Tuesday, 12 August 2025

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم

محترم قارئینِ کرام : کسی مقبوضہ جگہ پر مسجد تعمیر ہو جائے اور مسجد کی تعمیر کا مقصد صرف صاحبِ زمین کو ضرر پہنچانا ہو تو ایسی جگہ پر بنائی گئی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے ۔ اللہ تعالى کا فرمان ذی شان ہے : وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُؕ ۔ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰىؕ ۔ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 107)

ترجمہ : اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو اور کفر کے سبب اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو اور اس کے انتظار میں جو پہلے سے اللہ اور اس کے رسول کا مخالف ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے تو بھلائی چاہی اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بیشک جھوٹے ہیں ۔


مزید فرمایا : لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ ۔ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ  اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ ۔ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 108)

ترجمہ : اس مسجد میں تم کبھی کھڑے نہ ہونا بیشک وہ مسجد کہ پہلے ہی دن سے جس کی بنیاد پرہیزگاری پر رکھی گئی ہے وہ اس قابل ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو اس میں وہ لوگ ہیں کہ خوب ستھرا ہونا چاہتے ہیں اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں ۔


مذکورہ آیاتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ جس مسجد کی بنیاد تقوى پر ہو ، اللہ سے ڈر کر بنائی جائے اس میں نماز ادا کی جائے گی اور جس کی بنیاد تقوى پر نہ ہو ، بلکہ قبضہ گیری اور لڑائی فساد بپا کرنے پر ہو وہاں نماز پڑھنا منع ہے ۔


واضح رہے کہ شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کےلیے وقف جگہ ہوتی  ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے ۔ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا ، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی ۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے ۔ ایسی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ، البتہ نماز ادا ہو جائے گی ۔ کسی زمین کو مسجد کی تعمیر کےلیے وقف کرنے کےلیے اس جگہ کا مالک ہونا ضروری ہے ، دوسرے کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا شرعا جائز نہیں ہے ، ایسا کرنے والوں کو ثواب کے بجائے دوسرے کی زمین غصب کرنے کا گناہ ہوگا ، جس کے بارے میں صحیح بخاری میں موجود روایت کا مفہوم ہے کہ جس نے بالشت بھر زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دن اسے اتنے حصے کی سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ، جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بدلے اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا ۔


نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنْ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ ۔

ترجمہ : جس نے ایک بالشت زمین پر بھی ناجائز قبضہ کیا ، قیامت کے دن سے ساتوں زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا ۔  (صحیح بخاری حدیث نمبر 3198)


نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَنْ اقْتَطَعَ أَرْضًا ظَالِمًا لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ۔

ترجمہ : جس نے ناحق کسی زمین پر قبضہ کیا ، قیامت کے دن جب وہ اللہ سے ملے گا تو اللہ اس پر غضباناک ہونگے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 139)


لہٰذا کسی بھی مقصد کےلیے زمین پر قبضہ کرنا نا جائز ہے ۔ اور پھر اللہ عزوجل کا گھر مسجد تعمیر کرنے کےلیے نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین خریدنے کا طریقہ اپنی امت کو دیا ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  : لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ نَزَلَ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ فَأَقَامَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ قَالَ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي سُيُوفِهِمْ قَالَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفَهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ فَكَانَ يُصَلِّي حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ الْمَسْجِدِ فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإِ بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا فَقَالَ يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي حَائِطَكُمْ هَذَا فَقَالُوا لَا وَاللَّهِ لَا نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ قَالَ فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ كَانَتْ فِيهِ قُبُورُ الْمُشْرِكِينَ وَكَانَتْ فِيهِ خِرَبٌ وَكَانَ فِيهِ نَخْلٌ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَنُبِشَتْ وَبِالْخِرَبِ فَسُوِّيَتْ وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ قَالَ فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ الْمَسْجِدِ قَالَ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ حِجَارَةً

ترجمہ : جب نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کےبالائی طرف بنون عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام فرمایا۔وہاں 14 دن تک ٹھہرے ، پھر بنونجار کی طرف پیغام بھیجا تو وہ اپنی تلواریں لٹکائے ہوئے آئے ۔ اور میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہی منظر ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹ پر سوار تھے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بیٹھے تھے اور بنو نجار ان کے ارد گرد تھے ، حتى کہ وہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے ۔ اس وقت جہاں بھی نماز کا وقت ہوتا نماز ادا کر لیتے تھے حتى کہ بکریوں کے باڑے میں بھی نماز ادا کرلیتے تھے ۔ پھر آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار کو پیغام بھیجا کہ یہ باغ ہمیں بیچ دو ۔ تو وہ عرض کرنے لگے کہ ہم اس کی قیمت صرف اللہ سے ہی لیں گے ۔ تو اس باغ میں موجود مشرکین کی قبروں کو اکھاڑ دیا گیا اور ناہموار جگہ کو برابر کیا گیا اور کھجوروں کے درختوں کو کاٹ دیا گیا ۔ اور انہوں نے کھجوروں کے درختوں مسجد کے قبلہ کی جانب رکھ دیا اور دونوں اطرف میں پتھر رکھ دیے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3932)


نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کےلیے بنو نجار سے باغ خریدنے کی بات کی اور انہیں قیمت کی پیش کش کی ، یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے وہ باغ مسجد کےلیے اللہ کی خاطر وقف کر دیا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے کےلیے بھی جگہ خریدی جائے اور اگر کوئی مسلمان اپنی رضا اور خوشی سے مسجد کےلیے جگہ وقف کر دے تو اس کی مرضی ہے ۔ لیکن کسی کی جگہ پر قبضہ کرکے مسجد بنانے کی شریعت اجازت نہیں دیتی ۔


       غصب شدہ زمین پر  نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ، اس کا اعادہ واجب ہے جیسا کہ بہار شریعت جلد سوم ہیں ہے : زمین مغصوب یا پراے کھیت میں جس میں زراعت موجود ہے یا جتے ہوے کھیت میں نماز پڑھنا مکروہ 

تحریمی ہے ۔ (بہار شریعت حصہ ٣ صفحہ ١٧٠)


     ایسا ہی فتاوی رضویہ میں ہے کہ آپ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ چوری کیے ہوئے کپڑے پہنے کر نماز پڑھی تو اس کا کیا حکم ہے؟ فرمایا : چوری کا کپڑا پہن کر نماز پڑھنے میں اگرچہ فرض ساقط ہو جاۓ گا ، لان الفساد مجاور مگر نماز مکروہ تحریمی ہوگی ، للاشتمال علی المحرم جائز کپڑا پہن کر اس کا اعادہ واجب ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٣ صفحہ ٤٥١) 


فتاوی عالمگیری می ہے : الصلوۃ فی ارض مغصوبۃ جائزۃ ولکن یعاقب بظلمہ فما کان بینہ وبین اللہ تعالی یثاب وماکان بینہ وبین العباد یعاقب کذا دی مختار الفتاوی ۔

 

فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے : ناجائز طور پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا اپنے وقار اور مال کو داؤ پر لگانا ہے اور اس پر مسجد بنانا بھی جائز نہیں کہ کسی بھی وقت حکومت اسے واپس لے سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس حصے میں تعمیر شدہ مسجد کو منہدم کرنا ہو گا ۔ اس لیے ملکی قانون کی خلاف ورزی کرکے ناجائز طور پر قبضہ پھر اس پر مسجد بنانا ہرگز روا نہیں اس سے اجتناب ضروری ہے ۔ (فتاوی مرکز تربیت افتا باب مایکرہ فی الصلوۃ)


مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ سے سوال کیاگیا : کسی کی زمین میں مسجد تعمیر کی گئی ، آیا وہ مالک زمین اس مسجد کو منہدم کرسکتا ہے یا نہیں ؟

آپ علیہ الرحمہ جواب میں لکھتے ہیں : کسی شخص کا اپنی شخصی ملکیت میں مسجد بنانا جائز ہے اور اگر کوئی دوسرا شخص بنالے تو وہ مسجد نہ ہوگی اس کے توڑ دینے کا مالک کو اختیار ہے اس لیے کہ مسجد وقف ہے اور وقف مالک ہی کرسکتا ہے ۔

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ نے لکھا : ترجمہ : ’’البحر الرائق ‘‘ میں ذکر کیا کہ ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ (وقف کے صحیح ہونے کی) شرط یہ ہے کہ مسجد کی زمین بانیِ مسجد کی ملک میں ہو ، مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی زمین پر قبضہ کرنا غصب کرنا ہے اور فقہ کی تمام کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ غصب کی ہوئی زمین پر نماز مکروہ ہے ، لہٰذا ایسی مسجد جو مالک کی اجازت کے بغیر بنائی گئی ہو ، اس میں تو نماز پڑھنا ہی مکروہ ہے ۔ (وقارالفتاویٰ جلد دوم صفحہ 305)


عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، وكانت، بينه وبين أناس خصومة في أرض، فدخل على عائشة فذكر لها ذلك، فقالت : يا أبا سلمة، اجتنب الأرض، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من ظلم قيد شبر طوقه من سبع أرضين ۔ (صحيح البخاري 4/ 106،چشتی)


عن سالم، عن أبيه رضي الله عنه قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : من أخذ من الأرض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة إلى سبع أرضين ۔ (صحيح البخاري 3/ 130)


لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح ۔ (رد المحتار 4/ 341)


وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ ۔ (رد المحتار 1/ 381)


تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ ہر علاقے میں لوگوں کی ضرورت کے مطابق مسجد بنانا فرضِ کفایہ ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لہذا اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے، مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی ۔


غصب شدہ جگہ پر مسجد تو نہیں بن سکتی ہے، جب تک مالک سے اس کی اجازت نہ لے لی جائے، گورنمنٹ کے کسی دفتر یا ادارہ پر قبضہ کرکے اسے مسجد میں شامل کرنا بھی غصب ہے، البتہ جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کےلیے خالی پڑی ہو ، وہاں مسجد بنانا جائز ہے۔ اور گورنمنٹ کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِ نظر وہاں مسجد بنوائے ۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 340) : (قوله : وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد ۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 341) : حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح، ولو أجاز المالك وقف فضولي جاز ۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 381) : وفي الواقعات: بنى مسجدًا على سور المدينة لاينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة ۔


الموسوعة الفقهية الكويتية (37 / 195) : يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية ۔


مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1 / 678) : (و) ما (أخذ منهم) أي من أهل الحرب (بلا قتال) بأن أخذ بالصلح (في مصالح المسلمين) متعلق بيصرف (كسد الثغور) جمع ثغر وهو موضع مخافة البلدان (وبناء القناطر) جمع قنطرة (والجسور) جمع جسر والفرق بينهما أن الأول لا يرفع والثاني يرفع وفيه إشارة إلى أنه يصرف في بناء المساجد والبقعة عليها لأنه من المصالح فيدخل فيه الصرف على إقامة شعائرها من وظائف الإمامة والأذان ونحوهما ۔


سرکاری زمین پر بغیر سرکار کی اجازت کے مسجد تعمیر کرنا شرعی ، قانونی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہے ۔ اس کےلیے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے ۔ کیونکہ سرکاری زمین پر حکومت کی اجازت کے بغیر مسجد بنانے سے زمین سرکار کی ملکیت میں ہی رہے گی اور سرکار کو اس میں تصرف کرنے اور وہاں سے مسجد ہٹانے کا اختیار باقی رہے ۔ ایسا کرنے سے بعد میں تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور بسا اوقات حکومت کی طرف سے ناجائز قبضہ ہٹانے کےلیے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے جس سے اشتعال جنم لیتا ہے ۔ اس لیے مسجد کی تعمیر صرف اس جگہ پر اور اتنی ہی جگہ پر کی جائے جتنی مسجد کےلیے خریدی گئی ہے ، یا اسے کسی نے وقف کیا ہے ۔


مغصوبہ زمین کے بقدر یا اُس کی قیمت مالکِ حقیقی یا اُس کے ورثہ کو اَدا کرے ، اس کے بعد اس جگہ مسجد بنوانا درست ہوگا ۔ و علی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ، فإن أخذہ فلیردہ علیہ …، ورد القیمۃ مخلص خلفًا ۔ (الہدایۃ ۳؍۳۷۳)


أفاد أن الواقف لا بد أن یکون مالکہ وقت الوقف ملکًا باتًا ولو بسبب فاسدٍ، وأن لا یکون محجورًا عن التصرف، حتی لو وقف الغاصب المغصوب، لم یصح، وإن ملکہ بعد بشراء أو صلح۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: قد یثبت الوقف بالضرورۃ ۴؍۳۴۱-۳۴۹ کراچی، البحر الرائق / کتاب الوقف ۵؍۳۱۴،الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الوقف الباب الأول ۲؍۳۵۳،چشتی)


یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي، کتاب الحدود / باب التعزیر، مطلب: في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الغصب / الباب السابع في حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۱۶۷ ، البحر الرائق، کتاب الحدود / باب حد القذف، فصل في التعزیر ۲؍۶۸ زکریا، النہر الفائق، کتاب الحدود / باب حد القذف ۳؍۱۶۵)


عن سالم عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من أخذ من الأرض شیئًا بغیر حقہ خسف بہ یوم القیامۃ إلی سبع أرضین۔ (صحیح البخاري، کتاب المظالم والغصب / باب إثم من ظلم شیئًا من الأرض رقم: ۲۴۵۴ دار الفکر بیروت، مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع / باب الغصب والعاریۃ ۲۵۴)


وعلی الغاصب ردّ العین المغصوبۃ۔ (الہدایۃ / کتاب الغصب ۳؍۳۵۷)

وکذا تکرہ في أماکن: کفوق کعبۃ … وأرض مغصوبۃ أو للغیر لو مزروعۃً أو مکروبۃً (الدر المختار) وفي الواقعات: بنی مسجدًا في سور المدینۃ، لا ینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ، فلم یخلص للّٰہ تعالیٰ کالمبنی في أرض مغصوبۃ … فالصلاۃ فیہا مکروہۃ تحریمًا في قول، وغیر صحیحۃ لہ في قول آخر ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ / مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ۱؍۳۸۱ کراچی)


سرکار کی اِجازت کے بغیر جس جگہ مسجد بناٸی گئی ہے وہ مسجدِ شرعی کے حکم میں نہ ہوگی ، اور وہاں نماز پڑھنے سے مسجدِ شرعی کا ثواب نہ ملے گا ۔


قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التأبید۔ والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ وکذا لو کانت ملکًا لہ؛ فإنّ لورثتہ بعدہ ذٰلک، فلا یکون الوقف مؤبدًا ۔ (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن الشحنۃ مع شیخہ العلامۃ قاسم في وقف البناء ۴؍۳۹۰ کراچی)


گورنمنٹ کی اِجازت کے بغیر سرکاری زمین پر مسجد و مدرسہ کی تعمیر ہرگز جائز نہیں ہے ۔


لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱ ، الأشباہ والنظائر / الفن الثاني ۲؍۴۴۴)

قلت : وہو کذٰلک، فإن شرط الوقف التابید، والأرض إذا کانت ملکًا لغیرہ، فللمالک استردادہا، وأمرہ بنقض البناء۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب: مناظرۃ ابن شحنۃ ۴؍۳۹۰ کراچی)

المستفاد : لأن اللّٰہ تعالیٰ لا یقبل إلا الطیب فیکرہ تلویث بیتہٖ بما لا یقبلہ۔ (فتاویٰ شامی ۲؍۴۳۱)


اس لیے اگر آپ سرکاری زمین پر مسجد بنانا چاہتے ہیں یا مسجد سے متصل سرکاری زمین کو مسجد میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو حکومت سے اس کی اجازت لیں یا زمین کی قیمت دے کر رضا مندی سے خرید لیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday, 5 August 2025

تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو

تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘ ۔ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ ۔ اِعْدِلُوْا ۔ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘ ۔ (سورہ الماٸدہ آیت نمبر 8)
ترجمہ : اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہو جاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو ، انصاف کرو ، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے ۔

آیتِ مبارکہ میں عدل و انصاف کا حکم فرمایا گیا ہے اور واضح فرمادیا کہ کسی قسم کی قرابت یا عداوت کا کوئی اثر تمہیں عدل سے نہ ہٹا سکے ۔ یہ آیت بھی سابقہ آیت سے متصل ہے اور اس سے مراد بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر برانگیختہ کرنا اس آیت میں دو حکم ہیں (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنا اور انصاف کے ساتھ گواہی دینا ، اور اللہ کے تمام احکام کا خلاصہ بھی دو چیزیں ہیں ۔ اللہ کی تعظیم اور بندوں پر شفقت کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں اور حق پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا ، اس کا تعلق اللہ کی تعظیم کے ساتھ ہے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینا اس کا تعلق بندوں پر شفقت کے ساتھ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اپنے قرابت داروں اور دوستوں کی محبت کی وجہ سے شہادت دینے میں کوتاہی یا کمی نہ کرو ، اور اپنے مخالفوں اور دشمنوں سے بغض کی وجہ سے شہادت میں کوئی رد وبدل نہ کرو ، صرف انصاف کی رو سے شہادت دو ، خواہ اس سے تمہارے دوستوں کو نقصان پہنچے یا تمہارے دشمنوں کو فائدہ پہنچے ، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی قوم کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے ۔

اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ۔ ایک تفسیر عام ہے ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ کسی قوم کے ساتھ بغض تمہیں اس کے ساتھ بےانصافی کرنے پر نہ ابھارے ‘ بایں طور کہ تم حد سے تجاوز کرو ‘ بلکہ تم ان کے ساتھ انصاف کرو ‘ خواہ انہوں نے تمہارے ساتھ برائی کی ہو اور ان کے ساتھ نیکی اور اچھائی کے ساتھ پیش آؤ‘ خواہ انہوں نے تمہارے ساتھ بدی اور برائی کی ہو ‘ اور مخلوق میں سے ہر ایک کے ساتھ عدل اور انصاف کرو ‘ اور کسی کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہ کرو ‘ اور اس آیت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ آیت کفار مکہ کے ساتھ مخصوص ہے ‘ کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کی چھ ہجری میں مسجد حرام میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روک دیا تھا ‘ اور حدیبیہ سے آگے نہیں جانے دیا تھا۔ سو اس وجہ سے تم ان پر ظلم اور زیادتی نہ کرنا۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ مسلمانوں کو کفار پر ظلم اور زیادتی کرنے سے منع کیا گیا ہے ‘ حالانکہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ مشرکوں کو جہاں پائیں ‘ قتل کردیں اور میدان جنگ میں آنے والے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کرلیں اور ان کے اموال لوٹ لیں تو پھر اور ظلم اور زیادتی کیسے ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ظلم یہ ہے کہ جب وہ اسلام لائیں تو ان کا اسلام قبول نہ کیا جائے ‘ ان کے بچوں کو قتل کیا جائے ‘ بڑوں کا مثلہ کیا جائے اور ان سے کیے ہوئے معاہدوں کو توڑ دیا جائے۔ اس کے بعد فرمایا : تم عدل کرتے رہو ‘ وہ خوف خدا کے زیادہ قریب ہے ۔ عدل تقوی کے زیادہ قریب ہے ۔ اس کی بھی دو تفسیریں ہیں۔ تقوی کے معنی ہیں خوف خدا کی وجہ سے گناہوں سے اجتناب کرنا ‘ اور جو شخص عدل کرتا ہے ‘ وہ گناہوں سے اجتناب کے زیادہ قریب ہوتا ہے ‘ اور دوسری تفسیر یہ ہے کہ جو شخص عدل کرتا ہے ‘ وہ عذاب اخروی سے بچنے کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔

آیتِ مذکورہ میں غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ساتھ بھی عدل کرنے کا حکم دیا ہے ‘ حالانکہ وہ اللہ کے دشمن ہیں اور جب اللہ کے دشمنوں کے ساتھ عدل کرنا واجب ہے تو اللہ کے دوستوں کے ساتھ عدل کرنا کس قدر زیادہ مطلوب ہوگا ۔

غَسَّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گیا ، کچھ دنوں بعد امیرُ المومنین حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے نکلے تو جبلہ بن ایہم بھی اس قافلے میں شریک ہو گیا ۔ مکۂ مکرمہ پہنچنے کے بعد ایک دن دورانِ طواف کسی دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کی چادر پر پڑ گیا تو چادر کندھے سے اتر گئی ۔ جبلہ بن ایہم نے اس سے پوچھا : تو نے میری چادر پر قدم کیوں رکھا ؟ اس نے کہا : میں نے جان بوجھ کر قدم نہیں رکھا غلطی سے پڑ گیا تھا ۔ یہ سن کر جبلہ نے ایک زور دار تھپڑ ان کے چہرے پر رسید کر دیا ، تھپڑ کی وجہ سے ان کے دو دانت ٹوٹ گئے اور ناک بھی زخمی ہو گئی ۔ یہ دیہاتی مسلمان حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور جبلہ بن ایہم کے سلوک کی شکایت کی ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جبلہ بن ایہم کو طلب فرمایا اور پوچھا : کیا تو نے اس دیہاتی کو تھپڑ مارا ہے ؟ جبلہ نے کہا : ہاں میں نے تھپڑ مارا ہے، اگر اس حرم کے تقدس کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے قتل کر دیتا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے جبلہ ! تو نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا ہے ، اب یا تو تو اس دیہاتی سے معافی مانگ یا میں تم سے اس کا قصاص لوں گا ۔ جبلہ نے حیران ہو کر کہا : کیا آپ رضی اللہ عنہ اس غریب دیہاتی کی وجہ سے مجھ سے قصاص لیں گے حالانکہ میں تو بادشاہ ہوں ؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اسلام قبول کرنے کے بعد حقوق میں تم دونوں برابر ہو ۔ جبلہ نے عرض کی : مجھے ایک دن کی مہلت دیجیے پھر مجھ سے قصاص لے لیجیے گا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس دیہاتی سے دریافت فرمایا : کیا تم اسے مہلت دیتے ہو ؟ دیہاتی نے عرض کی : جی ہاں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے مہلت دے دی ، مہلت ملنے کے بعد راتوں رات جبلہ بن ایہم غسانی ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا ۔ (فتوح الشام، ذکر فتح حمص صفحہ ۱۰۰ الجزء الاول)

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا آپس میں کسی بات پر اختلاف ہوا ، دونوں نے یہ طے کیا کہ ہمارے معاملے کا فیصلہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کریں ۔ چنانچہ یہ فیصلے کےلیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا : ہم تمہارے پا س اس لیے آئے ہیں تاکہ آپ ہمارے معاملے کا فیصلہ کر دیں ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بستر کے درمیان سے جگہ خالی کرتے ہوئے عرض کی : اے امیر المومنین ! یہاں تشریف رکھیے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ تمہارا پہلا ظلم ہے جو تم نے فیصلے کےلیے مقرر ہونے کے بعد کیا ، میں تو اپنے فریق کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔ یہ فرما کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے ۔ مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا (حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے دعوے کے ثبوت کےلیے گواہ پیش نہ کر سکے تو اب شرعی اصول کے مطابق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر قسم کھانا لازم آتا تھا) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور رتبہ کا لحاظ کرتے ہوئے) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے قسم لینے سے در گزر کیجیے ۔ حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ نے فوراً حلف اٹھالیا اور قسم کھاتے ہوئے فرمایا : زید اس وقت تک منصبِ قضاء (یعنی جج بننے) کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ایک عام شخص اس کے نزدیک (مقدمے کے معاملے میں ) برابر نہیں ہو جاتے ۔ (ابن عساکر، ذکر من اسمہ زید، زید بن ثابت بن الضحاک۔۔۔ الخ جلد ۱۹ صفحہ ۳۱۹،چشتی)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُكُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهۡلِهَا ۙ وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمۡ بِهٖ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ۔ (سورہ النسا آیت نمبر 58)
ترجمہ : بیشک اللہ تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانت والوں کو ان کی امانتیں ادا کرو ‘ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیسی اچھی نصیحت فرماتا ہے بیشک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔

اس آیت میں دو حکم بیان کیے گئے ۔ پہلا حکم یہ کہ امانتیں ان کے حوالے کردو جن کی ہیں اور دوسرا حکم یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۔

یہ دونوں حکم اسلامی تعلیمات کے شاہکار ہیں اور امن و امان کے قیام اور حقوق کی ادائیگی میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دونوں کی کچھ تفصیل یوں ہے ۔

امانت کی ادائیگی میں بنیادی چیز تو مالی معاملات میں حقدار کو اس کا حق دیدینا ہے ۔ البتہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں امانت کی ادائیگی میں داخل ہیں ۔ جیسے حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمانوں کا حاکم بنا پھر اس نے ان پر کسی ایسے شخص کو حاکم مقرر کیا جس کے بارے میں یہ خود جانتا ہے کہ اس سے بہتر اور اس سے زیادہ کتاب و سنت کا عالم مسلمانوں میں موجود ہے تو اُس نے اللہ تعالیٰ ، اُس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی ۔(معجم الکبیر، عمرو بن دینار عن ابن عباس، ۱۱ / ۹۴، الحدیث: ۱۱۲۱۶،چشتی)

نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے ۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے ۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہیے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے ۔ (1) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے ، دوسرے کو بھی دے ۔ (2) نشست دونوں کو ایک جیسی دے ۔ (3) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے ۔ (4) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے ۔ (5) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ انصاف کرنے والوں کو قربِ الٰہی میں نورکے منبر عطا کیے جائیں گے ۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل ۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷))

قاضی شریح رضی اللہ عنہ کا عادلانہ فیصلہ : مسلمان قاضیوں نے اسلام کے عادلانہ نظام اور برحق فیصلوں کی ایسی عظیمُ الشان مثالیں قائم کی ہیں کہ دنیا ان کی نظیر پیش نہیں کر سکتی ، اس موقع پر ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے : جنگِ صفین کے موقع پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک زِرَہ گم ہو گئی ، بعد میں جب آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے تو وہ زِرہ ایک یہودی کے پاس پائی ، اسے فرمایا : یہ زِرَہ میری ہے ، میں نے تمہیں بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ یہودی نے کہا : یہ زِرہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ فرمایا : ہم قاضی صاحب سے فیصلہ کرواتے ہیں ، چنانچہ یہ قاضی شُرَیح رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ تشریف فرما ہوئے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے کہا : اے امیرُ المؤمنین ! ارشاد فرمائیے ۔ فرمایا : اس یہودی کے قبضے میں جو زِرہ ہے وہ میری ہے ، میں نے اسے نہ بیچی ہے نہ تحفے میں دی ہے ۔ قاضی شریح رضی اللہ عنہ نے یہودی سے فرمایا : اے یہودی ! تم کیا کہتے ہو ؟ یہودی بولا : یہ زِرَہ میری ہے کیونکہ میرے قبضے میں ہے ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا : اے امیر المؤمنین ! کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے ؟ فرمایا : ہاں ، قنبر اور حسن دونوں اس بات کے گواہ ہیں ۔ قاضی صاحب رضی اللہ عنہ نے کہا : (کہ حسن آپ کے بیٹے ہیں اور شرعی اصول یہ ہے کہ) بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں جائز نہیں ۔ جب اس یہودی نے قاضی صاحب کا عادلانہ فیصلہ سنا تو حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا : اے امیر المومنین ! آپ مجھے قاضی صاحب کے پاس لے کر آئے اور قاضی صاحب نے آپ ہی کے خلاف فیصلہ کر دیا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ یہی مذہب حق ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، یہ زِرہ آپ ہی کی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے ، وہ زِرہ اور ایک گھوڑا اُسے تحفے میں دے دیا ۔ (تاریخ الخلفاء، ابو السبطین: علی بن ابی طالب، فصل فی نبذ من اخبار علی ۔۔۔ الخ، ص۱۸۴-۱۸۵، الکامل فی التاریخ، سنۃ اربعین، ذکر بعض سیرتہ، ۳ / ۲۶۵)

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے بعض احوال بیان فرمائے اور وعید اور وعد کا ذکر فرمایا ‘ اس کے بعد پھر احکام تکلیفیہ کا ذکر شروع فرمایا ‘ نیز اس سے پہلے یہود کی خیانت کا ذکر فرمایا تھا کہ ان کی کتاب میں سیدنا محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت پر جو دلائل ہیں وہ ان کو چھپالیتے ہیں اور لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے اور اس میں خیانت کرتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو امانت داری کا حکم دیا ۔ امانت ادا کرنے کا حکم عام ہے خواہ مذاہب میں ہو ‘ عقائد میں ہو معاملات میں ہو یا عبادات میں ہو ۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ روایت کرتے ہیں : ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کے متعلق نازل ہوئی ہے فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اس سے کعبہ کی چابیاں لے لیں پھر آپ بیت اللہ کے باہر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے آئے ‘ پھر آپ نے عثمان کو بلایا اور انہیں چابیاں دے دیں ۔ (جامع البیان ج ٥ ص ٩٢)

فان امن بعضکم بعض فلیؤد الذی اؤتمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ ۔ (سورہ البقرہ : ٢٨٣)
ترجمہ : پس اگر تم میں سے ایک کو دوسرے پر اعتبار ہو تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کی امانت ادا کردے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے ۔

یایھا الذین امنوا لا تخونوا اللہ والرسول وتخونوا امانتکم وانتم تعلمون ۔ (سورہ الانفال : ٢٧)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرودرآں حالیکہ تم کو علم ہے ۔

والذین ھم لامنتھم وعھدھم راعون ۔ (سورہ المؤمنون : ٨)
ترجمہ : اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو ‘ سائل نے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٥٩،چشتی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت ادا کرو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ خیانت نہ کرو ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٣٥)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٢٦٨،چشتی)(سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٥٩٧)(مسند احمد ج ٣ ص ١٤١٤)(المستدرک ج ٢ ص ٤٦)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا مجالس کی گفتگو امانت ہوتی ہے ماسوا اس کے کہ کسی کا ناجائز خون بہانا ہو ‘ یا کسی کی آبرو ریزی کرنی ہو یا کسی کا مال ناحق طریقہ سے حاصل کرنا ہو (یعنی اگر ایسی بات ہو تو اس کی صاحب حق کو اطلاع دے کر خبردار کرنا چاہیے) ۔ (سنن ابودادؤ‘ رقم الحدیث : ٤٨٦٩)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جو شخص امانت دار نہ وہ اس کا ایمان نہیں اور جو وضو نہ کرے اس کا ایمان نہیں ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٥٤،چشتی)

حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ‘ جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو امانت ادا کرو ‘ جب تم عہد کرو تو اس کو پورا کرو ‘ جب تم بات کرو سچ بولو ‘ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو ‘ اپنی نظریں نیچی رکھو اور اپنے ہاتھ نہ پھیلاؤ ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٥٦)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اس امت میں سے جو چیزیں سب سے پہلے اٹھائی جائیں گی وہ حیا اور امانت ہیں ‘ سو تم اللہ عزوجل سے اس کا سوال کرو ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٧٦)

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کسی شخص کی نماز اور روزے سے تم دھوکے میں نہ آنا ‘ جو چاہے نماز پڑھے اور جو چاہے روزے رکھے لیکن جو امانت دار نہیں ہے وہ دین دار نہیں ہے ۔ (شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢٧٩،چشتی)

انسان کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ متعلق ہوتا ہے یا مخلوق کے ساتھ اور ہر معاملہ کے ساتھ اس پر لازم ہے کہ وہ اس معاملہ کو امانت داری کے ساتھ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام بجالائے اور جن چیزوں سے اللہ نے اس کو منع کیا ہے ان سے رک جائے ‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہر چیز میں امانت داری لازم ہے ‘۔ وضو میں جنابت میں ‘ نماز میں ‘ زکوۃ میں اور روزے میں ‘ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان میں شرم گاہ پیدا کی اور فرمایا میں اس امانت کو تمہارے پاس چھپا کر رکھ رہا ہوں ‘ اس کی حفاظت کرنا ‘ ہاں اگر اس کا حق ادا کرنا ہو ‘ یہ بہت وسیع معاملہ ہے ‘ زبان کی امانت یہ ہے کہ اس کو جھوٹ ‘ چغلی ‘ غیبت ‘ کفر ‘ بدعت اور بےحیائی کی باتوں میں نہ استعمال کرے ‘ آنکھ کی امانت یہ ہے کہ اس سے حرام چیز کی طرف نہ دیکھے ۔ کان کی امانت یہ ہے کہ اس سے موسیقی ‘ فحش باتیں ‘ جھوٹ اور کسی کی بدگوئی نہ سنے ‘ نہ دین اور خدا اور رسول کے خلاف باتیں سنے ‘ ہاتھوں کی امانت یہ ہے کہ ان سے چوری ‘ ڈاکہ ‘ قتل ‘ ظلم اور کوئی ناجائز کام نہ کرے ‘ منہ میں لقمہ حرام نہ ڈالے ‘ اور پیروں کی امانت یہ ہے کہ جہاں جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے وہاں نہ جائے اور تمام اعضاء سے وہی کام لے جن کاموں کے کرنے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا وحملھا الانسان ‘ انہ کان ظلوما جھولا ۔ (الاحزاب ‘ ٧٢)
ترجمہ : ہم نے آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت کو پیش کیا انہوں نے اس امانت میں خیانت کرنے سے انکار کیا اور اس میں خیانت کرنے سے ڈرے ‘ اور انسان نے اس میں خیانت کی بیشک وہ ظالم اور جاہل ہے ۔

تمام مخلوق کی امانت کو ادا کرنا ‘ اس میں یہ امور داخل ہیں : اگر کسی شخص نے کوئی امانت رکھوائی ہے تو اس کو واپس کرنا ‘ ناپ تول میں کمی نہ کرنا ‘ لوگوں کے عیوب بیان نہ کرنا ‘ حکام کا عوام کے ساتھ عدل کرنا ‘ علماء کا عوام کے ساتھ عدل کرنا بایں طور پر کہ انکی صحیح رہنمائی کرنا ‘ تعصب کے بغیر اعتقادی مسائل کو بیان کرنا ‘ اس میں یہود کیلیے بھی یہ ہدایت ہے کہ سیدنا محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے جو دلائل تورات میں مذکور ہیں ان کو نہ چھپائیں ‘ اور بیوی کےلیے ہدایت ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں اس کی عزت اور اس کے مال کی حفاظت کرے اور جس شخص کا گھر میں آنا اسے ناپسند ہو اس کو نہ آنے دے ‘ تاجر ذخیرہ اندوزی نہ کریں ‘ بلیک مارکیٹ نہ کریں ‘ نقلی دوائیں بنا کر لوگوں کی جان سے نہ کھیلیں ‘ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ نہ کریں ‘ ٹیکس نہ بچائیں ‘ اسمگلنگ کر کے کسٹم ڈیوٹی نہ بچائیں ۔ سودی کاروبار نہ کریں ‘ ہیروئن ‘ چرس اور دیگر نشہ آور اور مضر صحت اشیاء کو فروخت نہ کریں ‘ بیروکریٹس رشوت نہ لیں ‘ سرکاری افسران اپنے محکمہ سے ناجائز مراعات حاصل نہ کریں ‘ ڈیوٹی پر پورا وقت دیں ‘ دفتری اوقات میں غیر سرکاری کام نہ کریں ۔ آج کل شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ مختلف اقسام کے لائسنس اور ٹھیکہ داروں کے بل غرض کوئی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا جب ان کاموں کا کرنا ان کی سرکاری ڈیوٹی ہے تو بغیر رشوت کے یہ کام نہ کرنا سرکاری امانت میں خیانت ہے ‘ اسی طرح ایک پارٹی کے ممبر کو عوام میں اس پارٹی کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ممبربننے کے بعد وہ رشوت لے کر لوٹا کریسی کی بنیاد پر پارٹی بدل لیتا ہے تو وہ بھی عوام کے انتخاب اور ان کی امانت میں خیانت کرتا ہے ‘ حکومت کے ارکان اور وزراء جو قومی خزانے اور عوام کے ٹیکسوں سے بلاوجہ غیر ملکی دوروں پر غیر ضروری افراد کو اپنے ساتھ لے جا کر اللے تللے اور عیاشیاں کرتے ہیں وہ بھی عوام کی امانت میں خیانت کرتے ہیں ‘ اسکول اور کالجز میں اساتذہ اور پروفیسر حضرات پڑھانے کی بجائے گپ شب کر کے وقت گزار دیتے ہیں ۔ یہ بھی امانت میں خیانت ہے ‘ اسی طرح تمام سرکاری اداروں میں کام نہ کرنا اور بےجا مراعات حاصل کرنا اور اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو نوازنا ‘ کسی اسامی پر رشوت یا سفارش کی وجہ سے نااہل کا تقرر کرنا یہ بھی امانت میں خیانت ہے ، کسی دنیاوی منفعت کی وجہ سے نااہل کو ووٹ دینا یہ بھی خیانت ہے ۔ اگر ہم گہری نظر سے جائزہ لیں تو ہمارے پورے معاشرے میں خیانت کا ایک جال بچھا ہوا ہے اور ہر شخص اس نیٹ ورک میں جکڑا ہوا ہے ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال ہوگا ‘ حاکم نگہبان ہے اور اس سے اپنے عوام کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور مرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے اپنے اہل کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اور اس سے امور خانہ کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ نوکر اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور ایک شخص اپنے باپ کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق جواب طلبی ہوگی ‘ اور تم میں سے ہر شخص (کسی نہ کسی چیز کا) نگہبان ہے اور اس سے اس چیز کے متعلق جواب طلبی ہوگی ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٨٩٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٢٩)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٢٩٢٨)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ١٧١١،چشتی)(مسند احمد ج ٢ ص ٥)

امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا حالانکہ اس کی جامعت میں اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار بندہ تھا تو بنانے والے نے اللہ ‘ اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی ‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ لیکن امام بخاری اور مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا ۔ (المستدرک ج ٤ ص ٩٣۔ ٩٢)

علامہ علی متقی بن حسام الدین ہندی متوفی ٩٧٥ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا عامل بنایا حالانکہ وہ شخص جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ۔ (کنز العمال ج ٦ ص ٧٩)

ان دونوں حدیثوں کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے : ⬇

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس شخص کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہوگا ‘ اور جس شخص نے اپنے بھائی کی رہنمائی کسی چیز کی طرف کی حالانکہ اس کو علم تھا کہ اہلیت اور صلاحیت اس کے غیر میں ہے تو اس نے اپنے بھائی کی ساتھ خیانت کی ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٦٥٧)

انسان کا اپنے نفس کے ساتھ امانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کےلیے اس چیز کو پسند کرے جو دین اور دنیا میں اس کے لیے زیادہ مفید اور نفع آور ہو ‘ اور غلبہ غضب اور غلبہ شہوت کی وجہ سے ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے مآل کار دنیا میں اس کی عزت وناموس جاتی رہے اور آخرت میں وہ عذاب کا مستحق ہو ‘ انسان کی زندگی اور صحت اس کے پاس اللہ کی امانت ہے وہ اس کو ضائع کرنے کا مجاز نہیں ہے ‘ اس لیے سگریٹ پینا ‘ چرس ‘ ہیروئن اور کسی طرح تمباکو نوشی کرنا ‘ افیون کھانا ‘ یہ تمام کام صحت اور انسانی زندگی کے لیے مضر ہیں ‘ اسی طرح شراب پینا یا کوئی نشہ آور مشروب کھانا اور پینا ‘ نشہ آور دوائیں استعمال کرنا یہ بھی انسان کی صحت کےلیے مضر ہیں اور آخرت میں عذاب کا باعث ہیں ‘ اور یہ تمام کام اپنے نفس کے ساتھ خیانت کے زمرہ میں آتے ہیں ‘ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کرنا ‘ لوگوں پر ظلم کرنا یہ بھی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب ہیں اور اپنی ذات کے ساتھ خیانت کرنا ہے ‘ فرائض اور واجبات کو ترک کرکے اور حرام کاموں کا ارتکاب کرکے خود کو عذاب کا مستحق بنانا یہ بھی اپنی ذات کے ساتھ خیانت ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کا مکلف کیا ہے کہ وہ خود بھی نیک بنے اور اپنے گھر والوں کو بھی نیک بنائے : یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا ۔ (سورہ التحریم : ٦)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ ۔

اگر کوئی شخص خود نیک ہے اور پابند صوم وصلوۃ ہے لیکن اس کے گھر والے اور اس کے ماتحت لوگ بدکار ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام پر عمل نہیں کرتے اور وہ ان کو برے کام ترک کرنے اور نیک کام کرنے کا حکم نہیں دیتا تب بھی وہ بری الذمہ نہیں ہے اور اخروی عذاب کا مستحق ہے اور اپنے نفس کے ساتھ خیانت کر رہا ہے کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا نگہبان ہے اور ہر شخص ان کے متعلق جواب دہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو ۔ (سورہ النساء آیت نمبر ٥٨)

اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی شخص کو حاکم بنایا جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کرے ‘ ہم اس جگہ قضاء کے متعلق احادیث بیان کریں گے تاکہ معلوم ہو کہ اسلام میں قضاء کے متعلق کیا ہدایات ہیں ۔ قضاء کے آداب اور قاضی کے ظلم اور عدل کے متعلق احادیث : ⬇

امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت معاذ کو یمن کی طرف بھیجا ‘ آپ نے پوچھا تم کیسے فیصلہ کرو گے ‘ انہوں نے کہا میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اگر کتاب اللہ میں (مطلوبہ حکم) نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا ‘ آپ نے پوچھا اگر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت میں مطلوبہ حکم نہ ہو ؟ انہوں نے کہا پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ‘ آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فرستادہ کو توفیق دی ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٢)سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٥٩٢)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے سجستان میں اپنے بیٹے کی طرف خط لکھا کہ تم دو آدمیوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرنا ‘ کیونکہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کوئی شخص غصہ کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ١٧٥٨،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١٧)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٩)(سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٨٩)

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تمہارے پاس دو شخص مقدمہ پیش کریں تو جب تک تم دوسرے شخص کا موقف نہ سن لو پہلے کے لیے فیصلہ نہ کرو ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٦)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٣٥٨٢)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣١٠)

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : قاضیوں کی تین قسمیں ہیں ایک جنت میں ہوگا اور دو دوزخ میں ہوں گے ‘ جنت میں وہ قاضی ہوگا جو حق کو پہچان لے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے ‘ اور جو حق کو پہچاننے باوجود اس کے خلاف فیصلہ کرے وہ دوزخ میں ہوگا ‘ اور جو شخص جہالت سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے وہ بھی دوزخ میں ہوں گا ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٣،چشتی)

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب حاکم اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور صحیح نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے دو اجر ہیں اور جب وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے اور غلط نتیجہ پر پہنچے تو اس کےلیے ایک اجر ہے ۔ (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٣٥٧٤)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور اس کے نزدیک سب سے مقرب شخص امام عادل ہوگا اور سب سے زیادہ مبغوض اور سب سے دورامام ظالم ہوگا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٤)

حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا جب تک قاضی ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کرے تو اللہ اس کے ساتھ نہیں ہوتا اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے ۔ (سنن ترمذی : ١٣٣٥)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس امت کو پاک نہیں کرتا جس میں اس کے کمزور کا حق اس کے طاقت ور سے نہ لیا جائے ۔ (اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے ‘ اس کی سند میں المثنی بن صباح ہے یہ ضعیف راوی ہے ‘ ایک روایت میں ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے اور ایک روایت میں کہا ہے اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس کو ترک نہیں کیا جائے گا ‘ اور دوسرے کے نزدیک یہ متروک ہے) ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزار ‘ رقم الحدیث : ١٣٥٢)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کسی فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لعنت کی ہے ۔ (سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث ١٣٤١)

امام طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا فیصلہ میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے ۔ (المعجم الکبیر جلد ٢٣ صفحہ ٣٩٨)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس دن کسی کا سایہ نہیں ہوگا اس دن سات آدمی اللہ کے سائے میں ہوں گے ۔ عدل کرنے والا حاکم ‘ وہ شخص جو اللہ کی عبادت میں جوان ہوا ‘ جس کا دل مسجدوں میں معلق رہا ‘ وہ دو شخص جو اللہ کی محبت میں ملیں اور اللہ کی محبت میں جدا ہوں ‘ وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھ سے آنسو بہیں ‘ وہ شخص جس کو خوب صورت اور بااختیار عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں ‘ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے حتی کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے کہ اس نے دائیں ہاتھ سے کیا دیا ہے ۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٦٠،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٣١)(سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٢٣٩١)(صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣٥٨)(مسند الطیالسی رقم الحدیث : ٢٤٦٢)(مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩)(صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٤٤٦٩)(سنن کبری للبیہقی : ج ٣ ص ٦٥)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٥٧)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : چار آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے : جو بہت قسمیں کھا کر سودا بیچے ‘ متکبر فقیر ‘ بوڑھا زانی ‘ اور ظالم حاکم ۔ (صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث : ٥٥٣٢‘ شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٦٥)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : عدل کرنے والے حاکم کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور زمین میں حد کو قائم کرنا اس زمین پر چالیس روز کی بارش سے زیادہ نفع آور ہے ۔ (المعجم الکبیر ‘ رقم الحدیث : ١١٩٣٢)(سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ١٦٢،چشتی)(شعب الایمان ‘ رقم الحدیث : ٧٣٧٩)


ارشادِ باری تعالیٰ ہے : : وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ (سورہ الماٸدہ آیت نمبر 8)
ترجمہ : اور اللہ سے ڈرو ، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے ۔

یعنی اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے اور وہ تمہارے کاموں سے باخبر ہے ‘ سو اگر تم نے کسی کے خلاف جھوٹی گواہی دی یا کسی کے حق میں جھوٹی گواہی دی اور بےانصافی کی ‘ تو وہ اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ پھر صحیح اور سچی گواہی پر اجر وثواب کی بشارت دی اور جھوٹی گواہی پر عذاب کی وعید سنائی اور فرمایا : جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ‘ ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔ (المائدہ : ٩) اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ لوگ دوزخی ہیں ۔ (المائدہ : ١٠)
نااہل کو سند یا لائسنس دینے کا عدم جواز اور بحث ونظر : مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : آخر میں ایک اور اہم بات بھی یہاں جاننا ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ لفظ شہادت اور گواہی کا جو مفہوم آج کل عرف میں مشہور ہوگیا ہے وہ تو صرف مقدمات وخصومات میں کسی کے سامنے گواہی دینے کےلیے مخصوص سمجھا جاتا ہے ۔ مگر قرآن وسنت کی اصطلاح میں لفظ شہادت اس سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ مثلا کسی بیمار کو ڈاکٹری سرٹیفکیٹ دینا کہ یہ ڈیوٹی ادا کرنے کے قابل نہیں یا نوکری کرنے کے قابل نہیں ‘ یہ بھی ایک شہادت ہے ۔ اگر اس میں واقعہ کے خلاف لکھا گیا تو وہ جھوٹی شہادت ہو کر گناہ کبیرہ ہو گیا ۔ اسی طرح امتحانات میں طلباء کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے ۔ اگر جان بوجھ کر یا بےپروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی تو وہ بھی جھوٹی شہادت ہے اور حرام اور سخت گناہ ہے ۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٧١۔ ٧٠‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

ہمارے نزدیک اگر کوئی ڈاکٹر کسی صحت مند شخص کو کسی تعلق کی بنا پر یا رشوت لے کر بیماری کا سرٹیفکیٹ دے دیتا ہے تو اس کے سر پر ایک گناہ تو رشوت لینے کا ہے اور اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا گناہ ہے ۔ اور دوسرا گناہ اس کا جھوٹ ہے ۔ اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے : ⏬

(آیت) ” ان لعنت اللہ علیہ ان کان من الکذبین “۔ (النور : ٨)
ترجمہ : اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو تو بیشک اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
اور جھوٹ پر عذاب کی وعید سنائی ہے :
(آیت) ”’ ولھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون “۔ (البقرہ : ١٠)
اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ‘ کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
اگر کوئی ممتحن کسی طالب علم کے پر چہ میں رشوت لے کر یا سفارش یا تعلق کی بنا پر زیادہ نمبر لگاتا ہے یا دشمنی اور عدوات کی بنا پر اس کے نمبر کم لگاتا ہے تو یہ ظلم ہے ‘ کیونکہ ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا۔
علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ٨١٦ ھ لکھتے ہیں :
ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا۔ اور اس کا شرعی معنی ہے حق سے باطل کی طرف تجاوز کرنا اور اس کو جور کہتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ غیر کی ملک میں تصرف کرنا ظلم ہے اور حد سے تجاوز کرنا ظلم ہے ۔ (کتاب التعریفات ‘ ص ٦٢‘ مطبوعہ ایران ‘ النہایہ ‘ ج ٣‘ ص ٦١‘ المفردات ‘ ص ٣١٦۔ ٣١٥)
اور ظلم بھی گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر لعنت فرمائی ہے :
(آیت) ” الا لعنۃ اللہ علی الظلمین “۔ (ھود : ١٨)
ترجمہ : سنو : ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔

اس لیے کسی ڈاکٹر کا صحت مند کو بیماری کا سرٹیفکیٹ دینا یا کسی افسر کا اناڑی کو ڈرائیونگ لائسنس دینا یا کسی ٹیکسی ڈرائیور کے غلط میٹر کی صحیح میٹر کا سند دینا یا رشوت لے کر کسی غیر ملکی کو قومی شناختی کارڈ بنادینا یا کسی یونیورسٹی یا ادارہ کی جعلی سند جاری کر دیناا اور اس نوع کی تمام جھوٹی اور جعلی دستاویزات ‘ جھوٹ اور ظلم پر مبنی ہیں ‘ اور گناہ کبیرہ ہیں۔ تاہم ان کو جھوٹی شہادت کے ذلیل میں لانا صحیح نہیں ہے۔ خصوصا ممتحن کے نمبر لگانے کا معاملہ کسی طور پر شہادت نہیں ہے۔ اس کے لگائے ہوئے نمبر شہادت نہیں ‘ بلکہ ایک قسم کا فیصلہ ہیں ‘ اگر وہ غلط نمبر لگائے گا تو یہ اس کی عدالت کے خلاف ہوگا اور قرآن مجید میں ہے ۔
(آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی “۔ (المائدہ : ٨)
ترجمہ : کسی قوم کی عداوت تمہیں بےانصافی پر نہ ابھارے۔ تم عدل کرتے رہو ‘ وہ خوف خدا کے زیادہ قریب ہے۔
طالب علم کا پر چہ چیک کر کے جو نمبر لگاتا ہے وہ اس کی قضا اور فیصلہ ہے۔ اسی طرح جو افسر گاڑی کی فٹ نیس کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے ‘ یا میٹر کو صحیح قرار دیتا ہے ‘ یہ اس کی قضا اور فیصلہ ہے اور ڈاکٹر جو سرٹیفکیٹ دیتا ہے یہ اس کی ماہرانہ رائے ہے ۔ یہ تمام امور مشابہ بالقضاء ہیں ‘ شہادت نہیں۔ پس دینے کےلیے ضروری ہے کہ وہ کہے میں شہادت دیتا ہوں جیسا کہ ہم عنقریب باحوالہ بیان کریں گے۔ اس لیے اگر یہ لوگ غلط فیصلہ کریں گے اور خلاف واقعہ تحریر کریں گے ‘ تو عدل کے خلاف ہوگا ‘ اور ظلم اور جھوٹ ہوگا ‘ اور یہ کام موجب لعنت ہیں اور گناہ کبیرہ ہیں ‘ لیکن یہ شہادت کی تعریف میں نہیں آتے۔ اب ہم آپ کے سامنے شہادت کی تعریف اور ارکان بیان کر رہے ہیں ۔
شہادت کی تعریف :
علامہ میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی ٨١٦ ھ لکھتے ہیں :
قاضی کے سامنے ایک شخص کے دوسرے شخص پر حق کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دینا (مثلا کہے میں شہادت دیتا ہوں کہ فلاں آدمی کا فلاں شخص پر فلاں حق ہے) شریعت میں شہادت ہے۔ (کتاب التعریفات ‘ ص ٥٧‘ مطبوعہ ایران)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
شہادت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم علم اور یقین کے قائم مقام ہے ‘ اس میں یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میں جانتا ہوں بلکہ یہ کہنا ضروری ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں۔ دوسری قسم وہ ہے جو قسم کے قائم مقام ہے ‘ اس میں مثلا یہ کہے کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ زید چلنے والا ہے۔ (امفردات ‘ ص ٢٦٨)
علامہ محمد بن محمود بابرتی حنفی متوفی ٧٨٦ ھ لکھتے ہیں :
جب گواہ مسموعات کی جنس سے کوئی بات سنے مثلا بیع ‘ اقرار یا حاکم کے حکم کو سنے ‘ یا مبصرات میں سے کسی چیز کو دیکھے مثلا کسی کو قتل کرتے ہوئے دیکھے ‘ یا کسی کو غصب کرتے ہوئے دیکھے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ گواہی دے کہ میں گواہی دیتا ہوں فلاں شخص نے بیع کی ‘ یا حاکم نے فیصلہ کیا خواہ اس کو گواہ نہ بنایا گیا ہو۔ (عنایہ مع فتح القدیر ‘ ج ٧ ص ٣٥٧‘ طبع بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ کمال الدین ابن ہمام متوفی ٨٦١ ھ نے لکھا ہے کہ شہادت میں لفظ شہادت (مثلا میں شہادت دیتا ہوں) کہنا ضروری ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں اسی لفظ کے ساتھ شہادت دینے کا حکم فرمایا ہے۔
(آیت) ” واشھدوا ذوی عدل منکم “۔ (الطلاق : ٢)
ترجمہ : اور تم میں سے دو نیک شخص شہادت دیں۔
(آیت) ” واشھدوا اذا تبایعتم “۔ (البقرہ : ٢٨٢)
ترجمہ : جب تم آپس میں خریدوفروخت کرو شاھد (گواہ) بنالو۔
(آیت) ” واستشھدوا شھیدین من رجالکم “۔ (البقرہ : ٢٨٢)
ترجمہ : اور تم اپنے مردوں میں سے دو شاہد طلب کرو۔
(آیت) ” واقیموا الشھادۃ للہ “۔ (الطلاق : ٢)
ترجمہ : اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو۔
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شہادت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تم سورج کو دیکھ رہے ہو ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا اس کی مثل ہو تو شہادت دو ‘ ورنہ چھوڑ دو ۔ (المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ١٩٨‘ سنن کبری ‘ ج ١٠‘ ص ١٥٦،چشتی)
ان تصریحات سے یہ واضح ہوگیا کہ کسی سنی ہوئی بات یا کسی وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دینے کو شہادت کہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر جو کسی مریض کے متعلق اپنی رائے لکھتا ہے ‘ یا ممتحن کی پر چہ پر نمبر لگاتا ہے ‘ اس میں کسی واقعہ یا حادثہ کی خبر نہیں دی جاتی ‘ بلکہ اپنی طرف سے ایک رائے دی جاتی ہے یا ایک حکم لگایا جاتا ہے۔ اس لیے ان امور کو شہادت کے ذیل میں لانا صحیح نہیں ہے۔ البتہ ! اگر بدنیتی کی وجہ سے صحیح رائے نہ لکھی جائے یا صحیح حکم نہ لگایا جائے تو یہ عدل کے خلاف ہے اور ظلم ہے ‘ اور اگر اس نے دانستہ اپنی فی الواقع رائے کے خلاف لکھا تو یہ جھوٹ ہے اور بہرحال گناہ کبیرہ ہے۔
نااہل شخص کو ووٹ دینے کا عدم جواز اور بحث ونظر :
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں : کامیاب ہونے والے والے فارغ التحصیل طلباء کو سند یا سرٹیفکیٹ دینا اس کی شہادت ہے کہ وہ متعلقہ کام کی اہلیت و صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر وہ شخص واقع میں ایسا نہیں ہے تو اس پر سرٹیفکیٹ یا سند پر دستخط کرنے والے سب کے سب شہادت کاذبہ کے مجرم ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح اسمبلیوں اور کونسلوں وغیرہ کے انتخاب میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے۔ جس میں ووٹ دہندہ کی طرف سے اس کی گواہی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ شخص اپنی استعداد اور قابلیت کے اعتبار سے بھی اور دیانت وامانت کے اعتبار سے بھی قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے۔
اب غور کیجئے کہ ہمارے نمائندوں میں کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے حق میں یہ گواہی سچی اور صحیح ثابت ہو سکے ‘ مگر ہمارے عوام ہیں کہ انہوں نے اس کو محض ہار جیت کا کھیل سمجھ رکھا ہے۔ اس لیے ووٹ کا حق کبھی پیسوں کے عوض میں فروخت ہوتا ہے کبھی کسی دباؤ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے ‘ کبھی ناپائدار دوستوں اور ذلیل وعدوں کے بھروسہ پر اس کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اور تو اور ‘ لکھے پڑھے دیندار مسلمان بھی نااہل لوگوں کو ووٹ دیتے وقت کبھی یہ محسوس نہیں کرتے کہ ہم یہ جھوٹی گواہی دے کر مستحق لعنت و عذاب بن رہے ہیں۔
نمائدوں کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی از روئے قرآن ایک دوسرے حیثیت بھی ہے جس کو شفاعت یا سفارش کہا جاتا ہے ‘ کہ ووٹ دینے والا گویا یہ سفارش کرتا ہے فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے۔ اس کا حکم قرآن کریم کے الفاظ میں پہلے بیان ہوچکا ہے۔ ارشاد ہے :
(آیت) ” ومن یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھا ومن یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا “۔
ترجمہ : یعنی جو شخص اچھی اور سچی سفارش کرے گا تو جس کے حق میں سفارش کی ہے اس کے نیک عمل کا حصہ اس کو بھی ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرتا ہے یعنی کسی نااہل اور برے شخص کو کامیاب بنانے کی سعی کرتا ہے ‘ اس کو اس کے برے اعمال کا حصہ ملے گا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ امیدوار اپنی کارکردگی کے پنج سالہ دور میں غلط اور ناجائز کام کرے گا ‘ ان سب کا وبال ووٹ دینے والے کو بھی پہنچے گا۔
ووٹ کی ایک تیسری شرعی حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا اس امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لئے وکیل بناتا ہے۔ لیکن اگر یہ وکالت اس کے کسی شخصی حق کے متعلق ہوتی اور اس کا نفع نقصان صرف اسکی ذات کو پہنچتا تو اس کا یہ خود ذمہ دار ہوتا ‘ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ وکالت ایسے حقوق کے متعلق ہے جس میں اس کے ساتھ پوری قوم شریک ہے۔ اس لیے اگر کسی نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اسکی گردن پر رہا۔
خلاصہ یہ کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ہے۔ ایک شہادت ‘ دوسرے شفاعت ‘ اور تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک صالح قابل آدمی کو ووٹ دینا موجب ثواب عظیم ہے اور اس کے ثمرات اس کو ملنے والے ہیں ‘ اسی طرح نااہل یا غیر متدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بری شفاعت بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن ثمرات بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھے جائیں گے۔
اس لیے ہر مسلمان ووٹر پر فرض ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرلے کہ جس کو ووٹ دے رہا ہے ‘ وہ کام کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ‘ اور دیانت دار ہے یا نہیں ‘ محض غفلت و بےپرواہی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا مرتکب نہ بنے ۔ (معارف القرآن ج ٢ ص ٧٢۔ ٧١‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ،چشتی)
جو شخص علم اور عمل کے اعتبار سے نااہل ہو ‘ اس کو ووٹ دینا ہمارے نزدیک بھی ناجائز اور گناہ ہے ‘ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ووٹ کسی کے حق میں شہادت ہے ‘ یا وکالت ہے ‘ یا شفاعت ہے ‘ اس کا شہادت نہ ہونا تو ہماری پہلی تقریر سے واضح ہوگیا۔ شہادت میں کسی دیکھے ہوئے یا سنے ہوئے واقعہ کی لفظ شہادت کے ساتھ خبر دی جاتی ہے ‘ اور ووٹ دینے کا معاملہ اس طرح نہیں ہے۔ شفاعت اس لیے نہیں ہے کہ شفاعت میں کسی تیسرے شخص کے پاس کسی منصب کے لیے سفارش کی جاتی ہے ‘ اور اس تیسرے شخص کے اختیار میں یہ معاملہ ہوتا ہے کہ خواہ اس شفاعت کو قبول کرے خواہ رد کر دے ‘ جبکہ ووٹ کی حیثیت اس طرح نہیں ہے۔ جس نمائندہ کے ووٹ ڈالے گئے ہیں ‘ اگر اس کے ووٹ اپنے مقابل سے زیادہ ہوں تو وہ اسمبلی کا ممبر بن جائے گا۔ اس میں کسی کے قبول کرنے نہ کرنے کا کوئی معاملہ نہیں ہے ‘ اس طرح ووٹ وکالت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ وکالت میں موکل کسی شخص کو وکیل بنانے کے بعد اس کو معزول بھی کرسکتا ہے۔ (ھدایہ اخرین ‘ ص ١٩٩) اور ووٹر کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے ووٹ کو کینسل نہیں کرسکتا ‘ اور نہ ہی منتخب ہونے کے بعد اس امیدوار کو معزول کرسکتا ہے۔
اگر کوئی شخص کسی تعلق یا لالچ یا دباؤ کی وجہ سے کسی نااہل شخص کو ووٹ ڈال رہا ہے ‘ تو اس عمل کے ناجائز ہونے کی صاف اور سیدھی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک منصب کے لیے نااہل شخص کو مقرر کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ اور اسلام میں کسی نااہل کو منصب دینے سے منع کیا گیا ہے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے اپنی بات مکمل کر کے فرمایا : جب امانت ضائع کردی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ اس نے پوچھا امانت کیسے ضائع ہوگی ؟ آپ نے فرمایا جب کوئی منصب کسی نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٩‘ مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ٨‘ رقم الحدیث :‘ ٨٧١٤‘ الجامع الصغیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٨٨٧‘ الجامع الکبیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٨٩٥،چشتی)
جو کسی ایسے شخص کو قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالتا ہے ‘ جو دینی اور دنیاوی علوم سے بہرہ مند نہ ہو اور اس کا بدچلن اور بدکردار ہونا بالکل واضح ہو تو وہ اس نمائندگی کے لیے نااہل شخص کو منتخب کر رہا ہے اور نااہل کو منصب کے لیے منتخب کرنا اس حدیث کے مطابق قیامت آجانے کے مترادف ہے۔ نیز اس سلسلہ میں مزید احادیث ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی آدمی کو کسی جماعت کا امیر بنایا ‘ حالانکہ اس جماعت میں اس سے زیادہ اللہ کا فرماں بردار بندہ تھا ‘ تو بنانے والے نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور جماعت مسلمین سے خیانت کی۔ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (المستدرک ‘ ج ٤‘ ص ٩٣۔ ٩٢‘ مطبوعہ دارالباز ‘ مکہ المکرمہ)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آدمی نے کسی شخص کو مسلمانوں کا عامل بنایا ‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اس سے بہتر شخص موجود ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کا زیادہ جاننے والا ہے تو اس آدمی نے اللہ تعالیٰ ‘ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔ (کنزالعمال ‘ ج ٦ ص ٧٩‘ مطبوعہ موسسہ الرسالہ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)
حضرت ابوایوب بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ‘ جب کوئی اہل شخص دین کا والی ہو تو دین پر نہ رونا اور جب نااہل والی ہو تو پھر دین پر رونا۔ (علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے لکھا ہے ‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مسند احمد ‘ ج ١٧‘ رقم الحدیث : ٢٣٤٧٦‘ امام حاکم اور امام ذہبی نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ المستدرک ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ص ‘ ٤‘ ص ٥١٥‘ نیز امام طبرانی ‘ متوفی ٣٦٠ ھ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ المعجم الاوسط ج ١ رقم الحدیث : ٢٨٦‘ المعجم الکبیر ج ٤‘ رقم الحدیث ٣٩٩٩) ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ جو شخص پیسوں کے لالچ ‘ برادری کے تعلق یا کسی بااثر آدمی کے دباؤ کی وجہ سے نااہل کو ووٹ ڈالتا ہے ‘ وہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کرتا ہے۔ نیز اہل شخص کے ہوتے ہوئے نااہل شخص کو ووٹ ڈالنا ‘ ظلم ہے ‘ کیونکہ ظلم کا معنی ہی یہ ہے کسی چیز کو اس کے غیر محل میں رکھنا اور ظالموں پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے ‘ اور ظلم گناہ کبیرہ ہے۔
نیز جب کوئی بدکردار اور فاسق وفاجر یا بدمذہب شخص اسمبلی میں پہنچے گا اور اس کو قانون سازی کا اختیار ملے گا ‘ تو یہ ممکن ہے کہ وہ خلاف شرع قانون بنائے ‘ یا اس کے حق میں ووٹ دے۔ جیسے ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین بن گئے جو سراسر غیر اسلامی ہیں اور ١٩٩٣ ء تا ١٩٩٦ ء کی وقافی کا بینہ نے یہ مسودہ قانون منظور کیا کہ عورت خواہ قاتل ہو ‘ اس کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی اور یہ صریح قرآن کے خلاف ہے۔ جن لوگوں نے ایسے بےدین لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچایا ‘ یا جنہوں نے خلاف شرع قانون سازی کی ‘ وہ بھی برابر کے مجرم ہیں۔ اس لیے جو لوگ غیر متدین اور غیر صالح لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلی میں پہنچائیں گے ‘ وہ بھی برابر کے مجرم ہوں گے۔ اس لیے نااہل شخص کو ووٹ دینا بالکل جائز نہیں ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت ہے ‘ ظلم ہے ‘ اور خلاف شرع قانون بنانے کا ذریعہ ہے ۔

طلبِ منصب کی تحقیق : ⏬

ہمارے ملک میں طریق انتخاب کی یہ بہت بڑی خامی ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست کیلیے ہر امیداوار از خود کھڑا ہوتا ہے۔ حالانکہ اسلام میں از خود عہدہ کی طلب کرنا ممنوع ہے۔
امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو عم زاد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ نے جن چیزوں پر آپ کو ولایت دی ہے ‘ ان میں سے بعض پر ہمیں امیر بنادیں ‘ دوسرے نے بھی اسی طرح کہا : آپ نے فرمایا بخدا ! ہم اس شخص کو کسی منصب پرامیر نہیں بنائیں گے جو اس کا سوال کرے گا ‘ اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے گا ۔ (صحیح مسلم ‘ ج ٣‘ رقم الحدیث : ١٧٣٣‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت،چشتی)
طالب منصب کو منصب نہ دینے میں یہ حکمت ہے کہ طالب منصب کے ساتھ اللہ کی توفیق اور تائید شامل نہیں ہوتی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ منصب کو طلب کرنا جائز ہے ‘ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بادشاہ سے اپنے لیے حکومت کا عہدہ طلب کیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے :
(آیت) ” قال اجعلنی علی خزآئن الارض انی حفیظ علیم “۔ (یوسف : ٥٥)
حضرت یوسف (علیہ السلام) نے (عزیز مصر سے) کہا ‘ ملک کے خزانے میرے سپرد کردیجئے میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔
یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں ہے کہ یہ شریعت سابقہ ہے اور شریعت سابقہ کے جو احکام ہماری شریعت کے خلاف ہوں ‘ وہ ہم پر حجت نہیں ہوتے۔ ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بخدا ہم اس شخص کو عامل نہیں بنائیں گے جو اس کو طلب کرے گا اور نہ اس شخص کو عامل بنائیں گے جو اس کی حرص کرے گا۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نبی تھے اور نبی کا تقوی قطعی اور یقینی ہوتا ہے ‘ نبی کو وحی کی تائید حاصل ہوتی ہے ‘ اور وہ اپنے افعال کے متعلق اللہ کی رضا سے مطلع رہتے ہیں ‘ جبکہ عام آدمی کا تقوی قطعی اور یقینی نہیں ہوتا اور غیر قطعی کو قطعی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عہدہ طلب کرنا اللہ تعالیٰ کی اجازت سے تھا ‘ جو ان کو وحی سے حاصل ہوئی اور عام آدمی کے حق میں یہ متصور نہیں ہے۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی منصب کا اہل ہو ‘ اس کا محض خدمت کے لیے منصب کو طلب کرنا ضرورت کی بناء پر جائز ہے۔ ہمیں اس قاعدہ کی صحت سے انکار نہیں ہے ‘ لیکن جو چیز ضرورت کی بنا پر جائز کی گئی ہو ‘ اس کو صرف ضرورت کی حد تک محدود رکھنا صحیح ہے۔ اس کو عام رواج اور معمول بنا لینا صحیح نہیں ہے ‘ مثلا جب کوئی حلال چیز کھانے کے لیے دستیاب نہ ہو تو ضرورت کی بنا پر شراب اور خنزیر کی حرمت ساقط ہوجاتی ہے ‘ لیکن اگر کوئی شخص ضرورت کے حوالے سے خنزیر اور شراب کو کھانے پینے کا عام معمول بنا لے ‘ تو یہ صحیح نہیں ہے۔
موجودہ طریقہ انتخاب کا غیر اسلامی ہونا :
پاکستان میں انتخاب کے موقع پر ہر حلقہ انتخاب سے بکثرت امیدوار از خود کھڑے ہوتے ہیں اور زرکثیر خرچ کرکے اپنے لیے کنوینسگ کرتے ہیں اور مخالف امیدوار کی کردار کشی کرتے ہیں اور اس سلسلے میں غیبت ‘ افتراء اور تہمت کی تمام حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اور یہ طریقہ اسلام میں بالکل ناجائز ہے ‘ اور ہر امیدوار کے متعلق یہ کہنا کہ یہ ضرورت کی بناء پر کھڑا ہوا ہے ‘ بداہۃ باطل ہے۔ کیونکہ ہر حلقہ انتخاب سے بکثرت امیدوار کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ چونکہ اور کوئی اہل ہیں تھا ‘ اس لیے یہ سب امیداوار کھڑے ہوگئے ہیں ۔
امیداوار کےلیے شرائط اہلیت نہ ہونے کے غلط نتائج : ⏬

درحقیقت پاکستان کے آئین میں طلب منصب کی اجازت دینا ہی غیر اسلامی دفعہ ہے۔ جو امیدوار انتخاب کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ‘ ان ہی میں سے منتخب افراد آگے چل کر وزیر اعظم ‘ صدر مملکت اور وزراء اعلی کا انتخاب کرتے ہیں اور یہی لوگ اسمبلی میں جا کر کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ملک کے سر برآوردہ علماء اور دانشوروں پر مشتمل اسلامی نظریاتی کونسل اتفاق رائے سے کسی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرتی ہے ‘ لیکن وہ اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتا جب تک کہ قومی اسمبلی اس کو منظور نہ کرے اور قومی اسمبلی کے ممبروں کے لیے اسلامی علوم یا مروجہ علوم میں کسی علم کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نیکی اور تقوی کی مبہم شرائط رکھی گئی ہیں اور ان کا دیانت داری سے متعلقہ امیدواروں پر اطلاق بھی نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں صدر مملکت چیف الیکشن کمشز اور بالواسطہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کا اطلاق کون کرے گا ؟ اور کبھی وہ کہتے ہیں کہ ایسے کڑے معیار پر کون اترے گا ؟ گویا وہ بالواسطہ طورکہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی دفعات ٦٢ اور ٦٣ ناقابل عمل ہیں۔ نیزسیاسی تجربہ اور تدبر کی حتی کہ مرد ہونے کی بھی کوئی شرط نہیں ہے۔ دفتر میں کلرک بھرتی ہونے کے لیے بھی کم از کم میٹرک پاس ہونے کی شرط ہوتی ہے۔ بس چلانے والے ڈرائیور کے لیے بھی تجربہ کی شرط ہوتی ہے لیکن اس ملک کو چلانے کے لیے امیدواروں کے علم اور تجربہ کی کوئی شرط نہیں ہے۔ ہر فاسق وفاجر ‘ جاہل اور ناتجربہ کار شخص خواہ مرد ہو یا عورت ‘ انتخاب کے لیے کھڑا ہوسکتا ہے اور پیسہ اور اثر ورسوخ کے زور پر اسمبلی میں پہنچ کر صدر مملکت ‘ وزیر اعظم ‘ وزیر اعلی یا کسی بھی محکمہ کا وزیر بن سکتا ہے۔ اور وہ دینی علم ‘ تجربہ اور اچھے کردار کے بغیر بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی پیش کردہ سفارشات کو مسترد کر سکتا ہے ‘ اور کسی بھی قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ (ماخوذ تفسیر تبیان القرآن) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم

سرکاری یا غیرسرکاری قبضہ والی زمین پر مسجد بنانے کا شرعی حکم محترم قارئینِ کرام : کسی مقبوضہ جگہ پر مسجد تعمیر ہو جائے اور مسجد کی تعمیر کا ...