Wednesday, 19 November 2025

آزادی اظہارِ رائے اور اسلام

آزادی اظہارِ رائے اور اسلام

محترم قارئینِ کرام : آزادی رائے کے اظہار کا جہاں تک تعلق ہے اسلام نے حدود و قیود کی مذکورہ پابندی کے ساتھ اجازت دی ہے ، تبھی تو تاریخ اسلام کے سنہرے اوراق ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں ، ملک عرب میں کھجوروں کے بہت باغات ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عہد مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے غذائی اسباب میں کھجوروں کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔ عربوں کے ہاں ’‘تابیر’‘ کا رواج تھا یعنی کھجور کے درختوں میں جو نر و مادہ ہوتے ہیں ان کے درمیان ایک خاص عمل کے ذریعہ سے اتصال قائم کیا جاتا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک مرتبہ اس سے منع فرما دیا تھا جس کی وجہ کھجور کی فصل جیسی ہونی چاہیے تھی نہیں ہوسکی تھی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب اس کی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے کیے جانے والے تابیر کے عمل کی اجازت مرحمت فرمادی اور فرمایا انتم اعلم بامور دنیاکم ۔ (صحیح مسلم ۲۱۴۵رقم الحدیث ۸۴۳۴)


اسلام اور شعائر اسلام اور اس کے کتاب و سنت سے منصوص احکامات کے سوا دیگر امور میں اسلام کے دیے گئے آزادی رائے کے حق کی وجہ رعایا کے ایک عام آدمی کو بھی یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے آگے بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نماز جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ فرما رہے تھے ’‘اسمعوا واطیعوا’‘ یعنی سنو اور اطاعت کرو ۔ اس وقت ایک صحابی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ نہ ہم آپ کی بات سنیں گے ، نہ عمل کریںگے جب تک کہ آپ ان دو چادروں کے بارے میں وضاحت نہ فرما دیں جو آپ نے اوڑھ رکھی ہیں کیونکہ بیت المال سے سب کو ایک ایک چادر تقسیم ہوئی ہے پھر آپ کے بدن پر دو چادریں کہاں سے آگئیں ، اعتراض معقول تھا، خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ نے اس کا نہ صرف برا نہیں مانا اور نہ ہی کوئی غم و غصہ کا اظہار کیا بلکہ فاروقی جلال رکھنے والی ہستی نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق کے آگے سر تسلیم خم کر کے بڑی نرمی کے ساتھ وضاحت کیلئے اپنے بیٹے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو طلب کیا اور ان سے خواہش کہ وہ اس کا جواب دیں جس پر ابن عمررضی اللہ عنہما نے وضاحت کی کہ خلیفة المسلمین چونکہ طویل القامت ہیں ایک چادر ان کے لئے ناکافی تھی اس لیے میں نے اپنے حصہ کی چادر ان کو بطور تحفہ دی ہے ۔ (اخرجہ البیہقی السنن الکبری ۷۳۳۲،چشتی)


اور ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ مہرپر تحدید عائد کرنا چاہتے تھے لیکن ایک بڑھیا نے آپ کے آگے صدائے حق بلند کی اور کہا کہ اے عمر (رضی اللہ عنہ) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جس پر کوئی تحدید عائد نہیں کی تو پھر آپ کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ اس پر کوئی تحدید عائد کریں ، اس خاتون نے قرآن پاک کی یہ آیت ’‘تم نے بیوی کو مہر کے عوض خزانہ دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو ۔ (النساء۰۲)’‘ کی تلاوت کی ۔ ایک عورت کی فقہی بصیرت سے متاثر ہو کر انہوں نے بے ساختہ یہ کہا ’‘کل احد افقہ من عمر’‘ یعنی یہ بات خوش آئند ہے کہ یہاں تو ہر ایک عمر سے بھی زیادہ فقیہہ ہے اور یہ جملہ بطور اظہار مسرت دو یا تین مرتبہ دہرایا ۔ (تاریخ الخلفاء الراشدین ۱۷۶۱ بحوالہ عیون الاخبار۱۵۵،چشتی)


دنیا کی موجودہ تصویر امت مسلمہ کے سامنے ہے ، ان جیسے حالات میں مسلمانوں کو رد عمل کے طور پر کیا کرنا چاہیے ، اس پر سر جوڑ کر غور کرنے کی ضرورت ہے ، وقتی عمل کے طور پر مسلمانوں کو متحدہ طور پر اسلام دشمن واقعات کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرزور احتجاج کرنا چاہیے اور موجودہ وسائل کو اختیار کر کے اپنے جذبات و احساسات کو سارے سربراہان مملکت اور خاص طور پر اقوام متحدہ کے ذمہ داروں تک پہنچانا چاہیے ، دائمی طور پر ان خرابیوں اور جرائم کے سدباب کےلیے اسلام کے پیغام کو ہر ہر جہت سے دنیا بھر میں عام کرنے کی سعی کرنا چاہیے ۔ اس کام کےلیے اس وقت شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلک و مشرب کے جھگڑوں سے اونچے اٹھ کر تمام مکاتب فکر کے مقتدر علماء و مشائخ سب ایک ہوں اور بیک آواز سب مل کر اس کام کو انجام دیں ، اس موقعہ پر یہ نکتہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلک و مشرب کے اختلافات اسلام میں ہیں نہ کہ اسلام مسلک و مشرب میں ، یہ امت خیر امت ہے دعوت دین اس کی ذمہ داری ہے ، اس ذمہ داری سے کماحقہ عہدہ برآ نہ ہونے کی وجہ دنیا میں اس طرح کے واقعات کا بار بار اعادہ ہے ۔


اللہ نے اسلام کی فطرت میں لچک دی ہے اس کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ابھر کر رہے گا ، اس طرح کے واقعات جہاں دل شکن اور قابل مذمت ہیں وہیں اللہ کی ذات سے یہ یقین بھی ہے کہ اس شر سے ان شاءاللہ العزیز خیر ظاہر ہوگا اور اسلام کے نور ہدایت سے انسانی سینوں کے روشن ہونے کا یہ ذریعہ بنے گا ۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ۹۱۱ کے واقعہ کے بعد امت مسلمہ کو جن مظالم کا شکار بنایا گیا اور جن حالات سے امت مسلمہ کو گذارا گیا وہ ایک غم ناک باب ہے لیکن اس واقعہ کے بعد مغربی ممالک کے رہنے والوں کا اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا ہے ۔ فطری بات ہے کہ جب حق کی مخالفت کی جاتی ہے توسادہ لوح افراد کے ساتھ مخالفین کے اندر بھی یہ تجسس پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا جس کی مخالفت کی جارہی ہے وہ کس حد تک مبنی بر صداقت ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو کچھ طاقتوں کو مخالفت پر اُکسا رہے ہیں ۔


چنانچہ اسلام کی تعلیمات جاننے کےلیے کتاب و سنت و سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے واقفیت حاصل کرنے کےلیے ایک بہت بڑا طبقہ خود بخود مائل ہوا ، دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی زہر افشانیوں کی صداقت تو کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں لگی البتہ یہ ہوا کہ ان کے سینے مبنی بر حق و صداقت ان حقائق سے ایسے معمور ہوگئے کہ جنہوں نے ان کو اسلام کی دہلیز تک پہنچا دیا اور اب وہ اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ حاصل کر کے مطمئن بھی ہیں اور دوسروں کو اسلام کے سائبانِ رحمت میں پہنچانے کی جدو جہد میں مصروف عمل ہیں ۔


آزادی اظہار رائےدنیا کا ایک اہم موضوع ہے۔آزادی تقریروتحریر انسانی حقوق کا ایک اہم جزُ ہے ۔ (General Assembly of the United Nations (1948-12-10). "Universal Declaration of Human Rights'' )pdf) (in English and French). pp. 4–5. Retrieved ,16-09-2017)


انسان کے جذبات اور احساسات کو اگر کوئی ٹھیس پہنچی ہے تو وہ  احتجاج کاحق رکھتا ہے ۔ (Ernest William Hocking,"Freedom of the Press: A Framework of Principle"( A Report from the Commission on Freedom of the Press, 1977, 88-89) 


وہ اپنی مظلومیت کا اظہار کرسکتا ہےتاکہ اُس کو انصاف حاصل ہوسکے ۔ (Johan Milton, Aeropagitica and Other Tracts, 27 (1644))


دنیا کے مفکر متفق ہیں کہ انسان اپنی زندگی کے سلسلے میں آزادہے البتہ یہ ـضروری ہے کہ  اس طرز عمل سے دوسروں پر زیادتی نہ ہو۔ اگر کسی قوم یا شخص کے سیاسی،مذہبی اور اقتصادی و سماجی حقوق پامال کئے جاتے ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز اُٹھا نے کا بھر پور حق رکھتے ہیں  ۔(Lon L. Fuller, "The morality of Law'' 184-186 (1963](.Cited in Dr. Madhabhusi Sridhar, The Law of Expression, An Analytical Commentary on Law for Media 20 (Asia Law House, Hyderabad (2007))


یورپ میں اس طرزِ فکر کی ابتدا وسطی دور میں ہوئی ۔برطانیہ میں اظہار رائے کی تاریخ کا آغاز سولہویں صدی سے ہوتا ہے۔  انسان کی انفرادی آزادی اور جمہوری حقوق کے لیے کوشش ہوئی ۔ (A.V. Dicey, “Introduction to the Study of Law of the Constitution” Macmillan, New York, 1959, 10th edi,. p. 238ff, 247ff)


امریکہ میں اس  رجحان کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسطی دور سے ہوا۔  اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی میں آزادی اظہار رائے کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا  گیا ۔ (Subhash C. Gupta, “Right to Information Act, 2005: A New Approach to Public Accountability” in Law in India Emerging Trends, Publications Bureau, Punjabi University, Patiala (eds.) 2007, p. 291)


انسانی حقوق کے عالمی اعلانیہ کی دفعہ ۱۹ میں  اسے انسانی حق مانا گیا ۔ (United Nations General Assembly Resolution No. 217A (III), 10th December, 1948)


دنیا میں ہر انسان آزاد رہنا چاہتا ہے اُس کی آزادی پر روک اُس کو گوارا نہیں ہوتی ۔ کیونکہ آزادی انسانی فطرت کا ایک انمول پہلو ہے اوراسلام نے بھی اس کا احترام برقرار رکھا ہے ۔


جدید معاشرے میں آزادی رائےایک بنیاد ی حق ہے ، اورآئینی جمہوری عمل میں اس کارول مسلّم ہے ۔  (BEATSON and CRIPPS, Freedom of expression and freedom of information: essays in honour of Sir A. Mason (Oxford University Press, Oxford 2000) 17)


یورپی عدالت نے یہ ا لفاظ درج کیے ہیں : اظہارکی آزادی ایک جمہوری معاشرے کی لازمی بنیادوں میں سےایک ہے ، اس کی ترقی کی بنیادی شرائط میںشامل ہے اورہرفردکی تکمیل ذات کےلئے ضروری ہے ۔ (P. VAN DIJK and others, Theory and practice of the European Convention on Human Rights (4th EdnIntersentia, Antwerpen 2006) 774)


آزادی کی اہمیت کا صحیح ادراک وہی کر سکتا ہے  جوانسانوں کی غلامی سے آزاد ہو ناروا انسانی قانون کا پابند نہ ہو اور  اپنے حقوق  بلا رکاوٹ حاصل کر سکے ،  اسلام نے آزادی پر بہت زور دیا۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اسلام کے مقا صد میں شامل ہے۔ یورپ میں زور دے کر کہا گیا کہ ’’ اظہار کی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن (معلومات حاصل کرنے کا حق) بھی آزادی کاتقاضا ہےان لوگو ںکوبھی یہ حق دیا گیا ہے جنہوںنےکوئی ناشا ئستہ حرکت کی ہو وہ بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ انفار میشن یعنی معلومات حاصل کرسکیں،کیونکہ اس کےبغیرجمہوری معاشرہ اپنے وجود پر قائم نہیںرہ سکتا ۔ (LAWSON and SCHERMERS, Leading cases of the European Court of Human Rights (ArsAequiLibri, Nijmegen 1997) 28،Chishti)


لفظ رائے کے معنی اور تعریف کو دانشور حضرات نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ رائے کا پس منظر انسان کی ذہنی کاوش ہے ہر انسان اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق اظہار رائے کرتا ہے۔ ابن قیم ’’اعلام الموقیعن‘‘ میں لکھتے ہیں’’ غور و فکر اور تحقیق کے بعد مجتہد جو نظریہ قائم کرتا ہے اسے رائے کہتے ہیں ۔ (اعلام الموقعین عن رب العالمین، تخقیق طہ عبد الرؤف سعد، دارالجیل، ١٩٧٣۔جلد، ۲، ص۔۱۴۳،چشتی)


علامہ ابن حزم نے بھی اس موضوع پر گفتگو کی ہے ۔  (المحلی بلآثار، دار الآفاق الجدیدہ، بیروت)


مغرب کا رویہ


مغرب میں مقبول نعرے یہ ہیں : آزادی اظہار رائے،امن و آشتی، روشن خیالی، علم و شعور، وسعت نظر، مذہبی رواداری، شہری آزادی، لیکن مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اہلِ مغرب کا تعصب پر مبنی رویہ سامنے آ جاتا ہے ۔ (آزادی اظہار کے نام پر ، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۲،چشتی)


عصر حاضر میں آزادی اظہار رائے ایک توجہ طلب معاملہ اور حساس موضوع  ہے۔ یہ مشرق و مغرب میں انسانیت کےاہم مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکاہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ عصر حاضر میں  آزادی اظہار رائے کو مبہم انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اصلیت پر پردہ ڈال کراس کو مطلق آزادی کا نام دیا جاتا ہے آزادی اظہار رائے حقیقت میں انسان کے اساسی تصورات  سے مربوط ہے ۔


بعض اہل مغرب نے اسلا م کا مطالعہ اس لیے کیا کہ مختلف اعتراضات کرکےمغربی عوام کو اس سے دوررکھا جائے عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔ قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا گیا تو اس کے پہلے صفحے پر عبارت لکھی گئی کہ عوام کو القرآن کے خطرات سے آگا ہ کیا جاتاہے اس طرح انہوں نے اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی ۔ (بنیاد پرستی اور تہذیبی کشمکش، حرا پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۴، ص۔۱۷۵)


ایسی خیانت انسانیت کے  خلاف کاری ضرب ہے کیونکہ علمی تحقیق کا کام سچ اور حق کو عوام کے سامنے لانا ہے نہ کہ تحقیق کے پردے میں گمراہ کر نا ہے ۔ کثیرالجہت سماج میں  ایک دوسرے کے عقائد اوراصولوں کا احترام ضروری ہے ۔ اظہار رائےکی آزادی حقیقت کوعوام الناس کے سامنے ظاہر کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ آزادی کی موجودگی ترقی کاپیمانہ ہے ۔ آزادی کا مدعا یہ ہے کہ انسان فکر، نظریہ اور سوچ میں حق کو دریافت کرسکے، عمل اور نظام کے بارے میں درست نقطۂ نظر تک پہنچ سکے ۔ فکر ، سوچ یانظریہ کی ترویج کر سکے ۔ اور غلط فکرو عمل پر تنقید کر سکے ۔ (اصلاح معاشرہ ابو الاعلیٰ مودودی)


عالمی ضوابط


آزادیٔ رائے انسان کا بنیادی اور اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔ یہ حق شعورکو پروان چڑھا کر گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ اجتماعی مفاد کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کاعالمی منشور بھی انسان کی آزادی کا قائل ہے اور انسانی آزادی کا اعلان کرتا ہے اس کی دفعات میں جن اصولوں کی وضاحت کی گئی وہ یہ ہیں۔   


ہر انسان چاہےوہ کہیں بھی رہتا ہو اپنی آزادی، جان اور ذات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے وہ انسانی غلامی سے آزادہے اور آزاد زندگی گزارنے کا حقدار ہے اُس کو کسی بھی  صورت میں غلام نہیں بنا یا جا سکتا  ہر صورت اور ہر مقام پر قانون اس کی آزاد شخصیت کو تسلیم کرنے کاذمہ دار ہے وہ اپنی تہذیبی شناخت کا بھر پور اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے اس کو کسی بھی قسم کی  جسمانی اذیّت نہیں دی جاسکتی۔ قانون کی نظر میں سب بغیر کسی تفریق کے امان پانے کے برابر حقدار ہیں، کسی شخص کوقانون کے تقاضے پورے کیے بغیر  محض حاکم کی مرضی پر گرفتارو نظربند نہیں کیا جا سکتا ، فردجرم  عاید نہیں کی جا سکتی اور جلاوطن نہیں کیا جا سکتا ۔ علاوہ ازیں کسی بھی شخص کو اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا پوراحق ہے کسی کواختیار نہیں کہ وہ دوسرے کی عزت اور نیک نامی پر حملہ کرے ۔ ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے حملے یا مداخلت سے محفوظ رکھے۔ہر شخص کا حق ہے کہ اسے  ریاست کی حدود کے اندر نقل و حرکت کی اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ملک سے چلا جائے چاہے یہ ملک اس کا اپنا ہوویسے ہی واپس آجانے کا بھی حق ہے ۔ (Published by the Office of Public Information, United Nations Universal Declaration of Human Rights (Urdu),Reprinted inU.N. OPI/15–15377-June 1965-5M)


اِن تمام بین الاقوامی ضـوابط کے باوجود مغربی تعصب نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے کہیں وہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو داخلہ  سے روکتے ہیں تو کہیںناروا امتیاز  برتتے ہیں ۔ قرآن کریم نے ہر معاملے میں انصاف کی تلقین کی ہے اور صاف واضح گفتگو کی ہدایت کی ہے ۔ (القرآن ؛ ۱۷:۷۰)


حدود کا احترام


اظہارِ رائے کی آزادی کا منشا یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے، البتہ  دوسرے کی تذلیل وکردار کشی کی اور تہمتیں لگا کر نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق شامل ہے، اسلام ہر انسان کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدود کو پامال کرے۔ آزادی اظہار رائے کو حدود  میں رہ کر استعمال کرنا چاہئے ۔ قرآن مجیدمومنوں کی صفت پیش کرتا ہے۔ مومنین کا طرز عمل  یہ ہے کہ حق بات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔


’’وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں‘‘(آل عمران آیت: ۱۱۰) 


عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی لکھتے ہیں کہ :  اسلامی تصور انسانی حقوق کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے ۔ دنیا میں بہت سے اختلافات اس لئے ہوتے ہیںکہ حقوق کے بارے میں ضروری علم کی کمی ہوتی ہے۔ اسلام اور اسلامی حکومت  کے بارے میں کمتر واقفیت  بگاڑ کی ذمہ دار ہے ۔ (Dr. Abdullah bin Abdul-Mushin at-Turki, Islam and Human Rights/25/7/12.Chishti)


اسلام آزادی رائے پر ناروا  پابندی نہیں لگاتا بلکہ حدود اور اصول بیان کرتا ہے اِن حدود اور اصو لو ں کی بنیادپراسلام،  انسان کوغلط فکر، طرز عمل اور غلط راہ اختیار کرنے سے روکتا ہے کیونکہ غلط راہ اور رویہ سماجی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے’’تو بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹ بات بیان کرنےسے بھی بچو ‘‘ ۔ (القرآن ؛ ۲۲:۳۰)


قانونی لغت کےمطابق آزادی اظہار رائے کا مطلب ہے:’’ بغیرکسی رکاوٹ کے اپنے خیالات کا زبانی،تحریری یادیگر زرائع کے ذریعہ اظہار کرنا ۔ (http://www.duhaime.org/Legal Dictionary / F/ Freedom of Expression.aspx /30/7/12)


انسان اپنی رائے کے اظہارمیں آزاد ہے  وہ دوسروںکاپابند نہیں ۔ (Al-Eili, Dr. Abdul Hakeem Hassan , Al-Hurrayat Al-Ammah,Darulfikr Al-Arabi, Beirut , 1983, Pp. 466)


قاہرہ کےانسانی حقوق کےاعلانیہ کےمطابق’’ ہر فرد کو اس طرح آزادانہ طورپر اپنی رائے کا اظہار کرنےکاحق ہوناچاہیےجوشرعی اصولوںکےخلاف نہ ہو ۔ (http://www.oic-oci.org/english/article/human.htm/29/7/12)


لوگوں کو صحیح طرز کی طرف دعوت اور بُرائی سے روکنا آزادی  اظہار رائے کے بغیر ممکن نہیں ، محمد صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن سے نہ صرف آزادی اظہار رائے کا بھرپور حق ملتا ہے بلکہ آزادیِ اظہار کاصحیح رخ بھی متعین ہو تا ہے ۔ اس طرح انسانیت ٹھیک ڈگر پر آ سکتی ہے ۔(آزادی اظہار کے نام پر ، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، صفحہ نمبر ۲۵،چشتی)


قرآن کریم میں تدبر ، عقل کے استعمال اور غور وفکر کی ترغیب دی گئی ہے ۔ انسانی ضمیر جس چیز کو بُرا سمجھتا ہے اس سے روکنے  کی اجازت دین نے دی ہے ۔  (اسلام کا تصور آزادی ، ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی،۲۰۱۴، ص۔ ۸)


اسلام نے تنقید کو اخلاقی حد میں رکھنے کا اصول فراہم کیا ہے کیونکہ حدود کے احترام  سے شعور جنم لیتا ہے ۔ جہاں صحت مند تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے نا مطلوب تنقیص شروع  ہو جاتی ہے ۔ اِس پر قد غن کی ضرورت پڑتی ہے ۔


اخلاقی حدود


مذہب  سے انسانوں کو اخلاقی حدود معلوم ہوتی ہیں ۔ وہ اخلاقی قدروں کے احترام کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ لوگ  دوسروں کے جذبات و احساسات کا لحاظ کئے بغیر بے جا تنقید شروع کرتے ہیں وہاں  قانون کی حد بندی ضروری ہے۔ کچھ لوگ بےجا تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں ۔ نفرت انگیز تقاریر سے ، شرانگیز بیانات سے انسانوں کی، عزت کو داغدارکرتے ہیں، کسی کی توہین و تحقیر کرتے ہیں۔  مذہب، مسلک ، فرقے اورکسی محترم شخصیت کے بارے میںناشائستہ گفتگو کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ آزادی رائے کاغلط استعمال ہے۔  اخلاقی تعلیم کی خلاف ورزی ہے ۔آزادی اظہار رائے کا مقصود یہ ہے کہ انسان حق کا متلاشی ہو اور حق کے فروغ کےلیے اپنے خیالات کا اظہار کرے اس بارے میں قرآنی آیات اور احادیث انسان کی رہنمائی کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہمارا یہ نوشتہ تم پر حق بولتا ہے ہم لکھتے رہتے تھے جو تم کرتے تھے‘‘ ۔ (القرآن ؛ ۴۵:۲۹)


 ’’مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور حق کی تاکید کی اورایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘۔ (القرآن؛ ۱۰۳:۳)


 حدیث میں ہے کہ ؛’’سب سے افضل جہاد ،ایک ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔ (سُنن ابو داود، شیخ اشرف پبلیشرز لاہور ۲۰۰۴، حدیث نمبر:۴۳۸)


علامہ اقبال نے ضرب کلیم کی نظموں میں اس اہم موضوع پر کلام کیا ہے۔مغرب میں رائج فکر پر علامہ اقبال تنقید کرتے ہیں۔ یہ بات واضح کرتے  ہیں کہ اُن کا تصور آزادی ناقص ہے۔


آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی                                                        رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ


ہوفکر اگر خام تو آزادی افکار!                                                                       انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ  (آزادی فکر، ضرب کلیم ،کلیات اقبال)


محمد ہاشم کاملی لکھتے ہیں : ’’اظہار کی آزادی انسانی عظمت کی مظہر ہے اظہار رائے انسان کے وقار، کردار اور شخصیت کو سامنے لاتا ہے ‘‘۔ (Kamali, Muhammad Hashim, Freedom of Expression in IslamBerita publishing SDN.BHD Kualalumpur,1994,pp.12)


ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیں : آزادی اظہاررائے انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہے اسلا م میںانسانی حقوق کا تصور انسانی وقار اس کی عزت اور مساوات سےمتعلق ہے ۔ (اسلام میں انسانی حقوق منہاج القرآن پبلیکیشنز لاہور صفحہ ۳۳)


والٹئر کے مطابق ” اگر آپ مجھ سے بحث کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی اصطلاحات کو واضح کریں ! “ معاملہ بالکل قابل فہم ہے کہ یہ اصطلاحات ہی ہیں جو اگر واضح ہوں تو کسی کے نقطہ نظر یا بالفاظ دیگر فلسفے کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں اور اگر گنجلک اور مبہم ہوں تو ذہنی الجھنیں جوں کی توں برقرار رہتی ہیں ۔ اب اگر نظریات پہلے سے ہی باہم برسر پیکار ہوں تو ٹکراؤ ایسی صورت اختیار کرلیتا ہے کہ مختلف نظریات کے حامی ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تل جاتے ہیں ۔ البتہ جب نظریات کے حاملین ایک دوسرے کو مادی اور عسکری میدان میں زیر نہیں کر پاتے تو اس صورت میں بھی مختلف اصطلاحات ہی کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ مدِ مقابل کو فکری اعتبار سے نیچا اور کم تر دکھایا جا سکے ۔


جہاں تک اصطلاحات کا تعلق ہے تو جس طرح یہ کسی علمی مسئلے کو سمجھنے کےلیے وجود میں آتی ہیں، اسی طرح یہ کسی فلسفہ حیات یا نظریہ حیات کےلیے بھی وضع کی جاتی ہیں ۔ البتہ فلسفہ یا نظریہ کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ اس کو صرف ایک یا چند ایک اصطلاحات میں بیان کیا جا سکے ۔ یہ بات درست ہے کہ کوئی خاص نظریہ اپنی چند چیدہ چیدہ اصطلاحات کےلیے جانا جاتا ہے جو مجموعی طور پر اسی نظریے کےلیے خاص ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اشتراکیت کےلیے پرولتاریہ (Proletariat، Havenots) اور پورژوا ( Bourgeoisie، Haves) کی اصطلاحات بہت ہی اہم ہیں ۔


اسی طرح جمہوریت کے لئے جمہور، رائے دہندگی، آزادیٔ اظہار رائے اور اسی قبیل کی بہت ساری اصطلاحات رائج ہیں۔ لادینیت (Secularism) کی بھی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں جن سے اس نظریے کا مذہب کے تئیں رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ نرم لادینیت (Soft Secularism) مذہب کو معاشرت اور سیاست سے بے دخل تو کرتا ہے لیکن مذہب کے خلاف کسی محاذ آرائی کا قائل نہیں ہے۔ البتہ سخت لادینیت (Hard Secularism) ہر لحاظ سے مذہب کو ناقابل برداشت تصور کرتا ہے۔


آزاد خیالی (Liberalism) بھی اگرچہ مذہب کی تحقیر پر ہی مبنی ہے لیکن یہ مذہب کو برداشت کرتی ہے۔ تکثیریت (Pluralism) کسی حد تک مذہب کے تئیں اعتراف اور احترام کے حق میں ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمہوریت نے بھی بڑی بڑی جمہوریتوں میں Majoritarianism کی شکل اختیار کی ہے۔ ان جمہوریتوں میں، اگر ہم ان کو جمہوریت کہنے میں حق بجانب ہیں، اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری باور کیا جاتا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچی ہے کہ اقلیتوں کو شہریت سے محروم بھی کیا جا رہا ہے۔


مندرجہ صدر اصطلاحات، جو مجموعی طور پر یورپ کی نشات ثانیہ (Renaissance) کی پیداوار ہیں، میں مذہب کو منفی انداز پیش کیا گیا ہے۔ اصل میں مغربی دانشوروں، فلاسفہ اور سائنسدانوں کو کلیسا کی طرف سے جس صورتحال کا سامنا رہا اس کو انہوں نے تمام جنس ادیان پر منطبق کیا۔ مثال کے طور پر جب گلیلیو نے زمین کو نظام شمسی کا مرکز ماننے سے انکار کیا تو پاپائیت ان سے کچھ اس طرح برہم ہوئی کہ ان کو کٹہرے میں پہنچایا گیا۔


چوں کہ مغربی محققین کی ایک جماعت (مشتشرقین، Orientalists) نے پہلے سے مشرقی ثقافت کا مطالعہ شروع کیا تھا، اس لئے انہوں نے مذہب بیزاری کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیا۔ چوں کہ یورپی استعمار نے تیسری دنیا پر بالعموم اور دنیائے اسلام پر بالخصوص اپنی حکمرانی قائم کی تھی اس لئے مفتوحین کے اوپر مرعوبیت طاری ہو گئی۔


مغرب کا اسلام اور اسلامی ثقافت کا مطالعہ اگر بدنیتی پر نہیں تو تنگ نظری اور تعصب پر ضرور مبنی تھا۔ اگر مشتشرقین کے مطالعہ اسلام کا تقابل اسلامی مفکرین اور مسلمان حکمرانوں کے مغرب اور مغربی تہذیب کے تئیں رویے سے کیا جائے تو آخرالذکر کا رویہ ناصرف روشن خیالی پر مبنی رہا ہے بلکہ کئی ایک جگہوں پر اس کو آزاد خیالی پر متصور کیا جاسکتا ہے۔ مغرب میں محنہ (Inquisition) کا ادارہ مذہب کو تحفظ دینے کے لئے قائم کیا گیا جبکہ اسلامی دنیا میں، خاصکر دور عباسی میں ایسا ہی ادارہ عقلیت (Rationality) کو تحفظ دینے کے لئے قائم کیا گیا۔


جہاں دنیائے اسلام میں اس ادارے کے شکار مذہب کے راسخ العقیدہ حاملین (جن کی قیادت امام احمد ابن حنبل، رح، کر رہے تھے ) بنے تو مغرب میں اس ادارے نے کئی مشہور سائنسدانوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ ہارون اور مامون خود اپنے دربار مین مختلف مذاہب کے دانشوروں کو بلاکر مذہبی اختلاف پر مباحث کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ خلافت اسلامیہ کے اسی سنہرے دور (Goden Age) میں مسلمان محققین نے مغرب کے قدیم فلسفے کی بازیافت کی اور مغرب کے اس کھوئے ہوئے سرمائے کو کامل دیانتداری کے ساتھ اسپین ’سسلی اور اٹلی کے واسطے مغرب کو منتقل کیا۔


مسلمانوں نے کبھی بھی ارسطو (Aristotle) کی تحقیر نہیں کی۔ مسلمانوں نے ارسطو کی فلسفیانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ”الاستاذ الاول“ (The First Teacher) کا خطاب دیا۔ مسلمانوں نے جب ہند سے صفر دریافت کیا تو اسی صفر نے عرب کے ہندسوں (1۔ 9) سے مل کر Hindu۔ Arabic اعداد کا نظام مغرب کو منتقل کیا، جس سے رابرٹ بریفالٹ کے مطابق مغرب میں رومی اعداد کی وجہ سے پیدا شدہ ایک ہزار سالہ جمود ٹوٹ گیا۔ ابوبکر رازی جیسے فلسفی اور ماہر طب، جسے اہل مغرب Rhazes کے نام سے جانتے ہیں، نے مذہب پر کھلی تنقید کی۔ اس کے باوجود اس پر کسی مسلم حکمران نے جبر نہیں کیا اور نا ہی اس کی آزادیٔ اظہار رائے پر کوئی قدغن لگائی!


یہاں پر ہماری غرض و غایت قطعاً یہ واضح کرنا نہیں ہے کہ سائنس میں مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے بلکہ ہمارا مقصود صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اسلام نے کبھی بھی سائنس مخالف رویہ اختیار نہیں کیا، جس کا مغرب مدعی ہے اور جس کا تجربہ مغرب کو کلیسا سے ہوتا رہا۔ اسی رویے کا نزلہ مغرب دنیائے اسلام پر گراتا رہا ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب امام غزالی نے ”تہافت الفلاسفہ“ لکھ کر فلسفے کی مبادیات کو آڑے ہاتھوں لیا تو ابن رشد نے، ایک اعلٰی پایہ مجتہد ہونے کے باوجود، ”تہافت التہافت“ لکھ کر اس کا کامل رد کیا۔


اسی وجہ سے ڈانٹے نے Divine Comedy میں ابن رشد کو Great Commentator کا خطاب دیا ہے۔ یہاں پر یہ اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈانٹے، جو اٹلی میں یورپ کی نشات ثانیہ کا نقیب تھا، نے ہر غیر عیسائی مفکر کو ”کافر“ (Infidel) قرار دے کر جہنم کا حقدار ہی نہیں بلکہ جہنم میں زیر عتاب دکھایا ہے۔ یہی مغرب اسلامی تعلیمات میں لفظ ”کافر“ کو دیکھنے کا روادار نہیں ہے!


تحقیق و سائنس کے تئیں مسلمانوں کا رویہ دور سلاطین میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے حتی الوسع غیر اسلامی نظریات کا معروضی مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔ محمود غزنوی کے دور میں ابو ریحان البیرونی نے ایک سچے محقق کی طرح ہندی تہذیب و ثقافت پر کام کیا۔ یہاں پر یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ اہل ہند نے اپنے آریائی تفاخر سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کو ہمیشہ ”ملیچھا“ اور ”ترشکا“ کے خطابات سے نوازا۔ البیرونی نے ہنود کی اس نفسیات کے علی الرغم ہندومت کو بحیثیت مذہب اس صورت میں سراہا کہ اس کو یونانی مذاہب کے ہم پلہ قرار دیا کہ دونوں تہذیبوں میں شرک کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔


”کتاب الہند“ دراصل اسی معروضی مطالعے کا ایک شاہکار ہے۔ البتہ محمود غزنوی کو سومناتھ کے ساتھ کچھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ وہ ہندو حکمراں جن کی دعوت پر محمود کی مہم جوئی کا انحصار ہوتا تھا اور جن کو محمود فتح کے بعد حکمراں بناکے چھوڑتا تھا، بالکل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو بدھ مت اہل ہند کے ہاتھوں اپنی جنم بھومی میں ہی زوال کا شکار ہوئی اس کو بھی محمود کے سر چڑھایا گیا۔ خیر اب تو ہندوستان کی زعفرانی تاریخ بھی لکھی جا رہی ہے۔


البیرونی نے ہنود کے ایک اور رویے کو بھی بیان کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے جغرافیائی حدود سے باہر جانا پسند نہیں کرتے۔ ہنود نے دور جدید میں اپنے اس رویے کو بھی اپنی خوبی کے طور پر پیش کیا ہے کہ ”ہم نے اپنی 5000 سالہ تاریخ میں کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا ہے!“ حالانکہ حقیقت ظاہر ہے کہ ایک تو ان کو مغلوں نے پہلی بار (اور وہ بھی اورنگزیب عالمگیر نے ) ایک ”اکھنڈ ملک“ کا درجہ دلایا اور دوسرا ان کی ”ہنسا پر مبنی اہنسا“ محتاج تعارف نہیں ہے!


بہرحال مغرب کے وہ نظریات جن کی توضیح اور تشریح کرتے ہوئے مغربی مفکرین اسلامی فکر کو ہدف تنقید بلکہ ہدف تنقیص بناتے ہیں، ارض فرانس سے بالعموم اور فرانسیسی انقلاب سے بالخصوص پھوٹے ہیں۔ فرانس کو مغربی فکر کا امام ہونے اور اسلام کے خلاف محاذ کھلا رکھنے پر فخر بھی ہو سکتا ہے۔ اہالیان فرانس نے یاد رکھا ہوگا کہ انہوں نے ہی 732 ء میں ٹورس (Tours) کے میدان میں صلیب کو سہارا دیا تھا نہیں تو پورپ کے بڑے حصے پر ہلال کی حکمرانی قائم ہو چکی ہوتی۔


البتہ انہیں ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جن یہودیوں کو صلیب کے ماننے والوں نے برسوں تک تختہ مشق بنائے رکھا ان کو اگر کبھی تاریخ میں راحت کی سانس لینے کا موقع ملا ہے تو وہ یا تو مسلم اسپین میں ملا یا پھر سلطنت عثمانیہ کے شہری بن کر۔ یہاں پر یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ اہل کلیسا نے ہمیشہ اپنی شکست کا بدلہ اسلامی مقدسات کے خلاف مغلظات سے ہی لیا ہے۔ اسپین میں اہل کلیسا نے ایک باضابطہ تحریک چلائی جس کا طریق کار یہ تھا کہ چند جنونی اسلام، قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی مسلم امراء کے درباروں میں توہین کرتے تاکہ مسلم حکمراں انہیں تیش میں آ کر قتل کریں اور وہ درجہ شہادت حاصل کرسکیں۔ اس کے باوجود یہ حکمراں عدالتی کارروائی کے بغیر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تھے۔


صلیبی جنگوں کی دوسو سالہ تاریخ پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہاں پر بھی عیسائیوں کی یہی ذہنیت کارفرما نظر آتی ہے۔ ان جنگوں کی ابتداء بھی متحدہ یورپ نے کی۔ جب صلیبیوں کی مشرق وسطٰی پر یورش ہوئی تو انہوں تیروتفنگ کی جا رہیت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی تعصب کو اسلامی شعائر خاص کر سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف مغلظات کی صورت میں ظاہر کیا۔ ایک صلیبی کمانڈر، Renigald Chattalion اپنی توہین آمیز زبان کے لئے خاصا مشہور تھا۔


ویسے صلیبی عام طور پر اتنے ناخواندہ تھے کہ وہ مسلمانوں کو اکثر یہ طعنہ دیتے تھے کہ وہ ”کسی Mohamet کی عبادت کرتے ہیں!“ تاہم جب صلاح الدین ایوبی (رح) نے اسے شکست دے کر گرفتار کیا تو صرف اس کو سزا دی۔ اگر وہ طیش میں آتے تو تمام قیدیوں کو قتل کردیتے۔ اور جب بیت المقدس پر صلیبیوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا۔ Lane Poole کے مطابق صلیبیوں کے گھوڑے سموں تک خون میں لت پت تھے۔ بچوں تک کو ٹانگوں سے پکڑ پکڑ کر دیواروں سے پٹک کر ہلاک کیا گیا۔


صلیبیوں نے یہودیوں کا بھی قتل عام کیا۔ جی ہاں انہی یہودیوں کا جن کو آگے چل کر Holocaust کے مداوے کے طور پر اہل کلیسا نے مسلمانوں کے سینوں پر سوار کیا۔ اور جب صلاح الدین ایوبی (رح) نے بیت المقدس کو ستاسی سال بعد فتح کیا تو لین پول کے مطابق راہبوں، خواتین، بزرگوں، بچوں اور معذوروں کو بلا فدیہ رہا کیا۔ اور جن کو فدیہ حاصل کر کے آزاد کیا گیا ان میں مفلسین کا فدیہ صلاح الدین اور ان کے بھائی نے اپنے ذاتی سرمائے سے ادا کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے عراق پر چڑھائی کو صلیبی جنگ (Crusade) کا نام دیا تھا اور جب امریکی فوجیوں کا ایک خاص دستہ تقریط پہنچا تھا تو صلاح الدین ایوبی (علیہ الرحمہ) کے مزار کے سامنے فخریہ انداز میں کہا تھا :


Sladin! We are back.


حالانکہ صلیبی جنگوں کے بعد مغرب میں جو تاریخی ناول لکھے گئے تھے ان میں صلاح الدین ایوبی (علیہ الرحمہ) کو ایک طلسماتی Hero کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔


یہاں ہمارا مدعا ”گڑے مردے اکھاڑنا“ نہیں ہے تاہم یہ تاریخی تقابل اس لئے ضروری ہے کیوں کہ جب 1492 ء میں دنیائے کلیسا سات سو سالہ اسپینی مسلم تہذیب کو تاخت و تاراج کرتا ہے تو اس کو ازابیلہ اور فردنند کی دلیری قرار دے کر Reconquesta کا نام دیا جاتا ہے اور جب افغانی متحدہ مغرب کا مقابلہ کرتے ہیں تو انہیں دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔


مغرب کے آزادیٔ رائے کے پیمانے بھی بڑے عجیب ہیں! مسلمان خاتون حجاب پہننے تو خواتین کے حقوق پر یلغار ہوتی ہے اور جب عیسائی راہبہ ”مکمل پردہ“ کرتی ہے تو اسے روحانی دنیا کا ترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمان کی داڑھی بنیاد پرستی کی علامت ہے جبکہ یہودی کی داڑھی یہودی شناخت کی حفاظت ہے۔ اب تو کئی داڑھیاں ”سیاسی بلوغت“ کی علامت بھی بن گئی ہیں! مسلمان ملکوں میں سے کوئی شریعت کی بات کرے تو مغرب ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کرتا ہے کہ انسانی حقوق، حقوق نسواں، ہم جنس پرستوں کے حقوق، اور نہ جانے کون کون سے حقوق ضائع ہونے کا احتمال ہے۔


اور جب اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی جاتی ہے تو اس کے لئے کوئی دستور وضع نہیں کیا جاتا کیوں کہ یہودیوں کو ”تلمود“ کے ہوتے ہوئے کسی آئین کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اسرائیل کے بانی ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ چند سالوں میں انہیں اس علاقے (فلسطین) میں ایک ”تہذیب“ قائم کرنا ہے جہاں کوئی تہذیب نہیں ہے! اور تو اور اسرائیل وہ واحد ریاست ہے جس کا کوئی واضح نقشہ نہیں ہے اور اس کا نیوکلیائی پروگرام بھی خفیہ ہے!


اس ناجائز ریاست کو دوام اور استحکام بخشنے کے لئے پہلے Holocaust کو نازیوں کے خاتے میں ڈال کر عیسائیت سے الگ کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ایک ایسی مسلمہ حقیقت (Universal Fact) بنایا جاتا ہے کہ اس کی تکذیب تو درکنار اس کی تصغیر کرنا بھی گناہ عظیم قرار دیا جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ کو ایسی تقدیس بخشی گئی ہے کہ کسی اہل علم یا سیاستدان میں اس کے خلاف بولنے کا یارا نہیں ہے۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد شاید پہلے سیاسی راہنما تھے جنہوں نے کئی سال تک اس کی تشکیک کی تھی اور اس پر سوال اٹھائے تھے۔


مغرب میں ہولوکاسٹ کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حال ہی میں لسانیات کے مشہور عالم، Noam Chomsky نے صدر ٹرمپ کو ہٹلر کے ساتھ مشابہت دی تو ہولوکاسٹ کے بہت سارے نام نہاد ماہرین اور مورخین اس کے خلاف میدان میں آ گئے۔ اور جب ایک بار ایڈورڈ سعید کئی فرانسیسی فلاسفہ، جن میں جین پال ساتر بھی شامل تھے، کی دعوت پر فرانس میں مشرق وسطٰی پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے سلسلے میں فرانس وارد ہوئے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب کانفرنس میں فلسطین کی جدوجہد آزادی ایجنڈے میں شامل ہی نہ تھی۔ ان کو بعد میں پتا چلا کہ یہودی لابی نے کانفرنس کو یرغمال بنایا تھا۔


فرانس جیسے مغرب کے ترجمان کو ہی لیں جو دور جدید میں جمہوریت اور سیکیولرازم کا ترجمان بنا پھر رہا ہے اور بڑی بے باکی سے عالم اسلام کی نہیں بلکہ اسلام کی حالت کو ہیجان خیز (In Crisis) قرار دیا ہے۔ فرانس کی بے چینی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سیکیولرازم کا پورا ڈھانچہ Crisis میں ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ فرانس میں اسلام تمام تر قدغنوں کے باوجود ترقی کر رہا ہے۔ حال ہی میں جب ایک فرانسیسی خاتون، جو مالے میں چار سال تک مغوی تھی، رہا ہوئی تو فرانسیسی صدر میکرون خود اس کے استقبال کے لئے ائرپرٹ پہنچا۔


تاہم جب مذکورہ خاتون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام، جو پہلے صوفی پٹرونن تھا، مریم پٹرونن کے طور پر متعارف کرایا تو فرانسیسی صدر ورطہ حیرت میں آ گیا۔ ساتھ ساتھ اس خاتون نے مالے کے مفلس مسلمانوں کے اخلاق اور روحانیت کی خوب تعریف کی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ”دہشتگردوں کا مذہب“ کوئی سمجھدار انسان کیسے قبول کر سکتا ہے!


ملائشا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کے بیان میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو فرانسیسیوں سے، ان مظالم کی وجہ سے جو انہوں نے مسلمانوں پر استعماری دور میں ڈھائے ہیں، بدلہ لینے کا حق ہے۔ ایک تو انہوں نے عیسائیوں کے بجائے فرانسیسیوں کا لفظ استعمال کیا اور دوسرا یہ بھی کہا کہ ”مسلمان ایسا نہیں کریں گے“ یعنی بدلہ نہیں لیں گے۔ لہذا فرانس کو بھی بدلے کی نفسیات سے باہر آنا چاہیے۔ مہاتر محمد کے بیان کی صداقت کو صرف الجزائر کی تحریک آزادی کے جانبازوں کی داستان شہادت اور ان پر ڈھائے جانے والے فرانسیسی مظالم میں دیکھا جاسکتا ہے۔


فرانسیسی فوج نے درجنوں مجاہدین کی شہادت کے بعد ان کے سروں کو فرانس بھیجا۔ ماہرین کے مطابق اس بہادری ’جو تاریخ میں صرف منگولوں نے انجام دی ہے، کے تین مقاصد ہوتے تھے۔ پہلا مقصد یہ ہوتا تھا کہ مفتوح قوم پر ہیبت طاری کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اپنی قوم کو فتح کی نوید سنائی جائے۔ تیسرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان قوموں کی نفسیات کا سائنسی مطالعہ کیا جائے جنہوں نے کسی صورت فاتحین کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ہو۔ الجزائری تحریک آزادی کے درجنوں عمائدین کے سروں میں سے چوبیس سر پچھلے سال واپس کیے گئے جب الجزائر نے اس کےئے ایک دستخطی مہم چلاکر اٹھارہ ہزار دستخط جمع کیے ۔


یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کے پاس مواد (Stuff) ہے لیکن ان کے پاس شاید انداز (Style) نہیں ہے۔ یا عام زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ”گھر کی مرغی دال برابر“ کی نفسیات کے شکار ہیں۔ جہاں جمہوریتوں نے اپنے نسلی تفاخر اور چھوت چھات کی نفسیات سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کو Covid۔ 19 کی پہلی لہر کا ذمہ دار ٹھہرا کر ذلت آمیز عتاب کا شکار بنایا وہیں کسی بھی مسلمان ملک سے اس معاملے میں غیر مسلموں کے ساتھ کسی امتیازی رویے کی کوئی خبر نہیں آئی۔


مسلمان ملکوں میں تو اس معاملے میں بالکل برعکس صورتحال دیکھنے کو ملی۔ کئی مسلمان ملکوں میں ان ہی مذہبی جماعتوں نے، جنہیں مغرب رجعت پسند، شدت پسند، انتہا پسند اور بنیاد پرست کے خطابات سے نوازتا آیا ہے، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی Sanitize کیا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روز ہوئے لوگوں کی بلالحاظ مذہب و ملت خبر گیری کی۔


اس تمام تر تقابل کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اپنی بنیادی اخلاقیات سے دستبردار ہوجائیں۔ ایک ابدی ’آفاقی اور عالمگیر دین کے حامیوں کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ صرف رد عمل کی نفسیات میں جئیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالٰی نے اس سے بھی روک لیا ہے کہ وہ ان جھوٹے خداؤں کو برا بھلا کہیں جو لوگوں نے خود گھڑ لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین تو درکنار کئی ایک مسلمان اہل علم نے کئی مذاہب کے بانیان کا نبی ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔


بے شک Charlie Hebdo جیسے جریدوں کی اسلام کی مسلمات اور مسلمانوں کی مقدسات خصوصاً شان رسالت کے بارے میں دہائیوں پر مبنی رویہ ناصرف قابل افسوس ہے بلکہ اس سے ایک مومن صادق کا خون کھول جانا بالکل لازمی ہے، لیکن مسلمانوں کےلیے یہ بھی ایک موقعہ ہے کہ جواباً سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت کو اجاگر کیا جائے۔


یہاں پر ہمیں حضرت عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا اپنے گورنروں کو دیا ہوا وہ جواب یاد آتا ہے جو انہوں نے اس وقت دیا تھا جب ان کے سامنے ذمیوں کے اسلام لانے کے سبب آمدنی میں کمی کا ذکر کیا گیا تھا۔ ان کا تاریخی جواب تھا کہ ”محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہادی برحق بناکر بھیجا گیا تھا نہ کہ تحصیل دار (Tax Collector) بناکر!“ اس تناظر میں ملائشا کی وزارت خارجہ کا فرانس کے سفیر کو دیا گیا ”شمائل ترمذی“ کا تحفہ، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی‘ جسمانی اور اخلاقی صفات کو پیش کیا گیا ہے، زیادہ موزوں اور بروقت معلوم ہوتا ہے۔


ایسا کرتے ہوئے مسلمانوں کو مطمئن رہنا چاہیے اسلام میں آزادیٔ اظہار رائے کا اپنا ایک مقام ہے جس کےلیے قرآن نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ ”لا اکراہ فی الدین“ اور ”اما شاکرا واما کفورا!“ ساتھ ساتھ انہیں اللہ تعالٰی کی تسبیح و تحمید بھی کرنا چاہیے کہ اللہ تعالٰی نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رتبہ بلند فرمایا ہے اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شان ہمیشہ بلند رہے گی ۔ (ورفعنا لک ذکرک ، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔


آزادی اظہارِ رائے اپنی تعریف میں ایک وسیع المعنیٰ اِصطلاح ہے اِس  کی کوئی مخصوص تعریف نہیں کی جا سکی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’تعریفات‘‘ کا ایک نہ ختم ہونے والا مباحثہ ہے ۔ لیگل ڈکشنری کے مطابق : آزادی اظہار رائے سے مراد خیالات کا بلا رکاوٹ اظہار چاہے زبانی، لکھنے اور چھاپنے یا دوسرے ذرائع گفتگو شامل ہیں ۔ (http://www.duhaime.org/Legal Dictionary/F/Freedom of Expression . aspx /30/7/12)


نیو ورلڈ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق : آزادئ گفتگو بغیرحدود و قیود اور احتساب کے بولنے کی قابلیت کا نام ہےاسے آزادئ اظہار رائے بھی کہا جاتا ہے اس سے مراد صرف زبانی گفتگو نہیں ہے بلکہ کوئی بھی گفتگو یا خیالات کے اظہار کا ذریعہ بشمول طباعت، نشریات، فن،تشہیر، فلم اور انٹرنیٹ شامل ہیں  (http:// www.newworldencyclopedia.org/entry/Freedom _of_Speech/ 29/7/12)


توہین مذہب اور اس کا آزادئ اظہارسے تعلق سمجھنے سے پہلے یہ مناسب ہے کہ ہم پہلے توہین اور توہین مذہب کے فرق کو سمجھیں : کوئی بھی جھوٹ پر مبنی ارادی گفتگو چاہے لکھی ہوئی یا بولی گئی جو کسی شخص کی ساکھ اور عزت کو کم کرے یا کسی شخص کے اعتما دکو ٹھیس پہنچائے یا کسی شخص کے خلاف کوئی بھی نا خوشگوار، جارحانہ یا ناپسندیدہ رائے یا احساسات کا اظہار کرے ۔ (https://legal-dictionary.thefreedictionary.com/defamation)


جب یہ توہین کسی مذہب یا کسی مذہبی شخصیت یا عقیدے کے خلاف ہو تو اسے توہینِ مذہب کہا جائے گا ۔


اوکسفرڈ کنسائس ڈکشنری کے مطابق توہین : کسی بھی گروہ یا لوگ جو کسی شخص کی عزت کرتے ہوں اس کے بارے میں کوئی بھی ایسا بیان یا گفتگو جو اس کی ساکھ خراب کر دے یا لوگوں کو اس سے دور کردے توہین کہلاتی ہے ۔ (Freedom of Expression, Autonomy, and Defamation Author(s): Filimon Peonidis Vol. 17, No. 1 Jan., 1998)


اس میں کسی کی بے عزتی اور تکلیف یا اس کی توہین کے لیے دیا گیا بیان بھی اس میں شامل ہونا چاہیے ۔


آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین : توہین مذہب کا تاریخی حوالہ اقوامِ متحدہ کی طرف سے توہین مذہب کے حوالے سے پاس کی گئی قرار دادوں اور رپورٹس کے ذریعے سے وسیع تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے ۔ (A/HRC/9/25) ۔ مثلاً دقیانوسیت، عدم برداشت ۔ (H.R.C. Res. 10/22, supra note 1, at 2) ۔ اجنبیت (G.A. Res. 65/225, (Dec. 21, 2010) اور بہت سے دوسرے تصورات ۔ ابھی تک توہین ِمذہب کی جامع طور پر وضاحت نہیں کی گئی اورنہ ہی اس کی وضاحت کے لیے مخصوص الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ (Defamation of Religion”: A Critique of the United Nations and Arab Co-Authorship of the Balance between Expression and Religious Rights, Georgia Alida du Plessis Ave Maria International Law Journal Spring,2013)


اقوام متحدہ کی قرارداد 2000 / 84 توہینِ مذہب کو یوں بیان کرتی ہے : اس تصور میں وہ تمام سرگرمیاں جو الیکٹرانک میڈیا ، آڈیو اور ویڈیو مظاہر اور دوسرے ذرائع جو اسلام کی طرف اجنبیت ، عدم برداشت اور امتیازی سلوک کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں ۔ (C.H.R. Res. 2000/84, supra note 14, ¶ 3،Chishti)


توہین ِمذہب کی مزید تعریف یوں کی جا سکتی ہے : مسلمانوں کے مذہبی حوالے سے منفی تصور کی تشکیل ، معاشی و سماجی نفرت ، علیحدگی اور قانون کے مطابق مہیا کردہ آزادئ اظہار رائے کی حدود جو دوسروں کے انسانی حقوق، مذہبی جذبات ، عزت اورمذہبی عقائد کی حفاظت پر مبنی ہے ۔ (H.R.C. Res. 4/9, supra note 1, ¶ 3)


آزادئ اظہار رائے کی حدود پر عالمی قوانین : بین الاقوامی دنیا اور ادارے مثلاً اقوام متحدہ اور او آئی سی کے تحت توہین مذہب کے بارے میں کی گئی قانون سازی کے ارتقاء میں بہت سے نشیب و فراز آئے ۔


آزادئ اظہار رائے عالمگیر اعلامیہ برائے انسانی حقوق (UDHR) کے آرٹیکل 19، 20 اور بین الاقوامی قانون برائے شہری اور سیاسی حقوق (ICCPR) آرٹیکل 19 ۔ (International Covenant on Civil and Political Rights art. 19(2)-(3), Dec. 16, 1966, 999 U.N.T.S. 171) ۔ کے ذریعے مہیا کی گئی ہے لیکن یہ آزادی مطلق العنان نہیں ہے ۔


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے کہا : بلا انتقال یا ناقابل انتقال آزادئ اظہار رائے کے حق کی حفاظت نہیں کی جاسکتی جب یہ دوسرے لوگوں کی اخلاقی اقدار یا عقائد کو ’’ذلیل کرنے کےلیے استعمال ہو یا اس پر اکسائے ۔ (U.N. Secretary-General, supra note 6)


ہر کوئی اس بات کو مانتا ہے کہ آزادئ اظہار رائے پر کچھ جائز ، قانونی اور واضح پابندیاں ہونی چاہیں جو اس کی حدود کا تعین کریں ۔ آرٹیکل 19(3) ICCPR جہاں آزادئ اظہار رائے کا حق دیتا ہے وہیں اس کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے ۔ سُوال یہ ہے کہ کیا ’’توہینِ مذہب‘‘ کو ان پابندیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے جو آزادئ اظہار رائے کے حدود کا تعین کرنے کےلیے لگائی جاتی ہیں جیسا کہ آرٹیکل 19(3) میں کہا گیا ہے کہ آزادئی اظہار رائے کی کچھ حدود ہیں مثلاً دوسرے کےحقوق اور ان کی عزت کے حقوق کی حفاظت کرنا ، قومی استحکام کی حفاظت کرنا ، عوامی امن ، عوامی صحت اور اخلاقیات ۔ (ICCPR, supra note 76, art. 19(3)) ICCPR آرٹیکل 20 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسی سرگرمی کہ جس سے قومی،نسلی یا مذہبی نفرت یا کسی بھی قسم کی امتیازی سرگرمی،جو ظلم اور تشدد کو ہوا دے قانون اس کی اجازت نہیں دیتا اور اسے ممنوع قرار دیتا  ہے ۔ (Ibid, art.20)


توہین ِمذہب کے تصور کو ’’قاہرہ ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس ان اسلام‘‘ کے آرٹیکل 22 کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے جو کہ ہر ایک کو آزادئ اظہار رائے کے حقوق دیتا ہے اور ان تمام کاموں اورقوانین کو ممنوع قرار دیتا ہے جو شریعت کی حدود کے خلاف ہوں ۔ آزادئ اظہار رائے پر قدغن لگانا بھی شریعت کے خلاف ہے کیونکہ آزادئ اظہار رائے کا حق شریعت نے خود مہیا کیا ہے -آرٹیکل 24اور 25 نے یہ واضح کیا ہے کہ شریعت تمام انسانی حقوق سے اولیٰ ہے اورشریعت اسلامی نےہر ایک کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے کاحق بھی دیا ہے اور جس طرح اسلام نے یہ حق دیا ہے یہ انسانی حقوق اور آزادئ اظہار رائے سے مختلف اور مخالف نہیں ہے ۔ (Preparatory Committee, World Conference on Human Rights, Contribution of the Organization of the Islamic Conference, U.N. Doc. A/CONF. 157/PC/62/Add.18 June 9, 1993،Chishti)


توہین مذہب کے حوالے سے سب سے بڑی ترقی بین الاقومی تنظیم ممالک اسلامی کے تعاون سے ممکن ہوئی ۔ (Protecting Religions from „Defamation‟: A Threat to Universal Human Rights Standards, Leonard A. Leo, Felice D. Gaer & Elizabeth K. Cassidy, 34 HARV. J.L. & PUB. POL'Y 769, 771-72 .2011)


اسلام کی تضحیک کے حوالے سے جو پہلی قرارداد 1999ء میں OIC کی طرف سے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق ۔ (Commission on Human Rights Res. 1999/82, ¶ 3, U.N. Doc. E/CN.4/1999/82 .Apr. 30, 1999)


میں پیش کی گئی اور اس کا ترمیم شدہ مسودہ پیش کیا گیا جس میں تمام مذاہب کے حوالے سے بات کی گئی اور بالخصوص اسلام کی غیر محفوظ حالت پر بات کی گئی ۔ کمیشن نے اسی نوعیت کی 2000ء سے 2005ء تک مسلسل ہر سال قرار دادیں پیش کیں ۔ بہت سے بین الاقومی آئین و قوانین کے ذریعے سے آزادئ اظہار رائےکی وضاحت باہمی عزت اور امن پر مبنی حدود کے ذریعے کی گئی مثلاً :


افریقی چارٹر برائے انسانی اور عوامی حقوق آرٹیکل 9 ۔ (http://www.achpr.org/instruments/achpr/)


آسیان ڈیکلریشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل 23 ۔ (http://www.asean.org/storage/images/ASEAN_RTK_2014/6_AHRD_Booklet.pdf)


یورپیئن کنونشن برائے انسانی حقوق آرٹیکل10نے جہاں آزادئ اظہار رائے ، معلومات اور نظریات  کی بغیر کسی سرحدی پابندیوں اور دخل اندازی کےبغیر آزادی مہیا کی ہے وہیں ایک جمہوری معاشرے میں قانون کے مطابق کسی بھی قسم کی بد امنی، جرم اور غیر اخلاقیت اور صحت کے مسائل سے بچنے کے لئے اس پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں تاکہ دوسرے لوگوں کے حقوق اور عزت کا تحفظ ہو ۔ (European Convention on Human Rights, Article 10, European Court of Human Rights, Council of    Europe)


ساؤتھ افریقن آئین سیکشن 16 نے طباعت اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی آزادی مثلاً معلومات اور خیالات کے اظہار اور تبادلے کی آزادی، فنی تخلیق،سائنسی اور تعلیمی تحقیق آزادی فراہم کی ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات کی پابندی بھی لگائی ہے کہ یہ آزادی کسی بھی قسم کے جنگ اور تشدد یا ایسی کسی بھی سرگرمی کی طرف داری جس سے مذہب ، صنف، نسلیت اور متنوع رنگت و ثقافت کی بنیاد پر نفرت فروغ پائے ، منع کیا گیا ہے ۔ (Bill of Rights chapter no 2, p.3,www.justice.gov.za/legislation/constitution/saconstitution-web-eng-02.pdf)


کینیڈین کریمینل کوڈ سیکشن 319 (2) کوئی بھی شخص جو اپنے بیانات ، عوام میں کسی بھی قابل شناخت گروپ کے بارے میں نفرت پھیلانا جرم ہے اس حوالے سے صوبائی سطح پر انسداد نفرت کے قوانین موجود ہیں ۔


سسکیچوین کوڈ برائے انسانی حقوق سیکشن 14 جس کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کی طباعت ، اظہار یا نمائندگی جس سے کسی بھی قسم کی نفرت ، تضحیک ، ہتک یا کسی بھی شخص یا گروہ کی شان و شوکت میں رنگ ، نسل ، مذہب ، صنف ، عمر ، خاندانی معیار ، ازدواجی حیثیت ، معذوریت ، قومیت ، آباؤ اجداد ، جائے پیدائش یا عوامی مدد کا حصول کی بنیاد پر کمی ہو ، کو ممنوع قرار دیا گیا  ہے ۔ (See further s 13 (1) of the of the 1891 Human Rights Code of Ontario and s 2 of the 1984 Human Rights Act of British Columbia, as amended by the 1993 Human Rights Amendment Act)


کریمینل کوڈ آف نیدرزلینڈ آرٹیکل 137 کے مطابق کسی بھی فرد یا گروہ کی نسل ، مذہب ، رنگ ، جنسی برتری یا احساس جرم کی بنیاد پرعوام میں کوئی بھی ہتک امیز بات کرنا جرم ہے ۔ (Criminal Code Netherland article 137،Chishti)


30 جولائی 1981ء کا ’’بلجیئیم اینٹی ریس ازم لاء‘‘ کے مطابق نسل،جنس،مذہب اور قومیت کی بنیاد پہ نفرت کو ہوا دینا جرم قراردیا گیا ہے ۔ (Belgium:Discrimination on the basis of race and national origin in the provision of goods)


2009ء میں ایک انتہائی اہم موڑ دیکھنے میں آیا جب 46 ممالک کی 200 سے زیادہ سول سوسائیٹی تنظیموں (http://www.equalrightstrust.org/ertdocumentbank/) (بشمول مسلمان ، عیسائی ، یہودی ، لادین ، انسانیت پسند اور ملحدین گروہ) نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس کے ذریعے ہیومن رائٹس کونسل کو اس بات پر ابھارا کہ توہین مذہب کے حوالے سے قرارداد کو مسترد کردیا جائے ۔ 2009ء کے شروع میں بہت سی تضحیک پر مبنی قرار دادوں کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد مخالفت اور غیر جانبدار رہنے والے ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ تھی ۔ 2011ء میں اقوام متحدہ کونسل برائے انسانی حقوق نے ایک قرارداد 16/18 پیش کی گئی جس میں اہم چیز ’’توہین مذہب‘‘ کے الفاظ شامل نہیں تھے ۔ یہ اقوام متحدہ کا اس مسئلے سے توجہ ہٹانا اس لیے تھا تاکہ مذہبی عدم بردباری اورعدم برداشت سے نبرد آزما ہوا جائے ۔ (Human Rights Council Res. 16/18, U.N. Doc. A/HRC/RES/16/18 (Mar. 24, 2011) یہ کام استنبول میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے نتیجے میں عمل پذیر ہوا جس میں ’’او آئی سی‘‘ کے سیکریٹری جنرل اور امریکہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن ، یورپی یونین ، عرب لیگ اور افریقن یونین کے نمائندگان نے شرکت کی ۔ شریک نمائندگان نے قرارداد 16/18 کے نفاذ کےلیے عملی اقدامات پر گفتگو کی جسے ’’استنبول پراسس ‘‘کہا جاتا ہے ۔ 19دسمبر2011ء میں متفقہ ووٹ کے ذریعے جنرل اسمبلی نے ایک مماثل قرارداد منظور کی جس کے مطابق مذہبی عدم بردباری پر تنقید کی گئی اور ریاستوں کو توہین مذہب پر پابندی لگائے بغیر قراردمنظور ہوگئی ۔ (Brett G. Scharffs (2013): International and the Law of Defamation of Religion Conundrum, The Review of Faith & International Affairs)


آزادئ اظہار رائے کے بارے میں مذہبی قانون سازی : (Blitt, Robert C. 2011b. “Defamation of Religion: Rumors of Its Death Are Greatly Exaggerated.” Case Western Reserve Law Review 62 (2): 347-397)


ستمبر 2012ء میں اسلامک ایجوکیشنل ، سائنٹیفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن (IESCO) نے ایک متفقہ مسودہ جاری کیا جس کے ذریعے سے ایک بین الاقوامی معاہدہ کےلیے ابھارہ گیا اور میڈیا کے تمام ذرائع کو توہین مذہب پر اقوام متحدہ کی قرارداد کا پابند بنایا گیا ۔ (ISESCO (Islamic Educational, Scientific, and Cultural Organization). 2012. “‘ISESCO Calls upon IFJ to Activate UN Resolution on Combating Defamation of Religions,’ September 21) مشرق و مغرب میں مذہب کو سمجھنے کےلیے کچھ نظریاتی مسائل ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ذریعے سے جتنی بھی قرار دادیں مذہب کے بارے میں پیش کی گئی یا منظور ہوئیں کسی بھی قرارداد میں مذہب کی تعریف نہیں کی گئی کہ اقوام متحدہ کے مطابق مذہب کیا ہے اورمغربی فکر کے مطابق مذہب کیا ہے کیونکہ یہ تصور مذہب ہی ہے جس کی وجہ سے یہ تمام قراردادیں منظور ہوئیں ۔  (Leonard A. Leo, Felice D. Gaer & Elizabeth K. Cassidy, Protecting Religions from „Defamation‟: A Threat to Universal Human Rights Standards, 34 HARV. J.L. & PUB. POL'Y 769, 771-72 . 2011) 


اسلام میں مذہب کےلیے جو متبادل لفظ ہے وہ دین ہے اور مغرب کی طرف سے استعمال کیا جانے والا لفظ دین لاطینی لفظ (Religio) سے اخذ کیا گیا ہے ۔ سامی زبانوں میں لفظ دین کا مطلب قوانین ہیں ۔ اسلام میں دین صرف عقائد کے نظام تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک ایسا نظام ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہوا ہے چاہے وہ سیاسی و سماجی ، معاشرتی و معاشی اور آئینی مسائل ہوں ۔ مسلم دنیا میں مذہبی و سیاسی قیادت علیحدہ علیحدہ نہیں ہے بلکہ جو ریاست کا سیاسی حکمران ہے مذہبی طور پر بھی وہی حکمران ہے ۔ تمام سیاسی و سماجی مسائل کو الٰہیاتی قوانین اور سنتِ مصطفٰے (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کے ذریعے سے حل کیا جاتا ہے ۔ یہ تمام قوانین الہامی ہیں اور ان کو نہ  بدلا جا سکتا ہے ، نہ مسترد کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کم یا زیادہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے برعکس مغرب میں چرچ اور ریاست میں بہت فرق ہے اور مذہب کے ذریعے سے سیاسی معاملات کو حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مغرب میں دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے ۔ (Bernard Lewis. Islam and the West vii . 1993،Chishti)


2010ء میں اوآئی سی کے سیکریٹری جنرل نے اوآئی سی کے رکن ممالک کی طرف سے ’توہین‘ کی اصطلاح سے دستبردار ہونے کی آمادگی ظاہر کی ۔ 2011ء میں اس کو تبدیل کر دیا گیا ، یہ زبان میں ’’مذہبی تضحیک‘‘ کی اصطلاح کی تبدیلی واضع طور پر او آئی سی اور اوباما انتظامیہ کے درمیان تعاون کا نتیجہ تھا ۔ (U.N. Human Rights Council Resolution 16/18: Respect for Religions or Anti‐Freedom of Expression?, Heritage Foundation . Apr. 30, 2012)


آزادئ اظہار رائے کے اسلامی تصور نے تمام ماننے اور نہ ماننے والوں کو بطور بنیادی انسانی حقوق کے آزادئ اظہار رائے کا حق دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مختلف متنوع گروہوں کے درمیان عزت ، شان و شوکت، باہمی امن اور رواداری کی فضاء کو بھی برقرار رکھا رہے ۔ جس طرح اس تصور پر بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے اور اس مسئلے کے حوالے سے بہت ساری مختلف آراء ہیں ۔ ہم آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے کچھ سوالات کے ذریعے سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا یہ قانون کے مطابق ہے کہ اخلاقی حدود کےلیے ایک سیاق و سباق تشکیل دینا ہے ؟ کونسی ثقافت ، مذہب یا تہذیب نے اخلاقی حدود کے بنیادی ڈھانچے یا فریم ورک کو اپنایا ہے ؟ فرض کیا ایک انتخاب کرلیا جاتا ہے جو میرے اپنے حوالے سے اسلام ہے ۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا حدود وسیع ہونی چاہئیں یا تنگ کہ ان میں باقی مذاہب کے لوگوں کو داخل کیا جاسکے ۔


لیونگ لیجنڈ ڈاکٹر مہاتیر محمد صاحب کہتے ہیں کہ : آزادئ اظہار رائے کے معاملے میں مغرب نے دوسری اقوام کے ساتھ منافقانہ روش اپنائی ہے ۔ مثلاً ہیلری کلنٹن نے مسلمانوں کی تضحیک کے حوالے سے فلم کے بارے میں کہا کہ اسے آزادئ اظہار رائے کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا جبکہ فرانسیسی اور اطالوی اخباروں نے کیمبرج کی ایک ڈچ خاتون کی برہنہ تصاویر کو چھاپا تو ایک فرانسیسی عدالت نے حکم جاری کیا کہ اخبار کا عملہ یہ تمام تصاویر ڈچ شاہی جوڑے کو واپس کرے اور ان کی اشاعت کو بند کرے اور اطالوی عدالت نے بھی ایسا ہی حکم جاری کیا اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ قانون مخصوص لوگوں کے لیے ہے کہ ایک ڈچ خاتون کے خلاف اسے استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ مسلمانوں کے مقدس پیغمبر (ﷺ) کیلیے ٹھیک ہے ۔ (Dr Mahathir Mohamad’s Speech at the Rafik Hariri UN-Habitat Memorial Lecture, September 18, 2012)


جیسے اوپر آزادیٔ اظہار رائے کے حوالے سے اخلاقی اور قانونی حدود کی بات کی گئی ۔ سب سے اہم اور ابتدائی چیز ہے ’’نقصان‘‘ کہ آزادئ اظہار رائے اور تقریر سے مستفید اور لطف اندوز ہونے کے دوران اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کسی بھی شخص کو نقصان نا پہنچے ذاتی شان و شوکت اور راز داری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو ۔ آزادئ اظہاررائے کو معاشرے میں کسی بھی قسم کے انتشار ، جرم اور تشدد کو ہوا دینے کےلیے استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ (Saʿdī Abū Ḥabīb, Dirāsah fī Minhāj al-Islām al-Siyāsī (Beirut: Muʾassasat al-Riṣālah 1985 , 745)


بہت سی اسلامی حدود اور تعلیمات اخلاقی نوعیت کی ہیں کسی کو موجودگی یا غیر موجودگی میں کسی فرد یا گروہ کے افراد اور گروہ کے خلاف بشمول جھوٹ بولنا ، دوسروں کی تضحیک کرنا ، برے ناموں سے پکارنا ، غلط الفاظ ، غیبت ، کردار کشی اور تکلیف دہ باتیں شامل ہیں ۔ (Qurʿān, 49: 11-12; 4:148)


اسلام کے بنیادی ما خذات قرآن اور حدیث ہیں ۔ آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے قرآنی نصیحت کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو نفرت پھیلانے سے منع کیا گیا ہے بلکہ معاشرے میں امن اور بھائی چارے کیلیے کردار ادا کرنے کی نصیحت کی گئی ہےجیسا کہ حدیث مبارکہ ہے : مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں ۔ (Muslim, hadith no.69, 23،Chishti)


یہ حدیث مبارکہ معاشرے کے لوگوں کے درمیان بھائی چارہ اور پیار کو یقینی بناتی ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث مبارک صرف مسلمانوں کےلیے ہے لیکن اس کا مقصد پر امن معاشرے ، بھائی چارے اور محبت کو عام کرنا ہے تاکہ لوگوں کو معاشرے میں آزادی اور تحفظ کا احساس ہو ۔ (Muhammad Ali, A Manual of Hadith (London: Curzon Press, 1977 , 27)


قرآن کریم میں آزادئ اظہار رائے کو ایک مختلف پیرائے اور سمت میں بیان کیا گیا ہے جسے قرآن مجید میں ’’حسبا‘‘ کےاصول سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ یہ قرآن کریم کا بنیادی اور اہم اصول ہے جس کے ذریعے نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ترکیب دی گئی ہے اور یہ بہت سے دوسرے قرآنی اصولوں کی بنیا دبھی ہے ۔ یہ اصول شریعت کے بنیادی مقصد کی نمائندگی کرتا ہے اور بہت سی آزادیاں جو جدید آئینوں میں موجود ہیں ان کےلیے بنیاد بھی فراہم کرتا ہے ۔ (Kamali Freedom of expression in Islam  . 1997,p.28،Chishti)


مشہور مصنف ہاشم کمالی کے مطابق آزادئ اظہار رائے اور تقریرِ اصول ’’حسبا‘‘ کی بنیاد ہے ۔ اسلام میں آزادئ اظہار رائے کےلیے درج ذیل ثبوت موجود ہیں : ’’حسبا‘‘ کا اصول ، کسی کو بے لوث مشورہ دینا (نصیحا) مشورہ کرنا (شوریٰ) ذاتی استدلال (اجتہاد) تنقید کی آزادی ، اظہار رائے کی آزادی اور مذہب کی آزادی ۔ (Muhammad Hashim Kamali, Ethical Limits on Freedom of Expression with Special Reference to Islam, Chairman of the International Institute of Advanced Islamic Studies (IAIS),Malaysia, Journal Du Cile Spring, 2014, p.9)


قرآن مجید کی بہت ساری آیات میں آزادئ اظہار رائے کے اصول کو اچھے طریقے سے بولنے کے ذریعے واضح کیا گیا ہے مثلاً : ’’وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ‘‘ ۔ (Al-Quran 2:83)


’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے انداز میں بات کرو‘‘ ۔


یہ خالصتاً آزادئ اظہار رائے سے متعلق بات ہے اوریہ نہ صرف قانونی حکم ہے بلکہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کےلیے محبت ، اخلاص ، عزت اور اخلاقی فریضہ ہے ۔ آزادئ اظہارِ رائے کی وضاحت قرآن کریم کی ایک اور آیت میں کی گئی ہے : ’’وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ‘‘ ۔ (Al-Quran 22:30)


’’اورجھوٹ اورغلط بیانی سے اجتناب کرو ‘‘-


یہاں پر واضح طور پر اس بات کی ممانعت اور واضح حکم دیا گیا ہے کہ بری زبان اور غلط معلومات یا رویہ نہیں اپنایا جائے گا کہ معاشرے کی بقاء  کےلیے معاشرے کے افراد کے درمیان کسی قسم کی کوئی غلط فہمی اور تشدد نہ پھیلے ۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘ ۔ (Al-Quran 33:70)


’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو‘‘ -


اس آیت مبارکہ  میں اللہ نے نہ صرف اپنی مخلوق کو سچ اور سیدھی بات کرنے کا حکم دیا ہےاور تقویٰ : (ایک ایسی حالت جو نہ صرف انسان باتوں تک کےلیے نیک ہوتی ہے بلکہ انسان اعمال اور باطنی اصلاح حاصل کرتا ہے) کے حصول کا حکم دیا ہے ۔ اس آیت کریمہ کے پہلے حصے میں اخلاقی سیاق وسباق کی وضاحت کی گئی ہے اور دوسرے حصے میں بھی اسی بارے میں بات کی گئی ہے ۔ اس میں کسی قسم کی کوئی وعید نہیں فرمائی گئی اور نہ ہی کوئی حکم جاری کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی سزا کی بات کی گئی ہے بلکہ یہ اخلاقی نصیحت اور راہنمائی پر مشتمل ہے- تکلیف دہ بات سے بے عزتی ، کسی شخص کو تکلیف اور اس کی مال و جان کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس میں کسی بھی شخص کی خوشامد ، متکبرانہ بات اور کسی کی طرف سے زنا ، جوا ، فحش لٹریچر کی طباعت اور گمراہ کن تشہیر جسے کہ الجہر بالسوء یا گناہوں کی تشہیر کہا جاتا ہے ۔ یہ تصور بہت وسیع ہے جس میں تمام قسم کی جدید ذرائع تشہیر اور طباعت شامل ہیں ۔ (Maḥmūd Shaltūt, Min Tawjihāt al-Qurʿān al-Karīm, Kuwait: Maṭābiʿ Dār al-Qalam, n.d., 330)


پاکستان میں آزادئ اظہار رائے:


بین الاقوامی قوانینِ آزادئ اظہار رائے اور پاکستان میں آزادئ اظہار رائے کی قانون سازی کا تجزیہ کرنا اور اس کا عملی نفاذ اور توہین مذہب کے مسئلے کے حوالے سے مستقبل کے امکانات کو سمجھنا ضروری ہے ۔ آزادئ اظہار رائے اور توہین مذہب کے حوالے سے جو قانون ہے (a) 295 وہ یہ کہتا ہےکہ جو شخص جان بوجھ کر یا غلط ارادے سے اپنی گفتگو، الفاظ، تحریر، اشارہ یا کسی تصویر کے ذریعے سے کسی مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرنے کی کوشش کرتا ہےانڈین پینل کوڈ کے مطابق وہ مجرم ہے-یہ قانون آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے پہلا قانون یا کوئی قانونی حد ہے تاکہ کسی بھی شخص کی طرف سے اس آزادی کا غلط استعمال کرکے کسی بھی سماجی ، مذہبی شخصیت یا عقیدے یا گروہ کی توہین نہ کی جائے ۔ یہاں ایک اورسیکشن ہے (b) 295  جواس بات پر زور دیتا ہے کہ قرآن مجید کو برا بھلا کہنا اسی تضحیک کرنا آئین پاکستان کے مطابق جرم ہے ۔ جیسے یہ قوانین مذہب سے متعلق ہیں اور بہت زیادہ جد و جہد اور غور و خوض کے بعد پاس کیے گئے اور پاکستانی آئین کا حصہ بنے ۔ مختلف گروہوں کی طرف سے اس آزادئ اظہار رائے کے غلط استعمال اور مذہبی توہین کے حوالے سے بہت سارے مسائل تھے مثلاً احمدیوں قادیانیوں کا گروہ وغیرہ ۔ ان مذہبی اختلافات نے لوگوں کو اس حالت تک پہنچا دیا کہ انہوں نے دوسرے مذاہب ، مذہبی شخصیات اور گروہوں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کرنا شروع کردی ۔ اس حالت نے پاکستان کے مسلمانوں کو بھی اس حوالے سے تشویش میں مبتلا کردیا اور اس طرح پاکستان کے آئین میں ایک اور ترمیم کی گئی جسے (c) 295 کہا جاتا ہے جس کے مطابق اس بات پر پابندی لگا دی گئی کہ کوئی بھی شخص یا اقلیت رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حوالے سے کسی بھی قسم کی نازیبا زبان استعمال کرنے کی کوشش بھی نہیں کرے گا اگر کسی نے ایسا کیا تو یہ آئین پاکستان کے مطابق قابل سزا جرم ہوگا اور اس کے خلا ف کاروائی کی جائے گی ۔


پاکستان کو تقسیم کے وقت برطانوی قانونی نظام ورثے میں ملا ۔ بہت سے قوانین بشمول باب 15 (مذہب کے حوالے سے) 1860ء کے انڈین پینل کوڈ سے نافذ کیے گیے ۔ ضیاء الحق دورحکومت 1977ء میں ضیاء الحق نے یہ بیان دیا کہ جس طرح پاکستان اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا تو اس کا استحکام اور بقاء بھی اسی وقت ممکن ہے جب اسلامی نظریے کو مضبوطی سے اپنایا جائے اور ضیاء الحق نے پاکستان کے قانونی نظام میں اسلامی نظام کو لازمی قرار دیا ۔ انہوں نے بہت سارے قوانین بالخصوص توہینِ رسالت کے حوالے سے قوانین متعارف کروائے ۔


سیکشن (b)295 کے مطابق کوئی بھی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید یا اس کی کسی آیت کی بے حرمتی ، توہین یا اسے نقصان پہچانے کی کوشش کرے گا یا اسے برا بھلا کہے گا اسے غیر اخلاقی انداز یا غیر قانونی مقصد کے لیے استعمال کرے گا تو اسے عمر قید کی سزا دی جائی گی ۔


سیکشن (c) 295 کے مطابق کوئی بھی شخص تقریر یا تحریر، کسی تصویر یا کنایہ کے ذریعے سے تہمت،الزام لگائے،بلواسطہ یا بلا واسطہ رسالت مآب (ﷺ) کے اسمِ مبارک کی توہین کرے اسے اس جرم کی پاداش میں سزائے موت ، عمر قید یا جرمانے کی سزا دی جائے گی ۔


نتیجہ : یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے جس نے اس دنیا اور لوگوں کو ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے اور ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اسے دورِ عالمگیریت کہا جاتا ہے ۔ انسانی ارتقاء اورترقی کا بنیادی مقصد ایک مثالی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ فرد کے حقوق کا تحفظ ہو سکے ۔ باس تمام پراسس میں جو سب سے بنیادی چیز فرد کا رویہ ہے جو وقت کے ساتھ انسان کی اندرونی کیفیت کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے ۔ تمام سماجی ، سیاسی ، اخلاقی اور قانونی حدود کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے میں انسانی کردار کو سمت عطا کرنے کیلیے ہیں ۔ لیکن یہ تمام حدود اور پابندیاں انسان کی اندرونی کیفیت سے ما وراء ہیں ۔ مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب انسان کی اندرونی کیفیت اور اس کے مخصوص مفادات اور سماجی اقدارمیں توازن خراب ہوتا ہے اوران پابندیوں کا مقصود انسان کے آزادئ اظہار رائے کے حق پر قدغن لگانا نہیں ہے بلکہ معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کا پابند بنانا مقصود ہے ۔ مذہب انسان کی سرشت کا سب سے نازک معاملہ ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی سطح پرعزت کرنی چاہیے ۔ کوئی بھی پہلو یا تصور جو کسی بھی مذہب یا مذہبی شخصیت سے متعلق ہو وہ کسی بھی مخصوص مذہب کے ماننے والے کےلیے بہت زیادہ مقدس ہوتا ہے ۔ کسی بھی شخص کی طرف سے کسی بھی مذہب یا اس کے کسی بھی پہلو کے بارے میں جب ایک بھی لفظ بولا جاتا ہے تواس کے ماننے والے پر اس کا مخصوص اثر ہوتا ہے ۔ ایک طرف سے مثبت رویے کے نتیجے میں دوسری طرف سے مثبت رویے کا اظہار ہوگا اور ایک طرف کا منفی رویے سے دوسری طرف سے بھی منفی رویے کا اظہار ہوگا-یہ صرف آزادئ اظہار رائے یا مذہبی تضحیک کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم اپنے لیے کیسے معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں ؟ آزادئ اظہار رائے کا بلا حدود استعمال صرف گستاخیوں کا کباڑہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اخلاقی گراوٹ اور ناقابلیت کا ایسا مقام ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عزت سے لاعلم ہیں ۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک علمی کمزوری اور قابل رحم روحانی کیفیت ہے کا حال ہے کہ اس کا نظام تحفظ اور سماجی اتحاد و یگانگت بہت کمزور ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کیلیے بھیجا گیا ہے ۔


ہمیں سماجی اور ثقافتی یگانگت کی ضرورت ہے جو بطور انسان ہمیں آپس میں جوڑتی ہے ، بردباری اور برداشت اور ایک دوسرے کی قبولیت کا جذبہ پیدا کرتی ہے اور یہ یگانگت انسانی معاشرے کا اصل عکس ہے ۔ اس لیے ہر آزادی کی جو فطری حدود ہیں اُن کو سمجھنا چاہیے اور ان کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناموس ، قرآن مجید اور اسلامی شعائر کو جب مختلف حیلے بہانوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو عام آدمی کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات کرنے والے اپنی ان حرکتوں کی کیا توجیہ پیش کرتے ہیں اور کیا اُن کی justification کا کوئی جواب ہے ؟ ۔ اِس طرح کے مکروہ اِقدامات کے جواز پر آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ ہر شخص کو یہ آزادی اور حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے ، جس کے خلاف چاہے اور جو چاہے کہہ سکتا ہے اور لکھ سکتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ اپنی اس دلیل کو پیش کرتے ہوئے وہ آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کی حدود و قیود اور خود اپنے دساتیر و اِلہامی کتب میں موجود تعلیمات کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں ۔ زیرِ نظر مضمون میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کی اِنہی حدود و قیود کو خود مغربی ممالک کے دساتیر و قوانین اور اُنہی کی شخصیات کے اَقوال کے ذریعے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں مزید اس حصّے میں بیان کیا جا رہا ہے ۔

اِظہارِ رائے کی آزادی جدید تہذیب و تمدن کا قیمتی اَثاثہ ہے ۔ انسانیت نے آزادی کی یہ نعمت صدیوں کی جاں گسل قربانیوں اور مشکلات کے نتیجے میں حاصل کی ہے ۔ اگر آزادیِ اِظہارِ رائے کو چند اَخلاقی ضابطوں کا پابند بنا دیا جائے تو اس سے کوئی انسانی حق مجروح نہیں ہوتاکیوں کہ آزادیِ اِظہارِ رائے اگرچہ ہر اِنسان کا بنیادی حق ہے ، لیکن یہ حق مطلق و بے مہار نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے ۔ حقوق کا معاملہ بالعوض اور بالمقابل (reciprocal) ہوتا ہے اور ان کے اِطلاق کا اِنحصار دوسروں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اس سوچ پر اصرار کرنا کہ آزادی کا یہ تحفہ ایک مطلق حیثیت رکھتا ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے ، نامناسب بات ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسا حق دوسرے کی بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتا ہو ۔ ہر وہ ملک جو اس ’مہذب اور جمہوری‘ دنیا کا حصہ دار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، اس نے اِظہارِ رائے کی آزادی کے سلسلے میں اپنی سوسائٹی کے مفادات کے پیشِ نظر اپنی حدود خود متعین کر رکھی ہیں تاکہ مخصوص معاشرتی اِنسانی رویوں کو ایک خاص سطح پر اپنے علاقائی رسوم و رواج ، اَخلاق ، مسلمہ معاشرتی اَقدار ، کلچر اور مذہب کی حفاظت کی بنیاد پر برقرار رکھ سکے ۔

1۔ آزادیِ اِظہارِ رائے ، وقارِ اِنسانی کے تحفظ سے مشروط ہے

آزادیِ اِظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے جسے حقوقِ اِنسانی کے عالمی اِعلامیہ (Universal Declaration of Human Rights)، قانونِ حقوقِ اِنسانی (Bill of Rights) اور بنیادی اِنسانی حقوق کے تمام ممالک کی دستاویزات میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔ لیکن دنیا کے کئی ممالک کے دساتیر میں اس کے ساتھ ساتھ عزت و حرمت کو تحفظ دینے والے قوانین کی موجودگی اِس اَمر کا بین ثبوت ہے کہ اِنسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ جس طرح آزادیِ اِظہارِ رائے بنیادی اِنسانی حقوق میں سے ہے ، اُسی طرح اِنسانی وقار کی حفاظت بھی بنیادی اِنسانی حق ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ ذیل میں اس سلسلہ میں عالمی دساتیر اور شخصیات کے حوالے درج کیے جارہے ہیں : ⬇

(1) امریکی دستور

عالمی دساتیر اور قوانین ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو اِنسانی وقار کو مجروح کرنے کا باعث ہوں ؛ حتی کہ امریکی دستور کی آٹھویں ترمیم اِنسانی وقار کے تحفظ کو اس حد تک یقینی بناتی ہے کہ اِس ترمیم کی رُو سے : ⬇

A punishment must not by its severity be degrading to human dignity.

’کسی کو کوئی بھی ایسی سزا نہیں دی جاسکتی جس کی شدت اور انداز اِنسانی وقار کے منافی ہو۔‘

اِس تناظر میں کسی اِنسانی رویے کو کیونکر اِس اَمر کی اِجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کی اِہانت اور بے توقیری کا سبب بنے ؟

(2) سابق سیکرٹری جنرل UN : کوفی عنان

اَقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان (Kofi Annan) نے کہا تھا :

I also respect the right of freedom of speech. But of course freedom of speech is never absolute. It entails responsibility and judgment.

’میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا اِحترام کرتا ہوں لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حق قطعاً بھی مطلق نہیں ہے۔ یہ حق اِحساسِ ذِمہ داری اور دانش مندی کے ساتھ مشروط ہے۔‘

(3) سابق برطانوی وزیر خاجہ جیک سٹرا

سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا (Jack Straw) نے کہا تھا :

There is freedom of speech, we all respect that. But there is not any obligation to insult or to be gratuitously inflammatory. … There are taboos in every religion. It is not the case that there is open season in respect of all aspects of Christian rites and rituals in the name of free speech. Nor is it the case that there is open season in respect of rights and rituals of the Jewish religion, the Hindu religion, the Sikh religion. It should not be the case in respect of the Islamic religion either. We have to be very careful about showing the proper respect in this situation.

’ہر شخص کو آزادیِ اِظہارِ رائے کا حق حاصل ہے اور ہم اس کا احترام کرتے ہیں لیکن کسی کو بھی توہین کرنے یا بغیر کسی سبب کے اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ … ہر مذہب کے لیے کچھ قابلِ حرمت اُمور ہوتے ہیں ۔ لہٰذا یہ درست نہیں کہ آزادیِ اِظہار رائے کے نام پر عیسائیوں کی تمام مقدس رسوم اور عبادات پر ہر طرح کی تنقید کی جاتی رہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش ہے کہ یہودی، ہندو یا سکھ مذہب کے حقوق اور مقدس رسوم کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے ۔ نہ ہی ایسا رویہ مذہبِ اسلام کے حوالے سے اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہمیں اس طرح کی صورت حال میں عزت و احترام کو برقرار رکھنے کےلیے احتیاط کرنا ہوگی ۔‘

(4) سابق ترجمان امریکی محکمہ خارجہ

امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق ترجمان کرٹس کوپر (Kurtis Cooper) نے کہا :

We all fully respect freedom of the press and expression but it must be coupled with press responsibility. Inciting religious or ethnic hatred in this manner is not acceptable.

’ہم سب اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا خوب اِحترام کرتے ہیں لیکن اِسے صحافتی ذمہ داری سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ مذہبی یا نسلی نفرت کو اِس آڑ میں بھڑکانے کا عمل قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔‘

(5) سابق فرانسیسی وزیر خاجہ فلپ ڈوسے بلیزی

سابق فرانسیسی وزیر خارجہ فلپ ڈوسے بلیزی (Philippe Douste-Blazy) نے کہا تھا :

The principle of freedom should be exercised in a spirit of tolerance, respect of beliefs, respect of religions, which is the very basis of secularism of our country.

’آزادیِ اِظہارِ رائے کے قانون پر عمل برداشت، عقائد اور مذاہب کے احترام کی روح کے ساتھ ہونا چاہیے جو ہمارے ملک کے سیکولر اِزم کی بنیادی اَساس ہو۔‘

2 ۔ اِلہامی کتب اور آزادیِ اِظہارِ رائے

بظاہر آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا بہت غلغلہ ہے لیکن دنیا کا کوئی بھی مذہب مقدس ہستیوں، رسولوں، پیغمبروں اور اللہ کے کلام کی اہانت کی اجازت نہیں دیتا؛ حتیٰ کہ ’کتابِ مقدس (The Bible)‘ کا ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘ اور ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ دونوں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین سے منع کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ’عہد نامہ عتیق‘ کی کتاب ’اِحبار (Leviticus)، 24:13-16‘، ’اِحبار (Leviticus)، 24:23‘، ’2 سموئیل (2 Samuel) ، 12:14‘ میں اور ’عہد نامہ جدید‘ کی کتاب ’متی کی اِنجیل (Matthew)، 12:32‘، ’مرقس کی انجیل (Mark)، 3:29‘ اور ’لوقا کی انجیل (Luke)، 12:10‘ ملاحظہ ہوں۔

اِسلام - جو قدیم آسمانی مذاہب ہی کا تسلسل ہے - نے بھی تمام رسولوں اور پیغمبروں خصوصاً حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ناموس، قرآن مجید اور اسلامی شعائر کو جب مختلف حیلے بہانوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے تو عام آدمی کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات کرنے والے اپنی ان حرکتوں کی کیا توجیہ پیش کرتے ہیں اور کیا اُن کی justification کا کوئی جواب ہے ؟ ۔ اِس طرح کے مکروہ اِقدامات کے جواز پر آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ ہر شخص کو یہ آزادی اور حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے ، کے اِحترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ دنیا کے تمام براہیمی اَدیان نے پیغمبروں کی توہین کی ممانعت کی ہے لیکن ’عہد نامہ عتیق (Old Testament)‘، ’عہد نامہ جدید (New Testament)‘ اور قرآنِ مجید میں پیغمبروں کے اِحترام کی تعلیمات نے کسی بھی شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی کے حق سے محروم نہیں کیا۔

3 ۔ آزادیِ اِظہارِ رائے بارے وضعی قوانین

آزادیِ اِظہارِ رائے کی حدود و قیود کا تعین کرنا، اسے محدود کرنا نہیں ہے ۔ یہ کوئی مطلق حق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے ۔ تمام حقوق ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کا نفاذ دوسرے کے بنیادی حقوق کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ یہ تصور غلط ہے کہ کوئی حق مطلق حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ ایسا حق دوسرے بہت سے بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرسکتا ہے ۔ ہر وہ ملک جو مہذب اور جمہوری ہونے کا دعوے دار ہے ، اس نے معاشرتی اور سماجی مفادات کے تناظر میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کو مخصوص حدود کا پابند کیا ہے تاکہ انسانی رویے کی ایک مخصوص سطح کو برقرار رکھا جا سکے ، چاہے اس پابندی کی بنیاد مقامی رسوم و رواج ہوں یا تہذیب و مذہب ہو؛ لیکن حقیقی مقصد یہی ہے کہ اُن کے اَخلاقی، مذہبی ، سماجی اور معاشرتی اَقدار کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے ۔

دنیا بھر میں قانونِ ہتکِ عزت (law of defamation) کے مطابق آزادیِ اِظہارِ رائے کے مستقل حق کو محدود کیا گیا ہے تاکہ ایک فرد کے حقوق میں توازن پیدا کیا جاسکے۔ اسی طرح ایسے عمل کو ، جس سے ایک پورے طبقے کو اذیت پہنچتی ہو، محض اظہارِ رائے کی آزادی کے عنوان کے تحت جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا ۔

مزید برآں کئی ممالک میں ان کے دساتیر اور مخصوص قومی اداروں مثلاً : فوج ، عدلیہ اور پارلیمان کی توہین کو یا تو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے یا اس رویے کی مذمت کی گئی ہے ۔ دنیا بھر میں توہینِ عدالت کا قانون موجود ہے جو واضح طور پر آزادیِ اظہارِ رائے کی حدود متعین کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا قید ہے۔ لہٰذا آزادیِ اظہارِ رائے کا حق قطعی طور پر مطلق نہیں ہے بلکہ اسے بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔ لہٰذا کسی بھی طبقے کے جذبات کو مجروح کرنا کسی صورت میں بھی آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کے زُمرے میں شامل نہیں کیا جا سکتا ۔

دنیا کے کئی ممالک میں واضح طور پر بچوں کی برہنہ تصاویر کی اِشاعت یا مذہبی و نسلی نفرت پھیلانے والے مواد کی اِشاعت پر پابندی عائد ہے ۔

کئی یورپی ممالک میں ہولو کاسٹ (Holocaust) کا اِنکار جرم ہے، حتی کہ آسڑیا، بیلجیم، چیک ری پبلک، فرانس، جرمنی، اسرائیل، لیتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ، سلوواکیا اور سوئٹزر لینڈ میںاِس جرم کی سزا جرمانے اور قید دونوں صورتوں میں مقرر ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس پر اتفاق اور معاہدہ موجود ہے کہ اس طرح کی پابندی ہرگز اِظہارِ رائے کی آزادی پر پابندی نہیں کیونکہ اس سے ایک مذہبی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

اِسی طرح کسی مذہب کی توہین بھی اِرتکابِ جرم ہے کیونکہ اس سے ایک پورے طبقے کو اذیت پہنچتی ہے جس کا اس مذہب پر ایمان ہے۔ سو اس عمل کو کسی بھی طرح کی آزادی کے حق کا جواز فراہم نہیں کیا جانا چاہیے، خصوصاً جب یہ عمل اَمنِ عالم، بین المذاہب ہم آہنگی اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی خطرہ کا باعث ہو ۔

4 ۔ آزادیِ اِظہارِ رائے پر پوپ فرانسس کا موقف

پوپ فرانسس (Francis) نے پیرس میں جنوری 2015ء کے دہشت گردانہ حملوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی میں کچھ ضروری حدود و قیود ہوتی ہیں خصوصاً جب کسی کی مذہبی دل آزاری کی جائے ۔ پوپ فرانسس نے مزید کہا :

There are so many people who speak badly about religions or other religions, who make fun of them, who make a game out of the religions of others. They are provocateurs. And what happens to them is what would happen to Dr Gasparri; if he says a curse word against my mother, he can expect a punch. There is a limit. I refuse any form of personal insult, and when the insult is related to religions, they cannot be approved neither at a human, nor at a moral and social level. They do not help the peace in the world, and do not produce any benefit. You cannot provoke. You cannot insult the faith of others. You cannot make fun of the faith of others. [The Christian Post, January 15, 2015.]

’بہت سے لوگ مذاہب کے بارے میں بڑی تحقیر آمیز گفتگو کرتے ہیں۔ دوسروں کے مذاہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور اِس تحقیر کو اپنا مشغلہ بنا لیتے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت اشتعال دلانے کا کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو میرے دوست ڈاکٹر گیسپری (Dr Gasparri) کے ساتھ ہو گا۔ اگر وہ میری ماں کے خلاف کوئی توہین آمیز لفظ بولتا ہے ایسے عمل پر اسے میری طرف سے ایک مُکے کی توقع ہی کرنی چاہیے۔ ہر کام کی کوئی حد ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی بے توقیری قطعاً ناقابل قبول ہے، خصوصاً جب بے توقیری مذہب سے متعلق ہو تو ایسا عمل نہ تو انسانی سطح پر اور نہ ہی اخلاقی و معاشرتی سطح پر قبول کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے والے دنیا میں امن برقرار رکھنے کی کوئی مدد نہیں کرتے اور نہ ہی دنیا کے لئے خود کو منفعت بخش ثابت کرتے ہیں۔ کسی کو اشتعال دلانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آپ کو دوسروں کے اعتقادات کی تحقیر کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو دوسروں کے عقائد کے مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

5 ۔ اَقوامِ متحدہ کا چارٹر

اِنفرادی عزت و وقار اور مذہبی آزادی کا تحفظ ایسے بنیادی اِنسانی حقوق ہیں جنہیں دنیا بھر میں قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ دنیا کے مختلف ممالک کے دساتیر و قوانین کے ساتھ ساتھ اَقوامِ متحدہ کے چارٹر نے بھی اِن حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے پہلے آرٹیکل کی شق نمبر 3 میں اِن حقوق کو ان الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے :

To achieve international co-operation in solving international problems of an economic, social, cultural, or humanitarian character, and in promoting and encouraging respect for human rights and for fundamental freedoms for all without distinction as to race, sex, language, or religion.

’یہ قرار دیا جاتا ہے کہ معاشی، سماجی ، ثقافتی اور اِنسانی نوع کے عالمی مسائل و تنازعات کے حل کےلیے اور انسانی حقوق کے اِحترام کے فروغ و حوصلہ اَفزائی کے لیے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے نسل، جنس یا مذہب کی تفریق کے بغیر بنیادی اِنسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر عالمی برادری کا تعاون حاصل کیا جائے گا ۔‘

6 ۔ یورپی کنونشن

حقوق انسانی کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل نمبر 9 میں قرار دیا گیا ہے کہ :

Freedom to manifest one's religion or beliefs shall be subject only to such limitations as are prescribed by law and are necessary in a democratic society in the interests of public safety, for the protection of public order, health or morals, or for the protection of the rights and freedoms of others.

’کسی فرد کے مذہب اور عقیدہ کے اظہار کی آزادی صرف قانون میں بیان کی گئی حدود کے ساتھ مشروط ہو گی اور یہ ایک جمہوری معاشرے میں عوامی تحفظ کے حصول، امن عامہ کے قیام، صحت اور اخلاقیات کے تحفظ اور دوسرے افراد معاشرہ کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے ۔‘

7 ۔ امریکی دستور کا بل آف رائٹس

امریکہ کے دستور کے بل آف رائٹس (Bill of Rights) کی ترمیم نمبر 1 میں کہا گیا ہے :

Congress shall make no law respecting an establishment of religion, or prohibiting the free exercise thereof; or abridging the freedom of speech, or of the press; or the right of the people peaceably to assemble, and to petition the government for a redress of grievances.

’کانگریس کسی مذہبی ادارہ یا اس کے آزادانہ مذہبی عمل کرنے سے منع کرنے سے متعلق یا آزادئ تقریر و اخبارات پر قدغن لگانے سے متعلق یا لوگوں کے پر امن اجتماع منعقد کرنے اور مسائل کے حل کے لیے حکومت کو عرض داشت کرنے کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔‘

8 ۔ ممانعتِ اہانتِ مذہب پر قانون سازی کرنے والے ممالک

بعض امریکی ریاستوں کی دستوری کتب میں اِہانتِ مذہب کے قوانین موجود ہیں ۔ Massachusetts کا باب 272 سیکشن 36 بیان کرتا ہے :

Whoever wilfully blasphemes the holy name of God by denying, cursing or contumeliously reproaching God, his creation, government or final judging of the world, or by cursing or contumeliously reproaching Jesus Christ or the Holy Ghost, or by cursing or contumeliously reproaching or exposing to contempt and ridicule, the holy word of God contained in the holy scriptures shall be punished by imprisonment in jail.

’جو کوئی ارادتاً خداوند کے پاک نام کی گستاخی یا اس کی خلّاقی، حکومت، آخرت کے انکار، اہانت، ملامت کی صورت میں کرے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مقدس روح کی قابل نفرت انداز میں ملامت کرے یا مضحکہ اُڑانے کی صورت میں اہانت کرے یا خدا کے پاک نام (جو عہدنامہ قدیم و جدید میں درج ہے)کی تضحیک کرے کی سزا جیل کی سلاخیں ہیں ۔‘

ممانعتِ اِہانت پر قانون سازی کرنے والے دیگر ممالک درج ذیل ہیں :

آسٹریا : کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 188 اور 189

فن لینڈ: تعزیراتی قانون (Penal Code) کے باب نمبر 17 کا جزو نمبر 10

جرمنی: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 166

نیدر لینڈز: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 147

اسپین: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 525

آئیر لینڈ: اس کے آئین کے آرٹیکل نمبر 40.6.1.i کے تحت توہین آمیز مواد کی اِشاعت ایک جرم قرار ہے؛ جب کہ 1989ء کے Prohibition of Incitement to Hatred Act کے تحت کسی خاص مذہبی گروہ کے خلاف نفرت انگیز مواد کی اِشاعت بھی جرم قرار دے دی گئی ہے۔

کینیڈا: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا سیکشن نمبر 296

نیوزی لینڈ: 1961ء کے نیوزی لینڈ کرائمز ایکٹ (New Zealand Crimes Act) کا سیکشن نمبر 123

مسیحی دنیا میں کلیساؤں کو مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے اور بعض یورپی ممالک میں اِس تقدس کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔ اس کی ایک مثال ڈنمارک کا دستور ہے، جس کے سیکشن نمبر 4 (State Church) کے مطابق ’Evangelical Lutheran Churchکو ڈنمارک کا سرکاری کلیسا قرار دیا جائے گا اور یوں اسے ریاست کی مکمل حمایت حاصل ہوگی‘۔

9 ۔ نفرت انگیز تقاریر و گفتگو کے خلاف قوانین

یہاں یہ اَمر قابلِ ذکر ہے کہ بہت سے یورپی ممالک میں صرف مذاہب کی توہین سے روکنے والے قوانین پہلے ہی رائج اور نافذ ہیں، جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں؛ بلکہ دنیا بھر میں نفرت انگیز تقاریر و گفتگو کے خلاف قوانین بھی موجود ہیں۔ ان ممالک میں برازیل (Brazil)، کینیڈا (Canada)، چلی (Chile)، یورپی کونسل (Council of Europe)، کروشیا (Croatia)، ڈنمارک (Denmark)، فِن لینڈ (Finland)، فرانس (France)، جرمنی (Germany)، آئس لینڈ (Iceland)، بھارت (India)، آئر لینڈ (Ireland)، نیدر لینڈز (Netherlands)، نیوزی لینڈ (New Zealand)، ناروے (Norway)، پولینڈ (Poland)، سنگاپور (Singapore)، جنوبی افریقہ (South Africa)، سویڈن (Sweden) اور سوئٹزرلینڈ (Switzerland) وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

درج بالا قوانین اور ان کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آزادیِ اِظہارِ رائے کا حق بنیادی اِنسانی حق ہے لیکن یہ دوسری آزادیوں کی طرح ایک اضافی اور مشروط آزادی ہے۔

10 ۔ اسلام اور آزادیِ اِظہارِ رائے

اسلام اور اس کے بنیادی عقائد کے بارے میں ہزاروں کتابیں اور اخباری مضامین تاحال شائع ہو چکے ہیں جن میںاسلام اور اس کے بنیادی عقائد پر تنقید کی گئی ہے لیکن مسلمان علمی مباحثے پر کبھی اعتراض نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اسلام کے بارے میں جاری مباحثے کا حصہ ہے اور یہ سب کچھ آزادیِ اِظہارِ رائے کی حدود کے اندر ہے۔ آج دنیا میں اخبارات میں ایسے لاتعداد مضامین شائع ہو رہے ہیں جن میں اسلام کی غلط تعبیرات پیش کی جاتی ہیں بلکہ اکثر اوقات تو اسلام اور اس کے قوانین کے بارے میں مبینہ انداز میں مکمل جھوٹ پر مبنی مبالغہ آمیز کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن مسلمان انہیں نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ رواداری کا رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لبرل جمہوریتوں پر مبنی جن معاشروں میں رہ رہے ہیں یہ سب کچھ ان کا جزوِ لاینفک ہے ۔

لیکن جب اِظہارِ رائے کی آزادی کے اس حق کا غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کی سب سے مقدس ترین آسمانی کتاب قرآن اور مقدس ترین ہستی صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی واضح طور پر توہین کی جاتی ہے تو اس سے لازمی طور پر مسلمانوں میں اِضطراب اور اِشتعال پیدا ہوگا ۔

ان تمام تفاصیل سے واضح ہوتا ہے کہ اگر برداشت ، رواداری اور بقائے باہمی کے عالمی متفقہ اُصول کو نظر انداز کر دیا جائے اور اَخلاقی اور مذہبی اَقدار کی بے توقیری کی جائے تو اَمنِ عالم کی موجودہ صورت حال بدتر ہو جائے گی اور دنیا میں موجود تناؤ کو ختم کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہو کر رہ جائیں گی ۔ آج اِس اَمر کی شدید ضرورت ہے کہ اِس خوف ناک اور پریشان کن صورتِ حال کے خاتمے کےلیے فوری اِقدامات کیے جائیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday, 8 November 2025

قیادت و لیڈرشپ کے قرآنی اور نبوی ﷺ اصول

قیادت و لیڈرشپ کے قرآنی اور نبوی ﷺ اصول

محترم قارئینِ کرام : قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے ۔ باشعور ، باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی ، امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ قیادت متعین مقاصد کے حصول کےلیے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طے شدہ سمت پر گامزن کرنے کا نام ہے ۔ تاثیر و کردار کے مجموعہ کو قیادت کہتے ہیں ۔ لوگوں کے کسی گروپ ، جماعت ، تنظیم یا ادارے میں تحریک پیدا کر کے آگے بڑھنے کےلیے ان کودرست رہنمائی فراہم کرنا تاکہ وہ طے شدہ منزل کو پاسکیں ، لیڈرشپ یا قیادت کہلاتا ہے ۔ یعنی بصیرت اور وژن کی بنیاد پر لوگوں کو کسی اہم مقصد پر جمع کرکے ان میں تحریک پیدا کرنا اور پھر ان کو منزل کی طرف بڑھانا لیڈرشپ ہے ۔ جوشخص یہ سرگرمی سرانجام دے اسے قائد یا لیڈرکہتے ہیں ۔ قیادت کا بنیادی مقصد لوگوں کودرست رہنمائی فراہم کرنا اور مسائل کے حل میں ان کی مددکرنا ہوتا ہے ۔ لیڈرشپ جب اہل ، باشعور ، با صلاحیت ، باکردار اور دیانتدار ہو تو لوگوں کے انفرادی مسائل اور قوموں کے اجتماعی مسائل آسانی سے حل ہونے لگتے ہیں ۔ قیادت درحقیقت تاثیر اور کردار کے مجموعہ کا نام ہے ۔ اس وقت دنیا میں ہمیں جو قومیں ترقی کرتی نظر آرہی ہیں اس کا بنیادی سبب ان کو باکردار اور باصلاحیت لیڈرشپ کا میسر آنا ہی ہے ۔ اس کے برعکس دنیا کی جو قومیں مسائل کا شکار نظر آ رہی ہیں اس کا بھی ایک اہم اور بنیادی سبب نااہل اور بدکردار لیڈرشپ ہے ۔


لیڈرشپ کی اہمیت کو ظاہر کرنے کےلیے کہا جاتا ہے کہ جب لیڈر شیر ہو اوراس کے پیچھے بھیڑیں بھی چل رہی ہوں تو وہ اپنے آپ کو شیر جیسا محسوس کرتی ہیں اور شیروں جیسا رویہ اپناتی ہیں کیونکہ ان کا لیڈر شیر ہے ۔ اس کے برعکس اگر لیڈر بھیڑ ہو اور پیچھے سارے شیر چل رہے ہوں تو بھی وہ اپنے آپ کو اندر سے بھیڑ ہی محسوس کرتے ہیں اور بھیڑوں جیسا رویہ اپناتے ہیں ، کیونکہ ان کا قائد اور لیڈر بھیڑ ہے ۔ بالکل اسی طرح جب انسانوں کا لیڈر شیر جیسا ہوتا ہے باکردار اور باصلاحیت ہوتا ہے تو وہ اپنی بھیڑوں کو بھی شیر بنا دیتا ہے لیکن اگر لیڈر بھیڑ کی طرح بے ہمت ہو ، حکمت و بصیرت اور شعور سے خالی ہو ، تعیش پسندی اور سستی وکاہلی کا شکار ہو ، اس میں کرداراور صلاحیتوں کا فقدان ہوتو وہ اپنے پیروکاروں کی صلاحیتوں کو بھی ڈبو دیتا ہے لہذا لیڈر شپ بہت اہم چیز ہے ۔


لیڈرز کی تین قسمیں ہوتی ہیں پہلی قسم پیدائشی لیڈرز کی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ موروثی طور پر لیڈرشپ کے اوصاف یعنی کردار و تاثیر اپنے ساتھ لے کر پیداہوتے ہیں ۔ یہ زندگی میں کسی بھی مقام پرکھڑے ہوں اور کسی بھی قسم کے حالات سے دوچار ہوں لیکن ان کی فطری لیڈرشپ جھلکتی ہوئی خودبخود سامنے آجاتی ہے ۔ لیڈرشپ ان کی گفتگو سے ، باڈی لینگویج سے اور رویوں یا ایٹی چیوڈ سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ مثلاکوئی ہنگامی صورتحا ل ہو تو ایسے لوگ خود سے سامنے آتے ہیں اور صورتِ حال پر قابوپانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔


دوسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جو فطری طورپر لیڈر تو نہیں ہوتے لیکن زندگی میں اچانک افتاد ان پر ایسی آجاتی ہے یا حالات اچانک کچھ اس طرح پلٹا کھاتے ہیں کہ وہ خودبخود لیڈرشپ کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔اب حالات اور مجبوری کی وجہ سے وہ لیڈر کا کردار ادا کرنا شروع کرتے ہیں اور پھر کرتے کرتے لیڈرشپ کے اوصاف سیکھ جاتے ہیں یوں وہ بھی لیڈربن جاتے ہیں ۔ مثلا ایک لڑکا اچانک والد کی وفات کی وجہ سے باپ کی سیٹ سنبھالتا ہےاوروالد کی ساری ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کرتا ہے ۔ اب ان ذمہ داریوں کو ادا کرتے کرتے وہ بھی لیڈرشپ سیکھ جاتا ہے حالانکہ یہ صفت شاید اس میں پہلے سے موجود نہ ہو ۔


تیسری قسم ان لیڈرز کی ہوتی ہے جو پیدائشی طور پر لیڈرشپ کی صلاحیتوں کے مالک تو نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کو ایسے حالات ملتے ہیں جن سے وہ لیڈرشپ سیکھ سکتے لیکن وہ شعور ی طور پر اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور اسے سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کرتے ہیں ۔ مثلاً کتابوں کے ذریعے ، کورس ورک سے ، وڈیوز ، ورکشاپس ، پریزنٹیشن سے یاکسی مینٹور سے رہنمائی حاصل کرکے یا خود اپنی پریکٹس سے ۔ اس طرح وہ لیڈرشپ اور اس کے اوصاف کو سیکھ کر پریکٹس کرنا شروع کرتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد لیڈر بن جاتے ہیں ۔ اس عنوان کے تحت ہم لیڈرشپ کے کچھ اوصاف بھی ذکر کریں گےاگر آپ میں یہ اوصاف فی الحال موجود نہیں تو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ آپ کے اندر سیکھنے کا شوق ، محنت کا جذبہ اور مستقل مزاجی کی صفت ہو تو آپ لیڈرشپ سیکھ سکتے ہیں اور کامیاب لیڈربن سکتے ہیں ۔


لیڈر کا تصور ہمارے معاشرے میں بہت ہی محدودمعنی کا حامل ہے عام طور پر سیاسی لیڈرز کو ہی لیڈر سمجھاجاتا ہے اس کے علاوہ لیڈرشپ کا تصور کم ہی پایا جاتا ہے ۔ حالانکہ لیڈرشپ کی تعریف کے مطابق دنیا کے ہرکام کی انجام دہی اور ہر میدان عمل میں قیادت کرنے کو لیڈرشپ کہا جا سکتا ہے ۔ چاہے وہ سیاسی میدان کی قیادت ہو یاتعلیمی میدان کی ، معاشی اور معاشرتی میدان کی قیادت ہو یا مذہبی میدان کی ۔ گھرکے لوگوں کی قیادت ہو یا کسی ادارے کے انتظام انصرام کی قیادت ، کھیلنے والی ٹیم کی قیادت ہو یامیدانِ جنگ میں لڑنے والی فوج کی قیادت ، کسی بزنس و کاروبار کی قیادت ہو یا سڑکوں پر ہونے والے جلسے جلوس کی قیادت ہو یاکسی اور اہم پروجیکٹ پر کام کرنے والی ٹیم کی قیادت ہو ۔ مسجد کی امامت و خطابت ہو یاکسی تعلیمی ادارے میں طلبا کو پڑھانے کی ذمہ داری ہو ، غرض یہ سب قیادت کی مختلف شکلیں ہیں اور ان کاموں کو انجام دینے والے لوگ اپنی اپنی جگہ لیڈر اور قائد کا رول ادا کرتے ہیں اور لیڈر کہلانے کے مستحق ہیں ۔ چشتی ۔


صرف لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر تقریریں کرنے سے لیڈر بنا جا سکتا ہے اور نہ ہی بغیر وژن اور پلاننگ کے بلند بانگ دعوی کرنے سے لیڈر کہلایا جا سکتا ہے ۔ لیڈر کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے سے بنا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوسروں کے پروجیکٹ پر اپنے نام کی تختی لگانے سے لیڈر بنا جا سکتا ہے ۔ لیڈر کرپشن کامال اکٹھا کرنے سے بنا جا سکتا ہے نہ زندہ باد اور مردہ باد وغیرہ کے نعرے لگوانے سے ۔ لیڈر ٹائی کوٹ پہننے اور مغربی گیٹ اپ اپنانے سے بنا جا سکتا ہے نہ ہی صرف انگریزی بولنے اور اپنے آپ کو لبرل ظاہر کرنے سے بنا جا سکتا ہے ۔ لیڈرشپ گریڈ ، عہدے ، پیسے اور اتھارٹی کی محتاج ہے اورنہ ہی ہائی لیول پروٹول کے ساتھ گھومنے کی محتاج ہے ۔


حقیقی معنی میں لیڈر وہ ہے جس میں کردار اور تاثیر ہو اور وہ اجتماعی مفاد کا پاسبان ہو ۔اس میں ایمان داری اور دیانتداری کے اوصاف ہوں ، جس میں قربانی اور خدمت کا جذبہ ہو ۔جس میں ذاتی مفاد پر طے شدہ ہدف کے حصول کاجذبہ حاوی ہو ۔ جس میں وعدے کی پاسداری ہو ، جس میں منزل کو پانے کی جستجو اور لگن ہو ۔ جس کا اپنا دامن ہر طرح کی آلودگی سے صاف ہو اور وہ لوگوں کےلیے رول ماڈل ہو ۔ وہ ٹیم کا حصہ بن کر رہتا ہو اور عسر و یسر میں اپنی ٹیم کو کبھی مایوس نہ کرتا ہو ۔ وہ وژنری انسان ہو جو حال میں رہتے ہوئے مستقبل سے آشنائی رکھتا ہو ۔ وہ قوم ، وہ ادارہ ، وہ جماعت ، وہ تنظیم اور وہ گروہ خوش قسمت ہے جس کے پاس بہترین قائد ، اچھا رہنما اور حقیقی لیڈر موجود ہو ۔ حقیقی لیڈر جس کمیونٹی کے پاس ہوتا ہے وہ کمیونٹی دنیا میں ضرور ترقی کرتی ہے ، اعلی مقام حاصل کرتی ہے ۔ اور جو کمیونٹی بدقسمتی سے ایسی لیڈرشپ سے محروم ہو وہ دنیا میں مستحکم ہوپاتی ہے نہ آگے بڑھ سکتی ہے ۔ اس کی بے شمار مثالیں ہماری دنیا میں موجود ہیں ۔


کسی بھی اسلامی ریاست کےلیے ایک صالح قومی قیادت و لیڈر شپ لازمی و ابدی امر ہے جو اپنے دائرہ اختیار اور ریاست کی حدود میں حدود اللہ اور حدود العباد کاپوری طرح سے نفاذ ممکن  بناتی ہے ۔ اگر دنیا میں صالح قیادت کے قیام کا اصول اور فرد کے باہمی تعلق کی حدود و قیود واضح کردی جائیں تو انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ معاشرتی، معاشی، مذہبی ظلم و جبر سے نجات پالے ۔


قیادت کا لفظ اردو میں ’’قائد‘‘ سے اخذ شدہ ہے جس کے معنی ’’ فوج کا سردار ، حاکم ، اندھے کی لاٹھی پکڑکے چلنے والا رہنما لیڈر ۔ (فیروز اللغات لاہور فیروز سنز 2008ء صفحہ 944)


قیم ’’ قائم کرنے والا ، نگران ، منتظم ، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بھی ہے ۔ (المنجد قدیمی کتب خانہ 1998ء صفحہ 968،چشتی)


قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو-قیادت کوئی آسان اور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے-قائد  کوہروقت اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ برا ہوکر ہی قائد اعتماد، استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے ۔ معاشرے کو درپیش تمام مسائل کا حل ایک فرد واحد سے خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ صلاحیت و کردار کا حامل کیوں نہ ہو ، ممکن نہیں ہے ۔ اکیلے انسان کاقیادت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ آج ہم قیادت کا مطلب کسی فرد واحد کی آمریت کو سمجھ بیٹھے ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کے عین مغائر ہیں ۔ فکری جمود اور رواجی ذہن کی وجہ سے عوام ایک فرد واحد کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مان کر اسی سے اپنے مقاصد و مسائل کے حل کی توقعات وابستہ کر تے ہوئے نقصان سے دوچار ہیں ۔ آمریت پسند فرد واحد کی قیادت اپنی ذات کو حقیقی قیادت کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کو دھوکا دیتی ہے ۔ دلفریب نعروں سے یہ قیادت اپنے مفادات کے حصول میں جٹی رہتی ہے اور عوام ان نعروں کی گونج میں اجتماعیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شخصیت کے سحر میں گرفتارہوجاتی ہے ۔


مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ ان کا شخصیات کی آڑ اور قوم کی خدمت کے نام پر خوب استحصال ہوا بلکہ کیا جارہاہے لیکن آج تک یہ اپنے استحصال سے بے خبر ہیں ۔ اس منظر نامے کی تبدیلی کےلیے نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت کی اشد ضرورت ہے -طلبہ میں اخلاص ، شعوری اور استعداد پیدا کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں حقیقی قائدانہ اوصاف کو فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے-قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 59)

 ترجمہ : اے ایمان والوں اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور اپنے اولو الامر (صاحب امر) کی ۔


مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے ۔ اُوْلِي الْأَمْر کی اطاعت مستقل اطاعت کے درجے میں نہیں آتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (قرآن و سنت کے احکامات) کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے ۔ قیادت (اُوْلِي الْأَمْر) کے احکامات و نظریات قرآن ِ حکیم کی قطعی نصوص و احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متضاد نہ ہوں ۔ صاحبِ امر(قیادت) کے نظریات ، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ باغی ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی ، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں متقی، باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خدا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو ۔ اللہ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ، رہنمائی اور ہدایت کے ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے ۔ انسان اللہ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے ۔ اساتذہ اپنے تلامذہ ، اکابر اپنے اصاغر ، راعی اپنی رعیت ،بڑے اپنے چھوٹوں کو زندگی کے راز ہائے سربستہ اور زندگی بسر کرنے کے سلیقے و طریقے سکھاتے آئے ہیں اور یہ علم و فن انسانی زندگی کے آغاز سے ہی نسل در نسل منتقل ہوتا چلاآرہا ہے ۔ قوم و ملت کی قیادت کے فرائض کی انجام دہی کےلیے قیادت کا اولوالعزم ، دوراندیش اور عقابی نگاہ کا حامل ہونا لازمی گردانا گیا ہے ۔ قیادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کےلیے قرآن و سنت کی روشنی میں صراحت کردہ شرائط کی تکمیل لازمی ہے ۔ کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ یہ بات ہمیں ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ قائد بنے بنائے نازل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کی صورت گری میں تربیت کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ آج انسان کو ایک ایسے قائد و آئیڈیل کی ضرورت ہے جو زندگی کے ہرشعبے میں اس کی رہنمائی و رہبری کر سکے جس کی زندگی میں اعتدال و توازن ہو ۔ قائد کے بیان کردہ اصول و قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہوں ۔ قیادت و سیادت پر لکھی گئی ہزاروں کتابوں اور دنیا کی نامور شخصیات کے حالات زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اثر کا دائرہ بہت ہی محدودہے لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے اثرکا دائرہ بسیط ہے اور ہر طرح کی زمانی اور مکانی حدود کی قید سے آزادبھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیم و ہدایت بذات خود ایک زندہ معجزہ ہے ۔ چشتی ۔


قیادت انسانی معاشرے کی ضرورت ہے ۔ قیادت کے درج ذیل مقاصد ہیں : انسان اپنی ذات ، خاندان، معاشرہ ، امت ، مملکت اور انسانیت کی فلاح کیلئے کوشش کرتا ہے اور انسان کے ان مقاصد کاحصول قیادت کی اتباع سے ہی ممکن ہے- قیادت کا مقصد ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو اور انسان کے بنیادی حقوق کو شریعت اسلامیہ نے مقاصد شریعہ کانام دیا ہے جو درج ذیل ہیں : ⏬


تحفظ دین، تحفظ جان ، تحفظ عقل ، تحفظ مال اور تحفظ نسل ۔ معاشرہ میں انتظامی امور کی انجام دہی کےلیے قواعد وضوابط کی اتباع اور نفاذ ضروری ہے تاکہ ریاست کے داخلی و خارجی امور منظم طور پر انجام دئیے جائیں ۔ ان تمام امور کی انجام دہی قیادت سے ہی ممکن ہے کیونکہ قیادت کا مقصد اجتماعی مصالح کا تحفظ اور عملداری ہے ۔


مقاصدِ شریعہ کاحصول انتظامی امور بہتر طورپر انجام دینے سے ممکن ہے کیونکہ اگر انتظامی امور بہتر طورپر انجام دئیے جائیں تو نتیجہ امن وامان کی صورت میں برآمد ہوگا ۔ کیونکہ امن و امان کا قیام قیادت کا پہلا بنیادی مقصد ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں میں باہمی اتحاد و اتفاق کےلیے اخوت کا لازوال رشتہ قائم کیا ۔


قیادت  کا مقصد ملک میں عوام کو انصاف فراہم کرنا ہے ۔ انصاف ایک ترازو  ہے جس کے قیام سے معاشرے کے تمام فریقوں اور طبقات میں اعتدال پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ بحیثیت مجموعی ترقی کرتا ہے ۔ کسی بھی قوم کی ترقی و بقاء کا راز نظامِ عدل کے شفاف اور مؤثر ہونے پر ہی ہے اور نظامِ عدل کے قیام کیلئے معاشرے میں قیادت کا ہونا ضروری ہے ۔


قیادت  کے مستحکم اور مؤثر ہونے سے مملکت میں عدل و انصاف اور امن و امان کا قیام یقینی ہو جاتا ہے جس کی بدولت معاشرے میں عوام وخواص کی زندگی میں بہتری اور خیروبرکت آتی ہے ۔ اس طرح مملکتِ اسلامیہ میں حکمران اور عام افراد کے درمیان عدل و انصاف ، بڑوں اور چھوٹوں کے مابین رحم و محبت ، قوی اور کمزور کے مابین یکساں حقوق سے ملک میں معیارِ زندگی بہتر ہو جاتا ہے ۔ یعنی قیادت انسانی زندگی میں بہتری لانے کا ذریعہ ہے ۔


قیادت کی پہچان ان کی اقدار سے ہوتی ہے ۔ یعنی لوگ قیادت کی صداقت، دیانت، تقویٰ اور انصاف کو مانتے ہوں- لہٰذا ایک قائد، رہبر اور حکمران جو لوگوں کو دنیا اور آخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے، ان کی مشکلات کودور کرنا چاہتا ہے ، اس میں چندایک ایسی صفات ہونی چاہئیں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اور لوگوں کا اعتماد اس پر باقی رہے ۔ لہٰذا اس ضمن میں ایک اسلامی ریاست کی حقیقی و صالح قیادت کیلئے لازمی ہے کہ وہ درج ذیل بنیادی اوصاف کی حامل ہو : ⏬


عدل و انصاف : اللہ تعالیٰ عادل ہے اور انصاف کو پسند کرتا ہے- عدل ایمان کی جان اور معاشرے کی روح ہے ۔ عدل پر ہی معاشرتی زندگی کا دار و مدار ہےاور عدل و انصاف ہر شہری کا حق ہے۔ لہٰذا قیادت کا فرض ہے کہ وہ عدل کے قیام کو یقینی بنائے ۔ قائد انصاف پسند صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا لا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللہ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 58)

 ترجمہ : بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرواور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے ، بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے ۔


درج بالا آیتِ مبارکہ میں امت کے ارباب بسط و کشاد اور اسلامی ریاست کے قائدین کو واضح الفاظ میں نصیحت کی گئی ہے-حکومتی عہدوں پر تقرری کےلیے کنبہ پروری اور دوست نوازی کی بجائے صرف اہلیت کو معیارقرار دینا بھی اس حکم کی تعمیل میں داخل ہے-ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جب تم عدالتی کرسی پر بیٹھو اور لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے لگو تو عدل و انصاف کے اصولوں کو قطعاً نظر انداز مت کرنا ۔ اس کے ساتھ دوسرا سبق یہ بھی دیا گیا ہے کہ کرسئ عدالت پر صرف ان لوگوں کو بٹھاؤ جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں ۔


اسلامی تعلیمات میں مساوات سے مراد دو امور بالکل واضح ہیں:ایک قانونی مساوات اور دوسری معاشرتی مساوات-قانونی مساوات کے حکم کے تحت تمام افراد  کے لئے ایک ہی قانون ہے - چاہے وہ امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا ورکر، حاکمِ وقت ہو یا عام فرد، عالم ہو یا جاہل، مرد  ہو یا عورت سب کیلئے قانون کی پابندی یکساں ضروری ہے ۔ اسلامی قوانین کے مطابق قیادت سے لے کر ایک عام فرد تک سب پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی قانون سے بالا ترتصور نہیں کیا جاتا ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا یا نہیں کیا جاتا ۔ اس کو ہم المیہ ہی کہہ سکتے ہیں ۔ جبکہ معاشرتی مساوات سے مراد یہ ہے کہ نشست و برخاست میں ، عبادات اور سماجی تقریبات میں یا عام اجتماعی زندگی میں کسی کو اولیت اور فضیلت حاصل نہیں ہے-فضیلت کا معیار خود اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں بیان فرمادیاہے:


إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 13)

ترجمہ : یقیناً تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم میں سے پرہیزگار ہے ۔


دائرہ اسلام میں شامل تمام افراد اپنے آپ کو غیر مشروط طور پراللہ رب العزت کی منشاء کے آگے جھکا دیتے ہیں اور اس طرح وہ سب مساوی قرار پاتے ہیں اور قیادت پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ یکساں طور پر ریاست کے تمام افراد کیلئے مواقع پیدا کریں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب میں پایا جانے والا وہ غرور جو وہ اپنے حسب و نسب کی وجہ سے کیا کرتے تھے، جڑ سے اکھاڑ کر مٹا دیا اور ان میں پائے جانے والے تمام اختلافات کو مٹاکر آفاقیت اور انسان دوستی کا درس دیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  بنی نوع انسانیت کو ایک ایسی مثالی مساوات کا درس دیا کہ جس زمانے میں لوگ اس تصور سے بالکل ناآشنا تھے ۔


حلم و برداشت : اسلامی ریاست میں قیادت  کے اصولوں میں سے ایک اہم چیز حلم و برداشت ہے- حلم کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناگوار بات کو انتقام کی قدرت رکھتے ہوئے بھی برداشت کیا جائے اور کسی طرح کا بغض اپنے دل میں نہ رکھا جائے- حلم وتحمل اعلیٰ درجے کی اخلاقی صفت ہے اور اس صفت کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْن ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 134)

ترجمہ : اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔


اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو امورِ زندگانی سرانجام دینے کےلیے ہرایک شخص کوغیض وغضب کے وقت میں صبر کرنے ، نادانی و جہالت کے وقت حلم اور بردباری پر قائم رہنے اور برائی کے مقابلے میں عفودرگزر کا حکم دیا ہے-جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کا حکم دے رہا ہے تو قوم کے لئے بطریقِ اولیٰ ا س کا حکم ہے ۔ چشتی ۔


کسی قوم کے نظام کی کمزوری اس وقت شروع ہوجاتی ہے جب اس میں گروہ بندیاں اور فرقے پیدا ہونے لگتے ہیں- یہ تقسیم در حقیقت پوری قوم کو تقسیم اور کمزور کرنے  کا سبب بنتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اصول دیا کہ امت میں فرقے کو پنپنے نہ دیا جائے ۔ اس تفرقے کو غیر اسلامی اور شر قرار دیا گیا –یہی وجہ ہے کہ اُمت کو اس سے سختی سے روکا گیا  ہے ، جیساکہ  ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 105)

ترجمہ : ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا، جنہوں نے فرقہ بندی کی اور واضح آیات آجانے کے بعد اختلاف کیا ۔


ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : إِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۔ (سورہ انعام آیت نمبر 159)

ترجمہ : وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور وہ فرقوں میں بٹ گئے ، تمہارا ان سے کوئی واسطہ نہیں ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس تفرقے سے بچنے کا علاج بھی بتادیاہے- ارشادِ ربانی  ہے : وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 103)

ترجمہ : اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقے کا شکار مت ہو ۔


اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جب انسان اپنے ہم جنسوں اور دوسری مخلوق سے پیش آئے تو اس حیثیت سے کہ وہ کائنات کے مالک کانمائندہ ہے اور ایک نمائندہ کا یہ فرض ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے وہ اپنے اسی رنگ میں پیش کرے جو خود مالک کا رنگ ہے- اس لیے انسان کو اپنے اندر وہ صفات پیداکرنی چاہئیں جومالک کی صفات ہیں ۔ مثلاً رحم ایک صفت ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہ بے شک رحمٰن اور رحیم ہے ۔ پھر بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ وہ اپنے اندر رحم کی صفت پیدا کریں- اسی طرح خطا اور قصور معاف کرنا اور دوسروں کے عیب چھپانا بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے لہٰذا بندوں کو بھی انہی صفات کا حکم ہے- معاشی لین دین ہو یا سماجی برتاؤ، سیاسی معاملات ہوں یا افرادِ خانہ سے سلوک ، اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل و انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ ۔ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 134)

ترجمہ : اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔


خدمت خلق یہ ہے کہ بغیر کسی غرض کے بے لوث ہوکہ کسی کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائےجواس کے لئے فائدہ مند ہواور یہ برتاؤ عقلاً اور شرعاً صحیح ہو- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَة ۔ (سورہ الحشر آیت نمبر 9)

ترجمہ : اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو ۔


خدمتِ خلق قیادت کے خواص میں سب سے اہم ہے ۔ ریاست میں نظم و ضبط برقرار رکھنے اور بگاڑ و خود غرضی کو ختم کرنے کےلیے قومی قیادت کو خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہونا پڑے گا- اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنا انسانی اخلاق کا نہایت اعلیٰ جوہر ہے ۔ اسی بناء پر اگر قیادت مملکت و ریاست کےلیے بے لوث خدمت گزار بن جائے تو ایسی ریاست میں خوشحالی وکامرانی اور امن وامان کا قیام ایک لازمی ابدی امر ہے ۔


 نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جب امور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1631)


دین دار عادل بادشاہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے بادشاہ جو لوگوں کا سربراہ ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 7138،چشتی)


قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں اور زمین پر اللہ کا کنبہ ہیں، اس اعتبارسے انسان فطرتاً مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے لیکن زمین میں اصلی حاکمیت اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔وہی تنہا اس کائنات کا خالق و مالک اورحاکم ہے اور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندوں کیلئے نظام زندگی تجویز کرے اور ان کےلیے قانون بنائے ۔ یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے ۔


اسلامی ریاست میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنے کامنصب اولوالامرکے سپرد کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصال مبارک کے بعد یہ ذمہ داری امت کی قیادت یعنی ارباب حل و عقد کی طرف منتقل ہوئی ۔ وہ اس بات کیلئے پابند ٹھہرے کہ وہ اللہ کی زمین میں اس کے احکام و قوانین نافذ کریں ۔ خود بھی ان کی اطاعت کریں اور دوسروں سے بھی اطاعت کرائیں ۔ یہ قائدین درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے ان کی اطاعت واجب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو ، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 59)


اسلام نے اپنے نظام اطاعت میں قائدین کو بلند منصب اس لیے دیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت کے زمین میں نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس منصب کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے قانون کی اطاعت کریں اور اس کے بندوں کے اندر اسی کے قانون کو نافذ کریں ۔


اس طرح ان کے منصب کا بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود رب کائنات کے قانون کی نافرمانی کریں اور نہ دوسروں کو کسی ایسی بات کا حکم دیں جو رب کائنات کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں سے اطاعت کا یہ مطالبہ اس بنیاد پر ہے کہ اس کائنات کا حقیقی حکمران وہی ہے ۔ بندوں کا حقیقی منصب صرف اطاعت کا ہے اور اگر وہ کوئی تصرف کا حق رکھتے ہیں تو صرف اس کے نائب کی حیثیت سے ۔ اس وجہ سے ان کے لیے یہ بات کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اصل حکمران کے حکم کے خلاف حکم دیں اور اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو وہ اپنا وہ درجہ از خود ختم کر دیتے ہیں جو اسلام نے ان کےلیے تسلیم کیا ہے ۔


قائدین کےلیے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہوں ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو دینی و قانونی سند مانتے ہوں ۔ اسلام کے احکام و شرائع کے پابند ہوں ۔ تہذیب و معاشرت میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔ حلال و حرام کے بارے میں اسلام کے مقرر کی ہوئے حدود کے پابند ہوں ۔ اسی لیے ایک خلیفۃ المسلمین ازروئے شریعت اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو من وعن جاری کرے ۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے ۔


حضرت شیخ محقق عبدالحق محدیث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک رسالہ بعنوان ’’الجواہر القیادت‘‘ لکھ کر مغل فرمانروا شہاب الدین محمد شاہ جہاں کو غالباً تحفہ بھیجا ۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ احادیثِ مبارکہ بیان کیں جن میں حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو بیان کیا گیا اور ساتھ عوام کی بھی رہنمائی کی گئی ۔ ہم اختصار کے ساتھ اسی رسالہ سے چند بنیادی نوعیت کی احادیث نقل کر رہے ہیں :  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، جس نے حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی (صحیح بخاری: 2957،چشتی)(صحیح مسلم: 1835)


حضرت ام الحصین رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم پر ایسا ناک اور کان کٹا غلام امیر بنا دیا جائے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمہاری قیادت کرے تو تم اس کا حکم سنو اور اطاعت کرو ۔ (سنن ابن ماجہ : 2861)


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان پر سننا اور حکم بجا لانا واجب ہے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا نا پسند ، جب تک کہ اسے گناہ کا حکم نہ دیا جائے ۔ پس جب اسے گناہ کا حکم دیا جائے تو اسے قبول کرنا لازم ہے نہ اس کی تعمیل ضروری ہے ۔ (صحیح بخاری: 7144،چشتی)(صحیح مسلم: 1839)


حضرت عباد ہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ، حکم کے سننے اور فرمانبرادی پر تنگی اور فراخی ، خوشی اور ناخوشی میں اور اس صورت میں جب دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے اور اس بات پر کہ ہم اقتدار کے بارے میں اقتدار کے اہل سے جھگڑا نہیں کریں گے اور ہم حق بات کہیں گے ، اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اپنے امیرسے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو صبر کرے ، کیونکہ کہ جو شخص بھی جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوا ، پھر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ 


حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سلمہ بن یزید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرمائیں کہ اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہو جائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمیں ہمارا حق نہ دیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے لیے کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا : تم سنو اور اطاعت کرو کیونکہ جس چیز کے وہ مکلف ہیں ، وہ ان کے ذمہ اور تم جس چیز کے مکلف ہو وہ تمہارے ذمہ ۔ 


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بنی اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے ، ان میں سے کسی نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرے نبی ان کے جانشین ہوتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ، خلفاء ہوں گے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ فرمایا : پہلے کی بیعت کو پورا کرو اور اس کا حق ادا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ان سے اس چیز کے بارے میں پوچھے گا جس کی نگہبانی پر انہیں مقرر فرمایا تھا ۔


حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم حکومت طلب نہ کرو ، کیونکہ اگر مانگنے پر تمہیں حکومت دی گئی تو تم اس کے سپرد کر دیے جاؤگے اور اگر مانگے بغیر تمہیں حکومت دی گئی تو اس پر تمہاری مدد کی جائے گی ۔


حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے حاکم کیوں نہیں بنا دیتے ؟ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا : ابوذر تم کمزور ہو اور حکومت امانت ہے ، وہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہے ، سوائے اس شخص کے جس نے اس کے حق کے ساتھ حاصل کیا ، اور اس میں جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں وہ ادا کیں ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہیں فرمایا : ابو ذر ہم تمہیں کمزور دیکھتے ہیں، اور ہم تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتے ہیں جو ہمیں اپنے لیے پسند ہے ، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا اور یتیم کے مال کا متولی نہ بننا ۔


حکایت : شیخ عبدالوہاب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ گجرات (ہند ) میں حضرت شیخ علی متقی علیہ کے دل میں یہ بات آئی کہ عدل و انصاف کا ثواب بے شمار ہے، اگر یہ ثواب حاصل ہو جائے تو غنیمت ہے ، اس نیت سے کچھ عرصہ منصب عدالت حاصل کرنا چاہیے ، نیز تجربہ کرنا چاہیے کہ باطن کے حضور اور جمعیت کے ساتھ شغل دنیا جمع ہوتا ہے یا نہیں ، سلطان محمود گجراتی آپ کا بہت ہی معتقد اور تابع فرمان تھا ، اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اس بات کو کارخانہ حکومت کےلیے غنیمت اور سعادت جانا ، چنانچہ حضرت شیخ نے داروغہ کا منصب اختیار کر لیا اور کچہری میں بیٹھنے لگے ۔ آپ کے کچھ خدام اور حاضر باش لوگوں نے رشوت لینا شروع کر دی ۔ بادشاہ کو اطلاع ملی کہ شیخ اس تقویٰ و دیانت کے باوجود رشوت لیتے ہیں، افراط تفریط سے کام لیتے ہیں۔ بادشاہ نے اس بات پر یقین نہ کیا تو خبر دینے والوں نے کہا کہ وہ جماعت جو ہمیشہ شیخ کے ساتھ ہوتی ہے ، وہ رشوت لیتی ہے ۔ شیخ کو اس کا علم ہے اور وہ اسے برداشت کررہے ہیں ۔ جب شیخ نے سنا کہ بادشاہ کو اس قسم کی اطلاعات پہنچائی گئی ہیں تو پہلے انہوں نے اصلاح کی کوشش کی ، آخر دیکھا کہ معاملہ نہیں سدھرتا ، ایک دن عدالت کے چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اپنا عصا اٹھایا اور وہاں سے تشریف لے گئے ۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دونوں کام جمع نہیں ہوتے خدا کرے عاقبت بخیر ہو ۔


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خبردار ! تم سب راعی ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا،بادشاہ لوگوں کا سربراہ و محافظ ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے ، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا ، عورت اپنے شوہر کے گھراور اس کی اولاد کی محافظ ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے ، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ خبردار! تم سب محافظ ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ (صحیح بخاری : 7138)


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ پوچھا گیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امانتوں کے ضائع ہونے کا مطلب کیا ہے ؟ فرمایا : جب اْمور نااہل لوگوں کو سونپے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح بخاری:6131،چشتی)


حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص مسلمان رعایا کا والی ہو اور ان کے حق میں خیانت کرتے ہوئے مر جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام فرما دے گا ۔ 


حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ بد ترین حکمران وہ ہیں جو ظلم کرتے ہیں ۔ 


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص دس افراد کا بھی حاکم ہو ، قیامت کے دن اسے اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی گردن میں طوق ہو گا ، یہاں تک کہ انصاف اسے رہا ئی دلا دے یا ظلم اسے ہلاک کر دے ۔


ان ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہلاکت ہے حکمرانوں کےلیے ، ہلاکت ہے سرداروں کےلیے ، ہلاکت ہے امانت داروں کےلیے ، قیامت کے دن بہت سے لوگ آرزو کریں گے کہ کاش ان کی پیشانیوں کے بال ثریا ستاروں کے ساتھ بند ھے ہوتے اور وہ زمین و آسمان کے درمیان حرکت کر رہے ہوتے اور انہوں نے کسی کام کی سرداری نہ لی ہوتی ۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی باد شاہ کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے سچا وزیر عطا فرماتا ہے ، اگر بادشاہ بھول جائے تو وہ اسے یاد دلائے اور اگر یاد کرے تو اس کی مددکرے اور جب اللہ تعالیٰ اس کیلئے بھلائی کے ماسوا کا ارادہ فرمائے تو اسے برا وزیر عطا فرماتا ہے ، اگر باد شاہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں دلاتا اور اگر یاد کرے تو اس کی مدد نہیں فرماتا ۔ 


انسان مدنی الطبع ہے ۔ معاشرے کی بنیادی اکائی فرد ہے ۔ وہ خود اپنا راعی بھی ہے اور رعایا بھی ۔ ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ اور ایک شیطان ہوتا ہے ، جو اسے نیکی و بدی کی طرف ابھارتا ہے ، انسان کو چاہیے کہ اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرے تاکہ اس کے تمام معاملات درست رہیں ۔ اسی طرح میاں بیوی ، آقا و غلام ، اہل ثروت ، امرائے ریاست ، ارباب دین، ماہرین علوم و فنون لازم وملزوم ہیں ۔ سربراہ ریاست خدا کا سایہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نائب ہے ۔ دین دار عادل بادشاہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جو غریبوں ، مسکینوں اور مظلوموں کا پشت پناہ اور ڈھال ہے جو ظالموں کی بیخ کنی ہے ۔ 


حکمرانوں ا ور عہدے داروں کے اہل و عیال بھی عوام کے رکھوالے ہوتے ہیں ۔ بدترین امراء وہ ہیں جو عوام اور عورتوں پر ظالم ہیں۔ بدترین عہدیداران وہ ہیں جو عوام کا پیسہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں۔ میرٹ پر عہدوں کا تعین کیا جائے۔ عوام کو تاکید کی گئی ہے کہ اگر ان کے ساتھ ناانصافی ہو تو وہ خروج ، بغاوت اور فتنہ انگیزی سے پرہیز کر کے صبر کریں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کریں ساتھ ہی ہجرت (گناہوں کو ترک کرنا) کریں ۔ (الجواہر القیادت صفحہ 11 - 12،چشتی)


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں قیادت کو درج ذیل امور کی ہمہ وقت پاسداری کرنی چاہییے : ⏬


قیادت ریاست کے عقیدے اور نصب العین کی پاسدار ہو یعنی وہ حاکمیتِ الٰہی کے قیام کو یقینی بنائے ۔


قیادت رنگ و نسل اور دیگر امتیازات کو مٹانے اور معاشرے میں اخوت کو فروغ دینے والی ہو ۔


قیادت امانت اور دیانت کی روش کوفروغ دےتاکہ ریاست کے استحکام اور اس کے نظم و ضبط کے قیام میں آسانی ہو ۔


قیادت عدل و انصاف اور مساوات جیسے معاشرتی عوامل کے قیام کو ممکن بنانے والی ہو ۔


قیادت خود غرضی اور لالچ سے دور رہنے والی ہوتاکہ اجتماعی کوششیں بے اثرہوکر نہ رہ جائیں ۔


قیادت اسلامی وحدت و اخوت کوفروغ دینے والی ہو تاکہ رنگ و نسل ، لسانی ، گروہی ، قومی ، قبائلی اور دیگر عصبیتوں اور امتیازات کاخاتمہ ممکن ہوسکے ۔


قیادت ریاست اور رعایا کی معتمد ہو اور علم ودانش کے ساتھ جذبہ صادقہ سے بھی سرشارہو ۔


قیادت پر لازم ہے کہ وہ معاشرتی برائیوں اور فرسودہ رسومات کو ختم کروائے اور امت کےلیے اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ماحول کو سازگار بنائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

آزادی اظہارِ رائے اور اسلام

آزادی اظہارِ رائے اور اسلام محترم قارئینِ کرام : آزادی رائے کے اظہار کا جہاں تک تعلق ہے اسلام نے حدود و قیود کی مذکورہ پابندی کے ساتھ اجازت...