Thursday, 11 September 2025

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ؟

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ؟


محترم قارئینِ کرام : احناف کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ بہ نیت قرآت مشروع نہیں ، ہاں بہ نیت ثناء و دعاء پڑھنے کی اجازت ہے كما هو في عامة الكتب، اور یہی مذہب حضرت عمر اور ابن عمر و حضرت علی مرتضی اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہم اور امام مالک امام ثوری رضی اللہ تعالی عنہا کا ہے کما فی الغنيه و شرح سفر السعادة وغيرهما.

(غنية المستملى شرح منية المصلى ، ص ٥٨٦ ، فصل في الجنائز، سهیل اکیڈمی لاهور)


 اور امام شافعی اور امام احمد اور اسحاق رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب یہ ہے کہ قرآت فاتحہ نماز جنازہ میں فرض ہے، اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ :

لإصلاة الا بفاتحة الكتاب

(كنز العمال ، ج ۸ كتاب الصلوة قسم الافعال ، حديث – ٢٢١٠٤ ، دار الكتب العلمية بيروت)

اور فرمایا:

“ولا صلاة الا بقرأة”

(الخرجه مسلم، ج ۱، ص ۱۷۰، باب وجوب قرأة الفاتحة في كل ركعة الخ، مجلس بركات)

یعنی نماز بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی اور فرمایا کہ نماز بے قرآت کے نہیں ہوتی اور نماز یہ ہے کہ طہارت اور استقبال قبلہ اس میں شرط ہے۔ نیز حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دلیل لائے جس میں وارد ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر۴ تکبیریں کہیں اور تکبیریں اولی کے بعد سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی۔ اور حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دلیل پکڑی جس میں مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی تو اس میں سورہ فاتحہ بالجہر پڑھی اور فرمایا کہ میں نے سورہ فاتحہ اس لئے آواز سے پڑھی تا کہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔

 ہماری دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ آپ سے نماز جنازہ کے متعلق سوال ہوا، کیا اس میں قرآت ہے؟ آپ نے فرمایا:

لم يوقِت لنا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قولا ولا قرأة)) وفي رواية  (دعاء ولا قرأة كبر ماكبر الامام، واختر من اطيب الكلام ماشئت)) وفي رواية ((واختر من الدعاء الطبيبه))

(بدائع الصنائع، ج ۲، ص ٥٢، کتاب الصلاة، باب كيفية الصلاة، مكتبه زكريا)

 یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہمارے لئے کوئی قول یا دعا اور قرآت کو معین نہ فرمایا، امام کے ساتھ تکبیر کہہ اور بہتر کلام یا بہتر دعا میں سے جو تو چاہے، اختیار کر۔ اور ہماری دلیل وہ حدیث بھی ہے جو حضرت عبد الرحمن بن عوف اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے کہ ان دونوں نے فرمایا:

ليس فيها قرأة شي من القرآن

(بدائع الصنائع، ج ۲، ص ٥٢، كتاب الصلاة، باب كيفية الصلاة، مكتبه زكريا، ديوبند)

 نماز جنازہ میں قرآت نہیں – هذا كله من البدائع ، اور حضرات شافعیہ قدست اسرار ہم کے استدلال لاصلاة الا بفاتحة الكتاب سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی فرضیت پر بہ چند وجوہ محل نزاع ہے:

 اولا: نماز جنازہ حقیقتہ نماز نہیں اسی لئے اس میں وہ ارکان جن سے حقیقت نماز مرکب ہوتی ہے مثلاً رکوع و سجود موجود نہیں۔ بلکہ اسے صلاۃ بلحاظ دعاء کے ،لغوی معنی پر کہتے ہیں۔ اور استقبال قبلہ اور طہارت کی شرط سے اس کا صلاۃ حقیقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا ، جیسے سجدہ تلاوت، کہ وہ نماز نہیں حالانکہ اس میں استقبال قبلہ اور طہارت شرط ہے۔ تو یہ حقیقہ میت کیلئے دعا ہے اور دعاء بطور مقدمہ حمد و ثناء وصلاة و سلام بر نبی خیر الا نام کا محل ہے نہ کہ قرآت کا ، قرآت تو سرے سے فرض ہی نہیں نہ کہ سورہ فاتحہ بعینہ فرض ہو۔

 بدائع میں ہے:

“ولأنها شرعت للدعاء، ومقدمة الدعاء الحمد، والثناء، والصلاة على النبي صلى الله تعالى عليه وسلم لا القرأة، وقوله صلى الله عليه وسلم ((لا صلاة الا بفاتحة الكتاب)) ((ولا صلاة الا بقرأة)) لا يتناول صلاة الجنازة، لانها ليست بصلاة على الحقيقة انما هي دعاء واستغفار للميت الاترى أنه ليس فيها الأركان التي تتركب منها الصلاة من الركوع والسعود الا أنها تسمى صلاة لما فيها من الدعاء واشتراط الطهارة واستقبال القبلة فيها لا يدل على كونها صلاة حقيقية، كسجدة التلاوة”

(بدائع الصنائع، ج ۲، ص ٥٣٠٥٢، كتاب الصلاة، باب كيفية الصلاة، مكتبه زكريا)

اور ہمارے دعوئ کی مزید بحمدہ تعالٰی وہ حدیث بھی ہے جو امام مالک نے موطا میں نافع کی روایت سے ابن عمر سے روایت فرمائی کہ انہوں نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی، وهذا نصه:وحدثني عن مالك عن نافع ان ابن عمر كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة ”

(فتح القدير، ج ۲، ص ١٢٥، كتاب الصلاة، فصل في الصلاة على الميت، مركز اهل سنت برکات رضا، پوربندر)

 نیز اسی میں سید ابن ابی سید المقبری سے مروی کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا کہ نماز جنازہ کسی طرح پڑھتے ہو؟ ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں خدا کی قسم تجھے خبر دونگا، میں جنازہ کے پیچھے اس کے اہل سے چلتا ہوں تو جب جنازہ رکھ دیا جاتا ہے، تکبیر کہتا ہوں اور حمد الہی بجالاتا ہوں اور اس کے رسول پر درود بھیجتا ہوں پھر کہتا ہوں:

“اللهم عبدك وابن عبدك وابن أمتك كان يشهد ان لا اله الا انت وأن محمدا عبدك و رسولك وانت اعلم به اللهم ان كان محسنا فزد في حسناته وان كان مسياً فتجاوز عن سياته اللهم لا تحرمنا اجره ولا تفتنا بعده”

( فتح القدير، ج ۲، ص ۱۲۹، كتاب الصلاة، فصل في الصلاة على الميت، مركز اهل سنت برکات رضا، پوربندر)

  اگر سوره فاتحہ نماز جنازہ میں حضور سے ثابت ہو تو ابن عمر جو غایت درجہ اتباع سنن پر حریص تھے ان سے ترک سورہ فاتحہ متصور نہ تھا اور ابو ہریرہ سے یہ امر مخفی نہ رہتا۔ واللہ تعالی اعلم

ثانيا: لا صلاة الا بفاتحة الكتاب ولا صلاة الا بقرأة میں صلاة مطلق ہے اور مطلق فرد کامل کی طرف متصرف ہوتا ہے ، كما هو المقرر في أصول الفقہ اور صلاۃ کا فرد کامل صلاة مطلقہ ہے یعنی نماز جس میں رکوع و سجود و غیرہ ارکان ہوں تو مطلق اسی پر صادق ، اسی لئے اس کو صلاۃ مطلق کہتے ہیں۔ اور اس کے ماوراء کو شامل نہ ہوگا، اسی بدائع میں ہے:

“ولا نها ليست بصلاة مطلقة فلا يتنا ولها مطلق الاسم”

(بدائع الصنائع، ج ۲، ص ٥٣، باب كيفية الصلاة على الجنازة، مكتبة زكريا)

ثالثا : حدیث ابن عباس جو ابھی گزری، احادیث عمر ابن مسعود و ابن عمر و ابن عوف کے معارض ہے اور اس صورت میں ترجیح ان احادیث کو ہے۔ فان العمل بما فيه الاكثر .

رابعا: وہ خود شافعیہ کے مدعا میں مفید نہیں کہ اسمیں وارد ہوا :

“ليتعلموا انها سنة”

میں نے سورہ فاتحہ جہراً یوں پڑھی کہ جان لو کہ وہ سنت ہے۔

(صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۷۸، باب قرأة فاتحة الكتاب على الجنازة، مجلس بركات)

تو اس کا ظاہر بالکل مخالف شافعیہ ہے۔ اس لئے علماء شافعیہ نے بیان سنت کو اپنے ظاہر پر نہ چھوڑا بلکہ تاویل کی کہ فاتحہ پڑھنا طریقہ مرویہ ہے اور بدعت نہیں ۔ مرقاة ملاعلی قاری میں ہے:

“قال الطيبي اي ليست بدعة قال الأشرف الضمير المؤنث القرأة الفاتحة وليس المراد بالسنة انها ليست بواجبة بل ما يقابل البدعة اى انها طريقة مروية وهذا التاويل على مذهب الشافعي واحمد وقال ابو حنيفة ليست بواجبة”

(مرقاة المفاتيح، كتاب الجنائز، باب المشي بالجنازة والصلاة عليها، مج ٤، ص ١٢٣، ١٢٤، دار الكتب العلمية، بيروت)

 با وجود اس تاویل کے فرضیت فاتحہ ثابت نہیں ہوگی کما لا یخفی۔

خامسا: پھر اسے طریقہ مرویہ بتانا بھی محل نظر ہے جبکہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی احادیث سے ثابت کہ یہ حضرات سورۃ فاتحہ نہ پڑھتے تھے۔ اور ابن مسعود و ابن عمر و ابن عوف رضی اللہ تعالی عنہم کے ارشادات پہلے گزرے اس لئے فتح القدیر میں فرمایا:

“قالوالا يقرء الفاتحة الا ان يقرأها بنية الثناء ولم تثبت القراة عن رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم وفي مؤطا مالك عن نافع أن ابن عمر كان لا يقرأها في الصلاة على الجنازة ام كذا في مرقاة المفاتيح”.

(فتح القدير، ج ۲، ص ١٢٥، كتاب الصلاة، فصل في الصلاة على الميت، مرکز اهل سنت برکات رضاء اور بندر / مرقاة المفاتيح، ج ٤، ص ١٢٤ ، كتاب الجنائز وغيره، دار الكتب العلمية، بيروت)

اسی لئے مرقاۃ میں اس کے متصل فرمایا:

“ولهذا يعلم ضعف قوله أي انها طريقة مروية”

(مرقاة المفاتيح، ج 1، ص ١٢٤، كتاب الجنائز، باب المشي بالجنازة والصلاة عليها، دار الكتب العلمية، بيروت)

 یہاں سے ظاہر ہے کہ اس امر کی حضور صلی اللہ تعلی علیہ وسلم کی طرف نسبت میں تردد ہے۔ اسی مرقاۃ میں زیر حدیث مروی:

“عن ابن عباس ان النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب رواه الترمذي وابوداد و ابن ماجه قال ابن ملك وبه قال الشافعي قلت مع عدم تعيين دلالته على ان القرأة كانت على الميت او فى الصلاة عليه و بعد أي تكبيرة من تكبيراتها الحديث ضعيف لا يصح الاستدلال به رواة الترمذي) وقال ليس اسناده بذالك القوى قال ميرك يشير الى ان في سنده ابا شيبة ابراهيم ابن عثمان الواسطى وهو ضعيف منكر الحديث”

مرقاة المفاتيح، ج ٤ ، ص ١٤١٠١٤٠، كتاب الجنائز، باب المشي بالجنازة، والصلاة عليها، دار الكتب العلمية، بيروت)

یہ نہ کہا جائے کہ حدیث ابن عباس میں “ليتعلموا أنها سنة”

(صحیح البخاری، ج ۱، ص ۱۷۸، باب قرأة فاتحة الكتاب على الجنازة، مجلس بركات)

وارد ہوا تو یہ قول صحابی من السنة كذا کی قبیل سے ہوا۔ اور وہ حکم میں مرفوع ہے اسلئے کہ طیبی سے ابھی گزر چکا کہ مطلب یہ ہے کہ بدعت نہیں تو یہاں سنت مقابل بدعت کے ہوا نہ یہ کہ حدیث ابن عباس مرفوع ہوا اور قرآت فاتحہ بر سبیل مواظبت حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ مرقاۃ میں اسی سے فرمایا:

وليس هذا من قبيل قول الصحابي من السنة كذا فيكون في حكم المرفوع كما تو همه ابن حجر فتدبر

(مرقاة المفاتيح، كتاب الجنائز، باب المشي بالجنازة والصلاة عليها، ج 4، ص ١٢٤، دار الكتب العلمية، بيروت)

اور اس کے مویدبحمدہ تعالیٰ وہ ہے کہ امام طحاوی نے امام مالک سے نقل فرمایا کہ قرآت فاتحہ نماز جنازہ میں ہمارے شہر یعنی مدینہ پاک سے معروف نہیں طحطاوی علی المراقی میں عینی شرح باری سے ہے:

“واجاب عنه الطحاوى بان قرأة الفاتحة من الصحابة لعلها كانت على وجه الدعاء لا على وجة التلاوة وقد قال مالك قرأة الفاتحة ليس معمولاً بها في بلدنا في صلاة الجنازة ”

(حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح، كتاب الصلوة فصل الصلوة عليه، ص ٥٨٤، دار الكتب العلمية بيروت )

” قلت ولئن سلم ما قاله ابن حجر رضى الله تعالى عنه قال ابن حجر اذ ذاك خالف مذهب فتعين ما قاله الطيبي وتبين ان لا منافاة . بین حدیث ابن عباس و بین ما قال ابن الهمام من ان القرأة لم تثبت عن رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم”.

(حاشية الطحاوي على المراقي، المطبعة الكبرى الاميرية)

تدبر اور حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو صدر کلام میں گزری ہمارے ائمہ حنفیہ کے نزدیک اس پر محمول ہے کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فاتحہ بر سبیل ثناء دعا پڑھی اور یہ ہمارے ائمہ کے نزدیک جائز ہے۔

صرح به في البدائع و شرح سفر السعادة وغيرهما امر ما اجابه الطحاوي في كلام الطحطاوي آنفا فتذكر وتدبر.

سادساً: حضرات شافعیہ قرآت فاتحہ کی فرضیت پر استدلال نماز جنازہ تو نماز جنازه صلاة مطلقہ ہی میں سرے سے محل نظر ہے کہ لا صلاة الا بفاتحة الكتاب خبر واحد ہے اور خبر واحد سے کتاب پر زیادتی جائز نہیں اور کتاب اللہ میں:

فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ (سوره مزمل ، آیت ۲۰)

مطلق ہے جسکی رو سے مطلق قرآت فرض ہے اب اگر سورۃ فاتحہ کی قرآت فرض قرارد دیجئے تونص قطعی کے موجب اطلاق کا دلیل ظنی سے ابطال لازم آئے گا اور یہ جائز نہیں۔ اسی لئے ہم حنفیہ کہتے ہیں کہ حدیث پر یوں عمل کیا جائے کہ سورۃ فاتحہ کو واجب اور مطلق قرآن کو فرض قرار دیا جائے اور حدیث ہمارے یہاں نفی کمال پر محمول ہے اور یہ اگر چہ خلاف ظاہر لفظ ہے جیسا کہ علامہ امام نودی نے فرمایا لیکن اس کا ارتکاب نص قطعی کی وجہ سے واجب ہے اور فی الحقیقت یہ الزام مشترک ہے یعنی خلاف ظاہر لفظ کا ارتکاب ہم نے بھی کیا اور انہوں نے بھی کیا لیکن نص قطعی کے موجب کو بچانے کیلئے دلیل ظنی میں خلاف ظاہر کرنا اولی ہے کما لا یخفی پھر حدیث کے جو معنی ہم نے بتائے وہ حدیث مسلم سے بحمدہ تعالی موید ہیں۔ اور حدیث یہ ہے:

“عن ابي هريرة عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم من صلى صلاة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا وغير تام – الخ”

(صحيح المسلم ، ج ۱، ص ١٦٩ ، باب وجوب قراة الفاتحة في كل ركعة، مجلس بركات)

 یعنی جس کسی نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نا تمام ہے ( حضور نے تین مرتبہ فرمایا ) ۔ نووی شرح مسلم میں ہے:

“قال الخليل بن احمد والاصمعي وابو حاتم السجستاني والهروى رحمهم الله تعالى وآخرون الخداج النقصان يقال خدجت الناقة اذا القت ولدها قبل أوان النتاج وان كان نام الخلق واخدجته اذا ولدته ناقصا وان كان لتمام الولادة الخ”

(شرح مسلم للنووى، باب وجوب قرأة الفاتحة في كل ركعة، ج 1 ، ص ١٦٩ / ۱۷٠، مجلس برکات)

بلکہ یہ حدیث” لا صلاة الا بفاتحة الكتاب” سے مراد کی تفسیر ہے اور اگر سورہ فاتحہ کی قراۃ فرض ہوتی تو حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اعرابی کو ( جس نے نماز اچھی طرح نہ پڑھی ) سورۃ فاتحہ کی تعلیم ترک نہ فرماتے اور  اقره ما تيسر معك من القرآن.

(فتح القدير، ج 1، ص ٠٣٤٠ كتاب الصلاة، فصل في القرأة، مجلس بركات مباركفور)

 پر اکتفانہ فرماتے۔” والحديث في صحيح مسلم فراجعه هذا ما علقناه على قول النووى فان قالوا: المراد لا صلاة كاملة قلنا هذا خلاف ظاهر اللفظ الخ مترجما ومزيدا ولله الحمد ”

(شرح مسلم للنووى، باب وجوب قرأة الفاتحة في كل ركعة، ج ۱، ص ۱۷۰، مجلس بركات)

اگر کہا جائے کہ:

“فاقر ما تيسر معك من القرآن فمحمول على الفاتحه فانها ميسرة”

(فتح القدير، ج ۱، ص ٣٤٠، كتاب الصلاة، فصل في القرأة مكتبه زكريا)

تو سورہ فاتحہ پر محمول ہے اسلئے کہ وہ میسرہ ہے۔

 قال النووی: فانها میسره”

(شرح مسلم للنووى، باب وجوب قرأة الفاتحة في كل ركعة، ج ۱، ص ۱۷۰، مجلس بركات)

اور ابو داؤد کی روایت یہی ہے:

“اذا قمت إلى فتوجهت الى القبله فكبر ثم اقرأ بأم القرآن وبما شاء الله ان تقرأ”

(فتح القدير ، ج ۱، ص ۳۰۰، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة مركز اهل سنت برکات رضا پور بندر )

ہم کہیں گے سورۂ فاتحہ پر حمل کرنا وہی خلاف ظاہر لفظ کا ارتکاب ہے اور وہ بالا تفاق ممنوع ہے جب تک کہ فرضیت فاتحہ کسی اور دلیل سے ثابت نہ ہو جائے یہ اپنے اطلاق پر باقی رہے گا اور حدیث ابی داؤد کا جواب یہ ہے کہ اسکی دوسری روایت خود اسکا معارض ہے کہ اس میں وارد ہوا:

“فتوضا كما امره الله ثم اقره وكبر فان كان معك قرآن فاقر، به والا فاحمد الله وكبره و هلله”

(فتح القدير ، ج ۱، ص ۳۰۰، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة مرکز اهل سنت برکات رضا پور بندر)

اس روایت سے صاف ظاہر کہ فاتحہ فرضیت کیلئے متعین نہیں بلکہ فرضیت مطلق قرآن سے حاصل ہو جاتی ہے ورنہ حضور انور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سورہ فاتحہ کو ضرور متعین فرماتے تو روایت اولی میں:

“ثم اقرأ بأم القرآن وبما شاء الله أن تقرأ وجوب”

(فتح القدير، ج ۱، ص ٣٠٠، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة مركز اهل سنت برکات رضا پور بندر)

تکمیل صلاۃ کیلئے معمول اور یہ بیان فرض پر محمول ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ یہ الفاظ مختلفہ ایک ہی حادثہ میں فرمائے گئے۔ پھر بالمعنی روایت کرنے والوں نے بعض محل پر اقتضاء فرمالیا تو تطبیق یوں ہوگی:

“فان كان معك شئ من القرآن والا فكبره الخ وان كان معك فاقرأ بأم القرآن و بما شاء الله”

(فتح القدير ، ج ۱، ص ٣٠٠، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة مركز اهل سنت برکات رضا پور بندر)

 یعنی اگر تجھے قرآن میں کچھ بھی یاد ہو تو اسے پڑھ ورنہ تکبیر وتہلیل کر اور اگر تجھے سورۃ فاتحہ یاد ہو تو وہ اور جو اللہ تعالیٰ چاہے پڑھ۔

“قال في الفتح وفي ابي داؤد من حديث المسئ صلاته اذا قمت فتوجهت الى القبلة فكبر ثم اقرأ بام القرآن وبما شاء الله ان تقره وفي رواية رواها قال فيها فتوضاً كما امرك الله ثم اقرأ وكبر فان كان معك قرآن قاقر، به والا فاحمد الله وكبره وهالله فالأولى  في الجمع الحكم بانه قال ذلك كله اى فان كان معك شئ من القرآن والا فكبره الخ وان كان معك فاقرء بام القرآن وبما شاء الله ثم ان الرواة رواه بالمعنى مع اقتصار بعضهم على بعض الجمل المنقولة فتأمله وبه يندفع التعارض”

(فتح القدير، ج ا ص ۳۰۰، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة ، مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر)

پھر اسی حدیث روایت ابن داؤد میں نظر کیجئے تو یہ مدعائے شافعیہ ( کہ سورہ فاتحہ کو فرضیت کیلئے معین کرتے ہیں ) صریح مخالف ہے کہ اس میں وارد ہوا :

“ثم اقرء بأم القرآن وبما شاء الله”

(فتح القدير، ج ۱، ص ۳۰۰، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مركز اهل سنت برکات رضا پور بندر )

جس کا مقتضی یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت بھی واجب اور یہ مدعائے شافعیہ کے خلاف ہے کہ ضم سورت ان کے یہاں واجب نہیں اور ہمارے موافق ہے کہ ہمارے یہاں سورہ فاتحہ اور ضم سورت واجب ہے ہاں وجوب ہمارے یہاں دون الفرض ہے تو جوان کا جواب ضم سورت کی عدم فرضیت کے متعلق ہوگا وہی ہمارا جواب فاتحہ کی عدم فرضیت کے بارے میں ہو گا اور یہ اس صورت میں ہے کہ واو کو بھی مع کے معنی میں لیجئے اور اگر بمعنی او کے لئے تو معنی یہ ہوں گے کہ سورۃ فاتحہ پڑھو یا جواللہ چاہے پڑھو اور اس صورت میں عدم تعین اور ظاہر ہوگی بلکہ عدم تعین خود اس حدیث میں جسے طبرانی و حارثی و امام المعظم ابو حنیفہ نے روایت کی مصرح ہے وہ حدیث یہ ہے:

“عن ابي هريرة رضى الله تعالى عنه أمرني رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ان انادي في أهل المدينة ان في كل صلاة قراءة ولو بفاتحة الكتاب” رواه الطبراني في  الأوسط”

(المعجم الأوسط للطبراني، باب من اسمه الهيثم، حدیث نمبر ٩٤١٥، مطبع دار الحرمين، القاهره )

یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ فرماتے ہیں مجھے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اعلان کروں کہ نماز بے قرآت کے نہیں ہوگی اگر چہ سورۃ فاتحہ ہی پڑھ لے۔ کما فی الفتح :

“قال فيه حجاج بن ارطاة وثقه انا س مسلم ابن ابی نجیح وسفيان الثوري وقال العجلي جائز الحديث وابو طالب عن كان من الحفاظ والوزر ا صدوق مدلس والبزاز كان حافظا مدلسانه اذكره الحافظ ووتم شعبة غيره على حانی میزان الدحی”

 حاصل یہ کہ طبرانی کی روایت میں حجاج ابن ارطاۃ ہے جس کی بہت ساروں نے توثیق کی ہے ان میں سے ابن ابی نجیح اور سفیان ثوری اور ابو طالب اور ابو سدعۃ اور بزار و شعبہ وغیر ہم محد ثین کبائر ہیں تو اسکی سند ضعیف نہیں اور اگر سند کو ضعیف مان بھی لیں تو متن کا ضعف لازم نہیں کہ اس کا معنی ( جو عدم تعین فاتحہ ہے ) متعدد احادیث ہے کہ اذا لجملة اقرء بما تيسر معك من القرآن ہے بلکہ خود آیت:  فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّر مِنَ الْقُرْآنِ  [سورۂ مزمل ، آیت – ۲۰] سے ثابت ہے تو وہ ہمارے مدعا کی عین مؤید ہے واللہ الحمد ۔ ہمارے نزدیک حدیث راوی مجرد پر مقدم ہے اگر چہ ضعیف ہو ، لا جرم مرقاۃ میں فرمایا:

“ولو صح ضعفه ، فهو يقوى المعنى المراد على ان الحديث الضعيف عندنا مقدم على الراي المجرد”

(المرقاة شرح مشكوة ، ج ٢ ، ص ٠٥٠٦ كتاب الصلوة باب القرات في الصلوة، دار الكتب العلمية بيروت)

 پھر یہ حدیث بطریق متعددہ مروی، اور تعدد طرق سے ضعف منجر ہو جاتا ہے۔ وقد سر د طرفه فلحاشية المسند الامام الاعظم فليراجع بالجمله حديث: لاصلاة الا بفاتحة الكتاب مدعائے شافعیہ میں نص نہیں کہ بسا اوقات ایسا کلام نفی کمال و فضیلت کیلئے بولتے ہیں جیسے حدیث میں آیا :

“لاصلاة لجار المسجد الا في المسجد”

(شرح معاني الآثار، ج ۱، ص ٢٦٦، باب من صلى خلف الصف وحده، المكتبة الاشرفيه)

اور لا صلاة للعبد الابق اس کا مطلب یہ نہیں کہ جار مسجد کی نماز غیر مسجد محلہ میں نہ ہوگی نہ حدیث دیگر کا مطلب یہ کہ بھاگے ہوئے غلام کی نماز نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہاں نفی فضیلت مراد ہے اس طرح: لا صلاة الا بفاتحة الکتاب میں بحکم عرف وہی نفی کمال مراد ہے اور اگر نفی حقیقت ہی راجح مانیں تو احتمال دیگر اب بھی قائم اور وہ قطعیت کے منافی تو حدیث ظنی الثبوت ظنی الدلالۃ ہوئی اور اب فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ) ( سوره مزمل ، آیت – ۲۰ ) قطعی الثبوت قطعی الدلالہ کا معارض نہیں ہو سکتا پھر اسکی قطعیت دلالت میں دوسری احادیث درج ہے کہ بعض سورۃ فاتحہ کے ساتھ ضم سورت یا ضم آیتوں کو واجب کرتی ہیں شافعیہ ضم سورت کے وجوب کے قائل نہیں۔

اور بعض مطلق قرآت کو واجب فرماتے ہیں لا محالہ سورہ فاتحہ کا عدم افتراض صلاۃ مطلقہ میں ثابت تو نماز جنازہ میں بدرجہ اولی قرآت فاتحہ فرض نہیں۔

شافعیہ اسی حدیث لا صلاة الا بفاتحة الكتاب سے قرأت خلف الامام پر دلیل لاتے ہیں اور امام کے پیچھے قرآت فاتحہ مقتدی پر لازم کہتے ہیں۔ اور یہ حدیث ان کے عمدہ ترین دلائل سے ہے۔ جسے ان کا مدار مذہب کہا جائے۔

جواب اس حدیث سے چند طور پر ہے یہاں اس قدر کافی کہ یہ حدیث تمہارے مفید نہ ہمارے مضر ، ہم خود مانتے ہیں کہ کوئی نماز ذات رکوع و سجود بے فاتحہ کے تمام نہیں، امام کی ہو خواہ ماموم کی مگر مقتدی کے حق میں خود رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کیلئے امام کی قرآت کافی اور امام کا پڑھنا بعینہ اس کا پڑھنا ہے سیدنا امام الائمہ سراج الامہ کاشف الغمہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کوفی رضی اللہ تعالی عنہ عن مقلد یہ با حسان روایت فرماتے ہیں:

“حدثنا ابو الحسن موسى ابن ابي عائشة عن عبد الله بن شداد بن الهاد عن جابر بن عبد الله (رضی الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم انه قال : من صلى خلف الامام فان قرأة الامام له قرأة”

(موطا امام محمد رحمة الله تعليه، باب القرأة في الصلاة خلف الامام، ص ۹۸، مجلس برکات / مسند الامام الاعظم، كفاية قرأة الامام للماموم، ص ۱۱، مطبوعه نور محمد کارخانه تجارت کتب، کراچی)

 یعنی حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کا پڑھنا اس کا پڑھنا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ رجال اس کے سب رجال صحاح ستہ ہیں، ورواه محمد هكذا مرفوعاً من طريق اخر – حاصل حدیث کا یہ ہے کہ مقتدی کو پڑھنے کی کچھ ضرورت نہیں امام کا پڑھنا اس کیلئے کفایت کرتا ہے۔

“هكذا روى عند محمد رحمه الله تعالى مختصراً ورواه الامام تارة اخرى مستوعبا قال صلى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم بالناس فقر، رجل خلفه فلما قضى الصلاة قال ايكم قرء خلفي ثلث مرات، قال رجل انا يا رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم قال صلى الله تعالى عليه وسلم من صلى خلف الامام فان قرأة الامام له قرأة”

 (مسند الامام الاعظم، كفاية قرأة الامام الماموم، ص ۱۱، مطبوعه نور محمد کارخانه تجارت کتب، کراچی)

 خلاصہ مضمون یہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی ایک شخص نے حضور کے پیچھے قرآت کی سید ا کرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر ارشاد فرمایا کس نے میرے پیچھے پڑھا تھا لوگ بسبب خوف حضور کے خاموش ہور ہے یہاں تک کہ تین باربتکرار یہی استفسار فرمایا آخر ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں نے ، ارشاد ہوا جو امام کے پیچھے ہو اس کیلئے امام کا پڑھنا کافی ہے۔

” قال ابو حنيفة رضى الله تعالى عنه ايضا:

“عن حماد عن ابراهيم النخعي عن علقمة بن قيس ان عبد الله ابن مسعود كان لا يقرأ خلف الامام فيما يجهر فيه وفيما يخافت فيه الأوليين ولا في الآخريين واذا صلى وحده قرأ في الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة ولم يقرأ في الآخريين شيئا”

(مؤطا امام محمد رحمه الله، باب القرأة خلف الامام، ص ۱۰۰، مجلس بركات)

یعنی سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے امام کے پیچھے قرآت نہ کی نہ پہلی دو رکعتوں میں نہ ان کے غیر میں۔ عبد اللہ بن مسعود اور کون عبد اللہ بن مسعود جو افاضل صحابہ ومومنین سابقین سے ہیں حضر و سفر میں ہمراہ رکاب سعادت انتساب حضور رسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رہتے اور بارگاہ نبوت میں بے اذن جانا ان کیلئے جائز تھا بعض صحابہ فرماتے ہیں ہم نے راہ و روش سرور انبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جو چال ڈھال ابن مسعود کی ملتی پائی کسی کی نہ پائی حدیث میں ہے خود حضوراکرم الاولین والآخرین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

“رضیت لامتی ما رضى لها ابن ام عبد وكرهت لامتی ماکره لها ابن ام عبد”

( مجمع الزوائد و منبع الفوائد، حدیث نمبر ١٥٥٦٨ ، باب ما جاء في عبد الله بن مسعود، ج ۹، ص ٤٧٥ ، دار الفكر، بيروت)

 میں نے اپنی امت کیلئے وہ پسند کیا جو عبداللہ بن مسعود اس کیلئے پسند کرے اور اپنی امت کیلئے وہ نا پسند کیا جو عبد اللہ بن مسعود اس کیلئے نا پسند کرے۔

 گویا ان کی رائے خود حضور والا کی رائے اقدس ہے اور معلوم ہے کہ جناب ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ جب مقتدی ہوتے فاتح وغیرہ کچھ نہیں پڑھتے اور ان کے سب شاگردوں کا یہی وتیرہ تھا۔

قال محمد في موطاه من طريق سفيانين :

“عن منصور ابن المعتمر عن أبي وائل قال سئل عبد الله بن مسعود عن القرأة خلف الامام قال انصت فان في الصلاة شغلا سيكفيك ذاك الامام ”

(مؤطا امام محمد، باب القرأة خلف امام، ص ۱۰۰/۹۹، مجلس برکات)

خلاصہ یہ کہ سید نا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درباره قرآت مقتدی سوال ہوا، فرمایا خاموش رہ کہ نماز میں مشغولی ہے یعنی باتوں سے باز رہنا عنقریب تجھے امام اس کام کی کفایت کر دیگا یعنی نماز میں تجھے لا طائل باتیں روانہیں اور جب امام کی قرآت بعینہ اس کی قرآت ٹھہرتی ہے تو پھر مقتدی کا خود قرآت کرنا محض لغود نا شائستہ ہے۔

 یہ حدیث اعلیٰ درجہ صحاح میں ہے اس کے سب رواۃ ائمہ کبار اور رجال صحاح ستہ ہیں ۔

 واما حديث الامام عن ابن مسعود فوصله محمد:

انا محمد بن ابان بن صالح القرشي عن حماد عن ابراهيم النخعي عن علقمة بن قيس ان عبد الله بن مسعود كان لا يقر، خلف الامام فيما يجهر وفيما يخافت فيه في الأوليين ولا في الآخريين واذا صلى وحده قرء في الأوليين بفاتحة الكتاب وسبورة ولم يقرء في الآخريين شيئا”

(مؤطا امام محمد، باب القرأة خلف الامام، ص ۱۰۰، مجلس بركات)

حاصل یہ کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مقتدی ہوتے تو کسی نماز میں جہر یہ ہویا سر یہ کچھ نہ پڑھتے تھے نہ پہلی رکعتوں میں نہ پچھلی میں ۔ ہاں جب تنہا ہوتے تو صرف پہلیوں میں الحمدو سورت پڑھتے ۔ امام مالک اپنی موطا میں اور امام حنبل رحمہا اللہ تعالی اپنی سند میں روایت کرتے ہیں:

“وهذا سياق مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر رضى الله تعالى عنهما كان اذا سئل هل يقره احد خلف الامام قال اذا صلى احدكم خلف الامام فحسبه قرأة الامام واذا صلى وحده فليقرأ قال وكان عبد الله بن عمر رضى الله تعالى عنهما لا يقرء خلف الامام”

(مؤطا امام مالك، ترك القرأة خلف الامام، ص ۹۸، مير محمد کتب خانه، کراچی)

یعنی سید نا و ابن سید نا عبد الله بن امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب دربارہ قرأت مقتدی سوال ہوتا فر ماتے جب کوئی تم میں امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اسے قرآت امام کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو قرآت کرے ۔نافع کہتے ہیں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما خود امام کے پیچھے قرات نہ کرتے یہ حدیث غایت درجہ کی صحیح الاسناد ہے حتی کہ مالک عن نافع عن ابن عمر کو بہت محدثین نے صحیح ترین اسانید کہا ان احادیث صحیحہ و معتبرہ سے مذہب حنفیہ بحمد اللہ ثابت ہو گیا کہ قرآت امام مقتدی کے لئے کافی ہے اور امام کا پڑھنا بعینہ اس کا پڑھنا ہے۔ پس خلاف ارشاد حضور والا تم نے کہاں سے نکال لیا کہ مقتدی جب تک خود نہ پڑھے گا نماز اسکی بے فاتحہ رہیگی اور فاسد ہو جائے گی حالانکہ ہنوز فرضیت قرأت فاتحہ ہی ثابت نہ ہو سکی اور حدیث مسلم :

من صلى صلاة لم يقرء فيها بأم القرآن فهى خداج هي خداج هي خداج ”

(صحیح مسلم شریف، ج ۱، ص ۱۷۰۰۱۶۹، باب وجوب قرأة الفاتحه في كل ركعة، مجلس بركات /مؤطا امام محمد رحمة الله عليه، باب القرأة خلف الامام، ص ۹۵، مجلس بركات)

حاصل یہ کہ جس نے کوئی نماز بے فاتحہ پڑھی وہ ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے۔

اس کا جواب بھی بعینہ مثل اول کے ہے نماز بے فاتحہ کا نقصان مسلم اور قرآت امام قرآت ماموم سے مغنی ۔

خلاصہ یہ کہ اس قسم کی احادیث اگر چہ لاکھوں ہوں تمہیں اس وقت بکار آمد ہونگی جب ہمارے طور پر نماز مقتدی بے ام الكتاب رہتی ہو ، و هو ممنوع ۔

اور آخر حدیث میں قول حضرت سید نا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ “اقرأ بها في نفسك يا فارسی “کہ شافعیہ اس سے بھی استناد کرتے ہیں کہ جواب اولاً یہ ہے کہ وہ مذہب صحابی ہے جو احادیث متعددہ گزشتہ کے معارض ہے تو اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی ثانیا وہ بھی عمل ہے کہ یہ حکم صلاۃ سریہ میں ہو جب کہ امام مالک کا مذہب ہے اور محمد سے روایت ہے اگر چہ یہ روایت محض ضعیف ہے:

“كما بسط المحقق على الاطلاق فقيه النفس مولانا كمال الملة والدين محمد رحمه الله تعالى كما قال في الدر المختار”

(فتاوی رضویه، ج ۳، ص ۸۸، رضا اکیڈمی، بمبئی)

( خود تصانیف امام محمد میں جا بجا عدم جو از مصرح ) ہو سکتا ہے امام کے پڑھنے کا حکم ہو جیسا کہ مسبوق کو ثنا پڑھنے کی بعض نے اجازت دی یا دل میں پڑھنے کا حکم ہو اور یہ احتمال اخیر اظہر ہے کمالایخفی۔

 مرقاة ملاعلی قاری میں ہے:

“(قال اقرء بها) اى بأم القرآن( في نفسك) سرا غير جهر وبه أخذ الشافعي وهو مذهب صحابي لا يقوم به حجة على أحد مع احتمال التقييد في الصلاة السرية كما قال به الامام مالك والامام محمد من اصحابنا، اوفى السكتان بين قرأة الامام، كما قيل للمسبوق في دعاء الاستفتاح او معناه في قلبك باستحضار الفاظها او معناها”

(مرقاة المفاتيح، ج ۲، ص ٥٠٧، كتاب الصلاة، باب القرأة في الصلاة، دار الكتب العلمية، بيروت)

اور حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنه :

“لا تفعلوا الابام القرآن”

 امام کے پیچھے اور کچھ نہ پڑھو سوائے سورہ فاتحہ کے،سے استدلال اولا یہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے ان صحیح حدیثوں کی جو ہم نے مسلم اور ترمذی و نسائی و موطائے امام مالک و موطائے امام محمد وغیر ہا صحاح و معتبرات سے نقل کیں ، کب مقاومت کر سکتی ہے امام احمد بن حنبل وغیرہ حفاظ نے اس کی تضعیف کی، یحییٰ بن معین جیسے ناقد جن کی نسبت امام ممدوح نے فرمایا جس حدیث کو یحیی نہ پہچانے حدیث ہی نہیں، فرماتے ہیں استثنائے فاتحہ غیر محفوظ ہے۔ ثانیا خود شافعیہ اس حدیث پر دو وجہ سے عمل نہیں کرتے ایک یہ کہ اس میں ماورائے فاتحہ سے نہی ہے اور ان کے نزدیک مقتدی کو ضم سورت بھی جائز ۔

صرح به الامام النووي في شرح صحيح مسلم۔

دوسرے یہ کہ حدیث مذکور جس طریق سے ابو داؤد نے روایت کی بآواز بلند منادی کہ مقتدی کو جہر فاتحہ پڑھنا روا، اور یہ امر بالاجماع ممنوع – صرح به الشيخ في اللمعات ويفيده الكلام النووي في الشرح۔ پس حدیث خودان کے نزدیک متروک ہے ہم پر اس سے کس طرح احتجاج کرتے ہیں؟

 بالجملہ ہمارا مذہب مہذب بحمد اللہ حجج کافیه و دلائل وافیہ سے ثابت اور مخالفین کے پاس کوئی دلیل قاطع ایسی نہیں کہ اسے معاذ اللہ باطل یا مضمحل کر سکے مگر اس زمانہ پرفتن کے بعض جبال بے لگام جنہوں نے ہوائے نفس کو اپنا امام بنایا ہے اور نظام اسلام کو درہم برہم کرنے کیلئے تقلید ائمہ کرام میں خدشات واو ہام پیدا کرتے ہیں جس ساز و سامان پر ائمہ مجتہدین خصوصاً امام الائمۃ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ وعن مقلد یہ کی مخالفت اور جس بضاعت مزجات پر ادعائے اجتہاد وفقاہت ہے عقلائے منصفین کو معلوم اصل مقصود ان کا اغوائے عوام ہے کہ وہ بیچارے قرآن وحدیث سے ناواقف ہیں جو ان مدعیان خام کا ر نے کہہ دیا انہوں نے مان لیا ، اگر چہ خواص کی نظر میں یہ باتیں موجب ذلت و باعث فضیحت ہوں الله سبحنہ و تعالی و ساوس شیطان سے امان بخشے آمین ۔

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ؟

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ؟ محترم قارئینِ کرام : احناف کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ بہ نیت قرآت مشروع نہیں ، ہاں بہ نیت ثناء و د...