Monday, 29 December 2025

تہمت ، بہتان ، الزام تراشی اور جھوٹی گواہی کی سزا

تہمت ، بہتان ، الزام تراشی اور جھوٹی گواہی کی سزا

محترم قارئینِ کرام اللہ رب العزت کا ارشاد مبارک ہے : اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ ۔ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 105)

ترجمہ : جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں ۔


کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے ۔


جو کسی کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کا پیپ جمع ہوگا) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری ہو جائے ۔ (سنن ابو داود جلد 3 صفحہ 427 حدیث نمبر 3597)


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : کسی مسلمان پر تہمت لگانا حرام قطعی ہے ، خصوصاً زنا کی تہمت لگانا ۔ (فتاویٰ رضویہ جد 24 صفحہ 386)


کسی عورت پر بدکاری کی تہمت لگانا زیادہ خطرناک ہے جو کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور چار گواہوں کی مدد سے اسے ثابت نہ کر سکے تو اس کی شرعی سزا حدِ قذف یعنی سلطانِ اسلام یا قاضی شرع کے حکم سے 80 کوڑے مارے جائیں ۔


 کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے ۔ (معجم کبیر جلد 3 صفحہ 168 حدیث نمبر 3023)


فیض القدیر میں ہے : یعنی اگر بالفرض وہ شخص سو سال تک زندہ رہ کر عبادت کرے تو بھی یہ بہتان اس کے ان اعمال کو ضائع کر دے گا ۔ (فیض القدیر جلد 2 صفحہ 601)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھے ہوئے مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ بہتان لگانے والے ہیں ۔ (شرح الصدور صفحہ 184)


رسول اللہ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام سے استفسار فرمایا : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ صحابۂ کرام نے عرض کی ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں نہ مال ، ارشاد فرمایا : میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہوگی اور فلاں پر تہمت لگائی ہوگی ۔ (صحیح مسلم صفحہ 1029 حدیث نمبر 2581،چشتی)


مسلمانوں کےلیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والاہو،ایک اور حدیث میں ہے جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے تو وہ کہنے والے پر لوٹتا ہے ۔ (مسند امام احمد جلد 7 صفحہ 204)


ایک صحابی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو حضور مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گواہ لاؤ ، ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی ۔ (صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 280 حدیث نمبر 4747)


اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ کسی صحابی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی تو حضور مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا گواہ لاؤ ثابت کرو اس تہمت کو،بغیر ثبوت و گواہ کسی پر تہمت نہیں لگا سکتے ۔


حضور مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے غیبت کیا چیز ہے؟لوگوں نے عرض کی اللہ و رسول کو اس کا بہتر علم ہے ۔ ارشاد فرمایا : جو کچھ تم کہتے ہو اگر تو اس میں موجود ہو بھی تو غیبت ہے اور اگر تم ایسی بات کہو جو اس میں نہ ہو تو یہ بہتان ہے ۔ (سنن ابو داود حدیث نمبر 4883،چشتی)


جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی بات (کے گناہ) سے اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر نہ نکل جائے ۔ (سنن ابو داود حدیث نمبر 4883)


جہاں کسی مسلمان مرد کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اس کی مدد نہ کی تو اللہ تعالیٰ وہاں اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اسے پسند ہو کہ اس کی مدد کی جائے ۔ (سنن ابو داود حدیث نمبر 4883)


جہاں اس کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جا رہی ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا جہاں اسے محبوب ہو کہ اس کی مدد کی جائے ۔ (سنن ابو داود حدیث نمبر 4883)


جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ جائے ۔ (سنن ابو داود کتاب الادب حدیث نمبر 4883،چشتی)


جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے ۔ (سنن ابو داود صفحہ 571 حدیث نمبر 3597)


جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے ہی نہ پائیں گے کہ اللہ اس کے لیے جہنم واجب کر دے گا ۔ (سنن ابن ماجہ جلد 3 حدیث نمبر 2373،چشتی)


جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ جائے ۔ (سنن ابو داود حدیث نمبر 4883)


جس نے کسی ایسے شخص کے بارے میں کوئی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کردے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے ۔ (معجم الاوسط حدیث نمبر 8936)


جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نکل نہ جائے ۔ (سنن ابو داود جلد 3 صفحہ 427 حدیث نمبر 3597)


جس مرد نے اپنی لونڈی کو "اے زانیہ" کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی ، کیونکہ دنیا میں ان کے لیے کوئی حد نہیں ۔ (مستدرک حاکم حدیث نمبر 8171)


جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر) نہ نکل جائے ۔ (سنن ابو داود کتاب الادب حدیث نمبر 4883،چشتی)


جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا ۔ (معجم الاوسط حدیث نمبر 8936)


جہاں کسی مسلمان مرد کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اس کی مدد نہ کی تو اللہ پاک وہاں اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اسےپسند ہو کہ اس کی مدد کی جائے ۔ (سنن ابو داود کتاب الادب حدیث نمبر 4884)


جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے ۔ (سنن ابو داود جلد 3 صفحہ 427 حدیث نمبر 3597)


ایک صحابی نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی حضور اقدس مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد لگائی جائے گی انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی شخص اپنی عورت پر کسی مرد کو دیکھے تو گواہ دیکھنے جائے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جواب دیا ، پھر انہوں نے کہا : قسم ہے اسکی جس نے حضور اکرم مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! بے شک میں سچا ہوں اور خدا کوئی ایسا حکم نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچادے ۔ (صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 280 حدیث نمبر 4747)


جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے ۔ (سنن ابو داود جلد 3 صفحہ 427 حدیث نمبر 3597)


ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا ۔


جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(اس سے مراد ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلارہے گا) ۔ (معجم الاوسط من اسمہ مقدام جلد 6 صفحہ 327 حدیث نمبر 8936)


جس مرد یاعورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی،کیونکہ دنیا میں ان کےلیے کوئی حد نہیں ۔ (مستدرک حاکم کتاب الحدود ذکر حد القذف حدیث نمبر 8171)


سات ہلاکت کی چیزوں سے بچو ۔ لوگوں نے پوچھا:حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک ، جادو ، ناحق اس جا ن کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی ، سود خوری ، یتیم کا مال کھانا ، جہاد کے دن پیٹھ دکھا دینا ، پاک دامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا ۔ (مرآۃ المناجیح جلد 1 کتاب الایمان حدیث نمبر 52)


یعنی جو نیک بخت زنا کو جانتی بھی نہ ہوں انہیں تہمت لگانا ، لہٰذاکسی عورت کو غصہ میں زانیہ یا بد معاش کہنا بھی اس میں داخل ہے ، غافلہ عورت کو تہمت لگانا بہت زیادہ گناہ ہے جس کی سزا دنیا میں کوڑے اور آخرت میں سخت عذاب ہے ۔


نبی کریم مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا ، میں نے جبرئیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزامِ گناہ لگانے والے ہیں ۔ (شرح الصدور صفحہ 184)


ہر شخص کو چاہیے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا جس کسی کے سامنے کسی مسلمان پر بہتان باندھا جا رہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رد کرے اور انہیں اس سے منع کرے اور جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہا ہو اس کی عزت کا دفاع کرے،بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کیا جائے ۔


اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ ۔ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا ۔ (سورہ اسراء آیت نمبر 36)

ترجمہ : اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے عِلم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔


جس بات کا عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑنے سے مُراد یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو اُس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے دیکھا ہے اور جس بات کو سُنا نہ ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ میں نے سنا ہے ۔ ایک قول  کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ جھوٹی گواہی نہ دو ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ کسی پر وہ الزام نہ لگاؤ جو تم نہ جانتے ہو ۔ (تفسیر مدارک جلد 1 صفحہ 714،چشتی)


تمام اَقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں جھوٹی گواہی دینے ، جھوٹے الزامات لگانے اور اس طرح کے دیگر جھوٹے اقوال کی مُمانَعَت کی گئی ہے ۔


جھوٹی گواہی دینے اور غلط الزامات لگانے کی مذمت : ⏬


یاد رہے کہ جھوٹی گواہی دینا اور کسی پر جان بوجھ کر غلط الزام لگانا انتہائی مذموم فعل ہے ۔ یہاں ان سے متعلق احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں : ⏬


جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کےلیے جہنم واجب کر دے گا ۔ (ابنِ ماجہ جلد 3 صفحہ 123 حدیث نمبر 2373)


جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے ۔ 

(سنن ابو داؤد جلد 4 صفحہ 354 حدیث نمبر 4883)


جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) ”رَدْغَۃُ الْخَبَالْ“ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد 11 صفحہ 425 حدیث نمبر 20905،چشتی)


جھوٹی گواہی  اور الزام تراشی  میں لوگوں کی حالت زار : ⏬


افسوس ! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں ، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب ہی یہی تھا ، اب کس نے بتایا ؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبَر تھا ؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا ؟ اُس کے پاس کیا قابلِ قبول ثبوت ہیں ؟ اُس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا ؟ کوئی معلوم نہیں ۔ زیرِ تفسیر آیت اور بیان کردہ احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے ۔


کان ، آنکھ اور دل کے بارے میں سوال ہوگا : ⏬


آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان ، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا ، یہ سوال اس طرح کا ہو گا  کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا ؟ کان کو قرآن و حدیث ، عِلم و حکمت ، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو ، بےکار ، غیبت ، اِلزام تراشی ، زنا کی تہمت ، گانےباجے اور فحش سننے میں لگایا ۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں ، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یا غلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات  ہوتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں جھوٹی گواہی اور الزام تراشی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت اور رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

امن ، استحکام ، انسانی حقوق اور اسلام

امن ، استحکام ، انسانی حقوق اور اسلام محترم قارئینِ کرام اللہ رب العزت کا ارشاد مبارک ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ ...