قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکهف، 18 : 2
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ اللہ تعالی کے اولیا اپنے مراتب و منزلت کے مطابق ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصوروں کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہے اور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا :
وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا. (الکهف، 18 : 2
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا :
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo(انعام، 6 : 6
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo
اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر :
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند
اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟
یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔
ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہے
اللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا :
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo(شوریٰ، 42 : 51)
اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔
آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔
اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔
بخدا خدا کا یہی ہے در
ربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ. (النساء، 4 : 80)
جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔
قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا :
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ. (آل عمران، 3 : 31)
(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔
اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا :
وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌ -(البقرة، 2 : 186)
اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔
یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے :
بخدا خدا کا یہی ہے دَر ، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ ۔۔
جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاں نہیں، تو وہاں نہیں
خدا کی بندگی کے لئے واسطۂ رِسالت کی ناگزیریت
اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo (النساء، 4 : 61)
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔
ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات مندرجہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ :
خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید
ہرگز نخواہد بمنزل رسید
مقامِ واسطہ و توسل میں کا اہم نکتہ
اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔
مہرِ انگشتریئِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناموں کی ترتیب
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔
عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقسیمِ فیوضاتِ الٰہیہ
یہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے :
اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ.
(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16)
(الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 234)
(المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755)
(شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131)
میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔
اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو
سلسلۂ اولیاء کا اِجراء
بابِ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو جانے کے بعد فیوضاتِ الٰہیہ کی ترسیل و اِجراء کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرّب اولیائے کرام کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ یہ اولیائے کرام درِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات عامۃالناس میں تقسیم کرنے اور اُنہیں اﷲ کی بارگاہ کا راستہ دِکھانے پر متعین ہیں۔ اُن سے فیض حاصل کرنا حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔ قرآنِ مجید میں حکمِ ربانی ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘ط وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ.
(الکهف، 18 : 2
(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اُس کی دِید کے متمنی اور اُس کا مکھڑا تکنے کے آرزومند رہتے ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا : ’’اے لوگو! تم میرے اُن بندوں سے اپنا ناطہ جوڑ لو جو صبح و شام میری یاد میں سرمست رہتے ہیں اور جو میرے چمنستانِ الست سے جام پر جام لنڈھاتے ہیں اور میرے ذِکر میں اُن کے شب و روز عالمِ سرشاری میں بسر ہوتے ہیں‘‘۔
اب جنہیں میری قربت درکار ہو اُن کے لئے ضروری ہے کہ میرے اِن خدا مست بندوں کی صحبت اور سنگت اِختیار کرلیں اور اُن بادہ کشوں کی میئ سرمدی کی محفل میں آجائیں تاکہ اُنہیں بھی اُس سرور و نشاط آگیںشراب کے چند گھونٹ میسر آجائیں۔ اگر وہ نہیں تو فقط اس کی خوشبو سے جو سرشاری نصیب ہوگی وہ بھی کم نہیں۔
گردِ مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوئے اُو گر کم رسد، رؤیتِ اِیشاں بس است
پھر اِرشاد فرمایا : ’’وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ‘‘ یعنی اے پندارِ دُنیوی میں مست رہنے والے لوگو! میرے اِن بندوں سے اپنی نگاہیں نہ ہٹانا اور اُنہیں کبھی بنظرِ تحقیر نہ دیکھنا ورنہ اللہ تم سے اپنی نگاہیں ہٹالے گا اور تمہارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ پھر فرمایا : ’’تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا‘‘ کیا تم اِس چند روزہ دنیا کی زیب و زِینت کے اسیر رہنا چاہتے ہو اور آخرت کی نعمتوں کی طلب سے بیگانہ رہ کر زندگی گزارنے کے تمنائی ہو؟ خبردار! اگر اُخروی نعمتوں کے طلبگار ہو تو میرے بندوں کو اپنا مرکزِ نگاہ بنالو۔ اگر تم عارضی متاعِ حیات سے صرفِ نظر کر کے اُن کے خوشہ چیں بن جاؤگے تو وہ تمہیں طالبانِ مولا اور طالبانِ آخرت بنادیں گے اور اگر اُنہیں تکنا چھوڑ دوگے اور اُن سے نظریں ہٹا لو گے تو پھر مکروہاتِ دُنیا میں غرق ہوکر رہ جاؤگے اور دُنیا کی محبت تمہیں ذِکرِ الٰہی اور یادِ آخرت سے بیگانہ کردے گی۔ پھر اِرشاد ہوا :
وَ لَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا. (الکهف، 18 : 2
اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کر دِیا ہے۔
خبردار! اُن لوگوں کی اِطاعت نہ کرنا جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کردیا ہے، اگر تم اُن کا کہنا مانوگے اور اُن کے پیچھے چلوگے تو ہم سے دُور ہوکر خُسْرَانٌ فِی الدُّنْيَا وَ الْأَخِرَة یعنی دُنیا و آخرت کی ہلاکت کے مستحق بن جاؤگے۔
اِس آیت کریمہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ معرفت و قربِ اِلٰہی اور وصال باللہ کے لئے اللہ کا حکم ہے کہ اُس کے اُن نیک بندوں سے یک گو نہ قلبی تعلق، صحبت اور معیت اِختیار کی جائے جو فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ پس متذکرہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نبی کی ذات اُلوہی فیوضات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے، اُسی طرح گروہِ اولیاء بھی فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔
اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہی
قرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۂ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ سے اِس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ واقعۂ اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے :
رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاo (الکهف، 18 : 10)
اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo
اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدۂ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :
وَ تَرَی الشَّمْسَ إذَا طَلَعَتْ تَّزٰوُرَ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ إذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِنْه‘ط(الکهف، 18 : 17)
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
اﷲ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا : ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں اور وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کو حرزِ جاں بنالیں‘‘۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا :
مَنْ يَهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه‘ وَلِيًّا مُرْشِدًا. (الکهف، 18 : 17)
اﷲ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔
خدائے رحمان و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلادیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، وہ اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رَکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا۔ جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا کہ اُن طالبانِ مولا کو۔ ۔ ۔ جن کے پہلو فقط میری رضا کی خاطر نرم و گداز بستروں سے دُور رہتے تھے اور اُن کی راتیں مصلّے پر رکوع و سجود میں بسر ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ میرے دِیدار سے شرفیاب کیا جائے اور اُن پر سے سب حجابات اُٹھا دیئے جائیں۔ پس وہ قیامت کے دِن نور کے ٹیلوں پر رَونق اَفروز ہوں گے اور صدیوں پر محیط وہ طویل وقت اُن پر عصر کے ہنگام کی طرح گزر جائے گا جب کہ دوسروں کے لئے یہ عرصۂ قیامت پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔
اَولیاء اﷲ کی بعد از وفات زِندگی
اصحابِ کہف کے حوالے سے قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جب اُن پر صدیوں کا عرصہ چند ساعتوں میں گزر گیا اور بیدار ہونے پر انہوں نے ایک دوسرے پوچھا کہ ابھی کتنا عرصہ گزرا ہوگا، تو اُن میں سے ایک نے کہا : يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ قرآنِ کریم کی اِس بات سے کیسے اِنکا رہوسکتا ہے کہ اُن پر صدیاں گزر گئی تھیں، مگر اُن کے کپڑے بوسیدہ نہ ہوئے تھے اور جسموں میں کوئی کمزوری اور نقاہت کے آثار نہ تھے بلکہ یک گو نہ تازگی اور بشاشت تھی جیسے وہ چند گھٹنے نیند کر کے تازہ دَم اُٹھے ہوں۔
پھر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ سکے دے کر کہا کہ جاؤ اِس رقم سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ جب وہ سودا سلف خریدنے بازار گیا تو دُکاندار اُن سکوں کو حیرت اور بے یقینی سے تکنے لگا کہ یہ شخص صدیوں پرانے سکے کہاں سے لے کر آگیا! وہ اُنہیں قبول کرنے سے اِنکاری تھا کہ اِتنی صدیوں پرانے سکے اَب نہیں چلتے۔ وہ (اصحابِ کہف کا فرد) کہنے لگا : ’’بھئی یہ سکے ابھی ہم کل ہی تو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے‘‘۔ دکاندارنے کہا : ’’کیا بات کرتے ہو یہ صدیوں پرانے سکے جانے تم کہاں سے لے کے آگئے ہو‘‘! پھر جب اصحابِ کہف کے اُس فرد نے اپنے گردو پیش توجہ کی اور غور سے دیکھا تو اُس ماحول کی ہرچیز کو بدلا ہوا پایا۔
یہ اہل اللہ وہ اہلِ مشاہدہ ہوتے ہیں کہ جن پر غاروں میں ہزاروں برس بھی بیت جائیں، مگر اُن کی جسمانی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اِسی طرح وہ اہلِ مشاہدہ جو قبر میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں سال اُن پر اِس طرح بیت جائیں گے جیسے دو لمحے ہوں۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں، قرآنِ حکیم کا بیان کردہ واقعہ ہے، جس کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اولیائے کرام کا یہ عالم ہے کہ وِصال کے بعد بھی مشاہدۂ حق کی زِندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اُس پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِکر ہی کیا جو آئے ہی مُردہ اِنسانوں میں زِندگیاں بانٹنے کے لئے تھے اور جو آج تک زندگیاں بانٹ رہے ہیں۔
اولیاء اﷲ کا خدمت گزار کتا بھی سلامت رہا
اصحابِ کہف کے ساتھ اُن کا ایک خدمت گزار کتا بھی تھا۔ 309 سال تک وہ کتا بھی غار کے دہانے پر پاؤں پھیلائے اُن کی حفاظت پر مامور رہا۔ اُن کی نسبت سے قرآنِ مجید میں اُس کتے کا ذِکر بھی آیا ہے :
وَ کَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ. (الکهف، 18 : 1
اور اُن کا کتا (اُن کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔
کتے کو یہ مقام اُن غار نشین اولیائے حق کی بدولت ملا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب وقفے وقفے سے اصحابِ کہف دائیں بائیں کروٹ لیتے تو وہ کتا بھی کروٹ لیتا تھا۔ یہ اُسی صحبت نشینی کا اثر تھا جس کا ذکر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ میں ہوا۔ بعض رِوایات میں ہے کہ اصحابِ کہف نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ کتے کے بھونکنے سے کہیں ظالم بادشاہ کے کارندے اُن تک نہ آن پہنچیں، بہت کوشش کی کہ کتا غار سے چلا جائے۔ وہ اُسے دُھتکارتے لیکن وہ اُن کی چوکھٹ پر جم گیا اور تین صدیوں تک فیضِ رحمت سے بہریاب ہوتا رہا۔
ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہ
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ بقول اقبال :
دَر شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔
فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق.
(صحيح البخاری، 2 : 1036)
(مسند احمد بن حنبل، 3 : 55)
جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے اﷲ ربّ العزّت کو دیکھ لیا۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھما دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے :
أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ. (الانعام، 6 : 122)
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔
مُراد یہ کہ کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دِل مُردہ تھے، ہم نے اُن مُردہ دِلوں کو زِندہ کر کے نورِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر جیسے اُنہیں نورِ نبوت سے زندگی ملی وہ اُس نور کو لوگوں میں بھی بانٹتے ہیں۔ اب یہ اُسی ’’يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ‘‘ کا کرشمہ تھا کہ کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بغداد میں یہ ذمہ داری دی، کسی کو داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں کسی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر میں اور کسی کو غوث بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں نور بانٹنے پر لگا دیا اور کوئی اِس نور کو سرہند میں تقسیم کرنے پر مامور ہوا۔ وہ دل جو مُردہ تھے سب اِس نور نے زِندہ کر دیئے اَب موت کی کیا مجال کہ اُنہیں مار سکے۔ موت تو صرف ایک ذائقہ ہے اور بقول اِقبال :
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
No comments:
Post a Comment