Sunday, 21 September 2025

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے


محترم قارئینِ کرام : علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : خیرالدین رملی رحمۃ اللہ علیہ کے حاشیہ بحر میں ہے کہ میں نے شافعیہ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی بعض مواقع میں اذان مسنون ہے ، مثلاً : نومولود کے کان میں ، پریشان ، مرگی زدہ ، غصّے میں بھرے ہوئے اور بدخلق انسان یا چوپائے کے کان میں ، کسی لشکر کے حملے کے وقت ، آگ لگ جانے کے موقع پر ۔ (شامی حاشیہ درمختار ج:۱ ص:۳۸۵،چشتی)


اِن مواقع میں اذان سنت ہے : فرض نمازکے وقت ، بوقتِ ولادت بچہ کے کان میں ، آگ لگنے کے وقت ، کفار سے جنگ کے وقت، مسافر کو جب شیاطین ظاہر ہوکر ڈرائیں ، غم کے وقت ، غضب کے وقت ، جب مسافر راستہ بھول جائے ، جب کسی آدمی یا جانور کی بد خُلقی ظاہر ہو تو اُس کے کان میں ، اورجب کسی کو مِرگی آئے ۔ ما في ’’ الشامیۃ ‘‘ : وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسنّ الأذان لغیر الصلاۃ کما في أذن المولود والمہموم والمصروع والغضبان ، ومن ساء خُلقہ من إنسان أو بہیمۃ وعند مزدحم الجیش وعند الحریق ۔ (۲/۴۶ ، مطلب في المواضع التي یُندب لہا الأذان في غیر الصلاۃ)(الموسوعۃ الفقہیۃ : ۲/۳۷۲ ، ۳۷۳)


نماز کے علاوہ بعض دیگر مواقع کے لئے بھی فقہاء نے اذان کا ذکر فرمایا ہے


وفي حاشیۃ البحر للخیر الرملي : رأیت في کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ ، کما في أذن المولود ، والمہموم ، والمصروع ، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب ، وعند تغول الغیلان: أي عند تمرد الجن لخیر صحیح فیہ۔ أقول: ولا بعد فیہ عندنا ۔ وکذا یندب الأذان وقت الحریق ووقت الحرب، وخلف المسافر، وفي أذن المہموم والمصروع ۔


خلاصہ عربی عبارت


(1) بچہ کے کان میں اذان دینا ۔


(2) جو شخص غم زدہ ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا غم ہلکا ہوجاتا ہے ۔


(3) جس شخص کو بیماری کے دورے پڑتے ہوں ، اس کے لئے بھی اذان دینا مفید ہے ۔


(4) جس شخص پر غصہ غالب ہوجائے تو اذان دینا اس کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے میں معاون ہے ۔


(5) جو جانور بدک جائے یا جس انسان کے اخلاق بگڑجائیں اس پر بھی اذان دینا مفید ہے ۔


(6) جب دشمن کی فوج حملہ آور ہو ، اُس وقت اذان دی جائے ۔ (فسادات کے موقع پر اذان کا بھی یہی حکم ہے)


(7) آگ پھیل جانے کے وقت بھی اذان دینے کا حکم ہے ۔


(8) سرکش جنات کے شر سے بچنے کے لئے بھی اذان دینا ثابت ہے ۔ (اس بارے میں ایک صحیح حدیث موجود ہے)


(9) جو شخص جنگل میں راستہ بھٹک جائے وہ بھی اذان دے سکتا ہے ۔ (شامي ۲؍۵۰ ، ۱؍۳۸۵ مطبوعہ کراچی)،(منحۃ الخالق ۱؍۲۵۶ کوئٹہ)،(الفقہ علی المذاہب الأربعہ مکمل ۱۹۴ بیروت)


خوف ودہشت کے وقت اس عقیدے سے اذان دینا کہ خوف ودہشت دور ہو ، جائز ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے : عن سہیل قال أرسلني أبي إلی بني حارثۃ قال ومعي غلام لنا (أو صاحب لنا) فناداہ مناد من حائط باسمہ قال : فأشرف الذي معي علی الحائط فلم یر شیئاً فذکرت لأبي ، فقال : لو شعرتُ أنک تلقی لہٰذا لم أرسلک ولٰکن إذا سمعت صوتا فناد بالصلاۃ فإني سمعت أبا ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلاۃ وليّ ولہ حُصاص ۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ / فضل الأذان وہرب الشیطان عند سماعہ ۱؍۱۶۷ رقم: ۳۸۹،چشتی)


حضرت صدر الشریعہ مفتی امجد علی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہار شریعت میں ہے : وبا کے زمانے میں اذان دینا مستحب ہے ۔ (بہار شریعت جلد نمبر 466 صفحہ نمبر 1)،(فتاویٰ رضویہ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 370)


جب حضرت آدم علیہ السّلام جنَّت سے ہندوستان میں اُترے اُنھیں گھبراہٹ ہوئی تو جبرئیل علیہ السّلام نے اُتر کر اذان دی ۔ (حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۵ ص ۱۲۳ حدیث ۶۵۶۶)


اے علی رضی اللہ عنہ میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (جامِع الحدیث لِلسُّیُوطی رحمۃ اللہ علیہ ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷) ، یہ روایت نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ جلد5 صَفْحَہ 668 پر فرماتے ہیں : مولیٰ علی رضی اللہ عنہ اور مولیٰ علی تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا: فَجَرَّ بْتُہُ فَوَجَدْ تُہُ کَذٰلِکَ ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ (مِرْقاۃُ الْمَفاتِیح ج۲ ص۳۳۱،جامِعُ الحدیث ج۱۵ ص ۳۳۹ حدیث ۶۰۱۷)


جس بستی میں اَذان دی جائے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے عذاب سے اس دن اسے امن دیتا ہے ۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ ص۲۵۷حدیث ۷۴۶)


مذکورہ بالا دلائل سے مصیبت کے وقت اذان پڑھنے کا ثبوت تو ملتا ہے اب سوال یہ ہے کہ جب بوقت مصیبت اذان پڑھنے کو کسی بھی حدیث میں مَنع نہیں کیا گیا اگر منع کیا گیا ہے تو معترضین ثبوت پیش کریں ؟ اسی لیئے عرض ہے جب جواز موجود ہے اور ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے تو مَنع نہ ہونا خود بخود ’’اِجازت‘‘ بن گیا اور اچھی اچھی باتیں اسلا م میں ایجاد کرنے کی تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نے ترغیب ارشاد فرمائی ہے اور’’مسلم‘‘ کے باب ’’کتابُ العلم‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کا یہ ارشاد مبارک موجود ہے : مَنْ سَنَّ فِی الْاِ سْلامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَعُمِلَ بِھَا بَعْدَہٗ کُتِبَ لَہٗ مِثْلُ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَلَایَنْقُصُ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئٌ ۔ (صَحیح مُسلِم ص۱۴۳۷حدیث۱۰۱۷،چشتی))

ترجمہ : جس شخص نے مسلمانوں میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا اور اسکے بعد اس طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس ( یعنی جاری کرنے والے) کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اَجر میں کمی نہیں ہوگی ۔


مطلب یہ کہ جو اسلام میں اچھّا طریقہ جاری کرے وہ بڑے ثواب کا حقدار ہے توبلاشُبہ مصیبت کے وقت اذان پڑھنے والا بھی ثواب کا مستحق ہے ، قِیامت تک جومسلمان اِس طریقے پرعمل کرتے رہیں گے اُن کوبھی ثواب ملے گا اور جاری کرنے والے کو بھی ملتا رہے گا اور دونوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔


ہوسکتا ہے کسی کے ذِہن میں یہ وسوسہ آئے کہ حدیثِ پاک میں ہے : کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّاریعنی ہر بدعت (نئی بات) گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنَّم میں (لے جانے والی) ہے ۔ (صَحیح اِبن خُزَیمہ ج۳ص۱۴۳حدیث۱۷۸۵) ، اِس حدیث شریف کے کیا معنیٰ ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حدیثِ پاک حق ہے ۔ یہاں بدعت سے مُراد بدعتِ سیِّئَۃ یعنی بُری بدعت ہے اور یقینا ہر وہ بدعت بُری ہے جو کسی سنّت کے خِلاف یا سنّت کو مٹانے والی ہو ۔ چُنانچِہ حضرت سیِّدُنا شیخ عبد الحق مُحدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :جو بدعت اُصول اور قواعدِ سنّت کے موافِق اور اُس کے مطابِق قِیاس کی ہوئی ہے ( یعنی شریعت و سنّت سے نہیں ٹکراتی) اُس کو بدعتِ حَسَنہ کہتے ہیں اور جو اس کے خِلاف ہو وہ بدعت گمراہی کہلاتی ہے ۔ (اَشِعَّۃُ اللَّمعات ج۱ص۱۳۵)


کل بدعۃ ضلالہ کا صحیح مفہوم غیر مقلد وہابی حضرات کے بڑوں کی زبانی


علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی 728 ھ)


علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔إنما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التي هي ضلالة ما فعل بغير دليل شرعي ۔

ترجمہ : اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔ ( منهاج السنة، 4 : 224 )


علامہ ابن تیمیہ ’’بدعت حسنہ‘‘ اور ’’بدعت ضلالۃ‘‘ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :ومن هنا يعرف ضلال من ابتدع طريقاً أو اعتقاداً زعم أن الإيمان لا يتم إلا به مع العلم بأن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم لم يذکره وما خالف النصوص فهو بدعة باتفاق المسلمين وما لم يعلم أنه خالفها فقد لا يسمي بدعة قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهذه بدعه ضلاله و بدعه لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر نعمت البدعة هذه هذا الکلام أو نحوه رواه البيهقي بإسناده الصحيح في المدخل ۔

ترجمہ : اور اس کلام سے لفظ ’’ضلال‘‘ کا مفہوم سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ جانتے ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بیان نہیں کیا کسی طریقے یا عقیدے کی ابتداء اس گمان سے کی کہ بے شک ایمان اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تو یہ ’’ضلالۃ‘‘ ہے اور جو چیز نصوص کے مخالف ہو وہ مسلمانوں کے اتفاق رائے کے ساتھ بدعت ہے۔ اور جس چیز کے بارے یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کتاب و سنت کی مخالفت کی ہے ایسی چیز کو بدعت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور اثر صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعت حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ’’المدخل‘‘ میں روایت کیا ہے۔ ( کتب ورسائل و فتاوي ابن تيمية في الفقه، 20 : 16،چشتی)


حافظ عماد الدین ابو الفدا اسماعیل ابن کثیر (المتوفی 774ھ)


حافظ عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : والبدعة علي قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله (فإن کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إيّاهم علي صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه ۔

ترجمہ : بدعت کی دو قسمیں ہیں بعض اوقات یہ بدعت شرعیۃ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اور بعض اوقات یہ بدعت لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ ہے۔( تفسیر ابن کثیر 1 : 161،چشتی)


شیخ محمد بن علی بن محمد الشوکانی غیر مقلد (المتوفی 1255ھ)


یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی حدیث عمر ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں فتح الباری کے حوالے سے اقسام بدعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :البدعة أصلها ما أحدث علي غير مثال سابق و تطلق في الشرع علي مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن في الشرع فهي حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح في الشرع فهي مستقبحة و إلَّا فهي من قسم المباح و قد تنقسم إلي الأحکام الخمسة ۔

ترجمہ : لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔( نيل الاوطار شرح منتقي الأخبار، 3 : 63،چشتی)


نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1307ھ)


غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر نئے کام کو بدعت کہہ کرمطعون نہیں کیا جائے گا بلکہ بدعت صرف اس کام کو کہا جائے گا جس سے کوئی سنت متروک ہو اور جو نیا کام کسی امرِ شریعت سے متناقص نہ ہو وہ بدعت نہیں بلکہ مباح اور جائز ہے شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 117 پر بدعت کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الاصل ۔

ترجمہ : بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117)


نواب وحید الزمان غیر مقلد اھلحدیث (المتوفی 1327ھ)


مشہور غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اما البدعة اللغوية فهي تنقسم إلي مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولي اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبي صلي الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس في الأکل والشرب واللباس وهي هنيئة قلت تدخل في البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجري الأمر المرسوم بين الکفار في جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التي جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبي صلي الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التي جاءت من بلاد الکفار علي أصحابه و منها ما هي ترک المسنون و تحريف المشروع وهي الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هي التي ترفع السنة مثلها والتي لا ترفع شيئا منها فليست هي من البدعة بل هي مباح الأصل ۔

ترجمہ : باعتبار لغت کے بدعت کے حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنۂ اور بدعت سیئہ. ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعات مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرمایا ہے اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت متروک ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( هدية المهدي : 117،چشتی)


عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد اھلحدیث (1353ھ)


عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد وہابی بدعت لغوی اور بدعت شرعی کی تقسیم بیان کرتے ہوئے تحفۃ الاحوذی میں لکھتے ہیں : بقوله کل بدعة ضلالة (1) والمراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدل عليه واما ما کان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا و إن کان بدعة لغة فقوله صلي الله عليه وآله وسلم کل بدعة ضلالة من جوامع الکلم لا يخرج عنه شئ وهو أصل عظيم من أصول الدين واما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنّما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية فمن ذلک قول عمر رضی الله عنه في التراويح (نعمت البدعة هذه)(2) و روي عنه أنه قال إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة ومن ذٰلک أذان الجمعة الأول زاده عثمان رضي الله عنه لحاجة الناس إليه و اقره عليٌّ واستمر عمل المسلمين عليه و روي عن ابن عمر أنه قال هو بدعة و لعله اَراد ما أراد ابوه في التراويح ۔

ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ (ہر بدعت گمراہی ہے) میں بدعت سے مراد ایسی نئی چیز ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے اور وہ چیز جس کی اصل شریعت میں موجود ہو جو اس پر دلالت کرے اسے شرعاً بدعت نہیں کہا جا سکتا اگرچہ وہ لغتاً بدعت ہو گی کیونکہ حضور علیہ السلام کا قول ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ جو امع الکلم میں سے ہے اس سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ یہ دین کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اور اسلاف کے کلام میں جو بعض بدعات کو مستحسنہ قرار دیا گیا ہے تو یہ بدعت لغویہ ہے، شرعیۃ نہیں ہے۔ اور اسی میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نماز تراویح کے بارے میں فرمان ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ (اگر یہ بدعت ہے تو یہ اچھی بدعت ہے) اور جمعہ کی پہلی اذان بھی اسی میں سے ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا تھا اور اسے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قائم رکھا اور اسی پر مسلمانوں نے مداومت اختیار کی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ بدعت ہے کا شاید ان کا ارادہ بھی اس سے وہی تھا جو ان کے والد (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) کا نماز تراویح میں تھا (کہ با جماعت نما زتراویح ’’نعمت البدعۃ‘‘ ہے) ۔ ( جامع الترمذي مع شرح تحفة الاحوذي، 3 : 378،چشتی)


الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نجدی وھابیوں کا مفتی اعظم (1421ھ)


عصر قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ’’الافتاء والدعوہ والارشاد‘‘ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاويٰ جات کے مجموعہ ’’فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحُوث العلمیۃ والافتاء‘‘ میں بدعت حسنہ اور بدعت سیہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

أولاً : قسم العلماء البدعة إلي بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالي وهي التيي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علي جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.

ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.

ترجمہ : علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالی نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔ ( فتاويٰ اللجنة، 2 : 325 ،چشتی)


ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز بدعت دینیۃ اور بدعت عادیۃ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : البدعة تنقسم إلي بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علي منعه.


أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.

ترجمہ : بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور دراصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعاليٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔( فتاويٰ اللجنة،2 : 329)


بدعت کی لغوی تعریف کے بعد بدعت خیر اور بدعت شر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ ابن باز لکھتے ہیں : البدعة هي کل ما أحدث علي غير مثال سابق، ثم منها ما يتعلق بالمعاملات و شؤون الدنيا کإختراع آلات النقل من طائرات و سيارات و قاطرات وأجهزة الکهرباء وأدوات الطهي والمکيفات التي تستعمل للتدفئة والتبريد وآلات الحرب من قنابل وغواصات و دبابات إلي غير ذلک مما يرجع إلي مصالح العباد في دنياهم فهذه في نفسها لا حرج فيها ولا إثم في إختراعها، أما بالنسبة للمقصد من اختراعها وما تستعمل فيه فإن قصد بها خير واستعين بها فيه فهي خير، وإن قصد بها شر من تخريب و تدمير وإفساد في الأرض واستعين بها في ذلک فهي شر و بلاء.

ترجمہ : ہر وہ چیز جو مثال سابق کے بغیر ایجاد کی جائے بدعت کہلاتی ہے۔ پھر ان میں سے جو چیزیں معاملات اور دنیاوی کاموں میں سے ہوں جیسے نقل و حمل کے آلات میں سے جہاز، گاڑیاں، ریلوے انجن، بجلی کا سامان، صنعتی آلات اور ایئرکنڈیشنرز جو کہ ٹھنڈک اور حرارت کے لئے استعمال ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اور اسی طرح جنگی آلات میں سے ایٹم بم، آبدوزیں اور ٹینک یا اس جیسی دیگر چیزیں جن کو لوگ اپنی دنیاوی مصلحت کے پیش نظر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ فی نفسہ ان کی ایجادات میں نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا حرج ہے مگر ان چیزوں کے مقصد ایجاد کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر تو ان چیزوں کے استعمال کا مقصد خیر و سلامتی ہے تو ان چیزوں سے خیر کے معاملے میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے تو یہ ایک بھلائی ہے اور اگر ان چیزوں کا مقصد ایجاد زمین میں شر، فساد، تخریب کاری اور تباہی ہے تو پھر ان چیزوں سے مدد حاصل کرنا تباہی و بربادی ہے اور یہ ایک شر اور بلاء ہے ۔ (فتاويٰ اللجنة، 2 : 321) 


اذان سے بستی کا عذاب ٹل جاتا ہے : عن أنس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اِذَا اُذِّنَ فِی قَرْیَۃٍ أمِنَہَا اللّٰہُ مِنْ عَذَابِہٖ فِی ذٰلِکَ الْیَوْمِ ۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے تو وہ جگہ اس دن سے عذاب سے مامون ہو جاتی ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، ۱/۲۳۱)(الترغیب و الترہیب للمنذری ۱/۱۸۲)( تلخیص الحبیر لابن حجر ، ۱/۳۲۸)( کنز العمال للمتقی، ۲۰۸۹۳، ۷/۶۸۱)(مجمع الزوائد للہیثمی، ۱/۳۲۸ )(الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۲۹)


امیرُ المومنین حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے روایت ہے : قَالَ رَایٰ النَّبِیُّ صَلّٰی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْهِ وَسَلَّم حُزِیْناً فَقَالَ یَا ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ اِنِّیْ اَرَاكَ حُزِیْناً فَمُرْ بَعْضَ اَھْلِكَ یُؤَذِّنُ فِیْ اُذُنِكَ فَاِنَّهٗ دَرْءُ الْھَّمِ ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم فرماتے ہیں مجھے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے غمگین دیکھا ارشاد فرمایا : اے علی میں تجھے غمگین پاتا ہوں اپنے کسی گھر والے سے کہہ کہ تیرے کان میں اذان کہے ، اذان غم وپریشانی کی دافع ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح باب الاذان ، جلد 2، صفحہ 310، مطبوعہ دارالکتاب بیروت لبنان،چشتی)،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوہ المصابیح مترجم اردو جلد دوم صفحہ 495 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)


امام احمد رضا خان قادری محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ تک جس قدر اس حدیث کے راوی ہیں سب نے فرمایا : فجر بتہ فوجدتہ کذالک ، ہم نے اسے تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا ۔ ذکرہ ابن حجر کما فی المرقاۃ ۔ (فتاوی رضویہ ۲/ ۶۷۶)


حضرت آدم علیہ السّلام کی وحشت اذان کے ذریعہ دور ہوئی


عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی ٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْہِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فََنَزلَ جِبْرَئِیْلُ عَلیہِ السَّلامُ فَنَادٰی بِالْأذَانِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام جنت سے ہندوستان میں اترے تو انہیں گھبراہٹ ہوئی ۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام، نے اتر کر اذان دی ۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ۵/۱۹۷)(کنز العمال للمتقی، ۳۲۱۳۹، ۱۱/۴۵۵)


اذان کی برکت سے آگ بجھ جاتی ہے


عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أطْفِئُوْا الْحَرِیْقَ بِا لتَّکْبِیْرِ ۔

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :آگ کو تکبیر کے ذریعہ بجھاؤ ۔ (مجمع الزوائد للہیثمی، ۳/۱۳۸)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۱۵۰)


عن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : اِذَا رَأیْتُمُ الْحَرِیْقَ فَکَبِّرُوْا فَاِنَّہٗ یُطْفِیُٔ النَّارَ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرما یا : جب آگ دیکھو اللہ اکبر ، اللہ اکبر کی بکثرت تکرار کرو ۔ وہ آگ کو بجھا دیتا ہے ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ۱/۴۵)(کشف الخفاء للعجلونی۱/۹۳)(المسند للعقیلی ۲/۲۹۶)(المطالب العالیۃ لابن حجر۳۴۲۴)(میزان الاعتدال لحلبی ۴۵۳۰،چشتی)(الکامل لابن عدی ۴/۱۵۱)(الکنی والاسماء للدولانی ۲/۱۳۷)(عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی ۲۸۹)


علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : فکبروا ای قولوا اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، و کرر وہ کثیرا ، یعنی اللہ اکبر کی خوب تکرار کرو۔


یہ احادیث ضعیف ہیں کا جواب


معترضین کی طرف سے احادیثِ مبارکہ کے ضعف کو یوں بیان کیا جاتا ہے جیسے کہ ضعیف احادیث مطلقاََ قابل احتجاج نہیں جبکہ جمہورمحدثین علیہم الرّحمہ کا مؤقف اس کے بلکل برعکس ہے ۔


(1) وباء کے زمانے میں ہم اذان کو مستحب مانتے ہیں اور کسی شئے کے استحباب کے ثبوت کے لیے ضعیف حدیث بھی کافی ہوتی ہے ۔


(2) جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک ضعیف حدیث فضائل اعمال میں مقبول ہے ۔ محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فتح القدیر میں فرماتے ہیں : الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فی فضائل اعمال یعنی فضائل اعمال مین ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے گا اگر وہ موضوع نہ ہو ۔

تدریب الراوی میں ہے کہ ضعیف حدیث کو فضائل اعمال میں قبول کیا جائے گا ۔

یہی مؤقف امام اعظم ابو حنیفہ ، امام سفیان ثوری ، امام شافعی ، امام سفیان بن عینیہ ، امام احمد بن حنبل ، امام ابن حجر عسقلانی ، امام بیہقی ، امام حاکم ، امام سیوطی ، ابن صلاح ، امام نووی ، امام سخاوی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے ۔


(3) فضائل اعمال میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا مؤقف موجودہ اہل حدیث مکتبہ فکر کے بڑے بڑے علما ء کا ہے جن میں اہل حدیث کے مجتہد العصر حافظ عبد اللہ محدث روپڑی ، شیخ الکل فی الکل نذیر حسین محدث دہلوی ، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری ، شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ، شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی وغیرہ شامل ہیں ۔


اس کے علاوہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اذان کا ایک وقت مقرر ہے اور اذان نماز کے علاوہ نہیں دی جا سکتی ۔ جبکہ ترمذی شریف کی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان دی ۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض کہ اذان نماز کے وقت کے علاوہ کسی اور وقت میں نہیں دی جا سکتی ، باطل ثابت ہوتا ہے ۔ بعض حضرات اسے چھت پر چڑھ کر یا عدد خاص کرنے کی وجہ سے بدعت قرار دیتے ہیں ۔ ان کی یہ منطق تو عجیب تر ہے ۔ اونچی جگہ پر اذان دینا سنن ابوداؤد کی ایک صحیح روایت سے ثابت ہے اور عدد متعین کرنا تب بدعت قرار پائے جب اس متعین عدد کو فرض ، واجب یا سنت نبوی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم سمجھا جائے ۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ہم اس عمل ہی کو مستحب سمجھتے ہیں کجا کہ متعین عدد کو فرض و واجب کا درجہ دیں ۔


محترم قارئینِ کرام : چاہئے تو یہ تھا کہ معترضین مسلمانوں کے اس فعل کو سراہتے اور اللہ سے دعا کرتے کہ اے اللہ مسلمانوں سے اس وبا کو دور فرما لیکن شیطان کو کہاں منظور تھا کہ اللہ کے بندے اللہ کا کلمہ بلند کریں ۔ الٹا بدعت و جہالت کے فتوے جڑنا شروع کر دیئے ۔ آئیے اب معترضین کے اعتراض کی طرف آتے ہیں ۔ معترضین نے کہا اور لکھا کہ وبا میں اذان دینا بدعت ہے کیونکہ اس بارے میں جو احادیث پیش کی گئیں وہ ضعیف ہیں ۔


تو جنابِ من عرض ہے کہ جب مختلف احادیث ایک ہی معنیٰ کی ہوں تو سب مل کر قوی درجہ کو پہنچ جاتی ہیں ۔ دوسرے نمبر پر چلو بالفرض تمہارے بقول اگر ان احادیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی غیرمقلد وہابی حضرات محدث کے اصول کے مطابق ان پر عمل کرنا جائز ہے اور بدعت کہنا تشدد فی الدین ہے ۔


وہابیہ کے مناظرِ اعظم ، اور محدث جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ : بعد نمازِ فرض ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر دو روایتوں میں آیا ہے جن کو حضرت میاں (نذیر حسین) صاحب دہلوی نے اپنے فتوے میں نقل کیا ، گو وہ ضعیف ہیں مگر ضعیف حدیث کے ساتھ بھی جو فعل ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا ، ایسا تشدد کرنا اچھا نہیں ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول، صفحہ 508، مطبوعہ ملکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)


غیر مقلد وہابیہ کے امام نے مانا کہ جو فعل ضعیف حدیث سے ثابت ہو وہ بدعت نہیں ہوتا اس کو بدعت کہنا تشدد ہے ۔ اور خود وہابیہ کے شیخ الکل جناب نذیر حسین دہلوی بھی انہی ضعیف حدیث پر عمل کرتے تھے ۔


اب اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے کہ وبا وعذاب میں اذان والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے شیخ الاسلام کے اصول کے مطابق اس پر عمل جائز اور اس کو بدعت کہنے والا متشدد فی الدین ہے ۔ اور اگر پھر بھی بدعت کہو گے تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سمیت مولوی نذیر حسین دہلوی بھی بدعتی اور جہمنی ٹھہریں گے ۔ کیونکہ آپ کا مشہور ورد ہے کل ضلالة فی النار ۔


جناب ثناء الله امرتسری غیرمقلد نے اسی فتاویٰ کی دوسری جلد میں لکھا کہ : (ضعیف) حدیث کے معنے ہیں جس میں صحیح کی شرائط نہ پائی جائیں ۔ وہ کئی قسم کی ہوتی ہیں ۔ اگر اس کے مقابل میں صحیح حدیث نہیں تو اس پر عمل کرنا جائز ہے ، جیسےنماز کے شروع میں "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے مگر اس پر ساری امت عمل کرتی ہے ۔ (فتاویٰ ثنائیہ، جلد اول,، صفحہ76، مطبوعہ مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور)


اب اگر اسی اصول کے تحت ایسی صحیح حدیث پیش کر دیں کہ جس میں ہو کہ وباء کے وقت اذان دینا جائز نہیں ۔ تب تو عمل ترک کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ضعیف حدیث کے مقابل صحیح حدیث موجود نہیں تو آپ کے نزدیک پھر عمل کرنا جائز ہے ۔ یا تو واضح حدیث پیش کرو کہ وبا و بلا میں اذان دینا جائز نہیں بدعت ہے ۔ یا پھر تسلیم کر لو کہ کہ اذان دینا جائز ہے ۔


غیرمقلد وہابی حضرات کے دو محقق (1) حافظ حامد الخضری (2) عبد اللہ ناصر رحمانی لکھتے ہیں : تکبیرِ تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے "سبحانك اللھم" پڑھنا سنت ہے ۔ (خیال رہے ثناء الله نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے) ۔ (نمازِمصطفیٰ صفحہ نمبر 272 مطبوعہ انصار السنة پبلیکیشنز لاہور،چشتی)


اس روایت کو غیرمقلد وہابی عالم جناب ابراہیم میر صادق سیالکوٹی نے بھی منسون لکھا ۔ (صلٰوة الرسول، صفحہ نمبر 193، مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور)


اب اگر وبا و بلا میں اذان کہنا اس لئے بدعت ہے کہ یہ ضعیف حدیث سے ثابت ہے ۔ پھر تو ہر غیرمقلد وہابی بدعتی ہو جائے گا کیونکہ آپ کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری نے لکھا کہ نماز میں ثناء یعنی "سبحانك اللھم" پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ اور سارے غیرمقلد وہابیوں کا اس پر عمل ہے ۔ نہ صرف عمل بلکہ اسی ضعیف حدیث سے ثابت شدہ عمل کو سنت بھی لکھا ۔


ہم کریں تو ضعیف اور بدعتی ، تم کرو تو ضعیف و سنت ۔ جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے ۔


غیرمقلد وہابیوں کے ایک اور محقق جناب عبدالغفور اثری نے کچھ ضعیف روایتیں اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا کہ : محدثین کے طریقہ کے مطابق ضعیف روایات فضائل اعمال اور ترغیب وترہیب میں قابلِ عمل ہوتی ہیں (آگے امام سیوطی کے استاد علامہ سخاوی کی عبارت نقل کی مزید لکھا) شیخ الاسلام ابوزکریا یحییٰ شرف الدین نووی اور دیگر علماء ، محدثین ، فقھاءکرام وغیرہ ھم نے فرمایا کہ : جائز اور مستحب ہے کہ فضائلِ اعمال اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کیا جائے مگرشرط یہ ہے کہ وہ موضوع اور جعلی نہ ہو ۔ (احسن الکلام، صفحہ نمبر 43,44، مطبوعہ محلہ احمد پورہ سیالکوٹ،چشتی)


غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول وبا و بلا و آفت میں اذان پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔ تو بھی آپ کے محقق عبد الغفور اثری نے مانا کہ ضعیف حدیث پر عمل مستحب ہے ۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ اذان مستحب ہے ۔


غیرمقلد وہابی حضرات کے مجتہد عبد اللہ روپڑی نے لکھا کہ : فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل درست ہے ۔ (فتاویٰ اھلحدیث، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 218 مطبوعہ ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک سرگودھا)


اختصار کے پیشِ نظر ان حوالوں کا یہیں پر اختتام کرتے ہیں ۔ ورنہ اس موضوع یعنی ضعیف حدیث ترغیب و ترہیب میں قابلِ عمل ہے پر ان کی کتب سے اتنے حوالے ہیں کہ پورا کتابچہ ترتیب دیا جا سکتا ہے ۔ اور ہم کچھ عرصہ قبل اس پر تفصیل مکمل مضمون پوسٹ کر چکے ہیں غیرمقلد وہابی اور ضعیف احادیث پر عمل مکمل اسکینز کے ساتھ ضرورت پڑی تو دوبارہ پوسٹ کر دینگے ان شاء اللہ ۔


محترم قارئینِ کرام : ان دلائل و حقائق سے ثابت ہوا کہ اگر ان احادیث کو ضعیف غیرمقلد وہابی حضرات کے بقول ضعیف بھی مانا جائے تو بھی ان پر عمل کرنا جائز و مستحب ہے ۔ اور اس کو بدعت کہنا جہالت ہے ۔ اور انہی جیسی احادیث کو نقل کر کے غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث نے حجت پکڑی اور مشکلات میں اذان دینے کی تعلیم دی ۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے نواب صدیق حسن خان بھوپالوی کے تعامل سے ہی غیرمقلد وہابی حضرات کو ان احادیث کو درجہ صحت پر مان لینا چاہئے ۔ کیونکہ مشکلات میں یہ اذان کا عمل ہمارا ہی نہیں بلکہ یہ طریقہ محدث وہابیہ نے بھی اپنی کتاب ”کتاب الدعا“ میں نقل کر کے مجرّب لکھا ہے ۔ مانعین کہتے ہیں کہ فرض نماز کے علاوہ اذان دینا کہیں سے بھی ثابت نہیں اور بدعت و جہالت ہے۔ آئیے فرض نمازوں کے علاوہ اذان کہنے کا ثبوت ہم انہی کے محدث سے پیش کرتے ہیں ۔ غیرمقلد وہابی حضرات کے محدث ومجدد نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں کہ : زید بن اسلم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بعض معاون پر والی تھے ۔ لوگوں نے کہا یہاں پر جنات بہت ہیں ۔ کثرت سے اذانیں (ایک ہی) وقت پر کہا کرو ، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور پھر کسی جن کو وہاں نہ دیکھا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے اس بات کو تسلیم کیا کہ نماز کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ اکٹھی اذانیں دینے سے بلائیں بھاگ جاتی ہیں ۔ تو کیا فتویٰ لگے گا آپ کے محدث بھوپالی پر ؟


غیرمقلد وہابیہ کے یہی محدث بھوپالی اپنی کتاب میں ”مشکلات سے نکلنے کیلئے“ کے نام سے عنوان قائم کر کے اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ کو مہموم (پریشان) دیکھ کر فرمایا کہ اپنے گھر والوں میں سے کسی کو حکم دے کہ وہ تیرے کان میں اذان کہہ دیں کہ یہ دواءِ ھم (یعنی پریشانی کی دواء) ہے چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مجھ سے غم دور ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


مشکلات ٹالنے کیلئے اذان


غیرمقلد وہابیہ کے محدث نے بھی تسلیم کیا کہ اذان سے غم دور ہوتا ہے ۔ اور مشکلات ٹَلتی ہیں ، تو سوچو جب مسلمانوں کی اذانوں کی آواز اتنے لوگوں کے کانوں میں پڑی تو کتنا سکون ملا ہو گا ۔ اگر نماز کے علاوہ اذان دینا جہالت و بدعت ہے تو کیا حکم لگے گا آپکے محدث بھوپالی صاب پر ؟


مرگی کے علاج کیلئے اذان


وغیرمقلد ہابیہ کے مجدد بھوپالی نے اپنی کتاب میں ”مرگی کا علاج“ کے نام سے عنوان قائم کیا، پھر اسکے تحت لکھتے ہیں کہ : بعض علماء نے مرگی والے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تھی ، وہ اچھا ہو گیا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 77، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور،چشتی)


مزید عنوان دیا ”راستہ بھول جانے کا علاج“ اسکے تحت لکھا کہ : بعض علماء صالحین نے کہا ہے کہ آدمی جب راستہ بھول جائے اور وہ اذان کہے تو اللّٰہ تعالٰی اسکی رہنمائی فرماوے گا ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


مزید اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ : جس کو شیطان خبطی کر دے یا اس کو آسیب کا سایہ ہو .... تو اسکے کان میں سات بار اذان کہے ۔ (کتاب الدعاء والدواء ، صفحہ 76،105، مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)


تو ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مصیبت و پریشانی کے وقت اذانیں دینے سے مصیبتیں ، وبائیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں ۔ بس اسی جذبے کے تحت مسلمانوں نے "کرونا وائرس" جیسی وباء سے چھٹکارے کے لئے اللّٰہ تعالٰی کے ذکر یعنی اذان کی تدبیر کی تاکہ اللّٰہ عز و جل اپنے ذکر کی برکت سے اس آفت کو ٹال دے اور مسلمانوں کو خوف وہراس سے نکال دے ۔ لیکن کچھ لوگ برا مان گئے نہ صرف برا مانے بلکہ اذانوں کا یہ سلسلہ دیکھ کر مسلمانوں کو نہ صرف بدعتی بلکہ جاھل کہنا شروع کر دیا ۔ الحمد للہ ہم نے اِتمامِ حجت کے لئے نہ صرف احادیث سے اس کے جواز کے شواہد و براہین پیش کیئے بلکہ ان کے اس محدث کے حوالے بھی پیش کیے ہیں ۔۔۔۔ یقیناً اذان سن کر شیطان ہی کو تکلیف ہوتی ہے اور مسلمانوں کو جاہل کہتا ہے کیونکہ اذان سن کر کرشیطان 36 میل دور بھاگ جاتا ہے ۔ امام مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ ذَهَبَ حَتَّى يَكُونَ مَكَانَ الرَّوْحَاءِ» قَالَ سُلَيْمَانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحَاءِ فَقَالَ: «هِيَ مِنَ الْمَدِينَةِ سِتَّةٌ وَثَلَاثُونَ مِيلًا ۔

ترجمہ : حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو (بھاگ کر) چلا جاتا ہے یہاں تک کہ روحاء کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔

سلیمان نے کہا : میں نے ان (اپنے استاد ابو سفیان طلحہ بن نافع ) سے مقامِ روحاء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یہ مدینہ منورہ سے چھتیس میل (کے فاصلے) پر ہے ۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان... إلخ، الحدیث:854، مطبوعہ دار السلام ریاض سعودیہ،چشتی)


لہٰذا کم از کم مسلمان کو اذان سن کر خوش ہونا چاہئے اور آفت ٹلنے کی دعا کرنی چاہئے نہ کہ پڑھنے والوں کو جاہل و بدعتی کہہ کر اپنا رشتہ شیطان سے ظاہر کرنا چاہیے ۔ مذکورہدلائل سے ثابت ہوا کہ مصائب و آلام اور خوف کے وقت اذان کہنا جائز ہے اور اسے بدعت قرار دینے والے غلطی پر ہیں ۔ اگر احادیث ضعیف بھی ہیں تب بھی فضائل اعمال میں جمہور محدثین علیہم الرّحمہ کے نزدیک مقبول ہیں اور جبکہ مخالفین کے گھر کی گواہی بھی موجود ہے تو انہیں اس پر اعتراض کا حق نہیں پہنچتا ! ہاں اگر وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حسب سابق اپنے علماء کو "جوتے کی نوک پر " رکھیں تو الگ بات ہے ۔ کیونکہ اس طبقے کا ہر چھوٹا بڑا اپنے تئیں بذات خود بہت بڑا محدث ، مفسر اور محقق ہے ۔


لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ جہاں دیگر تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہاں اپنے اپنے گھروں میں ضرور اذانیں دیں ، گھر میں جب چاہیں اذان دے سکتے ہیں کوئی وقت خاص نہیں ہے ۔ اللہ کی رحمت پر پختہ یقین رکھیں ، ان شاء اللہ ہر قسم کی وبا سے حفاظت ہو گی اور خوف و گبھراہٹ دور ہونگے ۔ اور اللہ عز و جل امان نصیب فرمائے گا ۔ اللہ عز و جل سے دعا ہے کہ جملہ مسلمانوں کو ہر قسم کی بلا ، وبا اور آفت سے محفوظ رکھے آمین ۔ (طالبِ دعا و

Thursday, 18 September 2025

حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو

حدیث اے اللہ کے بندو میری مدد کرو




حترم قارئین کرام : محترم قارئین کرام : یہ ایک مشہور حدیث ہے اور سند کے حساب سے متعدد طرق سے بیان ہوئی ہے اور حسن کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس حدیث کے بارے میں ابن وھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یوں ان کی مذہبی دکانداری چل رہی ہے ۔ یہاں پر اس کا مفصل رد پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہ حدیث اور اس نوع کی دیگر احادیث مکمل طور پر صحیح ہیں : ⏬


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ ِﷲِ عزوجل مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ سِوَی الْحَفَظَةِ يَکْتُبُوْنَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ عُرْجَةٌ فِي الْأَرْضِ، لَا يَقْدِرُ فِيْهَا عَلَی الْأَعْوَانِ فَلْيَصِحْ فَلْيَقُلْ : عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنَا أَوْ أَعِيْنُوْنَا رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ سَيُعَانُ. وَفِي رِوَايَةِ رَوْحٍ : إِنَّ ِﷲِ مَـلَائِکَةً فِي الْأَرْضِ يُسَمَّوْنَ الْحَفَظَةَ يَکْتُبُوْنَ مَا يَقَعُ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَمَا أَصَابَ أَحَدًا مِنْکُمْ عُرْجَةٌ أَوِ احْتَاجَ إِلَی عَوْنٍ بِفَـلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ فَلْيَقُلْ : أَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ ﷲِ، رَحِمَکُمُ ﷲُ فَإِنَّهُ يُعَانُ إِنْ شَاءَ ﷲُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُهُ ثِقَاتٌ ۔

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ، ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے : اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہو جائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے : اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی ۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 91، الرقم : 29721، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 128، الرقم : 7697، 1 / 183، الرقم : 167، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132)


عَنْ عَبْدِ اللہ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا انْفَلَتَتْ دَابَّةُ أَحَدِکُمْ بِأَرْضِ فَـلَاةٍ، فَلْيُنَادِ : يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، يَا عِبَادَ ﷲِ، احْبِسُوْا عَلَيَّ، فَإِنَّ ِﷲِ فِي الْأَرْضِ حَاضِرًا، سَيَحْبِسُهُ عَلَيْکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالطَّبََرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ ۔

ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیاباں میں گم ہو جائے تو اس (شخص) کو (یہ) پکارنا چاہیے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری سواری پکڑا دو. بے شک ﷲ تعالیٰ کے بہت سے (ایسے) بندے اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں تمہاری سواری پکڑا دیں گے ۔ اس حدیث کو امام ابویعلی، ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 103، الرقم : 29818، وأبو يعلی في المسند، 9 / 177، الرقم : 5269، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 217، الرقم : 10518، 17 / 117، الرقم : 290، وابن السني في عمل اليوم والليلة، 1 / 455، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 330، الرقم : 1311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132،چشتی)


عَنْ عَتَبَةَ بْنِ غَزْوَانَ رضی الله عنه عَنْ نَبِيِّ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَيْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا، وَهُوَ بِأَرْضٍ لَيْسَ بِهَا أَنِيْسٌ فَلْيَقُلْ : يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، يَا عِبَادَ ﷲِ، أَغِيْثُوْنِي، فَإِنَّ ِﷲِ عِبَادًا لَا نَرَاهُمْ. وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : وَرِجَالُهُ وُثِّقُوْا ۔

ترجمہ : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کی کوئی شے گم ہو جائے، یا تم میں سے کوئی مدد چاہے اور وہ ایسی جگہ ہو کہ جہاں اس کا کوئی مدد گار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ یوں پکارے : اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو، اے ﷲ تعالیٰ کے بندو! میری مدد کرو ، یقیناً  ﷲ تعالیٰ کے ایسے بھی بندے ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے (لیکن وہ لوگوں کی مدد کرنے پر مامور ہیں) ۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں کہ) یہ آزمودہ بات ہے ۔ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ (أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 17 / 117، الرقم : 290، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 132، والمناوي في فيض القدير، 1 / 307)


عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : جب تم میں سے کسی کی سواری بے آباد زمین میں چھوٹ بھاگے تو اسے چاہیے کہ نداء کرے (یعنی صدا لگائے) : اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ اے اللہ کے بندو! اسے روکو۔ کیونکہ اللہ عزوجل کے حکم سے ہرزمین میں بندہ موجود ہے جو جلد ہی اسے تم پر روک دیگا ۔ 


اسے ابوالقاسم سلیمان بن احمد لخمی شامی طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معجم کبیر میں روایت کیا ہے اور امام ذھبی نے آپ کو سیر اعلام النبلاء میں امام حافظ ثقہ رحال جوال محدثِ اسلام صاحب المعاجم کے القابات سے یاد کیا ہے ۔

ابوشجاع الدیلمی الھمذانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ (حوالہ مسند الفردوس بماثور الخطاب: جلد ۱، صفحہ ۳۳۰،چشتی)

شھاب الدین احمد بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو یوں نقل کیا ہے : باب ما یقول اذا الفلتت دابتہ: یعنی جب سواری بھاگے تو اسکا مالک کیا کہے؛ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایتِ ابویعلیٰ کو نقل فرمایا۔ (المطالب المنیفہ: ج ۱۴،نمبر ۴۴)۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی روایت ابن السنی اور طبرانی کے حوالے سے عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ نقل فرمائی ہے۔ (الفتح الکبیر: ۱،۸۴)۔

اسی حدیث کو علی بن ابی بکر الھیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ابویعلیٰ اور طبرانی کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ وفیہ معروف بن حسان وھو ضعیف: اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے)


امام محی الدین یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ محدث فرماتے ہیں کہ اس باب میں کہ جب سواری کا جانور چھوٹ جائے تو مالک کیا کہے : بہت سی مشہور احادیث ہیں، ان میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ابن السنی کے حوالہ سے نقل فرمانے کے بعد فرماتے ہیں ؛ ہمارے شیوخ میں سے بعض نے مجھ سے بیان کیا جن کا شمار کبار علماٗ میں ہوتا ہے کہ ان کی سواری بدک بھاگی شاید وہ خچر تھی اور وہ اس حدیث کو جانتے تھے تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق (یاعباداللہ احبسوا) کہا تو اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو فوراً ان کے لیئے ٹھہرا دیا اور ایک مرتبہ میں بھی ایک جماعت کے ساتھ تھا کہ سواری کا جانور بدک بھاگا اور وہ لوگ اس کے پکڑنے سے عاجز ہوئے تو میں نے یہی یاعباداللہ احبسوا کہا تو وہ سواری کا جانور بغیر کسی اور سبب، صرف اس کلام کے کہنے سے فورا رک گیا۔ (کتاب الاذکار ج ۱، ص ۱۷۷،چشتی)


یعنی یہ وہ حدیث ہے جس سے صاف صاف غیراللہ کی مدد ثابت ہورہی ہے اور یہ نامور صحابہ کی تعلیم ہے اور خود سلف کا عمل ہے لیکن موجودہ دور کا خارجی دیوبندی وہابی فتنہ اس کو ضعیف قرار دے کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر لوگوں کو مذہبی دکانداری سے گمراہ کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ کیونکہ اس حدیث میں توسل مدد استمداد حاصل کرنا وہ بھی غیراللہ سے اور اس پر اللہ کا عطا فرمانا اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اگر ہم نے اسکی دیگر طرق بیان کرنی شروع کردیں تو پوری کتاب لکھنی پڑ جائے گی ۔ القصہ مختصر کسی محدث کسی صحابی کسی تابعی نے اس کو (کفر شرک بدعت یا غیراللہ سے مدد کا نام) نہیں دیا۔ بلکہ ان کے عمل کے مطابق یہ عین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پاسداری کرنا اور تجربہ کرکے اس کو صحیح ثابت ہونے پرلکھنا بنتا ہے ۔ ایک مثال اور دے کر اسکو ختم کرتے ہیں کہ ایسی ہی حدیث جو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے اس حدیث کو امام ابوبکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق العتکی البزار رحمۃ اللہ علیہ نے یوں روایت کیا ہے:حدثنا موسیٰ بن اسحق قال نا منجاب بن الحارث قال نا حاتم بن اسماعیل عن اسامۃ بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان للہ ملائکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما سقط من ورق الشجرۃ فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد اعینوا عباد اللہ ۔

ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک آقائے دوجہاں علیہ التحیہ والثناء نے فرمایا : اللہ کے کچھ ملائکہ زمین میں محافظوں کے علاوہ ہیں جن کا کام درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھنا ہے چنانچہ جب تم میں سے کسی کو دورانِ سفر بیابان میں کوئی مصیبت آپڑے تو اسے چاہیئے کہ ندا کرے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ۔

پھر امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے الفاظ کے ساتھ نہیں جانا مگر اسی طریق اور اسی اسناد کے ساتھ۔ (مسند البزار ج ۱۱، ۱۸۱)


امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو موقوفاً بھی روایت فرمایا ہے بحوالہ شعب الایمان ج ۱، ۱۸۳۔ ایسے ہی مصنف ابن ابی شیبہ کی ج ۶ ، ص ۱۰۳ پر اور التفسیر الکبیر امام رازی نے استناداً بیان فرمایا ج ۲، ص ۱۵۰ پر ۔ اور اسناد کے اعتبار سے یہ حدیثِ حسن ہے ۔


عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث جسے ابویعلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمل الیوم واللیلۃ میں اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اپنی معجم الکبیر میں ذکر کیا ہے اس کی سند میں معروف بن حسان ضعیف ہے اور ابن سنی کی اسناد کے علاوہ میں انقطاع بھی ہے کیونکہ عبد اللہ بن بریدہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے جو کہ ابن السنی کے اسناد میں اتصال کے ساتھ ہے ۔ یعنی عن ابن بریدۃ عن ابیہ (بریدۃ بن الحصیب) عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ؛ رہا معروف بن حسان کا ضعیف ہونا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے اور راوی کے ضعیف ہونے سے حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم تب ہوگا جب کہ اس کےلیئے دیگر شواہد موجود نہ ہوں ۔ لیکن اس حدیث کے لیئے دیگر شواھد روایات موجود ہیں جو کہ دیگر صحیح اور حسن اسناد کے ساتھ موجود ہیں ۔ یعنی طبرانی کی وہ روایت جوکہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے ہے اگرچہ اس مین انقطاع ہے کیونکہ زید بن علی رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان کو نہیں پایا جیسا کہ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد میں ذکر کیا لیکن یہ روایت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیئے تقویت کا باعث ہے اور وہ روایت جو کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا اس کے رجال ثقہ ہیں ۔


اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے مدد مانگنا : ⏬


محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالی بالذات و حقیقی مددگار ہے اور اس کے بندے اس کی عطا سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں تو بندوں کا مدد کرنا غیر حقیقی ہے حقیقت میں مدد اللہ تعالٰی ہی فرماتا ہے یہ بندے تو صرف سبب ہیں کیونکہ دنیا اسباب کی جگہ ہے اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک سبب مقرر فرمایا ہے جیسے بارش کےلیے بادل ، روشنی کےلیے سورج ، کھیتی باڑی کےلیے اس کے اسباب الغرض ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہے جیسے موت دینا یہ اللہ تعالی کی شان مبارک ہے مگر کہا جاتا ہے کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا تو کیا حقیقۃ پولیس والوں نے انہیں موت دی ہے تو ہر مسلمان یہ ہی کہے گا کہ اللہ تعالی نے ہی حقیقۃ انہیں موت دی ہے یہ تو صرف سبب بنے ہیں اسی طرح موت کا فرشتہ بھی حقیقۃ موت نہیں دیتا بلکہ وہ بھی سبب ہے اور اللہ کے حکم و قدرت سے ہی موت دیتا ہے تو کیا یہ کہنا شرک ہوا کہ پولیس نے دہشت گردوں کو مار دیا اسی طرح کوئی مریض مر رہا ہو اور ڈاکٹر اس کا علاج کر کے بچالے تو کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اس کو موت کے منہ سے بچا لیا یا ڈاکٹر نے اسے نئی زندگی دی ہے تو کیا یہ کہنا بھی شرک ہوگا حالانکہ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہرگز نہیں ہوتا ہے حقیقۃ ڈاکٹر نے بچایا ہے اسی طرح ہم لوگوں کا یوں کہنا ’’ بارش یا سیلاب نے تباہی مچادی ‘‘اور اسی طرح کے مختلف جملے تو ان تما م جملوں میں ہم صرف سبب کی طرف نسبت کرتے ہیں اور ہمارا عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر یہ تمام کام اللہ تعالی کے حکم سے ہیں اسی طرح ہمارا انبیا ء واولیاء کرام سے مدد مانگنا بھی اسی معنی پر ہے کہ حقیقی مدد اللہ ہی کی ہے مگر یہ تو صرف سبب ہیں وسیلہ ہیں اور صفات الہی کا مظہر ہیں لہٰذا یہ بھی شرک نہیں ہے ۔


اہلسنت و جماعت کے نزدیک استمدادِ اولیاء اللہ کا عقیدہ برحق ہے اور اس کی گواہی قرآن وسنت اور اقوالِ آئمہ سے آگے پیش کریں گے ۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کے اہلسنت و جماعت کے نزدیک اولیاء اللہ سے مدد صرف توسل ہے یعنی حقیقی مدد اللہ عزوجل ہی کی جانب سے ہوتی ہے اور چونکہ انبیا و اولیاء اللہ عزوجل کے فیض کے مظہر ہیں اس لیے انہیں فیضِ الہٰی کا واسطہ سمجھ کر ان سے مدد مانگنا جائز ہے ۔ جیسے مثال کے طور پر بھکاری بھی جب آپ سے بھیک مانگتا ہے اور جواب میں کچھ نہیں ملتا تو طرح طرح کے واسطے دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے نام پر کچھ دے دو، اپنے اہل وعیال کے نام پر کچھ دے دو ۔


اولیاء اللہ اور انبیاء کرام سے مدد مانگنا جائز ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو رب تعالٰی ہی کی ہے یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے ۔ ہاں غیراللہ سے اس عقیدہ سے مدد مانگنا کہ بغیر عطائے الہٰی اپنی ذات سے مدد کریں تو یہ عقیدہ بیشک باطل ہے اور اس کی تردید علما و فقہا نے واضح الفاظ میں کی ہے ۔ لیکن بغیر دلیل مسلمان کی نیت پر شک کرنا بھی غلط ہی ہے، کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا ۔


قرآنِ کریم میں اس ضمن میں اتنی واضح آیات وارد ہیں : ⏬


وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَاغِبُونَ۔(سورۃ التوبہ آیت 59)۔

اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ کا رسول، ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے۔


أَغْنَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ۔(سورۃ التوبہ آیت 74)۔

انکو اللہ اور رسول نے اپنے فضل سے غنی کر دیا۔


وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً۔(سورۃ النسا آیت 64)۔

اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔


فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِيۤ إِلَى ٱللَّهِ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ ٱللَّهِ آمَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔(سورۃ آل عمران آیت 52)

پھر جب عیسٰی نے اُن سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللّٰہ کی طرف حواریوں نے کہا- ہم دین خدا کے مدد گار ہیں ہم اللّٰہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں


وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْبرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلإِثْمِ وَٱلْعُدْوَانِ۔(سورۃ المائدہ آیت 2)۔

اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔


يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔(سورۃ محمد آیت 7)۔

اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے۔


وَإِن يُرِيدُوۤاْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ ٱللَّهُ هُوَ ٱلَّذِيۤ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ۔(سورۃ الانفال آیت 62)۔

اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللّٰہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زوردیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔


فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ۔(سورۃ التحریم آیت 4)۔

تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔


إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاَثَةِ ءَالَٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلاۤئِكَةِ مُنزَلِينَ۔(سورۃ آعمران آیت 124)۔

جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر ۔


قَالَ إِنَّمَآ أَنَاْ رَسُولُ رَبِّكِ لأَهَبَ لَكِ غُلاَماً زَكِيّاً۔(سورۃ المریم آیت 19)۔

اے مریم میں تمہارے رب کا قاصد ہوں۔ آیا ہوں تاکہ تم کو پاک فرزند دوں۔


قرآن میں منکرینِ استمدادِ اولیا کا احوال بھی بیان فرمادیا گیا۔


أُوْلَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً۔(سورۃ النسا آیت 52)۔

یہ ہیں جن پر اللّٰہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا


بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز صاحب، شیخ ابو العباس احمد زردنی کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں۔


انا لمریدی جامع لشتاتہ

اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ

وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ

فناد بیاز زوق ات بسرعتہ


میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں

جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں

اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو

تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا


قصیدہ نعمانیہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں


یا اکرم الثقل،ین یا کنز الورٰی

بدلی بجودک وارضنی برضاک

انا طامع بالجود منک لم یکن

لابی حنیفہ فی الانام سواک


اے موجودات سے اکرم اور اور نعمت الٰہی کے خزانے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے مجھے بھی دیجئے اور اللہ نے آپ کو راضی کیا ہے مجھے بھی راضی فرما دیجئے۔ میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں آپ کے سوا ابو حنیفہ کا خلقت میں کوئی نہیں۔


گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا

ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں راہ رہنما


یہ شعر کسی "بریلوی" کا نہیں بلکہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کا ہے۔ کسی میں دم ہے تو لگائے فتوٰی حضرت خواجہ صاحب پر۔ تاکہ ہم بھی ان مفتیوں کے فتاوٰی کا معیار دیکھیں ۔


شاہ ولی اللہ دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریم صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے۔(حیات الموات، ص 55،چشتی)


یہی شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں؛اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم، یا نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم آپ کی نبوت ، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے۔ یاعلی یاعلی یاعلی۔(الانتباہ فی سلاسل اولیا، ص 157)


مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہیں اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتے ہیں؛حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپکے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔(صراط مستقیم، ص 98،چشتی)


یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتے ہیں؛

جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپکے حال پر متوجہ حال ہوئیں۔(صراط مستقیم، ص 242۔


اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں کہ؛


کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب

ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے


یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں۔(سفرنامہ لاہور و لکھنؤ، ص 50)۔


ہماری گذارش ہے کہ خدارا کچھ خوف کریں ۔ اگر آپ سے ان نفوسِ قدسیہ کی شان برداشت نہیں ہوتی تو نہ کریں بیان لیکن اس طرح دشنام طرازیاں کرکے کیوں عذابِ الہٰی کو دعوت دیتے ہیں ۔


اور خود پروردگار عزوجل نے وسیلہ تلاش کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے : ولوانہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک فاستغفروا ﷲ واستغفرلہم الرسول لوجدوا ﷲ توابا رحیما ۔ اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کرکے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ، تو بیشک اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا مہربان پائیں گے ۔ (القرآن الکریم پارہ نمبر 5)


کیا اللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا ۔ پھریہ کیوں فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضرہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تو یہ دولت ونعمت پائیں گے ۔ یہی ہمارا مطلب ہے ۔ جو قرآن کی آیت صاف فرمارہی ہے کہ ﷲ تعالی اپنے حبیب کی شان عظمت ورفعت بتلانا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ تم کبھی بھی ڈائریکٹ مت ہونا بلکہ حضور صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے وسیلہ سے ہی رب کی بارگاہ عالی میں آنا تو تم رب کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاؤ گے ۔


قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ ۔ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ۔ وَ اشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔

بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہو جائیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ (سورہ العمران ۵۲)

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔

ترجمہ : اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو ۔

کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے۔ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت کو ارشاد کیا ہے ۔

اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ

تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکٰوۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں ۔ (سورہ مائدہ ۵۵)

فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰیہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ۱ وَ الْمَلآیِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ ‘‘ترجمہ کنزالایمان:تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔[سورہ تحریم آیت ۴]

:وتعاونوا علی البر والتقوٰی آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر ۔ (القرآن الکریم)

کیوں صاحب ! اگرغیر خدا سے مددلینی مطلقا محال ہے تو اس حکم الٰہی کا حاصل کیا، اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے اس سے مدد مانگنے میں کیا زہر گھل گیا ۔


جامع الاحادیث میں بحوالہ طبرانی یہ حدیث موجود ہے’’إذا ضل أحدُکم شیئا أو أراد أحدُکم غوثا وہو بأرضِ لیس بہا أنیسٌ فلیقلْ یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہِ أغیثونی یا عبادَ اللہ أغیثونی فإنِّ للہِ عبادا لا تراہم‘‘[جامع الاحادیث حدیث نمبر ۲۳۰۰] اور اسی حدیث کو علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ میں نقل فرما یا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے ۔


اور اگر کوئی بدمذہب پھر اس بات کو نہ ماننے اور کہے کہ جو بھی غیر ﷲ سے مدد مانگے خواہ کسی بھی عقیدے سے مانگے تو اس نے شرک کیا تو اس سے کہیے کہ جناب آپ ان حضرات کے بارے میں بھی مشرک ہونے کے فتوی لیکر آئیں اور انہیں بھی مشرک کہیں جنہوں نے انبیاء واولیاء کرام سے مدد مانگنے کو جائز فرمایا ہے اور خود مدد بھی مانگی ہے ۔


شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات میں فرمایا : لیت شعری چہ می خواہند ایشاں باستمداد وامداد کہ این فرقہ منکر ند آں را آنچہ مامی فہمیم ازاں این ست کہ داعی دعاکنند خدا وتوسل کند بروحانیت این بندہ مقرب را کہ اے بندہ خدا و ولی وے شفاعت کن مراد بخواہ از خدا کہ بدہد مسؤل ومطلوب مرا اگر ایں معنی موجب شرک باشد چنانکہ منکر زعم کند باید کہ منع کردہ شود توسل وطلب دعا از دوستانِ خدا درحالت حیات نیز واین مستحب است باتفاق وشائع است در دین و آنچہ مروی و محکی است از مشائخ اہل کشف دراستمداد از ارواح کمل واستفادہ ازاں، خارج از حصراست ومذکور ست درکتب و رسائل ایشاں ومشہور ست میاں ایشاں حاجت نیست کہ آنرا ذکرکنیم وشاید کہ منکر متعصب سود نہ کند اور اکلماتِ ایشاں عافانا اللہ من ذٰلک کلام دریں مقام بحد اطناب کشید بر غم منکراں کہ درقرب ایں زماں فرقہ پیدا شدۃ اند کہ منکر استمداد واستعانت را از اولیائے خدا ومتوجہاں بجناب ایشاں را مشرک بخدا عبدۃ اصنام می دانند و می گویند آنچہ می گویند اھ ملتقطا ۔

ترجمہ : نہ معلوم وہ استمداد وامداد سے کیاچاہتے ہیں کہ یہ فرقہ اس کامنکر ہے۔ ہم جہاں تک سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا خدا سے دعا کرتا ہے او ر اس بندہ مقرب کی روحانیت کو وسیلہ بناتا ہے یا اس بندہ مقرب سے عرض کرتا ہے کہ اے خدا کے بندے اور اس کے دوست ! میری شفاعت کیجئے اور خدا سے دعا کیجئے کہ میرا مطلوب مجھے عطا فرمادے اگر یہ معنی شرک کا باعث ہو جیسا کہ منکرکا خیال باطل ہے تو چاہئے کہ اولیاء اللہ کو ا ن کی حیات دنیا میں بھی وسیلہ بنانا اور ان سے دعا کر انا ممنوع ہو حالانکہ یہ بالاتفاق مستحب ومستحسن اور دین معروف ومشہور ہے۔ ارواح کاملین سے استمداد اور استغفار کے بارے میں مشائخ اہل کشف سے جو روایات و واقعات وارد ہیں وہ حصر و شمار سے باہر ہیں اور ان حضرات کے رسائل وکتب میں مذکور اور ان کے درمیان مشہور ہیں، ہمیں ان کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں اور شائد ہٹ دھرم منکر کے لیے ان کے کلمات سود مند بھی نہ ہو خدا ہمیں عافیت میں رکھے اس مقام میں کلام طویل ہوا اور منکرین کی تردید وتذلیل کے پیش نظر جو ایک فرقہ کے روپ میں آج کل نکل آئے ہیں اور اولیاء اللہ سے استمداد واستعانت کا انکار کرتے ہیں اور ان حضرات کی بارگاہ میں توجہ کرنے والوں کو مشرک و بت پرست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جو کہتے ہیں ۔ (اشعۃ اللمعات باب حکم الاسراء جلد نمبر ۳ فصل نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۰۱ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر،چشتی)


جزا کم ﷲ عن ذٰلک مرافقتہ فی جنتہ وایانا معکما برحمۃ انہ ارحم الراحمین وجزا کم ﷲ عن الاسلام واھلہ خیر الجزاء ، جئنا یا صاحبی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم زائرین لنبینا وصدیقنا وفاروقنا ونحن نتوسل بکما الٰی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیشفع لنا الٰی ربنا ۔

ترجمہ : اللہ تعالٰی آپ دونوں صاحبوں کو ان خوبیوں کے عوض اپنی جنت میں اپنے نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے اور آپ کے ساتھ ہمیں بھی، بیشک وہ ہر مہر والے سے زیادہ مہر والا ہے ۔ اللہ آپ دونوں کو اسلام واہل اسلام کی طرف سے بہتر بدلہ کرامت فرمائے، اے نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم کے دونوں یارو! ہم اپنے نبی اور اپنے صدیق اور اپنے فاروق کی زیارت کو حاضر ہوئے اور ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آپ دونوں سے توسل کرتے ہیں تاکہ حضور ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت فرمائیں ۔ (الاختیار والتعلیل مراقی الفلاح فتاوی عالمگیری،چشتی)


اپنے مشائخ حدیث وطریقت سے اجازت حاصل کرتے ہیں زیادہ نہ سہی یہی دعائے سیفی جس کی نسبت شاہ ولی ﷲ علیہ الرحمہ نے لکھا کہ : میں اپنے شیخ سے اخذ کی اور اجازت لی اسی کی ترکیب میں ملاحظہ ہوکہ جواہرخمسہ میں کیا لکھا ہے : نادعلی ہفت بار یا سہ بار یا یکب ار بخواند وآں اینست ناد علیا مظھرالعجائب تجدہ عونالک فی النوائب کل ھم وغم سینجلی بولایتک یاعلی یاعلی یاعلی ۔نادعلی سات بار یا تین بار یا ایک بار پڑھو اور وہ یہ ہے : پکار علی کو جو عجائب کے مظہر ہیں تو ان کو اپنے مصائب میں مدد گار پائے گا ، ہر پریشانی اور غم ختم ہوگا آپ کی مدد سے یاعلی یاعلی یاعلی ۔ (فتوح الغیب ضمیمہ جواہر خمسہ مترجم اردو نادعلی کا بیان مطبعہ دارالاشاعت کراچی ص۴۵۳،چشتی)


علامہ رشید احمد گنگوہی سے کسی نے سوا ل کیا کہ ان اشعار کو بطور وظیفہ پڑھنا کیسا ہے ؟ ’’ یا رسول ﷲ انظر حالنا یا حبیب ﷲ اسمع قالنا

اننی فی بحر ھم مغرق خذ یدی سھل لنا اشکالنا ‘

یا اکرم الخلق مالی من الوذ بہ

سواک عند حلول الحادث العمم

تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسے کلمات کو نظم ہوں یا نثر ورد کرنا مکروہ تنزیہی ہے کفر و فسق نہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد ۳صفحہ ۵ )


علامہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : جو استعانت و استمداد باعتقاد علم و قدرت مستقل ہو (یعنی کسی نے اس کو نہ دیئے اور نہ کسی کا محتاج ہے) وہ شرک ہے اور جو باعتقد علم و قدرت غیر مستقل ہو (یعنی ﷲ نے انہیں دی اور ﷲ ہی کے محتاج ہیں) اور وہ علم قدرت کسی دلیل سے ثابت ہوجائے تو جائز ہے خواہ مستمد منہ (جس سے مدد طلب کی جارہی ہے ) حی ہو (زندہ ہو) یا میت (مردہ ) ۔ (امدادالفتاوی کتاب العقائد جلد ۴صفحہ ۹۹)


شان اولیاء کرام علیہم الرّحمہ اور بعد از وصال تصرف و مدد کرنا : ⏬


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021 روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ، اور میرا بندہ کسی اور میری پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جتنا کہ فرائض کے ذریعے (میرا قرب پاتا ہے) اور میرا بندہ نفل (زائد) عبادات کے ذریعے ہمیشہ میرا قرب پاتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرماتا ہوں جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگروہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور عطاء کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ عطاء فرماتا ہوں ۔


حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے۔ اور ولایة کا معنی ہے: محبت کرنا، قریب ہونا، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے: قریب، محب، حاکم، مددگار، دوست، متولی امر۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی وپرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتے ۔


حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی (علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں ۔


لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے ۔


حدیث بالامیں لفظ ''بالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے۔


بزرگان دین فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے : 1. سود ۔ 2. اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت ۔


حضرت علامہ علی قاری مکی حنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)


حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ)'' فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے۔ جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلینۖ کے لئے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے۔ فرض کا انکار کفرہے، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے ۔


حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، تلاوت قرآن، محافل میلاد، محافل ایصال ثواب، درود شریف وغیرہ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پائوں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ اب اس کا سننا، دیکھنا، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے ۔


جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے )اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے؟ '' تو قرآن مجید، پارہ نمبر 19، سورہ نمل، آیت نمبر 40 میں ہے : اس شخص نے جسکے پاس کتاب کا علم تھا کہا: میں آپکے پاس وہ تحت آپکی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں ۔


یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے ۔


اس حدیث میں اولیاء کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی، بلکہ علامہ ابن خلدون مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے ۔


روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ چنانچہ نبی علیہ الصلوٰة و السلام کا ارشاد ہے، جوکہ صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔


حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لائوڈ سپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔


شیخ عبدالحق محدث دہلوی، حجۃ الاسلام امام غزالی کے حوالے سے فرماتے ہیں : جن سے زندگی میں استمداد (مدد) حاصل کی جاتی ہے، ان سے بعد از وصال بھی استعانت (مدد مانگنا) کی جاتی ہے ، مشائخ عظام میں سے بعض نے کہا ہے کہ میں نے چار حضرات کو دیکھا کہ وہ جس طرح اپنی زندگی میں تصرف کرتے تھے اسی طرح اپنی قبروں میں بھی تصرف کرتے ہیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ ، ایک شیخ معروف کرخی اور دوسرے شیخ عبدالقادر جیلانی، اور ان کے علاوہ دو (۲) کا نام اور لیا، ان کا مقصود ان چار میں حصر کرنا نہیں تھا بلکہ محض اپنے مشاہدے کو بیان کرنا تھا ۔ (أشعة اللمعات 715/1)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندگی کی طرح تصرف فرماتے ہیں ۔ (زبدۃُ الآثار صفحہ 21 مترجم صفحہ 31 مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں چار بزرگ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور زندگی کی طرح تصرف فرماتے ہیں ۔ (زبدۃُ الآثار صفحہ 21 مترجم اردو مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور)


حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ بھی عقیدہ حیات الاولیاء بعد از وصال کے قائل ہیں جبھی تو لکھا ہے کہ : وہ (حضور غوث پاک) شیخ عبدالقادر جیلانی (علیہ الرحمہ)ذات گرامی ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں "زندوں کی طرح تصرف"کرتے ہیں ۔ (ہمعات ،اردو، ص108،مطبوعہ سندھ ساگر اکادمی لاہور)


یعنی حضور غوث پاک نہ صرف اپنے مزار شریف میں زندہ ہیں بلکہ زندوں کی طرح تصرف بھی فرماتے ہیں یعنی کہیں بھی آجا سکتے ہیں اور اسی بنا پر اگر اِن سے استمداد و استعانت کی جائے کہ یہ اللہ کی عطا سے مدد پر قادر ہیں بگڑی بنا دیں گے تو ایسا عقیدہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔


علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے ۔


حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے ۔


یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے۔ حضور نبی اکرمۖ نے صحابہ کرام کو حضرت اویس قرنی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے:

ترجمہ: ''تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لئے استغفار کریں ۔


اور امام بخاری و مسلم کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ﷺ آپ اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے ۔


چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6صفحہ 356طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سحبہ وسلّم

نے خواب میں فرمایا :عمر کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی۔


حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتے ہیں ۔


منکرین استمداد اولیاء سے میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا حضرات جو استمداد اولیاء اللہ علیہم الرحمہ کے قائل ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ بھی مشرک ہیں یا معاذاللہ ان کو چھوٹ حاصل ہے ؟ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 17 September 2025

وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا اور والی بنا لیے اور مزارات اولیاء اللہ پر حاضری

وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا اور والی بنا لیے اور مزارات اولیاء اللہ پر حاضری
محترم قارئین کرام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : وَالَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ  اَوْلِیَآءَ ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ  اِلَّا لِیُقَرِّبُوۡنَاۤ  اِلَی اللہِ  زُلْفٰی ؕ اِنَّ اللہَ یَحْکُمُ بَیۡنَہُمْ فِیۡ مَا ہُمْ فِیۡہِ یَخْتَلِفُوۡنَ ۬ؕ اِنَّ اللہَ  لَا یَہۡدِیۡ مَنْ ہُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ ۔
تر جمہ : اور وہ جنہوں نے اس کے سوا اور والی بنالیے ، کہتے ہیں ہم تو انہیں صرف اتنی بات کےلیے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللّٰہ کے پاس نزدیک کردیں ،اللّٰہ ان میں فیصلہ کردے گا اس بات کا جس میں اختلاف کررہے ہیں۔ بیشک اللّٰہ راہ نہیں دیتا اسے جو جھوٹا بڑا ناشکرا ہو ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 3)

اِس آیت مبارکہ کی غلط تفسیر : آج کچھ لوگ قبروں کو پوجتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو اِن کے مزاروں پر صرف اِس لیے جاتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں گے۔ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اِس آیت میں فر مایا کہ وہ جھوٹے اور ناشکری کر نے والے ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔لہذا اِس آیت سے معلوم ہوا کہ مزاروں پر جانے والے لوگ گمراہ  اور بے دین ہیں ۔

اِس آیت مبارکہ کی صحیح تفسیر : علامہ ابن کثیر اِس آیت کی تفسیر حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ نے بتوں کے پوجنے والے مشر کین کے بارے میں فر مایا کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اِن بتوں کو صرف اِس لئے پوجتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قر یب کر دے ” تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کر نے والے لوگ جھوٹے  اور ناشکرے ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 92 مطبوعہ ضیاء القرآن،چشتی)

اِس تفسیر سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ نے کافر و مشرک کے بارے میں نازل فر مایا جو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کرتے تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ یہ بت ہمیں اللہ سے قر یب کردے گا اور ہمارے لئے اللہ کی بارگاہ میں سفارش کرے گا۔مگر قرآن کی آیتوں کے ساتھ کھلواڑ کر نے والے لوگوں نے اِس آیت کو اُن مسلمانوں پر چسپاں کر دیا جو صرف اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کسی کو بھی عبادت کا حقدار نہیں مانتے ۔ یہاں تک کہ اِس کائنات کی سب سے عظیم ہستی اپنے پیارے نبی کی بھی پوجا اور عبادت کر نا جا ئز نہیں سمجھتے ، ولی کی عبادت تو بہت دور۔قرآن کی آیتوں کے ساتھ اِسی طرح کے کھلواڑ کر نے والے لوگوں کے بارے میں صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فر مایا کہ:دینا کے سب سے گھٹیا اور بد ترین لوگ خارجی ہیں جو کافروں والی آیتوں کو مسلمانوں کے اوپر چسپاں کرتے ہیں ۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے لوگو! سن لو کہ شرک سے خالص عبادت اللہ تعالیٰ ہی کیلئے ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہی نہیں  اور وہ بت پرست جنہوں  نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور معبود ٹھہرا لئے ہیں  اور بتوں  کی پوجا کرتے ہیں ،وہ (اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کے باوجود) کہتے ہیں  کہ ہم تو ان بتوں  کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں  تاکہ یہ ہمیں  اللہ تعالیٰ کے زیادہ نزدیک کردیں  تو یہ سمجھنے والے جھوٹے اور ناشکرے ہیں  یعنی جھوٹے تو اِس بات میں  ہیں  کہ بتوں  کو خدا کا قرب دلانے والا سمجھتے ہیں  اور ناشکرے اِس لیے ہیں  کہ خدا کی نعمتیں  کھاکر اور اس کو خالق مان کر پھر بھی شرک کرتے ہیں  تو ان کافروں  کا مسلمانوں  کے ساتھ توحید و شرک میں  جو اختلاف ہے اس کا فیصلہ قیامت میں  اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا اور وہ فیصلہ ایمان داروں  کو جنت میں  اور کافروں  کو دوزخ میں  داخل کرنے کے ذریعے ہوگا ۔

صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے کیا جانے والا عمل مقبول ہے : اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہی عمل قابلِ قبول ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے کیا جائے ،اسی طرح حضرت یزید رقاشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،ایک شخص نے عرض کی : یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم شہرت حاصل کرنے کے لئے اپنے اَموال دیتے ہیں ، کیا ہمیں  اس کا کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کےلیے کیا جائے ، پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ۔ (در منثور، الزمر، تحت الآیۃ: ۳، ۷/۲۱۱،چشتی)

اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں  کو وسیلہ سمجھنا شرک نہیں
یاد رہے کہ کسی کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنا شرک نہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرنے کا قرآنِ پاک میں  حکم دیا گیا ہے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ ۔ (سورہ مائدہ:۳۵)
ترجمہ : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔

البتہ جسے وسیلہ سمجھا جائے اسے معبود جاننا اور اس کی پوجا کرنا ضرور شرک ہے۔یہ فرق سامنے رکھتے ہوئے اگر انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل ہونے کا وسیلہ سمجھنے سے متعلق اہلِ حق کا عقیدہ اور نظرِیَّہ دیکھا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان کا یہ عقیدہ شرک ہر گز نہیں ، کیونکہ وہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء ِعظام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کو معبود نہیں  مانتے اور نہ ہی ان کی عبادت کرتے ہیں  بلکہ معبود صرف اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں  اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں  جبکہ انہیں  صرف اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ مان کر اس کی بارگاہ تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے ہیں ۔آیت میں  مشرکوں  کی بتوں  کو وسیلہ ماننے کی تردید دو وجہ سے ہے۔ ایک تو اِس وجہ سے کہ وہ وسیلہ ماننے کے چکر میں  بتوں کو خدا بھی مانتے تھے جیسا کہ ان کا اپنا قول آیت میں  موجود ہے کہ ہم ان کی عبادت اِس لئے کرتے ہیں  کہ یہ ہمیں  خدا کے قریب کردیں ۔ دوسرا رد اِس وجہ سے ہے کہ وسیلہ ماننا اصل میں  انہیں شفیع یعنی شفاعت کرنے والا ماننا ہے اور اللہ تعالیٰ  کی بارگاہ میں  شفاعت کی اجازت اَنبیاء و اَولیاء و صُلحاء کو ہے نہ کہ بتوں  کو، تو بتوں  کو شفیع ماننا خدا پر جھوٹ ہے ۔ آج مزار پر کچھ لوگ جو جاہلانہ حر کت کرتے ہیں اور غیر شرعی کام کرتے ہیں اُن کا اہل سنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ خاص انہیں کا کام ہے جس کی وجہ سے اہل سنت پر کوئی الزام لگانا ظلم و تعدی ہے۔لیکن مزار  پر جانا ، ان کی قبر کی زیارت کرنا اور وہاں جا کر قرآن شریف وغیرہ کی تلاوت کر کے اُن کی روح پاک کو ایصال ثواب کرنا اور اُن کے وسیلے سے اپنی جائز حاجتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کر نا بلا شبہ جائز اور امر مستحسن ہے کیو نکہ اِن سب  کاموں کی اجازت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہے ۔

مزارات اولیاء اللہ پر حاضری اور خرافات

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اللہ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہو کر فیض حاصل کرتے رہے ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہو کر سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے ۔ جیسا کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا ۔ اب زیارت کیا کرو ۔ (مسلم شریف ، کتاب الجنائز، ،حدیث نمبر 2260، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں گریہ فرمایا اور جو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے وہ بھی روئے ۔ (مسلم شریف ، کتاب الجنائز،حدیث 2258، مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب)

فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں حضور خاتم المحققین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (وصال1252ھ) فرماتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے ۔ (رد المحتار ، باب مطلب فی زیارۃ القبور ،مطبوعہ دارالفکر، بیروت،چشتی)

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (سن وصال606ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفاء کرام علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔ (تفسیر کبیر، زیر تحت آیت نمبر 20، سورہ الرعد)

صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضری دیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت مالک دار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا ۔ یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 32002، مکتبہ الرشد، ریاض، سعودی عرب،چشتی)

اس سے ملوم ہوا کہ زیارت مزار کے ساتھ، صاحبِ مزار سے مدد طلب کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے ۔

حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ، تو اس (مروان) نے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کر رہا ہے ؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ تھے ۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں ۔ میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت،چشتی)

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ : حدیث شریف میں ہے کہ تین مسجدوں (مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف) کے سوا کسی جگہ کا سفر نہ کیا جائے ۔ پھر لوگ مزارات اولیاء پر حاضری کی نیت سے سفر کیوں کرتے ہیں ؟
جواب : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں مسجدوں میں نماز کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ لہٰذا ان مساجد میں یہ نیت کرکے دور سے آنا چونکہ فائدہ مند ہے ، جائز ہے ۔ لیکن کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا ’’یہ سمجھ کر‘‘ کہ وہاں ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ یہ ناجائز ہے کیونکہ ہر جگہ کی مسجد میں ثواب یکساں ہے اور حدیث میں اسی نیت سے سفر کو منع فرمایا ہے ۔ آج لوگ تجارت کے لئے سفر کرتے ہیں ۔ علم دین کے لئے سفر کرتے ہیں۔ تبلیغ کے لئے سفر کرتے ہیں اور بے شمار دنیاوی کاموں کےلیے مختلف قسم کے سفر کئے جاتے ہیں ۔ کیا یہ سب سفر حرام ہوں گے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ سارے سفر جائز ہیں اور ان کا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا ۔ تو پھر مزارات اولیاء کے لئے سفر کرنا ناجائز کیوں ہوگا بلکہ لاکھوں شافعیوں کے پیشوا امام شافعی علیہ الرحمہ (سن وصال 204ھ) فرماتے ہیں : میں امام ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ سے برکت حاصل کرتا اور ان کے مزار پر آتا ہوں ۔ اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور ان کے مزار کے پاس جاکر ﷲ سے دعا کرتا ہوں تو حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے ۔ (رد المحتار، مقدمہ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت،چشتی)

امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے وطن فلسطین سے عراق کا سفر کرکے امام صاحب رضی اللہ عنہ کے مزار پر تشریف لاتے تھے اور مزار سے برکتیں بھی حاصل کرتے تھے ۔ کیا ان کا یہ سفر کرنا بھی ناجائز تھا ؟

محمد بن معمر سے روایت ہے کہ کہتے ہیں : امام المحدثین ابوبکر بن خذیمہ علیہ الرحمہ ، شیخ المحدثین ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ کئی مشائخ امام علی رضا بن موسیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی خوب تعظیم فرمائی ۔ (تہذیب التہذیب حروف العین المہملہ مطبوعہ دارالفکر بیروت،چشتی)

اگر مزاراتِ اولیاء اللہ پر جانا شرک ہوتا تو ؟

کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ اور شہداء احد کے مزاروں پر تشریف لے جاتے ؟

کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ؟ کیا تابعین ، محدثین ، مفسرین ، مجتہدین مزارات اولیاء پر حاضری کے لئے سفر کرتے ؟

پتہ چلا مزارات پر حاضری حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور امت کے مجتہدین، محدثین اور مفسرین کی سنت ہے اور یہی اہلِ اسلام کا طریقہ رہا ہے اور اس مبارک عمل پر شرک کے فتویٰ دینے والے صراط ِمستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ ان کی اسی روش نے ان کے ہم خیال دھشت گرد گروە کو تشدد کی راە دی اور آج مزارات اولیاء کو وھابی دھشت گرد بموں سے شھید کر رہے ہیں ۔ جبکہ وھابیوں نے حرمین کے قبرستانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اکابرین کے مزارات کو زمین بوس کر دیا ۔

مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر ہونے والی خرافات

اکثر مخالفین مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر ہونے والی خرافات کو امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مزارات اولیاء پر ہونے والی خرافات کا اہلسنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے اپنی تصانیف میں ان کا رد بلیغ فرمایا ہے ۔ لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کےلیے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائرﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جا سکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کیے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے ۔ (معاذ ﷲ) ۔ اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے ۔ اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں ۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امامِ اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم لوگ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے ۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔

مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا

امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہئے ۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے ۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہو سکتی ۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاٶں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں ۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی،چشتی)

روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاٶ ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 ص 765‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو ۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔

مزارات پر چادر چڑھانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کےلیے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)

عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟
آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواح طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے ۔ اخذ برکات کے لئے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات صفحہ 383 مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی،چشتی)

عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے

سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو ۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں ۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام ۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24ص 112‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے

سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ نمب 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں ۔ کیونکہ خیال بد و نیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟
جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29ص 92‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

وجد کا شرعی حکم

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟
آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کےلیے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات صفحہ نمبر 231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

حرمتِ مزامیر

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہثت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)

نشہ و بھنگ و چرس

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے ۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کر دیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم)

غیر ﷲ کو سجدہ تعظیمی حرام اور سجدہ عبادت کفر ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان ! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان ! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ (رب تعالیٰ) کے سوا کسی کےلیے نہیں غیر ﷲ کو سجدہ عبادت تو یقینا اجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت (تعظیمی) حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ صفحہ 5 مطبوعہ بریلی ہندوستان،چشتی)

چراغ جلانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ : قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے (اگرچہ قبر کے قریب تلاوت قرآن کےلیے موم بتی جلانے میں حرج نہیں مگر قبر سے ہٹ کر ہو) ۔ (البریق المنار بشموع المزار صفحہ 9 مطبوعہ لاہور)
اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ سب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے سے خالی ہو اور اگر شمع روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے ۔ (البریق المنار بشموع المزار صفحہ 9 مطبوعہ لاہور)
ایک اور جگہ اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کام دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں سے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس میں مال صرف کرنا اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ۔ قال ﷲ تعالیٰ ولا تسرفوا ان ﷲ لا یحب المسرفین ، اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلاشبہ محبوب شارع ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 38 مطبوعہ آگرہ ہندوستان)

اگر بتی اور لوبان جلانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبر پر لوبان وغیرہ جلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہئے (بچنا چاہئے) اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے قریب سلگانا (اگر نہ کسی تالی یا ذاکر یا زائر حاضر خواہ عنقریب آنے والے کے واسطے ہو) بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جلا کر چلا آئے تو ظاہر منع ہے اسراف (حرام) اور اضاعیت مال (مال کو ضائع کرنا ہے) میت صالح اس عرضے کے سبب جو اس قبر میں جنت سے کھولا جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں (جنتی ہوائیں) بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لاتی ہیں۔ دنیا کے اگر اور لوبان سے غنی ہے ۔ (السنیۃ الانیقہ صفحہ 70 مطبوعہ بریلی ہندوستان،چشتی)

فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر چڑھانا
امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں سوال کیاگیا :
مسئلہ : کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب و لحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واسطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول ہوگا یا نہیں ؟
الجواب : فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی  (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 425‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں ؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے ۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ۔ سوائے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی،چشتی)

مزارات اولیاء پر خرافات

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کے مزارات پر ہر سال مسلمانوں کا جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر وغیرھا سے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلاد کرنا اور فوٹو وغیرہ کھنچوانا یہ سب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اسے امام نہ بنایا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم صفحہ نمبر 216‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

مزارات پر حاضری کا طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویٰ رضویہ سے ملاحظہ ہو :

مسئلہ : حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون کون سی چیز پڑھا کریں ؟
الجواب : مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز باادب سلام عرض کرے السلام علیک یا سیدی و رحمة اللہ و برکاتہ‘ پھر درود غوثیہ‘ تین بار‘ الحمد شریف ایک‘ آیتہ الکرسی ایک بار‘ سورہ اخلاص سات بار‘ پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورہ یٰس اور سورہ ملک بھی پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الٰہی! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا ۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کےلیے دعا کرے اور صاحب مزار کی روح کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے‘ پھر اسی طرح سلام کرکے واپس آئے ۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے (ادب اسی میں ہے) اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 522‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور پنجاب) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے

غم اور پریشانی کے وقت اذان دینا مسنون و مستحب عمل ہے محترم قارئینِ کرام : علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : خیرالدین رملی رحمۃ اللہ ...