Monday, 3 March 2025
Sunday, 2 March 2025
روزے کے فضائل اور اہم شرعی مسائل و فوائد
روزے کے فضائل اور اہم شرعی مسائل و فوائد
محترم قارئینِ کرام : روزہ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے ، اللہ تعالی نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزوں کو فرض کیا ہے ۔ جیساکہ سبل الہدی والرشادمیں ہے : وفی السنۃ الثانیۃ فرض شہر رمضان ۔ (سبل الہدی والرشاد جماع ابواب سیرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی الصوم والاعتکاف الباب السادس فی صومہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم التطوع) اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ربانی ہے : یاایھا الذین اٰمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ۔(سورۃ البقرہ آیت نمبر 183)
سورۂ بقرہ کی ایک اور آیت مبارکہ میں ہے ۔ شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس وبینٰت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشہر فلیصمہ ۔ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ : ماہ رمضا ن وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اس حال میں کہ وہ لوگوں کےلیے ہدایت ہے اور اس میں حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے والی روشن دلیلیں ہیں ، تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزہ رکھے ۔
رمضان المبارک کی آمد پر خوشخبری : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کی عظمت وشان آشکار کی ہے، آمد رمضان سے پہلے اس کے فضائل سے متعلق خطبے ارشاد فرمائے ہیں، استقبال رمضان سے متعلق بنیادی طورپر تین روایتیں ہیں ، جواستقبال رمضان کے عنوان پر تین بلیغ خطبوں کی حیثیت رکھتی ہیں ، ماہ رمضان کی آمد سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس کی آمد کی خوشخبری سناتے ۔ جیساکہ مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے : عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَال قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُبَشِّرُ اَصْحَابَہُ قَدْ جَاءَکُمْ شَہْرُ رَمَضَانَ شَہْرٌ مُبَارَکٌ افْتَرَضَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہُ یُفْتَحُ فِیہِ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ وَیُغْلَقُ فِیہِ اَبْوَابُ الْجَحِیمِ وَتُغَلُّ فِیہِ الشَّیَاطِینُ فِیہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَہْرٍ مَنْ حُرِمَ خَیْرَہَا فَقَدْ حُرِمَ . ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘آپ نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشادفرمایا:تمہارے پاس ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، یہ ایک برکت والامہینہ ہے ۔ اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں ، اس میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ، دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کیا جاتاہے ، اس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جو شخص اُس رات کی بھلائی سے محروم رہا تو حقیقت میں وہ محروم رہ گیا۔ (مسند امام احمد،مسند ابوہریرۃ،حدیث نمبر:9227،چشتی)
روزہ کی فضیلت : روزہ کے بے شمار فضائل ہیں مثلاً روزے سے سابقہ گناہوں کا معاف ہوجانا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث 1901،جامع ترمذی،جلد1صفحہ147)
روزہ دار کےلیے جنت میں داخلے کے وقت ’’باب الریاّن‘‘ کا مختص ہونا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر1896)
روزہ دار کے منہ سے آنے والی مشک کا کستوری سے زیادہ پسندیدہ قرار دیا جانا ۔ (صحیح بخاری ،حدیث نمبر8)
روزہ دار کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی دور ی پر کر دینے کی خوشخبری ۔ (صحیح مسلم ،حدیث نمبر1153)
روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جا سکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 1903)
روزے کے مختصر فوائد : ⏬
دین اسلام کے ہر حکم میں انسان کے لئے دنیا و آخرت کی سعادت مندی اور کئی فوائد مضمر ہوتے ہیں ، روزہ جہاں اخروی لحاظ سے باعث اجر و ثواب ہے وہیں روزہ کے طبی ‘ معاشرتی و اجتماعی فوائد بھی ہیں ۔ روزہ کے معاشرتی و اجتماعی من جملہ فوائد کے ایک یہ ہے : جب معاشرے کے مالدار افراد روزہ رہ کر بھوک و پیاس کی سختی کو برداشت کریں گے تو انہیں بھوک و پیاس کی شدت کا احساس ہوگا ، اس طرح وہ محتاج و تنگدست افراد کی ضرورت کو سمجھ سکیں گے اور ان کی طرف دست تعاون دراز کریں گے، اس طرح معاشرہ اخوت و بھائی چارگی کا گہوارہ بن جائے گا۔ طبی لحاظ سے توروزہ کے کئی فوائد ہیں ، روزہ رکھنے سے انسانی صحت ہمیشہ برقرار رہتی ہے ۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ معدہ کو طویل وقت تک غذا سے خالی رکھنا کئی جسمانی امراض کا علاج ہے، اسی طرح بھوک کی وجہ سے معدہ کے فاسد مادے زائل ہوجاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں روزہ انسان کو درپیش ہونے والے کئی امراض کا موثر ذریعۂ علاج ہے ۔ بلڈ پریشر، شوگر، بدہضمی اور اس جیسے کئی عوارض جسمانیہ کی روک تھام کیلئے بے حد مفید ہے ۔
رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کےلیے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ، روزے فصل دے کر بھی رکھ سکتے ہیں ۔ جیسا کہ رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم میں ہے: ( قَوْلُهُ وَبِلَا وِلَاءٍ ) بِكَسْرِ الْوَاوِ أَيْ مُوَالَاةً بِمَعْنَى الْمُتَابَعَةِ لِإِطْلَاقِ قَوْله تَعَالَى : - { فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ } (رد المحتار، کتاب الصوم، فصل فی العوارض المبیحۃ لعدم الصوم،چشتی)
اگر کوئی شخص سفر میں ہو یا بیمار ہو تو اس کے لئے اس بات کی اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں اس روزہ کی قضاء کرلے‘ بیماری کے سلسلہ میں ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہئے‘ اگر ماہر ڈاکٹر کہے کہ اس حالت میں روزہ رکھنا مریض کے لئے نقصان دہ ہوگا تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ خواتین کے لئے ان کے مخصوص ایام میں روزہ رکھنا جائز نہیں‘ دیگر ایام میں فوت شدہ روزوں کی قضاء کرنی چاہئے۔ ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے‘ آپ نے انہیں دین کی طرف توجہ دلائی اور اپنا حق ادا کیا‘ وہ خاتون باشعور اور صاحب عقل ہیں ممکن ہے واقعۃً ان کے پاس کوئی عذر رہا ہو‘ ورنہ وہ اپنے عمل کی ذمہ دار ہیں‘ آپ ثبوت طلب کرنے کے بجائے صحیح معلومات فراہم کرنے پر اکتفاء کریں ۔
شریعت اسلامیہ میں انسانوں کیلئے مقرر کردہ عبادات ومعاملات میں اسکے حالات کے لحاظ سے سہولتیں بھی رکھی گئی ہیں اور کسی پر اسکی وسعت و طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی نفس پر ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر اس کی وسعت کے مطابق ۔ (البقرہ: 286 )
اگر آپ فی الوقت اس قدر علیل ہیں کہ روزہ رہنا دشوار ہے اور روزہ رہنے سے آپ کی صحت متاثر ہوسکتی ہے تو طبعیت ٹھیک ہونے کے بعد ان روزوں کی قضاء کرلیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۔
ترجمہ : اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزے رکھ لو ۔ (البقرة : 184)
فتاوی عالمگیری جلد 1 کتاب الصوم ، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي الْأَعْذَارِ الَّتِي تُبِيحُ الْإِفْطَارَ صفحہ 207 میں ہے : ( وَمِنْهَا الْمَرَضُ ) الْمَرِيضُ إذَا خَافَ عَلَى نَفْسِهِ التَّلَفَ أَوْ ذَهَابَ عُضْوٍ يُفْطِرُ بِالْإِجْمَاعِ ، وَإِنْ خَافَ زِيَادَةَ الْعِلَّةِ وَامْتِدَادَهَا فَكَذَلِكَ عِنْدَنَا ۔ اگر طبعیت ٹھیک ہو اور روزہ رہنے سے اس پر کسی قسم کا اثر نہیں پڑتا ہو تو اس صورت میں روزہ رہنا لازم و ضروری ہے۔ جہاں تک بحالت روزہ بلڈ ٹسٹ کرنے کا سوال ہے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا کیونکہ بلڈ ٹسٹ کیلئے خون نکالا جاتا ہے اور شریعت مطہرہ میں فاسد خون نکالنے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس سے روزہ دار کوکمزوری لاحق نہ ہوتی ہو ۔
پچھنا جسم سے فاسد خون نکالنے کے عمل کو کہا جاتا ہے‘ صحیح بخاری شریف میں احادیث شریفہ وارد ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے روزہ کی حالت میں اور احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ احادیث شریفہ کی روشنی میں فقہاء کرام نے فرمایا ہے کہ احرام کی حالت میں پچھنا لگوانا ازروئے شریعت مباح ہے اور بحالت روزہ پچھنا لگوانا اس وقت بلا کراہت جائز ہے جبکہ اس کی وجہ سے کمزوری نہ ہوتی ہو‘ اگر کمزوری پیدا ہوتی ہو تو کراہت سے خالی نہیں‘ تاہم ہر حال میں غروب آفتاب تک مؤخر کرنا‘ مناسب ہے ۔ ردالمحتار‘ کتاب الصوم‘ باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد ہمیں ہے: قولہ (وکذا لا تکرہ حجامۃ) ای الحجامۃ التی لاتضعفہ عن الصوم وینبغی لہ ان یؤخرہا إلی وقت الغروب والفصد کالحجامۃ۔ ردالمحتار‘ کتاب الحج‘ باب الجنایاتمیں ہے: قولہ (محاجمہ) ای موضع الحجامۃ من العنق کما فی البحر قولہ (وإلا فصدقۃ) ای وإن لم یحتجم بعد الحلق فالواجب صدقۃ۔ موسوعہ فقہیہ کویتیہ میںہے : اَثَرُ الْفَصْدِ عَلَی الإِْحْرَامِ ذَکَرَ الْحَنَفِیَّۃُ الْفَصْدَ ضِمْنَ مُبَاحَاتِ الإِْحْرَامِ ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ‘ فَصْد)
اگر قئے بے اختیار ہو جائے تو اس سے نہ روزہ ٹوٹے گا اور نہ قضاء لازم آئے گی اگرچہ قئے منہ بھر ہو ۔ لیکن اگر کوئی شخص قصداً قئے کرے اور قئے منہ بھر ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزہ کی قضاء لازم آئیگی ۔ فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 203 ما یوجب القضاء دون الکفارۃ کے بیان میں ہے ’’ اذا قاء او استقاء ملأ الفم او دونہ عاد بنفسہ او اعاد او خرج فلا فطر علی الاصح الا فی الاعادۃ والاستقاء بشرط ملأ الفم ھکذا فی النھر الفائق ۔
دھواں خواہ گاڑیوں سے نکلا ہو یا اور کوئی دھواں ہو، اگر کسی روزہ دار شخص کے منہ میں بلا قصد و بے اختیار چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 203میں ہے : وَلَوْ دَخَلَ .... أَوْ الدُّخَانُ أَوْ مَا سَطَعَ مِنْ غُبَارِ التُّرَابِ بِالرِّيحِ أَوْ بِحَوَافِرِ الدَّوَابِّ ، وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ لَمْ يُفْطِرْهُ كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ . ترجمہ: دھواں اور ہوا سے یا جانوروں کے کھروں سے اڑنے والی گرد وغبار اور اس جیسی چیزیں اگر روزہ دار کے حلق میں داخل ہوجائیں تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا گاڑیوں سے نکلنے والا یہ دھواں اگر بلا قصد و ارادہ کسی طرح روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا ۔
اگر کوئی شخص بحالت روزہ بھول کر کھاپی لے تو ایسے شخص سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ اپنا روزہ مکمل کر لے ‘جیساکہ صحیح بخاری شریف میں ہے:إِذَا نَسِیَ فَأَکَلَ وَشَرِبَ فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَہُ اللَّہُ وَسَقَاہُ-(صحیح بخاری کتاب الصوم باب الصائم إذا أکل أوشرب ناسیا حدیث نمبر 1933،چشتی)
ترجمہ : جب کوئی شخص روزہ کی حالت میں بھول کر کھاپی لے تو چاہیے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرلے کیونکہ اسے اللہ تعالی نے کھلایا اور پلایا ہے ۔
اسی لیے اگر روزہ دار بھولے سے کچھ کھا پی لے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 202 کتاب الصوم الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد ،میں ہے : إذا أکل الصائم أو شرب أو جامع ناسیا لم یفطر ، ولا فرق بین الفرض والنفل ۔
فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 206 کتاب الصوم الباب الرابع فیما یفسد وما لا یفسد ،میں ہے : لو أکل أو شرب أو جامع ناسیا وظن أن ذلک فطرہ فأکل متعمدا لا کفارۃ علیہ ۔
لہٰذا آپ نے جو بھول کر کھالیا تھا اس سے آپ کا روزہ نہیں ٹوٹا ، اگر آپ اس کے بعد افطار تک کھانے پینے سے رکے رہے اور روزہ کے منافی کوئی عمل نہیں کیا تھا تو آپ کا روزہ مکمل ہوگیا اس کی قضاء کرنے کی ضرورت نہیں- اگر آپ نے بھول کر کھانے کے بعد یہ سمجھ کر کہ روزہ ٹوٹ گیا بلاارادہ کچھ کھایا پیا تو اس صورت میں آپ کے ذمہ روزہ کا کفارہ تو نہیں ہوگا البتہ روزہ کی قضاء کرنا ضروری ہے ۔
روزہ دار کا آپریشن کرنے سے روزہ فاسد ہو گا یا نہیں ؟ ۔ ⏬
اس بارے میں بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور جسم سے کوئی چیز باہر نکالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ہے : وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَعِکْرِمَۃُ الصَّوْمُ مِمَّا دَخَلَ ، وَلَیْسَ مِمَّا خَرَجَ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: روزہ کسی چیز کے داخل ہونے سے ٹوٹتا ہے کسی چیز کے نکلنے سے نہیں ۔ (صحیح بخاری ، باب الحجامتہ والقیء للصائم حدیث نمبر 1937،چشتی)
نیز حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح کی روایت موجود ہے : انما الافطار مما دخل ولیس مما خرج ۔ ( مجمع الزوائد،حدیث نمبر4970)
آپریشن کے ذریعہ جسم سے کوئی چیز نکال دی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، بشرطیکہ آپریشن کےلیے جو آلات استعمال کیے جاتے ہیں ان آلات کے ذریعہ اندر کوئی دوا نہ پہنچائی جائے ۔ البتہ اگر کسی غیر کا عضو مثلاً گردہ وغیرہ جوڑ دیا جائے ، کیپسول ، پاؤڈر یا سیال کی شکل میں دوا رکھ دی جائے تو روزہ ٹوٹ جائیگا اور صرف قضا لازم ہوگی ۔ آپریشن سے پہلے جسم کو سُند کرنے کی غرض سے ریڑھ کی ہڈی میں انجکشن دیا جاتا ہے ماہر ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق اس کا اثر معدہ یا دماغ یا خون کی رگوں تک نہیں پہنچتا اور نہ وہ دوا یا غذا کا کام کرتا ہے ، اگر نفس الامر ایسا ہی ہو تو اس انجکشن کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر اس دوران بلڈ پریشر یا شوگر کا یا کوئی اور انجکشن دیا جائے جس کا اثر معدہ یا دماغ یا خون کی رگوں تک راست یا بالواسطہ پہنچتا ہو تو روزہ فاسد ہوجائے گا ۔ علامہ طاہر بن عبد الرشید بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وما وصل الی جوف الراس والبطن من الاذن بالا نف والد بر فہو مفطر بالا جماع وفیہ القضاء ۔ (خلاصۃ الفتاوی جلد 1 صفحہ 253 الفصل الثالث فیما یفسد الصوم) ۔ نیز خلاصۃ الفتاوی میں ہے : ولو طعن برمح فوصل الی جوفہ ثم نزعہ لاتفسد صومہ۔(خلاصۃ الفتاوی جلد 1 صفحہ 253 الباب الثالث فیما یفسد،چشتی)
روزہ میں مسواک کے علاوہ بلا عذر شرعی ٹوتھ پیسٹ یا پاوڈر وغیرہ کا استعمال کرنا مکروہ ہے ؛ کیو ںکہ اس میں ایک قسم کا ذائقہ بھی ہوتا ہے ۔ اگر بحالت روزہ احتیاط کے ساتھ ان کو استعمال کیا جائے تب بھی کراہت سے خالی نہیں ہے اور اگر کچھ ذرات حلق میں چلے جائیں تو روزہ فاسد ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا ٹوتھ پیسٹ ‘ ٹوتھ پاوڈر یا منجن ہرگز استعمال نہ کریں ۔ فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 199 میں ہے ۔ وکرہ ذوق شیء ۔ روزہ کی حالت میں ٹوتھ پاوڈر یا ٹوتھ پیسٹ کے بجائے مسواک کا استعمال کرنا مسنون و مستحب ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحالت روزہ مسواک کے استعمال کو روزہ دار کی بہترین صفت قرار دیا ہے ۔ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ قال خیرخلال الصائم السواک ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : روزہ دار کی بہترین صفت مسواک کرنا ہے ۔ (بدائع الصنائع جلد 1 صفحہ 269،چشتی)
فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 199 میں ہے:ولا باس بالرطب والیابس فی الغداوۃ والعشی ۔
ترجمہ : روزہ دار کےلیے صبح و شام تریا خشک مسواک استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مسواک استعمال کرنے کے متعدد فضائل اور طبی نقطہ نظر سے کئی ایک فوائد ہیں ۔ مسواک کا ادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ منہ کی بو دور ہوجاتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ درمختار جلد 1 صفحہ 85 میں ہے : ادناہ اماطۃ الاذی واعلاہ تذکیر الشھادۃ عندالموت ۔
محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے ، اس دن روز ہ رکھنا سنت ہے ، دراصل یہود بھی عاشوراء کوروزہ رکھتے تھے ، اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچانے کےلیے حکم فرمایا کہ دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھ لیا جائے ، جیسا کہ زُبدۃ المحدثین سیدی محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ نے زجاجۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 572 ، میں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے حدیث شریف ذکر کی ہے : عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صوم یوم عاشوراء : صوموہ وصوموا قبلہ یوما او بعدہ یوما ، ولا تتشبہوا بالیہود ۔ رواہ الطحاوی ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عاشوراء کے روزہ سے متعلق روایت کرتے ہیں ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد روزہ رکھو! اوریہود کی مشابہت مت اختیارکرو ۔ (زجاجۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 572،چشتی)
اگر کوئی شخص صرف دسویں کا روزہ رکھے تو روزہ ادا ہو جائے گا تاہم یہ عمل یہود سے مشابہت کی بنا پر مکروہ ہے ، حاشیہ زجاجۃ المصابیح جلد 1 صفحہ 572 میں ہے : قال الشیخ ابن الھمام : یستحب صوم یوم عاشوراء ، ویستحب ان یصوم قبلہ یوماً او بعدہ یوما ، فان افردہ فہو مکروہ للتشبہ بالیہود ۔
ردالمحتار جلد 2 صفحہ 91 میں ہے : ای مفرداً عن التاسع او عن الحادی عشر امداد لانہ تشبہ بالیہود محیط ۔
ہر چیز کی زکوٰۃ ہے جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے : ⏬
سنن ابو داٶد میں ام المومنین حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کا اس قدر تحفظ کرتے کہ اتنا اور کسی ماہ کا نہ کرتے پھر رمضان کا چاند نظر آتا دیکھ کر روزہ رکھتے اور اگر ابر ہوتا تو تیس دن پورے کر کے روزہ رکھتے ۔
روزہ کی نیت : ⏬
نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘میں ہے:ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ ۔ (در مختار ،جلد2صفحہ379) ۔ لہٰذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو ۔
سحری کے احکام و مسائل : ⏬
سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان مبارک ہے : تسحروا فان فی السحور برکۃ ۔ (صحیح بخاری،حدیث 1923)
سحری کھایا کرو اس لیے کہ اس کھانے میں برکت ہے ، دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ’’ردالمحتار ‘‘میں یوں ہے کہ : السحور کلہ برکۃ فلاتدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعۃ من ماء ۔ (ردالمحتار، جلد2صفحہ419) ۔ سحری تمام تر برکت ہے،لہذا اسے مت چھوڑو اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں سحری ہو ۔
سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
روزے کےلیے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ، سحری کی دعا یہ ہے : وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان ۔
سحری میں تاخیر (آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)
یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194)
اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے ۔(عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)
صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لیے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194)
سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے ۔ (بہار شریعت)
افطاری کے احکام و مسائل : ⏬
یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہو جاتا ہے ، اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے ۔ (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ 175)(بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 105)
افطاری کھجور ، چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء (الزیلعی جلد 1 صفحہ 443)
افطار کے وقت کی دعا یہ ہے : اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ (سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 294) ، اے اللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں ۔
کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ ۔ (مشکوٰۃ ،جلد1صفحہ173) ، روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں ، جہنم سے نجات ملتی ہے ، روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جا سکتا ہے : ⏬
روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281)
سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق،جلد2صفحہ281)
اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207،چشتی)
حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 207)
اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہو جانا ، کسی بلندی سے گرنا ، کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281)
وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 402)
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز لیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے : ⏬
کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کےلیے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 442)
اگر بیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ، البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)
اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہو جانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422،چشتی)
اگر عورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ(دودھ پلانے والی)روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
مسافر (جوکم ازکم 48 میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 421 - 423)
ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431)
ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کےلیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431)
اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں (حوالہ بالا) ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
شوگر کے مریض اگر واقعتاً روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں ، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)
لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں ، تفصیل درج ذیل ہے ۔
نوٹ : مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 265)
اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)(فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 423 - 424-425،چشتی)
مفسدات روزہ وہ چیزیں جن سے روزہ فاسدہوتا (ٹوٹتا) ہے دو طرح کی ہیں : ⏬
(1) روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں ۔
(2) صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ۔
وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں : جان بوجھ کر کھانا ، پینا یا جماع کرنا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 205)
لواطت (غیر فطری فعل ، ہم جنس پرستی) ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 406)
وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 409 - 410)
جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202)
روزے کا کفارہ : ⏬
مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ، یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا ، لگاتار ساٹھ (60) روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا) اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61) روزے لگاتار بغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 412)(ھندیہ جلد 1 صفحہ 215)
اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 412)
البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘ شروع ہو جائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘ کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 277)
اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں : ⏬
بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 479)
اگر ایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگا اور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انہیں کو کھلائے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 514،چشتی)
روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے ۔ (البحرالرائق جلد 4 صفحہ 109)
وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں : ⏬
اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 414)
کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)
ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا(عالمگیری جلد1صفحہ202)
البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا ۔ بھول کر کھایا ، پیا ، جماع کر لیا ، احتلام ہو گیا ، تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کر دیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402،چشتی)
نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ، پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا ۔ (ہدایہ جلد 1صفحہ207)
اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا ۔ (الاشباہ والنظائر صفحہ 60)
اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے ۔ (عالمگیری،جلد 1 صفحہ 203،چشتی)
سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود (یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194)
دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202)
کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)
ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (مبسوط سرخسی جلد 3 صفحہ 98)
مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 431)
یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 207)(فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 384،چشتی)
وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا : ⏬
جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 419)
آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 419)
مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 419)
کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 417)
ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں) لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 395)
بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 394)
کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 396)
خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 92)
احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 91)
حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
پچھنا ، سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہار شریعت)
مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کےلیے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 380)
ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 369،چشتی)
البتہ اگر پسینہ زیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا ، اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 278)
مکروہاتِ روزہ : ⏬
بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)
منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 416)
ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)
روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)
ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 396،چشتی)
جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ، شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا ، فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں ۔ (حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ141)
غیبت کرنے ، چغلخوری کرنے ، دھوکہ دینے ، جھوٹی قسم کھانے ، جھوٹی گواہی دینے ، ظلم کرنے،فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ صفحہ 141)
اعتکاف کے مسائل : ⏬
اعتکاف بیٹھنے کےلیے مساجد کے ترتیب وار درجے بتلائے گئے ہیں جس میں سب سے افضل مسجد حرام ہے پھر مسجد نبوی علی صاحبہ افضل الصلوۃ واکمل السلام‘ پھر مسجد اقصیٰ ہے ان تین مقدس مساجد کے بعد اپنے مقام کی جامع مسجد میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے پھر اس مسجد کادرجہ ہے جہاں جماعت میں کثیر افراد شریک ہوتے ہوں ۔ جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 218 میں ہے افضل الاعتکاف ماکان فی المسجد الحرام ثم فی مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم فی بیت المقدس ‘ ثم فی الجامع ثم فیما ماکان اھلہ اکثرو اوفر ۔
عورت کےلیے اعتکاف کی جگہ : ⏬
عورت کےلیے مسجد میں اعتکاف بیٹھنا مکروہ ہے اگر عورت اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو اس کوچاہئے کہ گھر میں ہی اس جگہ اعتکاف کا اہتمام کرے جہاں وہ پنجوقتہ نمازیں ادا کرتی ہے ۔ اگر گھر میں نمازادا کرنے کی خاص جگہ مقرر نہیں ہے تو کوئی جگہ مختص کرلے اور اس جگہ کو پاک وصاف رکھے ۔ فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 211 میں ہے ’’ والمرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا اذا اعتکفت فی مسجد بیتھا فتلک البقعۃ فی حقھا کمسجد الجماعۃ فی الرجل ۔ ۔ ۔ فیصح من المرأۃ والعبد باذن المولی والزوج ان کان لھا زوج کذا فی البدائع ۔
چار یا پانچ دن کا اعتکاف : ⏬
ماہ رمضان کے اخیر عشرہ میں اعتکاف بیٹھنا سنت مؤکدہ کفایہ ہے اگر ایک شخص بھی اس کا اہتمام کرلے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے ۔ ردالمحتار جلد 2 صفحہ 141 میں ہے ۔ ( قَوْلُهُ أَيْ سُنَّةُ كِفَايَةٍ ) نَظِيرُهَا إقَامَةُ التَّرَاوِيحِ بِالْجَمَاعَةِ فَإِذَا قَامَ بِهَا الْبَعْضُ سَقَطَ الطَّلَبُ عَنْ الْبَاقِينَ ۔
رد المحتار جلد 1 صحہ 521 میں ہے وَهَلْ الْمُرَادُ أَنَّهَا سُنَّةُ كِفَايَةٍ لِأَهْلِ كُلِّ مَسْجِدٍ مِنْ الْبَلْدَةِ أَوْ مَسْجِدٍ وَاحِدٍ مِنْهَا أَوْ مِنْ الْمَحَلَّةِ. . . . وَيَظْهَرُ لِي الثَّالِثُ ، لِقَوْلِ الْمُنْيَةِ : حَتَّى لَوْ تَرَكَ أَهْلُ مَحَلَّةٍ كُلُّهُمْ الْجَمَاعَةَ فَقَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ وَأَسَاءُوا ۔
اعتکاف سنت مؤکدہ کا وقت بیسویں رمضان کے غروب آفتاب سے عید کا چاند نکلنے تک ہے ۔ درمختار کے اسی صفحہ پر ہے : وَسُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ فِي الْعَشْرِ الْأَخِيرِ مِنْ رَمَضَانَ ۔
اگر آپ مشاغل ضروریہ کی بناء دس دن سے کم مدت کا اعتکاف بیٹھنا چاہتے ہیں تو یہ اعتکاف مستحب ہوگا سنت مؤکدہ نہیں ۔ اگر محلہ کاکوئی بھی فرد اعتکاف نہ کرے تو سب لوگ سنت موکدہ کے تارک ہوں گے ‘ اور اہل محلہ کا یہ عمل برا سمجھا جائیگا، اس لئے محلہ سے کم از کم ایک شخص اعتکاف بیٹھے تاکہ سب کے ذمہ سے ادا ہو اور اعتکاف کی فضیلت حاصل ہو ‘ حدیث شریف میں وارد ہے کہ معتکف کو تمام نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث شریف ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ قَالَ فِى الْمُعْتَكِفِ « هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ معتکف گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیوں سے اس کو اس قدر ثواب ملتا ہیکہ گویا اس نے تمام نیکیاں کیں ۔ (سنن ابن ماجہ شریف کتاب الصوم باب فی ثواب الاعتکاف حدیث نمبر 1853)
اعتکاف نہ بیٹھنے والوں سے متعلق عظیم المرتبت تابعی امام ابن شھاب زہری فرماتے ہیں لوگوں پرتعجب ہے! اعتکاف چھوڑ دیتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی عمل فرماتے تو کبھی اس کو ترک بھی فرماتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد سے پردہ فرمانے تک اعتکاف ترک نہیں فرمایا ۔ وَعَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ : عَجَبًا لِلنَّاسِ تَرَكُوا الِاعْتِكَافَ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَيَتْرُكُهُ وَلَمْ يَتْرُكْ الِاعْتِكَافَ مُنْذُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ إلَى أَنْ مَاتَ ۔ ( بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 273 )
اپنے کندھوں کا استعمال صرف جنازے اٹھانے کےلیے مخصوص نہ کریں بلکہ جو انسان زندہ ہیں ان کا سہارا بنیں ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے بے سہارا بچوں کا سہارا بنیں اپنے عطیات ، زکواة ، صدقہ جاریہ و صدقہ فطر ادارہ پیغامُ القرآن پاکستان کے زیرِ انتظام دین کی نشر و اشاعت کرنے ، دینی تعلیم عام کرنے خصوصاً دور دراز دیہاتوں کے غریب بچوں کو مفت دینی و عصری تعلیم دینے ، ان کے کھانے پینے و علاج معالجہ ، ادارہ کےلیے جگہ کی خریداری و تعمیر ۔ دین کی نشر و اشاعت ، کتبِ تفاسیر قرآن ، کتبِ احادیث عربی اردو کی شروحات ، دیگر اسلامی کتب ، کی خریداری کے سلسلہ میں دے کر معاون بنیں جزاکم اللہ خیراً کثیرا آمین ۔ ہمارے اکاؤنٹ نمبرز یہ ہیں : بڑے بیٹے محمد جواد کا اکاؤنٹ نمبر : 02520107640866 میزان بینک چوھنگ لاہور پاکستان ، موبی کیش اکاؤنٹ نمبر : 03009576666 ۔ موبی کیش و ایزی پیسہ اکاؤنٹ نمبر : 03215555970 ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
-
حق بدست حیدر کرار مگر معاویہ بھی ہمارے سردار محترم قارئین : اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما...