Tuesday, 27 August 2024

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان

بریلوی اہل سنت و جماعت کی پہچان

محترم قارئینِ کرام : بے شک ’’بریلوی‘‘ اور مسلک اعلیٰحضرت سچے پکے اصلی اور حقیقی اہلسنت کی علامت و نشان و شناخت و پہچان ہے ۔ اہل علم و فن کا دستور رہا ہے کہ جب کسی شئی کی کما حقہ معرفت کراتے ہیں تو اس کا معرف جامع و مانع لاتے ہیں اور جامعیت مابہ الاشتراک سے آتی ہے اور مانعیت مابہ الامتیاز سے تاکہ معرَّف یعنی جس کی معرفت کرانا مقصود ہوتی ہے اس کا وجود اغیار سے ممتاز ہوکر ذہن میں متصور ہوجائے جیسے علماء نحو نے “کلمہ” کی معرفت کرائی تو صرف “الکلمة لفظ” سے نہ کرائی بلکہ “وضع لمعنی مفرد” کی قید کے ساتھ کرائی کہ یہاں “لفظ” مابہ الاشتراک کی حیثیت کا حامل ہے جو “موضوع و مہمل لفظ” دونوں کو شامل ہے اور یہ کلمہ کےلیے جنس قریب ہے چاہتے تو جنس بعید سے معرفت کراتے یعنی “الکلمة شئی” کہ دیتے لیکن یہ تعریف حد تام نہ ہوتی یہاں تام کا بھی لحاظ رکھا گیا تا کہ مطلوب اغیار قریبہ سے بھی ممتاز ہو کر متصور ہو جائے اور “وضع لمعنی مفرد” مابہ الامتیاز کی حیثیت کا حامل ہے جس سے مہملات اور وہ الفاظ نکل گئے جو کسی معنی پر باعتبار وضع دال نہیں ہیں اور “حروف تہجی” نکل گئے اور مرکب نکل گئے خوا تام ہو یا ناقص اور اس جامعیت اور مانعیت کے لحاظ سے کلمہ کی کما حقہ معرفت حاصل ہوئی اور وہ اغیار بعیدہ و قریبہ سے ممتاز ہو کر ذہن میں متصور ہوا معلوم ہوا کسی شئی کی کما حقہ معرفت حاصل کرنے کے لئے مابہ الاشتراک کے ساتھ ساتھ مابہ الامتیاز کی ضرورت پڑتی ہے مابہ الامتیاز کے بغیر کما حقہ معرفت ہرگز نہیں حاصل ہو سکتی جیسے مناطقہ انسان کی تعریف حیوان ناطق سے کرتے ہیں یہاں حیوان مابہ الاشتراک ہے اور ناطق مابہ الامتیاز جس کی بنا پر انسان کے اغیار یعنی فرس و غنم و غیرہ انسان کی تعریف میں داخل نہ ہوسکے اور انسان کی تعریف جامع و مانع رہی لیکن اگر انسان کی تعریف صرف حیوان سے کی جائے تو اس سے انسان کی تعریف دخول غیر سے مانع نہ رہے گی یعنی فرس و غنم بھی تعریف میں شامل ہوجائیں گے اور انسان کا وجود اغیار سے ممتاز ہوکر متصور نہ ہو پائے گا ۔


اگر مابہ الامتیاز نہ ہو تو معرف یعنی جس کی معرفت کرانی مقصود ہوتی ہے اسکا وجود ذہن میں اغیار سے ممتاز ہوکر نہیں ہوگا بلکہ ابہام باقی رہےگا اور تعریف کا مقصد اصلی فوت ہوجائے گا ۔


پہلے زمانے میں صرف کلمہ پڑھنا ہی اہل حق کا امتیازی نشان رہا ہے یہی اھل حق و باطل کے مابین ممیِز و فصل کا کام کرتا رہا لیکن جب اِنھیں کلمہ پڑھنے والوں میں معتزلہ و جبریہ قدریہ جیسے فرقے وجود میں آئے جو نت نئے طریقوں سے اسلام کو نقصان پہچانے میں مشغول ہونے لگے اور قران و حدیث کے غلط معانی اور مطالب بیان کرنے لگے تو اشتراک پیدا ہوا کہ جو لوگ کلمہ طیب پڑھتے تھے ان میں ایسے نظریات رکھنے والوں کی شرکت ہوئی کہ معرَّف کی معرفت میں ابہام پیدا ہوا اور عوام الناس ابہام کی تاریکی میں گمراہی کے راستے پر چل پڑی اور اہل حق کی معرفت کرنا اندھیرے میں ہاتھ مارنے کے مترادف ہو گیا کیونکہ کوئی خط امتیاز نہ رہا جس کی بنا پر سب میدان اشتراک میں نظر آنے لگے اس لیے کہ عرف میں اصل مسلمان کی پہچان مشکل ہو گئی تھی لہٰذہ ایسا معرِّف جو معرَّف یعنی اصل مسلمان کی ایسی معرفت کرائے جس سے اصل مسلمان کی شناخت ہو سکے کہ اشتراک ختم ہو کی اشد ضرورت آن پڑی کہ اھل حق و باطل کے مابین تمیز ہو جائے تو اس وقت حضرت ابو الحسن اشعری رحمۃ الله علیه نے معتزلہ سے علیحدگی اختیار کی اور ان کی رائے سے اختلاف کیا اور ان کے متبعین معتزلہ کی رائے کے باطل کرنے میں مشغول ہوئے اور انہوں نے سنت کی اتباع کی تو ان کا نام “اہل سنت و جماعت” ہوا ۔ (جیسا کہ شرح عقائد میں ذکر ہے) تو اسی نام (معرِف) نے اپنے معرَف کی ایسی معرفت کرائی کہ جس سے معتزلہ وغیرہ نکل گئے اور اھل حق جنکی معرفت مشکل تھی,مبہم تھی اب واضح ہوگئی،عیاں ہوگئی اور یہی نام اھل حق کا امتیازی نشان بنارہا ہے کہ جو خود کے بارے میں یہ کہتا تھا کہ ہم “اھل سنت و جماعت” ہیں تو وہی اھل حق جانا جاتا تھا،پہچانا جاتا تھا لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ہم صرف مسلمان ہیں تو یہ کہنے سے اسکی پہچان نہیں ہوپاتی تھی بلکہ لفظ مسلمان کے ساتھ ساتھ اسے “اھل سنت و جماعت” کی قید لگانی پڑتی تھی تبھی اھل حق میں شمار کیا جاتا تھا ورنہ معتزلہ وغیرہ بھی خود کو مسلمان کہتے تھے اسکے بعد ایک ایسا دور آیا کہ “اھل سنت و جماعت” میں سے ایسے فرقے وجود میں آئے جو قطعیات کے خلاف بکواس کرنے لگے کہ یہ خود کو “اھل سنت و جماعت” کہتے تھے جیسے وہابیہ دیابنہ لھذا پھر اھل حق کی معرفت امتیازی حیثیت سے محروم ہوگئی غیر بھی شامل ہونے لگے ۔ لہٰذا ایسے معرِف کی ضرورت آن پڑی جو ان باطل عقائد کے حاملین کو نکال سکے, اور اھل حق کا کوئی امتیازی نشان ہوجائے تاکہ اصل اھل سنت کی معرفت غیروں کے تصور سے ممتاز ہوکر ہوسکے تو اس وقت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ان کے باطل عقائد کا رد فرمایا انکے رائے سے اختلاف,ان سے علیحدگی اختیار فرمائی,انکے متبعین و معتقدین نے ان فرقوں کی رائے باطل کرنے میں سرگرم رہے لھذا اصل اھل سنت و جماعت کی پہچان عرف میں پھر فصل ممیز کی محتاج ہوگئی تو ہمارے علماء و اکابر نے بنام “مسلک اعلی حضرت” کی اصطلاح کو پسند فرمایا جس کو استعمال کرکے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ شخص اصل اھل سنت و جماعت ہے اور افکار اعلی حضرت رحمۃ الله علیه کی طرف نسبت کرنے کےلیے خود کو “بریلی” کی طرف منسوب کیا ۔ جیسے ماترید ایک جگہ کا نام ہے لیکن حضرت ابو منصور علیہ الرحمہ کے نظریات کی طرف نسبت کرنے کے لیے ماتریدی کہا جاتا ہے ۔ کہ اس سے اصل “اہل سنت و جماعت” کی معرفت ہوئی کہ ہم نہ دیوبندی ہیں نہ وہابی بلکہ اصلی سنی ہیں یہی عرفا بطور امتیاز مستعمل ہوا یہی اھل حق کا امتیازی نشان رہا ‘اہل سنت و جماعت” کے ساتھ یہ ایسی قید ہے کہ جس سے عقائد باطلہ کے حاملین خارج ہوگئے اور اس معرِف سے “اہل سنت و جماعت” کی معرفت جامع و مانع طریقے سے ہوگئی اصل “اہل سنت جماعت کی معرفت کے لئے خود کو صرف بریلوی کہدینا ہی کافی ہوگیا جیسے پہلے “اھل سنت و جماعت” ہی کہدینا کافی تھا اصل مسلمان کی شناخت کے لئے اور اس سے پہلے صرف کلمہ طیب ہی پڑھنا کافی تھا اہل حق و باطل کے مابین امتیاز پیدا کرنے کےلیے ۔ (چشتی)


اب جس جگہ جو اہل حق کا امتیازی نشان رہےگا جیسے باہر ممالک میں لفظ “صوفی” مابہ الامتیاز ہے لہٰذا یہی اہل حق کا امتیازی نشان ہے ۔


اہل و علم و فن کے دستور کو اپناتے ہوئے کس طرح اہل سنت کے مقتدر و معتبر علماء نے لفظ “بریلوی” کو پسند فرمایا ۔


غیر مقلد وہابی مصنف البریلویۃ کے ایک رفیق و معین ہمدم و دمساز مولوی امیر حمزہ اپنی کتاب ’’آسمانی جنت اور درباری جہنم‘‘ کے صفحہ نمبر 250,251 پر خود تسلیم کرتے ہیں:

’’1866ء میں دیوبند شہر میں حنفی حضرات نے ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ یہاں سے جو علماء فارغ ہوئے وہ پھر بیسویں صدی میں دیوبندی کے نام سے معروف ہوگئے… آج کل ان کی پہچان اہلسنت و الجماعت حنفی دیوبندی کے نام سے ‘‘

پھر لکھتا ہے ’’احمد رضا خاں بریلوی جوکہ ہندوستان کے صوبہ اترپردیش (یو۔پی) کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے… جس کے ماننے والے اپنے آپ کو اہلسنت و الجماعت حنفی بریلوی کہلواتے ہیں‘‘ (درباری جہنم صفحہ 252)

پھر لکھتا ہے ’’حنفیوں میں سے دیوبندی بنے اور بریلوی بنے‘‘ (آسمانی جنت ص 253)

اسی کتاب میں ندوۃ العلماء اور ندیوں کو بھی اہلسنت حنفی ندوی لکھا ہے اور شیعوں اور غیر مقلدوں (نام نہاد اہلحدیثوں کو بھی اہلسنت لکھا ہے۔ اب مولوی اصدق صاحب بتائیں۔ اب جبکہ کئی فرقے اپنے آپ کو اہلسنت کہلوا رہے ہیں تو آپ کے لئے اہلسنت بریلوی بطور علامت و شناخت و امتیاز و پہچان بریلوی کہلانا کیوں قیامت ہے؟ یہ فتنوں اور فرقوں کا زمانہ ہے۔ اگر حقیقی اہلسنت اکابر کرام اپنی شناخت و پہچان بریلوی متعین کریں تو آپ کو کیا دکھ ہے؟ یا تو آپ یوں کریں کہ وہابیوں، غیر مقلدوں کو آمادہ کریں کہ مہاراج آپ وہابی کہلایا کریں، وہابی ہوکر اہلسنت کالیبل نہ لگائیں اور دیوبندیوں وہابیوں کو پابند کریں کہ آپ کے اکابر وہابی، دیوبندی ہونے کے دعویدار تھے۔ آپ اہلسنت کا نام سرقہ نہ کریں اور دیوبندی وہابی کہلائیں۔ جب آپ ان دونوں فرقوں کو قائل کرلیں تو حقیقی اہلسنت صرف اور صرف اہلسنت و جماعت کہلایا کریں گے اور آپ کے من کی مراد پوری ہوجائے گی اور مسلمانان اہلسنت وہابیوں، دیوبندیوں کی دھوکہ منڈی سے بچ جائیں گے۔ لیکن اب جبکہ دیوبندی بھی نام نہاد اہلسنت کہلائیں، غیر مقلد بھی اہلحدیث اہلسنت کہلائیں، ندوی و مودودی ورافضی بھی خود کو اہلسنت کہلائیں اور ہم بھی تو آپ دیدہ دانستہ سنیوں کو مذکورہ بالا باطل و بد دین فرقوں کے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں کیونکہ بقول سیدنا مجدد اعظم سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ:

سنی حنفی اور چشتی، بن بن کے بہکاتے یہ ہیں

خوشتر و اصدق و ذیشان اندھے کی لاٹھی نہ گھمائیں اور مسلک اعلیٰ حضرت، اور بریلوی کے علامتی و شناختی نشان کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اہلسنت کو بدمذہبوں کے لئے ترنوالہ نہ بنائیں۔ آپ کو چاہئے تھا کہ جس طرح آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی انتساب کے خلاف آپ حضرات نے اندھا دھند اپنی ساری توانائیاں جھونک دیں۔ آپ اپنا سارا زور اور تمامتر صلاحیتیں اس پر صرف کرتے، وہابی دیوبندی غیر مقلد مودودی وغیرہ اہلسنت نہیں ہیں۔ ان جعلی بناسپتی، مصنوعی نقلی بناوٹی اہلسنت سے بچو اور اجتناب کرو۔ مگر آپ حضرات یہ تو کرنہ سکے اور الٹا ’’شاخ پہ بیٹھ کر جڑ کانٹنے کی فکر‘‘ مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور بے جوڑ شوشے چھوڑنے ، مغالطے دینے شروع کردیئے۔ بہرحال فقیر بفضلہ تعالیٰ ان ہرسہ باغیان مسلک اعلیٰ حضرت کی فریب کاریوں، مکاریوں، کیادیوں، مغالطہ آمیزیوں کا راز شواہد و حقائق کی روشنی میں جلد طشت از بام کرے گا، لیکن پہلے موضوع زیر بحث اکابر دیوبند سے خود دیوبندی کہلاتا اور مسلک دیوبند۔ دیوبندی مسلک کہلاتا مزید حوالوں سے ثابت کرتا ہے جو ان نوزائیدہ قلم کاروں کی دھندلی نظر سے اخفاء میں رہے یا دیدہ دانستہ صرف نظر سے کام لیا۔

کتاب جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان مرتبہ حافظ نذر احمد صاحب مسلم اکادمی لاہور پہلی بار 1960ء میں مرتب ہوکر طبع ہوئی۔ ہمارے پاس محرم الحرام 1392ھ بمطابق مارچ 1972ء کا طبع شدہ و شائع کردہ ایڈیشن ہے جس میں بریلوی دیوبندی، غیر مقلد اہلحدیث و شیعہ مدارس کی تفصیل موجود و مرقوم ہے۔ پہلے دیوبندی مدارس کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ صفحہ 18، جامعہ اشرفیہ لاہور مسلک حنفی دیوبندی جامعہ مدینہ لاہور صفحہ 25,24، مسلک حنفی دیوبندی صفحہ 34، جامعہ حنفیہ مسلک حنفی دیوبندی صفحہ 42، جامعہ عربیہ رحیمیہ لاہور مسلک حنفی دیوبندی دارالعلوم مدینہ بہاولپور اہلسنت والجماعت مشرب اکابر دیوبند ،مدرسہ عطاء العلوم، عطاء العلوم والفیوض بہاولپور، نور پور مسلک حنفی دیوبندی ص 74، دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی ص 124، مسلک حنفی دیوبندی، مخزن العلوم خان پور مسلک حنفی دیوبندی ص 143، جامعہ رشیدیہ ساہیوال مسلک حنفی دیوبندی ص 160، مدرسہ اشاعت العلوم لائل پور فیصل آباد مسلک حنفی دیوبندی ص 251، جامعہ قاسمیہ لائل پور فیصل آباد مسلک حنفی دیوبندی ص 259، جامعہ اشرفیہ پشاور مسلک حنفی دیوبندی ص 406، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک حنفی دیوبندی ص 407، دارالعلوم کراچی مفتی محمد شفیع دیوبندی مسلک دیوبندی حنفی ص 477، مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مسلک حنفی دیوبندی ص 480، دارالعلوم قوت الاسلام حیدرآباد سندھ مسلک حنفی دیوبندی ص 514، مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ بلوچستان مسلک دیوبندی حنفی ص 565، مدرسہ قاسم العلوم ملتان مسلک حنفی دیوبندی ص 309، مدرسہ خیر المدارس ملتان، مسلک حنفی دیوبندی ص 300، الغرض پاکستان میں دیوبندی مسلک و مکتب فکر کے کل 291 مدارس ہیں جو خود کو حنفی دیوبندی اہلسنت دیوبندی کہلاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو کتاب جائزہ مدارس عربیہ ص 688، یہ مدارس 1972ء سے پہلے کے قائم ہیں۔ مولوی اصدق صاحب غور کرکے بتائیں کہ یہ خود فخریہ دیوبندی مسلک کہلاتے ہیں یا ہم نے کہا ہے؟ مولوی اصدق صاحب یہ بھی بتائیں اب جبکہ دیوبندی خود کو اہلسنت اور حنفی دیوبندی کہلا رہے ہیں تو ہمیں اپنی شناخت و علامت امتیاز و نشان کے طور پر بریلوی حنفی یا اہلسنت بریلوی کہلانا عقلاً و نقلاً کس طرح ممنوع ہے؟

اور بحوالہ کتب یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ ہم اہلسنت اور ہمارے مسلمہ اکابر علماء و مشائخ ایک مدت مدید ایک سو سال سے بھی پہلے کے حنفی بریلوی، اہلسنت بریلوی کہلا رہے ہیں، محکمہ اوقاف، محکمہ تعلیم اور افواج پاکستان میں بطور امام و خطیب ہمیں بریلوی اہلسنت حنفی بریلوی لکھا گیا ہے۔ اصدق و خوشتر اور ذیشان سارے سرکاری محکموں سے بریلوی کا انتساب اور علامتی و شناختی نشان کیسے تلف کروائیں گے۔ دنیا آپ کو دیوانہ سمجھے گی۔ ہماری مسجدوں اور ہمارے مدارس کو سرکاری اداروں میں اہلسنت بریلوی، حنفی بریلوی لکھ کر رجسٹریشن کی جاتی ہے، رجسٹرڈ کروانے میں اگر ہم اپنا شناختی و امتیازی نشان بریلوی نہ لکھوائیں  صرف مسلمان یا صرف اہلسنت لکھوا دیں تو ایک تو رجسٹریشن ناممکن اور پھر مسجدوں، مدرسوں پر بدمذہبوں کے قبضہ کا خطرہ، لڑائی جھگڑوں، مقدمہ بازیوں تک نوبت پہنچے گی یا نہیں… کیونکہ ہر باطل فرقہ یہ کہہ کر قبضہ کرلے گا ہم بھی مسلمان ہیں، ہم بھی اہلسنت ہیں، ہم بھی حنفی ہیں۔ خدا جانے آپ کیوں عقل و شعور فراست و بصیرت سے ریٹائر ہوکر خالص سنیت کے علامتی نشان بریلوی کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ذرا غور کرکے بتائو۔ ہمارے مرکزی مدارس کے بانی و مہتمم و ناظم اعلیٰ منصرم و منتظم اور حضرات شیوخ الاحادیث کیا فہم و فراست سے بالکل خالی تھے جنہوں نے اپنے مدارس کو حنفی بریلوی متعارف کرایا اور سرکاری اداروں کے ریکارڈ میں بریلوی کا اندراج کرایا۔(چشتی)

آپ ہی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں

ہم اگر بات کریں گے تو شکایت ہوگی

دیکھئے ہمارے مسلمہ اکابر علماء و مشائخ کس فراخدلی اور خندہ پیشانی سے اپنے مدارس دینی اداروں کا عقیدہ و مسلک بریلوی حنفی بریلوی قرار دے رہے ہیں۔ ملاحظہ کتاب جائزہ مدارس عربیہ پاکستان دارالعلوم حزب الاحناف لاہوریہ دارالعلوم حضرت علامہ سید محمد دیدار علی شاہ محدث الوری علیہ الرحمہ شاگرد و خلیفہ حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ بعد میں سیدنا مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے بھی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپ کے وصال کے بعد شیخ المشائخ حضور سیدنا شاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی کے مرید وخلیفہ اور حضور سیدنا صدر الافاضل مولانا شاہ نعیم الدین مراد آبادی کے شاگرد مفتی پاکستان علامہ سید ابوالبرکات، سید احمد قادری ناظم اعلیٰ و شیخ الحدیث ہوئے۔ اپنے دارالعلوم حزب الاحناف کا مسلک حنفی بریلوی لکھا اور کتاب جائزہ میں بریلوی کے علاوہ احناف بریلوی لکھا ہے۔ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور بانی و مہتمم مفتی محمد حسین نعیمی حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ کے مرید اور جامعہ نعیمیہ مراد آباد شریف کے فاضل ہیں اور حضرت علامہ مفتی عزیز احمد قادری بدایونی فاضل دارالعلوم قادریہ بدایوں شریف وغیرہ حضرات مدرسین تھے۔ کتاب جائزہ صفحہ 22 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 49 دارالعلوم نعمانیہ لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 36 جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ یہ دارالعلوم نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد قدس سرہ کے حکم پر قائم کیاگیا۔ حضرت قبلہ محدث اعظم علیہ الرحمہ نے ہی افتتاح فرمایا۔ یہاں پہلے محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے داماد محترم اور شاگرد رشید المعقول علامہ غلام رسول رضوی علیہ الرحمہ صدر مدرس و مہتمم تھے۔ بعد میں علامہ مفتی عبدالقیوم قادری رضوی ہزاروی علیہ الرحمہ مہتمم و شیخ الحدیث ہوئے۔ دارالعلوم کی بیشتر روئیدادوں میں مسلک اعلیٰ حضرت لکھا ہے۔ غوث العلوم جامعہ رحیمیہ رضویہ سمن آباد لاہور صفحہ 41 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ صدیقیہ سراج العلوم لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے صفحہ 41، دارالعلوم گنج بخش داتا دربار لاہور مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے (کتاب جائزہ صفحہ 43) دارالعلوم جامعہ حنفیہ قصور صفحہ 59 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صفحہ 63 پر جامعہ نقشبندیہ فیض لاثانیہ رائے ونڈ نزد مرکز دیوبندی تبلیغی جماعت رائے ونڈ مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپوریہ دارالعلوم حضور سیدنا محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے جلیل القدر محقق فاضل شاگرد اور سلسلہ اویسیہ کے روحانی پیشوا علامہ مفتی فیض احمد اویسی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ صفحہ 68 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ آپ مصنف کتب کثیرہ ہیں۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے عظیم مبلغ و ناشر تھے۔ دارالعلوم فیضیہ رضویہ احمد پور شرقیہ، بہاولپور یہ جامعہ علامہ محمد منظور احمد فیضی چشتی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ صفحہ 72 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ سید المدارس بہاولنگر صفحہ 84 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ فیض العلوم فقیر والی بہاول نگر اور مدرسہ اسلامیہ عربیہ کمال العلوم آستانہ عالیہ توگیرہ بہاول نگر صفحہ 89 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ دارالعلوم جامعہ رضویہ عربیہ ہارون آباد صفحہ 91 مسلک حنفی بریلوی ہے۔ جامعہ قطبیہ رضویہ جھنگ صفحہ 119 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ عربیہ صدیقیہ شاہ جمالیہ فیض آباد ڈیرہ غازی خان صفحہ 122، مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی یہ جامعہ علامہ محب النبی صاحب اجازت از حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب قادری چشتی نظامی علیہ الرحمہ، و علامہ مشتاق احمد صاحب کانپوری صفحہ 125 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ اس جامعہ میں شیخ الحدیث و ناظم اعلیٰ استاذ العلماء علامہ حسین احمد صاحب  فاضل جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پور ہیں۔ جامعہ غوثیہ مظہر الاسلام راولپنڈی صفحہ 144 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ صدر مدرس مولانا محمد سلمان فاضل جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد لائل پور ہیں۔ جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن اسلام آباد راولپنڈی صفحہ 125 مسلک حنفی بریلوی ہے۔ جامعہ محمدیہ رضویہ رحیم یار خان مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ عربیہ سراج العلوم خان پور صفحہ 125 مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ فریدیہ ساہیوال منٹگمری صفحہ 163 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ علامہ ابوالنصر منظور احمد چشتی فریدی نظامی خلیفہ حضرت خواجہ میاں علی محمد خان صاحب بسی شریف چشتی نظامی مہتمم و شیخ الحدیث ہیں۔ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور ضلع اوکاڑہ صفحہ 168 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ بانی و اولین شیخ الحدیث استاذ العلماء علامہ محمد نور اﷲ نعیمی علیہ الرحمہ، دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ ضلع سرگودھا صفحہ 186 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مگر تحذیر الناس مصنفہ نانوتوی پر پیر کرم شاہ کی رائے سے اکابر اہلسنت متفق نہیں ہیں۔ حسام الحرمین کے برعکس موقف ہے۔ بریلوی لکھا، دارالعلوم جامعہ حنفیہ سیالکوٹ صفحہ 200 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ مدرسہ خدام الصوفیہ گجرات جامعہ شاہ ولایت گجرات امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نقشبندی رحمتہ اﷲ علیہ کے خلیفہ حضرت پیر سید ولایت شاہ نقشبندی رحمتہ اﷲ علیہ، 1920ء میں قائم کیا صفحہ 219 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ غوثیہ نعیمیہ گجرات شیخ التفسیر علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی علیہ الرحمہ اس کے بانی تھے۔ صفحہ 220ء پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم گوجرانوالہ یہ جامعہ محدث اعظم پاکستان قدس سرہ کے حکم سے قائم کیاگیا۔ حکیم الامت علامہ ابو دائود، مولانا محمد صادق صاحب قادری رضوی مدظلہ اس کے مہتمم و بانی ہیں۔ مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ (جائزہ مدارس عربیہ ص 234،چشتی) دارالعلوم جامعہ رضویہ مظہر اسلام لائل پور فیصل آباد نائب اعلیٰ حضرت محدث اعظم پاکستان قدس سرہ نے قائم فرمایا۔ یہاں سے ہزاروں علماء فارغ التحصیل ہوئے مغربی یورپی افریقی ممالک میں خدمات دینیہ سرانجام دے رہے ہیں۔ صفحہ 253 پر مسلک حنفی رضوی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ اسلامیہ عربیہ انوارالعلوم ملتان غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے قائم کیا۔ آپ کے برادر اکبر اور استاد محترم و پیر و مرشد علامہ قاری سید محمد خلیل کاظمی قدس سرہ بھی خدمات تدریس انجام دے چکے ہیں۔ مدرسہ کے آغاز و افتتاح پر شہزادۂ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم شیخ العلماء علامہ شاہ مصطفی رضا خان بریلوی محدث اعظم ہند ابو المحامد سید محمد محدث کچھوچھوی محدث اعظم پاکستان علامہ محمد سردار احمد لائل پوری قدس سرہ کی تشریف آوری کی بابرکت موقع پر ہوا۔ صفحہ 311 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ حضرت علامہ کاظمی علیہ الرحمہ فرماتے تھے وہ میرا مرید نہیں، ہاں وہ میرا مرید نہیں جو مسلک اعلیٰ حضرت پر نہیں ایک بار چوک حسین آگاہی ملتان کے جلسہ میں ڈپٹی کمشنر ملتان کی موجودگی میں دیوبندی احراری مولوی محمد علی جالندھری نے کہا کہ میں لوہے کی لٹھ دیوبندی ہوں۔ علامہ کاظمی علیہ الرحمہ نے اپنی جوابی تقریر میں کہا لوہا پگھل جاتا ہے اور فرمایا میں پتھر کی طرح سخت بریلوی ہوں، پتھر پگھلتا نہیں۔ دارالعلوم امجدیہ کراچی علامہ  مفتی محمد ظفر علی نعمانی قادری رضوی مصباحی فاضل اشرفیہ مبارک پور نے قائم کیا۔ فخر الاسلام علامہ عبدالمصطفی ازہری، علامہ مفتی وقار الدین رضوی یہاں شیخ الحدیث رہ چکے ہیں، علامہ قاری محمد مصلح الدین صدیقی مصباحی علامہ قاری محبوب رضا بریلوی یہاں مدرس اور مفتی رہ چکے ہیں۔ صفحہ 483 پر مسلک حنفی بریلوی ہے۔ 1966ء سے آج تک دارالعلوم امجدیہ کی سالانہ روئیداد اور امجدیہ کے سالانہ مجلہ رفیق علم میں مسلک اعلیٰ حضرت لکھا ہوتا ہے۔ دارالعلوم حامدیہ رضویہ کراچی صفحہ 487 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ صبغۃ الہدیٰ جامعہ راشدیہ گوٹھ غلام علی تھرپارکر صفحہ 494 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ دارالعلوم احسن البرکات حیدرآباد سندھ بانی علامہ مفتی محمد خلیل خاں برکاتی امجدی رحمتہ اﷲ علیہ صفحہ 511 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ رکن الاسلام جامعہ مجددیہ میدان ہیراآباد حیدرآباد علامہ مفتی محمد محمود صاحب نقشبندی مجددی خلف الرشید شیخ طریقت حضرت مولانا صوفی رکن الدین نقشبندی علیہ الرحمہ صفحہ 513 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ راشدیہ پیر گوٹھ سندھ جامعہ راشدیہ کے بانی حضرت پیر صاحب پاگارہ ہیں۔ حضرت علامہ مفتی محمد صاحبداد خان صاحب علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مفتی محمد تقدس علی خاں صاحب علیہ الرحمہ، شیخ الحدیث و صدر مدرس و مفتی رہ چکے ہیں۔ صفحہ 531 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ سفینۃ العلوم احمد پور خیرپور سندھ صفحہ 533 مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ محمدیہ کنزالعلوم دادو سندھ صفحہ 534 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ جامعہ راشدیہ سے منسلک مدارس کی تعداد 21 ہے، سب پر حنفی بریلوی لکھا ہے۔ مدرسہ انوار العلوم مورو نواب شاہ صفحہ 561 پر مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ کتاب جائز و مدارس میں صفحہ 688 پر 1972ء حنفی بریلوی مدرس کی تعداد 122 ہے۔ اب حنفی بریلوی مدارس 570 ہیں۔ اب مولوی اصدق صاحب اور خوشتر و ذیشان ارشاد فرمائیں اتنے جلیل القدر اکابر علماء کرام اور مشائخ طریقت نے جو خود کو اور اپنے مدارس و مراکز دینیہ کو حنفی بریلوی کا نام دیا اور مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اختیار کیا۔ کیا ان کو جماعتی نقصان اور نسبت بریلوی کے مضمرات کا پتہ نہ تھا۔ کیا آپ حضرات ان اکابر سے زیادہ وسعت علم کے حامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بطور خاص ملحوظ خاطر رہے کہ ہم نے بفضلہ بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کے اطلاق و استعمال کے باب میں صرف قادری برکاتی رضوی اکابر اعاظم بزرگان اہلسنت ہی نہیں، جملہ سلاسل اربعہ قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اکابرین کرام اور جملہ سلاسل کے علماء کے زیر اہتمام مدارس و جامعات دینیہ کو بحوالہ کتب معتبرہ بیان کیا ہے تاکہ اصدق مصباحی جیسے سطحی سوچ رکھنے والوں کو یہ شوشہ چھوڑنے اور عوام اہلسنت کو جھانسہ دینے کا موقع نہ ملے کہ بریلوی کہلانے اور مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے سے دوسری خانقاہوں دوسرے سلسلہ کے بزرگوں کو ماننے والوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ وہ بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کو قبول نہیں ہے۔ یہ مولوی اصدق اور خوشتر کی ذاتی و انفرادی سوچ ہے۔ بات یہاں تک پہنچی تھی کہ مختلف سلاسل کے کچھ اور بزرگان اہلسنت کے چندارشادات و فرمودات سامنے آئے۔ قارئین کرام کی ضیافت طبع کے لئے پیش خدمت ہیں۔ ملاحظہ ہو، ماہر رضویات ڈاکٹر پروفیسر محمد مسعود احمد مظہری نقشبندی مرحوم کے عظم المرتبت والد بزرگوار مفتی اعظم دہلی علامہ مفتی محمد مظہر اﷲ صاحب نقشبندی مجددی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے مجموعہ ’’فتاویٰ مظہری‘‘ ص 375,374 پھر صفحہ 377,376 پھر صفحہ 380,379 پر بار بار بریلوی، دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے جس سے بریلوی دیوبندی کے اطلاق استعمال، ستر۔ اسی سال سے بھی بہت پہلے کا ہے۔ فقیر کے پاس حضرت علامہ مفتی محمد مظہر اﷲ قدس سرہ کے مختلف مسائل پر کافی خطوط ہیں۔ دو خطوط میں صاف لکھا ہے ’’اعلیٰ حضرت امام اہلسنت قدس سرہ کی تحقیق و مسلک میں کس کا زہرہ ہے جو جرأت لب کشائی کرسکے‘‘ (قلمی مکتوب)

سیدنا حضرت خواجہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب گیلانی تاجدار گولڑہ شریف قادری چشتی نظامی سلسلہ کے عظیم روحانی پیشوا تھے۔ آپ کی مستند سوانح عمری ’’مہر منیر‘‘ میں جگہ جگہ بریلوی دیوبندی بریلوی لکھا ہے جس سے ثابت ہوا کہ یہ استعمال و اطلاق بہت پہلے کا ہے۔ 20,25 سال کی بات نہیں ہے۔

آج سے ساٹھ سال پہلے جب فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مارشل لاء لگایا اور محکمہ اوقاف بنایا تو محکمہ اوقاف کے کچھ افسر معلومات حاصل کرنے اور سرکاری فارم پر کرنے کے لئے آستانہ عالیہ گولڑہ شریف پہنچے تو حضرت مخدوم سجادہ نشین علیہ الرحمہ حضرت بابوجی صاحب سے معلوم کیا کہ آپ کا مسلک کیاہے؟ انہوں نے اپنے دارالعلوم و آستانہ کے مفتی و شیخ الحدیث مولانا محمد فیض احمد فیض چشتی علیہ الرحمہ کی طرف اشارہ کیا کہ تم بتائو، وہ کھڑے ہوکر کہنے لگے۔ ہم اہلسنت ہیں۔ افسر نے سوال کیا، ہم نے مسلک پوچھا ہے، بریلوی ہو یا دیوبندی؟ مولانا فیض احمد مرحوم نے کہا ہم گولڑوی ہیں۔ افسر نے کہا کہ ہمارے پاس دو خانے بریلوی اور دیوبندی۔ حضرت مخدوم سجادہ نشین بابوجی رحمتہ اﷲ علیہ خلف گرامی حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’لکھو ہم بریلوی ہیں‘‘ (ماہنامہ سوئے حجاز لاہور مارچ 2006ء و ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ جولائی 2006ء صفحہ 23)

حضرت صاحبزادہ فیض الحسن نقشبندی سجادہ نشین آلو مہار شریف شعلہ نوا خطیب تھے۔ دیوبندی مجلس احرارمیں امیر الاحرار مولوی عطاء بخاری دیوبندی کے رفیق خاص تھے جب حضور سیدنا محدث اعظم پاکستان علامہ محمد سردار احمد قدس سرہ کی برکت اور خواب میں رہنمائی سے توبہ کی توفیق نصیب ہوئی تو حضرت امیر شریعت علامہ ابو دائود محمدصادق صاحب مدظلہ کی مساعی سے انہوں نے حضرت محدث اعظم علیہ الرحمہ کو تحریر لکھ کر دی، میں حسام الحرمین کی بھرپور تائید و تصدیق کرتا ہوں۔ مسلک اعلیٰ حضرت بریلوی کی پابندی کروں گا (ملخصاً) یہ بھی 55 سال پہلے کی بات ہے۔

سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا عظیم روحانی آستانہ جہاں شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمتہ اﷲ علیہ محو استراحت ہیں، مراقبہ میں حضور سیدنا غوث اعظم سرکار بغداد رضی اﷲ عنہ سے رابطہ ہوا۔ عرض کیا حضور اس وقت آپ کا نائب کون ہے۔ فرمایا بریلی میں مولانا احمد رضا خاں حضرت شیر ربانی شرقپوری رحمتہ اﷲ علیہ کے جامعہ حضرت میاں صاحب ہیں۔ ہمیشہ سنی حنفی بریلوی علماء و صدر مدرس و مفتی رہے اور سرکاری کاغذات میں مسلک حنفی بریلوی لکھا ہے۔ ملخصاً (نور مظہور قصور، کتاب سیدی امام احمد رضا و کتاب دیوبندی مذہب مصنفہ علامہ غلام مہر علی چشتی گولڑوی چشتیاں شریف، کتاب محاسبہ دیوبندیت مصنفہ فقیر محمد حسن علی رضوی بریلوی میلسی،چشتی)

جامعہ حضرت میاں صاحب میں سیدی سندی  حضور محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے داماد و تلمیذ خاص شیخ المعقول علامہ غلام رسول رضوی قدس سرہ صدر مدرس رہے، جو سیدنا حضور مفتی اعظم شہزادہ اعلیٰ حضرت قدس سرہما کے خلیفہ تھے۔ شیخ طریقت عارف باﷲ میاں علی محمد خان چشتی نظامی قدس سرہ جن کے شیخ المحدثین علامہ سید محمد دیدار علی محدث الوری اور سیدنا محدث اعظم سے خصوصی علمی روحانی مسلکی تعلقات بڑے گہرے تھے۔ ان کے کافی مکتوبات فقیر کے پاس محفوظ ہیں۔ ایک بار مودودیوں نے مودودی پارٹی کے زیر اہتمام بھاشانی کے یوم سوشلزم کے جواب میں یوم شوکت الاسلام منانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سنی بریلوی بعض علماء کے نام سے مغالطہ دیا۔ شہر میلسی میں حضرت میاں علی محمد خاں علیہ الرحمہ کے کچھ مریدین مودودیوں کے جھانسہ میں آگئے۔ فقیر نے میاں صاحب علی الریہمہ کو ایک مکتوب کے ذریعے صورتحال سے آگاہ کیا اور عرض کیا حضرت اپنے مریدین کو مودودیوں کے یوم شوکت الاسلام میں شمولیت سے روکیں۔ تحریری حکم نامہ ارسال کریں۔ حضرت میاں صاحب ان دنوں پاک پتن شریف کی بجائے کراچی تشریف فرما تھے۔ پاک پتن شریف سے فقیر کا عریضہ کراچی گیا اور جواب آیا… وعلیکم السلام ثم السلام علیکم، ہمیں اپنے سنی بریلوی علماء کے ساتھ رہنا چاہئے۔ علماء اہلسنت بریلوی کے فتاویٰ اور شرعی احکام پر عمل کرنا چاہئے۔ خادم الفقیر میاں علی محمد خاں چشتی فریدی نظامی، مکتوب موجود ہے۔

حضور امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ نقشبندی مجددی رحمتہ اﷲ علیہ کے نام گرامی سے پاک و ہند بنگلہ دیش حرمین طیبین کے علماء و مشائخ عوام و خواص بخوبی واقف ہیں۔ اہلسنت کے ممتاز و موقر ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ میں بار بار چھپ چکا ہے۔ حضرت امیر ملت محدث علی پوری، اور نبیرۂ محدث علی پور مخدوم محترم مولانا پیر سید اختر حسین نقشبندی علیہ الرحمہ مسلک اعلیٰ حضرت کے پابند تھے۔

آل انڈیا سنی کانفرنس کی اولین تاسیس اور سنی کی تعریف میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط ہے۔ یاد رہے کہ سنی کانفرنس میں حضرت صدر الشریعہ اعظمی، حضرت صدر الافاضل مراد آبادی حضور مفتی اعظم نوری بریلوی، حضور محدث اعظم ہند کچھوچھوی حضور پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری، مبلغ الاسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی، حضور محدث اعظم پاکستان لائل پوری، علامہ ابوالحسنات قادری، علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری، مفتی محمد عمر نعیمی مراد آبادی، پیر صاحب بھرچونڈی شریف، پیر صاحب سیال شریف علماء بدایوں، پیر صاحب مشوری شریف سندھ وغیرہم کثیر اکابر اہلسنت شامل تھے۔ یہاں بھی مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط ہے (سواد اعظم لاہور جلد 2 صفحہ 23,24،  وصفحہ 41 مطبوعہ لاہور،چشتی)

دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں شیر بیشہ اہل سنت علامہ محمد حشمت علی خان صاحب علیہ الرحمہ کے قلم سے سنی کی تعریف اور حضرت سیدی صدر الافاضل مراد آبادی علیہ الرحمہ کے تائیدی دستخط جس میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط موجود ہے، قلمی تحریر موجود ہے۔ جو فقیر کو حضرت مفتی پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری علیہ الرحمہ نے خود دکھائی۔ یہ تحریر اس وقت کی ہے جب سنی کانفرنس اور تحریک پاکستان کے دور میں حضرت شیر بیشۂ اہلسنت مولانا محمد حشمت علی خاںصاحب علیہ الرحمہ دارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں قیام فرما تھے اور حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمہ بھی تشریف لے آئے تھے اور علامہ سید ابوالبرکات سید احمد علیہ الرحمہ سے فرمایا یہ بڑے سنی بنے پھرتے ہیں۔ ذرا سنی کی تعریف تو لکھ دیں۔ اس پر شیر بیشۂ اہل سنت نے سنی کی بڑی جامع ومدلل تعریف ارقام فرمائی جس میں مسلک اعلیٰ حضرت بھی موجود تھا۔ حضرت صدر الافاضل نے ملاحظہ فرما کر کہا ہاں ٹھیک ہے۔ لائو میں بھی دستخط کرتا ہوں۔

اسی طرح فقیر کے پاس پرانی ڈاک میں حضرت علامہ سید محمد خلیل محدث امروہوی چشتی صابری علیہ الرحمہ کے متعدد خطوط ہیں جس میں واضح طور پر مسلک اعلیٰ حضرت مرقوم و موجود ہے۔ یہاں پاکستان میں مرکزی جمعیت العلماء پاکستان اور جماعت اہلسنت کے دستور و منشور میں دیگر اکابر کے ساتھ مسلک اعلیٰ حضرت کی تصریح موجود ہے۔ یہاں پاکستان میں بہت سی علاقائی دینی تبلیغی اصلاحی انجمنیں ہیں اور بکثرت ادارے ایسے ہیں جس میں مسلک اعلیٰ حضرت کی شرط موجود ہے۔ حضور سیدی ملجائی مرشدی مولائی امام اہلسنت محدث اعظم علامہ محمد سردار احمد قبلہ قدس سرہ برملا فرمایا کرتے تھے ’’جو مولوی سیدنا اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تحقیق و مسلک کے مقابلہ میں اپنی تحقیق پر اتراتا ہے وہ محقق نہیں، مجہول ہے، اس کی تحقیق نہیں تجہیل ہے‘‘

سیدی سندی حضور محدث اعظم پاکستان کے شجرہ قادریہ برکاتیہ رضویہ و شجرہ سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں صاف صاف مرقوم ہے، مسلک سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ پر عمل کریں۔ فقیر کے پاس حضرت صاحب کے ایک سو سے زائد خطوط و مکتوب موجود ہیں جن میں بار بار مسلک اعلیٰ حضرت کی تاکید و تلقین فرمائی ہے۔ کاش کہ اصدق و خوشتر و ذیشان ماہنامہ اشرفیہ کا حافظ ملت نمبر اور مجاہد ملت نمبر ہی دیکھ لیتے جہاں مسلک اعلیٰ حضرت کا لفظ متعدد مقامات پر ملے گا۔

شیخ العرب والعجم خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ کی مفصل و جامع طویل وضخیم سوانح عمری بنام ’’سیدی ضیاء الدین احمد القادری علیہ الرحمہ، جناب علامہ حکیم محمد عارف ضیائی رضوی علیہ الرحمہ، خادم و خلیفہ خاص سیدی قطب مدینہ علیہ الرحمہ کے قلم سے دو جلدوں پر مشتمل چھپ چکی ہے اور فقیر نے مدینہ منورہ حاضری کے دوران اس کی تصحیح و پروف ریڈنگ کی۔ اس میں کتنے ہی مقامات پر مسلک اعلیٰ حضرت پایا جاتا ہے۔

جامع اشرفیہ اور مصباح العلوم مبارک پور کا ایک جہاں بھر میں نام روشن ہے اور ہزاروں علماء یہاں سے فیض یاب ہیں۔ حضور سیدنا حافظ ملت بانی اشرفیہ قدس سرہ کی ذات گرامی مینارہ نور ہے۔ وہ حضور سیدی سندی سرکار محدث اعظم پاکستان علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد قدس سرہ کے استاد بھائی ہم سبق و ہم مدرس تھے۔ دونوں حضرات کو سیدنا صدر الصدور صدر الشریعہ قدس سرہ نے ایک دن ایک وقت خلافت و اجازت عطاء فرمائی تھی۔ دستور اساسی دارالعلوم جامعہ اشرفیہ مبارکپور ص 5 ملاحظہ ہو۔ صاف صاف لکھا ہے ’’ادارہ کا مسلک موجود زمانہ میں جس کی واضح نشانی یہ ہے جو اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب بریلوی سے عقائد و اعمال میں بالکل متفق ہو‘‘ (دستور اساسی ص 5 جامعہ اشرفیہ مبارکپور)

دارالعلوم فیض الرسول برائون شریف کا ایک دنیا میں نام ہے جس کو حضور شعیب الاولیاء مولانا شاہ یار علی شاہ صاحب قبلہ قدس سرہ نے قائم فرمایا تھا جہاں بحرالعلوم علامہ غلام جیلانی، علامہ عبدالمصطفے اعظمی، علامہ بدرالدین احمد قدست اسرارہم جیسے مشاہیر کرام شیخ الحدیث و صدر مدرس رہے، فتاویٰ دارالعلوم فیض الرسول ایک نظر ملاحظہ ہو۔ پچاسوں مقام پر مسلک اعلیٰ حضرت کی جلوہ گری ہے۔

خدا جانے اصدق و خوشتر و ذیشان بے خبری و لاعلمی کی کن وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں یا تجاہل عارفانہ ہے۔ ذرا ایک نظر بمبئی سے شائع ہونے والا ماہنامہ المیزان کا امام احمد رضا نمبر اور جامعہ اشرفیہ مبارکپور کا حافظ ملت نمبر، مجاہد ملت نمبر، صدر الشریعہ نمبر ہی ایک نظر ملاحظہ کرلیتے۔ بالخصوص ماہنامہ اشرفیہ مبارکپور کا طویل و ضخیم شاہکار سیدین نمبر میں اور اس میں شہنشاہ برکات و خانوادہ عالیہ برکاتیہ کے مسلمہ اکابر حضور سیدنا تاج العلماء اولاد رسول مولانا شاہ محمد میاں برکاتی، حضور سیدنا سید العلماء سید شاہ آل مصطفے میاں حضور سیدنا شاہ اسماعیل حسن برکاتی، سیدنا حضرت احسن العلماء الشاہ حافظ مصطفے حیدر حسن، میاں حضرت علامہ حسنین میاں نظمی برکاتی، حضرت علامہ ڈاکٹر امین میاں برکاتی (قدست اسرارہم و دامت برکاتہما) کے مسلک اعلیٰ حضرت سے متعلق ارشادات و فرمودات سرسری نظر سے ہی دیکھ لیتے۔ فقیر (محمد حسن علی رضوی بریلوی) نے مختلف مقامات سے 55 حوالہ جات مسلک اعلیٰ حضرت سے متعلق سیدین نمبر سے نوٹ کئے ہیں۔

فقیر کے خیال میںتو ان باغیان مسلک اعلیٰ حضرت نے رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہونے والی طویل وضخیم معارف شارح بخاری بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی وہاں بھی مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کی جلوہ گری ہے۔ عالمی مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ اور قائد جمعیت العلماء پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مسلک اعلیٰ حضرت اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ مولانا نورانی میاں نے دارالعلوم امجدیہ میں عرس امجدی میں خطاب کرتے ہوئے بتایا ’’میرے والد گرامی مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی کی ایک نصیحت میرے پاس موجود ہے۔ فرمایا الحمدﷲ میں مسلک اہلسنت پر زندہ رہا۔ مسلک اہلسنت وہی ہے جو مسلک اعلیٰ حضرت ہے جو اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں مرقوم ہے اور الحمدﷲ اسی پر میری عمر گزری اور الحمدﷲ آخری وقت اسی مسلک اعلیٰ حضرت پر حضور پرنورﷺ کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیرہورہا ہے‘‘ ۔ (ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی ذی الحجہ 1397ھ و ماہنامہ سنی آواز ناگپور ستمبر اکتوبر 1995،چشتی)

مفتی اعظم پاکستان علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری خلف گرامی رئیس المحدثین علامہ سید محمد دیدار علی شاہ محدث الوری قدس سرہما فرماتے ہیں ’’تعجب ہے اعلیٰ حضرت امام اہلسنت قدس سرہ کا فتویٰ ہوتے ہوئے مجھ سے استفسار کیا جارہا ہے، فقیر کا فقیر کے آبائو و اجداد کا وہی مسلک ہے جو اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا ہے‘‘ (قلمی مکتوب بنام فقیر محمد حسن علی رضوی بریلوی میلسی)

فقیہ اعظم علامہ محمد شریف محدث کوٹلوی، امام العلماء مولانا محمد امام الدین کوٹلوی حضرت علامہ مفتی محمد عبداﷲ کوٹلوی قدست اسرارہم کے متعلق علامہ ابو النور محمد بشیر کوٹلوی مدیر ماہنامہ ماہ طیبہ رقم طراز ہیں، فرمایا ’’مولوی بشیر مجھ سے مصافحہ کرلو، میں اب جانے والا ہوں، میری تمہارے لئے دعا ہے، دیکھو تمہارے والد فقیہ اعظم محدث کوٹلوی رحمتہ اﷲ علیہ اور تمہارے تایا حضرت مولانا محمد عبداﷲ قادری رضوی اور میں عمر بھر اعلیٰ حضرت بریلی شریف والوں کے مسلک کی تبلیغ کرتے رہے۔ تم بھی اسی مسلک اعلیٰ حضرت پر قائم رہنا، خدا تمہاری مدد فرمائے گا‘‘ (ماہنامہ ماہ طیبہ اکتوبر 1961ء ص 50)

کہاں تک لکھا جائے اور کون شمار کرسکتا ہے، کتنے بڑے بڑے جلیل القدر اساطین امت نے مسلک اعلیٰ حضرت اور بریلوی کی مقدس نسبت کو اپنایا اور اختیار کیا اور تو اور بالخصوص یہاں پاکستان میں جو سرکاری ادارے اور سرکاری محکمے مساجد اور دینی مدارس کو رجسٹرڈ کرتے ہیں، سرکاری ادارے جو فارم فراہم کرتے ہیں وہاں جمہور اہلسنت کو حنفی بریلوی، بریلوی حنفی اہلسنت بریلوی لکھنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جب مساجد اور دینی مدارس کے لئے جب اراضی (زمین) خریدنی ہو تو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اہلسنت کو حنفی بریلوی، اہلسنت بریلوی، بریلوی حنفی لکھنا اور لکھوانا پڑتا ہے۔ دوسرے فرقے اپنا عقیدہ و مسلک لکھتے ہیں۔ مولانا رکن الدین اصدق اور جناب خوشتر کہاں کہاں سے بریلوی اور مسلک اعلیٰ حضرت کٹوائیں اور مٹوائیں گے؟

اے رضا روز ترقی پہ ہے چرچا تیرا

اوج اعلیٰ پہ چمکتا ہے ستارا تیرا

اہلسنت کے دلوں میں ہے محبت تیری

دشمن دین کو سدا رہتا ہے کھٹکا تیرا

مقام غور و فکر ہے کہ ایک طرف تو یہ ہزاروں اکابر امت اساطین ملت خود کو بریلوی، اور مسلک اعلیٰ حضرت کا تابع ظاہر فرما رہے ہیں اور بلا امتیاز قادری چشتی نقشبندی سہروردی جملہ سلاسل عالیہ کے اعاظم مشائخ طریقت اپنے مسلمہ امام و مجدد کی مبارک نسبت سے بریلوی کہلانے میں فخر اور ناز سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف نومولود کمسن قلمکار اصدق و خوشتر و ذیشان آج سنی قوم کو یہ سمجھانے اور باور کرانے چلے ہیں کہ بریلوی کا نام ہمیں ہمارے دشمنوں وہابیوں غیر مقلدوں نے دیا ہے۔ مولوی ظہیر غیر مقلد نے اپنی کتاب البریلویہ میں یہ نام ہمیں دے کر دنیا بھر میں ہمیں ایک نیا فرقہ مشہور کردیاہے۔ بہت خوب:

قلمکار بالی عمریا کے طور

ذرا ان کے بھی کروفر دیکھ لینا

ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا

مدیروں کے جھرلو ہنر دیکھ لینا

گویا یہ معدودے چند عناصر اپنے زعم حسد و عناد میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ہزاروں اکابر امت سے زیادہ وسعت علم کے حامل وماہر اور ان سے زیادہ وسعت نظر اور جماعتی مفاد کو سمجھنے والے ہیں۔ ان کثیر الاتعداد اکابر امت نے تو بریلوی کہلا کر اور مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگا کر اہلسنت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مذکورہ بالا اکابر سے ہم بہتر انداز میں جماعت اہلسنت کا تحفظ دفاع کرسکتے مگر آسمان کا تھوکا منہ پر پڑتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت مسلک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سواداعظم اہلسنت کو جدا نہیں کرسکتی ۔


آج مدعیانِ اسلام کے تمام فرقے قرآن و حدیث پر ایمان و عمل کے دعویدار ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ قرآن و حدیث پر پورے طور سے ایمان رکھنے والی بڑی جماعت یعنی سواد اعظم صرف اہلسنت و جماعت ہے اور یہی فرقۂ ناجیہ (جنتی فرقہ) ہے باقی سارے فرقے ناری (جہنمی) ہیں ۔ قرآنی آیات اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا صحیح مطلب وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے صحابۂ کرام نے بیان فرمایا ۔ اسی پر ایمان لانا ضروری ہے ، اس کے خلاف جانا گمراہی ہے ۔ ناجی فرقہ کی بابت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ یعنی نجات پانے والا وہ گروہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر قائم رہے ۔

دوسری حدیث میں فرمایا:’’وھی الجماعۃ‘‘وہ ناجی گروہ بڑی جماعت ہے ۔ وہ باطل پرست جو خود کو مسلمان کہتے ہیں صرف ان کے زبانی دعوے کافی نہیں ہیں بلکہ دل سے اقرار لازمی ہے۔ مومن وہ ہیں جنہوں نے دل سے مانا اور عمل کیا، انہیں کو’’ یاایھاالذین اٰمنوا‘‘ سے خطاب کیا گیا اور وہی دینِ حق اسلام اور صراط مستقیم پر قائم ہیں اور جنت کے وہی مستحق ہیں ۔

صحابۂ کرام اور اہل بیت اطہار کے زمانے سے تابعین تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین اور آج تک فرقے در فرقے ظاہر ہوتے رہے۔ مگر بڑی جماعت وہی ہے جس پر صحابۂ کرام ، اہل بیت اطہار، ائمہ مجتہدین ، غوث و خواجہ اوراولیاء ، صلحاء و علماء رہے ہیں، اور وہ ہے مذہبِ اہلسنت و جماعت ۔ آج بھی یہی بڑی جماعت ہے ۔ تمام فرقے صدی اول کے بعد ظاہر ہوئے اور ان کے بطلان کے لئے یہی ثبوت کافی ہے کہ اصل اور بڑے فرقے آٹھ ہیں: معتزلہ-۲۰، شیعہ-۲۲، خوارج- ۲۰، مرجیہ-۵ نجاریہ-۳، جبریہ- ۱، مشبہہ- ۱، ناجیہ-۱۔ یہ تہتر؍۷۳ فرقے ہوئے جن میں بہتر ؍۷۲ ناری ہیں اور ایک ناجی ہے ۔ ایک یعنی سوادِ اعظم اہلسنت۔ شیعہ جو اب روافض ہیں وہ تو پہلی صدی ہجری میں ہی سواد اعظم سے کٹ چکے تھے۔ یہ جو حضرت علی مرتضی ص کو خلیفہ بلا فصل مانتے ہیں اور ایمان کا سارا مدار صرف ان پر رکھتے ہیں۔ اور معاذاللہ انہیں شیعہ اور شیعیت کا علمبردار کہتے ہیں قطعاً باطل ہے۔ خود مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم کا ارشاد ہے کہ اہلسنت و جماعت ہی حق ہے او روہ بھی اہلسنت و جماعت میں ہیں۔

شیعہ مذہب کی کتاب ’’احتجاج طبرسی‘‘ میں ہے کہ حضرت علی مرتضیٰص ایک دن جب بصرہ میں خطبہ دے رہے تھے تو ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ: ’’اے امیر المومنین! آپ مجھے بتائیں کہ اہلِ جماعت، اہلِ فرقہ، اہلِ بدعت اور اہلِ سنت کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا تعجب ہے تجھ پر اور جب تو نے مجھ سے بات پوچھی ہے تو مجھ سے سمجھ لے اور اس کے بعد تجھ پر لازم نہیں ہے کہ میرے بعد تو یہ بات کسی اور سے دریافت کرے لیکن اہل جماعت میں ہوں اور میرے پیروکار…… اور اہلسنت وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالی کے احکام اور رسول اللہ ا کی سنت کو مضبوطی سے پکڑنے والے ہیں، جو ان کے لئے مقرر کیا گیا ہے …… اہلِ بدعت وہ ہیں جو اللہ تعالی کی کتاب (قرآن مجید) اور اس کے رسول ا کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور صرف اپنی رائے اور خواہشات پر عمل کرنے والے ہیں۔‘‘ (عربی سے ترجمہ)
سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے اہل سنت اور اہل جماعت کی مدح اور تعریف ثابت ہوتی ہے او راہلِ بدعت اور اہل فرقہ کی مذمت واضح ہوتی ہے۔ معتزلہ، شیعہ، خوارج، نجاریہ، جبریہ، مشبہہ وغیرہ اپنے عقائدِ باطلہ کے سبب جماعت حقہ سے نکل کر فرقۂ ناریہ میں شامل ہوئے۔ آج کل کے وہابی، دیوبندی، غیر مقلد (اہلحدیث)، اہل قرآن (چکڑالوی)، نیچری، ندوی، قادیانی وغیرہ سب انہیں گمراہ فرقوں کی شاخیں ہیں نیز مودودی جماعت (جماعت اسلامی) و الیاسی جماعت (تبلیغی جماعت) بھی دیوبندیہ کی ذُرّیات ہیں اور سب باطل ہیں۔
یہ سارے کے سارے باطل فرقے خود کو شیعہ کے مقابل میں سنی مسلمان کہتے ہیں۔ لہٰذا بھولے بھالے سنّی مسلمان بھی ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ لیکن یہ احسان ہے، چودہویں صدی ہجری کے مجددِ اسلام اعلیٰحضرت امام احمد رضا بریلوی ص کا جنہوں نے ان گستاخانِ خدا و رسول کے چہروں سے نقاب الٹ کر ان کی بدمذہبی ظاہر کردی اور حرمین شریفین اور دوسرے علماء و مشائخ سے ان کے متعلق فتوے لے کر انہیں مرتد او رکافر ڈکلئیر کرادیا…… اعلیٰحضرت امام احمد رضا نے اصل اسلامی عقائد پیش کئے جو صحابۂ کرام سے لیکر آج تک کے صالحین کے عقائد ہیں اور اسی مسلک کو ’’مسلک ِاعلیٰحضرت‘‘ سے پکارا جارہا ہے تا کہ بدمذہب خود کو سنی کہہ کر سنی مسلمانوں کو اپنے جال میں نہ پھانس سکیں۔ یہ مسلکِ اعلیٰحضرت ہی دراصل مسلک ِاہل سنت و جماعت ہے۔ یہی صحیح مذہب ہے اور یہی حق ہے۔

اعلیٰحضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ

ولادت : ۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۷۲؁ھ مطابق ۱۴؍ جون ۱۸۵۶؁ء، بریلی شریف۔وصال: ۲۵؍ صفرالمظفر ۱۳۴۰؁ھ مطابق ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۲۱؁ء
اعلیٰحضرت امام احمد رضا ص جیسی عظیم علمی شخصیت اور عاشقِ رسول کئی صدیوں میں نظر نہیںآتے۔ آپ ۷۰؍ دینی و دنیاوی (نقلی اورعقلی) علوم و فنون پر حاوی تھے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) فقہ Jurisprudence (۲) اصولِ فقہ Principle of Jurisprudence (۳) لغتِ فقہ Lexicas of Jurisprudence (۴) تفسیرExcegesis (۵) اصولِ تفسیر Princeple of Excegesis (۶) حدیث Hadith (۷) اصولِ حدیث Principle of Hadith (۸) لغتِ حدیث Lexicus of Hadith (۹) جرح و تعدیل Critical Examination of Hadith (۱۰) علمِ اسماء الرجال Ency clohaedha of Narrators of Hadith (۱۱) دینیات Theology (۱۲) اسلامیات Islameology (۱۳) فلسفہ Philosophy (۱۴) منطق (۱۵) علم الاخلاق Ethichs (۱۶) لسانیات Languaestic (۱۷) فونیات Phonetics (۱۸) علمِ مناظرہ Draletic (۱۹) علم القرآن Knowledge of the Quraan (۲۰) قرأۃ و تجوید Recitation of the Quraan
with Correct Pronounciation (۲۱) عروض Prosody (۲۲) صرف و نحو Accidence & Syntax (۲۳) ہندی شاعری Hindi Poetry (۲۴) اردو شاعری Urdu Poetry (۲۵) فارسی شاعری Percian Poetry (۲۶) عربی شاعری Arabic Poetry (۲۷) عربی نثر Arabic Prose (۲۸) فارسی نثر Percian Prose (۲۹) اُردو نثر Urdu Prose (۳۰) تنقیدات، لغت، ادب Criticism, Lexican, Style etc. (۳۱) خط نسخ Usal form of Arabic Script (۳۲) خط نستعلیق Percian Caligraphy (۳۳) تصوف Mysticism (۳۴) مابعد الطبیعات Meta Physics (۳۵) علم جفر Leterology & Numerology (۳۶) تکسیر Carryeingthefigures (۳۷) اوراد و وظائف وغیرہ Incantation & Invocation (۳۸) توقیت Timings (۳۹) نجوم Astrology (۴۰) ہیئت Astronomy (۴۱) زایرجہ Horoscolism (۴۲) نفسیات Pcychology (۴۳) سیاست Political Science (۴۴) عمرانیات Sociology (۴۵) سیر و تاریخ Biography & History (۴۶) Chronogram (۴۷) جغرافیہ Geography (۴۸) معاشیات Economics (۴۹) علم تجارت Commerce (۵۰) بینک کاری Banking (۵۰)ارثماطبقی Arithmetic (۵۱) ہندسہ Eucledian Geometry (۵۲) ابتدائی الجبرا Simple Algebra (۵۳) جدید اور ہائر الجبرا Modern & Higher Algebra Setheory & Topology (۵۴) مثلث مسطح Plane Tegonometry (۵۵) مثلث کروی Spherical Tegnometry (۵۶)علم Education (۵۷) حساب سمینی Hisab-e-Sateni (۵۸) شماریات Statistics (۵۹) حرکیات Dynamic (۶۰) آبی حرکیات Hydro Dynamic (۶۱) سکونیات Statics (۶۲) آبی سکونیات Hydro Statics (۶۳) حیاتیات Zoology (۶۴) نباتات Botany (۶۵) علم زراعت اور باغبانی Hartienline (،چشتی۶۶) ارضیات Geology (۶۷) طبیعات Physics (۶۸) نامیاتی کیمیاءOrganic Chemistry (۶۹) غیر نامیاتی کیمیاء Inorganic Chemistry (۷۰) طبیعاتی کیمیاء Physical Chemistry (۷۱) طب یونانی Unani Medicine وغیرہ۔

اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ نے ایک ہزار سے زائد کتابیں مندرجہ بالا علوم و فنون میں لکھیں ۔ آپ کے دینی و تجدیدی کارناموں کی وجہ سے حرمین طیبین نیز دیگر بلادِ اسلامیہ کے علماء و مشائخ نے ۱۴؍ ویں صدی ہجری کا مجدِد تسلیم کیا۔ نیز آپ کو بڑے بڑے القاب سے یاد کرنے لگے۔ مولوی اسمٰعیل دہلوی، مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی خلیل احمد انبیٹھوی، مولوی قاسم نانوتوی، مرزا غلام احمد قادیانی، ندویہ، نیچریہ وغیرہ کے عقائد باطلہ اور کلمات کفر سے زمانہ واقف ہے۔ یہاں مختصر ا ً انہیں پیش کیا جارہا ہے۔
مولوی اسمٰعیل دہلوی نے حضورا کا مرتبہ بڑے بھائی کے برابر قرار دیا، بے اختیار کہا، مر کر مٹی میں مل جانیو الا بتایا، ان کے علم غیب کا انکار کیا۔ اللہ تعالی اور فرشتوں کی شان میں گستاخیاں کیں۔ (دیکھئے اسمٰعیل دہلوی کی کتاب، تقویۃ الایمان، صراط مستقیم اور ایک روزی وغیرہ)۔ اعلیٰحضرت نے خصوصیت کے ساتھ اس کے رد میں ’’الکوکبۃ الشہابیہ فی کفریات ابی الوہابیہ‘‘ نامی کتاب لکھی او راس پر ۷۰؍ وجوہ سے لزوم کفر ثابت کیا۔

دیوبند کے عناصر اربعہ

(۱) مولوی رشید احمد گنگوہی نے اللہ کو جھوٹ پر قادر بتایا، میلاد شریف ، ذکر شہادت، عرس سبیل وغیرہ کو شرک و بدعت قرار دیا۔ وغیرہ (فتاویٰ رشیدیہ)
(۲) مولوی قاسم نانوتوی نے حضورا کی خاتمیت کا انکار کیا۔ (تحذیرالناس)
(۳) مولوی اشرفعلی تھانوی نے حضور ا کے علم غیب کو پاگلوں ، بچوں اور جانوروں کے علم کے برابر بتایا۔ (حفظ الایمان)
(۴) مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے اللہ کے جھوٹ کی تائید کی وغیرہ (براہین قاطعہ)
(۵) مرزا غلام احمد قادیانی نے حضور کی خاتمیت کا انکار کرتے ہوئے خود کو نبی اور مسیح موعود کہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بارگاہ میں گستاخی کی۔
اعلیٰحضرت امام احمد رضا نے ان کے رد میں مندرجہ ذیل کتب خاص طور سے تحریر کیں۔ سبحٰن السبوح، اخباریہ کی خبرگیری، اقامۃ القیامۃ، منیرالعین، المعتمد المستند، انوارالانتباہ، تمہیدِ ایمان، الدولۃ المکیۃ وغیرہ۔ نیز ردّ ِقادیانی میں قہر الدّیان، السوء والعقاب، ختم النبوۃ وغیرہ۔ اورندویہ کے رد میں آپ نے فتاویٰ الحرمین، فتاویٰ القدوہ، بارشِ بہاری وغیرہ۔ اور اہلحدیث، تقلید کے قائل نہیں ہیں اس لئے ان کے رد میں اعلیٰحضرت امام احمد رضا نے ہدی الحیران، الامن والعلی وغیرہ کتابیں تصنیف کیں۔ نیچریت کے بانی سرسید احمد نے معجزہ کا انکار کیا، اللہ کی معرفت کے لئے بجائے قرآن و حدیث کے صرف عقل کو کافی قرار دیا۔ وغیرہ
اعلیٰحضرت امام احمد رضا کے پیش کردہ عقائد حسب ذیل ہیں۔
۱۔ اللہ بے نیاز ہے، ہر عیب و خطا، جسم و جسمانیت، مکان و زمان وغیرہ سے پاک ہے۔
۲۔ حضور ا اللہ کے نور اور ایجاد ِعالم کے مادہ ہیں۔
۳۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سارے نبیوں اور رسولوں کے سردار اور خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں۔
۴۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آج بھی حیات ہیں، حاضر و ناظر ہیں۔
۵۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ نے علم غیب عطا کیا تھا۔
۶۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معراج جسمانی تھی۔
۷۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار دو عالم ہیں۔
۸۔ نداء اور وسیلہ جائز ہے۔
۹۔ میلاد پاک ، عرس، نذر و نیاز و فاتحہ جائز ہیں۔
۱۰۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شافعِ محشر ہیں۔ وغیرہ
مندرجہ بالا عقائد کی توضیح و تشریح میں اعلیٰحضرت امام  احمد رضا علیہ الرحمہ نے حسب ذیل کتابیں لکھیں۔ سبحٰن السبوح، الفرق الوجیز، فتاویٰ رضویہ جلد اول، قمر التمام، اسماع الاربعین، تمہیدِ ایمان، الدولۃ المکیۃ، برکات الامداد، تجلی الیقین، الامن والعلی اور متعدد کتب و رسائل لکھے۔

اکابرینِ دیوبند اور قادیانی کی تکفیر

اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ نے ان غدّارانِ اسلام سے اتمام حجت کے بعد حضرت علاّمہ فضلِ رسول بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ’’المعتقد المنتقد‘‘ پر تعلیقات و حواشی کا اضافہ فرماکر تاریخی نام ’’المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد‘‘ (۱۲۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء) رکھا او راس میں تھانوی، گنگوہی، انبیٹھوی، نانوتوی او رقادیانی کی عبارتوں کو پیش فرما کر ۲۱؍ ذی الحجہ ۱۳۲۳؁ھ کو حرمین شریفین اور دیگر بلادِ اسلامیہ کے علماء و مشائخ کے سامنے پیش کیا۔ ان حضرات نے ان پانچوں پر کفر و ارتداد کا فتویٰ دیا۔ اعلیٰحضرت نے اسے ’’حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین‘‘ کے نام سے شائع فرمایا۔ بعد میں ہند و پاک کے مفتیانِ کرام نے بھی اس کی تصدیق کی اور کتاب ’’الصوارم الہندیۃ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اعلیٰحضرت کے تجدیدی کارناموں میں یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے۔

مسلکِ اعلٰیحضرت مسلکِ اہلسنت ہے

مسلکِ اعلیٰحضرت،صحابۂ کرام ، اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم ، تابعین ، تبعِ تابعین، ائمہ مجتہدین، صلحاء، اولیاء اور علماء علیہم الرحمہ کا مسلک ہے۔ اعلیٰحضرت کے پیش کردہ عقائد قرآن و سنت اور اخبار و آثار سے ظاہر ہیں۔
تصدیق کے لئے مندرجہ ذیل کتب دیکھ سکتے ہیں۔ انباء الاذکیاء، الخصائص الکبریٰ، مواہب الدنیۃ، حیات الانبیاء، القول البدیع، شرح الشفاء، اشعۃ اللّمعات، فیوض الحرمین وغیرہ۔
مزید معلومات کے لئے مفتی جلال الدّین احمد امجدی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’بزرگوں کے عقیدے‘‘ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے رد کے لئے علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی تصانیف ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ حضرت سید العلماء علامہ مولانا سید آلِ مصطفیٰ سید میاں قبلہ مارہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
یا الٰہی مسلکِ احمد رضا خاں زندہ باد
حفظ ِناموسِ رسالت کا جو ذمہ دار ہے
(ماہنامہ المیزان، ممبئی۔ امام احمد رضا نمبر ۲۳۷،چشتی)
۲۔ امین ملت سیدی سرکار امین میاں مارہروی قبلہ تحریر فرماتے ہیں:’’نوری دادا میرے مرشد برحق تاج العلماء سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی صاور عم محترم حضور سید العلماء نے اپنی پوری زندگی مسلکِ اعلیٰحضرت کی اشاعت کے لئے وقف فرمادی۔ خاندانِ برکاتیہ کا بچہّ بچہّ اعلیٰحضرت کا شیدائی ہے۔ ہماری نِجی مجالس ہوں یا عوامی جلسے ہر جگہ مسلکِ اعلیٰحضرت کی تبلیغ و اشاعت ہی ہم لوگوں کا نصب العین اور مطمحِ نظر ہوا کرتا ہے۔‘‘(ماہنامہ المیزان، ممبئی۔ امام احمد رضا نمبر ۲۷۳،چشتی)
شیخ المشا ئخ سید ناعلی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت:
آپ فرمایا کرتے تھے کہ میرا مسلک شریعت و طریقت میں وہی ہے، جو حضور پر نُور اعلیٰحضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے لہذا میرے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے سیدنا اعلیٰحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصانیف ضرور زیر مطالعہ رکھو۔‘‘(مجدد اسلام از مولانا نسیم بستوی، ص ۳۴)
حضور قبلہ اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مسلک کو ’’مسلکِ  اعلٰٰیٰحضرت سے منسوب کیا یعنی یہی مسلک ِاہل سنت اور مذہبِ حق ہے۔
حضرت صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں۔
’’سنی وہ ہے جو ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ کا مصداق ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین، خلفائے راشدین، مسلم مشائخِ طریقت اور متأخرین علما ء کرام میں سے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت ملک العلماء ،بحرالعلوم فرنگی محلّی، حضرت مولانا مفتی ارشاد حسین رام پوری اور حضرت مولانا مفتی شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے مسلک پر ہوں۔رحمہم اللہ تعالیٰ‘‘۔ (ماہنامہ عرفات، خصوصی نمبر، لاہور، ص۳۷۲)
گویا حضرت صدرالافاضل رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مسلکِ اہلِ سنت کو ’’مسلکِ اعلیٰحضرت‘‘ سے منسوب کیا۔
(۵) حافظِ بخاری حضرت علامہ، مولانا سید شاہ عبدالصمد سہسوانی علیہ الرحمہ کے خلف گرامی قدر اور جانشین حضرت علامہ ،مولانا سید شاہ مصباح الحسن علیہ الرحمہ (پھُپھوَند شریف) نے اپنی وصیت میں یہ بھی فرمایا:
’’مذہب حق اہلِ سنت جس کا معیار اس زمانہ میں حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحبصبریلوی کی تصانیف ہیں۔ یہی مسلک میرے حضرت قبلہ عالم (حضرت حافظ بخاری) کا تھا اور یہی مسلک حضرت پیرانِ عظام ِسلسلہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کا تھا اور اسی کا میں پابند ہوں۔ اس کی حمایت میں کسی مخالف کی پرواہ نہیں کرنا چاہئے اور پابندی مذہب کے لئے ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ کا پابند رہنا چاہئے اس سے ہٹنا بدمذہبی ہے جس کی گنجائش نہ میں اپنے جانشینوں کا دیتا ہوں اور نہ متوسلین کو ‘‘ ۔ (ملفوظ مصاہیب القلوب مُرَتبہٗ جناب ظہی السجاد صاحب ۳۱۸)
حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مسلکِ اعلیٰحضرت کہنا درست ہے۔‘‘ ’’جو لوگ سنی ہونے کے باوجود مسلکِ اعلیٰحضرت کہنے پر اعتراض کرتے ہیں وہ اعلیٰحضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے حسد میں مبتلا ہیں اور حسد حرام و گناہ کبیرہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حسد، حاسدوں کی نیکیوں کواس طرح جلاتاہے جیسے آگ لکڑی کو جلاتی ہے۔(سنن ابوداؤد شریف، جلد۲، ص۳۱۶،چشتی)
یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مسلک اہل سنت اور مسلک حنفی کہنا کافی ہے اس لئے کہ دیوبندی اور مودودی بھی مسلک اہلسنت اور مسلک حنفی کے دعویدار ہیں تو دیوبندی مسلک اور مودودی مسلک سے امتیاز کے لئے موجودہ زمانہ میں مسلکِ اعلیٰحضرت بولنا ضروری ہے یعنی مسلکِ اعلیٰحضرت،دیوبندی اور مودودی مسلک سے امتیاز کے لئے بولا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو مسلک اہلسنت اور مسلک حنفی کا ماننے والا بتائے اور یہ نہ کہے کہ میں مسلک ِاعلیٰحضرت کا پابند ہوں ظاہر نہیں ہوگا کہ وہ سنی ہے یا بدمذہب۔ لہٰذا مذہبِ حق اہلسنت و جماعت سے ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے اس زمانہ میں مسلکِ اعلیٰحضرت سے ہونے کو بتانا ضروری ہوگیا ہے۔ اس پر اعتراض کرنے والے کو خدائے تعالیٰ صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!
(شائع کردہ: مرکز تربیت افتاء، دارالعلوم امجدیہ اہلسنت ارشد العلوم اوجھا گنج، ضلع بستی، یوپی)
آج اعلیٰحضرت کا نام حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچتا ہے۔ اعلیٰحضرت اور ان کا نام سنت کی علامت ہے اور ان سے بغض بدعتی  کی پہچان ہے۔
حضرت مفتی سعد اللہ مکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’نحن نعرفہ بتصنیفاتہ و تالیفاتہ حبّہ علامۃ السنۃ و بغضۃ علامۃ البدعۃ‘‘ یعنی ہم لوگ فاضل بریلوی کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے جانتے ہیں۔ انکی محبت سنت کی علامت ہے اور بغض بدعتی کی پہچان۔‘‘
عصر حاضر کے وہابی دیوبندی وغیرہ اپنی بدمذہبی کو چھپانے کے لئے مسلک اہلسنت، مسلک حق، مسلک اعلیٰحضرت کو ’’بریلویت‘‘ کہہ کر مطعون کرتے ہیں لیکن خود ان کے اپنے ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔
۱) ماہنامہ الحسنات رام پور: یہ خیال درست نہیں ہے کہ احمد رضا خاں نے دین اسلام میں ایک نئے فرقے کی بنیاد ڈالی ہے البتہ یہ درست ہے کہ علماء کی اس جماعت کو عرف عام میں امام احمد رضا خان بریلوی سے عقیدت کی بنا پر بریلوی کہا جاتا ہے اور دوسرے احناف سے بعض مسائل میں اختلاف کی بناء پر الگ تشخص قائم ہوگیا۔‘‘ (شخصیات نمبر: سالنامہ، ص۵۵، ۱۹۷۶؁۔ء)
۲) احسان الٰہی ظہیر مصنف البریلویہ: ’’یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے۔‘‘ (البریلویہ، صفحہ ۷)
جماعت اہلسنت کے ممتاز عالم دین اور پیر طریقت حضرت علامہ مولانا سید محمد مدنی میاں کچھوچھوی قبلہ تحریر فرماتے ہیں۔ ’’غور فرمایئے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، ازاول تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اوراجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی نیز سلف صالحین و ائمہ مجہتدین کے ارشادات اور مسلک اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی سبیل مومنین صالحین سے نہیں ہٹے۔
اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہلایا گیا تو کیا بریلویت و سنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے آغاز سے پہلے ہی تسلیم نہیںکرلیا گیا؟‘‘ (تقدیم: دور حاضر میں بریلوی اہلسنت کا علامتی نشان، صفحہ ۱۱،چشتی)
بقول شیخ الاسلام مدنی میاں صاحب قبلہ سنیت متعارف ہے بریلویت سے اور یہی ’’مسلکِ اعلیٰحضرت‘‘ ہے یعنی مسلک اہل سنت و جماعت (سنی مذہب)۔
اب کوئی حنفی ہو یا شافعی، مالکی ہو یا حنبلی۔ سب کا عقیدہ،عقدۂ اہلسنت ہے اور جو سنی نہیں ہے یعنی مسلک ِاعلیٰحضرت کا پیرو نہیں ہے، وہ لاکھ بہلاوا دے کہ وہ حنفی المذہب ہے یا حنبلی المذہب وغیرہ مشربی اعتبار سے وہ قادری ہے یا چشتی یا سہروردی یا نقشبندی ،ان سب سے پہلے وہ مسلکِ اعلیٰحضرت کا پیرو ہے یا نہیں ۔ آیا اس کے عقائد، اعلیٰحضرت امام احمد رضا خاں کے پیش کردہ عقائد کے مطابق ہیں یا نہیں؟ اگر اس کے عقائد اعلیٰحضرت کے پیش کردہ عقائد کے مطابق ہیں تو بیشک وہ سُنّی ہے اور پھر حنفی، حنبلی، مالکی۔۔۔۔۔۔ یا قادری، چشتی، سہروردی، نقش بندی کوئی بھی ہو ہمارا اپنا ہے۔
الحمداللہ ! آج پوری دنیا کے مسلمانوں میں ۷۵؍ فیصد مسلمان مسلکِ اعلیٰ حضرت ہی کے ماننے والے ہیں یعنی سنی ہیں اور اہلسنت ہی سوادِ اعظم ہے ۔

محترم قارٸینِ کرام : برصغیر پاک و ہند میں مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کا ظہور اتنا واضح اور انقلابی تھا کہ بدعقیدہ قوتیں آج تک لرزہ براندام ہیں۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنے ایمان افروز فقہی افکار اور نعتیہ شاعری کے ذریعے زندگی بھر گستاخان رسول کاڈنکے کی چوٹ پر محاسبہ جاری رکھا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے دین دشمنوں کے خلاف قلم سے تلوار کا کام لیا اور بھرپور انداز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے والہانہ محبت کی تبلیغ کی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی ولولہ انگیز شخصیت اور علمی کارناموں سے متاثرہ کروڑوں مسلمان آپ علیہ الرحمہ سے اظہار قربت کے طور پر خود کو بریلوی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اس پر بدعقیدہ عناصر کے حاسدانہ تبصرے بھی جاری رہتے ہیں ۔ چنانچہ یہ پراپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ بریلوی ایک نیا دینی فرقہ ہے حالانکہ محبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا سفیر ہر بریلوی حضرت امام ابوحنیفہ رضی ﷲ عنہ کی فقہ کا قائل ہے ۔ خود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے آپ کو فقہ حنفی کا ترجمان قرار دیا۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مقام و مرتبے سے متاثر ہوکر انہیں اپنے دور کا امام ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ قرار دیا تھا۔ اس تناظر میں اہلسنت کے محبوب ادیب اور صاحب طرز مصنف علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا خصوصی مقالہ ’’بریلوی‘‘ دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان ، یارسول ﷲ کہنے والے غلامان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ذوق مطالعہ کی نذر کررہا ہوں ۔ علامہ ارشد القادری اپنی پاپولر کتابوں اور دل موہ لینے والی باکمال تحریروں کے باعث پڑھنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ یہ مقالہ بھی ایک ایسی ہی لافانی اور لاجواب تحریر ہے۔ یہ مقالہ ایسے نام نہاد روشن خیال عناصر کی بھی رہنمائی کرتا ہے جو سنی ہونے کے باوجود خود کو ’’بریلوی‘‘ کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔ ⬇
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے دور فتن میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل علیہ الرحمہ رضی المولیٰ تعالیٰ عنہ کا منصب تجدید و ارشاد اتنا واضح ہوچکا ہے کہ اب وہ محتاج بحث و استدلال نہیں رہا۔ غیر جانبداری اور انصاف و دریافت کے ساتھ اسلام کے مذہب و مسلک کا مطالعہ کرنے والا یہ اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بریلوی اسلام کے ماضی اور حال کے درمیان ایک عظیم رابطہ کی حیثیت سے اپنے وقت میں جلوہ گر ہوئے اور اپنی خداداد قوت علم و یقین اور لگاتار قلمی جہاد کے ذریعہ انہوں نے ملحدانہ قوتوں کی، ان ساری کوششوں کو ناکام بنادیا جو ہمارے فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کا رشتہ ہمارے مقدس ماضی سے منقطع کرنا چاہتے تھے ۔

دراصل یہی ہے وہ منصب تجدید و ارشاد جس پر وقت کا ایک مجدد فائز ہوتا ہے۔ وہ کسی نئے مذہب و فکر کی بنیاد نہیں ڈالتا بلکہ اسی مذہب اسلام کو نئی توانائیوں اور صحیح تعبیر کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو نقطہ آغاز سے لے کر ماضی کے بے شمار اشخاص و رجال کا ذریعہ اس تک پہنچا ہے۔ اس کی ساری جدوجہد اس نقطے پر مرکوز رہتی ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد کے ساتھ فکر و اعتقادکے زاویئے کا وہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے جس نے ماضی کے ہر دور میں کروڑوں افراد کو اسلام کے ساتھ مربوط رکھا ہے۔ مسلم معاشرہ کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کے لئے جس پر اسلام کے مقدس ماضی کی چھاپ لگی ہوئی ہے، وہ لوگوں سے جنگ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم ایک عظیم اور مقدس ماضی کے وارث ہیں۔ اس لئے ماضی کے بزرگوں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے ہمیں کل کا کل قبول کرنا ہوگا۔ کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی اگر اجازت دے دی گئی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ کچھ چھوڑنے والے سبھی کچھ چھوڑ دیں اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں۔ یونہی کسی چھوٹی چیز کو اس پیمانے سے مت دیکھو کہ وہ چھوٹی ہے بلکہ اس زاویہ نگاہ سے دیکھو کہ وہ ماضی کے مقدس بزرگوں سے ورثے میں ملی ہے۔ جو آج ماضی کی چھوٹی چیز کو ٹھکرا سکتا ہے، وہ کل ماضی کی بڑی چیز کو بھی ٹھکرا دے گا کیونکہ ماضی سے مربوط رہنے کا ذریعہ وہ حسن اعتقاد ہے جو ماضی کے بزرگوں کے ساتھ قائم ہے اور جب وہی مجروح ہوگیا تو آئندہ مسلمان باقی رہنے کی ضمانت کیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اسلام اس صراط مستقیم کا نام ہے جو صدیقین و صالحین کے قدموں کے نشانات سے پہچانا جاتا ہے، اس کے علاوہ سینکڑوں راہوں کے درمیان اسے ممیز کرنے کا اور کوئی محسوس ذریعہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ پس جسے اس گزر جانے والے فاصلے کے نقوش قدم کی پیروی سے انکار ہے اس کی حق میں دو ہی بات کہی جاسکتی ہے یا تو وہ اپنے تئیں اس منزل کا مسافر ہی نہیں ہے یا پھر گمشدگی اس کی تقدیر کا نوشتہ ہے ۔

آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کوئی بھی تصنیف اٹھا لیجئے ایک روایاتی مجدد کا یہ انداز فکر آپ کو پوری کتاب میں پھیلا ہوا نظر آئے گا۔ کسی بھی مسئلے پر اعلیٰ حضرت کا قلم جب اٹھتا ہے تو بالاتزام بحث و استدلال کی ترتیب یہ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے آیات قرآنی پھر احادیث کریمہ پھر آثار صحابہ پھر ارشادات تابعین و تبع تابعین پھر اقوال ائمہ مجتہدین پھر تصریحات، مشاہیر امت، تحریر و بیان کا یہ اسلوب اس نقطہ نظر کو پوری طرح واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مسئلے میں شارع کا منشاء معلوم کرنے کے لئے ماضی کے ہر مسند طبقے کے ساتھ منسلک رہنا نہایت ضروری ہے۔ اعتماد و وابستگی کا یہ سلسلہ الذہب کسی سے بھی ٹوٹ گیا تو ایمان و یقین کی سلامتی کو کبھی بھی خطرہ پیدا پیش آ سکتا ہے ۔ واقعات و حالات کی روشنی میں اگر آپ مذہبی امور میں آزادی رائے کی تاریخ کا تجزیہ کریں تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اپنے وقت کے مجدد کا یہ اندیشہ غلط نہیں تھا کہ چھوٹی چیز کو چھوڑنے والے ایک دن بڑی چیز کو بھی چھوڑ دیں گے اور سواد اعظم کی پیروی سے انکار کرنے والے ایک دن رسول ہی کی پیروی سے انکار کر بیٹھیں گے ۔ چنانچہ تجربات شاہد ہیں کہ رسم کہہ کر جن لوگوں نے ماضی کے بزرگوں کی روایات سے لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کی ، انہیں کچھ مدت کے بعد اپنے ہی درمیان ایک ایسے طبقے کا سامنا کرنا پڑا جس نے یہ کہتے ہوئے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار کر پھینک دیا کہ وہ بھی ہماری ہی طرح ایک عام امتی ہیں… دین کے مسائل و احکام معلوم کرنے کے لئے ان مجتہدانہ صوابدید پر اعتماد کرنا ہمارے لئے کیا ضروری ہے۔ ہمیں بھی خدا نے فکر کی قوت بخشی ہے ہم براہ راست احادیث سے رابطہ قائم کریں گے۔ ہمارے لئے حدیث رسول کافی ہے۔ اقوال آئمہ کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ اقوال آئمہ اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ لیکن ابھی چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ اسی دعوت انحراف کے بطن سے ایک تیسرے گروہ نے جنم لیا۔ اس نے بڑے طمطراق سے کہنا شروع کیا کہ دین دراصل خدا کا ہے۔ پیغمبر کی حیثیت تو صرف ایک قاصد کی ہے۔ دین کے متعلق خدا کی مکمل ہدایات قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارے پاس قرآن کافی ہے۔ حدیث کی کوئی ضرورت نہیں۔ احادیث اغلاط کا مجموعہ ہیں۔ مسلمانوں کے فکری زوال اور قومی انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ یہ احادیث ہیں ۔بغاوت و الحاد کا یہ قیامت خیز فتنہ جب جوان ہوگیا اور سر پر چڑھ کر آواز دینے لگا تو اب لوگ بدحواس ہوکر سینہ پیٹ رہے ہیں کہ ہائے اسلام میں کتنا بڑا رخنہ ڈال دیا ان ظالموں نے۔ امت کا شیرازہ جس رشتے سے بندھا ہوا تھا اسی کو توڑ دیا۔ اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ حدیث کو چھوڑنے والے ایک دن قرآن کو نہیں چھوڑ دیں گے اور اس کے بعد بھی کہیں گے ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں مسلم معاشرہ میں ایک مسلمان کا حق ملنا چاہئے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ پہنچنے والے یہاں تک اچانک نہیں پہنچ گئے، انہیں الحاد و انکار کے متعدد مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس سے پہلے اعتماد و یقین کے کئی رشتے انہوں نے بتدریج توڑے، تب جاکر حدیث کے رشتے تک ان کا ہاتھ پہنچا…اس لئے مجھے کہنے دیا جائے کہ اسلام میں رخنے کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن دہلی کے ایک ناخدا ترس باغی نے ’’بزرگوں کی رسم‘‘ کہہ کر ماضی کی متوارث روایات کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ اسلامی اقدار کے خلاف ایک نیا فتنہ عین اپنی ولادت کے وقت ہی کچل دیاگیا ہوتا تو آج ہمیں یہ سیاہ دن کیوں دیکھنا پڑتا… اور اس پر مزید ستم یہ کہ جو اسلام میں نئے فتنوں کا بانی تھا، اسے آج بھی ملت کا محسن سمجھا جاتا ہے اور جس نے اپنے خون جگر سے ایمان و یقین کے فیصلوں کی بنیاد مستحکم کی، اس کی خدمات کا کوئی اعتراف نہیں ہے۔ مسلم ہندوستان کی مذہبی تاریخ پر قلم اٹھانے والے جو اپنے آپ کو غیر جانبدار اور حقائق پسند کہتے ہیں، اگر انہوں نے دیدہ وا دانستہ احیائے ملت کی ایک عظیم تاریخ کے ساتھ بے اعتنائی برتی ہے تو یہ حقائق کے خلاف ایک کھلا ہوا تعصب ہے اور اگر انہوں نے ناواقفیت کی بنیاد پر تاریخ کی یہ اہم کڑی چھوڑ دی ہے تو سوا اس کے اور کیا کہا جائے گا کہ کچھ نہ لکھنا ایک گمراہ کن تاریخ لکھنے سے کہیں بہتر تھا۔ واقعات کے ساتھ انصاف کرنے والوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ تجدید و ارشاد کو سمجھنے کے لئے جہاں اس دور کے مذہبی اور سیاسی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے وہاں ان کی فکری اور اخلاقی محرکات کا پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے جو اعلیٰ حضرت کی علمی خدمات اور ان کی تصنیفات کے پیچھے ہیں… کیونکہ فکر و اعتقاد کے جن مقاصد کی اصلاح کرنے کے لئے وہ اٹھے تھے وہ انفرادی نہیں تھے بلکہ ایک منظم گروہ اور ایک مربوط مکتبہ فکر کی پشت پناہی میںوہ پھیل رہے تھے۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اپنے وقت میں ’’دیوبندی جماعت‘‘ کے نام سے ایک ایسے الحاد پرور اور زمانہ ساز گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایک طرف اپنے آپ کو ’’حنفی‘‘ بھی کہتا تھا اور دوسری طرف ابن تیمیہ سے لے کر ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی تک، ان سارے آئمہ الحاد و فتن کے عقائد و افکار کا علمبردار بھی تھا جو سلف صالحین اور آئمہ اسلام کی بارگاہوں سے ٹھکرائے جاچکے تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ آئمہ اسلام کے اس باغی طبقے کے ساتھ جسے ہم غیر مقلدین کے نام سے جانتے ہیں، اعتقادی اور فکری رابطہ بھی قائم ہوگیا تھا اور دونوں گروہوں کے درمیان شاہ اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان جسے ابن عبدالوہاب نجدی کی کتاب التوحید کا اردو ایڈیشن کہنا چاہئے، بزرگان اسلام کے خلاف بغاوت کے لئے قدر مشترک کے طور پر استعمال کی جاتی تھی اور دونوں گروہ اس کتاب کے گمراہ کن اور ایمان سوز مضامین کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقدس ترین فریضہ سمجھتے تھے اور آج تک سمجھ رہے ہیں۔ غیر مقلدین کے ساتھ ان نام نہاد حنفی مقلدین کے گٹھ جوڑ نے نہ صرف یہ کہ حنفی مذہب کو نقصان پہنچایا اور غیر مقلدیت کے لئے مسلم معاشرہ میں داخل ہونے کا راستہ ہموار کیا بلکہ دونوں گروہوں کی مشترک جدوجہد سے زندگی کے بیشتر مسائل میں آئمہ اسلام اور سلف صالحین کے ساتھ عامہ مسلمین کے فکری رابطے کا اعتماد بھی مجروح ہونے لگا۔ اس طرح کے پیچیدہ اور سنگین ماحول میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے اصلاح و ارشاد کا کام شروع کیا۔ آندھیوں کی زد پر چراغ جلانے کا محاورہ ہم نے سنا تھا لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی و دینی تاریخ میں یہ محاورہ حقیقت کا ایک پیکر محسوس بن گیا ۔بلاشبہ انہوں نے آندھیوں کی زد پر چراغ جلایا، قلم کی تلوار ہاتھ میں لے کر تنہا اترے اور عرب سے عجم تک مذہب اہلسنت کی حقانیت و صداقت کا سکہ بٹھادیا ۔ مومنین کے قلوب میں سید کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عظمت و توقیر، سلف صالحین کی محبت و عقیدت اور شریعت طیبہ طاہرہ کے احترام کا جذبہ کچھ اس طرح جگایا کہ اہل ایمان کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔

ویسے ہندوستان میں اس وقت اس گروہ کے علاوہ بھی بہت سے فرقہائے باطلہ تھے جن سے مسلمانوں کی مذہبی سلامتی کو نقصان پہنچا اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان کے فتنوں سے بھی ملت کی تطہیر فرمائی لیکن خصوصیت کے ساتھ فتنہ وہابیت کے استحصال میں ان کے مجاہدانہ اقدامات نے امت کو ایک عظیم ابتلا سے بچالیا۔ فتنہ وہابیت کے استیصال کی طرف اعلیٰ حضرت کی خصوصی توجہ کا باعث یہ امر ہوا کہ اس فتنے کے علمبردار اپنے آپ کو حنفی کہہ کر، حنفی مسلمانوں میں بار پانے کی کوشش کررہے تھے اور حنفی مسلمانوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ جو خیالات وہ ان کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ عین حنفی مذہب کے مطابق ہیں حالانکہ حنفی مذہب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ان حالات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے شدت کے ساتھ یہ خطرہ محسوس فرمایا کہ اگر واضح اور مدلل بیان کے ساتھ اس فریب کا پردہ چاک نہ کیا گیا تو پاک و ہند کے احناف سخت گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اس لئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ایک ایک اختلافی مسئلہ پر قرآن و حدیث اقوال آئمہ اور حنفی مذہب کی کتابوں سے دلائل و شواہد کا انبار لگا کر حنفیت اور وہابیت کے درمیان کھلا ہوا امتیاز قائم کردیا… فکر و اعتقاد اور کردار و عمل کی مختلف سمتوں میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی مجددانہ اصلاحات اور ان کی علمی خدمات کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔

پہلا شعبہ

سنی حنفی مسلمانوں کے وہ عقائد و روایات جنہیں دیوبندی حضرات شرک و حرام کہتے تھے، اعلیٰ حضرت نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور اسلام کی کتابوں سے روشن بیانات اور واضح دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ وہ امور شرک اور حرام نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق اور آئمہ اور سلف صالحین کے نزدیک مستحسن اور پسندیدہ ہیں اور یہ امور کچھ آج کے ایجاد کردہ نہیں ہیں بلکہ اسلام کے ماضی سے ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ لہذا جو ان امور کو شرک یا حرام کہتا ہے اس کا یہ حملہ ہم پر نہیں بلکہ ان اسلاف کرام پر ہے جن کے ساتھ وابستگی ہماری دینی سلامتی کی ضمانت ہے۔

اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل مباحث بطور امثال ملاحظہ فرمائیں :

(1) تقبیل ابہامین (2) ندائے یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (3) عقیدہ شفاعت (4) عرس و فاتحہ (5) عقیدہ علم غیب (6) عقیدت حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم (7) میلاد و قیام (8) توسل (9) نذر (10) تذکرہ شہادت کربلا (11) محافل گیارہویں (12) تثویب (13) استعانت بالانبیاء و الاولیاء (14) بناء قبا برمزارات (15) سفر بائے زیارت قبور انبیاء واولیاء وغیرہ ۔

اہلسنت کی یہ وہ مذہبی اور اعتقادی روایات تھیں جن پر دیوبندی اور وھابی گروہ کے علماء حملہ آور تھے اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اہلسنت کی طرف سے ان کا دفاع فرمایا تھا۔ یہ روایات صدیوں سے امت مسلمہ کے اندر تمام شرق و غرب اور عرب وعجم میں رائج تھیں… اور آج بھی مسلم معاشرہ کی عظیم اکثریت کے تمام اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں ان روایات پر عملدرآمد ہے۔ اس لیے کہنے دیجئے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ دنیائے اسلام کے عظیم محسن ہیں جنہوں نے ان روحانی اور مذہبی نقوش کو مٹنے سے بچالیا جو عالم اسلام کو اپنے قابل تقلید اسلاف سے ورثے میں ملے تھے ۔

دوسرا شعبہ : دیوبندی اور وھابی فرقے کے وہ مخصوص عقائد جنہیں وہ تقریر و تحریر کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں پھیلا رہے تھے اور آج بھی ان کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور ازراہ فریب سادہ لوح عوام سے کہتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی عقائد ہیں جو قرآن و حدیث سے اخذ کئے گئے ہیں ایک سچے مسلمان کو انہی عقائد پر چلنا چاہئے۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت مسلمہ کو عقیدے کے فساد سے بچانے کے لئے جس پامردی اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا وہ ایک مجدد ہی کی شان ہوسکتی ہے۔ وقت کی ساری باطل قوتوں کو اپنا حریف بنالینے کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کی بوجھل شہادتوں سے ان مصنوعی عقائد کی دھجیاں اڑادیں اور ہر کہہ و مہ پر آفتاب نیمروز کی طرح واضح کردیا کہ یہ عقائد سرتاسر باطل اور ایمان و اسلام کے لئے مہلک ہیں۔ مسلمانوں کو ان فاسد عقائد سے سخت اجتناب کرنا چاہیے اور کھلے بندوں ان کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں انہیں اعتماد کی جگہ نہ مل سکے۔

اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل دیوبندی عقائد بطور مثال ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں ۔ (تحذیرالناس)

(2) صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں ۔ (تصفیۃ العقائد)

(3) کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے ۔ (تصفیۃ العقائد)

(4) انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے ۔ (تصفیة العقاٸد)

(5) نماز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خیال کرنا ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے ۔ (صراط مستقیم)

(6) نماز میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا خیال لانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے اور اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے ۔(صراط مستقیم)
اللہ کےلیے جھوٹ بولنا ممکن ہے (براہین قاطعہ، یکروزی وغیرہ) خدا کو زمان و مکان اور جہت سے پاک و منزہ سمجھنا گمراہی ہے ۔ (ایضاح الحق ، یک روزہ)

(7) جادوگروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔ (منصب امامت)

(8) صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ)

(9) محمد یا علی جس کا نام ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ۔ (تقویۃ الایمان)

(10) ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا، وہ ﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے ۔ (تقویۃ الایمان)

(11) رسول بخش، نبی بخش، پیر بخش، عبدالنبی، عبدالمصطفی، غلام معین الدین، غلام محی الدین نام رکھنا یا اسے پسند کرنا شرک ہے ۔ (تقویۃ الایمان)

(12) یہ کہنا کہ خدا اور رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے ۔

(13) رحمتہ للعالمین ہونا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمتہ للعالمین ہوسکتے ہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ)

(14) بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ)

(15) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہمارے بڑے بھائی ہیں اور ہم ان کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ (تقویۃ الایمان)

(16) جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے ۔ (تقویۃ الایمان)

(17) کسی نبی یا ولی کے مزار پر روشنی کرنا، فرش بچھانا، جھاڑو دینا، پانی پلانا اور لوگوں کے لئے غسل اور وضو کرنا شرک ہے ۔ (تقویۃ الایمان) وغیرہ

انصاف اور دیانت کے ساتھ دیوبندی مکتبہ فکر کے ان عقائد پر غور فرماٸیے ۔ ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے وہ عقیدہ توحید و تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا عقائد و اعمال کی توثیق فرمائی ہے ۔

اب ایک طرف ہمارے معتقدات و روایات پر جارحانہ حملہ نظر میں رکھئے اور دوسری طرف اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا یہ دفاعی کردار ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے ایک پرجوش وکیل اور ایک پرخلوص محافظ کی طرح امت کے سر سے کفر و شرک کے الزامات کا دفاع کیا ہے اور نہایت اخلاص و دیانت کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ امت کے جن عقائد و اعمال کو اہل دیوبند کفر و شرک کہتے ہیں وہ ایمان و اسلام کے بہترین مظاہر ہیں ۔

اب جمہور اسلام کے افراد ہی اس کا فیصلہ کریں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے ۔ اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچالیا ہے ۔ عین شورش اور طوفان کی زد میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اور جن روحانی احساسات کو مٹنے سے بچایا ہے اگر آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے تو یہ فیصلہ جمہور ہی کو کرنا ہوگا کہ اپنے ایک جاں نثار وکیل اور ایک بے غرض محسن کو جذبہ محبت کے ساتھ یاد کیا جائے یا دشمن کے ناپاک پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر احسان فراموشوں کا رویہ اختیار کر لیا جائے ۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے آپ سے آپ ہی کے ضمیر کا انصاف چاہتا ہوں ۔ علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا مقالہ مکمل ہوا ۔


وہابیوں کو وہابی علامہ ابن عابدین شامی نے کہا دیکھو ردالمحتار حاشیہ و صاحب تفسیر صاوی علی الجلالین علامہ جمیل آفندی عاقی الفجر الصادق ص 17-18، علامہ احمدین زینی دحلان مکی)۔(الفتوحات الاسلامیہ جلد 2 صفحہ 268، والدر السنیہ ص 49)۔(مولوی عبید ا للہ سندھی ابجد العلوم صفحہ 87 بحوالہ تاریخ وہابیہ صفحہ 83)

بلکہ وہابی اپنی وہابیت پر اس قدر نازاں تھے کہ نواب الوہابیہ نواب صدیق حسن بھوپالی نے اپنے رسالہ کا نام ہی ’’ترجمان وہابیہ‘‘ رکھ لیا تھا اور وہابیوں کی ایک کتاب ’’تحفہ وہابیہ‘‘ ہے ۔ ترجمہ بقلم مولوی اسماعیل غزنوی وہابی یہ جملہ کتب اور ان کے مصنفین سیدنا اعلیٰحضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی ولادت باسعادت سے پہلے کے ہیں ۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ وہابیوں نے نام وہابی اور وہابیہ خود پسند کیا اور رکھا ۔ ہم مندرجہ بالا قسم کے پچاس حوالہ جات اور نقل کرسکتے ہیں کہ وہابی بقلم خود وبیدہ خود وہابی ہیں ۔

اِن جہلا کے روحانی پیشوا مولوی احسان الٰہی ظہیر کی ولادت اور ان کی کتاب ’’البریلویہ‘‘ کے معرض وجود میں آنے سے بہت پہلے متعدد کتب لغت سے ثابت کرسکتا ہے کہ وہابیوں کو وہابی کا لقب ہم نے نہیں دیا ۔ سیدنا اعلیٰحضرت قدس سرہ نے نہیں دیا ، بلکہ لفظ وہابی کے معنی کی وضاحت میں اہل لغت متفق البیان ہیں اور سب نے یہی لکھا ہے ۔ (وہابی (ع) عبدالوہاب نجدی کا پیروکار فرقہ (جو صوفیوں کے مدِ مقابل خیال کیا جاتا ہے ۔ (حسن اللغات، فیروز اللغات، امیر اللغات وغیرہم زیر و۔ہ)

اکابر علماء بدایوں شریف کی سیدنا مجدد اعظم اعلیٰحضرت علیہ الرحمہ سے بہت پہلے کی کتاب سیف الجبار اور مجاہد جلیل وعظیم شیر حق علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ کی کتاب برد وہابیہ تحقیق الفتویٰ لسلب الطغویٰ اور بوارق محمدیہ وغیرہ ملاحظہ فرماتے اور تو اور مقالات سرسید میں خود مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی فخریہ طور پر اپنی اور اپنے فرقہ کی وہابیت کا برملا اقرار و اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں اور ’’انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں خود اس فرقہ کے لئے جو وہابی کہلاتا ہے، ایک رحمت ہے جو سلطنتیں اسلامی کہلاتی ہیں ان میں بھی وہابیوں کو ایسی آزادی مذہب ملنا دشوار بلکہ ناممکن ہے (مسلم) سلطان کی عمل داری میں وہابی کا رہنا مشکل ہے ۔ (مقالات سرسید حصہ نہم ص 211-212، از مولوی اسماعیل پانی پتی وہابی و علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ بابت 2 فروری 1889،چشتی)

دیوبندی خود کو دیوبندی کہتے ہیں اور وہابی ہونے کا اقرار و اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس عنوان اور اس موضوع پر مولانا اصدق جتنے حوالے ثاہیں نقد بہ نقد موجود ہیں۔ ان کی ضیافت طبع کے لئے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔

دیوبندیت وہابیت ہند کے امام دوم بانی ثانی مدرسہ دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی وہابیت اور بانی وہابیت عبدالوہاب شیخ نجدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں۔ ان کے عقائد عمدہ تھے، وہ عامل بالحدیث تھا۔ شرک و بدعت سے روکتا تھا ۔ (فتاویٰ رشیدیہ جلد 1ص 111 و ص 551)

دیوبندی حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی بدیں الفاظ اپنی وہابیت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں : بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں، یہاں فاتحہ نیاز کیلئے کچھ مت لایا کرو ۔ (اشرف السوانح جلد 1ص 45)

یہی تھانوی صاحب کہتے ہیں : اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں ۔ (الاضافات الیومیہ جلد 5ص 67)

مولوی فیض الحسن صاحب سہارنپوری بڑے ظریف تھے ۔ کسی نے ان سے بدعتی اور وہابی کے معنی پوچھے تو عجیب تفسیر کی، فرمایا : بدعتی کے معنی ہیں باداب، بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب باایمان ۔ (ملفوظات حکیم الامت جلد 2ص 326)

دیوبندی وہابیوں کے منظور مضرور مناظر اعظم مدیر الفرقان کہتے ہیں : ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں ۔ (سوانح مولانا محمد یوسف کاندھلوی تبلیغی وہابی ص 192)

مولوی محمد ذکریا امیر تبلیغی جماعت کہتے ہیں : مولوی صاحب! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں ۔ (سوانح مولانا محمد یوسف تبلیغی وہابی صفحہ 193)

فقیر انہی چند حوالہ جات پر اکتفا کرتا ہے ، ورنہ بحمدہ تعالیٰ ایسے بیسیوں حوالے مزید پیش کئے جاسکتے ہیں ۔

ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ وہابی دیوبندی اکابر اپنے آپ کو فخریہ وہابی کہتے ہیں اور اسی طرح وہابی دیوبندی خود کو دیوبندی اور دیوبندی مسلک و مسلک دیوبندی کہتے اور لکھتے ہیں ۔

ملاحظہ ہوں … مکمل تاریخ دارالعلوم دیوبند جس کا مقدمہ قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے ، میں صاف صاف لکھا ہے ، مسلک دیوبند ص 424و ص 428 و ص 431 و ص 476 بیسوں صفحات پر مسلک دیوبند،دیوبندی مسلک لکھا ہوا ہے ۔

کتب خانہ مجیدیہ ملتان کے شائع کردہ المہند عقائد علماء دیوبند کے مصنفہ مولوی خلیل انبیٹھوی کے صفحہ 20 صفحہ 21، صفحہ 164، صفحہ 165، صفحہ 187 پر بار بار مسلک دیوبند مسلک حق دیوبند، دیوبندی مسلک لکھا ہے۔ انجمن ارشاد المسلمین کے پاکستانی ایڈیشن حفظ الایمان کے متعدد صفحات پر دیوبندی، بریلوی، دیوبندی لکھا ہے۔ پاکستان دیوبندیوں کے مصنف اعظم مولوی سرفراز صفدر گکھڑوی نے اپنی کتاب عبارات اکابر کے صفحات 143,115,58,18,15 پر بار بار دیوبندی مسلک دیوبندی مسلک لکھا ہے ۔

مولوی منظور سنبھلی مولوی رفاقت حسین دیوبندی کی کتاب بریلی کا دلکش نظارہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کردہ مکتبہ مدینہ صفحہ 35، صفحہ 181وغیرہ پر متعدد صفحات پر دیوبندی بریلوی دیوبندی دیوبندی لکھا ہے ۔

مولوی خلیل بجنوری بدایونی کی کتاب انکساف حق کی پاکستانی ایڈیشن کے صفحہ 6 صفحہ 7 پر دیوبندی، بریلوی، بریلوی دیوبندی ہر دو اہلسنت لکھا ہے ۔

مولوی عارف سنبھلی ندوۃ العلماء کی کتاب بریلوی فتنہ کا نیا روپ صفحہ 121، صفحہ 124پر مسلک دیوبندی، علماء دیوبند کا مسلک لکھا ہے ۔

دیوبندیوں کے خر دماغ ذہنی مریض کذاب مصنف پروفیسر خالد محمود مانچسٹروی اپنی تردید شدہ کتاب مطالعہ بریلویت جلد اول کے صفحہ 401، صفحہ 402 پر دیوبندی مسلک دیوبندی دیوبندی لکھتا ہے ۔ اسی کتاب کی جلد 3 کے صفحہ 202 پر اہلسنت بریلوی دیوبندی لکھا ہے ۔ مطالعہ بریلویت جلد دوم صفحہ 16 پر دیوبندی بریلوی، مطالعہ بریلویت صفحہ 234 پر دیوبندی بریلوی، صفحہ 235 جلد 4 دیوبندیوں، بریلویوں دیوبندیوں جلد 4 صفحہ 237، دیوبندیوں صفحہ 238 جلد 4 دیوبندیوں بریلیوں، بار بار دیوبندیوں بریلویوں صفحہ 239، دیوبندیوں، دیوبندی بار بار دیوبندی صفحہ 240، جلد 4 دیوبندیوں صفحہ 316، اہلسنت والجماعۃ دیوبند مسلک ، دیوبندی بریلوی، صفحہ 317، دیوبندی، دیوبندیوں، دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند وغیرہ وغیرہ، بکثرت مقامات پر دیوبندیوں نے خود کو بقلم خود دیوبندی لکھا ہے ۔

مولوی اشرف علی تھانوی دیوبندی الاقاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 220، دیوبندیوں اور بریلیوں، مولوی انور کاشمیری صدر مدرس و شیخ الحدیث مدرسہ دیوبند کتاب حیات انور صفحہ 333، مضمون وقت کی پکار نوائے وقت لاہور، 8 مارچ 1976، جماعت دیوبندی ۔

دیوبندی امیر شریعت عطاء اللہ بخاری احراری دیوبندی لکھتے ہیں… مولانا غلام اللہ خان دیوبندی بھی اہلسنت و الجماعت ہین، وہ ابن تیمیہ کے پیروکار ہیں (مکتوب بنام علامہ محمد حسن علی قادری رضوی) دیوبندی جمعیت العلماء اسلام دیوبند کے ناظم اعلیٰ مولوی غلام غوث ہزاروی دیوبندی لکھتے ہیں ۔ اہلسنت و جماعت مسلمانوں کی تمام شاخیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث سب مسلمان ہیں ۔ (خدام الدین لاہور)

قصص الاکبر ص 205 میں تھانوی لکھتے ہیں ’’میرا مسلک شیخ الہند کا مسلک‘‘ (دیوبندی مسلک، الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 135) میرا مسلک تھانوی ۔ (اشرف السوانح جلد 3ص 153 وصفحہ 164، تھانوی مسلک ۔

ایک کتاب ’’آئینہ بریلویت‘‘ مولوی عبدالرحیم رائے پوری دیوبندی اور مولوی حسن احمد ٹانڈوی وغیرہ اکابر دیوبند کے پڑپوتے مرید مولوی عبدالرحمن شاہ عالمی مظفر گڑھ کی ہے ۔اس کے صفحہ 24، 27، 30، 34، 40، 42، 43، 45، 54، 57، 61، 63، چالیس صفحات پر بار بار دیوبندی مسلک، مسلک دیوبند، دیوبندیوں، دیوبندی اہلسنت دیوبندی لکھا ہے اور فخریہ طور پر اپنے دیوبندی ہونے کا اقرار کیا ہے ۔

ایک کتاب تسکین الاتقیاء فی حیاۃ الانبیاء مرتبہ مولوی محمد مکی دیوبندی صفحہ 79 مسلک اکابر دیوبند، صفحہ 99، اکابر دیوبند کا مسلک صفحہ 100اکابردیوبند کا مسلک، صفحہ 01 مسلک دیوبند، صفحہ 102 علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 103، علماء دیوبند کا مسلک، صفحہ 106، صفحہ 107 بار دیوبندی دیوبندی… اس کتاب پر پاکستان کے صف اول کے اکابردیوبند مولوی محمد یوسف بنوری شیخ الجامعہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی، مولوی شمس الحق افغانی، صدر وفاق المدرس العربیہ دیوبند، مفتی محمد حسن مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور، مفتی محمد شفیع سابق مفتی دیوبند مہتمم دارالعلوم کراچی، مولوی عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، مولوی ظفر احمد عثمانی شیخ الحدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار سندھ، مولوی محمد ادریس کاندھلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاوہر، مولوی محمد رسول خان جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور ، مولوی احمد علی امیر خدام الدین وامیر جمعیت العلماء اسلام، مولوی محمد صادق، ناظم محکمہ امور مولوی حامد میاں جامعہ مدینہ، مولوی مسعود احمد سجادہ نشین درگاہ دین پور وغیرہ اٹھارہ اکابر دیوبند کی تصدیقات ہیں۔ اس قسم کے حوالے اگر فقیر چاہے تو پچاسوں نقل کرسکتا ہے ۔ مرزا جی اپنی اوقات میں رہنا سیکھو بزرگان اہلسنت اور مسلمانان اہلسنت پر بکنا بند کرو ۔

بریلوی نیا فرقہ ہے مخالفین اہلسنت کی سازش کا مدلّل جواب : ⏬

محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار ونظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکر مخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء ومشائخ کو بریلوی کا نام دے دیا ، مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیا فرقہ ہے جو سرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے ۔

اسی سال پہلے سب سنی حنفی بریلوی خیال کے تھے مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری

مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیرمقلد وہابی لکھتے ہیں : اسی (80) سال پہلے قریبا سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو آج کل بریلوی حنفی کہا جاتا ہے ۔ (رسائل ثنائیہ ، شمع توحید صفحہ نمبر 163 مطبوعہ لاہور،چشتی)

معلوم ہوا وہابیت اس کے بعد کی پیداوار ہے برِّ صغیر پاک و ہند میں اور بریلویوں کے عقائد و نظریات وہی ہیں جو قدیم سنی مسلمانوں کے تھے بطور پہچان آج کل انہیں بریلوی حنفی کہا جاتا ہے حق حق ہوتا ہے ۔

غیرمقلد وہابی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی لکھتے ہیں : یہ جماعت امام ابو حنیفہ رحمۃ ﷲ علیہ کی تقلید کی مدعی ہے ، مگر دیوبندی مقلدین (اور یہ بھی بجائے خود ایک جدید اصطلاح ہے) یعنی تعلیم یافتگانِ مدرسہ دیوبند اور ان کے اتباع انہیں'' بریلوی'' کہتے ہیں . (تراجم علمائے حدیث ہند صفحۃ نمبر 482 مطبوعہ مکتبہ اہلحدیث ٹرسٹ کورٹ روڈ کراچی)

جب کہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے ، بریلی کے رہنے والے یا اس سے سلسلہ شاگردی یا بیعت کا تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو بریلوی کہیں تو یہ ایسا ہی ہوگا ، جیسے کوئی اپنے آپ کو قادری، چشتی، یا نقشبندی اور سہروردی کہلائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خیر آبادی، بدایونی، رامپوری سلسلہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو علماء بریلی کا ہے، کیا ان سب حضرات کو بھی بریلوی کہا جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، اگرچہ مخالفین ان تمام حضرات کو بھی بریلوی ہی کہیں گے، اسی طرح اسلاف کے طریقے پر چلنے والے قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور رفاعی مخالفین کی نگاہ میں بریلوی ہی ہیں ۔ (ظہیر، البریلویہ، ص٧)

میں یہی کہوں گا کہ اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا ہندوستانی دیوبندیوں کا طریقہ ہے ۔ (الحق المبین عربی صفحہ نمبر 3 از تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

مبلغ اسلام حضرت علامہ سیّد محمد مدنی کچھوچھوی فرماتے ہیں : غور فرمائیے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے، از اوّل تا آخر مقلد رہے، ان کی ہر تحریر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس کی صحیح ترجمان رہی، نیز سلف صالحین وائمّہ ومجتہدین کے ارشادات اور مسلکِ اسلاف کو واضح طور پر پیش کرتی رہی ، وہ زندگی کے کسی گوشے میں ایک پل کے لئے بھی ''سبیل مومنین صالحین'' سے نہیں ہٹے ۔ اب اگر ایسے کے ارشاداتِ حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں، انہیں سلفِ صالحین کی رَوش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ''بریلوی'' کہہ دیا گیا تو کیا بریلویت وسنیت کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیا گیا ؟ ۔ (سیّد محمد مدنی، شیخ الاسلام، تقدیم''دور حاضر میں بریلوی ، اہل سنت کا علامتی نشان''، مکتبہ حبیبیہ لاہور، ص١٠۔١١،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں : یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے، لیکن افکار اور عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے''(احسان الٰہی ظہیر، البریلویہ، ص٧)

اب اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ بریلویت کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد وافکار کو نشانہ بنارہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت وجماعت کے چلے آہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اور غیر اسلامی قرار دے سکیں، باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو بریلوی عقائد کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے، وہ قرآن وحدیث اور متقدمین علمائے اہل سنت سے ثابت اور منقول ہیں، کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو پیش نہیں کیا جاسکا جو بریلویوں کی ایجاد ہو، اور متقدمین ائمہ اہل سنت سے ثابت نہ ہو ۔

امام اہل سنت شاہ احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی عالم اہل السنۃ تھا ۔ اہل سنت وجماعت کی نمائندہ جماعت آل انڈیا سُنی کانفرنس کا رکن بننے کے لئے سُنی ہونا شرط تھا، اس کے فارم پر سُنی کی یہ تعریف درج تھی : سُنی وہ ہے جو ما انا علیہ واصحابی کا مصداق ہوسکتا ہو، یہ وہ لوگ ہیں، جو ائمہ دین، خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدّث دہلوی، حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی، حضرت مولانا فضل حق خیر آبادی، حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی، حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری، اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خاں رحمہم ﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو''۔ (مولانا محمد جلال الدین قادری، خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس، مطبوعہ مکتبہ رضویہ لاہور، صفحہ نمبر ٨٥، ٨٦،چشتی)

خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کار بند رہے، مشہور موّرخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا، لکھتے ہیں : تیسرا فریق وہ تھا جو شدّت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل السنۃ کہتا رہا، اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے ۔ (سلیمان ندوی، حیات شبلی، ص٤٦)(بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت، ص٢٢)

مشہور رائٹر شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں : انہوں(امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ۔ (محمد اکرام شیخ، موج کوثر، طبع ہفتم١٩٦٦ئ، ص٧٠،چشتی)

اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء ﷲ امرتسری لکھتے ہیں : امرتسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی(ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے، اسّی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے، جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے ۔ (ثناء ﷲ امرتسری، شمع توحید، مطبوعہ سرگودھا پنجاب صفحہ ٤٠،چشتی)

یہ امر بھی سامنے رہے کہ غیر مقلدین براہ راست قرآن وحدیث سے استنباط کے قائل ہیں اور ائمّہ مجتہدین کو ا ستنادی درجہ دینے کے قائل نہیں ہیں، دیوبندی مکتب فکر رکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں، تاہم وہ بھی ہندوستان کی مسلم شخصیت یہاں تک کہ شاہ ولی ﷲ محدّث دہلوی اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی کو دیوبندیت کی ابتدا ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔

علامہ انور شاہ کشمیری کے صاحبزادے ، دارالعلوم دیوبند کے استاذ التفسیر مولوی انظر شاہ کشمیری لکھتے ہیں : میرے نزدیک دیوبندیت خالص ولی الہٰی فکر بھی نہیں اور نہ کسی خانوادہ کی لگی بندھی فکر دولت ومتاع ہے، میرا یقین ہے کہ اکابر دیوبند جن کی ابتداء میرے خیال میں سیدنا الامام مولانا قاسم صاحب رحمۃ ﷲ علیہ اور فقیہ اکبر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے ہے۔۔۔۔۔۔ دیوبندیت کی ابتدا حضرت شاہ ولی ﷲ رحمۃ ﷲ علیہ سے کرنے کے بجائے مذکورہ بالا دو عظیم انسانوں سے کرتا ہوں ۔ (انظر شاہ کشمیری، استاذ دیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٨)

پھر شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے دیوبند کا تعلق قائم نہ کرنے کا ان الفاظ میں اظہار کرتے ہیں : اوّل تو اس وجہ سے کہ شیخ مرحوم تک ہماری سند ہی نہیں پہنچتی ، نیز حضرت شیخ عبدالحق کا فکر کلیۃً دیوبندیت سے جوڑ بھی نہیں کھاتا ۔۔۔۔۔۔ سنا ہے حضرت مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے تھے کہ''شامی اور شیخ عبدالحق پر بعض مسائل میں بدعت وسنت کا فرق واضح نہیں ہوسکا'' بس اسی اجمال میں ہزارہا تفصیلات ہیں، جنہیں شیخ کی تالیفات کا مطالعہ کرنے والے خوب سمجھیں گے''۔ (فٹ نوٹ ، انظر شاہ کشمیری، استاذدیوبند، ماہنامہ البلاغ ، کراچی، شمارہ مارچ ١٩٦٩ئ/١٣٨٨ھ، ص٤٩،چشتی)

تاج الشریعہ حضرت علامہ محمد اختر رضا خان صاحب ازہری سے ایک انٹرویو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ پاکستان میں بعض لوگ اپنے آپ کو بریلوی کہتے ہیں اور بعض اپنے آپ کو دیوبندی، کیا یہ اچھی بات ہے۔ اس کے جواب میں حضور ازہری میاں نے ارشاد فرمایا کہ؛ بریلوی کوئی مسلک نہیں ۔ ہم مسلمان ہیں ، اہلسنت والجماعت ہیں ۔ ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آخری نبی مانتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کا ادب کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اہلبیت سے محبت کرتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اولیاءاللہ سے عقیدت رکھتے ہیں ، فقہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مقلد ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے ، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں ۔ (ماہنامہ ضیائے حرم لاہور فروری 1988 صفحہ 14)

ماہرِ رضویات پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد رحمۃ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ : امام احمد رضا پر ایک الزام یہ ہے کہ وہ بریلوی فرقے کے بانی ہیں ۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی کوئی فرقہ نہیں بلکہ سوادِ اعظم اہلسنت کے مسلکِ قدیم کو عرفِ عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک وہند میں محدود ہے ۔ اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلکِ قدیم کے مخالفین نے اس کے بریلویت کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشروی "یہ نام علما دیوبند کا دیا ہوا ہے"۔ ڈاکٹرجمال الدین (جامعہ حنفیہ دہلی) نے بھی اپنے ایک تحقیقی مقالے میں یہی تحریر فرمایا ہے کہ یہ نام مخالفین کا دیا ہوا ہے ۔ (آئینہ رضویات صفحہ 300)

صاحبزادہ سیّد محمد فاروق القادری اسے جاہلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں؛ "اہلسنت و جماعت کو بریلوی کہنا کسی طرح درست نہیں ۔ اگر آج جماعتِ اسلامی کے افراد کو مودودی پارٹی کہیئے یا مودودئیے کہنا اور تبلیغی جماعت کو الیاسی جماعت کہنا درست نہیں تو آخر ملک کے سوادِ اعظم کو بریلوی کہنا کس منطق کی رو سے درست ہے ؟ تعجب ہے کہ خود اہلسنت کے بعض اصحاب کو بھی اس کا احساس نہیں اور وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو بریلوی کہہ کر متعارف کراتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام بریلی یا دیوبند کی سرزمین سے نہیں پھوٹا ۔ لہٰذا اس طرح کی تراکیب و نسبتیں اپنا عالمانہ نقطہ نظر سے فریقین کےلیے ایک جاہلانہ اقدام ہے ۔ (فاضلِ بریلی اور امورِ بدعت صفحہ 69) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...