Thursday, 15 May 2025

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل

محترم قارئینِ کرام : اہلِ ایمان کا جہادوطن کےلیے نہیں اسلام کےلیے ہے ۔ اسلام نے اپنے ابتدائی دور میں نسلی ، قبائلی ، وطنی ، لسانی وحدتوں کے بت توڑ کر ایک اسلام کی وحدت قائم کی تھی جس میں مشرق مغرب کے بسنے والے کالے گورے ، عربی ، ہندی سب یکساں شریک ہوں ۔ یہ ایک ایسی وحدت قائم ہوئی جس نے دنیا کی ساری وحدتوں کو زِیر و زَبر کر دیا ۔ چند صدیوں سے اسلام دشمن قوتوں نے اس اسلامی وحدت کی بے پناہ قوت سے عاجز ہو کر  بڑی چالاکی سے لوگوں میں پھر وطن پرستی اور نسب پرستی کے جذبات بیدار کیے تاکہ اسلامی وحدت کو جعرافیائی اور نسلی تفرقوں میں بانٹ کر  پارہ پارہ کر دیں ۔ کفار کے پاس تو کو ئی ایسا دین و مذھب نہیں ہے جس کے نام پر تمام دنیا کے انسانوں کو جمع کر سکیں ۔ اس لیے وہ ہمیشہ یا اپنے قبیلہ اور نسب کی حفاظت کےلیے اسی کے نام پر جنگ  کرتے ہیں ، یا پھر اپنے وطن اور ملک کے نام پر لوگوں کو دعوتِ اتّحاّد دے کر جمع کر تےہیں اور لڑتے ہیں ۔


مسلمانوں کو اللہ عزوجل نے ان سب چیزوں سے بالاتر  رکھا ہے ۔ وہ صرف اللہ عزوجل اور اسلا م کےلیے جہاد کرتے ہیں اور وطن یا نسب اللہ عزوجل اور اسلام کی راہ میں حائل ہو ، اس نسب و وطن کو بھی اس پر قربان کر دیتے ہیں ۔ اسلام کی سب سے پہلی ہجرتِ مدینہ نے اور بدر و اُحد کے میدانوں نے ہمیں یہی سبق دیا ہے ، کیونکہ ان میدانوں میں ایک ہی خاندان کے افراد کی تلواریں اسی خاندان کے دوسرے افراد کے سروں پر اس لیے پڑی ہیں کہ اللہ عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن تھے ۔ اگر وطنی اور قبائلی وحدتیں مقصد ہوتیں تو یہ سارے جہاد فضول ہوتے ۔                                                                       


آج کل عام لوگوں کی زبان پر وطن کا نعرہ سنتے سنتے مسلمان بھی اس کے عادی ہو گئے اور اپنے جہاد کو وطن کےلیے کہنے لگے ہیں ۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ ہمارے اکثر نوجوانوں کے خیالات اس سے پاک ہیں ۔ وہ اپنی جان اللہ کےلیے دیتےہیں نہ کہ وطن کےلیے ۔ لیکن رائج الوقت زبان کا ایک محاورہ  بن جانے کی وجہ سے اکثر ہمارے شعراء اور خطباء غالباً بے خیالی میں یہ الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ ضرورت اس کی ہے کہ ایسے مشرکانہ الفاظ سے بھی اجتناب  کیا جائے ۔


یاد رہے ہماراوطن اِ سلام ہے ۔ ہم وطن پرست نہیں ہاں مسلم وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصّہ ہے ۔ ہمیں اس وطن سے ہجرت کر جانے کا حکم ہے جس میں رہ کر ہم اسلام کے تقاضے پورے نہ کر سکیں ۔ یہی وہ نظریہ ہے جس نے پاکستان بنوایا اور کروڑوں مسلمانوں کو ہجرت کرنے پر آمادہ کیا ۔ شاعر مشرق اقبال علیہ الرحمہ نے اس مضمون کو بڑی ہی لطافت سے ادا کیا ہے ۔ وطنیّت پر ان کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں : ⏬    


اس دور میں مےَ اور ہے جام اور ہے جم اور

ہے ساقی نے بِنا کی روشِ لطف و کرم اور  


مسلم نے بھی تعمیر کیا  اپنا حرم اور

تہذیب کے آزر نے ترشو ائے صنم اور


ان تازہ خدا ؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

جو پیرہن اس کا ہے وہ ملت کاکفن ہے


یہ بت کہ تراشیدۂ  تہذیب نوی ہے

غار تگر کاشانہ دینِ نبوی ﷺ  ہے                


بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ﷺ ہے  


نظارۂ دیرینہ زمانے کو د کھا دے

اے مصطفوی ﷺ خاک میں اس بت کو ملا دے


قرآن مجید میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے : اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمۡ بُنۡيَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ۔ (سورۃ الصف آیت نمبر 4)

ترجمہ : بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ قتال کرتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔


ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ عزوجل ان لوگوں  سے محبت فرماتا ہے جو اس کی راہ میں جنگ کے دوران اس طرح صفیں  باندھ کر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں ، ان میں  ایک سے دوسرا ملا ہوا ، ہر ایک اپنی اپنی جگہ جما ہوا اور دشمن کے مقابلے میں  سب کے سب ایک چیز کی طرح ہیں ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۲۶۲)


مقصود یہ ہے کہ اللہ عزوجل کو بہادر مجاہد پسند ہیں جو ڈٹ کر کفار کا مقابلہ کریں اور پیٹھ نہ دکھائیں ، اس زمانہ میں چونکہ جہاد میں صفیں  باندھی جاتی تھیں ، اس لیے یہاں صف کا ذکر ہوا جبکہ موجودہ دور میں اب صفیں باندھ کربھی جہاد کی صورت ہو سکتی ہے اور دوسرے طریقے سے بھی اور اب ہر وہ طریقہ اس میں  شامل ہوگا جس میں ایک مفید نظم و ضبط ہو اور جو آپس میں  ایک دوسرے کی قوت و طاقت اور دوسروں  پر فتح کا ذریعہ بنے ۔


وَوَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ ۔ (سورۃ الأنفال آیت نمبر 60)

ترجمہ : اور (اے مسلمانو) تم بہ قدر استطاعت ، ان (سے مقابلہ) کےلیے ہتھیار تیار رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑے اور ان سے تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کرو اور ان کے سوا دوسرے دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے ، اللہ انہیں جانتا ہے اور تم اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس کا تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا اور تم پر بالکل ظلم نہیں کیا جائے گا ۔


 اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۲ صفحہ ۲۰۵،چشتی)


جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرمی والحث علیہ وذم من علمہ ثمّ نسیہ صفحہ ۱۰۶۱ حدیث نمبر ۱۶۷ (۱۹۱۷)) ۔ فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دشمن سے لڑنے بھڑنے کی خواہش نہ کرو ، (لیکن) جب مقابلہ ہو جائے تو پھر صبر سے کام لو ۔ (‌صحيح بخاری كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ لاَ تَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ حدیث نمبر 3026،چشتی)


ابونضر سے روایت ہے ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں میں سے قبیلہ اسلم کے ایک آدمی ، جنہیں عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کہا جاتا تھا ، کے خط سے روایت کی ، انہوں نے عمر بن عبیداللہ کو ، جب انہوں نے (جہاد کی غرض سے) حروریہ کی طرف کوچ کیا ، یہ بتانے کےلیے خط لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض ایام (جنگ) میں ، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن سے مقابلہ ہوتا ، انتظار کرتے ، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان (ساتھیوں) کے درمیان کھڑے ہوتے اور فرماتے : لوگو ! دشمن سے مقابلے کی تمنا مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو ، (لیکن) جب تم ان کا سامنا کرو تو صبر کرو اور جان رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے اللہ ! کتاب کو اتارنے والے ، بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے ! انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر نصرت عطا فرما ۔ (صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ كَرَاهَةِ تَمَنِّي لِقَاءِ الْعَدُوِّ وَالْأَمْرِ بِالصَّبْرِ عِنْدَ اللِّقَاءِ حدیث نمبر 4542،چشتی)


جنگ کی تمنا کرنا مکروہ ہے اور ہمیشہ اللہ تعالٰی سے عافیت طلب کرنی چاہیے ۔ مگر جب دشمن کی طرف سے جنگ مسلط کر دی جائے تو پیٹھ پھیرنا (میدان جنگ سے فرار ہونا) حرام ہے ۔ یہ ایک مومن کے شایانِ شان نہیں ۔ جنگ میں دلیری سے آخری سانس تک مقابلہ کرنا چاہیے ۔ اگر اس وقت موت مقرر نہیں ہے تو شان کے ساتھ زندہ سلامت واپسی ہو گی اور اگر وہ وقت موت کا ہے تو میدان جنگ سے دور رہ کر بھی موت آ جائے گی ۔  جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کےلیے وضو ضروری ہے ۔ عبادت کے اَسباب جمع کرنا عبادت ہے اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے جیسے حجِ فرض کےلیے سفر کرنا فرض ہے اور چوری کےلیے سفر کرنا حرام ہے ۔ کفار کو ڈرانا دھمکانا اپنی قوت دکھانا بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں حتّٰی کہ کافروں کے دل میں رُعب ڈالنے کےلیے غازی اپنی سفید داڑھی کو سیاہ کر سکتا ہے ۔


مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے اور اس آیت کی حقانیت سورج کی طرح روشن ہے جیسے آج کے دور میں دیکھ لیں کہ جس ملک کے پاس طاقت و قوت اور اسلحہ و جنگی سازوسامان کی کثرت ہے اس کا بدترین دشمن بھی اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا جبکہ کمزور ملک پر سب مل کر چڑھ دوڑنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، جیسے ایک بڑی طاقت اپنا سب سے بڑا دشمن دوسری بڑی طاقتوں کو سمجھتی ہے لیکن آج تک اس پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کی کیونکہ اُن کے پاس پہلی کا دماغ ٹھیک کرنے کے نسخے موجود ہیں لیکن وہی بڑی طاقتیں اور عالمی امن کے جھوٹے دعویدار کمزور ممالک کو طاقت دکھانے میں شیرہیں اور ان ممالک میں ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ اِسی آیت پر کچھ عمل کی برکت ہے کہ پاکستان پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی جسارت کسی کو نہیں ہو رہی کیونکہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے ۔ اگر مسلمان مل کر اِس آیت پر عمل کریں تو کیا مجال کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو تنگ کر سکے ۔


اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل : ⏬


جہاد کی مہمات میں سے ایک کام اسلامی سرحدات کو دشمن کی یلغار سے محفوظ  رکھنے کا ہے جس کو قرآن و حدیث کی  اصطلاح میں ''رباط'' کہا جاتا ہے ۔ اورجہاد کی طرح اس کی بھی بڑے فضائل  قرآن و حدیث میں مذکور ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اس کو دوسرے کاموں پر ترجیح  دے کر اسلامی سرحدات پر قیام اختیار فرمایا   تھا ۔ آج کل یہ فرائض ہماری رینجرز ، پولیس اور فوج انجام دیتی ہے ۔ اگر نیت میں اخلاص اور اسلامی ملک کی حفاظت کا جذبہ ہو تو تنخواہ لینے کے باوجود بھی یہ ''رباط'' کے ثواب کے مستحق ہوں گے ۔ 


اللہ عزوجل کا ارشادِ مبارک ہے : يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 200)

ترجمہ : اے ایمان والو صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہواس امید پر کہ کامیاب ہو ۔


تفسر بیضاوی میں ہے : وَرَابِطُوْا : اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں (1) سرحد پر اپنے جسموں اور گھوڑوں کو کفار سے جہاد کےلیے تیار رکھو ۔ (2) اللہ عوجل کی اطاعت پر کمر بستہ رہو ۔ (تفسر بیضاوی جلد ۲ صفحہ ۱۳۷)


علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : مرابطہ کی دو قسمیں ہیں ‘ مسلمانوں کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت کرنا ‘ کہیں اس پر دشمن اسلام حملہ آور نہ ہوں اور دوسری قسم ہے نفس کا بدن کی نگہبانی اور حفاظت کرنا کہیں شیطان اس سے گناہ نہ کرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ‘ یہ دوسری قسم ہے اور پہلی قسم کے متعلق یہ آیت ہے : واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ۔ (سورہ الانفال آیت نمبر ٦٠)

ترجمہ : ان کےلیے بہ قدر استطاعت ہتھیاروں کی قوت اور گھوڑے باندھنے کو فراہم کرو ۔ (مفردات الفاظ القرآن صفحہ ١٨٦ ۔ ١٨٥ مطبوعہ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران ١٣٦٢ ھ،چشتی) 


سورہ آل عمران کی زیادہ کی زیادہ تر آیتیں جنگِ احد سے متعلق ہیں اور بعض مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی تھی جس کے نتیجہ میں وہ شکست سے دوچار ہوئے اور اس شکست پر آزردہ خاطر ہوئے ‘ اس لیے اس آیت کا ایک ظاہری محمل یہ ہے کہ کفار سے جنگ کے دوران ثابت قدم رہو اور جنگ میں ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرو ‘ اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو ‘ اور اس سلسلہ میں اللہ اور رسول کے احکام پر عمل کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور کسی قسم کی حکم عدولی نہ کرو تاکہ تمہیں کامیابی اور سرفرازی کی امید ہو ۔ 


امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ الرحمہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : راہِ خدا میں ایک دن سرحد کی نگہبانی کرنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۹ حدیث نمبر ۲۸۹۲)


امام مسلم بن حجاج قشیری علیہ الرحمہ ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ‘ ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے افضل ہے ‘ اور اگر وہ مر گیا تو اس کا یہ اجر جاری رہے گا اور وہ فتنہ میں ڈالنے والے سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩١٣،چشتی)(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٦٨‘ ٣٦٧)(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٦٧)(مسنداحمد جلد ٢ صفحہ ١٧٧ ، جلد ٥ صفحہ ٤٤١‘ ٤٤٠)(تحفۃ الاشراف رقم الحدیث : ٩١ ٤٤)


فتنہ میں ڈالنے سے مراد یا تو منکر نکیر ہیں اور یا اس سے مراد شیطان ہے ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے ثواب کو جاری رکھے گا اور جس حدیث میں ہے ابن آدم میں سے ہر ایک کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ماسوا تین کے اس کا مطلب ہے ان تین کا عمل منقطع نہیں ہوتا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کا ثواب جاری رکھے گا ۔


امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منی میں فرمایا اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی حفاظت کرنا اس کے علاوہ ہزار ایام سے افضل ہے ۔ (مسند احمد جلد ١ صفحہ ٥٧‘ ٦٦‘ ٦٤،چشتی)(سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٤٣١)


حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ایک مہینے کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے ، حفاظت کرنے والا اگر مر گیا تو اس کے اِس عمل کا اجر جاری رہے گا اور وہ فتنۂ قبر سے محفوظ رہے گا ۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الرباط فی سبیل اللہ عزوجل صفحہ ۱۰۵۹ حدیث نمبر ۱۶۳ (۱۹۱۳))


رباط کا مفہوم اسلامی سرحدات کی حفاظت ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ کام ان ہی مقامات پر ہو سکتا ہے جو اسلامی ملک کی آخری حدود پر واقع ہیں ۔


لیکن اس زمانے کی فضائی  جنگ نے اس معاملہ میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا ہے ، کیونکہ  چھاتہ  بردار فوج  ہر جگہ اتر سکتی ہے، بم بار طیاروں سے ہر جگہ بم گرائے  جاسکتے ہیں ، اس لیے جن مقامات پر بھی د شمن کی اسی یورش کا خطرہ ہو ، ان کے حفاظتی انتظامات بھی اسی رباط  کے حکم میں داخل ہوں  گے ۔


قدیم فقہائہ نے بھی رباط کے معاملہ میں یہ فرمایا ہے کہ جس بستی پر ایک مرتبہ دشمن حملہ کر دے اس کی حفاظت  چالیس 40  سال تک رباط کے حکم میں داخل ہے ۔ (فتح القدیر جلد 4 صفحہ 278،چشتی)


پاکستان کے سابقہ جہاد میں سرگودھا ، پشاور ،  کراچی وغیرہ مقامات  جہاں چھاتہ بردار فوجیں اترنے کے خطرات پائے گئے اور جہاں دشمن کے بمباروں نے بمباری کی ، ان حفاظت کا ہر قدم رباط کے حکم میں ہے ۔ یہ ایسا جہاد ہے  جس میں ہر شہری اپنے گھر میں بیٹھا ہوا بھی رباط کا ثواب لے سکتا ہے ، بشر طیکہ اخلاص کے ساتھ اپنے شہر اور شہریوں کی حفاظت کا جذبہ رکھتا ہو اور مقدور  بھر اس میں کوشش کرے ۔


بلیک آوٹ بھی رباط کے حکم میں ہے : ⏬


ایسے خطرات کے وقت جن بستیوں میں حکومت کی طرف سے اندھیرا جاری رکھنے کی ہدایت جاری ہو ان کی تعمیل  بھی ان ہی حفاظتی انتظامات کے تحت رباط کے حکم میں داخل ہو کر ان شاء اللہ اس ثواب عظیم کا موجب ہوگی ۔ مسلمان اس سے تنگ دل نہ ہوں بلکہ مفت کا ثواب  رباط حاصل کرنے پر خوش   ہوں اور شکر ادا کریں ۔


ظاہریعہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں بلیک آؤٹ کی ایک نظیر : ⏬


جنگی حالات اور ان کے تقاضے ہر زمانے اور ملک میں جدا ہوتے ہیں ۔ ملک کے مبصر اور اربابِ حکومت جس چیز کو شہری دفاع کےلیے ضروری قرار دیں ، اس کی تعمیل شرعی حیثیت سے بھی ضروری ہو جاتی ہے ۔ خواہ اس معین چیز  کا ثبوت قرونِ اولٰی کی روایات میں ہو یا نہ ہو ۔ کیونکہ بنیادی مسئلہ مباحات میں اطاعتِ امیر کا ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے ، وہی ان تمام جا ئز  کاموں میں تعمیل حکم کی اصل علت ہے لیکن کوئی خاص کام اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کام رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہو تو اس کا محبوب و مشروع ہونا اور مبارک عمل ہونا ظاہر ہے ۔   


دورانِ جنگ پاکستان میں شہری دفاع کےلیے حکومت رات کو روشنی کرنے پر پابندی لگا دیتی ہے ۔ اطاعتِ حکم کے تحت تو اس کی تعمیل ضروری تھی ہی ، اتفاق سے اس کی ایک نطیر خود ظاہری عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی ملتی ہے جو قارٸین کی دلچسپی اور ایمان کو مستحکم کرنے کےلیے پیشِ خدمت ہے ۔ جمادالثانی 8 ھجری میں جہاد کےلیے ایک لشکر مدینہ طیبہ دس منزل کے فاصلہ پر لخم و جزام کے قبائل مقابلہ کےلیے بیھجا گیا تھا جس کے امیرحضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے اس عزوہ میں دشمن کےسپاہوں نے پوری فوج کو حلقئہ زنجیر میں جکڑ رکھا تھا تاکہ کوئی بھاگ نہ سکے ۔ اسی لیے یہ غزوہ ''ذات السلاسل'' کے نام سے موسوم ہے ۔ (یاد رہے کہ جنگ ذات السلاسل کے نام سے جو مشہور جنگ ہوئی دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس کے بعد ہوئی ہے) ۔   


حدیث مشہور کتاب جمع الفوائد میں معجم کبیر طبرانی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ اس غزوہ ذات السلاسل میں امیر لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم نے اپنی فوج یہ حکم دیا کہ لشکرگاہ میں تین روز تک رات کے وقت کسی طرح کی روشنی نہ کریں اور نہ ہی آگ جلایئں ۔ تین دن کے بعد دشمن میدان سے بھاگ کھڑا ہوا ۔ بھاگتے ہوئی دشمن  کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو  لشکر میں موجود تھے ، تعاقب کرنا چاہا مگر امیر لشکر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے تعاقب سے بھی منع کر دیا ۔ لشکر کے جانبازوں کو روشنی بند کرنے کے حکم کی ناگواری تھی ، کہ تعاقب نہ کرنے کا حکم اور بھی ناگوارہ گزرا ، مگر اطاعت امیر کی بناء پر تعمیل لازمی تھی ، اس لیے ان دونوں احکامات کی بلا چون  و چرا پابندی کی گئی ۔ البتہ جب لشکر مدینہ طیبہ واپس پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو بلا کروجہ دریافت فرمائی ۔ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لشکر کی تعداد دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی تھی ، اس لیے میں نے رات کو روشنی کرنے سے منع کیا کہ مبادا دشمن ان کی قلتِ تعداد کا اندازہ لگا کر شیر نہ ہو جائے اور اس کا حوصلہ نہ بڑھ جائے ۔ اور تعاقب کرنے سے بھی اس لیے روکا کہ ان کی کم تعداد دشمن کے سامنے آجائے گی  تو وہ کہیں لوٹ کر ان پر حملہ نہ کردے ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ان کی اس جنگی تدبیر اور عمل کو پسند فرما کر اس پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کیا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)

Wednesday, 14 May 2025

ماہِ ذی قعدہ کے فضائل و برکات اور غلط فہمیوں کا ازالہ

ماہِ ذی قعدہ کے فضائل و برکات اور غلط فہمیوں کا ازالہ

محترم قارئینِ کرام : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ﳔ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِیْنَ كَآفَّةً كَمَا یُقَاتِلُوْنَكُمْ كَآفَّةًؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 36)

ترجمہ : بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے ۔


حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، اُس دن سے لے کر آج تک زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آ گیا (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے ، بلکہ اب وہ ٹھیک ہوکر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصلی صورت میں تھا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ۔ ان میں 4 مہینے عزت و حرمت والے ہیں ، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، اور محرم ہیں ، اور ایک مہینہ (جو اِن سے علیحدہ آتا ہے) وہ رجب کا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان واقع ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 3197،چشتی)


اللہ عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے ایک سال میں بارہ مہینے بنائے ہیں اور ہر مہینے کو علیحدہ ، علیحدہ ایک نمایاں مقام عطاء فرمایا ہے ۔ انہیں مہینوں میں سے ایک مہینہ جس کا نام ماہِ ”ذی قعدہ” ہے ۔ اسلامی سال میں شوال کے بعد آنے والے مہینے کا نام ‘ذو القعدہ’ ہے ، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اہلِ عرب (جنگ وغیرہ سے الگ ہو کر) اس مہینے میں بیٹھ جایا کرتے تھے ۔ اس کی جمع ‘ذوات القعدۃ‘ اور ’ذوات القعدات’ آتی ہے ۔ (لسان العرب) ۔ ذوالقعدہ اسلامی سال کا گیارھواں قمری مہینہ ہے ، اس کا تلفظ اس طرح ہے : ’ذ’ مضموم ، ‘ل’ ساکن ، ’ق’ مفتوح ، ’ع’ ساکن اور ‘د’ مفتوح یعنی ذُل قَع دَہ ۔ اس کے قاف پر زبر اور زیر دونوں طرح بولا جا سکتا ہے ، البتہ زبر زیادہ معروف ہے ، بعض اوقات اس کے آخر کی تائے فوقانی کو حذف کر کے ‘ذوالقعدہ’ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ یہ ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے ۔ ’ذو’ کے معنی ہیں ، ’اہل’ ، ‘والا’ ، ’صاحب’ اور ’مالک’ ۔ اس کی جمع ذوون آتی ہے ۔ ذو کا اعراب اسمائے خمسہ والا ہے ، یعنی حالتِ رفعی میں ذو (ذو القعدہ) ، حالتِ نصبی میں ذا (ذا القعدہ) اورحالتِ جری میں ذی (ذی القعدۃ) ہوتاہے ۔ (المعجم الوجیز)


ماہِ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن اشہر حج کہلاتے ہیں ۔ صحیح بخاری کتاب الحج باب قول اللہ تعالیٰ الحج اشھر معلومات میں روایت ہے کہ : وقال ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما اشھر الحج شوال و ذوالقعدۃ وعشر من ذی الحجۃ ۔

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما نے فرمایا : اشہر حج شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے ابتدائی دس ہیں ۔


ان مہینوں کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے ، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ ان میں عبادات کا ثواب (دیگر ایام کے بالمقابل) زیادہ ملتا ہے ، ان میں سے پہلا حکم تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہو گیا ، مگر دوسرا حکم احترام وادب اور ان میں عبادت گزاری کا (خصوصی) اہتمام ، اسلام میں بھی باقی ہے ۔


ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک صحابی کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا کہ : صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو ! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو ۔ صحابی نے عرض کیا کہ : مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے ، لہٰذا میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : ہر مہینے میں 2 دن روزہ رکھ لیا کرو ۔ صحابی نے عرض کیا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے مزید اضافہ فرمادیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : ہر مہینے میں 3 دن روزے رکھ لیا کرو ۔ صحابی نے عرض کیا : میرے اندر اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے اس لیے میرے لیے مزید اضافہ فرما دیجیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : حرمت والے مہینوں ( ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزہ رکھو اور چھوڑو ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی 3 انگلیوں سے اشارہ فرما کر ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا (مطلب یہ تھا کہ ان مہینوں میں 3 دن روزہ رکھا کرو ، پھر 3 دن ناغہ کیا کرو) اور اسی طرح کرتے رہا کرو ۔ (سنن ابوداؤد حدیث نمبر 2428)


حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حرمت و عظمت والے چاروں مہینوں (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزے رکھا کرتے تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر 7856)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے اصحاب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حرمت و عظمت والے ان 4 مہینوں (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) میں روزے رکھنا مستحب روزوں میں سے ہے ۔ (المجموع شرح المہذب جلد 6 صفحہ 386،چشتی)


اسی طرح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ : ماہِ رمضان کے بعد سب سے زیادہ جن مہینوں میں روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے وہ یہ ہی چار مہینے (ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب) ہیں ۔ (روضۃ الطالبین جلد 2 صفحہ 388)


قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو یہ واقعہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نئی شریعت اور کتاب دینے کےلیے کوہِ طور پر پہلے تیس راتوں کا اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا اور پھر مزید دس راتوں کا اضافہ فرما کر کل چالیس راتیں مکمل ہونے پر اُن کو شریعت اور کتاب (توریت) عطا فرمائی تو ان چالیس راتوں کے بارے میں حضرات مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ چالیس راتیں ذی قعدہ کے پورے مہینے اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی تھیں۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اعتکاف کی میعاد عید الاضحی کے دن پوری ہوئی تھی اور اسی دن آپ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف نصیب ہوا تھا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 421،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کُل چار عمرے کیے ۔ (صحیح مسلم) ۔ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عہنا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ذوالقعدہ کے علاوہ (کسی مہینے میں) عمرہ نہیں فرمایا ۔ (سنن ابن ماجۃ)


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کُل چار عمرے کیے ، ایک عمرہ ، دوسرا عمرہ قضا ، تیسراعمرہ جعرانہ اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ ۔ (سنن ابوداود)


حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس دن سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اُس دن سے لے کر آج تک زمانہ اُسی حالت پر گھوم پھر کر واپس آگیا (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی و زیادتی نہیں ہے جو زمانۂ جاہلیت میں مشرک کیا کرتے تھے ۔ بلکہ اب وہ ٹھیک ہو کر اُسی طرز پر واپس آگیا ہے جس طرز پر اپنی ابتدائی اصل صورت میں تھا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ۔ ان میں چار مہینے عزت و حرمت والے ہیں ، جن میں تین مہینے تو مسلسل ہیں یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم ، اور ایک مہینہ (جو اِن سے علیحدہ آتا ہے) وہ رجب کا ہے جو جمادی الٓاخر اور شعبان کے درمیان واقع ہے ۔ (صحیح بخاری )


ماہ ذی قعدہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے ۔ یہ ماہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جو عصر جاہلیت میں بھی قابل احترام تھا اور اسلام نے بھی اسے کافی اہمیت دی ہے اور عظمت بخشی ہے ۔ اسلام نے اسے اتنی اہمیت اور عظمت دی ہے کہ اسلام کے دشمنوں سے بھی اس ماہ میں جنگ و جدال کرنا حرام ہے ۔ ہاں اگر اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کو جنگ کرنے پر مجبور کریں اور وہ جنگ کا آغاز کریں تو پھر دفاعی صورت میں اپنا بچاؤ کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔


ایک غلط فہمی کا ازالہ : ⏬


مگر افسوس بعض ناخواندہ حضرات ماہِ ذی قعدہ کے مہینے کو خالی کا مہینہ کہتے ہیں ، وہ شاید اس وجہ سے کہ یہ مہینہ اپنے سے پہلے اور بعد کے مہینوں کے برعکس عیدالفطر و عیدالاضحی وغیرہ سے خالی ہوتا ہے ، اور خالی کا مطلب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس مہینے میں کسی نیک عمل و طاعت کی بالکل ضرورت نہیں ، یہ خیال بالکل غلط ، فاسد اور سراسر لاعلمی پر مبنی ہے ، اس سے بچنا چاہیے ۔


اسی طرح بعض لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ چوں کہ یہ خالی کا مہینہ ہوتا ہے اس لیے اس مہینے میں نکاح اور شادی وغیرہ بھی نہیں کی جا سکتی کہ کہیں وہ خیر و برکت سے خالی نہ رہ جائے ، چنانچہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ ماہِ شوال میں جلدی جلدی شادیاں کر کے فارغ ہو جاتے ہیں تاکہ کہیں ذی قعدہ کا مہینہ شروع نہ ہو جائے ۔ حالانکہ ماہِ ذی قعدہ سنہ 5 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُم المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ جلد 4 صفحہ 166)


اسی طرح ماہِ ذی قعدہ سنہ 7 ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تھا ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 2 صفحہ 239)


ماہِ ذی قعدہ میں نکاح و شادی وغیرہ عبادات کرنے کو خیر و برکت سے خالی سمجھنا زمانۂ جاہلیت کی باتیں اور توہمات پرستی ہے ، جن کا شریعت اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ماہ ذی قعدہ بہت برکتوں رحمتوں و فرحتوں والا مہینہ ہے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ شادیاں کی جائیں اور زیادہ سے زیادہ روزے اور دیگر عبادات کی جائیں تاکہ دامن حسنات سے بھر جائیں اور دنیا بھی سدھر جائے آخرت بھی سنور جائے ۔ اللہ تعالی ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور خاتمہ ایمان پر فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو فیض احمد چشتی)

Thursday, 8 May 2025

مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کا حکم اور مسلمان

مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کا حکم اور مسلمان

محترم قارئینِ کرام ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاأَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي القَوْمَ الظَّالِمِينَ ۔ (سور المائدة آیت نمبر 51)

ترجمہ :  اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ بے انصافوں کو راہ نہیں دیتا ۔


یہ آیت مشہور صحابی حضرت عبادہ بن صامت  رضی اللہ عنہ اور مشہور منافق عبداللہ بن اُبی کے بارے میں نازل ہوئی جو منافقین کا سردار تھا ۔ حضرت عبادہ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہودیوں میں میرے بہت بڑی تعداد میں دوست ہیں جو بڑی شوکت و قوت والے ہیں ، اب میں اُن کی دوستی سے بیزار ہوں اور اللہ  تعالیٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے سوا میرے دل میں اور کسی کی محبت کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اِس پر عبداللہ بن اُبی نے کہا کہ میں تو یہودیوں کی دوستی سے بیزار نہیں ہوسکتا ، مجھے آئندہ پیش آنے والے واقعات کا اندیشہ ہے اور مجھے اُن کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اس سے فرمایا کہ’’ یہ یہودیوں کی دوستی کا دم بھرنا تیرا ہی کام ہے ، عبادہ کا یہ کام نہیں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی ۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۵۰۳)


کفار سے دوستی و موالات کا شرعی حکم : ⏬


اس آیت میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و موالات یعنی اُن کی مدد کرنا ، اُن سے مدد چاہنا اور اُن کے ساتھ محبت کے روابط رکھنا ممنوع فرمایا گیا ۔ یہ حکم عام ہے اگرچہ آیت کا نزول کسی خاص واقعہ میں ہوا ہو ۔ چنانچہ یہاں یہ حکم بغیر کسی قید کے فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ، یہ مسلمانوں کے مقابلے میں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، تمہارے دوست نہیں کیونکہ کافر کوئی بھی ہوں اور ان میں باہم کتنے ہی اختلاف ہوں ، مسلمانوں کے مقابلہ میں وہ سب ایک ہیں ’’ اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدۃٌ‘‘ کفر ایک ملت ہے ۔ (تفسیر مدارک المائدۃ، تحت الآیۃ : ۵۱، ص۲۸۹،چشتی)


رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ہے : ھو مشرک مثلھم ، وہ انہیں کی طرح کا مشرک ہے ۔ (تفسیر ابن عباس)


امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ اس کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ : کافر مثلہم ، وہ اُنہی کی طرح کافر ہے ۔ (الجامع الاحکام القرآن)


قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : أي : کافر منافق ، وہ کافر اور منافق ہے ۔ (تفسیر مظہری)


علامہ ابن کثیر کہتے ہیں : یہاں ﷲ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو ان یہود ونصاری کے ساتھ موالات رکھنے سے جو کہ اسلام اور اہل اسلام کے دشمن ہیں ، ممانعت فرمائی ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہو سکتے ہیں ۔ اس کے بعد ﷲ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو تنبیہ اور وعید فرمائی ہے ۔ چنانچہ فرمایا ومن یتولھم منکم فانہ منھم یعنی جو تم میں سے ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں سے ہوگا ۔ علاّمہ ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ آپ  رضی اللہ عنہ نے ابوموسی الاشعری رضی اللہ عنہ (والیٔ بصرہ) کو اس بات پر سرزنش فرمائی کہ انہوں نے ایک عیسائی انشا پرداز کو محض اس کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اپنا مکتوب نگار کیوں رکھ لیا اور اپنی اس بات کی تائید میں یہی سورۂ مائدہ کی آیت پڑھی جو کہ اس مسئلہ کے ثبوت میں شروع کے اندر یہاں بیان ہوئی : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاء.... یعنی: اے اہل ایمان تم یہود اور نصاریٰ کو اپنا رفیق نہ بناؤ ۔ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے یہ حوالہ دینے کے بعد فرمایا : اس کو نکال دو ۔ (تفسیر ابن کثیر)


علاّمہ ابن حزم نے المحلی میں لکھا : صحیح یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ، ترجمہ : اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے ، وہ انہی میں سے ہے ۔ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کفار کے جیسا کافر ہے ۔ یہ ایسی حق بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی دو مسلمانوں کا اختلاف نہیں ہے ۔


علاّم ابن تیمیہ نے کفار کا ساتھ دینے والے حکام کے متعلق لکھا : کیا ان حکام نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لاتتخذوا الیھود والنصاری اولیاء بعضھم اولیاء بعض ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔

ترجمہ : تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوا ، ان دو آیات میں اللہ نے بتایا ہے کہ ان سے دوستی کرنے والا مومن نہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان سے دوستی کرنےوالا انہی میں سے ہے ۔ (مجموع الفتاوی 18/7)


علاّمہ ابن القیم نے لکھا : ومن یتولھم منکم فانہ منھم ۔

ترجمہ : تم میں سے جو بھی انہیں دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا

اللہ سبحانہ نے فیصلہ فرمادیا اور اس سے بڑھ کر اچھا فیصلہ کسی کا نہیں ہوسکتا کہ جو بھی یہودونصاری کو دوست بنائے گا تو وہ انہی میں سے ہوگا جب قرآن کی صراحت کے مطابق ان سے دوستی کرنے والے انہی میں سے ہیں تو ان (یعنی دوستی کرنے والوں) کا حکم بھی وہی ہوگا جو ان (یہودونصاری) کا ہے اور یہ عام ہے جو بھی ان سے دوستی کرے اور اسلام کی پابندی کرنے کے بعد ان کے دین میں داخل ہوجائے تو وہ نص اور اجماع کی رو سے مرتد ہوگیا اور اس سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ یاتو اسلام لائے یا پھر تلوار ۔ (احکام اھل الذ مة195/1)


علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : جو تاتار کے لشکر میں کود پڑے اور ان سے مل جائے وہ مرتد ہوگیا اور اس کی جان اور اس کا مال حلال ہوگیا ۔ (الاختیارات الفقھیة از علاّمہ ابن تیمیہ)


لہٰذا مسلمانوں کو کافروں کی دوستی سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ نہایت سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی کرے وہ انہی میں سے ہے ، اس بیان میں بہت شدت اور تاکید ہے کہ مسلمانوں پر یہود ونصاریٰ اور دینِ اسلام کے ہرمخالف سے علیحدگی اور جدا رہنا واجب ہے۔ (تفسیر مدارک، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ص۲۸۹، خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱/۵۰۳،چشتی)


اور جو کافروں سے دوستی کرتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے آمین ۔ 


لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَۚ وَمَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیۡسَ مِنَ اللہِ فِیۡ شَیۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنْہُمْ تُقٰىۃًؕ وَ یُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہٗؕ وَ اِلَی اللہِ الْمَصِیۡرُ ۔ (سورہ آلِ عمران نمبر 28)

ترجمہ : مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ سے کچھ علاقہ نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے ۔


لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوۡنَ الْکٰفِرِیۡنَ اَوْلِیَآءَ مِنۡ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیۡنَ : مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جنگِ اَحزاب کے موقع پر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں جو میرے حلیف ہیں ، میری رائے ہے کہ میں دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد حاصل کروں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور کافروں کو دوست اور مدد گار بنانے کی ممانعت فرمائی گئی ۔ (تفسیر جمل، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲۸، ۱/۳۹۳،چشتی)


وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ، اور جو کوئی بھی ایسا کرے ۔


فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ ، تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں ۔


اس آیتِ مبارکہ کی تشریح میں امام طبری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : یعني بذلک ۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے مراد ہے ۔ فقد بريئ مِنَ اللَّهِ ۔ کہ جس شخص نے مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کا ساتھ دیا ، وہ اللہ سے بری ہو گیا ، وبرئ اللہ منہ ، اور اللہ اس سے بری ہوگیا ، بارتدادہ عن دینہ ،  کیونکہ یہ اس فعل کی وجہ سے دین سے مرتد ہو گیا ، ودخولہ في الکفر ۔ اور کفر میں داخل ہو گیا ۔ (تفسیر طبری)


دیگر مفسرین کے اقوال بھی دیکھیں تواسی طرح بالکل واضح تصریح کی گئی ہے ۔ شاید کم ہی مقامات ہیں کہ جہاں کسی قول یا کسی فعل پرمفسرین نے اتنی صراحت سے کفر کی بات یا تصریح کی ہے ۔


دین اور امت کا غدّار بے شک نماز روزہ کرتا ہو ، کافر ہو جاتا ہے : ⏬


ﷲ عزّ و جل اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اہل ایمان کا وفادار بن کر رہنا اور ﷲ و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور اس اُمت کے دشمن سے دشمنی رکھنا ایمان کا بنیادی فرض ہے ۔ یہ نہیں تو قرآنِ مجید کا وہ ایک خاصا بڑا حصہ کچھ معنیٰ ہی نہیں رکھتا جو کہ آج تک برابر تلاوت ہوتا ہے اور جو کہ ان منافقین کا بار بار کفر بیان کرتا ہے جو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے دشمنوں کے ساتھ دوستیاں گانٹھتے تھے ۔


اسلام محض عقائد یا نماز روزہ ایسی عبادات کا مجموعہ نہیں ۔ حتی کہ یہ محض کوئی سیاسی اور معاشی ہدایات پر مشتمل سماجی نظام بھی نہیں ، جیسا کہ ہمارے بہت سے نکتہ داں طویل لیکچر دیا کرتے ہیں ۔ اسلام دراصل انسان کی وفاداریوں کا تعین بھی ہے اور اس کے تعلقات کی حدود کا دائرہ بھی اور اللہ عزّ و جل و رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ و امت کیلئے غیرت کا امتحان بھی ۔


تعلق اور وفاداری اور مدد ونصرت کے معاملہ میں بھی دراصل آدمی کے ایمان کو امتحان سے گزارا جاتا ہے ۔ کفار جو اسلام اور اہل اسلام سے برسر جنگ ہوں یا دین اسلام کے خلاف یا اس کی کامیابی کے خلاف بغض رکھتے ہوں ایک مسلمان کیلئے دشمن ہی کا درجہ رکھتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں تو آدمی کو اپنے ایمان کی فکر ہو جانی چاہیئے ۔


اسلام کے دشمنوں سے دلی ہمدردی رکھنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی فتح مندی چاہنا ، یا مسلمانوں کے خلاف ان کی نصرت اور اعانت کرنا ، یا حتی کہ مسلمانوں کے خلاف محض ان کا حلیف بن کر رہنا صریحاً کفر ہے ۔ ایسا کرنے کے بعد آدمی دائرۂ اسلام میں نہیں رہتا ۔


بنا بریں ہر وہ اتحاد alliance (تحالف) جو کسی مسلم ملک یا مسلم قوت یا مسلم جماعت کے خلاف آمادۂ جنگ ہو اس کا حصہ بننا ، اس کی معاونت کرنا ، اس کا پرچم اٹھانا ، اس کیلئے جاسوسی کرنا یا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح اس کی مہم آسان کرنا محض کوئی گناہ نہیں ، یہ آدمی کو دائرۂ اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کو متنبہ ہو جانا چاہیئے وہ اگر اپنے اس عمل سے تائب ہوئے بغیر مر جاتا ہے تو وہ کفر کی حالت پر مرتا ہے ، جس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم یقینی ہے ۔


کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہوجائے یہ عمل کفریہ نہیں ہے اسی وجہ سے اللہ تعالى نے آپس میں قتال کرنے والے مسلمانوں کے دونوں گروہوں کو مؤمن قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے "وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا" ۔ اور یہ غلط فہمی , یا کسی بھی دیگر وجوہات کی بناء پر ہونے والی لڑائیوں میں ہے ۔

ہاں جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے خلاف برسرپیکار ہو کفار کی معاونت میں تو یہ عمل کفریہ عمل ہے ۔

لیکن اس کفریہ عمل کے مرتکب پر ہم فتوى کفر اس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک تکفیر کی شروط اس میں پوری نہ ہو جائیں اور موانع ختم نہ ہو جائیں ۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کلمہ گو لوگ جب کفار کی صفوں میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں تو ان کا قتل پھر کیونکر جائز ہوگا ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگ جو میدانوں میں اہل اسلام کے خلاف لڑنے کے لیئے کفار کے ساتھ مل کر آتے ہیں ہم ان کا قتل اس لیئے درست قرار دیتے ہیں کیونکہ انکا یہ عمل کفر والا ہے اور تکفیر معین کی چھان بین کا موقع میدانوں میں نہیں ہوتا کہ جس کے ذریعہ حقیت حال کو معلوم کیا جائے لہٰذا مسلمان ان کے ظاہر پر حکم لگاتے ہوئے ان کے ساتھ کفار والا سلوک روا رکھتے ہیں ۔


کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے ، انہیں راز دار بنانا ، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے ۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے ۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاؤ کی اجازت دی گئی ہے ، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدنا امامِ حسین  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا ۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے ۔


مسلمان مسلمان بھائی ہیں سرحدوں میں بٹے اہلِ اسلام کےلیے پیغام : ⏬


محترم قارئینِ کرام : مسلمان خواہ کسی ملک اور خطے کا ہو کسی بھی رنگ اور قبیلے کا ہو کوئی زبان بولتا ہو ان سب کو قرآن مجید نے ایک برادری قرار دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ  ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 10)

ترجمہ : مسلمان مسلمان بھائی ہیں ۔


مسلمان توآپس میں بھائی بھائی ہی ہیں  کیونکہ یہ آپس میں  دینی تعلق اورا سلامی محبت کے ساتھ مَربوط ہیں  اوریہ رشتہ تمام دُنْیَوی رشتوں  سے مضبوط تر ہے ، لہٰذاجب کبھی دو بھائیوں  میں  جھگڑا واقع ہو تو ان میں  صلح کرا دو اور اللہ تعالیٰ سے ڈروتا کہ تم پر رحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں  کی باہمی محبت اور اُلفت کا سبب ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۱۶۸)(تفسیر مدارک صفحہ ۱۱۵۳)


حضرت عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان ، مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم کرے نہ اس کورُسوا کرے ، جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں  مشغول رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرتا ہے اورجوشخص کسی مسلمان سے مصیبت کو دورکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مَصائب میں  سے کوئی مصیبت دُور فرما دے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا پردہ رکھتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب، باب لا یظلم المسلم  الخ جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ الحدیث: ۲۴۴۲)


حضر ت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہیں ، جب اس کی آنکھ میں  تکلیف ہوگی تو سارے جسم میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سرمیں درد ہو تو سارے جسم میں دردہوگا ۔ (صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین ۔ الخ صفحہ ۱۳۹۶ الحدیث : ۶۷ ، ۲۵۸۶)


حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے ۔ (صحیح مسلم کتاب البرّ والصّلۃ والآداب باب تراحم المؤمنین ۔ الخ صفحہ ۱۳۹۶ الحدیث : ۶۵ ، ۲۵۸۵،چشتی)


اِسلام ایک عالمی دِین ہے اور اُس کے ماننے وَالے عرب ہوں یا عجم ، گورے ہوں یا کالے ، کسی قوم یا قبیلے سے تعلق رَکھتے ہوں ، مختلف زبانیں بولنے وَالے ہوں ، سب بھائی بھائی ہیں اور اُن کی اس اخوت کی بنیاد ہی اِیمانی رِشتہ ہے اور اس کے بالمقابل دُوسری جتنی اخوت کی بنیادیں ہیں ، سب کم زور ہیں اور اُن کا دَائرہ نہایت محدود ہے ۔ یہی وَجہ ہے کہ اِسلام کے اِبتدائی اور سنہری دور میں جب بھی ان بنیادوں کا آپس میں تقابل و تصادم ہوا تو اخوتِ اِسلامیہ کی بنیاد ہمیشہ غالب رہی ۔


کافر کوئی بھی عقیدہ رکھے ایک ہی ملت ہیں حدیث میں ارشاد ہے کہ اَلْکُفْر مِلَّۃ’‘ وَاحِدَہ ، کفر ایک ملت ہیں ۔ اس طرح قرآن و سنت نے دنیا کے تمام انسانوں کو دو الگ الگ ملتوں میں تقسیم کرکے فیصلہ کردیا کہ مسلمان ایک ملت اور کافر دوسری ملت ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کافروں کے ساتھ حسن سلوک ، انصاف ، خیرخواہی ، مدارات تو کرو لیکن محبت و دوستی کسی صورت میں تمہارے لیئے جائزہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اپنا راز دار بناؤ اور نہ ہی ان کے طور طریقے اختیار کرو بلکہ جو کفار تم سے لڑے تمہارے دین کے درپے ہوں ان کے ساتھ جنگ کرو ۔


دنیا میں مدینۃُ المنوّرہ پہلی اسلامی ریاست تھی جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی اس کے بعد مملکت خداداد پاکستان وہ ریاست ہے جو کہ اسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوئی ۔ اس وقت دنیا میں جو ممالک موجود ہیں ان سب کی بنیاد جغرافیائی سرحدیں ہیں جو کہ دراصل مغرب کا نظریہ ہے اہل مغرب نے خاندانی ، نسلی اور قبائلی بنیادوں میں ذرا وسعت پیدا کرکے قومیت کی بنیادیں جغرافیائی حدود پر استوار کیں ۔ جبکہ پاکستان کی بنیاد نہ تو رنگ زبان و نسل ہے اور نہ ہی جغرافیائی حدود بلکہ اس کی بنیاد لاالہ الا اللہ ہے ۔ کہ ایک عقیدہ اور ایک کلمہ کی بنیاد پر جو قوم بنی ہے یعنی امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ وہ سب اس مملکت کے باشندے ہیں ۔


قرآنِ کریم نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دِیا ہے اور اس اخوت اور محبت کو اللہ کی نعمت قرار دِیا ہے اور اس محبت اور اِتحاد پر اُن کی قوت اور طاقت کا مدار ہے ۔ اس اخوت کو قائم رَکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور اُن تمام صفات کو اَپنانا جن سے یہ اخوت کا رِشتہ مضبوط ہوتا ہے ، جیسے خیر خواہی ، محبت ، اِخلاص ، اِیثار ، ملنا ملانا ، صلح جوئی اور ایک دُوسرے کو سلام اور دُعا پیش کرنا وَغیرہ ۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں  کو اپنے باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں  کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 30 April 2025

غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں

غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : جن أئمہ ومحدثین  اور اکابر مؤرخین علیہم الرحمہ جنہوں نے غزوہ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے اس بات کی صریح دلیل ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع  نہیں ہیں ۔ بلکہ علمأ امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انہیں نقل کیا ہے ۔ خاص کر امام نسائی جنہوں نے سنن نسائی میں غزوہ ہند پر مکمل باب باندھا ہے ۔ امام بخاری کے استاد امام نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں غزوہ ہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے ۔ امام  احمد نے اپنی مسند میں ، امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ، اما م بیہقی نے سنن الکبری اور دلائل النبوۃ میں ، امام حاکم نے مستدرک حاکم میں ، امام طبرانی نے معجم الاوسط میں ، امام سیوطی نے جمع الجوامع میں ، امام  نووی نے  فیض القدیر میں ، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں ، امام بغدادی نے تاریخ بغداد میں علیہم الرحمہ اور علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں غزوہ ہند سے متعلق  احادیث ذکر کی ہیں ۔ لہذا اس روایت کو موضوع کہنا محل نظر ہے ۔ غزوہ ہند کے متعلق مروی احادیثِ میں سے چند درج ذیل ہیں : ⏬

غزوہ ہند کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد احادیث مروی ہیں ۔ ان احادیث نبویہ کے راوی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دو احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رضی اللہ عنہم ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا کہ اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی " اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک ، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں ، جسے اللہ تعالیِ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا " امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ (آگے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں) " اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاٶں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیِ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا ارو دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا : ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطاء کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہوں ۔ (راوی کا بیان ہے) کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور ہنس کرفرمایا : بہت زیادہ مشکل ، بہت زیادہ مشکل ۔ (مسند احمد : 369/2)(مسند ابوہریرہ رض: 8467)(البدایہ والنہایۃ، الاخبار عن غزوہ الہند: 223/6، از حافظ علامہ عمادالدین ابن کثیر)(السنن المجتبیٰ : 42/6 ، کتاب الجہاد باب غزوہ ہند: 3174 ،3173)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوہ الہند: 4382۔4383)(مسند احمد : 278/5، حدیث ثوبان رض : 21362،چشتی)(السنن المجتبیٰ للنسائ:668/2، حدیث: 2575)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوۃ الھند: 4384)(الجہاد : 665/2 فضل غزوۃ البحر حدیث : 228)(السنن الکبریٰ للبھیقی : 76/9، کتاب السیر، باب ماجاء فی قتال الھند : 186)(البدایۃ والنھایۃ، الاخبار عن غزوۃ الھند : 223/6)(الفردوس بما ثور الخطاب : حدیث 4164)(تاریخ الکبیر : 72/6)(تذکرہ عبد الاعلیٰ بن عدیالبھرانی الحمص : 1747)(تاریخ دمشق : 248/52، از ابن عساکر رح کتاب الفتن ، غزوۃ الھند : 409/1۔ 410، حدیث : 1236۔ 1238)

غزوہ ھند صرف جنگ تک ہی محدود نہیں ہے اس میں علمی جہاد بھی شامل ہے اور اس کی تکمیل ھندوستان میں اسلام کے مکمل غلبے پر ہوگی ان شاء اللہ ۔ ایک بار ان احادیثِ مبارکہ کو غور سے پڑھیں : ⏬

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا ، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمية، بيروت)

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدْنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةُ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِقُ فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِعُ فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے ، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا ۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا ۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ (نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمية بيروت)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18380، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا ﷲُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں ، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو ﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449)(نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4384،چشتی)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381)(طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة)

حدثنا أبو النضر حدثنا بقية حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال عصابتان من أمتي أحرزهم الله من النار عصابةتغزو الهند وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم عليه السلام ۔ (مسنداحمد باب مسندالانصار من حديث ثوبان جلد 37 صفحہ 81 رقم : 22396 الرساله)(سنن النسائي لشرح السيوطي، باب غزوة الهند جلد 5 ، 6 صفحہ 350 رقم 3175 دارالمعرفة،چشتی)(التاريخ الكبير للبخاري باب عبدالاعلي جلد 5 صفحہ344 رقم : 7818 ، 1747 العلمية)
ترجمہ : ضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے ان سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالی دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ، ان میں سے ایک ہندوستان مین جہاد کرے گا ، دوسرا  حضرت عیسی علیہ السلام کے  ساتھ ہوگا ۔
یہ حدیث حسن ہے ، البتہ یہ سند بقیۃ بن الولید کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس کی متابعت موجود ہیں ۔ اور سند کے بقیہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابوبکر بن ولید کے وہ مجھول الحال ہے ، لیکن  عبد اللہ بن سالم جو کہ ثقہ ہے انہوں نے ابوبکر بن ولید کی متابعت کی ہے ۔ (مسند احمد جلد 37 صفحہ 81)

أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد بن عبيد الصفار، ثنا بشر بن موسى، ثنا خلف، عن هشيم، عن سيار بن أبي سيار العنزي، ح وأخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن أبي علي السقاء , وأبو الحسين علي بن محمد المقرئ قالا: أنبأ الحسن بن محمد بن إسحاق، ثنا يوسف بن يعقوب القاضي، ثنا مسدد، ثنا هشيم، عن سيار أبي الحكم، عن جبر بن عبيدة، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: " وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن أدركها أنفق فيها مالي ونفسي , فإن استشهدت كنت من أفضل الشهداء , وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر ۔ (السنن الكبر للبيهقي، باب ماجاء في قتال الهند جلد 9 صفحہ 176 دار الكتب العلمية،چشتی)(نسائي لشرح السيوطي باب غزوة الهند جلد 5 ، 6 صفحہ 349 رقم 3173 دارالمعرفة)(دلائل النبوة للبيهقي باب قول الله عزوجل (وعد الله الذين آمنوا منكم الخ) جلد 6 صفحہ 336 العلمية)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہونگا اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہونگا ۔

أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، قال : حدثنا زكريا بن عدي ، قال : حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن زيد بن أبي أنيسة ، عن سيار (ح) قال : وأنبأنا هشيم ، عن سيار ، عن جبر بن عبيدة ، وقال عبيد الله : عن جبير ، عن أبي هريرة ، قال : وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند ، فإن أدركتها أنفق فيها نفسي ومالي ، فإن أقتل كنت من أفضل الشهداء ، وإن أرجع فأنا أبو هريرة المحرر ۔ (سنن النسائي المجتبي، باب غزوة الهند جلد 6 صفحہ 42 رقم 3173 المطبوعات الاسلامية،چشتی)
حدثنا بقية بن الوليد عن صفوان عن بعض المشيخة عن أبي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكر الهند فقال: ليغزون الهند لكم جيش يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغللين بالسلاسل يغفر الله ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام  قال أبو هريرة إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها فإذا فتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيجد فيها عيسى بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه فأخبره أني قد صحبتك يا رسول الله قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه و سلم وضحك ثم قال: هيهات هيهات ۔ (كتاب الفتن لنعيم بن حماد باب غزوة الهند صفح 409 رقم 1236 التوحيد)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : یقینًا تمہارا ایک لشکر  ہندوستان سے جنگ کرے گا،اور اللہ ان مجاہدین کو  فتح دے گا ۔ حتیٰ کہ وہ حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ۔ پھر جب  وہ واپس لوٹیں گیں تو ابن مریم کو شام میں پائیں گے ۔ تو  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا ، جب ہمیں اللہ تعالی فتح دے  دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام  میں آئے گا تو وہاں عیسی بن مریم سے ملاقات کرے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے ۔

حدثنا الحكم بن نافع عمن حدثه  عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الهند فيفتحها فيطئوا أرض الهند ويأخذوا كنوزها فيصيره ذلك الملك حلية لبيت المقدس ويقدم عليه ذلك الجيش بملوك الهند مغللين ويفتح له ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامهم في الهند إلى خروج الدجال ۔ (كتاب الفتن لنعيم بن حماد باب غزوة الهند صفحہ 409 رقم 1235 التوحيد،چشتی)
ترجمہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کا ایک بادشاہ  ہندوستان کی طرف  ایک لشکر روانہ  کرے گا ،  وہ اس كو فتح كریں گے پس مجاہدین ہند کی سر زمین کو پامال کر ڈالیں گے اس کے حزانوں پر قبضہ کرلیں گے پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المال کی تزیین کےلیے استعمال کرے گا وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے رو برو پیش کرے گا اور وہ لشکر مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر فرمایا اور ارشاد کیا ’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا ، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ، پھر جب وہ مسلمان لوٹ کر آئیں گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو شام میں پائیں گے ۔

مذکورہ احادیث کا مفہوم درج ذیل ہے : ⬇

(1) ایک زمانہ آئے گا کہ عرب انتہائی غیر مستحکم ہوں گے تو اللہ ایک غیر عرب قوم کو اٹھائے گا جو ہتھیاروں اور لڑائی میں عربوں سے بہتر ہوگی اور ہندوستان پر قبضہ کرے گی ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہند سے نہیں ہوں مگر ہند مجھ سے ہے ۔

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ آخری زمانے میں شام میں ہوں، انہیں چاہیے کہ زیر زمین گھر بنائیں ۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غزوہ ہند کے دوران دریائے اٹک 3 دفعہ خون سے لال ہوجائے گا، سرحد کے غازیوں سے زمین کانپے گی، دلّی اور کشمیر فتح ہوگا اور امام مہدی کا خیمہ غوطہ میں ہوگا، غزوہ ہند آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا ۔ (پیشین گوٸیاں)

درج بالا فرامین سے غزوۂ ہند کی نوعیت جاننے میں یقیناًمدد ملی ہوگی ۔ سادہ الفاظ میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی تعیف یہ ہے : ⬇

غزوۂ ہند ایک ایسی جنگ ہے جس میں تمام ہندوستان کو مسلمان ازسرنو فتح کرلیں گے۔ یہ ایک مکمل فتح ہوگی، جس میں ہندوستان کے تمام سردار بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ یہ جنگ حضرت مہدی کی سربراہی میں لڑی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے بالآخر تمام دنیا پر حضرت مہدی اسلامی اقتدار قائم کردیں گے، جس کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا، جو آخری جنگ Armegadon پر منتج ہوگا ۔

ایک سوال جو غزوہ ہند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریک ہوں ، تو اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما چکے ہیں ، تو اس جنگ کو غزوہ کیوں کہا گیا ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوۂ موتہ میں شریک نہیں تھے ، مگر پھر بھی اس کو غزوہ کہا جاتا ہے ۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب اور امتی ہیں اور ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمة اللعالمین صفت کو تمام عالم پر نافذ کرنا ہے ، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب اس کو غزوہ قرار دیا گیا ، اور تیسرا اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چونکہ اس غزوے کی تمام معلومات دیں اور عہد لیا کہ جو زندہ رہے وہ اس غزوے میں ضرور شریک ہو ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بیعت نے ان کو اس غزوے کا سربراہ بنادیا اور یہ جنگ غزوہ قرار پائی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں خراسان ایک بہت وسیع علاقے کا نام تھا ، اس میں ایران ، افغانستان ، پاکستان کی ملاکنڈ ایجنسی اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل تھیں ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ خراسان سے کالے جھنڈے اٹھیں گے اور غزوہ ہند جیتیں گے تو اس میں کثیرالملکی فوج کا مفہوم بھی ہو سکتا ہے ، جیسا کہ ہم دوسری حدیث میں غیر عرب فوج کی فتح کی نوید سنتے ہیں ۔ پاکستانی فوج بھی ایک غیر عرب فوج ہے ، جس کے ہتھیار اور کارکردگی عربوں سے بہتر ہے، لہٰذا جس فوج کا ذکر ہے وہ پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں جو بھارت فتح کرے ۔ جس وقت اسرائیل وجود میں آیا تو ڈیوڈ بن گوریان نے بیان دیا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے ۔ حالانکہ پاکستان اُس وقت محض ایک سال پرانی نوزائیدہ مملکت تھی جو اپنا وجود بچانے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی ۔ کافروں کو اندازہ ہے کہ پاکستان خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، مگر ہمیں پاکستان کی کوئی قدر نہیں ہے۔
ایک بات یہاں قابلِ غور ہے کہ پاکستان کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، ہندوستان ہی کبھی ہمارا پانی روکتا ہے ، کبھی ہمارا مشرقی حصہ جدا کرتا ہے ، کبھی بمباری کرتا ہے ، کبھی دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی الزامات لگاتا ہے ۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا تو ہم بلاوجہ غزوہ ہند کا محاذ کھول کر مذہبی فریضہ نبھائیں گے ، تو یہ خام خیالی ہے ۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ فساد کا آغاز بھارت کی جانب سے ہی ہوگا ، جو کہ بھارت کا ایک مستقل رویہ ہے ، اور پاکستان کی دوستی کی ہر کوشش اور امن کی ہر آشا رائیگاں جائے گی ۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کالے جھنڈے ، پیلے جھنڈے ، کالی ٹوپیاں ، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ ، حضرت مہدی علیہم السلام کا حلیہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو احادیث کی روشنی میں کوئی بھی خود تیار کرکے کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے ۔ یہ سب میک اَپ سے بھی ہوسکتا ہے ، ان چیزوں کو حتمی مان کر فیصلہ کرنا بے وقوفی ہے ۔ ہمیں جو چیز اصل حضرت عیسیٰ اور اصل حضرت مہدی علیہما السلام کی پہچان کرائے گی ، وہ ان کی تعلیمات ، ان کا جذبہ اور ان کا ایمان ہوگا ۔ یہ قیامت کا آخری دور ہے ، اس وقت دھوکا کھانے والوں کےلیے یہ موقع نہیں ہے کہ تمہیں ہٹا کر اوروں کو لے آئیں گے ، ہم نے اگر اپنی کسی غلطی سے اللہ کے پلان میں خلل ڈالا تو ہمارے لیے معافی نہیں ہے، اس لیے بڑے ہوش و حواس سے فیصلہ کیجیے ۔ قرآن روز اپنی مادری زبان میں پڑھیے تاکہ آپ اس کتابِ الٰہی کی روشنی میں صحیح لوگوں کو پہچان سکیں ۔

بعض لوگ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کو غزوۂ ہند مانتے ہیں ، لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ یوں تو محمود غزنوی نے بھی جب بھی ہندوستان پر حملہ کیا ، ہمیشہ غزوۂ ہندکی ہی نیت باندھی ، لیکن وہ سترہ حملے غزوہ ہند نہیں تھے ۔ درحقیقت غزوہ ہند وہ ہوگا جس کے اختتام پر تمام ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو ، اور یہ غزوہ اتنا بڑھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شام میں ظاہر ہو جائیں اور پھر مستقل فتوحات کا ایسا سلسلہ چل نکلے کہ تمام دنیا اسلام کے زیر تسلط آجائے ۔

غزوہ ہند کے بارے میں جب ہم تمام تر تجزیوں کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایسی منظم ، کامیاب اور متحد جنگ کےلیے ایک متفق علیہ کمانڈر اور ایک مستحکم اقتصادی قوت بہت ضروری ہے ، جب کہ جو صورتِ حال ہمیں نظر آرہی ہے ، اُس میں مسلم ممالک کے حکمران کسی پالتو جانور کی طرح کافروں کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں ۔ نہ کوئی حمیت ہے ، نہ غیرت ، نہ سر اٹھانے کا حوصلہ ، نہ مضبوط کمر ۔ جب کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ آخری دور شروع ہو چکا ہے ، پھر آخر کیسے کمانڈر آئے گا ، کس طرح اتحاد ہوگا اور غزوۂ ہند کے وسائل کیسے فراہم ہوں گے ، جب کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا بھی اب تک نزول نہیں ہوا ۔ شام کے حوالے سے تمام حدیثیں پوری ہوچکی ہیں ، پھر آخر غزوۂ ہند کی فتوحات کیسے اور کب ہوں گی ؟

آتی ہے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ہند سے نہیں ہوں ، مگر ہند مجھ سے ہے ، تو ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے بھارت میں رہنے والے ہندوؤں کو تو وہ بیڑیوں میں قید کرنے کا حکم فرما رہے ہیں ۔ مشاٸخ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قائدِ اعظم علیہ الرحمہ کے خواب میں بھیجا تھا اور انہوں نے قائدِ اعظم علیہ الرحمہ کو حکم دیا تھا کہ لندن سے واپس ہندوستان جاؤ اور پاکستان بنانے کی کوشش کرو ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روحانی واقعات ہیں جو پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنے اور ابھی تک پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں جب کہ اہلِ پاکستان نے بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اسی تائید ایزدی کو نظر میں رکھتے ہوئے امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سپریم کمانڈر بھی پاکستان میں بھیجے گا جو تمام دنیا میں اسلام قائم کرے گا اور غزوۂ ہند کی فتوحات کو بھی اللہ کے حکم سے ممکن بنائے گا ۔

سنن نسائی صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3175 میں غزوۂ ہند میں شہید ہونے والوں کو ’’افضل الشہدا‘‘ اور بچ جانے والوں کو جہنم کی آگ سے آزاد قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ حدیث اُس زمانے کی ہے جب غزوات جاری تھے، جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں ، کثرت سے شہادتیں بھی سامنے کی بات تھیں، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان جلیل القدر صحابہ کو افضل الشہدا قرار نہیں دیتے، بلکہ فرماتے ہیں کہ قربِ قیامت کے دور میں ہونے والے غزوہ ہند میں جو لوگ شہید ہوں گے ، وہ افضل الشہدا ہیں۔ صرف اسی بات سے آپ غزوۂ ہند کی اہمیت کا اندازہ کرلیں اور اس میں شریک ہونے والے مومنوں کے درجات کا اندازہ لگالیں ۔ لہٰذا جس کی زندگی میں یہ غزوہ لڑا جائے اُسے اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول غزوہ ہند کے دوران ممکن نہیں ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوں گے جب حضرت مہدی غزوہ ہند کی فتوحات مکمل کرکے شام کی طرف بڑھیں گے ، اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کریں گے اور غوطہ میں اپنا خیمہ لگائیں گے ، یہی وہ وقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ظاہر ہوجائیں گے اور وہ یہودیوں کو شکست دینے میں حضرت مہدی کی مدد فرمائیں گے ۔ یہودیوں کو صرف ایک خاص درخت کے پیچھے پناہ ملے گی جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور یہودیوں نے اس درخت کی بڑی تعداد میں کاشت ابھی سے شروع کر رکھی ہے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ غزوہ ہند ایک On going process ہے جو شاید پاک بھارت جنگ سے شروع ہو ، اور اس جنگ میں افغانی ، ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مومن بھی پاکستانیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ۔ پورے برِصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا مکمل غلبہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ اپنا رخ موڑے گی اور عرب علاقوں میں چلی جائے گی ، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور دجال سے جنگیں شروع ہوں گی ، ان فیصلہ کن جنگوں کو Armegadon کہا جاتا ہے ۔

ہمارا مکمل ایمان و یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر فرمان پورا ہوگا ، تاہم اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے کہ قیامت بے حد نزدیک ہے ، یہودی اس لمحے کی مکمل تیاری میں ہیں ۔ جہاں وہ اپنے دجال کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں ، انڈیا کو غزوۂ ہند کےلیے مستحکم کر رہے ہیں ، وہیں زور و شور سے گریٹر اسرائیل کا خواب بھی پورا کر رہے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہودی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام پیش گوئیوں کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں نہ کوئی قیادت ہمارے پاس ہے جو تمام امت کو ساتھ لے کر بصیرت افروز فیصلے کرے ۔ ایسی صورت میں کم از کم ذاتی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ غزوۂ ہند شروع ہونے پر ہم میں اتنی روحانی قوت ہو کہ غزوہ ہند کے مجاہدین میں شامل ہوسکیں ۔ اللہ ہمیں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی رہبری عطا کرے اور افضل الشہدا میں سے کرے ۔

ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا ۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا ۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے ۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: مَنْ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَاَنھُمْ رِجَالُ الْھِنْدِ ’’ یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں ۔ (سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 593)

ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا ۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: أھدى ملك الھند إلى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جرۃ فيھا زنجبيل فاطعم أصحابہ قطعۃ قطعۃ وأطعمني منھا قطعۃ ’’ ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا ، اس میں ادرک تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹)

ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے ۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ علیہ الرحمہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا ۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا ۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کےلیے آتے ہیں ۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے ۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ میں بھی اس کا تذکرہ ہے ۔ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۱۹۹)

ہند کے بارے میں حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أطيب ريح في الارض الھند ، یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے ۔ (المستدرک للحاکم رقم الحدیث : 3954)

سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں : میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔“(عرب و ہند کے تعلقات :ص:28)

ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس پر جاری ہوا ۔ اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ”سبحۃ المرجان في آثار ہندستان“ اور ”شمامۃ العنبر فيما ورد من الھند من سيد البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے ۔ مؤخر الذکر کتاب یقیناً اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہوگی ۔


احادیثِ مبارکہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کےلیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی ۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا ، شہید ہو گئے ۔ (فتوح البلدان جلد 3 صفحہ 531)

امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے ۔ (مشارع الاشواق صفحہ ۹۱۸ ۔ ۹۱۹)

حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے : ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۱ صفحہ 46)

اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی ۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا ۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا ۔ پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی ، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا ، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۴ صفحہ 655 تا 659،چشتی)

حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ ۔ (تاریخ الاسلام جلد ۶ صفحہ ۳۶)
ترجمہ : اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا ۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے ۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کےلیے آتے تھے ۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو ۔

سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا ۔ شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آئے اور عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا ۔ جس زمانے میں سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے ۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ” اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے ۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے ۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۴ صفحہ 91)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وعدہ : ⏬

غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ ہند کا اس امت سے وعدہ کیا ہے ۔ ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے اسلام نے اپنی کتب میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو بیان کیا ہے اور اس امانت و بشارت کو ہر دور میں آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کیا ہے ۔ اہل ایمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے وعدے کو وفا کرتے ہیں، اس لیے غزوۂ ہند کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ۔ (مکمل احادیثِ مبارکہ اوپر گذر چکی ہیں)

غزوۂ ہند میں شرکت اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ : ⏬

مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غزوہ میں شریک ہونے کی تمنا کیا کرتے تھے ، جس کا اظہار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایمانی کلمات سے بخوبی ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھرپور طور پر اظہار کیا کہ اگر مجھے وہ دور نصیب ہوا جب غزوہ ہند ہوگا تو میں اپنی جان ، مال ، میراث اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا ۔

تقسیم ہند کے بعد مشرکین ہند نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور تا حال اہل پاکستان ان کے ساتھ ہمہ جہتی جنگ میں مصروف ہیں ۔ وہ مجاہدین جن کو اللہ نے مشرکین ہند کے ساتھ جہاد کی توفیق عطا فرمائی ہے ، ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کےلیے قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندربیدار رکھیں جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کیا ۔

غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے شہادت کی تمنا کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں جو لوگ شہادت کی عظیم نعمت سے ہمکنار ہوں گے وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء میں سے ہوں گے ۔ علامہ ابن قیم جوزی افضل الشہداء کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں : أفْضَلُ الشّھدَاءِ الّذِينَ إنْ يَلْقَوْا فِي الصّفّ لَا يَلْفِتُونَ وُجُوھَھُمْ حَتّى يَقْتُلُوا أولَئِكَ يَتَلَبّطُونَ فِي الْغُرَفِ الْعُلَى مِنْ الْجَنّۃ وَيَضْحَكُ الَيْھِمْ رَبّك وَإذَا ضَحِكَ رَبّكَ إلَى عَبْدٍ فِي الدّنْيَا فَلَا حِسَابَ عَلَيْہِ ۔ (زاد المعاد جلد ۳ صفحہ ۳۳)
ترجمہ : سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء وہ ہیں جب وہ صف میں (دشمن سے) آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ وہ قتال کرتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جو جنت کے بلند ترین کمروں میں اپنے پیر ماریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو (اپنی شان کے مطابق) مسکرا کر دیکھے گااور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی طرف دنیا میں مسکرا کر دیکھتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا ۔

غزوہ ہند میں شریک ہونے والوں کےلیے ایک بشارت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اگر کوئی شخص اس غزوہ میں شہادت حاصل نہ کر سکا اور غازی بن کو لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون فرمادے گا ۔

مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وعدے کو پورا فرمایا اور سندھ اور ہند کے دروازے اہل اسلام کےلیے وا فرما دیے ۔ یہ احادیثِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت اور اللہ کی جانب سے علم غیب کے عطا کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اس جنگ میں امام مہدی اور عیسیٰ علیہماالسلام کے ساتھ شریک ہونے کی تمنا کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے مسکراتے ہوئے اس بات کو بیان فرما دیا کہ ابوہریرہ اس میں شریک نہ ہو پائیں گے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی نیت کے موافق غزوہ ہند میں شرکت کا اجر عطا فرمائے گا ۔

حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں ۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق آپ کو یہودی نہ تو شہید کر سکے اور نہ ہی آپ کو مصلوب کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور قیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شریعت کے مطابق عدل فرمائیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث متواتر ہیں ۔ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں آپ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنے والے گروہ کےلیے جنت کی بشارت ہے ۔ یہ احادیث بھی آپ علیہ السلام کی آمد ثانی پر دلالت کرتی ہیں ۔

حضرت امام حماد بن نعیم علیہ الرحمۃ (متوفی : ۲۲۹ھ) روایت فرماتے ہیں : عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الھند فيفتحھا فيطئوا أرض الھند وياخذوا كنوزھا فيصيرہ ذلك الملك حليۃ لبيت المقدس ويقدم عليہ ذلك الجيش بملوك الھند مغللين ويفتح لہ ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامھم في الھند إلى خروج الدجال ۔ (الفتن : رقم الحدیث : ۱۱۴۹)
ترجمہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا ، وہ اسے فتح کریں گے ۔ پس وہ ہند کی زمین کو روندیں گے اور اس کا خزانہ حاصل کریں گے ۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کا زیور بنا دے گا اور لشکر اس بادشاہ کے پاس ہند کے بادشاہوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اس کے لیے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے، فتح کر دیا جائے گا۔ اور ان کا قیام دجال کے نکلنے تک ہند میں ہوگا ۔

عن أبي ھريرۃ رضى اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم و ذكر الھند فقال ليغزون الھند لكم جيش يفتح اللہ عليھم حتى ياتوا بملوكھم مغللين بالسلاسل يغفر اللہ ذنوبھم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہند کا ذکر کیا ، اور فرمایا : تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا ۔ اللہ عزوجل ان کو فتح عطا فرمائےگا ، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا، پھر وہ لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ ابن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی ، اللہ اس کو فتح عطا فرمائےگا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا ، پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے ۔ (الفتن : رقم الحدیث : ۱۱۵3)

بیت المقدس اس وقت یہود کے قبضے میں ہے ۔ مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس غزوہ ہند کی تکمیل سے پہلے آزاد ہو جائے گا اور وہاں سے ہی ہندوستان کی فتح کےلیے لشکر اسلام کو روانہ کیا جائے گا ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لشکر کو ہند فتح کرنے کےلیے ارسال فرمائیں گے اور وہ جب واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول ہو چکا ہوگا ۔ پس غزوہ ہند کی بشارت کو حاصل کرنے کےلیے اہل اسلام مشرکین ہند سے جہاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی ۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم دنیا کی افواج اور بالخصوص افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ہدایات کی بنیاد پر اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو ازسرنو مرتب کریں کیونکہ جب تک بیت المقدس فتح نہیں ہوگا ، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں برپا جنگ جاری رہے گی اور مشرکین کی طرف سے ہونے والے مظالم بھی بڑھتے ہی چلے جائیں گے ۔ فتح خیبر کی طرح یہودیوں کی شکست کے بعد ہی مشرکین کو مکمل شکست دینا ممکن ہوگا ۔

جس لشکر کو امام مہدی علیہ السلام ہند فتح کرنے کےلیے بھیجیں گے ، احادیث میں ان کےلیے نو عظیم بشارتیں ہیں : ⏬

۱ ۔ ہند مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے فتح ہو جائے گا اور وہ اس سرزمین کو اپنے قدموں تلے روندیں گے ۔
۲ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا ۔
۳ ۔ ان کو مال غنیمت وافر مقدار میں ملے گا جس سے وہ بیت المقدس کو مزین کریں گے ۔
۴ ۔ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر وہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کے سامنے پیش کرے گا ۔
۵ ۔ وہ لشکر جس قدر اللہ چاہےگا ہندوستان میں رہےگا اور پھر شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت حاصل کرے گا ۔
۶ ۔ اس لشکر کو دجال اور اس کے گروہ سے لڑنے کی فضیلت حاصل ہوگی ۔
۷ ۔ مشرق و مغرب کے مابین جو کچھ ہے ، وہ فتح ہوگا اور لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ پورا ہوگا ۔
۸ ۔ اس کے شہداء افضل ترین شہید ہوں گے اور اس کے غازیوں کو جہنم سے خلاصی کی بشارت ہے۔
۹ ۔ غزوہ ہند سے قبل بیت المقدس فتح ہو جائے گا ۔

اس عاجز نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے ۔ تقریباً بیس کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ۔ جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔ پس وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں ، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے ۔

کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے ؟ : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا ۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کےلیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں ، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے ، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا ۔ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً ۔ (النہایۃ فی الفتن صفحہ ۱۲ ۔ ۱۳)
ترجمہ : اور مسلمانوں نے ہند پر سن ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کی امارت میں حملہ کیا ، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے ۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے ، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا ۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ۔

اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے ۔ (البدایۃ و النہایۃ جلد ۶ صفحہ ۲۴۹)
علامہ ابن کثیر کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فوراً بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے ۔

حضرت امام قرطبی علیہ الرحمہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : و خراب السند من الھند و خراب الھند من الصين ۔ (التذکرۃ صفحہ ۶۴۸)
ترجمہ : اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے ۔
اس روایت کو علامہ ابن کثیر النہایۃ فی الفتن و الملاحم صفحہ ۵۷ ۔ اور امام ابوعمرو دانی علیہ الرحمہ السنن الواردۃ فی الفتن جلد ۲ صفحہ ۳۶ نے بھی روایت کیا ہے ۔

اس حدیث مبارکہ کے درست معنی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ تاہم اگر ہم حالات حاضرہ پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ میں فتنہ و فساد ، قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کا سبب ہندوستان ہے ۔ بالخصوص سندھ کا وہ جغرافیہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں تھا ، وہاں کے حالات اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چین حسب سابق پاکستان کی معاونت کرے اور اللہ تعالیٰ چین کو پاکستان کی نصرت اور ہندوستان کی تباہی کا سبب بنا دے ۔ دفاعی اداروں کو اس حدیث کے پیشِ نظر سندھ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 27 April 2025

کیا شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہے ؟

کیا شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہے ؟

محترم قارئینِ کرام : شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے پندرہویں پارہ سورہ اسراء کی آیت نمبر 60 میں الشجرہ الملعونہ سے مراد بلا اختلاف ائمہ مفسرین اور بالاتفاق شیعہ سنی بنو امیہ ہیں اس لیے بنو امیہ قرآن کے فرمان کے مطابق ملعون ہوئے اس لیے ان پر لعنت بھیجنا ضروری ہے ۔ مذکورہ آیت کریمہ کا معنیٰ و مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کی عمومی عادت ہے کہ لوگوں پر اپنی غلط بات کا تاثر قائم کرنے کےلیے شیعہ کتاب کے حوالے کو اہلسنت کے نام یا بلا اختلاف یا بالاتفاق شیعہ سنی کے الفاظ کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح سنیوں کو اپنے شیعہ عقائد کی طرف بہکایا جا سکے ۔ مکمل آیتِ مبارکہ یہ ہے : وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِؕ ۔ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِؕ ۔ وَ نُخَوِّفُهُمْۙ ۔ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠ ۔ (سورة الإسراء آيت نمبر 60)

ترجمہ : اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا جو تمہیں دکھایا تھا مگر لوگوں کی آزمائش کو اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انہیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی ۔


 زقوم کا درخت جو جہنم میں  پیدا ہوتا ہے ، اس کو سببِ آزمائش بنا دیا یہاں  تک کہ ابوجہل نے کہا کہ اے لوگو ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں  جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتھروں کو جلا دے گی ، پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اُگیں گے ۔ آگ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے ؟ یہ اعتراض کفار نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اُس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں ۔(تفسر خازن جلد ۳ صفحہ ۱۸۰،چشتی)(تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۱۷۸)


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسی طرح وہ درخت بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ، یعنی وہ درخت بھی آزمائش ہے ، کیونکہ ابو جہل نے مسلمانوں سے کہا تمہارے پیغمبر کہتے ہیں دوزخ ایسی آگ ہے جو پتھروں کو بھی جلا دیتی ہے : وقودھا الناس والحجارۃ ۔ (ورہ التحریم آیت نمبر ٦) ، دوزخ کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔

اور پھر وہ کہتے ہیں کہ دوزخ میں ایک درخت ہے اور آگ تو درخت کو جلا دیتی ہے تو دوزخ میں درخت کیسے پیدا ہوگا جب ان کو تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان جعلنھا فتنۃ للظالمین ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٣) بیشک ہم نے زقوم کو ظالموں کےلیے آزمائش بنادیا ہے ۔

قرآن مجید میں زقوم کے لیے فرمایا ہے بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٤) ، جس کے خوشے شیطانوں کے سروں کی طرح ہوتے ہیں ، دوزخی اس درخت سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹوں کو بھریں گے ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٥، ٦٦ )


زقوم کا معنی ہے تھوہر کا درخت ، یہ لفظ تزقم سے بنا ہے اس کا معنی ہے بدبودار اور مکروہ چیز کا نگلنا ، اس درخت کے پھل کو کھانا دوزخیوں کےلیے سخت ناگوار ہوگا ، بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ کوئی دنیاوی درخت نہیں ہے اہل دنیا کےلیے یہ غیر معروف ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔ (فتح القدیر جلد ٤ صفحہ ٥٢٦ مطبوعہ دار الوفاء بیروت ١٤١٨ ھ)


امام ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر دوزخ کے زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین والوں پر نازل کیا جائے تو ان کی زندگیاں خراب اور فاسد ہو جائیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٤١٣٣ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ،چشتی)


اس آیت میں فرمایا ہے اس درخت پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے حالانکہ قرآن میں اس پر لعنت کا ذکر نہیں ہے ، اس کے درج ذیل جوابات ہیں : ⏬


1 ۔ اس سے مراد ہے دوزخ میں اس درخت کو کھاتے وقت کفار اس پر لعنت کریں گے ۔

2 ۔ ہر وہ طعام جس کا ذائقہ مکروہ ہو اور وہ نقصان دہ ہو اس کو عرب ملعون کہتے ہیں اور سورة الدخان اور الصافات میں اس کا بد ذائقہ اور مکروہ ہونا بیان فرمایا ہے ۔


3 ۔ ملعون کا معنی ہے دور کیا ہوا اور قرآن مجید میں اس درخت کا اس طرح ذکر ہے کہ یہ تمام اچھی صفات سے دور کیا ہوا ہے ۔


4 ۔ ملعون کا معنی ہے مذمت کیا ہوا اور قرآن مجید میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔


5 ۔ ملعون سے مراد ہے اس کے کھانے والے ملعون ہیں ۔ (تفسیر زاد المسیر جلد ٥ صفحہ ٥٥،چشتی)(تفسیر کبیر جلد ٧ صفحہ ٢٦٢)


حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله: وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60 ، قال : هي رؤيا عين اريها النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ليلة اسري به إلى بيت المقدس، قال: والشجرة الملعونة في القرآن هي شجرة الزقوم "، قال: هذا حديث حسن صحيح ۔ (سنن ترمذی كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ حدیث نمبر 3134)

ترجمہ : حضرت‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ : وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس ” اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کےلیے “ (سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۶۰) ، کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا ، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔


عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قَالَ:" وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» ” اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے ۔ “ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا ، کہا کہ قرآن مجید میں «الشجرة الملعونة» سے مراد «زقوم‏» کا درخت ہے ۔ (صحيح بخاری كِتَاب الْقَدَرِ حدیث نمبر 6613،چشتی)


مذکورہ آیتِ مبارکہ کے معنی و مفہوم میں شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کا بار بار لفظ بالاتفاق استعمال کرنا سراسر غلط اور دروغ گوئی ہے تمام صحابہ کرام اور بالخصوص ماہرین قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن مجید سیکھا ہے اور قرآن نے امت کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ہے انہوں نے اور تمام اہل سنت کے مفسرین نے مذکورہ آیت میں الشجرہ ملعونہ کا معنی شجرہ زقوم کیا ہے جیسا اوپر آپ نے پڑھا مزید تفسیر طبری تفسیر مدارک تفسیر جلالین تفسیر روح البیان تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ہو اور اہل سنت کے تمام مفسرین نے اس لفظ سے بنو امیہ مراد لینے کی سختی سے تردید کی ہے اس لیے شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کا یہ کہنا ( لا اختلاف بین احد انہ ارادبھا بنی امیة )کہ اس بات میں کسی ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ آیت مذکورہ میں شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہیں بالکل غلط ہے ۔ نمونہ کے طور پر امام المفسرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سیکھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی اور امت کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ہے ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ اور یہ تفسیر اس مفسر کی ہے جس نے اپنی کتابوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر لعنت اللہ لکھا ہے ۔ (نعوذباللہ) ۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہ والشجرہ الملعونہ فی القران قال شجرة الزقوم ۔ (تفسیر طبری جلد 15) 

ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں (الشجرہ ملعونہ) سے مراد زقوم کا درخت ہے یہ درخت جہنم کی تہہ میں اگا اور دوزخیوں کی خوراک ہوگی درخت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج میں دکھایا گیا تھا اور اسے کفار کےلیے آزمائش بنا دیا گیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے تو پھر یہ درخت کیسے اگے گا ۔


دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ آیات جس سورۃ میں واقع ہے وہ سورت مکی ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا خاندان فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا ہے اس اعتبار سے بھی شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ لینا غلط ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 23 April 2025

کیا حضرت ہند نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبایا تھا ؟

کیا حضرت ہند نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبایا تھا ؟

محترم قارئینِ کرام : تاريخى كتابوں ميں منقول ہے كہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے حضرت امیر حمزه رضی اللہ عنہ كا كليجہ چاک كر ديا اور منہ ميں ڈال كر چبايا اور نگلنا چاہا ليكن نگل نہ سكى تو تهوک ديا ، اور كٹے ہوئے كانوں اور ناكوں كا پازيب اور ہار بنايا ۔ سچ یہ ہے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ روایت چند کتب احادیث تاریخ و تفاسیر میں وارد ہوئی ہے مگر اس کی سند منقطع ہے ۔ یعنی یہ روایت مرسل ضعیف ہے ۔ ابن كثير نے البدايہ والنہايہ ميں بغير سند كے نقل كيا ہے جو كہ ضعيف ہے ۔ ابن ہشام نے منقطع سند كے ساتھ نقل كيا ہے اور يہ بهى ضعيف ہے ۔ واقدى كى ایک روايت سخت ضعيف ہے ۔ دوسرے يہ كہ حقائق کے برعکس ہونے کے باعث اس کا متن منکر ہے ۔ سب سے پہلے ہم مذکورہ روایت کو دیکھتے ہیں : ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ مل کر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں ‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔


امام احمد نے مذکورہ روایت کو بیان کیا ہے جس کی سند یہ ہے : حدثنا عفان، حدثنا حماد، حدثنا عطاء بن السائب، عن الشعبي، عن ابن مسعود، أن النساء كن يوم أحد خلف المسلمين ۔۔۔ الخ ۔ (مسند احمد برقم : 4414)


مذکورہ سند میں امام عطاء بن سائب سے بیان کرنے والا راوی امام حماد بن سلمہ ہے جیسا کہ اس روایت کو امام ابن ابی شیبہ نے بھی بیان کیا ہے جس میں مکمل نام کی تصریح موجود ہے : جیسا کہ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اپنی سند سے مذکورہ روایت بیان کرتے ہیں : عفان , قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: أخبرنا عطاء بن السائب , عن الشعبي , عن ابن مسعود , أن النساء , كن يوم أحد خلف المسلمين۔۔۔الخ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ برقم: 36783،چشتی)


مذکورہ روایت کا بنیادی راوی امام عطاء بن سائب ہے جنکو اختلاط ہو گیا تھا اور حافظہ متغیر ہو گیاتھا جس کی وجہ سے متقدمین ناقدین نے اس کے تلامذہ کی تخصیص کی ہے کہ عطاء سے ان کے قدیم تلامذہ کا سماع صحیح ہے اور عطاء کے متاخرین تلامذہ کا سماع ضعیف ہے ۔


وقال يحيى القطان : ما سمعت أحدا من الناس يقول في عطاء بن السائب شيئا في حديثه القديم، قيل ليحيى: ما حدث سفيان وشعبة أصحيح هو؟ قال: نعم إلا حديثين كان شعبة يقول: سمعتهما بأخرة ۔

ترجمہ : امام یحییٰ کہتے ہیں میں نے عطاء بن سائب کی احادیث ان لوگوں سے سماع کی ہےجن کا سماع (عطاء) سے قدیم ہے ۔ تو امام یحییٰ سے کہا گیا کہ سفیان اور شعبہ کا سماع ان سے صحیح ہے ؟ تو کہا ہاں سوائے شعبہ کی ان دو احادیث کے جو انہوں نے (عطاء) سے آخری دور میں سنی ۔ (تاریخ الکبری للبخاری رقم : 3000)(الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم)


 وقال عبد الله: سألته (يعني أباه) عن عطاء بن السائب. فقال: صالح، من سمع منه ـ يعني قديماً ـ وقد تغير، فإنه ليس بذاك ۔

ترجمہ : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں میں نےاپنے والد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا یہ صالح ہے جب ان سے سماع کرنے والے قدیم (تلامذہ) ہو۔ اور جنہوں نے (اس کے) تغیر میں (سماع) کیا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے (یعنی ضعیف ہے) ۔ (العلل برقم : 882)


وقال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن عطاء بن السائب. قال: من سمع منه قديماً كان صحيحاً، ومن سمع منه حديثاً لم يكن بشيء، سمع منه قديماً شعبة، وسفيان ۔

ترجمہ : امام ابو طالب کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا : جس نے اس سے قدیم (زمانے) میں سماع کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ اور جس نے (بعدمیں ) سماع کیا ہے وہ کوئی شی نہیں ہے ۔ اور اس سے قدیم سماع کرنے والوں میں امام شعبہ اور امام سفیان ثوری ہیں ۔ (الجرح والتعدیل رقم : 1848،چشتی)


وكان ثقة. وقد روى عنه المتقدمون. وقد كان تغير حفظه بآخره واختلط في آخر عمره ۔

ترجمہ : یہ ثقہ تھا جب اس سے روایت کرنے والے اس کے قدیم (تلامذہ) ہوں ۔ اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا آخر میں اور اس کی عمر کے آخر میں اسکو اختلاط واقع ہو گیا ۔ (الطبقات الكبرى بن سعد رقم : 2510)


كوفى تابعي جائز الحديث وقال مرة كان شيخا قديما ثقة روى عن بن أبي أوفى ومن سمع من عطاء قديما فهو صحيح الحديث منهم سفيان الثوري فأما من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث منهم هشيم وخالد بن عبد الله الواسطي إلا أن عطاء كان بأخرة يتلقن ۔

ترجمہ : یہ کوفی تابعی ہے اور جائز الحدیث ہے اور پھر کہا یہ ثقہ تھا قدیم (زمانے کے حوالے سے)۔ ا س نے ابن ابی اوف سے ۔ اور جو عطاء سے قدیم تلامذہ کا سماع ہے وہ صحیح ہے حدیث میں ان میں سفیان ثوری ہے ۔ اور جن کا سماع ان سے آخری زمانہ کا ہے اس میں یہ مضطرب الحدیث تھا متاخرین سماع میں ھشیم ، خالد بن عبداللہ ہیں اسکے علاوہ عطاء آخری عمر میں تلقین بھی (قبول)کرتے ۔ (الثقات للعجلی رقم : 1237،چشتی)


نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول كان عطاء بن السائب محله الصدق قديما قبل ان يختلط صالح مستقيم الحديث ثم بأخرة تغير حفظه في حديثه تخاليط كثيرة وقديم السماع من عطاء سفيان وشعبة، وحديث البصريين الذين يحدثون عنه تخاليط كثيرة لانه قدم عليهم في آخر عمره، وما روى عنه ابن فضيل ففيه غلط واضطراب ۔

ترجمہ : امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو کہتے سنا : عطاء بن سائب سچا تھا ۔ اور محفوظ حدیث والا تھا کہ پھر عمر کے آخری حصے میں اس کا حافظہ متغیر ہو گیا ۔ اور اس کی احادیث میں کثیر غلطیاں واقع ہوئیں ہیں ۔ جس نے قدیم سماع کیا عطا ء سے ان میں سفیان اور شعبہ ہیں ۔ اور جو بصرہ میں اس نے لوگوں کو احادیثث بیان کی وہ اختلاط کی حالت کثیر غلطیاں کی ۔ کیونکہ عمر کے آخری حصے میں یہ وہاں آئے تھے ۔ اور جو ابن فضیل ان سے روایت کرتا ہے اس میں بھی غلط احادیث ہیں اور اضطراب ہے ۔ (الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم رقم : 1848)


امام ابو حاتم کا یہ کلام قابل غور ہے کہ جب دوسری بار امام عطاء بصرہ گئے تو ان کا حافظہ بہت زیادہ خراب تھا اور کثیر غلطیاں کی بصرہ میں روایت کرنے میں ۔


امام یحییٰ بن معین کے بقول امام حماد بن سلمہ کا سماع بھی امام عطاء سے قبل از اختلاط ہے جیسا کہ امام الدوری روایت کرتے ہیں : سمعت يحيى يقول حديث سفيان وشعبة بن الحجاج وحماد بن سلمة عن عطاء بن السائب مستقيم ۔

ترجمہ : امام یحییٰ بن معین سے سنا وہ کہتے ہیں کہ جو حدیث سفیان شعبہ اور حماد بن سلمہ نے عطاء سے بیان کی ہیں وہ محفوظ ہیں ۔ (تاریخ یحییٰ بن معین بروایت الددوری رقم : 1465،چشتی)


بعض ضدی حضرات اگر یہ دعویٰ کریں کہ مذکورہ روایت بھی حماد بن سلمہ نے بیان کی ہے عطاء سے تو روایت صحیح ہوئی تو یہ دعویٰ ابھی بھی ناقص ہے کیونکہ امام حماد بن سلمہ کا سماع عطاء سے قبل از اختلاط بھی ہے اور بعد از اختلاط بھی ثابت ہے ۔ جیسا کہ امام مغلطائی الحنفی اکمال میں امام دارقطنی کی کتاب الجرح والتعدیل سے نقل کرتے ہیں : وفي كتاب ” الجرح والتعديل ” عن الدارقطني: دخل عطاء البصرة دخلتين فسماع أيوب، وحماد بن سلمة في الدخلة الأولى صحيح. والدخلة الثانية فيه اختلاط ۔

ترجمہ : اور کتاب الجرح والتعدیل میں امام دارقطنی سے روایت ہے : کہ عطاء بصرہ میں دو مرتبہ آئے تو ان سے ایوب، حماد بن سلمہ نے پہلی بار جو سماع کیا جو کہ صحیح ہے ۔ اور جب وہ دوسری بار آئے تو تب ان میں اختلاط تھا ۔ (اكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال رقم : 3715)


اس سے ثابت ہوا کہ عطاء سے حماد بن سلمہ نے بصرہ میں دو بار سماع کیا ہے پہلی بار میں انکا سماع جب تھا تب عطاء ٹھیک تھا لیکن جب دوسری بار حماد بن سلمہ اور ایوب نے بصرہ میں سماع کیا تب اختلاط شدہ تھا عطا اور بقول امام ابو حاتم بصرہ میں دوسری بار جب یہ گئے تو ان کی روایات میں کثیر غلطیاں تھیں ۔


اب حماد سے عطاء کی روایات میں تمیز نہیں ہو سکتی کہ کونسی روایات قبل اختلاط ہیں اور کونسی بعد از اختلاط ہیں جس کی وجہ سے یہ روایت ساقط الاعتبار ہے ۔


اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام دارقطنی کی بنام الجرح والتعدیل کتاب موجود نہیں ہے اور وہ امام مغلطائی اس کتاب کا حوالہ دینے میں منفرد ہیں ۔ تو یہ کوئی علمی اعتراض نہیں کیونکہ امام مغلطائی حنفی ایک ثقہ جید محدث ہیں اور محدث جب کتاب کے حوالے سے کوئی روایت مصنف کی نقل کرے تووہ حجت ہوتی ہے ۔ باقی اس کتاب کا حوالہ دینے میں امام مغلطائی الحنفی منفرد بھی نہیں بلکہ امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ وہ اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال نقل کیے ہیں : ⏬


وقال الدارقطني في الجرح والتعديل: “ثقة ۔ (تہذیب التہذیب رقم : 199)


وقال الدارقطني في الجرح والتعديل ثقة ۔ (تہذیب التہذیب رقم : 15)


امام ابن حجر عسقلانی نے اس کتاب سے ۱۲ سے زیادہ جگہ پر فقط تہذیب میں اس کتاب کے حوالے سے امام دارقطنی کے اقوال لکھے ہیں اور اس کے علاوہ بھی اور محدثین نے نقل کیے ہیں اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال تو فقط ایک مثال کافی ہے ۔ نیز یہ جرح نقل کرنے میں امام مغلطائی منفرد نہیں بلکہ امام سلمی نے بھی یہ جرح امام دارقطنی نے بیان کی ہے : و قال الشيخ: دخل عطاء بن السائب البصرة، وجلس؛ فسماع أيوب وحماد بن سلمة في الرحلة الأولى صحيح، والرحلة الثانية فيه اختلاط ۔

ترجمہ : شیخ (دارقطنی) نے کہا کہ عطاء بن سائب بصرہ میں مجلس قائم کی پھر ان سے ایوب اور حماد بن سلمہ نے پہلی مرتبہ سماع کیا جو کہ صحیح ہےاور دوسری بار جب کیا (سماع) تو ان (عطاء) میں اختلاط تھا ۔ (سؤالات السلمي للدارقطني رقم : 478،چشتی)


اور جب تک اس علت کو رفع نہ کیا جائے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت قبل اختلاط سنی یا بعد از اختلاط تو یہ علت قائم رہے گی جسکی وجہ سے روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور روایت ضعیف رہے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ : علمہ ابن کثیر نے اس روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے عطاء بن سائب کے سبب جیسا کہ وہ لکھتے ہیں : وهذا إسناد فيه ضعف أيضا من جهة عطاء بن السائب ، اور اس سند میں ضعف ہے عطاء بن سائب کے سبب ۔(البداية والنهاية جلد ۴ صفحہ ۴۶) ۔ اسی طرح امام ہیثمی کا بھی یہی موقف ہے وہ فرماتے ہیں : رواه أحمد، وفيه عطاء بن السائب؛ وقد اختلط ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد رقم : 10072)


مزید یہ ہے حماد بن سلمہ کو بھی اختلاط ہو گیا تھا لیکن ان کی روایت بعدا ز اختلاط مطلق ضعیف تو نہیں ہوتیں لیکن ان کی روایات میں نکارت آگئی تھیں ۔ اور امام شعبی کا حضرت ابن مسعود سے سماع نہیں تھا لیکن یہ علت روایت کی صیحت کے منافی نہیں کیونکہ امام شعبی کی مرسیل حجت ہوتی ہیں ائمہ کے نزدیک ۔ اس لیے اصل علت اس روایت میں عطاء کا اختلاط اور حماد کا ان سے سماع کی تمیز نہیں قبل اور بعد اختلاط میں ۔


حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا ۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی الله عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا ۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے جیسا کہ دشمنانِ صحابہ نے دکھانے کی کوشش کی ہے ۔


حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے ، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ۔ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ، جناب جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ۔ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ میں فوت ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے ، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو ۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں ۔ اسی بات کو امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان ”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ“ کے تحت بیان کیا ہے ۔


اب یہ بھی دیکھیں کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ جب بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول كرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں (الاصابة فی تمییزالصحابة) ۔ لیکن اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی ؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کےلیے فرمایا ۔ حالانکہ حضرت ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین تر تھا ۔ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا، کلیجہ نکال کر چبانا ۔ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہو چکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہیے تھا نا ؟ ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محبوب عمِ محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو ”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“ دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ قرار دیا گیا ۔ چہ معنی دارد ؟


مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد حضرت ہندہ کا عرض کرنا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ۔ یہ تو الفاظ تھے حضرت ہندہ کے ۔ جواب میں سيد الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟ ”وایضاً والذی نفسی بیدہ“ اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میرا بھی یہی حال ہے ۔ (یعنی حضرت ہند رضی اللہ عنہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں ۔ یہ نہیں فرمایا : تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے ، میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے “ یہ نہیں فرمایا ، بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا ۔


فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے مگر محبت و عقیدت سے بھر پور وہ الفاظ ”وایضا والذی نفسی بیدہ“ کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہو سکے ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہاں عنوان قائم کیا ہے : ”باب ذكر  ہند بنت عتبہ“ ۔ عن عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ: «وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟ قَالَ: «لاَ أُرَاهُ إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ ۔ (صحيح بخارى كتاب مناقب الانصار باب ذكر هند بنت عتبہ،چشتی)

ترجمہ : عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” اس میں ابھی اور ترقی ہو گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے “ پھر ہند نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور کے مطابق ہونا چاہیے ۔


حضرت ہند رضی اللہ عنہ نے نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اسلام پر بيعت كيا ۔ بيعت كے دوران ایک شرط پر سوال بهى كيا ۔ اس كے بعد نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنى محبت كا اظہار كيا ۔ اس كے بعد نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اپنى محبت كا اظہار كيا ۔ پهر حضت ہنده نے  نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتوى پوچها اور آپ نے اس كا جواب ديا ۔ گويا اسلام لانے كے بعد كہيں كسى طرح كى ناگوارى كا اظہار نہيں ہے بلكہ ایک دوسرے سے محبت كا اظہار ہے ، اور نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان كے گهر كو دار الامن قرار ديا ۔


حقيقت يہى ہے كہ حضرت سيدنا امیر حمزه رضی اللہ عنہ كى شہادت ميں حضرت ہند رضی اللہ عنہا كا كوئى ہاتھ نہيں ہے ، يہ صرف نسلِ ابن سباء كا من گھڑت قصہ ہے ۔ جو ہميشہ بنو اميہ كو بنو ہاشم كا دشمن بنا كر دكهانے كى كوشش كرتے رہے ہيں اور آج کل یہ کام ہمارے کچھ نادان دوست سنی کہلانے والے کر رہے ہیں ۔ تاكہ صحابہ رضی اللہ عنہم كى ساكھ كمزور ہو اور كتاب و سنت كى  بنياديں ہل جائيں ليكن كتاب و سنت كے  متوالے جب تک زنده ہيں دشمنانِ اسلام كے مذموم ارادوں كو پورا نہيں ہونے ديں گے ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل

اللہ کی راہ میں لڑنے اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے فضائل محترم قارئینِ کرام : اہلِ ایمان کا جہادوطن کےلیے نہیں اسلام کےلیے ہے ۔ اسلام نے اپن...