قیادت و لیڈرشپ کے قرآنی اور نبوی ﷺ اصول
محترم قارئینِ کرام : قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ باشعور ، باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی ، امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ قیادت متعین مقاصد کے حصول کےلیے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طے شدہ سمت پر گامزن کرنے کا نام ہے ۔ تاثیر و کردار کے مجموعہ کو قیادت کہتے ہیں ۔ لوگوں کے کسی گروپ ، جماعت ، تنظیم یا ادارے میں تحریک پیدا کر کے آگے بڑھنے کےلیے ان کودرست رہنمائی فراہم کرنا تاکہ وہ طے شدہ منزل کو پاسکیں ، لیڈرشپ یا قیادت کہلاتا ہے ۔ یعنی بصیرت اور وژن کی بنیاد پر لوگوں کو کسی اہم مقصد پر جمع کرکے ان میں تحریک پیدا کرنا اور پھر ان کو منزل کی طرف بڑھانا لیڈرشپ ہے ۔ جوشخص یہ سرگرمی سرانجام دے اسے قائد یا لیڈرکہتے ہیں ۔ قیادت کا بنیادی مقصد لوگوں کودرست رہنمائی فراہم کرنا اور مسائل کے حل میں ان کی مددکرنا ہوتا ہے ۔ لیڈرشپ جب اہل ، باشعور ، با صلاحیت ، باکردار اور دیانتدار ہو تو لوگوں کے انفرادی مسائل اور قوموں کے اجتماعی مسائل آسانی سے حل ہونے لگتے ہیں ۔ قیادت درحقیقت تاثیر اور کردار کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اس وقت دنیا میں ہمیں جو قومیں ترقی کرتی نظر آرہی ہیں اس کا بنیادی سبب ان کو باکردار اور باصلاحیت لیڈرشپ کا میسر آنا ہی ہے ۔ اس کے برعکس دنیا کی جو قومیں مسائل کا شکار نظر آ رہی ہیں اس کا بھی ایک اہم اور بنیادی سبب نااہل اور بدکردار لیڈرشپ ہے ۔
لیڈرشپ کی اہمیت کو ظاہر کرنے کےلیے کہا جاتا ہے کہ جب لیڈر شیر ہو اوراس کے پیچھے بھیڑیں بھی چل رہی ہوں تو وہ اپنے آپ کو شیر جیسا محسوس کرتی ہیں اور شیروں جیسا رویہ اپناتی ہیں کیونکہ ان کا لیڈر شیر ہے ۔ اس کے برعکس اگر لیڈر بھیڑ ہو اور پیچھے سارے شیر چل رہے ہوں تو بھی وہ اپنے آپ کو اندر سے بھیڑ ہی محسوس کرتے ہیں اور بھیڑوں جیسا رویہ اپناتے ہیں ، کیونکہ ان کا قائد اور لیڈر بھیڑ ہے ۔ بالکل اسی طرح جب انسانوں کا لیڈر شیر جیسا ہوتا ہے باکردار اور باصلاحیت ہوتا ہے تو وہ اپنی بھیڑوں کو بھی شیر بنا دیتا ہے لیکن اگر لیڈر بھیڑ کی طرح بے ہمت ہو ، حکمت و بصیرت اور شعور سے خالی ہو ، تعیش پسندی اور سستی وکاہلی کا شکار ہو ، اس میں کرداراور صلاحیتوں کا فقدان ہوتو وہ اپنے پیروکاروں کی صلاحیتوں کو بھی ڈبو دیتا ہے لہذا لیڈر شپ بہت اہم چیز ہے ۔
لیڈرز کی تین قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم پیدائشی لیڈرز کی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ موروثی طور پر لیڈرشپ کے اوصاف یعنی کردار و تاثیر اپنے ساتھ لے کر پیداہوتے ہیں ۔ یہ زندگی میں کسی بھی مقام پرکھڑے ہوں اور کسی بھی قسم کے حالات سے دوچار ہوں لیکن ان کی فطری لیڈرشپ جھلکتی ہوئی خودبخود سامنے آجاتی ہے ۔ لیڈرشپ ان کی گفتگو سے ، باڈی لینگویج سے اور رویوں یا ایٹی چیوڈ سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مثلاکوئی ہنگامی صورتحا ل ہو تو ایسے لوگ خود سے سامنے آتے ہیں اور صورتِ حال پر قابوپانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
دوسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جو فطری طورپر لیڈر تو نہیں ہوتے لیکن زندگی میں اچانک افتاد ان پر ایسی آجاتی ہے یا حالات اچانک کچھ اس طرح پلٹا کھاتے ہیں کہ وہ خودبخود لیڈرشپ کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔اب حالات اور مجبوری کی وجہ سے وہ لیڈر کا کردار ادا کرنا شروع کرتے ہیں اور پھر کرتے کرتے لیڈرشپ کے اوصاف سیکھ جاتے ہیں یوں وہ بھی لیڈربن جاتے ہیں ۔ مثلا ایک لڑکا اچانک والد کی وفات کی وجہ سے باپ کی سیٹ سنبھالتا ہےاوروالد کی ساری ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کرتا ہے ۔ اب ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے کرتے وہ بھی لیڈرشپ سیکھ جاتا ہے حالانکہ یہ صفت شاید اس میں پہلے سے موجود نہ ہو ۔
تیسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جو پیدائشی طور پر لیڈرشپ کی صلاحیتوں کے مالک تو نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو ایسے حالات ملتے ہیں جن سے وہ لیڈرشپ سیکھ سکتے لیکن وہ شعور ی طور پر اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور اسے سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کرتے ہیں ۔ مثلاً کتابوں کے ذریعے ، کورس ورک سے ، وڈیوز ، ورکشاپس ، پریزنٹیشن سے یاکسی مینٹور سے رہنمائی حاصل کرکے یا خود اپنی پریکٹس سے ۔ اس طرح وہ لیڈرشپ اور اس کے اوصاف کو سیکھ کر پریکٹس کرنا شروع کرتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد لیڈر بن جاتے ہیں ۔ اس عنوان کے تحت ہم لیڈرشپ کے کچھ اوصاف بھی ذکر کریں گےاگر آپ میں یہ اوصاف فی الحال موجود نہیں تو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ آپ کے اندر سیکھنے کا شوق ، محنت کا جذبہ اور مستقل مزاجی کی صفت ہو تو آپ لیڈرشپ سیکھ سکتے ہیں اور کامیاب لیڈربن سکتے ہیں ۔
لیڈر کا تصور ہمارے معاشرے میں بہت ہی محدودمعنی کا حامل ہے عام طور پر سیاسی لیڈرز کو ہی لیڈر سمجھاجاتا ہے اس کے علاوہ لیڈرشپ کا تصور کم ہی پایا جاتا ہے ۔ حالانکہ لیڈرشپ کی تعریف کے مطابق دنیا کے ہرکام کی انجام دہی اور ہر میدان عمل میں قیادت کرنے کو لیڈرشپ کہا جا سکتا ہے ۔ چاہے وہ سیاسی میدان کی قیادت ہو یاتعلیمی میدان کی ، معاشی اور معاشرتی میدان کی قیادت ہو یا مذہبی میدان کی ۔ گھرکے لوگوں کی قیادت ہو یا کسی ادارے کے انتظام انصرام کی قیادت ، کھیلنے والی ٹیم کی قیادت ہو یامیدانِ جنگ میں لڑنے والی فوج کی قیادت ، کسی بزنس و کاروبار کی قیادت ہو یا سڑکوں پر ہونے والے جلسے جلوس کی قیادت ہو یاکسی اور اہم پروجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم کی قیادت ہو ۔ مسجد کی امامت و خطابت ہو یاکسی تعلیمی ادارے میں طلبا کو پڑھانے کی ذمہ داری ہو ، غرض یہ سب قیادت کی مختلف شکلیں ہیں اور ان کاموں کو انجام دینے والے لوگ اپنی اپنی جگہ لیڈر اور قائد کا رول ادا کرتے ہیں اور لیڈر کہلانے کے مستحق ہیں ۔ چشتی ۔
صرف لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر تقریریں کرنے سے لیڈر بنا جا سکتا ہے اور نہ ہی بغیر وژن اور پلاننگ کے بلند بانگ دعوی کرنے سے لیڈر کہلایا جا سکتا ہے ۔ لیڈر کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے سے بنا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے پروجیکٹ پر اپنے نام کی تختی لگانے سے لیڈر بنا جا سکتا ہے ۔ لیڈر کرپشن کامال اکٹھا کرنے سے بنا جا سکتا ہے نہ زندہ باد اور مردہ باد وغیرہ کے نعرے لگوانے سے ۔ لیڈر ٹائی کوٹ پہننے اور مغربی گیٹ اپ اپنانے سے بنا جا سکتا ہے نہ ہی صرف انگریزی بولنے اور اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرنے سے بنا جا سکتا ہے ۔ لیڈرشپ گریڈ ، عہدے ، پیسے اور اتھارٹی کی محتاج ہے اورنہ ہی ہائی لیول پروٹول کے ساتھ گھومنے کی محتاج ہے ۔
حقیقی معنی میں لیڈر وہ ہے جس میں کردار اور تاثیر ہو اور وہ اجتماعی مفاد کا پاسبان ہو ۔اس میں ایمان داری اور دیانتداری کے اوصاف ہوں ، جس میں قربانی اور خدمت کا جذبہ ہو ۔جس میں ذاتی مفاد پر طے شدہ ہدف کے حصول کاجذبہ حاوی ہو ۔ جس میں وعدے کی پاسداری ہو ، جس میں منزل کو پانے کی جستجو اور لگن ہو ۔ جس کا اپنا دامن ہر طرح کی آلودگی سے صاف ہو اور وہ لوگوں کےلیے رول ماڈل ہو ۔ وہ ٹیم کا حصہ بن کر رہتا ہو اور عسر و یسر میں اپنی ٹیم کو کبھی مایوس نہ کرتا ہو ۔ وہ وژنری انسان ہو جو حال میں رہتے ہوئے مستقبل سے آشنائی رکھتا ہو ۔ وہ قوم ، وہ ادارہ ، وہ جماعت ، وہ تنظیم اور وہ گروہ خوش قسمت ہے جس کے پاس بہترین قائد ، اچھا رہنما اور حقیقی لیڈر موجود ہو ۔ حقیقی لیڈر جس کمیونٹی کے پاس ہوتا ہے وہ کمیونٹی دنیا میں ضرور ترقی کرتی ہے ، اعلی مقام حاصل کرتی ہے ۔ اور جو کمیونٹی بدقسمتی سے ایسی لیڈرشپ سے محروم ہو وہ دنیا میں مستحکم ہوپاتی ہے نہ آگے بڑھ سکتی ہے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہماری دنیا میں موجود ہیں ۔
کسی بھی اسلامی ریاست کےلیے ایک صالح قومی قیادت و لیڈر شپ لازمی و ابدی امر ہے جو اپنے دائرہ اختیار اور ریاست کی حدود میں حدود اللہ اور حدود العباد کاپوری طرح سے نفاذ ممکن بناتی ہے ۔ اگر دنیا میں صالح قیادت کے قیام کا اصول اور فرد کے باہمی تعلق کی حدود و قیود واضح کردی جائیں تو انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ معاشرتی، معاشی، مذہبی ظلم و جبر سے نجات پالے ۔
قیادت کا لفظ اردو میں ’’قائد‘‘ سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی ’’ فوج کا سردار ، حاکم ، اندھے کی لاٹھی پکڑکے چلنے والا رہنما لیڈر ۔ (فیروز اللغات لاہور فیروز سنز 2008ء صفحہ 944)
قیم ’’ قائم کرنے والا ، نگران ، منتظم ، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے ۔ (المنجد قدیمی کتب خانہ 1998ء صفحہ 968،چشتی)
قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو-قیادت کوئی آسان اور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے-قائد کوہروقت اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ برا ہوکر ہی قائد اعتماد، استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے ۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو ، ممکن نہیں ہے ۔ اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ آج ہم قیادت کا مطلب کسی فرد واحد کی آمریت کو سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے عین مغائر ہیں ۔ فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد و مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کر تے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں ۔ آمریت پسند فرد واحد کی قیادت اپنی ذات کو حقیقی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دیتی ہے ۔ دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں جٹی رہتی ہے اور عوام ان نعروں کی گونج میں اجتماعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتارہوجاتی ہے ۔
مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا شخصیات کی آڑ اور قوم کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوا بلکہ کیا جارہاہے لیکن آج تک یہ اپنے استحصال سے بے خبر ہیں ۔ اس منظر نامے کی تبدیلی کےلیے نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے -طلبہ میں اخلاص ، شعوری اور استعداد پیدا کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں حقیقی قائدانہ اوصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے-قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 59)
ترجمہ : اے ایمان والوں اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور اپنے اولو الامر (صاحب امر) کی ۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے ۔ اُوْلِي الْأَمْر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے ۔ قیادت (اُوْلِي الْأَمْر) کے احکامات و نظریات قرآن ِ حکیم کی قطعی نصوص و احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متضاد نہ ہوں ۔ صاحبِ امر(قیادت) کے نظریات ، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ باغی ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی ، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں متقی، باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خدا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو ۔ اللہ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ، رہنمائی اور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے ۔ انسان اللہ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے ۔ اساتذہ اپنے تلامذہ ، اکابر اپنے اصاغر ، راعی اپنی رعیت ،بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے کے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے ۔ قوم و ملت کی قیادت کے فرائض کی انجام دہی کےلیے قیادت کا اولوالعزم ، دوراندیش اور عقابی نگاہ کا حامل ہونا لازمی گردانا گیا ہے ۔ قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کےلیے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے ۔ کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو زندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کر سکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو ۔ قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں ۔ قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط ہے اور ہر طرح کی زمانی اور مکانی حدود کی قید سے آزادبھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیم و ہدایت بذات خود ایک زندہ معجزہ ہے ۔ چشتی ۔
قیادت انسانی معاشرے کی ضرورت ہے ۔ قیادت کے درج ذیل مقاصد ہیں : انسان اپنی ذات ، خاندان، معاشرہ ، امت ، مملکت اور انسانیت کی فلاح کیلئے کوشش کرتا ہے اور انسان کے ان مقاصد کاحصول قیادت کی اتباع سے ہی ممکن ہے- قیادت کا مقصد ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو اور انسان کے بنیادی حقوق کو شریعت اسلامیہ نے مقاصد شریعہ کانام دیا ہے جو درج ذیل ہیں : ⏬
تحفظ دین، تحفظ جان ، تحفظ عقل ، تحفظ مال اور تحفظ نسل ۔ معاشرہ میں انتظامی امور کی انجام دہی کےلیے قواعد وضوابط کی اتباع اور نفاذ ضروری ہے تاکہ ریاست کے داخلی و خارجی امور منظم طور پر انجام دئیے جائیں ۔ ان تمام امور کی انجام دہی قیادت سے ہی ممکن ہے کیونکہ قیادت کا مقصد اجتماعی مصالح کا تحفظ اور عملداری ہے ۔
مقاصدِ شریعہ کاحصول انتظامی امور بہتر طورپر انجام دینے سے ممکن ہے کیونکہ اگر انتظامی امور بہتر طورپر انجام دئیے جائیں تو نتیجہ امن وامان کی صورت میں برآمد ہوگا ۔ کیونکہ امن و امان کا قیام قیادت کا پہلا بنیادی مقصد ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کےلیے اخوت کا لازوال رشتہ قائم کیا ۔
قیادت کا مقصد ملک میں عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے ۔ انصاف ایک ترازو ہے جس کے قیام سے معاشرے کے تمام فریقوں اور طبقات میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ بحیثیت مجموعی ترقی کرتا ہے ۔ کسی بھی قوم کی ترقی و بقاء کا راز نظامِ عدل کے شفاف اور مؤثر ہونے پر ہی ہے اور نظامِ عدل کے قیام کیلئے معاشرے میں قیادت کا ہونا ضروری ہے ۔
قیادت کے مستحکم اور مؤثر ہونے سے مملکت میں عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام یقینی ہو جاتا ہے جس کی بدولت معاشرے میں عوام وخواص کی زندگی میں بہتری اور خیروبرکت آتی ہے ۔ اس طرح مملکتِ اسلامیہ میں حکمران اور عام افراد کے درمیان عدل و انصاف ، بڑوں اور چھوٹوں کے مابین رحم و محبت ، قوی اور کمزور کے مابین یکساں حقوق سے ملک میں معیارِ زندگی بہتر ہو جاتا ہے ۔ یعنی قیادت انسانی زندگی میں بہتری لانے کا ذریعہ ہے ۔
قیادت کی پہچان ان کی اقدار سے ہوتی ہے ۔ یعنی لوگ قیادت کی صداقت، دیانت، تقویٰ اور انصاف کو مانتے ہوں- لہٰذا ایک قائد، رہبر اور حکمران جو لوگوں کو دنیا اور آخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے، ان کی مشکلات کودور کرنا چاہتا ہے ، اس میں چندایک ایسی صفات ہونی چاہئیں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اور لوگوں کا اعتماد اس پر باقی رہے ۔ لہٰذا اس ضمن میں ایک اسلامی ریاست کی حقیقی و صالح قیادت کیلئے لازمی ہے کہ وہ درج ذیل بنیادی اوصاف کی حامل ہو : ⏬
عدل و انصاف : اللہ تعالیٰ عادل ہے اور انصاف کو پسند کرتا ہے- عدل ایمان کی جان اور معاشرے کی روح ہے ۔ عدل پر ہی معاشرتی زندگی کا دار و مدار ہےاور عدل و انصاف ہر شہری کا حق ہے۔ لہٰذا قیادت کا فرض ہے کہ وہ عدل کے قیام کو یقینی بنائے ۔ قائد انصاف پسند صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللہ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 58)
ترجمہ : بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرواور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے ، بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے ۔
درج بالا آیتِ مبارکہ میں امت کے ارباب بسط و کشاد اور اسلامی ریاست کے قائدین کو واضح الفاظ میں نصیحت کی گئی ہے-حکومتی عہدوں پر تقرری کےلیے کنبہ پروری اور دوست نوازی کی بجائے صرف اہلیت کو معیارقرار دینا بھی اس حکم کی تعمیل میں داخل ہے-ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جب تم عدالتی کرسی پر بیٹھو اور لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے اصولوں کو قطعاً نظر انداز مت کرنا ۔ اس کے ساتھ دوسرا سبق یہ بھی دیا گیا ہے کہ کرسئ عدالت پر صرف ان لوگوں کو بٹھاؤ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں ۔
اسلامی تعلیمات میں مساوات سے مراد دو امور بالکل واضح ہیں:ایک قانونی مساوات اور دوسری معاشرتی مساوات-قانونی مساوات کے حکم کے تحت تمام افراد کے لئے ایک ہی قانون ہے - چاہے وہ امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا ورکر، حاکمِ وقت ہو یا عام فرد، عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت سب کیلئے قانون کی پابندی یکساں ضروری ہے ۔ اسلامی قوانین کے مطابق قیادت سے لے کر ایک عام فرد تک سب پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی قانون سے بالا ترتصور نہیں کیا جاتا ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا یا نہیں کیا جاتا ۔ اس کو ہم المیہ ہی کہہ سکتے ہیں ۔ جبکہ معاشرتی مساوات سے مراد یہ ہے کہ نشست و برخاست میں ، عبادات اور سماجی تقریبات میں یا عام اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت اور فضیلت حاصل نہیں ہے-فضیلت کا معیار خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں بیان فرمادیاہے:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 13)
ترجمہ : یقیناً تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم میں سے پرہیزگار ہے ۔
دائرہ اسلام میں شامل تمام افراد اپنے آپ کو غیر مشروط طور پراللہ رب العزت کی منشاء کے آگے جھکا دیتے ہیں اور اس طرح وہ سب مساوی قرار پاتے ہیں اور قیادت پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ یکساں طور پر ریاست کے تمام افراد کیلئے مواقع پیدا کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب میں پایا جانے والا وہ غرور جو وہ اپنے حسب و نسب کی وجہ سے کیا کرتے تھے، جڑ سے اکھاڑ کر مٹا دیا اور ان میں پائے جانے والے تمام اختلافات کو مٹاکر آفاقیت اور انسان دوستی کا درس دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسانیت کو ایک ایسی مثالی مساوات کا درس دیا کہ جس زمانے میں لوگ اس تصور سے بالکل ناآشنا تھے ۔
حلم و برداشت : اسلامی ریاست میں قیادت کے اصولوں میں سے ایک اہم چیز حلم و برداشت ہے- حلم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناگوار بات کو انتقام کی قدرت رکھتے ہوئے بھی برداشت کیا جائے اور کسی طرح کا بغض اپنے دل میں نہ رکھا جائے- حلم وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت ہے اور اس صفت کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْن ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 134)
ترجمہ : اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو امورِ زندگانی سرانجام دینے کےلیے ہرایک شخص کوغیض وغضب کے وقت میں صبر کرنے ، نادانی و جہالت کے وقت حلم اور بردباری پر قائم رہنے اور برائی کے مقابلے میں عفودرگزر کا حکم دیا ہے-جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کا حکم دے رہا ہے تو قوم کے لئے بطریقِ اولیٰ ا س کا حکم ہے ۔ چشتی ۔
کسی قوم کے نظام کی کمزوری اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب اس میں گروہ بندیاں اور فرقے پیدا ہونے لگتے ہیں- یہ تقسیم در حقیقت پوری قوم کو تقسیم اور کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اصول دیا کہ امت میں فرقے کو پنپنے نہ دیا جائے ۔ اس تفرقے کو غیر اسلامی اور شر قرار دیا گیا –یہی وجہ ہے کہ اُمت کو اس سے سختی سے روکا گیا ہے ، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 105)
ترجمہ : ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جنہوں نے فرقہ بندی کی اور واضح آیات آجانے کے بعد اختلاف کیا ۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : إِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 159)
ترجمہ : وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور وہ فرقوں میں بٹ گئے ، تمہارا ان سے کوئی واسطہ نہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس تفرقے سے بچنے کا علاج بھی بتادیاہے- ارشادِ ربانی ہے : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 103)
ترجمہ : اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے کا شکار مت ہو ۔
اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جب انسان اپنے ہم جنسوں اور دوسری مخلوق سے پیش آئے تو اس حیثیت سے کہ وہ کائنات کے مالک کانمائندہ ہے اور ایک نمائندہ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ اپنے اسی رنگ میں پیش کرے جو خود مالک کا رنگ ہے- اس لیے انسان کو اپنے اندر وہ صفات پیداکرنی چاہئیں جومالک کی صفات ہیں ۔ مثلاً رحم ایک صفت ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہ بے شک رحمٰن اور رحیم ہے ۔ پھر بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ وہ اپنے اندر رحم کی صفت پیدا کریں- اسی طرح خطا اور قصور معاف کرنا اور دوسروں کے عیب چھپانا بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے لہٰذا بندوں کو بھی انہی صفات کا حکم ہے- معاشی لین دین ہو یا سماجی برتاؤ، سیاسی معاملات ہوں یا افرادِ خانہ سے سلوک ، اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل و انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۔ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 134)
ترجمہ : اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔
خدمت خلق یہ ہے کہ بغیر کسی غرض کے بے لوث ہوکہ کسی کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائےجواس کے لئے فائدہ مند ہواور یہ برتاؤ عقلاً اور شرعاً صحیح ہو- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَة ۔ (سورہ الحشر آیت نمبر 9)
ترجمہ : اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو ۔
خدمتِ خلق قیادت کے خواص میں سب سے اہم ہے ۔ ریاست میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور بگاڑ و خود غرضی کو ختم کرنے کےلیے قومی قیادت کو خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہونا پڑے گا- اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا انسانی اخلاق کا نہایت اعلیٰ جوہر ہے ۔ اسی بناء پر اگر قیادت مملکت و ریاست کےلیے بے لوث خدمت گزار بن جائے تو ایسی ریاست میں خوشحالی وکامرانی اور امن وامان کا قیام ایک لازمی ابدی امر ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جب امور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1631)
دین دار عادل بادشاہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے بادشاہ جو لوگوں کا سربراہ ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 7138،چشتی)
قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اللہ کا کنبہ ہیں، اس اعتبارسے انسان فطرتاً مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے لیکن زمین میں اصلی حاکمیت اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔وہی تنہا اس کائنات کا خالق و مالک اورحاکم ہے اور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندوں کیلئے نظام زندگی تجویز کرے اور ان کےلیے قانون بنائے ۔ یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے ۔
اسلامی ریاست میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنے کامنصب اولوالامرکے سپرد کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصال مبارک کے بعد یہ ذمہ داری امت کی قیادت یعنی ارباب حل و عقد کی طرف منتقل ہوئی ۔ وہ اس بات کیلئے پابند ٹھہرے کہ وہ اللہ کی زمین میں اس کے احکام و قوانین نافذ کریں ۔ خود بھی ان کی اطاعت کریں اور دوسروں سے بھی اطاعت کرائیں ۔ یہ قائدین درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی اطاعت واجب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو ، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 59)
اسلام نے اپنے نظام اطاعت میں قائدین کو بلند منصب اس لیے دیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کے زمین میں نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس منصب کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے قانون کی اطاعت کریں اور اس کے بندوں کے اندر اسی کے قانون کو نافذ کریں ۔
اس طرح ان کے منصب کا بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود رب کائنات کے قانون کی نافرمانی کریں اور نہ دوسروں کو کسی ایسی بات کا حکم دیں جو رب کائنات کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں سے اطاعت کا یہ مطالبہ اس بنیاد پر ہے کہ اس کائنات کا حقیقی حکمران وہی ہے ۔ بندوں کا حقیقی منصب صرف اطاعت کا ہے اور اگر وہ کوئی تصرف کا حق رکھتے ہیں تو صرف اس کے نائب کی حیثیت سے ۔ اس وجہ سے ان کے لیے یہ بات کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اصل حکمران کے حکم کے خلاف حکم دیں اور اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو وہ اپنا وہ درجہ از خود ختم کر دیتے ہیں جو اسلام نے ان کےلیے تسلیم کیا ہے ۔
قائدین کےلیے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہوں ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو دینی و قانونی سند مانتے ہوں ۔ اسلام کے احکام و شرائع کے پابند ہوں ۔ تہذیب و معاشرت میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ حلال و حرام کے بارے میں اسلام کے مقرر کی ہوئے حدود کے پابند ہوں ۔ اسی لیے ایک خلیفۃ المسلمین ازروئے شریعت اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو من وعن جاری کرے ۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے ۔
حضرت شیخ محقق عبدالحق محدیث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک رسالہ بعنوان ’’الجواہر القیادت‘‘ لکھ کر مغل فرمانروا شہاب الدین محمد شاہ جہاں کو غالباً تحفہ بھیجا ۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ احادیثِ مبارکہ بیان کیں جن میں حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا اور ساتھ عوام کی بھی رہنمائی کی گئی ۔ ہم اختصار کے ساتھ اسی رسالہ سے چند بنیادی نوعیت کی احادیث نقل کر رہے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، جس نے حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (صحیح بخاری: 2957،چشتی)(صحیح مسلم: 1835)
حضرت ام الحصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم پر ایسا ناک اور کان کٹا غلام امیر بنا دیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمہاری قیادت کرے تو تم اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو ۔ (سنن ابن ماجہ : 2861)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان پر سننا اور حکم بجا لانا واجب ہے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نا پسند ، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے ۔ پس جب اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے قبول کرنا لازم ہے نہ اس کی تعمیل ضروری ہے ۔ (صحیح بخاری: 7144،چشتی)(صحیح مسلم: 1839)
حضرت عباد ہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ، حکم کے سننے اور فرمانبرادی پر تنگی اور فراخی ، خوشی اور ناخوشی میں اور اس صورت میں جب دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور اس بات پر کہ ہم اقتدار کے بارے میں اقتدار کے اہل سے جھگڑا نہیں کریں گے اور ہم حق بات کہیں گے ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے امیرسے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے ، کیونکہ کہ جو شخص بھی جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوا ، پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمائیں کہ اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہو جائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمیں ہمارا حق نہ دیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے لیے کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا : تم سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جس چیز کے وہ مکلف ہیں ، وہ ان کے ذمہ اور تم جس چیز کے مکلف ہو وہ تمہارے ذمہ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے ، ان میں سے کسی نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرے نبی ان کے جانشین ہوتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ، خلفاء ہوں گے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ فرمایا : پہلے کی بیعت کو پورا کرو اور اس کا حق ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے اس چیز کے بارے میں پوچھے گا جس کی نگہبانی پر انہیں مقرر فرمایا تھا ۔
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم حکومت طلب نہ کرو ، کیونکہ اگر مانگنے پر تمہیں حکومت دی گئی تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤگے اور اگر مانگے بغیر تمہیں حکومت دی گئی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے حاکم کیوں نہیں بنا دیتے ؟ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا : ابوذر تم کمزور ہو اور حکومت امانت ہے ، وہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہے ، سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حق کے ساتھ حاصل کیا ، اور اس میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں وہ ادا کیں ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہیں فرمایا : ابو ذر ہم تمہیں کمزور دیکھتے ہیں، اور ہم تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتے ہیں جو ہمیں اپنے لیے پسند ہے ، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا اور یتیم کے مال کا متولی نہ بننا ۔
حکایت : شیخ عبدالوہاب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ گجرات (ہند ) میں حضرت شیخ علی متقی علیہ کے دل میں یہ بات آئی کہ عدل و انصاف کا ثواب بے شمار ہے، اگر یہ ثواب حاصل ہو جائے تو غنیمت ہے ، اس نیت سے کچھ عرصہ منصب عدالت حاصل کرنا چاہیے ، نیز تجربہ کرنا چاہیے کہ باطن کے حضور اور جمعیت کے ساتھ شغل دنیا جمع ہوتا ہے یا نہیں ، سلطان محمود گجراتی آپ کا بہت ہی معتقد اور تابع فرمان تھا ، اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اس بات کو کارخانہ حکومت کےلیے غنیمت اور سعادت جانا ، چنانچہ حضرت شیخ نے داروغہ کا منصب اختیار کر لیا اور کچہری میں بیٹھنے لگے ۔ آپ کے کچھ خدام اور حاضر باش لوگوں نے رشوت لینا شروع کر دی ۔ بادشاہ کو اطلاع ملی کہ شیخ اس تقویٰ و دیانت کے باوجود رشوت لیتے ہیں، افراط تفریط سے کام لیتے ہیں۔ بادشاہ نے اس بات پر یقین نہ کیا تو خبر دینے والوں نے کہا کہ وہ جماعت جو ہمیشہ شیخ کے ساتھ ہوتی ہے ، وہ رشوت لیتی ہے ۔ شیخ کو اس کا علم ہے اور وہ اسے برداشت کررہے ہیں ۔ جب شیخ نے سنا کہ بادشاہ کو اس قسم کی اطلاعات پہنچائی گئی ہیں تو پہلے انہوں نے اصلاح کی کوشش کی ، آخر دیکھا کہ معاملہ نہیں سدھرتا ، ایک دن عدالت کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنا عصا اٹھایا اور وہاں سے تشریف لے گئے ۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دونوں کام جمع نہیں ہوتے خدا کرے عاقبت بخیر ہو ۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! تم سب راعی ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا،بادشاہ لوگوں کا سربراہ و محافظ ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے ، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ، عورت اپنے شوہر کے گھراور اس کی اولاد کی محافظ ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے ، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ خبردار! تم سب محافظ ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ (صحیح بخاری : 7138)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ فرمایا : جب اْمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح بخاری:6131،چشتی)
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص مسلمان رعایا کا والی ہو اور ان کے حق میں خیانت کرتے ہوئے مر جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا ۔
حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بد ترین حکمران وہ ہیں جو ظلم کرتے ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص دس افراد کا بھی حاکم ہو ، قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی گردن میں طوق ہو گا ، یہاں تک کہ انصاف اسے رہا ئی دلا دے یا ظلم اسے ہلاک کر دے ۔
ان ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہلاکت ہے حکمرانوں کےلیے ، ہلاکت ہے سرداروں کےلیے ، ہلاکت ہے امانت داروں کےلیے ، قیامت کے دن بہت سے لوگ آرزو کریں گے کہ کاش ان کی پیشانیوں کے بال ثریا ستاروں کے ساتھ بند ھے ہوتے اور وہ زمین و آسمان کے درمیان حرکت کر رہے ہوتے اور انہوں نے کسی کام کی سرداری نہ لی ہوتی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی باد شاہ کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے سچا وزیر عطا فرماتا ہے ، اگر بادشاہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلائے اور اگر یاد کرے تو اس کی مددکرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھلائی کے ماسوا کا ارادہ فرمائے تو اسے برا وزیر عطا فرماتا ہے ، اگر باد شاہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں دلاتا اور اگر یاد کرے تو اس کی مدد نہیں فرماتا ۔
انسان مدنی الطبع ہے ۔ معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہے ۔ وہ خود اپنا راعی بھی ہے اور رعایا بھی ۔ ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان ہوتا ہے ، جو اسے نیکی و بدی کی طرف ابھارتا ہے ، انسان کو چاہیے کہ اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرے تاکہ اس کے تمام معاملات درست رہیں ۔ اسی طرح میاں بیوی ، آقا و غلام ، اہل ثروت ، امرائے ریاست ، ارباب دین، ماہرین علوم و فنون لازم وملزوم ہیں ۔ سربراہ ریاست خدا کا سایہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نائب ہے ۔ دین دار عادل بادشاہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو غریبوں ، مسکینوں اور مظلوموں کا پشت پناہ اور ڈھال ہے جو ظالموں کی بیخ کنی ہے ۔
حکمرانوں ا ور عہدے داروں کے اہل و عیال بھی عوام کے رکھوالے ہوتے ہیں ۔ بدترین امراء وہ ہیں جو عوام اور عورتوں پر ظالم ہیں۔ بدترین عہدیداران وہ ہیں جو عوام کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں۔ میرٹ پر عہدوں کا تعین کیا جائے۔ عوام کو تاکید کی گئی ہے کہ اگر ان کے ساتھ ناانصافی ہو تو وہ خروج ، بغاوت اور فتنہ انگیزی سے پرہیز کر کے صبر کریں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کریں ساتھ ہی ہجرت (گناہوں کو ترک کرنا) کریں ۔ (الجواہر القیادت صفحہ 11 - 12،چشتی)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں قیادت کو درج ذیل امور کی ہمہ وقت پاسداری کرنی چاہییے : ⏬
قیادت ریاست کے عقیدے اور نصب العین کی پاسدار ہو یعنی وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو یقینی بنائے ۔
قیادت رنگ و نسل اور دیگر امتیازات کو مٹانے اور معاشرے میں اخوت کو فروغ دینے والی ہو ۔
قیادت امانت اور دیانت کی روش کوفروغ دےتاکہ ریاست کے استحکام اور اس کے نظم و ضبط کے قیام میں آسانی ہو ۔
قیادت عدل و انصاف اور مساوات جیسے معاشرتی عوامل کے قیام کو ممکن بنانے والی ہو ۔
قیادت خود غرضی اور لالچ سے دور رہنے والی ہوتاکہ اجتماعی کوششیں بے اثرہوکر نہ رہ جائیں ۔
قیادت اسلامی وحدت و اخوت کوفروغ دینے والی ہو تاکہ رنگ و نسل ، لسانی ، گروہی ، قومی ، قبائلی اور دیگر عصبیتوں اور امتیازات کاخاتمہ ممکن ہوسکے ۔
قیادت ریاست اور رعایا کی معتمد ہو اور علم ودانش کے ساتھ جذبہ صادقہ سے بھی سرشارہو ۔
قیادت پر لازم ہے کہ وہ معاشرتی برائیوں اور فرسودہ رسومات کو ختم کروائے اور امت کےلیے اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ماحول کو سازگار بنائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:
Post a Comment