حضرات انبیاء کرام ورُسُل عظام علیہم الصلوٰۃوالسلام کے معجزات اور اہل بیت وصحابہ اوراولیاء وصالحین رضی اللہ عنہم اجمعین کی کرامات کے برحق ہونے کا ذکر قرآن پاک اوراحادیث شریفہ میں موجود ہے، علماء امت کا اس پرازابتداء اسلام اتفاق ثابت ہے ۔
اللہ تعالی کے وہ محبوب ومقرب بندے جنہوں نے زندگی بھر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا،اپنی زندگی کا ہر لمحہ یاد خدا کے لئے وقف کیا،دنیوی لذتوں کو ترک کرکے اپنی ساری توانائیاں دین متین کی تبلیغ واشاعت میں صرف کیں،ایسے مقربان بارگاہ الہی کے لئے آخرت میں بلند مقامات اوراعلی درجات ہیں، نیز دنیا میںاللہ تعالی نے ان کی شان وعظمت آشکار کرنے کے لئے خصائص وامتیازات عطا فرمائے،اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ۔
اور بے شک ہم نے "زبور"میں نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا:یقینا زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔(سورۃ الانبیاء۔ 105)
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ "زمین"سے مراد جنت کی زمین ہے،اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے دنیا کی زمین مراد ہے اور علامہ ابن کثیر نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ اولیاء وصالحین 'دنیا وآخرت ہر دو کی زمین کے وارث ہوتے ہیں:
يقول تعالی مخبرا عما حتمه وقضاه لعباده الصالحين، من السعادة فی الدنيا والآخرة، ووراثة الأرض في الدنيا والآخرة - ترجمہ:اللہ تعالی ان چیزوں سے متعلق بیان فرمارہا ہے جس کا اس نے اپنے نیک بندوں کے لئے قطعی اور حتمی فیصلہ کردیا ہے کہ دنیا وآخرت میں ان کے لئے سعادت ہے اور دنیا و آخرت میں زمین ان کی وراثت ہے-
(تفسیر ابن کثیر،ج5،ص384،سورۃ الانبیاء ۔105)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالی نے اولیاء کرام وصالحین عظام کو‘زمین کا وارث بنادیا، مالک کو اپنی ملکیت میں تصرف واختیار کا حق حاصل ہوتاہے، یہ حضرات زمین میں صاحب تصرف وبااختیار ہوتے ہیں، ان مقربین بارگاہِ خداوندی سے جو خلافِ عادت کام ظاہرہوتے ہیںاور خلاف عقل امور وقوع پذیرہوتے ہیں،اُنہیں "کرامات "کہا جاتا ہے۔
اہل سنت وجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ’’اولیاء کرام کی کرامتیںثابت وبرحق ہیں‘‘یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا،جیسا کہ فن عقائد میں پڑھائی جانے والی درس نظامی کی مشہور کتاب "شرح عقائد نسفی" میں مذکور ہے: وکرامات الاولياء حق -
ترجمہ:اولیاء کرام کی کرامات برحق ہیں۔(شرح العقائدالنسفیۃ،ص144)
اولیاء اللہ سے ظاہر ہونے والی کرامت دراصل معجزئہ نبی کا مظہر اور اسی کا فیضان ہوتی ہے، اور کرامات اولیاء سے اہل زمانہ پر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ولی جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیںاُنہی کا دین سچا اور حق ہے ،یہ جن کی نبوت کے قائل ہیں اُنہی کا قانون درست وصحیح ہے ، صالحین وبزرگانِ دین کی کرامات سے دین اسلام کی تائید وتصدیق ہوتی ہے ۔
"معجزہ" اور"کرامت"کاامتیازی فرق
خلاف عادت اور خلاف عقل واقعات انبیاء کرام علیھم السلام کے بھی ہوتے ہیں اور اولیائِ عظام کے بھی ‘اس طرح کے واقعات انبیاء کرام علیھم السلام کے حق میں ’’معجزہ‘‘ ہوتے ہیں اور اولیاء کرام کے حق میں ’’کرامت ‘‘قرار پاتے ہیں۔
"معجزہ" اور "کرامت"کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ "معجزہ"سے مراد وہ خلاف عادت عمل ہے جو کسی نبی سے نبوت کی صداقت کی دلیل کے طور پرصادر ہوا ہو-اور’’کرامت‘‘ اس خلاف عادت عمل کو کہا جاتا ہے جو نبوت کے دعوے کے بغیر کسی مومن صالح سے ظاہرہوتا ہے۔
اگر کسی غیر مسلم اور بد عمل سے کوئی خلاف عادت‘واقعہ رونما ہوجائے تو اسے "استدراج"کہا جاتاہے، جیساکہ شرح عقائد نسفی میں ہے:
وکرامته :ظهور امر خارق للعادة من قبله غير مقارن لدعوی النبوة فما لا يکون مقرونا بالايمان والعمل الصالح يکون استدراجا۔وما يکون مقرونا بدعوی النبوة يکون معجزة۔(شرح العقائد النسفیۃ،ص144)
کرامتیں واقع ہونے کی حکمت
اللہ تعالی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آخری نبی بنایا،اب کوئی رسول یا کسی قسم کے نبی نہیں آئیں گے ،قیامت تک جتنے لوگ آئیں گے ،سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ایمان لانے کے محتاج ہوں گے، ظاہر ہے جو لوگ ابھی دائرئہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ان کے لئے ایسے خلاف عادت واقعات معاون ومددگار ہوں گے ، یہ واقعات انہیں اسلام کی طرف مائل کریں گے اور ایمان لانے پر آمادہ کریں گے ،اس سبب سے کرامتوں کا واقع ہونا‘ ضروری ہے ، لہذا اس امت کے اولیاء کرام کی کرامتیں دیگر امتوں کے اولیاء کرام کی کرامتوں سے زیادہ ہیں۔
جیسا کہ علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
الحکمة في کثرة کرامات اولياء الامة المحمدية -والله اعلم-اظهار سيادته صلي الله عليه واله وسلم علی سائر الانبياء بکثرة معجزاته في حياته وبعد مماته ولکونه صلي الله عليه واله وسلم خاتم النبيين ، وحبيب رب العالمين ، واستمرار دينه المبين الي قيام الساعة فالحاجة الي اسباب التصديق به مستمرة، ومن اقوي هذه الاسباب کرامات امته التي هی في الحقيقة من جملة معجزاته صلي الله عليه واله وسلم -
امت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ والسلام کے اولیاء کرام کی کرامتیںزیادہ ہونے کی حکمت- اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے-یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں اور آپ کے وصال اقدس کے بعد آپ کے معجزات کی کثرت کے ذریعہ تمام انبیاء کرام پر آپ کی سیادت وسرداری کا اظہار ہو، کیونکہ آپ خاتم الانبیاء اور رب العالمین کے محبوب ہیں،اور قیامت تک آپ کا دین مبین چلتا رہے گا،اسی وجہ سے ضروری ہے کہ دین کی حقانیت وصداقت کے دلائل بھی ہر زمانہ میں ظاہر ہوتے رہیں،اور ان مضبوط ترین دلائل میں آپ کی امت کے اولیاء کی کرامات ہیںجو درحقیقت حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے معجزات کا فیضان ہے۔ (مقدمۃ جامع کرامات الاولیاء ،ص36)
کرامات اولیاء کا اظہار کیوں ہوتا ہے؟ اس کے اسباب ووجوہ اور منافع وفوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے علامہ ابن قیم نے لکھاہے:
وانها انما تکون لحاجة في الدين او لمنفعة للاسلام والمسلمين فهذه هی الاحوال الرحمانية سببها متابعة الرسول ونتيجتها اظهار الحق وکسرالباطل-
دین میں جب کوئی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو اس کے لئے اور اسلام ومسلمانوں کی منفعت کی خاطر کرامات ظاہر ہوتی ہیں،تو یہی رحمانی احوال ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع وپیروی کے سبب ان کرامات کا ظہور ہوتا ہے ، اس کا فائدہ اور نتیجہ حق ظاہرکرنا اور باطل کا زور توڑنا ہوتا ہے۔(زاد المعاد ، فصل فی فقہ ہذہ القصۃ)
علامہ ابن تیمیہ نے کرامات اولیاء کوتسلیم کیا ہے اور صحابہ وتابعین کی متعدد کرامات اپنی کتاب’’اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان ‘‘میں ذکرکی ہیں۔(اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان،کرامات الصحابۃ والتابعین)
قرآن کریم سے کرامت کا ثبوت
خرقِ عادت امورکا ذکر قرآن شریف کی آیات مبارکہ میں موجودہے ،چنانچہ سورۂ اٰل عمران میں حضرت مریم علیھا السلام کی کرامت‘ سورۂ کہف میں اصحاب کہف کی کرامت اور حضرت خضرعلیہ السلام کی کرامت ‘سورۂ مریم میں حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت اورسورۂ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے امتی حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت کا ذکرہے ۔
سوکھے درخت سے تازہ کھجور گرنے لگے
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا موقع آیاتوآپ کی والدۂ ماجدہ حضرت مریم علیھاالسلام ایک درخت کے تنے کے پاس آئیں، جوسوکھاتھا، اُس پر کھجورنہ تھے ، اللہ تعالی نے فرمایا:
وَهُزِّیْ إِلَيْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْکِ رُطَبًا جَنِيًّا-
ترجمہ:اور کھجور کے درخت کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، یہ تم پر تازہ اور پکے کھجور گرادے گا۔(سورۃمریم ۔25)
آیتِ مذکورہ میں بتایا گیا کہ حضرت مریم علیہاالسلام نے کھجور کے درخت کو ہاتھ لگایا تو وہ اسی وقت تروتازہ کھجور آپ کی گود میں ڈالنے لگا ، ظاہر ہے سوکھا ہوا درخت تروتازہ ہوتاہے تواُس کے لئے وقت درکار ہے ، مختصر لمحات یا چند گھنٹوں میںبے ثمر درخت پھلدار نہیں ہوتا‘ خشک درخت سرسبز نہیں ہوتا‘ سوکھے ہوئے درخت پر برگ وبار نظر نہیں آتے ، سوکھے درخت کا لمحہ بھرمیں تروتازہ اور پھلدار ہوجانا ‘یقیناخداکی اس محبوب بندی کی کرامت ہے ۔
غیب سے بے موسم پھل کی آمد:حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بندکمرہ میں بے موسم میوے آیا کرتے تھے جبکہ وہاں لانے والا کوئی نہ ہوتا‘ جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت نمبر:37میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَکَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنّٰی لَکِ هٰذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ إِنَّ اللّٰهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ -
ترجمہ:جب بھی (سیدنا)زکریاعلیہ السلام ،حضرت مریم علیہا السلام کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو ان کے پاس کھانے کی چیزیں موجود پاتے،آپ نے فرمایا:اے مریم!یہ چیزیں تمہارے لئے کہاں سے آتی ہیں؟انہوں نے کہا:(یہ رزق) اللہ تعالی کے پاس سے آتا ہے،بیشک اللہ تعالی جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔(سورۃاٰل عمران۔37)
اس آیت کریمہ میں کرامت کی حقانیت کا واضح ثبوت ملتا ہے ،حضرت مریم علیہا السلام نبی نہیں تھیں بلکہ ایک ولیہ تھیں،اور جب بھی حضرت زکریاعلیہ السلام آپ کے پاس تشریف لے جاتے تو ملاحظہ فرماتے کہ وہاں مختلف قسم کے پھل موجود ہوتے،گرما کے موسم میں سرما کا پھل میسرہوتا اور سرما کے موسم میں گرما کا پھل موجود ہوتا۔
بغیر موسم کے پھل میسر آجانا اور غیب سے رزق کا آنا حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت ہے۔
اصحابِ کہف کا تین سونو(309)سال آرام فرمانا
حضرت سیدناعیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کے نیکوکار حضرات نے فتنہ وفساد سے بچنے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کے لئے ایک غار میں پناہ لی اور تین سو نو(309)سال غارہی میں قیام پذیر رہے ‘ جیساکہ سورۂ کہف کی آیت نمبر25 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَلَبِثُوْا فِيْ کَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِئَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا- ترجمہ:اور وہ (اصحاب کہف) اپنے غار میں تین (300) سوسال ٹھہرے رہے اور انہوں نے اس پر نو (9)سال زیادہ کئے۔
(سورۃ الکھف:25)
اللہ تعالیٰ کے یہ نیک بندے تین سو نو(309)سال تک غار میں رہے،ان کے جسموں میں تغیر وتبدل نہ آیا،اس عرصۂ دراز تک نہ انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا،انسانی جسم کا تقاضا کھانا پینا ہے ، کوئی شخص بغیر کھائے ،پئے سالوں سال تو درکنار کچھ ہفتے یا مہینے نہیں گزارسکتا ۔
اللہ تعالی کی عظیم قدرت سے اصحاب کہف کی یہ کرامت ہے کہ انہوں نے تین سو نو( 309)سال کا طویل عرصہ غار میں بغیر کچھ کھائے‘پئے گزارا ،ان کے جسم سلامت رہے، اور ان کے در پر رہنے والاکُتَّابھی محفوظ رہا۔
نظامِ شمسی میں تغیر‘ اصحابِ کہف کی کرامت
یہ ایک حقیقت ہے کہ سورج اپنے ایک مقررہ نظام کے تحت گردش کرتا ہے ، نکلنے اور ڈوبنے کے نظام میں نہ ایک سیکنڈ کے لئے تاخیر کرتا ہے نہ طلوع یاغروب کے وقت ایک لمحہ پہلے نکلتاہے اور نہ ایک سینٹی میٹر یا ایک ملی میٹر ہٹ کر طلوع ہوتا ہے ، یہ قدرتی نظام ہے ، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو یہ کرامت وبزرگی عطا فرمائی کہ اُن کی راحت وآرام کے لئے نظامِ شمسی میں تبدیلی واقع ہوئی، جیساکہ سورۂ کہف کی آیت نمبر:17 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَتْ تَزَاوَرُ عَنْ كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِنْهُ ذَلِكَ مِنْ آَيَاتِ اللَّهِ -
ترجمہ: اور آپ سورج کودیکھیں گے کہ جب وہ نکلتا ہےتو ان کے غار سے دائیں جانب ہٹ کر گزرتا ہے اور جب وہ ڈوبتا ہے تو بائیں طرف کتراتا ہوا ڈوبتا ہے اور وہ (اصحاب کہف)غار کے ایک کشادہ حصہ میں ہیں، یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہے۔
(سورۃ الکھف۔17)
اس آیت کریمہ میں اصحاب کہف کی اس کرامت کا ذکر ہے کہ جتنا عرصہ انہوں نے غار میں گزارا اتنے عرصہ تک سورج نے اپنی روش کو تبدیل کردیا،جب وہ طلوع ہوتا تو دائیں جانب ہوجاتا اور جب غروب ہوتا تو بائیں جانب ہوکر غروب ہوتا،اس طرح سورج کی شعاعیں ان پر نہ پڑتیں۔
سورج کا اپنے مقررہ نظام سے ہٹ کر اس طرح طلوع وغروب ہونا قدرتِ خدا وندی کی دلیل اوراصحاب کہف کی کرامت ہے۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
وکان ذلک فعلاً خارقاً للعادة وکرامة عظيمة خص الله بها أصحاب الکهف-
ترجمہ:سورج کا اس طرح طلوع اور غروب ہونا ایک خلاف عادت واقعہ ہے اور وہ عظیم کرامت ہے جو اللہ تعالی نے اصحاب کہف کو عطا فرمائی۔
(التفسیر الکبیرللرازی،سورۃ الکھف۔17)
لمحہ بھر میں میلوں دور سے وزنی تخت حاضر کرنا‘ آصف بن برخیاء کی کرامت
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے لشکر سے فرمایا کہ تم میں کون ایسا شخص ہے جو بلقیس کے آنے سے پہلے ان کے تخت کو میرے پاس لے آئے؟تو جنات میں سے ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا کہ آپ اپنے مقام سے اٹھنے سے قبل میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں،آپ نے فرمایا:مجھے وہ تخت اور جلد چاہئیے! تب حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت چاہی اور پلک جھپکنے سے پہلے آپ کی خدمت میں وہ تخت لے کر حاضر ہوگئے۔
جیساکہ سورئہ نمل کی آیت نمبر:40 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِنَ الْکِتَابِ أَنَا آَتِيْکَ بِهٖ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي۔
ترجمہ:حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں) ایک شخص نے عرض کیا:جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اس (تختِ بلقیس)کو آپ کے پاس لاسکتا ہوں،اس سے قبل کہ آپ کی آنکھ جھپکے۔پھر جب (سلیمان علیہ السلام)نے اس (تخت)کو اپنے پاس رکھا ہوا پایا تو فرمایا:یہ میرے رب کا فضل ہے۔(سورۃ النمل۔40)
اس آیت کریمہ میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کے امتی حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت مذکور ہے۔
تختِ بلقیس سونے کا بنا ہوا تھا،جس پر یاقوت ،زمرد اور موتیاں جڑی ہوئی تھیں،وہ تخت سات محلوں میںسے اندر کے محل میں محفوظ رکھا ہوا تھا،دروازے مقفل تھے،پہرے دار نگرانی کررہے تھے ، یہ بات عقل میں نہیں آتی کہ اس قدر وزنی اور محفوظ تخت کو لمحہ بھر میں ایک ملک سے دوسرے ملک لایا جاسکے، حضرت آصف بن برخیاء رحمۃ اللہ علیہ نے لمحہ بھر میں اس بھاری اور وزنی تخت کو ملک یمن سے ملک شام حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کردیا۔
جیساکہ علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
وکان من ذهب مُفصَّص بالياقوت والزبرجد واللؤلؤ -فجعل في سبعة أبيات، بعضها في بعض، ثم أقفلت عليه الأبواب... حتي إذا دنت جمع من عنده من الجن والإنس، ممن تحت يديه، فقال: ( يا ايها الملأ ايكم يأتينی بعرشها قبل أن يأتوني مسلمين ).قال عفريت من الجن أنا آتيک به قبل أن تقوم من مقامک وإني عليه لقوي أمين... فلما قال سليمان: أريد أعجل من ذلک، ( قال الذی عنده علم من الکتاب ) قال ابن عباس: وهو آصف کاتب سليمان. وکذا روی محمد بن إسحاق، عن يزيد بن رومان: أنه آصف بن برخياء ... وسأله أن يأتيه بعرش بلقيس -وکان فی اليمن، وسليمان عليه السلام ببيت المقدس-(تفسیر ابن کثیر،سورۃ النمل۔40)
مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے کرامتوں کا صحیح اور برحق ہونا‘ عیاں ہوتاہے ۔
حدیث شریف سے کرامت کا ثبوت
احادیث شریفہ میں گزشتہ امتوں کے اولیاء کرام کی کرامتیں اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کی کرامتیں تفصیل کے ساتھ وارد ہیں، جنہیں بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب لکھی جاسکتی ہے ، یہاں بطور استدلال ایک حدیث پاک ذکر کی جارہی ہے جس سے کرامت کی حقانیت واضح ہوتی ہے ، چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ : إِنَّ اللَّهَ قَالَ مَنْ عَادَي لِيْ وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِي بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّی أُحِبَّهٗ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهٗ کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهٖ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهٖ وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا۔ وَإِنْ سَأَلَنِي لأُعْطِيَنَّهُ ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لأُعِيذَنَّهٗ، وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْئٍ أَنَا فَاعِلُهٗ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ ، يَکْرَهُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَهُ مَسَائَتَهُ -
ترجمہ:سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہےمیں اس سے جنگ کا اعلان کرتا ہوں،اور میرا بندہ میری بارگاہ میں کسی چیز کے ذریعہ تقرب حاصل نہیں کیا جو اس فرض سے زیادہ محبوب ہو جو میں نے اس کے ذمہ کیا ہے ،اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مسلسل میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘پھر جب میںاسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے،میں اس کی آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے،میں اس کے پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور بضرور اسے عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو ضرور بضرورمیں اسے پناہ دیتا ہوںاور میں کسی چیز کو کرنا چاہوں تو اس سے توقف نہیں کرتا ،جس طرح مومن کی جان لینے سے توقف کرتا ہوں جبکہ وہ موت کو ناپسند کرے،اور میں اس کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتا۔
( صحیح البخاری ،کتاب الرقاق، باب التواضع ،حدیث نمبر:6502)
اس حدیث قدسی سے اولیاء کرام و صالحین امت کی عظمت وجلالت کا اظہار ہوتا ہے اوران کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب ان کی سماعت وبصارت،کلام وحرکت میں قدرت الہی کار فرما ہے تو وہ اپنے کان سے قریب کی بھی سنتے ہیں اور دور کی بھی،اپنی آنکھ سے قریب کو بھی دیکھ لیتے ہیں اور دور کو بھی، اپنے ہاتھ میں غیر معمولی قوت رکھتے ہیں ، اپنے پیر میں زبردست طاقت رکھتے ہیں، اسی وجہ سے اولیاء کرام اپنی قوت سماعت سے وہ آواز سنتے ہیں جو دوسرے نہیں سن سکتے ، اپنی آنکھوں سے وہ منظر دیکھتے ہیں جسے عام نگاہ نہیںدیکھ سکتی، اپنے ہاتھوں میں گرفت ودستگیری کی وہ قوت رکھتے ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہوتی ، وہ اپنا زورقدم اس طور پر رکھتے ہیں کہ آن واحد میں کئی منازل طے کرلیتے ہیں۔
احادیث شریفہ میں سابقہ امتوں کے اولیاء عظام اور صحابہ کرام کی کرامتیںتفصیل کے ساتھ بیان کی گئیں، علماء اعلام نے کرامات کے اثبات وبیان میں ضخیم کتابیں تصنیف کی ہیں ،اس سلسلہ میں امام ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 430ھ )کی کتاب ’’حلیۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء ‘‘،امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 465ھ)کی کتاب ’’الرسالۃ القشیریۃ‘‘، علامہ عبداللہ بن اسعد یافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 768ھ)کی کتاب ’’روض الریاحین فی حکایات الصالحین ‘‘اور علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1350ھ) کی کتاب’’جامع کرامات الاولیاء ‘‘ بالخصوص قابل دید ہیں ۔
صحابہ کرام واہل بیت عظام رضی اللہ عنہم کی کرامتیں کتب حدیث وسیرمیں موجودہیں،یہاں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی چند کرامات ذکر کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے تاکہ ان کرامتوں کو پڑھنے اور سننے سے ان حضرات کا تقدس دلوں میں جاگزیں ہو۔
No comments:
Post a Comment