Sunday, 23 October 2016

اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور اولیاء الشیطان میں فرق قرآن کی روشنی میں










اولیاء اللہ اور اولیاء الشیطان میں فرق قرآن کریم کی روشنی میں

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں بیان فرما دیا ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے دوست بھی ہیں اور شیطان کے بھی نیز اولیاء رحمن اور اولیاء شیطان کے مابین جو فرق ہے وہ بھی ظاہر کر دیا۔ فرمایا
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٦٤﴾
سورة يونس
’’یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور فرمایا
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٥٧﴾
سورة البقرہ
’’اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں، ان کے ولی شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں دھکیلتے ہیں۔ وہی دوزخی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘
اور فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٥١﴾ فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ ﴿٥٢﴾ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ ﴿٥٣﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٥٤﴾ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥﴾ وَمَن يَتَوَلَّ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٥٦﴾
سورة المائدہ
’’مسلمانو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائو۔ یہ لوگ باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو کوئی ان کو دوست بنائے گا تو بے شک وہ بھی انہی میں سے ہے کیونکہ اللہ جل شانہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ تو اے پیغمبر جن لوگوں کے دلوں میں بے ایمانی کا روگ ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان کے دوست بنانے میں بڑی جلدی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم کو تو اس بات کا ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیٹھے بٹھائے ہم کسی مصیبت کے پھیر میں آجائیں، سو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فتح یا کوئی امر اپنی طرف سے ظاہرکرے گا تو اس وقت یہ منافق اس بدگمانی پر جو اسلام کے غلبے اور اس کی صداقت کی نسبت اپنے دلوں میں چھپاتے تھے، پشیمان ہوں گے(اور اس سے مسلمانوں پر ان کا نفاق کھل جائے گا تو) مسلمان ان کے حال پر افسوس کرتے ہوئے آپس میں کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو ظاہر میں بڑے زور سے اللہ کی قسمیں کھاتے اور ہم سے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اندر اندر یہود کی تائید میں کوشش کرتے تھے تو ان کا سارا کیا دھرا ضائع ہوا اور سراسر نقصان میں آگئے۔ مسلمانو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں۔ وہ ایسے لوگ لائے گا، جن کو وہ دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے۔ مسلمانوں کے ساتھ نرم، کافروں کے ساتھ کڑے، اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑا دیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ بھی اللہ رب العزت کا ایک فضل ہے، جس کو چاہے دے اور اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے اور وہ سب کے حال سے واقف ہے۔ مسلمانو! بس تمہارے یہی دوست ہیں، اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ مسلمان جو نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر وقت اللہ رب العالمین کے آگے جھکے رہتے ہیں اور جو اللہ کے رسول اور مسلمانوں کا دوست بنا رہے گا۔ (تو وہ اللہ کی جماعت میں داخل ہو گا) اور اللہ کی جماعت ہی غلبہ پانے والی ہے۔‘‘
اور فرمایا:
هُنَالِكَ الْوَلَايَةُ لِلَّـهِ الْحَقِّ ۚ هُوَ خَيْرٌ ثَوَابًا وَخَيْرٌ عُقْبًا ﴿٤٤﴾
سورة الکہف
’’اس سے ثابت ہوا کہ سب اختیار اللہ برحق ہی کو حاصل ہے، وہی اچھا ثواب دینے والا اور آخر کار وہی اچھا بدلہ دینے والا ہے۔‘‘
شیطان کے دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴿٩٨﴾ إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٩٩﴾ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ ﴿١٠٠﴾
سورة النحل
’’جب قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا قابو نہیں چلتا، اس کا قابو صرف ان لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں اور جواس (کے وسوسے) کے سبب اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا ﴿٧٦﴾
سورة النساء
’’جو لوگ ایمان والے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں، اس لیے شیطان کے دوستوں کے ساتھ خوب لڑو۔ شیطان کی تدبیریں بودی ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ﴿٥٠﴾
سورة الکہف
’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سبھی نے سجدہ کیا، ابلیس جنات کی قسم سے تھا، اس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی۔کیا مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی نسل کو اپنے دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں۔ ظالموں کو برا ہی بدل ملتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾
سورة النساء
’’اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے وہ صریح گھاٹے میں آگیا۔‘‘
اور فرمایا:
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾ إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾
سورة آل عمران
’’جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگ تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے جمع ہورہے ہیں اور ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور بھی زیادہ ہوگیااور کہنے لگے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل سے واپس آئے۔ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہی کی جستجو کی اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ شیطان ہی تمہیں اپنے دوستوں کا ڈراوا دکھاتا ہے۔ اگر تم مومن ہو تو ان سے نہ ڈرو اور مجھی سے ڈرو۔‘‘
اور فرمایا:
إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٢٧﴾ وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿٢٨﴾ قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ﴿٢٩﴾ فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٠﴾
سورة الاعراف
’’ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا یار بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے اور جب کبھی کسی بری حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے بڑوں کو اسی طریقے پر چلتے پایا اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! ان لوگوں سے کہو کہ اللہ تو برے کام کا حکم نہیں دیتا۔ تم اللہ کے بارے میں وہ کچھ کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں؟ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہو کہ میرے پروردگار نے تو ہمیشہ انصاف کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہر ایک نماز کے وقت تم سب اللہ کی طرف متوجہ ہوجایا کرو اور خالص اسی کی تابعداری میں نظر رکھ کر اس کو پکارو جس طرح تم کو پہلے پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم دوبارہ بھی پیدا ہوگے۔ اسی نے ایک فریق کو ہدایت دی اور ایک فریق ہے کہ گمراہی ان کے حق میں ثابت ہوچکی ہے، ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑکر شیطانوں کو اپنا دوست بنایا اور بایں ہمہ سمجھتے ہیں کہ وہ راہ راست پر ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُم
سورة الانعام
’’شیطان تو اپنے اولیاء کی طرف وحی کرتے ہی رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے کج بحثی کریں۔‘‘
ابراہیم خلیل علیہ السلام نے فرمایا:
يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا ﴿٤٥﴾
سورة مریم
’’اے میرے باپ ! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کی طرف سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں اور شیطان کے ولی (دوست) نہ بن جائیں۔‘‘
اور فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ ﴿١﴾ إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ ﴿٢﴾ لَن تَنفَعَكُمْ أَرْحَامُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ ۚ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَفْصِلُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴿٣﴾ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ﴿٤﴾ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٥﴾
سورة الممتحنہ
’’مسلمانو! اگر تم ہماری راہ میں جہاد کرنے اور ہماری رضا مندی ڈھونڈنے کی غرض سے اپنے وطن چھوڑ کر نکلے ہو تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائو کہ ان کی طرف دوستی کے نامہ و پیام دوڑانے لگو، حالانکہ تمہارے پاس جو اللہ کی طرف سے دینِ حق ہے وہ اس سے انکار ہی کرچکے ہیں، وہ تو صرف اتنی بات پر کہ تم اپنا پروردگار اللہ ہی کو مانتے ہو۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تم کو (گھروں سے) نکال رہے ہیں اور تم چپکے چپکے ان کی طرف دوستی کے پیغام دوڑا رہے ہو اور جو تم چھپا چھپا کر کرتے ہو اور جو ظاہر ظہور کرتے ہو ہم سب کو خوب جانتے ہیں اور جو تم میں سے ایسا کرے گا تو سمجھ لو کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا یہ کافر اگر کہیں تم پر قابو پا جائیں تو کھلم کھلا تمہارے دشمن ہوجائیں اور ہاتھ اور زبان دونوں سے تمہارے ساتھ برائی کرنے میں کوتاہی نہ کریں اور ان کی اصلی تمنا یہ ہے کہ کاش تم بھی انہی کی طرح کافر ہوجائو۔ قیامت کے دن نہ تمہاری رشتہ داریاں ہی تمہارے کچھ کام آئیں گی اور نہ تمہاری اولاد ہی کچھ کام آئے گی، اس دن اللہ ہی تم میں(حق و باطل کا) فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ مسلمانو! ابراہیم علیہ السلام اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے، تمہارے لیے ان کا ایک اچھا نمونہ ہو گزرا ہے جب کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم کو تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، لاتعلق اور بیزار ہیں، ہم تم لوگوں کے عقیدوں کو بالکل نہیں مانتے اور ہم میں اور تم میں کھلم کھلا عداوت اور دشمنی ہمیشہ قائم ہوگئی ہے اور یہ دشمنی ہمیشہ کے لیے رہے گی، جب تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائو مگر ہاں ابراہیم علیہ السلام کی اپنے باپ سے اتنی بات کہ میں تمہارے لیے ضرور مغفرت کی دعا کروں گا اور یوں تمہارے لیے اللہ کے آگے میرا کچھ زور تو چلتا نہیں اے پروردگار! ہم تجھی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے، اے ہمارے پروردگار! ہم کو کافروں کے زور و ظلم کا تختہِ مشق نہ بنا اور اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف کر، بے شک تو زبردست اور حکمت والا ہے۔‘‘


مذکورہ بالا آیات سے جب یہ معلوم ہوگیا کہ لوگوں میں رحمن کے ولی (دوست) بھی ہوتے ہیں اور شیطان کے بھی، تو ضروری ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں فرق بتایا ہے، اسی طرح ان میں امتیاز کیا جائے اور فرق ملحوظ رکھا جائے۔
نہ جانے کچھ لوگوں کو اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی شانیں قرآن میں کیوں نظر نہیں آتیں اللہ انہیں ہدایت دے آمین ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ولی وہ ہیں جو مومن ہوں اور متقی ہوں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾
سورة یونس
’’یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کے دوستوں پر نہ تو کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے یہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ پر کاربند رہے۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...