مزار اور مندر میں فرق کیجیے
محترم قارٸینِ کرام : آپ احباب نے اکثر ایسی پوسٹیں کئی جگہ پڑھی ہونگی کہ دیابنہ و ہابیہ یہ کہتے ہوۓ نظر آتے کہ بت خانے اور مزاراتِ اولیاء اللہ ایک ہیں اور مزارات پر جانے والے اہلِ اسلام کو بت پرستوں سے تشبیہ دی جاتی ہے مگر افسوس یہ لوگ اتنی شناخت بھی کھو چکے ہیں کہ اولیاء اللہ کا مزار من اللہ ہے اور ہندو کا مندر من دون اللہ ہے ۔ ہندو کا مندر شرک کا گڑھ ہے تو مسلمان کا مزار توحید کا مرکز ہے یہ صاحبِ مزار ہستیاں اسلام کی بقا اور ایمان کی حفاظت کی ضامن ہیں ، پوری دنیا میں دین کی سچی تبلیغ انہی صاحب مزار ہستیوں کے ذریعے جاری و ساری ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ارشادات ان صاحب مزار ہستیوں کو موصول ہوتے ہیں اور یہ صاحب مزار اس علاقے میں موجود ولی اللہ کے توسط سے وہ فیض ، عام لوگوں تک پہنچاتے ہیں دین کی تبلیغ کے مشن میں یہ مزار پوری دنیا میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں ، کوئی ولی اللہ ، جس کے لئے اللہ چاہے، براہِ راست بھی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہدایات وصول کرتا ہے ۔
جن کی نظروں کے سامنے اندھیرا ہے ان کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ چادریں پیش کی جا رہیں ہیں ، پھول پیش ہو رہے ہیں ، لنگر تقسیم ہو رہے ہیں ، ڈھول بج رہے ہیں ، اس سے آگے انہیں کچھ نظر نہیں آتا ، حالاں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو شیطان کے قبیلہ کے مقابلہ میں اللہ کا قبیلہ ہیں ، جس طرح شیطانی مخلوق کا شیطان سے مضبوط رابطہ ہے اسی طرح ان ہستیوں کا اللہ اور رسول سے مکمل اور مضبوط رابطہ ہے جس طرح شیطانی مخلوق ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتی ہے اسی طرح یہ صاحب مزار دین کی سچی تبلیغ میں مصروف اولیائے کرام کی مکمل پشت پناہی فرماتے ہیں ۔
آئیں اب ہم من اللہ اور من دون اللہ کے فرق کو قرآنی آیات سے دیکھتے ہیں ۔
من دون اللہ پر شیاطین جن مسلط ہو تے ہیں : وَ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَاِّءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَھُمْ وَ خَرَقُوْا لَہ‘ بَنِیْنَ وَ بَنٰت ؤِ بِغَیْرِ عِلْمٍ چ سُبْحٰنَہ‘ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ ۔
من اللہ جنوں پر مسلط ہوتے ہیں : وَحُشِرَ لِسُلَیْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔
من دون اللہ پکارنے والے کی آواز سے غافل ہوتے ہیں : قُلْ اَرَءَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ط اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔
من اللہ چیونٹی تک کی آواز سن لیتے ہیں : حَتّٰی اِِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِی النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یٰٓاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ ڑَلا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُ ہٗ ڈ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی صاحب یہ سوچیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سننے کا تعلق تو ظاہری زندگی سے تھا، تو عرض ہے کہ من اللہ کی برزخی زندگی ان کی ظاہری زندگی سے شاندار ہوتی ہے ۔ سورۃ حم السجدہ میں ارشاد ہوتا ہے۔اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلئکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۔ (۳۰) نَحْنُ اَوْلِیٍّؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِٹ وَلَکُمْ فِیْہَامَا تَشْتَہِئْ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْن (۳۱) نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ ۔
قرآن مجید فرماتا ہے : اہل استقامت کو فرشتے خوش خبری دیتے ہیں کہ ان کےلیے کوئی خوف اور غم نہیں ہے ۔ کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری اولیاء اللہ کو تین طریقے سے ملتی ہے ۔
نمبر 1 ۔ صاحب فضل اہل قبور اسے کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر ۱۷۰ میں ہے ۔
نمبر 2 ۔ فرشتے اسے کوئی خوف اور غم نہ ہونے کی خوش خبری دیتے ہیں جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے ۔
نمبر 3 ۔ سوہنارب خود بھی اپنے دوست سے ہم کلام ہوتا ہے جیسا کہ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر ۲۷ میں ہے ، وہ دوست ہی کیا جو اپنے دوست سے بات نہ کرے دکھ ،سکھ میں اس کے ساتھ نہ ہو ۔ دوست تو دوست کے راستے کے وہ کانٹے بھی ہٹا دیتا ہے جو اس کے دوست کو نظر نہیں آ رہے ہوتے ، سوہنا رب اپنے دوست کی وہ دعائیں بھی پوری فرمادیتا ہے جو اس کے دوست نے مانگی نہیں ہوتیں ۔
قرآن مجید فرماتا ہے : ان کی قبروں پر بھی فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ اولیاء اللہ کی زندگی میں بھی فرشتے ان کے دوست اور ساتھی ہوتے ہیں اور اولیاء اللہ کے مزارات پربھی فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ، اور جو وہ چاہیں وہ تمنا پوری کرتے ہیں اور یہ غفور الرحیم کی دوست نوازی کاتقاضہ ہے ۔
من دون اللہ ، اللہ کی عبادت سے وکتے ہیں اور جہنم کی طرف بلاتے ہیں ، شیطان اپنے گروہ کو جہنم کی دعوت دیتا ہے ۔
سورۃ فاطر میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّاچ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْر ۔
من اللہ یا حزب اللہ برائی سے روکتے ہیں اور نیکی کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ کی رحمت کا حقدار بنا دیتے ہیں ۔
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ م یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ چ اُولئکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ چ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔
من دون اللہ کی دوستی اللہ کی ناراضگی ہے : اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہ اَوْلِیَاِّءَ چ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔
من اللہ کی دوستی اللہ کی خواہش ہے : وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوْلِہٖ وَ لَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَ لِیْجَۃً چ وَ اللّٰہُ خَبِیْرئِ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۔
من دون اللہ سے بیزار ہونا صاحبِ ایمان کی فطرت ہے : فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَ مَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ اَدْعُوْا رَبِّیْ صلے زعَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَاِّءِ رَبِّیْ شَقِیًّا ۔
من اللہ کی دوستی صاحبِ ایمان کی فطرت ہے ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ اللہ تعالیٰ سمجھ عطاء فرمائے آمین ۔
ہندو اور دیوبندی ۔ مزارات اور مندر کو ایک کہنے کا جواب : ⏬
محترم قارٸینِ کرام : ہندو اور دیوبندی ایک ہیں مزارات اولیاؤ اللہ کو ماننے والوں اور مندروں کے بجاری ہندوؤں کو ایک کہنے والے دیوبندیوں کو جواب جنابِ من سچ سچ ہوتا ہے سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپایا نہیں جا سکتا ہندوؤں سے چندے کون لیتا رہا ؟ ہندوؤں کےلیے دعا کون کرتا ہے آنکھیں کھول کر پڑھیں ۔
دارالعلوم دیوبند اور ہندو:دارالعلوم دیوبند کو مسلسل اور مستقل بنیادوں پر ہندو چندہ دیتے رہے اور دیوبندی علماء ان کے لیئے دعائیں کرتے رہے ؟
دارالعلوم دیوبند کو ہندو چندہ دیتے ہیں اور یہ چندہ مستقل بنیادوں پر دیا جاتا رہا ہے اور علمائے دیوبند اسے قبول کرتے رہے ۔ (سوانح قاسمی صفحات نمبر 317 ، 332 ، 479 ، 480 کے اصل اسکن پیش خدمت ہیں۔چشتی)
ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہوگی : صرف اتنی عرض ہے یہ چندہ ہندوؤں سے کس بنیاد پر لیا جاتا رہا ؟
کیا ہندو کے چندے سے دین کا کام کرنا جائز و درست ہے ؟
اور کیا ہندوؤں سے چندہ لے کر ان کی شوکت قائم رہے کی دعائیں کرنا اسلام سے غدّاری اور ہندو سے وفاداری نہیں ہے ؟
دارالعلوم دیوبند کے درس قرآن اور درس حدیث میں کانگریس میں شمولیت کا درس دیا جانے لگا اور مہاتما گاندھی و جواہر لال نہرو کے کارناموں کی قرآن و حدیث سے تائید پیش کی جانے لگی دیوبند نہ صرف ہنود کا مداح بن چکا ہے بلکہ ان کے رنگ میں رنگ میں رنگا جا چکا ہے ۔ (علامہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی کا بیان ابو الکلام آزاد کی تاریخی شکست صفحہ نمبر 23 ، 24) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment