Saturday, 24 May 2025

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْلُ ابْنُ زِیَادِ نِالسَّکْسَکِیُّ نَا الْاَوْزَاعِیُّ عَنْ یَحْیَی ابْنِ اَبِیْ کَثِیْرٍ عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَبِیْعَۃَ بْنَ کَعْبِ نِالْاَسْلَمِیَّ یَقُوْلُ کُنْتُ اَبِیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اٰتِیْہِ بِوَضُوْئِہٖ وَبِحَاجَتِہِ فَقَالَ سَلْنِی فَقُلْتُ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ اَوْغَیْرُ ذٰلِکَ قُلْتُ ہَوَ ذَاکَ قَالَ فَاَعِنِّی عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ ۔
ترجمہ : ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں گزاری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے وضو اور قضائے حاجت کےلیے پانی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا کہ مجھ سے مانگ لو۔ پس میں عرض گزار ہوا کہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت فرمایا کہ اس کے سوا اور کچھ ؟ عرض کی کہ یہی کافی ہے ۔ فرمایا کہ زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرتے رہنا ۔ (ابو داؤد‘ عربی‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب وقت قیام النبی من اللیل‘ حدیث نمبر 1320‘ ص 197‘ مطبوعہ دارالسلام ‘ ریاض سعودی عرب)۔(ابو داؤد ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ باب وقت قیام النبی من اللیل‘ حدیث نمبر1306‘ ص 491‘مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)


یہ حدیث سنن ابو داٶد کے علاوہ صحیح مسلم‘ سنن ابن ماجہ اورمعجم کبیر طبرانی میں بھی موجود ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ پروردگار عالم جل جلالہ‘ کے خلیفہ اعظم محبوب اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا دریائے کرم جوش میں آیا تو حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔ سل سنن ابودائود میں سلنی ہے یعنی مجھ سے مانگ لو۔ طبرانی میں ہے۔ سلنی فاعطیک مجھ سے مانگ لو میں عطا کردوں گا ۔ موجودہ شرک فروش ٹولے کے بقول تو یہ فرمانا تھا کہ جو کچھ مانگنا ہو خدا سے مانگو اور ہم بھی دعا کریں گے بلکہ اس کے برعکس فرمایا کہ ہم سے مانگو میں عطا فرمادوں گا۔ گویا یہ خلافت عُظمیٰ کا اظہار فرمایا جارہاہے اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ جو کچھ ہمارے کاشانہ اقدس میں نظر آئے اس میں سے جو جی چاہے مانگ لو۔ بلکہ فرمایا کہ جو جی میں آئے ہم سے مانگو۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا بھی یہی عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ باری تعالیٰ جل جلالہ‘ کے خلیفہ اعظم اور ماذون و مختار ہیں لہذا دنیا و آخرت کی ہر چیز دے سکتے ہیں ۔ اسی لیے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے نہ صرف جنت مانگی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رفاقت مانگی۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مانگنا شرک ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم خود ایسا کیوں فرماتے ؟ حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کیوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مانگتے ؟ محدثین کرام کیوں ایسی حدیثوں کو کتب احادیث میں درج کرتے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ کو شرک کی تعلیم دی ۔ کیا حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنت میں رفاقت مانگ کر شرک کیا؟ کیا محدثین کرام نے ایسی حدیثوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے کر شرک کی نشرواشاعت کی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ اگر توحید کے نام نہاد علمبرداروں کے نزدیک یہ شرک نہیں ہے تو ان مہربانوں کو بھولے بھالے مسلمانوں پر ترس کھاتے ہوئے توحید اور شرک کی تعریفوں پر نظرثانی کرلینی چاہئے جبکہ ایسا کرنے سے مسلمانوں کو مشرک ٹھہرا کر ان کے خرمن اتحاد میں آگ لگانے کا ابلیسی منصوبہ دریا برد ہوجائے گا اور بڑی حد تک اتفاق و اتحاد کی جانفرا ہوائیں چلنے لگیں گی ۔

اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ کے اندر اس حدیث کی شرح لکھتے ہوئے خاتم المحققین شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۱۰۵۲ھ / ۱۶۴۲ئ) نے اہل حق کی ترجمانی کا فریضہ یوں ادا کیا : ⏬

از اطلاق سوال کرد کہ فرمود سل بخواہ تخصیص
نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ہمہ بدست

ہمت و کرامت اوست صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
ہر چہ خواہد وہرکہ راخواہد باذن پروردگار خود دہد

ترجمہ : مطلق سوال کرنے کےلیے فرمانا کہ مانگ لو اور کسی خاص مطلوب چیز کی تخصیص نہ کرنا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دست مبارک کی ہمت وکرامت سے وابستہ ہیں کہ جو چیز چاہیں اور جس چیز کےلیے چاہیں اپنے پروردگار جل جلالہ‘ کے حکم سے عطا فرمائیں ۔

اسی حدیث کی شرح لکھتے ہوئے گیارہویں صدی کے مجدد برحق اور اہلسنت و جماعت کے مایہ ناز محقق و محدث علامہ علی قاری علیہ رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۴ھ/۱۶۰۵ئ) نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حقیقت کے چہرے سے یوں نقاب ہٹائی ہے : یُؤْخَذُ مِنْ اِطْلَاقِہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اللہ تَعَالٰی مَکَّنَہٗ مِنْ اِعْطَآئِ کُلِّ مَا اَرَادَمِنْ خَزَائِنِ الْحَقِّ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اس مطلق حکم فرمانے سے معلوم ہورہاہے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے جس کو جو چیز چاہیں عطا فرمائیں ۔

اس لیے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کو یوں فہمائش کی ہے : ⏬

اگر خیریت دنیا و عقبی آرزو داری
بدرگاہش بیاوہرچہ می خواہی تمنا کن

امام محمد بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے قصیدہ بردہ شریف میں اس عقیدے کو یوں نظم فرمایا : ⏬

فَاِنَّ مِنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَضَرَّتَھَا
وَمِنْ عُلُوْمِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ

امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عقیدہ یوں بیان فرمایا ہے : ⏬

مانگیں گے‘ مانگے جائیں گے‘ منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ لا ہے نہ حاجت اگر کی ہے

حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ ثَنَا اَبُو اُسَامَۃَ وَعَبْدُاللہ بْنُ نُمَیْرٍ عَنْ عُبَیْدِاللہ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اَبِیْ سَعِیْدِ نِالْمَقْبُرِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ لَاَ مَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلٰوۃٍ ۔
ترجمہ : ابوبکر بن ابی شیبہ‘ ابو اسامہ ‘ عبداللہ بن نمیر‘ عبیداللہ بن عمر‘ سعید بن ابی سعید المقبری‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ اگر اُمَّت کا مشقت میں پڑنا مجھ پر گراں نہ ہوتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا ۔ (سنن ابن ماجہ‘ عربی‘ باب السواک‘ حدیث نمبر 287‘ص 44‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب) ۔ (سنن ابن ماجہ ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ باب السواک‘ حدیث نمبر304‘ ص 113‘مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان،چشتی)

رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ فرمانا کہ میں مسواک کو ہر نماز کے وقت ضروری قرار دے دیتا اس عقیدے کو ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو شریعت کا مختار بنایا ہے ۔

وَحَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ الْحُبَابِ اَخْبَرَنِیْ مُعَاوِیَۃُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِیْ رَبِیْعَۃُ بْنُ یَزِیْدَ الدِّمَشْقِیُّ عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ عَامِرٍ الْیَحْصُبِیّ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِیَۃَ یَقُوْلُ اِیَّاکُمْ وَاَحَادِیْثَ اِلَّاحَدِیْثًا کَانَ فِیْ عَہْدِ عُمَرَ فَاِنَّ عُمَرَ کَانَ یُخِیْفُ النَّاسَ فِی اللہ عَزَّوَجَلَّ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ یَقُوْلُ مَنْ یُّرِدِ اللہ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَسَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اِنَّمَا اَنَا خَازِنٌ فَمَنْ اَعْطِیْتُہٗ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ فَمُبَارَکٌلَّہٗ فِیْہِ وَمَنْ اَعْطِیْتُہٗ عَنْ مَّسْاَلَۃٍ وَ شَرَہٍ کَانَ کَالَّذِیْ یَاْکُلُ وَلَایَشْبَعُ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ تم صرف وہی احادیث روایت کرو جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں روایت کی جاتی تھی ۔ اور دیگر تمام روایات (کو نقل کرنے) سے گریز کرو ۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں لوگوں کو ڈرنے کی تلقین کیاکرتے تھے ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کےلیے بھلائی کا ارادہ کرلے‘ اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا کردیتا ہے اور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ میں خزانے کا نگران ہوں۔ میں اپنی خوشی سے کسی کو کچھ دیتا ہوں ۔ تو اس میں اس شخص کےلیے برکت ڈالی جائے گی ۔ اور اگر میں کسی کے مانگنے یا اس کے لالچ کی وجہ سے کسی کو کچھ دیتا ہوں تو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کھانے کے باوجود سیر نہیں ہوتا ۔ (مسلم شریف‘ عربی‘ کتاب الزکوٰۃ‘ حدیث نمبر 2379‘ ص 417‘مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(مسلم شریف ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ کتاب الزکوٰۃ‘حدیث نمبر 2285‘ ص 784‘ مطبوعہ شبیر برادرز ‘ لاہورپاکستان،چشتی)

رسو ل اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانے کا نگران بنایا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جسے جو چاہیں‘ جب چاہیں عطا فرما سکتے ہیں : ⏬

کنجی تجھے دی اپنے خزانے کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ اَبِیْ شِیْبَۃَ حَدَّثَنَا جَرِیْرٌ عَنْ مَّنْصُورٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ عَنْ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ جَآئَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنَّ الٰاخِرَوَقَعَ عَلَی امْرَاَتِہٖ فِی رَمَضَانَ فَقَالَ اَتَجِدُ مَاتُحَرِّرُ رَقَبَۃً قَالَ لَاقَالَ فَتَسْتَطِیْعُ اَنْ تَصَوْمَ شَہْرَینِ مُتَتَا بِعِیْنَ قَالَ لاَقَالَ اَفْتَجِدُ مَاتُطْعِمُ بِہٖ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا قَالَ لَا قَالَ فَاُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِیْہِ تَمْرٌ وَّہُوَ الزَّبِیْلُ قَالَ اَطْعِمْ ہٰذَا عَنْکَ قَالَ عَلَی اَحْوَجَ مِنَّا مَابَیْنَ لَا بَتَیْہَا اَہْلُ بَیْتٍ اَحْوَجُ مِنَّا قَالَ فَاَطْعِمْہٗ اَہْلَکَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی (سلمان بن صحر بیاض) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آیا اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ذلیل نے رمضان المقدس میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ۔ کیا تمہارے پاس غلام ہے جس کو تم آزاد کرو۔ اس شخص نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا مسلسل دو مہینے روزہ رکھنے کی استطاعت ہے۔ اس شخص نے عرض کیا نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اتنا کھانا رکھتے ہو جو ساٹھ مسکینوں کو کھلا سکو ؟ ۔ اس نے عرض کیا نہیں۔ راوی نے کہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں اور عرق بمعنی زنبیل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا یہ اپنی طرف سے (مسکینوں کو) کھلا دے ۔ اس شخص نے عرض کیا جو ہم سے زیادہ محتاج ہو اس پر صدقہ کروں۔ مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں (یعنی جانب شرقی اور جانب غربی) کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اپنے گھر والوں کو کھلا دو ۔ (بخاری شریف‘ عربی‘ کتاب الصوم‘ حدیث نمبر1937‘ ص 311‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب)۔(بخاری شریف‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ کتاب الصوم‘ حدیث نمبر 1809‘ ص 774‘ مطبوعہ شبیر برادرز لاہورپاکستان،چشتی)

شریعت کا قانون ہے کہ اپنی بیوی سے حالت روزہ میں جماع کرنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے مگر رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے رب جل جلالہ کی عطا سے قانون شریعت بدل دیا۔ لہذا معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مختار کل ہیں ۔

حَدَّثَنَا مُوْسٰی بْنُ اِسْمٰعِیْلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِحَدَّثَنَا اَبُوْبُرْدَۃَ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ اَبِیْ بُرْدَۃَ قاَلَ حَدَّثَنَا اَبُوْبُرْدَۃَ بْنُ اَبِیْ مُوْسٰی عَنْ اَبِیْہِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا جَآئَ ہ‘ السَّآئِلُ اَوْطُلِبَتْ اِلَیْہِ حَاجَۃٌ قَالَ اشْفَعُوْا تُوْجَرُوا وَیَقْضِی اللّٰہُ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَاشَآئ ۔
ترجمہ : حضرت ابو بردہ (عامر) بن ابو موسیٰ نے اپنے باپ حضرت ابو موسیٰ اشعری (عبد اللہ بن قیس) سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس کوئی سائل آتا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے کوئی حاجت طلب کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے (ان کی) سفارش کرو تم کو ثواب دیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زبان مبارک پر جو چاہے فیصلہ کرتا ہے ۔ (حاجت مند کی حاجت پوری کرنے کےلیے کوشش کرنے والا ماجور ہے ۔ اگرچہ وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے) ۔ (بخاری شریف‘ عربی‘ کتاب الزکوٰۃ‘ حدیث نمبر 1432‘ص 231‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض‘ سعودی عرب) ۔ (بخاری شریف‘ عربی اردو‘ جلد اول، کتاب الزکوٰۃ ‘حدیث نمبر 1341‘ ص585، مطبوعہ شبیر برادرز لاہورپاکستان،چشتی)

معلوم ہوا کہ زبان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہوتی ہے اور فیصلہ رحمن جل جلالہ کا ہوتا ہے ۔

مصطفی ﷺ کلام کریں مصطفی ﷺ کی زبان سے
خدا تعالیٰ بھی کلام کرے تو مصطفی ﷺ کی زبان سے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالْاَعْلَی الصَّنْعَانِیُّ نَاعُمَرُ بْنُ عَلِّی الْمَقْدَمِیُّ عَنْ اَبِیْ حَازِمٍ عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ لِیْ مَابَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ اَتَوَکَّلُ لَہٗ بِالْجَنَّۃِ وَفِی الْبَابِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ وَابْنِ عَبَّاسٍ ۔
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جوآدمی مجھے اپنی داڑھوں اور ٹانگوں کے درمیان والی چیزوں (زبان اور شرم گاہ) کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی روایات منقول ہیں ۔ (ترمذی ‘ عربی‘ ابواب الزہد‘ حدیث نمبر 2408‘ ص 548‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب،چشتی)۔(ترمذی ‘ عربی اردو‘ جلد اول‘ ابواب الزہد‘ حدیث نمبر 296‘ ص 129‘مطبوعہ فرید بک لاہورپاکستان)

جنت کی ضمانت وہی دے سکتا ہے جسے جنت عطا کرنے کا اختیار ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو جنت کا بھی مالک بنایا ہے ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَیْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا اَبُوالنَّضْرِ عَنْ عُبَیْدِ بْنِ حُنَیْنِ عَنْ بِشْرِ بْنِ سَعِیْدٍ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍِالْخُدْرِیِّ قَالَ خَطَبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ خَیَّرَ عَبْدًا بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ مَاعِنْدَہ‘ فَاخْتَارَ مَاعِنْدَ اللّٰہِ فَبَکٰی اَبُوْبَکْرٍ فَقُلْتُ فِیْ نَفْسِیْ مَایُبْکِیْ ہٰذَا الشَّیْخَ اِنْ یَکُنِ اللّٰہُ خَیَّرَ عَبْدًا بَیْنَ الدُّنْیَا وَبَیْنَ مَاعِنْدَہ‘ فَاخْتَارَ مَاعِنْدَاللٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُوَالْعَبْدُ وَکَانَ اَبُوْبَکْرٍ اَعْلَمَنَا فَقَالَ یَااَبَابَکْرٍ لاَّتَبْکِ اِنَّ اَمَنَّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِہٖ وَمَالِہٖ اَبُوْبَکْرٍ وَّلَوْکُنْتُ مُتَّخِذًاخَلِیْلًا مِّنْ اُمَّتِیْ لَاتَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍ وَّلٰکِنْ اُخُوَّۃَ الْاِسْلَامِ وَمَوَدَّتَہ‘ لَایُبْقَیَنَّ فِی الْمَسْجِدِ بَابٌ اِلَّاسُدَّ اِلَّا بَابُ اَبِیْ بَکْرٍ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا و آخرت میں (رہنے) کا اختیار عطا فرمایا اور اس بندے نے آخرت کو پسند کرلیا ۔ (یہ سن کر) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اشکبار ہوئے (حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نے اپنے دل میں خیال کیا ۔ اس بوڑھے (ابوبکر صدیق) کو کس نے رلایا ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے بندے کو دنیا و آخرت کا اختیار دیا تو اس بندے نے آخرت کو پسند کرلیا تو (کیا ہوا) (جب ابہام دور ہوا) تو پتہ چلا وہ بندہ (جس کو اختیار دیا گیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا اے ابوبکر رضی اللہ عنہ مت روئو‘ تمام لوگوں میں مصاحبت اور مال کے لحاظ سے مجھ پر زیادہ احسانات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے کسی کو خلیل بنانا چاہتا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا لیکن امت کی اخوت و محبت (خلعت سے بہتر ہے) اور فرمایا مسجد میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے کے علاوہ کسی کا دروازہ نہ رہنے دیا جائے ۔ (بخاری شریف‘ عربی‘ کتاب الصلوٰۃ‘ حدیث نمبر 466‘ص 80‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب،چشتی)(بخاری شریف‘ عربی اردو‘ جلد اول کتاب الصلوٰۃ‘ حدیث نمبر 449‘ ص 247‘ مطبوعہ شبیر برادرز لاہور پاکستان)

اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ اختیار عطا فرمایا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے رب سے ملاقات کریں یا دنیا میں جلوہ گر رہیں ۔

حَدَّثَنَا بَکْرُ بْنُ خَلَفٍ ثَنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ ثَنَا اَبِیْ عَنْ اَیُّوْبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنُ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَلْیَفْعَلْ فَاِنِّیْ اَشْہَدُ لِمَنْ مَّاتَ بِہَا ۔
ترجمہ : بکر بن خلف‘ معاذ بن ہشام‘ ہشام‘ ایوب‘ نافع ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص تم میں سے مدینہ میں مرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ ایسا کرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی خدا کے سامنے شہادت دوں گا ۔ (ابن ماجہ‘ عربی‘ کتاب المناسک‘ حدیث نمبر 3112‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب،چشتی)(سنن ابن ماجہ ‘عربی اردو‘ جلد دوم باب فضل المدینہ حدیث نمبر897‘ ص 260مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہورپاکستان)

علامہ دمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت سب سے بڑی فضیلت ہے ۔ دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کی مجھ پر شفاعت واجب ہے ۔ نیز ابن ابی المکی نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے کہ جو میری زیارت کے لئے آیا اور اسے کوئی حاجت نہ لائی تو مجھ پر فرض ہے کہ میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں تو وہ مقام جہاں ہمہ وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا قرب رہتا ہو تو وہ مقام موت کے زیادہ لائق ہے اور مقصد یہ ہے کہ اپنی جانب سے مدینہ چھوڑ کر نہ چلا جائے۔ بلکہ کوشش اسی بات کی کرے کہ مدینہ میں رہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے اے اللہ مجھے شہادت عطا فرما اور مدینہ میں عطا فرما۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے جب لوگوں کو اختلاف ہوا اور ان سے یہ کہا گیا کہ آپ رضی اللہ عنہ دارالخلافہ تبدیل کردیں تو انہوں نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مدینہ چھوڑ کر نہیں جا سکتا ۔ نیز ترمذی میں یہ حدیث بھی ہے جو مکّہ یا مدینہ میں مرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا ۔ نیز یہ حدیث بھی ہے کہ سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی اور پھر میرے ساتھ اہل بقیع اٹھائے جائیں گے اور میں انہیں لے کر مکہ آٶں گا پھر اہل مکہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے ۔

حَدَّثَنَا اَبُوْ مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِیُّ ثَنَا عَبْدُالْعَزِیْزِ بْنُ اَبِیْ حَازِمٍ عَنِ الْعَلَائِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِیْمِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَللّٰھُمَّ اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلُکَ وَ نَبِیُّکَ وَاِنَّکَ حَرَّمْتَ مَکَّۃَ عَلٰی لِسَانِ اِبْرَاہِیْمَ اَللّٰھُمَّ اَنَا عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَ اِنِّیْ اُحَرِّمُ مَابَیْنَ لاَبَتَیْہَا قَالَ اَبُوْ مَرْوَانَ لاَبَتَیْہَا حَرَّتَیَ الْمَدِیْنَۃِ ۔
ترجمہ : ابو مروان محمد بن عثمان‘ عبدالعزیز بن ابی حازم‘ علاء بن عبدالرحمن‘ عبدالرحمن‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا اے اللہ تعالیٰ تیرے دوست اور تیرے نبی ابراہیم علیہ السلام اور تونے خود مکہ کو ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے حرام قرار دیا ۔ اے اللہ تعالیٰ میں تیرا بندہ اور تیرا نبی مدینہ کو ان دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان حرام قرار دیتا ہوں ۔ (سنن ابن ماجہ‘ عربی‘ کتاب المناسک‘ حدیث نمبر 3113‘ ص 453‘ مطبوعہ دارالسلام‘ ریاض سعودی عرب،چشتی)(سنن ابن ماجہ ‘عربی اردو‘ جلد دوم ‘باب فضل المدینہ ‘حدیث نمبر 898‘ مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور)

غیر مقلد وہابی علماء غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں کیا یہ شرک نہیں ہے ؟ : ⏬

غیرُ اللہ سے مدد مانگنا کہ اللہ کے اذن (یعنی عطاء) سے مدد کرتے ہیں یہ شرک نہیں ہے ۔(ہدیۃ المہدی صفحہ 20 علامہ نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)
قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( نفخ الطیب صفحہ نمبر 63 غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خان صاحب،چشتی)
قاضی شوکاں مدد ، قبلہ دیں مدد غیر اللہ سے مدد مانگی جا رہی ہے ۔ ( ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 23 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)

نواب صدیق حسن خان کا امام شوکانی سے مدد مانگنا اور غیر مقلد عالم رئیس ندوی کی تاویل : ⏬

غیر مقلدین کی یہ عادت ہےکہ وہ بات بات پہ دوسروں کے اوپر شرک کا فتوی لگائیں گے اور اگر ویسا ہی حوالہ ان کے علماء کا نکل آئے تو یا تو اپنے عالم کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیں گے یا پھر اس کی تاویل شروع کر دیں گے۔
غیر مقلدکے مشہور عالم نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنی کتاب ”نفخ الطیب” میں علامہ شوکانی سے مدد مانگی تو اس کی تاویل میں علامہ رئیس ندوی صاحب کہتے ہیں کہ ” اشعار میں بڑی نازک خیالی پیش کرنے کی شعراء کی عادت ہے، یہاں نواب صاحب کی بات کا مطلب ہے کہ اہلحدیث فرقہ کے ساتھ اہل رائے فتنہ پردازی میں مصروف ہے ان کے مقابلہ کے لئےہمیں امام شوکانی جیسے حامی سنت کی کتابوں سے مدد لینے کی ضرورت پیش ہے ۔ (مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ،868/869)
نواب صدیق حسن خان کے اس شعر کی ایک تاویل ثناء اللہ امرتسری نے بھی کی ہے ۔ غیر مقلد شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری کے رسالہ اہلحدیث امرتسر میں ایک قادیانی نے اعتراض کیا کہ نواب صدیق حسن خان فوت شدہ بزرگوں سے استمداد کے قائل تھے ان کا شعر ہے کہ ”ابن قیم مددے قاضی شوکانی مددے” اس کے جواب میں لکھا ہے کہ ”نواب صاحب کا اس سے مقصود حقیقی استمداد نہیں بلکہ اظہار محبت ہے ۔ (رسالہ اہلحدیث امرتسر،3 جون 1938،صفحہ 7)

اس کے علاوہ نواب صدیق حسن خان صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے بھی مدد مانگتے تھے ۔ (مآثر صدیق،حصہ دوم صفحہ 30/31)

بات بات پر ایلسنت و جماعت پر شرک کے فتوے لاگانے والے غیر مقلد وہابی حضرات کیا ؟ اپنے غیر مقلد اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان کےامام شوکانی، ابن قیم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سے مدد مانگنے کے ان حوالوں کو مانیں گے یا اپنے نواب صاحب کو جوتے کی نوک پہ رکھتے ہوئے ان پر بھی شرک کا فتویٰ لگائیں گے ؟ ( طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 22 May 2025

منافق کسے کہتے ہیں ، منافقت کی علامات اور منافقین کی پہچان

منافق کسے کہتے ہیں ، منافقت کی علامات اور منافقین کی پہچان

محترم قارئینِ کرام : قرآن کریم کی معروف اصطلا حات میں سے ایک اصطلاح منافق بھی ہے ۔ اسلامی سو سائٹی میں جو عناصر بظاہر مسلمان نظر آتے ہیں لیکن باطن میں وہ اسلام کے سخت ترین دشمن ہیں ، ایسے افراد کو منافق کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے یعنی یہ ’’دوست نما دشمن‘‘ کا کردار کرتے ہیں ۔
سورۃ العنکبوت کے شروع ہی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَيَـعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ ۔ (سورۃ العنكبوت آیت نمبر 11)
ترجمہ : اور ضرور الله ظاہر کردے گا ایمان والوں کو اور ضرور ظاہر کردے گا منافقوں کو ۔

"منافق" نفق سے ماخوذ ہے ۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے ۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے کا نام قاصعاء ہے ۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے ۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے ، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے ۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں ۔ ایک کفر ، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے ۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتا ہے ۔ (لسان العرب)

مُنافقت کا معنیٰ ہے اپنے قول او رعمل سے وہ کچھ ظاھر کرنا جو دِل میں موجود عقائد و عزائم کے خِلاف ہو اور اِسلام میں منافقت کا مفہوم ، دِل میں کفر ، شرک اور گناہوں کا اقرار اور عمل کے وجود کے ساتھ ، اپنے آپ کو قولی اور عملی طور پر اِیمان والا ، اللہ کی توحید کو ماننے والا، اور گناہوں سے دُور رہنے و الا ظاہر کرنا ۔
اللہ تعالیٰ نے جہنم کا سب سے نچلا درجہ ، منافقین ، یعنی ، منافقت کرنے والوں کا ٹھکانہ مقرر فرما رکھا ہے : اِنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ فِى الدَّرۡكِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ‌ ۚ وَلَنۡ تَجِدَ لَهُمۡ نَصِيۡرًا ۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 145)
ترجمہ : بیشک منافق دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور (اے مخاطب) تو ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہیں پائے گا ۔

خواہ یہ مُنافق ، نفاق اکبر (بڑی مُنافقت) پر عمل کرنے والے ہوں ، یا نفاق اصغر (چھوٹی مُنافقت) پر ، اعتقادی نفاق والے ہوں یا عملی مُنافقت والے ، سب کا ٹھکانہ وہی ہے ۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا منافق آگ کے سب سے نچلے درک میں ہوں گے ، ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ درک کا معنی منزل ہے اور جہنم میں کئی منازل ہیں اور منافق سب سے نچلی منزل میں ہوں گے ، ابن الانباری نے کہا ہے کہ درک سیڑھی کے ڈنڈے کو کہتے ہیں ، ضحاک نے کہا جب منازل میں یہ لحاظ کیا جائے کہ بعض ، بعض سے اوپر ہیں تو ان کو درج (درجہ) کہتے ہیں اور جب یہ لحاظ کیا جائے کہ بعض بعض سے نیچے ہیں تو ان کو درک کہتے ہیں ۔ ابن فارس نے کہا جنت میں درجات ہیں اور دوزخ میں درکات ہیں ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت کی تفسیر میں فرمایا منافق لوہے کہ ایک ایسے تابوت میں ہوں گے جس کا کوئی دروازہ نہیں ہوگا ۔ (جامع البیان جز ٥ صفحہ ٤٥٤)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : دوزخ کے سات طبقات ہیں ، پہلا طبقہ جہنم ہے دوسرا لظی ہے ، تیسرا الحطمہ ہے چوتھا السعیر ہے ، پانچواں سقر ہے چھٹا جحیم ہے اور ساتواں ھاویہ ہے اور کبھی ان تمام طبقات پر جہنم کا اطلاق بھی کردیا جاتا ہے ، ان طبقات کو درکات اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تہ در تہ ہیں ، اور منافقوں کا آخری طبقہ میں ہونا ان کے شدت عذاب پر دلالت کرتا ہے ۔ (تفسیر روح المعانی جلد ٥ صفحہ ١٧٧ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے جب وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٦٨٢‘ ٣٣،چشتی)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٩)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦)(مسند احمد جلد ٣ رقم الحدیث : ٩١٦٩)(سنن کبری للبیہقی جلد ٦ صفحہ ٢٨٨)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہوگا ، اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی حتی کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے ، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے ، اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٦٨٢ ‘ ٣٣)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٩،چشتی)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٦)(مسند احمد جلد ٣ رقم الحدیث : ٩١٦٩)(سنن کبری للبیہقی جلد ٦ صفحہ ٢٨٨)

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں وہ خالص منافق ہوگا ‘ اور جس شخص میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی حتی کہ وہ اس خصلت کو چھوڑ دے ‘ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٢٤٥٩ ، ٣٤)(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٨)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٤١)(سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٤٦٨٨)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٥٠٣)(مسند احمد جلد ٢ رقم الحدیث : ٦٧٨٢)(سنن کبری جلد ٩ صفحہ ٢٣٠)

بظاہر اس حدیث میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے اس میں نفاق کی خصلت ہوگی ، محدثین کرام نے اس حدیث کے متعدد جوابات ذکر کیے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں : ⏬

یہ علامتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص تھیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وحی کے نور سے لوگوں کے دلوں میں کے حال پر مطلع تھے ، اور آپ جانتے تھے کہ کون منافق ہے اور کون منافق نہیں ہے اور چونکہ یہ غیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا اس لیے آپ نے اپنے اصحاب کو یہ نشانیاں بتائیں تاکہ وہ ان علامتوں سے منافقوں کو پہچان لیں اور ان سے احتراز کریں اور آپ نے معین کر کے نہیں بتایا کہ فلاں فلاں منافق ہے تاکہ فتنہ پیدا نہ ہو اور یہ لوگ مرتد ہو کر مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا محمل یہ ہے کہ جو شخص حلال اور جائز سمجھ کر یہ چار کام کرے وہ منافق کے حکم میں ہوگا ۔

جو شخص ان اوصاف کے ساتھ متصف ہو وہ منافقین کے مشابہ ہوگا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر تغلیظا اور تہدیدا منافق کا اطلاق فرمایا ہے اور یہ اس شخص کے متعلق فرمایا ہے جو عادۃ یہ چار کام کرتا ہو اور اس کے متعلق نہیں فرمایا جس سے نادرا یہ کام سرزد ہوں ۔

عرف میں منافق اس شخص کو کہتے ہیں جس کا ظاہر باطن کے خلاف ہو سو ایسا شخص عرفا منافق ہے شرعا منافق نہیں لہٰذا ایسے شخص کا کافر نہیں قرار دیا جائے گا نہ وہ اس آیت کی وعید کا مصداق ہوگا ۔

دینی معاملات میں ایسے شخص کا حکم منافق کا ہوگا اور اس کی خبر معتبر نہیں ہوگی ۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں تین کاموں کو منافق کی علامت فرمایا ہے اور دوسری میں چار کاموں کو منافق کی علامت قرار دیا ہے ، یہ اختلاف مقتضی حال اور مقام کے اعتبار سے ہے ۔ کبھی آپ کے سامنے ایسے منافق تھے جس میں چار خصلتیں تھیں اور کبھی ایسے تھے جن میں تین خصلتیں تھی اس وجہ سے کبھی آپ نے تین علامتیں بیان فرمائیں اور کبھی چار ۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور (اے مخاطب) تو ان کےلیے کوئی مددگار نہیں پائے گا اس آیت میں منافقین کی نصرت کی نفی کی تخصیص کی ہے اور یہ تخصیص اس وقت صحیح ہوگی جب مخلص مسلمانوں کی نصرت اور ان کی شفاعت کی جاسکے ، اور تب ہی منافقین کی مدد کا نہ کیا جانا ان کےلیے باعث حسرت اور افسوس ہوگا اور اگر مخلص مسلمانوں کی بھی مدد نہ کی جائے تو منافقین کو کیوں ندامت اور حسرت ہوگی ۔

بد قسمتی سے ہمارے نام نہاد مسلم معاشرہ میں یہ رذائل بہت تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ اس منا فقانہ طرز عمل کو چالاکی اور ہوشیاری سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے ۔

اس حدیث مبارک میں منافق کی پہلی خصلت امانت میں خیانت بتا ئی گئی ہے ۔ امانت کی پاسداری دراصل مومن کی پہچان ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : مومن کے اندر ہر عادت ہو سکتی ہے جھوٹ اور خیانت کے سوا ۔ (رواہ احمد عن ابی امامہ ورواہ البزار)

امانت میں خیانت کی درج ذیل شکلیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں ، اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن ہے : ⬇

۱۔ امانت میں خیانت یعنی کم مال واپس کرنا، اچھے مال سے خراب مال بدل لینا۔
۲ ۔ اللہ اور اس کے رسول کی نا فرمانی بھی امانت میں خیانت ہے۔
۳۔ ناپ تول میں کمی کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔
۴۔ راز بھی امانت ہے، اس کی حفاظت نہ کرنا خیانت ہے۔
۵۔ وقت کا ضیاع، کام چوری اور غیر متعلق امور سے دلچسپی بھی خیانت ہے۔
۶۔ رشوت لے کر کام کرنا اور ناحق فائدہ پہنچانا بھی خیانت ہے۔
کذب بیانی
منافق کی دوسری خصلت کذب بیانی کہی گئی ہے، اس کی درج ذیل مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں:
۱۔ اللہ کے معاملے میں جھوٹ بولنا یعنی حلال کو حرام اور حرام کو حلال بتا نا۔
۔ اللہ کے رسول کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا،
۳۔ جھوٹی خبریں، اور جھوٹے واقعات بیان کرنا، سنسنی خیز صحافت بھی اسی زمرے میں شامل ہے۔
۴۔ جھوٹی قسمیں، جھوٹے وعدے، جھوٹے مقدمات قائم کرنا۔ جھوٹی گواہی دینے والے کے تعلق سے ارشاد خدا وندی ہے:’’ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو حقیر قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصّہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا‘‘۔( آل عمران: ۷۷)
اس معاملے کی سختی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نا فرمانی کرنا، سنو! جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا۔ آپ بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ راوی نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے۔‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی)
جھوٹی قسم کھاکر تجارت کو فروغ دینا، غلط طریقے سے سامان بیچنا ،اور خریدار کو فریب دینا بھی جھوٹ کی ایک قسم ہے، اس ضمن میں نبیؐ کا ارشاد ہے:’’ تین ایسے آدمی ہیں جن کی طرف روز قیامت اللہ تعالی نہ دیکھے گا، نہ ان کا تزکیہ کرے گا، اس روز ان کو درد ناک عذاب ہوگا(۱) تہبند کو ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا (متکبر)، (۲) احسان جتانے والا، (۳) جھوٹی قسم کھاکر اپنی تجارت کو فروغ دینے والا۔
۵۔ ایک اور انتہائی درجہ بد اخلاقی کی جیتی جاگتی تصویر جس میں نوجوان طبقہ خاص طور سے ملوث ہے، بھولی بھالی پاک دامن عورتوں پر بد چلنی کا الزام لگانا، حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’بے شک جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہوگی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور: ۳۳)
اسلامی معاشرہ کی اصل روح تو یہ ہے کہ دوسروں کے واقعی عیبوں پر بھی پردہ ڈالا جائے اور کسی بھی مومن یا مومنہ کی سرِ بازار پگڑی نہ اچھالی جائے۔ ورنہ نفرت، بغض وکینہ وغیرہ سے معاشرہ کا پاک رہ جانا بڑا ہی مشکل ہو گا ۔ اگر اتفاقاً کسی کی کوئی غلط حرکت سامنے آبھی جائے تو خلوت میں حکمت کے ساتھ اسے سمجھانا ہی افضل ہے ۔

منافق کی تیسری خصلت بد عہدی یا معا ہدہ شکنی ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’اور عہد کو پورا کر و کیونکہ عہد کی پرسش ہونی ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل)
’’ اس عہد میں ہر قسم کا عہد شامل ہے خواہ وہ کسی معا ہدے کی صورت میں وجود میں آئے، لیکن عادتاً اور عرفاََاُن کو عہد ہی سمجھا اور مانا جاتا ہو، جس نوعیت کا بھی عہد ہو، اگر وہ خلاف شریعت نہیں ہے تو اس کو پورا کرنا ضروری ہے‘‘۔ عہد کی دو قسمیں ہیں:
الف) اللہ اور بندے کے درمیان یعنی ہر شخص کا اللہ سے یہ عہد کہ وہ سچا پکا مومن ہوگا اور جملہ معاملات میں شریعت الہی کی اتباع کرے گا۔ یہی بات سورۃ المائدۃ کی پہلی آیت میں بھی کہی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو‘‘۔( سورۃ المائدۃ، آیت:۱)
’’ یعنی ان حدود اور قیود کی پابندی کرو جو اس سورہ میں تم پر عائد کی جارہی ہیں اور جو بالعموم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں ‘‘
عہد کی دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے درمیان ہے، اس کی مثال ہے کام چوری کرنا، دھوکہ دینا، وعدہ پورا نہ کرنا، وغیرہ
بد زبانی و بد کلامی
منا فق کی چوتھی خصلت بد زبانی اور بد کلامی ہے، یعنی وہ مخاصمت کے وقت آپے سے باہر ہو جاتا ہے، نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگ جہنم میں اپنی بد زبانی کے سبب جائیں گے‘‘(ترمذی) جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں اہل ایمان کوئی لا یعنی اور لغو یات نہیں سنیں گے، جیسا سورۃ الواقعۃ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے جو بات بھی ہوگی ٹھیک ٹھیک ہوگی‘‘۔ (سورۃ الواقعۃ: ۲۵۔۲۶)
سطور بالاکی روشنی میں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور سے ہی سہی منافقت کے مہلک مرض میں مبتلا تو نہیں ہو رہے ہیں ؟

عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کےلیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں : ⏬

محترم قارئینِ کرام اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ  وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ (سورہ منافقون آیت نمبر 8)
ترجمہ : کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اُسے جو نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں ۔

یعنی منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا ۔ منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ، اللّٰہ تعالیٰ ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللّٰہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ، اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔منقول ہے کہ یہ آیت نازل ہونے کے چند ہی روز بعد عبد اللّٰہ بن اُبی منافق اپنے نفاق کی حالت پر مر گیا ۔ (تفسیر خازن المنافقون : ۸، ۴/۲۷۴)

عبد اللّٰہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ تھا اور یہ بڑے پکے مسلمان اور سچے عاشقِ رسول تھے ، جنگ سے واپسی کے وقت مدینہ منورہ سے باہر تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور باپ سے کہنے لگے اس وقت تک مدینہ میں داخل ہونے نہیں دوں گا جب تک تو اس کا اقرار نہ کرے کہ تو ذلیل ہے اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ۔ اس کو بڑا تعجب ہوا کیونکہ یہ ہمیشہ سے باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنے والے تھے مگر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقابلے میں باپ کی کوئی عزت و محبت دل میں نہ رہی ۔ آخر اس نے مجبور ہوکر اقرار کیا کہ واللّٰہ میں ذلیل ہوں اور محمد مصطفی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عزیز ہیں ، اس کے بعد مدینہ میں داخل ہوسکا۔( سیرت حلبیہ، باب ذکر مغازیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،غزوۃ بنی المصطلق ،۲/۳۹۳،چشتی)(مدارج النبوۃ، قسم سوم، باب پنجم، ۲/۱۵۷)

ہر مومن عزت والا ہے کسی مسلم قوم کو ذلیل جاننا یا اسے کمین کہنا حرام ہے ۔ مومن کی عزت ایمان اور نیک اعمال سے ہے ، روپیہ پیسہ سے نہیں ۔ مومن کی عزت دائمی ہے فانی نہیں اسی لئے مومن کی لاش اور قبر کی بھی عزت کی جاتی ہے ۔ جو مومن کو ذلیل سمجھے وہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ذلیل ہے ، غریب مسکین مومن عزت والا ہے جبکہ مالدار کافر بد تر ہے ۔

اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ ۔ (سورہ حضرات آیت نمبر 13)
ترجمہ : اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔

آیت کے اس حصے میں وہ چیز بیان فرمائی جارہی ہے جو انسان کے لئے شرافت و فضیلت کا سبب ہے اور جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت حاصل ہوتی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تم میں سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں جاننے والا اور تمہارے باطن سے خبردار ہے ۔

شانِ نزول : نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گئے ، وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک حبشی غلام یہ کہہ رہا تھا : جو مجھے خریدے اس سے میری یہ شرط ہے کہ مجھے نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِقتداء میں پانچوں نمازیں ادا کرنے سے منع نہ کرے ۔ اس غلام کو ایک شخص نے خرید لیا ، پھر وہ غلام بیمار ہوگیا تو نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ، پھر اس کی وفات ہوگئی اور رنبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کی تدفین میں تشریف لائے ، اس کے بارے میں لوگوں نے کچھ کہا تو اس پر یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۱۱۵۶، جلالین، الحجرات، تحت الآیۃ: ۱۳، ص۴۲۸،چشتی)

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و فضیلت کا مدار نسب نہیں بلکہ پرہیزگاری ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ نسب پر فخر کرنے سے بچے اور تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اسے عزت و فضیلت نصیب ہو ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں : فتحِ مکہ کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلِیَّت کا غرور اور ایک دوسرے پر خاندانی فخر دور کر دیا ہے اور اب صرف دو قسم کے لوگ ہیں (1) نیک اور متقی شخص جو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معزز ہے ۔ (2) گناہگار اور بد بخت آدمی ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ذلیل و خوار ہے ۔ تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘ ۔
ترجمہ : اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایاتاکہ تم آپس میں پہچان رکھو ، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے ۔ (ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات، ۵/۱۷۹، الحدیث: ۳۲۸۱)

حضرت عداء بن خالد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں حجۃ الوداع کے دن نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کے منبر ِاقدس کے نیچے بیٹھا ہوا تھا ، آپ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی ، پھر فرمایا ’’ بے شک اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى ۔
ترجمہ : اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘ ۔
ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم آپس میں پہچان رکھو، بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہے ۔
تو کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے ،کسی کا لے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر فضیلت حاصل ہے بلکہ فضیلت صرف تقویٰ و پرہیزگاری سے ہے (تو جو مُتَّقی اور پرہیز گار ہے وہ افضل ہے) ۔ (معجم الکبیر، عداء بن خالد بن ہوذہ العامری، ۱۸/۱۲، الحدیث: ۱۶،چشتی)

حضر ت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جب قیامت کا دن ہوگا تو بندوں کواللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اس حال میں کہ وہ غیرمختون ہوں گے اوران کی رنگت سیاہ ہوگی ، تواللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : ’’اے میرے بندو ! میں نے تمہیں حکم دیا اور تم نے میرے حکم کو ضائع کردیا اورتم نے اپنے نسبوں کو بلند کیا اور انہی کے سبب ایک دوسرے پر فخر کرتے رہے ، آج کے دن میں تمہارے نسبوں کو حقیر و ذلیل قراردے رہاہوں ، میں ہی غالب حکمران ہوں ، کہاں ہیں مُتَّقی لوگ ؟ کہاں ہیں متقی لوگ ؟ بیشک اللہ تعالیٰ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ علیّ، حرف الالف من آباء العلیین، ۶۱۷۲-علیّ بن ابراہیم العمری القزوینی، ۱۱/۳۳۷)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے ۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو : ⏬

عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ ، وَيَقُولُ: مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت ﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2: 1297، رقم: 3932)(طبراني، مسند الشاميين، 2: 396، رقم: 1568،چشتی)(منذري، الترغيب والترهيب، 3: 201، رقم: 3679)

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یصف اھل النار فیمُرُبِھِم ُ الرجل من اھل الجنۃ فیقول الرجل منھم یا فلان! اما تعرفنی اناالذی سقیتک شربَۃً و قال بعضھم اناالّذی وھبتُ لک وضوءً فیشفعہ لہ فید خلہ الجنۃ ۔ (ابن ماجہ:3685،مشکوٰۃ،494)
ترجمہ : گنہگار دوزخیوں کو دوزخ میں بھیجنے کیلئے علیحدہ کر دیا جائے گا وہ صفِ بستہ کھڑے ہوں گے کہ ایک جنتی بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کے قریب سے گزرے گاتو دوزخی اپنے اس نیک صالح انسان کو پہچان لیں گے کوئی کہے گا آپ مجھے نہیں پہچانتے فلاں موقع پر میں نے آپ کو پانی پلایا تھا کوئی کہے گا میں نے آپ کو وضو کےلیے پانی لا کر دیا تھا اتنے سے تعارف اور معمولی سی خدمت پر ہی وہ نیک انسان ان کی شفاعت کرے گا جو قبول کی جائے گی اور وہ انہیں اپنے ساتھ جنت میں لے جائے گا ۔

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُنَافِقَ الْعَلِیمَ ، میں اس اُمت پر صاحبء علم منافقوں کے بارے میں بہت ڈرتا ہوں ۔ پوچھا گیا ، منافق صاحبء علم کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو أمیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے اِرشاد فرمایا عَالِمُ اللِّسَانِ، جَاهِلُ الْقَلْبِ وَالْعَملِ ، زبان کا عِالم لیکن دِل اور عمل سے جاھل ۔ (الاحادیث المختارہ حدیث نمبر 236 روایۃ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ، ابو عثمان عبدالرحمٰن بن مل النھدی عن عمر رضی اللہ عنہ،چشتی)

صاحب کتاب امام محمد بن عبدالواحد المقدسی علیہ الرحمہ کا کہنا ہے کہ اسے مخلتف اسناد سے روایت کیا گیا ہے ، جن میں مرفوع بھی ہیں اور موقوف بھی ہیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ، یعنی عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ۔

حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ منافق کون ہے ؟ فرمایا الَّذِی یصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا یعْمَلُ بِهِ ، یعنی وہ جو اِسلام کا دعویٰ دار ہو لیکن اُس پر عمل نہ کرتا ہو ۔ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ ہم حکمرانوں اور سرداروں کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات (یعنی ان کی تعریف ہی) کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو اس بات کے خلاف بات کرتے ہیں " تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا ہم اُسے مُنافقت میں گنا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب 27) ۔ مختلف الفاظ میں یہ اثر بہت سی کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً سُنن ابن ماجہ حدیث 3975 کتاب الفتن باب 12 ، مسند احمد حدیث 5829)

منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو ۔ سورۃ البقرہ کی آیات 8 تا 20 میں مسلسل منافقین کی علامات بیان کی گئی ہیں ۔ یہ علامات منافقین پر قرآن حکیم کا واضح چارٹر ہے جو اس لیے دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے سکے اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کر سکے ۔ منافقت کی علامات درج ذیل ہیں : ⏬

(1) دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
(2) محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
(3) دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا۔
(4) یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
(5) یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
(6) قلب و باطن کا بیمار ہونا۔
(7) جھوٹ بولنا۔
(8) نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔
(9) دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
(10) امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔
(11) اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔
(12) کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔
(13) اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔
(14) مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
(15) باطل کو حق پر ترجیح دینا۔
(16) سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔
(17) تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔
(18) اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا۔
(19) اہل حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔
(20) اپنے مفادات کے حصول کے لئے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔
(21) حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔

گذارش : ہم سب ذرا اپنے بارے میں سوچیں تو کہ ہم کونسی سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ؟ اور ہمارے اَرد گِرد کس کس میں کیا کیا نشانی پائی جاتی ہے ؟ اور اگر ہمارے اندر اِن میں سے کوئی نشانی ہے تو اُس سے نجات کی کوشش کریں ، اور اپنے جِس مُسلمان بھائی بہن میں اِن میں سے کوئی نشانی پائیں اُسے بھی حِکمت اور نرمی کے ساتھ آگاہ کرتے ہوئے اصلاح کی رغبت دلائیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو مُنافقت اور مُنافقین سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 19 May 2025

کافر کی تعظیم کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں

کافر کی تعظیم کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام قرآنِ پاک میں ارشاد ہے : وَیٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ طَرَدْتُّهُمْؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ۔ (سورہ ھود آیت نمبر 30)
ترجمہ : اور اے قوم مجھے اللہ سے کون بچالے گا اگر میں انہیں دور کروں گا تو کیا تمہیں دھیان نہیں ۔

پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
ہیں مثلِ یہودی یہ سعودی بھی عذاب
اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھے
کعبے کی کمائی سے جو پیتے ہیں شراب

اس آیتِ مبارکہ کا معنیٰ یہ ہے کہ عقل اور شریعت ا س بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم کرنا جبکہ فاسق و فاجر اور کافر کی توہین کرنا ضروری ہے اور اس کے برخلاف کرنا یعنی فاسق و فاجر اور کافر کو تعظیم کے طور پر قربت سے نوازنا اور نیک ، متقی ، پرہیز گار مسلمانوں کو ان کی توہین کے طور پر اپنے آپ سے دور کر دینا اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام سے جب ان کی قوم کے لوگوں نے غریب مسلمانوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں حضرت نوح علیہ السلام نے یہ جواب دیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بفرضِ محال اگر میں شریعت کے حکم کے برخلاف کافر اور فاجر کی تعظیم کر کے اسے اپنی بارگاہ میں قرب سے نوازوں اور متقی مومن کی توہین کر کے اسے اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہو گی اور اس کی وجہ سے میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا حق دار ٹھہروں گا ، مجھے بتاؤ! پھر اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کون بچائے گا؟ تو کیا تم اس بات سے نصیحت حاصل نہیں کرتے کہ ایسا کرنا درست نہیں ۔ (تفسیر کبیر جلد ۶ صفحہ ۳۳۹ ۔ ۳۴۰)

کافر کی تعظیم کفر ہے جبکہ اس کے کفر کو اچھا جان کر تعظیم کرے اور اگر مذکورہ الفاظ تعظیم کےلیے نہیں کہے بلکہ کسی مجبوری میں  کہے جیسے  اسے مخاطب یا متوجہ کرنے کے لیے یا اگر نہیں کہتا  تو وہ کوئی نقصان پہنچائےگا تو حرج نہیں ۔

اگر کافر کے کفر کو اچھا جان کر تعظیم کرے گا تو خود کافر ہو جائے گا ۔ شریعت میں مومن کی تکریم اور کافر کی تذلیل مطلوب ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ عقل اور شرع اس بات پر متفق ہیں کہ نیک اور متقی مسلمان کی تعظیم اور تکریم ضروری ہے اور کافر اور فاجر کی توہین کرنا ضروری ہے ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون ۔ (سورہ المنافقون آیت نمبر ٨)
ترجمہ : عزت تو اللہ اور رسول اور ایمان والوں کےلیے ہے لیکن منافقین نہیں جانتے ۔

فاذا قہم اللہ الخزی فی الحیوۃ الدنیا ولعذاب الاخرۃ اکبر ۔ (سورہ الزمر آیت نمبر ٢٦)
ترجمہ : سو اللہ نے انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کا مزہ چکھایا اور یقیناً آخرت کا عذاب سب عذابوں سے بڑا ہے ۔

لہم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ١١٤)
ترجمہ : ان (کافروں) کےلیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کےلیے بہت بڑا عذاب ہے ۔

کافر کی عزت و تعظیم اور دوستی کرنے کی ممانعت آئی ہے ، اس لیے کہ عزت دینا دوستی کا حصہ ہے اور یہ منع ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ (سورہ المائدة آیت نمبر 51)
ترجمہ : اے ایمان والو یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔

یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا ۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں ، اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہو سکتا ، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے ۔ نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ : یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ، عبادہ کا یہ کام نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)

اس آیتِ مبارکہ میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا ، اُن سے مدد چاہنااور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے ۔ (تفسیر مدارک التنزیل صفحہ ۲۸۹)

لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود و نصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہر مخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے ۔ (تفسیر مدارک صفحہ ۲۸۹،چشتی)(تفسیر خازن جلد، ۱ صفحہ ۵۰۳)

اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔

نبی کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا تبدءوا اليهود والنصارى بالسلام وإذا لقيتم أحدهم فى طريق فاضطروهم إلى أضيقه ۔
ترجمہ : تم یہود و نصاری کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب تم ان سے کسی راستہ پر ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو ۔ (صحيح مسلم ، كتاب السلام باب 4 حدیث نمبر 2167)(مسند احمد جلد 2 صفحہ 346)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا : الإسلام يعلوا ولا يعلى عليه ۔
ترجمہ : اسلام بلند ہوتا ہے اور اس پر کسی چیز کو بلند نہیں کیا جا سکتا ۔ (السنن الكبرى للبيهقى جلد 6 صفحہ 205،چشتی)(سنن الدارقطنی جلد 3 صفحہ 252)

ایک مرتبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہ تحریر بھیجی کہ شام میں ایک نصرانی کاتب (کلرک) ہے اور شام کا خراج صرف اسی کے ذریعے وصول ہوتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب لکھا کہ ”نصرانی مرجائے“ والسلام ۔ یعنی اسے موت نصیب ہو ۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے : قیل لعمر بن الخطاب (رضي الله عنه): إن ههنا غلاماً من أهل الحیرة حفِظ کاتب، فلوا اتخذته کاتباً! فقال: قد اتخذت إذاً بطانةً من دون المؤمنین ۔
ترجمہ : حضرت فاروق اعظم سے کہا گیا کہ یہاں حیرہ کا رہنے والا ایک منشی ہے جو کہ اس فن کو خوب جاننے والا ہے، آپ اس کو اپنے ہاں منشی رکھوائیں ۔ حضرت فاروق اعظم نے فرمایا : اس (غیر مسلم) کو منشی رکھنے سے قرآن کی (مندرجہ بالا) آیت کی مخالفت لازم آئے گی۔ اور اس وقت گویا میں مسلمانوں کو چھوڑ کر غیر مسلم کو اپنا راز دان بناؤں گا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحہ 234 مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،چشتی)

درمختارمیں ہے : یمنع من استکتاب ومباشرۃ یکون بھا معظما عند المسلمین وتمامہ فی الفتح وفی الحاوی ینبغی ان یلازم الصغار بینہ وبین المسلم، فی کل شیئ وعلیہ فیمنع من القعود حال قیام المسلم عندہ بحر، ویحرم تعظیمہ ۔
ترجمہ : ذمی کافر کو ایسا عہدہ دیناجس میں براہ راست وہ خود کام کرے جو مسلمانوں کے نزدیک عظمت والا ہو جائز نہیں ، اس کا پوار بیان فتح القدیر میں ہے۔ حاوی میں ہے وہ مسلمان کے ساتھ ہر معاملہ میں دبا ہوا ذلیل رہے تو جب تک ا س کے پاس کوئی مسلمان کھڑا ہواُسے بیٹھنے نہ دیں گے ، یہ بحرالرائق میں ہے، اور اس کی تعظیم حرام ہے ۔ (الدرالمختار فصل فی الجزیۃ صفحہ 342 دار الكتب العلمية بیروت)

تفسیر قرطبی میں ہے : وقد انقلبت الأحوال في هذه الأزمان باتخاذ أهل الکتاب کتبةً وأمناء، وتسودوا بذلک عند جهلة الأغنیاء من الولاة والأمراء ۔
ترجمہ : اِس زمانہ میں حالات میں ایسا انقلاب آیا کہ یہود و نصاری کو محرراور امین بنالیا گیا ، اور اس ذریعہ سے وہ جاہل اغنیاء و امراء پر مسلط ہوگئے ۔ (تفسیر قرطبی جلد 2 صفحہ 345 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور،چشتی)

اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : نصرانی کو کاتب نہ رکھو اس لیے کہ کاتب (کلرک) کی حیثیت مشیر کی ہوتی ہے اور مسلمانوں کے امور و معاملات میں نصرانی سے مشورہ نہیں لیا جا سکتا ۔

اور ابن عبد البر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ ایک فقیہہ خلیفۃ المسلمین مامون کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک یہودی کاتب (کلرک ، منشی) ہے ، جو ان کا مقرب اور محبوب نظر بنا ہوا ہے ، فقیہہ نے مامون کے سامنے یہ شعر پڑھا : ⏬
إن الذى شرفت من أجله
يزعم هذا انه كاذب
ترجمہ : اے مامون ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے تمہیں یہ عزت و شرف حاصل ہوا ہے ، اور اس نبی معصوم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں اس یہودی کا عقیدہ ہے کہ وہ جھوٹا ہے ۔
یہ شعر سنتے ہی خلیفۃ المسلمین مامون نادم و شرمندہ ہوا اور فوراً یہودی کو ٹانگوں سے پکڑ کر چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے نکالنے کا حکم دیا ، اور سرکاری حکم جاری کر دیا کہ آج کے بعد کسی کافر سے کسی سرکاری کام میں مدد نہیں لی جائے گی ۔

فقہاء علیہم الرحمہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ مجلسوں میں غیر مسلموں کو صدر بنانا یا ان کی عظمت کےلیے کھڑا ہونا جائز نہیں ، بلکہ جزیہ وصول کرتے وقت ان سے سخت معاملہ کیا جائے گا اور انہیں دیر تک کھڑا رکھا جائے گا ، نیز ان کے ہاتھوں کو کھینچا جائے گا ۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے مسلمان شخص کی تکریم کی تو اللہ تعالیٰ اس کی تکریم کرے گا ۔ (العجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٦٤٠ مطبوعہ مکتبہ المعارف ریاض ١٤١٦ ھ)

وضین بن عطا بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ میں تمہاری قوم میں سے ایک لاکھ چالیس ہزار نیکوکاروں کو اور ساٹھ ہزار بدکاروں کو ہلاک کرنے والا ہوں ۔ حضرت یوشع علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو بدکاروں کو تو ہلاک فرمائے گا ، نیکوکاروں کو کیوں ہلاک فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ بدکاروں کے پاس جاتے تھے ، ان کے ساتھ کھاتے اور پیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کی وجہ سے ان پر غضب ناک نہیں ہوتے تھے ۔ (شعب الایمان جلد ٧ صفحہ ٥٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٠ ھ،چشتی)

حضرت نوح علیہ السلام کے جواب کا مفہوم یہ ہے کہ اگر میں بالفرض شریعت کے حکم کے برعکس کروں اور کافر اور فاجر کی تکریم کر کے اس کو اپنی مجلس میں مقرب بناٶں اور مومن متقی کی توہین کر کے اس کو اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی ہوگی اور اس صورت میں ، میں اللہ عزوجل کے عذاب کا مستحق ہوں گا تو پھر بتاٶ مجھے اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا ؟

خیال رہے کہ غیر مسلم کو استاد بنانے میں ایمان کو سخت خطرہ ہوتا ہے کیونکہ غیر مسلم اپنے لیکچر کے دوران کفریات بھی کہہ دیتے ہیں اور کبھی دینِ اسلام پر ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ، سننے والا اگر اس کی اس بات سے راضی رہا یا ہاں  میں ہاں ملائی ، تو بہت خطرہ ہے کہ خود مسلمان نہ رہے خصوصاً جبکہ اس غیر مسلم نے صریح کفریہ بات کی ہو ۔ نیز استاد جو بھی ہو اس کا ادب و تعظیم دل میں آجاتے ہیں اور غیر مسلم  کی تعظیم سے کفر میں جا پڑنے کا امکان رہتا ہے ۔ کسی بھی  غیر مسلم سے تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوانےکی شرعا اجازت نہیں کہ غیر مسلم کی صحبت   ، اس کے ساتھ ملنا جُلنا ، قلبی لگاؤ اورخصوصاً اس  کو استاذ بنانے میں ایمان کو سخت خطرہ ہوتا ہے ، کیونکہ غیر مسلم اپنے لیکچر کے دوران کفریات بھی کہہ دیتے ہیں اور کبھی دینِ اسلام پر ڈائریکٹ حملہ کرتے ہیں ۔ نیز استاذ جو بھی ہو اس کا ادب و تعظیم دل میں آجاتے ہیں اور غیر مسلم  کی تعظیم سے کفر میں جا پڑنے کا امکان رہتا ہے ۔

قرآن پاک میں ہے: وَاِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ ۔ (سورۃ الانعام آیت نمبر 68)

مذکورہ بالا آیت کے تحت علامہ ملا احمد جیون رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی : 1130ھ/ 1718ء) لکھتے ہیں : وان القوم الظالمین یعم المبتدع والفاسق والکافر ، والقعود مع کلھم ممتنع ۔
ترجمہ : آیت میں موجود لفظ "الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ" بدعتی ، فاسق اور کافر سب کو شامل ہے اور ان تمام کے ساتھ بیٹھنا منع ہے ۔ (تفسیراتِ احمدیہ سورہ انعام آیت نمبر 68 صفحہ 388 مطبوعہ کوئٹہ،چشتی)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیر مذہب والیوں (یا والیوں) کی صحبت  آگ ہے ، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں کے مذہب اس میں بگڑ گئے ہیں ۔ جب  صحبت کی یہ حالت تو اُستاد بنانا کس دَرجہ بدتر ہے کہ اُستاد کا اثر بَہُت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے ۔ تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سِپُردگی یا شاگِردی میں اپنے بچّوں کو وُہی دے گا جو آپ دین سے واسِطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچّوں کے بَددین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 692 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیر مذہب والیوں (یا والوں) کی صُحبت آگ ہے ، ذی عِلم عاقِل بالِغ مردوں کے مذہب (بھی) اس میں بگڑ گئے ہیں ۔ عمران بن حطان رقاشی کا قصّہ مشہور ہے ، یہ تابِعین کے زمانہ میں ایک بڑامُحدِّث تھا ، خارِجی مذہب کی عورت کی صُحبت میں مَعاذَاللہ خود خارِجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُسے سُنّی کرنا چاہتا ہے ۔ جب صُحبت کی یہ حالت تو اُستاد بنانا کس دَرجہ بدتر ہے کہ اُستاد کا اثر بَہُت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے ، تو غیر مذہب عورت (یا مرد) کی سِپُردگی یا شاگِردی میں اپنے بچّوں کو وُہی دے گا جو (خود) آپ (ہی) دین سے واسِطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچّوں کے بَددین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 692 رضا فاؤنڈیشن لاہور،چشتی)

البحرالرائق میں ہے : قال الطرسوسي إن قام تعظيما لذاته وما هو عليه كفر لأن الرضا بالكفر كفر فكيف يتعظم الكفر ۔
ترجمہ : علامہ طرسوسی نے فرمایا کہ اگر کوئی ذمی کی ذات یا جس حالت پر وہ ہے اس کی تعظیم میں کھڑا ہو تو یہ کفر ہے کہ کفر پر رضا کفر ہے تو کفر کی تعظیم کیسے کی جائے گی ۔ (البحرالرائق جلد 5 صفحہ 124 دار الكتاب الإسلامی)

کافر کی تعظیم کرنا کفر ہے جب کہ کسی مجبوری کی وجہ  سے نہ ہو ، لہٰذا اگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہو تو کفر نہیں ، چنانچہ آج کل کے دور میں کبھی پولیس کے آ جانے پر مسلمانوں کو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور کبھی عدالت کے کٹگھرے میں کھڑا ہونا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ ، حالانکہ اس سب میں بھی تعظیم ہے لیکن کفر نہیں ، کافر کو اگر حاجت کی وجہ سے سلام کیا ، مثلاً سلام نہ کرنے میں اس سے اندیشہ ہے تو حرج نہیں اور بقصد تعظیم کافر کو ہرگز ہرگز سلام نہ کرے کہ کافر کی تعظیم کفر ہے ۔ (درمختار الدرالمختار کتاب الحظر والإباحۃ فصل في البیع جلد ۹ صفحہ ۶۸۱)(بہار شریعت جلد سوم صفحہ نمبر 465 سلام کا بیان)

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین کہ جو شخص ہنود کے خوش کرنے کے واسطے اپنے مذہب اسلام کی پروا نہ کرے اور ان کے مذہب کی تائید کرے تو یہ شخص کس چیز کا مرتکب ہوگا؟بینواتوجروا ۔
جواب : جوشخص خوشنودیِ ہنود کےلیے دین اسلام کی پروا نہ کرے اور مذہب ہنود کی تائید کرے اگر یہ بات واقعی یونہی ہے تو اس پر حکم کفر لازم ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد 14 صفحہ نمبر 364)

فتویٰ علماۓ دیوبندی : اگر مسلمان کفار کی اپنے افعال یا اقوال سے تعظیم کرے تو اگر یہ تعظیم ان کے کفر کی بناء پر ہو تو یہ مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا لیکن اگر یہ تعظیم کفر کی بناء پر نہ ہو بلکہ کسی اور وجہ سے ہو تو اس سے کافر تو نہیں ہو گا البتہ اس قدر تعظیم سے بھی احتراز کرنا چاہیے ، کیونکہ کافر کی تعظیم فی الجملہ کفر کی تائید کرتی یے ۔ (نجم الفتاویٰ جلد 1 صفحہ 240)

مام ابونعیم علیہ الرحمہ حلیۃ الاولیاء میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں : نھی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اَن یُصَافَحَ المُشْرِکُونَ اَو یُکَنُّوا او یُرَحَّبُ بِہِم ۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا کہ مشرکوں سے مصافحہ کیا جائے یا انہیں کنیت سے یاد کریں یا آتے وقت مرحبا کہیں ۔ (حلیۃ الاولیاء  ترجمہ ۴۴۶ اسحٰق بن ابراہیم الحنظلی  دارالفکربیروت جلد ۹ صفحہ ۲۳۶)

یہ ادنٰی درجہ تکریم کا ہے کہ نام لے کر نہ پکارا ، فلاں کا باپ کہا یا آتے وقت جگہ دینے کو آئیے کہا ، اللہ اکبر حدیث اس سے بھی منع فرماتی ہے اور ائمہ دین ذمی کافر کی نسبت وہ احکامِ تحقیر و تذلیل فرما چکے جن کا نمونہ ابھی گزرا کہ اسے محرر بنانا حرام ، کوئی کام ایسا سپرد کرنا جس سے مسلمانوں میں اس کی بڑائی ہو حرام ، اس کی تعظیم حرام ، مسلمان کھڑا ہو تو اسے بیٹھنے کی اجازت نہیں ، بیماری وغیرہ ناچاری کے باعث سواری پر ہو تو جہاں مسلمانوں کا مجمع آئے فوراً اتر پڑے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ کافر کی تعظیم کرنا کفر ہے ، لیکن تعظیمِ کافر اگر حاجتِ واقعیہ کی وجہ سے ہو تو کفر نہیں ، اس لیے کہ بندہ یہاں مجبور ہے ، اس صورت میں اس کےلیے تعظیم میں عذر ہے، مثلاً مسلمان کہیں گیا وہاں پر پولیس آگئی تو وہاں سلام کرنا یا کھڑا ہونا پڑتا ہے نہیں کرے گا تو مار بھی کھا سکتا ہے ، لہٰذا یہ کفر نہیں کیونکہ یہ ان کےلیے عذر ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ سے ثابت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)

Sunday, 18 May 2025

آج ہر شخص عالم ، مفتی ، محقق و خطیب بنا بیٹھا ہے

آج ہر شخص عالم ، مفتی ، محقق و خطیب بنا بیٹھا ہے

محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے : وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ يَّدۡعُوۡنَ اِلَى الۡخَيۡرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 104)

ترجمہ : اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے ۔

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے کفار اہل کتاب کی دو وجہ سے مذمت فرمائی تھی ایک یہ کہ وہ خود کافر اور گمراہ ہیں اس لیے فرمایا اے اہل کتاب ! تم اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو ۔ (آل عمران : ٩٨) ۔ اور دوسری اس وجہ سے کہ وہ مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں لہذا فرمایا : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ (آل عمران : ١٠٢) ۔ اور چونکہ گمراہ کرنے کی وجہ سے اہل کتاب کی مذمت کی تھی اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت ہونی چاہیے جو نیک کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں ۔ آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ چونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تمام کے تمام مسلمان ایک ہی کام میں لگ جائیں لیکن اتنا ضرور ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے ، انہیں نیکی کی دعوت دے، اچھی بات کا حکم کرے اور بری بات سے منع کرے ۔

مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا ، مقررین کا تقریر کرنا ، مبلغین کا بیان کرنا ، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے ۔ تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسا اوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے ۔ یاد رہے کہ جہاں کوئی شخص کسی برائی کو روکنے پر قادر ہو وہاں اس پر برائی سے روکنا فرضِ عین ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسم نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے جو برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے،اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان کے ذریعے روکے ، اگر اس کی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان صفحہ ۴۴ حدیث نمبر ۷۸،چشتی)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وتلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون ۔ (سورہ العنکبوت آیت نمبر ٤٣)
ترجمہ : یہ مثالیں ہیں جن کو ہم لوگوں کےلیے بیان فرماتے ہیں ، ان کو صرف علماء ہی سمجھتے ہیں ۔

قرآن مجید کی آیتوں کا ترجمہ کرنا ، ان سے مسائل کا استنباط کرنا اور ان کی باریکیوں اور اسرار کو سمجھنا مذکور الصدر علوم کے بغیر ممکن نہیں ہے ‘، اور اللہ تعالیٰ نے ان ہی لوگوں کو عالم فرمایا ہے ۔ امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے بغیر علم کے قرآن مجید میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے ۔ (جامع ترمذی صفحہ ٤١٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی،چشتی)

موجودہ دور میں ہر ایرا غیرا شخص عالم بنا بیٹھا ہے ، نہ صرف عالم بلکہ مفتی ، فقیہ ، مناظر ، محقق اور نہ جانے کیا کیا القاب لگائے گھومتا پھر رہا ہے ۔ آج ہر وہ شخص عالم ہے جس نے دوچار سال کسی مدرسہ میں گزارا ہو ، خواہ اس نے وہ چند سال غیرضروری امور بلکہ غیر شرعی امور میں ضائع کیے ہوں ۔ اور پھر ایسے ہی لوگ سوشل میڈیا پر آکر مفتی ، علامہ ، فہامہ اور نہ جانے کیا کیا بن کر خوب لفاظیاں کرتے ہیں ، نتیجتاً عصری تعلیم یافتہ طبقہ انہیں عالم سمجھ کر اہل سنت سے بیزار ہونے لگتا ہے ۔ جن لوگوں کو صحیح سے طہارت کے مسائل معلوم نہیں ہیں وہ لوگ عقائد جیسے حساس اور نازک ترین مسائل پر گفتگو کرنے لگتے ہیں اور جو ان کے طبعی معیار پر نہ اترے اسے گمراہ بددین بدمذہب بلکہ کافر تک کہہ بیٹھتے ہیں ۔ وعظ ، تقریر اور تبلیغ دین کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا علماء دین کا منصب ہے اور علمِ دین کی چند شرائط ہیں : (1) عربی لغت ، صرف اور نحو کا عالم ہونا کہ عربی عبارت بغیر اعراب کے صحیح پڑھ سکے اور قرآن مجید اور احادیث کا صحیح ترجمہ کر سکے ۔ (2) قرآن مجید ، احادیث ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت اور فقہ کا عالم ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو ۔ (3) مسلک حق اہل سنت و جماعت کے عقائد اور ان کے دلائل کا عالم ہو اور باطل فرقوں کے رد کی کامل مہارت رکھتا ہو ۔ (4) پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن ، سنت ، علمِ کلام اور فقہ کی کتابوں میں دیکھ کر بغیر کسی کی مدد کے نکال سکتا ہو ۔ واضح رہے کہ عالم اسے کہتے ہیں جو بغیر کسی کی مدد کے ضروریات کے مسائل کتب دینیہ سے اخذ کر سکے ۔ عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے ۔ (احکام شریعت صفحہ ٢٣٠)

غیر عالم کو عالم و غیر حافظ کو حافظ کہنا درست نہیں ہے جو لوگ لا علمی میں ایسا کرتے ہیں ان کو اس سے آگاہ کیا جائے جن حضرات کو لوگ کہتے ہیں اگر وہ عالم یا حافظ یا مفتی نہیں ہے تو ان کو خود ہی آگاہ کر دینا چاہیے ۔ غیر عالم کا اعتقادی و فقہی مسائل پر وعظ و تقریر کرنا جائز نہیں ہاں بزرگان دین کے جو واقعات کسی معتبر کتاب میں پڑھے ہوں تو ان کو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں جب کہ فاسق نہ ہو ۔ جو لوگ کسی غیر عالم کو عالم کہیں اور وہ منع بھی نہ کریں نیز بغیر علم کے فتوی بھی دے ایسے شخص کے بارے میں حدیث پاک میں ہے ۔ بیشک اللہ اس طرح علم کو نہیں اٹھائے گا کہ علم کو بندوں کے سینوں سے نکال لے لیکن علما کے اٹھانے سے علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ وہ جب کسی عالم کو باقی نہ رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ (صحیح بخاری شریف حدیث نمبر ١٠٠،چشتی)

امام احمد رضا علیہ الرحمۃ  عالم کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور سے آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے ۔ (الملفوظ پہلی جلد صفحہ 82)

عالم مطلق ، یعنی جملہ احکام شرع کو ان کے اصول و فروع کے ساتھ جاننے والا  شخص ، اس درجہ کا عالم کوئی بھی نہیں ۔ جو لوگ بھی عالم کہلا رہے ہیں (خواہ عالم اصطلاحی ہوں یا عرفی) سب کے سب بعض احکام شرع یا چند ابواب شرع کے عالم ہوتے ہیں ، جو جس باب کا علم رکھتا ہو وہ اسی باب کا عالم ہے اور اسے فقط اسی باب میں کسی سے گفتگو یا بحث مباحثہ کی اجازت ہے ، ایسا شخص دوسرے ابواب میں جاہل ہے اور ان ابواب سے چھیڑ چھاڑ اس کے لئے بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح کہ عوام الناس کےلیے ۔

بغیر علم کے فتوی دینے کا وبال : ⏬

حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ (صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 101 علم کا بیان ، علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا)

اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں ، اور لوگ اس پر عمل کریں، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ جس آدمی کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا ہوگا تو اس کا گناہ اس آدمی پر ہوگا جس نے اس کو (غلط) فتویٰ دیا ہے اور جس آدمی نے اپنے بھائی کو کسی ایسے کام کے بارے میں مشورہ دیا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے تو اس نے خیانت کی ۔ (سنن ابوداؤد حدیث نمبر 3657)(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 53)(سنن دارمی حدیث نمبر 164،چشتی)(مستدرک حاکم حدیث نمبر 436)(مسند احمد حدیث نمبر 8266)(سنن لکبریٰ بيهقى حدیث نمبر 20140 +20111)(جامع بیان العلم حدیث نمبر 1625)(صحيح الجامع الصغير حدیث نمبر 6068)(مشكواة المصبیح حدیث نمبر 242)(الاتحاف حدیث نمبر 19964)

حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا ۔ بغیر علم کے عقائد و مسائل پر بحث کرنے والے غور فرمائیں کہیں وہ اس گناہ میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟

جو شخص کسی باب کے کسی خاص فصل کا علم رکھتا ہے اسے بس اسی فصل سے متعلق چھیڑ چھاڑ کی اجازت ہے مثلاً کوئی باب طہارت سے فقط وضو کے مسائل کا علم رکھتاہے تو اسے غسل ، تیمم وغیرہ سے متعلق بحث کرنے کی قطعی اجازت نہیں ۔ نیز جو جس باب کے جس مسئلہ میں بحث کر رہا ہے اسے وہ مسئلہ مالہ و ما علیہ کے ساتھ معلوم ہوں ۔ جو حضرات مذکورہ شرائط سے بری ہو کر صرف شیخی بگھاڑنے کےلیے شرعی مسائل سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں وہ اوپر کی بیان کردہ احادیث کو اپنے لیے تازیانہ عبرت سمجھیں ۔

شرعی مسائل اپنے اندازے یا وہم و گمان سے بھی بتانا حرام ہے چہ جائے کہ اس کی باریکیوں سے بحث کی جائے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ، جس بات کی تمہیں تحقیق نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو ۔

فقہا علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : اگر کسی نے بغیر تحقیق کے مسئلہ بتایا اور بعد میں وہ صحیح بھی نکلا جب بھی وہ شخص گنہ گار ہے کیوں کہ اس نے شرعی مسئلہ کو بغیر تحقیق کے بتانے کی جرات کی ۔ بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ بغیر علم و تحقیق کے شرعی مسائل میں اپنی رائے پیش کرتے ہیں ، جن کی رائے ان کے گھر والے نہیں لیتے وہ سوشل میڈیا پر شرعی مسئلوں سے متعلق کہتے ہیں "یہ میری رائے ہے" کوئی کچھ کہے میری عقیدت یہ کہتی ہے ۔ کوئی ان سے کہے کہ شریعت کی بنیاد عقیدتوں پر نہیں بلکہ ادلہ شرعیہ پر ہے ۔ خدارا ! سوشل میڈیائی مفتی و محقق بننے سے بچیں ، جس مسئلہ کی تحقیق ہو اسی سے متعلق کسی سے بحث کریں ورنہ خاموش رہیں ، اس سے آپ خود دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی سے بچیں گے اور اپنی جماعت بھی مذاق بننے سے محفوظ رہےگی ۔

غیر عالم كا وعظ و تقریر کرناجائز نہیں ، ہاں اگر اپنی طرف سے کچھ بیان نہ کرے کسی سنی صحیح العقیدہ عالم دین کی تصنیف سے پڑھ کر سنائے تو حرج نہیں ۔ فتاوٰی رضویہ میں ہے : وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مُقَدّم اجازتِ اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ جو کافی عِلم نہ رکھتا ہو، اُسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سُننا جائز نہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 378، رضا فاونڈیشن لاہور)

اسی میں ہے : جاہِل اُردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالِم کی تصنیف پڑھ کر سنائے تو اِس میں حَرَج نہیں ۔۔۔ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اُسے وعظ کہنا حرام ہے اور اُس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پرحق ہے کہ اُسے منبر سے اُتار دیں کہ اِس میں نَہْیِ مُنکَر ( یعنی بُرائی سے منع کرنا) ہے اورنَہْیِ مُنکَر واجِب ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد 23 صفحہ 409 رضا فاونڈیشن لاہور،چشتی)

وعظ میں اور ہر بات میں سب سے مقدم اجازت اللہ و رسول ہے جل اللہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کافی علم نہ رکھتا ہو اسے واعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٣٧٩ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)

منبر مسندِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جاہل اردو خواں اگر اپنی طرف سے کچھ نہ کہے بلکہ عالم کہ تصنیف پڑھ کر سنائے تو اس میں حرج نہیں جبکہ وہ جاہل فاسق مثلا داڑھی منڈہ وغیرہ نہ ہو کہ اس وقت وہ جاہل سفیر محض ہے اور حقیقت وعظ اس عالم کا جس کی کتاب پڑھی جائے اور اگر ایسا نہیں بلکہ جاہل خود بیان کرنے بیٹھے تو اسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سننا حرام ہے اور مسلمانوں کو حق ہے بلکہ مسلمانوں پر حق ہے کہ اسے منبر سے اتار دیں کہ اس میں نہی منکر ہے اور نہی منکر واجب ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ۴١٠ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)

اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا : ⏬

عرض : کیا واعظ کا عالم ہونا ضروری ہے ؟

ارشاد : غیر عالم کو وعظ کہنا حرام ہے ۔

عرض : عالم کی کیا تعریف ہے ؟

ارشاد : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے ۔ (الملفوظ جلد ١ صفحہ ٨ مطبوعہ لاہور)

کتاب سے مراد تفسیر ‘ حدیث اور فقہ کی عربی کتابیں ہیں کیونکہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے اردو کی کتابیں پڑھ کر وعظ کرنے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ عنقریب فتاوی رضویہ سے بیان کیا جائے گا ۔

نیز اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : صوفی بےعلم مسخرہ شیطان است وہ جانتا ہی نہیں ، شیطان اپنی باگ ڈور میں لگا لیتا ہے ، حدیث میں ارشاد ہوا بغیر فقہ کے عابد بننے والا ایسا ہے جیسے چکی میں گدھا کہ محنت شاقہ کرے اور حاصل کچھ نہیں ۔ (الملفوظ جلد ٣ صفحہ ٢٩ مطبوعہ نوری کتب خانہ لاہور)

نیز اعلی حضرت علیہ الرحمہ واعظ کے متعلق لکھتے ہیں : ⏬

مسئلہ ١٨ ذیقعدہ ١٣١٩ ھ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اس زمانہ میں بہت لوگ اس قسم کے ہیں کہ تفسیر و حدیث بےخواندہ وبے اجازت اساتذہ ، برسر بازار و مسجد وغیرہ بطور وعظ و نصائح کے بیان کرتے ہیں حالانکہ معنی و مطلب میں کچھ مس نہیں فقط اردو کتابیں دیکھ کر کہتے ہیں یہ کہنا اور بیان کرنا ان لوگوں کا شرعا جائز ہے یا نہیں ۔ بینوا تو جروا ۔

الجواب : حرام ہے اور ایسا وعظ سننا بھی حرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قال فی القران بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار۔ والعیاذ باللہ العزیز الغفار والحدیث رواہ الترمذی وصححہ عن ابن عباس (رض) واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاری رضویہ قدیم جلد ١ صفحہ ١٨٨١٠ مکتبہ رضویہ لاہور کراچی،چشتی)

اعلی حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ متوفی ١٣٤٠ ھ سے سوال کیا گیا کہ اگر بےعلم اپنے آپ کو مولوی کہلوائے (آج کل تو بےعلم ، ناخواندہ  اور بےسند یافتہ اپنے آپ کو علامہ کہلواتے ہیں) اور منبر پر بیٹھ کر وعظ کرے اس کا کیا حکم ہے تو اس کے جواب میں لکھتے ہیں : یونہی اپنے آپ کو بےضرورت شرعی مولوی صاحب لکھنا بھی گناہ و مخالف حکم قرآن عظیم ہے ۔ قال اللہ تعالیٰ ۔ ھو اعلم بکم اذا انشاکم من الارض واذا انتم اجنۃ فی بطون امھتکم فلا تزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقی ۔
ترجمہ : اللہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اوس نے تمہیں زمین سے اوٹھان دی اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں چھپے تھے تو اپنی جانوں کو آپ اچھا نہ کہو خدا خوب جانتا ہے جو پرہیز گار ہے ۔
اور فرماتا ہے : الم الی الذین یزکون انفسھم بل اللہ یزکی من یشاء ۔
ترجمہ : کیا تم نہ ان لوگوں کو جو آپ اپنی جان کو ستھرا بتاتے ہیں بلکہ خدا ستھرا کرتا ہے جسے چاہے ۔ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قال انا عالم فھو جاھل “ جو اپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل ہے رواہ الطبرانی فی الاوسط عن ابن عمر رضی اللہ عنہما بسند حسن ، ہاں اگر کوئی شخص حقیقت میں عالمِ دین ہو اور لوگ اس کے فضل سے ناواقف اور یہ اس سچی نیت سے کہ وہ آگاہ ہو کر فیض لیں ہدایت پائیں اپنا عالم ہونا ظاہر کرے تو مضائقہ نہیں جیسے سیدنا یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا تھا : انی حفیظ علیم ۔ پھر یہ بھی سچے عالموں کےلیے ہے ۔ زید جاہل کا اپنے آپ کو مولوی صاحب کہنا دونا گناہ ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹ اور جھوٹی تعریف کا پسند کرنا بھی شامل ہے ہوا ، قال اللہ عزوجل : لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا ویحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا فلاتحسبنم بمفازۃ من العذاب ولھم عذاب الیم ۔
ترجمہ : ہرگز نہ جانیوتو انہیں جو اتراتے ہیں اپنے کام پر اور دوست رکھتے ہیں اسے کہ تعریف کیے جائیں اس بات سے جو انہوں نے نہ کی تو ہرگز نہ جانیو انہیں عذاب سے پنا کی جگہ میں اور ان کے لیے دکھ کی مار ہے ۔ معالم شریف میں عکرمہ تابعی شاگرد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ” یفرحون باضلالھم الناس وبنسبۃ الناس ایاھم الی العلم ولیسوا باھل العلم ۔ خوش ہوتے ہیں ‘ لوگوں کو بہکانے پر اور اس پر کہ لوگ نہیں مولوی کہیں حالانکہ مولوی نہیں ۔ جاہل کی وعظ گوئی بھی گناہ ہے ۔ وعظ میں قرآن مجید کی تفسیر ہوگی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث یا شریعت کا مسئلہ اور جاہل کو ان میں کسی چیز کا بیان جائز نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من قال فی القران بغیر عم فلیتبوا مقعدہ من النار “ جو بےعلم قرآن کی تفسیر بیان کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے رواہ الترمذی وصححہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، احادیث میں اسے صحیح وغلط وثابت و موضوع کی تمیز نہ ہوگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعدہ من النار “ جو مجھ پر وہ بات کہے جو میں نے نہ فرمائی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے رواہ البخاری فی صحیحہ عن سلمۃ بن الاکوع رضی اللہ عنہ اور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” افتوا بغیر علم فضلوا واضلوا “ بےعلم مسئلہ بیان کیا سو آپ بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا ” رواہ الائمۃ احمد والشیخان والترمذی وابن ماجہ عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ دوسری حدیث میں آیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض “ جو بےعلم فتوی دے اسے آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کریں رواہ ابن عساکر عن امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ یونہی جاہل کا پیر بننا لوگوں کو مرید کرنا چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چھوٹا منہ بڑی بات ہے پیر ہادی ہوتا ہے اور جاہل کی نسبت ابھی حدیثوں سے گزرا کہ ہدایت نہیں کرسکتا نہ قرآن سے نہ حدیث سے نہ فقہ سے ۔ ع کہ بےعلم نتواں خداراشناخت ۔ (فتاوی رضویہ قدیم جلد ١٠ صفحہ ٩٦۔ ٩٥ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی،چشتی)

نیز بےعلم کے فتوی دینے اور علماء کی توہین کرنے والے کے متعلق لکھتے ہیں : سند حاصل کرنا تو کچھ ضرور نہیں ہاں باقاعدہ تعلیم پانا ضرور ہے ۔ مدرسہ میں ہو یا کسی عالم کے مکان پر اور جس نے بےقاعدہ تعلیم پائی وہ جاہل محض سے بدتر نیم ملا خطرہ ایمان ہوگا ایسے شخص کو فتوی نویسی پر جرات حرام ہے حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ” من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض “ جو بےعلم فتوی دے اس پر آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے اور اگر فتوی سے اگرچہ صحیح ہو وجہ اللہ مقصود نہیں بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہو تو یہ دوسرا سبب لعنت ہے کہ آیات اللہ کے عوض ثمن قلیل حاصل کرنے پر فرمایا گیا (آیت) ” اولئک لا خالق لھم فی الاخرۃ ولا یکلمھم اللہ ولا ینظر الیہم یوم القیمۃ ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم ۔
ترجمہ : ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ ان سے کلام نہیں فرمائے گا اور نہ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔
اور علمائے دین کی توہین کرنے والا منافق ہے ۔ حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ” ثلثۃ لا یستخف بحقہم الا منافق بین النفاق ذوالعلم و ذوالشیبۃ فی الاسلام و امام مقسط “۔ تین شخصوں کا حق ہلکا نہ جانے گا مگر جو منافق کھلا منافق ہو عالم اور وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا اور سلطان اسلام عادل ، تحصیل زر کے لیے علماء ومسلمین پر بیجا حملہ کرنے والا ظالم ہے اور ظلم قیامت کے دن ظلمات ، قاضی مذکور جیسے امام کے پیچھے بلاوجہ شرعی نماز ترک کرنا تفریق جماعت یا ترک جماعت ہے اور دونوں حرام و ناجائز ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاوی رضویہ قدیم جلد ٢ ، ١٠ صفحہ ٣٠٨ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

بے علم کے وعظ کے متعلق اعلی حضرت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اگر علم عالم ہے تو اس کا یہ منصب ہے اور جاہل کو وعظ کہنے کہ اجازت نہیں وہ جتنا سنوارے گا اس سے زیادہ بگاڑے گا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (حوالہ مذکور)

فقیہہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ : اگر مستند (سندیافتہ) عالم نہ ہو مگر دینی معلومات اور احکامِ شرعیہ سے واقفیت رکھتا ہو تو اس کو تقریر کرنا جائز ہے اور اگر نام کا مستند عالم ہو مگر دینی معلومات اور احکام شرعیہ سے واقفیت نہ رکھتا ہو اسے تقریر کرنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ فیض الرسول جلد دوم صفحہ نمبر 533)

تقریر و بیان کےلیے حافظ ہونا مانع تقریر و بیان نہیں ہاں اتنا ضرور ہے کہ احکام شرعیہ اور دینی معلومات اور زبان و ادب سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو تاکہ اس کی تقریر شرعاً قابل گرفت نہ ہو کہ جس کے باعث دنیا و آخرت میں رسوائی ہو اور عوام وخواص کے درمیان تمسخر وتضحیک کا سبب بنے ۔ لہٰذا ! جو حافظ تقریر و بیان کے ذریعہ تبلیغ کرنا چاہتا ہے اور بہترین خطیب بننے کی آرزو رکھتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے زبان و ادب سے واقفیت حاصل کرے اور دینی کتب کا اوقات فرصت میں دلجمعی سے بھرپور مطالعہ کرے اور یکسوئی کے ساتھ مطالعہ شدہ مضامین کو تنہائی میں زبانی طور پر بیان کرے جب خود اعتمادی پیدا ہو جائے تو پہلے کم لوگوں کی محفل میں بیان کرنا شروع کرے اور بتدریج سلسلہ بیان جاری رکھے اور علماء و مشائخ سے بطیب خاطر اصلاح لیتا رہے ۔ یہ طریقہ بہت کار آمد ہے مقرر بننے کےلیے ۔ تبلیغ کا مقصد اعلائے کلمۃ الحق ہونا چاہیے
کہ جس سے اللہ عزوجل اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی حاصل ہو ۔


ان شکم پرور پیشہ ور نعت خوانوں و خطیبوں اور نقیبوں سے اب ناموسِ الوہیت عزوجل ، ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ناموسِ مقدَّساتِ دین محفوظ نہیں رہیں ، علماء پر لازم ہے کہ ان کا مواخذہ کریں اور سادہ لوح اہلسنت و جماعت کو ان کی زبان درازی اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ کریں ۔ آخرت کے نام پر جب دنیا کمائی جائے گی تو تاثیر نہ رہے گی ۔ یہ ہلاکت ہمارے عقیدے میں زیادہ ہے کہ جس کو دیکھو کوئی بھی دین کا علمبردار پیسے لیے بغیر تقریر کرنے اور نعت پڑھنے کو تیار نہیں ، دین کا علم دینے کو تیار نہیں (الا ما شاء اللہ) ۔ ان سے دین کی بات سننی سمجھنی ہو تو پہلے ایکٹروں اور ناچ گانے والوں کی طرح ریٹ طے ہوتے ہیں ۔ گانے کی طرز پر نعت پڑھنا جائز نہیں ۔ جیسا کہ فتاویٰ غوثیہ میں ہے کہ نعت پاک کو گانوں کی طرز میں پڑھنا اور سننا دونوں ناجائز ہے کیونکہ جب وہ گانے کی طرز پر نعت پڑھے گا جو کہ ذکر رسول ہے تو لامحالہ اس کا ذہن گانے کی طرف جائے گا ۔ تو یقیناً یہ غلط فعل ہے ۔ بلکہ یہ نعت کی توہین ہے فساق کا طریقہ ہے ۔ (فتاویٰ غوثیہ جلد ۱ صفحہ ۱۶۵)

مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر نہیں کر سکتا ۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واعظ (مقرر، خطیب) کےلیے (چار شرائط ہیں) : ⏬

پہلی شرط : یہ ہے کہ مسلمان ہو، دیوبندی عقیدے والے مسلمان ہی نہیں ان کا وعظ (تقریر) سننا حرام اور دانستہ (جان بوجھ کر) انہیں واعظ بنانا کفر ہے ۔ علماء حرمین شریفین نے فرمایا ہے کہ : من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر " جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے کفر کیا ۔ (در المختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی جلد اول صفحہ ٣٥٦ حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین مطبع اہل سنت و جماعت بریلی صفحہ ٩٤) ۔ اسی طرح تمام وہابیہ و غیر مقلدین فانھم جمیعا اخوان الشیاطین ، کہ وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں ۔

دوسری شرط : سنی ہونا ، غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے ، اگر چہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے ۔ حدیث میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام ” جس نے بد مذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد دی ۔ (کنز العمال حدیث نمبر ١١٠٢ مو سسۃ الرسالہ بیروت جلد 1 صفحہ ٢١٩،چشتی)

تیسری شرط : عالم ہونا ، جاہل کو واعظ کہنا نا جائز ہے ۔ جیسا کہ ارشاد (یعنی حدیث شریف میں) ہے : اتخذ الناس روسا جھال فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا “ لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنا لیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کئے تو اپنے آپ بھی گمراہ ہوئے اور آوروں کو بھی گمراہ کیا ۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم قدیمی کتب خانہ کراچی جلد 1 صفحہ ٢٠)

چوتھی شرط : فاسق نہ ہونا ، تبین الحقائق وغیرہ میں ہے : لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا “ کیونکہ اسے امامت کے لئے مقدم کرنے میں اس کے تعظیم ہے حالانکہ شرعا مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے ۔ (تبین الحقائق باب الامامت والحدث فی الصلاۃ المطبعۃ الکبری بولاق مصر جلد 1 صفحہ ١٣٤،چشتی)

اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں سنی صحیح العقیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں ، وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا ، ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اسے اطلاع نہیں تو پیش از وعظ مطلع کر دیا جائے،* واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ٢٩ صفحہ ٧٠ ، ٧١ مطبوعہ رضا فاٶنڈیشن لاہور)

وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رأيت ليلة أسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار قلت من هؤلاء يا جبريل؟ قال هؤلاء خطباء أمتك يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان وفي روايته قال خطباء من أمتك الذين يقولون ما لا يفعلون ويقرؤون كتاب الله ولا يعملون ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے معراج کی رات میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کترے جارہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ، انہوں نے کہا کہ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے وہ علماء و واعظ اور مشائخ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کی تلقین کرتے تھے مگر خود اپنی ذات کو فراموش کر دیتے تھے ، یعنی خود تو عمل نہیں کرتے تھے لیکن اوروں کو عمل کی تلقین ونصیحت کرتے تھے ۔ اس روایت کو بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح السنۃ میں اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور بیہقی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا " یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے وہ واعظ و خطیب ہیں جو اس چیز کو کہتے تھے جس کو خود نہیں کرتے تھے جو کتاب اللہ کو پڑھتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے ۔

یہ سزا بے عمل علماء و واعظین اور مشائخ کو ان کی بے عملی کی وجہ سے ملے گی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ویل للجاہل مرۃ و ویل للعالم سبع مرات ۔
ترجمہ : جاہل کےلیے ایک بار خرابی اور بے عمل عالم کےلیے سات بار خرابی ہے اور ایک حدیث مشہور میں یوں فرمایا گیا ہے ۔ اشدا الناس عذابا یوم القیامۃ عالم لم ینفعہ اللہ بعلم ۔
ترجمہ : قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سخت عذاب کا مستوجب وہ عالم ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے علم سے فائدہ نہیں پہنچایا ہوگا ۔ (مشکوۃ شریف جلد چہارم توکل اور صبر کا بیان حدیث نمبر 1074،چشتی)

امام عبدالرحمٰن ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کے متعلق لکھتے ہیں : بھلے وقتوں میں وعظ کرنے والے لوگ علماء اور فقہاء ہوتے تھے ۔ پھر منبرِ وعظ کو گرہن لگ گیا ، یہ فن جہلاء کے ہتھے چڑھ گیا ، سمجھدار لوگ اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے ، اور واعظوں کا پہیہ عام عوام اور عورتوں کے سہارے چلنے لگا۔علم کو ایک طرف کر دیا گیا،قصے کہانیاں اور جہلاء کو اچھی لگنے والی باتیں بیان ہونے لگیں ، اور اس فن میں خرافات کا دور دورہ ہو گیا ۔ (تلبيسِ ابليس صفحہ 139)

صدرالشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نوآموز واعظین مولویوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان نوآموز مولویوں کو ہم خیر خواہانہ نصیحت کرتے ہیں کہ تکمیل درس نظامی کے بعد فقہ و اصول و کلام و حدیث و تفسیر کا بکثرت مطالعہ کریں اور دین کے مسائل میں جسارت نہ کریں جو کچھ دین کی باتیں ان پر منکشف و واضح ہو جائیں ان کو بیان کریں اور جہاں اشکال پیدا ہو اس میں  کامل غور و فکر کریں  خود واضح نہ ہو تو دوسروں کی طرف رجوع کریں کہ علم کی بات پوچھنے میں کبھی عار نہ کرنا چاہیے ۔ (بہارشریعت حصہ 15 صفحہ 202)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے کیمائے سعادت میں  ارشاد فرماتے ہیں : (اگر)علماء بھی وعظ و نصیحت کی بجائے بازاری مقررین کا انداز اختیار کر لیں،لغویات وواہیات،بیہودہ گوئی اور بیکار باتوں سے دل بہلانا شروع کر دیں جو عموماً دیکھا گیا ہے تو لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ کوئی بات نہیں ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں رحمت ِخداوندی ہمارے شامل حال رہے گی تو قوم کا حال غافلین سے بد تر ہو جائے گا ۔ ظاہر ہے جب عام آدمی مجلسِ وعظ میں ایسی خرافات سنے گالازماً ویسی ہی صفات اس میں پید ا ہوں گی،آخرت کے خطرات سے ڈرنا تو در کنار ، اس کے دل سے آخرت کا خیال بھی نکل جائے گا، پھر اسے جو کچھ بھی کہا جائے وہ یہی کہتا رہے گا : اللہ عزوجل بڑا رحیم و کریم ہے ، میرے گناہوں سے اس کا کیا بگڑتا ہے ؟ اورا س کی جنت کوئی تنگ و تاریک معمولی سی کوٹھڑی تھوڑی ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع وکشادہ ہے وہاں تو کروڑوں انسان بآسانی سما جائیں گے تو مجھ جیسے گناہ گار سے اللہ تعالیٰ کا تنگ آ جانا خدا کی رحمت سے بعید ہے ۔ ایسی ایسی لغویات اس کے دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہیں ۔ (کیمیائے سعادت رکن سوم مہلکات اصل دہم علاج غفلت ونادانی جلد ۲ صفحہ ۷۳۲،چشتی)    

حضرت ابوقلابہ تابعی رضی اللہ عنہ قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قُصَّاص(کہانیاں سنانے والے جاہل مقررین وغیرہ)نے علم برباد کر کے رکھ دیا ہے ، بندہ ایک سال تک قصہ گو شخص کے پاس بیٹھا رہے پھر بھی(سوائے کانوں کی لذت کے) کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔جب کہ کسی عالم کے پاس کچھ دیر بیٹھ جائے تو کچھ نہ کچھ لےکر ہی اُٹھتا ہے ۔(تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص للسیوطی الفصل العاشر فی زیادات فاتت  الحافظ زین الدین العراقی صفحہ 186 مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت)

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادی رحمۃ اللہ علیہ جہلاء اور قصہ گو واعظین کا رد کرتے ہوئے فرماتے  ہیں : (وعظ جو خلاف شرع نہ ہو اس وعظ سے بھی) اگر مال یا شہرت مقصود ہے تو اگرچہ مسلمانوں کےلیے اس کا وعظ مفید ہو خود اس کے حق میں سخت مضر ہے علما فرماتے ہیں : ایسی اغراض کےلیے وعظ ضلالت اور یہود و نصاری کی سنت ہے ۔ در مختار میں ہے : التذکیر علی المنابر والاتعاذ سنۃ الانبیاء ولریاسۃ ومال وقبول عامۃ من ضلالۃ الیھود والنصاری ، (منبروں پر وعظ کہنا نصیحت کرنا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے بڑائی یا مال یا لوگوں میں مقبولیت حاصل کرنے کےلیے وعظ کہنا یہود و نصاری گمراہیوں میں سے ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 13 صفحہ 200۔ 199،چشتی)

بغیرعلم کے فتویٰ دینا اور بلا تحقیق فتویٰ لینا : ⏬

محترم قارئینِ کرام : بعض جہلاء یہ فتنہ پھیلا رہے ہیں کہ ہر شخص براہ راست بغیر علم حاصل کیے اردو کے ترجمے و کتابیں پڑھ کر فتویٰ دے سکتا ہے ان جہلاء کی جہالت کا جواب پڑھیے : حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ علم کو (آخری زمانہ میں) اس طرح نہیں اٹھالے گا کہ لوگوں (کے دل و دماغ) سے اسے نکال لے بلکہ علم کو اس طرح اٹھاے گا کہ علماء کو (اس دنیا سے) اٹھالے گا یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے ان سے مسئلے پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم،چشتی)(صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 101 علم کا بیان : علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا)

اس حديث میں واضح طور پر فتویٰ دينا علماء كا كام قرار ديا گیا ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ ان سے مسائل شرعیہ پوچھیں وہ ان کا حکم بتائیں ، اور لوگ اس پر عمل کریں ، یہی حاصل ہے تقلید (ائمہ و علماء) کا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (بعد کے) ایک ایسے زمانہ کی خبر دی ، جس میں علماء مفقود ہو جائیں گے ، اور جاہل قسم کے لوگ فتویٰ دینے شروع کر دیں گے ، یھاں سوال یہ ہے کہ اس دور میں احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی سوائے اس کے اور کیا صورت ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ گذرے ہوٸے (علم و عمل میں معتبر) علماء کی تقلید کریں ، کیونکہ جب زندہ لوگوں میں کوئی عالم نہیں بچا تو کوئی شخص براہِ راست قرآن و سنّت سے احکام مستنبط کرنے کا اہل رہا ، اور نہ ہی کسی (معتبر) زندہ عالم کی طرف رجوع کرنا اس کی قدرت میں ہے ، کیونکہ کوئی عالم موجود ہی نہیں ، لہذا احکامِ شریعت پر عمل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں رہتی کہ جو علماء وفات پاچکے ہیں اس کی تصانیف وغیرہ کے ذریعہ ان کی تقلید کی جائے ۔ لہٰذا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک علماءِ اہلِ اجتہاد موجود ہوں اس وقت ان سے مسائل معلوم کے جائیں ، اور ان کے فتووں پر عمل کیا جائے ، اور جب کوئی علم باقی نہ رہے تو نااہل لوگوں کو مجتہد سمجھہ کر ان کے فتوؤں پر عمل کرنے کی بجائے گذشتہ علماء میں سے کسی کی تقلید کی جائے ۔

وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من افتى بغير علم كان إثمه على من افتاه ومن اشار على اخيه بامر يعلم ان الرشد في غيره فقد خانه ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا : جس شخص نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اسے فتویٰ دینے والے پر ہے ، اور جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دیا حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بھلائی و بہتری اس کے علاوہ کسی دوسری صورت میں ہے ، تو اس نے اس سے خیانت کی ۔ (مشكوة المصابيح حدیث نمبر 242،چشتی)(سنن ابو داود حدیث نمبر 3657)(صححه الحاکم علٰي شرط الشيخين جلد 1 صفحہ 126)

اگر تقلید جائز نہ ہوتی اور کسی کے فتوے پر بلا تحقیقِ دلیل عمل جائز نہ ہوتا ، جو حاصل ہے تقلید کا ، تو گناہ گار ہونے میں مفتی کی کیا تخصیص تھی ؟ بلکہ جس طرح مفتی کو غلط فتویٰ بتانے کا گناہ ہوتا ہے ، اسی طرح سائل کو دلیل کی تحقیق نہ کرنے کا گناہ ہوتا ۔ پس جب شارع صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے باوجود تحقیقِ دلیل نہ کرنے کے عاصی (گناہ گار) نہیں ٹھہرایا تو جوازِ تقلید يقينا ثابت ہو گیا ۔

حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے اپنے کسی بھائی کی بد خواہی اس طرح چاہی کہ اسے اس چیز کا مشورہ دیا جس کے بارے میں اسے معلوم ہے کہ اس کی بھلائی اس میں نہیں ہے بلکہ دوسرے امر میں ہے تو یہ اس کی خیانت ہے وہ اپنے غیر اخلاقی وغیر شرعی عمل کی بنا پر خائن کہلاے گا ۔ بغیر علم کے عقائد و مسائل پر بحث کرنے والے غور فرمائیں کہیں وہ اس گناہ میں مبتلا تو نہیں ہیں ؟

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : من أفتي بفتيا يعمي فيها فإنما إثمها عليه ۔
ترجمہ : جس نے ایسا فتویٰ دیا جس میں دھوکا دیا جاتا ہے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ (جامع بيان العلم وفضله جلد 2 صفحہ 132 حدیث نمبر 859،چشتی)(سنن الدارمی حدیث نمب 162)

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کسی مدرسہ سے عالم یا فاضل کی ڈگری حاصل کرنے سے آدمی عالم اور فاضل بن جاتا ہے ، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ۔ بلکہ در حقیقت عالم وہ ہے جو مکمل طور پر عقائد سے واقف ہو اور اپنی ضروریات کے مسائل کسی کے سہارے لیے بغیر از خود کتاب سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عالم کی تعریف یوں فرماتے ہیں : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کے مدد کے ۔ (احکام شریعت حصہ دوم صفحہ ٢٣١)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ عالم ہونے کےلیے درس نظامی ، عالم یا فاضل کورس کرنے سے ہی کوئی عالم نہیں ہو جاتا ، بلکہ اس کےلیے مستقل صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ اور فرماتے ہیں : سند (ڈگری) کوئی چیز نہیں ، بہتیرے (بہت) سند یافتہ محض بہرہ (علم دین سے خالی) ہوتے ہیں ، اور جنہوں نے سند نہ لی ان کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتوں میں نہیں ہوتی ، علم ہونا چاہیے ۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٦٨٣)

حضور فقیہ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح معنی میں عالمِ دین بننے کےلیے علماء اہل سنت خصوصاً اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیفات کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرو ۔ عالم کی سند مل جانے کو کافی نہ سمجھو بلکہ زندگی بھر تحصیل علم میں لگے رہو اور یقین کرو کہ زمانہ طالب علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے اور حقیقت میں علم حاصل کرنے کا زمانہ فراغت کے بعد ہی ہے ۔ (انوار الحدیث صفحہ ٤٢٣ مطبوعہ کتب خانہ امجدیہ دہلی،چشتی)

آج کل بہت سے ایسے علماء پائے جاتے ہیں جو عالم اور فاضل کی ڈگری تو حاصل کر چکے ہیں لیکن اب تک وہ مکمل طور پر عقائد سے واقف نہیں ۔ ایسے لوگ جب تقریر کرتے ہیں تو کبھی کبھی غلط عقائد اور غلط مسائل بیان کر دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے معاشرے میں اختلاف و انتشار پھیل جاتا ہے ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوگ کافی مطالعہ کریں تاکہ صرف سںند یافتہ عالم نہ رہے بلکہ حقیقت میں عالم ہو جائیں ۔

عقائد و مسائل کی معلومات کےلیے درج ذیل کتب مطالعہ میں رکھیں : ⏬

شرح عقائد ، ہدایہ ، فتاوی رضویہ ، کنزالایمان ، بہار شریعت ، تفسیر نعیمی ، مراٰۃ المناجیح ، جآءالحق ، قانون شریف ، احیاء العلوم ، حسام الحرمین ، الصوارم الہندیہ ، حدوث الفتن و جھاد اعیان السنن (اردو ترجمہ بنام فتنوں کا ظہور اور اہل حق کا جہاد) ، منصفانہ جائزہ اور دیگر معتمد علماء اہل سنت کی کتابیں ۔ خاص طور پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں ۔

حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب (ناظمتعلیمات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں) : اعلٰی حضرت قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے کہ حقیقی علم ان کتابوں سے آپ کو حاصل ہوگا اور ساتھ ساتھ طرز تحقیق ، طرز بیان ، طرز گفتگو بھی معلوم ہوگا ، جو چیزیں آپ کو بہت سی کتابوں میں نہیں ملیں گی وہ آپ کو اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل میں ملیں گی اور میں بارہا یہ سیمیناروں میں ، مجمعوں میں کہا ہے اور نجی مجلسوں میں بھی کہ بر صغیر کے ماحول میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل کے مطالعے کے بغیر کوئی شخص کما حقہ عالم نہیں ہو سکتا ، یہاں ہم نصاب کی تکمیل کرنے والے کو سند جاری کر دیتے ہیں عالم فاضل اس کو بتا دیتے ہیں ، لیکن جس قدر وہ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے دور ہوگا ، اسی قدر اس کے اندر سطحیت زیادہ ہوگی اور جس قدر وہ کتب اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو گہرائی اور گیرائی سے دیکھے گا اسی قدر اس کے اندر ژرف نگاہی اور تعمق پیدا ہوگا اور اسی قدر اس کے علم میں جلا آئیگی ۔ آپ خود اس کا مطالعہ کر کے تجربہ کر سکتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرنا اور تجربہ کرنا ضروری بھی ہے ، دو طرح کے انسان ہوتے ہیں ، ایک تو کم علم ہوتے ہیں ، ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کو روشنی بخشنے کےلیے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل کا مطالعہ کریں ، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے درس نظامی کا کورس مکمل کرلیا اور ہر درجہ میں فرسٹ نمبر حاصل کیا تو سمجھ لیا کہ ہم بہت بڑے علامہ ، فہامہ ہو گئے ، وہ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ طفل مکتب بھی نہیں ہیں جب ان کی تصانیف اور تحقیقات کو دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کس جبل شامخ اور کس بلند پہاڑ کے سامنے ہم ہیں ، کہتے ہیں‌ ۔ جب تک اونٹ نے پہاڑ نہیں دیکھا ہے تب تک وہ سمجھتا ہے کہ اس سے بڑا کوئی نہیں ہے اور جب پہاڑ کے سامنے آتا ہے تب اس کو اپنی بساط معلوم ہوتی ہے تو اپنی بساط اور حقیقت معلوم کرنے کےلیے بھی ہم اس جبل شامخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں ، اس سے استفادہ بھی کریں اور ساتھ ساتھ اپنی اوقات بھی معلوم کریں کہ اتنی عمر صرف کرنے کے بعد ہم کہاں تک پہنچے ۔ (نوائے دل صفحہ نمبر 243،چشتی)

گانے کی طَرز پر نعت پڑھنا : ⏬

محترم قارئینِ کرام : نعت کو ایسے  مشہور و مَعروف گانے  کی طرز پر پڑھنا کہ نعت سُنتے ہی فوراً ذہن اس گانے کی طرف چلا جائے اس  سے بچنا چاہیے اور اگر کبھی اِتفاقاً طرز میں کچھ مُمَاثَلَت ہو بھی جائے تو نعت خواں کو چاہیے کہ  تھوڑی بہت تبدیلی کر لے ۔  فی زمانہ یہ اِمتیاز کرنا بہت مشکل ہے کہ نعت گانے کی طرز پر پڑھی جا رہی ہے یا گانا نعت کی طرز پر گایا جا رہا ہے ، اَلبتہ پہلے والی طرزوں میں پڑھی جانے والی نعتوں میں جو رِقَّت اور سوز و گداز ہوا  کرتا تھا وہ اب نئے اَنداز پر پڑھی جانے والی  نعتوں میں نہیں ہے ۔

نعت پاک کو گانوں کے طرز پر پڑھنا یا پھر سنا دونوں جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح اگر نعت کے ساتھ موسیقی تو نہیں ہے لیکن وہ ہے گانے کی طرز پر تو جب اس نعت کو سنا جائے گا تو وہ گانا بھی یاد آئے گا ۔ تو نعت کے ساتھ ساتھ دماغ میں گانا بھی بج رہا ہو گا ۔ تو کیسی بری بات ہے ۔ بلکہ یہ نعت کی توہین ہے اور فساق کے ساتھ مشابہت کی بات بذات خود ایک مستقل جرم ہے ۔

امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو ،گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 363،چشتی)

لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ نہ ہم گانوں کے طرز پر نعت پاک پڑھیں اور نہ سنیں کیونکہ یہ فعل جائز نہیں ہے ۔

بہرحال موجودہ دور میں سب نعتیں گانوں کی طرز پر پڑھی جاتی ہوں یہ ضَروری نہیں کیونکہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ  گلوکار نعتوں کی طرز پر گانے گاتے ہوں لہٰذا موجودہ دور میں پڑھی جانے والی سب نعتوں کو گانوں کی طرز پر   کہنا اور  نعتیں سننے سے بچنا یا بچنے کے لیے کہنا   خود کو نعت خوانی کی بَرکتوں سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نعت خوانی سے متنفر بھی کر سکتا ہے ۔

نعتوں کے گانوں کی طرز پر ہونے کے وَساوِس بھی انہیں کو آئیں گے جو گانے سُننے  کے شوقین ہوں گے ، جو سِرے سے گانے ہی  نہیں سُنتے ان  کے لیے ہر طرز نعت ہی  کی طرز ہو گی ، لہٰذا اِن وَساوِس کی بِنا پر نعتیں  سننا چھوڑنے کے بجائے گانے چھوڑنے میں عافیت ہے ۔  نعت شریف پڑھنے اور سُننے والا سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعریف و توصیف  ہی کی نیت سے اسے پڑھتا  اور سُنتا ہے ، نہ اس لیے کہ وہ کسی  گانے کی طرز پر ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قرآن کریم کو گانے کی دھن کے مطابق پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، اور ایسا کرنے والوں کی مذمت فرمائی ہے ۔ (معجم اوسط طبرانی حدیث نمبر ۷۲۲۳،چشتی)

اس حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ نعت کو (جوکہ ایک عبادت ہے) گانے کے انداز پر نہیں پڑھنا چاہیے ، البتہ کسی گانے کی دھن کو نقل کرنے کی بجائے صرف آواز اچھی کر کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پڑھا جائے ، اور اس میں کسی قسم کی موسیقی وغیرہ کا استعمال نہ ہو جیسا کہ عام طور پر اشعار پڑھے جاتے ہیں تو جائز ہوگا ۔

گانے کے طرز پر نعت پڑھنا اور سننا منع ہے ، اس سے یہ مراد  نہیں کہ عربی اوزان اور عربی بحور پر اشعار یا نعت پڑھنا منع ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے  کہ جان بوجھ کر اپنے ارادہ و اختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بناکر گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے ، یا لہجے میں فنِّ موسیقی کے قواعد کی رعایت رکھتے ہوئے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اشعار پڑھنا حمد و نعت کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے ، اور چوں کہ ایساکرنے میں فاسق لوگوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے ، اس لیے ایسا کرنا اوربھی زیادہ قبیح ہے ، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تو یہ فی نفسہ جائز ہے، لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے ۔ البتہ حمد و نعت کے اشعار پڑھنے میں  خوش آوازی اور اچھی آواز پیدا کرنے کے لیے آواز میں مناسب اتار چڑھاؤ ، ترنم ، آواز کو باریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاً مباح ہیں ، ان میں کچھ حرج نہیں ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو عربی اشعار پڑھے ہیں وہ گانے کے طرز پر نہیں پڑھے، ان حضرات سے اس چیز کا  گمان بھی نہیں ہوسکتا، وہ حضرات اپنے طبعی اور فطری انداز اور طرز پر اشعار پڑھاکرتے تھے، گو ترنم سے پڑھنا بھی ان حضرات سے ثابت ہے ، لیکن ان کے اشعار میں نہ کوئی موسیقی ہوتی تھی اور نہ کوئی ساز وغیرہ، اب وہ اشعار عربی بحور پر ہوں اس میں کوئی  حرج  نہیں ہے ۔

تفسیر قرطبی میں ہے : فأما ما ابتدعه الصوفية اليوم في الإدمان على سماع الأغاني بالآلات المطربة من الشبابات و الطار و المعازف و الأوتار فحرام ۔ (تفسیر القرطبی، ج:14، ص:40، س:لقمان، ط:دار احیاء التراث العربی بیروت)
البحرالرائق میں ہے : في المعراج: الملاهي نوعان: محرم وهو الآلات المطربة من غير الغناء كالمزمار سواء كان من عود أو قصب كالشبابة أو غيره كالعود والطنبور لما روى أبو أمامة أنه عليه الصلاة والسلام قال إن الله بعثني رحمة للعالمين وأمرني بمحق المعازف والمزامير ولأنه مطرب مصد عن ذكر الله تعالى ۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (7/ 88،چشتی)

حمد ونعت کے اشعار پڑھنےمیں خوش آوازی اور حسنِ صوت پیدا کرنے کے لیے آوازمیں مناسب اتارچڑھاؤ ، ترنم ، آواز کوباریک کرنا اور لہرانا وغیرہ امور شرعاًمباح ہیں ان میں کچھ حرج نہیں ، لیکن جان بوجھ کر اپنے ارادہ واختیار سے کسی معروف گانے کے ہم وزن قافیہ ، حمدیہ و نعتیہ اشعار بنا کر اسی گانے کی طرز پر پڑھنا جس سے عام لوگوں کا ذہن اس گانے کی طرف جائے ، حمد و نعت کے مقدس کام کی بے ادبی اورا س کی شان کے خلاف ہے ، اور چونکہ ایسا کرنے میں تشبہ بالفساق بھی ہے اس لیے اور بھی زیادہ قبیح ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر آواز کو خوبصورت بناتے ہوئے کسی گانے کی طرز بن جائے یا اس کے مشابہ ہوجائے تویہ فی نفسہ جائز ہے لیکن مشابہت سے بچنا بھی بہتر ہے ۔ اگر کوئی ایک مصرعہ اتفاقاً گانے کی طرز پر ہو باقی ساری نعت کی اپنی علیحدہ طرز ہو تو اس کی گنجائش ہے تاہم اس سے بھی بچنا بہتر ہے ۔ (التبویب  بتغیر 18/869،چشتی)۔(الدر المختار   6/348)

نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نعتِ پاک بلا شبہ لکھنا بھی سعادت ، پڑھنا بھی اور سننا بھی سعادت ہے ۔ مگر آجکل یہ تینوں departments یعنی نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عجیب بلکہ افسوس ںاک صورتحال کا شکار ہیں ۔ سستی شہرت حاصل کرنے کےلیے وہ لوگ نعتیہ کلام لکھتے ہیں جنہیں الفاظ و معنی کا سرے سے معلوم ہی نہیں ، نعت خوان آداب سے نا آشنا ہیں اور  گمشدہ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھتے ہیں اور  سننے والے عاشقان بھی عجیب انداز میں داد دیتے ہیں ۔ تینوں میں سب سے زیادہ خراب کام نعت خوان حضرات نے کیا ہے ۔ کئی تو ایسے ہیں کہ شاعروں سے مخصوص گانوں پر کلام لکھواتے ہیں ۔ صرف ایک مثال شہباز قمر فریدی کی دیکھ لیں ۔ بہت مشہور ہیں TV اور محافل پر اکثر جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ اس جوان نے انڈین اور پاکستانی گانوں اور غزلوں پر اچھی خاصی ریسرچ کر کے ان کی طرز پر نعتیں پڑھنے کو عادت بنا لیا ہے ذرا غور کیجیے گا ۔

“نوری مکھڑا تے زلفاں نے کالیاں ” کی طرز نور جہاں کے گانے ” تو میرا یار میرا پیار میرے ہاںڑ یاں” پر ہے ۔ ”میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں” کی طرز نصرت فتح کی غزل “پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ” پر ہے ۔  “ایک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے” کی طرز نصرت فتح کی غزل “کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آجاتے” پر ہے ۔ فقیر نے ایک بار ایک محفل میں موصوف سے کوئی آدھ گھنٹہ اسی موضوع پر بات کی سمجھایا مگر ۔ پہلے پکڑائی نہ دی ، پھر ثبوت مانگنے لگے اور آخر میں ساری ذمہ داری audience پر دال دی کہ لوگ جس طرح کی فرمائش کرتے ہیں ہم اسی طرح سے نعت پڑھتے ہیں ۔ تین ماہ بعد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ موصوف نے ایک اور شہکار market میں متعارف کرا دیا ۔ ” آقا میریا ں اکھیاں مدینے وچ رہ گیاں”  اس کی طرز  عنایت حسین بھٹی کے گاۓ ہوۓ گانے “بابل میریا ں گڈیاں تیرے گھر رہ گیاں” پر ہے  آجکل یہی گا نا انڈین لڑکی ہرشدیپ نے بھی گا یا ہوا ہے ۔

اسی طرح کئ ایک لوگ ہیں جنہوں نے گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھی ہیں ۔ یہ گھٹیا حرکت صرف نعتیہ کلام لکھنے والوں تک ہی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مرثیہ خوانوں اور نوحہ خوانوں نے بھی یہی طریقہ اپنا رکھا ہے ۔ نا صرف گانوں کی طرز اپنائی جاتی ہے بلکہ موسیقی اور چھنکار کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔ کیا یہ عجیب معاملہ نہیں ہے کے مدح سرائی میں دفلی کا سہارا لیا جاۓ ؟ واقعہ کربلا کو مرثیہ یا نوحے کی شکل میں  بیان کرنے ک لیے موسیقی استعمال کی جاۓ ؟ یا نعت کےلیے گانوں کی طرز اپنائی جاۓ ؟ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اسی محفل میں موجود مفسرِقران ، پیرِ طریقت حضرات بھی نہیں بولیں گے اور نہ ہی کوئی ذاکر اس پر اعتراض کرے گا ۔ (چشتی)

کیا ان لوگوں کو منصبِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی یہ سمجھ آئی ہے کے پوری کائنات کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حضور گلدستہ عقیدت گانوں کی طرز پر پیش کیا  جاۓ ؟  یا خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ غم کا اظھار موسیقی کی چھنکار میں کیا جاۓ ؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس کے تدارک کےلیے کیا کرنا چاہیے ۔

حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں ۔ ان سے پہلے بھی کچھ جگہوں پر نعتیہ کلام ملتا ہے لیکن آپ پہلے با قاعدہ نعت خوان ہیں ۔ جب کفار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں تضحیک آمیز اشعار لکھا کرتے تو حضرت حّسان بن ثابت رضی الله عنہ  آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں قصیدے لکھتے اور کافروں کا منہ بند کر دیتے ۔ آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت حسان پر بہت خوش ہوتے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت حسن کا لکھا ہوا کلام مستند بھی ہوتا اور با وزن بھی ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں پاکستان میں اب بھی ایسے نعت خوان لوگ موجود ہیں جنہوں نے نعتیہ کلام کے انتخاب ، اسلوب اور ادائیگی پر پہلے  بہت کام کیا اور اس کے بعد نعت کو پڑھا ۔ جن کی پڑھی ہوئی نعتیں آج بھی بڑی قدر و منزلت رکھتی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ سستی شہرت کے پجاریوں نے محافلِ نعت کا ماحول بھی تبد یل کر دیا اور اسے ذریعہ معاش بنا لیا ۔ (چشتی)

کیا اس کے ذمہ دار عوام ہیں؟ زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کہ نعت یا مرثیہ کسی خاص گانے کی طرز پر ہے ۔ گا نا گانے کے گرُ چونکہ بڑی محنت کے بعد آتے ہیں اور بڑی ریاضت کے بعد اس کی لے بنتی ہے لہٰذا اس کا اثر سامعین پر کافی گہرا ہوتا ہے اس لیے جس شخص نے گانا نہیں سنا تھا بلکہ اس کی طرز پر براہ راست نعت سنی وہ تو واہ واہ کیے بغیر نہیں رہ سکے گا اور نعت خوان کو خوب داد دے گا ۔ اس حرکت کے خالق ہی اس کے اصل ذمہ دار ہیں مگر انہیں کون روکے گا ؟ اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ فرض ہے کے وہ اس پر توجہ دیں ۔ نا تو معاملہ فرقہ واریت کا ہے اور نہ ہی اسلامیات کی کتاب کا بلکہ معاملہ ادبِ منصب کا ہے ۔ تحریر اور تقریر کی آزادی اپنی جگہ لیکن ہر شخص نعت خوان نہیں ہو سکتا اور نا ہی صرف نعت خوانی سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملتا ہے ۔ نعت لکھنا بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے پڑھنا اور سننا بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہے ۔ علماۓ کرام و مفتیانِ عظام اور اسلامی نظریاتی کونسل کو چاہئے کہ حمد ، نعت ، نوحے ، اور دیگر عارفانہ کلام کے لئے الگ شعبہ بناۓ تا کہ مندرجہ بالا  لا یعنی اور نچلے درجے کی حرکتوں پر قابو پایا جاسکے ۔

آج کل کی اکثر نعتوں کی لے گانوں کی طرح ہوتی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان نعتوں کو پڑھنے والے اور انہیں سننے والے بھی اسی طرح ہاتھ لہراتے ہوئے جھومتے ہیں ، جس طرح کسی میوزیکل پروگرام کے شرکا کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے جذبات پر اس لے کا ایک خاص اثر ہو رہا ہوتا ہے ۔ صاف لگتا ہے کہ یہ لوگ بمشکل اپنے آپ کو رقص کرنے سے روک رہے ہیں ۔

پھر سب سے بڑھ کر میوزک کا تاثر دینے کے لیے اللہ عزوجل کے نام کو جس طرح استعمال کیا جاتا ہے ، وہ سُر تا سُر ربّ کے بابرکت نام کی بے حرمتی ہے ۔ مگر بدقسمتی سے یہاں کسی کو اللہ سے دلچسپی نہیں ہے ، اس لیے یہ توہین نظر نہیں آتی ۔ کسی کو ہماری بات کی سنگینی کا اندازہ کرنا ہے تو ان نعت والوں سے فرمائش کرے کہ اللہ کے نام کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام استعمال کریں اور آپ کے مبارک نام کے ذریعے سے میوزک کی آواز کا تاثر دینے کی کوشش کریں ۔ پھر دیکھیں کہ علما اور عوام ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔ ہر طرف سے توہین رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا شور اٹھے گا ۔ احتجاج شروع ہوگا ۔ اخباری بیانات شاٸع ہوں گے ۔ جلوس نکلیں گے ۔ مقدمے درج ہوں گے ۔ نعت خواں اور نعت کو نشر کرنے والے چینل کو جان بچانا مشکل ہوجائے گا ۔ جو علما و مفتیانِ کرام موسیقی کی قطعی حرمت کے قائل ہیں ان کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ فطرت کے آگے بند باندھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ موسیقی کے حوالے سے جتنی کچھ اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دی ہے ، اگر علماۓ کرام و مفتیانِ عظام نے اتنی اجازت بھی نہ دی تو لوگ بہرحال موسیقی سے باز نہیں آئیں گے ۔ وہ موسیقی کے شوق میں اللہ عزّ و جلّ  اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نام کی بے حرمتی کرتے رہیں گے ۔ اللہ عزوجل ہمیں توہینِ شریعت اور شریعتِ مطہرہ کی توہین کرنے والوں کے شر و فتنہ سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمائیں مجھ سے مانگو نجدی کہیں شرک ہے ؟ محترم قارئینِ کرام : حَدَّثَنَا ہَشَّامُ بْنُ عَمَّارٍنَا الْھَقْل...