Thursday, 18 December 2025

بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے گستاخ ہندو کی یادگار سے ہوا

بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے گستاخ ہندو کی یادگار سے ہوا

محترم قارئینِ کرام : پتنگ اڑانے کے ساتھ مخصوص تہوار بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے ہندو کی یادگار سے ہوا ۔ تاریخی حقائق کے مطابق   سنہ 1707ء تا 1759 کے دوران پنجاب کے گورنر ، زکریا خان کے دور میں سیالکوٹ کے ایک ہندو کے بیٹے ، حقیقت رائے نے نبی کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم  اور حضرت سیدہ طیبہ فاطمة الزہر رضی اللہ عنہا کی شان میں نازیبا الفاظ کہے ، اس جرم کی تحقیق  ہوئی ، اور جرم ثابت ہو گیا ، چنانچہ سزا کے طور پر اس گستاخ رسول کو پہلے کوڑے لگائے گئے ، اور بعد میں ایک ستون سے باندھ کر  گردن اڑادی گئی ۔ تاریخی کتب میں ذکر ہے کہ جس دن اس کو سزاۓ موت سنائی گئی وہ بسنت پنجمی کا دن تھا ، اس گستاخ رسول کی یاد میں ہندوؤں نے لاہور کے علاقے کوٹ خواجہ سعید میں ایک سمادھی  تعمیر کی ۔ مؤرخین  کے مطابق ایک ہندو رئیس کالو رام نے ، اس جگہ حقیقت رائے ، کی یاد میں مندر تعمیر کرایا ، باقاعدہ بسنت میلے کا آغاز  کیا ۔ 


ہندوانہ تہوار بسنت کے متعلق قدیم ترین مستند حوالہ معروف مسلمان ریاضی دان اور مؤرخ ابوریحان البیرونی کے ہاں ملتا ہے ۔ البیرونی نے آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل ہندوستان کاسفر کیا تھا، کلر کہار ضلع چکوال کے نزدیک کٹاس کے مقام پر اس زمانے میں معروف یونیورسٹی جہاں انہوں نے ہندو فضلا و حکما اور پنڈتوں سے ہندوستانی علوم سیکھے ، انہوں نے اسی مقام پر کتاب الہند تحریر کی جس میں یہاں کے باشندگان ، ہندوستانی کلچر ، ہندوؤں کے رسوم و رواج ، علوم وفنون اور مذہب و فلسفہ کے متعلق بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں ۔ اس کتاب میں بسنت کے بارے میں ان کی یہ عبارت آج بھی سند مانی جاتی ہے ۔

عید بسنت : اسی مہینے (یعنی بیساکھ) میں استواء ربیعی ہوتا ہے جس کا نام بسنت ہے ۔ ہندو لوگ حساب سے اس وقت کا پتہ لگاکر اس دن عید کرتے ہیں اور برہمنوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ جیٹھ کے پہلے دن جو اجتماع یعنی اماؤس کادن ہے ، عیدکرتے ہیں اور نیا غلہ تبرکاً پانی میں ڈالتے ہیں ۔ (کتاب الہند از البیرونی ترجمہ سید اصغر علی الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب اردو بازار لاہور صفحہ 238)


استواء ربیعی جو البیرونی کی عبارت میں 'عید بسنت' کے دن کے تعین کے طور پر استعمال ہوا ہے، کسے کہتے ہیں ؟ سورج سال میں دو مرتبہ خط استواء پر آتا ہے۔ ایک مرتبہ سردیوں کے اختتام اور بہار کے آغاز پر، اس کو 'استواء ربیعی' کہتے ہیں ۔ ربیع کا مطلب ہے بہار، دوسری مرتبہ گرمیوں کے اختتام اور خزاں کے آغاز پر، اسے استواء خریفی کہتے ہیں ۔ خریف بمعنی خزاں ۔ (بسنت کیا ہے ؟ از مولوی احمد حسن صفحہ 23،چشتی)


ہندو تیوہاروں کی اصلیت اور ان کی جغرافیائی کیفیت : ⏬


یہ منشی رام پرشادماتھر بی ۔ اے کی کتاب کا عنوان ہے ۔ اس کتاب کے سرورق پریہ الفاظ تحریر ہیں : اس میں منطقہ حارہ، ریگستان کی صورت، بکری فصل، ہجری، اور عیسوی سنوں کی ضرورت، دعا کی قوت، اور خدا کی عجیب حکمت کا اظہار کرکے ہندؤوں کا زبردست اخلاقی اور تمدنی انتظام بیان کیا گیاہے اور ہندو تیوہاروں کی ضرورت کو ثابت کیا گیا ہے'' یہ کتاب علامہ اقبال کی زندگی میں شائع ہوئی کیونکہ اس کے متعلق تعارف میں یہ لکھا گیا ہے کہ مصنف نے اس کتاب کا ایک نسخہ علامہ اقبال کو بھی بھجوایا تھا جو انہوں نے پسند فرمایا، اس کتاب پرمصنف کو بھارت مہامنڈل خطاب بھی عطا کیا گیا اور یہ کتاب ہندوستان کے پرائمری سکولوں کے نصاب میں بھی شامل رہی ہے۔ اس کتاب میں رام پرشاد لکھتے ہیں :

''بسنت پنچمی: اب فصل کے بارآور ہونے کا اطمینان ہوچلا۔ اور کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اس لئے کاشتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پیدا ہوئی ہے۔ وہ زرد پھولوں کو خوش خوش لا کر بیوی بچوں کو دکھاتاہے اور پھر سب مل کر بسنت کا تیوہار مناتے ہیں اور زرد پھول اپنے اپنے کانوں میں بطور زیور لگاتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرتما ! ہماری محنت کا پھل عطاکر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر ۔ (صفحہ 102)


ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت : ⏬


یہ بھی منشی رام پرشاد ماتھر کی ایک دوسری کتاب کا عنوان ہے۔ اس کتاب میں بھی بسنت پنچمی کا ذکر وہ کئی جگہ کرتے ہیں ۔ مثلاً

(i) ''صفحہ نمبر 126 پر بسنت پنچمی کی تقریباً مندرجہ بالا تفصیلات درج کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں : ''بسنت پنچمی کو وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے'' (صفحہ :126)

(ii) اسی کتاب کے ایک باب ''ہماری ضروریات کے لحاظ سے تیوہاروں کی تقسیم'' میں علوم وفنون کے تیوہاروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ'جاڑوں میں بسنت پنچمی' ہوتا ہے ۔ (صفحہ 195) ۔ (صفحہ 191)

(iii) اس کتاب کے باب''تیوہاروں کے انتظامی حالات و وجوہ'' میں مختلف تہواروں کا ذکر کرتے ہوئے سیریل نمبر 36 پر بسنت پنچمی کے متعلق لکھا ہے : فصل میں پھول پیدا ہونے اور کلیاں کھلنے کی خوشی اور قدرتی نظارے کے لطف کا دن (iv) مذکورہ کتاب کے باب'مختلف صوبہ جات کی مختلف رسمیات' کے نام سے شامل باب میں بسنت پنچمی کا تذکرہ یوں ملتا ہے : بسنت پنچمی : یہ تیوہار گجرات، پنجاب، ممالک متحدہ اور راجپوتانہ وغیرہ میں زیادہ منایا جاتا ہے۔ دکھن میں بہت کم ہوتا ہے، وہاں اس روز امیر لوگ گاتے بجاتے ہیں اور مندروں میں اوتسو ہوتا ہے۔ راجپوتانہ میں بسنتی کپڑے پہنے جاتے ہیں ، بنگالہ میں اس کوسری پنچمی کہتے ہیں اور سرستی کی پوجا کرتے ہیں ۔ قلم دوات نہیں چھوتے۔ اگر لکھنے کا ضروری کام آجاتا ہے تو تختی پرکھریا سے لکھتے ہیں ۔شام کو بچے قسم قسم کے کھیل کھیلتے ہیں اور دوسرے دن سرستی کی مورتی کسی تالاب میں ڈال دیتے ہیں ۔ اس روز کہیں کہیں 'کامدیو' اور اس کی بی بی 'رتی' کی پوجا ہوتی ہے۔ اضلاع اودھ اور قرب و جوار میں اس روز نوا کی رسم ہوتی ہے، یعنی لوگ نیا اناج استعمال کرتے ہیں ۔ اوکھلا اور بندک پور (جی آئی پی ریلوے) میں بسنت کا میلہ تین دن تک ہوتا ہے۔ ممالک ِپورب وغیرہ میں بھی موسم بہار کا اسی قسم کا ابتدائی تیوہار ہوتاہے۔''

(v) اس کتاب میں مختلف ہندو تہواروں کا جدول اور فہرست شامل کی گئی ہے جس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندومت میں مختلف تہواروں کو کس طرح اہمیت دی گئی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس جدول کا ایک صفحہ یہاں ہوبہو نقل کیا جاتا ہے :

نمبر

نام تیوہار

مہینہ وتتھ

کس نے کس کو بتایا

کتاب

کیفیت


49

بسنت پنچمی

ماگھ سدی پنچمی

اس روز کا مدیون اور رتی کی پوجا ہوتی ہے کامدیو کو شیو جی نے بھشم کر دیا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکلا اور پرومن ہوا، اس کی جھنڈی پر مچھلی کی شکل تھی۔


50

سیتلا گھشٹی

ماگھ سدی چھٹہ

کھشٹی دیوی نے بڈھی برہمنی کو

بنگالہ اور مشرقی ہند میں یہ تیوہار ہوتا ہے۔


51

چلا ستمی یا سوریہ ستمی

ماگھ سدی سمی

بشٹ جی نے اندومتی رنڈی کو اور سری کرشن نے جدھشٹر کو

بھوشرترپران

یہ برت مہاراشٹر میں ہوتا ہے اور سخت بیمار اچھے ہو جاتے ہیں ۔اندومتی مہاراجہ سمر کی رنڈی تھی اس نے بشٹ جی سے اپنی نجات کی ترکیب پوچھی انہوں نے یہ برت بتایا۔


52

بھشما اشٹمی

ماگھ سدی اشٹمی

پدم پران

اس روز بھیشم پتامہ کا انتقال ہوا تھا،یہ ان کے شرادھ کا دن ہے یہ شرادھ باپ کی زندگی میں ہر لڑکا بھی کر سکتا ہے۔


53

آسمانی کا پوجن

بیساکھ ، اساڑھ

یہ برت لڑکے کی ماں کرتی ہے۔ نمک نہیں کھاتی ، یہ امید کی دیوی کیس

نمب کس نے کس کو بتایا

حوالہ کتاب

کیفیت


54

ماگھ اتوار کے روز

پوجا ہے۔ ایک راجہ نے اپنے شریر لڑکے کو ملک سے نکال دیا۔امید کی دیوی نے اسے چار کوڑیاں دیں جن کے اثر سے وہ دوسرے شہر کے راجہ سے جوئے میں جیت گیا اور اس کی لڑکی بیاہ لی اور اپنے والدین کے پاس آیا۔ اس کی کامیابی پر اس پرت کا رواج ہوا۔


55

شیور اتری

پھاگن بدی تردوشی دیا چودس

شیو جی نے پاربتی جی کو اور مندر کے برہمنوں کے ذریعے سے ایک شکاری کو

لنگ پر ان اسکندھ پران اور ایشان سنگھتا

یہ تیوہار نیپال اور تمام ہندوستان میں ہوتا ہے ایک شکاری نے ہرنی اور ہرن پر رحم کھا کر شکار نہیں کیا دو ہرنی اور اس کے پیچھے ہرن ان تین ستاروں سے مرگشر نکشتر بنا ہے جو آسمان میں موجود ہے۔


56

ہولی

پھاگن پرنماشی

بشٹ جی نے راجہ پرتھو کو ناروحی نے راجہ جدھڑ کو

بھوشرترپران

منجملہ 14 منو کے اس روز ایک منو کا جنم ہوا ہے۔ہولی جلا ناکئی شاستر کاروں نے بسنے آنے کا گیہ یہ بتایا ہے، بعض اس کو سمت کے شروع میں اگن سروپ


(4) 'فرہنگ ِآصفیہ'

یہ معروف لغت مولوی سید احمد دہلوی کی تالیف کردہ ہے۔ اسے 'اردو سائنس بورڈ' لاہور نے چھاپا ہے۔ اس میں ''بسنت'' کے لفظ کے نیچے اس کے مطالب دیئے گئے ہیں اور اس کی تاریخی حیثیت کی وضاحت بھی کی گئی ہے، وہ بسنت کا ایک مطلب یوں بیان کرتے ہیں : ''وہ میلہ جو موسم بہار میں بزرگوں کے مزار اور دیوی دیوتاؤں کے استھانوں پر سرسوں کے پھول چڑھا کر کرتے ہیں '' اس کے بعد اس کی مزید تفصیل یوں درج ہے:

''اگرچہ اصل رت بیساکھ کے مہینے میں آئی ہے، مگر اس کا میلہ سرسوں کے پھولتے ہی ماگھ کے مہینے میں شروع ہوجاتا ہے۔چونکہ موسم سرما میں سردی کے باعث طبیعت کو انقباض ہوتا ہے اور آمد بہار میں سیلان خون کے باعث طبیعت میں شگفتگی، امنگ اور ولولہ اور ایک قسم کی خاص خوشی اور صفراتی پیدائش پائی جاتی ہے۔ اس سبب سے اہل ہند اس موسم کو مبارک اور اچھا سمجھ کر نیک شگون کے واسطے اپنے اپنے دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے استھانوں میں مندروں پر ان کے رجھانے کے لئے یہ مقتضائے موسم سرسوں کے پھول کے گڑوے بنا کر گاتے بجاتے لے جاتے ہیں اور اس میلے کو بسنت کہتے ہیں ۔ بلکہ یہی وجہ ہے کہ وہ رنگ کو اس سے مناسبت دینے لگے... پہلے اس میلہ کا مسلمانوں میں دستور نہ تھا'' ... ہندو کالی دیوی یا کالکا دیوی کے مندر پر گڑوے بنا بنا کر خوشی خوشی گاتے بجاتے چلے جاتے ہیں ۔ (صفحہ 394 ، 395)


(5) ابوالفضل

مغل شہنشاہ اکبر کے نورتن ابوالفضل نے لکھا ہے کہ ہندو ماگھ کے مہینے میں تیسری، چوتھی، پانچویں اور ساتویں تاریخ کو چار تہوار مناتے ہیں ۔ پانچویں تاریخ کو بسنت کابڑا جشن ہوتاہے اس روز رنگ اورعنبر ایک دوسرے پر چھڑکے جاتے ہیں ، نغمہ و سرود کی مجلس منعقد کرتے ہیں ۔ (مغل شنہشاہوں کے شب و روز ۔ مصنف سید صباح الدین عبدالرحمن صفحہ 347 نگارشات میاں چیمبرز 3 ٹیمپل روڈ لاہور،چشتی)


(6) 'بہار دیوی'

ہندو دیو مالا میں موسم بہار کو بھی دیوی کا درجہ حاصل ہے اور ا س کی پوجا کی جاتی ہے۔ دیگر قدیم مذاہب اور تہذیبوں کا حال بھی مختلف نہیں ہے۔ وہاں بھی اسے مختلف ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ بہار دیوں کے مصر میں آئسس، شام و عراق میں عشار ، یونان میں وینس، ایران میں ناہید، روم میں رسیرس، چین میں شیس، ہند میں درگا دیوی اور قدیم عرب میں زہرہ کہا جاتاتھا ۔ (نوائے وقت 9 فروری 2003ء)


(7) بال ٹھاکرے

بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا کے سربراہ لاہو رمیں بسنت تہوار منانے پر ہر سال خوشی کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ بسنت 2002ء کے موقع پر انہوں نے بیان دیا:

''لاہور میں بسنت ہندو مذہب کی عظیم کامیابی ہے۔ مسلمان تقسیم ہند سے پہلے بھارتی ثقافت اپنا لیتے تو لاکھوں افراد کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ انہوں نے چھتوں سے گر کر ہلاک ہونیوالے نوجوانوں کو اپنا شہید کہا ۔ (ضربِ مؤمن جلد 5 شمارہ 9 ، روزنامہ جنگ 20 فروری2001ء،چشتی)


(8) کلدیپ نیئر

کلدیپ نیئر نامور بھارتی صحافی ہیں ۔ ان کے مضامین روزنامہ نوائے وقت اور 'ڈان' میں تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ 1998ء میں وہ بسنت کے موقع پر لاہو رمیں موجود تھے۔ پاکستانیوں کا جوش و خروش دیکھ کر انہوں نے اخباری بیان دیا:

''پاکستان میں بسنت کا تہوار بھارت سے بھی زیادہ جوش سے منایا جاتا ہے۔ یہاں پر بسنت منانے کا انداز بھارت سے دیوالی کے میلے سے ملتا جلتا ہے۔ میں اس جشن سے بہت متاثر ہوا ہوں اور اہل لاہور کا جوش و خروش دیکھ کر حیران ہوں ۔ یہاں سے اور بھارت کے ماحول میں کافی مماثلت پائی گئی ہے ۔ (روزنامہ جنگ 23 فروری 1998ء)


(9) وجے کمار

وجے کمار بمبئی کا ایک ہندو نوجوان ہے جو 2000ء میں بسنت کے موقع پر لاہور آیا تھا، بعد میں اس نے ایک مضمون میں اپنے تاثرات بھی بیان کئے تھے۔ اس نے کہا:

''زندہ دلان لاہور کے بسنت منانے کے انداز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ہمارا نہیں بلکہ تمہارا مذہبی تہوار ہے ۔ (خبریں کتابچہ ، واہ رے مسلمان ، از سلیم رؤوف)


(10) اندرجیت سنگھ

یہ بھی ایک ہندوستانی نوجوان تھا جو 2001ء میں بسنت کے موقع پر لاہور آیا تھا۔ اس نے بیان دیا : جس قدر لاہور میں بسنت کی دھوم دھام دیکھنے میں آئی ہے، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ لاہور ہندوستان کا ہی حصہ ہے۔ ہمیں تو یہاں بسنت منا کر محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں ۔ (روزنامہ جنگ 21 فروری 2001ء)


(11) سونیا گاندھی

کانگریسی لیڈر سونیا گاندھی جو پاکستان کو ثقافتی طور پر فتح کرنے کا اظہار کرتی رہتی ہیں ۔ 1998ء میں بسنت کے موقع پر ان کا بیان شائع ہوا : ہم سیاسی طور پر نفرت کی بنیادیں ہلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا مقصد تھا ۔ (روزنامہ جنگ 22 فروری 1998ء)


مذکورہ تاریخی حوالہ جات اور ہندوؤں کے بیانات پڑھنے کے بعد کیا کوئی ایسا صحیح الفکر انسان ہے جو اس بات میں شک کا اظہار کرے کہ بسنت ہندوانہ تہوار ہے ۔ بال ٹھاکرے اور دیگر ہندوستانی شہریوں کے بیانات ہماری دینی غیرت اور قومی حمیت کےلیے عبرت ناک تازیانہ نہیں ہیں ؟ یہ ہم سب پاکستانیوں کےلیے لمحہ فکریہ ہے جو آج بھی نہایت خلوص سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا تاکہ یہاں اسلام کے روشن اُصولوں کو نافذ کیا جا سکے اور جو پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر دیکھنے کے تصور سے اب تک دست بردار نہیں ہوتے ہیں ۔


تو معلوم ہوا  کہ  یہ میلہ ہندوانہ ہے ، اور پتنگ بازی تو ایسی قبیح حرکت  ہے ، جو ایک گستاخ رسول کی یا د میں شروع کی  گئی تھی ۔ لہذا بسنت کی تہوار  میں شریک ہونا ، پتنگ اڑانا ، کھانا  کھانا ، وغیرہ  کام جائز نہیں ، ان امور سے اجتناب  لازم ہے ۔


ہر گزرتا سال اس کی گندگیوں ، ناپاکیوں میں اضافہ ہی کرتا چلا گیا ، پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ موٹرسائیکل پر بیٹھے ننھے بچوں کے گلوں پر دھاتی ڈور پھرنے لگی ، بجلی کے کرنٹ سے نوجوان کوئلہ بنے ، والدین کے بڑھاپے کا سہارا چِھنا ، کسی کا سہاگ اُجڑا ،کسی کے سر سے کفالت کرنے والے بڑے بھائی کا سایہ اُٹھا ، گلی گلی میوزک ہال بنی اور بڑے بڑے گھروں ہوٹلوں کی چھتیں ناچنے والیوں کے ٹھکانے ، بدکاریوں نے ریکارڈ توڑ دئیے تو زبردستی بھی عصمتیں برباد کی گئیں ، شرابیں پی کر ہوائی فائرنگ کرنے والوں کی گولیاں صحن میں سونے والوں کے جسم میں انگارہ بن کر اُتریں اور انہیں قیدِ حیات سے آزاد کر گئیں ، چھتوں سے گرنے والے پہلے اسپتال پھر قبرستان پہنچے تو کچھ لوگوں کو ہوش آیا اور اس خونی تہوار ’’بسنت‘‘ پر قانونی پابندی لگ گئی ، پتنگ بنانا ، بیچنا ، اُڑانا جرم قرار پایا تو کچھ سکون ہوا ۔ اس پابندی کو آٹھ نوسال ہونے کو آئے اب دوبارہ اس کی اجازت دی جا رہی ہے ۔ اپنی ذہنی آوارگی کو تسکین دینے والے ہر مرتبہ بسنت پر پابندی ختم ہونے کا شوشا چھوڑتے ہیں ، کبھی ثقافتی تہوار ، کبھی خوشیاں بکھیرنے اور کبھی محرومیوں کا مداوا کرنے کے نام پر بے سروپا دلائل کا شور مچا دیتے ہیں ، خیرکے مقابلے میں شر تیزی سے پھیلتا ہے ، کے مصداق من چلے اور ناسمجھ کم عمر نوجوان خوشیوں کے نام پر پتنگ بازی شروع کردیتے ہیں ، اب ڈور سے اپنا ہاتھ کٹے یا کسی کا ننھا گلا ،پولیس پکڑے یا چھت سے گر کر ٹانگ ٹوٹے ، بجلی کے ٹرانسفارمر دھماکے سے اُڑیں یا بے ہنگم گانوں کے شور سے کسی کی نیند خراب ہو، پڑھائی برباد ہو یا صحت ! ان پر ایسا شیطانی جنون سوار ہوتا ہے کہ بسنت منانے کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں ۔


الحَمْدُ ِلله ہم مسلمان ہیں ، ہماری زندگی شریعت کے احکام کے مطابق گزرے اسی میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی ہے ۔ ہماری خوشیاں بھی شریعت کے دائرے میں ہوں اور غم کے لمحات بھی نورِ شریعت میں گزریں۔ بسنت منانے سے جُڑے ہر فرد سے خیرخواہی کے جذبے کے تحت گزارش ہے کہ بسنت کے اجزائے ترکیبی میں سے کوئی شے بتا دیں جس کی اجازت ہمارا اسلام دیتا ہو، پتنگ بازی ناجائز، ڈور لُوٹنا جائز نہیں، ساز وآواز پر مشتمل موسیقی سننا ناجائز، پتلی دیواروں پر کھڑے ہونا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی اسلام میں اجازت نہیں، بلند چھتوں پر چڑھ کر دوسروں کے گھر میں جھانکنے کی اجازت نہیں، عورتوں لڑکیوں کا بے پردہ اونچی چھتوں پر چڑھنا، بوکاٹا کے نعرے لگانا ، لڈیاں ڈالنا کہاں جائز لکھا ہے، دھاتی اور تیز دھار ڈور جب کسی کے گلے پر پھرتی ہے تو اس کے دوسرے سرے پر موجود شخص دنیا میں چاہے نہ پکڑا جاسکے ، کیا آخرت میں بچ سکےگا ، شراب نوشی ، بدکاری کے حرام ہونے سے کون واقف نہیں ! پھر یہ بتائیے کہ کیا یہ سب کچھ ایک دن کےلیے ہوتا ہے ، کئی ہفتے پہلے سے اس بسنت کی تیاری شروع ہوجاتی ہے ، اور کئی دن بعد تک بچا ہوا سامانِ گناہ کام آتا رہتا ہے ، ایک دن کم دکھائی دیا تو آوارہ ذہن کے لوگوں نے بسنت نائٹ بھی منانا شروع کردی ، قانون اگر اس کی اجازت دے بھی دے تو کیا شرعاً یہ سب کچھ جائز ہوجائے گا ، ذرا سوچیے ! کہ پہلے نمازیں چھوڑنے ، روزے نہ رکھنے اور دیگر گناہوں کا انبار سرپر ہوتے ہوئے گناہوں کا پلندہ بسنت کے نام پر اپنے کندھوں پر رکھ لینا آپ کے خسارے میں اضافہ کرے گایا کمی ! یاد رکھیے ! دنیا اسی کی کامیاب ہے جو اپنے اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے اور آخرت میں بھی وہی کامیاب ہے جس نے اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کرلیا ۔ ایک راستہ جنت کی طرف جاتا ہے اور دوسرا جہنم کو ، فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کس راہ پر چلنا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Saturday, 6 December 2025

کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا

کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا

محترم قارئینِ کرام : کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے ۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابلِ مذمت ہوتا ہے ۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث میں سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔ برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ۔ کسی کا نام بگاڑنا یعنی ایسے نام سے پکارنا جو اسے بُرا لگتا  ہو مثلاً لمبُو ، کالُو ، موٹُو وغیرہ کہنا گناہ ہے ۔ کسی مسلمان کو بُرے لقب سے پکارنا قرآن مجید کی آیت کی رو سے حرام اور سخت گناہ ہے ۔ بلا وجہ شرعی کسی بھی شخص کو بُرا بھلا کہنا جو اس کے دل شکنی کا باعث بنے حرام ہے ۔ اللہ عزوجل نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے قرآنِ کریم میں ہے : وَ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ ۔ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔

ترجمہ : اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 11)


اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے ۔ لہٰذا دوسروں کا نام بگاڑنے سے بچئے! اور جو بگاڑتا ہے اسے نرمی سے منع کیجیے ۔ نقلیں اتارنا : کسی کے چلنے ، بات کرنےیا پھر ہاتھ وغیرہ ہلانے کا طریقہ دیکھ کر بعض بچےاس  کے سامنے اس کی نقل اتارتے ہیں جس سے سامنے والے کا دل دُکھتا اور اسے اذِیّت ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مسلمان کو تکلیف دی گویا اس نے مجھے تکلیف دی او رجس نے مجھے تکلیف دی گویا اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کوتکلیف دی ۔ (معجمِ اوسط،ج2،ص386 ،حدیث: 3607)


لہٰذا دوسروں کی نقلیں اتارنے سے بچیے ۔ دوسروں سے مانگ کر چیز کھانا : بعض بچوں میں ایک بری عادت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے مانگ کر چیزیں کھاتے ہیں جو کہ اچھی عادت نہیں ہے اس سے ان  کا  وقار (Image) بھی خراب ہوتا ہے اور اس بری عادت کی وجہ سے دوسرے بچے  ان  کے ساتھ بیٹھ کر کھانا  پینا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے بچوں کو چاہیے کہ کھانے کی چیزیں اپنے گھر سے لے کر جائیں اور دوسروں سے مانگ کرمت کھائیں ۔


برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے : مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو ۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121،چشتی)


تفسیر الطبرى میں ہے کہ " و الذی هو أولى الأقوال فی تأويل ذلك عندی بالصواب أن يقال : إن الله تعالى ذكره نهى المؤمنين أن يتنابزوا بالألقاب و التنابز بالألقاب : هو دعاء المرء صاحبه بما يكرهه من اسم أو صفة ، و عمّ الله بنهية ذلك ، و لم يخصص به بعض الألقاب دون بعض ، فغير جائز لأحد من المسلمين أن ينبز أخاه باسم يكرهه ، أو صفة يكرهها و إذا كان ذلك كذلك صحت الأقوال التی قالها أهل التأويل فی ذلك التی ذكرناها كلها ، و لم يكن بعض ذلك أولى بالصواب من بعض ، لأن كلّ ذلك مما نهى الله المسلمين أن ينبز بعضهم بعضًا " اھ ۔ (تفسیر طبری ج 22 ص 302 ) 


فتاوی رضویہ میں ہے کہ : کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اسے ایذاء پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بار فی نفسہ سچی ہو " فان كل حق صدق و ليس كل صدق حقا " اھ یعنی ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں ۔ ابن السنی عمیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من دعا رجلا بغير اسمه لعنته الملائكة فی التيسير أی بلقب يكرها لا بنحو يا عبد الله " اھ یعنی جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے " اھ ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ 416 : مکتبہ امام شافعی ریاض،چشتی) 


طبرانی معجم اوسط میں بسند حسن انس رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من أذا مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذای الله " اھ یعنی جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی " اھ ۔ (المعجم الاوسط جلد 4 صفحہ 373 رقم حدیث نمبر 3632 مکتبہ المعارف ریاض) 


بحر الرائق و در مختار میں ہے کہ : فى القنية : قال ليهودى او مجوسى يا كافر ياثم ان شق عليه و مقتضاه ان يعزر لارتكابه الاثم " اھ  ، یعنی جس نے کسی ذمی یہودی یا مجوسی سے کہا اے کافر اور یہ بات اسے گراں گزری تو کہنے والا گہنگار ہوگا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تعزیر کی جائے گی " اھ ۔ (در مختار جلد 1 صفحہ 329 کتاب الحدود باب التعزیر مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 204 رضا فاؤنڈیشن لاہور)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)


برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977)


برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)


برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں ہے : جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977) 


برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)


حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ عَنْہُ اونچا سنتے تھے ، جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس شریف میں  حاضر ہوتے تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ انہیں  آگے بٹھاتے اور اُن کےلیے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں  ۔ایک روز انہیں حاضری میں  دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں  جگہ نہ پاتا تو جہاں  ہوتا وہیں کھڑا رہتا ۔ لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ آئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب بیٹھنے کےلیے لوگوں  کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ ’’جگہ دو جگہ‘‘ یہاں  تک کہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان میں  صرف ایک شخص رہ گیا ، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا : تمہیں  جگہ مل گئی ہے اس لیے بیٹھ جاٶ ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ غصّہ میں  آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن ہوا تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کا جسم دبا کر کہا : کون ؟ اس نے کہا : میں  فلاں  شخص ہوں ۔ حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں  کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا ۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں  ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا ، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔


حضر ت ضحاک رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت بنی تمیم کے ان افراد کے بارے میں  نازل ہوئی جو حضرت عمار ، حضرت خباب ، حضرت بلال ، حضرت صہیب ، حضرت سلمان اور حضرت سالم وغیرہ غریب صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کی غُربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں  سے نہ ہنسیں ، یعنی مال دار غریبوں  کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں  جس کی آنکھ میں  عیب ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں  سے صدق اور اخلاص میں  بہتر ہوں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹،چشتی)


آیت کے دوسرے شانِ نزول سے معلوم ہو اکہ اگر کسی شخص میں  فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں  تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے ، ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں  دینداری کے لحاظ سے کہیں  بہتر ہو ۔


حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی لوگ ایسے ہیں  جن کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، ان کے پاس دو پُرانی چادریں  ہوتی ہیں اور انہیں کوئی پناہ نہیں دیتا (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ان کا رتبہ ومقام یہ ہوتا ہے کہ) اگروہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں (کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ (وہ کام کر کے) ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ، ۵ / ۴۵۹، الحدیث: ۳۸۸۰)


حضر ت حارث بن وہب خزاعی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں  تمہیں  جنتی لوگوں  کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ یہ ہر وہ شخص ہے جو کمزور اور (لوگوں  کی نگاہوں میں) گرا ہوا ہے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی قسم سچی کر دے گا ۔ (جامع ترمذی کتاب صفۃ جہنّم ، ۱۳-باب، ۴ / ۲۷۲، الحدیث: ۲۶۱۴،چشتی)


وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ : اور نہ عورتیں  دوسری عورتوں  پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں  سے بہتر ہوں ۔


شانِ نزول : آیت ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو رِوایات درج ذیل ہیں  : ⬇


حضر ت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ عَنْہُنَّ کے متعلق نازل ہوئی ہے ، انہوں  نے حضرت ِاُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا  کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا ۔


حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَی رَضِیَ اللہ عَنْہَا کے حق میں  اس وقت نازل ہوا جب انہیں  حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک زوجۂ مُطَہَّرہ نے یہودی کی بیٹی کہا ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹)


اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : اُمُّ المومنین حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے انہیں  یہودی کی لڑکی کہا ہے ، (اس پر انہیں  رنج ہوا اور) آپ رونے لگیں  ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں  روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا ’’ تم کیوں  رو رہی ہو ؟ عرض کی : حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے ۔ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ تم نبی زادی ہو ، تیرے چچا نبی ہیں  اور نبی کی بیوی ہو ، تو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں  اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے فرمایا ’’ اے حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النّبی، ۵ / ۴۷۴، الحدیث: ۳۹۲۰)


آیتِ مبارکہ میں  عورتوں  کا جداگانہ ذکر اس لیے کیا گیا کہ عورتوں میں  ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اور اپنے آپ کو بڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ عورتیں  کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں  کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم ، نہ بڑوں کی بے ادبی ، نہ چھوٹوں سے بد لحاظی ، نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع ، نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں  سے جائز ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۱۹۴)


مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں  لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۳،چشتی)


کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاٶ ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو ۔ (جامع ترمذی کتاب البرّ والصّلۃ باب ما جاء فی المرائ ، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۲)


اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : میں  کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں  کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۵)


حضرت امام حسن رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگوں  کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا : آؤ یہاں  آؤ ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکار پڑے گی تو وہ نا امیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا ۔ (اس طرح وہ جنت میں  داخل ہو نے سے محروم رہے گا) ۔ (موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر... الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷،چشتی)


حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلیے اور اس کی تحقیر کرنے کےلیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں  کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں  حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں  سے توبہ لازم ہے ، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں  گے۔ اسی طرح سیٹھوں  اور مالداروں  کی عادت ہے کہ وہ غریبوں  کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں  کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے ، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں  کے سامنے دَم نہیں مار سکتے ۔ ان مالداروں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں  سے توبہ کر کے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں  گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں  کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں  کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں  گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۵-۱۷۶)


یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے ، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں  کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۶ صفحہ ۴۹۳-۴۹۴،چشتی)


امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو ، کسی کے دل کو اَذِیَّت نہ پہنچاؤ ، حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں  لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے ۔ (احیاء علوم الدین کتاب آفات اللّسان الآفۃ العاشرۃ المزاح جلد ۳ صفحہ ۱۵۹)


مزید فرماتے ہیں : وہ مزاح ممنوع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اسی میں  مصروف رہا جائے اور جہاں  تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں  خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ، کھیل اگرچہ (بعض صورتوں  میں) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں  لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے ، لہٰذا جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں  ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں (خوش طبعی میں) سچی بات ہی کہتا ہوں ۔ (معجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد جلد ۱ صفحہ ۲۸۳ الحدیث : ۹۹۵)


لیکن یہ بات تو آپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا لیکن جہاں تک دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مزاح اسی لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ہنسائیں خواہ جس طرح بھی ہو ، اور (اس کی وعید بیان کرتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں  کو ہنساتا ہے ، اس کی وجہ سے ثُرَیّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں  گرتا ہے ۔ (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، ۳ / ۳۶۶ ، الحدیث : ۹۲۳۱،چشتی)(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۸)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوش طبعی


حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ عَنْہَا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ کون ، وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے ؟ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ان کی آنکھ میں  سفیدی نہیں  ہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ کیوں  نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں  سفیدی ہے ۔ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ایسا نہیں  ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں  سفیدی نہ ہو (آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے) ۔ (سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ... الخ، ۷ / ۱۱۴)


حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں گھلے ملے رہتے ، حتّٰی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے ’’ ابو عمیر ! چڑیا کا کیا ہوا ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الانبساط الی الناس، ۴ / ۱۳۴، الحدیث: ۶۱۲۹)


حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سواری مانگی تو ارشاد فرمایا ’’ ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں  گے ۔ اس نے عرض کی : میں  اونٹنی کے بچے کا کیا کروں  گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنم دیتی ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المزاح، ۳ / ۳۹۹، الحدیث: ۱۹۹۹،چشتی)


حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا : جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی ۔ انہوں  نے (پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا ؟ (حالانکہ) وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے قرآن میں  یہ نہیں  پڑھا کہ : اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا ۔ (سورہ واقعہ:۳۵،۳۶)

ترجمہ : بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا ۔ تو ہم نے انہیں  کنواریاں  بنایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)


وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ : اورآپس میں  کسی کوطعنہ نہ دو ۔ یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاٶ کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا ۔ (تفسیر روح المعانی، الحجرات الآیۃ : ۱۱ ، ۱۳ / ۴۲۴)


طعنہ دینے کی مذمت


حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ ہوں  گے نہ شفیع ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب النّہی عن لعن الدّواب وغیرہا، ص۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))


حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی اللّعنۃ، ۳ / ۳۹۳، الحدیث: ۱۹۸۴)


وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ : اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔ برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ، ان میں  سے تین قول درج ذیل ہیں : ⬇


حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے ۔ یہاں  آیت میں  اس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں  مرے گاجب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کر لے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ...الخ، ۵۳-باب، ۴ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۵۱۳،چشتی)


بعض علماء نے فرمایا ’’ برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا ،یا گدھا، یا سور کہنا ہے ۔


بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں  ممنوع نہیں ، جیسے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ابوتُراب اور حضرت خالد رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں  وہ القاب بھی ممنوع نہیں ، جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)


بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے ۔ ارشاد فرمایا : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے تو اے مسلمانو ، کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں  تو وہی ظالم ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۷۰)


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ ‘‘ اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے


(1) ۔ مسلمانوں  کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت والا ہے ۔


(2) ۔ عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیں  تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے ۔


(3) ۔ مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے آج کل یہ بیماری مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی ہے۔ نسبی طعنہ کی بیماری عورتوں میں زیادہ ہے ، انہیں اس آیت سے سبق لینا چاہیے نہ معلوم بارگاہِ الٰہی میں کون کس سے بہتر ہو ۔


بہت سے لوگ زیادہ تر اپنے دوستوں کو برے ناموں سے پکارتے ہے ، اور یقیناً ایسا کرنے سے ہر کسی کا دل دکھتا ہے اپ خود اپنے ساتھ سوچو اگر کوئی آپ کو آپ کے نام کے علاوہ کسی اور نام سے پکارتے ہے تو اپ خود کیسے react کرتے ہیں ، ہر کسی کو برا لگتا ہے ۔ تو ہمیں چاہیے کہ ایسا نہ کرے اور اگر اب تک کرتے آرہے ہیں تو ان دوستوں سے معافی مانگے کیونکہ یہ ایک گنا ہے اور آئندہ سے لوگو کو اچھے اچھے القابات اور ناموں سے پکارے ۔


افسوس ! آج کل یہ بَلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے ، آدمی کا اَصْل نام بہت اچھا ہوتا ہے ، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو بُرے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔ جس کا جو نام ہو ، اس کو اُسی نام سے پُکارنا چاہیے ، اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا نام مثلاً لمبو ، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے ، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دِل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے ، اس کے باوُجُود پُکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کےلیے اسی الٹے نام سے پُکارتا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : کسی مسلمان بلکہ کافِر ذِمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پُکارنا جس سے اس کی دِل شکنی ہو ، اُسے ایذا پہنچے ، شرعاً ناجائِز و حرام ہے ، اگرچہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 204)


مثلاً کسی کا رنگ واقعی کالا ہے ، اس کے باوُجُود اسے کالو کہہ کر پُکارنے سے اس کی دِل آزاری ہوتی ہے تو اسے یُوں پُکارنا ناجائِز و حرام ہی رہے گا ۔


حضرت عُمیر بن سعد رَضِیَ اللہُ عنہ  بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی کو اس کے نام کے عِلاوہ نام (یعنی بُرے لقب سے) بُلایا ، اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں ۔ (جامع صغیر صفحہ 525 حدیث نمبر 8666)  


حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدتَرین جھوٹ ہے ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، صفحہ:994، حدیث:2563،چشتی)


(1) : جس کے بارے میں بدگمانی کی، اگر اس کے سامنے اس کا اظہار بھی کر دیا تو اس کی دِل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دِل آزاری حرام ہے ۔ (2) : اگر مسلمان کے سامنے اس کے متعلق بدگمانی کا اظہار نہ کیا ، بلکہ اس کی پیٹھ پیچھے کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا بھی حرام ہے ۔ (3) : بدگمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ سامنے والے کےعیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا بھی گُنَاہ ہے ۔ (4) : بدگمانی کی ہلاکت میں سے یہ بھی ہے کہ بدگمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک باطنی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ (5) : بدگمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دُشمنی پیدا ہو جاتی ہے ، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتی ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے ، بدگمانی کی وجہ سے بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور بالآخر بعض دفعہ طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے ۔ بدگمانی کی وجہ سے بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اُجڑ کر رہ جاتا ہے ۔ (6) : دوسروں  کےلیے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں  کےلیے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ 86 فیصد بڑھ جاتا ہے ۔


ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعاً ناجائز ہے ۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں ۔ ان میں ایک مذاق اڑانا ہے ۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے ۔ اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکلتے ہیں ۔ چنانچہ باہمی کدورتیں ، رنجشیں ، لڑائی جھگڑا ، انتقامی سوچ ، بد گمانی ، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم ہو کر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ہے ۔ اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہو جاتا ہے ۔


اسلام نے مسلمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے ، عیب جوئی کرنے ، طعنہ دینے اور برے القاب سے پکارنے سے منع کیا ہے ۔ یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خصوصی احکامات سورة الحجرات میں واضح طور پر بیان فرمائے ہیں ۔ اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر11)


مذاق اڑانے کا مفہوم


امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تمسخر کرنے یا مذاق اڑانے کے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے ۔ (احیاءالعلوم جلد 3 صفحہ 207)


مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جا رہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو ۔ اگر مذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے ۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہو رہی ہو تو بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا ۔


مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاءرسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 173)


تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے ۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی ۔ (صحیح بخاری / 440)


مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کار فرما ہے اور تکبر کے متعلق قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم ، 266)


مذاق اڑانے کا نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری اور ایذا رسانی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس ایذا رسانی کی مذمت ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان تکلیف نہ اٹھائیں ۔ (صحیح بخاری : 10)


امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابی داﺅد، کتاب الادب، حدیث :4875،چشتی)


حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلئے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، نقل اتارنا ، طعنہ مارنا ، عار دلانا ، اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عرفی شرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں ۔ محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسخر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ، کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزا وار بنیں گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 175 ، 176)


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کر چکا ہو اور حق کی طرف رجوع کر چکا ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا ۔ (تفسیر جامع البیان،ج26 ،ص 172)


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد علیہ الرحمہ نے کہا : اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے ۔ (سنن ترمذی : 2505)


قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے : اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو ، بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم (کسی کے متعلق) تجسس کرو، اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، سو تم اس کو ناپسند کرو گے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے ، بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 12)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کےلیے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی سے بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔ ایک روایت میں ہے : اور کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے ۔ (صحیح بخاری : 6065)


بعض علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر حدیث میں گمان کی ممانعت سے مراد بدگمانی سے منع کرنا ہے اور کسی پر تہمت لگانے سے منع کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بغیر کسی قوی دلیل کے اور بغیر کسی سبب موجب کے یہ گمان کرے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتا ہے۔ یعنی ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آ جائے کہ فلاں شخص فلاں برا کام کرتا ہے تو یہ بدگمانی ہے۔


نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور تجسس نہ کرو یعنی کسی مسلمان کے عیوب اور اس کی کوتاہیوں کو تلاش نہ کرو ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کے ظاہر حال پر عمل کرو اور اس کے عیوب کو تلاش نہ کرو اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے جس مسلمان کے عیوب پر پردہ رکھا ہوا ہے اس کے پردہ کو چاک نہ کرو۔ حدیث میں ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کروگے تو تم ان کو خراب کردو گے ۔ (سنن ابو داؤد : 4888)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری : 2442،چشتی)(صحیح مسلم : 695)


عام لوگوں کےلیے لوگوں کے احوال کو تلاش کرنا ممنوع ہے لیکن حکومت داخلی اور خارجی معاملات کی حفاظت کےلیے جاسوسی کا محکمہ قائم کرے تو یہ جائز ہے ۔


ملک کے داخلی معاملات کی اصلاح کےلیے جاسوس مقررکرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ، حضرت زبیر کو اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور فرمایا تم روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک باغ) میں جاؤ ، وہاں ایک مسافرہ ہو گی ، اس کے پاس ایک خط ہو گا وہ اس سے لے کر قبضہ میں کر لو ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے گئے ، ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو ، پہلے اس نے انکار کیا مگر ہمارے ڈرانے پر اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکالا ، ہم اس خط کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے ۔ (صحیح بخاری: 3007،صحیح مسلم:2494)


علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس پر تعزیر لگائی جائے گی ، اگر اس کا عذر صحیح ہو تو اس کو معاف کر دیا جائے گا ، اگر کافر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔ (عمدة القاری جلد 14 صفحہ 356)


دشمن ملک کی طرف جاسوس روانہ کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وسلم نے 10 جاسوس روانہ کیے اور حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کوان کا امیر بنایا ۔ (صحیح بخاری، حدیث 3989،چشتی)(صحیح مسلم،حدیث 1776)


حدثنا عبد الله بن إسحاق الجوهري البصري، حدثنا ابو زيد صاحب الهروي، عن شعبة، عن داود بن ابي هند، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن ابي جبيرة بن الضحاك، قال: كان الرجل منا يكون له الاسمين والثلاثة فيدعى ببعضها، فعسى ان يكره، قال: فنزلت هذه الآية: ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ابو جبيرة هو اخو ثابت بن الضحاك بن خليفة انصاري، وابو زيد سعيد بن الربيع صاحب الهروي بصري ثقة ۔

ترجمہ : ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے ، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا ، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا ، اس پر یہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو ۔ (الحجرات: ۱۱) ، نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ابوجبیرہ ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیں ۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 3268 كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ الْحُجُرَات)(سنن ابی داود/ الأدب 71 حدیث 4962)


جامع الترمذي 3268 أبو جبيرة بن الضحاك يدعى ببعضها فعسى أن يكره نزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔


سنن أبي داود 4962 أبو جبيرة بن الضحاك يا فلان فيقولون مه يا رسول الله إنه يغضب من هذا الاسم أنزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔


سنن ابن ماجه 3741 أبو جبيرة بن الضحاك دعاهم ببعض تلك الأسماء فيقال يا رسول الله إنه يغضب من هذا نزلت ولا تنابزوا بالألقاب ۔


ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو ، تین تین نام تھے ، بسا اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے ، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے ، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : «ولا تنابزوا بالألقاب» ” کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ۔ (سنن ابن ماجه/كتاب الأدب حدیث : 3741،چشتی)


کسی کو ایسے نام یا لقب سے نہیں پکارنا چاہیے جو اسے نا گوار ہو ۔ مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بلا وجہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں ۔ معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے ۔ برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔ برے لقب سے موسوم کرنے کےلیے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے : لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو ۔ کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہو جائے تو یہ گناہ سرزد ہو جائے گا ۔


پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر و تذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو ۔ مثال کے طور پر بکر نے زید کو اس کی پست قامتی کا احساس دلانے کےلیے اور اسے اذیت پہنچانے کےلیے جملہ کہا ” اور بونے صاحب ! کہاں چل دیے ۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لیے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔


دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے ۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا ۔ مثلا زید نے بکر سے کہا او ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے ؟ الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے ۔


تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو ۔ مثال کے طور پر زید نے بکر سے بے تکلفی میں کہا ” او کمینے ! بات تو مکمل کرنے دے ، پھر اپنی کہنا ۔ یہ سن کر بکر ہنسنے لگا ۔ یہاں زید نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور بکر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے ۔


ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کر دیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا ، چھوٹو ، موٹو ، کانا ، چندا ، کلو ، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو ، گڈو ، منا ، چنا ، بے بی ، گڈی ، گڑیا ، چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے ؟

اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا ۔ خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں ۔ دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے ، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کےلیے دیے جاتے ہیں ۔ جیسے فاروق ، صدیق ، غنی ، قائد اعظم ، علامہ وغیر ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ۔


عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں : ⬇


1 ۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو ، موٹو ، ٹھنگو ، لمبو ، کلو ، چٹا ، منا ، کبڑا ، لنگڑا ، ٹنٹا ، اندھا ، کانا وغیر کہنا ۔


2 ۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق ، فاسق ، کافر ، بنیاد پرست ، یہودی ، نصرانی ، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں ۔


3 ۔ قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر ، مکڑ ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا ، بھاٶ غیرہ مشہور ہیں ۔


4 ۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ ، بدذات ، طوائف ، کال گرل ، لونڈا ، ہیجڑا ، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں ۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا ۔ مثال کے طور پر بھڑوا در حقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے ۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا ۔


5 ۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی ، زانی ، قاتل ، لٹیرا ، دہشت گرد ، چور وغیرہ ۔

6 ۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا ، گدھا ، سور ، الو ، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا ۔


7 ۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل ، بھوت ، جن ، بدروح وغیرہ کہنا ۔


8 ۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور ، بدخصلت ، لالچی ، بخیل ، ذلیل ، چمچہ ، کنجوس ، خود غرض ، فضول خرچ ، عیاش وغیرہ کہنا ۔


9 ۔ عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی ، چچا ، ماموں ، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا ۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں ۔


10 ۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتاً فوقتاً اس چڑ سے اسے تنگ کرنا ۔


11 ۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازنا جیسے کسی کو موچی ، بھنگی ، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا ۔


​کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں ۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کےلیے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے ۔ برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے ۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے ۔ سنن ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9،چشتی)


ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے ۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو ! ذرا ادھر تو آ ۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے ۔ رفعت نے منورہ کی چالاکی کو بیان کرنے کےلیے اسے لومڑی کہا ۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔ کسی خاتون نے اپنی کزن کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو ۔ وہ سمجھی کہ اس نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی ۔ جبکہ اس کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو اس کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ اس کی کزن کا برا ماننا ناحق ہے اور غلط فہمی کی وجہ سے ہے ۔ کسی نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر” کہہ دیا ۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے ۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو ” پروفیسر” کے لقب سے موسوم کر دیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی ۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔


مذکورہ بالا حصّہ اوّل اور دوم میں قرآن و احادیث کے دلائل اور آئمہ علیہم الرحمہ کی تصریحات سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان کا مذاق اڑانا ، عیب جوئی کرنا ، طعنہ زنی کرنا اور برے القاب یا ناموں سے پکارنا شرعاً حرام ہے ۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماء کو چاہیے کہ وہ زبان و بیان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں ۔ یہ لوگ عوام الناس کےلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے : لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔ اس لیے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماٸے ملت کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 1 December 2025

افضل البشر بعد الانبياء علیہم السلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

افضل البشر بعد الانبياء علیہم السلام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ





























































محترم قارئینِ کرام : اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء و رسل بشر و رسل ملائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہیں ، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ، ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی ، ان کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا ، ان کے بعد عَشَرَۂ مُبَشَّرہ کے بقیہ صحابۂ کرام ، ان کے بعد باقی اہل بدر ، ان کے بعد باقی اہل اُحد ، ان کے بعد باقی اہل بیعت رضوان ، پھر تمام صحابۂ کرام رِضْوَانُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ۔

افضل البشر بعد الانبياء علیہم السّلام بالتحقيق خاص یہ جملہ کلمہ حدیث نہیں ہے ، بلکہ متعدد احادیث کریمہ ، اور اقوالِ فقہا و متکلمین کا خلاصہ ہے . اور اہل سنت و جماعت کے اجماعی عقیدہ افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ترجمانی پر مشتمل مختصر سا جملہ ہے . جسے دنیا کے مختلف خطوں میں نماز جمعہ سے قبل ہونے والے خطبہ متوارثہ میں بالالتزام پڑھا جاتا ہے ۔ دراصل جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت رکھتے ہیں ، یوں ہی آپ کی امت کو سابقہ تمام امتوں پر فضیلت کا شرف حاصل ہے . پھر تمام امت محمدیہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب سے افضل قرار پائے ، پھر حضرات صحابۂ کرام میں وہ مہاجرین جنہیں سابقین اولین ہونے کا شرف حاصل ہے . پھر ان میں بھی وہ دس خوش نصیب حضرات جنہوں نے زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دنیا ہی میں جنتی ہونے کا مژدہ پایا، پھر ان عشرۂ مبشرہ میں حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تمام پر فضیلت حاصل ہے . اور ان چار یاروں میں بھی یارغار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تمام پر فضیلت حاصل ہے . یہ باتیں مستحکم دلائل پر مبنی ہیں ۔


افضلیت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حدیث کی روشنی میں : ⏬


 سیدنا عبد اللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانۂ مبارکہ میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو شمار کرتےان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو ۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب فضل ابی بکر بعد النبی ، الحدیث :  ۳۶۵۵، ج۲،  ص۵۱۸،چشتی)(صحیح بخاری مترجم جلد 2 صفحہ نمبر 605)،(تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۰، ص۳۴۶)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث 178 جلد اول ، ص107)


ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ کے وصال کے بعد آپ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)


حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671، جلد 2، ص 522)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر (ابن عساکر)


حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتائوں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)


ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے ۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری ، ابن عساکر ، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189، چشتی)


حضرت عمرو بن العاص رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے استفسار کیا کہ : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نزدیک مردوں میں سب زیادہ محبوب کون ہے ؟ إرشاد فرمایا : أبوبکر حدیث کے الفاظ ہیں : أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل فأتيته فقلت : أي الناس أحب إليك ؟ قال : "عائشة” فقلت من الرجال ؟ قال: "أبوها” قلت ثم من ؟ قال : ” ثم عمر بن الخطاب” فعد رجالاً ۔ [رواہ بخاری و مسلم]


حضرت عائشہ رضی الله عنها کی روایت ہے کہ سقيفۂ بنی ساعدہ کے موقع پر امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا : آپ ہمارے سردار ، ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب زیادہ محبوب ہیں یہ ایک طویل حدیث ہے جس کے بعض الفاظ ہیں : وفيه أن أبا بكر قال للأنصار : ولكنا الأمراء وأنتم الوزراء هم أوسط العرب دارا، وأعربهم أحسانا، فبايعوا عمر بن الخطاب أو أبا عبيدة بن الجراح فقال عمر بل نبايعك أنت *فأنت سيدنا وخيرنا وأحبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخذ عمر بيده فبايعه وبايعه الناس ۔ (رواہ البخاری)


چوتھے خلیفہ راشد باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب ان کے صاحبزادے حضرت محمد بن الحنفیہ نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد لوگوں میں کون سب سے بہتر ہے .؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ابوبکر ۔ حدیث کے متعلقہ الفاظ ہیں : محمد بن الحنفية قال : قلت : لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من ؟ قال : عمر ۔ (رواہ البخاری)


مسند احمد بن حنبل میں ہے کہ حضرت علي رضي الله عنه نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد اس امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق ہیں. حدیث کے الفاظ ہیں : عن علی رضی اللہ عنه أنه قال لأبي جحيفة: يا أبا جحيفة ألا أخبرك بأفضل هذه الأمة بعد نبيها قال: قلت: بلى ولم أكن أرى أن أحدا أفضل منه قال: *أفضل هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر وبعد أبي بكر عمر وبعدهما آخر ثالث ولم يسمه . (روى الإمام أحمد بإسناده)


سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی افضلیت پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم : ⏬


حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم ! آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبدبن حمید ، حدیث 212، ص 101، ابو نعیم، طبرانی)


حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام میں سے کسی کو بھی ابوبکر سے افضل کوئی ساتھی نصیب نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ سورۂ یٰسین میں بیان ہونے والے جن انبیاء کرام علیہم السلام کے جس شہید ساتھی کا ذکر ہے، وہ بھی ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے افضل نہ تھا ۔ (حاکم، ابن عساکر،چشتی)


حضرت اسعد بن زراہ رضی ﷲ عنہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک روح القدس جبریل امین نے مجھے خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ابوبکر ہیں ۔ (طبرانی المعجم الاوسط، حدیث 6448، جلد 5، ص 18)


حضرت سلمہ ابن اکوع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا ابوبکر لوگوں میں سب سے بہتر ہیں ۔ (طبرانی، ابن عدی)


حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نبیوں اور رسولوں کے سوا زمین وآسمان کی اگلی اورپچھلی مخلوق میں سب سے افضل ابوبکر ہیں ۔ (حاکم ،الکامل لابن عدی، حدیث 368، جلد 2،ص 180)


حضرت زبیر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد میری امت میں سب سے بہتر ابوبکر اور عمر ہیں ۔ (ابن عساکر، ابو العطوف، ابن الجوزی، العینی،چشتی)


حضرت ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ہم کہتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ، پھر عمر، پھر عثمان اور پھر علی ہیں (رضی اللہ عنہم) ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ، حدیث 3655،جلد 2، ص 451)


حضرت بساط بن اسلم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے فرمایا کہ میرے بعد تم پر کوئی بھی حکم نہیں چلائے گا ۔ (طبقات ابن سعد)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ اور حصرت سہل سعد رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ ابوبکر کی محبت اور ان کا شکر میرے ہر امتی پر واجب ہے ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، حدیث 174، جلد 30، ص 141)


حضرت حجاج تمیمی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسے دیکھو کہ ابوبکر اور عمر کا برائی سے ذکر کرتا ہے تو سمجھ لو کہ دراصل وہ اسلام کی بنیاد کو ڈھا رہا ہے ۔ (ابن قانع)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میری امت میں جتنے لوگ ابوبکر اور عمر کی محبت کے سبب جنت میں جائیں گے، اتنے لاالہ الا ﷲ کہنے کے سبب نہ جائیں گے ۔ (زوائد الزہد لعبد ﷲ بن احمد، الصواعق المحرقہ)


شانِ ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما ائمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی زبانی

حضرت محمد باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی تمام اولاد اس بات پر متفق ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کے بارے میں اچھی بات ہی کریں ۔ (الدارقطنی، الصواعق المحرقہ)


بسام صیرفی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو جعفر سے پوچھا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ ﷲ کی قسم! میں انہیں دوست رکھتا ہوں ، پھر تو ان کے حق میں استغفار کر ، تو میرے اہلبیت میں سے جسے بھی پائے گا ان سے محبت رکھتا ہوا پائے گا ۔ (دار قطنی)


امام جعفر صادق ، امام باقر رضی ﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ جو حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲعنہما کی فضیلت نہ پہچانے ، بے شک وہ سنت سے جاہل ہے ۔ (الدارقطنی)


حضرت عبد ﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو جعفر باقر سے تلوار پر سونے کا دستہ چڑھانے کا پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے اپنی تلوار پر سونے کا دستہ چڑھایا تھا ۔ میں نے عرض کی کہ آپ بھی انہیں ’’صدیق‘‘ کہتے ہیں ؟ تو آپ اچھل کر کھڑے ہوگئے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے فرمایا ، ہاں میں بھی انہیں ’’صدیق‘‘ کہتا ہوں جو انہیں ’’صدیق‘‘ نہ کہے، دنیا و آخرت میں ﷲ تعالیٰ اس کی بات کو سچی ثابت نہ کرے ۔ (ابن الجوزی، دارقطنی، صواعق المحرقہ ، چشتی)


حضرت سالم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو جعفر اور جعفر رضی ﷲ عنہما کے پاس حاضر ہوا۔ انہوں نے عرض کیا اے ﷲ تعالیٰ! بے شک میں ابوبکر اور عمر کو دوست رکھتا ہوں اور ان سے محبت رکھتا ہوں اے ﷲ ! اگر ان کا غیر ان سے افضل ہے تو قیامت کے دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت مجھے نصیب نہ ہوں ۔ (دارقطنی، صواعق المحرقہ، باب ثانی، ص 53)


حضرت زید بن علی رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو شخص ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما سے اپنی بیزاری ظاہر کرے ، ﷲ تعالیٰ کی قسم ! وہ دراصل حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتا ہے ۔ (دار قطنی، صواعق المحرقہ الباب الثانی، ص 53)


اکابرین امت علیہم الرّحمہ اور مسلہ افضیلت خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم

امام ابوبکر احمد بن محمد ابن ھارون الخلّال علیہ الرحمۃ (وفات٣١١ ھجری) اپنی کتاب میں ابن زریع علیہ الرحمتہ (وفات١٨٢ھجری) کا قول نقل کرتے ہیں کہ" یقول خیر ھذہ الامتہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم عثمان۔"ابن زریع نے فرمایا کہ اس امت کے بہترین لوگ حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر پھر حضرت عثمان ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ (السُّنّتہ الجزء الاول صفحہ ٤٠٢ رقم ٥٨٨،چشتی)


اس کتاب کے محقق ڈاکٹر عطیہ زہرانی نے حاشیے میں واضح لکھا ہے ۔" واسنادہ صحیح "اور اب زریع بھی کوئی معمولی شخصیت نہیں بلکہ ابوحاتم علیہ الرحمتہ نے انہیں ثقہ کہا ہے۔(تذکرہ الحفاظ رقم٢٤٢)


السنتہ کے اگلے صفحے پر  ہی موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ کا فرمان بھی قابل دید ہے ۔"ھکذا تعلمنا ونبتت علیہ لحومنا وادرکنا الناس علیہ تقدیم ابی بکر و عمر وعثمان"امام موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہی ہمیں سکھایا گیا اور یہی ہماری رگ رگ میں رچا بسا ہے اور لوگ بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ مقدم ہیں (پھر) عمر رضی ﷲ عنہ (پھر) عثمان رضی ﷲ عنہ ۔ (السُّنّتہ رقم ٥٨٨)


اور امام موسیٰ بن اسماعیل علیہ الرحمتہ تیسری صدی کے پہلے حصے میں فوت ہوئے (تاریخ وفات ٢٢٣ ھجری) امام موسیٰ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ملاحظہ کریں ۔ (تذکرہ الحفاظ رقم ٣٩٥) ۔ الحمد للہ اہلسنت کا نظریہ  بھی یہی ہے جو اکابرین امت علیہم الرّحمہ کا ہے ۔


امام أبو حنيفة نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ : ونقر بأن أفضل هذه الأمة بعد نبيها محمد عليه أفضل الصلاة والسلام أبو بكر ثم عمر ثم عثمان، ثم عليّ رضي الله عنهم أجمعين ۔ (شرح الفقه الأكبر ص 108)


إمام مالك بن أنس رضی اللہ عنہ : أنه قال لما سأله الرشيد عن منزلة الشيخين من النبي صلى الله عليه وسلم فقال: *منزلتهما منه في حياته كمنزلتهما منه بعد مماته* ـ ثم قال ـ وكثرة الاختصاص والصحبة مع كمال المودة والائتلاف والمحبة والمشاركة في العلم يقضي بأنهما أحق من غيرهما وهذا ظاهر بين لمن له خبرة بأحوال القوم ۔ (مجموع الفتاوى، 4 / 304)


امام محمد بن إدريس الشافعي : أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي رضي الله عنهم ۔ امام شافعی ہی کا یہ فرمان بھی ہے : اضطر الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر فلم يجدوا تحت أديم السماء خيراً من أبي بكر من أجل ذلك استعملوه على رقاب الناس ۔ (مناقب الشافعی ، 1 / 433 – 434)


إمام أحمد بن حنبل رحمة الله عليه : وخير الأمة بعد النبي صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وعمر بعد أبي بكر، وعثمان بعد عمر، وعلي بعد عثمان ووقف قوم على عثمان وهم خلفاء راشدون مهديون ۔ (طبقات الحنابلة لابن رجب، 1 / 30،چشتی)


انہی سے یہ بھی منقول ہے : خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق ۔ (مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي،1 / 160)


علامہ شمس الدین الذهبي رحمۃ اللہ علیہ : أفضل الأمة وخليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم ومؤنسه في الغار وصديقه الأكبر … عبد الله بن أبي قحافة عثمان القرشي التيمی ۔ (تذكرة الحفاظ، 1 / 2)


امام ابن بطة عكبري فرماتے ہیں : وھی الإيمان والمعرفة بأن خير الخلق وأفضلهم وأعظمهم منزلة عند الله ـ عز وجل ـ بعد النبيين والمرسلين أبو بكر الصديق عبد الله بن عثمان بن أبي قحافة رضي الله عنه . (الشرح والإبانة على أصول السنة والديانة ص 257)


افضلیت صدیق اکبر اجماعِ امت کی روشنی میں : ⏬


امام شافعي فرماتے ہیں : ما اختلف أحد من الصحابة والتابعين في تفضيل أبي بكر وعمر وتقديمهما على جميع الصحابة وإنما اختلف من اختلف منهم في عليّ وعثمان ونحن لا نخطئ واحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما فعلوا ۔ ( كتاب الاعتقاد للبيهقي ص 192)


شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں : (ونقل البيهقي في [الاعتقاد] بسنده إلى أبي ثور عن الشافعي أنه قال : أجمع الصحابة وأتباعهم على أفضلية أبي بكر، ثم عمر ثم عثمان، ثم عليّ ۔ (فتح الباري 7 / 17)


امام نووي شافعی رقم طراز ہیں : اتفق أهل السنة على أن أفضلهم أبو بكر ثم عمر ۔ (شرح النووي على صحيح مسلم 15 / 148 )

علامہ ابن حجر الهيثمي لکھتے ہیں : واعلم أن الذي أطبق عليه عظماء الملة وعلماء الأمة أن أفضل هذه الأمة أبو بكر الصديق ثم عمر رضي الله عنهما ۔ (الصواعق المحرقة في الرد على أهل البدع والزندقة ص 57)


شیعہ حضرات کی کتب سے : ⏬


شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے فرمایا ۔ اصل عبارت درج کی جاتی ہے ۔ 

شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ،،،، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔

ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ،،،،،،، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان،چشتی)


حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)


حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ۔ ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)

حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا ۔ انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول اﷲ ومن اقتدی بہما عصم یعنی یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی، جلد 2،ص 428،چشتی)


حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر یعنی بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔(عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)

حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا ۔ لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری یعنی اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم  257)(معجم الخونی ص 153)


حدیث أي الناس أحب إليك من الرجال ؟ قال : أبوها ، (بخاری ومسلم) فرمان حضرت عمر : فأنت سیدنا ، وخيرنا ، وأحبنا إلى رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ۔ (بخاری) فرمان حضرت علی أفضل ھذہ الأمة بعد نبيها أبوبكر۔ (مسند احمد) جیسی کثیر احادیث اجماع امت اقوالِ فقہا و متکلمین اور صراحتِ محدثین علیہم الرّحمہ کی روشنی میں أفضل البشر بعد الأنبياء علیہم السّلام کہا جاتا ہے . اور بالتحقيق سے اشارہ یہ ہے کہ یہ لقب تحقیق سے ثابت شدہ ہے . خاص اس کلمہ افضل البشر بعد الأنبياء بالتحقيق سے تو احادیث وارد نہیں ، البتہ اس کے ہم معنی بلکہ قریب قریب الفاظ حدیث میں موجود ہیں . (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے گستاخ ہندو کی یادگار سے ہوا

بسنت کا آغاز سزائے موت پانے والے گستاخ ہندو کی یادگار سے ہوا محترم قارئینِ کرام : پتنگ اڑانے کے ساتھ مخصوص تہوار بسنت کا آغاز سزائے موت پانے...