Friday, 31 October 2025

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

اکتیس (31) اکتوبر یومِ شھادت غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ علیہ

محترم قارئینِ کرام : جناب غازی علم دین شہید رحمتہ اللہ علیہ کی حیات و کارنامہ تاریخ‌ اسلامی کا وہ تابندہ ، روشن اور قابل فخر راہ عمل ہے جس پر جہاں‌ ہر مسلمان کو فخر ہے تو وہیں‌ اس راستے کی وجہ سے گستاخانِ‌ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر ہیبت طاری رہتی ہے ۔


ہندو آریہ سماج تنظیم جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے دل آزار کتابیں شائع کرواتی رہتی تھی، 1923ء کے اواخر میں اس تنظیم کے سرگرم رکن راجپال نے ایک ایسی دل آزار کتاب شائع کی، جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں بے پناہ گستاخیاں کی گئی تھیں ۔ کتاب کی اشاعت سے پورے ملک میں کہرام مچ گیا ۔ مسلمانوں نے احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنے شروع کر دیے ۔ ملزم راجپال کے خلاف مقدمہ درج ہوا ۔ پھر راجپال کو 6 ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ ہوا ۔ بعدازاں ہائی کورٹ نے نہ صرف ملزم کو بری کر دیا ، بلکہ اس کا جرمانہ بھی معاف کر دیا ۔ اس دل آزار کتاب کی اشاعت جا ری رہی ۔


پڑا فلک کو ابھی دل جلوں سے کام نہیں

جلا کے راکھ نہ کر دوں تو داغ نام نہیں


چھ اپریل 1929ء کو غازی علم الدین ٹھیک ایک بجے راجپال کی دکان پر پہنچ گئے اور دریافت کیا کہ راجپال کہاں ہے ؟ راجپال نے خود ہی کہا۔ میں ہوں کیا کام ہے؟ غازی صاحب نے چھری نکال کر اس پر بھرپور حملہ کیا۔ پھر پے در پے وار کر کے اسے واصل جہنم کر دیا اور کہا ” یہی کام تھا“ غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ 10 اپریل 1929ء کو سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ 22 مئی 1929ء کو غازی صاحب کو سزائے موت کا حکم سنا دیا گیا۔ 30 مئی کو ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ 15 جولائی کو قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اس مقدمہ کی وکالت کے لیے ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، مگر ہائی کورٹ نے اپیل خارج کر دی ۔


اکتیس اکتوبر 1929ء کو علم الدین رحمۃ اللہ علیہ نے حسب معمول تہجد کی نماز پڑھی اور بارگاہِ الٰہی میں دعاگو ہی تھے کہ انھیں کسی کے بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کمرے کے بند دروازے کے سامنے ہی کسی کے رکنے کی آواز کے کھٹکے پر غازی صاحب نے جو ادھر دیکھا تو پھانسی دینے والے عملہ کو اپنا منتظر پایا۔ اس موقع پر داروغہ جیل کی آنکھوں سے شدت جذبات سے آنسو بہہ نکلے… آپ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا تم گواہ رہنا کہ میری آخری آرزو کیا تھی۔ آپ نے معمول سے بھی کم وقت میں نماز ادا کی… اتنی جلدی آخر کس لیے تھی؟ ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کہیں مجسٹریٹ یہ تصور نہ کرے کہ محض زندگی کی آخری گھڑیوں کو طول دینے کے لیے دیر کر رہا ہوں۔ داروغہ جیل نے بند دروازہ کھولا… آپ اٹھے اور مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے۔ دایاں پاؤں کمرے سے باہر رکھتے ہوئے انھوں نے مجسٹریٹ سے کہا ۔ چلیے ! دیر نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ تیز تیز قدم اٹھاتے تختہٴ دار کی جانب چل پڑے۔ ایک کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے آپ نے ہاتھ اٹھا کر ایک قیدی کو خدا حافظ کہا… جواباً اس نے نعرہٴ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بلند کیا ۔ تب جیل حکام اور مجسٹریٹ کو معلوم ہوا کہ جیل میں سبھی قیدی علم الدین کو مبارک باد دینے کے لیے ساری رات سے جاگ رہے ہیں ۔ کلمہ شہادت کے ورد سے فضا گونج رہی تھی ۔ علم الدین لمحہ بھر کے لیے رکے … مجسٹریٹ اور پولیس کے دستے کی طرف دیکھا ، ان کے لب ہلے اور پھر چل دیے ۔


تختہٴ دار کے قریب متعلقہ حکام کے علاوہ مسلح پولیس کے جوان بھی کھڑے تھے ۔ سب کی نظریں آپ پر جمی ہوئی تھیں ۔ ان کی نظروں نے اس سے پہلے بھی کئی لوگوں کو تختہٴ دار تک پہنچتے دیکھا تھا ، لیکن جس شان اور قوتِ ارادی سے انھوں نے علم الدین کو تختہٴ دار کی جانب بڑھتے دیکھا ، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جو ”حیات“ علم ا لدین کو نصیب ہونے والی تھی، اس کا تو ہر مسلمان آرزو مند رہتا ہے۔اس وقت آپ کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور آپکو سیاہ رنگ کا لباس پہنا دیا گیا ۔ جب مجسٹریٹ نے آپ سے آپ کی آخری خواہش پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ ”میں پھانسی کا پھندہ چوم کر خود اپنے گلے میں ڈالنا چاہتا ہوں ۔


بعد ازاں غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ۔ اس دوران میں آپ نے اردگرد کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”تم گواہ رہو کہ میں نے حرمت رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لیے راجپال کو قتل کیا ہے۔ اور گواہ رہنا کہ میں عشق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے جان دے رہا ہوں ۔ آپ نے کلمہ شہادت با آوازِ بلند پڑھا اور پھر رسنِ دار کو بوسہ دیا۔ علم الدین حقیقت میں ہر اس شے کو مبارک سمجھتے تھے جو ان کو بارگاہِ حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں پہنچانے کا ذریعہ بن رہی تھی ۔ آپ کے گلے میں رسہ ڈال دیا گیا ۔


مجسٹریٹ کا ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور ایک خفیف اشارے کے ساتھ ہی آپ کے پاؤں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا گیا … چند لمحوں میں ہی آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی … اس نے جسم کو تڑپنے پھڑکنے کی بھی زحمت نہ ہونے دی ۔ گویا حضرت عزرائیل علیہ السّلام نے عاشق رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جان ان کے جسم سے رسہ لٹکنے سے پہلے ہی قبض کر لی ہو اور پھانسی کی زحمت سے بچا لیا ہو ۔ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کی اور آپ کے لاشہ کو پھانسی کے تختہ سے اتارا گیا ۔


زینتِ دار بنانا تو کوئی بات نہیں

نعرہٴ حق کی کوئی اور سزا دی جائے


ادھر جیل کے باہر غازی علم الدین رحمۃ اللہ علیہ کے والد طالع مند کے علاوہ سینکڑوں مسلمان اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ حکام لاش ان کے حوالے کریں۔ لیکن اعلیٰ حکام نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ علم الدین کی میت مسلمانوں کے حوالے نہ کی جائے۔ انھیں خطرہ تھا کہ مسلمان جلسے اور جلوس نکالیں گے، جن سے حالات خراب ہوں گے۔غازی علم الدین شہید کی شہادت پر میانوالی میں فرنگی حکومت کے خلاف زبردست احتجاجی جلوس نکلے، ہڑتالیں ہوئیں، شہید کا سوگ منایا گیا، غم و غصہ کا اظہار ہوا۔ شہیدکے جنازہ میں قیدیوں کے علاوہ کچھ مقامی مسلمانوں نے بھی شرکت کی۔ حکومت وقت نے میانوالی کے کئی افراد کو گرفتار کیا، ان پر مقدمہ چلایا، جس میں ان کو چھ چھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ غازی علم الدین شہید کی شہادت کے بعد ناعاقبت اندیش گورنر کی ہدایت کے مطابق غازی شہید کو بے یار و مددگار ایک مردہ اور بے بس قوم کا فرد سمجھ کر اس کی پاک میت کو میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔


جب یہ خبر لاہور اور ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچی تو ہر طرف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 4 نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد جیفری ڈی مونٹ مورنسی گورنر پنجاب سے ملا اور اپنا مطالبہ پیش کیا۔ بالآخر چند شرائط کے تحت مسلمانوں کا مطالبہ منظور کر لیا گیا۔ مسلمانوں کا ایک وفد ”سید مراتب علی شاہ“ اور ”مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن“ کی قیادت میں 13 نومبر 1929ء کو میانوالی آیا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر میانوالی راجہ مہدی زمان نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ میانوالی کے ایک معمار نے بکس تیار کیا اور ضلعی حکام اور معمار نور دین دوسرے روز علی الصباح غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کا جسد خاکی بصد احترام میانوالی میں قیدیوں کے قبرستان سے نکال کر ڈپٹی کمشنر میانوالی کے بنگلے پر لائے ۔


معمار نور دین نے بتایا کہ دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی نعش میں ذرا برابر تعفن نہیں تھا اور نعش سے مسحور کن خوش بو آ رہی تھی ۔ انھوں نے ڈی سی میانوالی کی کوٹھی پر شہیدکی نعش کو بکس میں محفوظ کیا ۔ یہاں سے نعش کو اسٹیشن میانوالی لایا گیا ۔ اور ایک اسپیشل گاڑی کے ذریعے لاہور لایا گیا اور پھر لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کو سپردِ خاک کر دیا گیا ۔


یاد رہے کہ غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ میں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس جنازے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی ۔ نمازِ جنازہ 4 بار پڑھائی گئی ۔ پہلی بار نمازِ جنازہ مولانا محمد شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی ، دوسری بار نمازِ جنازہ حضرت علامہ سید دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے ، تیسری بار سید احمد شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور چوتھی بار حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی ۔ اس وقت انھوں نے اپنی داڑھی مبارک پکڑ کر روتے ہوئے اپنے آپ سے کہا کہ ”تو سید زادہ ہے اورتمہارے ہزاروں مرید ہیں ، لیکن ایک ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا ۔“ بعدازاں انھوں نے مزار مبارک کی تعمیر کروائی ۔ جنازے کا جلوس ساڑھے پانچ میل لمبا تھا ۔ میت کو ”مولانا سید دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ“ اور حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے غازی علم الدین شہید کا ماتھا چوما اور کہا : اَسی تے گلاں کر دے رہ گئے، تے ترکھاناں دا مُنڈا بازی لے گیا ۔


غازی علم الدین شہید:شھداء ناموس رسالت کے خوش قسمت افراد میں ایک نام ’’غازی علم دین شہید ‘‘ کا بھی ہے جنہوں نے گستاخِ رسول کو جہنم رسید کرکے وہ کارنامہ انجام دیا جس پر رہتی دنیا کے مسلمان اْن پر نازکرتے رہیں گے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ ایک اکیس سالہ اَن پڑھ‘ مزدور پیشہ نوجوان نے گستاخِ رسول راجپال کو جرت وبہادری کے ساتھ قتل کردیا ہے تو انہوں نے کہا تھا: ’’اَسی گَلاں اِی کردے رہ گئے تے تَرکھاناں دَا مْنڈا بازی لے گیا ۔ (ہم باتیں ہی بناتے رہے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا۔)


علم الدین کو جب معلوم پڑا کہ راجپال نے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہیں رہا نہیں گیااپنے والد سے اس کمینے کا ذکر کیااور بے چینی کے عالم میں سوگئے۔اْس رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ’’تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی ہورہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔‘‘ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے(انکے دوست) کے گھر پہنچے۔ پتا چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی شاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔اور پھر موقع پاکر پلک جھپکتے میں چھری نکالی، ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔ علم دین الٹے قدموں باہر دوڑے۔ راجپال کے ملازمین نے باہر نکل کر شور مچایا: پکڑو پکڑو۔ مارگیا مارگیا۔ علم دین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں پتا چل گیا کہ ان کے نورِچشم نے کیا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخرسے بلندکردیا ہے۔ اس قتل کی سزا کے طور پر 7 جولائی 1929ء4 کو غازی علم دین کو سزائے موت سنادی گئی جس پر 31 اکتوبر1929 ء 4 کو عمل درآمد ہوا ۔ ان کے جسدِ خاکی کو مثالی اور غیرمعمولی اعزاز واکرام کے ساتھ میانی صاحب قبرستان لاہور میں سپردِ خاک کردیا گیا، لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں ان کا نام ناموس رسالت پرکٹ مرنے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔


عشق رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سچے اور پکے مومن اور مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پر اپنی جان قربان کرکے خود کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس عظیم عاشق رسول غازی علم دین شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے امت مسلمہ ہرسال ان کی یاد میںشمعیں روشن کرتی ہے۔ غازی علم الدین شہید ؒ کا جرات مندانہ کردار آج تک مسلمانوں میں زندہ ہے۔ملک بھر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے قرآن خوانی ،سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گستاخ کی سزا سر تن سے جدا اسلام کا بنیادی دستور وقانون ہے۔جس پر تمام مسلمان ہر لحاظ سے متفق اور اس کوتسلیم بھی کرتے ہیں ۔


علم دین 4 دسمبر 1908 ء میںکوچہ چابک سوارں لاہور میںطالع مند کے گھر پیدا ہونے والا ایک عاشق رسول تھا۔ طالع مند لکڑی کے بہت اچھے کاریگر تھے ۔علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسہ سے حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کے ساتھ ہی کام کرنا شروع کر دیا۔علم دین کے والد فرنیچر بنانے کے ہنرمند کاریگر تھے وہ اکثرشہر سے باہر جب بھی کام کے سلسلہ میں جاتے توعلم دین ان کے ساتھ جاتا تھا۔علم دین کا ایک بھائی پڑھ لکھ کر ایک سرکاری نوکری کرنے لگاجبکہ ایک بھائی محمد امین والد اور بھائی علم دین کے ساتھ کام کرتا رہا۔تقسیم ہند سے پہلے ہونے والے ایک واقعہ نے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں ہلچل مچاکر رکھ دی تھی ۔


1923 ء میںلاہور کے ایک ناشر راج پال انتہا پسند ہند و نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں ایک گستاخانہ کتاب ایک فرضی نام سے لکھی ۔ کتاب میں انتہائی نازیبا باتیںلکھی تھیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کتاب کے شائع ہونے سے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب پر فوری پابندی لگانے اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جس پر اس ناشر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔ سیشن کورٹ کے مجسٹریٹ نے راج پال کو مجرم قرار دیتے ہوئے صرف چھ ماہ قید کی سزا سنادی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل کی گئی ۔ کیس کی سماعت میں مجرم راجپال کو جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے رہا کردیا کہ اس وقت مذہب کے خلاف گستاخی کا کوئی قانون موجود نہ تھا۔جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوگیا۔ انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے احتجاجی جلسے جلوس نکالنے شروع کر دئیے۔مسلمانوں نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورے ملک میں ایک احتجاجی تحریک شروع کردی۔مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں میں یہ احساس بیدار ہونے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی کوشش میںہے اور یہ کہ اس ملعون کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا ۔ سب سے پہلے لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ راج پال کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا ۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔اس کے بعد افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا، اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد بہت خوفزدہ ہوگیا ۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔ راج پال کچھ عرصے کے لئے لاہور چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا۔ علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے بالاآخر اس کو اس کے آخری انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرلیا ۔ علم دین اپنے ایک قریبی دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان کے سامنے احتجاج میں شامل تھا جو ہندو راجپال کے خلاف نعرے لگارہا تھا۔ جذبات کا ایک سمندر اس ہجوم کے نعروں کی گونج میں امنڈ رہا تھا۔ امام مسجد نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا۔ ’’مسلمانوں شیطان راج پال نے اپنی کتاب میں ہمارے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے رہا کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ امام مسجد کے یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا ۔ اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست رشید سے کیاوہ بھی گستاخ راج پال کو مزا چکھانا چاہتا تھا۔ دونوں نے اس مسئلے پر تین بار قرعہ اندازی کی اور تینوں بار علم دین کا نام آیا، آخرکار رشیدعلم دین کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اللہ پاک نے یہ سعادت شائد علم دین کے ہی نصیب میں لکھ رکھی تھی ۔


6 اپریل 1929ء کو علم دین بازار سے ایک چھری لے کر راجپال کی دکان کی طرف چل پڑا۔ راج پا ل ابھی دکان پر نہیں آیا تھا۔ علم دین نے اس کا انتظار کیا اور جیسے ہی راجپال اپنی دکان میں داخل ہوا علم دین نے چھری سے اس پر زوردر وار کیا جو اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔راج پال موقع پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرکے اس پر قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا،مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، عدالت نے علم دین کو سزائے موت سنادی۔ قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ’’مسلمانوں کیلئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔‘‘31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر عملدرآمد کا دن تھا ۔


سزائے موت سے قبل علم دین سے آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود لوگوں سے کہا ’’اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راج پال کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرنے پر جہنم واصل کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے حرمت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔‘‘غازی علم دین نے اپنے رشتہ داروں کو جو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ میرے تختہ دار پر چڑھ جانے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰت برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں ۔


غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نماز جنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور 4 نومبر 1929 ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد(جن میں سر فہرست شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری صاحبان شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی ۔


13 نومبر 1929 ء کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر لیا گیا۔15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبرسے نکالا گیا تو ان کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔ جسد خاکی بالکل صحیح وسالم اور اس میں سے خوشبو آرہی تھیں، چہرہ حسن و جمال کا حسین امتزاج تھا، اور ہونٹوں پر مسکراہٹ جھلک رہی تھی ۔


علم دین شہید کے والد طالع مند نے علامہ اقبال سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔‘‘غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں6 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی تھی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سچے عاشق رسول غازی علم دین شہیدکے جنازے کو کندھا دے پائے ۔ لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے ۔ بغیر چھت مزار کے چہار وں اطراف برآمدہ ہے، مزار کے ساتھ ہی غازی علم دین شہیدکے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرام گاہیں موجود ہیں ۔ لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئی اشعار کندہ ہیں ۔


علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی آنکھیںنم ہوگئیں انہوں نے کہا۔ کہ ’’ایک ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘ علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے انگریزوں کو اپنے قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک علم دین کی شہادت قانون میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے قانون کو ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی توہین کی سزا کم از کم سزا موت قراردے دی ۔


غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پراپنی جان کو قربان کرکے رہتی دنیا تک ایک لازوال مثال قائم کردی ، شہید کا کردار اسلام اور حق و سچ کی سربلندی کے لئے مسلمانوں کے لئے تا قیامت مشعل راہ رہے گا۔گستاخ رسول راجپال کو جہنم رسید کرنے والے سچے عاشق رسول غازی علم دین شہید کے 31 اکتوبر2016ء کو 87 ویںیوم شہادت کے موقع پر ملک بھر میں سیمینارز،قرآن خوانی اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں غازی علم دین شہید کو خوبصورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 28 September 2025

گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت

گیارہویں شریف ایصال ثواب ہے اور جواز کا ثبوت

محترم قارئینِ کرام : گیارہویں شریف ایک ایسا نیک عمل ہے کہ صدیوں سے مسلمانوں میں جاری ہے لیکن تحریک وھابیت کے بعد گوناگوں اعتراضات کی زد میں ہے ۔ فقیر نے اس مضمون میں ثابت کیا ہے کہ گیارہویں شریف ایصالِ ثواب کا دوسرا نام ہے اسی لیے اُصولی طور تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ، ہاں جاہلوں کا منہ کون بند کرے ۔ فقیر کے اس مضمون سے ایسے جاہلوں کو دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے ۔ اس سے قبل بھی فقیر یہ مضمون پوسٹ کر چکا ہے اب دوبارہ پیشِ خدمت ہے اللہ عزوجل بطفیل حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و بصدقہ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فقیر کی اس مساعی کو قبول فرما کر ہم سب کےلیے توشہء راہ آخرت اور مستفیدین کےلیے مشعلِ راہ ہدایت بنائے آمین ۔


مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے عاص بن وائل نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں تو اُس کے بیٹے ھشام نے پچاس غلام آزاد کردئیے ، اس کے دوسرے بیٹے عمروبن العاص رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ باقی پچاس غلام آزاد کردے ، وہ کہتے ہیں یہاں تک کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی اور ھشام نے پچاس غلام آزاد کر بھی دئیے ہیں اور باقی پچاس غلام رہتے ہیں ، میں وہ آزاد کردوں ؟ تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انہ لوکان مسلم فاعتقتم عنہ ا وصد قتم عنہ او حججتم عنہ بلغہٗ ذالک ۔ رواہ ابوداؤد ۔ (مشکوٰۃ باب الوصایا، مطبوعہ ملتان، صفحہ ۲۶۶)


ترجمہ : اگر وہ مسلمان ہوتا تو پھر تم اُس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا اُس کی طرف سے کوئی صدقہ کرتے یا اُس کی طرف سے حج کرتے تو اُس کو ثواب (فائدہ) پہنچتا ۔


دوسری حدیث جس کے راوی حضرت جابر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہیں ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کل معروفِِ صد قۃٌ رواہ امام احمد ، امام ترمذی ۔ (مشکوٰۃ باب فضل الصد قۃ ، ص۱۶۸) ’’ہر کار خیر صدقہ ہے‘‘ ۔


فرض ، واجب کا ثواب ایصال نہیں ہوسکتا ، صدقات نافلہ کا ثواب ایصال ہوسکتا ہے ، اَب حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے رکھا جائے تو فوت شدگان کی دو قسمیں ہوگئیں ، ایک قسم تو کافروں اور نام نہاد مسلمانوں کی اور دوسری قسم صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ، پہلی قسم کو ایصال ثواب کرنا بے کار اور فضول خرچی ہے ا ور اُن کے ورثاء کو اس فضول خرچی سے واقع ہی گریز کرنا چاہئیے اور وہ گریز کرتے بھی ہیں ، جب کہ فوت شدگان کی دوسری قسم کو ہر قسم کے صدقات نافلہ کا ثواب پہنچ سکتا ہے اور اُن کے ورثاء بھی الحمد ﷲ اُن کو ایصال ثواب کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔


راستے میں پڑے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو لوگوں کے آرام کی غرض سے ہٹا دینا کہ گزرنے والوں کو تکلیف نہ ہو اور یہ نیت کرلینا کہ اے ﷲ کریم میرے اس عمل کا ثواب فلاں فوت شدہ کو پہنچے ، تو جائز ہے درست ہے ، ایصال ثواب کے لئے کوئی ایک طریقہ مخصوص سمجھنا نادانی اور جہالت ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ابتداء ہی سے مختلف انداز میں ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتے رہے ، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ان شاء اللہ ، موجودہ دور میں ایصالِ ثواب کے پروگرام مختلف ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ، جن میں ایک نام ’’گیارھویں‘‘ کا بھی آتا ہے ، حضور غوث اعظم سیّدنا عبدالقادر جیلانی رضی ﷲ عنہ (غوث اعظم اور رضی ﷲ عنہ کہنے کی وضاحت مضمون کے آخر میں کردی گئی ہے) سے عقیدت ومحبت کی وجہ سے ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ کو مسلمان آپ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں ، گیارہ تاریخ کو ایصال ثواب کرنے کی وجہ سے اس ایصال ثواب کا نام ’’گیارہویں‘‘ مشہور ہوگیا ، اور مہینے کی گیارہ تاریخ کو مقرر کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنی سہولت کے لئے اور یہ کہ اس کا اہتمام یاد رہے ، اس کے علاوہ یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اس دن کے سوا ثواب پہنچتا ہی نہیں ۔


دوسری وجہ یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں حضور سیّدنا غوث اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے وصال کی تاریخ گیارہ ربیع الثانی مشہور ہے ، اہل سنت ہر سال گیارہ ربیع الثانی کو آپ کے عرس یعنی یومِ وصال کے دن آپ کی روح کو ایصال ثواب کرتے ہیں ، بعض بزرگوں کے نزدیک آپ کے وصال کی تاریخ نو ربیع الثانی ہے ، برّ صغیر پاک وہند میں ہر اسلامی مہینہ کی گیارہ تاریخ کو آپ کی روح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے، یعنی ایصال ثواب میں کوئی بندش نہیں ہے، چاہے ہرسال ایصال ثواب کیا جائے ، چاہے ہر مہینہ، چاہے ہر روز کیا جائے ، اسلام میں سال کے سارے دنوں میں ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے ۔


فوت شدگان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ، نام بدلنے سے کوئی خرابی نہیں آتی ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ مبارک میں تعلیم گاہ کا نام’’صُفہ‘‘ تھا ، اب اس کے کئی نام ہیں مثلاً مدرسہ ، مکتب ، اسکول وغیرہ ، گیارھویں کا ایصال ثواب کے علاوہ کوئی اور مطلب ومفہوم نہیں ، باقی ہر قسم کے اعتراضات ، شکوک وشبہات من گھڑت اور بے بنیاد ہیں ۔


مسلمانانِ اہل سنت اس ایصال ثواب کو فرض، واجب اور سنت نہیں سمجھتے ، نہ ہی اہل سنت کے کسی معتبر و مستند عالم دین کی تحریر میں ایسا ملے گا ، اہل سنت صرف اسے مستحسن یعنی ایک اچھا فعل سمجھتے ہیں ، کسی مسلمان کو ایصال ثواب کرنا اچھا فعل ہی ہے ، بُرا کام نہیں ، باقی جھوٹے الزامات لگا کریا کسی جاہل کے فعل کو دیکھ کر مسلمانوں کے متعلق بدگمانی کرنا اچھا نہیں ۔


حافظ صلاح الدین غیر مقلد، ایڈیٹر ہفت روزہ الاعتصام ، لاہور، اپنی کتاب ’’قبر پرستی‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’گیارہویں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خوشنودی کے لئے کی جاتی ہے اور اس میں یہ عقیدہ کار فرما ہوتا ہے کہ گیارہویں سے حضرت پیر صاحب خوش ہوں گے ، جس سے ہمارے کاروبار میں ترقی ہوگی ، ہماری حاجات پیر صاحب پوری فرمائیں گے اور اگر ہم نے گیارھویں میں کوتاہی کی تو پیر صاحب ناراض ہوں گے ، جس سے ہمارا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا اور ہماری حاجات پوری ہونے سے رہ جائیں گی ۔ ( ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث، لاہور، شمارہ ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۸۷ئ،چشتی)( صلاح الدین یوسف، قبر پرستی، مطبوعہ لاہور ۱۹۹۲ئ، ص۱۴۶)


حافظ صلاح الدین صاحب نے الزام لگاتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ اہل سنت کی فلاں کتاب میں یہ عقیدہ لکھا ہے ، یا فلاں مستند عالم دین یا مفتی نے یہ کہا ہے ، بس یہ غیر مقلدین ایسے ہی بہتان لگا کر اور مفروضے قائم کرکے اہل سنت کے معمولات کا مذاق اُڑاتے رہتے ہیں ، تاکہ مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ بازی ختم نہ ہوسکے ۔


قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رو سے مومن کے حق میں بد گمانی حرام ہے ، قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یایھاالذ ین امنو اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۔ (سورہ الحجرات: ۱۲)


ترجمہ : اے ایمان والو اکثر گمانوں سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہیں ۔


حدیث شریف میں ہے : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحد یث ۔ (بخاری شریف، جلد۲، ص۸۹۶) ترجمہ۔ بدگمانی سے دور رہو بدگمانی بد ترین جھوٹ ہے ۔


دوسری حدیث میں ہے : افلا شققت عن قلبہ حتی تعلم اقالھا ام لا ۔ (مسلم شریف، جلد۲، ص۳۲۶)


ترجمہ : تونے اس کے دل کو چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تجھے معلوم ہوجاتا کہ اس نے (دل سے کلمہ کہا ہے یا نہیں) ۔


گیارھویں صالحین کی نظر میں


حضرت محقق شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب’’ماثبت من السنۃ‘‘میں لکھتے ہیں کہ : میرے پیرومرشد شیخ عبدالوھاب متّقی مہاجر مکّی رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ نو ربیع الثانی کو حضرت غوث ِ اعظم رضی ﷲ عنہ کا عرس کرتے تھے’’بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہور ہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد ومشائخ میں متعارف ہے ۔ (ماثبت من السنۃ، (اُردو ترجمہ) مطبوعہ اعتقاد پبلشنگ ھائوس دہلی۱۹۸۸ء ، ص۱۶۷،چشتی)


حضرت شیخ محقق عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ تعالیٰ علیہ اپنی دوسری تصنیف ’’زاد المتقین فی سلوک طریق الیقین‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’حضرت غوث پاک کا عرس نویں ربیع الآخر کو کیا جاتا ہے ، بہجۃ الاسرار کی روایت کے مطابق یہی صحیح تاریخ ہے ، اگرچہ ہمارے دیار میں گیارھویں تاریخ مشہور ہے ‘‘۔ (زادالمتقین فی سلوک طریق الیقین ، اُردو ترجمہ، مطبوعہ الرحیم اکیڈمی لیاقت آباد کراچی۱۹۹۸ئ، ص۱۲۵)


گیارہ ربیع الثانی کو حضور غوث پاک رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کاعرس منانا بزرگوں کا معمول رہا ہے ، چنانچہ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ اپنی مشہور تصنیف ’’اخبار الاخیار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : حضرت شیخ امان ﷲ پانی پتی رحمۃ ﷲ علیہ (متوفی۹۹۷ھ) گیارہ ربیع الثانی کو حضرت غوث پاک کاعرس کرتے تھے ۔ (اخبار الاخیار(اُردو ترجمہ) ، مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی، ص۴۹۸)


شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ غیر مقلدین کی نظر میں نواب صدیق حسن خاں بھوپالوی (متوفی۱۳۰۷ھ/۱۸۹۰ئ) لکھتے ہیں : ’’ہندوستان میں مسلمانوں کی فتوحات کے بعد ہی سے علم حدیث معدوم تھا، یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ نے اس سرزمین میں اپنا فضل واحسان کیا اور یہاں کے بعض علماء جیسے شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ وغیرہ کو اس علم سے نوازا، شیخ ہندوستان میں علمِ حدیث کو لانے اور اس کے باشندوں کو اس کا فیض عام کرنے والے پہلے شخص ہیں‘‘۔ (دوروشن ستارے ، از عبدالرشید عراقی، مطبوعہ لاہور۲۰۰۰ئ، ص۹۰، بحوالہ’’الحطہ فی ذکر صحاح التہ، از نواب صدیق حسن خاں، ص۷۰)


مسعود عالم ندوی (متوفی۱۳۷۴ھ) لکھتے ہیں : ’’ان(شیخ عبدالحق محدّث دہلوی) کی ذات سے شمالی ہند میں علم حدیث کی زندگی ملی اور سنت نبوی کا خزانہ ہر خاص وعام کے لئے عام ہوگیا… ہم آج ان کے شکر گزار ہیں اور علمی خدمات کا دل سے اعتراف کرتے ہیں‘‘۔ (دوروشن ستارے، از عبدالرشید عراقی، مطبوعہ لاہور، بحوالہ الفرقان، لکھنؤ، شاہ ولی ﷲ نمبر، ص۳۷)


غیرمقلد عالم  محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (متوفی۱۹۵۶ئ) ، شیخ عبدالحق محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’مجھ عاجز کو آپ کے علم وفضل اور خدمتِ علم حدیث اور صاحبِ کمالات ظاہری وباطنی ہونے کی وجہ سے حُسنِ عقیدت ہے، آپ کی کئی تصانیف میرے پاس موجود ہیں جن سے میں بہت سے علمی فوائد حاصل کرتا رہتا ہوں‘‘۔ (تاریخ اہل حدیث، مطبوعہ مکتبہ الرحمن سرگودھا(پنجاب)، ص۲۷۴)


شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ علماء دیوبند کی نظر میں


حکیم الامتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : ’’بعض اولیاء ﷲ ایسے بھی گزرے ہیں کہ خواب یا حالتِ غیبت میں روزمرہ ان کو دربار نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضری کی دولت نصیب ہوتی تھی ، ایسے حضرات صاحبِ حضوری کہلاتے ہیں ، انہیں میں سے ایک حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلوی ہیں کہ یہ بھی اس دولت سے مشرّف تھے اور صاحبِ حضوری تھے‘‘۔ (عبدالحلیم چشتی فاضل دارالعلوم دیوبند، فوائد جامعہ بر عجالہ نافعہ، مطبوعہنور محمد کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی۱۳۸۳ھ/۱۹۶۴ئ، ص۲۲۱۔ بحوالہ الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ، اشرف المطابع، تھانہ بھون(ضلع مظفر نگر، یوپی، بھارت)۱۹۴۱ئ، ج۷، ص۶)


آیۃ ﷲ ، حجۃ ﷲ ، سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ گیارھویں کے متعلق فرماتے ہیں : ’’ حضرت غوثِ اعظم رضی ﷲ عنہ کے روضہ مبارکہ پر گیارھویں کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے ، نماز عصر کے بعد مغرب تک کلام ﷲ کی تلاوت کرتے اور حضرت غوثِ اعظم کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے ، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے ارد گرد مریدین حلقہ بگوش بیٹھ کر ذکر جہر کرتے ، اسی حالت میں بعض پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ، اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی ، تقسیم کی جاتی اور نماز عشاء پڑھ کر لوگ رخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظاتِ عزیزی (فارسی) مطبوعہ میرٹھ، یوپی ۔بھارت، ص۶۲،چشتی)


حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی علیہ الرحمہ علماء دیوبند وغیر مقلدین کی نظر میں نواب صدیق حسن خاں بھوپالی غیرمقلد لکھتے ہیں :’’ شاہ عبدالعزیز بن شیخ اجل ولی ﷲ محدث دہلوی بن شیخ عبدالرحیم عمری رحمہم ﷲ، استاذ الاساتذہ، امام نقاد، بقیۃ السلف، حجۃ الخلف اور دیارِ ھند کے خاتم المفسرین ومحدثین اور اپنے وقت میں علماء ومشائخ کے مرجع تھے، تمام علومِ متداولہ اور غیر متداولہ میں خواہ فنونِ عقلیہ ہوں یا عقلیہ، ان کو جو دستگاہ حاصل تھی وہ بیان سے باہر ہے‘‘۔ (اتحاف النبلائ، مطبوعہ کانپور ۱۲۷۸ھ، ص۲۹۶)


محمد ابراہیم میر سیالکوٹی غیرمقلد لکھتے ہیں : ’’ بڑے بڑے علماء آپ کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں اور فضلاء آپ کی تصنیف کردہ کتابوں پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں‘‘ ۔ (تاریخ اہل حدیث، مطبوعہ سرگودھا،سن طباعت ندارد، ص۲۸۸)


مولوی سرفراز خاں صفدر دیوبندی (گوجرانوالہ) لکھتے ہیں : ’’بلا شبہ مسلکِ دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات شاہ عبدالعزیز صاحب کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں ، بلا شبہ دیوبندی حضرات کے لیے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے‘‘۔ (اتمام البرھان، حصہ اوّل، مطبوعہ گوجرانوالہ۱۹۸۱ئ، ص۱۳۸)


حضرت شیخ عبدالوھاب متقی مکی رحمۃ ﷲ علیہ ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ ، حضرت شیخ امان ﷲ پانی پتی رحمۃ ﷲ علیہ ، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ ، یہ تمام بزرگ دیںِ اسلام کے عالم و فاضل تھے اور ان کا شمار صالحین میں ہوتا ہے ، ان بزرگوں نے گیارھویں شریف کا ذکر کرکے کسی قسم کا شرک وبدعت کا فتویٰ نہیں دیا ۔


صلحاء کا طریقہ جائز ہوتا ہےغیر مقلد ین کا فتویٰ اب ہم غیر مقلدین کے مشہور عالم مولوی ثناء ﷲ امرتسری کے فتوے نقل کرتے ہیں جن میں انہوں نے صالحین کے طریقہ کار کو جائز اور درست لکھا ہے ۔


مولوی ثناء ﷲ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ چینی کی رکابیوں (پلیٹوں) پر جو لوگ عربی وغیرہ لکھ کر بیماروں کو پلاتے ہیں ، یہ درست ہے یا نہیں ؟


مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ : ’’آیات قرآنی کو لکھ کر پلانا بعض صلحاء نے جائز لکھا ہے‘‘ ۔ (اخبار اہل حدیث، امرتسر ۲۲؍محرم ۱۳۶۲ھ،چشتی)،(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۶۸)


مولوی صاحب سے ایک سوال کیا گیا کہ : ’’جو لوگ تعویذ وغیرہ لکھ کر باندھتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں ؟ (میر عظمت ﷲ ، مدراس) ۔


مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ : ’’تعویذ کا مضمون اگر قرآن وحدیث کے مطابق ہو یعنی شرکیہ نہ ہو تو بعض صلحاء بچوں کے گلے میں ڈالنا جائز کہتے ہیں‘‘۔ ﷲ اعلم ۔ (اہل حدیث، ۲۹؍ محرم ۱۳۶۲ھ)(فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۶۸)


الحمد للہ ان دونوں فتوؤں سے ثابت ہوا کہ جس کام کو صلحاء یعنی نیک لوگ جائز سمجھیں وہ کام جائز ہے ، شرک وبدعت اور ناجائز نہیں ہے ، حضور غوث اعظم رضی ﷲ عنہ کی گیارھویں یعنی آپ کے لئے ایصال ثواب کو صالحین نے جائز سمجھا ہے ، تو ان کے فیصلہ کو ماننا چاہئیے اور امت مسلمہ پر شرک وبدعت کے فتوے لگا کر تفرقہ بازی سے اجتناب کرنا چاہئیے ۔


ایصال ثواب سے متعلق مولوی ثناء ﷲ غیر مقلد سے ایک سوال کیا گیا کہ : ’’میّت کو ثواب رسانی کی غرض سے بہ ہیئت اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست ہے یا نہیں ؟ ‘‘ ۔


مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں کہ : ’’بہ نیت نیک جائز ہے اگرچہ ہیئت کذائی سنت سے ثابت نہیں ، میّت کے حق میں سب سے مفید تر اور قطعی ثبوت کا طریق استغفار (بخشش مانگنا) ہے ‘‘ ۔ ( فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ششم کتاب الجنائز، مرتبہ، مولانا محمد دائود راز ، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنہ ، ۷۔ ایبک روڈ لاہور، ص۵۱)


مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد نے یہ لکھا کہ ’’ بہ نیت نیک جائز ہے اگرچہ ہیئت کذائی سنت سے ثابت نہیں‘‘ اہل سنت حضور غوث اعظم رضی ﷲ عنہ کے لئے جو ایصال ثواب کرتے ہیں وہ نیک نیت سے ہی قرآن خوانی اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں ، اور بقول مولوی ثناء ﷲ اگرچہ ایصال ثواب کی یہ شکل سنت سے ثابت نہ ہو پھر بھی جائز ہے ۔


ایصال ثواب کی نیت سے گیارھویں جائز ہے مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد کا فتویٰ مولوی ثناء ﷲ امرتسری سے سوال کیا گیا کہ : ’’کل یہاں ایک جلسہ بنگلور کے مسلم لائبریری کا ہوا جس میں مولوی حاجی غلام محمد شملوی نے لیکچر دیا، دورانِ تقریر میں گیارھویں اور بارھویں میں برائے ایصالِ ثواب غرباء کو کھانا کھلانا جائز کہا ہے ، آپ اس کے عدم ثبوت کے دلائل پیش کریں‘‘ ۔


مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد جواب میں کہتے ہیں کہ : ’’ گیارھویں بارھویں کی بابت فریقین میں اختلاف صرف اتنی بات میں ہے کہ مانعین اس کو لغیر ﷲ سمجھ کر مااھل لغیر ﷲ میں داخل کرتے ہیں ، اور قائلین اس کو لغیر ﷲ میں نہیں جانتے ، مولوی غلام محمد صاحب نے دونوں کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی ہوگی کہ گیارھویں بارھویں کا کھانا بغرض ایصال ثواب کیا جائے یعنی یہ نیت ہوکہ ان بزرگوں کی روح کو ثواب پہنچے نہ کہ یہ بزرگ خود اس کھانے کو قبول کریں ، اس صورت میں واقعی اختلاف اُٹھ جاتا ہے ، ہاں نام کا جھگڑا باقی رہ جاتا ہے کہ اس قسم کی دعوت کو گیارھویں بارھویں کہیں یا نذر ﷲ کہیں، اس میں شک نہیں کہ شرع شریف میں گیارھویں بارھویں کے ناموں کا ثبوت نہیں ، اس لئے یہ نام نہیں چاہئیے، فقط دعوت ﷲ فی ﷲ کی نیت چاہئیے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد ثانی، باب ہفتم مسائل متفرقہ، ص۷۱، مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ ، لاہور،چشتی)


الحمد ﷲ اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضور غوث اعظم رضی ﷲ عنہ کی روح کو ایصال ثواب کیا جائے ، منکرین اسے گیارھویں نہ کہیں ، ایصال ثواب کہہ لیں ، لیکن ایصال ثواب کریں تو سہی ، یہ تو ایصال ثواب کرنے والوں پر بھی اعتراض کرتے ہیں تاکہ فرقہ بندی اور انتشار ختم نہ ہواور پیٹ کا دھندہ چلتا رہے ۔ ا یصال ثواب کی نیت سے گیا رھو یں جا ئز ہے ۔


مولوی رشید احمد گنگوہی دیوبندی کا فتویٰ مولوی رشید احمد گنگوھی سے سوال کیا گیا کہ : ’’ایک شخص ہر مہینہ کی گیارہ تاریخ کو گیارہویں کرتا ہے نذر ﷲ اور کھانا پکا کر غرباء اور امراء سب کو کھلاتا ہے اور اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز نذر لغیرﷲ ہو وہ حرام ہے اور میں جو گیارہویں کرتا ہوں یا توشہ کرتا ہوں کہ جو منسوب ہے بفعل حضرت بڑے پیر صاحب اور حضرت شاہ عبدالحق صاحب (ردولوی) کے ، ہر گز ان حضرات کی نذر نہیں کرتا بلکہ محض نذر ﷲ کرتا ہوں صرف اس غرض سے کہ یہ حضرات کیا کرتے تھے ، ان کے عمل کے موافق عمل کرنا موجب خیروبرکت ہے ، اور جو شخص ان حضرات کی یا اور کسی کی نذر کرے گا سوائے ﷲ جل شانہ ، وہ حرام ہے ، کبھی حلال نہیں ، تو اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ایسے عقیدے والے کو گیارہویں یا توشہ (شاہ عبدالحق ردولوی چشتی) کا کرنا جائز ہے یا نہیں اور موجب برکت بھی ہے یا نہیں اور اس کھانے کو مسلمان دین دار تناول فرمائیں یا نہیں ؟ ‘‘ ۔


مولوی صاحب جواب میں لکھتے ہیں : ’’ ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ کرنا درست ہے ، مگر تعیّن یوم وتعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے ، اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجب ضلالت ہوتا ہے ، لہذا تبدیل یوم و طعام کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ‘‘ ۔ (فتاویٰ رشیدیہ، مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی، ص۱۶۴)


دیوبندی فرقہ کے امام مولوی رشید احمد گنگوہی نے یہ تسلیم کرلیا کہ ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کرنا درست ہے ، رہا اعتراض تعیّن یوم اور تعین طعام کا ، تو عرض ہے کہ اہلسنت تو سہولت کے پیشِ نظر دن مقرر کرتے ہیں ، اسے تعین عرفی کہتے ہیں ، اس کے متعلق یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ ایصال ثواب صرف گیارہ تاریخ کو ہی کیا جائے، اس دن کے علاوہ نہ کیا جائے ، اور یہ اعتقاد بھی نہیں رکھتے کہ گیارہ تاریخ سے آگے پیچھے کسی اور تاریخ کو ثواب نہیں پہنچتا ۔


تعیّن شرعی اور تعیّن عرفی تعیّن شرعی اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص ایصال ثواب کے لئے دن مقرر کرلیتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس دن کے علاوہ ایصال ثواب نہیں ہوسکتا، یا جو ثواب اس وقت ہے وہ کسی اور وقت میں نہیں ہوسکتا، تو یہ تعین شرعی ہوگا ، اس کے ناجائز ہونے میں کوئی شک نہیں، تعین شرعی شارع کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے، کسی شخص کو اپنے طور پر مقرر کرنے کا کوئی حق نہیں ۔


تعیّن عرفی اسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بعض سہولتوں کے پیش نظر کوئی دن یا وقت ایصال ثواب کے لئے مقرر کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دوسرے اوقات میں بھی ایصال ثواب ہوسکتا ہے اور تمام اوقات میں ثواب یکساں پہنچتا ہے تو یہ تعین عرفی ہے، اسے ناجائز کہنا کسی طرح درست نہیں ۔


حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ نے اپنے وعظ کے لئے جمعرات کا دن مقرر فرمایا تھا ، لوگوں نے عرض کیا کہ آپ روزانہ وعظ فرمایا کیجئے ، فرمایا تم کو تنگی میں ڈالنا مجھ کو پسند نہیں ۔ (مشکوٰۃ، باب العلم)


ہر دن ہر تاریخ کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے ، گیارھویں یعنی ایصال ثواب چاہے دس تاریخ کو کریں،چاہے گیارہ کو ، چاہے بارہ تاریخ کو ، چاہے تیرہ تاریخ کو ، کسی بھی تاریخ کو کرلیں ، کسی دن بھی منع نہیں، دراصل ان لوگوں کو لفظ ’’گیارھویں‘‘ سے چڑ ہوگئی ہے اور کوئی بات نہیں ، اور یہ خواہ مخواہ کی چڑ اور ضد ہے ، اس بے عقلی کا کوئی علاج نہیں ، ﷲ کریم ہی ہدایت فرمائے آمین ۔


رہا تعین طعام تو یہ بھی فضول اعتراض ہے ، آپ جو مرضی ہو پکا لیں یا آپ کچھ نہ پکائیں ، کسی کھانے کا اہتمام نہ کریں ، صرف سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص یا جتنا بھی قرآن کریم پڑھ سکیں ، اس کا ایصال ثواب کردیں ، مگر سچ بات یہ ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے ، صرف اعتراض ہی اعتراض ہے ۔


کسی جائز کام کے لئے دن تاریخ مقرر کرنے کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ مقرر ہ دن یاد رہے ، دن مقرر ہوگا تو سب لوگ جمع بھی ہوجائیں گے اورمل کر یہ کام کریں گے ، اگر کوئی وقت مقرر نہ ہو تو بخوبی یہ کام نہیں ہوتے ، کوئی کسی دن آئے گا اور دوسرا کسی اور دن آئے گا ، انتظامی امور کے لئے ایسا کام درست طریقہ سے سر انجام نہیں ہو پاتا اور اہتمام کرنے والا بھی پریشان ہوتا ہے ، محض سہولت کے لئے ہر اسلامی مہینے کی گیارہ تاریخ حضور غوث اعظم رضی ﷲ عنہ کو ایصال ثواب کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے ، تاکہ دوست احباب کو ہر ماہ اطلاع نہ کرنی پڑے ، تاریخ مقرر کرنے کا یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ اس تاریخ سے آگے یا پیچھے کسی تاریخ کو یا اس کے علاوہ کسی اور دن کو ثواب نہیں پہنچتا ، یہ عقیدہ نہیں ہوتا ، سال کے سارے دن ثواب کے لئے جائز ہیں ، اکثر جگہ گیارہ تاریخ کے بجائے دوسری تاریخوں میں ایصال ثواب کیا جاتا ہے ، مگر اس ایصال ثواب کو اس دن بھی گیارھویں ہی کہتے ہیں ، مقصد تو ایصال ثواب ہے ۔


تعیّن تاریخ اور علمائے د یوبند


علمائے دیوبند کے پیرومرشد حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی رحمۃ ﷲ علیہ فرماتے ہیں : ’’ رہا تعین تاریخ ، یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے کہ جو امر کسی خاص وقت میں معمول ہو تو اس وقت وہ یاد آجاتا ہے اور ضرور ہو رہتا ہے ، اور نہیں تو سالہا سال گزر جاتے ہیں کبھی کبھی خیال بھی نہیں ہوتا ، اسی قسم کی مصلحتیں ہر امر میں ہیں جن کی تفصیل طویل ہے محض بطور نمونہ تھوڑا سا بیان کیا گیا ذہین آدمی غور کرکے سمجھ سکتا ہے اور قطع نظر مصالح مذکور کے ان میں بعض اسرار بھی ہیں ، پس اگر یہی مصالح بنائے تخصیص ہوں تو کچھ مضائقہ نہیں‘‘ ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ، مطبوعہ مجتبائی کانپور، ص۶،چشتی)


غیر مقلدین کا عقیدہ تعیّن یوم کے بارے میں


غیر مقلدین بھی یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ ﷲ اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس بات کا تعین کردیا وہی درست ہے ، اپنی طرف سے کسی کام کے لئے کوئی وقت ، دن اور تعداد مقرر کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔


اہل سنت اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ تعین شرعی نہیں بلکہ یہ تعین عرفی ہے ، لیکن غیر مقلدین اس وضاحت کو بھی نہیں مانتے ، ﷲ کریم ہدایت دے ، درج ذیل میں غیر مقلدین کے تحریر کردہ ایک عمل کے لئے عرفی طور پر وقت اوردنوں کی تعداد مقرر کرنے کے بارے میں ایک حوالہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔


غیر مقلد عالم محمد ابراہیم صادق میر سیالکوٹی نے اپنی مشہور کتاب’’صلوٰۃ الرسول‘‘ میں آیت کریمہ ’’لا اِلٰہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظالمین ‘‘کے تین عمل درج کئے ہیں ، پہلے عمل کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہر روز رات کو بعد نماز عشاء ایک ہزار بار پڑھیں ، اوّل آخر تین تین بار درود شریف ، بارہ روز تک پڑھیں (اگر کام نہ ہو تو) چالیس روز پڑھیں ۔


دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چالیس روز میں سوا لاکھ بار پڑھیں ، ہر روز تین ہزار ایک سو پچیس بار پڑھیں ۔


تیسرا طریقہ یہ ہے کہ نماز عشاء کے بعد تاریک مکان میں بیٹھ کر ایک پانی کا پیالہ بھر کر آگے رکھ لیں اور دعا تین سو بار پڑھیں، ہر سو بار پڑھنے کے بعد ہاتھ پانی میں ڈال کر منہ اور بدن پر پھیرتے رہیں، جب پڑھ چکیں تو اکتالیس بار درود شریف پڑھیں، اسی طرح اکتا لیس روز تک یہ عمل کریں ‘‘ ۔ (صلوٰۃ الرسول، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ، حق سٹریٹ اُردو بازار، لاہور، ص ۴۵۰، ۴۵۱،چشتی)


اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کریمہ پڑھنے کے ان تین طریقوں میں وقت، تعداد اور دنوں کا جو تعیّن ہے ، یہ تعین شرعی ہے یا عرفی ہے؟ اور یہ تعین قرآن مجید کی کس آیت سے ثابت ہے؟ اگر قرآن میں نہیں تو حدیث کی کس کتاب میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ طریقہ منقول ہے؟ اور گیارھویں کے ساتھ لفظ ’’شریف‘‘ کہنے پر اعتراض کرنے والوں سے یہ بھی سوال ہے کہ اس عمل میں لفظ دُرود کے ساتھ شریف کا لفظ کس حدیث سے ثابت ہے ؟ ۔


ایک شُبہ کا ازالہ گیارھویں کے متعلق کسی ذہن میں یہ شُبہ آسکتا ہے کہ جب کسی چیز پر غیر ﷲ کا نام آجائے تو وہ حرام ہوجاتی ہے ، کیونکہ قرآن مجید میں ہے ’’ وما اھل بہٖ لغیر ﷲ ‘‘ یعنی جس پر غیر ﷲ کانام پُکارا جائے وہ حرام ہے ، تو جس صدقہ وخیرات کے متعلق یہ کہا جائے کہ حضور غوث پاک کے لئے ہے ، وہ اس آیت کی رو سے حرام ہے ۔


وما اھل بہٖ لغیر ﷲ‘‘ کی تفسیر بعض لوگ اس آیت کی تفسیر میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کی ’’تفسیر عزیزی‘‘ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ایصال ثواب کی خاطرجس جانور کی نسبت کسی بزرگ کی طرف کردی ہو وہ حرام ہے اگرچہ اسے ذبح کرتے وقت ﷲ تعالیٰ کا ہی نام لیا جائے ۔


اس مسئلہ کی وضاحت میں ضیغم اسلام استاذی المکرّم علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمة ﷲ علیہ نے تفسیر عزیزی اور فتاویٰ عزیزی کی داخلی شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے نزدیک وہی جانور حرام ہے جس کے ذبح کے وقت غیر ﷲ کا نام لیا گیا ہو ، محض کسی بزرگ کی نسبت کردینے سے جانور حرام نہیں ہوجاتا، ذیل میں علامہ کاظمی کے رسالہ مبارکہ’’ تصریح المقال فی حل امر الاہلال‘‘ سے اس بحث کا خلاصہ نقل کیا جاتا ہے ۔


حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے تفسیر عزیزی میں انواع شرک کے تحت مشرکین کے چند فرقے شمار کئے ہیں، ان میں چوتھا فرقہ پیر پرستوں کا ہے، اس کے متعلق محدث دہلوی نے فرمایا! چوتھا گروہ پیر پرست ہے، جب کوئی بزرگ کمال ریاضت اور مجاہدہ کی بنا پر ﷲ تعالیٰ کے ہاں مقبول دعائوں اور مقبول شفاعت والا ہوکر اس جہان سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کی روح کو بڑی قوت و وسعت حاصل ہو جاتی ہے، جو شخص اس کے تصور کو واسطہ فیض بنا لے یا اس کے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ یا اس کی قبر پر سجدہ اور تذلل تام کرے (اس جگہ اصل عبارت یہ ہے) ’’ یا در مکان نشست و برخاست او، یا بر گور او سجود و تذلل تام نماید‘‘تو اس بزرگ کی روح وسعت اور اطلاق کے سبب خود بخود اس پر مطلع ہوجاتی ہے اور اس کے حق میں دنیا و آخرت میں شفاعت کرتی ہے ۔ (شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، تفسیر عزیزی: دہلی ،لال کنواں ، س ن ، صفحہ ۱۲۷ سورۃ البقرہ)


یہ گروہ واقعی مشرک تھا جو قبروں پر تذلل تام کے ساتھ سجدہ کرتا تھا، علامہ ابن عابدین شامی حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں! ’’العبادۃ عبارۃ عن الخضوع والتزلل‘‘ (شامی ، ابن عابدین شامی، ردالمحتار [ج۲] : قاہرہ ، س ن ، ص۲۵۷) ۔ ترجمہ ۔ خضوع اور تذلل تام کو عبادت کہتے ہیں ۔


آج کل کے خوارج کی ستم ظریفی ہے کہ وہ اولیاء ﷲ کے عقیدت مند اہل سنت و جماعت کو پیر پرست کہہ کر مشرک قرار دیتے ہیں، حالانکہ عامۃ المسلمین عبادت اور انتہائی تعظیم صرف ﷲ تعالیٰ کے مانتے ہیں کسی دوسرے کے لئے نہیں ، حضرت شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ کا روئے سخن اُس گروہ مشرکین کی طرف ہے، ان کا طریقہ یہ تھا کہ جانور کی جان دینے کی نذر شیخ سدّو وغیرہ کے لئے مانتے اور اس کی تشہیر کرتے تھے، پھر اسی نیت کے تحت شیخ سدو وغیرہ کے لئے خون بہانے کی نیت سے اسے ذبح کرتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ ذبح کسی طرح حلال نہیں ہو سکتا، کم فہم لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ حضرت شاہ صاحب نے محض کسی بزرگ کی طرف نسبت کرنے کی بنا پر ان جانوروں کو حرام قرار دیا ہے، حالانکہ یہ قطعاً باطل ہے اور شاہ صاحب پر بہتان صریح ہے ۔


شاہ صاحب نے تفسیر عزیزی میں اپنے موقف کی وضاحت کے لئے تین دلیلیں پیش کی ہیں!


پہلی دلیل : یہ حدیث ہے ’’ ملعون من ذبح لغیرﷲ‘‘ ملعون ہے جس نے غیرﷲ کے لئے ذبح کیا، اس حدیث میں صراحتہً لفظ ذبح مذکور ہے۔


دوسری دلیل : عقلی ہے اس میں یہ تصریح ہے’’ وجان ایں جانور ازاں غیر قرار دادہ کشتہ اند‘‘ یعنی اس جانور کی جان غیر کی ملک قرار دے کر اس جانور کو ذبح کیا ہے، اس عبارت میں دو باتیں ہیں۔ ۱۔جانور کی جان غیر کے لئے مملوک قرار دی۔ ۲۔ اس کو ذبح کیا۔


صاف ظاہر ہے کہ اس جانور میں اس لئے خبث پیدا ہوا کہ اسے غیر کے لئے ذبح کیا گیا ہے۔


تیسری دلیل : تفسیر نیشا پوری کی ایک عبارت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور ذبح کیا اور اس ذبح سے غیر ﷲ کا تقرب (بطور عبادت) مقصود ہو تو وہ مرتد ہو گیا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہے۔


اس عبارت میں بھی غیرﷲ کے تقرب کی نیت سے ذبح کا ذکر ہے، ثابت ہوا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ محض کسی ﷲ تعالیٰ کے بندے کی نسبت کے مشہور کردینے کو حرمت کا سبب قرار نہیں دیتے بلکہ ان کے نزدیک غیرﷲ کے لئے ذبح کرنے سے جانور حرام ہوتا ہے اور یہی تمام امت مسلمہ کا عقیدہ ہے۔


حضرت شاہ صاحب نے ’’اُھل‘‘ کا ترجمہ اگرچہ اصل لغت کے اعتبار سے یہ کیا کہ آواز دی گئی ہو اور شہرت دی گئی ہو، لیکن اس سے ان کی مراد وہی شہرت ہے جس پر ذبح واقع ہو، چنانچہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سورۂ بقرہ میں ’’وما اھل بہٖ لغیرﷲ‘‘میں ’’بہٖ‘‘ لغیر ﷲ سے پہلے ہے، جب کہ سوۂ مائدہ، سورہ ٔانعام اور سورہ ٔ نحل میں ’’لغیرﷲ‘‘ پہلے ہے اور ’’بہٖ‘‘ موخر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’بائ‘‘ فعل کو متعدی کرنے کے لئے ہے اور اصل یہ ہے کہ باء فعل کے ساتھ متصل ہو اور دوسرے متعلقات سے پہلے ہو، اس جگہ تو باء اپنے اصل کے مطابق لائی گئی ہے، دوسری جگہوں میں اس چیز کو پہلے لایا گیا ہے، جو جائے انکار ہے۔ ’’پس ذبح بقصد غیر ﷲ مقدم آمدہ‘‘ترجمہ ۔ لہذا غیرﷲ کے ارادے سے ذبح کرنے کا ذکر پہلے آیا ہے۔(محدّث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز،تفسیر عزیزی: دہلی ،لال کنواں ، س ن ، ص ص۶۱۱)


اب اگر ’’اھل‘‘ سے مراد ذبح نہیں ہے تو یہ کہنا کیسے صحیح ہوگا کہ سورۂ بقرہ کے علاوہ باقی سورتوں میں غیرﷲ کے ارادے سے ذبح کرنے کا ذکر پہلے ہے حالانکہ باقی سورتوں میں بھی ذبح کا ذکر نہیںہے بلکہ ’’اُھِلَ‘‘ ہی کا ذکر ہے، ثابت ہوا کہ خود شاہ صاحب کے نزدیک لغیرﷲ کا مرادی معنی غیرﷲ کے لئے ذبح کرنا ہی ہے۔


مزید تائید کے لئے شاہ صاحب کی ایک اور تحریر ملاحظہ ہو، سوال یہ ہے کہ حضرت سید احمد کبیر کے لئے نذر مانی ہوئی گائے حلال ہے یا حرام؟۔ اس کے جواب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں ! ’’ذبیحہ کی حلّت اور حرمت کا دارومدار ذبح کرنے والے کی نیت پر ہے اگر تقرب الی ﷲ کی نیت سے یا اپنے کھانے کے لئے یا تجارت اور دوسرے جائز کاموں کے لئے ذبح کرے تو حلال ہے ورنہ حرام‘‘۔ (شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی [ج۱] :دہلی ، مطبع مجتبائی ، ۱۳۲۲ھ، ص۲۱،چشتی)


غور فرمائیں کہ حضرت سید احمد کبیر کے لئے نذر مانی ہوئی گائے کو انہوں نے حرام نہیں کہا، اگر محض تشہیر اور نذر لغیرﷲ موجب حرمت ہوتی تو صاف کہہ دیتے کہ حرام ہے، یوں نہ کہتے کہ ذبح کرنے والے کی نیت اور قصد پر دارومدار ہے۔شاہ صاحب اس جواب میں آگے چل کر فرماتے ہیں!’’یعنی ان کی نیت تقرب الیٰ غیرﷲ وقت ذبح تک دائم و مستمر رہتی ہے‘‘۔(شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی [ج۱] :دہلی ، مطبع مجتبائی ، ۱۳۲۲ھ، ص۲۴)


ثابت ہوا کہ صرف نیت تعظیم لغیرﷲ موجب حرمت نہیں، جب تک کہ وہ نیت وقت ذبح تک دائم وباقی رہے۔


اس مسئلہ میں یہی شاہ صاحب اسی فتاویٰ عزیزی میں فرماتے ہیں!’’جب خون بہانا تقرب الیٰ غیرﷲ کے لئے ہو تو ذبیحہ حرام ہو جائے گا، اور جب خون بہانا ﷲ کے لئے ہو اور تقرب الیٰ غیر کھانے اور نفع حاصل کرنے کے ساتھ مقصود ہو تو ذبیحہ حلال ہوجائے گا‘‘۔(شاہ عبدالعزیز، فتاویٰ عزیزی [ج۱] :دہلی ، مطبع مجتبائی ، ۱۳۲۲ھ، ص۴۷،چشتی)


دیکھئے حلت وحرمت ذبیحہ میں کتنا روشن فیصلہ ہے، اس کے باوجود بھی اگر یہ کہا جائے کہ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ ﷲ علیہ محض تشہیر لغیرﷲ کو جانور کے حرام ہونے کی علّت قرار دیتے ہیں، تو ایسا کہنا یقیناً شاہ صاحب پر افتراء عظیم ہوگا، ان کے نزدیک آیۂ کریمہ’’وما اھل بہ لغیرﷲ‘‘ کے مرادی معنی قطعاً یہی ہیں کہ جس جانور پر’’عندالذ بح اہلال لغیر ﷲ‘‘ کیا جائے۔


آخر میں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت شاہ صاحب عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ ﷲ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اولیاء کے لئے کوئی جانور نذر مانے ، ان سے کہا جائے کہ اس جانور کی بجائے گوشت لے کر اپنی نذر پوری کردو، اگر وہ راضی ہو جائیں تو وہ اپنے اس قول میں سچے ہیں کہ ہماری نیت غیرﷲ کے لئے خون بہانے کی نہ تھی، ورنہ سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کی نیت یہی ہے غیر ﷲ کی تعظیم کے لئے خون بہایا جائے، شاہ صاحب رحمتہ ﷲ علیہ کے اس فرمان کے مطابق اس زمانے میں بھی اسی معیار پر جواز و عدم جواز کا حکم لگانا چاہئیے۔


اس شبہ کا ازالہ یہی ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمتہ ﷲ علیہ کا مقرر کردہ معیار مذکور ان لوگوں کے حق میں تو درست ہوسکتا ہے جو قبور کی عبادت کرتے تھے اور خودحضرت شاہ صاحب رحمتہ ﷲ علیہ نے انہیں گروہ مشرکین میں شمار کیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل تفسیر عزیزی جلد اول صفحہ ۱۲۷ کی عبارت ہم نقل کرچکے ہیں ،لیکن مسلمانوں کے حق میں یہ معیار کسی طرح درست نہیں ہوسکتا، نہ ہی حضرت شاہ صاحب رحمتہ ﷲ علیہ نے مومنین کے لئے یہ معیار بیان فرمایا ہے، اس لئے مومن از روئے قرآن شریف اس بات پر ایمان رکھتا ہیکہ’’لن تنالو البر حتیٰ تنفقون مما تحبون‘‘(تم ہر گز نیکی نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز ﷲ کی راہ میں خرچ نہ کرو) اور ظاہر ہے کہ پالے ہوئے جانور سے جو محبت ہوتی ہے، وہ خریدے ہوئے جانور یا گوشت سے نہیں ہوسکتی، اس لئے جو نیکی اور ثواب پالے ہوئے جانوروں کو ذبح کرکے ایصال ثواب کرنے سے حاصل ہوگا ، وہ اس کے علاوہ دوسری چیز سے نہیں ہوسکتا۔


علاوہ ازیں اس میں شک نہیں کہ ہر ذبیحہ خواہ وہ اپنے کھانے کے لئے ذبح کیا جائے یا بیچنے کے لئے یا قربانی کے لئے اس کے حلال اور پاک ہونے کی شرط یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ کا نام لے کر اس کا خون خالص ﷲ تعالیٰ کی تعظیم کے لئے بہایا جائے اور ظاہر کہ ﷲ کا ذکر اور اس کی تعظیم کے لئے جو کام کیا جائے وہ نیکی اور اطاعت ہے، لہذا ہر وہ فعل (جس سے تعظیم خداوندی مقصود ہو) نیکی قرار پائے گا، اور ہر مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنی نیکی کا ثواب کسی مسلمان کو بخش دے، لہذا صرف گوشت میں محض گوشت کا ثواب اس بزرگ کی روح کو پہنچے گا اور جانور ذبح کرنے میںگوشت کے علاوہ فعلِ ذبح کا جو ثواب ذابح کو ملا وہ بھی اس بزرگ کی روح کو پہنچ سکتا ہے۔


پس اگر ان وجوہات کی بنا پر کوئی مسلمان جانور کے عوض گوشت لینے پر راضی نہ ہو، تو اس سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ مامن معاذﷲ ولی کی تعظیم و تقرب کے لئے جانور کا خون بہانے کی نیت رکھتا ہے، نیت فعل قلب ہے، جب باطن کا حال ہمیں معلوم نہیں تو ہم کس طرح مسلمان پر معصیت کا حکم لگا دیں، مومن کے حق میں بد گمانی کرنا حرام ہے‘‘ ۔


یہ خلاصہ ہے حضرت غزالئی زماں استاذی المکرّم علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہوی محدّث ملتانی قدس سرہٗ (متوفی۱۹۸۶ئ) کی تحقیق کا ، یاد رہے کہ یہ گفتگو اس وقت ہے جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ عبارت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کی ہے اور اگر اس عبارت کو الحاقی قرار دیا جائے جیسے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ ﷲ علیہ کے شاگرد حضرت شاہ رئوف احمد رافت نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ نے فرمایا ، تو پھر اس گفتگو کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔


حضرت شاہ رؤف احمد رافتؔ نقشبندی مجددی رحمۃ ﷲ علیہ ۱۴؍محرم ۱۲۰۱ھ/ ۱۷۸۶ء کو رام پور(یوپی۔بھارت) میں پیدا ہوئے،حدیث کی سند مولانا شاہ سراج احمد مجددی علیہ الرحمہ(متوفی ۱۲۳۰ھ/ ۱۸۱۵ئ) سے حاصل کی، بعض اعمال واوراد کی اجازت حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی سے حاصل کی، خرقہ خلافت شاہ غلام علی دہلوی نقشبندی مجددی علیہ الرحمہ سے پایا، اُردو میں قرآن مجید کی تفسیر رئوفی لکھی، جس کا آغاز ۱۲۳۹ھ میں ہوا اور ۱۲۴۸ھ میں اختتام ہوا، حج کے لئے گئے تو یلملم(میقات) کے قریب ۱۲۴۹ھ/ ۴ ۱۸۳ء میں وصال ہوا، آپ شاہ ابو سعید مجددی دہلوی علیہ الرحمہ (متوفی ۱۲۵۰ھ) کے خالہ زاد بھائی تھے اور حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی اولاد میں سے تھے۔(تذکرہ کاملان رام پور، از حافظ احمد علی شوق(متوفی ۱۹۳۳ئ)، مطبوعہ خدا بخش اورینٹل لائبریری، پٹنہ ، بھارت۱۹۸۶ئ، ص۱۴۳۔ اُردو نثر کے ارتقاء میں علماء کا حصہ، از ڈاکٹر محمد ایوب قادری، مطبوعہ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۸۸ئ، ص۴۴۵،چشتی)


آپ نے تفسیر عزیزی کی اس عبارت کو الحاقی قرار دیا، لکھتے ہیں : ’’ جاننا چاہئیے کہ تفسیر فتح العزیز میں کسی عدو نے الحاق کردیا ہے اور یوں لکھا کہ اگر کسی بکری کو غیر کے نام سے منسوب کیا ہو تو بسم ﷲ ﷲ اکبر کہہ کر ذبح کرنے سے وہ حلال نہیں ہوتی اور غیر کے نام کی تاثیر اس میں ایسی ہو گئی کہ ﷲ کے نام کا اثر ذبح کے وقت حلال کرنے کے واسطے بالکل نہیں ہوتا، سو یہ بات کسی نے ملادی ہے۔


خود مولانا ومرشدنا حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کبھی ایسا سب مفسرین کے خلاف نہ لکھیں گے اور ان کے مرشد اور استاد اور والد حضرت مولانا شاہ ولی ﷲ صاحب نے فوذ الکبیر فی اصول التفسیر میں مَا اُھِلَّ کا معنی مَاذ ُبِحَ لکھا ہے، یعنی ذبح کرتے وقت جس جانور پر بت کا نام لیوے سو حرام اور مردار کے جیسا ہے اور بسم ﷲ ، ﷲ اکبر کہہ کر ذبح کیا سو کیونکر حرام ہوتا ہے۔


بعضے نادان تو حضرت نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے مولد شریف کی نیاز، حضرت پیرانِ پیر کی نیاز اور ہر ایک شہداء اولیاء کی نیاز فاتحہ کے کھانے کو بھی حرام کہتے ہیں اور یہ آیت دلیل لاتے ہیں کہ غیر خدا کا نام جس پر لیا گیا سو حرام ہے، واہ واہ کیا عقل ہے ایسا کہتے ہیں اور پھر جاکر نیاز فاتحہ کا کھانا بھی کھاتے ہیں ‘‘۔ (شاہ رؤف احمد، تفسیر رئوفی، مطبوعہ بمبئی ۱۳۰۵ھ، جلد۱، ص۱۳۹)


شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی کی تالیفات میں تحریفات بعض لوگوں نے آپ کی زندگی ہی میں آپ کی کتابوں میں تحریف کردی تھی، چنانچہ شاہ ولی ﷲ دہلوی خاندان پر تحقیق میں سند کا درجہ رکھنے والے مشہور اہل علم ، محقق ، حکیم محمود احمد برکاتی لکھتے ہیں! ’’شاہ عبدالعزیز نے ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ کی تالیف ۱۲۰۴ھ/۱۷۹۰ء میں مکمل کی اور اس کی اشاعت ۱۲۱۵ھ/ ۱۷۹۹ء میں کلکتہ سے ہوئی تھی اور اس فوراً بعد تحفہ کی عبارات میں تحریف کے سلسلے کا آغاز ہوگیا، ایک معتقد نے لکھنؤ سے ایک ایسی محرفہ اور خلاف عقیدہ اہل سنت عبارت’’تحفہ‘‘ کے ایک نسخہ میں دیکھ کر شاہ صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھ کر خلش دور کرنے کی درخواست کی تو شاہ صاحب نے جواب میں تحریر فرمایا کہ!’’وتعریضات درباب معاویہ رضی ﷲ عنہ ازیں فقیر واقع نشدہ اگر نسخہ از تحفہ اثنا عشریہ یافتہ شد الحاق کسے خواہد بود کہ بنا بر فتنہ انگیزی وکید ومکر کہ بنا مذہب ایشاں یعنی گروہ رفضہ از قدیم برہمیں امور است ایں کار کردہ باشد چنانچہ بسمع فقیر رسیدہ کہ الحاق شروع کردہ اند ﷲ خیر حافظا وایں تعریضات در نسخ معتبرہ التبتہ یافتہ نخواہد شد‘‘۔(برکاتی ،حکیم محمود احمد، شاہ ولی ﷲ اور ان کا خاندان:لاہور، مجلس اشاعت اسلام ،۱۹۷۶ئ، ص۵۷ بحوالہفضائل صحابہ واہل بیت مع مقدمہ پروفیسر محمد ایوب قادری طبع لاہور،چشتی)


ترجمہ ۔ اور حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ پر چوٹیں میں نے نہیں کیں، اگر تحفہ اثنا عشریہ کے کسی نسخے میں ایسی عبارتیں ہیں تو وہ کسی نے اپنی طرف سے بڑھا دی ہوں گی، کیونکہ روافض کے مذہب کے مذہب کی بنیاد ہی شروع ہی سے فتنہ انگیزی اور مکرو قید پر ہے، یہ کام بھی انہوں نے کیا ہوگا، چنانچہ میں نے سنا ہے کہ تحفہ میں بھی انہوں نے الحاق شروع کردیا ہے۔


قاری عبدالرحمن پانی پتی(متوفی ۱۳۱۴ھ/ ۱۸۹۶ئ) شاگرد رشید شاہ محمد اسحاق دہلوی(متوفی۱۲۶۲ھ/ ۱۸۴۵ئ) اپنی کتاب ’’کشف الحجاب‘‘ میں لکھتے ہیں !’’اور ایسا ہی ایک اور جعل( غیر مقلدین) کرتے ہیں کہ سوال کسی مسئلہ کا بنا کر اور اس کا جواب موافق اپنے مطلب کے لکھ کر علمائے سابقین کے نام سے چھپواتے ہیں، چنانچہ بعض مسئلے مولانا شاہ عبدالعزیز کے نام سے اور بعض مسئلے مولوی حیدر علی کے نام سے علی ہذا القیاس چھپواتے ہیں ‘‘۔ (پانی پتی ،قاری عبدالرحمن، کشف الحجاب: لکھنؤ ،۱۲۹۸ھ، ص۹ ، چند سال ہوئے اس رسالہ کو مرکزی جماعت القراء پاکستان، کراچی نے حکیم محمود احمد برکاتی کی تقدیم کے ساتھ شائع کردیا ہے)


علامہ ابوالحسن زید فاروقی دہلوی (متوفی۱۹۹۳ئ) کتاب ’’القول الجلی‘‘ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں ! ’’ افسوس مولوی اسماعیل کے پیروان اس کام میں بہت بڑھ گئے ہیں، حضرت شاہ ولی ﷲ، حضرت شاہ عبدالعزیز کی تحریرات ومکتوبات، حضرت شاہ عبدالقادر کا ترجمہ قرآن اور ان کی کتابیں، حضرت مجدد الف ثانی، ان کی اولاد، حضرت شاہ غلام علی، حضرت شاہ علم ﷲ رائے بریلوی اور دیگر اکابرین کے احوال میں بہت سی تحریفات کرکے محمد بن عبدالوہاب نجدی اور مولوی اسماعیل کا ہمنوا سب کو قرار دیا، ﷲ تعالیٰ اس کتاب’’القول الجلی‘‘ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھے اور یہ کتاب بلا کسی تصرف کے چھپے‘‘۔(فاروقی ،شاہ ابوالحسن زید، مقدمہ القول الجلی: دہلی ، شاہ ابوالخیر اکادمی ،۱۹۸۶ئ،ص۵۵۲ )


شاہ ولی ﷲ دہلوی کے خاندان کے ایک فرد اور ان کی تصانیف کے مشہور ناشر ظہیر الدین سید احمد ولی اللّٰہی ، نبیسۂ شاہ رفیع الدین دہلوی ، جنہوں نے شاہ ولی ﷲ دہلوی کی تصانیف کی بڑی تعداد طبع وشائع کرکے وقف عام کی ہے، انہوں نے سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دلائی، چنانچہ وہ شاہ ولی ﷲ صاحب کی ایک کتاب’’تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیائ‘‘ کے آخر میں لکھتے ہیں !’’بعد حمدوصلوٰۃ کے بندہ محمد ظہیر الدین عرف سید احمد اوّل گذارشکرتا ہے بیچ خدمت شائقین تصانیف حضرت شاہ ولی ﷲ صاحب ومولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمتہ ﷲ علیہ وغیرہ کا آجکل بعض لوگوں نے بعض تصانیف کو اس خاندان کی طرف منسوب کردیا ہے اور درحقیقت وہ تصانیف اس خاندان میں سے کسی کی نہیں، اور بعض لوگوں نے جو ان کی تصانیف میں اپنے عقیدے کے خلاف بات پائی تو اس پر حاشیہ جڑا اور موقعہ پایا تو عبارت کو تغیّر وتبدیل کردیا، تو میرے اس کہنے سے یہ عرض ہے کہ جو اب تصانیف ان کی چھپیں، اچھی طرح اطمینان کرلیا جائے جب خریدنی چاہیں‘‘۔ (قادری ، محمد ایوب، شاہ ولی ﷲ کی منسوب تصانیف: مشمولہ : الرحیم (ماہنامہ) : حیدرآباد ، شمارہ ،جون ۱۹۶۴ئ، ص۲۰۔بحوالہ ’’تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیائ‘‘ از شاہ ولی ﷲ دہلوی، مطبوعہ مطبع احمدی، کلاں محل متعلق مدرسہ عزیزی دہلی، باہتمام ظہیر الدین ولی اللَّہی،سن طباعت ندارد)


مشہور محقق حکیم محمود احمد برکاتی صاحب لکھتے ہیں! ’’مولوی سید احمد ولی اللّٰہی شاہ عبدالعزیز کے ملفوظات مطبوعہ میرٹھ کو جعلی بتایا ہے۔(انفاس العارفین مطبوعہ مطبع احمدی دہلی، صفحہ آخر) ہماری ناقص رائے میں مولوی سید احمد کی یہ رائے کلیتہً تو صحیح نہیں ہے، ملفوظات شاہ صاحب کے ہی ہیں، مگر ان میں الحاق ضرور ہوا ہے اور بعض فحش اشعار اور فحش واقعات درج کردئیے گئے ہیں‘‘۔ (برکاتی ،حکیم محمود احمد، شاہ ولی ﷲ دہلوی اور ان کا خاندان : لاہور،مرکز اشاعت اسلام،۱۹۷۶ئ، ص۵۷)


اہل سنت ، اولیاء کرام و بزرگانِ دین کے ساتھ محبت وعقیدت رکھتے ہیں، مگر انہیں اِلٰہ نہیں مانتے، کسی قسم کا استقلالِ ذاتی ان کے لئے ثابت نہیں کرتے، نہ انہیں مستحق عبادت جانتے ہیںاور نہ واجب الوجود، محض عباد ﷲ الصالحین سمجھتے ہیں اور جو جانور یا حصہ زراعت یا کوئی چیز از قسم نقد و جنس وغیرہ ان کے لئے مقرر کرتے ہیں، اس کو ان کا ہدیہ جانتے ہیں اور وصال یافتہ بزرگوں کے لئے ایصال ثواب کی نیت کرتے ہیں، اسی قصد ونیت کے ساتھ اگر وہ کسی جانور یا غیر جانور کو بزرگان دین کی طرف منسوب کرکے ان کے نام پر اسے مشہور بھی کردیں، تب بھی جائز ہے اور وہ چیز حلال اور طیّب ہے، اسے ما اھل بہٖ لغیرﷲ کے تحت لا کر حرام قرار دینا باطل محض اور گناہِ عظیم ہے۔


عہدِ رسالت میں صحابہ کرام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کھجوروں کے درخت اور دُودھ پینے کے جانور پیش کرتے تھے، جن کا ذکر احادیث صحیحہ میں مفصل موجود ہے، اسی طرح بعد از وفات بھی ایصال ثواب کے طور پر کسی چیز کا مقرر کرنا عہد رسالت میں پایا گیا ہے۔ ’’عَنْ سَعْد بن عَبَادَۃ اَنَّہٗ قَالَ یَا رَسُوْ لَ ﷲِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنَّ اُمِّ سَعْدِِ مَاتَتْ فَاَیُّ الْصَّدَقَۃِ افضلُ قَالَ الْمَائُ فَحفَرَا بَئرًاوَقَالَ ھٰذِہٖ لِاُمِّ سَعْد‘‘ ۔


حضرت سعدبن عبادہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمِ سعد (سعد کا ماں) کا انتقال ہوگیا ، پس اُن کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پانی، پس سعد نے کنواں کھدوایا ، اورکہا یہ کنواں سعد کی ماں کے لئے ہے ۔ (سنن ابودائود، کتاب الزکوٰۃ ، ج۱، ص۲۳۶۔ مشکوٰۃ، ص۱۶۹،چشتی)


اگر کسی وصال یافتہ بزرگ کے لئے کسی چیز کا نامزد کرنا موجب حرمت قرار دیا جائے تو معاذ ﷲ وہ کنواں جو اُم سعد رضی ﷲ عنہا کے نام سے مشہور ہوا، وہ حرام اور اس کا پانی نجس قرار پائے گا۔


اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس صدقے کا ثواب کسی فوت شدہ کو پہنچانا مقصود ہو تو اس صدقہ کو اس شخصیت سے منسوب کرنا جائز ہے اور اہل علم پر یہ بات روشن ہے کہ اس نسبت سے مراد نسبتِ عبادت نہیں بلکہ ایصال ثواب کے حوالے سے نسبت کی جاتی ہے، حضرت سعد رضی ﷲ عنہ نے جو کنواں کھوایا اور لوگوں کے لئے بطور صدقہ وقف کیا تو یہ عبادت ﷲ کے لئے ہے اور اس کا ثواب ان کی والدہ کے لئے ہے۔


مولوی ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد کے فتاویٰ ثنائیہ میں بھی حدیث کے الفاظ’’ھذہ لام سعد‘‘ کا معنی یہی کیا گیا ہے کہ ’’ کنویں کا ثواب سعد کی ماں کے لئے‘‘۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اوّل،مطبوعہ ادارہ ترجمان السنۃ ،۷؍ ایبک روڈ لاہور، ص۱۰۸)


ایصال ثواب کی چیز پر لفظ نذرو نیاز کا اطلاقبزرگوں کے نام پر جو جانور وغیرہ مشہور کئے جاتے ہیں اگر ان جانوروں پر اولیاء ﷲ کے لئے نذر شرعی مانی جائے جو حقیقتاً عبادت ہے تو ناذر یعنی نذر دینے والامرتد ہے، لیکن اس کے اس شرک کی وجہ سے وہ جانور حرام نہیں ہوگاجب تک کہ وہ اسے بقصد تقرب لغیرﷲ ذبح نہ کرے، اور اگر اولیاء کی نذر محض نذر لغوی یا عرفی بمعنی ہدیہ ، تحفہ اور نذرانہ ہویا وصال یافتہ بزرگ کے لئے بقصد ایصال ثواب کوئی جانور وغیرہ نامزد کردیا اور نذر شرعی ﷲ تعالیٰ کے لئے ہو تو یہ فعل شرعاً جائز اور باعثِ خیروبرکت ہے۔


نذر لغیرﷲ کا مدار ناذر کی نیت پر ہے، اگر ناذر نے تقرب لغیرﷲ کا قصد کیا اور متصرف فی الامور ﷲ تعالیٰ کی بجائے کسی مخلوق کو مانا تو یہ نذر کفروشرک ہے، اور اگر اس کا ارادہ تقرب الی ﷲ ہے اور بزرگان دین کو ثواب پہنچانا مقصود ہے تو ایسی نذر اولیاء کے لئے قطعاً جائز ہے اور اس کا نذر ہونا مجازاً ہے ، کیونکہ نذر حقیقی ﷲ کے لئے خاص ہے۔


جو لوگ نذر اولیاء کو شرک قرار دیتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ اس نذر سے مراد نذر شرعی نہیں بلکہ اسے بربنائے عرف نذر کہا جاتا ہے اور اس ایصال ثواب اور ہدیہ کو نذر کہنا شرعاً جائز ہے۔


حضرت شاہ ولی ﷲ محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ کا مسلکحضرت شاہ ولی ﷲ محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ اپنی کتاب’’انفاس العارفین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ حضرت والد ماجد (شاہ عبدالرحیم) رحمۃ ﷲ علیہ قصبہ ڈاسنہ میں مخدوم ﷲ دیا کی زیارت کو گئے، رات کا وقت تھا، اس جگہ فرمایا کہ مخدوم ہماری ضیافت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کچھ کھا کر جانا، حضرت نے توقف فرمایا، یہاں تک کہ آدمیوں کا نشان منقطع ہوگیا، ساتھی اُکتا گئے، اس وقت ایک عورت اپنے سر پر چاول اور شیرینی کا طبق لئے ہوئے آئی اور کہا میں نے نذر مانی تھی کہ جس وقت میرا خاوند آئے گا اس وقت یہ کھانا پکا کر مخدوم ﷲ دیا رحمۃ ﷲ علیہ کے دربار میں بیٹھنے والوں کو پہنچائوں گی ، وہ اسی وقت آیا تو میں نے اپنی نذر پوری کی‘‘۔ (انفاس العارفین(فارسی،چشتی)، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ کچہری روڈ ملتان۱۹۶۳ء ، ص۴۴)


حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا مسلک حضرت سیدنا علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی نذر نیازحضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں! ’’ حضرت امیر و ذریت ورا تمام امت بر مثال پیران و مرشدان می پرستند و امور تکوینیہ را بایشاں وابستہ می دانند وفاتحہ ودرود وصدقات ونذر ومنت بنام ایشاں…رائج ومعمول گردیدہ چنانچہ باجمیع اولیاء ﷲ ہمیں معاملہ است‘‘۔


ترجمہ ۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کی اولاد پاک کو تمام افراد امت پیروں اور مرشدوں کی طرح مانتے ہیں، امور تکوینیہ کو ان کے ساتھ وابستہ جانتے ہیں اور فاتحہ درودوصدقات اور نذر نیاز ان کے نام کی ہمیشہ کرتے ہیں جیسا کہ تمام اولیاء کا یہی طریقہ ومعمول ہے‘‘۔ (محدث دہلوی ، شاہ عبدالعزیز، تحفہ اثناء عشریہ : لاہور ، سہیل اکیڈمی ۱۳۹۵ھ/ ۱۹۷۵ئ،ص۲۱۴ )،(مشہور دیوبندی ناشر نور محمد کارخانۂ تجارت کتب کراچی نے تحفہ اثناء عشریہ کا جو اردو ترجمہ شائع کیا ہے اس میں اس عبارت کا ترجمہ غائب کردیا ہے)۔


حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ اپنے فتویٰ میں فرماتے ہیں ! ’’ نذر اولیاء کہ جس کا بغرض حاجت روائی معمول ہے اور اس کا رسم ودستور ہوگیا ہے، اکثر فقہاء نے اس کو جائز نہیں رکھا ہے، بلکہ ان فقہاء نے یہ خیال کیا کہ جس طرح ﷲ تعالیٰ کو قادر مطلق جان کر اس کی نذر مانی جاتی ہے، اسی طرح عوام جہال ارواح کو قادر مطلق مثل خدا سمجھتے ہیں اور ان ارواح کی نذر مانتے ہیں، اس لحاظ سے ان فقہاء نے حکم دیا ہے کہ جو شخص ایسی نذر مانے وہ مرتد ہے، اور یہ کہا کہ اگر نذر بالاستقلال کسی ولی کے واسطے ہو تو باطل ہے۔


اور اگر نذر خدا کے واسطے ہو اور ولی کا ذکر صرف اس خیال سے ہو کہ مثلاً اس ولی کو ثواب رسانی کی جائے گی یا اس ولی کی قبر کے خدام کے مصرف میں اس نذر کا مال آئے گا، تو یہ نذر جائز ہے، اور حقیقت اس نذر کی یہ ہوگی کہ ﷲ تعالیٰ کی راہ میں کھانا کھلا دیا جائے یا مال بطور خیرات وغیرہ کے دیا جائے اور میت کی روح کو ثواب رسانی کی جائے اور یہ امر مسنون ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔


مثلاً صحیحین میں جو حال اُم سعد وغیرہ کا مذکور ہے، اس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے اور ایسی نذر لازم ہوجاتی ہے تو حاصل اس نذر کا یہی ہے کہ یہ نیت کی جائے کہ مثلاً کھانا کھلایا جائے گا یا اس قدر خیرات دی جائے گی اور اس کا ثواب فلاں ولی کی روح کو پہنچایا جائے گا، تو ذکر ولی کا صرف اس غرض سے ہوگا کہ یہ متعین ہوجائے کہ ثواب رسانی فلاں ولی کی روح کو کی جائے گی، اور یہ نیت نہ ہو کہ خاص وہ چیز اس ولی کے مصرف میں آئے گی ، اور ایسا بھی لوگ کرلیتے ہیں کہ وہ نذر اس ولی کے متوسلین کے مصرف میں آئے گی، مچلاً اس ولی کے قرابت مند اور اس کی قبر کے خادم اور اس کے مریدین وغیرہ کے مصرف میں وہ مال آئے گا، اور بلا شُبہ نذر ماننے والوں کو مقصود اکثر ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسی نذر کے بارہ میں حکم ہے کہ یہ نذر صحیح ہے، اس کو پورا کرنا واجب ہے، اس واسطے کہ شرع میں یہ قربت معتبرہ ہے، البتہ اس ولی کو یہ سمجھے کہ یہ ولی بالاستقلال حل کنندہ مشکلات ہے، یا یہ عقیدہ رکھے کہ اس کی سفارش سے نعوذ باﷲ من ذالک ضرور ﷲ تعالیٰ مجبور ہوکر حاجت روائی فرمائے گا، تو ایسی نذر میں البتہ شرک وفساد لازم ہے، مگر یہ عقیدہ دوسری چیز ہے اور نذر دوسری چیز ہے، یعنی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مطلقاً نذر منع ہوجائے، بلکہ جائز نذر کی جو صورت اوپر مذکور ہوئی ہے اس طور کی نذر بلا شبہ صحیح ہے اور اس کو پورا کرنا واجب ہے‘‘۔ (فتاویٰ عزیزی، مطبوعہ ایچ۔ ایم سعید کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی، ص۱۶۰)


حضرت شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ جو کہ اہلسنت کے امام اور تمام غیر مقلدین اور دیوبندیوں کے استاذ الاساتذہ اور ان کے نزدیک حجت اور اتھارٹی ہیں، انصاف پسند کے لئے ان کا فتویٰ اور فیصلہ کافی ہے، مگر اُمت میں تفرقہ پیدا کرنے والے شاید ان کے روشن فیصلہ کو بھی نہ مانیں، کیونکہ یہ لوگ خدا پرستی کو چھوڑ کر اپنی انا، ضد اور خواہش پرستی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم توحید پرست ہیں، حالانکہ معاملہ اس کے اُلٹ ہے، جولوگ عقلِ سلیم رکھتے ہیں وہ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں، ان لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی صرف پیٹ پرستی اور فرقہ بندی کو قائم رکھنے کے لئے ہے، لیکن صحیح عقیدہ رکھنے والوں کو فرقہ باز ہونے کا الزام دیتے ہیں، آج تو یہ دھاندلی چل جائے گی مگر روزِ محشر تو جواب دہ ہوں گے جس دن کھوٹا کھرا الگ ہوجائے گا، یقیناً وہ انصاف کادن ہے۔


حضرت شاہ رفیع الدین محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کا فیصلہ حضرت شاہ رفیع الدین محدّث دہلوی علیہ الرحمہ ایصال ثواب کی چیز پر نذر ونیاز کے اطلاق کے متعلق اپنے رسالہ’’نذورِ بزرگان‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’آنکہ لفظ نذر کہ آنجا مستعمل مے شود نہ بر معنی شرعی است کہ ایجاب غیر واجب است کہ آنچہ پیش بزرگان مے برندنذر ونیاز می گویند‘‘۔ ترجمہ۔ جو نذر کہ اس جگہ مستعمل ہوتی ہے وہ اپنے شرعی معنی پر نہیں بلکہ معنی عرفی پر ہے، اس لئے کہ جو کچھ بزرگوں کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں اس کو نذر ونیاز کہتے ہیں ۔ (مجموعہ رسائل تسعہ، مطبوعہ مطبع احمدی دہلی۱۳۱۴ھ، ص۲۱)


اسماعیل دہلوی کا عقیدہ


اسماعیل دھلوی بھی فوت شدگان کے ایصال ثواب کی چیزوں پر نذرونیاز کا اطلاق جائز سمجھتے ہیں ، وہ اپنی مشہور کتاب’’صراط مستقیم‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’پس در خوبی ایں قدر امر از امور مرسومہ فاتحہا واعراس ونذرونیاز اموات شک وشبہ نیست‘‘ترجمہ۔ رسوم میں فاتحہ پڑھنے، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر ونیاز کرنے کی رسموں کی خوبی میں شک وشبہ نہیں ‘‘۔ (صراط مستقیم(فارسی)، مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ، شیش محل روڈ، لاہور، ص۵۵)


حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی علیہ الرحمہ کا عقیدہ


مولوی اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : ’’جب مثنوی(مولانا روم) ختم ہوگئی، بعد ختم حکم شربت بنانے کا دیا اور ارشاد ہوا کہ اس پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی، گیارہ گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا، آپ نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں، ایک عجز وبندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائزوشرک ہے، دوسرے خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کوپہنچانا، یہ جائز ہے، لوگ انکار کرتے ہیں، اس میں کیا خرابی ہے‘‘۔ (شمائم امدادیہ(ملفوظات حاجی امدادﷲ مہاجر مکی)، مطبوعہ کتب خانہ شرف الرشید، شاہ کوٹ، ضلع شیخوپورہ(پنجاب۔پاکستان)، ص۶۸،چشتی)


معترضین کو جب یہ حوالے دکھائے جاتے ہیں تو دیکھا گیا ہے کہ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں اور چپ سادھ لیتے ہیں اور ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے پھنسائے ہوئے بھولے بھالے کم علم اہل سنت کو ان حوالوں کا علم نہ ہوجائے، اگر کوئی شخص یہ حوالے دکھا کر ان سے جواب پوچھے تو کہتے ہیں کہ جناب ان کتابوں کو چھوڑو، قرآن وحدیث کی بات کرو، ان کا یہ جواب صرف وقت ٹالنے کے لئے ہوتا ہے ورنہ حدیث اُم سعد سے تو اہل سنت کا عقیدہ ثابت ہے، جن علماء کے حوالے دئیے گئے ہیں ، کیا یہ قرآن وحدیث کے علم سے جاہل تھے؟ کبھی کہتے ہیں کہ جناب یہ کتابیں اپنی طرف سے جعلی بنا لی گئی ہیں، بے چارے بھولے بھالے لوگ ان کے دجل وفریب اور جھوٹی باتوں سے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ یہ مولوی صاحب ہیں، قاری صاحب ہیں، حافظ صاحب ہیں، مسجد کے خطیب ہیں، نمازی ہیں، حاجی ہیں، یہ کہاں جھوٹ بولتے ہوں گے، لیکن جن کو ﷲ تعالیٰ نے ہدایت نصب کرنی ہو اور ایمان بچانا ہو تو ان کی آنکھیں فوری کُھل جاتی ہیں اور وہ حیران بھی ہوتے ہیںکہ رہبری کے لباس میں رہزن بھی ہیں، حقیقت میں یہ لوگ اپنے پیٹ کی خدمت کررہے ہیں، دین اسلام کی خدمت نہیں کررہے۔


کبھی یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ شاہ ولی ﷲ اور ان کے خاندان والوں کے شروع شروع میں یہ عقائد تھے، بعد میں انہوں نے اپنے عقائد درست کر لئے تھے ۔ (مولوی عبد ﷲ روپڑی، عرس اور گیارھویں، مطبوعہ اسلامی اکادمی ، ۱۷؍ الفضل مارکیٹ اُردو بازار لاہور، ص۳۲)


یہ بھی بہت بڑا جھوٹ ہے، شاہ ولی ﷲ محدّث دہلوی علیہ الرحمہ کے عقائد ومعمولات اور ملفوظات پر مشتمل نایاب کتاب’’القول الجلی فی ذکر آثار ولی‘‘ کا مخطوطہ بھارت کے شہر کاکوری ضلع لکھنٔو(یو۔پی) سے دستیاب ہوگیا ہے، اس کے مصنف شاہ محمد عاشق پھلتی علیہ الرحمہ، شاہ ولی ﷲ کے قریبی عزیز اور شاگرد ہیں اور یہ کتاب انہوں نے شاہ ولی ﷲ کی حیات ہی میں لکھ کر ان سے تصدیق کروائی، اس کتاب کاذکر پرانی کتابوں میں آتا رہا، لیکن دستاب نہیں تھی، اب اس کتاب کے مخطوطے کا عکس دہلی سے شائع ہوگیا ہے اور ۱۹۹۷ء میں کاکوری ضلع لکھنٔو سے اس کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے، پاکستان میں اس کا ترجمہ مسلم کتابوی دربار مارکیٹ ، لاہور نے شائع کردیا ہے، اس کتاب کے شائع ہونے سے حضرت شاہ ولی ﷲ کے عقائد کو غلط طور پر متعارف کرانے والوں کے جھوٹ کا بھانڈا عین چوراہے میں پھوٹ گیا ہے۔


آخرت سے بے خوف ان لوگوں نے حضرت شاہ ولی ﷲ اور ان کے خاندان کی کتابوں میں تحریف بھی کردی ہے اور جعلی کتابیں بھی ان کی طرف منسوب کردی ہیں مثلاً’’بلاغ المبین‘‘ اور ’’تحفۃ المواحدین‘‘ جیسی جعلی کتابیں لکھ کر حضرت شاہ ولی ﷲ کی طرف منسوب کردی ہیں، شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی کی کتابوں میں تحریف کی، شاہ عبدالقادر محدّث دہلوی کے ترجمہ میں تحریف کی ہے، لیکن محققین نے ان خیانتوں پردہ چاک کردیا، جس کی تفصیل شاہ ولی ﷲ محدّث دہلوی کی کتاب’’انفاس العارفین‘‘(اُردوترجمہ) ، مطبوعہ المعارف گنج بخش روڈ، لاہور کے مقدمہ اور ’’القول الجلی‘‘ مطبوعہ لاہور کے مقدمہ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔

گیارہویں شریف اکابرینِ امت اور منکرین کے اکابرین کی نظر میں : ⏬

محترم قارئینِ کرام : مسلمانوں کا قدیم طریقہ ہے کہ گیارہ تاریخ کو حضرت غوثِ اعظم رضی اللّٰه تعالٰی عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے نیاز و فاتحہ کی جاتی ہے جس کو گیارھویں شریف کہتے ہیں ۔ جس کا مقصد ایصالِ ثواب ہے جبکہ نجدی کے پیروکار اس عمل کو بدعت اور حرام کہتے ہیں ۔ تو آئیے اس عمل کاثبوت ہم اکابرینِ امت اور منکرین کے گھر سے پیش کرتے ہیں ۔

قدوۃُالواصلین ، زبدۃُالعارفین ، سیدی و سندی ، پیرانِ پیر ، غوث اعظم سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی ﷲ عنہ کے عرس کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب ہے جس میں آپ کے حوالے سے ﷲ و رسول اور وِلایت اولیا کا ذِکر کیا جاتا ہے تاکہ ﷲ پاک اِن اولیا کی محبت لوگوں کے دِلوں میں پیدا فرمائے ، آپ کے عِلمی و عَملی کارناموں سے اُمت آگاہ ہو ۔ اس سے ایک طرف ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی محبت سینوں میں پیدا ہوتی ہے بلکہ اولیاء ﷲ سے بھی اُنس پیدا ہوتا ہے ، ﷲ والوں کی صحبت میسر آتی ہے ، روحانیت ، فیض اور ذہنی آسودگی ملتی ہے ، ﷲ تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کی ترغیب ملتی ہے ﷲ والوں کی اتباع و اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اورنیکی کی ترویج اور برائی کے مٹانے میں مدد ملتی ہے ۔ کہنے کو یہ ایک شخص کی تقریب ہوتی ہے مگر در حقیقت یہ ﷲ و رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کی بزم ہوتی ہے جہاں ﷲ و رسول صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا ذکر ہوتا ہے ۔ نذرانوں کی صورت میں کھانے پینے کی اشیا آتی ہیں جو حاضرین ، زائرین ، بھوکے ، مسافر ، بے بسوں کے کام آتی ہیں ۔ دینے والوں کو ثواب اور کھانے والوں کو سیری و سیرابی ملتی ہے ۔ اس صدقے سے زبانوں اور دِلوں سے نکلتی دعاؤں ، تلاوتوں ، اذکار کا ثواب زائرین ، ان کے آباو و امہات ، ان کے اساتذہ ، مشائخ اور تمام مسلمانانِ عالم ، زندہ مومنین اور بالخصوص اہل قبور و مزارات کو پہنچایاجاتا ہے ، ان دعاؤں کو سننے والا ﷲ تعالیٰ ہے اس کی بارگاہ سے یقین ہے کہ یہ پر خلوص دعائیں قبول کرتاہے ، مشکلات حل ہوتی ہے ، خالی جھولیاں بھرتی ہے، خشک ہونٹوں پر تری آتی ہے ، پریشاں دِلوں کو سکون اور بہتی آنکھوں کو خنکی ملتی ہے ، زخمی دِلوں کو مرہم اور دھتکارے ہُووں کو ٹھکانا مِلتا ہے ۔ ذیل میں گیارہویں شریف کے متعلق اہل علم کے تأ ثرات قلمبند کئے جارہے ہیں ۔

محدث اعظم ہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی

حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کے روضۂ مبارک پر گیارہویں تاریخ کو بادشاہ وغیرہ شہر کے اکابر جمع ہوتے ، نماز عصر کے بعد مغرب تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کی مدح اور تعریف میں منقبت پڑھتے ، مغرب کے بعد سجادہ نشین درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور ان کے اِردگرد مریدین اور حلقہ بگوش بیٹھ کر ذِکر بالجہر (باآوازِ بلندذِکر) کرتے ۔ اسی حالت میں بعض پروجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ۔ اس کے بعد طعام شیرینی جو نیاز تیار کی ہوتی ، تقسیم کی جاتی اور نماز عشا پڑھ کر لوگ رُخصت ہوجاتے ۔ (ملفوظات عزیزی فارسی : صفحہ نمبت ۶۲۔چشتی)

شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ

میرے پیرومرشد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی مہاجر مکی (علیہ الرحمہ) ۹ ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم رضی ﷲعنہ کا عرس کرتے تھے ۔ بے شک ہمارے ملک میں آج کل گیارہویں تاریخ مشہورہے اور یہی تاریخ آپ کی ہندی اولاد و مشائخ (ہندو پاک) میں متعارف ہے ۔ (ماثبت من السنۃ: ص۱۶۷۔چشتی)

حضرت شیخ امان ﷲ پانی پتی علیہ الرحمۃ المتوفی 997ھ ۱۱ربیع الثانی کو حضرت غوث اعظم کا عرس کرتے تھے ۔ (اخبار الاخیار اردو ترجم: ص۴۹۸)

مرزا مظہرجانِ جاناں علیہ الرحمہ

میں نے خواب میں ایک وسیع چبوترہ دیکھا جس میں بہت سے اولیاے کرام حلقہ باندھ کر مراقبے میں ہیں ۔ اور ان کے درمیان حضرت خواجہ بہاوالدین نقشبند دوزانو اور حضرت جنید بغدادی تکیہ لگا کر بیٹھے ہیں ۔ اِستغنیٰ ماسواء ﷲ اور کیفیاتِ فنا آپ میں جلوہ نما ہیں ۔ پھر یہ سب حضرات کھڑے ہوگئے اور چل دیے ، میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے ؟ تو اُن میں سے کسی نے بتایا کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضٰی رضی ﷲ عنہ کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں ۔ پس حضرت علی المرتضٰی شیر خدا کرم ﷲ وجہہ الکریم تشریف لائے ۔ آپ کے ساتھ ایک گلیم پوش ہیں جو سر اور پاوں سے برہنہ ذولیدہ بال ہیں ۔ حضرت علی المرتضٰی کرم ﷲ وجہہ الکریم ان کے ہاتھ کو نہایت عزت اور عظمت کے ساتھ اپنے مبارک ہاتھ میں لیے ہوئے تھے ۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جواب ملا کہ یہ خیرالتابعین حضرت اویس قرنی رضی ﷲ تعالی عنہ ہیں پھر ایک حجرہ شریف ظاہر ہوا جو نہایت ہی صاف تھا اور اس پر نور کی بارش ہو رہی تھی ۔ یہ تمام باکمال بزرگ اس میں داخل ہوگئے ، میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو ایک شخص نے کہا آج حضرت غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی کا عُرس ہے ۔ ہم سب عرس پاک کی تقریب پر تشریف لے گئے ہیں ۔ (کلمات طیبات ، فارسی: صفحہ۷۷،۷۸)

علامہ فیض عالم بن مُلّا جیون صاحب علیہ الرحمہ

عاشورہ کے روز امامین شہیدین سیدنا شباب اہل الجنۃ ابو محمد حسن اور ابو عبد ﷲ حسین رضی ﷲ تعالی عنہما کے لیے کھانا (نیاز) تیار کرتے ہیں ۔ خدا ے تعالیٰ کی بارگاہ میں اس نیاز کا ثواب ان کی روح کو پہنچاتے ہیں اور اِسی قسم سے گیارہویں شریف کا کھانا ہے جو کہ حضرت غوث الثقلین کریم الطرفین قرۃ العین الحسنین محبوب سبحانی قطب ربانی سیدنا و مولانا فردالافراد ابو محمد شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی ﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک ہے ۔ دیگر مشائخ کا عرس سال کے بعد ہوتا ہے ۔ حضرت غوث پاک رضی ﷲ تعالی عنہ کا عرس مبارک (ہمارے یہاں) ہر ماہ ہوتا ہے ۔ (وجنیر القراط فارسی، ص۸۲،چشتی)

علامہ برخوردار صاحبِ نبراس علیہ الرحمہ

ممالکِ ہندو سندھ وغیرہ میں آپ کاعرس ۱۱ربیع الثانی کو ہوا کرتا ہے ۔ اس میں انواع و اقسام کے طعام و تحائف کہ حاضرین علما و اہل تصوف ، فقرا درویشاں کو پیش کیے جاتے ہیں ۔ وعظ اور بعض نعتیہ نظمیں بھی بیان ہوتی ہیں ۔ اس عرس شریف میں ارواحِ کاملین کا بھی حضور ہوتاہے خصوصاً آپ کے جد امجد حضرت علی المرتضی کرم ﷲ وجہہ الکریم بھی تشریف لاتے ہیں ۔ کما ثبت عند ارباب المکاشفۃ ۔ (سیرت غوث اعظم: ص۲۷۵۔چشتی)

پیر عبدالرحمٰن نے اس (گیارہویں تاریخ) کی وجہ یہ لکھی ہے کہ پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم ہر گیارہویں کو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلّم کا عرس کیا کرتے تھے ۔ (کلیات جدولیہ فی احوال اولیاء ﷲ، المعروف بتحفۃ الابرار، بحوالہ تکملہ ذکرالاصفیاء : ص۲۹)

غوث اعظم چونکہ گیارہویں کرتے ہیں لہٰذا بطریق (تسبیح فاطمہ) گیارہویں حضرت پیرانِ پیر مشہور ہوئی ۔ (حاشیہ سیرت غوث الاعظم: ص۲۷۶)

اکابرینِ علمائے دیوبند کے مُرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ

پس بہیئت مروجہ ایصال ثواب (ایصال ثواب کا موجودہ طریقہ ) کسی قوم کے ساتھ مخصوص نہیں اور گیارہویں حضرت غوث پاک (قدس سرہ) کی ، دسویں ، بیسویں ، چہلم ، ششماہی ، سالانہ وغیرہ اور توشہ حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کااور سہ منی (تین ماہ کی) حضرت شاہ بو علی قلندری (رحمۃ ﷲ تعالی علیہ) کی و حلواے شب برات اور دیگر طریق ایصالِ ثواب کے اسی (جواز کے) قاعدے پر مبنی ہیں اور مشرب فقیر (حاجی امداد ﷲ) کا اس مسئلے میں یہ ہے کہ فقیر پابند اس ہیئت (طریقہ، انداز) کا نہیں ہے مگر کرنے والوں کاانکار بھی نہیں کرتا ۔ (کلیاتِ امدادیہ : باب فیصلہ ہفت مسئلہ ، ص۸۲، مطبوعہ:دیوبند)،(فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی،چشتی)

لو جی گیارھویں کو بدعت کہنے آئے تھے ان کے پیر صاحب نے گیارھویں سمیت پتہ نہیں کیا کیا جائز ثابت کر دیا ۔ ان میں سے بعض ایصالِ ثواب کے ذرائع و نام میں نے بھی پہلے بار سنے ہیں .. تو کیا فرماتے ہیں علماءِ دیوبند کہ گیارھویں کو جائز کہنے والے پر کیا حُکُم ہے اور ایسے کی بیعت کرنا کیسا ؟

مولوی خر م علی بلہوری دیوبندی

حاضری حضرت عباس کی ، صحنک حضرت فاطمہ کی ، گیارھویں عبدالقادر جیلانی کی ، مالیدہ شاہ مدار کا ، سہ منی بوعلی قلندر کی ، تو شہ شاہ عبدا لحق کا ، اگر مَنّت نہیں ہے صرف ان کی روحوں کو ثواب پہنچانا منظور ہے تو درست (جائز) ہے ۔ اس نیت سے ہر گز منع نہیں ۔ (نصیحۃ المسلمین : چند شرکیہ رسمیں ،ص:۴۱)

اسمعٰیل دہلوی امامُ الوہابیہ و دیابنہ

رسوم میں فاتحہ پڑھنے ، عرس کرنے اور فوت شدگان کی نذر و نیاز کرنے کی رسموں کی خوبی میں شک و شبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، صفحہ:۵۵۔چشتی)
طالب کو چاہیے کہ پہلے وہ با وضو دو زانوں بطور نماز (التحیات) میں بیٹھ کر اس طریقے کے بزرگوں حضرت معین الدین سجزی اور حضرت قطب الدین بختیار کاکی (علیہما الرحمۃ) وغیرہ حضرات کے نام کا فاتحہ پڑھ کر بارگاہِ خداوندی میں ان بزرگوں کے توسط (واسطے) اوروسیلہ سے التجا کرے ۔ (صراطِ مستقیم :فارسی، ص:۵۵۔چشتی)

پس امورِ مروجہ یعنی اموات کے فاتحوں اور عرسوں اور نذر ونیاز سے اس قدر امر کی خوبی میں کچھ شک وشُبہ نہیں ۔ (صراطِ مستقیم، صفحہ 110، مطبوعہ اسلامی اکیڈمی اردو بازار لاھور)

وھابیہ جس کو بدعت کہے ان کا امام اس کو خوبی کہے ..... پس پتہ چلا کہ خوبی والی بدعت بھی ہوتی ہے ... نذرو نیاز کے علاوہ مولوی اسماعیل دھلوی نے بزرگانِ دین اولیاء کے عرس کو بھی خوبی والے کاموں میں شامل کیا ..... جی آلِ نجد جواب دے کہ بدعات کو خوبی والے امور کہنے والے پر کیا حُکُمِ شرعی ہے ؟؟

قطب العالم دیوبند جناب رشیداحمد گنگوہی صاحب

ایصال ثواب کی نیت سے گیارہویں کو توشہ (نیاز) کرنا درست ہے مگر تعیّن یوم و تعیّن طعام کی بدعت اس کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اگرچہ فاعل اس یقین کو ضروری نہیں جانتا مگر دیگر عوام کو موجبِ ضلالت ہوتا ہے لہٰذا تبدیل یوم و طعام (نیاز) کیا کرے تو پھر کوئی خدشہ نہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ، کتاب العلم ،صفحہ 171، مطبوعہ عالمی مجلس تحفظِ اسلام کراچی،چشتی)

گنگوھی نے آگے جو لکھا کہ دن اور کھانا مقرر کرنا بدعت ہے تو اس کا جواب ہم انہی کے پیر ومُرشد کی زبانی دیتے ہیں ۔

چنانچہ حضرتِ حاجی امداد الله مہاجر مکی علیہ الرحمہ جنکو اکابرینِ علماء دیوبند اپنا پیر و مُرشد مانتے ہیں وہ گیارھوں دسواں سوئم چالیسوں کا دن مقرر کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : رہا تعینِ تاریخ (یعنی گیارھویں کی تاریخ مقرر کرنا) یہ بات تجربے سے معلوم ہوتی ہے کہ جو امر کسی خاص وقت میں معمول ہو تو اس وقت وہ (امر کام) یاد آ جاتا ہے اور ضرور ہوتا رہتا ہے اور (دن وتاریخ مقرر) نہیں تو سالہا سال گزر جاتے ہیں کبھی خیال نہیں ہوتا اسی قِسم کی مصلحتیں ہر امر میں ہیں جنکی تفصیل طویل ہے محض بطورِ نمونہ تھوڑا سا بیان گیا گیا (ہے) زہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے ۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ، مسئلہ فاتحہ مروجہ، صفحہ 8، ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل کراچی۔چشتی)

جی جس تاریخ کو مقرر کرنا گنگوھی جی بدعت کہہ رہے ہیں اسی تاریخ کو مقرر کرنے کے فوائد و مصلحتیں گنگوھی جی کے پیر صاحب بیان فرما رہے ہیں ... پیر صاحب کا یہ جملہ نہایت ہی قابلِ غور ہے کہ ” کوئی بھی ذہین آدمی غور کر کے سمجھ سکتا ہے“ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ گنگوھی جی اور جو دیوبندی تاریخ مقرر کرنے کو بدعت کہتے ہیں وہ بقول پیر صاحب کُند ذہن ونالائق ہیں کیو نکہ اگر ذہین ہوتے تو پیر صاحب کے بقول سمجھ جاتے ۔

حکیمُ الاُمّتِ دیوبند جناب اشرف علی تھانوی صاحب

بوقت مجلس جب مثنوی مولانا روم ختم ہوگئی ۔ بعد ختم کہ شربت بنانے کا حکم دیا اور ارشاد ہوا کہ اس (شربت) پر مولانا روم کی نیاز بھی کی جائے گی ۔ گیارہ گیارہ بار سورۂ اخلاص پڑھ کر نیاز کی گئی اور شربت بٹنا شروع ہوا ۔ آپ (حاجی امداد ﷲ صاحب نے فرمایا کہ نیاز کے دو معنی ہیں ، ایک عجز و بندگی اور سوائے خدا کے دوسروں کے واسطے نہیں ہے بلکہ ناجائز و شرک ہے ، دوسری خدا کی نذر اور ثواب خدا کے بندوں کو پہنچانا ۔ یہ جائز ہے لوگ انکار کرتے ہیں ، اس میں کیا خرابی ہے ۔ (شمائم امدادیہ ملفوظات حاجی امداد ﷲ مہاجر مکی ص:۶۸)
ہر شخص کو اختیار ہے کہ (نیک) عمل کا ثواب مردے کو یا زندہ کو کردے ۔ جس طرح مردے کو ثواب پہنچتا ہے اسی طرح زندہ کو بھی ثواب پہنچ جاتا ہے ۔ (التذکیر: ج۳، ص۵)،(امداد المشتاق، صفحہ 86، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاھور۔چشتی)،(شمائم امدادیہ، صفحہ 68، کتب خانہ اشرف الرشید شاہ کوٹ)

گنگوھی جی اور ان کے ماننے والے یہاں بھی دیکھ لیں کہ نیاز کیلئے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے شربت کا تعین کیا جبکہ گنگوھی جی اس کو بدعت کہہ رہے ہیں تو پھر بتائیں کہ آپ کے پیر صاحب پر کیا فتویٰ لگے گا ؟
اگر مولانا روم کے ایصالِ ثواب کیلئے نیاز جائز ہے تو سیدی غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کے ایصالِ ثواب کیلئے بھی نیاز جائز ہے جسکو گیارھویں کا نام دیا گیا ہے ۔

ثناء ﷲ امرتسری غیر مقلد

نذر و نیاز غیرﷲ کے لیے جائز نہیں ہے ۔ نذر ﷲ کی اور ثواب میں دوسرے کو پہنچانا جائز ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ: باب : عقائد ،ج ۱،ص۱۰۸)

گیارھویں بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے دُرُست ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد 2، صفحہ 71، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاھور)

یقین جان لے اے آلِ نجد کہ ہم غوثِ پاک کی گیارھویں اور حضور سیّدِ عالَم علیہ السلام کی بارھویں ایصالِ ثواب کی نیت سے کرتے ہیں ۔ تو تمہارے امام ثناء الله امرتسری کے فتویٰ کی رُو سے یہ جائز و دُرُست ٹھری لہذا اگر اب اس کو بدعت کہو گے تو آپ کے مناظرِ اعظم رگڑے جائیں گے کیونکہ ان کا ایک بدعت کو جائز کہنا لازم آئے گا لہذا تم بھی اپنے امام کے قول کو چُپ چاپ مان لو ۔

غیرمقلدین وھابیہ کا عظیم محدث مولوی وحید الزمان حیدر آبادی لکھتا ہے : ولایجوز الانکار علي امور مختلفة فیھا بین العلماء....کاالفاتحة المرسومة  ۔
یعنی وہ کام جو علماء میں مختلَف فیہ ہوں ان کا انکار جائز نہیں جیسے مروجہ ایصالِ ثواب ۔ (ھدیة المھدی (عربی) الجزُالاول، صفحہ 118، در مطبع میور پریس دھلی ۱۳۲۵ھ)

اگر مجھے خواتین کے پڑھنے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں آگے بھی عبارت نقل کرتا اور بتاتا کہ آگے وھابی مولوی نے کیا گُل کھلایا ہے ۔ بے شرمی کی انتہا کر دی ..... لہذا وھابیہ سمجھ گئے ہونگے کہ میرا اشارہ کس طرف ہے کیونکہ ان کے محدث کی جو کتاب ہے تو وھابیہ نے ضرور پڑھی ہو گی ۔ بہر کیف ہماری دلیل ایصالِ ثواب کی تھی سو دے دی ...... اب ذرا اس کو بدعت کہنے والے بتائیں کہ وحید الزماں پر کیا حُکمِ شرعی ہے ؟

غیرمقلدین وھابیہ کے مولوی عبد الجبار غزنوی نے کہا کہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی ایسے محدث تھے جن کو الله اے ہمکلامی کا شرف حاصل تھا ۔ (استادِ پنجاب صفحہ 122 مسلم پبلیکیشنز گوجرانوالہ،چشتی)
اب وھابیہ کے یہی کلیم الله نواب صدیق حسن خان بھوپالوی غوثِ پاک کے ختم کے متعلق لکھتے ہیں کہ : دو رکعت نماز پڑھے ہر رکعت میں سورۃ اخلاص گیارہ بار پھر بعد سلام کے یہ درود ایک سو گیارہ بار پڑھے " اللھم صل علي معدن الجود والکرم و علي آله محمد وبارك وسلم " پھر شیرنی پر فاتحہ شیخِ جیلانی رضی اللہ عنہ پڑھ کر تقسیم کر دے “ ۔ (کتاب الدعاء ولدواء، صفحہ 153، نعمانی کتب خانہ حق سٹریٹ اردو بازاد لاھود)

نجدیو : دیکھ لو تمہارا کلیم اللہ ختمِ غوثیہ کا کیا طریقہ بتا رہا ہے ..... کیا یہ طریقہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ؟

کیا اس کو بھی بدعتی کہو گے ؟

الحمد للہ فقیر نے کافی شافی دلائل غوثِ پاک علیہ الرحمہ کی گیارھوں کے آَلِ نجد کے جید اکابرین علماء کی کتب سے پیش کر دیئے ہیں اگر اب بھی آلِ نجد میں نہ مانو کی گردان دھرائیں تو ان کو چاہیئے کہ مذکورہ اپنے اکابرین پر بدعتی اور جہنمی ہونے کا فتویٰ صادر کریں یا پھر گیارھویں پہ بھوکنا چھوڑ دیں .......

وہ قصّے اور ہونگے جنہیں سُن کر نیند آتی ہے
تڑپ اُٹھو گے کانپ جاؤ گے سُن کر داستاں اپنی

اللہ تعالیٰ ان کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ﷲ تعالیٰ تا حیات بزرگوں کے دامن سے وابستہ رکھے آمین ۔ ( طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 21 September 2025

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے


محترم قارئینِ کرام : علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : خیرالدین رملی رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے ، مثلاً : نومولود کے کان میں ، پریشان ، مرگی زدہ ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں ، کسی لشکر کے حملے کے وقت ، آگ لگ جانے کے موقع پر ۔ (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵،چشتی)


اِن مواقع میں اذان سنت ہے : فرض نمازکے وقت ، بوقتِ ولادت بچہ کے کان میں ، آگ لگنے کے وقت ، کفار سے جنگ کے وقت، مسافر کو جب شیاطین ظاہر ہوکر ڈرائیں ، غم کے وقت ، غضب کے وقت ، جب مسافر راستہ بھول جائے ، جب کسی آدمی یا جانور کی بد خُلقی ظاہر ہو تو اُس کے کان میں ، اورجب کسی کو مِرگی آئے ۔ ما في ’’ الشامیۃ ‘‘ : وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسنّ الأذان لغیر الصلاۃ کما في أذن المولود والمہموم والمصروع والغضبان ، ومن ساء خُلقہ من إنسان أو بہیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق ۔ (۲/۴۶ ، مطلب في المواضع التي یُندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ)(الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲/۳۷۲ ، ۳۷۳)


نماز کے علاوہ بعض دیگر مواقع کے لئے بھی فقہاء نے اذان کا ذکر فرمایا ہے


وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ ، کما في أذن المولود ، والمہموم ، والمصروع ، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب ، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا ۔ وکذا یندب الأذان وقت الحریق ووقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع ۔


خلاصہ عربی عبارت


(1) بچہ کے کان میں اذان دینا ۔


(2) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے ۔


(3) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں ، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے ۔


(4) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے ۔


(5) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے ۔


(6) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو ، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)


(7) آگ پھیل جانے کے وقت بھی اذان دینے کا حکم ہے ۔


(8) سرکش جنات کے شر سے بچنے کے لئے بھی اذان دینا ثابت ہے ۔ (اس بارے میں ایک صحیح حدیث موجود ہے)


(9) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے ۔ (شامي ۲؍۵۰ ، ۱؍۳۸۵ مطبوعہ کراچی)،(منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)،(الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)


خوف ودہشت کے وقت اس عقیدے سے اذان دینا کہ خوف ودہشت دور ہو ، جائز ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : عن سہیل قال أرسلني أبي إلی بني حارثۃ قال ومعي غلام لنا (أو صاحب لنا) فناداہ مناد من حائط باسمہ قال : فأشرف الذي معي علی الحائط فلم یر شیئاً فذکرت لأبي ، فقال : لو شعرتُ أنک تلقی لہٰذا لم أرسلک ولٰکن إذا سمعت صوتا فناد بالصلاۃ فإني سمعت أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلاۃ وليّ ولہ حُصاص ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / فضل الأذان وہرب الشیطان عند سماعہ ۱؍۱۶۷ رقم: ۳۸۹،چشتی)


حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہار شریعت میں ہے : وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 466 صفحہ نمبر 1)،(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 370)


جب حضرت آدم علیہ السّلام جنَّت سے ہندوستان میں اُترے اُنھیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ السّلام نے اُتر کر اذان دی ۔ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۵ ص ۱۲۳ حدیث ۶۵۶۶)


اے علی رضی اللہ عنہ میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (جامِع الحدیث لِلسُّیُوطی رحمۃ اللہ علیہ ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷) ، یہ روایت نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ جلد5 صَفْحَہ 668 پر فرماتے ہیں : مولیٰ علی رضی اللہ عنہ اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: فَجَرَّ بْتُہُ فَوَجَدْ تُہُ کَذٰلِکَ ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۲ ص۳۳۱،جامِعُ الحدیث ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷)


جس بستی میں اَذان دی جائے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ ص۲۵۷حدیث ۷۴۶)


مذکورہ بالا دلائل سے مصیبت کے وقت اذان پڑھنے کا ثبوت تو ملتا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب بوقت مصیبت اذان پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں مَنع نہیں کیا گیا اگر منع کیا گیا ہے تو معترضین ثبوت پیش کریں ؟ اسی لیئے عرض ہے جب جواز موجود ہے اور ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے تو مَنع نہ ہونا خود بخود ’’اِجازت‘‘ بن گیا اور اچھی اچھی باتیں اسلا م میں ایجاد کرنے کی تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نے ترغیب ارشاد فرمائی ہے اور’’مسلم‘‘ کے باب ’’کتابُ العلم‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کا یہ ارشاد مبارک موجود ہے : مَنْ سَنَّ فِی الْاِ سْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ ۔ (صَحیح مُسلِم ص۱۴۳۷حدیث۱۰۱۷،چشتی))

ترجمہ : جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس ( یعنی جاری کرنے والے) کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کمی نہیں ہوگی ۔


مطلب یہ کہ جو اسلام میں اچھّا طریقہ جاری کرے وہ بڑے ثواب کا حقدار ہے توبلاشُبہ مصیبت کے وقت اذان پڑھنے والا بھی ثواب کا مستحق ہے ، قِیامت تک جومسلمان اِس طریقے پرعمل کرتے رہیں گے اُن کوبھی ثواب ملے گا اور جاری کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور دونوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔


ہوسکتا ہے کسی کے ذِہن میں یہ وسوسہ آئے کہ حدیثِ پاک میں ہے : کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّاریعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) ، اِس حدیث شریف کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ پاک حق ہے ۔ یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سیِّئَۃ یعنی بُری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو ۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا شیخ عبد الحق مُحدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :جو بدعت اُصول اور قواعدِ سنّت کے موافِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے ( یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خِلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۱ص۱۳۵)


کل بدعۃ ضلالہ کا صحیح مفہوم غیر مقلد وہابی حضرات کے بڑوں کی زبانی


علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)


علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ۔

ترجمہ : اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔ ( منهاج السنة، 4 : 224 )


علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل ۔

ترجمہ : اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ( کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16،چشتی)


حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر (المتوفی 774ھ)


حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔

ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔( تفسیر ابن کثیر 1 : 161،چشتی)


شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی غیر مقلد (المتوفی 1255ھ)


یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة ۔

ترجمہ : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔( نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63،چشتی)


نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1307ھ)


غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل ۔

ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117)


نواب وحید الزمان غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1327ھ)


مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل ۔

ترجمہ : باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117،چشتی)


عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد اھلحدیث (1353ھ)


عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : بقوله کل بدعة ضلالة (1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح ۔

ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے) ۔ ( جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378،چشتی)


الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نجدی وھابیوں کا مفتی اعظم (1421ھ)


عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.

ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.

ترجمہ : علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔ ( فتاويٰ اللجنة، 2 : 325 ،چشتی)


ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.


أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.

ترجمہ : بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔( فتاويٰ اللجنة،2 : 329)


بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں : البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء.

ترجمہ : ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة، 2 : 321) 


اذان سے بستی کا عذاب ٹل جاتا ہے : عن أنس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِذَا اُذِّنَ فِی قَرْیَۃٍ أمِنَہَا اللّٰہُ مِنْ عَذَابِہٖ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے تو وہ جگہ اس دن سے عذاب سے مامون ہو جاتی ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، ۱/۲۳۱)(الترغیب و الترہیب للمنذری ۱/۱۸۲)( تلخیص الحبیر لابن حجر ، ۱/۳۲۸)( کنز العمال للمتقی، ۲۰۸۹۳، ۷/۶۸۱)(مجمع الزوائد للہیثمی، ۱/۳۲۸ )(الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۲۹)


امیرُ المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے : قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے ہیں مجھے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا : اے علی میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 310، مطبوعہ دارالکتاب بیروت لبنان،چشتی)،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح مترجم اردو جلد دوم صفحہ 495 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)


امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا : فجر بتہ فوجدتہ کذالک ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ ذکرہ ابن حجر کما فی المرقاۃ ۔ (فتاوی رضویہ ۲/ ۶۷۶)


حضرت آدم علیہ السّلام کی وحشت اذان کے ذریعہ دور ہوئی


عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْہِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فََنَزلَ جِبْرَئِیْلُ عَلیہِ السَّلامُ فَنَادٰی بِالْأذَانِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام جنت سے ہندوستان میں اترے تو انہیں گھبراہٹ ہوئی ۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام، نے اتر کر اذان دی ۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ۵/۱۹۷)(کنز العمال للمتقی، ۳۲۱۳۹، ۱۱/۴۵۵)


اذان کی برکت سے آگ بجھ جاتی ہے


عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أطْفِئُوْا الْحَرِیْقَ بِا لتَّکْبِیْرِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :آگ کو تکبیر کے ذریعہ بجھاؤ ۔ (مجمع الزوائد للہیثمی، ۳/۱۳۸)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۱۵۰)


عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : اِذَا رَأیْتُمُ الْحَرِیْقَ فَکَبِّرُوْا فَاِنَّہٗ یُطْفِیُٔ النَّارَ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرما یا : جب آگ دیکھو اللہ اکبر ، اللہ اکبر کی بکثرت تکرار کرو ۔ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۴۵)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۹۳)(المسند للعقیلی ۲/۲۹۶)(المطالب العالیۃ لابن حجر۳۴۲۴)(میزان الاعتدال لحلبی ۴۵۳۰،چشتی)(الکامل لابن عدی ۴/۱۵۱)(الکنی والاسماء للدولانی ۲/۱۳۷)(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی ۲۸۹)


علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : فکبروا ای قولوا اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، و کرر وہ کثیرا ، یعنی اللہ اکبر کی خوب تکرار کرو۔


یہ احادیث ضعیف ہیں کا جواب


معترضین کی طرف سے احادیثِ مبارکہ کے ضعف کو یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ضعیف احادیث مطلقاََ قابل احتجاج نہیں جبکہ جمہورمحدثین علیہم الرّحمہ کا مؤقف اس کے بلکل برعکس ہے ۔


(1) وباء کے زمانے میں ہم اذان کو مستحب مانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہوتی ہے ۔


(2) جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے ۔ محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل اعمال یعنی فضائل اعمال مین ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا اگر وہ موضوع نہ ہو ۔

تدریب الراوی میں ہے کہ ضعیف حدیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا ۔

یہی مؤقف امام اعظم ابو حنیفہ ، امام سفیان ثوری ، امام شافعی ، امام سفیان بن عینیہ ، امام احمد بن حنبل ، امام ابن حجر عسقلانی ، امام بیہقی ، امام حاکم ، امام سیوطی ، ابن صلاح ، امام نووی ، امام سخاوی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے ۔


(3) فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا مؤقف موجودہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے بڑے علما ء کا ہے جن میں اہل حدیث کے مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ، شیخ الکل فی الکل نذیر حسین محدث دہلوی ، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری ، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ، شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی وغیرہ شامل ہیں ۔


اس کے علاوہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اذان کا ایک وقت مقرر ہے اور اذان نماز کے علاوہ نہیں دی جا سکتی ۔ جبکہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی ۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض کہ اذان نماز کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں دی جا سکتی ، باطل ثابت ہوتا ہے ۔ بعض حضرات اسے چھت پر چڑھ کر یا عدد خاص کرنے کی وجہ سے بدعت قرار دیتے ہیں ۔ ان کی یہ منطق تو عجیب تر ہے ۔ اونچی جگہ پر اذان دینا سنن ابوداؤد کی ایک صحیح روایت سے ثابت ہے اور عدد متعین کرنا تب بدعت قرار پائے جب اس متعین عدد کو فرض ، واجب یا سنت نبوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم سمجھا جائے ۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ہم اس عمل ہی کو مستحب سمجھتے ہیں کجا کہ متعین عدد کو فرض و واجب کا درجہ دیں ۔


محترم قارئینِ کرام : چاہئے تو یہ تھا کہ معترضین مسلمانوں کے اس فعل کو سراہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ مسلمانوں سے اس وبا کو دور فرما لیکن شیطان کو کہاں منظور تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کا کلمہ بلند کریں ۔ الٹا بدعت و جہالت کے فتوے جڑنا شروع کر دیئے ۔ آئیے اب معترضین کے اعتراض کی طرف آتے ہیں ۔ معترضین نے کہا اور لکھا کہ وبا میں اذان دینا بدعت ہے کیونکہ اس بارے میں جو احادیث پیش کی گئیں وہ ضعیف ہیں ۔


تو جنابِ من عرض ہے کہ جب مختلف احادیث ایک ہی معنیٰ کی ہوں تو سب مل کر قوی درجہ کو پہنچ جاتی ہیں ۔ دوسرے نمبر پر چلو بالفرض تمہارے بقول اگر ان احادیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی غیرمقلد وہابی حضرات محدث کے اصول کے مطابق ان پر عمل کرنا جائز ہے اور بدعت کہنا تشدد فی الدین ہے ۔


وہابیہ کے مناظرِ اعظم ، اور محدث جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : بعد نمازِ فرض ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر دو روایتوں میں آیا ہے جن کو حضرت میاں (نذیر حسین) صاحب دہلوی نے اپنے فتوے میں نقل کیا ، گو وہ ضعیف ہیں مگر ضعیف حدیث کے ساتھ بھی جو فعل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا ، ایسا تشدد کرنا اچھا نہیں ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 508، مطبوعہ ملکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)


غیر مقلد وہابیہ کے امام نے مانا کہ جو فعل ضعیف حدیث سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا اس کو بدعت کہنا تشدد ہے ۔ اور خود وہابیہ کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی بھی انہی ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے ۔


اب اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے کہ وبا وعذاب میں اذان والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے شیخ الاسلام کے اصول کے مطابق اس پر عمل جائز اور اس کو بدعت کہنے والا متشدد فی الدین ہے ۔ اور اگر پھر بھی بدعت کہو گے تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سمیت مولوی نذیر حسین دہلوی بھی بدعتی اور جہمنی ٹھہریں گے ۔ کیونکہ آپ کا مشہور ورد ہے کل ضلالة فی النار ۔


جناب ثناء الله امرتسری غیرمقلد نے اسی فتاویٰ کی دوسری جلد میں لکھا کہ : (ضعیف) حدیث کے معنے ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں ۔ وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس کے مقابل میں صحیح حدیث نہیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ، جیسےنماز کے شروع میں "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر اس پر ساری امت عمل کرتی ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول,، صفحہ76، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)


اب اگر اسی اصول کے تحت ایسی صحیح حدیث پیش کر دیں کہ جس میں ہو کہ وباء کے وقت اذان دینا جائز نہیں ۔ تب تو عمل ترک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث موجود نہیں تو آپ کے نزدیک پھر عمل کرنا جائز ہے ۔ یا تو واضح حدیث پیش کرو کہ وبا و بلا میں اذان دینا جائز نہیں بدعت ہے ۔ یا پھر تسلیم کر لو کہ کہ اذان دینا جائز ہے ۔


غیرمقلد وہابی حضرات کے دو محقق (1) حافظ حامد الخضری (2) عبد اللہ ناصر رحمانی لکھتے ہیں : تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے "سبحانك اللھم" پڑھنا سنت ہے ۔ (خیال رہے ثناء الله نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے) ۔ (نمازِمصطفیٰ صفحہ نمبر 272 مطبوعہ انصار السنة پبلیکیشنز لاہور،چشتی)


اس روایت کو غیرمقلد وہابی عالم جناب ابراہیم میر صادق سیالکوٹی نے بھی منسون لکھا ۔ (صلٰوة الرسول، صفحہ نمبر 193، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور)


اب اگر وبا و بلا میں اذان کہنا اس لئے بدعت ہے کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے ۔ پھر تو ہر غیرمقلد وہابی بدعتی ہو جائے گا کیونکہ آپ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے لکھا کہ نماز میں ثناء یعنی "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ اور سارے غیرمقلد وہابیوں کا اس پر عمل ہے ۔ نہ صرف عمل بلکہ اسی ضعیف حدیث سے ثابت شدہ عمل کو سنت بھی لکھا ۔


ہم کریں تو ضعیف اور بدعتی ، تم کرو تو ضعیف و سنت ۔ جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے ۔


غیرمقلد وہابیوں کے ایک اور محقق جناب عبدالغفور اثری نے کچھ ضعیف روایتیں اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا کہ : محدثین کے طریقہ کے مطابق ضعیف روایات فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب میں قابلِ عمل ہوتی ہیں (آگے امام سیوطی کے استاد علامہ سخاوی کی عبارت نقل کی مزید لکھا) شیخ الاسلام ابوزکریا یحییٰ شرف الدین نووی اور دیگر علماء ، محدثین ، فقھاءکرام وغیرہ ھم نے فرمایا کہ : جائز اور مستحب ہے کہ فضائلِ اعمال اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے مگرشرط یہ ہے کہ وہ موضوع اور جعلی نہ ہو ۔ (احسن الکلام، صفحہ نمبر 43,44، مطبوعہ محلہ احمد پورہ سیالکوٹ،چشتی)


غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول وبا و بلا و آفت میں اذان پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے محقق عبد الغفور اثری نے مانا کہ ضعیف حدیث پر عمل مستحب ہے ۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اذان مستحب ہے ۔


غیرمقلد وہابی حضرات کے مجتہد عبد اللہ روپڑی نے لکھا کہ : فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے ۔ (فتاویٰ اھلحدیث، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 218 مطبوعہ ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا)


اختصار کے پیشِ نظر ان حوالوں کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں ۔ ورنہ اس موضوع یعنی ضعیف حدیث ترغیب و ترہیب میں قابلِ عمل ہے پر ان کی کتب سے اتنے حوالے ہیں کہ پورا کتابچہ ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔ اور ہم کچھ عرصہ قبل اس پر تفصیل مکمل مضمون پوسٹ کر چکے ہیں غیرمقلد وہابی اور ضعیف احادیث پر عمل مکمل اسکینز کے ساتھ ضرورت پڑی تو دوبارہ پوسٹ کر دینگے ان شاء اللہ ۔


محترم قارئینِ کرام : ان دلائل و حقائق سے ثابت ہوا کہ اگر ان احادیث کو ضعیف غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول ضعیف بھی مانا جائے تو بھی ان پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے ۔ اور اس کو بدعت کہنا جہالت ہے ۔ اور انہی جیسی احادیث کو نقل کر کے غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث نے حجت پکڑی اور مشکلات میں اذان دینے کی تعلیم دی ۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے نواب صدیق حسن خان بھوپالوی کے تعامل سے ہی غیرمقلد وہابی حضرات کو ان احادیث کو درجہ صحت پر مان لینا چاہئے ۔ کیونکہ مشکلات میں یہ اذان کا عمل ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ طریقہ محدث وہابیہ نے بھی اپنی کتاب ”کتاب الدعا“ میں نقل کر کے مجرّب لکھا ہے ۔ مانعین کہتے ہیں کہ فرض نماز کے علاوہ اذان دینا کہیں سے بھی ثابت نہیں اور بدعت و جہالت ہے۔ آئیے فرض نمازوں کے علاوہ اذان کہنے کا ثبوت ہم انہی کے محدث سے پیش کرتے ہیں ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث ومجدد نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں کہ : زید بن اسلم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بعض معاون پر والی تھے ۔ لوگوں نے کہا یہاں پر جنات بہت ہیں ۔ کثرت سے اذانیں (ایک ہی) وقت پر کہا کرو ، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور پھر کسی جن کو وہاں نہ دیکھا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نماز کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ اکٹھی اذانیں دینے سے بلائیں بھاگ جاتی ہیں ۔ تو کیا فتویٰ لگے گا آپ کے محدث بھوپالی پر ؟


غیرمقلد وہابیہ کے یہی محدث بھوپالی اپنی کتاب میں ”مشکلات سے نکلنے کیلئے“ کے نام سے عنوان قائم کر کے اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ کو مہموم (پریشان) دیکھ کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کو حکم دے کہ وہ تیرے کان میں اذان کہہ دیں کہ یہ دواءِ ھم (یعنی پریشانی کی دواء) ہے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مجھ سے غم دور ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


مشکلات ٹالنے کیلئے اذان


غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے بھی تسلیم کیا کہ اذان سے غم دور ہوتا ہے ۔ اور مشکلات ٹَلتی ہیں ، تو سوچو جب مسلمانوں کی اذانوں کی آواز اتنے لوگوں کے کانوں میں پڑی تو کتنا سکون ملا ہو گا ۔ اگر نماز کے علاوہ اذان دینا جہالت و بدعت ہے تو کیا حکم لگے گا آپکے محدث بھوپالی صاب پر ؟


مرگی کے علاج کیلئے اذان


وغیرمقلد ہابیہ کے مجدد بھوپالی نے اپنی کتاب میں ”مرگی کا علاج“ کے نام سے عنوان قائم کیا، پھر اسکے تحت لکھتے ہیں کہ : بعض علماء نے مرگی والے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی ، وہ اچھا ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 77، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور،چشتی)


مزید عنوان دیا ”راستہ بھول جانے کا علاج“ اسکے تحت لکھا کہ : بعض علماء صالحین نے کہا ہے کہ آدمی جب راستہ بھول جائے اور وہ اذان کہے تو اللّٰہ تعالٰی اسکی رہنمائی فرماوے گا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


مزید اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ : جس کو شیطان خبطی کر دے یا اس کو آسیب کا سایہ ہو .... تو اسکے کان میں سات بار اذان کہے ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76،105، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


تو ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مصیبت و پریشانی کے وقت اذانیں دینے سے مصیبتیں ، وبائیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں ۔ بس اسی جذبے کے تحت مسلمانوں نے "کرونا وائرس" جیسی وباء سے چھٹکارے کے لئے اللّٰہ تعالٰی کے ذکر یعنی اذان کی تدبیر کی تاکہ اللّٰہ عز و جل اپنے ذکر کی برکت سے اس آفت کو ٹال دے اور مسلمانوں کو خوف وہراس سے نکال دے ۔ لیکن کچھ لوگ برا مان گئے نہ صرف برا مانے بلکہ اذانوں کا یہ سلسلہ دیکھ کر مسلمانوں کو نہ صرف بدعتی بلکہ جاھل کہنا شروع کر دیا ۔ الحمد للہ ہم نے اِتمامِ حجت کے لئے نہ صرف احادیث سے اس کے جواز کے شواہد و براہین پیش کیئے بلکہ ان کے اس محدث کے حوالے بھی پیش کیے ہیں ۔۔۔۔ یقیناً اذان سن کر شیطان ہی کو تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کو جاہل کہتا ہے کیونکہ اذان سن کر کرشیطان 36 میل دور بھاگ جاتا ہے ۔ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا ۔

ترجمہ : حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

سلیمان نے کہا : میں نے ان (اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع ) سے مقامِ روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یہ مدینہ منورہ سے چھتیس میل (کے فاصلے) پر ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان... إلخ، الحدیث:854، مطبوعہ دار السلام ریاض سعودیہ،چشتی)


لہٰذا کم از کم مسلمان کو اذان سن کر خوش ہونا چاہئے اور آفت ٹلنے کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ پڑھنے والوں کو جاہل و بدعتی کہہ کر اپنا رشتہ شیطان سے ظاہر کرنا چاہیے ۔ مذکورہدلائل سے ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں ۔ اگر احادیث ضعیف بھی ہیں تب بھی فضائل اعمال میں جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک مقبول ہیں اور جبکہ مخالفین کے گھر کی گواہی بھی موجود ہے تو انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا ! ہاں اگر وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسب سابق اپنے علماء کو "جوتے کی نوک پر " رکھیں تو الگ بات ہے ۔ کیونکہ اس طبقے کا ہر چھوٹا بڑا اپنے تئیں بذات خود بہت بڑا محدث ، مفسر اور محقق ہے ۔


لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں کوئی وقت خاص نہیں ہے ۔ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاء اللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے ۔ اور اللہ عز و جل امان نصیب فرمائے گا ۔ اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا ، وبا اور آفت سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و