Wednesday 6 November 2024

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب










محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی الزامات دہرانے سے بعض نہیں آتے جن کے جوابات ہمارے علماء نے دے کر وہابی ، دیوبندی علماء کی زبانوں پر تالے لگا لگا دیے ، انہی الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ اقبال و قائد اعظم کی تکفیر کی (یاد رہے آج کل خود کو اہلسنت کہلانے والے دیابنہ اور وہابیہ اور وہابیہ کا یہ مشن بخوبی سر انجام دے رہے ہیں ۔ فافہم ۔) آئیے اس الزام کا ہم تفصیلی جائزہ لیتے ہیں ۔


علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف فتوی دینے کے سلسلے میں تجانبِ اہل السنتہ کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر وہابی : البریلویۃ صفحہ ٧۔٥۔٢)


حالانکہ یہ مولانا محمد طیب کی انفرادی رائے تھی جسے علماء اہل سنت کی جماعتی طور پر تائید حاصل نہیں ہوئی ۔ شخص واحد کی انفرادی رائے کو پوری جماعت پر ٹھوس دینا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں ہے ۔ 


احسان الٰہی ظہیر وہابی لکھتا ہے : ہم یہ عقائد و معتقدات اور ان کے دلائل خود احمد رضا بریلوی ، ان کے خواص اور اس گروہ کے خواص و عوام کے نزدیک معتمد حضرات اور ان نمایاں شخصیات سے نقل کرینگے جو ان کے نزدیک بغیر کسی اختلاف کے مسلم ہوں ۔ (احسان الٰہی ظہیر وہابی : البریلویۃ صفحہ٥٦) 


اَب ان لوگوں سے کون پوچھے کہ تجانب اہل السنتہ کے مصنف مولانا محمد طیب کہاں کی مسلم نمایاں اور غیر متنازع فیہ شخصیت ہیں ؟ خود احسان الٰہی ظہیر وہابی نے بریلویوں کے جن زعماء کا ذکر کیا ہے ۔ (احسان الٰہی ظہیر وہابی : البریلویۃ صفحہ ٤۔٥١)


ان میں مولانا محمد طیب کا ذکر نہیں ہے ، یہ کہاں کی دیانت ہے کہ ان کے اقوال تمام اہل سنت کے سر تھوپ دئے جائیں ؟ 


علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مولانا طیب صاحب ہمدانی مصنف تجانبِ اہلِ سنت ''علمی اعتبار سے کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہیں، وہ مولانا حشمت علی کے داماد تھے اور ان کا مبلغ علم فقط اتنا تھا کہ وہ شرقپور کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام تھے اور بس '' تجانب اہل سنت میں جو کچھ انہوں نے لکھا ، وہ ان کے ذاتی خیالات تھے ، اہل سنت کے پانچ ہزار علماء و مشائخ نے بنارس کانفرنس میں قرار داد قیام پاکستان منظور کرکے مولانا حشمت علی کے سیاسی افکار اور تجانب اہل سنت'' کے مندرجات کو عملاً رد کر دیا تھا ، لہٰذا سیاسی نظریات میں ایک غیر معروف مسجد کے غیر معروف امام (مولانا طیب) اور غیر مستند شخص کے سیاسی خیالات کو سوادِ اعظم اہل سنت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ، نہ یہ شخص ہمارے لیے حجت ہے اور نہ اس کے سیاسی افکار ۔ (علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ : ماہنامہ فیضان فیصل آباد شمارہ اپریل ١٩٧٨ء صفحہ ٢٨۔٢٧،چشتی)


استاذی المکرّم غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تجانبِ اہل سنت کسی غیر معروف شخص کی تصنیف ہے جو ہمارے نزدےک قطعاً قابلِ اعتماد نہیں ہے ، لہٰذا اہل سنت کے مسلمات میں اس کتاب کو شامل کرنا قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کا کوئی حوالہ ہم پر حجت نہیں ہے ، سالہا سال سے یہ وضاحت اہل سنت کی طرف سے ہو چکی ہے کہ ہم اس کے کسی حوالہ کے ذمہ دار نہیں ۔ ( قلمی یا دداشت حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر ٢٩ اکتوبر ١٩٨٤ء محفوظ نزد راقم (شرف قادری)


مسلمان کو کافر و مشرک کہنا : ⏬


محترم قارئینِ کرام : جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کل اکثر اسلام دشمن قوتوں کی طرف سے مسلمانانِ اہلسنت پر شرک و کفر کے فتوے بلا سوچے سمجھے جڑ دیے جاتے ہیں کبھی کسی مسلمان کو مشرک کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی کسی مسلمان کو ابوجہل کہہ دیتے ہیں ۔ کبھی ہندو کہہ دیتے تو کبھی قادیانی وغیرہ ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ حدیثِ مبارکہ پڑھتے ہیں ۔ یاد رہے اس حدیث پاک کی اسناد کو آئمہ حدیث نے حسن اور جیّد قرار دیا ہے حوالے موجود ہیں اللہ تعالیٰ اہلِ اسلام کو ہر فتنہ کے شر و فساد سے بچائے آمین : ⬇


سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان مما اخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی ؟ قال بل الرامی ۔

ترجمہ : یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ (صحیح ابنِ حبان جلد اوّل صفحہ 282 عربی مطبوعہ موسس الرسالہ)


یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا ۔

اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر ۱۷۵یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے ۔ (تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵، امجد اکیڈمی لاہور۔) ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۲۶۵ دارالفکر بیروت۔چشتی)

علاوہ ازیں یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۶۶۔ ۳…مسند ابو یعلی موصلی۔( تفسیر ابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵) (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان جلد۱صفحہ۱۴۹ برقم ۱۸۔ )(صحیح ابن حبان،للبلبان جلد اول صفحہ۲۴۸ برقم ۸۱، بیروت۔)(المعجم الکبیر للطبرانی،جلد۲۰صفحہ۸۸ برقم ۱۶۹ ،بیروت ۔)(شرح مشکل الآثار للطحاوی، جلد۲ صفحہ۳۲۴ برقم ۸۶۵، بیروت۔چشتی)(مسند الشامیین للطبرانی ، جلد۲صفحہ۲۵۴برقم ۱۲۹۱، بیروت۔)(کشف الاستارعن زوائد البزار للہیثمی جلد۱صفحہ۹۹ برقم ۱۷۵، بیروت۔)(جامع المسانید والسنن ،لابن کثیر جلد۳صفحہ۳۵۳،۳۵۴ برقم ۱۸۴۲، بیروت۔)(جامع الاحادیث الکبیر،للسیوطی جلد۳صفحہ۱۲۱ برقم ۸۱۳۲،بیروت ۔)(کنزالعمال،للمتقی ہندی جلد۳صفحہ۸۷۲ برقم ۸۹۸۵۔)(ناصر الدین البانی غیر مقلد سلفی وہابی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیئے!سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم الحدیث ۳۲۰۱۔ ۱۴…کتاب المعرفۃ والتاریخ للفسوی جلد۲ صفحہ نمبر ۳۵۸)


ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا بذات خود مشرک ہے ۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کی طرف کفر،شرک اور بے ایمانی کی نسبت کرنے سے قائل خود ان چیزوں کا حقدار ہوجاتا ہے۔مثلاً : ⬇


ارشاد نبوی ہے : من کفر مسلما فقد کفر ۔ ترجمہ : جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)


مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ ۔

ترجمہ : جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا ۔ ( مسلم جلد۱صفحہ۵۷،مشکوٰۃ صفحہ ۴۱۱)


مزید ارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما ۔

ترجمہ : جس نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کہا : اے کافر! … تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ ۹۰۱ واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)


یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔


امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے : من اکفر اخاہ بغیر تاویل فھو کما قال ۔

ترجمہ : جس نے بغیر تاویل کے اپنے (اسلامی) بھائی کو کافر قرار دیا تو وہ خود کافر ہوجائے گا ۔ (بخاری جلد۲ صفحہ۹۰۱۔چشتی)


ان دلائل اور مستند حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک ان دلائل سے واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ کافر ومشرک قرار دینا خود کافر اور مشرک بننا ہے ۔ العیاذباللہ تعالیٰ ۔ اے بات بات پر مسلمانان اہلسنت کو اپنی جہالت کی وجہ سے کافر و مشرک کہنے والو اپنے ایمان کی فکر کرو کہیں تم خود کافر و مشرک تو نہیں ہو چکے ہو ، بغیر کفر و شرک ثابت کیئے کسی مسلمان کو کافر کہنے والو سوچو ۔


شارح بخاری فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اگر کسی مسلمان کو کوئی شخص کافر یا ابو جہل کافر سمجھ کر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہے اور اگر بطور گالی کہتا ہے تو خود فاسقِ معلن اور تعزیر کا مستحق ہے ۔ اور صفحہ نمبر 369 پر لکھتے ہیں ایسے شخص کی امامت جائز نہیں ہے ۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 368،چشتی)


اللہ عزّوجل اور اس کے رسول صلی للہ علیہ والہ والہ وسلم نے اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد ایمان پر رکھی ہے۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ہدایت عطا فرمائی ہے وہاں ان باتوں سے بھی منع فرمایا جو اخوت اور بھائی چارے کی فضاء کو مکدر کر دیتی ہیں۔ ایک مسلما ن کا دوسرے مسلمان کو گالی دینا، اس کی غیبت کرنا، چغلی کرنا وغیرہ ایسے عوامل ہیں جو دلوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن و سنت میں تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ ایک مومن کفر کی طرف لوٹنا اتنا ہی ناپسند کرتا ہے جتنا آگ میں زندہ ڈال دیا جانا۔ اسی طرح اپنے ایمان کی اہمیت کو جانتے ہوئے وہ اس بات کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ اسے کوئی ’’کافر‘‘ کہے یا زمرہ اہل اسلام سے خارج ہونے کا لیبل اس پر چسپاں کرے۔ دور حاضر میں یہ بات بہت عام نظر آنے لگی ہے کہ خواص و عوام ایک دوسرے کو بلا جھجک کا فر کہہ دیتے ہیں اور اس عمل سے قبل اپنی طرف نظر بھی نہیں کرتے کہ وہ اس کے اہل ہیں بھی یا نہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ اپنی کہی بات کو اس قدر مستند اور نا قابل تردید سمجھتے ہیں کہ جو ان کے کہے کو کافر نہ کہے وہ اسے بھی دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بارے میں ارشاد فرمایا : اذا اکفر الرجل اخاہ فقد باء بھااحدھما ۔

ترجمہ : جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایما امری قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ان کان کما قال و الا رجعت علیہ ۔

ترجمہ : جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرر لوٹے گا۔اگر وہ شخص واقعی کافر ہو گیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا ۔


اس حدیث سے یہ معلوم بھی ہو تا ہے کہ کسی کا کفر اگر واقعی ثابت ہو چکا ہو تو اسے کا فر کہنا جائز ہے ورنہ اس کا وبال کہنا والے پر ہو تا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : و من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ و لیس کذلک الا عاد علیہ ۔ (مسلم کتاب الایمان:باب :بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر)

ترجمہ : اور جس نے کسی شخص کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کفر اس کی طرف لوٹ آئے گا ۔


حضرت امام بخاری علیہ الرحمۃ نے یہاں ’’بغیر تاویل‘‘ کی شرط لگائی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی تکفیر میں متاول ہو تو وہ معذورکہلائے گا اور اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منافق کہنے کو عذر فرمایا اور انہیں تنبیہ بھی فرمائی کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جنگی احوال کی خبر کفار کو دینا نفاق ہے۔ اسی طرح جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت فرمائی تو ایک صحابی نماز سے الگ ہو گئے اور انہوں نے اپنی نماز الگ ادا کر لی۔ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ منافق ہے۔ وہ صحابی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اپنا عذر پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا : أ فتان انت ۔

ترجمہ : اے معاذ کیا تم فتنہ میں ڈالنے والے ہو ؟ پھر انہیں مختصر سورتیں تلاوت کرنے کی نصیحت فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کافر نہیں فرمایا کیونکہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو جماعت ترک کرنے کی وجہ سے منافق گمان کیا تھا ۔ (عمدۃ القاری جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۷۔۱۵۸)


حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ اس بارے میں ارشادفرماتے ہیں: فتاملنا فی ھذا الحدیث طلبا منا للمرادبہ ما ھو؟فوجدنا من قال لصاحبہ :یا کافر معناہ انہ کافر لأن الذی ھو علیہ الکفر فاذا کان الذی علیہ لیس بکفر ،وکان ایمانا کان جاعلہ کافرا جاعل الایمان کفرا،و کان بذلک کافرا باللہ تعالیٰ لأن من کفر بایمان اللہ تعالیٰ فقد کفر باللہ :و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہ ،و ھو بالاخرۃ من الخاسرین ،فھذا أحسن ما وفقنا علیہ من تاویل ھذا الحدیث و اللہ نسالہ التوفیق ۔ (مشکل الاثار باب بیان مشکل ما روی عنہ علیہ السلام فیمن قال لأخیہ :یا کافر،چشتی)

ترجمہ : ہم نے اس حدیث کی مراد جاننے کےلیے اس میں غور کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ جس شخص نے اپنے بھائی سے کہا اے کافر! اس کا مطلب ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ یہ وہ ہے جس پر کفر ہے ، پس اگر وہ کافر نہ ہو اور ایمان والا ہو تو اسے کافر کہنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے ایمان کو کفر کہا ہے۔ اس وجہ سے وہ در حقیقت اللہ کا انکار کر نے والا ہے۔ جس نے ایمان کو کفر کہا اس نے اللہ کا انکار کیا۔ جس نے ایمان کا انکار کیا اس کے اعمال بر باد ہو گئے اور وہ آخرت میں خسارا پانے والوں میں ہوگا۔ یہ اس حدیث کی سب سے بہترین تاویل ہے جس کی ہمیں توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے ہم توفیق کا سوال کرتے ہیں ۔


حضرت امام طحاوی علیہ الرحمۃ کے بیان سے یہ واضح ہو تا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت تو یہ کہ جس شخص کو اس نے کافر کہا وہ واقعی میں کافر ہو اور دوسری صورت یہ کہ وہ کافر نہ ہو۔ جب اس میں وجہ کفر نہ پائی گئی تو مسلمان کا اس کو کافر کہنا اس کو خود کافر بنا دیتا ہے کیونکہ وہ اب اس کے ایمان کو کفر سے تعبیر کر رہا ہے جو کفر ہے ۔

ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ’’کافر‘‘ کہے تو محض اس عمل سے اسلام سے دونوں میں سے کوئی بھی خارج نہیں ہوگا۔ کافر ہونے کی صورت کو ہم امام طحاوی کے قول کی روشنی میں بیان کر چکے ہیں۔ یہ ایک وعید ہے تا کہ اہل اسلام ایک دوسرے کو کافر بنانے سے احتراز کریں۔ دوسری بات یہ کہ یہ حدیث مبارکہ خبر واحد ہے جس کی وجہ سے اس کو تکفیر کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔ اس حدیث کے بارے میں شرح مواقف میں ہے: (الثالث قولہ علیہ السلام :من قال لاخیہ المسلم یا کافر فقد باء بہ)ای بالکفر(أحدھما قلنا آحاد )و قد اجمعت الامۃ علی ان انکار الاحاد لیس کفرا (و)مع ذلک نقول(المراد مع اعتقاد انہ مسلم فان من ظن بمسلم انہ یھودی أو نصرانی فقال لہ یا کافر لم یکن ذلک کفرا بالاجماع)۔(شرح المواقفـ:ج:۸/ص:۳۴۴،سید شریف جرجانی ،دار الفکر ،قم ایران،چشتی)


خلاصہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف کفرضرور لوٹتا ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اور امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کا انکار کفر نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ یہ بات اس کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہے کہ یہ مسلمان ہے ۔پس جس کسی نے مسلمان کے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ یہودی ہے یا نصرانی ہے تو اس پر اجماع ہے کہ وہ کہنے والا کافر نہیں ہو گا ۔ اس بارے میں حضرت امام نووی علیہ الرحمۃ کے حوالہ سے امام خانی لکھتے ہیں:قال النووی فی الاذکار :قول المسلم لأخیہ یاکافر یحرم تحریما غلیظا و یمکن حمل قولہ و یمکن حمل قولہ (یحرم تحریما غلیظا)علی الکفر أیضا کما فی الروضۃ لکنہ قال فی شرح مسلم ما حاصلہ :مذھب أھل الحق انہ لا یکفر المسلم بالمعاصی کالقتل و الزنا و کذا قولہ لأخیہ یا کافر من غیر اعتقاد بطلان دین الاسلام ذکر ذلک عند شرح حدیث :اذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بھا احدھما ۔و الحاصل ان المفھوم من جملۃ اقوال النووی انہ لا یکفر بمجرد ھذا اللفظ بل لا بد معہ من ان یعتقد ان ما اتصف بہ شخص من الاسلام کفر ۔ (رسالۃ فی الفاظ الکفرصفحہ ۴۰۱ قاسم بن صلاح الدین خانی دار ایلاف الدولیۃ للنشر و التوزیع کویت،چشتی)


امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اذکار میں فرمایا ہے کہ مسلمان کا اپنے بھائی کو اے کافر کہنا بہت شدید حرام ہے آپ کے قول کو کفر پر محمول کرنا بھی ممکن ہے۔جیسا کہ روضہ میں ہے لیکن آپ نے شرح صحیح مسلم میں بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ کوئی مسلمان گناہ سے کافر نہیں ہوتا جیسے قتل کرنا ،زنا کرنا یا جیسے اپنے بھائی کو اے کافر کہنا،اس کے دین اسلام کے باطل نہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہوئے۔آپ نے اس کا ذکر درج ذیل حدیث کی شرح میں ذکر کیا ہے ۔ جس شخص نے اپنے بھائی سے اے کافر کہا تو کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور لوٹے گااگر وہ شخص واقعی کافر ہوگیا تھا تو فبہا ورنہ کہنے والے کی طرف کفر لوٹ آئے گا ۔ حضرت امام نووی کے تمام اقوال کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص محض اس لفظ سے کافر نہیں ہو گا بلکہ اس کے کافر ہونے کے لیے یہ عقیدہ ضروری ہے کہ یہ شخص جو اسلام کے ساتھ متصف ہے اس کا اسلام کفر ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday 15 October 2024

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں

غیر مقلدین کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے اور دیوبندی بھی وہابی ہی ہیں
















محترم قارئینِ کرام : بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہابی تو اللہ تعالیٰ کا نام ہے حالانکہ یا د رہے اللہ تعالیٰ کا نام وہابی نہیں ہے بلکہ وہاب ہے ۔ غیر مقلّدین اہل حدیث کو محمد بن عبدالوہاب نجدی کی پیر وی ہی کے سبب وہابی کہا جا تا ہے لیکن اس نام کو پسند کرتے ہوئے مشہور غیر مقلّدین مولوی محمد حسین بٹالوی نے انگریز گورنمنٹ سے بڑی کوششو ں کے بعد نام جگہ اہل حدیث منظور کرایا ۔وہابیوں نے انگریز کی منت کر کے فرقہ اہلحدیث نام اگریز سے منظور کرایامحمد حسین بٹالوی وہابی کی درخواست پر انگریز سرکار نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا اور وہابیوں کےلیے اہلحدیث نام کا اجراء ہوا ۔ (تاریخ اہلحدیث جلد 1 صفحہ 124 بہاء الدین)


محمد حسین بٹالوی وہابی کی درخواست پر انگریز سرکار نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا اور وہابیوں کےلیئے اہلحدیث نام کا اجراء ہوا ۔ (تاریخ اہلحدیث  جلد 1 صفحہ 124 بہاء الدین)


مشہور غیر مقلد وہابی عبد المجید سوہدروی  لکھتا ہے : وہابی نام سے اہلحدیث نام محمد حسین بٹالوی وہابی  کی  اپیل پر انگریز سرکار نے منظور کیا دفاتر سے وہابی نام منسوخ ہو اور جماعتِ وہابیہ کو اہلحدیث سے موسوم کیا گیا ۔ (سیرۃ ثنائی صفحہ نمبر 452 عبد المجید سوہدروی غیرمقلد)


محقق العصر اہلحدیث وہابی حجرات عبد القادر حصاروی لکھتا ہے : انگریز گورنمنٹ نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا ۔ (فتاویٰ حصاریّہ جلد اول صفحہ نمبر 567 محقق العصر اہلحدیث عبد القادر حصاروی)


نواب صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی لکھتا ہے : انگریز سرکار نے مہربانی فرمائی وہابی سے اہلحدیث نام جماعت کا منظور کیا ۔ (مآثر صدیقی حصّہ اول صفحہ نمبر 162 نواب صدیق حسن خان غیر مقلد)


مشہور غیر مقلد شیخ الحدیث وہابیہ اسماعیل سلفی لکھتا ہے : جماعت نے اپنا مقصد اسی دن کھو دیا تھا جِس دن سرکار انگلشیہ (انگریز) سے نیا نام اہلحدیث لیا اور تصدیق کرادی تھی ۔ (نگارشات جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 382)


وہابی نام  سے اہلحدیث نام محمد حسین بٹالوی کی کوششوں سے انگریز سرکار نے منظور کیا اور یوں دفاتر میں وہابی کی جگہ اہلحدیث لکھا جانے لگا ۔ (سیرۃ ثنائی صفحہ 452 ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد وہابی)


ثناء اللہ امرتسری وہابی لکھتا ہے : وہابیوں نے وہابی نام انگریز کو درخواست دے کر لکھا چھٹی گورنر ہند  انگریز سرکار  تین (3) دسمبر  1879 چھٹی نمبر  1758 )۔(رسائل ثنائیہ صفحہ نمبر 102  مکتبہ محمدیہ اردو بازار لاہور)


وہابی فرقہ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی طرف منسوب ہے اور آل سعود نے ابن وہاب نجدی اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر حرمین پر قبضہ کیا ، اور آل سعود نے ابن وہاب نجدی کی وہابی تعلیمات کو پھیلایا 1760 میں پہلے مسیحی مین (یعنی عیسائی ) حاکم ہوا اس کے بعد عبد العزیز بن سعود حاکم ہوا ۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ 57 ، 58 نواب صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی) پہچانیے انہیں ؟


شیخ الاسلام دیوبند حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی صدر مدرس دارلعلوم دیوبند اپنی کتاب الشہاب الثاقب اور نقش حیات میں لکھتا ہے : صاحبو! محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتداء تیرھویں صدی بحد عرب سے ظاہر ہوا۔ اور چونکہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا ، اس لئے اس نے اہلسنت والجماعت میں قتل و قتال کیا، اُن کے قتل کرنے کو ثواب و رحمت شمار کرتا رہا۔سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت ہی گستاخی کے الفاظ استعال کئے۔ محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ یہ تھا کہ تمام جملہ اہل عالم و تمام مسلمنان مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل و قتال کرنا جائز بلکہ واجب ہے۔ ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کا گروہ زیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو بدعت حرام لکھتا ہے۔ بعض ان میں کے سفر و زیارت کو معاذ اللہ زنا کے درجے میں پہنچاتے ہیں۔شان نبوت اور حضرت رسالت میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مماثل ذات سرور کائنات خیال کرتے ہیں ۔ وہابیہ ، تمام مسلمانوں کو ادنی شبہ خیالی سے کافر و مشرک کہتے ہیں اور ان کے اموال و دماء‌کو حلال جانتے ہیں ۔ تبرکات کا ادب وہابیہ کے نزدیک شرک و کفر اور حرام ہے۔ اکابر امت کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کرنا وہابیہ کا معمول ہے۔ وہابی، مسلمانوں کو ذراذرا سی بات میں مشرک و کافر قرار دیتے ہیں اور ان کے مال و خون کو مباح جانتے ہیں اور جانتے تھے۔ وہابیہ بارگاہ نبوت میں گستاخانہ کلمات استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحات 42 تا 47، ص 52 ، 54، 63،چشتی)(نقش حیات صفحات 120، 122، 123، 126، 432)


علمائے دیوبند کی متفقہ کتاب المھند میں لکھا ہے ۔ ان (وہابیوں) کا عقیدہ ہے کہ بس وہی مسلمان ہے جو ان کے عقیدے پر ہو جو ان کے عقیدے کے خلاف ہے وہ مشرک ہے ۔ اور ان کے عقیدہ کے خلاف اہلسنت تھے اسلئے ان کا قتل مباح قرار دیا ۔


دیوبندیوں کے شیخ الاسلام کا فتویٰ آپ نے پڑھ لیا ۔ اب ذرا کچھ لطیفے بھی پڑھیے : ⏬


دیوبندیوں کے شیخ الکل رشید احمد‌ گنگوہی فتویٰ رشیدیہ میں لکھتا ہے ۔ ان کے عقائد عمدہ تھے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ)


معلوم ہوا کے گنگوہی صاحب کے نزدیک تمام اہلسنت کو مشرک سمجھنا اور ان کا قتل جائز و حلال جاننا یہ عمدہ عقیدہ ہے ۔


گنگوہی مزید لکھتا ہے ۔ وہ (عبدالوہاب نجدی) اور اُن کے مقتدی اچھے ہیں ۔ 


اور دیگر سب علمائے دیوبند کہتے ہیں وہ خارجی اور باغی تھے ۔ معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب کے نزدیک خارجی اور باغی اچھے ہوتے ہیں ۔


اب اگر گنگوہی صاحب کو سچا کہا جائے تو حسین احمد ٹانڈوی صاحب جھوٹے اور اگر حسین احمد ٹانڈوی صاحب کو سچا کہا جائے تو گنگوہی صاحب جھوٹے ۔ فیصلہ ان دونوں کے ماننے والوں پر ہے ۔


خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں‌کا خرد

جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے


وہابی کی حقیقت : ⏬


حسین احمد مدنی ٹانڈوی نے مزید لکھتا ہے : وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالۃ جانتے ہیں‌اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ وہیہ خبیثہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہوگئے ہیں، چنانچہ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعویٰ حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔ لیکن عمل درآمد ان کا ہرگز جملہ مسائل میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مزہب پر نہیں ہے ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ 62،63)


اب ذرا دیوبندیوں کے وہابی ہونے کا اعتراف بھی پڑھیے : ⏬


اشرف السوانح جلد نمبر 1 صٖحہ نمبر 45 پر ہے ۔ جن دنوں اشرف علی تھانوی صاحب مدرسہ جامع العلوم کان پور میں مدرس تھے انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ مدرسہ کے پڑوس کی کچھ خواتین شیرینی لائیں تاکہ کلام پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیا جائے۔ مدرسے کے طلباء نے ایصال ثواب نہ کیا اور مٹھائی ہڑپ کر گئے۔ اس پر خوب ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ تھانوی صاحب کو ہنگامے کی خبر ہوئی اور وہ آئے اور با آواز بلند کہا۔ بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں ۔ یہاں فاتحہ نیاز کےلئے کچھ نہ لایا کرو ۔


سوانح یوسف کاندھلوی صفحہ نمبر 192 پر ہے ۔ ہم بڑے سخت وہابی ہیں ۔


دیوبندی تبلیغی گروپ کے بڑے شیخ محمد زکریا صاحب لکھتے ہیں ۔ میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں ۔ (سوانح محمد یوسف کاندھلوی صحہ 193 مصنف محمد ثانی حسنی و منظور نعمانی)


آپ نے پڑھا کہ مدرسہ دیوبند کے صدر مدرس جناب حسین احمد مدنی ٹانڈوی نے وہابیوں کو طائفہ شنیعہ اور خبیثہ (برے اور پلید گندے لوگوں کا گروہ) اور گستاخ لکھا ہے اور جناب اشرف علی تھانوی و شیخ‌محمد زکریا وغیرہ خود کو بڑے فخر سے وہابی لکھ رہے ہیں، ان کے اعتراف سے ان کی اصلیت و حقیقت کا اندازہ کریں ۔


عبدالوہاب نجدی خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا ۔ سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت ہی گستاخی کے الفاظ استعمال کیے ۔ تمام جملہ اہل عالم و تمام مسلمانان ک مشرک و کافرجانتا تھا ۔ وہابیہ بارگاہ نبوت میں گستخانہ کلمات استعمال کرتے رہتے ہیں ۔ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں ۔ اور دیوبندی علماء وہابی کہلانے کے دعوایدار بھی ہیں : ⏬


الجھا ہے پاوں یار کا ذلف دراز میں

لو ! آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا


وہابی یعنی وہاب عزوجل سے نکلا کا جواب وہابی عبدالوہاب نجدی سے نکلا ہے ۔ اور نجدی کے تمام عقائد دیوبندیوں ، غیرمقلدوں میں پائے جاتے ہیں ۔اور اللہ کے نام پر وہابی کہلانے کا جواب : قادیانی ، احمدی بھی کہلاتے ہیں ۔ چنانچہ اس طرح تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یعنی اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ نام پکارا جاتا ہے ۔ تو پھر اس کا تم کیا جواب دو گے ؟


وہابی کا لفظ ، کبھی تو آپ لوگ گالی سمجھ کر انگریز حکومت کو درخواست دیتے ہو کہ ہمیں وہابی نہ کہا جائے اور ہمیں اہلحدیث کہا جائے ، اور جب موڈ بدلتا ہے اور طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے تو کہتے ہو کہ وہابی کا معنی ہے وہاب والا ، ﷲ والا ۔


دیوبندی وہابی ہی ہیں زباں میری ہے بات اُن کی : ⏬


1 : دیوبندیوں کے امام ربانی غوث اعظم رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں : محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے ۔ (فتاوی رشیدیہ جلد 1 صفحہ 11)


2 : دیوبندی دھرم کے حکیم الامت اور ساتھ ہی مجدد فرماتے ہیں : "بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں یہاں فاتحہ نیاز کےلیے کچھ مت لایا کرو ۔ (اشرف السوانح جلد 1 صفحہ 45)


3 : دوسری بار شہادت دیتے ہوئے دیوبندی دھرم کے مجدد فرماتے ہیں:"اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں ۔ (الافاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 67 جلد 2 صفحہ 221 )


4 : اور ایک جگہ دیوبندی مجدد فرماتے ہیں : بدعتی کے معنی ہیں با ادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب با ایمان ۔ (الافاضات الیومیہ جلد  صفحہ 326)


5 : دیوبندی وہابی دھرم کے برج کے طور پر کام کرنے والے ندوہ کے بڑے ادیب و مورخ مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:" ہندوستان کی تحریک وہابیت یعنی سید صاحب کی تحریک تجدید و امامت, نجد کی ہابی تحریک ہی کی ایک شاخ ہے اس میں شک نہیں دونوں تحریکوں کا ماخذ ایک قصد ایک اور دونوں کو چلانے والے کتاب و سنت کے علمدار یکساں سر گرم مجاہد تھے ۔ (محمد بن عبدالوہاب صفحہ 7 ، 8)


6 : دیوبندیوں کے حکیم اشرف علی تھانوی کہے ہیں : ایک صاحب بصیرت و تجربہ کہا کرتے تھے کہ ان دیوبندیوں وہابیوں کو اپنی قوت معلوم نہیں ۔ (الافاضات الیومیہ جلد 9 صفحہ 249،چشتی)


7 : دیوبندیوں کے قطب ارشاد و مجدد رشید گنگوہی فرماتے ہیں : اس وقت اور اطراف میں وہابی متبع سنت اور دیندار کو کہتے ہیں ۔ (فتاوی رشیدیہ/ 96)


8 : دیوبندیوں کی معتبر لغت میں وہابی کے یہ معنی لکھے ہیں : وہابی کے معنی ، محمد ابن عبدالوہاب کا پیرو فرقہ جو صوفیوں کا مد مقابل خیال کیا جاتا ہے ۔ : (فیروزاللغات صفحہ 548 )


9 : دیوبندیوں کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کے مصنف زکریا کاندھلوی کا شہادت نامہ : مولوی صاحب ! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں ۔ (سوانح یوسف کاندھلوی صفحہ 193،چشتی)


10 : دیوبندی دھرم کے سب سے بڑے مناظر منظور نعمانی کا قبول نامہ : ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں ۔ (سوانح یوسف کاندھلوی صفحہ 192)


دیوبندی دھرم کے مجدد ، شیخ الحدیث ، حکیم الامت ، مناظر اعظم ، غوث اور قطب الارشاد کی شہادتوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ : دیوبندی خالص وہابی جماعت ہے اور ان کا اپنے آپ کو اہلسنت کہنے سراسر جھوٹ اور اپنے نسب کو بدلنے کے مترادف ہے ۔


اشرف علی تھانوی دیبندی کہتا ہے : ہم گستاخ ہیں ۔ (افاضات الیومیہ جلد 6 صفحہ 316)


خضر حیات دیوبندی کہتا ہے : قاضی مظہر (دیوبندی) نے حیات انبیا کو گدھے کی حیات سے مثال دی ہے ، جو کہ بدترین گستاخی ہے (المسلک المنصور صفحہ 170) ۔ ایسے ہی امین صفدر اوکاڑی کی ایک عبارت : آپ صلی علیہ واسلم نماز پڑھتے رہے ، کتیا سامنے کھیلتی رہی ساتھ گدھی بھی تھی ، دونوں کی شرم گاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی َ"نقل کر کے لکھا : نقل کفر کفر ناباشد ۔ (المسلک المنصور صفحہ 173،چشتی) ، ایک جگہ اوکاڑی کمپنی کے بارے میں لکھتا ہے : ان کی کوئی تقریر اہل اللہ کی بے ادبی اور گستاخی سے خالی نہیں ۔ (المسلک المنصور صفحہ 164)


اشرف علی تھانوی کہتا ہے : وہابی بے ادب کو کہتے ہیں ۔ (افاضات الیومیہ جلد 4 صفحہ 89)


مودودیوں نے لکھا کہ : کوئی دیوبندی مودودی ، ارتکاب توہین ، سے نہیں بچا ۔ (جائزہ صفحہ 40)


تقویۃالایمان اور گستاخی : دیوبندی حضرات نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ تقویۃالایمان کا لہجہ گستاخانہ ہے ۔ حوالا جات ملاحظہ ہوں : ⏬


مولوی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے : آج کل بلا ضرورت تقویۃ الایمان کے الفاظ کا استعمال گستاخی ہے ۔ (امداد الفتاوی جلد 5)


ایسے ہی خود اسماعیل کہتا ہے کہ : میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذارا تیز الفاظ آگئے ہیں ۔ (ارواح ثلاثہ صفحہ 89،چشتی)


تحذیرالناس اور اقرار جرم محمد حسین نیلوی کہتا ہے : قاسم نانوتوی کے نظریات قرآن و سنت کے خلاف ہیں ۔ (ندائے حق صفحہ 636) ، مزید کہتا ہے : کہ نانوتوی نے ختم نبوت کا قادیانی معنیٰ کیا ہے ۔ (ندائے حق صفحہ 575)


اشرف علی تھانوی کہتا ہے کہ : جب قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی تو ہندوستان بھر میں کسی نے موافقت نہیں کی سوائے عبدالحی کے ۔ (افاضات الیومیہ جلد 5 صفحہ 296) ، مگر بعد میں یہ بھی مخالف ہوگئے تھے دیکھیے ابطال اغلاط قاسمیہ صفحہ 39)


پھر انور شاہ کاشمیری نے اثر ابن عباس کو خلافِ قرآن ظاہر کیا ۔ (فیض الباری جلد 3 صفحہ 333)


حفظ الایمان اور اقرار جرم : جب تھانوی نے حضور کے علم کو جانوروں اور پاگلوں سے تشبیہ دی تو خود اس کے مریدوں نے کہا کہ یہ عبارت ظاہری طور پر بے ادبی پر مشتمل ہے ۔ (بسط البنان صفحہ 28) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday 13 October 2024

عقیدہ حیاتُ النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عقیدہ حیاتُ النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالی نے حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کو ساری کائنات میں سب سے افضل اور بزرگ بنایا ہے ، انہیں بلند و بالا درجات اور عظیم کمالات عطاء فرمائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃو السلام کا سردار و تاجدار بنایا ، اور سلسلۂ نبوت و رسالت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر ختم فرما دیا ۔ اہل اسلام کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اپنے مزارات میں زندہ ہیں ، اس کا ثبوت قرآن و حدیث اور جمہور امت سے ملتا ہے : ⏬


وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآء عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا ۔ (سورہ البقرۃ آیت نمبر 143)
ترجمہ : اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ۔

وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰـکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ۔ (سورہ البقرۃ آیت نمبر 154)
ترجمہ : اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں ۔

وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتًا ط بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ ۔ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ لا وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِھِمْ مِنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 169 ، 170)
ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہر گز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں ۔ شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منا رہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ۔

فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍم بِشَھِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 41)
ترجمہ : تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بناکر لائیں ۔

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا ۔ (سورہ النساء آیت نمبر 64)
ترجمہ :  اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔

وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْھِمْ ط وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ ۔ (سورہ الأنفال آیت نمبر 33)
ترجمہ : اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو اور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش مانگ رہے ہیں ۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ کُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ اَنْفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَهِيْدًا عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ ۔ وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَيْئٍ وَّهُدًی وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِيْنَ ۔ (سورہ النحل آیت نمبر 89)
ترجمہ : اور جس دن ہم ہر گروہ میں ایک گواہ انہیں میں سے اٹھائیں گے کہ ان پر گواہی دے اور اے محبوب تمہیں ان سب پر شاہد بناکر لائیں گے اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت مسلمانوں کو ۔

وَمَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّہِ وَلَا أَنْ تَنْکِحُوا أَزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللَّہِ عَظِیمًا ۔
ترجمہ : تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دو اور نہ یہ درست ہے کہ تم کبھی ان کی ازواج سے نکاح کرو، یقینا یہ اللہ کے پاس بڑا گناہ ہے ۔ (سورۃ الاحزاب۔53)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ نکاح کرنے کی سخت ممانعت فرمائی ، وصالِ اقدس کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے نکاح کرنا ، کسی شخص کےلیے جائز نہیں رکھا ۔

یہ فقہ اسلامی کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ کسی شخص کی موت واقع ہو جائے تو اس کا رشتۂ نکاح منقطع ہو جاتا ہے ، عدت گزارنے کے بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ کسی اورشخص سے نکاح کر لے ۔ اس کے برخلاف کوئی شخص زندہ ہو تو کسی اور کو اس کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ، آیت مذکورہ میں بیان کردہ تاکیدی ممانعت اس بات کا واضح ثبوت اور روشن دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد برزخ میں خصوصی شان کے ساتھ حیات ہیں ، اس سلسلہ میں متعدد مرفوع احادیث مبارکہ موجودہیں : ⏬

انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں اس حدیث کے متعلق غیر مقلد اھلحدیث وھابی حضرات کے بہت بڑے محقق جناب ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس کی اسناد جید ہیں پڑھیے : (مسند ابی یعلیٰ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 379 تحقیق ارشاد الحق اثری غیر مقلد اھلحدیث)

حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ۔
ترجمہ :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں ۔ (مسند ابو یعلٰی)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔ (فتح الباری جلد ۶ ص352) ۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ۔ (الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089،چشتی) ۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214) ۔ علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب صفحہ 180)

علامہ ناصر البانی وہابی نے اس روایت کو (صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59) میں صحیح ، (أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272) میں اسنادہ جید اور (أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272) میں اسنادہ قوی لکھا ہے ۔ غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ناصر البانی وہابی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔

وہابی نجدی مذہب کے کے بانی محمد بن عبد الوہاب نجدی کا عقیدہ حیاتُ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی قبر انور میں زندہ ہیں آپ کی حیات شہداء کی حیات سے افضل ہے ، آپ سلام کرنے والوں کا سلام سنتے اور جواب دیتے ہیں اور آپ کی قبر اطھر کی زیارت مسنون ہے ۔ (تاریخ المکّۃ المکرّمہ جلد اوّل صفحہ 249 ، 250۔چشتی)

کیا کہتے ہیں قبر انور میں حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے منکر محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار غیر مقلد متعصب وہابی حضرات محمد بن عبد الوہاب نجدی سچا ہے کہ تم لوگ سچے ہو ؟
اس سے معلوم ہوا عقیدہ اہلسنت حق ہے جسے وھابی مذھب کے بانی محمد بن عبد الوہاب نجدی کو بھی تسلیم کرنا پڑا ۔

علامہ ابن تیمیہ وہابیوں کی چھترول کرتے ہوئے لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قبر انور کے قریب پڑھا جانے والا درود و سلام خود سنتے ہیں دور سے پہنچا دیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جواب عطاء فرماتے ہیں ۔ (قاعدہ عظیمہ علامہ ابن تیمیہ صفحہ نمبر 57)

یہ وہی علامہ ابن تیمیہ ہیں جنہیں سعودی وہابی اور غیر سعودی وہابی نجدی اپنا امام مانتے ہیں سوال یہ ہے اب کیا کہتے ہیں یہ منکرینِ حیاتُ النّبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جو کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم قبر انور میں حیات نہیں ہیں اپنے بڑے کی ہی مان لو اے آلِ نجد و آلِ سعود ۔

عن أبی الدرداء قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن اللہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء . فنبی اللہ حی یرزق ۔
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کر دیا کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے اجسام کو متغیر کردے تو اللہ کے نبی حیات ہیں ، رزق پاتے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث نمبر1706،چشتی)

اللہ کے نبی زندہ رہتے ہیں اور رزق پاتے ہیں ، یہ حدیث پاک کلمات کے مختصر سے فرق کے ساتھ سنن ابو داؤد شریف ، سنن نسائی ، مستدرک علی الصحیحین ، مسند امام احمد،مصنف ابن ابی شیبہ،سنن کبری للنسائی،معجم کبیر طبرانی،معجم اوسط طبرانی،بیہقی شب الایمان،صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمۃ،سنن صغری للبیھقی،جامع الأحادیث،الجامع الکبیر للسیوطی،سنن دارمی،کنز العمال، جامع الأحادیث اور الجامع الکبیر للسیوطی میں موجود ہے ۔ (سنن ابو داؤد شریف ج 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150-۔سنن نسائی، باب إکثار الصلاۃ علی النبی -صلی اللہ علیہ وسلم- یوم الجمعۃ،حدیث نمبر: 1385-۔سنن ابن ماجہ، باب فی فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1138-۔مستدرک علی الصحیحین ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر980-۔مسند امام احمد، حدیث أوس بن أبی أوس الثقفی، حدیث نمبر16592-۔مصنف ابن ابی شیبہ،ج2،ص389-۔سنن کبری للنسائی، حدیث نمبر16592-۔معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر588-۔معجم اوسط طبرانی، حدیث نمبر4936-۔بیہقی شب الایمان، حدیث نمبر2894-۔صحیح ابن حبان، باب الأدعیۃ، حدیث نمبر912-۔صحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر1638-۔سنن صغری للبیہقی، باب فضل الجمعۃ، حدیث نمبر607-۔جامع الأحادیث، حدیث نمبر8441-۔الجامع الکبیر للسیوطی، حدیث نمبر1790-۔سنن دارمی، حدیث نمبر1624-۔کنز العمال، حدیث نمبر2202،چشتی)

سنن ابو داؤد شریف میں مذکورہ حدیث پاک کے الفاظ یہ ہیں :عن اوس بن اوس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم، و فیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃ، فاکثروا علی من الصلاۃ فیہ ، فان صلاتکم معروضۃ علی قالوا : یا رسول اللہ و کیف تعرض صلا تنا علیک و قد ارمت؟ فقال : ان اللہ عز و جل حرم علی الارض اجساد الانبیاء ۔
ترجمہ : سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں زیادہ فضیلت والا دن جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن وصال فرمائے اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگوں پر بے ہوشی طاری ہو گی ۔ لہٰذا تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود میری بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے،راوی کہتے ہیں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی بارگاہ میں ہمارا درود کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ وصال فرماکر آپ پر ایک عرصہ بیت گیا ہو گا ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیاہے کہ انبیاء کرام کے اجسام کو متغیر کرے ۔ (سنن ابو داؤد شریف جلد 1 کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ صفحہ نمبر 150،چشتی)

صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے:عن سلیمان التیمی سمعت انسا یقول قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مررت علی موسی و ہو یصلی فی قبرہ و زاد فی حدیث عیسی مررت لیلۃ اسری بی ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جبکہ وہ اپنے مزار میں نماز ادا کررہے تھے ۔ (مسلم شریف، 165، فضائل موسیٰ)

نیزمسند ابو یعلی میں حدیث پاک ہے : عن انس بن مالک قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون ۔
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں ، اپنے مزارات میں نماز ادا کرتے ہیں ۔ (مسند ابو یعلی ،حدیث 3331 مسند انس رضی اللہ عنہ)

امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں اس حدیث پاک کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : و رجال ابی یعلی ثقات ۔
ترجمہ: مسند ابو یعلی کی حدیث شریف کے تمام رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔(مجمع الزوائد‘ باب ذکر الانبیائ‘ ج 8 ص 210)

61ھ میں جب یزیدی لشکر نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا تو مسجدنبوی شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، ان دنوں حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ روضۂ اطہرسے اذان اور اقامت کی آواز سنتے تھے ، جیساکہ سنن الدارمی میں روایت ہے : عن سعید بن عبد العزیز قال : لما کان أیام الحرۃ لم یؤذن فی مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثلاثا ولم یقم ، ولم یبرح سعید بن المسیب المسجد ، وکان لا یعرف وقت الصلاۃ إلا بہمہمۃ یسمعہا من قبر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : حضرت سعیدبن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا:جب واقعۂ حرہ رونما ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد شریف میں تین دن اذان واقامت نہیں کہی گئی ، حضرت سعیدبن مسیب رضی اللہ عنہ مسجد ہی میں رہے ، وہ بیان کرتے ہیں کہ روضۂ اطہر سے اذان واقامت کی آواز آیا کرتی جس کی وجہ سے وہ نماز کا وقت معلوم کرتے تھے ۔ (سنن الدارمی ، کتاب المقدمہ ، باب مااکرم اللہ تعالی نبیہ بعد موتہ،حدیث نمبر 94،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان وصال اقدس کے بعد وہی ہے جو وصال اقدس سے پہلے تھی ، امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مواہب لدنیہ میں رقم فرمایا :اذ لا فرق بین موتہ وحیاتہ فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ احوالھم ونیاتھم وعزائمھم وخواطرھم ،وذلک عندہ جلی لا خفاء بہ ۔
ترجمہ : امت کا مشاہدہ فرمانے کےلیے اور ان کے حالات ، نیتیں ، ارادے اور دلی کیفیات کو جاننے کےلیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اور وصال مبارک میں کوئی فرق نہیں ۔ اور یہ ساری چیزیں آپ پر بالکل عیاں ہیں جس میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں ۔ (المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف ومسجدہ المنیف جلد 12 صفحہ 195)

اسی وجہ سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے خلیفہ ابو جعفر منصور کو یہی فرمایا تھا کہ جب بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب ہی رخ کرکے دعا کریں،سبل الہدی والرشاد میں روایت ہے : ولما ناظر أبو جعفر المنصور عبد اللہ بن محمد بن عباس ثانی خلفاء بنی العباس مالکا فی مسجدہ علیہ الصلاۃ والسلام قال لہ مالک: یا أمیر المؤمنین لا ترفع صوتک فی ہذا المسجد، فإن اللہ تعالی أدب قوما فقال: (لا ترفعوا أصواتکم فوق صوت النبی) وإن حرمتہ میتا کحرمتہ حیا، فاستکان لہا أبو جعفر، وقال لمالک: یا أبا عبید اللہ أأستقبل القبلۃ وادعوا أم استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فقال لہ: لم تصرف وجہک عنہ وہو وسیلتک ووسیلۃ أبیک آدم إلی اللہ تعالی یوم القیامۃ بل استقبلہ واستشفع بہ فیشفعک اللہ، فإنہ تقبل بہ شفاعتک لنفسک قال اللہ تعالی: (ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم) ۔
ترجمہ : اور جب بنی عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور عبد اللہ بن محمد بن عباس نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں مناظرہ کیا تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے فرمایا : اے امیر المؤمنین!اپنی آواز کو اس مسجد میں بلند نہ کرو ! کیونکہ اللہ تعالی نے ایک بہترقوم کو ادب سکھاتے ہوئے (قرآن کریم میں )فرمایا : اپنی آوازوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر بلند نہ کرو " بیشک آپ کی ظاہری حیات طیبہ میں جس طرح آپ کا ادب واحترام لازم تھا آپ کے وصال مبارک کے بعد بھی اسی طرح ادب واحترام ملحوظ رکھا جائے! تو خلیفہ ابو جعفر باادب ہو گئے اور امام مالک سے دریافت کرنے لگے : اے ابو عبید اللہ ! بوقت حاضری میں قبلہ کی جانب رخ کروں اور دعا کروں یا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب رخ کروں ؟ تو آپ نے فرمایا : آپ اپنے چہر ہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے کیسے پھیر سکتے ہو ؟ جبکہ آپ کی ذات گرامی ہی قیامت کے دن اللہ تعالی کے دربار میں آپ کےلیے اور آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام کےلیے وسیلہ ہے ۔ ہر حال میں آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب ہی رخ کریں ! اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کریں ! اللہ تعالی تمہارے حق میں سفارش قبول کرے گا ، کیونکہ یہی وہ ذات بابرکت ہے جس کے طفیل تمہارے حق میں تمہارا معروضہ قبول کیا جائے گا ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم ۔ (سبل الہدی والرشاد جماع أبواب بعض ما یجب علی الانام من حقوقہ علیہ الصلاۃ والسلام جلد 11 صفحہ 423،چشتی)

ان روایتوں سے واضح ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باحیات ہیں ، نماز ادافرماتے ہیں ۔ مذکورہ احادیث شریفہ حیات کے متعلق واضح دلیل ہیں ، حیات کے متعلق واضح کلمات وارد ہونے کے باوجود اس کی تاویل کرنا،اس کا کوئی اور مطلب بیان کرنا حدیث پاک کا مفہوم تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور بلاکسی دلیل ظاہر حدیث سے انحراف ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالاحدیث پاک میں ’’حیات‘‘ کی ایک علامت ذکر فرمائی کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نماز ادا فرماتے ہیں ۔

صحیح ابن حبان کی طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو : فلما دخل صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس و اسری بہ اسری بموسی حتی راہ فی السماء السادسۃ و جری بینہ و بینہ من الکلام ما تقدم ذکرنا لہ ۔
ترجمہ : جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے پھر آپ آسمانوں پر تشریف لائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آسمانوں پر تشریف لائے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان گفتگو ہوئی (صاحب کتاب کہتے ہیں) جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ۔ (صحیح ابن حبان فصل اول حدیث نمبر 50)

اسی روایت میں مذکور ہے کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔
مذکورہ احادیث شریفہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ‘ باحیات ہیں ، جس طرح دنیا میں نماز پڑھتے تھے اسی طرح نماز ادا کرتے ہیں ، ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔

امام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتاوی رملیہ کے حوالہ سے مواہب لدنیہ کی شرح میں نقل کیا ہے : و فی الفتاوی الرملیۃ : الانبیاء و الشہداء و العلماء لا یبلون والانبیاء والشہداء یاکلون فی قبورہم و یشربون و یصلون و یصومون و یحجون ۔
ترجمہ : فتاویٰ رملیہ میں ہے کہ حضرات انبیاء ، شہداء اور علماء کے اجسام مبارکہ وصال کے بعد بوسیدہ نہیں ہوتے ، انبیاء کرام اور شہدائے عظام اپنے مزارات میں کھاتے پیتے ہیں، نماز ادا کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں ۔ (شرح الزرقانی علی المواھب‘ جلد 7 صفحہ نمبر 369،چشتی)

امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے حیات انبیاء سے متعلق دلائل ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا : فحصل من مجموع ہذا النقول والأحادیث أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ وأنہ یتصرف ویسیر حیث شاء فی أقطار الأرض وفی الملکوت وہو بہیئتہ التی کان علیہا قبل وفاتہ لم یتبدل منہ شیء وأنہ مغیب عن الأبصار کما غیبت الملائکۃ مع کونہم أحیاء بأجسادہم فإذا أراد اللہ رفع الحجاب عمن أراد إکرامہ برؤیتہ رآہ علی ہیئتہ التی ہو علیہا لا مانع من ذلک ولا داعی إلی التخصیص برؤیۃ المثال ۔
ترجمہ : ان حادیث شریفہ اور منقول روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اطہراور روح مقدس کے ساتھ زندہ ہیں اور یقیناً تصرف فرماتے ہیں ، زمین میں اور عالم ملکوت میں جہاں چاہتے ہیں اس حالت وکیفیت کے ساتھ تشریف لے جاتے ہیں جس حالت وکیفیت میں آپ وصال اقدس سے پیشتر تھے ‘ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی ، حقیقت یہ ہے کہ آپ عام نگاہوں سے روپوش ہیں جس طرح فرشتے ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں حالانکہ وہ اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہیں ، جب اللہ تعالی آپ کے دیدار سے کسی کو مشرف فرماناچاہتاہے تو اس سے حجاب اُٹھادیتاہے ، وہ آپ کو اس ہیئت پر دیکھتا ہے جس ہیئت پر آپ ہیں ، اس کےلیے کوئی امر مانع نہیں اور دیدکو مثالی شکل سے خاص کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (الحاوی للفتاوی العجاجۃ الزرنبیۃ فی السلالۃ الزینبیۃ)

ملاعلی قاری رحمہ اللہ الباری نے شرح شفا میں لکھا ہے : انہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبرہ کسائر الانبیاء فی قبورھم وھم احیاء عند ربھم وان ۔
ترجمہ : حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضۂ اطہر میں زندہ ہیں جیسا کہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اپنے مزارات میں اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کی ارواح مقدسہ کا تعلق عالم علوی و عالم سفلی سے اسی طرح رہتاہے جیسا کہ وہ دنیا میں تھے ، لہذا وہ قلب کے اعتبار سے عرشی ہیں اور قالب کے لحاظ سے فرشی ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالی اربابِ کمال کے احوال کو بہتر جاننے والاہے ۔ (شرح الشفا لعلی القاری بھامش نسیم الریاض،چشتی)

مذکورہ آیات مبارکہ ، احادیث شریفہ ، فرمودات عالیہ اور اعلامِ امت ‘ ائمۂ حدیث و فقہ علیہم الرحمہ کی تصریحات سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روضۂ اطہر میں زندہ و حیات ہیں ۔

تن سے سر کا تعلق ختم ہو جانے اور روح کے جسمِ عنصری سے پرواز کر جانے کے بعد جب راہِ خدا میں شہید ہونے والے مقدس نفوسِ قدسیہ کو مدینہ کے کچھ لوگوں نے ’ مردہ ‘ کہا تو اللہ تعالی نے اُن شہدائے کرام کو مردہ کہنے بلکہ سوچنے سے بھی سختی کے ساتھ منع فر مادیا۔اور ارشاد فر مایا کہ ’ وہ زندہ ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام ان سے بدرجہا افضل ہیں ۔ اس لیے جب شہداء کو مردہ کہنا منع ہے تو انبیاء علیہم السلام کو بدرجہ اولیٰ کہنا منع ہوگا ۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے جس کا بیان خود احادیث صحیحہ میں بھی وارد ہے ۔ مگر کچھ لوگ نہ جانے کیوں انبیائے کرام علیہم السلام کو مردہ ، مر کر مٹی میں مل جانے والاوغیرہ (العیاذ باللہ) کہنے ، لکھنے پر بضد ہیں ۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حیات پر امت مُسْلِمَہ کا اِجماع رہا ہے اور علمائے امت نے اس موضوع پر مستقل رسائل تحریر فرمائے ہیں ، البتہ ماضی قریب کے کچھ اَفراد نے اس مسئلے کوبھی اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کر کے یہاں تک کہہ دیا کہ ”میں بھی ایک دن مرکرمٹی میں ملنے والاہوں“ حالانکہ یہ کسی بھی حدیث میں نہیں آیا ، بلکہ بذات ِخود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال کے بعد حیات کا اور مٹی کا اجسادِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام کونہ کھانے کا ذکر فرمایا ۔ وصال کے بعد حیاتِ انبیاء علیہم السلام پر بکثرت آیات ، احادیث اور اقوالِ علماء موجود ہیں ۔


اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕبَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ۔

ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ، انہیں مُردہ نہ کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں ۔ ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (سورۃ البقرہ آیت 154 )


امام قرطبی رحمۃ  اللہ علیہ لکھتے ہیں : ان الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ،و يدل على ذلك:أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء عند ربهم يرزقون، فرحين مستبشـريـن، وهـذه صفة الأحياء في الدنيا وإذا كان هذا الشهداء ، كان الأنبيـاء بـذلك أحـق وأولى  مع أنه قد صح عن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن الأرض  لاتـأكـل أجساد الأنبيـاء وأن الـنبـي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد اجـتـمـع بـالأنبيـاء ليلة الإسراء في بيت المقدس، وفي السماء وخصوصاً بموسى ۔

ترجمہ : موت محض نابُود ہونے کا نام نہیں، بلکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ شہداء اپنے قتل اور موت کے بعد زندہ ہوتے ہیں ، اپنے رب کے پاس رزق دیے جاتے ہیں ، شاد و مسرور ہوتے ہیں اور یہی دنیا میں زندوں کی صفت ہے اور جب شہداء کا یہ حال ہے ،تو انبیاء علیہم السلام زندہ ہونے میں ان سے بڑھ کر ہیں ،اور اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےصحیح حدیث میں مروی ہے: ’’بے شک زمین انبیاء علیہم السلام کے اَجسام کو نہیں کھاتی  اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس اور آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جمع ہوئے،بالخصوص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ۔ (التذکرۃ باحوال الموتی وامور الآخرۃ جلد 1 صفحہ 459 460 مطبوعہ ریاض،،چشتی)


علامہ قاضی ثناء اللہ پانی  پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’بل حیوۃ الانبیاءاقوی منھم واشد ظھورا اثارھا فی الخارج حتی لا یجوز النکاح بازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفاتہ بخلاف الشھید ۔

ترجمہ :  بلکہ  انبیاء علیہم السلام کی حیات شہداء کی حیات سے زیادہ قوی ہے اور اس کے آثار خارج میں  زیادہ ظاہر ہیں ،یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعدبھی ان کی ازواج سے نکاح کرنا ، جائز نہیں ، بر خلاف شہید کے (کیونکہ شہید کی وفات کے بعداس کی بیوہ سے نکاح جائز ہے) ۔ (تفسیر مظھری سورۃ البقرۃ جلد 1 صفحہ 152 مطبوعہ کوئٹہ)


امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حیات نبینا صلی اللہ علیہ وسلم اکمل واتم من حیات سائرھم  علیھم السلام ۔

ترجمہ : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات دیگر (سارے) انبیائے  کرام علیہم السلام کی حیات سے زیادہ اکمل و اتم ہے ۔ (تفسیر روح المعانی سورۃ الاحزاب جلد 11 صفحہ 216 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)


تفسیر روح البیان  میں ہے : ان حياة الأنبياء حياة دائمة فى الحقيقة ولا يقطعها الموت الصوری فانه انما يطرأ على الأجساد بمفارقة الأرواح مع ان أجسادهم لا تأكلها الأرض فهم بمنزلة الاحياء من حيث الأجساد ایضا ۔

ترجمہ : انبیاء علیہم السلام کی زندگی حقیقت میں ہمیشگی والی زندگی ہوتی ہے (اور) موتِ صوری ان کی زندگی کو ختم نہیں کرتی، کیونکہ موتِ صوری  روحوں کے جسموں سےجدا ہونے کی وجہ  سے جسموں پر طاری ہوتی ہے ، جبکہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام کو زمین نہیں کھاتی ، تو انبیائے کرام علیہم السلام اجسام کے لحاظ سے  زندہ لوگوں کے درجہ میں   ہوئے ۔ (تفسیر روح البیان جلد 8 صفحہ 418 مطبوعہ دار الفکر بیروت )


اللہ تعا لیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَ لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا  فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ  اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَ 

ترجمہ : اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے  ہرگز انہیں مُردہ  نہ خیال کرنا ، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، روزی پاتے ہیں ۔ (سورہ آل عمران آیت  169)


اس آیت کے تحت علامہ ابن رجب  دمشقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فإن حياة الأنبياء أكمل من حياة الشهداء بلا ريب فيشملهم حكم الأحياء أيضا ۔

ترجمہ : بلا شبہ انبیاء علیہم السلام کی زندگی  شہداء کی زندگی سے زیادہ کامل ہے ، لہٰذا (انبیاء علیہم السلام کی  ظاہری وصال کے بعد) انبیاء علیہم السلام کو زندہ لوگوں والا حکم ہی شامل ہو گا ۔ (تفسیر ابن رجب جلد 1 صفحہ 269 مطبوعہ دار العاصمة المملكة العربیۃ،چشتی)


سنن ابوداؤد،سنن نسائی،سنن ابن ماجہ،سنن دارمی،سنن کبرٰی للبیہقی،سنن کبرٰی للنسائی،مسنداحمدبن حنبل،مصنف ابن ابی شیبہ، اور صحیح ابن حبان میں ہے،واللفظ للاول : قال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثرواعلی من الصلوة فیہ فان صلاتکم معروضة علی:قالوا:وکیف تعرض صلاتناعلیک وقدارمت،فقال ان اللہ عزوجل حرم علی الارض اجسادالانبیاء ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم مجھ پر کثرت کے ساتھ جمعہ کے دن درود پڑھو ، کیونکہ تمہارا دُرود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ، صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا دُرود کیسے آپ پر پیش ہوگا ، حالانکہ آپ تو ظاہری وصال فرما چکے ہوں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالی نے زمین پرانبیاء (علیہم السلام) کے اَجسام کھانا حرام کر دیا ہے ۔ (سنن ابوداؤد کتاب الصلوة جلد 1 صفحہ 158 مطبوعہ لاہور)


سنن ابن ماجہ،مشکوة المصابیح اورجامع الاحادیث میں ہے،واللفظ لسنن ابن ماجہ:”عن ابی درداء رضی اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم: اکثرو االصلوة علی یوم الجمعة فانہ مشھود تشھد ہ الملٰئکة وان احدا لن یصلی علی الا عرضت علی صلوة حتی یفرغ منھا قال قلت وبعد الموت ؟قال وبعد الموت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء فنبی اللہ حی یرزق ۔

ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جمعہ کے دن دُرودِپاک کی کثرت کرو کہ یہ یومِ مشہود ہے ،اس روز فرشتے آتے ہیں اور جو کوئی بھی مجھ پر دُرود پڑھتا ہے، تو اس کے فارغ ہونے سے پہلے مجھ پر پیش کردیا جاتا ہے،(راوی نے )عرض کی اور (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ) وفات کے بعد (بھی ایسا ہوگا ؟) فرمایا : اور وفات کے بعد (بھی ایسا ہوگا) کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ، پس اللہ عزوجل کا نبی زندہ ہے ، رزق دیا جاتاہے ۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائزباب ذکر وفاتہ ودفنہ صفحہ 118 مطبوعہ کراچی،چشتی)


جامع الصغیر،جامع الاحادیث،جمع الجوامع،فیض القدیر،مجمع الزوائد، مسندبزار اورمسندابی یعلی میں ہے،واللفظ لمسندابی یعلی : عن انس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون ۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ  ہیں اورنمازپڑھتے ہیں ۔ (مسندابی یعلی الموصلی جلد 3 صفحہ 379 مطبوعہ علوم القرآن بیروت)


انبیاء کرام علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں اس حدیث کے متعلق غیر مقلد وھابی حضرات کے بہت بڑے محقق جناب ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس کی اسناد جید ہیں پڑھیے : (مسند ابی یعلیٰ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 379 تحقیق ارشاد الحق اثری غیر مقلد)


حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ۔

ترجمہ :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیاء علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں ۔ (مسند ابو یعلٰی) 


حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔ (فتح الباری جلد ۶ ص352) ۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ۔ (الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089) ۔ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214) ۔ علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب صفحہ 180،چشتی)


شیخ ناصر البانی وہابی نے اس روایت کو (صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59) میں صحیح ، (أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272) میں اسنادہ جید اور (أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272) میں اسنادہ قوی لکھا ہے ۔ غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ناصر البانی وہابی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔


صحیح مسلم،سنن نسائی،مسنداحمد،مسندابی یعلی،مصنف عبدالرزاق، صحیح ابن حبان اورالمعجم الکبیرمیں ہے،واللفظ للمسلم : عن أنس بن مالک قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:مررت علی موسی وھوقائم  یصلی فی قبرہ ۔

ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا : میں موسی علیہ السلام کی قبرسے گزرا،تووہ اپنی قبرمیں کھڑے نمازپڑھ رہے تھے ۔ (صحیح مسلم باب من فضائل موسی جلد 2 صفحہ 268 مطبوعہ کراچی)


مذکورہ بالاحدیث کے تحت علامہ جلال الدین سیوطی علیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : قال الشیخ بدرالدین بن الصاحب فی مؤلف لہ فی حیاة الانبیاء:ھذاصریح فی اثبات الحیاة لموسی فی قبرہ فانہ وصفہ بالصلوة وانہ قائم ومثل ذلک لایوصف بہ الروح وانمایوصف بہ الجسدوفی تخصیصہ بالقبردلیل علی ھذافانہ لوکان من اوصاف الروح لم یحتج.....لتخصیصہ بالقبر ۔

ترجمہ : شیخ بدرالدین بن صاحب نے اپنی تالیف ”حیاة الانبیاء“ میں فرمایا : یہ حدیث حضرت موسی علیہ السلام کی قبرمیں حیات (کو ثابت کرنے) کے بارے میں صریح ہے، کیونکہ اس میں نبی علیہ الصلاۃ و السلام نے موسی علیہ  السلام کو نماز پڑھنے کے ساتھ موصوف کیا ہے کہ وہ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے اور اس (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے) کے ساتھ صرف روح کو موصوف نہیں کیا جا سکتا ، بلکہ اس (وصف)کے ساتھ تو جسم کو موصوف کیا جاتا ہے اور قبر کی تخصیص بھی اس پر دلیل ہے کہ اگر یہ صرف روح کے اوصاف میں سے ہوتا ، تو قبر کی تخصیص کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاتی ۔ (زھرالربی شرح سنن النسائی المجتبی جلد 1 صفحہ 243 مطبوعہ کراچی،چشتی)


علامہ ابوداؤد بن سلیمان بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی لکھتے ہیں : والحاصل ان حیاۃ الانبیاء ثابتۃ بالاجماع ۔

ترجمہ : اور حاصلِ کلام یہ ہے کہ انبیاء کی حیات اجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ (المنحۃ الوھبیۃ صفحہ 6 مطبوعہ استنبول)


ابوبکر احمد بن الحسين (امام المحدثین البیہقی 458ھ) رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : والانبیاء بعد ما قبضوا ردت الیھم ارواحھم فھم احیاء عند ربھم کالشھداء (کتاب الاعتقاد صفحہ 415)

ترجمہ : انبیائے کرام کی روحیں قبض کرنے کے بعد انہیں دوبارہ لوٹا دی جاتی ہے چنانچہ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں زندہ ہیں جیسا کہ شھداء ۔


امام محمد بن احمد مالکی قرطبی 668ھ رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : بأن موت الانبیاء انما ھوا راجع الی ان غیبوا عنا بحیث لا ندرکھم وان کانوا موجودین احیاء وذلک کالحال فی الملائكة فانھم موجودون احیاء ولا یراھم احد من نوعنا الا من خصه بکرامة من اولیائه ۔ (التذکرہ للقرطبی صفحہ 460)

ترجمہ : انبیـاءاکـرام کی موت کی حقیقت ایسی ہے کہ وہ ہم سے پردہ کر جاتے ہیں یعنی ہم انہیں ظاہری آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے اگرچہ وہ زندہ اور موجود ہوں بالکل اسی طرح جیسا کہ فرشتے زندہ اور موجود تو ہیں لیکن ہم میں سے کوئی نہیں دیکھ نہیں سکتا سوائے الله کے ان محبوب بندوں کے جن پر وہ اپنا فضل وکرم فرما دے تو دیکھ لیتے ہیں ۔


علامہ بارزی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : سئل بارزی عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھل ھو حیی بعد وفاته ؟ فاجاب انه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیی ۔ (الحاوی للفتاوی جلد 2  صفحہ268)

ترجمہ : علامہ بارزی سے پوچھا گیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال مبارک کے بعد زندہ ہیں ؟ جواب دیا ، بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں ۔


امام شامی حنفی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : ان الانبیاء علیھم الصلوۃ والسلام احیاء فی قبورھم ۔ (فتاوی شامی جلد 4 صفحہ 151)

ترجمہ : تحقیق انبیاء علیھم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ۔


امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : حیاۃ النبی فی قبرہ ھوا وسائر الانبیاء معلومه عدنا علما قطعیا لما قام عندنا من الادله فی ذالک و تواترت به الأخبار ۔ (الحاوی للفتاوی جلد 2 صفحہ 264)

ترجمہ : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی قبر انور میں زندہ ہونا اور اسی طرح دوسرے انبیاء علیہم السلام کا زندہ ہونا ایک ایسا امر ہے جو علم قطعی کے ساتھ ہمیں معلوم ہے اس لیے اس پر ہماری نزدیک قطعی دلیلیں قائم ہو چکی ہیں اور اس کے بارے میں روایات تواتر کو پہنچ چکی ہیں ۔


امام جلال الدین سیوطی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں : اذن للانبیاء ان یخرجوا من قبورھم و یتصرفوا فی ملکوت السمٰوٰت و الارض ۔

ترجمہ : حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کےلئے مزارات سے باہر جانے

اور آسمانوں اور زمین میں تصرف کی اجازت ہوتی ہے ۔ (الحاوی للفتاوٰی جلد 2 صفحہ 263)


امام صاوی المالکی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : مثل الشھداء الانبیاء بل حیاۃ الانبیاء اجل واعلی ۔ (تفسیر صاوی علی الجلالین جلد 1 صفحہ 168)

ترجمہ : شھداء کی حیات، حیات انبیاء کی مثل ہے لیکن انبیاء کی حیات زیادہ اچھی اور بلند تر ہے ۔


امام  سبکی شافعی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : وحیاۃ الشھداء اکمل واعلٰی فھذا النوع من الحیاۃ والرزق لایحصل لمن لیس فی رتبتھم، وانما حیاۃ الانبیاء اعلٰی واکمل واتم من الجمیع لانھا للروح والجسد علی الدوام علی ماکان فی الدنیا ۔ (شفاء السقام صفحہ ۲۰۶)

ترجمہ : شہداء کی زندگی بہت اعلی ہے ، زندگی اور رزق کی یہ قسم ان لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی جوان کے ہم مرتبہ نہیں اور انبیاء کی زندگی سب سے اعلی ہے اس لیے کہ وہ جسم وروح دونوں کے ساتھ ہے جیسی کہ دنیا میں تھی اور ہمیشہ رہے گی ۔


شیخ محقق یخ عبدالحق محدث دہلوی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : اولیاء خدائے تعالٰی نقل کردہ شدندازیں دارفانی بداربقا وزندہ اند نزد پرودگار خود، ومرزوق اندوخوشحال اند، ومردم را ارزاں شعورنیست ۔ (اشعة اللمعات کتاب الجہاد جلد صفحہ ۳ صفحہ ۴۰۲)

ترجمہ : اللہ تعالٰی کے اولیاء اس دار فانی سے داربقا کی طرف کوچ کر گئے ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے ، وہ خوش حال ہیں ، اور لوگوں کو اس کا شعور نہیں ۔


علامہ ابومنصور عبدالقاہر البغدادی رحمة الله علیہ لکھتے ہیں : ہمارے محققین ومتکلمین نے کہا ہے بے شک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد بھی زندہ ہیں اور بلاشبہ وہ امت کی نیکیوں پر خوش اور گناہگاروں کے گناہوں پر غمگین ہوتے ہیں ۔ (مسائل جاجرمیین)


اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فانھم صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیھم طیبون طاھرون احیاء وامواتابل لاموت لھم الاآنیاتصدیقاللوعدثم ھم احیاء ابدابحیاة حقیقة دنیاویة روحانیة جسمانیة کما ھومعتقداھل السنة والجماعة ولذالایورثون ویمتنع تزوج نسائھم صلوات اللہ تعالی وسلامہ علیھم ۔

ترجمہ : حضرات ابنیاء صلوات اللہ تعالی و سلامہ علیہم حیات و ممات ہر حالت میں طیب و طاہر ہیں ، بلکہ ان کےلیے موت اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی تصدیق کےلیے ایک لمحہ کو آتی ہے ، پھروہ ہمیشہ کےلیے حیاتِ حقیقی دنیاوی ، روحانی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں ، جیسا کہ اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے ۔ اسی لیے کوئی ان کا وارث نہیں ہوتا اور ان کی عورتوں سے کسی کا نکاح کرنا بھی منع ہے صلوات اللہ تعالی و سلامہ علیہم ۔ (فتاوی رضویہ جلد 3 صفحہ 404 مطبوعہ رضافاؤنڈیشن لاہور)


وعدہ الٰہیہ کے مطابق ہر انسا ن کو موت کا مزہ چکھنا ہے چنانچہ انبیاء کرام علہیم الصلوۃ والسلام پر بھی ایک لمحہ کےلیے موت طاری ہوئی مگر پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی زندگی عطا فرما دی جو اس دنیاوی زندگی سے لاکھوں درجہ افضل ہے ۔ لہٰذا اللہ کے نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، روزی دیے جاتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، زائر ین کے سلام کا جواب دیتے ہیں ۔اور مختلف مقامات پر جاتے آتے ہیں وغیرہ ۔ یہ تمام باتیں صحیح احادیث طیبہ سے ثابت ہیں جس پر ایمان رکھنا ایک مسلمان کےلیے ضروری ہے ۔


اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کو ساری کائنات میں سب افضل اور بزرگ کیا ہے ، انہیں خصوصی شان اور کمالات عطافرمائے- حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا سردار بنایا ،اور سلسلۂ نبوت و رسالت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم فرما دیا - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو بے پناہ نعمتیں عطا فرمائی ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شہداء کرام سے متعلق ارشاد فرمایا : وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ- ترجمہ: اور تم ان لو گوں کو مردہ مت کہو جو اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔ ( سورۃ البقرة :154) مذکورہ آیت کریمہ سے شہداء کرام کا زندہ اور باحیات ہونا معلوم ہوتا ہے‘ انبیاء کرام ساری مخلوق میں سب سے بزرگ ‘ باعظمت اور افضل ہیں۔ یہ بات ان کی عظمت و بزرگی اور افضلیت سے بعید ہے کہ اُن کے امتی شہید ہوکر باحیات رہیں اور خود انبیاء کرام علیہم السلام جن کی دعوت و تبلیغ سے افراد امت میں جذبہ شہادت پیدا ہوتا ہے وہ اس درجہ پر فائز نہ ہوں گے؟ لہٰذا انبیاء کرام علیہ الصلوٰۃ والسلام بدرجہ اولیٰ و بوجہ اکمل زندہ ہیں ۔ حضرت موسی علیہ السلام کا اپنی قبر میں نماز پڑھنا : حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کے : شب معراج میں موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا، دیکھا تو وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ متعدد اسناد سے مروی ہے ۔ (صحیح مسلم ، جلد ۳ ، حدیث ۱۴۴۷)(امام نسائی رحمۃُ اللہ علیہ نے سن نسائی میں اس حدیث کو سب سندوں کے ساتھ لکھا ہے ۔ سنن نسائی، حدیث ۱۶۳۵، ۱۶۳۶' ۱۶۳۷، ۱۶۳۸)(سنن الکبری میں ، حدیث ۱۳۳۰، ۱۳۳۱)(مسند احمد بن حنبل میں ، حدیث ۱۲۲۳۴،چشتی) ۔ (اس کے علاوہ یہ حدیث بے شمار احادیث کی کتب میں موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو حیات انبیاء علیہم السّلام کے منکروں محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکاروں کے فتنہ اور شر سے بچائے آمین ۔


علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ مواہب کی شرح جلد 7 صفحہ 368 میں تحریر فرماتے ہیں : فالحياة الثانية حياة اخروية ولا شک انها اعلی و اکمل من حياة الشهداء) لفضل الانبياء عليهم (و هي ثابتة للروح بلا اشکال) ای : بلا خلاف عند اهل السنة۔ احادیث شریفہ میں وضاحت کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام کا باحیات ہونا ثابت ہے۔ مسند ابو یعلی میں حدیث پاک ہے : عن انس بن مالک قال رسول الله صلی الله عليه وسلم الانبياء احياء فی قبورهم يصلون- ترجمہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام زندہ ہیں ‘ اپنی مزارات میں نماز ادا کرتے ہیں۔ (مسند ابو یعلی‘ حدیث 3331‘ مسند انس رضی اللہ عنہ) امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں اس حدیث پاک کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے :و رجال ابی يعلی ثقات۔ مسند ابو یعلی کی حدیث کے تمام رواۃ ثقہ اور قابل اعتماد ہیں ۔ (مجمع الزوائد‘ باب ذکر الانبیاء‘ ج 8‘ ص 210) ۔ یہ حدیث پاک سنن ابو داؤد‘ سنن نسائی‘ سنن ابن ماجہ‘ مسند امام احمد بن حنبل‘ مصنف ابن ابی شیبہ‘ سنن دارمی‘ صحیح ابن خزیمہ‘ صحیح ابن حبان‘ معجم کبیر طبرانی اور سنن سعید بن منصور میں بھی موجود ہے۔ نیز سنن ابو داؤد شریف میں حدیث پاک مذکور ہے: عن اوس بن اوس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم ان من افضل ايامکم يوم الجمعة فيه خلق آدم، و فيه النفخة و فيه الصعقة، فاکثروا علی من الصلاة فيه ، فان صلاتکم معروضة علی قالوا: يا رسول الله و کيف تعرض صلا تنا عليک و قد ارمت؟ فقال : ان الله عز و جل حرم علی الارض اجساد الانبياء۔ ترجمہ: سیدنا اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں زیادہ فضیلت والا دن جمعہ ہے‘ اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے‘ اسی دن وصال فرمائے‘ اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن لوگوں پر بے ہوشی طاری ہوگی۔ لہٰذا تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود میری بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ راوی کہتے ہیں صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! آپ کی بارگاہ میں ہمارا درود کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ آپ وصال فرماچکے ہوں گے؟ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کرام کے اجسام کو حرام قرار دیا ہے۔ (سنن ابو داؤد شریف ج 1 ‘ کتاب الصلوٰۃ فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ ص 150-سنن نسائی، باب إكثار الصلاة على النبى -صلى الله عليه وسلم- يوم الجمعة،حدیث نمبر: 1385-سنن ابن ماجہ، باب فى فضل الجمعة، حدیث نمبر: 1138-مستدرک علی الصحیحین ، كتاب الجمعة، حدیث نمبر: 980-مسند امام احمد، حديث أوس بن أبى أوس الثقفى، حدیث نمبر: 16592-مصنف ابن ابی شیبہ،ج2،ص389-سنن کبری للنسائي، حدیث نمبر: 16592،چشتی۔معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر: 588-معجم اوسط طبرانی، حدیث نمبر: 4936-بیہقی شب الایمان، حدیث نمبر: 2894-صحیح ابن حبان، باب الأدعية، حدیث نمبر: 912-صحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب فضل الجمعة، حدیث نمبر: 1638-سنن صغری للبیہقی، باب فضل الجمعة، حدیث نمبر: 607-جامع الأحاديث، حدیث نمبر: 8441-الجامع الكبير للسيوطي، حدیث نمبر: 1790-سنن دارمى، حدیث نمبر: 1624-كنز العمال، حدیث نمبر: 2202-زجاجۃ المصابیح ، باب الجمعۃ ، ج:1،ص:382)


اور سنن ابن ماجہ ،جامع الاحادیث والمراسیل اور جامع کبیر میں ان الفاظ کا اضافہ ہے : فَنَبِىُّ اللَّهِ حَىٌّ يُرْزَقُ. ترجمہ: اللہ کے نبی حیات ہیں ،رزق پاتے ہیں- (سنن ابن ماجہ، باب ذكر وفاته ودفنه -صلى الله عليه وسلم- حدیث نمبر: 1706-جامع الأحاديث، حدیث نمبر: 4320-الجامع الكبير للسيوطي، حدیث نمبر: 61) صحیح مسلم شریف میں حدیث پاک ہے : عن سليمان التيمی سمعت انسا يقول قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مررت علی موسی و هو يصلی فی قبره و زاد فی حديث عيسی مررت ليلة اسری بی ۔ ترجمہ: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جبکہ وہ اپنی مزار میں نماز ادا کررہے تھے۔(مسلم شریف، 165، باب من فضائل موسی،حدیث نمبر؛ 6308) حدیث مذکور سے متعلق صحیح ابن حبان کی طویل روایت کا ایک حصہ ملاحظہ ہو: فلما دخل صلی الله عليه وسلم بيت المقدس و اسری به اسری بموسی حتی رأه فی السماء السادسة و جری بينه و بينه من الکلام ما تقدم ذکرنا له ۔ ترجمہ: جب حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے پھر آپ آسمانوں پر تشریف لائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی آسمانوں پر تشریف لائے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان گفتگو ہوئی (صاحب کتاب کہتے ہیں) جس کا ہم نے پہلے ذکر کیا ۔ (صحیح ابن حبان‘ فصل اول‘ حدیث 50) اسی روایت میں مذکور ہے کہ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی‘ دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے‘ تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ‘ چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے‘ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے‘ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔


مذکورہ احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے انبیاء کرام علیہم السّلام زندہ باحیات ہیں‘ جس طرح دنیا میں نماز پڑھتے تھے اسی طرح نماز ادا کرتے ہیں‘ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف منتقل ہوتے ہیں ۔ علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ مواہب الدنیہ کی شرح میں نقل کرتے ہیں : و فی الفتاوی الرملية : الانبياء و الشهداء و العلماء لا يبلون‘ والانبياء والشهداء ياکلون فی قبورهم و يشربون‘ و يصلون و يصومون و يحجون۔ ترجمہ: فتاویٰ رملی میں ہے کہ حضرات انبیاء ‘ شہداء اور علماء کے اجسام مبارکہ وصال کے بعد بوسیدہ نہیں ہوتے‘ انبیاء کرام اور شہدائے عظام اپنی مزارات میں کھاتے‘ پیتے ہیں ‘ نماز ادا کرتے ہیں‘ روزہ رکھتے ہیں اور حج کرتے ہیں ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب‘ ج 7‘ ص 369)


حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی قبر کے پاس گذرا (تو میں نے دیکھا کہ) وہ اپنی قبر میںکھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے(صحیح مسلم ،کتاب الفضا ئل،باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام ، حدیث :۲۳۷۵۔ سنن نسائی، باب ذکر صلاۃنبی اللہ موسیٰ علیہ السلام حدیث نمبر ۱۶۳۳) ۔ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ۔


حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے ۔ اسی دن حضرت آدم علیہ اسلام کی تخلیق ہوئی ـ اسی میں ان کی روح قبض کی گئی اور اسی میں صور پھونکا جائے گا اور اسی میںسب بے ہوش ہوں گے ۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود پڑھنا مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اس وقت ہمارا درود پڑھنا آپ پر کس طرح پیش ہوگا جبکہ آ پ مٹی ہو گئے ہوں گے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے انبیائے کرام کے جسموں کو زمین پر حرام فر ما دیا ہے ۔ (ابو داود،کتاب الصلاۃ،باب فضل یوم الجمعۃ و لیلۃ الجمعۃ، حدیث : ۱۰۴۷۔ابن ماجہ،باب فی فضل الجمعۃ، حدیث : ۱۰۸۵،چشتی) ۔ اور دوسری روایت میں اتنا اضا فہ ہے کہ اللہ کے نبی زندہ ہیں اور ر وزی دیے جاتے ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب الجنائز،باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث :۱۶۳۷،چشتی)


اس حد یث کے مفہوم پر غور کریں ! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ خیال کیا کہ بعد وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی عام مرحومین کی طرح مٹی ہو جائیں گے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس خیال کا رد فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ ان کے جسموں کو کھائے ۔ تو اللہ کے نبی (بعد وصال) بھی زندہ ہیں اور انہیں ان کی رب کی طرف سے روزی دی جاتی ہے ۔ اب جس خیا ل کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رد فرما دیا اگر کوئی اسی مردود خیال کو اپنا عقیدہ بنا لے تو اور کافری کیا ہے ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حطیم کعبہ میں کھڑا تھا اور قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے ۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جن کو میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہواکہ اس سے پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہواتھا ۔تب اللہ تعالی نے بیت المقدس کو اٹھا کر میر ے سامنے رکھ دیا ،وہ مجھ سے بیت المقدس کی چیزوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور میں دیکھ دیکھ کر بیان کرتا رہا۔اور میں نے اپنے آپ کو انبیائے کرام کی جماعت میں پایا۔میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ قبیلہ شنوہ کے لوگوں کی طرح گھنگھریالے بالوں والے تھے ،اور پھر عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں ۔اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے پیغمبر ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کی ۔جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا:یہ مالک،جہنم کے داروغہ ہیں ،انہیں سلام کیجئے،میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہلے مجھے سلام کیا۔یہ حدیث صحیح ہے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال،حدیث:۱۷۲،چشتی)


اس کے علاوہ کتب احادیث میں متعدد احادیث سفر معراج کے بارے میں منقول ہیں جس میں یہ بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سفر معراج میں مختلف انبیائے کرام سے ملاقاتیں کیں ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا ،مبارک بادی پیش کی اور دیگر عرض و معروض بھی ہو ا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی امامت فر ما ئی ۔کیا یہ سب ان لوگوں سے کیا جاتا ہے جو مر کر مٹی میں مل گئے یا زندوں سے؟ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائے کیا۔اسے تو موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔


حضرت سلمی بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئی،وہ رو رہی تھیں۔میں نے پو چھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟انہوں نے فر مایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے ۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا میں ابھی حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت میں شریک ہوا ہوں ۔ (تر مذی،کتاب المناقب عن رسول اللہ ﷺ باب مناقب الحسن والحسین علیھما السلام، حدیث : ۳۷۷۱،چشتی)


تمام مسلمانوں کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق خواب واقعی اور حقیقی ہوتا ہے جس میں شیطانی وساوس کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔اب مذکورہ حدیث پر غور کریں تو کئی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔پہلی بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاشہادت حسین رضی اللہ عنہ میں شریک ہونا ،اور کسی بھی مجلس یا معاملے میں شرکت بغیر زندگی کے نہیں ہو سکتی۔ لہذا ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد وصال بھی زندہ ہیں ۔دوسری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شہادت حسین رضی اللہ عنہ میں شرکت کےلیے قبر انور سے کربلا جانااورپھر وہا ں سے آنا،ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آنا بغیرزندگی کے ممکن نہیں۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد وصال ظاہری آج بھی زندہ  ہیں۔تیسری بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کربلا کے معاملات کا معلوم ہونا یہ بھی بغیرزندگی کے متصور نہیں۔گویا یہ حدیث ہر اعتبار سے بعد وصال ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر دلالت کرتی ہے۔مگر حق اسی کو نظر آتا ہے جسے اللہ توفیق دے ۔ ان احادیث مبا رکہ کے علاوہ شبِ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی مسجدے اقصیٰ میں امامت فرمانامختلف آسمانوں پر حضرت آدم حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے ملا قات کرنا ان سے گفتگو فرمانا بالخصوص حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نمازمیں کم کرانے کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دینایہ سارے واقعات جو صحیح احادیث میںوارد ہیں انبیائے کرام علیہ الصلوۃ والتسلیم کی بعد وصالِ ظاہری ،زندہ ہونے پر بڑی واضح اور روشن دلیل ہے۔ جسے موٹی عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔


امام بیہقی نے حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر ایک مکمل رسالہ تصنیف فر مایا ہے جس میں مختلف احادیث مبارکہ سے اس حقیقت کو ثابت فر مایا ہے۔مزید تفصیل کے لئے اس رسالہ کا مطالعہ کریں ہم یہاں پر اس میں سے صرف ایک حدیث نقل کر کے بات کو ختم کرتے ہیں۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ:الانبیاء أحیاء فی قبورھم یصلون ۔ انبیائے کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور نماز پڑ ھتے ہیں ۔ (حیاۃ الانبیاء للبیہقی صفحہ ۷۰ حدیث نمبر ۱،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان صاف اور صریح ارشادات پر بھی جو ایمان نہ رکھے اور طرح طرح کے شوشے گوشے نکال کر اسی بات پر اڑے رہنے کی قسم کھا لے جو انہوں نے کسی نام نہاد محقق سے سن ر کھا ہے تواُنہیں حضور کے مقابلے میں کسی دوسرے کی بات کو ماننے کے انجام سے واقف رہنا چا ہیے ۔ قرآن میں اس حقیقت کو واضح کرنے کےلیے کہ : موت اللہ عزوجل کے سوا ہر نفس کو ضرور آئے گی ، اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے ۔ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ ہمارے لیے یہ کہنا کہ ’’ نعوذ بااللہ ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے،یا مردہ ہیں جائز ہے‘‘۔ بلکہ یہ وہ نظریہ ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود رد فرمایا جیساکہ اوپر حدیث مارکہ کے تحت گذرا ۔ اور ہم انہیں صرف زندہ ہی کہیں گے اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہی تعلیم دیا جیسا کہ ابھی امام بیہقی کے حوالے سے گذرا ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں شہدائے کرام کے بارے میں ارشاد فرمایا : جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں (سورہ بقرہ، آیت :۱۵۴ ) اور دوسری جگہ فرمایا : راہ مولیٰ میں شہید ہونے والوں کو مردہ گمان بھی نہ کرو ۔ (سورہ نساء آیت :۱۶۹)

حالانکہ ان شہداء کرام کی گردنوں کو ان کے جسموں سے جدا کر دیا گیا ۔ ان کی روح ان کے جسم خاکی سے پرواز کر گئی ۔ اس کے باوجود اللہ تعالی نے ہمیں ان کو ان کی فضیلت و برتری اور انہیں ابدی زندگی عطا کرنے کی وجہ سے مردہ کہنے سے روک دیا ۔ اور خود ہی فر مادیا کہ ’تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں‘ یعنی تم اپنی ظاہری نگاہوں سے ان کی حقیقت کو دیکھ نہیں سکتے ۔اس لئے بس یہ یقین رکھو کہ وہ زندہ ہیں کیونکہ یہ تمہارے رب کا حکم ہے جس کا غلط ہونا محال بالذات ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی امتی چاہے وہ جس مرتبہ کا بھی ہو کسی بھی اعتبار سے انبیائے کرام علیہم السلام سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ تو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے شہدا کو بحکم قرآنی مردہ کہنا تو دور مردہ گمان کرنا بھی جائز نہیں تو رحمتِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مردہ کہنا اور لکھنا کیونکر جائز ہو گا ؟

وہابیوں کے سب سے بڑے محدث ناصر البانی  حدیث پاک لکھتے ہیں : الانبیاء صلوات اللہ علیہم ۔ احیاء فی قبورھم یصلون ۔
ترجمہ :  انبیاء علیہم السّلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں  نمازیں ادا فرماتے ہیں ۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 187)

یہ روایت بلکل صحیح ہے : اس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے الاذکار ، جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 562 پہ ۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے ۔ اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے ۔ علامہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان جلد 3 صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے ۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445 ۔ علامہ ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ ۔ امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ ۔ ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے ۔ اس کے رجال صحیح ہیں ۔

علامہ ابن قیم جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابر سے سنی ہے چنانچہ اب حبانؒ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے ۔ اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابر کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔ حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا ۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔ (جلاء الافہام صفحہ 79،80)

ثابت ہوا حیات النبیاء انبیاء علیہم السّلام کے متعلق یہ روایت بلکل صحیح ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)
حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب - الصفحة أو الرقم: 2/404،چشتی)
المحدث : الدمياطي - المصدر : المتجر الرابح - الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده
المحدث : محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد
المحدث : العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد ۔
المحدث : الحكمي - المصدر: معارج القبول - الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد ۔
المحدث : الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره ۔
علامہ عزیزی لکھتے ہیں ۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290۔
علامہ مناوی لکھتے ہیں ، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد4ص87 ۔ اسی طرح علامہ زرقانی ، علامہ سمہووی ملاعلی قاری مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے ۔ زرقانی شارح مواحد جلد 5ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود جلد ۱ صفحہ 405،چشتی)

حافظ ابن حجر نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسی حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں ۔ (التہذیب التہذیب جلد 5ص113)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔ (فتح الباری جلد ۶ ص352)
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا ۔ (الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089)
علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہی ں۔ (مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214)
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180)
محدث الوہابیہ علامہ ناصر البانی نے اس روایت کو (صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل - الصفحة أو الرقم: 59 ، میں صحیح ، أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272 میں اسنادہ جید اور أحكام الجنائز - الصفحة أو الرقم: 272 میں اسنادہ قوی لکھا ہے ۔
غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔
علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا حجاج کو مجہول قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ علامہ ابن حجرؒ علامہ ذہبیؒ کا اعتراض نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ''امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ان کو ثقہ کہتے ہیں،امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ ان کو ثقہ کہتے ہیں ، ابو حاتم ان کو صالح الحدیث اور ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں ۔ (لسان المیزان، جلد نمبر 2 صفحہ 175،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قبر انور میں ہیں یا بہشت میں : ⏬

شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں ارشاد فرماتے ہیں : اما آنکہ قونوی تفضیل و ترجیح دادہ بودن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دربہشت اعلیٰ ’’استمرار آورد‘‘ در قبر شریف جو اب وے آنست کہ قبر احاد مومنین روضہ ایست از ریاض جنت پس قبر شریف سید المرسلین افضل ریاض جنت باشدو تو اند بودکہ وے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم در قبر از تصرف و نفوذ حالتی بو د کہ از سموات وارض جنان حجاب مرتفع باشد بے تجاوزو انتقال زیر ا کہ امور آخرت و احوال برزخ رابراحوال دنیا کہ مقید و مضیق حدود و جہات است قیاس نتواں کرد ۔ (جذب القلوب)

اور علامہ قونوی نے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے قبر انور میں ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہشت بریں میں ہو نے کو ترجیح دی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب عام مومنین کی قبریں جنت کے باغیچے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور ان سب میں افضل ترین باغیچہ جنت ہوگی ۔ اور ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبرِ انور میں ایسا تصرف دیا گیا ہو اور ایسی حالت عطاء کی گئی ہو کہ آسمانوں ، زمینوں اور جنت سب سے حجاب اٹھ گیا ہو بغیر اس کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مقام سے آگے بڑھیں یا کہیں منتقل ہوں ۔ اس لئے کہ امور آخرت اور احوال برزخ کا قیاس اس دنیا کے احوال پر نہیں کیا جا سکتا۔ جو مقید ہے اور جس کے حدود اور جہات نہایت تنگ ہیں ۔ انتہیٰ ۔

اس عبارت سے بہت سے اشکال رفع ہوگئے اور احادیث کے درمیان تطبیق ہوگئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مقام میں جلوہ گر ہیں اور بغیر اس کے کہ اپنے مقام شریف سے تجاوز فرمائیں یا کہیں منتقل ہوں ۔ زمینوں اور آسمانوں اور قبر انور جمیع امکنہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مساوی نسبت ہے اور ایک جگہ ہو نے کے باو جو د ہر جگہ مو جو د ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حجاب کو اٹھادیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر جگہ ہو نے میں رکاوٹ کا مو جب ہو ۔ رہا یہ امر کہ دنیا میں یہ بات ناممکن ہے کہ ایک ہی وجود کئی جگہ یکساں مو جو د ہو تو اس کا جواب حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح دیا کہ دنیا کی حدود جہات بہت ہی تنگ واقع ہوئی ہیں اور عالم دنیا قیود کے ساتھ مقید ہے اس لئے عالم آخرت اور برزخ کا قیاس دنیا پر نہیں کیا جا سکتا ۔ اور اس میں شک نہیں کہ حضر ت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بجا اور درست فرمایا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقید پر غیر مقید کا قیاس کر لیا جائے کسی کو تاہ اور تنگ چیز کو فراخ اور وسیع شئے کی طرح تسلیم کر لیا جائے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر انور میں بھی ہیں اور جنت اعلیٰ میں بھی لہٰذا کوئی تعارض اور اشکال باقی نہ رہا ۔

اس بیان سے دونوں مسلکوں کی تائید ہو جاتی ہے ۔ یعنی حضورصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے جسد اقدس کی حیات روح مبارک کے اس میں پائے جانے کی وجہ سے ہے یا کمال اتصال کی بناء پر۔ ہمارے نزدیک پہلا مسلک قوی اور راجح ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے : وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی (الضحیٰ آیت ۴) ۔ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کےلیے ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔

اس سے ثابت ہو ا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے کوئی ایسا وقت نہیں آئے گا۔ جس میں حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی فضیلت پہلے سے کم ہو بلکہ ہر آنے والی گھڑی میں حضور کی فضیلتیں پہلے سے زیادہ ہوں گی ۔

روح اقدس کا استقرار اگر جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام میںہو تو ’’وَلَـلْاٰخِـرَۃُ خَیْـرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی‘‘ کے خلاف لازم آئے گا۔ اس لیے کہ جسم اقدس سے روح مبارک کے قبض ہونے کے بعد اسے کوئی ایسی جگہ نہیں مل سکتی جو جسم مبارک سے زیادہ فضیلت والی ہو زیادہ تو درکنار تمام کائنات میں کوئی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کے برابر بھی فضیلت رکھنے والی نہیں کیونکہ علماء محققین نے اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ قبر انور اور زمین کا وہ حصہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء شریفہ سے متصل ہے تمام زمینوں اور آسمانوں اور کرسی اور یہاں تک کہ کعبہ مکرمہ اور عرش الٰہی سے افضل ہے ۔ جسم اقدس سے اتصال (تعلق) رکھنے والی زمین عرش اور کعبہ سے افضل ہوئی ۔ تو خود جسم اقدس کا تو پھر کہنا ہی کیا ہے۔ چنانچہ الدر المنتقیٰ میں علامہ محمد علاء الدین الامام فرماتے ہیں : وما ضم اعضاء الشریفۃ افضل البقاع علی الاطلاق حتیٰ من الکعبۃ ومن الکرسی وعرش الرحمٰن ۔ جو زمین اعضاء شریفہ سے متصل ہے (یعنی قبر ا نور ) مطلقاً تمام مقامات سے افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ سے اور کرسی اور عرش رحمن سے بھی افضل ہے۔ (الدر المنتقی بہا مش مجمع الانہار جلد اول ص ۳۱۲)۔(یہ مضمون درمختار جلد دوم اور شامی جلد دوم ص ۳۵۲/۳۵۱پر مر قوم ہے)

اگر روح مبارک جسم اقدس کے علاوہ کسی اور مقام پر ہو تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت پہلے سے کم ہو جائے گی ۔ لہٰذا یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ روحِ اقدس جسم مبارک سے باہر نکلنے کے بعد پھر جسم اقدس میں واپسی آگئی اور باہر نکلنا صرف قانون خداوندی کو پورا کر نے کےلیے تھا۔ روح مبارک کا جسم اقدس میں واپس آجانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسی ، حقیقی اور جسمانی حیات طیبہ کو مستلزم ہے ۔

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَامِکُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ، قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ ﷲِ ! کَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ يَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ قَالَ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ ﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ ۔
ترجمہ : حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا ؟ جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے ۔ (أبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب فضل يوم الجمعة و ليلة الجمعة، 1 / 275، الرقم : 1047 وفي کتاب الصلاة، باب في الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531،چشتی)(نسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب بإکثار الصلاة علي النبي فی يوم الجمعة، 3 / 91، الرقم : 1374 — وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب في فضل الجمعة، 1 / 345، الرقم : 1085)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اﷲُ عَلَيَّ رُوْحِي ، حَتَّي أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح لوٹا دی ہوتی ہے (اور اللہ میری توجہ اس کی طرف مبذول فرماتا ہے) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ (أبوداود في السنن، کتاب المناسک، باب زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2041،چشتی)(أحمد بن حنبل في المسند ، 2 / 527، الرقم : 10827)

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّي يَفْرُغَ مِنْهَا ، قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ ، إِنَّ ﷲَ حَرَّمَ عَلَي الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ ، فَنَبِيُّ اﷲِ حَيٌّ يُرْزَقُ ۔
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے، اس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے سے پہلے اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے ۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اور (یا رسول اللہ!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے ۔ پس اللہ عزوجل کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا ہے ۔ (ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 524، الرقم : 1637)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدً مَوْتِي کَانَ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَيَاتِي ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی ۔ (طبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم : 13496،چشتی)(دارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکَرِبْتُ کُرْبَةً مَا کَرِبْتُ مِثْلَهُ قًطُّ، قَالَ : فَرَفَعَهُ ﷲُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوْسَي عليه السلام قَاءِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَةَ. وَإِِذَا عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ : يَا مُحَمَّدُ، هَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ ۔
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا، تب اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (اسے دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوءہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر (دیکھا کہ) حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجیے ۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب ذکر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1 / 156، الرقم : 172)(نسائي في السنن الکبري، 6 / 455، الرقم : 11480)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَتَيْتُ، (وفي رواية هدّاب:) مَرَرْتُ عَلَي مُوْسَي لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی شب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، (اور ھدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ) فرمایا : سرخ ٹیلے کے پاس سے میرا گزر ہوا (تومیں نے دیکھا کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب من فضائل موسي عليه السلام، 4 / 1845، الرقم : 2375،چشتی)(نسائي في السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب ذکر صلاة نبي ﷲ موسي عليه السلام، 3 / 215، الرقم : 161. 1632)(أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم : 12526 و 13618)

عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ أَيَامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَبِ رضي الله عنه مِنَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلاَّ بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ مَعْنَاهُ ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ (جن دنوں یزید نے مدینہ منورہ پر حملہ کروایا تھا) کا واقعہ پیش آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک اذان اور اقامت نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (جو کہ جلیل القدر تابعی ہیں انہوں نے مسجد نبوی میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے (تین دن تک) مسجد نہیں چھوڑی تھی اور وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے سنتے تھے ۔ (دارمي في السنن، باب ما أکرم اللہ تعالي نبيه صلي الله عليه وآله وسلم بَعْدَ مَوْتِهِ، 1 / 56، الرقم : 93،چشتی)

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : أَتَيْتُ (وفي روایۃ ھَدَّابٍ : مَرَرْتُ) عَلَی مُوسَی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيْبِ الْأَحْمَرِ وَھُوَ قَائِمٌ یُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ۔
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں معراج کی شب سرخ ٹیلے کے قریب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا ، (اور ہدّاب کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا) درآنحالیکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں مصروفِ صلاۃ تھے ۔ (مسلم في الصحیح، کتاب : الفضائل، باب : من فضائل موسی علیه السلام، 4 / 1845، الرقم : 2375، والنسائي في السنن، کتاب : قیام اللیل وتطوع النھار، باب : ذکر صلاۃ نبي الله موسی علیه السلام، 3 / 215، الرقم : 161۔ 1632، وفي السنن الکبری، 1 / 419، الرقم : 1328، وابن حبان في الصحیح، 1 / 242، الرقم : 50، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 148، الرقم : 12526۔13618، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 335، الرقم : 36575، وأبو یعلی في المسند، 6 / 71، الرقم : 3325، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 13، الرقم : 7806، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 362، الرقم : 1205، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 170، الرقم : 6529، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8 / 205، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 444)

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ النَّفْخَةُ، وَفِيْهِ الصَّعْقَةُ۔ فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَةٌ عَلَيَّ۔ قَالَ : قَالُوْا : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَکَيْفَ تُعْرَضُ صلَاَتُنَا عَلَيْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ یَقُوْلُوْنَ : بَلِيْتَ فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : إِنَّ اللهَ عزوجل حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ ۔
ترجمہ : حضرت اَوس بن اَوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تمہارے دنوں میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے ۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا ، اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ کا جسد مبارک خاک میں مل چکا ہو گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا) حرام کر دیا ہے ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : الصلاۃ، باب : فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، 1 / 275، الرقم : 1047، وفي کتاب : الصلاۃ، باب : في الاستغفار، 2 / 88، الرقم : 1531،چشتی،والنسائي في السنن، کتاب : الجمعۃ، باب : إکثار الصلاۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوم الجمعۃ، 3 / 91، الرقم : 1374، وابن ماجہ في السنن، کتاب : إقامۃ الصلاۃ، باب : في فضل الجمعۃ،1 / 345، الرقم : 1085)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ : مَا مِنْ أَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلَّا رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوْحِي ، حَتَّی أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بھی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح لوٹا دی ہوئی ہے (میری توجہ اس کی طرف مبذول فرماتا ہے) یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں ۔ (أبو داود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زیارۃ القبور، 2 / 218، الرقم : 2041،چشتی،وأحمد بن حنبل في المسند 2 / 527، الرقم : 10827، والبیھقي في السنن الکبری، 15 / 245، الرقم : 10050، وفي شعب الإیمان، 2 / 217، الرقم : 1581،4161، وابن راھویه في المسند، 1 / 453 الرقم : 526)

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : أَکْثِرُوْا الصَّلَاةَ عَلَيَّ یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُ مَشْهُوْدٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِکَةُ وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ یُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ، حَتَّی یَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ : قُلْتُ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ : وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ فَنَبِيُّ اللهِ حَيٌّ یُرْزَقُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کرو، یہ یوم مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فرشتوں کی خصوصی حاضری کا دن) ہے، اس دن فرشتے (خصوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں) حاضر ہوتے ہیں، کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے فارغ ہونے تک اس کا درود مجھے پیش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : اور (یا رسول اللہ!) آپ کے وصال کے بعد (کیا ہو گا) ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں وصال کے بعد بھی (اسی طرح پیش کیا جائے گا کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیائے کرام علیھم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے ۔ پس اللہ عزوجل کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق بھی دیا جاتا ہے ۔ (ابن ماجه في السنن، کتاب : الجنائز، باب : ذکر وفاته ودفنه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 1 / 524، الرقم : 1637، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2 / 328، الرقم : 2582، والمزي في تھذیب الکمال، 10 / 23، الرقم : 2090، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 3 / 515، 4 / 493، والمناوي في فیض القدیر، 2 / 87، والعجلوني في کشف الخفائ، 1 / 190، الرقم : 501، والشوکاني في نیل الأوطار، 3 / 304)

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : مَنْ زَارَ قَبْرِي بَعْدَ مَوْتِي کَانَ کَمَنْ زَارَنِي فِي حَیَاتِي ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی ۔
(طبراني في المعجم الکبیر، 12 / 406، الرقم : 13496، والدارقطني عن حاطب رضی الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193،والبیھقي في شعب الإیمان، 3 / 489، الرقم : 4154،والهیثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2)

صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کا عقیدہ حیاتُ النّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⏬

عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ قَالَ : أَقْبَلَ مَرْوَانُ یَوْمًا فَوَجَدَ رَجُـلًا وَاضِعًا وَجْهَهُ عَلَی الْقَبْرِ، فَقَالَ : أَتَدْرِي مَا تَصْنَعُ؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُوْ أَیُّوْبَ رضی الله عنه فَقَالَ : نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ (وفي روایۃ : وَلَا الْخَدَرَ) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ : لَا تَبْکُوْا عَلَی الدِّيْنِ إِذَا وَلِیَهُ أَهْلُهُ وَلَکِنِ ابْکُوْا عَلَيْهِ إِذَا وَلِیَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ ۔
ترجمہ : حضرت داؤد بن ابو صالح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز (خلیفہ وقت) مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا چہرہ جھکائے ہوئے ہے ، تو اس نے اس آدمی سے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے ؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ (صحابی رسول) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے ، انہوں نے (جواب میں) فرمایا : ہاں (میں جانتا ہوں) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ اقدس میں حاضر ہوا ہوں اور کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : میں کسی تاریک جگہ پر نہیں آیا) میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے : دین پر مت رؤو جب اس کا ولی اس کا اہل ہو ، ہاں دین پر اس وقت رؤو جب اس کا ولی نا اہل ہو ۔ (أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 422، الرقم : 23632، والحاکم في المستدرک، 4 / 560، رقم : 8571،چشتی،والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 158، الرقم : 3999، وفي المعجم الأوسط، 1 / 94، الرقم : 284، 9 / 144، الرقم : 9366، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 57 / 249، 250، والسبکي في شفاء السقام1 / 113، والهیثمي في مجمع الزوائد، 5 / 245، والهندي في کنز العمال، 6 / 88، الرقم : 14967)

عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ یُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثَـلَاثًا وَلَمْ یُقَمْ وَلَمْ یَبْرَحْ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ رضی الله عنه مِنَ الْمَسْجِدِ، وَکَانَ لَا یَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلاَةِ إِلاَّ بِھَمْھَمَةٍ یَسْمَعُھَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَذَکَرَ مَعْنَاهُ ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ایام حرّہ کا واقعہ پیش آیا تو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تین دن تک اذان اور اِقامت نہ کہی گئی ، اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ (نے مسجد میں پناہ لی ہوئی تھی اور) انہوں نے مسجد نہیں چھوڑی تھی ۔ وہ نماز کا وقت نہیں جانتے تھے مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے جو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور سے سنتے تھے پھر اس آواز کا انہوں نے مطلب بھی بتایا ۔ (دارمي في السنن، 1 / 56، الرقم : 93، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 2 / 400، الرقم : 5951، والسیوطي في شرح سنن ابن ماجه، 1 / 291، الرقم : 4029)(سنن الدارمي بَاب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِهِ، رقم الحديث: ٩٣)(خصائص كبرى جلد 2 صفحہ 281)(الحاوي للفتاوى جلد 2 صفحہ 148)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ⏬

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا بَکْرٍ الْوَفَاةُ أَقْعَدَنِي عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ لِي : يَا عَلِيُّ، إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلْنِي بِالْکَفِّ الَّذِي غَسَّلْتَ بِهِ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَحَنِّطُوْنِي وَاذْهَبُوْا بِي إِلَی الْبَيْتِ الَّذِي فِيْهِ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاسْتَأْذَنُوْا فَإِنْ رَأَيْتُمُ الْبَابَ قَدْ يُفْتَحُ فَادْخُلُوْا بِي وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلٰی مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰی يَحْکُمَ ﷲُ بَيْنَ عِبَادِهِ قَالَ : فَغُسِّلَ وَکُفِّنَ وَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ يَأْذُنُ إِلَی الْبَابِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، هٰذَا أَبُوْ بَکْرٍ مُسْتَأْذِنٌ فَرَأَيْتُ الْبَابَ قَدْ تَفَتَّحَ وَسَمِعْتُ قَاءِـلًا يَقُوْلُ : أَدْخِلُوا الْحَبِيْبِ إِلٰی حَبِيْبِهِ فَإِنَّ الْحَبِيْبَ إِلَی الْحَبِيْبِ مُشْتَاقٌ. رَوَاهُ بْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ ۔
ترجمہ : حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا : جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو آپ خود مجھے اپنے ان ہاتھوں سے غسل دینا جن ہاتھوں سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے (بھی وہی) خوشبو لگانا اور (میری میت) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس لے جانا اگر تم دیکھو کہ (خود بخود) دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لا کر عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا اس وقت تک کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ نہ فرما دے (یعنی قیامت نہ آ جائے۔ اور پھر ان کی خواہش کے مطابق ہی) انہیں غسل اور (متبرک خوشبو والا) کفن دیا گیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ) سب سے پہلے میں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی اور عرض کیا : یارسول اللہ ! یہ ابو بکر ہیں جو اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اَقدس کا دروازہ (خود بخود) کھل گیا اور میں نے سنا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کردو۔ بے شک حبیب بھی ملاقاتِ حبیب کے لیے مشتاق ہے ۔ (تاريخ مدينة دمشق،30 / 436،چشتی،خصائص الکبری، 2 / 492)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں آپ کی بارگاہ میں حاضرتھا ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا : اے علی جب میرا انتقال ہوجائے تو مجھے بھی اُسی مبارک برتن سے غسل دینا جس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا گیا تھا۔ پھر مجھے کفن دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی جانب لے جانا اور بارگاہ رسالت سے یوں اجازت طلب کرنا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللہِ! ھٰذَا اَبُوْبَکْر یَسْتَاْذِنُ ۔ یعنی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام ہو، ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور اجازت چاہتے ہیں ۔ اگر روضہ اقدس کادروازہ کھلے تو مجھے اس میں دفن کر دینااور اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے قبرستان (جنۃ البقیع) میں دفن کر دینا ۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل و کفن کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کے مطابق روضہ محبوب کے دروازے پر حاضرہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یوں عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابو بکر آپ سے اجازت کے طالب ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے ہی میرے الفاظ مکمل ہوئے تو میں نےدیکھا کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے آواز آئی : اَدْخِلُوْا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبَ یعنی محبو ب کو محبوب سے ملادو ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفنا دیا گیا ۔ (الخصائص الکبریٰ، باب حیاتہ فی قبرہ۔۔الخ، ج۲، ص۴۹۲، السیرۃ الحلبیۃ، باب یذکر فیہ مدۃ مرضہ۔۔۔الخ، ج۳، ص۵۱۷،چشتی،لسان المیزان، حرف العین المھملۃ، من اسمہ عبد الجلیل ، ج۴، ص۲۲۱)

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے ۔ بابی انت وامی طبت حیا ومیتا الذی نفسی بیدہ لا یذیقک الله الموتتین ابدا (بخاری شریف جلد 1 صفحہ 517)
ترجمہ : میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات اور موت دونوں کیفیتوں میں جیسے پاکیزہ ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ یا ﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو موتوں کا ذائقہ کبھی نہ چکھائے گا ۔ امام الموتة التی کتب ﷲ علیک فقد متھا ۔ ( بخاری شریف کتاب الجنائز صفحہ 146)
ترجمہ : جو موت ﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے لکھی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وراد ہو چکی ۔

الحمد للہ جو عقیدہ صدیق اکبر و صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے وہی ہمارا ہے ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مردا اس کلمہ سے لا یذیقک ﷲ الموتترین ابدا سے یہ تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر قبر میں دوسری موت کا ذائقہ بالکل نہ چکھیں گے ۔ دوسر ے عام لوگوں کو قبر میں سوال وجواب کےلئے زندہ کیا جاتا ہے ۔ اور پھر ان پر دوبارہ وردو موت ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ دوسری موت کبھی نہیں آئے گی ۔ اس ارشادِ عالی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہی کی طرف تھا ۔ (مدارج النبوة جلد 2 صفحہ 890) ۔ اسی طرح شیخ الاسلام علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عینی شرح بخاری میں جلد 2 صفحہ 600 ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری جلد 7 صفحہ 42 میں اور تسیر القاری شرح صحیح البخاری جلد3ص445 لکھا ہے)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی مہم سے واپس مدینہ منورہ آتے تو سب سے پہلے جو کام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں سلام عرض کرنا ہوتا تھا اور اس کی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسروں کو تلقین فرماتے ۔ (جذب القلوب صفحہ 200)

حضرت امیر معاويہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام واپسی کا ارادہ فرمایا اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں الوداع کیا تو انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے تجویز رکھی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان کے ساتھ شام چلے آئیں۔ وہاں کے لوگ اپنے امراءکے بہت تابع فرمان ہیں ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لا اختار بجوار رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار (ہمسائیگی) پر اور کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا ۔ (البدايہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 149،چشتی)(تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 1040)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : من ذار رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان فی جوار رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
ترجمہ : جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر کے پاس حاضر ہو وہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمسائیگی میں ہوتا ہے ۔ زرقانی جلد 8 صفحہ 304)(جذب القلوب صفحہ 180)

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ اقدس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے مفارق اور بے تعلق ہوتی تو سیدنا علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خصوصیت کے ساتھ قرب روضہ مطہرہ کو ہمسائیگی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز قرار نہ دیتے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے روضہ اطہر میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ علما ء اکرام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل علت اس حقیقت کو قرار دیا۔ اذہو حی فی قبر يصلی فیہ ۔ (زرقانی جلد 8 صفحہ 304،چشتی)(شفا السقام صفحہ 173)

آیتِ مبارکہ : اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ اور خوارج کے فریب کا جواب

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّیِّتُوْنَ ۔ (سورہ زمر آیت نمبر 30)
ترجمہ : بے شک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے ۔

اس آیت میں ان کفار کا رد ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا انتظار کیا کرتے تھے ، انہیں فرمایا گیا کہ خود مرنے والے ہو کر دوسرے کی موت کا انتظار کرنا حماقت ہے ۔ (تفسیر جلالین مع صاوی الزمر تحت الآیۃ: ۳۰، ۵/۱۷۹۶)

انبیاء ِکرام علیہم السلام کی موت ایک آن کےلیے ہوتی ہے ۔ کفار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام کی موت ایک آن کےلیے ہوتی ہے پھر اُنہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے ۔ اس پر بہت سے شرعی دلائل قائم ہیں ، اس پر ہم سابقہ مضامین میں تفصیل سے لاٸل پیش کر چکے ہیں الحَمْدُ ِلله ۔ چند دلاٸل یہاں ملاحظہ فرماٸیں : ⏬

حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام علیہم السلام کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام فرما دیا ہے ، پس اللہ تعالیٰ کا نبی زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔ ( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۲/۲۹۱، الحدیث: ۱۶۳۷،چشتی)

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : انبیاءِ کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان میں نماز پڑھتے ہیں ۔ ( مسند ابو یعلی، مسند انس بن مالک، ثابت البنانی عن انس، ۳/۲۱۶، الحدیث: ۳۴۱۲)

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : أَتَيْتُ ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ : ” مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي ، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الْفَضَائِلِ بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386 (2377)
ترجمہ : حضرت انس بن مالک (رضی الله عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پر ہوا ، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے ، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ۔

وقال أبو الشيخ في الكتاب الصلاة على النبي : حدثنا عبد الرحمن ابن أحمد الأعرج ، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبو معاوية ، حدثنا الأعمش ، عن أبي الصالح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، قَالَ : مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ ۔ (جلاء الافہام، لابن قيم : ٢٥،:رقم الحديث: 19 ؛ مشكوة: جلد # ١ حديث # ٨٩٩ برواية الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ)
ترجمہ : حافظ ابو الشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبد الرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمش رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ۔ وہ ابو صالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے ۔ (جلاء الافہام لابن قيم جوزی صفحہ ٢٥ رقم الحديث : 19،چشتی)

امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (۸۴۹–۹۱۱ ھہ) فرماتے ہیں : قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى أنباء الأذكياء في حياة الانبياء ۔ (الحاوي للفتاوي للسيوطي)
ترجمہ : امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے “کتاب الاعتقاد” میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں. امام قرطبی نے “تذکرہ” میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ “موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے ، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں ، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہم السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرام علیہم السّلام کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج میں انبیاء علیہم السّلام سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا . اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں . ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرام علیہم الرّحمہ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے ۔

مزید فرماتے ہیں : حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك ۔
ترجمہ : نبی کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے ، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں ۔ (الحاوي للفتاوي الفتاوى الحديثية كتاب البعث مبحث النبوات تزيين الآرائك في إرسال النبي صلى الله عليه وسلم إلى الملائك أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء ٢/١٣٩،چشتی)

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر انور کے قریب پڑھا جانے والا درود و سلام خود سنتے ہیں دور سے پہنچا دیا جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب عطاء فرماتے ہیں ۔ (قاعدہ عظیمہ علامہ ابن تیمیہ صفحہ نمبر 57)

یہ وہی علامہ ابن تیمیہ ہیں جنہیں غیر مقلد سعودی اور غیر سعودی وہابی نجدی اپنا امام مانتے ہیں سوال یہ ہے اب کیا کہتے ہیں یہ منکرین حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر انور میں حیات نہیں ہیں اپنے بڑے کی ہی مان لو اے آل نجد و آل سعود ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ⏬

اَنبیا کو بھی اجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات مثلِ سابق وہی جسمانی ہے

عن اوس بن اوس قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم و فیہ قبض وفیہ النفخۃ و فیہ الصعقۃفاکثرو ا علی من الصلاۃ فیہ فان صلاتکم معرو ضۃ علیّ،قال:قالوا یا رسول اللہ و کیف تعرض صلاتنا علیک و قد ارمت ؟یقولون :بلیت،فقال :انّ اللّٰہ َعز وجل حرّمَ علی الارض اجساد الانبیائ۔(ابوداود، رقم الحدیث:۱۰۴۷،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۱۶۳۶،چشتی)
تر جمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا :بے شک تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ،اسی دن ان کی روح قبض کی گئی،اسی دن صور پھو نکا جائے گا اور اسی دن سب بے ہوش ہونگے ۔ پس اس دن کثرت سے مجھ پر درود بھیجا کروکیو نکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جا تا ہے۔صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اُس وقت ہمارا درود آ پ پر کس طرح پیش کیا جائے گا جبکہ آپ مٹی ہو چکے ہوں گے ؟ تو ارشاد فر مایا : بے شک اللہ تعالی نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے ۔

آئیے اس حدیث پر غیر مقلدین وہابیہ کے اعتراض کا جواب بھی پڑھتے چلتے ہیں غیر مقلدین حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ والی اس حدیث پر ہمیشہ کی طرح ضعیف کا فتویٰ جھاڑ کر سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں آیئے ان کے ضعیف کے ڈرامے کو بھی ان کے گھر پہنچاتے ہیں : ⏬

یہ روایت بلکل صحیح ہے ۔ اس کو امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے الاذکار جلد 1 صفحہ 131 پہ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری،جلد6،صفحہ 562 پہ ،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد جلد 26 صفحہ 84 پہ ذکر کیا ہے اور علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کے رجال کو صحیح کہا ہے،علامہ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان جلد 3صفحہ 190،191 پہ اس کے رجال کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن دارمی جلد 1 صفحہ 445، علامہ ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے مصنف ابن ابی شیبہ جلد 6 صفحہ 40 پہ، امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن الکبری للبہیقی جلد 4 صفحہ 432 پہ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن خزیمہ جلد 3 صفحہ 118 پہ ذکر کیا ہے ۔ اس کے رجال صحیح ہیں ۔

علامہ ابن قیم جلاء الافھام میں یہ حدیث بیان کر کے اس پہ حسین بن علی الجعفی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : حسین بن علی الجعفی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت عبدالرحمان بن یزید بن جابر رحمۃ اللہ علیہ سے سنی ہے چنانچہ اب حبان رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابن حبان میں ذکر کیا ہے اور اس سند میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے۔اور لوگوں کا یہ گمان کہ یہ ابن تمیم ہے اور حسین بن علی سے ابن جابر رحمۃ اللہ علیہ کہنے میں غلطی ہو گئی ہے یہ گمان صحیح نہیں ہے ۔حسین بن علی پراس میں کوئی اشتباہ نہ تھا۔ وہ تنقیقد کی اہلیت بھی رکھتے تھے اور دونوں کو بخوبی جانتے بھی تھے اور دونوں سے سماعت بھی کی ۔(جلاء الفھام صفحہ 79،80) ۔ تو حیات النبیاء علیہم السّلام پہ یہ روایت بلکل صحیح ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں قلت رجال ثقات،التہذیب التہذیب جلد 3ص398)۔
حافظ منذری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اسنادہ جید ترجمان السنہ جلد 3ص297، الترغيب والترهيب – الصفحة أو الرقم: 2/404
المحدث: الدمياطي – المصدر: المتجر الرابح – الصفحة أو الرقم: 246 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده
المحدث: محمد بن محمد الغزي – المصدر: إتقان ما يحسن – الصفحة أو الرقم: 1/100 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: العجلوني – المصدر: كشف الخفاء – الصفحة أو الرقم: 1/190 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الحكمي – المصدر: معارج القبول – الصفحة أو الرقم: 792/2 ، خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد
المحدث: الألباني – المصدر: صحيح الترغيب – الصفحة أو الرقم: 1672 ، خلاصة حكم المحدث: حسن لغيره
علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ رجال الثقات، السراج المنیر جلد1ص290 ۔ علامہ مناوی لکھتے ہیں، قال الدمیری رجال ثقات، فیض القدیر جلد 4 صفحہ 87،چشتی)

اسی طرح علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ سمہووی رحمۃ اللہ علیہ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ مولانا شمس الحق علیم آبادی، قاضی شوکانی نے بھی اس حدیث کا صحیح اور جید کہا ہے۔زرقانی شارح مواحد جلد 5 ص436،خلاصة الوفا ص48، مرقات جلد2ص112، قاضی شوکانی نے نیل الاوطار جلد5ص 264،اور شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود جلد ۱ص405۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے کہ عبادہ بن نسی رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابو الدردہ رضی اللہ عنہ سے براہ راست روایت کرتے ہیں۔(التہذیب التہذیب جلد 5ص113)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔[فتح الباری جلد ۶ ص352]
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن کہا [الجامع الصغير – الصفحة أو الرقم: 3089]
علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد – الصفحة أو الرقم: 8/214]
علامہ عزیزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ [مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180]

علامہ ناصر البانی امام الوہابیہ نے اس روایت کو [صحيح الجامع – الصفحة أو الرقم: 2790 ، التوسل – الصفحة أو الرقم: 59] میں صحیح ، [أحكام الجنائز – الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ جید اور [أحكام الجنائز – الصفحة أو الرقم: 272] میں اسنادہ قوی فرمایا ہے.

غیر مقلدین کے علامہ ارشاد الحق اثری نے مسند ابو یعلی کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحیہ میں صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا حجاج کو مجہول قرار دینا صحیح نہیں کیونکہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا اعتراض نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ”امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ان کو ثقہ کہتے ہیں،امام ابن معین ان کو ثقہ کہتے ہیں،ابو حاتم ان کو صالح الحدیث اور ابن حبان ثقات میں لکھتے ہیں”۔(لسان المیزان جلد 2 صفحہ 175،چشتی)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہیں بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا ۔ انہوں نے تو حسین بن علی جعفی کا ذکر کیا کہ وہ یزید بن جابر کی بجائے یزید بن تمیم سے روایت کرتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ روایت بھی یزید بن جابر کی بجائے یزید بن تمیم سے مروی ہے ۔ علامہ ابن قیم کا حوالہ دیا ہے اور انہوں نے آپ کے اس اعتراض کا بھی جواب دیے دیا ۔ باقی سینہ پہ ہاتھ بانھدنے ہہ تو ابن خزیمہ کی ضعیف روایت کو بھی آپ صحیح تسلیم کر لیتے ہیں لیکن یہاں ابن خزیمہ کی روایت کا انکار کرنے کی کوئی دلیل نہیں دی ۔

آپ کی اطلاع کےلیے علامہ ناصر البانی نے اس کو صحیح سنن ابو داود اور سلسلہ احادیث صحیحیہ میں ذکر کیا ہے ۔ وہی علامہ البانی جن کے حوالے آپ اسی مضمون میں دے چکے ہیں چند احادیث کے ضعیف ہونے پہ ۔ أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة ، فإن صلاتكم معروضة علي . قالو : كيف تعرض)عليك و قد أرمت ؟ قال : إن الله تعالى حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء ۔

قال الألباني في ” السلسلة الصحيحة ” 4 / 32 :رواه أبو إسحاق الحربي في ” غريب الحديث ” ( 5 / 14 / 2 ) عن حسين بن علي عن ابن جابر عن أبي الأشعث عن أوس بن أوس مرفوعا ۔
قلت : و إسناده صحيح ، و قد أعل بما لا يقدح كما بينته في كتابي ” صحيح أبي ۔
داود ” ( 962 ) و ” تخريج المشكاة ” ( 1361 ) و ” صحيح الترغيب ” ( رقم 698)
و لذلك صححه جمع من المحدثين ، ذكرتهم هناك . و لطرفه الأول شاهد من رواية أبي ۔
رافع عن سعيد المقبري عن أبي مسعود ، الأنصاري مرفوعا به . أخرجه الحاكم  ۔
و قال : صحيح الإسناد ، فإن أبا رافع هذا هو إسماعيل بن رافع ۔
علامہ شعیب الارنوط نے مسند احمد کی تحقیق میں اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔

امام بہیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”حیات الالنبیاء صفحہ 88 ” میں اس روایت کو حیات انبیاء پہ بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ مطلب یہ کہ امام بہیقی اس روایت سے حیات النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دلیل لے رہے ہیں ۔

امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک حاکم میں اس کی سند کو بخاری کی شرط پہ صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر میں اس روایت کو ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ابن خزیمہ، ابن حبان اور امام نووی نے الاذکار میں اس کو صحیح کہا ہے۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد وہابی نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس باب پہ نص ہے ۔ (عون المعبود،ج1،صفحہ 405)

علامہ ناصر البانی محدث الوہابیہ نے سلسلہ صحیحیہ میں یہ روایت بیان کر کے اس کا مکمل جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا وھم ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو بیان کر کے اس کا رد کیا ہے اور کہا ہےکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام معین نے حجاج بن زیاد الاسود کو ثقہ کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے ۔ اب یہ دیکھو کہ کن کن محدثین نے اس کو صحیح کہا ہے ۔
أخرجه البيهقي في حياة الأنبياء في قبورهم [ص /23 طبعة مكتبة الإيمان]، من طريق أبي يعلى به قال الهيثمي في المجمع [8/ 386 ] : « رواه أبو يعلى والبزار ورجال أبو يعلى ثقات ۔
وقبله نقل ابن الملقن في البدر المنير [5/ 285] عن البيهقي أنه قال بعد أن ساق هذا الطريق : « هَذَا إِسْنَاد صَحِيح » ثم قال ابن الملقن : «وَهُوَ كَمَا قَالَ ؛ لِأَن رِجَاله كلهم ثِقَات ۔
وأما السنة : ففيها شيء كثير من الأدلة على حياتهم، فمن ذلك : الحديث (الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون) رواه أبو يعلى في مسنده (6/147)

ارشاد الحق اثری فی التحقیق مسند ابی یعلی : قال الإمام في الصحيحة [رقم/621] بعد أن ساق كلام النقاد في « حجاج » قال : « و يتلخص منه : أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف ، و أن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ؟ و لذلك استنكر حديثه ! و يبدو أنه عرفه فيما بعد ، فقد أخرج له الحاكم في ” المستدرك ” ( 4 / 332 ) حديثا آخر ، فقال الذهبي في ” تلخيصه ” : ” قلت : « حجاج ثقة » و كأنه لذلك لم يورده – يعني الذهبي- في كتابه ” الضعفاء ” و لا في ذيله، و الله أعلم ۔

قلتُ : وقد وجدتُ الذهبي نفسه قد ترجمه في سير النبلاء [76/7]، وقال: « بصْريٌ صدوق ……. وكان من الصلحاء » فلله الحمد ۔

سنن الکبریٰ للبہیقی اور مسند ابو یعلیٰ کی روایات 2 ہیں جن کے راوی مختلف ہیں۔ آپ نے جو سکین دئے انہی تمام سکین کے حاشیہ میں تمام حاشیہ نگاروں نے مسند ابو یعلیٰ کی روایت ”حدثنا أبو الجهم الأزرق بن علي ، حدثنا : يحيى بن أبي بكر ، حدثنا : المستلم بن سعيد ، عن الحجاج ، عن ثابت البناني ، عن أنس بن مالك قال رسول الله (ص) : الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون – ” کو صحیح کہا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔

منکرین نے جو جرح نقل کی جس میں الحسن بن قتیبہ المدائنی” ہے تو یہ امام بہیقی کی سند ہے جس پہ اعتراض کو سکتا ہے لیکن فقیر کا مٶقف مسند ابو یعلیٰ کی سند پہ ہے جو کہ بلکل صحیح ہے ۔ آپ کے اپنے علماء البانی ، ارشاد الحق اثری ، اور محدث فتاوی کی کمیٹی والے اس روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔ منکرین نے پھر وہی علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ دیا جس کا جواب دیا جا چکا ہے ۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےجو کہا کہ مستلم بن سعید کو وھم ہو جاتا تھا تو اس سے کب ثابت ہے کہ اس روایت میں بھی وہم ہو گیا ۔

ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تو خود فتح الباری جلد 6 صفحہ 562 پہ مسند ابو یعلیٰ کی روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں اور حجاج بن اسود پہ آپ کیجرح کا رد بھی کر رہے ہیں کہ ابن معین،امام احمد نے ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم نے صالح الحدیث کہا ہے۔ آپ نے لسان المیزان کا حوالہ دیا تو جناب ادھورا حوالہ دیا۔ لسان المیزان میں تو علامہ ابن حجر امام ذہبی کی جرح نقل کر کے نیچے اس کا رد کر رہے ہیں ۔

اگر ابن حجر کو مستم بن سعید پہ اعتراض ہوتا تو امام ذہبی کی جرح کا رد نہ کرتے اور نہ ہی فتح الباری میں اس کے تمام رجال کو صحیح کہتے۔

امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اسی جرح کو تو علامہ البانی نے سلسلہ حدیث صحیحیہ میں نقل کر کے اس حدیث پہ اعتراضات کا جواب دیا ہے ۔ قال الإمام في الصحيحة [رقم/621] بعد أن ساق كلام النقاد في « حجاج » قال : « و يتلخص منه : أن حجاجا هذا ثقة بلا خلاف ، و أن الذهبي توهم أنه غيره فلم يعرفه ؟ و لذلك استنكر حديثه ! و يبدو أنه عرفه فيما بعد ، فقد أخرج له الحاكم في ” المستدرك ” ( 4 / 332 ) حديثا آخر ، فقال الذهبي في ” تلخيصه ” : ” قلت : « حجاج ثقة » و كأنه لذلك لم يورده – يعني الذهبي- في كتابه ” الضعفاء ” و لا في ذيله، و الله أعلم ۔

قلتُ : وقد وجدتُ الذهبي نفسه قد ترجمه في سير النبلاء [76/7]، وقال: « بصْريٌ صدوق ……. وكان من الصلحاء » فلله الحمد ۔

اب امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح پہ آتے ہیں تو اس کا جواب تو علامہ البانی نے تفصیل سے دیا کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کو وھم ہو گیا تھا اور خود حجاج بن الاسود کو علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک حاکم کی تلخیص جلد 4صفحہ 332 پہ ثقہ قرار دیا ہے ۔

سیر اعلام النبلاء میں حجاج بن الاسود کو بصری صدوق قرار دیا اور ساتھ کہا کہ ابن معین نے حجاج کو ثقہ کہا ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء جلد 7 صفحہ 76)

تو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح کا جواب خود ان سے ہی مل گیا کہ ان کے نزدیک بھی حجاج بن الاسود ثقہ ہیں اور صدوق ہیں ۔

عن ابی الدرداء قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم : اکثروالصلاۃ علیّ یوم الجمعۃ فانہ مشہود تشھدہ الملائکۃ و ان احدا لن یصلی علیّ الاعرضت علیّ صلاتہ حتی یفرغ منھا ،قال:قلتُ :و بعد الموت؟ قال: و بعد الموت ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء ،فنبی اللہ حی یرزق۔(ابن ماجہ،کتاب الجنائز ،باب ذکر وفاتہ و دفنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حدیث:۱۶۳۷،چشتی)
تر جمہ : حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا:جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو،کیونکہ یہ یومِ مشہود ہے،اس دن فر شتے حاضر ہوتے ہیں ،کوئی شخص جب بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوجاتا ہے،حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کیا :اور وفات کے بعد ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اور وفات کے بعد بھی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا : اللہ تعالی نے زمین کےلیے انبیائے کرام کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے ،تو اللہ کے نبی زندہ ہوتے ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے ۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لقد رأیتنی فی الحِجر وقریش تسألنی عن مسرای،فسألتنی عن اشیاء من بیت المقدس لم اثبتھا فکربت کربۃ ما کربت مثلہ قط ،قال: فر فعہ اللہ لی أنظر الیہ ما یسألونی عن شئی الا أنبأتھم بہ ۔و قد رأیتنی فی جماعۃ من الانبیاء فاذا موسی قائم یصلی ،فاذا رجل جعد کانہ من رجال شنوء ۃ واذا عیسی ابن مریم علیہ السلام قائم یصلی ،اقرب الناس بہ شبھا عروۃ بن مسعود الثقفی ۔واذا ابراھیم علیہ السلام قائم یصلی ،اشبہ بہ صاحبکم ،یعنی نفسہ فحانت الصلاۃ فأممتھم فلما فرغت من الصلاۃ قال قائل:یا محمد ،ھذا مالک صاحب النار فسلم علیہ فالتفت الیہ فبدأنی بالسلام۔(مسلم،کتاب الایمان ،باب ذکر المسیح ابن مریم والمسیح الدجال،حدیث:۱۷۲)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:میں حطیم کعبہ میں کھڑا تھا اور قریش مجھ سے میرے سفر معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جن کو میں نے محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہواکہ اس پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہواتھا ،تب اللہ تعالی نے بیت المقدس کو اٹھا کر میر ے سامنے رکھ دیا ،وہ مجھ سے بیت المقدس کی چیزوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور میں دیکھ دیکھ کر بیان کرتا رہا۔اور میں نے اپنے آپ کو انبیائے کرام کی جماعت میں پایا،میں نے دیکھا کہ حضرت موسی علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ قبیلئہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگھریالے بالوں والے تھے ،اور پھر عیسی ابن مریم علیھما السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں ،اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے اور تمہارے پیغمبر ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے ان سب انبیائے کرام علیھم السلام کی امامت کی ،جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا:یہ مالک،جہنم کے داروغہ ہیں ،انہیں سلام کیجئے،میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہلے مجھے سلام کیا۔یہ حدیث صحیح ہے ۔

یہ نجدی منافق ہے گندا ہے واللہ
جہنّم پہ اس کا نام کندہ ہے واللہ

تو زندہ ہے واللہ تو زندہ ہے واللہ
میرے چشم عالم سے چھپ جانے والے

جو سُنــی ہـــے وہ تو ہــمیـــــشہ کہے گا
جو مردہ کہے تمکو وہ خود مردہ ہے واللہ

رہے گا یونہی اُن کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے

عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال:مررت علی قبر موسیٰ علیہ السلام و ھو یصلی فی قبرہ۔(سنن نسائی،رقم الحدیث:۳۳۱۶،الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۲۳۷۵)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میں حضرت موسی علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گذرا(تو میں نے دیکھا کہ)وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے ۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔

حدثتنی سلمۃ قالت : دخلت علی ام سلمہ وھی تبکی فقلت :ما یبکیک؟قالت:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’تعنی فی المنام‘و علی رأسہ و لحیتہ التراب فقلت:ما لک یا رسول اللہ ؟ قال : شھدت قتل الحسین آنفا ۔ (جامع ترمذی رقم الحدیث : ۳۷۷۱)
تر جمہ : حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں ام المو منین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا کے کی خدمت میں حاضر ہوئی ، وہ رو رہی تھیں ۔ میں نے پو چھا آپ کیوں رو رہی ہیں ؟ انہوں نے فر مایا کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے ، میں نے عر ض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں ابھی (امام) حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت کے مقام پہ موجود تھا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...