انبیاءِ کرام علیہم السلام کی میراث درہم و دینار نہیں ہوتا
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ ۔ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ (سورہ نمل آیت نمبر 16)
ترجمہ : اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے ۔
یہاں آیت میں نبوت ، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت ، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم،نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ (روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷،چشتی)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے ۔ اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے ، چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب ۔ (الاعراف : ٩٦١) ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : ٢٣) ، پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب ۔ (المومن : ٣٥) ، اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب ۔ (الشوری : ٤١) ، بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی
امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 571 ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج 3 ص 2491‘ مطبوعہ ایران ‘ 4141 ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری متوفی 117 ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : 98‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : 6۔ 5) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔ ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : 61) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعاہ ہے : اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج 1 ص 325‘ مجمع الزوائد ج 01 ص 871)
ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العربج 2 ص 102۔ 991‘ ملخصا ‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : 5041 ھ،چشتی)
علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 205 ھ لکھتے ہیں وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : 9191‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : 388‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1103‘ المستدرک ج 1 ص 64)
قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : 6) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 304)
اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691)
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض ۔ (آل عمران : 081) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : 961) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : 41) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : 23) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : 9542) (المفردات ج 2 ص 376۔ 276‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ 8141 ھ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٠٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٦٩٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩١٧١‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٧٥١١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٨٠٥٢)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کےلیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کےلیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١‘ سنن الداری رقم الحدیث : ٩٤٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٨‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : ٣٢١‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٩٢١)
شیعہ محقق و عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی ٨٢٣ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ الحدیث ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٢٢‘ مطبوعہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ،چشتی)
ترجمہ : ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے ۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران ٨٨٣١ ھ)
یہی شیعہ محقق و عالم مزید لکھتا ہے کہ : المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٥٢٢۔ ٤٢٢‘ ایران)
ترجمہ : ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
ان تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت دائود علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔
وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی : ⏬
امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج ٣ ص ٢٤٩١‘ مطبوعہ ایران ‘ ٤١٤١ ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١١٧ ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : ٩٨‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : ٦۔ ٥) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔
ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : ٦١) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعاہ ہے :
اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج ١ ص ٣٢٥‘ مجمع الزوائد ج ٠١ ص ٨٧١)
ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العرب ج ٢ ص ١٠٢۔ ٩٩١‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : ٥٠٤١ ھ،چشتی)
علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩١٩١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٠٣‘ المستدرک ج ١ ص ٦٤)
قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : ٦) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤ ( اور آپ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض (آل عمران : ٠٨١) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : ٩٦١) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : ٤١) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : ٢٣) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٩٥٤٢)،(المفردات ج ٢ ص ٣٧٦۔ ٢٧٦‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
اہل سنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کسی کو مال وارث نہیں بناتے کیونکہ انبیاء کے نزدیک مال کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے اور نہ وہ مال کو جمع کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث کرتے ہیں اور ان کی جو اولاد ان کی وارث ہوتی ہے ‘ وہ علم اور نبوت میں ان کی وارث ہوتی ہے ‘ اور اہل تشیع کے نزدیک چونکہ حضرت سید تنا فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چھوڑے ہوئے باغ فدک کی وارثہ تھیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام مال جمع کرتے ہیں اور مال کا وارث بناتے ہیں ‘ اس لیے سنی مفسرین کے نزدیک وورث سلیمن داود (النمل : 61) کا معنی ہے حضرت سلیمان علیہ السّلام حضرت داؤد علیہ السلام کے مال کے وارث ہوئے ۔ سو ہم اس آیت کی تفسیر پہلے سنی مفسرین سے نقل کریں گے پھر شیعہ مفسرین سے نقل کریں گے پھر اس مسئلہ میں سنی ائمہ کی اور شیعہ ائمہ کی روایات احادیث پیش کریں گے پھر اخیر میں شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات کا ذکر کریں گے ۔ فنقول وباللہ التوفیق ۔
سنی مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت داؤد کی نبوت اور علم کے وارث تھے نہ کہ مال کے
شیعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال ہوتی ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ اگر مال وراثت ہوتا تو حضرت داؤد علیہ السّلام کے انیس بیٹے تھے سب وارث بنتے۔(تفسیر مظہری مترجم اردوجلد ہفتم صفحہ نمبر 153 ،154)
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی کس چیز کے وارث ہوئے ‘ اس کے متعلق علامہ علی بن محمد ماوردی متوفی 054 ھ لکھتے ہیں :
(1) قتادہ نے کہا حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ کلبی نے کہا حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ اور صرف حضرت سلیمان کو ان کی وارثت کے ساتھ خاص کیا گیا کیونکہ یہ نبوت اور ملک کی وراثت تھی اگر یہ مال کی وراثت ہوتی تو اس وراثت میں ان کی تمام اولاد برابر کی شریک ہوتی ۔
(2) ربیع نے کہا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے بھی جنات اور ہوائوں کو مسخر کردیا گیا تھا ۔
(3) ضحاک نے کہا حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی زندگی میں حضرت سلیمان کو بنی اسرائیل پر خلیفہ بنادیا تھا ‘ اور اس وراثت سے مراد ان کی یہی ولایت ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ علماء دین میں انبیاء کے قائم مقام ہیں ۔
یہاں آیت میں نبوت ، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰،چشتی)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم ، نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی،تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے۔اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)
وَ قَالَ : اورفرمایا ۔ یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے فرمایا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور دنیا و آخرت کی بکثرت نعمتیں ہمیں عطا کی گئی ہیں ، بیشک یہی اللہ تعالٰی کاکھلا فضل ہے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالٰی کی نعمتیں : مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی مملکت عطا فرمائی۔ چالیس سال آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے مالک ر ہے۔ پھر پوری دنیا کی مملکت عطا فرمائی، جن و اِنس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتیں ایجاد ہوئیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۴۰۴)
امام الحسین بن مسعود بغوی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 215 ھ لکھتے ہیں : حضرت سلیمان حضرت دائود کی نبوت ‘ ان کے علم اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ نہ کہ ان کی باقی اولاد ‘ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ حضرت سلیمان کو حضرت دائود کا ملک عطا کیا گیا اور ہوائوں اور جنات کی تسخیر ان کو زیادہ دی گئی ‘ مقاتل نے کہا حضرت سلیمان کا ملک حضرت دائود کے ملک سے زیادہ تھا اور وہ ان سے اچھا فیصلہ کرنے والے تھے۔ حضرت دائود ‘ حضرت سلیمان سے زیادہ عبادت گزار تھے اور حضرت سلیمان ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ (معالم التنزیل ج 3 ص 494‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 0241 ھ)
امام محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے بلکہ اس میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے وہ فرماتے ہیں : اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو پھر اس کے بعد یا یھا الناس علمنا منطق الطیر کا کوئی فائدہ نہ تھا اور جب اس سے مراد نبوت اور ملک کی وراثت ہو تو یہ کلام عمدہ ہے کیونکہ پرندوں کی بولی کا سکھانا بھی علوم نبوت کے ساتھ مربوط اور متصل ہوگا جبکہمال کے وارث کا پرندوں کی بولی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے ‘ اس فضل کا تعلق بھی علم اور نبوت کی وراثت سے ظاہر ہے اور مال کے وارث کا فضیلت والا ہونا ظاہر نہیں ہے کیونکہ مال کا وارث تو کامل شخص بھی ہوتا ہے اور ناقص بھی ‘ نیک بھی اور بدکار ‘ اسی طرح اس کے بعد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا ذکر کیا گیا اس کا ربط اور تعلق بھی اسی صورت میں ظاہر ہوگا جب اس وراثت سے مراد علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت ہو نہ کہ مال کی وراثت مراد ہو ۔ (تفسیر کبیر ج 8 ص 745‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 5141 ھ)
امام عبدالرحمن علی بن محمد جوزی جنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 795 ھ ‘ علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی 866 ھ ‘ حافظ ابن شافعی متوفی 477 ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوقی ‘ 7311 ھ ‘ علامہ محمودآلوسی حنفی متوفی 0721 ھ ‘ ان سب نے یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ نبوت اور ملک میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے اور مال کی وراثت میں یہ سب برابر کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شریک تھے ‘ اور اس آیت میں صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حضرت دائود (علیہ السلام) کا وارث قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی نبوت ‘ انکے علم اور ان کے ملک کے وارث تھے۔ (زادالمسیر ج 6 ص 951‘ الجامع لاحکام القرآن جز 31 ص 351،چشتی)(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 493‘ دارالفکر ‘ 8141 ھ )(روح البیان ج 6 ص 024‘ داراحیاء التراث العربی ‘ 1241 ھ )(روح المعانی جز 91 ص 552‘ دارالفکر ‘ 7141 ھ)
شیعہ مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کے مال کے وارث تھے نہ کہ نبوت اور علم کے
شیعہ مفسر ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی 064 ھ لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت سلیمان حضرت دائود کے وارث ہوئے ‘ اب اس میں اختلاف ہے کہ وہ کس چیز کے وارث ہوئے ‘ ہمارے اصحاب نے کہا کہ وہ مال اور علم کے وارث ہوئے اور ہمارے مخالفین نے کہا وہ علم کے وارث ہوئے ‘ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے ‘ ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ اور میراث کی حقیقت یہ ہے کہ گزرنے والے کی موت کے بعد اس کا ترکہ اس کے رشتہ داروں میں سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کردیا جائے اور اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ اعیان (ٹھوس مادی چیزوں مثلاً مال و دولت ‘ زمین اور سازوسامان وغیرہ) کو منتقل کیا جائے اور میراث کا لفظ جب علم کے معنی میں استعمال کیا جائے گا تو وہ مجاز ہوگا اور انہوں نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآن کے عام کو خاص کرنا جائز ہے اور نہ اس کو منسوخ کرنا جائز ہے ‘ اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے اور انمیں سے صرف حضرت سلیمان کو وارث بنایا گیا اگر اس آیت میں مال کی وراثت مراد ہوتی تو اس میں تمام بیٹے شریک ہوتے نہ کہ صرف حضرت سلیمان ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی خبر واحد سے ثابت ہے سو اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج 8 ص 38۔ 28‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات
شیخ طوسی کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میراث کا لفظ عام ہے اور اہل سنت نے اس کو علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ‘ اور قرآن مجید کے عام کو خاص کرنا جائز نہیں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل علماء شیعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ انہوں نے اس وراثت کو مال کے ساتھ خاصل کرلیا ہے جبکہ وراثت عام ہے خواہ اس سے مال کا نتقال ہو یا علم ‘ نبوت اور فضائل کا انتقال ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ جب مخصص عقل یا عرف ہو تو عام کی تخصیص جائز ہے جیسے قرآن مجید میں ہے : قل نفس ذآئقۃ الموت ط۔ (الانبیائ : 53) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ۔ اس آیت کے عموم میں اللہ تعالیٰ شامل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر موت کا آنا محال ہے ‘ اور اس کا مخصص عقل ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : واو تینا من کل شیء ط۔ (النمل : 61) اور ہمیں ہر چیز سے عطا کیا گیا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ٹینک ‘ طیارے اور میزائل نہیں عطا کیے گئے تھے ‘ اس کے لیے یہاں پر ” ہر چیز “ سے مراد ان کے زمانہ کی تمام چیزیں ہیں اور اس کا مخصص عرف ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا : انی فضلتکم علی العلمین۔ (البقرہ : 74) بیشک میں نے تم کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔
اور ظاہر ہے بنی اسرائیل کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کی امت پر فضیلت نہیں دی گئی تھی ‘ سو یہاں بھی عرف اور عقل اس کا مخصص ہے اور مرد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو انکے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔
اسی طرح قرآن مجید میں یہ آیت ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا لذین یقیمون الصلوۃ ویؤ تون الزکوۃ وھم رکعون۔ (المائدہ : 55) تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں ۔ اس آیت میں تمام ایمان والوں کو مسلمانوں کا ولی فرمایا ہے ‘ لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی ولایت اور امامت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔ خود شیخ طوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے : یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کی امامت بلا فصل پر واضح دلیل ہے ۔ (التبیان ج 2 ص 955‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
چھٹی صدی کے علماء شیعہ میں سے شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی نے بھی یہی لکھا ہے نیز انہوں نے لکھا ہے : یہ آیت اس پر نص صریح ہے کہ ایمان والوں سے مراد حضرت علی ہیں اور یہ آیت ان کی امامت پر نص ہے اور اس آیت سے عموم مراد نہیں ہے اور یہ آیت حضرت علی کے ساتھ خاص ہے۔ (مجمع البیان ج 3 ص 623‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
اسی طرح السید محمد حسین الطبا طبائی متوفی 3921 ھ نے لکھا ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ (المائدہ : 55) اور فان حزب اللہ ھم الغلبون (المائدہ : 651) یہ دونوں آیتیں عام نہیں ہیں ‘ یہ دونوں آیتیں حضرت علی کے ساتھ خاص ہیں اور یہ چیز سنی اور شیعہ کی بہ کثرت روایات سے ثابت ہے۔ (المیز ان ج 6 ص 5‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ طہران ‘ 2631 ھ)
حالانکہ ان دونوں آیتوں میں الذین امنوا اور حزب اللہ کے الفاظ عام ہیں لیکن علماء شیعہ نے روایات کی بنا پر ان کو خاص کرلیا ہے ‘ اسی طرح قرآن مجید میں ہے :
یایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک ط وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ط واللہ یعصمک من الناس ط۔ (المائدۃ : 76) اے رسول ! آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (بالفرض) ایسانہ کیا تو آپ نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ‘ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے ضرر) سے بچائے گا ۔
اس آیت میں لفظ ” ما “ عام ہے یعنی جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا یعنی تمام احکام شرعیہ اور تمام خبریں آپ پر امت کو پہچانی ضروری ہیں لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی خلافت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔
شیخ طوسی لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں ‘ اور آپ اس سے ڈرتے تھے کہ آپ کے اصحاب پر یہ دشوار ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تاکہ آپ بہادری سے اللہ کا یہ حکم سنائیں۔ (التبیان ج 3 ص 885‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیعہ مفسر طبرسی لکھتا ہے : یہ آیت حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ حضرت علی کے متعلق تبلیغ کریں سو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں جس کا مولیٰ ہوں علی اس کے مولیٰ ہیں ‘ اے اللہ ! جو علی سے محبت رکھے اس سے محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ ‘ اور حضرت ابو جعفر اور حضرت ابو عبد اللہ سے مشہور وایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں۔ (مجمع البیان ج 4 ص 443‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
ان آیات میں قرآن مجید کے لفظ عام کو خاص کرنے کے باوجود شیخ طبرسی اور شیخ طبا طبائی نے وورث سلیمن داود (النمل : 61) کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد حضرت سلیمان کو مال کا وارث بنانا ہے اور علم اور نبوت کا وارث بنانا مراد نہیں ہے ۔ (مجمع البیان ج 7 ص 433‘ المیز ان ج 51 ص 283‘ مطبوعہ طہران ‘ 2631 ھ،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب۔ (الاعراف : 961) پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : 23) پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب۔ (المومن : 35) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب۔ (الشوری : 41) بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر ؓ نے حضرت عباس اور حضرت علی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3304‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : 7571‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 5692‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 9171‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 67511‘ مسند احمد رقم الحدیث : 28052)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691‘ سنن الداری رقم الحدیث : 943‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 88‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : 321‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : 921)
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث نہ بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ شیعہ
شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی 823 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا۔ الحدیث۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 23‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 222‘ مطبوعہ ایران ‘ 8831 ھ)
ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران 8831 ھ)
المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 522۔ 422‘ ایران)
ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
ان تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت داٶد علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔
شیعہ مذھب کے اصول اربعہ کی اوّل کتاب اصول کافی میں موجود ہے : محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن خالد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق (رضی الله تعالی عنہ) نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لیے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں ۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا ، اس نے کافی حصہ پا لیا ۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو ۔ ہم اہل بیت کےخلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اورجابلوں کی تاویلوں کو ۔ (اصول الکافی الشیخ الکلینی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 17)
یہی روایت شیعہ کے جیّد عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب “الخصاص” میں بھی بیان کی ہے : وعنه، عن محمد بن الحسن بن أحمد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن السندي بن محمد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذلك أن العلماء لم يورثوا درهما ” ولا دينارا ” وإنما ورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا “، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء بیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بنانے دربم یا دینار کا، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا، اس نے کافی حصہ پا لیا۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو۔ ہم اہل بیت کے خلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اور جابلوں کی تاویلوں کو ۔ (كتاب الاختصاص الشيخ المفيد صفحہ 16)
شیعہ مذھب کی کتاب اصول الکافی میں موجود ہے جس میں نبی کریم سے واضح الفاظ میں مروی ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے :محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به (3) طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به (4) وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر ۔
ترجمہ : رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا دین کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح ستاروں پر چاند کی فضیلت اور چاندنی رات پر فضیلت ہے اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم و دینار ، بلکہ وہ وراثت میں چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا ، اس نے بڑا حصہ پا لیا ۔ (کتاب اصول الكافي – الشيخ الكليني – ج ۱ – الصفحة ۱۹) ، اصول الکافی کی اس حدیث کو خمینی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ۔
شیعہ مذھب کی مشہور کتاب قرب الاسناد میں موجود ہے اور علامہ الحمیری القمی نے بحار الانوار کے حوالے سے بیان کی ہے : جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔
ترجمہ : حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عیوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے ۔ (قرب الاسناد الحمیری القمی ص 91,92،چشتی)(بحوالہ المجلسي في البحار 16: 219 / 8)
کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن من العقار شيئا) علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى ، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔ عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں ، ان کے چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث ج ۷ ص ۱۳۷،چشتی)
يونس بن عبد الرحمان عن محمد بن حمران عن زرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔
ترجمہ : حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا عورت زمین و جائیداد میں سے کسی کی وارث نہیں ۔ (کتاب تھذیب الاحکام الشیخ الطوسی ج 9 صفحہ 254)
جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے : میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا ۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے ۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین‘‘ صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ترجمہ از فارسی،چشتی)
شیعہ حضرات جنہیں معصوم مانتے ہیں انہیں میں سے پانچویں امام (امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے روایت کیا ہے ۔ اور خود ان کی اپنی کتاب میں موجود ہے ، ہاں ہاں ! ان کی اپنی کتاب ’’الکافی‘‘ میں ، جسے وہ سب سے صحیح کتاب سمجھتے ہیں اور جس کے بارے میں کہتے ہیں ، شیعہ کے لیے یہ کتاب کافی ہے ۔ اسی کتاب میں کلینی نے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : جعفر ابوعبد اللہ (رضی اللہ عنہ) نے ایک اور روایت میں کہا ہے : علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا ، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔ (الشافی ترجمہ اُصولِ کافی مترجم اردو باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 71)
اسی کتاب میں ہے : حماد بن عیسیٰ سے ، حماد بن عیسیٰ نے قداح سے ابوعبد اللہ (امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ) کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے ، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے … اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے ، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے ۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں ، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الشافی ترجمہ اُصولِ کافی مترجم اردو کتاب فضل العلم ، باب ثواب العالم والمتعلم جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 75 ، 76،چشتی)
شیعہ حضرات کا مستند عالم شیخ صدوق محمد بن علی بن حسین بابویہ قمی لکھتا ہے : امام جعفر صادق نے اپنے آبائے طاہرین علیہم السّلام سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء (علیہم السّلام) کے وارث ہیں ، بیشک انبیاء (علیہم السّلام) کی میراث نہ دینار تھی نہ درہم بلکہ اُن کی میراث علم تھی ۔ (ثواب الاعمال و عقاب الاعمال مترجم اردو صفحہ نمبر 145)
شیعہ مذھب کے اصول اربعہ کی اوّل کتاب اصول کافی میں موجود ہے : محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن محمد بن خالد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذاك أن الأنبياء لم يورثوا درهما ولا دينارا، وإنما أورثوا أحاديث من أحاديثهم، فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه؟ فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق (رضی الله تعالی عنہ) نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء ہیں ، اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے درہم یا دینار کا ، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں ۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا ، اس نے کافی حصہ پا لیا ۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو ۔ ہم اہل بیت کےخلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اورجابلوں کی تاویلوں کو ۔ (اصول الکافی الشیخ الکلینی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 17،چشتی)
یہی روایت شیعہ کے جیّد عالم شیخ مفید نے اپنی کتاب “الخصاص” میں بھی بیان کی ہے : وعنه، عن محمد بن الحسن بن أحمد، عن محمد بن الحسن الصفار، عن السندي بن محمد، عن أبي البختري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إن العلماء ورثة الأنبياء وذلك أن العلماء لم يورثوا درهما ” ولا دينارا ” وإنما ورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشئ منها فقد أخذ حظا وافرا “، فانظروا علمكم هذا عمن تأخذونه فإن فينا أهل البيت في كل خلف عدولا ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ۔
ترجمہ : امام جعفر صادق رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا کہ علماء وارث انبیاء بیں اور یہ اس لئے کہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بنانے دربم یا دینار کا، وه صرف اپنی احادیث وراثت میں چھوڑتے ہیں۔ پس جس نے ان (احادیث) سے کچھ لے لیا، اس نے کافی حصہ پا لیا۔ تم دیکھو کہ تم اس علم کو کس سے لیتے ہو۔ ہم اہل بیت کے خلف میں ہمیشہ ایسے لوگ ہوں گے جو عادل ہوں گے اور رد کریں گے غالیوں کی تحریف اور اہل باطل کے تغیرات اور جابلوں کی تاویلوں کو ۔ (كتاب الاختصاص – الشيخ المفيد – الصفحة 16،چشتی)
شیعہ مذھب کی کتاب اصول الکافی میں موجود ہے جس میں نبی کریم سے واضح الفاظ میں مروی ہے کہ انبیاء کرام درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑتے :محمد بن الحسن وعلي بن محمد، عن سهل بن زياد، ومحمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد جميعا، عن جعفر بن محمد الأشعري، عن عبد الله بن ميمون القداح، وعلي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن القداح، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله: من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به (3) طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا به (4) وإنه يستغفر لطالب العلم من في السماء ومن في الأرض حتى الحوت في البحر، وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر النجوم ليلة البدر، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر ۔
ترجمہ : رسول الله صلى الله علیہ وسلم نے فرمایا دین کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جس طرح ستاروں پر چاند کی فضیلت اور چاندنی رات پر فضیلت ہے اور علماء وارث انبیاء ہیں اور انبیاء نہیں چھوڑتے اپنی امت کے لئے درہم و دینار ، بلکہ وہ وراثت میں چھوڑتے ہیں علم دین کو۔ پس جس نے اس کو حاصل کیا ، اس نے بڑا حصہ پا لیا ۔ (کتاب اصول الكافي – الشيخ الكليني – ج ۱ – الصفحة ۱۹،چشتی) ۔ اصول الکافی کی اس حدیث کو خمینی نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے ۔
شیعہ مذھب کی مشہور کتاب قرب الاسناد میں موجود ہے اور علامہ الحمیری القمی نے بحار الانوار کے حوالے سے بیان کی ہے : جعفر، عن أبيه: أن رسول الله صلى الله عليه وآله لم يورث دينارا ولا درهما، ولا عبدا ولا وليدة، ولا شاة ولا بعيرا، ولقد قبض رسول الله صلى الله عليه وآله وإن درعه مرهونة عند يهودي من يهود المدينة بعشرين صاعا من شعير، استسلفها نفقة لأهله ۔
ترجمہ : حضرت ابو جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو درھم و دینار یا غلام یا باندی یا بکری یا اونٹ کا وارث نہیں بنایا، بلاشبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس حال میں قبض ہوئی جب کہ آپ کی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس صاع جو کے عیوض رہن تھی، آپ نے اس سے اپنے گھر والوں کے لئے بطور نفقہ یہ جو لئے تھے ۔ (قرب الاسناد الحمیری القمی ص 91,92،چشتی)(بحوالہ المجلسي في البحار 16: 219 / 8)
کلینی نے الکافی میں ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے ۔ باب (ان النساء لا يرثن من العقار شيئا) علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى ، عن يونس، عن محمد بن حمران، عن زرارة عن محمد بن مسلم، عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔ عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا ۔ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں ، ان کے چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث جلد ۷ صفحہ ۱۳۷،چشتی)
يونس بن عبد الرحمان عن محمد بن حمران عن زرارة ومحمد بن مسلم عن أبي جعفر عليه السلام قال: النساء لا يرثن من الأرض ولا من العقار شيئا ۔
ترجمہ : حضرت امام باقر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا عورت زمین و جائیداد میں سے کسی کی وارث نہیں ۔ (کتاب تھذیب الاحکام الشیخ الطوسی ج 9 ص 254)
جہاں تک ان کے حقوق غصب کرنے کا سوال ہے ، اس بارے میں مجلسی باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ : ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے : میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا ۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے ۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے ۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں ، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ترجمہ از فارسی)
ذرا سوچیے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اگر مال ملکیت کی لالچ ہوتی اور فدک اپنی ذات کےلیے حاصل کرنا مقصود ہوتا تو اپنی دولت سیدہ کی خدمت میں کیوں پیش کرتے ؟ اتنی عاجزی سے سیدہ کی فضیلت کا اقرار کیوں کرتے ؟ کیا ظالم حکمراں اس طرح حقوق غصب کرتے ہیں ؟ ۔ اللہ عزوجل ہمیں جملہ فتنہ پروروں اور فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔
درسِ قرآن : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ سورہ نمل آیت 16
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ - اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ ۔ (سورہ نمل آیت نمبر 16)
ترجمہ : اور سلیمان داؤد کا جانشین ہوا اور کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہر چیز میں سے ہم کو عطا ہوا بیشک یہی ظاہر فضل ہے ۔
یہاں آیت میں نبوت ، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت ، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم،نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ (روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷،چشتی)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی ، تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے ۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے ۔ اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے ، چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب ۔ (الاعراف : ٩٦١) ، پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : ٢٣) ، پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب ۔ (المومن : ٣٥) ، اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب ۔ (الشوری : ٤١) ، بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی
امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 571 ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج 3 ص 2491‘ مطبوعہ ایران ‘ 4141 ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری متوفی 117 ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : 98‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : 6۔ 5) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔ ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : 61) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی یہ دعاہ ہے : اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج 1 ص 325‘ مجمع الزوائد ج 01 ص 871)
ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العربج 2 ص 102۔ 991‘ ملخصا ‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : 5041 ھ،چشتی)
علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 205 ھ لکھتے ہیں وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : 9191‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : 388‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1103‘ المستدرک ج 1 ص 64)
قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : 6) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 304)
اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691)
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض ۔ (آل عمران : 081) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : 961) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : 41) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : 23) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : 9542) (المفردات ج 2 ص 376۔ 276‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ 8141 ھ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت: ⏬
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٠٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٧١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٦٩٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩١٧١‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٧٥١١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٨٠٥٢)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١‘ سنن الداری رقم الحدیث : ٩٤٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٨‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : ٣٢١‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٩٢١)
شیعہ محقق و عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی ٨٢٣ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا۔ الحدیث۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٢٢٢‘ مطبوعہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ،چشتی)
ترجمہ : ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے ۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران ٨٨٣١ ھ)
یہی شیعہ محقق و عالم مزید لکھتا ہے کہ : المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٥٢٢۔ ٤٢٢‘ ایران)
ترجمہ : ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج ١ ص ٤٢٢‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ ٨٨٣١ ھ)
وراثت کا لغوی اور اصطلاحی معنی : ⏬
امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : الایراث : الا بقاء للشئی کسی چیز کو باقی رکھنا ‘ یورث ای یبقی میراثا کسی چیز کو بہ طور میراث باقی رکھنا ‘ کہا جاتا ہے اور ثہ العشق ھما عشقنی اس کو غم کا وارث بنادیا ‘ اور ثتہ الحمی ضعفا بخار نے اس کو کمزوری کا وارث بنادیا۔ (کتاب العین ج ٣ ص ٢٤٩١‘ مطبوعہ ایران ‘ ٤١٤١ ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم بن منظور افریقی مصری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١١٧ ھ لکھتے ہیں : الوارث اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اس کا معنی ہے باقی اور دائم ‘ وانت خیر الوارثین (الانبیا : ٩٨‘ یعنی تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو باقی رہنے والا ہے ‘ کہا جاتا ہے ورثت فلا نا مالا میں فلاں کے مال کا وارث ہوا ‘ قرآن مجید میں ہے : فھب لی من لدنک ولیا۔ یرثنی و یرث من ال یعقوب۔ (مریم : ٦۔ ٥) تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میرا (بھی) وارث ہو اور یعقوب کی آل کا (بھی) وارث ہو ۔
ابن سیدہ نے یہ کہا کہ وہ ان کا اور آل یعقوب کی نبوت کا وارث ہو اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ حضرت زکریا کو یہ خوف تھا کہ انکے رشتہ دار انکے مال کے وارث ہوجائیں گے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو کچھ بھی چھوڑا وہ صدقہ ہے ‘ اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : وورث سلیمان داود (النمل : ٦١) اور سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ الزجاج نے کہا وہ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث ہوئے ‘ روایت ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے ‘ ان میں سے صرف حضرت سلیمان ان کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے اور حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعاہ ہے :
اللھم متعنی بسمعی و بصری واجعلھا الوارث منی : اے اللہ کانوں اور میری آنکھوں سے مجھ کو نفع دے اور ان کو میرا وارث بنا دے ۔ (المستدرک ج ١ ص ٣٢٥‘ مجمع الزوائد ج ٠١ ص ٨٧١)
ابن شمیل نے کہا اس کا معنی ہے میرے کانوں اور میری آنکھوں کو تاحیات صحیح اور سلامت رکھ ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ جب بڑھاپے میں قویٰ نفسانیہ مضمحل ہوجاتے ہیں تو میری سماعت اور بصارت کو باقی رکھنا پس سماعت اور بصارت تمام قوتوں کے بعد باقی رہیں اور ان کی وارث ہوجائیں ۔ (لسان العرب ج ٢ ص ١٠٢۔ ٩٩١‘ مطبوعہ نشر ادب احلوذۃ ایران : ٥٠٤١ ھ،چشتی)
علامہ الحسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : وراثت کی تعریف یہ ہے : انتقال قنیۃ الیک عن غیرک من غیر عقد ولا مایجری العقد۔ غیر کی کمائی کا تمہاری طرف بغیر کسی عقد یا قائم مقام عقد کے تمہاری طرف منتقل ہونا۔
اسی وجہ سے میت کی جو کمائی وارثوں کی طرف منتقل ہوتی ہے اس کو میراث کہتے ہیں ۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اثبتوا علی مشاعر کم فانکم علی ارث ابیکم۔ تم اپنے مشاعر (میدان عرفات) پر ثابت قدم رہو کیونکہ تم اپنے باپ ابراہیم کے وارث ہو ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩١٩١‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٠٣‘ المستدرک ج ١ ص ٦٤ )
قرآن مجید میں ہے ویرث من ال یعقوب (مریم : ٦) یعنی وہ نبوت ‘ علم اور فضلیت کا وارث ہوگا نہ کہ مال کا ‘ کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کے نزدیک مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے حتیٰ کہ وہ اس میں رغبت کریں ‘ وہ بہت کم مال جمع کرتے ہیں اور اس کے مالک ہوتے ہیں کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ ہم نے جو چھوڑا وہ صدقہ ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤ ( اور آپ کا ارشاد ہے : علماء انبیاء کے وارث ہیں (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٦٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٦٩١) اور اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو بھی وارث فرمایا ہے کیونکہ تمام اشیاء اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتی ہیں وللہ میراث السموات والارض (آل عمران : ٠٨١) ” اللہ ہی کے لیے تمام آسمانوں اور زمینوں کی میراث ہے “ اور کوئی شخص جب کسی سے علم کا استفادہ کرے تو کہا جاتا ہے میں اس سے وارث ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ورثوالکتب (الاعراف : ٩٦١) ” بعد کے لوگوں نے اس کتاب کو حاصل کیا ورثو الکتب من بعدھم (الشوری : ٤١) ” بیشک جو لوگ انکے عبد کتاب کے وارث ہوئے “ ثم اوثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا (فاطر : ٢٣) ” پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا “ کیونکہ وراثت حقیقیہ یہ ہے کہ انسان کو کوئی ایسی چیز حاصل ہو جس میں اس کے ذمہ نہ کوئی معاوضہ ہو نہ اس میں اس کا کوئی محاسبہ ہو اور جو اس طریقہ سے اس دنیا کو حاصل کرے گا اس سے نہ کوئی حساب لیا جائے گا نہ اس کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ اس کے لیے اس میں معافی اور در گزر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے : قیامت کے دن اس شخص پر حساب آسان ہوگا جو دنیا میں اپنا حساب کرے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٩٥٤٢)،(المفردات ج ٢ ص ٣٧٦۔ ٢٧٦‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ،چشتی)
خلاصہ یہ ہے کہ وراثت کا لغوی معنی ہے کسی کا کسی کے بعد باقی رہنا ‘ اور اصطلاحی معنی ہے کسی چیز کا ایک شخص سے دوسرے شخص طرف منتقل ہونا ‘ خواہ مال کا انتقال ہو یا ملک کا یا علم اور نبوت کا انتقال ہو یا فضائل اور محاسن کا ‘ اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ان تمام معانی کے اعتبار سے وراثت کا استعمال کیا گیا ہے ۔
اہل سنت کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کسی کو مال وارث نہیں بناتے کیونکہ انبیاء کے نزدیک مال کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے اور نہ وہ مال کو جمع کرتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث کرتے ہیں اور ان کی جو اولاد ان کی وارث ہوتی ہے ‘ وہ علم اور نبوت میں ان کی وارث ہوتی ہے ‘ اور اہل تشیع کے نزدیک چونکہ حضرت سید تنا فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چھوڑے ہوئے باغ فدک کی وارثہ تھیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام مال جمع کرتے ہیں اور مال کا وارث بناتے ہیں ‘ اس لیے سنی مفسرین کے نزدیک وورث سلیمن داود (النمل : 61) کا معنی ہے حضرت سلیمان علیہ السّلام حضرت داؤد علیہ السلام کے مال کے وارث ہوئے ۔ سو ہم اس آیت کی تفسیر پہلے سنی مفسرین سے نقل کریں گے پھر شیعہ مفسرین سے نقل کریں گے پھر اس مسئلہ میں سنی ائمہ کی اور شیعہ ائمہ کی روایات احادیث پیش کریں گے پھر اخیر میں شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات کا ذکر کریں گے ۔ فنقول وباللہ التوفیق ۔
سنی مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت داؤد کی نبوت اور علم کے وارث تھے نہ کہ مال کے : ⏬
شیعہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال ہوتی ہے جو کہ غلط ہے کیونکہ اگر مال وراثت ہوتا تو حضرت داؤد علیہ السّلام کے انیس بیٹے تھے سب وارث بنتے۔(تفسیر مظہری مترجم اردوجلد ہفتم صفحہ نمبر 153 ،154)
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کی کس چیز کے وارث ہوئے ‘ اس کے متعلق علامہ علی بن محمد ماوردی متوفی 054 ھ لکھتے ہیں : ⏬
(1) قتادہ نے کہا حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کی نبوت اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ کلبی نے کہا حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ اور صرف حضرت سلیمان کو ان کی وارثت کے ساتھ خاص کیا گیا کیونکہ یہ نبوت اور ملک کی وراثت تھی اگر یہ مال کی وراثت ہوتی تو اس وراثت میں ان کی تمام اولاد برابر کی شریک ہوتی ۔
(2) ربیع نے کہا حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے بھی جنات اور ہوائوں کو مسخر کردیا گیا تھا ۔
(3) ضحاک نے کہا حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی زندگی میں حضرت سلیمان کو بنی اسرائیل پر خلیفہ بنادیا تھا ‘ اور اس وراثت سے مراد ان کی یہی ولایت ہے اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں کیونکہ علماء دین میں انبیاء کے قائم مقام ہیں ۔
یہاں آیت میں نبوت ، علم اور ملک میں جانشینی مراد ہے مال کی وراثت مراد نہیں ۔ چنانچہ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ان کی نبوت، علم اور ان کے ملک کے وارث بنے۔حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ملک عطا ہوا اور مزید انہیں ہواؤں اور جِنّات کی تسخیر بھی عطا کی گئی ۔ (تفسیر بغوی، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۳۵۰،چشتی)
حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وصال کے بعد علم ، نبوت اور ملک صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا ہوئے ، ان کی باقی اولاد کو نہ ملے ۔ اسے یہاں مجازاً میراث سے تعبیر کیا گیا کیونکہ میراث در حقیقت مال میں ہوتی ہے جبکہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روحانی کمالات کا وارث بناتے ہیں ان کے نزدیک مال کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔(روح البیان، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۶/۳۲۷)
ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے انیس بیٹے تھے ، ان میں سے صرف حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت اور ملک کے وارث ہوئے، اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سب بیٹے اس میں برابر کے شریک ہوتے ۔ (تفسیرقرطبی النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۷/۱۲۵، الجزء الثالث عشر)
ان کے علاوہ تفسیر طبری ، تفسیر بیضاوی،تفسیر ابو سعود، تفسیر کبیر،تفسیر البحر المحیط اور تفسیر جلالین وغیرہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے علم، نبوت اور ملک کے وارث ہوئے۔ لہٰذا اس آیت کو اس بات کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے مال کی وارث بنتی ہے۔اس کی مزید صراحت درج ذیل حدیث پاک میں موجود ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کسی کو دینارو درہم کا وارث نہ بنایا بلکہ انہوں نے صرف علم کا وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا ۔ (ترمذی ، کتاب العلم عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، ۴ / ۳۱۲ ، الحدیث: ۲۶۹۱،چشتی)
وَ قَالَ : اورفرمایا ۔ یعنی حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے لوگوں سے فرمایا: اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور دنیا و آخرت کی بکثرت نعمتیں ہمیں عطا کی گئی ہیں ، بیشک یہی اللہ تعالٰی کاکھلا فضل ہے ۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر اللہ تعالٰی کی نعمتیں : مروی ہے کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے زمین کے مشرقوں اور مغربوں کی مملکت عطا فرمائی۔ چالیس سال آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اس کے مالک ر ہے۔ پھر پوری دنیا کی مملکت عطا فرمائی، جن و اِنس، شیطان، پرندے، چوپائے، درندے سب پر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حکومت تھی اور ہر ایک شے کی زبان آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو عطا فرمائی اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عجیب و غریب صنعتیں ایجاد ہوئیں ۔ (خازن، النمل، تحت الآیۃ: ۱۶، ۳/۴۰۴)
امام الحسین بن مسعود بغوی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 215 ھ لکھتے ہیں : حضرت سلیمان حضرت دائود کی نبوت ‘ ان کے علم اور ان کے ملک کے وارث ہوئے ‘ نہ کہ ان کی باقی اولاد ‘ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے ‘ حضرت سلیمان کو حضرت دائود کا ملک عطا کیا گیا اور ہوائوں اور جنات کی تسخیر ان کو زیادہ دی گئی ‘ مقاتل نے کہا حضرت سلیمان کا ملک حضرت دائود کے ملک سے زیادہ تھا اور وہ ان سے اچھا فیصلہ کرنے والے تھے۔ حضرت دائود ‘ حضرت سلیمان سے زیادہ عبادت گزار تھے اور حضرت سلیمان ان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ (معالم التنزیل ج 3 ص 494‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 0241 ھ)
امام محمد بن عمر رازی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 606 ھ نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے بلکہ اس میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے وہ فرماتے ہیں : اگر یہاں مال کی وراثت مراد ہوتی تو پھر اس کے بعد یا یھا الناس علمنا منطق الطیر کا کوئی فائدہ نہ تھا اور جب اس سے مراد نبوت اور ملک کی وراثت ہو تو یہ کلام عمدہ ہے کیونکہ پرندوں کی بولی کا سکھانا بھی علوم نبوت کے ساتھ مربوط اور متصل ہوگا جبکہمال کے وارث کا پرندوں کی بولی کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے ‘ اس فضل کا تعلق بھی علم اور نبوت کی وراثت سے ظاہر ہے اور مال کے وارث کا فضیلت والا ہونا ظاہر نہیں ہے کیونکہ مال کا وارث تو کامل شخص بھی ہوتا ہے اور ناقص بھی ‘ نیک بھی اور بدکار ‘ اسی طرح اس کے بعد جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کا ذکر کیا گیا اس کا ربط اور تعلق بھی اسی صورت میں ظاہر ہوگا جب اس وراثت سے مراد علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت ہو نہ کہ مال کی وراثت مراد ہو ۔ (تفسیر کبیر ج 8 ص 745‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ 5141 ھ)
امام عبدالرحمن علی بن محمد جوزی جنبلی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 795 ھ ‘ علامہ ابو عبد اللہ قرطبی مالکی متوفی 866 ھ ‘ حافظ ابن شافعی متوفی 477 ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی متوقی ‘ 7311 ھ ‘ علامہ محمودآلوسی حنفی متوفی 0721 ھ ‘ ان سب نے یہی لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ نبوت اور ملک میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور اس آیت میں مال کی وراثت مراد نہیں ہے ‘ کیونکہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے انیس بیٹے تھے اور مال کی وراثت میں یہ سب برابر کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے شریک تھے ‘ اور اس آیت میں صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حضرت دائود (علیہ السلام) کا وارث قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی نبوت ‘ انکے علم اور ان کے ملک کے وارث تھے۔ (زادالمسیر ج 6 ص 951‘ الجامع لاحکام القرآن جز 31 ص 351،چشتی)(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 493‘ دارالفکر ‘ 8141 ھ )(روح البیان ج 6 ص 024‘ داراحیاء التراث العربی ‘ 1241 ھ )(روح المعانی جز 91 ص 552‘ دارالفکر ‘ 7141 ھ)
شیعہ مفسرین کے نزدیک حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کے مال کے وارث تھے نہ کہ نبوت اور علم کے : ⏬
شیعہ مفسر ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی 064 ھ لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت سلیمان حضرت دائود کے وارث ہوئے ‘ اب اس میں اختلاف ہے کہ وہ کس چیز کے وارث ہوئے ‘ ہمارے اصحاب نے کہا کہ وہ مال اور علم کے وارث ہوئے اور ہمارے مخالفین نے کہا وہ علم کے وارث ہوئے ‘ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے ‘ ہم گروہ انبیاء مورث نہیں بنائے جاتے ‘ اور میراث کی حقیقت یہ ہے کہ گزرنے والے کی موت کے بعد اس کا ترکہ اس کے رشتہ داروں میں سے کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کردیا جائے اور اس کا حقیقی معنی یہ ہے کہ اعیان (ٹھوس مادی چیزوں مثلاً مال و دولت ‘ زمین اور سازوسامان وغیرہ) کو منتقل کیا جائے اور میراث کا لفظ جب علم کے معنی میں استعمال کیا جائے گا تو وہ مجاز ہوگا اور انہوں نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے قرآن کے عام کو خاص کرنا جائز ہے اور نہ اس کو منسوخ کرنا جائز ہے ‘ اور بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ حضرت دائود کے انیس بیٹے تھے اور انمیں سے صرف حضرت سلیمان کو وارث بنایا گیا اگر اس آیت میں مال کی وراثت مراد ہوتی تو اس میں تمام بیٹے شریک ہوتے نہ کہ صرف حضرت سلیمان ‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں علم اور نبوت کی وراثت مراد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی خبر واحد سے ثابت ہے سو اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا ۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج 8 ص 38۔ 28‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیعہ مفسرین کے دلائل کے جوابات : ⏬
شیخ طوسی کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میراث کا لفظ عام ہے اور اہل سنت نے اس کو علم ‘ نبوت اور ملک کی وراثت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ‘ اور قرآن مجید کے عام کو خاص کرنا جائز نہیں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دلیل علماء شیعہ کے بھی خلاف ہے کیونکہ انہوں نے اس وراثت کو مال کے ساتھ خاصل کرلیا ہے جبکہ وراثت عام ہے خواہ اس سے مال کا نتقال ہو یا علم ‘ نبوت اور فضائل کا انتقال ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ جب مخصص عقل یا عرف ہو تو عام کی تخصیص جائز ہے جیسے قرآن مجید میں ہے : قل نفس ذآئقۃ الموت ط۔ (الانبیائ : 53) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے ۔ اس آیت کے عموم میں اللہ تعالیٰ شامل نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر موت کا آنا محال ہے ‘ اور اس کا مخصص عقل ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ؟ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : واو تینا من کل شیء ط۔ (النمل : 61) اور ہمیں ہر چیز سے عطا کیا گیا ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ٹینک ‘ طیارے اور میزائل نہیں عطا کیے گئے تھے ‘ اس کے لیے یہاں پر ” ہر چیز “ سے مراد ان کے زمانہ کی تمام چیزیں ہیں اور اس کا مخصص عرف ہے ۔
اسی طرح قرآن مجید میں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے فرمایا : انی فضلتکم علی العلمین۔ (البقرہ : 74) بیشک میں نے تم کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔
اور ظاہر ہے بنی اسرائیل کو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کی امت پر فضیلت نہیں دی گئی تھی ‘ سو یہاں بھی عرف اور عقل اس کا مخصص ہے اور مرد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو انکے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی گئی تھی ۔
اسی طرح قرآن مجید میں یہ آیت ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین امنوا لذین یقیمون الصلوۃ ویؤ تون الزکوۃ وھم رکعون۔ (المائدہ : 55) تمہارا ولی صرف اللہ اور اس کا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ ادا کرتے ہیں ۔ اس آیت میں تمام ایمان والوں کو مسلمانوں کا ولی فرمایا ہے ‘ لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی ولایت اور امامت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔ خود شیخ طوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے : یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کی امامت بلا فصل پر واضح دلیل ہے ۔ (التبیان ج 2 ص 955‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت،چشتی)
چھٹی صدی کے علماء شیعہ میں سے شیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی نے بھی یہی لکھا ہے نیز انہوں نے لکھا ہے : یہ آیت اس پر نص صریح ہے کہ ایمان والوں سے مراد حضرت علی ہیں اور یہ آیت ان کی امامت پر نص ہے اور اس آیت سے عموم مراد نہیں ہے اور یہ آیت حضرت علی کے ساتھ خاص ہے۔ (مجمع البیان ج 3 ص 623‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
اسی طرح السید محمد حسین الطبا طبائی متوفی 3921 ھ نے لکھا ہے : انما ولیکم اللہ ورسولہ (المائدہ : 55) اور فان حزب اللہ ھم الغلبون (المائدہ : 651) یہ دونوں آیتیں عام نہیں ہیں ‘ یہ دونوں آیتیں حضرت علی کے ساتھ خاص ہیں اور یہ چیز سنی اور شیعہ کی بہ کثرت روایات سے ثابت ہے۔ (المیز ان ج 6 ص 5‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ طہران ‘ 2631 ھ)
حالانکہ ان دونوں آیتوں میں الذین امنوا اور حزب اللہ کے الفاظ عام ہیں لیکن علماء شیعہ نے روایات کی بنا پر ان کو خاص کرلیا ہے ‘ اسی طرح قرآن مجید میں ہے : یایھا الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک ط وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ط واللہ یعصمک من الناس ط۔ (المائدۃ : 76) اے رسول ! آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے (بالفرض) ایسانہ کیا تو آپ نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ‘ اور اللہ آپ کو لوگوں (کے ضرر) سے بچائے گا ۔
اس آیت میں لفظ ” ما “ عام ہے یعنی جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا یعنی تمام احکام شرعیہ اور تمام خبریں آپ پر امت کو پہچانی ضروری ہیں لیکن علماء شیعہ نے اس آیت کو حضرت علی کی خلافت کے ساتھ خاص کرلیا ہے ۔
شیخ طوسی لکھتا ہے : اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں ‘ اور آپ اس سے ڈرتے تھے کہ آپ کے اصحاب پر یہ دشوار ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی تاکہ آپ بہادری سے اللہ کا یہ حکم سنائیں۔ (التبیان ج 3 ص 885‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیعہ مفسر طبرسی لکھتا ہے : یہ آیت حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق نازل ہوئی ہے اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ حضرت علی کے متعلق تبلیغ کریں سو آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں جس کا مولیٰ ہوں علی اس کے مولیٰ ہیں ‘ اے اللہ ! جو علی سے محبت رکھے اس سے محبت رکھ اور جو علی سے عداوت رکھے اس سے عداوت رکھ ‘ اور حضرت ابو جعفر اور حضرت ابو عبد اللہ سے مشہور وایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی طرف وحی کی کہ وہ حضرت علی کو خلیفہ بنائیں۔ (مجمع البیان ج 4 ص 443‘ مطبوعہ ایران ‘ 6041 ھ)
ان آیات میں قرآن مجید کے لفظ عام کو خاص کرنے کے باوجود شیخ طبرسی اور شیخ طبا طبائی نے وورث سلیمن داود (النمل : 61) کی تفسیر میں لکھا ہے اس سے مراد حضرت سلیمان کو مال کا وارث بنانا ہے اور علم اور نبوت کا وارث بنانا مراد نہیں ہے ۔ (مجمع البیان ج 7 ص 433‘ المیز ان ج 51 ص 283‘ مطبوعہ طہران ‘ 2631 ھ،چشتی)
قرآن مجید کی بہ کثرت آیات میں کتاب کا وارث بنانے کا ذکر ہے اور وہاں مال کا وارث بنانے کو مراد نہیں لیا جاسکتا : فخلف من بعد ھم خلف ورثوالکتب۔ (الاعراف : 961) پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث ہوئے ۔
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا ج (فاطر : 23) پھر ہم نے ان لوگوں کو الکتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا ۔
واورثنا بنی اسرآء یل الکتب۔ (المومن : 35) اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔
ان الذین اور ثوا الکتب من بعد ھم لفی شک منہ مریب۔ (الشوری : 41) بیشک جن لوگوں کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا وہ اس کی طرف سے زبردست شک میں ہیں ۔
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ اہل سنت
ایک طویل حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ہے : ہم مورث نہیں بنائے جاتے ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3304‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : 7571‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 5692‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : 9171‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 67511‘ مسند احمد رقم الحدیث : 28052)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص علم کو طلب کرنے کے لیے کسی راستہ پر جاتا ہے اللہ اس کو جنت کے راستہ کی طرف لے جاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر رکھتے ہیں اور تمام آسمانوں اور زمینوں کی چیزیں عالم کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی ‘ اور عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے ‘ بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نہ دینار کا وارث کرتے ہیں نہ درھم کا وہ صرف علم کا وارث کرتے ہیں سو جس نے علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا ۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 2862‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : 1463‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 322‘ مسند احمد ج 5 ص 691‘ سنن الداری رقم الحدیث : 943‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 88‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : 321‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : 921)
علم کا وارث بنانے اور مال کا وارث نہ بنانے کے ثبوت میں روایات ائمہ شیعہ
شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی الرازی المتوفی 823 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے : ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ علیہالسلام نے فرمایا : بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں ‘ کیونکہ انبیاء نہ درہم کا وارث کرتے ہیں نہ دینار کا ‘ وہ اپنی احادیث میں سے احادیث کا وارث کرتے ہیں ‘ پس جس شخص نے ان سے کسی چیز کو حاصل کیا اس نے بہت بڑے حصہ کو حاصل کیا۔ الحدیث۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 23‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
محمد بن مسلم بیان کرتے ہیں کہ علم میں وراثت ہوتی ہے ‘ اور جب بھی کوئی عالم فوت ہوتا ہے تو وہ علم میں اپنا جیسا چھوڑ جاتا ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 222‘ مطبوعہ ایران ‘ 8831 ھ)
ابو جعفر (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بیشک روئے زمین پر سب سے پہلے وصی ھبتہ اللہ بن آدم تھے اور جو نبی بھی گزرے ان کا ایک وصی ہوتا تھا ‘ اور تمام انبیاء ایک لاکھ بیس ہزار تھے ‘ ان میں سے پانچ اولوالعزم نبی تھے ‘ نوح ‘ ابراہیم ‘ موسیٰ ‘ عیسیٰ اور (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ اور بیشک علی بن ابی طالب (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے اللہ تعالیٰ کا عطیہ تھے۔ وہ تمام اولیاء کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور اپنے سے پہلوں کے علم کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے سے پہلے انبیاء اور مر سلین کے علم کے وارث تھے ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ دارالکتب الاسلامیہ ‘ ایران 8831 ھ)
المفصل بن عمر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے کہا کہ بیشک سلیمان دائود کے وارث ہوئے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث ہوئے اور ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس تورات ‘ انجیل اور زبور کا علم ہے۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 522۔ 422‘ ایران)
ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا : بیشک دائود انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے وارث تھے ‘ اور بیشک سلیمان دائود کے وارث تھے ‘ اور بیشک (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سلیمان کے وارث تھے اور بیشک ہم (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وارث ہیں اور بیشک ہمارے پاس حضرت ابراہیم کے صحائف ہیں اور حضرت موسیٰ کی الواح ہیں ۔ (الاصول من الکافی ج 1 ص 422‘ مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران ‘ 8831 ھ)
مذکورہ تمام دلائل سے آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ انبیاء علیہم السلام علم کا وارث بناتے ہیں مال کا وارث نہیں بناتے اور حضرت سلیمان علیہ السلام ‘ حضرت داٶد علیہ السلام کے علم ‘ ان کے فضائل ‘ ان کے ملک اور ان کی نبوت کے وارث تھے ‘ اور اس آیت میں اسی وراثت کا ذکر ہے ‘ ان کے مال کی وراثت کا ذکر نہیں ہے ۔
مسئلہ باغ فدک اور حضرت ابوبکر صدیق و حضرت فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہما
محترم قارئینِ کرام : شیعہ حضرات کا مشہور محقق ملاّ باقر مجلسی انتہائی تعصب کے باوجود لکھتا ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت سے فضائل و مناقب جنابِ حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بیان کیے اور فرمایا : اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی بگیر ۔ تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد ۔
ترجمہ : میں اپنا مال جائیداد دینے میں آپ رضی اللہ عنہا سے دریغ نہیں رکھتا ۔ جو کچھ مرضی چاہے لے لجیے ۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے باپ کی امت کی سیدہ ہیں اور اپنے فرزندوں کےلیے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ رضی اللہ عنہا کا حکم میرے ذات مرے مال میں چوں و چرا جاری و منظور ہے ۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ رضی اللہ عنہا کے والد بزرگوار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کر سکتا ۔ (شیعہ مذہب کی مشہور کتاب حق الیقین مترجم جلد اوّل صفحہ نمبر 227 مطبوعہ مجلسِ اسلامی پاکستان،چشتی)
استاذی المکرّم آلِ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اولادِ علی رضی اللہ عنہ غزالی زماں حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘مشکلات الحدیث ‘ میں فرماتے ہیں کہ : باغ فدک کے معاملے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد سے بہتر تھا ۔ (مشکلات الحدیث مسلہ فَدَک صفحہ نمبر 207 مطبوعہ ورلڈ ویو پبلیشرز اردو بازار لاہور،چشتی)
اس سے واضح طور پر یہ سمجھ میں آیا کہ مسلہ فَدَک اجتہادی معاملہ تھا ۔ لہٰذا جو اس معاملے میں اجتہاد نہیں مانتے ان کی تردید غزالی زماں حضرت علامہ سیّد احمد سعید شاہ صاحب کاظمی رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ مبارک سے ہو گئی ۔ یاد رہے جب دو شخصیات کے درمیان اجتہاد ہوتا ہے تو اہل سنت کا نظریہ ہے کہ ایک شخص صواب پر ہوتا ہے اور ایک خطا (اجتہادی) پر ۔ دونوں کو صواب پر ماننا یہ معتزلہ کا نظریہ ہے ۔ لہٰذا مذکورہ حوالے سے اجتہاد ثابت ہوا اور جب اجتہاد ثابت ہو گیا تو ایک کا اجتہادی خطا پر ہونا لازم آئے گا ۔ اور اس اجتہادی خطا پر اجر ہے نہ کہ گناہ فافہم ۔ اور اس معاملے میں کون اجتہادی خطا پر ہے یہ مذکورہ عبارت کے اس جملے سے واضح ہے “سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد , سیدہ طیّبہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے اجتہاد سے بہتر تھا ۔
مسلہ باغ فدک شیعہ کتب کی روشنی : ⏬
باغ فدک کیا ہے ؟ فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔ (لسان العرب جلد2، صفحہ 473)
حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث سنائی کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں علم ہے اور یہ بتایا کہ اس جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اہلبیت کو دیا کرتے تھے وہ میں بھی جاری رکونگا تو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔اس مسلے کو ہم کتب شیعہ سے لکھ رہے شاید کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ گستاخیاں چھوڑ دے یاد رہے اس مسلے کو بعض متعصب شیعہ علماء نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اچھالا آیئے حقائق پڑھتے ہیں ۔
باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ : ⏬
محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔
آئیے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے : شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)
شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)
شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)
اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں : ⏬
(1) خوب وعظ کہنا ۔
(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔
(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔
(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)
اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)
ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔
اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)
ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔
لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔
مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)اسی نے کہا تھا ۔میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘ ’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘ ’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے ۔ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)
شیعہ ابن میثم نہج البلاغہ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا جو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا۔(شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے ۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیئے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران،چشتی)
شیعہ کتب گواہ ہں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے ؟
نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں ہے اس روایت کو متعصب شیعہ جھٹلاتے ہیں جبکہ یہ روایت خود شیعوں کی اپنی کتب میں موجود ہے، ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الاصول من الکافی کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)
جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔(الاصول من الکافی باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32،چشتی)
مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔
(1) براہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت ۔(کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)
(2) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔(کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)
بعض متعصب شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیئے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں ۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے شیعہ عالم کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ ۔ (الفروع من الکافی کتاب الوصایا جلد ۷ صفحہ ۴۷ ، ۴۸،چشتی)
اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی ؟
محترم قارئینِ کرام قابلِ غوریہ بات ہے کہ : اگر باغ فدک اور اس کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے ۔
یاد رہے یہ اعتراض کرنے والے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ (الفروع من الکافی کتاب المواریث جلد 7 صفحہ 137،چشتی)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ
میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں ۔ (من لا یحضرہ الفقیہ کتاب الفرائض والمیراث جلد ۴ صفحہ ۳۴۷)
اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی ۔
اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی ۔
کیا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسلہ پر ناراض تھیں کا جواب شیعوں کے سب سے بڑے متعصب عالم مجلسی کے قلم سے پڑھیئے ، باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کےلیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین صفحہ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی،چشتی)
مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ابن سباء کی نسل کی اس سازش پر ضربِ کاری لگائی ۔ امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا ۔ (الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱)( شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)
حضرت امام ابوجعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲،چشتی)
ہم نے شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں (آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم) اور دیگر شیعہ نے صاف صاف یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیا پھر یہ اجہل متعصب شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں لگاتے ہیں ۔؟ یا تو صآف لکھیں شیعہ مذھب کے تمام امام جھوٹے ہیں یا یہ شیعہ خود جھوٹے ہیں فیصلہ خود کیجیے ۔
امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ فرمایا جو آپ کے دادا مولا علی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پڑھیئے شیعہ مذھب کی معتبر کتاب کے حوالے سے : بحتری بن حسان کے پوچھنے پر حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے ۔ (شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
الحمد للہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مسلہ باغ فدک کے متعلق شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں سے اس مسلہ کو علمی اور مہذب انداز میں پیش کر دیا ہے جو کچھ آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نے فرمایا اور جو کچھ شیعہ مذھب کے معتبر علماء نے لکھا یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے مجھے حیرت ہوتی اجہل قسم کے شیعہ ذاکرین اور سننے پڑھنے والے شیعہ حضرات آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات و ارشادات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں صرف امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلانا ان کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اہل اسلام کو ابن سباء یہودی کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے اور حق کو قبول کرنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment