آج ہر شخص عالم ، مفتی ، محقق و خطیب بنا بیٹھا ہے
محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے : وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ يَّدۡعُوۡنَ اِلَى الۡخَيۡرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 104)
ترجمہ : اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے ۔
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار اہل کتاب کی دو وجہ سے مذمت فرمائی تھی ایک یہ کہ وہ خود کافر اور گمراہ ہیں اس لیے فرمایا اے اہل کتاب ! تم اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو ۔ (آل عمران : ٩٨) ۔ اور دوسری اس وجہ سے کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں لہذا فرمایا : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ (آل عمران : ١٠٢) ۔ اور چونکہ گمراہ کرنے کی وجہ سے اہل کتاب کی مذمت کی تھی اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے جو نیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں ۔ آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے ، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے ۔
مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا ، مقررین کا تقریر کرنا ، مبلغین کا بیان کرنا ، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے ۔ تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسا اوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے ، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان صفحہ ۴۴ حدیث نمبر ۷۸،چشتی)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وتلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون ۔ (سورہ العنکبوت آیت نمبر ٤٣)
ترجمہ : یہ مثالیں ہیں جن کو ہم لوگوں کےلیے بیان فرماتے ہیں ، ان کو صرف علماء ہی سمجھتے ہیں ۔
قرآن مجید کی آیتوں کا ترجمہ کرنا ، ان سے مسائل کا استنباط کرنا اور ان کی باریکیوں اور اسرار کو سمجھنا مذکور الصدر علوم کے بغیر ممکن نہیں ہے ‘، اور اللہ تعالیٰ نے ان ہی لوگوں کو عالم فرمایا ہے ۔ امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بغیر علم کے قرآن مجید میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے ۔ (جامع ترمذی صفحہ ٤١٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی،چشتی)
موجودہ دور میں ہر ایرا غیرا شخص عالم بنا بیٹھا ہے ، نہ صرف عالم بلکہ مفتی ، فقیہ ، مناظر ، محقق اور نہ جانے کیا کیا القاب لگائے گھومتا پھر رہا ہے ۔ آج ہر وہ شخص عالم ہے جس نے دوچار سال کسی مدرسہ میں گزارا ہو ، خواہ اس نے وہ چند سال غیرضروری امور بلکہ غیر شرعی امور میں ضائع کیے ہوں ۔ اور پھر ایسے ہی لوگ سوشل میڈیا پر آکر مفتی ، علامہ ، فہامہ اور نہ جانے کیا کیا بن کر خوب لفاظیاں کرتے ہیں ، نتیجتاً عصری تعلیم یافتہ طبقہ انہیں عالم سمجھ کر اہل سنت سے بیزار ہونے لگتا ہے ۔ جن لوگوں کو صحیح سے طہارت کے مسائل معلوم نہیں ہیں وہ لوگ عقائد جیسے حساس اور نازک ترین مسائل پر گفتگو کرنے لگتے ہیں اور جو ان کے طبعی معیار پر نہ اترے اسے گمراہ بددین بدمذہب بلکہ کافر تک کہہ بیٹھتے ہیں ۔ وعظ ، تقریر اور تبلیغ دین کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا علماء دین کا منصب ہے اور علمِ دین کی چند شرائط ہیں : (1) عربی لغت ، صرف اور نحو کا عالم ہونا کہ عربی عبارت بغیر اعراب کے صحیح پڑھ سکے اور قرآن مجید اور احادیث کا صحیح ترجمہ کر سکے ۔ (2) قرآن مجید ، احادیث ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت اور فقہ کا عالم ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو ۔ (3) مسلک حق اہل سنت و جماعت کے عقائد اور ان کے دلائل کا عالم ہو اور باطل فرقوں کے رد کی کامل مہارت رکھتا ہو ۔ (4) پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن ، سنت ، علمِ کلام اور فقہ کی کتابوں میں دیکھ کر بغیر کسی کی مدد کے نکال سکتا ہو ۔ واضح رہے کہ عالم اسے کہتے ہیں جو بغیر کسی کی مدد کے ضروریات کے مسائل کتب دینیہ سے اخذ کر سکے ۔ عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے ۔ (احکام شریعت صفحہ ٢٣٠)
غیر عالم کو عالم و غیر حافظ کو حافظ کہنا درست نہیں ہے جو لوگ لا علمی میں ایسا کرتے ہیں ان کو اس سے آگاہ کیا جائے جن حضرات کو لوگ کہتے ہیں اگر وہ عالم یا حافظ یا مفتی نہیں ہے تو ان کو خود ہی آگاہ کر دینا چاہیے ۔ غیر عالم کا اعتقادی و فقہی مسائل پر وعظ و تقریر کرنا جائز نہیں ہاں بزرگان دین کے جو واقعات کسی معتبر کتاب میں پڑھے ہوں تو ان کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں جب کہ فاسق نہ ہو ۔ جو لوگ کسی غیر عالم کو عالم کہیں اور وہ منع بھی نہ کریں نیز بغیر علم کے فتوی بھی دے ایسے شخص کے بارے میں حدیث پاک میں ہے ۔ بیشک اللہ اس طرح علم کو نہیں اٹھائے گا کہ علم کو بندوں کے سینوں سے نکال لے لیکن علما کے اٹھانے سے علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ وہ جب کسی عالم کو باقی نہ رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ (صحیح بخاری شریف حدیث نمبر ١٠٠،چشتی)
امام احمد رضا علیہ الرحمۃ عالم کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور سے آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے ۔ (الملفوظ پہلی جلد صفحہ 82)
عالم مطلق ، یعنی جملہ احکام شرع کو ان کے اصول و فروع کے ساتھ جاننے والا شخص ، اس درجہ کا عالم کوئی بھی نہیں ۔ جو لوگ بھی عالم کہلا رہے ہیں (خواہ عالم اصطلاحی ہوں یا عرفی) سب کے سب بعض احکام شرع یا چند ابواب شرع کے عالم ہوتے ہیں ، جو جس باب کا علم رکھتا ہو وہ اسی باب کا عالم ہے اور اسے فقط اسی باب میں کسی سے گفتگو یا بحث مباحثہ کی اجازت ہے ، ایسا شخص دوسرے ابواب میں جاہل ہے اور ان ابواب سے چھیڑ چھاڑ اس کے لئے بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح کہ عوام الناس کےلیے ۔
بغیر علم کے فتوی دینے کا وبال : ⏬
حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 101 علم کا بیان ، علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا)
اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں ، اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جس آدمی کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا ہوگا تو اس کا گناہ اس آدمی پر ہوگا جس نے اس کو (غلط) فتویٰ دیا ہے اور جس آدمی نے اپنے بھائی کو کسی ایسے کام کے بارے میں مشورہ دیا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے تو اس نے خیانت کی ۔ (سنن ابوداؤد حدیث نمبر 3657)(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 53)(سنن دارمی حدیث نمبر 164،چشتی)(مستدرک حاکم حدیث نمبر 436)(مسند احمد حدیث نمبر 8266)(سنن لکبریٰ بيهقى حدیث نمبر 20140 +20111)(جامع بیان العلم حدیث نمبر 1625)(صحيح الجامع الصغير حدیث نمبر 6068)(مشكواة المصبیح حدیث نمبر 242)(الاتحاف حدیث نمبر 19964)
حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا ۔ بغیر علم کے عقائد و مسائل پر بحث کرنے والے غور فرمائیں کہیں وہ اس گناہ میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟
جو شخص کسی باب کے کسی خاص فصل کا علم رکھتا ہے اسے بس اسی فصل سے متعلق چھیڑ چھاڑ کی اجازت ہے مثلاً کوئی باب طہارت سے فقط وضو کے مسائل کا علم رکھتاہے تو اسے غسل ، تیمم وغیرہ سے متعلق بحث کرنے کی قطعی اجازت نہیں ۔ نیز جو جس باب کے جس مسئلہ میں بحث کر رہا ہے اسے وہ مسئلہ مالہ و ما علیہ کے ساتھ معلوم ہوں ۔ جو حضرات مذکورہ شرائط سے بری ہو کر صرف شیخی بگھاڑنے کےلیے شرعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں وہ اوپر کی بیان کردہ احادیث کو اپنے لیے تازیانہ عبرت سمجھیں ۔
شرعی مسائل اپنے اندازے یا وہم و گمان سے بھی بتانا حرام ہے چہ جائے کہ اس کی باریکیوں سے بحث کی جائے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ، جس بات کی تمہیں تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو ۔
فقہا علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : اگر کسی نے بغیر تحقیق کے مسئلہ بتایا اور بعد میں وہ صحیح بھی نکلا جب بھی وہ شخص گنہ گار ہے کیوں کہ اس نے شرعی مسئلہ کو بغیر تحقیق کے بتانے کی جرات کی ۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ بغیر علم و تحقیق کے شرعی مسائل میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں ، جن کی رائے ان کے گھر والے نہیں لیتے وہ سوشل میڈیا پر شرعی مسئلوں سے متعلق کہتے ہیں "یہ میری رائے ہے" کوئی کچھ کہے میری عقیدت یہ کہتی ہے ۔ کوئی ان سے کہے کہ شریعت کی بنیاد عقیدتوں پر نہیں بلکہ ادلہ شرعیہ پر ہے ۔ خدارا ! سوشل میڈیائی مفتی و محقق بننے سے بچیں ، جس مسئلہ کی تحقیق ہو اسی سے متعلق کسی سے بحث کریں ورنہ خاموش رہیں ، اس سے آپ خود دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی سے بچیں گے اور اپنی جماعت بھی مذاق بننے سے محفوظ رہےگی ۔
غیر عالم كا وعظ و تقریر کرناجائز نہیں ، ہاں اگر اپنی طرف سے کچھ بیان نہ کرے کسی سنی صحیح العقیدہ عالم دین کی تصنیف سے پڑھ کر سنائے تو حرج نہیں ۔ فتاوٰی رضویہ میں ہے : وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مُقَدّم اجازتِ اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ جو کافی عِلم نہ رکھتا ہو، اُسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سُننا جائز نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 378، رضا فاونڈیشن لاہور)
اسی میں ہے : جاہِل اُردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالِم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اِس میں حَرَج نہیں ۔۔۔ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اُسے وعظ کہنا حرام ہے اور اُس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پرحق ہے کہ اُسے منبر سے اُتار دیں کہ اِس میں نَہْیِ مُنکَر ( یعنی بُرائی سے منع کرنا) ہے اورنَہْیِ مُنکَر واجِب ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 409 رضا فاونڈیشن لاہور،چشتی)
وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٣٧٩ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)
منبر مسندِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کہ تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈہ وغیرہ نہ ہو کہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقت وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتار دیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ۴١٠ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)
اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا : ⏬
عرض : کیا واعظ کا عالم ہونا ضروری ہے ؟
ارشاد : غیر عالم کو وعظ کہنا حرام ہے ۔
عرض : عالم کی کیا تعریف ہے ؟
ارشاد : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے ۔ (الملفوظ جلد ١ صفحہ ٨ مطبوعہ لاہور)
کتاب سے مراد تفسیر ‘ حدیث اور فقہ کی عربی کتابیں ہیں کیونکہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اردو کی کتابیں پڑھ کر وعظ کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ عنقریب فتاوی رضویہ سے بیان کیا جائے گا ۔
نیز اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : صوفی بےعلم مسخرہ شیطان است وہ جانتا ہی نہیں ، شیطان اپنی باگ ڈور میں لگا لیتا ہے ، حدیث میں ارشاد ہوا بغیر فقہ کے عابد بننے والا ایسا ہے جیسے چکی میں گدھا کہ محنت شاقہ کرے اور حاصل کچھ نہیں ۔ (الملفوظ جلد ٣ صفحہ ٢٩ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور)
نیز اعلی حضرت علیہ الرحمہ واعظ کے متعلق لکھتے ہیں : ⏬
مسئلہ ١٨ ذیقعدہ ١٣١٩ ھ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اس زمانہ میں بہت لوگ اس قسم کے ہیں کہ تفسیر و حدیث بےخواندہ وبے اجازت اساتذہ ، برسر بازار و مسجد وغیرہ بطور وعظ و نصائح کے بیان کرتے ہیں حالانکہ معنی و مطلب میں کچھ مس نہیں فقط اردو کتابیں دیکھ کر کہتے ہیں یہ کہنا اور بیان کرنا ان لوگوں کا شرعا جائز ہے یا نہیں ۔ بینوا تو جروا ۔
الجواب : حرام ہے اور ایسا وعظ سننا بھی حرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قال فی القران بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار۔ والعیاذ باللہ العزیز الغفار والحدیث رواہ الترمذی وصححہ عن ابن عباس (رض) واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاری رضویہ قدیم جلد ١ صفحہ ١٨٨١٠ مکتبہ رضویہ لاہور کراچی،چشتی)
اعلی حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ متوفی ١٣٤٠ ھ سے سوال کیا گیا کہ اگر بےعلم اپنے آپ کو مولوی کہلوائے (آج کل تو بےعلم ، ناخواندہ اور بےسند یافتہ اپنے آپ کو علامہ کہلواتے ہیں) اور منبر پر بیٹھ کر وعظ کرے اس کا کیا حکم ہے تو اس کے جواب میں لکھتے ہیں : یونہی اپنے آپ کو بےضرورت شرعی مولوی صاحب لکھنا بھی گناہ و مخالف حکم قرآن عظیم ہے ۔ قال اللہ تعالیٰ ۔ ھو اعلم بکم اذا انشاکم من الارض واذا انتم اجنۃ فی بطون امھتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی ۔
ترجمہ : اللہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اوس نے تمہیں زمین سے اوٹھان دی اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں چھپے تھے تو اپنی جانوں کو آپ اچھا نہ کہو خدا خوب جانتا ہے جو پرہیز گار ہے ۔
اور فرماتا ہے : الم الی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء ۔
ترجمہ : کیا تم نہ ان لوگوں کو جو آپ اپنی جان کو ستھرا بتاتے ہیں بلکہ خدا ستھرا کرتا ہے جسے چاہے ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قال انا عالم فھو جاھل “ جو اپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل ہے رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عمر رضی اللہ عنہما بسند حسن ، ہاں اگر کوئی شخص حقیقت میں عالمِ دین ہو اور لوگ اس کے فضل سے ناواقف اور یہ اس سچی نیت سے کہ وہ آگاہ ہو کر فیض لیں ہدایت پائیں اپنا عالم ہونا ظاہر کرے تو مضائقہ نہیں جیسے سیدنا یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا تھا : انی حفیظ علیم ۔ پھر یہ بھی سچے عالموں کےلیے ہے ۔ زید جاہل کا اپنے آپ کو مولوی صاحب کہنا دونا گناہ ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹ اور جھوٹی تعریف کا پسند کرنا بھی شامل ہے ہوا ، قال اللہ عزوجل : لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا ویحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا فلاتحسبنم بمفازۃ من العذاب ولھم عذاب الیم ۔
ترجمہ : ہرگز نہ جانیوتو انہیں جو اتراتے ہیں اپنے کام پر اور دوست رکھتے ہیں اسے کہ تعریف کیے جائیں اس بات سے جو انہوں نے نہ کی تو ہرگز نہ جانیو انہیں عذاب سے پنا کی جگہ میں اور ان کے لیے دکھ کی مار ہے ۔ معالم شریف میں عکرمہ تابعی شاگرد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ” یفرحون باضلالھم الناس وبنسبۃ الناس ایاھم الی العلم ولیسوا باھل العلم ۔ خوش ہوتے ہیں ‘ لوگوں کو بہکانے پر اور اس پر کہ لوگ نہیں مولوی کہیں حالانکہ مولوی نہیں ۔ جاہل کی وعظ گوئی بھی گناہ ہے ۔ وعظ میں قرآن مجید کی تفسیر ہوگی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث یا شریعت کا مسئلہ اور جاہل کو ان میں کسی چیز کا بیان جائز نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قال فی القران بغیر عم فلیتبوا مقعدہ من النار “ جو بےعلم قرآن کی تفسیر بیان کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے رواہ الترمذی وصححہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، احادیث میں اسے صحیح وغلط وثابت و موضوع کی تمیز نہ ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعدہ من النار “ جو مجھ پر وہ بات کہے جو میں نے نہ فرمائی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے رواہ البخاری فی صحیحہ عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” افتوا بغیر علم فضلوا واضلوا “ بےعلم مسئلہ بیان کیا سو آپ بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا ” رواہ الائمۃ احمد والشیخان والترمذی وابن ماجہ عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ دوسری حدیث میں آیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض “ جو بےعلم فتوی دے اسے آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کریں رواہ ابن عساکر عن امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ یونہی جاہل کا پیر بننا لوگوں کو مرید کرنا چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چھوٹا منہ بڑی بات ہے پیر ہادی ہوتا ہے اور جاہل کی نسبت ابھی حدیثوں سے گزرا کہ ہدایت نہیں کرسکتا نہ قرآن سے نہ حدیث سے نہ فقہ سے ۔ ع کہ بےعلم نتواں خداراشناخت ۔ (فتاوی رضویہ قدیم جلد ١٠ صفحہ ٩٦۔ ٩٥ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی،چشتی)
نیز بےعلم کے فتوی دینے اور علماء کی توہین کرنے والے کے متعلق لکھتے ہیں : سند حاصل کرنا تو کچھ ضرور نہیں ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے ۔ مدرسہ میں ہو یا کسی عالم کے مکان پر اور جس نے بےقاعدہ تعلیم پائی وہ جاہل محض سے بدتر نیم ملا خطرہ ایمان ہوگا ایسے شخص کو فتوی نویسی پر جرات حرام ہے حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ” من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض “ جو بےعلم فتوی دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے اور اگر فتوی سے اگرچہ صحیح ہو وجہ اللہ مقصود نہیں بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہو تو یہ دوسرا سبب لعنت ہے کہ آیات اللہ کے عوض ثمن قلیل حاصل کرنے پر فرمایا گیا (آیت) ” اولئک لا خالق لھم فی الاخرۃ ولا یکلمھم اللہ ولا ینظر الیہم یوم القیمۃ ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم ۔
ترجمہ : ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
اور علمائے دین کی توہین کرنے والا منافق ہے ۔ حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ” ثلثۃ لا یستخف بحقہم الا منافق بین النفاق ذوالعلم و ذوالشیبۃ فی الاسلام و امام مقسط “۔ تین شخصوں کا حق ہلکا نہ جانے گا مگر جو منافق کھلا منافق ہو عالم اور وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا اور سلطان اسلام عادل ، تحصیل زر کے لیے علماء ومسلمین پر بیجا حملہ کرنے والا ظالم ہے اور ظلم قیامت کے دن ظلمات ، قاضی مذکور جیسے امام کے پیچھے بلاوجہ شرعی نماز ترک کرنا تفریق جماعت یا ترک جماعت ہے اور دونوں حرام و ناجائز ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاوی رضویہ قدیم جلد ٢ ، ١٠ صفحہ ٣٠٨ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
بے علم کے وعظ کے متعلق اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اگر علم عالم ہے تو اس کا یہ منصب ہے اور جاہل کو وعظ کہنے کہ اجازت نہیں وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (حوالہ مذکور)
فقیہہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : اگر مستند (سندیافتہ) عالم نہ ہو مگر دینی معلومات اور احکامِ شرعیہ سے واقفیت رکھتا ہو تو اس کو تقریر کرنا جائز ہے اور اگر نام کا مستند عالم ہو مگر دینی معلومات اور احکام شرعیہ سے واقفیت نہ رکھتا ہو اسے تقریر کرنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ نمبر 533)
تقریر و بیان کےلیے حافظ ہونا مانع تقریر و بیان نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ احکام شرعیہ اور دینی معلومات اور زبان و ادب سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو تاکہ اس کی تقریر شرعاً قابل گرفت نہ ہو کہ جس کے باعث دنیا و آخرت میں رسوائی ہو اور عوام وخواص کے درمیان تمسخر وتضحیک کا سبب بنے ۔ لہٰذا ! جو حافظ تقریر و بیان کے ذریعہ تبلیغ کرنا چاہتا ہے اور بہترین خطیب بننے کی آرزو رکھتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے زبان و ادب سے واقفیت حاصل کرے اور دینی کتب کا اوقات فرصت میں دلجمعی سے بھرپور مطالعہ کرے اور یکسوئی کے ساتھ مطالعہ شدہ مضامین کو تنہائی میں زبانی طور پر بیان کرے جب خود اعتمادی پیدا ہو جائے تو پہلے کم لوگوں کی محفل میں بیان کرنا شروع کرے اور بتدریج سلسلہ بیان جاری رکھے اور علماء و مشائخ سے بطیب خاطر اصلاح لیتا رہے ۔ یہ طریقہ بہت کار آمد ہے مقرر بننے کےلیے ۔ تبلیغ کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق ہونا چاہیے
کہ جس سے اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی حاصل ہو ۔
ان شکم پرور پیشہ ور نعت خوانوں و خطیبوں اور نقیبوں سے اب ناموسِ الوہیت عزوجل ، ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ناموسِ مقدَّساتِ دین محفوظ نہیں رہیں ، علماء پر لازم ہے کہ ان کا مواخذہ کریں اور سادہ لوح اہلسنت و جماعت کو ان کی زبان درازی اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ کریں ۔ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی ۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لیے بغیر تقریر کرنے اور نعت پڑھنے کو تیار نہیں ، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ) ۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں ۔ گانے کی طرز پر نعت پڑھنا جائز نہیں ۔ جیسا کہ فتاویٰ غوثیہ میں ہے کہ نعت پاک کو گانوں کی طرز میں پڑھنا اور سننا دونوں ناجائز ہے کیونکہ جب وہ گانے کی طرز پر نعت پڑھے گا جو کہ ذکر رسول ہے تو لامحالہ اس کا ذہن گانے کی طرف جائے گا ۔ تو یقیناً یہ غلط فعل ہے ۔ بلکہ یہ نعت کی توہین ہے فساق کا طریقہ ہے ۔ (فتاویٰ غوثیہ جلد ۱ صفحہ ۱۶۵)
مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر نہیں کر سکتا ۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واعظ (مقرر، خطیب) کےلیے (چار شرائط ہیں) : ⏬
پہلی شرط : یہ ہے کہ مسلمان ہو، دیوبندی عقیدے والے مسلمان ہی نہیں ان کا وعظ (تقریر) سننا حرام اور دانستہ (جان بوجھ کر) انہیں واعظ بنانا کفر ہے ۔ علماء حرمین شریفین نے فرمایا ہے کہ : من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر " جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے کفر کیا ۔ (در المختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی جلد اول صفحہ ٣٥٦ حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین مطبع اہل سنت و جماعت بریلی صفحہ ٩٤) ۔ اسی طرح تمام وہابیہ و غیر مقلدین فانھم جمیعا اخوان الشیاطین ، کہ وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں ۔
دوسری شرط : سنی ہونا ، غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے ، اگر چہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے ۔ حدیث میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ” جس نے بد مذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد دی ۔ (کنز العمال حدیث نمبر ١١٠٢ مو سسۃ الرسالہ بیروت جلد 1 صفحہ ٢١٩،چشتی)
تیسری شرط : عالم ہونا ، جاہل کو واعظ کہنا نا جائز ہے ۔ جیسا کہ ارشاد (یعنی حدیث شریف میں) ہے : اتخذ الناس روسا جھال فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا “ لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنا لیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کئے تو اپنے آپ بھی گمراہ ہوئے اور آوروں کو بھی گمراہ کیا ۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم قدیمی کتب خانہ کراچی جلد 1 صفحہ ٢٠)
چوتھی شرط : فاسق نہ ہونا ، تبین الحقائق وغیرہ میں ہے : لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا “ کیونکہ اسے امامت کے لئے مقدم کرنے میں اس کے تعظیم ہے حالانکہ شرعا مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے ۔ (تبین الحقائق باب الامامت والحدث فی الصلاۃ المطبعۃ الکبری بولاق مصر جلد 1 صفحہ ١٣٤،چشتی)
اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں سنی صحیح العقیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں ، وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا ، ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اسے اطلاع نہیں تو پیش از وعظ مطلع کر دیا جائے،* واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٩ صفحہ ٧٠ ، ٧١ مطبوعہ رضا فاٶنڈیشن لاہور)
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رأيت ليلة أسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار قلت من هؤلاء يا جبريل؟ قال هؤلاء خطباء أمتك يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان وفي روايته قال خطباء من أمتك الذين يقولون ما لا يفعلون ويقرؤون كتاب الله ولا يعملون ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے معراج کی رات میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جارہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ، انہوں نے کہا کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے وہ علماء و واعظ اور مشائخ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کی تلقین کرتے تھے مگر خود اپنی ذات کو فراموش کر دیتے تھے ، یعنی خود تو عمل نہیں کرتے تھے لیکن اوروں کو عمل کی تلقین ونصیحت کرتے تھے ۔ اس روایت کو بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح السنۃ میں اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور بیہقی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا " یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے وہ واعظ و خطیب ہیں جو اس چیز کو کہتے تھے جس کو خود نہیں کرتے تھے جو کتاب اللہ کو پڑھتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے ۔
یہ سزا بے عمل علماء و واعظین اور مشائخ کو ان کی بے عملی کی وجہ سے ملے گی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ویل للجاہل مرۃ و ویل للعالم سبع مرات ۔
ترجمہ : جاہل کےلیے ایک بار خرابی اور بے عمل عالم کےلیے سات بار خرابی ہے اور ایک حدیث مشہور میں یوں فرمایا گیا ہے ۔ اشدا الناس عذابا یوم القیامۃ عالم لم ینفعہ اللہ بعلم ۔
ترجمہ : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سخت عذاب کا مستوجب وہ عالم ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے فائدہ نہیں پہنچایا ہوگا ۔ (مشکوۃ شریف جلد چہارم توکل اور صبر کا بیان حدیث نمبر 1074،چشتی)
امام عبدالرحمٰن ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کے متعلق لکھتے ہیں : بھلے وقتوں میں وعظ کرنے والے لوگ علماء اور فقہاء ہوتے تھے ۔ پھر منبرِ وعظ کو گرہن لگ گیا ، یہ فن جہلاء کے ہتھے چڑھ گیا ، سمجھدار لوگ اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے ، اور واعظوں کا پہیہ عام عوام اور عورتوں کے سہارے چلنے لگا۔علم کو ایک طرف کر دیا گیا،قصے کہانیاں اور جہلاء کو اچھی لگنے والی باتیں بیان ہونے لگیں ، اور اس فن میں خرافات کا دور دورہ ہو گیا ۔ (تلبيسِ ابليس صفحہ 139)
صدرالشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نوآموز واعظین مولویوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان نوآموز مولویوں کو ہم خیر خواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ تکمیل درس نظامی کے بعد فقہ و اصول و کلام و حدیث و تفسیر کا بکثرت مطالعہ کریں اور دین کے مسائل میں جسارت نہ کریں جو کچھ دین کی باتیں ان پر منکشف و واضح ہو جائیں ان کو بیان کریں اور جہاں اشکال پیدا ہو اس میں کامل غور و فکر کریں خود واضح نہ ہو تو دوسروں کی طرف رجوع کریں کہ علم کی بات پوچھنے میں کبھی عار نہ کرنا چاہیے ۔ (بہارشریعت حصہ 15 صفحہ 202)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے کیمائے سعادت میں ارشاد فرماتے ہیں : (اگر)علماء بھی وعظ و نصیحت کی بجائے بازاری مقررین کا انداز اختیار کر لیں،لغویات وواہیات،بیہودہ گوئی اور بیکار باتوں سے دل بہلانا شروع کر دیں جو عموماً دیکھا گیا ہے تو لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کوئی بات نہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں رحمت ِخداوندی ہمارے شامل حال رہے گی تو قوم کا حال غافلین سے بد تر ہو جائے گا ۔ ظاہر ہے جب عام آدمی مجلسِ وعظ میں ایسی خرافات سنے گالازماً ویسی ہی صفات اس میں پید ا ہوں گی،آخرت کے خطرات سے ڈرنا تو در کنار ، اس کے دل سے آخرت کا خیال بھی نکل جائے گا، پھر اسے جو کچھ بھی کہا جائے وہ یہی کہتا رہے گا : اللہ عزوجل بڑا رحیم و کریم ہے ، میرے گناہوں سے اس کا کیا بگڑتا ہے ؟ اورا س کی جنت کوئی تنگ و تاریک معمولی سی کوٹھڑی تھوڑی ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع وکشادہ ہے وہاں تو کروڑوں انسان بآسانی سما جائیں گے تو مجھ جیسے گناہ گار سے اللہ تعالیٰ کا تنگ آ جانا خدا کی رحمت سے بعید ہے ۔ ایسی ایسی لغویات اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہیں ۔ (کیمیائے سعادت رکن سوم مہلکات اصل دہم علاج غفلت ونادانی جلد ۲ صفحہ ۷۳۲،چشتی)
حضرت ابوقلابہ تابعی رضی اللہ عنہ قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قُصَّاص(کہانیاں سنانے والے جاہل مقررین وغیرہ)نے علم برباد کر کے رکھ دیا ہے ، بندہ ایک سال تک قصہ گو شخص کے پاس بیٹھا رہے پھر بھی(سوائے کانوں کی لذت کے) کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔جب کہ کسی عالم کے پاس کچھ دیر بیٹھ جائے تو کچھ نہ کچھ لےکر ہی اُٹھتا ہے ۔(تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص للسیوطی الفصل العاشر فی زیادات فاتت الحافظ زین الدین العراقی صفحہ 186 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت)
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (وعظ جو خلاف شرع نہ ہو اس وعظ سے بھی) اگر مال یا شہرت مقصود ہے تو اگرچہ مسلمانوں کےلیے اس کا وعظ مفید ہو خود اس کے حق میں سخت مضر ہے علما فرماتے ہیں : ایسی اغراض کےلیے وعظ ضلالت اور یہود و نصاری کی سنت ہے ۔ در مختار میں ہے : التذکیر علی المنابر والاتعاذ سنۃ الانبیاء ولریاسۃ ومال وقبول عامۃ من ضلالۃ الیھود والنصاری ، (منبروں پر وعظ کہنا نصیحت کرنا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے بڑائی یا مال یا لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کےلیے وعظ کہنا یہود و نصاری گمراہیوں میں سے ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 13 صفحہ 200۔ 199،چشتی)
بغیرعلم کے فتویٰ دینا اور بلا تحقیق فتویٰ لینا : ⏬
محترم قارئینِ کرام : بعض جہلاء یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں کہ ہر شخص براہ راست بغیر علم حاصل کیے اردو کے ترجمے و کتابیں پڑھ کر فتویٰ دے سکتا ہے ان جہلاء کی جہالت کا جواب پڑھیے : حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم،چشتی)(صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 101 علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا)
اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں ، اور لوگ اس پر عمل کریں ، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بعد کے) ایک ایسے زمانہ کی خبر دی ، جس میں علماء مفقود ہو جائیں گے ، اور جاہل قسم کے لوگ فتویٰ دینے شروع کر دیں گے ، یھاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی سوائے اس کے اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ گذرے ہوٸے (علم و عمل میں معتبر) علماء کی تقلید کریں ، کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو کوئی شخص براہِ راست قرآن و سنّت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا ، اور نہ ہی کسی (معتبر) زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے ، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں ، لہذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں اس کی تصانیف وغیرہ کے ذریعہ ان کی تقلید کی جائے ۔ لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علماءِ اہلِ اجتہاد موجود ہوں اس وقت ان سے مسائل معلوم کے جائیں ، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جائے ، اور جب کوئی علم باقی نہ رہے تو نااہل لوگوں کو مجتہد سمجھہ کر ان کے فتوؤں پر عمل کرنے کی بجائے گذشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جائے ۔
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من افتى بغير علم كان إثمه على من افتاه ومن اشار على اخيه بامر يعلم ان الرشد في غيره فقد خانه ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اسے فتویٰ دینے والے پر ہے ، اور جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بھلائی و بہتری اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہے ، تو اس نے اس سے خیانت کی ۔ (مشكوة المصابيح حدیث نمبر 242،چشتی)(سنن ابو داود حدیث نمبر 3657)(صححه الحاکم علٰي شرط الشيخين جلد 1 صفحہ 126)
اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر بلا تحقیقِ دلیل عمل جائز نہ ہوتا ، جو حاصل ہے تقلید کا ، تو گناہ گار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی ؟ بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے ، اسی طرح سائل کو دلیل کی تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا ۔ پس جب شارع صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے باوجود تحقیقِ دلیل نہ کرنے کے عاصی (گناہ گار) نہیں ٹھہرایا تو جوازِ تقلید يقينا ثابت ہو گیا ۔
حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا ۔ بغیر علم کے عقائد و مسائل پر بحث کرنے والے غور فرمائیں کہیں وہ اس گناہ میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : من أفتي بفتيا يعمي فيها فإنما إثمها عليه ۔
ترجمہ : جس نے ایسا فتویٰ دیا جس میں دھوکا دیا جاتا ہے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ (جامع بيان العلم وفضله جلد 2 صفحہ 132 حدیث نمبر 859،چشتی)(سنن الدارمی حدیث نمب 162)
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کسی مدرسہ سے عالم یا فاضل کی ڈگری حاصل کرنے سے آدمی عالم اور فاضل بن جاتا ہے ، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ۔ بلکہ در حقیقت عالم وہ ہے جو مکمل طور پر عقائد سے واقف ہو اور اپنی ضروریات کے مسائل کسی کے سہارے لیے بغیر از خود کتاب سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عالم کی تعریف یوں فرماتے ہیں : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کے مدد کے ۔ (احکام شریعت حصہ دوم صفحہ ٢٣١)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ عالم ہونے کےلیے درس نظامی ، عالم یا فاضل کورس کرنے سے ہی کوئی عالم نہیں ہو جاتا ، بلکہ اس کےلیے مستقل صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ اور فرماتے ہیں : سند (ڈگری) کوئی چیز نہیں ، بہتیرے (بہت) سند یافتہ محض بہرہ (علم دین سے خالی) ہوتے ہیں ، اور جنہوں نے سند نہ لی ان کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتوں میں نہیں ہوتی ، علم ہونا چاہیے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٦٨٣)
حضور فقیہ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح معنی میں عالمِ دین بننے کےلیے علماء اہل سنت خصوصاً اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرو ۔ عالم کی سند مل جانے کو کافی نہ سمجھو بلکہ زندگی بھر تحصیل علم میں لگے رہو اور یقین کرو کہ زمانہ طالب علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے اور حقیقت میں علم حاصل کرنے کا زمانہ فراغت کے بعد ہی ہے ۔ (انوار الحدیث صفحہ ٤٢٣ مطبوعہ کتب خانہ امجدیہ دہلی،چشتی)
آج کل بہت سے ایسے علماء پائے جاتے ہیں جو عالم اور فاضل کی ڈگری تو حاصل کر چکے ہیں لیکن اب تک وہ مکمل طور پر عقائد سے واقف نہیں ۔ ایسے لوگ جب تقریر کرتے ہیں تو کبھی کبھی غلط عقائد اور غلط مسائل بیان کر دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے معاشرے میں اختلاف و انتشار پھیل جاتا ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوگ کافی مطالعہ کریں تاکہ صرف سںند یافتہ عالم نہ رہے بلکہ حقیقت میں عالم ہو جائیں ۔
عقائد و مسائل کی معلومات کےلیے درج ذیل کتب مطالعہ میں رکھیں : ⏬
شرح عقائد ، ہدایہ ، فتاوی رضویہ ، کنزالایمان ، بہار شریعت ، تفسیر نعیمی ، مراٰۃ المناجیح ، جآءالحق ، قانون شریف ، احیاء العلوم ، حسام الحرمین ، الصوارم الہندیہ ، حدوث الفتن و جھاد اعیان السنن (اردو ترجمہ بنام فتنوں کا ظہور اور اہل حق کا جہاد) ، منصفانہ جائزہ اور دیگر معتمد علماء اہل سنت کی کتابیں ۔ خاص طور پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں ۔
حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب (ناظمتعلیمات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں) : اعلٰی حضرت قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے کہ حقیقی علم ان کتابوں سے آپ کو حاصل ہوگا اور ساتھ ساتھ طرز تحقیق ، طرز بیان ، طرز گفتگو بھی معلوم ہوگا ، جو چیزیں آپ کو بہت سی کتابوں میں نہیں ملیں گی وہ آپ کو اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل میں ملیں گی اور میں بارہا یہ سیمیناروں میں ، مجمعوں میں کہا ہے اور نجی مجلسوں میں بھی کہ بر صغیر کے ماحول میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل کے مطالعے کے بغیر کوئی شخص کما حقہ عالم نہیں ہو سکتا ، یہاں ہم نصاب کی تکمیل کرنے والے کو سند جاری کر دیتے ہیں عالم فاضل اس کو بتا دیتے ہیں ، لیکن جس قدر وہ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے دور ہوگا ، اسی قدر اس کے اندر سطحیت زیادہ ہوگی اور جس قدر وہ کتب اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو گہرائی اور گیرائی سے دیکھے گا اسی قدر اس کے اندر ژرف نگاہی اور تعمق پیدا ہوگا اور اسی قدر اس کے علم میں جلا آئیگی ۔ آپ خود اس کا مطالعہ کر کے تجربہ کر سکتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرنا اور تجربہ کرنا ضروری بھی ہے ، دو طرح کے انسان ہوتے ہیں ، ایک تو کم علم ہوتے ہیں ، ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کو روشنی بخشنے کےلیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل کا مطالعہ کریں ، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے درس نظامی کا کورس مکمل کرلیا اور ہر درجہ میں فرسٹ نمبر حاصل کیا تو سمجھ لیا کہ ہم بہت بڑے علامہ ، فہامہ ہو گئے ، وہ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ طفل مکتب بھی نہیں ہیں جب ان کی تصانیف اور تحقیقات کو دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کس جبل شامخ اور کس بلند پہاڑ کے سامنے ہم ہیں ، کہتے ہیں ۔ جب تک اونٹ نے پہاڑ نہیں دیکھا ہے تب تک وہ سمجھتا ہے کہ اس سے بڑا کوئی نہیں ہے اور جب پہاڑ کے سامنے آتا ہے تب اس کو اپنی بساط معلوم ہوتی ہے تو اپنی بساط اور حقیقت معلوم کرنے کےلیے بھی ہم اس جبل شامخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں ، اس سے استفادہ بھی کریں اور ساتھ ساتھ اپنی اوقات بھی معلوم کریں کہ اتنی عمر صرف کرنے کے بعد ہم کہاں تک پہنچے ۔ (نوائے دل صفحہ نمبر 243،چشتی)
گانے کی طَرز پر نعت پڑھنا : ⏬
محترم قارئینِ کرام : نعت کو ایسے مشہور و مَعروف گانے کی طرز پر پڑھنا کہ نعت سُنتے ہی فوراً ذہن اس گانے کی طرف چلا جائے اس سے بچنا چاہیے اور اگر کبھی اِتفاقاً طرز میں کچھ مُمَاثَلَت ہو بھی جائے تو نعت خواں کو چاہیے کہ تھوڑی بہت تبدیلی کر لے ۔ فی زمانہ یہ اِمتیاز کرنا بہت مشکل ہے کہ نعت گانے کی طرز پر پڑھی جا رہی ہے یا گانا نعت کی طرز پر گایا جا رہا ہے ، اَلبتہ پہلے والی طرزوں میں پڑھی جانے والی نعتوں میں جو رِقَّت اور سوز و گداز ہوا کرتا تھا وہ اب نئے اَنداز پر پڑھی جانے والی نعتوں میں نہیں ہے ۔
نعت پاک کو گانوں کے طرز پر پڑھنا یا پھر سنا دونوں جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر نعت کے ساتھ موسیقی تو نہیں ہے لیکن وہ ہے گانے کی طرز پر تو جب اس نعت کو سنا جائے گا تو وہ گانا بھی یاد آئے گا ۔ تو نعت کے ساتھ ساتھ دماغ میں گانا بھی بج رہا ہو گا ۔ تو کیسی بری بات ہے ۔ بلکہ یہ نعت کی توہین ہے اور فساق کے ساتھ مشابہت کی بات بذات خود ایک مستقل جرم ہے ۔
امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو ،گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 363،چشتی)
لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نہ ہم گانوں کے طرز پر نعت پاک پڑھیں اور نہ سنیں کیونکہ یہ فعل جائز نہیں ہے ۔
بہرحال موجودہ دور میں سب نعتیں گانوں کی طرز پر پڑھی جاتی ہوں یہ ضَروری نہیں کیونکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ گلوکار نعتوں کی طرز پر گانے گاتے ہوں لہٰذا موجودہ دور میں پڑھی جانے والی سب نعتوں کو گانوں کی طرز پر کہنا اور نعتیں سننے سے بچنا یا بچنے کے لیے کہنا خود کو نعت خوانی کی بَرکتوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نعت خوانی سے متنفر بھی کر سکتا ہے ۔
نعتوں کے گانوں کی طرز پر ہونے کے وَساوِس بھی انہیں کو آئیں گے جو گانے سُننے کے شوقین ہوں گے ، جو سِرے سے گانے ہی نہیں سُنتے ان کے لیے ہر طرز نعت ہی کی طرز ہو گی ، لہٰذا اِن وَساوِس کی بِنا پر نعتیں سننا چھوڑنے کے بجائے گانے چھوڑنے میں عافیت ہے ۔ نعت شریف پڑھنے اور سُننے والا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعریف و توصیف ہی کی نیت سے اسے پڑھتا اور سُنتا ہے ، نہ اس لیے کہ وہ کسی گانے کی طرز پر ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قرآن کریم کو گانے کی دھن کے مطابق پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے ۔ (معجم اوسط طبرانی حدیث نمبر ۷۲۲۳،چشتی)
اس حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نعت کو (جوکہ ایک عبادت ہے) گانے کے انداز پر نہیں پڑھنا چاہیے ، البتہ کسی گانے کی دھن کو نقل کرنے کی بجائے صرف آواز اچھی کر کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پڑھا جائے ، اور اس میں کسی قسم کی موسیقی وغیرہ کا استعمال نہ ہو جیسا کہ عام طور پر اشعار پڑھے جاتے ہیں تو جائز ہوگا ۔
گانے کے طرز پر نعت پڑھنا اور سننا منع ہے ، اس سے یہ مراد نہیں کہ عربی اوزان اور عربی بحور پر اشعار یا نعت پڑھنا منع ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر اپنے ارادہ و اختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بناکر گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے ، یا لہجے میں فنِّ موسیقی کے قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اشعار پڑھنا حمد و نعت کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے ، اور چوں کہ ایساکرنے میں فاسق لوگوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے ، اس لیے ایسا کرنا اوربھی زیادہ قبیح ہے ، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تو یہ فی نفسہ جائز ہے، لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے ۔ البتہ حمد و نعت کے اشعار پڑھنے میں خوش آوازی اور اچھی آواز پیدا کرنے کے لیے آواز میں مناسب اتار چڑھاؤ ، ترنم ، آواز کو باریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاً مباح ہیں ، ان میں کچھ حرج نہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو عربی اشعار پڑھے ہیں وہ گانے کے طرز پر نہیں پڑھے، ان حضرات سے اس چیز کا گمان بھی نہیں ہوسکتا، وہ حضرات اپنے طبعی اور فطری انداز اور طرز پر اشعار پڑھاکرتے تھے، گو ترنم سے پڑھنا بھی ان حضرات سے ثابت ہے ، لیکن ان کے اشعار میں نہ کوئی موسیقی ہوتی تھی اور نہ کوئی ساز وغیرہ، اب وہ اشعار عربی بحور پر ہوں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
تفسیر قرطبی میں ہے : فأما ما ابتدعه الصوفية اليوم في الإدمان على سماع الأغاني بالآلات المطربة من الشبابات و الطار و المعازف و الأوتار فحرام ۔ (تفسیر القرطبی، ج:14، ص:40، س:لقمان، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
البحرالرائق میں ہے : في المعراج: الملاهي نوعان: محرم وهو الآلات المطربة من غير الغناء كالمزمار سواء كان من عود أو قصب كالشبابة أو غيره كالعود والطنبور لما روى أبو أمامة أنه عليه الصلاة والسلام قال إن الله بعثني رحمة للعالمين وأمرني بمحق المعازف والمزامير ولأنه مطرب مصد عن ذكر الله تعالى ۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق (7/ 88،چشتی)
حمد ونعت کے اشعار پڑھنےمیں خوش آوازی اور حسنِ صوت پیدا کرنے کے لیے آوازمیں مناسب اتارچڑھاؤ ، ترنم ، آواز کوباریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاًمباح ہیں ان میں کچھ حرج نہیں ، لیکن جان بوجھ کر اپنے ارادہ واختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بنا کر اسی گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے ، حمد و نعت کے مقدس کام کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے ، اور چونکہ ایسا کرنے میں تشبہ بالفساق بھی ہے اس لیے اور بھی زیادہ قبیح ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تویہ فی نفسہ جائز ہے لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے ۔ اگر کوئی ایک مصرعہ اتفاقاً گانے کی طرز پر ہو باقی ساری نعت کی اپنی علیحدہ طرز ہو تو اس کی گنجائش ہے تاہم اس سے بھی بچنا بہتر ہے ۔ (التبویب بتغیر 18/869،چشتی)۔(الدر المختار 6/348)
نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نعتِ پاک بلا شبہ لکھنا بھی سعادت ، پڑھنا بھی اور سننا بھی سعادت ہے ۔ مگر آجکل یہ تینوں departments یعنی نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عجیب بلکہ افسوس ںاک صورتحال کا شکار ہیں ۔ سستی شہرت حاصل کرنے کےلیے وہ لوگ نعتیہ کلام لکھتے ہیں جنہیں الفاظ و معنی کا سرے سے معلوم ہی نہیں ، نعت خوان آداب سے نا آشنا ہیں اور گمشدہ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھتے ہیں اور سننے والے عاشقان بھی عجیب انداز میں داد دیتے ہیں ۔ تینوں میں سب سے زیادہ خراب کام نعت خوان حضرات نے کیا ہے ۔ کئی تو ایسے ہیں کہ شاعروں سے مخصوص گانوں پر کلام لکھواتے ہیں ۔ صرف ایک مثال شہباز قمر فریدی کی دیکھ لیں ۔ بہت مشہور ہیں TV اور محافل پر اکثر جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ اس جوان نے انڈین اور پاکستانی گانوں اور غزلوں پر اچھی خاصی ریسرچ کر کے ان کی طرز پر نعتیں پڑھنے کو عادت بنا لیا ہے ذرا غور کیجیے گا ۔
“نوری مکھڑا تے زلفاں نے کالیاں ” کی طرز نور جہاں کے گانے ” تو میرا یار میرا پیار میرے ہاںڑ یاں” پر ہے ۔ ”میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں” کی طرز نصرت فتح کی غزل “پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ” پر ہے ۔ “ایک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے” کی طرز نصرت فتح کی غزل “کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آجاتے” پر ہے ۔ فقیر نے ایک بار ایک محفل میں موصوف سے کوئی آدھ گھنٹہ اسی موضوع پر بات کی سمجھایا مگر ۔ پہلے پکڑائی نہ دی ، پھر ثبوت مانگنے لگے اور آخر میں ساری ذمہ داری audience پر دال دی کہ لوگ جس طرح کی فرمائش کرتے ہیں ہم اسی طرح سے نعت پڑھتے ہیں ۔ تین ماہ بعد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ موصوف نے ایک اور شہکار market میں متعارف کرا دیا ۔ ” آقا میریا ں اکھیاں مدینے وچ رہ گیاں” اس کی طرز عنایت حسین بھٹی کے گاۓ ہوۓ گانے “بابل میریا ں گڈیاں تیرے گھر رہ گیاں” پر ہے آجکل یہی گا نا انڈین لڑکی ہرشدیپ نے بھی گا یا ہوا ہے ۔
اسی طرح کئ ایک لوگ ہیں جنہوں نے گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھی ہیں ۔ یہ گھٹیا حرکت صرف نعتیہ کلام لکھنے والوں تک ہی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مرثیہ خوانوں اور نوحہ خوانوں نے بھی یہی طریقہ اپنا رکھا ہے ۔ نا صرف گانوں کی طرز اپنائی جاتی ہے بلکہ موسیقی اور چھنکار کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔ کیا یہ عجیب معاملہ نہیں ہے کے مدح سرائی میں دفلی کا سہارا لیا جاۓ ؟ واقعہ کربلا کو مرثیہ یا نوحے کی شکل میں بیان کرنے ک لیے موسیقی استعمال کی جاۓ ؟ یا نعت کےلیے گانوں کی طرز اپنائی جاۓ ؟ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اسی محفل میں موجود مفسرِقران ، پیرِ طریقت حضرات بھی نہیں بولیں گے اور نہ ہی کوئی ذاکر اس پر اعتراض کرے گا ۔ (چشتی)
کیا ان لوگوں کو منصبِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ سمجھ آئی ہے کے پوری کائنات کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور گلدستہ عقیدت گانوں کی طرز پر پیش کیا جاۓ ؟ یا خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ غم کا اظھار موسیقی کی چھنکار میں کیا جاۓ ؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس کے تدارک کےلیے کیا کرنا چاہیے ۔
حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں ۔ ان سے پہلے بھی کچھ جگہوں پر نعتیہ کلام ملتا ہے لیکن آپ پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں ۔ جب کفار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں تضحیک آمیز اشعار لکھا کرتے تو حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں قصیدے لکھتے اور کافروں کا منہ بند کر دیتے ۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت حسان پر بہت خوش ہوتے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت حسن کا لکھا ہوا کلام مستند بھی ہوتا اور با وزن بھی ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان میں اب بھی ایسے نعت خوان لوگ موجود ہیں جنہوں نے نعتیہ کلام کے انتخاب ، اسلوب اور ادائیگی پر پہلے بہت کام کیا اور اس کے بعد نعت کو پڑھا ۔ جن کی پڑھی ہوئی نعتیں آج بھی بڑی قدر و منزلت رکھتی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ سستی شہرت کے پجاریوں نے محافلِ نعت کا ماحول بھی تبد یل کر دیا اور اسے ذریعہ معاش بنا لیا ۔ (چشتی)
کیا اس کے ذمہ دار عوام ہیں؟ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہ نعت یا مرثیہ کسی خاص گانے کی طرز پر ہے ۔ گا نا گانے کے گرُ چونکہ بڑی محنت کے بعد آتے ہیں اور بڑی ریاضت کے بعد اس کی لے بنتی ہے لہٰذا اس کا اثر سامعین پر کافی گہرا ہوتا ہے اس لیے جس شخص نے گانا نہیں سنا تھا بلکہ اس کی طرز پر براہ راست نعت سنی وہ تو واہ واہ کیے بغیر نہیں رہ سکے گا اور نعت خوان کو خوب داد دے گا ۔ اس حرکت کے خالق ہی اس کے اصل ذمہ دار ہیں مگر انہیں کون روکے گا ؟ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فرض ہے کے وہ اس پر توجہ دیں ۔ نا تو معاملہ فرقہ واریت کا ہے اور نہ ہی اسلامیات کی کتاب کا بلکہ معاملہ ادبِ منصب کا ہے ۔ تحریر اور تقریر کی آزادی اپنی جگہ لیکن ہر شخص نعت خوان نہیں ہو سکتا اور نا ہی صرف نعت خوانی سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملتا ہے ۔ نعت لکھنا بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے پڑھنا اور سننا بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ علماۓ کرام و مفتیانِ عظام اور اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہئے کہ حمد ، نعت ، نوحے ، اور دیگر عارفانہ کلام کے لئے الگ شعبہ بناۓ تا کہ مندرجہ بالا لا یعنی اور نچلے درجے کی حرکتوں پر قابو پایا جاسکے ۔
آج کل کی اکثر نعتوں کی لے گانوں کی طرح ہوتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان نعتوں کو پڑھنے والے اور انہیں سننے والے بھی اسی طرح ہاتھ لہراتے ہوئے جھومتے ہیں ، جس طرح کسی میوزیکل پروگرام کے شرکا کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے جذبات پر اس لے کا ایک خاص اثر ہو رہا ہوتا ہے ۔ صاف لگتا ہے کہ یہ لوگ بمشکل اپنے آپ کو رقص کرنے سے روک رہے ہیں ۔
پھر سب سے بڑھ کر میوزک کا تاثر دینے کے لیے اللہ عزوجل کے نام کو جس طرح استعمال کیا جاتا ہے ، وہ سُر تا سُر ربّ کے بابرکت نام کی بے حرمتی ہے ۔ مگر بدقسمتی سے یہاں کسی کو اللہ سے دلچسپی نہیں ہے ، اس لیے یہ توہین نظر نہیں آتی ۔ کسی کو ہماری بات کی سنگینی کا اندازہ کرنا ہے تو ان نعت والوں سے فرمائش کرے کہ اللہ کے نام کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام استعمال کریں اور آپ کے مبارک نام کے ذریعے سے میوزک کی آواز کا تاثر دینے کی کوشش کریں ۔ پھر دیکھیں کہ علما اور عوام ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔ ہر طرف سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا شور اٹھے گا ۔ احتجاج شروع ہوگا ۔ اخباری بیانات شاٸع ہوں گے ۔ جلوس نکلیں گے ۔ مقدمے درج ہوں گے ۔ نعت خواں اور نعت کو نشر کرنے والے چینل کو جان بچانا مشکل ہوجائے گا ۔ جو علما و مفتیانِ کرام موسیقی کی قطعی حرمت کے قائل ہیں ان کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ فطرت کے آگے بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ موسیقی کے حوالے سے جتنی کچھ اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ہے ، اگر علماۓ کرام و مفتیانِ عظام نے اتنی اجازت بھی نہ دی تو لوگ بہرحال موسیقی سے باز نہیں آئیں گے ۔ وہ موسیقی کے شوق میں اللہ عزّ و جلّ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نام کی بے حرمتی کرتے رہیں گے ۔ اللہ عزوجل ہمیں توہینِ شریعت اور شریعتِ مطہرہ کی توہین کرنے والوں کے شر و فتنہ سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)