Tuesday 8 October 2024

حلال جانوروں کا پیشاب و گوبر ناپاک و حرام ہے

حلال جانوروں کا پیشاب و گوبر ناپاک و حرام ہے

محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡکُمُ الۡمَيۡتَةَ وَالدَّمَ وَلَحۡمَ الۡخِنۡزِيۡرِ وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيۡرِ اللّٰهِ‌ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثۡمَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر 173)

ترجمہ : اس نے یہی تم پر حرام کیے ہیں مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا تو جو نا چار ہو نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔


ماکول اللحم وہ جانور ہیں جن کا گوشت کھانا حلال ہے ۔ ان جانوروں کا پیشاب ، تھوک اور پسینہ نجاست خفیفہ کہلاتا ہے ۔


غیرماکول اللحم وہ جانور ہیں جن کا گوشت کھانا حرام ہے۔ ان جانوروں کا پیشاب، تھوک اور پسینہ نجاست غلیظہ کہلاتا ہے ۔


ماکول اللحم اور غیر ماکول اللحم دونوں طرح کے جانوروں کا پاخانہ نجاست غلیظہ ہے ۔ نجاست غلیظہ کی مقدار کم ہو خواہ زیادہ اسے پاک کرنا ضروری ہے ۔


اہلسنت و جماعت کے نزدیک علاج کے طور پر یا کسی دوسرے مقصد کےلیے  کسی بھی جانور کا پیشاب  پینا جائز نہیں ، کیونکہ یہ ناپاک وحرام ہوتا ہے ۔ اور اس سے شفابھی یقینی نہیں اور پھراس کے متبادل حلال و جائز دوائیں عام طور پر موجود ہوتی ہیں ۔ اور ایک روایت میں جو آیا ہے کہ ایک موقع پر بیمار افراد کو اونٹ کے پیشاب پینے کا حکم فرمایا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی اس بات کا یقینی علم تھاکہ ان کا علاج اس میں ہے ، اس لیے اجازت عطاء فرمائی جبکہ ہمارے پاس یقینی علم کاکوئی ذریعہ نہیں ۔ اور یا پھر یہ روایت منسوخ ہے اس روایت کی وجہ سے کہ جس میں پیشاب سے بچنے کاحکم فرمایا گیا ہے ۔ مشکوۃ المصابیح میں حدیث پاک ہے کہ : عن ابن عباس قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول - وفي رواية لمسلم: لا يستنزه من البول - وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة ثم أخذ جريدة رطبة فشقها نصفين ثم غرز في كل قبر واحدة قالوا يا رسول الله لم صنعت هذا قال لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو فرمایا کہ یہ دونوں عذاب دیے جارہے ہیں اورکسی بڑی چیز میں عذاب نہیں دیےجا رہے ان میں سے ایک تو پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور مسلم کی روایت میں ہے کہ پیشاب سے پرہیز نہ کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا  ، پھر آپ نے ایک ہری تر شاخ لی اور اسے چیرکر دوحصے فرمائے پھر ہرقبر میں ایک گاڑ دی لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے یہ کیوں کیا ، تو فرمایا کہ شاید جب تک یہ نہ سوکھیں تب تک ان کا عذاب ہلکا ہوا ۔(مشکوۃ المصابیح،جلد01 صفحہ 110 مطبوعہ بیروت،چشتی)


مذکورہ بالا حدیث اور اسی واقعہ سے متعلق دیگر کئی احادیث روایت کے اعتبار سے صحیح ہیں اور ان کی صحت میں محدثانہ اصولوں کے مطابق ضعف نہیں پایا جاتا  لہٰذا علماءِ اسلام میں اس روایت یا واقعہ کے سچ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ البتہ اس کی تشریح و تفسیر میں بہت سا اختلاف موجود رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ درج بالا حدیث کو پڑھ کر اہلِ علم کے ایک طبقے نے اونٹ کے پیشاب کو جائز یا پاک مان لیا ۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ جید علماء کے دوسرے طبقے نے اس سمجھ کو نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ اس پر علمی تنقید کر کے غلطی کو واضح بھی کر دیا ہے ۔ یہ معاملہ عجیب ہے کہ کچھ احباب ایک طرف تو اس حدیث کو بنیاد بنا کر اونٹ کا پیشاب پینا درست سمجھتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف اکثر ہندوؤں کے گائے موتر (پیشاب) پینے پر تحقیری جملے کس رہے ہوتے ہیں ۔ یہ کیسا دہرا میعار ہے ؟ جہاں اونٹ کا پیشاب پینا آپ کو بلکل معیوب نہ لگے مگر گائے کا پیشاب پیتے دیکھنا گھن کا سبب بن جائے ؟ اونٹ کے پیشاب پینے کے قائلین جیسے ڈاکٹر ذاکر ناٸیک اس کی افادیت کو بیان کرتے کچھ سائنسی تحقیقات بھی پیش کرتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح ہندو دھرم کے حاملین گائے موتر پینے کے بیشمار فوائد سے متعلق سائنسی ریسرچز کا حوالہ دیتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اونٹ کے پیشاب پر شائع ہوئی 'سائنسی' تحقیقات اکثر عرب میں ہوا کرتی ہیں جبکہ گائے کے پیشاب پر پبش سائنسی ریسرچز اکثر انڈیا میں انجام پاتی ہیں ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ نام کی تحقیقات دراصل اپنے پہلے سے قائم کردہ نتیجے کو صحیح ثابت کرنے کی سعی ہوا کرتی ہیں ۔ یہ بلکل ممکن ہے کہ ان دونوں جانوروں کے پیشاب میں کچھ ایسے کیمکلز ہوں جو کسی درجے انسانی صحت میں معاون ہو سکیں ۔ مگر پھر بات ان ہی جانوروں کے پیشاب تک نہیں رہے گی بلکہ دیگر جانوروں کے فضلہ ، شراب ، منشیات یا دیگر نجس و حرام اشیاء کے اجزاء اور کیمکل ساخت تک بھی جائے گی ۔ جو اپنے حرام و نجس ہونے کے باوجود مختلف صورتوں میں انسانی صحت کےلیے استعمال ہو سکتے ہیں یا ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ایسی کوئی دلیل پیش کرکے اونٹ کے پیشاب کے قصیدے پڑھنا کسی طور درست نہیں ۔ یہ اور بات کہ نہ اونٹ کا پیشاب پینا قرآنِ حکیم میں درج ہے اور نہ ہی گائے کا پیشاب پینا ہندوؤں کے نمائندہ صحائف میں مذکور ہے ۔


اسلام کی تعلیمات جو سراسر طہارت و پاکیزگی پر مبنی ہیں ، اس میں کسی جانور کے پیشاب کو پینے کا حکم ہونا اسلام کی عمومی تعلیمات و روح کے یکسر خلاف محسوس ہوتا ہے ۔ پیشاب سے کسی بھی سلیمُ الفطرت انسان کا کراہت اور گریز کرنا لازم ہے ۔ دھیان رہے کہ جہاں کچھ فقہاء درج بالا حدیث کی تشریح میں اونٹ کے پیشاب کا پینا جائز مانتے ہیں ، وہاں امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام ابو یوسف ، امام سفیان ثوری اور دیگر جبال فقہاء علیہم الرحمہ اونٹ کے پیشاب کو نجس ہی کہتے ہیں ۔ چنانچہ احناف جو برصغیر پاک و ہند میں اکثریت میں ہیں ، ان کے یہاں اس کا استعمال جائز نہیں ۔ ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کی بھی یہی رائے ہے (گو ان کی یہی رائے ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے ۔ اس کے برعکس رائے بھی ان سے منسوب کی جاتی ہے) ۔ دیگر صریح نصوص احادیث مبارکہ میں ایسے موجود ہیں جن میں واضح طور پر پیشاب کو نجس بتایا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی انسان یا جانور کے پیشاب کی کسی درجے میں بھی تخصیص نہیں کی ۔ جیسے ارشاد پاک ہے : پیشاب سے بچو کیونکہ عمومی طور پر قبر کا عذاب پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ (مستدرک حاکم ، ابن ماجہ ، دار قطنی ، صحیح ابن خزیمہ)


اسی طرح دوسری دلیل مسند امام احمد میں مذکور ہے کہ دفن کے بعد میت کو قبر نے زور سے بھینچا اور دبایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ یہ عذاب ان کا پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے تھا ۔ گویا متعدد احادیث صحیحہ سے پیشاب کا بلا تفریق نجس و ناپاک ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ اس امر پر بھی غور کیجیے کہ کئی طیب غذائیں ایسی ہیں جن کو شفاء کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو استعمال کی تلقین کی جیسے کھجور ، شہد ، کلونجی ، دودھ وغیرہ ۔ اسی طرح حجامہ جیسے طریق علاج کا ذکر صراحت سے ہم سب کےلیے موجود ہے ۔ اس کے برعکس اونٹ کے پیشاب کی کوئی فضیلت یا عوام الناس کو اس کے استعمال کی کوئی ترغیب احادیث میں موجود نہیں ہے ۔ بس یہی ایک مبہم سا واقعہ اس ضمن میں بیان ہوتا ہے ۔ اب اس مقام پر ضروری ہے کہ ہم مذکورہ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ و مضمون پر بات کریں اور ممکنہ زاویوں یا امکانات سے اس خبر احد کو سمجھنے کی کوشش کریں : ⏬


1 : جس سخت تکلیف یا وبائی مرض میں اس قبیلے کے افراد مبتلا ہوئے تھے ، کیا معلوم وہ اس نوعیت کا ہو جس کی کوئی طیب دوا موجود نہ ہو ؟ اس طرح یہ لوگ مضطر کے حکم میں آگئے اور مضطر کےلیے نجس چیز کا استعمال جائز ہے ۔ یعنی اگر کسی انسان کی جان خطرہ میں ہو تو اس کی جان بچانے کےلیے حرام چیز سے علاج کیا جا سکتا ہے ۔ آج بھی اگر کسی جان لیوا بیماری کا کوئی طیب و حلال علاج میسر نہ ہو تو بطور علاج نجس و حرام اختیار کرنا جائز ہے ۔


2 :  حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی خاص وبائی بیماری کے 'علاج' کےلیے تھا ۔ اس بیماری کی درست تفصیل ہمیں حاصل نہیں ۔ کچھ کے نزدیک وہ پیٹ پھولنے اور خارش کا مرض تھا ۔ اب جب ہمیں اس مرض کا ہی درست ادراک نہیں جس کےلیے اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کی بات کی جاتی ہے تو پھر آج اس نجس و حرام کو کسی اور بیماری کےلیے استعمال کرنا خلاف عقل و شریعت ہے ۔


3 : جب اس پر بحث نہیں کہ یہ استعمال بیماری کے 'علاج' کے واسطے تھا تو پھر آج اسے سافٹ ڈرنک ، شیمپو ، صابن یا دیگر بیوٹی ٹریٹمنٹ کے طور پر بیچنا یا استعمال کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔


4 : حدیثِ مبارکہ کے مضمون سے آخری درجے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ مریض اندر سے منافق و فسادی تھے ۔ لہٰذا شفاء یاب ہوتے ہی انہوں نے فساد یعنی قتل کیا اور ارتداد اختیار کر لیا ۔ ایسے میں قوی تر امکان یہی ہے کہ رب تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کردیا ہو یا خاص ان ہی منافقین کےلیے پیشاب پینے کا حکم دیا ہو ۔ ہم جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہمیشہ وحی سے تائید حاصل رہتی تھی ۔ اس امکان کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ اونٹ سمیت کسی بھی طرح کا پیشاب پینے کا حکم نہ اس واقعہ سے قبل کبھی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہوا اور نہ ہی اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کو کوئی ایسی ترغیب ملی ۔


5 : اکابر علماء میں ایک رائے یہ بھی رہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھا اور اصل عبارت یوں تھیں : اشربوا من البانہا واضمدوا من ابوالہا ۔ اضمدوا کے معنی ہیں لیپ چڑھانا ۔ کچھ اہل علم عربی لغت اور زبان کے قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات جملے میں ایک بات کا عملی اطلاق بیان کر کے دوسری بات کا اطلاق یہ بھروسہ رکھتے ہوئے حذف کر دیا جاتا ہے کہ سامع یا قاری اسے لازمی سمجھ لے گا ۔ جیسے میں کہوں کہ 'وہاں کھانے کو لذیز پکوان ہیں اور مناظر' ۔ اب سننے والا یہ بخوبی سمجھ لے گا کہ مناظر 'کھانے' کےلیے نہیں ہیں بلکہ دیکھنے کےلیے ہیں ۔ اسی طرح مذکورہ حدیث میں جب الفاظ آئے " واﻣرھم ان ﯾﺷرﺑوا ﻣن اﻟﺑﺎﻧﮭﺎ وأﺑواﻟﮭﺎ" - "ان لوگوں کو انہوں نے کہا (وہاں جا کر ان اونٹنیوں کا) دودھ پی لیں اور پیشاب بھی ۔ تو یہاں مراد پیشاب پینا نہیں بلکہ عرب میں رائج طریقہ علاج کے تحت اسے زخم پر لگانا ہے ۔


6 : صحیح بخاری میں ہی اس حدیث سے قبل حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث بھی مذکور ہے جس میں ان حضرات کا علاج صرف دودھ سے مذکور ہے ، اس حدیث میں پیشاب کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے ۔


7 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں ہمارا دین سیکھانے آئے اور اونٹ کا پیشاب بطور علاج پینا کسی طور بھی دین میں شامل نہیں ۔ اس اصول کو سمجھنے کےلیے ایک صحیح ترین حدیث پڑھیے : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ آوازیں سنیں فرمایا : یہ کیسی آوازیں ہیں ؟ صحابہ نے جواب دیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگ کجھوروں کی پیوندکاری کر رہے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگریہ لوگ ایسانہ کریں تو بہتر ہے '' تو اس سال لوگوں نے کجھور کی پیوندکاری نہیں کی ، جس کی وجہ سے اس سال کجھورکی فصل اچھی نہ ہوئی ، تو لوگوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے دنیا کا کوئی معاملہ ہو تو تم اسے جس طرح چاہو انجام دو لیکن اگرتمہارے دین کا معاملہ ہو تو میری طرف رجوع کرو ۔ (مسند أحمد 41 / 401 و اسنادہ صحیح علی شرط مسلم،چشتی)


یہ وہ چند ممکنہ زاویئے و امکانات ہیں جو اہلِ علم نے مذکورہ حدیث کی تشریح میں بیان کیے ہیں ، جنہیں فقیر چشتی نے قرینِ قیاس پایا ہے اور جنہیں مدِنظر رکھ کر ہم اسے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ کچھ فقہاء جیسے  امام مالک علیہ الرحمہ نے جو رائے اختیار کی ہے ، اس کے مطابق جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب پاک ہے اور جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اُن کا پیشاب ناپاک ہے ۔ اس رائے کے استدلال میں وہ دو احادیث پیش کرتے ہیں ۔ پہلی تو وہی جو اونٹ کے پیشاب کو بطور علاج استعمال کرنے سے متعلق ہے اور جس کی وضاحت اپر کی جاچکی ہے ۔ جبکہ دوسری حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہو ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اگر ان کا پیشاب ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت کیوں دیتے ؟ یہ دلیل دیگر فقہاء کے سامنے خاصی کمزور ہے ۔ اول تو ہلال جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے پیشاب کو بھی اس حدیث کی بناء پر پاک و جائز کہنا سمجھ نہیں آتا ۔ پھر اگر ایک لمحے کو اسے مان بھی لیں تو گوشت کھائے جانے والے جانوروں کے پائخانہ کو ناپاک اور ان کے پیشاب کو پاک قرار دینے کی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔ اب آجایے اس دوسری حدیث پر جس میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے تو اس کے مکمل الفاظ یہ ہیں : صَلُّوا فِیْ مَرَابضِ الْغَنَمِ وَلَا تُصَلُّوا فِی اعْطَانِ الْاِبِل " بکریوں کے باڑہ میں نماز ادا کرلو لیکن اونٹوں کے باڑہ میں نماز ادا نہ کرو " ۔ اس حدیث کے معنیٰ یہ ہیں کہ بکریوں کا پیشاب عموماً دور دور نہیں جاتا ہے لہٰذا بکریوں کے باڑے میں تو کسی پاک وصاف جگہ نماز پڑھ سکتے ہو لیکن اونٹ کا پیشاب دور دور تک بہتا ہے لہٰذا اونٹ کے باڑے میں پاک وصاف جگہ کا موجود ہونا دشوار ہے لہٰذا اونٹ کے باڑے میں نماز ادا نہ کرو ۔ گویا اس حدیث سے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور اس حوالے سے ان کے ہم خیال فقہاء کی رائے کا انکار ممکن نہیں ۔


ایک اور اشکال و اعتراض جو اس حدیث کی آخری سطر سے پیدا ہوتا ہے ، وہ ان افراد کا تشدد آمیز قتل ہے (ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی) اس کا جواب ایک دوسری حدیث سے ملتا ہے جس کے مطابق ان مرتدین و منافقین نے اونٹوں کے چرواہے کو اسی تشدد و ظلم سے قتل کیا تھا اور اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی تھی ۔ لہٰذا انہیں بھی بطور سزا ایسی ہی موت دی گئی اور آنکھوں میں سلائی پھیری گئی ۔


مراۃ المناجیح میں  ہے : حلال جانوروں کا پیشاب نجس ہے جس سے بچنا واجب۔دیکھو اونٹ کا چرواہا اونٹ کے پیشاب کی چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوا ۔ (مرأۃ المناجیح جلد 1 صفحہ 260 نعیمی کتب خانہ،چشتی)


ضرورت کے وقت حرام چیزوں سے علاج کے متعلق احادیث اور فقہاء اسلام کی تشریحات : ⏬


امام بخاری علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عکل یا عرینہ سے کچھ لوگ آئے اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پئیں ‘ جب وہ تندرست ہوگئے تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرواہوں کو قتل کردیا ۔


علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں : امام بخاری علیہما الرحمہ نے اس حدیث کو آٹھ سندوں سے روایت کیا ہے ‘ امام مسلم نے اس حدیث کو سات سندوں سے روایت کیا ہے ‘ امام ابوداؤد اور امام نسائی علیہما الرحمہ نے بھی اس حدیث کو متعدد سندوں سے روایت کیا ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ٣ ص ١٥١‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ،چشتی) ۔ نیز اس حدیث کو امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کتاب الطہارۃ ‘ اطعمہ اور الطب میں روایت کیا ہے ‘ امام ابن ماجہ نے کتاب الحدود میں روایت کیا ہے ‘ امام احمد بن حنبل نے مسند احمد ج ١ ص ١٩٢‘ ج ٣ ص ٣٧٠۔ ١٩٠۔ ٢٨٧۔ ٢٠٥۔ ١٩٨۔ ١٧٧۔ ١٦١۔ ١٠٧) میں روایت کیا ہے ۔


علامہ بدرالدین عینی حنفی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پیشاب پینا تو حرام ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اس وقت حرام ہے جب دوسری دوا کا بھی اختیار ہو ۔ (عمدۃ القاری ج ٣ ص ‘ ١٥٥ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)


علامہ نووی شافعی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ خمر اور باقی نشہ آور مشروبات کے سوا ہر نجس چیز کے ساتھ علاج کرنا جائز ہے ۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٥٧‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ) ۔ لیکن علامہ نووی نے ” شرح المہذب “ میں لکھا ہے کہ ضرورت کی بناء پر شراب سے بھی علاج جائز ہے ۔ (شرح المہذب ج ٩ ص ٤١‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)


امام بخاری علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خارش کی وجہ سے حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ریشم کی قمیص پہننے کی اجازت دی ۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٤٠٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

علامہ بدرالدین عینی حنفی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : علامہ نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث امام شافعی علیہ الرحمہ اور ان کے موافقین کے موقف پر صراحۃ دلالت کرتی ہے کہ اگر مردوں کو خارش ہو تو ان کےلیے ریشم جائز ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ٤ ص ١٩٦‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)


ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : جوؤں یا خارش کی وجہ سے ریشم پہننے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (مرقات ج ٨ ص ٢٤٢‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)


امام ابوداؤد علیہ الرحمہ روایت کرتے ہیں : عبدالرحمن بن طرفہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا عرفجہ بن اسعد کی جنگ کلاب میں ناک کٹ گئی ‘ انہوں نے چاندی کی ناک گالی ‘ اس میں بدبو پیدا ہو گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سونے کی ناک بنانے کا حکم دیا ۔ امام ابوداؤد نے اس حدیث سے دانت کو سونے کے ساتھ باندھنے کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ‘ ٢٢٥ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)


امام ترمذی علیہ الرحمہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے اور اس حدیث سے دانت کو سونے کے ساتھ باندھنے کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٢٦٨ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)۔(امام احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٢ ھ ‘ سنن نسائی ج ٢ ص ٢٨٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی،چشتی)(امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ، مسنداحمد ج ٥ ص، ٢٣ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٣٩٨ ھ)


ملا علی قاری علیہ الرحمہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث کی بناء پر سونے کی ناک لگانے اور سونے کے ساتھ دانت کے باندھنے کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ (مرقات ج ٨ ص ٢٨٠‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)


فقیر چشتی نے اس بحث میں فقہاء احناف ‘ فقہاء شافعیہ اور فقہاء مالکیہ علیہم الرحمہ کی تصریحات پیش کی ہیں کہ ضرورت کے وقت حرام دواؤں سے علاج کرنا جائز ہے ‘ فقہاء حنبیلہ کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے ‘ بعض منع کرتے ہیں اور جمہور جائز کہتے ہیں ‘ علامہ مرداوی حنبلی لکھتے ہیں : جمہور اصحاب کے نزدیک اضطرار کے وقت حرام چیز بہ قدر ضرورت کھانا جائز ہے اور اضطرار اس وقت ہے جب جان کی ہلاکت کا خدشہ ہو یا جان کے نقصان کا خدشہ ہو یا مرض کا خدشہ ہو یا مرض کے بڑھنے کا خدشہ ہو اور اگر مرض کے طول کا خدشہ ہو تو صحیح مذہب یہ ہے کہ پھر بھی اضطرار ہے ۔ (الانصاف ج ١٠ ص ٣٧٠۔ ٣٦٩‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٣٧٢ ھ)


صحت اور زندگی کی حفاظت کا حکم باقی تمام احکام پر مقدم ہے ۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ خون کی حرمت قطعی ہے اور خون منتقل کرنے سے مریض کا بچ جانا یا اس کا صحت یاب ہو جانا ظنی ہے اور ظنی فائدہ کی امید پر حرام قطعی کا ارتکاب کرنا جائز نہیں ہے ‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو عرنیین کو بیماری میں اونٹنیوں کا پیشاب پلایا تھا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو وحی کے ذریعہ علم تھا کہ ان کی اسی سے شفا ہوگی اور وحی کا علم قطعی ہے ‘ اس لیے اس سے معارضہ نہیں کیا جاسکتا ‘ اور فقہاء نے شدید بھوک کی حالت میں مردار اور خنزیر کھانے کا جو جواز لکھا ہے اس سے بھی معارضہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی چیز کے کھانے سے بھوک کا زائل ہونا قطعی ہے اور دوا سے بیماری کا علاج ظنی ہے ‘ اسی طرح یہ استدلال بھی صحیح نہیں ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر حلق میں لقمہ پھنسا ہو اہو اور کوئی اور پینے کی چیز نہ ملے تو شراب کا گھونٹ پی کر لقمہ کو حلق سے نیچے اتارنا جائز ہے کیونکہ کسی مشروب سے لقمہ کا حلق سے اترجانا قطعی ہے اور دوا سے صحت اور شفاء کا حاصل ہونا ظنی کےلیے فرض قطعی کو ترک کر دیا جائے گا ‘ قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” ولاتقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما ۔ (النساء : ٢٩) 

ترجمہ : اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو ‘ بیشک اللہ تم پر بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ 

ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ ۔ (البقرہ : ١٩٥) 

ترجمہ : اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔


اٸمہ احناف علیہم الرحمہ نے دیگر عمومی احادیث کی بنا پر اونٹ کے پیشاب کو بھی مطلقًا ناپاک قرار دیا ہے ، اور ان روایات کی درج ذیل توجیہات کی ہیں : ⏬


1 :  یہ حکم عمومی نہیں تھا ، بل کہ خاص اس قوم کے ساتھ مخصوص تھا ۔


2 :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے  ذریعے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کی شفا اونٹی کے پیشاب میں منحصر ہے ، اس کے علاوہ ان کی شفا  ممکن نہیں ہے تو یہ لوگ مضطر کے حکم میں ہو گئے تھے ، اور حالتِ اضطرار میں نجس استعمال کی گنجائش ہو جاتی ہے ۔


3 :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو پیشاب پینے کا حکم نہیں دیا تھا ، بلکہ اس کے خارجی استعمال کا حکم دیا تھا ، اور اس جملہ میں تضمین تھی ، اصل جملہ یوں تھا ”اشربوا من ألبانها واستنشقوا أو واضمدوا من أبوالها“  یعنی اونٹنیوں کے  دودھ  سے  پیو اور ان کے  پیشاب سے  چھڑکاؤ کرو یا لیپ کرلو ۔


4 :  بعض شارحینِ حدیث  فرماتے  ہیں : یہ حدیث دیگر عمومات سے منسوخ ہے ۔ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري (3 / 154) : وَقَالَ أَبُو حنيفَة وَالشَّافِعِيّ وَأَبُو يُوسُف وَأَبُو ثَوْر وَآخَرُونَ كَثِيرُونَ: الأبوال كلهَا نَجِسَة إلاَّ مَا عُفيَ عَنهُ، وَأَجَابُوا عَنهُ بِأَن مَا فِي حَدِيث العرنيين قدكَانَ للضَّرُورَة، فَلَيْسَ فِيهِ دَلِيل على أَنه يُبَاح فِي غير حَال الضَّرُورَة؛ لِأَن ثمَّة أَشْيَاء أبيحت فِي الضرورات وَلم تبح فِي غَيرهَا، كَمَا فِي لبس الْحَرِير، فَإِنَّهُ حرَام على الرِّجَال وَقد أبيح لبسه فِي الْحَرْب أَو للحكة أَو لشدَّة الْبرد إِذا لم يجد غَيره، وَله أَمْثَال كَثِيرَة فِي الشَّرْع، وَالْجَوَاب الْمقنع فِي ذَلِك أَنه عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام، عرف بطرِيق الْوَحْي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جَائِز عِنْد التيقن بِحُصُول الشِّفَاء، كتناول الْميتَة فِي المخصمة، وَالْخمر عِنْد الْعَطش، وإساغة اللُّقْمَة، وَإِنَّمَا لَايُبَاح مَا لَايستيقن حُصُول الشِّفَاء بِهِ ۔ 

وَقَالَ ابْن حزم: صَحَّ يَقِيناً أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِنَّمَا أَمرهم بذلك على سَبِيل التَّدَاوِي من السقم الَّذِي كَانَ أَصَابَهُ، وَأَنَّهُمْ صحت أجسامهم بذلك، والتداوي منزلَة ضَرُورَة. وَقد قَالَ عز وَجل: {إلاَّ مَا اضطررتم إِلَيْهِ} [الْأَنْعَام: 119] فَمَا اضْطر الْمَرْء إِلَيْهِ فَهُوَ غير محرم عَلَيْهِ من المآكل والمشارب ۔


وَقَالَ شمس الأئمة : حَدِيث أنس رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ قد رَوَاهُ قَتَادَة عَنهُ أَنه رخص لَهُم فِي شرب ألبان الْإِبِل، وَلم يذكر الأبوال، وَإِنَّمَا ذكره فِي رِوَايَة حميد الطَّوِيل عَنهُ، والْحَدِيث حِكَايَة حَال، فَإِذا دَار بَين أَن يكون حجَّة أَو لَايكون حجَّة سقط الِاحْتِجَاج بِهِ، ثمَّ نقُول: خصهم رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بذلك؛ لِأَنَّهُ عرف من طَرِيق الْوَحْي أَن شفاءهم فِيهِ وَلَايُوجد مثله فِي زَمَاننَا، وَهُوَ كَمَا خص الزبير رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ بِلبْس الْحَرِير لحكة كَانَت بِهِ، أَو للقمل، فَإِنَّهُ كَانَ كثير الْقمل، أَو لأَنهم كَانُوا كفَّارًا فِي علم الله تَعَالَى وَرَسُوله  عَلَيْهِ السَّلَام علم من طَرِيق الْوَحْي أَنهم يموتون على الرِّدَّة، ولايبعد أَن يكون شِفَاء الْكَافِر بِالنَّجسِ. انْتهى ۔


فَإِن قلت : هَل لأبوال الْإِبِل تَأْثِير فِي الِاسْتِشْفَاء حَتَّى أَمرهم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بذلك؟ قلت: قد كَانَت إبله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الْإِبِل الَّتِي ترعى ذَلِك وَأَلْبَانهَا تدخل فِي علاج نوع من أَنْوَاع الِاسْتِشْفَاء، فَإِذا كَانَ كَذَلِك كَانَ الْأَمر فِي هَذَا أَنه عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام عرف من طَرِيق الْوَحْي كَون هَذِه للشفاء، وَعرف أَيْضاً مرضهم الَّذِي تزيله هَذِه الأبوال، فَأَمرهمْ لذَلِك، وَلَايُوجد هَذَا فِي زَمَاننَا، حَتَّى إِذا فَرضنَا أَن أحداً عرف مرض شخص بِقُوَّة الْعلم، وَعرف أَنه لَايُزِيلهُ إلاَّ بتناول الْمحرم، يُبَاح لَهُ حِينَئِذٍ أَن يتَنَاوَلهُ، كَمَا يُبَاح شرب الْخمر عِنْد الْعَطش الشَّديد، وَتَنَاول الْميتَة عِنْد المخمصة، وَأَيْضًا التَّمَسُّك بِعُمُوم قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (استنزهوا من الْبَوْل فَإِن عَامَّة عَذَاب الْقَبْر مِنْهُ) أولى؛ لِأَنَّهُ ظَاهر فِي تنَاول جَمِيع الأبوال، فَيجب اجتنابها لهَذَا الْوَعيد، والْحَدِيث رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة، وَصَححهُ ابْن خُزَيْمَة وَغَيره مَرْفُوعاً ۔


حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ، حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور جمہور علمائے امت کے نزدیک اونٹ ، گائے ، بھینس وغیرہ ان تمام جانوروں کا پیشاب حرام و ناپاک ہے ، جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ، اور اس پر احادیث سے متعدد دلائل قائم ہیں اور سوال میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جس میں بعض روایات کے مطابق قبیلہ عرینہ والوں کو ایک بیماری میں بہ طور دوا اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینے کی اجازت دی گئی تھی و ہ علی الاطلاق معمول بہ نہیں ہے ، جس کی تفصیل شروح حدیث کی کتابوں (جیسے : عمدة القاری ، فتح الباری وغیرہ) میں موجود ہے ، اس لیے جو لوگ گائے کا پیشاب پاک قرار دیتے اور پیتے ہیں ، وہ اسلام کی صحیح تعلیمات سے بالکل ناواقف و بے خبر ہیں ، آپ ان کے بہکاوے میں نہ آئیں ۔


قالوا : أبوال الإبل نجسة، وحکمہا حکم دمائہا لا حکم لحومہا، وأراد بہم أبا حنیفة وأبا یوسف والشافعي، وقال ابن حزم في المحلي: والبول کلہ من کل حیوان: إنسان أو غیر إنسان، فما یوٴکل لحمہ أو لا یوٴکل لحمہ کذٰلک، أو من طائر یوٴکل لحمہ أو لا یوٴکل لحمہ فکل ذٰلک حرام أکلہ وشربہ إلا لضرورة تداوي أو إکراہ أو جوع أو عطش فقط۔ وفرض اجتنابہ في الطہارة والصلاة إلا ما لا یمکن التحفظ منہ إلا بحرج، فہو معفو عنہ … وقالوا: أما ما رویتموہ من حدیث العرنیین فذٰلک إنما کان للضرورة، فلیس في ذٰلک دلیل أنہ مباح في غیر حال الضرورة؛ لأنا قد رأینا أشیاء أبیحت في الضرورات ولم تبح في غیر الضرورات (نخب الأفکار في تنقیح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار، کتاب الطہارة، باب حکم بول مایوٴکل لحمہ ۲: ۳۸۲، ط: وزارة الأوقاف والشوٴون الإسلامیة، دولة قطر،چشتی)(الدر المختار ورد المحتار کتاب الطھارة، باب المیاہ، ۱: ۳۶۵)


ان تمام جانوروں کا بول و براز (جن کا گوشت کھانا جائز ہے) ناپاک و نجس ہے ، اس کا پینا جائز نہیں ، اس طرح کپڑے کو لگ جانے کی صورت میں وہ نجس و ناپاک ہو جاتا ہے ، جبکہ سوال میں مذکور ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک خاص موقع پر بطورِ علاج مذکور ہے ، تفصیل جاننے کےلیے شروحاتِ حدیث کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ، اس لیے اس حکم کو عام سمجھنے اور ہر شخص کےلیے ہر حال میں پینے کا جواز ثابت کرنے سے احتراز لازم ہے ۔ فی الفقه الإسلامي و أدلته : و قال الشافعية و الحنفية : البول و القيء و الروث من الحيوان أو الإنسان مطلقاً نجس ، لأمره صلّى الله عليه و سلم بصب الماء على بول الأعرابي في المسجد ، و لقوله صلّى الله عليه و سلم في حديث القبرين : «أما أحدهما فكان لا يستنزه من البول»، و لقوله صلّى الله عليه و سلم السابق : «استنزهوا من البول» (إلی قوله) و أما حديث العرنيين و أمره عليه السلام لهم بشرب أبوال الإبل، فكان للتداوي ، و التداوي بالنجس جائز عند فقد الطاهر الذي يقوم مقامه اھ (1/ 313)۔

و فی إعلاء السنن : تحت هذا الحدیث : فالجواب عن الأول کما فی فتح الباری ج۱/ ص ۲۹۱ : قال ابن العربی : تعلق بهذا الحدیث من قال بطهارة أبوال الإبل و عورضوا بأنه إذن لهم فی شربها للتداوی (إلی قوله) اختلف فی التداوی بالمحرم و ظاهر المذهب المنع کما فی رضاع البحر ، لکن نقل المصنف ثمة و هنا عن الحاوی : و قیل یرخص إذا علم فیه الشفاء و لم یعلم دواء آخر ، کما رخص الخمر للعطشان و علیه الفتویٰ اھ (۱/ ۲۹۵)


حرام چیز سے شفا کے متعلق جامع صغیر کی حدیث پاک ہے : ان اللہ تعالی لم یجعل شفاءکم فیما حرم علیکم“ ترجمہ :بے شک اللہ پاک نے ان چیزوں میں تمہاری شفاء نہیں رکھی جو اس نےتم پر حرام کی ہیں ۔ (فیض القدیر شرح جامع صغیر جلد 06 صفحہ 252 مطبوعہ مصر،چشتی)


ہدایہ میں ہے : وتأويل ما روي أنه عليه الصلاة والسلام عرف شفاءهم فيه وحيا ثم عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى لا يحل شربه للتداوي ولا لغيره لأنه لا يتيقن بالشفاء فيه فلا يعرض عن الحرمة“ ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے جو مروی ہے کہ (آپ  صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرینہ والوں کو بطور علاج اونٹوں کے پیشاب پینے کا حکم فرمایاتو)اس کی تاویل یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے وحی کے ذریعے جان لیا تھا کہ ان کی شفاء اس میں ہے۔پھر امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک  اونٹ کا پیشاب پینا علاج کے طور پر یا اس کے علاوہ  کسی اورمقصد کےلیے ،حلال نہیں کیونکہ اس کے ذریعے شفاء کا حصول یقینی نہیں تو حرمت سےچشم پوشی نہیں کی جائے گی ۔ (ہدایہ کتاب الطھارات جلد 1 صفحہ 24 دار احیاء التراث العربی بیروت)


کمال الدرایۃ وجمع الروایۃ والدرایۃ ،شرح ملتقی الابحر میں ہے”قلنا: إنه صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم  عرف شفاءهم فيه وحياً، ولم يوجد في زماننا، أو أنه منسوخ بحديث «استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه صححه ابن خزيمة ۔

ترجمہ : (حدیث عرینہ) کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی سے جان لیا تھا کہ ان کی شفاء اسی میں ہے اور یہ ہمارے زمانے میں موجود نہیں ، یا حدیث عرینہ ، اس حدیث سے منسوخ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پیشاب سے بچو کہ عام طور پر عذاب قبر اسی سے نہ بچنے کی بناء پر ہوتا ہے ۔ ابن خزیمہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ۔ (کمال الدرایۃ وجمع الروایۃ والدرایۃ کتاب الطھارۃ جلد 1 صفحہ 125 دار الکتب العلمیۃ بیروت،چشتی)


فقہاءِ احناف کے نزدیک اونٹ سمیت تمام جانوروں کا پیشاب انسان کے پیشاب کی طرح ناپاک ہے اور اس کا پینا ناجائز ہے ، محدثین علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حکم عمومی نہیں تھا ، بلکہ خاص اس قوم کے ساتھ مخصوص تھا ۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹ کا پیشاب پینے کا ہی فرمایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی بتادیا گیا تھا کہ ان کی شفا اس کے علاوہ نہیں ہے ، اور اگر واقعۃً ایسی اضطراری صورتِ حال پیش آجائے یعنی کوئی جائز، حلال دوا نہ ہو اور مرض ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان دین دار ماہر ڈاکٹر یقینی طور پر کہیں کہ فلاں (ناپاک/ ممنوعہ) چیز میں شفا یقینی ہے ، تو شدید ضرورت کی حالت میں اس علاج کی بقدر ضرورت گنجائش ہو گی ۔ وقال أبو حنيفة والشافعي وأبو يوسف وأبو ثور وآخرون كثيرون: الأبوال كلها نجسة إلا ما عفي عنه، وأجابوا عنه بأن ما في حديث العرنيين قد كان للضرورة، فليس فيه دليل على أنه يباح في غير حال الضرورة؛ لأن ثمة أشياء أبيحت في الضرورات ولم تبح في غيرها، كما في لبس الحرير؛ فإنه حرام على الرجال وقد أبيح لبسه في الحرب أو للحكة أو لشدة البرد إذا لم يجد غيره، وله أمثال كثيرة في الشرع، والجواب المقنع في ذلك أنه عليه الصلاة والسلام، عرف بطريق الوحي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جائز عند التيقن بحصول الشفاء، كتناول الميتة في المخصمة، والخمر عند العطش، وإساغة اللقمة، وإنما لايباح ما لايستيقن حصول الشفاء به. وقال ابن حزم: صح يقيناً أن رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما أمرهم بذلك على سبيل التداوي من السقم الذي كان أصابه، وأنهم صحت أجسامهم بذلك، والتداوي منزلة ضرورة. وقد قال عز وجل: {إلا ما اضطررتم إليه} (الأنعام: 119) فما اضطر المرء إليه فهو غير محرم عليه من المآكل والمشارب. وقال شمس الائمة: حديث أنس رضي الله تعالى عنه، قد رواه قتادة عنه أنه رخص لهم في شرب ألبان الإبل. ولم يذكر الأبوال، وإنما ذكره في رواية حميد الطويل عنه، والحديث حكاية حال، فإذا دار بين أن يكون حجةً أو لايكون حجةً سقط الاحتجاج به، ثم نقول: خصهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بذلك لأنه عرف من طريق الوحي أن شفاءهم فيه ولايوجد مثله في زماننا، وهو كما خص الزبير رضي الله تعالى عنه بلبس الحرير لحكة كانت به، أو للقمل، فإنه كان كثير القمل، أو لأنهم كانوا كفاراً في علم الله تعالى ورسوله عليه السلام علم من طريق الوحي أنهم يموتون على الردة، ولايبعد أن يكون شفاء الكافر بالنجس. انتهى. فإن قلت: هل لأبوال الإبل تأثير في الاستشفاء حتى أمرهم صلى الله عليه وسلم بذلك؟ قلت: قد كانت إبله صلى الله عليه وسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الإبل التي ترعى ذلك وألبانها تدخل في علاج نوع من أنواع الاستشفاء، فإذا كان كذلك كان الأمر في هذا أنه عليه الصلاة والسلام عرف من طريق الوحي كون هذه للشفاء، وعرف أيضاً مرضهم الذي تزيله هذه الأبوال، فأمرهم لذلك، ولايوجد هذا في زماننا، حتى إذا فرضنا أن أحداً عرف مرض شخص بقوة العلم، وعرف أنه لايزيله إلا بتناول المحرم، يباح له حينئذ أن يتناوله، كما يباح شرب الخمر عند العطش الشديد، وتناول الميتة عند المخمصة، وأيضاً التمسك بعموم قوله صلى الله عليه وسلم: (استنزهوا من البول؛ فإن عامة عذاب القبر منه) أولى؛ لأنه ظاهر في تناول جميع الأبوال، فيجب اجتنابها لهذا الوعيد، والحديث رواه أبو هريرة وصححه ابن خزيمة وغيره مرفوعاً ۔ (عمدة القاری شرح بخاری جلد 3 صفحہ 154)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ...