Friday, 31 October 2025

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

محترم قارئینِ کرام : جناب غازی علم دین شہید رحمتہ اللہ علیہ کی حیات و کارنامہ تاریخ‌ اسلامی کا وہ تابندہ ، روشن اور قابل فخر راہ عمل ہے جس پر جہاں‌ ہر مسلمان کو فخر ہے تو وہیں‌ اس راستے کی وجہ سے گستاخانِ‌ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہیبت طاری رہتی ہے ۔


ہندو آریہ سماج تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دل آزار کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی، 1923ء کے اواخر میں اس تنظیم کے سرگرم رکن راجپال نے ایک ایسی دل آزار کتاب شائع کی، جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئی تھیں ۔ کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا ۔ مسلمانوں نے احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنے شروع کر دیے ۔ ملزم راجپال کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔ پھر راجپال کو 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوا ۔ بعدازاں ہائی کورٹ نے نہ صرف ملزم کو بری کر دیا ، بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا ۔ اس دل آزار کتاب کی اشاعت جا ری رہی ۔


پڑا فلک کو ابھی دل جلوں سے کام نہیں

جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں


چھ اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے ؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ میں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا اور کہا ” یہی کام تھا“ غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اس مقدمہ کی وکالت کے لیے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی ۔


اکتیس اکتوبر 1929ء کو علم الدین رحمۃ اللہ علیہ نے حسب معمول تہجد کی نماز پڑھی اور بارگاہِ الٰہی میں دعاگو ہی تھے کہ انھیں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کمرے کے بند دروازے کے سامنے ہی کسی کے رکنے کی آواز کے کھٹکے پر غازی صاحب نے جو ادھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہہ نکلے… آپ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم گواہ رہنا کہ میری آخری آرزو کیا تھی۔ آپ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی… اتنی جلدی آخر کس لیے تھی؟ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کہیں مجسٹریٹ یہ تصور نہ کرے کہ محض زندگی کی آخری گھڑیوں کو طول دینے کے لیے دیر کر رہا ہوں۔ داروغہ جیل نے بند دروازہ کھولا… آپ اٹھے اور مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھتے ہوئے انھوں نے مجسٹریٹ سے کہا ۔ چلیے ! دیر نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ تیز تیز قدم اٹھاتے تختہٴ دار کی جانب چل پڑے۔ ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا… جواباً اس نے نعرہٴ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلند کیا ۔ تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل میں سبھی قیدی علم الدین کو مبارک باد دینے کے لیے ساری رات سے جاگ رہے ہیں ۔ کلمہ شہادت کے ورد سے فضا گونج رہی تھی ۔ علم الدین لمحہ بھر کے لیے رکے … مجسٹریٹ اور پولیس کے دستے کی طرف دیکھا ، ان کے لب ہلے اور پھر چل دیے ۔


تختہٴ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ مسلح پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے ۔ سب کی نظریں آپ پر جمی ہوئی تھیں ۔ ان کی نظروں نے اس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختہٴ دار تک پہنچتے دیکھا تھا ، لیکن جس شان اور قوتِ ارادی سے انھوں نے علم الدین کو تختہٴ دار کی جانب بڑھتے دیکھا ، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جو ”حیات“ علم ا لدین کو نصیب ہونے والی تھی، اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند رہتا ہے۔اس وقت آپ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور آپکو سیاہ رنگ کا لباس پہنا دیا گیا ۔ جب مجسٹریٹ نے آپ سے آپ کی آخری خواہش پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ ”میں پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں ۔


بعد ازاں غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ۔ اس دوران میں آپ نے اردگرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”تم گواہ رہو کہ میں نے حرمت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے راجپال کو قتل کیا ہے۔ اور گواہ رہنا کہ میں عشق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں ۔ آپ نے کلمہ شہادت با آوازِ بلند پڑھا اور پھر رسنِ دار کو بوسہ دیا۔ علم الدین حقیقت میں ہر اس شے کو مبارک سمجھتے تھے جو ان کو بارگاہِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں پہنچانے کا ذریعہ بن رہی تھی ۔ آپ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا ۔


مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا … چند لمحوں میں ہی آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی … اس نے جسم کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نہ ہونے دی ۔ گویا حضرت عزرائیل علیہ السّلام نے عاشق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جان ان کے جسم سے رسہ لٹکنے سے پہلے ہی قبض کر لی ہو اور پھانسی کی زحمت سے بچا لیا ہو ۔ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے لاشہ کو پھانسی کے تختہ سے اتارا گیا ۔


زینتِ دار بنانا تو کوئی بات نہیں

نعرہٴ حق کی کوئی اور سزا دی جائے


ادھر جیل کے باہر غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ حکام لاش ان کے حوالے کریں۔ لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ علم الدین کی میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے۔ انھیں خطرہ تھا کہ مسلمان جلسے اور جلوس نکالیں گے، جن سے حالات خراب ہوں گے۔غازی علم الدین شہید کی شہادت پر میانوالی میں فرنگی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکلے، ہڑتالیں ہوئیں، شہید کا سوگ منایا گیا، غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ شہیدکے جنازہ میں قیدیوں کے علاوہ کچھ مقامی مسلمانوں نے بھی شرکت کی۔ حکومت وقت نے میانوالی کے کئی افراد کو گرفتار کیا، ان پر مقدمہ چلایا، جس میں ان کو چھ چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ غازی علم الدین شہید کی شہادت کے بعد ناعاقبت اندیش گورنر کی ہدایت کے مطابق غازی شہید کو بے یار و مددگار ایک مردہ اور بے بس قوم کا فرد سمجھ کر اس کی پاک میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔


جب یہ خبر لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو ہر طرف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد جیفری ڈی مونٹ مورنسی گورنر پنجاب سے ملا اور اپنا مطالبہ پیش کیا۔ بالآخر چند شرائط کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ مسلمانوں کا ایک وفد ”سید مراتب علی شاہ“ اور ”مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن“ کی قیادت میں 13 نومبر 1929ء کو میانوالی آیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ میانوالی کے ایک معمار نے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصباح غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کا جسد خاکی بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے ۔


معمار نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعش میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا اور نعش سے مسحور کن خوش بو آ رہی تھی ۔ انھوں نے ڈی سی میانوالی کی کوٹھی پر شہیدکی نعش کو بکس میں محفوظ کیا ۔ یہاں سے نعش کو اسٹیشن میانوالی لایا گیا ۔ اور ایک اسپیشل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور پھر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کو سپردِ خاک کر دیا گیا ۔


یاد رہے کہ غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔ نمازِ جنازہ 4 بار پڑھائی گئی ۔ پہلی بار نمازِ جنازہ مولانا محمد شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی ، دوسری بار نمازِ جنازہ حضرت علامہ سید دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ، تیسری بار سید احمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور چوتھی بار حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی ۔ اس وقت انھوں نے اپنی داڑھی مبارک پکڑ کر روتے ہوئے اپنے آپ سے کہا کہ ”تو سید زادہ ہے اورتمہارے ہزاروں مرید ہیں ، لیکن ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا ۔“ بعدازاں انھوں نے مزار مبارک کی تعمیر کروائی ۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا ۔ میت کو ”مولانا سید دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ“ اور حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید کا ماتھا چوما اور کہا : اَسی تے گلاں کر دے رہ گئے، تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا ۔


غازی علم الدین شہید:شھداء ناموس رسالت کے خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اْن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا: ’’اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تے تَرکھاناں دَا مْنڈا بازی لے گیا ۔ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔)


علم الدین کو جب معلوم پڑا کہ راجپال نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہیں رہا نہیں گیااپنے والد سے اس کمینے کا ذکر کیااور بے چینی کے عالم میں سوگئے۔اْس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ’’تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔‘‘ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے(انکے دوست) کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔اور پھر موقع پاکر پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو۔ مارگیا مارگیا۔ علم دین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ء4 کو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر1929 ء 4 کو عمل درآمد ہوا ۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپردِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔


عشق رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سچے اور پکے مومن اور مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پر اپنی جان قربان کرکے خود کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس عظیم عاشق رسول غازی علم دین شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے امت مسلمہ ہرسال ان کی یاد میںشمعیں روشن کرتی ہے۔ غازی علم الدین شہید ؒ کا جرات مندانہ کردار آج تک مسلمانوں میں زندہ ہے۔ملک بھر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے قرآن خوانی ،سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخ کی سزا سر تن سے جدا اسلام کا بنیادی دستور وقانون ہے۔جس پر تمام مسلمان ہر لحاظ سے متفق اور اس کوتسلیم بھی کرتے ہیں ۔


علم دین 4 دسمبر 1908 ء میںکوچہ چابک سوارں لاہور میںطالع مند کے گھر پیدا ہونے والا ایک عاشق رسول تھا۔ طالع مند لکڑی کے بہت اچھے کاریگر تھے ۔علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسہ سے حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کے ساتھ ہی کام کرنا شروع کر دیا۔علم دین کے والد فرنیچر بنانے کے ہنرمند کاریگر تھے وہ اکثرشہر سے باہر جب بھی کام کے سلسلہ میں جاتے توعلم دین ان کے ساتھ جاتا تھا۔علم دین کا ایک بھائی پڑھ لکھ کر ایک سرکاری نوکری کرنے لگاجبکہ ایک بھائی محمد امین والد اور بھائی علم دین کے ساتھ کام کرتا رہا۔تقسیم ہند سے پہلے ہونے والے ایک واقعہ نے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں ہلچل مچاکر رکھ دی تھی ۔


1923 ء میںلاہور کے ایک ناشر راج پال انتہا پسند ہند و نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں ایک گستاخانہ کتاب ایک فرضی نام سے لکھی ۔ کتاب میں انتہائی نازیبا باتیںلکھی تھیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کتاب کے شائع ہونے سے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب پر فوری پابندی لگانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جس پر اس ناشر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔ سیشن کورٹ کے مجسٹریٹ نے راج پال کو مجرم قرار دیتے ہوئے صرف چھ ماہ قید کی سزا سنادی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل کی گئی ۔ کیس کی سماعت میں مجرم راجپال کو جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے رہا کردیا کہ اس وقت مذہب کے خلاف گستاخی کا کوئی قانون موجود نہ تھا۔جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا۔ انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے احتجاجی جلسے جلوس نکالنے شروع کر دئیے۔مسلمانوں نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں ایک احتجاجی تحریک شروع کردی۔مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں میں یہ احساس بیدار ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی کوشش میںہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا ۔ سب سے پہلے لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ راج پال کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا ۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔اس کے بعد افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا، اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد بہت خوفزدہ ہوگیا ۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔ راج پال کچھ عرصے کے لئے لاہور چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا۔ علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے بالاآخر اس کو اس کے آخری انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا ۔ علم دین اپنے ایک قریبی دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے سامنے احتجاج میں شامل تھا جو ہندو راجپال کے خلاف نعرے لگارہا تھا۔ جذبات کا ایک سمندر اس ہجوم کے نعروں کی گونج میں امنڈ رہا تھا۔ امام مسجد نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا۔ ’’مسلمانوں شیطان راج پال نے اپنی کتاب میں ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے رہا کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ امام مسجد کے یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا ۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست رشید سے کیاوہ بھی گستاخ راج پال کو مزا چکھانا چاہتا تھا۔ دونوں نے اس مسئلے پر تین بار قرعہ اندازی کی اور تینوں بار علم دین کا نام آیا، آخرکار رشیدعلم دین کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اللہ پاک نے یہ سعادت شائد علم دین کے ہی نصیب میں لکھ رکھی تھی ۔


6 اپریل 1929ء کو علم دین بازار سے ایک چھری لے کر راجپال کی دکان کی طرف چل پڑا۔ راج پا ل ابھی دکان پر نہیں آیا تھا۔ علم دین نے اس کا انتظار کیا اور جیسے ہی راجپال اپنی دکان میں داخل ہوا علم دین نے چھری سے اس پر زوردر وار کیا جو اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔راج پال موقع پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرکے اس پر قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا،مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، عدالت نے علم دین کو سزائے موت سنادی۔ قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ’’مسلمانوں کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔‘‘31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر عملدرآمد کا دن تھا ۔


سزائے موت سے قبل علم دین سے آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود لوگوں سے کہا ’’اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راج پال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرنے پر جہنم واصل کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے حرمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔‘‘غازی علم دین نے اپنے رشتہ داروں کو جو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰت برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں ۔


غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نماز جنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور 4 نومبر 1929 ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد(جن میں سر فہرست شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری صاحبان شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی ۔


13 نومبر 1929 ء کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر لیا گیا۔15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبرسے نکالا گیا تو ان کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔ جسد خاکی بالکل صحیح وسالم اور اس میں سے خوشبو آرہی تھیں، چہرہ حسن و جمال کا حسین امتزاج تھا، اور ہونٹوں پر مسکراہٹ جھلک رہی تھی ۔


علم دین شہید کے والد طالع مند نے علامہ اقبال سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔‘‘غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں6 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سچے عاشق رسول غازی علم دین شہیدکے جنازے کو کندھا دے پائے ۔ لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے ۔ بغیر چھت مزار کے چہار وں اطراف برآمدہ ہے، مزار کے ساتھ ہی غازی علم دین شہیدکے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرام گاہیں موجود ہیں ۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئی اشعار کندہ ہیں ۔


علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی آنکھیںنم ہوگئیں انہوں نے کہا۔ کہ ’’ایک ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘ علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے انگریزوں کو اپنے قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک علم دین کی شہادت قانون میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے قانون کو ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی سزا کم از کم سزا موت قراردے دی ۔


غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پراپنی جان کو قربان کرکے رہتی دنیا تک ایک لازوال مثال قائم کردی ، شہید کا کردار اسلام اور حق و سچ کی سربلندی کے لئے مسلمانوں کے لئے تا قیامت مشعل راہ رہے گا۔گستاخ رسول راجپال کو جہنم رسید کرنے والے سچے عاشق رسول غازی علم دین شہید کے 31 اکتوبر2016ء کو 87 ویںیوم شہادت کے موقع پر ملک بھر میں سیمینارز،قرآن خوانی اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں غازی علم دین شہید کو خوبصورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ محترم قارئینِ کرام : جناب غازی علم دین شہید رحمتہ اللہ علیہ کی حیات و کارنامہ ...