرمفتی دارالعلوم دیوبند) (متوفی۱۴۱۷ہجری) لکھتے ہیں:
حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ بنت وہب سے ہوئی، جوبنی زہرہ کے خاندان سے تھیں، اس مبارک ومسعود شادی کے بعد شہر مکہ میں حضرت آمنہ کے بطن سے دوشنبہ ۱۲/ربیع الاول مطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ عیسوی کی صبح کے وقت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ظہور پذیر ہوئی۔ (گلدستہ سلام،ص۱۸)
(۱۴)ابوالحسن علی ندوی(متوفی۱۴۲۰ ہجری)لکھتے ہیں:
وَوُلِدَ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین الیومَ الثانی عشر من شہرِ ربیعِ الأول، عامَ الفیل أسعدَ یوم طلعت فیہ الشمس․(السیرة النبویة، ص۱۱۱)
(۱۵)فتاویٰ لجنہ دائمہ میں ہے:
وُلِدَ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یومَ الاثنین لاثنتی عشرة(۱۲) لیلةً مَضَتْ مِن شہرِ ربیعِ الاول عامَ الفیل․( فتاوی اللجنة الدائمة، فتوی رقم۳۴۷۴)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی بارہویں رات عام فیل (۵۷۱ عیسوی) میں ہوئی۔
طوالت کے خوف سے صرف پندرہ علماء کے اقوال پر اکتفا کیاگیا ہے۔نو(۹)ربیع الاول کے قول کی تردیدمیں مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمدشفیع کی کتاب سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں اس طرح لکھاہے:مشہور قول بارہویں(۱۲) تاریخ کاہے؛یہاں تک کہ ابن الجزارنے اس پر اجماع نقل کردیاہے، اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیاگیاہے، اور محمود پاشاعلی مصری نے جو نویں تاریخ کو بذریعہٴ حساب اختیار کیاہے، یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر بوجہِ اختلافِ مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتاہے کہ جمہور کی مخالفت اس بناء پر کی جائے۔(حاشیہ سیرت خاتم الانبیاء،ص۱۱)
محمودپاشاہ صاحب نے حساب سے ۹/ ربیع الاول، عام فیل کو پیرکادن قرار دیاہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتاہے، ہمارے حساب سے ۱۲/ ربیع الاول، عام فیل مطابق ۲۳/اپریل ۵۷۱ عیسوی کو پیرکادن پڑتاہے۔ مولانامودودی نے لکھاہے کہ بعض اہلِ تحقیق نے اسے ۲۳/اپریل ۵۷۱/ کے مطابق قراردیاہے۔(سیرت سرورعالم،جلددوم،صفحہ ۹۴)
بعضوں نے البدایة والنہایة کے حوالہ سے ۸/ربیع الاول کو راجح لکھاہے۔شایدبدایة میں پوری بحث پڑھنے کی ان کو فرصت نہیں ملی، اسی بدایة میں: قیل لثنتی عشرةَ․․․․․․․ وَہٰذا ہو المشہورُ عندَ الجمہورلکھاہوا ہے۔ اس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بارہ(۱۲)ربیع الاول کا قول جمہور کا قول ہے۔رہا روایت میں الثامن عشر کا لفظ ، بارہ ربیع الاول کے مخالف لوگوں کی مہربانی یاکتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے؛ اس لیے کہ مصنف ۱۲/ربیع الاول کے قول کی دلیل میں یہ روایت نقل کررہے ہیں، ۱۲/ ربیع الاول کے قول میں ۱۸/کی روایت نقل کرنا مصنف کے مدعا کے خلاف ہے، نیز مصنف نے اپنی دوسری کتاب السیرة النبویة میں اسی روایت کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیاہے۔ عَنْ جَابِرٍ وَابنِ عباسٍ أنَّہُمَا قالَا: وُلِدَ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم عامَ الفیل یومَ الاثنین الثانی عَشَرَ من شہرِ ربیعِ الاول۔۔۔۔نیزالبدایة والنہایہ کے مکتبہ المعارف بیروت سے شائع ہونے والے نسخہ کے حاشیہ میں اس طرح لکھا ہے:کذا رأیتہ الثامن عشر، والصوابہ الثانی عشر۔لہٰذا اہل علم حضرات سے گذارش ہے کہ کسی ایک کتاب کو دیکھ کر فیصلہ نہ کریں؛ بلکہ دوسری کتابوں سے بھی تحقیق کریں۔آج کل حدیث کی کتابوں میں تحریف وتبدیل کا سلسلہ جاری ہے۔شاملہ کے ایک نسخہ میں حدیث کے الفاظ دوسرے شاملہ کے الفاظ سے مختلف یا حذف ہیں۔ہمارے خیال میں جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے، اس وقت مکہ میں ۱۲/ ربیع الاول کی تاریخ تھی، اور دوسرے علاقوں میں دوسری تاریخ تھی،کیونکہ قمری تاریخ ،مختلف ممالک میں مختلف ہوتی ہے۔غرض جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اس وقت مکہ میں ۱۲/ ربیع الاول کی تاریخ تھی۔لہٰذا صحیح،مشہور اور راجح قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ۱۲/ ربیع الاول ہی کو ہوئی۔
رہا ۱۲/ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہناکسی طرح صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی، اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی(۸۱)دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔اس حساب سے ۱۲/ربیع الاول کو پیرکادن کسی طرح نہیں پڑتاہے،لہٰذا علامہ ابن حجرعسقلانی ہی کی رائے کو ماننا پڑے گا کہ آپ کی وفات دو(۲)ربیع الاول بروزپیر کو ہوئی۔
علامہ سہیلی(متوفی۵۸۱ھ)نے روض الانف میں، ابن تیمیہ(متوفی ۷۲۸ھ) نے منہاج السنة میں، شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعی (متوفی۹۳۰ہجری) نے حدائق الانوارمیں، مفتی محمد شفیع دیوبندی(مفتی اعظم پاکستان )نے سیرت خاتم الانبیاء میں، میاں عابداحمد نے شانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں دوم ربیع الاول لکھاہے، سیرت خاتم الانبیاء کے حاشیہ میں لکھاہے۔ تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب سے کسی طرح بھی یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ مغلطائی نے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم
بارہ ربیع الاول ۱۱ ہجری کوپیرکادن کسی حساب سے نہیں پڑتا، اس لحاظ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یکم / یادوم ربیع الاول بروز پیر کو صحیح معلوم ہوتی ہے۔اوریہ تاریخ۲۸/ مئی ۶۳۲ عیسوی ہوتی ہے۔جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوااس وقت مدینہ میں دوم/ربیع الاول۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲ عیسوی پیرکادن تھا اور دوسرے علاقوں میں یکم /ربیع الاول ۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲عیسوی پیرکا دن ہوگا۔ اس حساب سے یکم/اور دوم ربیع الاول کا اختلاف ختم ہوگا۔غرض ہرجگہ پرپیرکادن تھااور ۲۸/مئی ۶۳۲عیسوی کی تاریخ تھی، ہجری تاریخ مختلف ملک میں مختلف ہوسکتی ہے۔
جشن عید میلاد اور عشق مصطفیﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ رب العزت نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا مگر ان سب نعمتوں کے حصول کا ذریعہ حضورﷺ کی ذات گرامی ہے۔آپکی بدولت ہی ہمیں ایمان ،ایقان ،عرفان،رمضان اور قرآن سب کچھ آپ کے ہی درسے ہی ملا۔آپ اللہ کا بہت بڑا احسان ہیں اور اسی احسان کا شکر ادا کرنے کے لیے اہل ایمان میلاد کی محفلیں سجاتے ہیں۔ اور حضور رﷺ سے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔مگر کچھ بد نصیب لوگ اسکو بدعت سیہ و ناجائز قرار دیتے ہوئے نہیں شرماتے
۔اسی عادت بد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دیوبندی مولوی نے میلاد شریف کو بدعت ثانت کرنے کے لیے ایک چند ورقی پمفلٹ لکھ مارا مگر جس طرح اس کے اکابر بھی میلاد کے بدعت ہونے پر دلیل نہ دے سکے یہ بھی دلیل دینے سے قاصر رہا۔
بہرحال مصنف مذکورہ نے عنوان بالا قائم کرکے یہ لکھا کہ آج کل کچھ لوگ عشق مصطفی کے دعوے دار ہیں مگر وہ ہمیشہ حضورﷺ کے ارشادات کی حکم عدولی کرتے ہیں اور اپنے سوا ہر کسی کو گستاخ و کافر قرار دیتے ہیں۔(ملحضا)
اب مصنف مذکورہ کو ہم بتا تے ہیں کہ کون لوگ حضورﷺ کی اطاعت کو چھوڑ کراپنے مولویوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اور آپ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنے خود ساختہ اصولوں کو مانتے ہیں۔یہ صرف اور صرف دیوبندی حضرات ہیں جو رشید و قاسم کے قائم کردہ دین پر عمل پیرا ہیں(صحبتے با اولیا۱۲۵)جن کے نزدیک نجات مولوی رشید احمد کی اتباع پر موقوف ہے (تزکرۃالرشید ج ۲ ص ۱۷)اور اسی کی اتباع کرتے ہوئے یہ لوگ مجلس میلاد کو بدعت کہنے سے دریغ نہیں کرتے جب کہ ذکر میلاد خود قرآن سے ثابت ہے۔ آگے مصنف مذکورہ نے ایک حدیث نقل کر کے لکھا کہ
آخری زمانہ میں ایسے مکار لوگ پیدا ہونگے بزرگان دین کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کریں گئے
بالکل صیح بات ہے اور یہ لوگ دیوبندی ہی ہیں جو نہ صرف بزر گان دین بلکہ جھوٹی احادیث اور اپنی طرف سے عربی کی عبارات کو قرآن کی طرف منسوب کرتے ہیں۔نمونے کے طور پر ہم صرف ایک ثبوت پیش کرتے ہیں۔
مولوی رشید احمد کا جھوٹ۔
مولوی رشید احمد کہتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ
مجھ کو بھائی کہو(فتاوی رشیدیہ ج ۱ ص ۱۳)
اب ہے کوئی دیوبندی جو ہمیں یہ حدیث دیکھائے ۔
بہر حال جھوٹی باتیں اور کتابیں منسوب کرنا یہ دیوبندیوں کا ہی کام ہے ۔ہمیں اس پر زیادہ دلائل دینے کی ضرورت نہیں۔ان کے گھر کی گواہی پیش کر کے آگے چلتے ہیں۔حسین احمد مدنی نے ایک کتاب لکھی الشھاب الثا قب۔ اس کتاب میں اس نے اپنے ایک مولوی کی کتاب[سیف نقی] سے من گھڑت حوالہ بغیر تحقیق کیے لکھ دئیے اور جس طرح اس نے مکھی پر مکھی ماری اسی طرح دیوبندیوں کے شیخ الہند حسین احمد مدنی نے بھی مکھی پر مکھی ماری اور جھوٹے حوالے بیان کر دئیے ۔
دیوبندی تقی عثمانی نے اس بات کا اقرار ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’اس [شہاب ثاقب]میں ایک خاص کمزوری یہ ہے کہ اس میں ’’سیف النقی‘‘کے اعتماد پر ۲ حوالے غلط دے دئیے گئے ہیں۔۔۔اس غلطی نے ’’الشہاب الثاقب‘‘کی افادیت کو بہت نقصان پہنچایا‘‘ ۔
(نقوش وفتگان ۲۹۹ ،۴۰۰تقی عثمانی)
لہذا غلط حوالے دینا جھوٹی کتابیں منسوب کرنا ان کا ہی کام ہے۔
مصنف مذکورہ نے اسی عنوان کے ساتھ کچھ اعتراضات کئے ہیں جن کا جواب ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
کیا جشن میلادبدعت ہے؟
جناب والا نے سب سے پہلا یہ اعتراضات کیا کہ جشن میلاد کا قرون ثلاثہ میں کوئی ثبوت نہیں۔لہذا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
قرون ثلاثہ کی قید کی حقیقت
جواب نمبر۱:
تو اس کا جواب اپنے حکیم الامت سے سماعت کریں آپ کے حکیم الامت صاحب لکھتے ہیں
اگر بدعت کے یہ معنی ہیں جو ان حضرات نے سمجھے ہیں کہ جو چیز خیرا القرون میں نہ ہو۔ تو خیر القرون میں ان کا وجود بھی نہ تھا پس یہ مجسم بدعت ہوئے کیا خر ا فات ہے
آگے لکھتے ہیں
خیرالقرون میں نہ ہونا اب ہونا بدعت کو مستلزم نہیں۔(ملفوظات حکیم الامت ج ۲ ص ۹اا ملفوظ نمبر۱۵۸)
تو مجسم بدعت جناب مومن صاحب پہلی بات تو یہ کہ کسی عمل کا خیر القرون میں اس کو بدعت نہیں بناتا۔
ایسے ہی فتاوی دار العلوم زکریا میں مفتی رضا الحق لکھتا ہے
مثلا کوئی کہے کہ موجودہ ترتیب کے ساتھ مجالس ذکر اور عمل دعوت آنحضرت اور صحابہ نے نہیں کیا تو یہ بدعت ہے صحیح نہیں۔(ج۱ ص ۵ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ۱۷)
پھر فتاوی فریدیہ میں بدعت کی بحث کرتے ہوئے مفتی فرید کہتا ہے
جو چیز خیر القرون میں نہ بنفسہ ثابت ہو نہ با اصلہ ثابت ہو تو وہ بدعت سیۂ ہے۔اور جو بنفسہ ثابت نہ ہو۔لیکن با صلہ ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے۔(فتاوی فریدیہ ج۱ص۲۸۵)
پھر دیکھے آپ کے مولوی رشید احمد گنگوہی سے سوال ہوا کہ
سوال: کسی مصیبت کے وقت بخا ری شریف کا ختم کرانا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے کہ نہیں اور بدعت ہے یا نہیں۔
اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ
الجواب: قرون ثلاثہ میں بخاری تالیف نہیں ہوئی تھی مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکر خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ۔اس کی اصل شرع سے ثابت ہے لہذا بدعت نہیں۔(فتاوی رشیدیہ حصہ دوئم ۸۹)
ان تمام عبارات سے واضح ہوگیا کہ قرون ثلا ثہ میں کسی چیز کا نہ ہونا بدعت کو ملتزم نہیں ۔اگر کسی چیز کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جو اصل میں سنت ہی ہے (فتاوی رشیدیہ ج۱ ص۸۸)
اب مولوی اشرف علی تھانوی قل بفضل اللہ و برحمتہ۔۔۔الخ کے تحت لکھتا ہے کہ
اور خو ب سمجھ لینا چاہیے کہ جب قرآن مجید میں خود حضور کے وجود با وجود کی نسبت ۔۔صیغہ امرفلیفر حو موجود ہے تو اس فر حت کو کون منع کرسکتا ہے غرض حضور کی ولادت شریفہ پر فرحت اور سرور کو کوئی منع نہیں کر سکتا۔(مواعظ میلاد النبی ص۹۵)
اسی طرح لکھتا ہے :
معلوم ہو ا کہ ولادت پر فرح ،جائز و موجب برکت ہے(۵۰)
تو جناب آپ کے رشید صاحب کہتے ہیں کہ ختم بخاری کی شرع ثابت ہے اس لیے بد عت نہیں اوئے عقل کے اندھے جب تیرے اشرف علی کے مطابق جشن میلاد خو د قرآن سے ثابت ہو گیا تو پھر یہ بدعت کیسے ؟؟؟
اسی بات سے مولوی سرفراز گھٹروی کا بھی رد ہو گیا اس نے بھی مجلس میلاد کو بدعت لکھاہے(راہ سنت۱۶۱)اور خود اسی گنگوہی کا بھی اس نے بھی میلاد کو بدعت لکھا وجہ یہ بیان کی کہ یہ قرون ثلاثہ میں نہیں تھا۔
جواب نمبر۲:
پھر مولوی رشید احمد سے سوال ہواکہ
مسئلہ :قرون ثلاثہ میں تقلید شخصی کا ثبوت ہے یا نہیں۔
جواب دیا:تقلید شخصی قرآن سے ثابت ہے پھر قرون ثلاثہ کی کیا پوچھ ہے۔قول تعالیٰ فاسئلواہلذکر ان کنتم لا تعلمون
(فتاوی رشیدیہ حصہ۱۵۷)
تو جناب ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جب جشن میلاد خود قرآن سے ثابت ہے پھر قرون ثلاثہ کی کیا پوچھ؟
جواب نمبر۳:
کس منہ سے مانگتے ہو
پھر آپ کے مولوی اشرف علی تھانوی کہتا ہے کہ
غیر نبی کا فعل حجت نہیں۔(ملفوظات جلد ۱ ص ۳۳۲ملفوظ ۴۴۴)
اوئے بد بختوں جب تمہارے نزدیک غیر نبی صحابی ، تا بعی کا فعل حجت ہی نہیں تو پھر دلیل کس لیے مانگتے ہو۔
شائد اب دیوبندی کمپنی کا دماغ ٹھکانے آگیا ہو۔
یہاں اب ہم غیر مقلدوں کو بھی آئینہ دیکھاتے ہیں کہ یہ جو کہتے ہیں کہ جی صحابہ نے منایا کہ نہیں تو ان گزارش ہے کہ لعنتیوں جب تمہارے نزدیک فعل صحابی حجت نہیں پھر کس منہ سے دلیل مانگتے ہو۔
وھابیوں کا شیخ اکل نذیر حسین لکھتا ہے
فہم صحابی حجت نہیں (فتاوی نذیریہ ج۱ ص ۶۲۲)
ایسے ہی لکھا کہ صحابی کے قول سے حجت نہیں لی جا سکتی (فتاوینذیریہ ج ۱ ص ۳۴۰)
نواب صدیق کا بیٹا لکھتا ہے
اقوال صحابہ حجت نیست(عرف الجادی ص ۴۴)
اسی طرح فتاوی سلفیہ میں مولوی اسماعیل لکھتا ہے کہ صحاب کرام کا فعل سنت صحیحہ کے خلاف ہے (۱۰۷)
تو ہمارا سوال ہے لعنتیوں جب تم لوگوں کے نزدیک صحابہ کا فہم قول و فعل حجت نہیں وہ سنت کے خلاف کام کر سکتے ہیں تو بد بختوں دلیل کس لیے مانگتے ہو۔
حضور کا قول حجت نہیں ۔
وھابی مولوی چونا گڑھی لکھتا ہے
جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو ،اس دین والے اآج ایک امتی کی رائے کو دلیل سمجھنے لگے(طریق محمدی ص ۵۹)
بد بختوں جب تمہارے نزدیک حضورﷺ تک قول حجت نہیں۔تو دلیل کس منہ سے مانگتے ہو۔
اصل میلاد
غیر مقلدین حضرات کی عادت ہے کہ ہر دلیل کے جواب میں صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ کیا صحابہ نے منایا ؟؟
اس کا جواب ہم اوپر دے آئے کہ صحابہ نے بھی میلاد منایا۔حضورﷺکا تزکرہ کیا۔بہرحال یہاں دوبارہ پھر عرض ہے ہمارا دعوی ہے کہ میلاد کی اصل ثابت ہے
جشن میلاد کا پہلا اصل
جشن میلاد کا ایک اصل تو یہ کہ حضورﷺ خود اپنا میلاد منایا کرتے تھے۔حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا وساخبرکم باول امری اور میں تمہیں اپنے معاملے کی ابتدا کے بارے میں نہ بتاو ں ؟بے شک میں اللہ کے ہاں خاتم النبین لکھ دیا گیا تھا ۔دعوۃ ابی ابراہیم وبشارۃعیسی قومہ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور عیسی ؑ کی وہ بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو فرمائی تھی۔ وروبا امی التی رات انہ خرج منھا نور اضات لہ قصورالشام
اور اپنی امی جان کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا تھا کہ ان سے اک ایسا نور نکلا جس سے ان کے لیے شام کے محلات روشن ہو گئے(مستدک امام حاکم ج ۳ ص ۷۵۸)
جشن میلاد کا دوسرا اصل
اس کا ایک اصل یہ بھی کہ صحابہ نے بھی میلاد منایا ۔امام بخار کے استاد اما م احمد بن حں بل لکھتے ہیں سیدنا امیر معاویہ فرماتے ہیں :ایک دفعہ رسول اللہ ﷺکا اپنے اصحاب کے ایک حلقہ سے گزر ہواآپ ﷺ نے فرمایا
مااجلسکم تم یہا ں کیﷺں بیٹھے ہو انہوں نے کہا جلسنا ند عو اللہ و نحمد علی ما ھدانا لدینیہ و من علینا بک
ہم نے اللہ کا ذکے کرنے اور اس نے ہمیں جو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اس پر حمدو ثنا بیان کرنے اور اس نے آپ ﷺ کو بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ،اس کا ذکر کرنے کے لیے یہ جلسہ منعقد کیا ہے۔
علامہ ابن حجر کی گواہی
آپ فرماتے ہیں
وقد ظھر لی تخر یحھاعلی اصل ثابت وھوماثبت فی الصحین
یعنی میں نے جشن میلاد کو شرع میں ایک ثابت شدہ اصل پر جائز ثابت کیا ہے
ٍمولانا عبدالحی لکھوی کی شہادت
آپ میلاد کے متعلق فرماتے ہیں
اسکا وجود زمانہ نبوی اور زمانہ صحابہ کے میں بھی تھا اگرچہ اس نام سے نہ تھا ،ماہرین فن حدیث پر یہ مخفی نہ ہوگا کہ صحابہ مجالس وعظ اور تعلیم علم میں فضائل نبویہ اور ولادت احمدیہ کا ذکر کرتے تھے(مجموعہ فتاوی ج۲ ص ۱۵۰)اس حوالہ سے یہ ثابت ہو ا کہ دور نبوی و صحابہ میں میلاد کی اصل ثابت ہے ۔
پھر خود وہابیوں کا اقرار ہے کہ جس کا اصل ثابت ہو وہ بدعت نہیں۔(جشن میلاد یوم وفات پر ص ۲۲)
جواب نمبر ۴۔
میلاد اور علمائے دیوبند
حاجی صاحب لکھتے ہیں کہ
پس ان تخصیصات کو کوئی شخص عبادت مقصودہ نہیں سمجھتا ،بلکہ فی نفسہ مباح جانتا ہے،مگر ان کے اسباب کو عبادت جانتا ہے اور ہیئات سبب کو مصلحت سمجھتا ہے تو بدعت نہیں۔(فیصلہ ہفت مسئلہ ۱۲)
آگے لکھتے ہیں
اس کو بدعت کہنے کی کوئی وجہ نہیں۔(فیصلہ ہفت مسئلہ)
اسی طرح حاجی صاحب اپنا عمل لکھتے ہیں
کہ مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفل مولد میں شریک ہوتا ہوں،بلکہ ذریعہ برکات سمجھ کر ہر سال اپنے گھر منعقد کرتا ہوں۔(ہفت مسئلہ ۲۷)
باقی رہ گئی یہ بات کہ حاجی صاحب کا قول حجت ہے کہ نہیں تو اس کے بارے میں عرض ہے کہ تذکرۃالرشید میں موجود ہے کہ
مگر اعلی حضرت کی راست گو زبان جو کہ حقیقت میں فرمان رحمٰن کی تر جمان تھی(ج ۱ ص ۵۳)
مولوی اشرف علی حاجی صاحب کا قول نقل کرکے کہتا ہے کہ
کیوں کہ حاجی صاحب کا اجتہاد بعض علماء کے موافق ہے(امدادالمشتاق۸۸)
اور جناب اجتہاد مجتہد کرتا ہے پیریا شیخ نہیں۔پھر بھی اگر دیوبندی حاجی صاحب کی بات کو تسلیم نہیں کرتے تو پھر لکھ کر دے کہ عاشق الہی میرٹھی نے جھوٹ بولا ۔مولوی اشرف علی نے جھوٹ بولا ہم ان کو یہ حوالہ معاف کر دیں گئے۔
اس کے علاوہ دیوبندی کہتے ہیں کہ فیصلہ ہفت مسئلہ حاجی صاحب کا ہے ہی نہیں یہ اشرف علی تھانوی کا ہے اور اس نے رجوع کر لیا تھا (مناظرہ کوہاٹ)یہ تو الگ مسئلہ ہے کہ تھانوی نے رجوع کیا تھا کہ نہیں مگر فیصلہ ہفت مسئلہ حاجی صاحب کا ہی ہے۔مولوی سرفر از لکھتا ہے کہ
نفس مضمون حاجی صاحب کا ہے(راہ سنت ۱۶۶)
جب نفس مضمون حاجی صاحب کا ہے تو آپ کو چاہیے تو یہ کہ حاجی صاحب کا رجوع دیکھاو جو تم قیامت تک نہیں دیکھا سکتے۔لہذا حوالہ بالا کو تسلیم کرو۔پھر اشرف علی تھانوی نے بھی اس کو حاجی صاحب کی تصنیف کہا ہے(اشرف السونح ج۳ ص ۵۵۳)
اب اپنے اشرف علی تھانوی کی سنیئے۔تھانو ی لکھتا ہے کہ ۔۔
مجلس مولود کی تعلیمی شان یہ ہے کہ جائز ہے بشرط عدم منکرات کے(ارواحہ ثلاثہ حکایت نمبر ۴۲۷)
یہی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے
ذکر ولادت شریف نبوی ﷺ مثل دیگر اذکار خیر کے ثواب اور افضل ہے اگر بدعات اور قبائح سے خالی ہو تو اس سے بہتر کیا ہے(فتاوی امدادیہ ج ۵ ص۲۳۰)
پھر کہتا ہے
کالج میں میلاد جائز بلکہ واجب ہے (انفاس عیسی حصہ اول ص ۶۲۲)
اسی طرح المہند میں خلیل احمد \"مولانا احمدبن خیر مکی\"سے نقل کرتا ہے
مولود شریف اگر عارضی ناپسند دیدہ باتوں سے سالم ہو تووہ فعل مستحب اور شرعا پسندیدہ ہے(المہند ص ۱۲۵)
یہ زناٹے دار تھپڑ ہیں ان دیوبندیوں کی گالوں پر جو مجلس مولود کو بدعت کہتے ہیں۔
ایسے ہی مولو ی رشید احمد گنگوہی کہتا ہے
اس لیے اپنا قول یہ ہے کہ ہمارے لیے تو اگر مولود شریف اگر کریں تو جائز بلکہ مستحب ہے(باقیات فتاوی رشیدیہ ص۵۷۸)
اسی رشید احمد نے خلیل احمد کو کتاب تواریخ حبیب الہ دے کر میلاد میں وعظ کے لیے بھیجا (تذکرۃالرشیدص۳۵۶ج۲)
اسی طرح جب نانوتوی سے میرٹھ میں ایک صاحب نے پوچھا کہ مولوی عبد السمیع تو میلاد کرتے ہیں آپ کیوں نہیں کرتے ؟
نانوتوی نے فرمایا ۔انہیں حضورﷺ سے زیادہ محبت معلوم ہوتی ہے مجھے بھی اللہ تعالی نصیب کرے(تہمت وہابیت اور علمائے دیوبند ص ۱۵،مجالس حکیم الامت ص ۱۲۴)
جواب نمبر۵:
پھر انکا دلیل خاص کا مطالبہ کرنا بھی دھوکا ہے ۔مولوی محمود عالم صفدر لکھتا ہے کہ
دوسرا دھوکہ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ مدعی سے دلیل خاص کا مطالبہ کیا جاتا ہے(انورات صفدر صفحہ۳۶۳)
اسی طرح مولوی امین کہتا ہے کہ مدعی سے دلیل خاص کا مطالبہ کرنا یہ خالص مرزا قادیانی کی سنت ہے (ملحضا مجموعہ رسائل صفحہ۱۶۵)
لہذا ہر دلیل پر یہ مطالبہ کرنا کہ صحابہ نے کیا کہ نہیں خالص مرزائی سنت ہے جس پر دیوبندی بخوبی عمل پیرا ہیں۔
نوٹ:مناظرہ کوہاٹ میں مولوی ایوب قادری نے بھی دلیل خاص کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دیکھا و کہ امام اعظم نے میلاد منایا امام شافعی نے میلاد منایا۔تو اپنے مولوی کے فتوے کے مطابق انہوں نے مر زا قادیانی کی سنت پر عمل کیا۔
اعتراض نمبر ۲:
اس کے بعد مصنف مذکورہ نے ولادت سرور کائنات کی تحقیق کا عنوا ن ڈال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی آپ کی ولادت ۱۲ ربیع اول کو نہیں ہوئی۔
الجواب:
پہلی بات ولادت شریفہ ۹ کو ہوئی ہے تو تم ۹ کو میلاد منا لو اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔جبکہ یہ لوگ نہ ہی ۹ کو میلاد مناتے ہیں نہ ہی ۱۲کو ۔کیا اس یہ بات واضح نہیں ہوجاتی کہ مصنف مذکورہ کسی حقیقت کے متلاشی نہیں بلکہ اعتراض برائے اعتراض اور امت میں انتشار کا بیج بونے کے لیے لکھ رہے ہیں۔
بہرحال حضرت ابن عباس اور حضرت جابر سے بسند صیح مروی ہے کہ حضورﷺ کی ولادت ۱۲ ربیع اول کو ہوئی ۔(البدایہ والنہایاج۲ص ۲۶۰) پھر اول سیرت نگارامام محمد بن اسحاق تابعی نے بھی یہی تاریخ لکھ ی ہے(سیرت ابن ہشام ض۱ ص ۱۵۹)دیوبندیوں کی مصدقہ کتاب تواریخ حبیب میں بھی یہی قول ہے اور مفتی شفیع بھی اس کے قائل ہیں۔
پھر رہ گئی بات محمود پاشا فلکی کی تو اس کے متعلق شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ
اور محمود پاشا نے جو ۹ تاریخ کو بذریعہ حسابات اختیار کیا ہے،یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے(سیرت خاتم انبیا ص ۱۸)
اعتراض نمبر۳:
اس کے بعد جناب والا نے شیخ جیلانی کے حوالے سے اعترا ض کیا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ۱۰ محرم کو حضورﷺپیدا ہوئے اور احمد رضا کہتا ہے جو شیخ کی نظر سے کوئی شے پوشیدہ نہیں۔اور جو ان کے خلاف کرے اس کی دین و دنیا برباد۔
اس کا الزامی جواب ہی کہ غوث پاک کا یہی قول اخبار اخیار میں بھی ہے اور دیوبندی بھی ۹ ربیع اول کو پیدائش کا دن مانتے ہیں لہذا اپنے کلیے سے ان کی اپنی دنیا و آخرت برباد ہوگئی۔
پھراس کاتحقیقی جواب یہ کہ ہمارے نزدیک غینۃالطالبین میں تحریف واقعہ ہو چکی ہے امام احمد رضا نے بھی ا س کا تذکرہ کیا۔(فتا وی رضویہ ج ۲۹ ص ۲۲۳)پھر انوار شریعت میں بھی یہ موجود ہے کہ یہ غوث پاک کی طرف منسوب ہے اور یہی بات جمیل احمد نذیری دیوبندی نے لکھی ہے۔(رسول اللہ کا طریقہ نمازص۲۲۰) لہذا یہ اعتراض ساقط ہوا۔
اعتراض نمبر۴:
اگلا اعتراض کیا کہ جی حضورﷺ کی وفات ۱۲ ربیع اول کو ہوئی لہذا اس دن ابلیس کے حواری جشن مناتے ہیں
پہلی بات تو حضورﷺ کی وفات ۱۲ کو نہیں ہوئی (نشرالطیب،سیرت المصطفی از ادریس کاندھلوی،سیرت خاتم انبیا)اگر ہوئی ہو بھی تو سوگ تین دن کا ہوتا ہے ۔سوائے بیوی کے۔اور یہ بھی یاد رکھیں حضورﷺ ایک لمحہ موت کا ذائقہ اپنی شان کے لائق چکھنے کے بعد زندہ ہیں جیسا کہ المہند اور اس کے علاوہ کئی دیوبندی کتب میں اس کی تصریح ہے۔لہذا سوگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہی فتوی دیوبندی عالم شیخ عبد الرحمن نے دیا(روزنامہ جنگ ،۲۷فروری ۹۱۹۸۷ پھر جمعہ کے دن ہی حضرت آدم کی پیدائش اور اسی دن آپ کی وفات ہے ۔اور جمعہ کو اللہ نے مسلمانوں نے کے لیے عید قرار دیا (ابن ماجہ۱۰۹۸)
دیوبندی مولوی اشرف علی لکھتا ہے
یہ وفات بھی امت کے لیے مظررحمت الہیہ ہوئی اور جب آپ سبب رحمت ہیں تو خود
کس درجہ مورد رحمت ہوں گے تو یہ وفات بھی آپ کے لیے بھی نعمت عظمی ہوئی (نشرالطیب ص ۱۹۲)
پس جب یہ رحمت ہے تو سوگ کیسا؟؟
عید میلاد النبیﷺ
اعتراض نمبر ۵:
اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکے تھے اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل۔
مصنف مذکورہ کے اس اعتراض کے دو جز ہیں
۱۔عیدیں دو ہیں۔
۲۔عید میلاد کی اصل نہیں۔
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔
۱۔ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)
پھر مفتی شفیع، اشرف غلی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔
۲۔دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضورﷺ بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔
۳۔آزادی ملنے پر عید۔
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضورﷺ کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار ﷺنے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔
۴۔عید کا روزہ۔
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور ﷺ نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضورﷺ نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)
۵۔عید میلاد کا فقہ میں ذکر
ایک مولوی صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ جی کیا فقہ میں یا حدیث کی کسی کتاب میں عید میلاد کا ذکر ہے؟؟
میں کہتا ہوں وہابیوں کے پاس دماغ نہیں بھوسہ ہے جب ہم یہ بتا چکے ہیں کہ یہ صرف ایک عرفی عید ہے تو پھر اس قسم کے
سوالات پوچھنا نبی اکرم ﷺ سے بغض کا اظہار ہے کہ نہیں۔باقی تسلی کے لیے ریاض صالحین کے شرعہ کے یہ الفاظ بھی ملاحظہ کرتے جائے ۔مفصل گفتگو اوپر کی جا چکی ہے۔
و نضرب لھذا مثلا با ولئیک الذین ابتدعو ا عید میلاد الرسول علیہ الصلاۃ والسلام
اعتراض نمبر۵:
یہاں ہم پر ایک اور الزام ہے کہ
تم لوگوں کو عید میلاد انگریز نے دی ہے (مناظرہ کوہاٹ و پمفلٹ مذکورہ)
یہ بالکل جھوٹ ہے بلکہ شروع سے ہی اہل زوق نے اس دن کو عید قرار دیا ۔
امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ
فرحم اللہ امر اتخذ لیالی شھر مولدہ البمارک اعیادا فیکون اشد علۃ علی من فی قبلہ مرض(الموہب ج۱ ص ۲۷)
اسی طرح ملاں علی قاری نے لکھا
اما اھل مکۃ ۔۔۔یزید اھتمامھم بہ علی یوم العید(الموردالروی)
اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا ملاں علی قاری اور امام قسطلانی بھی انگریز کے زمانے میں تھے؟
رہ گیا یہ حوالہ کہ ۱۲ وفات کو ۱۲ میلاد کر وایا گیا تو اس کا جواب یہ کہ متحدہ ہندوستان میں ۱۲ وفات کے طور پر مشہور تھی جسکو ۱۲ میلاد سے سرکاری طور پر صرف ہندوستان میں تبدیل کروایا گیا ورنہ اس سے پہلے دوسرے ممالک خصوصا حرمین شریفین میں سرکارﷺ کی ولادت پر خوشی منائی جاتی تھی۔اس بات ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔
مصنف تواریخ حبیب الہ کی شہادت۔
مفتی عنائیت احمد صاحب رقم طراز ہیں کہ
حرمین شریفین اوراکثر بلاد اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع اول میں محفل میلاد کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کر کے ذکر مولود شریف کرتے ہیں اور کثرت درود شریف کی کرتے ہیں۔اور بطور دعوت کے کھانا شرینی تقسیم کرتے ہیں۔
آگے لکھتے ہیں۔
بارہویں ربیع اول کو مدینہ منورہ میں یہ محفل متبرک مسجد شریف میں ہوتی ہے اور مکہ معظمہ میں مکان ولادت آنحضرت ﷺ (۱۵)
اسی طرح امام قسطلانی لکھتے ہیں
فلا زال اھل الاسلام یحتلفون بشہر مولدہ(مواہب ص۲۷)
اسی طرح ابن جوزی لکھتے ہیں
لا زال اھل حر مین الشریفین والمصر والیمن والشام و سائر بلاد العرب من المشرق و المغرب یحتلفون بمجلس مولد النبی ﷺ و یفرحون بقدوم ھلال شہر ربیع اول
پھر یہ دائمی عمل ہے کسی کو اس کا موجد قرار دینا بھی حقائق کو مسخ کرنا ہے۔ہماری اس بات شہادتین تو بہت ہیں مگر ہم نے یہاں پر صرف دو نقل کئے ہیں(تفصیل کے لیے آو میلاد منائیں کا مطالعہ کریں )پھر جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ قرآن سے ثابت ہے تو انداز بدلتے رہتے ہیں مگر اصل وہی رہتی ہے۔
اعتراض نمبر ۶:
جلوس بدعت ہے اس کو صحابہ نے نہیں کیا۔بلکہ تم لوگوں ۱۹۳۲میں ایجاد کیا۔
یہاں پر ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ہمارا دعوی ہے کہ حضور ﷺ کی ولادت پر کسی بھی جائز طریقے سے خوشی منانا مستحب ہے۔اب اس میں محفل میلاد ،جلوس ،چراغاں سب شامل ہیں۔جب یہ بات اوپر ثابت ہو چکی کہ آپ کی ولادت پر خوشی منانا جائز ہے تو اس میں ان سب کا ثبوت بھی ہوگیا۔پھر کسی خوشی کے موقع پر جلوس نکالنا خو د صحابہ سے بھی ثابت ہے۔
مثلا جب حضرت عمر ایمان لے کر آئے اس وقت جلوس نکالا گیا (تاریخ الخلفا ص ۱۱۴)حجۃ الوداع کے موقع پر جلو نکالا گیا (زرقانی ج ۳ ۱۰۶)جب حضور ﷺ ہجرت کر کے مدینہ آئے تب جلوس نکالا گیا (بخاری ض ۱ ص ۵۵۵)
غر ض کہ خوشی کہ موقع پر جلوس منانا صحابہ سے ثابت ہے۔اس کے علاوہ شیخ قطب الڈین مکی نے اہل مکہ کا ولادت رسول کے موقع پر جلوس نکالنا لکھا ہے(الاعلام با علام بیت اللہ لاحرام ص ۲۹۷،۲۹۸)
۔پھر مفتی فرید نے لکھا ہے کہ جلوس عید میلاد جائز ہے (فتاوی فریدیہ ج ۱ ص۳۱۵)
پھر جن لوگوں نے صحابہ کے جلوس کو بدعت کہا تو ان کو مولوی حق نوا ز کہتا ہے کہ
چند سال اپنے فتوے کی توپ بند رکھو(حق نوازکی ۱۵ تاریخ ساز تقریریں)
ہم بھی کہتے اپنے منہ کو بند رکھو۔پہلے اپنے گھر کی خبر لو پھر ہم پر بکواس کرنا۔
اعتراضات نمبر ۷:
آخر میں کچھ علما کے حوالے دیے جنہوں نے میلادکو بدعت کہا ہے۔
جواب۔اگر کچھ لوگوں نے میلاد کو بدعت کہا ہے تو کئی سلف صالحن نے اس کو مستحب بھی کہا ہے۔اب رہ گیا یہ مسئلہ کہ جب کچھ اس کے جواز کے قائل ا ور کچھ اختلاف کے تو کیا کرنا چاہیے تو آو اس سوال کا جواب مولوی اسماعیل سے پوچھتے ہیں و ہ کہتا ہے
اب جب کہ قبر کو بوسہ دینا اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ ثابت ہوا،لہذا گرکوئی متقی عالم و جہ جواز کو ترجیح دے تو اس کے لیے بوسہ قبر اجائز ہے یہی حکم ان تمام روایات میں ہے جن میں اختلاف ہے(شاہ اسماعیل اور ان کے ناقد ص ۷۶)
اب ہمیں ان علما مثلا امام ابن جوزی،شیخ عبد الحق ،جلال الدین سیوطی کے تقوی کا ثبوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں پھر بھی کسی کو شک ہو تو وہ فضائل اعمال کا صفحہ نمبر ۹۸ ،سیرت نبی بعد از وصال نبی ج ۵ ص ۲۳۰اور ج ۷ ص ۲۰،اخبار اخیار کا مقدمہ یا افاضات الیومیہ کو ملاحظہ کرے۔بہر حال اسماعیل کے فتوے سے میلاد کا جواز ثابت ہو گیا۔
یہاں تک پمفلٹ نمبر ایک کے اعتراضات ختم ہوئے ۔
اب آتے ہیں ایک دوسرے پمفلٹکی طرف (مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ )س میں بھی تقریباوہی باتیں تھیں پر جو نئے اعتراضات تھے ان کا جواب حاضر ہے۔
اعتراض نمبر ۱۔
عید میلاد انگریز نے دیا اور ان عید منانا حضور کی گستاخی ہے(ص۱،۲)
جواب:اس کا تفصیلی جواب اوپر گزر چکا۔
اعتراض نمبر۲:
حضور کی وفات چاشت کے وقت ہوئی اس وقت جشن منانا گستاخی ہے۔(ص۲)یہی اعتراض ایوب قادری نے بھی نے کیا تھا(مناظرہ کوہاٹ)
جواب:اس کا جواب اوپر ہو چکا کہ آپ کی وفات بھی رحمت ہے لہذا غم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اگر ہمارا جلوس نکالنا گستاخی ہے تو پھر تم جو حضرت صدیق اکبر کی وفات والے دن جلوس نکالتے ہو کیا یہ گستاخی نہیں؟؟؟
اعتراض نمبر ۳:
کیا صحابہ نے جشن میلاد منایا
الجواب:اس تفصیلی جواب بھی اوپر ہوگیا۔پھر یہ کہنا کہ جی ایسی عبادت جو صحابہ نے نہ کہ ہو وہ بدعت ہے؟؟تو اس کا جواب یہ کہ مولوی اشرف علی نے لکھا کہ
حضورﷺ کا ذکر عین عبادت ہے (میلاد النبی ص ۹۵)
تو جب حضور کا ذکر عبادت ہے تو کیا صحابہ نے کیا کہ نہیں کیا؟؟کیا اور یقیناًکیا ملاحظہ ہو صحیح مسلم و مسند امام احمد بن حنبل ص ج ۴ ص ۹۲)اور اوپر بھی یہ حوالہ ہو چکا کہ خود حضورﷺ نے اپنی ولادت پر روزہ رکھا (صحیح مسلم رقم :۱۹۷۷،ابو داود رقم :۲۰۷۱)
پھر ہمارا دعوی یہ ہے کہ حضور کی ولادت پر خوشی منانا یہ بفسہ تو ثابت نہیں مگر با اصلہ ثابت ہے ۔
اعتراض نمبر۴:
امام شاطبی نے کہا کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ کسی اور دن کو عید قرار دینا بدعت ہے؟؟
جواب:تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں اصطلاحی عیدیں ہیں اور کسی اور دن کو اصطلاحی عید قرار دینا بدعت ہے عر فی نہیں۔ورنہ جمعہ یا یوم عرفا کو عید کہنا بھی بدعت ہو گا ؟؟
اعتراض نمبر۵:
۱۰ محرم کو میلاد نہ منانے سے دین و دنیا بربادہو جاتیں ہیں کیوں کہ یہ غوث پاک کے قول کی مخالفت ہے۔
اس کا جواب بھی اوپر ہوچکا یہاں صرف اتنا عرض ہے کہ غنیہ میں جہاں یہ نقل کیا ہے وہاں قول کا قائل مجہول ہے ہے اور وہاں صاف صاف لکھا ہے وقال بعضہم۔۔۔اب معترض کا یہ فرض کر لینا کہ بعضہم سے شیخ جیلانی مراد ہیں تو یہ ان کی سینہ زوری ہے۔
اعتراض نمبر ۶:
آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں ہو سکا کہ میلاد کی شرعی حثیت کیا ہے؟؟
جواب۔یہاں یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ میلاد مجموعی طور پر ایک مستحب عمل ہے۔تاہم اس کے اندر ہوہنے والے افعال بعض مستحب بعض مباح اور بعض واجب کے زمرے میں آتے ہیں۔مثلا نعمت رب پر خوشی منانے کا حکم ہے اس لحاظ سے یہ واجب ۔۱ور مروجہ ہیت سے کرنا بدعت حسنہ اور کیوں کہ اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں اس لیے یہ مباح۔
مستحب:ہم بتا چکے کہ میلاد مجموعی طور پر مستحب ہے۔
سنت:مستحب سنت کی ہی ایک قسم ہے(علیکم بسنتی ص ۶)
بدعت حسنہ:جس کو بدعت حسنہ کہتے ہیں وہ سنت ہی ہے (فتاوی رشیدیہ ص۸۸ج۱)
واجب:جب کسی مستحب پر واجب کا اطلاق ہوتا ہے تو تاکید کے لیے نہ کہ فقہی طور پر۔علامہ عینی شرح ابو داود میں لکھتے ہیں ومثل ہذا واجب یسمی وجوب الاختیاروالاحتسان۔اسی طرح مولوی اشرف علی تھانوی تہجد کو واجب کہنے کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ واجب سے مراد واجب اصطلاح نہیں بلکہ واجب لغوی یعنی موکد(السنۃالجلیلہ ص ۱۱۱)
باقی تمام علما نے اس کو مستحب ہی لکھا ہے۔دیکھو مولوی انور شاہ کاشمیری نے حضور ﷺ کی قبرمبارک کی زیارت کو واجب قرار دیا ہے (انوار الباری ج ۲ ص۴۳۳)جب کہ یہ ایک مستحب عمل ہے ۔اب اس پر دیو بندی کیا عر ض کریں گئے؟؟
ممانعت پر دلیل دو
ٓآیات قرآنی
جب یہودو نصاری نے یہ دعوی کیا کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گاتو اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا
قل ھاتو بر ھانا کم ان کنتم صادقین(البقرہ۱۱۱)
محبوب ان کو فرماو کہ اپنی (بات کی) دلیل لاو اگر تم سچے ہو
یعنی جب یہوودنصاری نے اپنے سوا سب کے جنت جا نے کی نفی کی تو خدا تعالی نے ان کے نفی دعوی پر ثبوت مانگا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا
قل من حرم زینۃاللہ التی اخرج لعبادۃوالطیبات من الرزق(الاعراف۳۲)
فرمائیے اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے اور (کسنے حرام کئے )لذیذاور پاکیزہ کھانے
یہاں بھی کسی چیز کو غلط ،ناجائز،حرام اور اس کے متعلق منفی دعوی کرنے والے سے ثبوت مانگا
احادیث مبارکہ
احادیث بھی اس امر پر گواہ ہیں کہ جب تک کسی کام روکا نہ جائے تب تک اس کو ممنوع اور ناجائز نہیں سمجھنا چاہیے۔
۱۔حضورﷺ نے ارشاد فرمایا :
حلال ہے وہ جسکو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ۔
وما سکت عنہ فھو مما عفی عنہ
اور جس کا ذکر نہیں کیا وہ سب معاف ہیں (ابن ماجہ ۲۴۹)
ایک اور مقام پر حضورﷺنے ارشاد فرمایا:
ذرنی ماترکنکم
اس کا ترجمہ وہابیوں کے شیخ اسلام نے یوں کیا ہے
جب تک منع نہ کرو منع مت سمجھو(فتاوی ثنائیہ ج ۱ ص ۵۲۲)
اکابرین امت کے اقوال
فتح الباری میں ہے
ان کانت مما تندرج تحت مستحن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تندرج تحت مستقبح فی لاشرع فھی من قسم المباح(ج ۳ ص ۲۹۳)
در مختار میں ہے
لا یلزم منہ ان یکون مکروھاالابنہی خاص،لا ن الکراھۃحکم شرعی فلا بد لہ من دلیل(ج۱ص۶۵۳)
وہابی اکابر کے اقوال
وہابی مولوی ثنا اللہ الکھتا ہے
جواز کے بر خلا ف دعوی کرنے والا مدعی ہے اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت شرع شریف سے دیکھاوے(فتاوی ثنائیہ ج ۱ ص ۱۱۶)
دوسرے مقام پر ایک مصلے پر دوبارہ نماز پڑھنے کے متعلق سوال کے جواب میں لکھتا ہے
جائز ہے منع کی کوئی دلیل نہیں (ایضا ج ۱ص ۵۲۲)
اسی طرح فتاوی اہل حدیث میں ہے
برات ضروری نہیں مگر کسی روایت میں منع بھی نہیں۔(ج ۲ س۴۰۰)
اسی کے صفحہ ۴۲۶پر لکھتے ہیں
حرام نہیں کہہ سکتے حرمت کی کوئی دلیل نہیں
اسی طرح وہابی حضرات کے مولوی ابو البرکات سے جب گردوں اور کپوروں کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ
ان دونوں کے حلال ہونے کی دلیل یہی ہے کہ قرآن و حدیث نے ان سے منع نہیں کیا ۔ہر چیز کی اصل حلت ہے اگر قرآن و حدیث میں کسی چیز کی حرمت نہ بیان کی گئی ہو(فتاوی برکاتیہ صفحہ ۲۰۸)
ایسے ہی وحید الزماں لکھتے ہیں
کل شی ی لک مطلق حتی یرد فیہ نھی
ہر چیز کا کرنا تجھ کو روا ہے یہاں تک کے اس کی ممانعت میں کچھ وارد نہ ہوجائے(لغات الحدیث ج۳ ص ۳۸)
دیوبندی اکابر کے اقوال
قاری طیب صاحب لکھتے ہیں کہ
عدم ذکر کے معنی دنیا میں کہیں بھی نفی اور ممانعت کے نہیں ہوتے(کلمہ طبیہ صفحہ ۸۴)
ایسی ہی مفتی فرید لکھتا ہے
جس امر کے متعلق پیغمبر علیہ السلام سے نہی وارد نہ ہو وہ بدعت اور مکروہ نہیں ہوتا(فتاوی فریدیہ ج۱ص۵۹۳)
بہر حال ان تمام حوالہ جات سے یہ واضح ہو گیا کہ میلاد کو بدعت کہے والوں کو ا سکی ممانعت پر دلیل پیش کرنے چاہیے مگر
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
چند مزید عمومی اعتراضات کا جائزہ
۱۔میلاد بشر کا ہوتا ہے۔
جواب:
وہابی دیوبندی حضرات عام طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جی میلاد تو بشر کا ہوتا ہے اور تم نبی کو بشر نہیں مانتے۔تو جوابا عرض ہے کہ جھوٹھو ں پر اللہ کی لعنت الحمد اللہ ہم نبی اکرم کو بے مثل بشر مانتے ہیں ۔اور جو اس کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے۔لہذا یہ اعتراض ہم پر فٹ نہیں ہوتا۔پھر خود وہابی ابو ایوب لکھتا ہے
ظاہر بریلوی حضرات نبی اکرم کی بشریت کا میلاد مناتے ہیں (۵۰۰ با ادب سوالات صفحہ ۵۳)اس کو کہتے اپنے منہ اپنا تھپڑ۔اسی طرح مفتی مختار الدین لکھتا ہے
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ بریلوی بھی نبی اکرم ﷺ کی بشریت کے قائل ہیں۔(راہ محبت ص ۳۴)
آگے لکھتے ہیں
اس طرح بعض بریلوی علما نبی اکرم کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تو ایسے الزامات لگانا ان کے ساتھ بہت زیادتی اورظلم ہے(ص ۴۰)
اسی طر ح وہابیوں کے مولوی لکھتے ہیں
قائدین بریلویہ کے فتو ی و فیصلہ اوررعقیدہ کہ رسول بشر ہوتی ہیں۔(مقیاس حقیقت ص ۱۲۶)
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ ہم نبی اکرم کو بشر تسلیم کرتے ہیں۔
کیا اگر مستحب عمل میں برائیاں جمع ہوں تو اس کوبند کر دینا چاہیے۔
اس کا جواب یہ کہ اگر کسی عمل میں منکرات شریعہ مل جائے تو وہ حرام نہیں ہوتا۔وہ حرام تب ہوگا جب ان منکرات کے بغیر اس کا تصور ہی نہ ہو۔اور اگر منکرات شریعہ میں اس میں داخل ہو جائے تو ان منکرات کو دور کیا جائے گا۔دیکھو شامی میں ہے
ولا تترک لما یحصل عندھا من منکرات و مفاسد کا ختلاط الرجل با لنسٰا ء وغیرھا لان القربات لا تترک لمثل ذلک بل علی الا نسان فعلھا و انکار البدع
یعنی زیارت قبور اس لئے مت چھوڑ دے کہ وہاں ناجائز کام ہوتے ہیں جیسے مرد عورت کا خلط کیو نکہ ان جیسی ناجائز باتوں سے مستحبات نہیں چھوڑے جاتے بلکہ انسان پر ضروری ہے کہ زیارت قبور کرے اور بدعت کو روکے
اسی طرح امداد المشتاق میں ہے
اگر کسی عمل میں عوارض غیر مشروع لا حق ہقں تو ان عوارض کو دور کرنا چاہیے نہ یہ کہ اصل عمل سے انکار کر دیا جائے ایسے عمور سے انکار کرنا خیر کثیر سے باز رکھنا ہے(ص ۹۱)
اس کے حاشیے میں تھانوی کہتا ہے کہ البتہ اصرار کرنا کہ تارکین سے نفرت زیادتی ہے (۹۲)
نوٹ:یاد رہے یہ کتاب تھانوی نے ۱۳۴۳ میں لکھی ۔
حضور کی آمد ہے اور جوتیوں سے استقبال کرتے ہیں ؟؟
ہم کہتے ہیں لعنت ہیں گستاخوں پر۔شرم نہیں آتی نعلین شریف کو جوتا لکھتے ہوئے۔لعنتیوں ہم نعلین لگا کر استقبال نہیں بلکہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ہم تو اس نعلین کی شبیہ سے بھی کرڑور درجہ کم تر ہیں اور یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ہمیں اپنا ثنا خوان بنایا ہے۔باقی خود تھانوی نے ادب و شوق طبعی کے ساتھ نقش رسول ﷺ کا ادب اور اس کی تکریم بجا لانے کی اجازت دی ہے۔(بوادر النوادرص ۳۴۱)
آخر میں عر ض ہے کہ ہمارا دیوبندیوں وہابیوں سے یہ اصل اختلاف نہیں بالکہ اصل اختلا ف عقیدے کا ہے ۔ان کے چند عقائد درج کیے جاتے ہیں
۱۔اللہ جھوٹ بول سکتا ہے (یک روزہ ،براہین قاطعہ ،چٹان،فتاوی رشیدیہ)
۲۔حضور کا علم جانوروں و پاگلوں جیسا ہے (مفہوم عبارت حفظ الایمان)
۳۔حضور کا علم شیطان سے کم ہے (براہین قاطعہ و فتاوی حقانیہ)
۴۔امتی عمل میں نبی سے بڑھ جاتے ہیں۔(تحذیرالناس )
۵۔حضور اللہ کی شان کے آگے چمارسے بھی ذلیل ہیں(فتاوی رشیدیہ ،تقویۃالایمان)
۶۔حضور کا خیال بیل اور گدھے کے خیال سے برا ہے(صراط مستقیم)
۷۔حضور مر کے مٹی میں مل گئے (تقویۃالایمان )
۸۔اللہ کو زمان و مکان سے پاک جاننا بدعت حقیقی ہے۔(ایضا الحق)
۹۔ذکر میلاد کنہیا کے جنم دن منانے کی طرح ہے(براہین قاطعہ)
۱۰۔رحمۃ العالمین حضور کی صفت خاصہ نہیں(فتاوی رشیدیہ)
نوٹ:مندرجہ بالا تمام عقائد ہم نے مفہوم بیان کیے جو دیوبندیوں کی عبارات کا حاصل ہیں۔
۔اگر کسی قسم کی غلطہ ہو تو اصلا ح فرمائیں
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس حقیر سی کا وش کو قبول کرے۔اور اس کو ہمارے لیے توشہ آکرت بنائے۔جو کوئی اس سے فائدہ اٹھائے وہ ہمارے لیے دعا کرے ۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ
حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...