Saturday 4 May 2024

عظمت و شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کی روشنی میں

0 comments
عظمت و شانِ صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی کئی اقسام ہیں جیسے خلفائے اربعہ ، عشرۂ مبشرہ ، اصحابِ بدر ، اصحابِ اُحد ، اصحابِ بیعتِ رضوان ، اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ۔ ان میں کئی اقسام ایک دوسرے میں داخل بھی ہیں ۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کی افراد کی تعداد کے اعتبار سے ایک بڑی تقسیم تو مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہ ہے اور دوسری تقسیم وہ ہے جو اوپر ذکر کردہ آیت میں بیان کی گئی یعنی فتحِ مکّہ سے پہلے والے اور بعد والے ۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جنّتی ہیں اس آخری تقسیم کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اِن صحابہ میں درجہ بندی فرما دی کہ فتحِ مکّہ سے پہلے والے ، بعد والوں سے افضل ہیں ۔ یہ معاملہ افضلیت کا ہے لیکن جہاں تک بارگاہِ خداوندی میں ان کے مقبول اور جنّتی ہونے کا معاملہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ان سب سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنّت) کا وعدہ فرمالیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ جنّتی اور اللہ عزوجل کے مقبول بندے ہیں ۔ ہر صحابی رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیت کی نسبت سے ہمارے لیے واجبِ تعظیم ہے اور کسی بھی صحابی کی گستاخی حرام اور گمراہی ہے ۔ قرآن و حدیث عظمتِ صحابہ کے بیان سے معمور ہیں اور کوئی صحابی بھی اس عظمت و شان سے خارج نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ معلوم ہو اکہ مہاجرین اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت اور ان کامقام دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بہت بلند ہے ۔ انہیں میں حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں  اوران کی عظمت کی گواہی خود اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں  دے رہا ہے ۔ اس سے ان لوگوں  کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو ان کی شان میں  زبانِ طعن دراز کرتے اور انہیں  برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں  ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک متعدبہ جماعت اللہ کے رسول کی خدمت میں اسلام سیکھنے کےلیے حاضر رہے اس لیے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا کوئی قانون عطا کیا جائے ، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود نہیں ہیں ان تک ان نئے احکام اور آیات کو پہنچائیں : وَمَا کَانَ الْمُوٴْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَافَّةً فَلَولاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِنْہُم طَائِفَةٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُم اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْہِمْ لَعَلََّہُمْ یَحْذَرُوْنَ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر ۱۲۲)
ترجمہ : اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت وعقیدت کے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال و جمال ، عقیدہ کی پختگی ، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح و تقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف و توصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں ، خطاؤں ، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے اس نے صحابہ کرام کی اضطراری ، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرما کر قیامت تک کےلیے ان نفوسِ قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کر دیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت (خواہ کبار صحابہ ہوں یا صغار صحابہ) عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور علماء خلف کا یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالیے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملیے ۔

لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَؕ ۔ اُولٰٓىٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْاؕ ۔ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ۔ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠ ۔
ترجمہ :  تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتحِ مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔ (سورہ حدید آیت نمبر 10)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بر ابھلا نہ کہو کیونکہ (ان کی شان یہ ہے کہ) تم میں  سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کر دے تو وہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں  سے کسی کے ایک مُد بلکہ اس کے نصف (خیرات کرنے) تک نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ الخ جلد ۲ صفحہ ۵۲۲ حدیث نمبر ۳۶۷۳)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان کے بارے میں  ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ ملاحظہ فرمائیں ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے اور ان کے پاس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حاضر تھے اور آپ رضی اللہ عنہ نے ایک عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے تھے اور اسے آگے سے باندھا ہوا تھا ۔ اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کیا اور عرض کی : یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یہ کیا بات ہے کہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک ایسی عباء (یعنی پاؤں  تک لمبا کوٹ) پہنے ہوئے ہیں جسے سامنے سے کانٹوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے جبریل ! عَلَیْہِ السَّلَام ، (ان کی یہ حالت اس لیے ہے کہ ) انہوں  نے اپنا سارا مال مجھ پر خرچ کر دیا تھا ۔ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی : آپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سلام پیش کیجیے اور ان سے فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرما رہا ہے کہ تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا : اے ابو رضی اللہ عنہ حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام تمہیں  اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام پیش کر رہے ہیں  اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے اس فقر میں مجھ سے راضی ہو یا ناراض ۔ (یہ سن کر) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں  سے آنسو جا ری ہو گئے اور عرض کرنے لگے : کیا میں اپنے رب تعالیٰ سے ناراض ہو سکتا ہوں ، میں  اپنے رب سے راضی ہوں ، میں اپنے رب سے راضی ہوں ۔ (حلیۃ الاولیاء سفیان الثوری جلد ۷ صفحہ ۱۱۵ حدیث نمبر ۹۸۴۵)

اسی پاک گروہ کی ایمانی قوّت، قلبی کیفیت اور عملی حالت قرآن میں یوں بیان فرمائی گئی : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا٘-سِیْمَاهُمْ فِیْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِؕ ۔ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ ۔ وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۔ (سورہ فتح آیت نمبر 29)
ترجمہ : محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت اُن کے چہروں میں ہے سجدوں کے نشان سے یہ ان کی صفت توریت میں ہے اور ان کی صفت انجیل میں ۔

مفسرینِ کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : یہ اسلام کی ابتداء اور اس کی ترقی کی مثال بیان فرمائی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنہا اُٹھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلص اَصحاب رضی اللہ عنہم سے تَقْوِیَت دی ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَصحاب کی مثال انجیل میں  یہ لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیدا ہو گی ، اس کے لوگ نیکیوں کا حکم کریں گے اور بدیوں سے منع کریں گے ۔ ایک قول یہ ہے کہ کھیتی سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور اس کی شاخوں  سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور (ان کے علاوہ) دیگر مومنین ہیں ۔(تفسیرکبیر جلد ۱۰ صفحہ ۸۹،چشتی)(تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۱۶۲)(تفسیر مدارک جلد ۲۹ صفحہ ۱۱۴۸)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو کھیتی سے اس لیے تشبیہ دی کہ جیسے کھیتی پر زندگی کا دار و مدار ہے ایسے ہی ان پر مسلمانوں کی ایمانی زندگی کا مدار ہے اور جیسے کھیتی کی ہمیشہ نگرانی کی جاتی ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہ کی نگرانی فرماتا رہتا رہے گا ، نیز جیسے کھیتی اولاً کمزور ہوتی ہے پھر طاقت پکڑتی ہے ایسے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اولاً بہت کمزورمعلوم ہوتے تھے پھر طاقتور ہوئے ۔ (تفسیر نور العرفان سورہ الفتح تحت الآیۃ : ۲۹ صفحہ ۸۲۲)

یہی متّقین ، صالحین ، خاشعین ، صدیقین کے سردار ہیں جن کے دلوں کی تطہیر اور نفوس کا تزکیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے کیا اور بذاتِ خود کیا جیسا کہ قرآن میں ہے : لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ ۔ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ ۔
ترجمہ : بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر 164)

اور یہی وہ ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا : فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ ۔ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ ۔ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ ۔ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔
ترجمہ : پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں تو اے محبوب عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہی ہے سنتا جانتا ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر137)

اسی مبارک گروہ کی سب سے بڑی تعداد کا نام مہاجرین و انصار ضی اللہ عنہم ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بالکل صراحت سے جنّت و مغفرت و رزقِ کریم یعنی عزّت والی روزی کا مُژدہ سناتے ہوئے فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ ۔
ترجمہ : اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔ (سورہ انفال آیت نمبر 74)

اِنَّ الذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْواتَہم عِندَ رَسُولِ اللّٰہِ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اِمْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوبَہُم لِلتَّقْویٰ لَہُم مَغْفِرةٌ وَاَجْرٌ عَظِیْمٌ ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر ۳)
ترجمہ : بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسولُ اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ۔

وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ لَو یُطِیعُکم فِی کَثیرٍ مِنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُم الاِیْمَانَ وَزَیَّنَہ فِی قُلُوْبِکُمْ وکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالعِصْیَانَ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ ۔ (سورة الحجرات آیت نمبر ۷)
ترجمہ : اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں تو تم ضرور مشقت میں پڑو لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اُسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیا اور کفر اور حکم عدولی اور نافرمانی تمہیں ناگوار کر دی ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں ۔

امام المفسرین علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ جائز نہیں کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے اس لئے ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اور ان سب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسان کریں اورہمیشہ ان کا ذکر بہتر طریقہ پر کریں، کیونکہ صحابیت بڑی حرمت (وعظمت) کی چیز ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اور ان سے راضی ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد نمبر ۱۶ صفحہ ۳۲۲)

فقیر چشتی کے دورانِ مطالعہ ایک ایسی حدیث پاک نظر نواز ہوئی ، جس نے دماغ کی بتیاں روشن کر دیں اور آزمائش بھرے موجودہ حالات کی ایسی سو فیصدی عکاسی کہ یہ عکاسی صرف غیب داں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی حصہ ہو سکتی ہے ، دیدہ عبرت کے ساتھ پڑھیے : امیر المومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے ابن عساکر کی روایت ہے  : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تکون لاصحابی زلّۃ یغفرھا اللہ لھم لسابقتھم معی ثم یأتی قوم بعد ھم یکبھم ﷲ علی مناخرھم فی النار ۔
ترجمہ : میرے اصحاب سے لغزش ہو گی جسے اللہ عزوجل اُس سابقہ کے سبب معاف فرما دے گا جو اُن کو میری بارگاہ میں ہے لیکن پھر اُن کے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے کہ انہیں اللہ تعالیٰ ان کے منہ کے بل جہنم میں اوندھا کرے گا ۔ یہ ہیں وہ کہ صحابہ کی لغزشوں پر گرفت کریں گے ۔  (المعجم الاوسط الجزء الثالث صفحہ نمبر 300 ، حدیث نمبر 3219 مطبوعہ دارالحرمین،چشتی)(مجمع الزّوائد و منبع الفوائد الجزء السّابع کتاب الفتن حدیث نمبر 12020 دارالکتب علمیہ بیروت)

فقیر چشتی نے جب سے یہ حدیث پڑھی ہے نہ صرف موجودہ مسئلہ کا فلسفہ سمجھ میں آ گیا ہے بلکہ مسئلہ تنقیصِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں پڑے لوگوں کا آخری انجام  بھی روشن روشن ہو گیا ہے ۔ سچ یہ ہے یہ حدیث اس مسئلے میں حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے جس کے بعد آزمائشوں کی گنجائش تو ہے ، بحثوں کی نہیں ۔ ہوش و حواس کی سلامتی اور فکر آخرت کے ساتھ جو بھی اس حدیث کا مطالعہ کرے گا ، اگر واقعی اپنی آخرت کے تئیں وہ سنجیدہ ہے تو اس مبحث سے اپنا دامن بچانے میں ہی عافیت جانے گا۔ ہاں! جس کا مقدر آزمائش ہے ، وہ بہر حال چہ می گوئیاں کرے گا اور جیسا کہ فی الوقت لوگ کر رہے ہیں ، کرتا رہے گا یہاں تک کہ بفرمان حدیث ۔ العیاذ باللہ تعالی ۔ جہنم میں اوندھا جا گرے گا ۔ ذرا ایک لمحے کےلیے سوچیں ! کیا دنیا کو یہ زمینی حقیقت باور نہیں کہ جس جذبے کے ساتھ یہ امت نسبت رسول کی بنیاد پر ایک ایک آل رسول پر جان فشانی کر تی رہی ہے ، اسی جذبے کے ساتھ صحبت رسول کی بنیاد پر ایک ایک صحابی رسول کی عظمتوں پر بھی تو پہرہ دیتی رہے گی ۔ اس حقیقت کے ادراک کے با وجود اس مسئلے میں دل خراش بحثوں کا کیا صاف مطلب خود فریبی نہیں ؟
خدارا ! اب بس کریں ، امت پہلے سے بڑی آزمائشوں میں گھری ہے ، مزید اس کا امتحان نہ لیں ، نمائش کی بجائے ، حقیقی طور پر آپ کا اپنا جو بھی علمی  موقف ہے ، اگر آپ کا دل اس پر مطمئن ہے ، آپ تمام تر مطلوبہ علمی صلاحیتوں سے لیس ہیں اور اس کے بعد آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کی نجات میں مخل نہیں ہوگا تو آپ کو مبارک ۔ ورنہ عقل مندی یہ ہے کہ اپنا مزید نقصان کرنے اور امت کو مزید آزمائش میں ڈالنے سے پہلے ہی اس مسئلے میں اعلی حضرت امام رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے درج ذیل محتاط ترین فتاوی کو اپنے لیے فیصلہ کن اور حکم بنا لیں ، جن میں ایک طرف  تعلیمات حدیث کا نچوڑ ہے تو دوسری طرف اکابر کے علمی اختلافات کا  فیصلہ کن انداز میں بہترین خلاصہ بھی ہے ۔ آج نہ سہی ، کل جب بھی ہم سنجیدگی کے ساتھ ان فتاوی کے مفاہیم و مطالب پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے ، ان کو  ایک توفیق یافتہ قلم کا فیضان گرادننے پر مجبور ہوں گے ۔ آپ لکھتے ہیں اور کیا خوب لکھتے ہیں : اہل سنت کے عقیدہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم فرض ہے اور ان میں سے کسی پر طعن حرام اور ان کے مشاجر ت میں خوض ممنوع، حدیث میں ارشاد : اذا ذکر اصحابی فامسکوا ۔ (المعجم الکبیر،حدیث نمبر ۱۴۲۷) جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے ، (بحث و خوض سے) رُک جاؤ ۔
اللہ عزوجل عالم الغیب والشہادہ ہے اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی دو قسمیں فرمائیں : مومنین قبل الفتح ، جنھوں نے فتح مکہ سے پہلے راہِ خدا میں خرچ و جہاد کیا اور مومنین بعد الفتح ، جنھوں نے بعد کو ۔  فریق اول کو دوم پر تفضیل عطا فرمائی کہ : لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجۃ من الذین انفقوا من بعد  وقاتلوا ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ۔
ترجمہ : تم میں برابر نہیں وہ جنھوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا ، وہ مرتبہ میں اُن سے بڑے ہیں جنھوں نے فتح کے بعد  خرچ اور جہاد کیا ۔
اور ساتھ ہی فرما دیا :  وکلا وعد ﷲ الحسنی ۔ (القرآن الکریم ۵۷/۱۰)
ترجمہ : دونوں فریق سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا ۔
اور ان کے افعال پر جاہلانہ نکتہ چینی کا دروازہ بھی بند فرما دیا کہ ساتھ ہی ارشاد ہوا : واللہ بما تعملون خبیر ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)
ترجمہ : اللہ کو تمہارے اعمال کی خوب خبر ہے ۔
یعنی جو کچھ تم کرنے والے ہو وہ سب جانتا ہے باایں ہمہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا خواہ سابقین ہوں یا لاحقین ۔ اور یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھیے کہ اللہ عزوجل جس سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا ، اُس کےلیے کیا فرماتا ہے : ان الذین سبقت لھم منّا الحسنٰی اولئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فیما اشتھت انفسھم خٰلدون لایحزنہم الفزع الاکبرو تتلقٰھم الملئٰکِۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون ۔ (القرآن الکریم ۲۱/۱۰۱ و ۱۰۳)
ترجمہ : بے شک جن سے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا ، وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں اس کی بھِنک تک نہ سُنیں گے اور وہ اپنی من مانتی مرادوں میں ہمیشہ رہیں گے، اُنھیں غم میں نہ ڈالے گی بڑی گھبراہٹ ، فرشتے ان کی پیشوائی کوآئیں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ۔
سچا اسلامی دل اپنے رب عزوجل کا یہ ارشاد عام سن کر کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ پر نہ سوءِ ظن کر سکتا ہے ،  نہ اس کے اعمال کی تفتیش ، بفرض غلط کچھ بھی کیا ، تم حاکم ہو یا اللہ ؟ تم زیادہ جانو یا ﷲ ؟  انتم اعلم ام ﷲ ۔ (القرآن الکریم ۲/۱۴۰)
ترجمہ : کیا تمہیں علم زیادہ ہے یا اللہ تعالے کو ؟
دلوں کی جاننے والا سچا حاکم یہ فیصلہ فرما چکا کہ مجھے تمہارے سب اعمال کی خبر ہے میں تم سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا ۔ اس کے بعد مسلمان کو اس کے خلاف کی گنجائش کیا ہے ،  ضرور ہر صحابی کے ساتھ "حضرت''  کہا جائے گا ، ضرور "رضی اللہ عنہ''  کہا جائے گا ، ضرور اس کا اعزاز و احترام فرض ہے ۔ ولوکرہ المجرمون ۔ (القرآن الکریم    ۸/۸)
ترجمہ : اگرچہ مجرم بُرا مانیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)

ایک جگہ درج بالا آیات کریمہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان ﷲ عزوجل بتاتا ہے ، تو جو کسی صحابی پر طعن کرے ، ﷲ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے ، اور ان کے بعض معاملات ، جن میں اکثر حکایات کا ذبہ ہیں ، ارشاد الٰہی کے مقابل پیش کرنا ، اہل اسلام کا کام نہیں ، رب عزوجل نے اُسی آیت میں اس کا منہ بھی بند فرمادیا کہ دونوں فریق صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھلائی کا وعدہ کر کے ساتھ ہی ارشاد فرمایا : واللہ بما تعملون خبیر ۔ (القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ،، اور اللہ تعالیٰ کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کرو گے ۔ باایں ہمہ میں تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرما چکا ۔ اس کے بعد کوئی بکے ، اپنا سر کھائے ، خود جہنم جائے ۔ علامہ شہاب الدین خفا جی نسیم الریاض شرح شفا امام قاضی عیاض علیہما الرحمہ میں فرماتے ہیں : ومن یکون یطعن فی معاویۃ فذالک کلب من کلاب الھاویۃ  ۔ (نسیم الریاض الباب الثالث) ،، جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کتوں میں سے ایک کتّا ہے ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)

اسی میں ہے :  اہل سنت کے نزدیک امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خطا ، خطائے اجتہادی تھی ، اجتہاد پر طعن جائز نہیں ، خطائے اجتہادی دو قسم ہے : مقرر و منکر ۔  مقرروہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اُس سے تعرض نہ کیا جائے گا جیسے حنفیہ کے نزدیک شافعی المذہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ۔ اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی اللہ تعالیٰ عنہم کہ قطعی جتنی ہیں اور ان کی خطا یقیناً اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں ، بایں ہمہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے کیا ، باقی مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں مداخلت حرام ہے ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29،چشتی)

 مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے کلامی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حضرت مرتضوی امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے  اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولیٰ علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم ہم اہل سنت ان میں حق ، جانب جناب مولیٰ علی مانتے اور ان سب کو مورد لغزش بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلیٰ جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ (کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن و تشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کےلیے شرع میں ثابت ہوئے،  رکھتے ہیں ، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے ۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں ۔ تو ہم اہل سنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں ۔ (فتاوی رضویہ کتاب الشتی جلد نمبر 29)

مجھے لگتا ہے جو بھی علم دوست ، اصلاح پسند ، سنجیدہ فکر ، مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی حقیقی محبتوں کا امین ، اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے مخلصانہ محبت رکھنے والا مسلمان درج بالا فتاوی کا بہ نگاہ انصاف مطالعہ کرے گا ، ضرور اپنی عاقبت کی فکر کرتے ہوئے اہل سنت کے معتدل مذہب کی طرف رجوع لائے گا اور اسی موقف کو راہ نجات سمجھے گا ۔ ہاں! بموجب حدیث جس کے مقدر میں آزمائش لکھ دی گئی ہے ، بہر حال گھر کر رہے گا ۔

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہٖ وسلَّم  میرے صحابہ کو برا نہ کہو

محترم قارئینِ کرام : شرفِ صحابیت کا  لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے صحابیت کا عظیم  اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ  وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں  کیونکہ  کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے ۔

صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں : یاد رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) ایک لاکھ چوبىس ہزار  ہے  مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا صحابی ہونا ہی کافی ہےکیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ  بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 38،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي. فَلَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو، پس اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کردے تب بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا ۔ (بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470)،(صحیح بخاری مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 613 ، 614 مطبوعہ پرگریسو بکس اردو بازار لاہور)(والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861،چشتی)(أبو داود في السنن، کتاب السنة، باب في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 214، الرقم : 4658)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بَيَدِهِ، لَو أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو گالی مت دو ، میرے صحابہ گالی مت دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔ (مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب تحريم سبّ الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540،چشتی)(النسائي في السنن الکبری، 5 / 84، الرقم : 8309)(ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا : لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ ۔
ترجمہ : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سےجو بُرا ( یعنی صحابہ کو بُرا کہتا ) ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۶)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي ، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي ، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : اللہ سے ڈرو ۔ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں ، ان کو میرے بعد ہدف تنقید نہ بنانا ، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر ، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر ، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی ، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے ۔ (ترمذی، باب فيمن سب أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر ۳۶۶۲)

شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا۔(اشعۃ اللمعات جلد 4 صفحہ641)

قرآن و حدیث اور تمام شرعی احکام ہم تک پہنچنے کا واحد ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی درس گاہ کے صادق و امین اور متقی و پرہیز گار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ، اگر مَعَاذَاللہ ان ہی سے  امانت و دیانت اور شرافت و بزرگی  کی نفی کر دی جائے تو سارے کا سارا دین بے اعتبار ہو کر رہ جائے گا ، اس لئے اس حدیثِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے اپنے صحابہ کی عظمت کو یوں بیان فرمایا کہ ان کی برائی کرنے سے منع فرمایا اور ان کے صدقہ و خیرا ت کی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبولیت کو  بھی ذکر فرمایا  چنانچہ لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي حدیثِ پاک کے اس حصّے کے تحت فقیہ و محدّث علّامہ ابن الملک رومی حنفی علیہ رحمۃ اللہ علیہ (وفات:854ھ) فرماتے ہیں : اس میں صحابہ کو بُرا کہنے سے منع کیا گیا ہے ، جمہور (یعنی اکثر علما) فرماتے ہیں:جو کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھی بُرا کہے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی ۔ (شرح مصابیح السنۃ جلد 6 صفحہ 395 تحت الحدیث : 4699،چشتی)

فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ “ شارحین نے اگرچہ اس کی  مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں لیکن  شارحِ بخاری امام احمد بن اسماعیل کورانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:893ھ) فرماتے ہیں : سیاقِ کلام سے پتا  چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو  یہ مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت  کے شرف کی وجہ سے ملا ہے ۔ (الکوثر الجاری جلد 6 صفحہ 442 تحت الحدیث : 3673)

شارحِ حديث حضر ت علامہ مُظہرالدین حسین زیدانی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:727ھ) اسی حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : صحابہ کی فضیلت محض ” رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت “اور” وحی کا زمانہ پانے “ کی وجہ سے تھی ، اگر ہم میں سے کوئی ہزار سال عُمر پائے اور تمام عُمر اللّٰہ پاک کے عطا کردہ احکام کی بَجا آوری کرے اور منع کردہ چیزوں سے بچے بلکہ اپنے وقت کا سب سے بڑا عابد  بن جائے تب بھی  اس کی عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت کے ایک لمحہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتی ۔ (المفاتیح فی شرح المصابیح جلد 6 صفحہ 286 تحت الحدیث : 4699,چشتی)

حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یعنی میرا صحابی قریبًا سوا سیر جَو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قربِِ الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا ، یہ ہی حال روزہ ،نماز اور ساری عبادات کا ہے۔ جب مسجد ِنبوی کی نماز دوسری جگہ کی نمازوں سے پچاس ہزار گُنا ہے تو جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قُرب اور دیدار پایا ان کا کیا پوچھنا اور ان کی عبادات کا کیا کہنا ! یہاں قربِِ الٰہی کا ذکر ہے ۔ مفتی صاحب مزید فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضراتِ صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہئے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو ۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کےلیے چُنا ، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بُروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رَبّ نے اپنے نبی کو بُروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا ؟ ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 335،چشتی)

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت  کا انعام حضرت  عبدالرحمٰن بن زید رحمۃ اللہ علیہ کے والد فرماتے ہیں : میں  چالیس ایسے  تابعینِ عظام کو ملا  جو سب ہمیں  صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم سے یہ حدیث  بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو میرے تمام صحابہ سے محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے لئے اِسْتغفار کرے تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جنّت میں میرے صحابہ کی مَعِیَّت (یعنی ہمراہی) نصیب فرمائے گا ۔ (شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ جلد 2 صفحہ 1063 حدیث : 2337)

سارے صحابہ عادل ہیں صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت  کیلئے یہ ایک ہی آیت کافی ہے : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۔
ترجمہ : اور سب میں اگلے پہلے مہاجر  اور انصار  جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو ہوئے اللہ ان سے راضی  اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (پ11،سورہ التوبۃ :100)

علّامہ ابوحَیّان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (وفات:745ہجری) فرماتےہیں :  وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍ سے  مراد تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ (تفسیر البحر المحیط جلد 5 صفحہ 96 تحت الآیۃ المذکورۃ)

یاد رہے سارے صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، جنتی ہیں ان میں کوئی گناہ گار اور فاسق نہیں ۔ جو بدبخت کسی تاریخی واقعہ یا روایت کی وجہ سے صحابَۂ  کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو فاسق ثابت کرے ، وہ مَردُود ہے کہ اس آیت کے خلاف ہے ۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ درج ذیل حدیثِ پاک کو دل کی نظر سے پڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرے ، چنانچہ حضرت عبدُاللہ بن مُغَفَّل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے بارے میں اللہ  سے ڈرو ، اللہ سے ڈرو ۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بُغض رکھا تو اس نے میرے بُغض کی وجہ سے ان سے بُغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے ۔ (جامع ترمذی جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 463 حدیث نمبر 3888)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday 2 May 2024

افضلیت و فضیلت میں فرق تفضیلیوں کے فریب کا جواب

0 comments
افضلیت و فضیلت میں فرق تفضیلیوں کے فریب کا جواب
محترم قارئینِ کرام : فضیلت باب فضائل سے ہے ۔ اس کے واسطے ضعیف احادیث بھی کافی ہیں،لیکن افضلیت باب عقائد سے ہے ۔ اس کے ثبوت کے لیے ضعیف احادیث نا کافی ہیں ۔ عہدِ حاضر میں نیم روافض تفضیلیوں نے ادھم مچا رکھا ہے ۔ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی افضیلت قطعی دلیل سے ثابت ہے ۔ اس کے بالمقابل ضعیف احادیث پیش کر کے شیر خداحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی افضلیت ثابت کرتے ہیں ، حالانکہ احادیثِ ضعیفہ سے افضلیت ثابت نہیں ہو سکتی ۔ افضلیت باب عقائد سے ہے ، خالص باب فضائل سے نہیں ۔ باب فضائل میں بھی احادیثِ ضعیفہ اسی وقت قابل قبول ہیں ، جب کسی قوی دلیل کے مخالف نہ ہوں ۔اگر قوی دلیل کی مخالفت ہوتو حدیث ضعیف فضائل میں بھی مقبول نہیں ۔
 
اہل سنت و جماعت کا متفقہ اور  اجماعی عقیدہ ہے کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ انبیاء و مرسلین (رسل بشر اور رسل ملائکہ) کے  بعد علی الاطلاق تمام انس و جن اور فرشتوں سے "افضل" ہیں ۔

اس معنیٰ "افضلیت" کی تفہیم و تعیین میں معاون چند ضروری امور ہدیہ قارئین ہیں ۔

افضل : افعل کے وزن پر اسم تفضیل کا صیغہ ہے ، جس میں معنی حقیقی کے اعتبار سے  دوسرے کی بہ نسبت زیادتی ہوتی ہے ۔ اور معنیٰ یہ ہوتے ہیں کہ "افضل و مفضول"  دونوں میں ایک ہی قسم کی فضیلت ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہے اور مفضول میں کم ۔

کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ افضل میں "صفت فضیلت" ہوتی ہے اور مفضول میں نہیں ہوتی ۔ جیسے زید عالم ہو اور حامد جاہل تو کہا جاتا ہے کہ زید حامد سے افضل ہے ۔ 

شرعی اعتبار سےافضلیت کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے : (1) ظاہری افضلیت یعنی نیک اعمال جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کی زیادتی ۔ (2) باطنی افضلیت یعنی خلوص دل ، پرہیزگاری اور اجرو ثواب کی زیادتی ۔ 

یہ بھی مد نظر رہے کہ کثرت اجر و ثواب کا مفہوم اللہ تعالی کے نزدیک زیادتِ کرامت اور کثرتِ قرب و وجاہت ہے ۔ (حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت اسی معنیٰ کے لحاظ سے ہے) ۔ نہ کہ جنت کے مطاعم و ملابس و ازواج و خدم و حور و قصور میں زیادتی ۔

شرح مقاصد میں ہے : الكلام في الأفضليت بمعنى الكرامة عند الله تعالى ، و كثرة الثواب ۔ (شرح مقاصد جلد 3 صفحہ 523 الفصل الرابع في الامامة)

الصواعق المحرقہ میں ہے : ثم يجب الايمان والمعرفة بأن خير الخلق و أفضلهم و أعظمهم منزلة عند الله بعد النبيين والمرسلين وأحقهم بخلافة  رسول الله أبو بكر الصديق ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ 706 خاتمہ فی امور مہمۃ)

باطنی افضلیت کا مفہوم "زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت ہے" ، اس پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ایک عقلی دلیل بھی پیش فرمائی ، تاکہ ہر عام و خاص کے ذہن میں افضلیت کا معنیٰ واضح ہو جائے ۔ فرماتے ہیں: دو درباریوں نے بادشاہ کو اپنی عمدہ کار گزاریوں سے راضی کیا بادشاہ نے ایک کو ہزار اشرفی دے کر پائے تخت کے نیچے جگہ دی ۔ دوسرے کو انعام تو ایک لاکھ اشرفی ملا، لیکن مقام اس پہلے کی کرسی منصب سے نیچے ۔ پھر فرماتے ہیں : اے انصاف والی نگاہ : اہل دربار میں افضل کسے کہا جائے گا ؟
اس مثال سے واضح ہوا کہ بلاشبہ جس کو بادشاہ سے زیادہ قرب ہے ، وہی سب سے زیادہ فضیلت والا ہے ۔
اس کے بعد اس معنی کو کثیر دلائل سے ثابت فرمایا اور  اخیر میں تحریر فرمایا : بالجملہ سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ بعد انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو قرب و وجاہت ، و عزت و کرامت ، و علو شان ، و رفعت مکان ، و غزارتِ فخر ، و جلالتِ قدر  بارگاہ حق تبارک و تعالیٰ میں ، حضرا ت خلفائےاربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو حاصل ، ا ن کا غیر اگر چہ کسی درجہ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو  آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہر گز اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ مگر شیخین رضی اللہ عنہما کو امورِ مذکورہ میں ختنین رضی اللہ عنہما پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذا باللہ فضل و کمال ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے ۔ (فتاوی رضویہ جلد 21 صفح 120 رسالہ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین)
  
یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ افضلیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں :

افضلیت جزئیہ : یعنی افضل فضیلت کے کسی خاص باب میں بڑھا ہوا ہو ۔
جیسے زید عمر سے علم نحو میں افضل ہے ۔

افضلیت کلیہ افرادیہ : یعنی افضل فضیلت کے ہر باب میں مفضول سے بڑھا ہوا ہو ۔

افضلیت کلیہ مجموعیہ : یعنی افضل مجموعی طور پر مفضول سے بڑھا ہوا ہو ۔ جیسے مرد مجموعی طور پر عورت سے افضل ہے ۔

اس افضلیت کو افضلیت مطلقہ بھی کہتے ہیں ۔ جیسے زید کو جتنے مسائل یاد ہوں ، بکر کو بھی اتنے ہی مسائل یاد ہوں ، مگر زید کو ان کی معرفت دلائل کے ساتھ ہو اور بکر کو دلائل کے بغیر تو علی الاطلاق کہیں گے کہ زید بکر سے افضل ہے ۔

افضلیت جزئیہ اور افضلیت مطلقہ میں منافات نہیں ۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ زید کو عمرو پر "افضلیت مطلقہ" حاصل ہو اور عمرو کو زید پر افضلیت جزئیہ ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعد باطنی افضلیت کلیہ افرادیہ تو درکنار ظاہری افضلیت کلیہ افرادیہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ،
کیوں کہ دنیا میں بہت سے لوگ کوئی نہ کوئی ایسا نیک کام کر لیتے ہیں جو دوسرے کیے ہوئے نہیں ہوتے ۔ رہی افضلیت جزئیہ تو وہ  حدیث اور قرآن کے مطابق بہت سے صحابہ کو ایک دوسرے پر حاصل ہے ، بلکہ اجمالاً بعض غیر صحابہ کو بھی حاصل ہے ۔

افضلیت کا اثبات دو طریقے سے  ہوتا ہے :

 پہلا طریقہ : یہ ہے کہ افضلیت نصوص شرعیہ سے ثابت ہو جائے ، کہ فلاں ، فلاں سے افضل ہے ۔ یہ احسن و اسلم طریقہ ہے ۔

دوسرا طریقہ : استدلال و استنباط اور ترتیب مقدمات کا ہے ۔ اور یہ طریقہ تنقیح طلب ۔

 اس کی توضیح یہ ہے کہ بنائے تفضیل دو چیزیں ہیں : اول : ما فیہ التفاضل ۔ اس میں افضل و مفضول دونوں مشترک ہوتے ہیں ۔ مگر بالتشکیک کہ افضل میں زیادہ اور مفضول میں کم ۔ دوم : ما بہ الافضلیت ، یعنی جو مافیہ التفاضل میں افضل کی زیادت کرے ۔ اور یہ صرف  ذات افضل کے ساتھ قائم  ہوتا ہے ۔ اور مفضول کا اس میں افضل کے  کم و کیف کے ساتھ اشتراک نہیں ہوتا ۔ جیسے شمشیرِ تیز براں کو تیغِ کند ناکارہ پر تفضیل ہے ۔

اس مثال میں ما فیہ التفاضل "قطع و جرح" ہے کہ "شمشیرِ براں" خوب کاٹتی ہے اور "تیغ کند" قطع میں قصور کرتی ہے ۔ اور ما بہ الافضلیت "خوش آبی و پاکیزہ جوہری" ہے ، جو "شمشیرِ براں" کے ساتھ مختص ہے ۔

"باب افضلیت" میں مافیہ التفاضل تو واضح ہے  اور ما بہ الافضلیت کا ادراک نہایت غامض اور مزلت اقدام ہے ۔ اہل سنت و جماعت کا مرجع ہر بات میں قرآن کریم، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ اور مقام شرح و تفسیر میں پیشوا و مقتدا اکابر کے اقوال ۔ اس باب میں غور کریں تو تفسیر ، شرح حدیث اور اقوال سلف پر مابہ الافضلیت ۔ زیادت تقوی ، سبقت الی الخیرات ،  زمانہ غربت اسلام میں دین کی اعانت ، فضل صحبت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، کثرت نفعِ اسلام وغیرہ امور کثیرہ وغیرہ اوصاف ہیں ۔ 

ان امور کی وضاحت کے بعد افضلیت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ کا مفہوم یہ ہوا کہ : عند اللہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو  زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت حاصل ہے ۔ اور بعد انبیا و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اس مقام رفیع میں آپ کا کوئی سہیم نہیں ۔ نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت ، افضلیت مطلقہ ہے ۔ یونہی مابہ الافضلیت والے اوصاف میں اس  کم و کیف کے ساتھ جو آپ کےلیے ہے ، آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں ۔

فضیلت و افضلیت میں فرق : فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کا فرق ہے وہ (فضیلت) اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول اور یہاں (افضلیت میں) بالاجماع مردود و نامقبول ۔ قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے جہاں ان کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعت حق غیر غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الاجوہ اندیشہ نہ ہو ۔ فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں ، جن بندگان خدا کا فضل تفصیلی خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے ان کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح و ثوابت سے معارضت نہ ہو اگر حدیث ضعیف میں آئے اس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ ان کا فضل تو خود صحاح سے ثابت ، یہ ضعیف اسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی خلاف بھی تو نہیں ۔ بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر و افضل ماننا ہے یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت و محقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا ، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اس کا تھا اور کہہ دیا اس کو ۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو ۔ پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے ، جہاں عقائد حقہ میں ایک جانب کی تفصیلی محقق ہو ۔ اور اس کے خلاف احادیث مقام وضعاف سے استناد کیا جائے ، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ عنہما پر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادت شریعت و معاندت سنت ہے ۔ ولہٰذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا ۔ کمابیناہ فی کتابنا المبارک "مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین"(۱۳۹۷ھ) ۔ بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التاویل ہے اور اگر بفرض باطل صالح تاویل نہ ہو واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر و اجماعی ہے کما اثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور اور متواتر و اجماع کے مقابل احاد ہرگز نہ سنے جائیں گے ۔ ولہٰذا امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں زیر حدیث عرض علی عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرہ قالوا فما اولت ذلك یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال الدین (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ فرمایا دین ۔ ت) فرماتے ہیں : لئن سلمنا التخصیص بہ (ای بالفاروق رضی اللہ تعالی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علی افضلیۃ الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ فلا تعارضھا الاحاد، ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلا یعارضہ ظنی ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری باب تفاضل اہل ایمان فی الاعمال مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت جلد ۱ صفحہ ۱۰۶)
اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر دال ہیں اور احاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں لیکن اجماع اہلسنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے اور وہ قطعی ہے، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے ۔ (ت)

الجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں ۔ بلکہ موافقت وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں احاد صحاح بھی نامسموع ، حیث قال لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیلتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین ۔ (شرح مواقف المرصد الرابع ازموقف سادس فی السمعیات مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم ایران جلد ۸ صفحہ ۳۷۲)
ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے اس کےلیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ۔ (ت)

امام اہل سنت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فضیلت وافضلیت سے متعلق رقم فرمایا :

فائدہ : ۱ : نفیسہ جلیلہ ۔ (فضیلت وافضلیت میں فرق ہے ۔ دربارۂ تفضیل حدیث ضعیف ہرگز مقبول نہیں) 

فضیلت و افضلیت میں زمین آسمان کافرق ہے۔ وہ اسی باب سے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول ، اوریہاں بالاجماع مردود و نامقبول ۔

اقول : جس نے قبول ضعاف فی الفضائل کا منشا کہ افاداتِ سابقہ میں روشن بیانوں سے گزرا،ذہن نشین کرلیا ہے ، وہ اس فرق کو بنگاہِ اولیں سمجھ سکتا ہے ۔ قبول ضعاف صرف محل نفع بے ضرر میں ہے ، جہاں اُن کے ماننے سے کسی تحلیل یا تحریم یا اضاعتِ حق غیر ، غرض مخالفت شرع کا بوجہ من الوجوہ اندیشہ نہ ہو ۔

 فضائل رجال مثل فضائل اعمال ایسے ہی ہیں ۔ جن بندگانِ خدا کا فضل تفصیلی ، خواہ صرف اجمالی دلائل صحیحہ سے ثابت ہے ، اُن کی کوئی منقبت خاصہ جسے صحاح و ثوابت سے معارضت نہ ہو ، اگر حدیث ضعیف میں آئے ، اُس کا قبول تو آپ ہی ظاہر کہ اُن کا فضل تو خود صحاح سے ثابت، یہ ضعیف اُسے مانے ہی ہوئے مسئلہ میں تو فائدہ زائدہ عطا کرے گی ۔ اور اگر تنہا ضعیف ہی فضل میں آئے،اور کسی صحیح کی مخالفت نہ ہو، وہ بھی مقبول ہوگی کہ صحاح میں تائید نہ سہی ، خلاف بھی تو نہیں ۔ بخلاف افضلیت کے کہ اس کے معنی ایک کو دوسرے سے عنداللہ بہتر وافضل ماننا ہے ،  یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا ورسول جل جلالہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد سے خوب ثابت و محقق ہو جائے ، ورنہ بے ثبوت حکم لگادینے میں محتمل کہ عنداللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا ، یہ تصریح تنقیص شان ہے اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیل حرام وتضیع حق غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق اُس کا تھا ، اور کہہ دیا اِس کو ۔ یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو،پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے،جہاں عقائدِ حقہ میں ایک جانب کی تفضیل محقق ہو،اور اس کے خلاف احادیث سقام وضعاف سے استناد کیا جائے، جس طرح آج کل کے جہال حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہماپر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم میں کرتے ہیں ۔ یہ تصریح مضادتِ شریعت ومعاندتِ سنّت ہے ، ولہٰذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا:کمابیناہ فی کتابنا المبارک:مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین (۷۹۲۱؁ھ,چشتی)(جیسا کہ ہم نے اسے اپنی مبارک کتاب“ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین“ میں بیان کیا ہے ۔ ت) 

بلکہ انصافًا اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے ، قطعاً واجب التاویل ہے ، اور اگر بفرضِ باطل صالح تاویل نہ ہو ، واجب الرد کہ تفضیل شیخین متواتر واجماعی ہے : کما اثبتنا علیہ عرش التحقیق فی کتابنا المذکور (جیسا کہ ہم نے اپنی اس مذکورہ کتاب میں اس مسئلہ کی خوب تحقیق کی ہے ۔ ت) اور متواتر واجماع کے مقابل آحاد ہرگز نہ سنے جائیں گے۔

ولہٰذا امام احمد قسطلانی ”ارشاد الساری شرح صحیح بخاری“ میں زیر حدیث : (عرض عَلَیَّ عمر بن الخطاب وعلیہ قمیص یجرّہ-قالوا:فما اولت ذلک یا رسول اللّٰہ (صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم) ؟ قال الدین) ۔ (مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا اور وہ اپنی قمیص گھسیٹ کر چل رہے ہیں ، صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے ؟ فرمایا : دین ۔ ت) 

فرماتے ہیں : (لئن سلّمنا التخصیص بہ(ای بالفاروق رضی اللّٰہ  تعالٰی عنہ) فھو معارض بالاحادیث الکثیرۃ البالغۃ درجۃ التواتر المعنوی الدالۃ علٰی افضلیۃ الصدیق رضی اللّٰہ  تعالٰی عنہ فلا تعارضھا الاحاد-ولئن سلمنا التساوی بین الدلیلین،لکن اجماع اھل السنۃ والجماعۃ علی افضلیتہ وھو قطعی فلا یعارضہ ظنی) ۔ (اگر ہم یہ تخصیص ان (یعنی فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ مان لیں تو یہ ان اکثر احادیث کے منافی ہے جو تواتر معنوی کے درجہ پر ہیں اور افضلیت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دال ہیں اور آحاد کا ان کے ساتھ تعارض ممکن ہی نہیں،اور اگر ہم ان دونوں دلیلوں کے درمیان مساوات مان لیں ، لیکن اجماعِ اہل سنت وجماعت افضلیت صدیق اکبر پر دال ہے،اور وہ قطعی ہے ، تو ظن اس کا معارض کیسے ہوسکتا ہے۔ ت)

بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف سن سکیں،بلکہ مواقف وشرح مواقف میں تو تصریح کی کہ بابِ عقائد سے ہے، اور اس میں آحاد صحاح بھی نامسموع:(حیث قالا:لیست ھذہ المسألۃ یتعلق بھا عمل فیکتفی فیھا بالظن الذی ھوکاف فی الاحکام العلمیۃ بل ھی مسألۃ علمیۃ یطلب فیھا الیقین) ۔ (ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو احکام میں کافی ہوتی ہے، بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے، اس کے لیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے ۔ ت)

فائدہ ۲ : مہمہ عظیمہ ۔ (مشاجرات صحابہ میں تواریخ وسیر کی موحش حکایتیں قطعاً مردود ہیں) 

افادہ : 23 : پر نظر تازہ کیجیے ۔ وہاں واضح ہوچکا ہے کہ کتبِ سیر میں کیسے کیسے مجروحوں، مطعونوں، شدید الضعفوں کی روایات بھری ہیں ۔وہیں کلبی رافضی متہم بالکذب کی نسبت سیرت عیون الاثر کا قول گزرا کہ اُس کی غالب روایات سیر وتواریخ ہیں جنہیں علما ایسوں سے روایت کرلیتے ہیں ، وہیں سیرت انسان العیون کا ارشاد گزرا کہ سیر موضوع کے سوا ہر قسم ضعیف وسقیم وبے سند حکایات کو جمع کرتی ہے، پھر انصافًا یہ بھی انہوں نے سیر کا منصب بتایا جو اُسے لائق ہے کہ موضوعات تو اصلًا کسی کام کے نہیں ، اُنہیں وہ بھی نہیں لے سکتے،ورنہ بنظر واقع سیر میں بہت اکاذیب واباطیل بھرے ہیں : کما لایخفی ۔

بہرحال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بدمذہبی ہے ۔ بد مذہبی نہیں تو جنون ہے ۔ سیر جن بالائی باتوں کےلیے ہے ، اُس میں حد سے تجاوز نہیں کر سکتے ۔ اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں ، نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات و معضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلیٰ آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا ، اعتراض نکالنا ، اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، مگر گمراہ بددین مخالف و مضاد حق مبین ۔
 آج کل کے بدمذہب مریض القلب منافق شعار ان جزافات سیر و خرافات تواریخ و امثالہا سے حضرات عالیہ خلفائے راشدین و ام المومنین و طلحہ و زبیر و معاویہ و عمرو بن العاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم ، اہل بیت و صحابہ رضی اللہ عنہم کے مطاعن مردودہ ، اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش و مہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب و واحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے ، اور اُن سے قرآنِ عظیم و ارشاداتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واجماعِ اُمّت واساطین ملّت کا مقاببلہ چاہتے ہیں ۔ بے علم لوگ اُنہیں سُن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں۔اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنیٰ مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کے لیے مسموع نہیں ہو سکتے، نہ کہ اُن محبوبانِ خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ اجمالی سے کلام اللہ وکلام رسول اللہ مالامال ہیں: جل جلالہ، وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔

امام حجۃ الاسلام مرشد الانام محمدمحمد محمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں : (لا تجوز نسبۃ مسلم الٰی کبیرۃ من غیر تحقیق ۔ نعم یجوز ان یقال ان ابن ملجم قتل علیا فان ذلک ثبت متواترا) ۔ (کسی مسلمان کو کسی کبیرہ کی طرف بے تحقیق نسبت کرنا حرام ہے۔ ہاں، یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم شقی خارجی اشقی الآخرین نے امیرالمومنین مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شہید کیا کہ یہ بتواتر ثابت ہے ۔ ت)

حاش للہ ، اگر مؤرخین و امثالہم کی ایسی حکایات ادنیٰ قابلِ التفات ہوں تو اہل بیت و صحابہ درکنار خود حضرات عالیہ انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علیہم اجمعین سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے کہ ان مہملات مخذولہ نے حضرات سعاداتنا و مولٰینا آدم صفی اللہ و داؤد خلیفۃ اللہ و سلیمان نبی اللہ و یوسف رسول اللہ سے سیدالمرسلین محمد حبیب اللہ صلی اللہ علیہ و علیہم وسلم تک سب کے بارہ میں وہ وہ ناپاک بیہودہ حکایات موحشہ نقل کی ہیں کہ اگر اپنے ظاہر پر تسلیم کی جائیں تو معاذاللہ اصل ایمان کو رد بیٹھنا ہے ۔

ان ہولناک اباطیل کی بعض تفصیل مع رد جلیل کتاب مستطاب شفا شریف امام قاضی عیاض اور اس کی شروح وغیرہا سے ظاہر ۔ لاجرم ائمہ ملّت وناصحانِ اُمت نے تصریحیں فرمادیں کہ ان جہال وضلال کے مہملات اور سیر و تواریخ کی حکایت پر ہرگز کان نہ رکھا جائے ۔ شفا و شروح شفا و مواہب و شرح مواہب و مدارج شیخ محقق وغیرہا میں بالاتفاق فرمایا ، جسے میں صرف مدارج النبوت سے نقل کروں کہ عبارت فارسی ترجمہ سے غنی اور کلمات ائمہ مذکورین کا خود ترجمہ ہے ۔ فرماتے ہیں : رحمہ اللہ تعالیٰ : ازجملہ توقیر وبرآں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم توقیر اصحاب وبرایشاں است وحسن ثنا ورعایت ادب بایشاں ودُعا واستغفار مرایشاں را،وحق است مرکسے راکہ ثنا کردہ حق تعالیٰ بروے،وراضی ست ازوے کہ ثنا کردہ شودبروے ۔ و سب و طعن ایشاں اگر مخالف ادلہ قطعیہ است ، چناں کہ قذف عائشہ کفر است والا بدعت و فسق است ، کذا قال فی المواہب اللدنیہ ۔ وہم چنیں امساک وکف نفس از ذکر اختلاف و منازعات و وقائع کہ میان ایشاں شدہ و گذشتہ است ۔ و اعراض واضراب از اخبار مورخین وجہلہ رواۃ وضلال شیعہ وغلاۃ ایشاں ومبتدعین کہ ذکرمثالب ومعائب وقوادح وزلات ایشاں کنند کہ اکثر آں کذب وافترا است ۔ و طلب کردن والتماس نمودن در آں چہ نقل کردہ شدہ است از ایشاں از مشاجرات ومحاربات باحسن تاویلات واصوب خارج از جہت بودن ایشاں اہل آں وعدم ذکر ہیچ یکے ازیشاں بہ بدی وعیب بلکہ ذکر حسنات وفضائل وعمائد صفات ایشاں از جہت آں کہ صحبت ایشاں بآں حضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقینی است وماورائے آں ظنی است ۔ و کافیست دریں باب کہ حق تعالیٰ برگزید ایشاں رابرائے صحبت حبیبہ خود صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔طریقہ اہل سنّت وجماعت دریں باب این است، درعقائد نوشتہ اند:(لا تذکر احدا منھم الا بخیر) وآیات واحادیث کہ درفضائل صحابہ عموماً وخصوصاً واقع شدہ است، دریں باب کافی است - اھ مختصرا ۔
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے،ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے،اور ان کے لیے دعا وطلبِ مغفرت کرنی چاہئے، بالخصوص جس جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے ،اور اس سے راضی ہوا ہے، اس سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے، پس اگر ان پر طعن وسب کرنے والا دلائل قطعیہ کا منکر ہے تو کافر ، ورنہ مبتدع و فاسق ۔ 
اسی طرح ان کے درمیان جو اختلافات یا جھگڑے یا واقعات ہُوئے ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے ، اور ان اخبار واقعات سے اعراض کیا جائے جو مورخین، جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں نے بیان کیے ہیں ، اور بدعتی لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں سے جو خود ایجاد کرکے ان کی طرف منسوب کردیے ، اور ان کے ڈگمگا جانے سے ، کیوں کہ وہ کذب بیانی اور افترا ہے ، اور ان کے درمیان جو محاربات ومشاجرات منقول ہیں، ان کی بہتر توجیہ وتاویل کی جائے ، اور ان میں سے کسی پر عیب یا برائی کا طعن نہ کیا جائے ، بلکہ ان کے فضائل ، کمالات اور عمدہ صفات کا ذکر کیا جائے، کیوں کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ ان کی صحبت یقینی ہے ، اور اس کے علاوہ باقی معاملات ظنی ہیں ۔ اور ہمارے ل یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃوالسلام کی محبت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ اہل سنت وجماعت کا صحابہ کے بارے میں یہی عقیدہ ہے، اس لیے عقائد میں تحریر ہے کہ صحابہ میں سے ہر کسی کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کیا جائے ، اور صحابہ کے فضائل میں جو آیات و احادیث عموماً یا خصوصاً وارد ہیں،وہ اس سلسلہ میں کافی ہیں ۔ اھ مختصرا۔ت)

امام محقق سنوسی وعلامہ تلمسانی ، پھر علّامہ زرقانی شرح مواہب میں فرماتے ہیں : (مانقلہ المؤرخون قلۃ حیاء وادب)(مؤرخین کی نقلیں قلت حیا وادب سے ہیں) 

امام اجل ثقہ مثبت حافظ متقن قدوہ یحییٰ بن سعید قطان نے کہ اجلّہ ائمہ تابعین سے ہیں،عبداللہ قوایری سے پُوچھا:کہاں جاتے ہو؟ کہا: وہب بن جریر کے پاس سیر لکھنے کو ۔ فرمایا : (تکتب کذبا کثیرا)(بہت سا جھوٹ لکھوگے) ۔ (ذکرہ فی المیزان) (اس کا ذکر میزان میں ہے ۔ ت)

تفصیل اس مبحث کی اُن رسائل فقیر سے لی جائے کہ مسئلہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں تصنیف کیے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 5 صفحہ 585 - 580 جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

انبیاء و مرسلین کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل ہستی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت ، فضیلتِ مطلقہ ہے  اور اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سے جو قرب و وجاہت ، عزت و کرامت ، علوِ شان و رفعتِ مکان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے ، کسی اور کو حاصل نہیں ، حسب نسب یا خلافت کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ہے ، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کو یہ فضیلت سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین کریمین پر بھی حاصل ہے ، البتہ بعض جزوی فضیلتیں دیگر ہستیوں کو حاصل ہیں ،جیسے سرکار علیہ الصلوٰۃ و السلام کے والدین ہونے کا شرف یقینا والدین کریمین رضی اللہ عنہما ہی کو حاصل ہے۔ اسی طرح دیگر کئی جزوی فضیلتیں ایسی ہیں ، جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل نہیں ، لیکن دیگر اصحاب کو حاصل ہیں اور اس سے آپ رضی اللہ عنہ کی فضیلتِ مطلقہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

امام ابو احمد ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ( سالِ وفات 365 ھ ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں : قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم أبو بكر وعمر خير الأولين وخير الآخرين وخير أهل السماوات وخير أهل الأرضين إلا النبيين والمرسلين ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پہلے والوں اور بعد والوں ، زمین والوں اور آسمان والوں میں سے انبیاء و مرسلین کے علاوہ باقی تمام سے بہترین ہیں ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال جلد 2 صفحہ 443 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

افضلیت سے مراد کیا ہے ؟

اس سے متعلق علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : هما أعلى المؤمنين صفة وأعظمهم بعد الأنبياء قدرا ۔
ترجمہ : حضرت ابوبکر صدیق و فاروق اعظم رضی اللہ عنہما مومنین میں سے سب سے زیادہ صفت کے اعتبار سے اعلیٰ ہیں اور (بارگاہ الٰہی میں) انبیاء کے بعد مومنین میں سے سب سے بڑی قدر و منزلت والے ہیں ۔ (التیسیر شرح جامع الصغیر جلد 2 صفحہ 172 مطبوعہ بیروت)

شرح مواقف میں ہے : و مرجعھا ای مرجع الافضلیۃ التی نحن بصددھا الی کثرۃ الثواب و الکرامۃ عند اللہ ۔
ترجمہ : جس افضلیت سے متعلق ہم بحث کر رہے ہیں  ، اس کا مرجع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثواب کی کثرت اور عزت و کرامت ( ان حضرات کی ) ہے ۔ (شرح المواقف المرصد الرابع المقصد الخامس الافضل بعد الرسول جلد 3 صفحہ 638 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

نسب کے اعتبار سے یہ فضیلت نہیں ، جیسا کہ شرح عقائد کی شرح نبراس میں ہے : ’’ ذکر المحققون ان فضیلۃ المبحوث عنھا فی الکلام ھی کثرۃ الثواب ای عظم الجزاء علی اعمال الخیر لاشرف النسب  ‘‘ ترجمہ : محققین نے ذکر کیا ہے کہ جس فضیلت سے متعلق ہم بات کر رہے ہیں ، اس سے مراد یہ ہے کہ ثواب کا زیادہ ہونا اور اعمالِ صالحہ پر جزاء کا عظیم ہونا ، نہ کہ نسب کے اعتبار سے شرف حاصل ہونا ۔ (النبراس افضل البشر بعد الانبیاء الخ صفحہ 299 مطبوعہ ملتان)

نوٹ : علماء کے کلام میں افضلیت کی شرح میں جو کثرتِ ثواب کہا گیا ہے ، اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وہ کثرتِ ثواب سے زیادتِ قرب مراد لیتے ہیں ، کہ بنی نوع انسان میں قرب بذریعۂ اعمال حاصل ہوتا ہے ، اسی طرح کثرتِ نفع فی الاسلام قوت کیفیتِ ایمانیہ کا اثر و ثمرہ اور یہی کیفیت وجہِ تفاضلِ انبیاء و ملائکہ ہے ۔ (حاشیہ مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 124 مطبوعہ مکتبہ بہارِ شریعت لاہور )

افضلیت کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : سنیوں کا حاصلِ مذہب یہ ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السلام کے بعد جو قرب و وجاہت و عزت و کرامت و علوِ شان و رفعتِ مکان و غزارتِ (وفور و کثرت) فخر و جلالتِ قدر بارگاہِ حق تبارک و تعالیٰ میں حضراتِ خلفاء اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو حاصل ، ان کا غیر اگرچہ کسی درجۂ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے ، اولیٰ ہو یا آخری ، اہل بیت ہو یا صحابی ، ہر گز ہرگز اس تک نہیں پہنچ سکتا ، مگر شیخین کو امورِ مذکورہ میں ختنین پر تفوق ظاہر و رجحان باہر ، بغیر اس کے کہ عیاذ باللہ فضل و کمالِ ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے اور تفضیلیہ دربارہ جناب مولیٰ اس کا عکس مانتے ہیں ۔ یہ ہی تحریر مادۂ نزاع ، بحمد اللہ اس نہجِ قویم و اسلوبِ حکیم کے ساتھ جس میں ان شاء اللہ تعالیٰ شک مشکک و وہمِ واہم کو اصلاً محلِ طمع نہیں ۔ ( مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 114 مطبوعہ مکتبہ بھارِ شریعت لاہور)

امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو نسب کی بناء پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر فضیلت دینے والے شخص سے متعلق سوال ہوا ، تو جواباً آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اگر وہ یہ کہتا کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما بوجہ جزئیت کریمہ ایک فضل جزئی حضرات عالیہ خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم پر رکھتے ہیں اور مرتبہ حضرات خلفاء رضی اللہ عنہم کا اعظم و اعلیٰ ہے ، تو حق تھا ، مگر اس نے اپنی جہالت سے فضل کلی سبطین کو دیا اور افضل البشر بعد الانبیاء ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو عام مخصوص منہ البعض ٹھہرایا اور انہیں امیر ا لمومنین مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے افضل کہا ، یہ سب باطل اور خلاف اہلسنت ہے ، اس عقیدہ باطلہ سے توبہ فرض ہے ، ورنہ وہ سنی نہیں اور اس کی دلیل محض مردود و ذلیل ۔ اگرجزئیت موجبِ افضلیت مرتبہ عنداللہ ہو ، تو لازم کہ آج کل کے بھی سارے میر صاحب اگرچہ کیسے ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوں اللہ عزوجل کے نزدیک امیر المومنین مولیٰ علی سے افضل واعلیٰ ہوں اور یہ نہ کہے گا مگر جاہل اجہل مجنون یا ضال مضل مفتون ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 صفحہ 274 تا 276 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

انبیاء و مرسلین علیہم  السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔اس پر تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجماع ہے اور اس عقیدے پر بہت ساری احادیثِ نبویہ ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور بزرگانِ دین علیہم الرحمہ کے اقوال موجود ہیں ، کسی بھی صحابی کا اس کے خلاف عقیدہ نہیں تھا ، بلکہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو شیخین رضی اللہ عنہما پر فضیلت دینے والے سے متعلق آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ہی سزا کی روایت منقول ہے اور یہی مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے اور آپ رضی اللہ عنہ کی یہ فضیلت حسب نسب  یا خلافت  کے اعتبار سے نہیں ، بلکہ مطلقہ ہے ، یعنی بغیر کسی خاص وصف کا لحاظ کیے یوں ہے کہ قربِ الٰہی  و کثرتِ ثواب میں آپ بقیہ سب سے فائق ہیں ، جیسا کہ پہلے جواب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رآني النبي (صلى اللہ عليه وسلم) وأنا أمشي أمام أبي بكر الصديق فقال يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ، تو ارشاد فرمایا : اے ابودرداء ! کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے تھے ، جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے ۔ انبیاء و مرسلین کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا ، جو ابوبکر سے افضل ہو ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 30 صفحہ 209 مطبوعہ دار الفکر بیروت،چشتی)

امام دیلمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 509 ھ) حدیثِ پاک نقل کرتے ہیں  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : أتاني جبريل قلت يا جبريل من يهاجر معي قال أبو بكر وهو يلي أمر أمتك من بعدك وهو أفضل أمتك ۔
ترجمہ : میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے ، تو میں نے کہا : اے جبریل ! میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کی امت کے والی ہوں گے اور آپ کی امت میں سے سب سے افضل ہیں ۔(الفردوس بماثور الخطاب جلد 1 صفحہ 404 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان و یسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاینکرہ ۔
ترجمہ : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم افضل ہیں ، پس یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنتے اور آپ انکار نہ فرماتے ۔ (المعجم الکبیر جلد 12 صفحہ285 مکتبۃ العلوم و الحکم الموصل)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محمدبن حنفیہ تابعی ہیں ، آپ فرماتے ہیں : قلت لابی ای الناس خیر بعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ؟ قال ابوبکر قلت ثم من ؟ قال عمر ۔
ترجمہ : میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ  نے جواب دیاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ میں نے کہا پھر کون افضل ہیں ؟ توآپ نے جواب دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں ۔ (صحیح بخاری باب فضل ابی بکر جلد 1 صفحہ 518 مطبوعہ کراچی،چشتی)

امام اعظم امام ابو حنیفہ (تابعی) رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : افضل النا س بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان  ثم علی  بن ابی طالب رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمربن خطاب ، پھر عثمان بن عفان ، پھر علی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین افضل ہیں ۔ (فقہ اکبر مع شرح صفحہ61 مطبوعہ کراچی)

حضرت میمون بن مہران رضی اللہ عنہ تابعی ہیں ، آپ سے پوچھا گیا کہ حضرت علی افضل ہیں یا حضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہم) ؟ تو یہ سنتے ہی آپ کا جسم لرز اٹھا اور آپ کے ہاتھ سے عصا گِر گیا اور فرمایا : ما كنت أظن أن أبقى إلى زمان يعدل بهما ۔
ترجمہ : مجھے گمان نہ تھا کہ میں ایسے زمانے تک زندہ رہوں گا ، جس میں لوگ حضرت ابوبکر و عمر کے برابر کسی دوسرے کو ٹھہرائیں گے ۔ (تاریخ الخلفاء ، الخلیفۃ الاول ابوبکر الصدیق صفحہ 31،چشتی)

صحابہ و تابعین کا افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ پر اجماع تھا ، جیسا کہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 923 ھ) فرماتے ہیں : الافضل بعدالانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکر رضی اللہ عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة ۔ حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک ۔
ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پر اتفاق کیا ۔ امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پر صحابہ اور تابعین کا اجماع نقل کیا ۔(ارشاد الساری باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد 8 صفحہ 147 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ،بیروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات 676 ھ) فرماتے ہیں : وأجمع أهل السُنة على أن أفضلهم على الإطلاق أبو بكر، ثم عمر ۔
ترجمہ : اہلسنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ میں علی الاطلاق سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (تھذیب الاسماء و اللغات جلد 1 صفحہ 15 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت،چشتی)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : من فضلني على أبي بكر وعمر جلدتهم حد المفتري ۔
ترجمہ : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا ، میں اسے الزام لگانے والے کی سزا دوں گا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر جلد 30 صفحہ 383 مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

یہ افضلیت خلافت کے اعتبار سے ہے یا ولایت کے اعتبار سے ؟

اس کی وضاحت کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سلسلہ تفضیل عقیدہ اہلسنت میں یوں منتظم ہوا کہ افضل العٰلمین و اکرم المخلوقین محمد رسول رب العٰلمین ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، پھر انبیاء سابقین ، پھر ملائکہ مقربین ، پھر شیخین ، پھر ختنین ، پھر بقیہ صحابہ کرام صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین اور پُر ظاہر کہ سلسلہ واحدہ میں مافیہ التفاضل یعنی وہ امر جس میں کمی بیشی کے اعتبار سے سلسلہ مرتب ہوا ، ایک ہی ہوگا ۔ پس بالضرورۃ وہ امر یہاں بھی ایک ہی ہوگا اور جس بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاء اور انبیاء کو تمام ملائکہ اور ملائکہ مقربین کو شیخین پر زیادتی مانی گئی ہے ، بعینہ اسی امر میں شیخین کو جنابِ عثمان و حضرت مرتضوی پر پیشی ۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہم و سلم اجمعین ۔ اب ہم پوچھتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور انبیاء سے افضل کہا جاتا ہے ، تو آیا اس کے سوا کچھ اور معنیٰ و مفہوم ہوتے ہیں کہ حضور کا رتبۂ عالی اور قرب و وجاہت و عزت و کرامت ان سے زیادہ ، اسی طرح جب انبیاء کو ملائکہ اور ملائکہ کو صحابہ سے افضل کہتے ہیں ،  اس معنیٰ کا غیر ذہن میں نہیں آتا ، تو شیخین کو جو مولیٰ علی سے افضل کہا ، وہاں بھی قطعاً یہی معنیٰ لیے جائیں گے ، ورنہ سلسلہ بکھر جائے گا اور ترتیب غلط ہوجائے گی اور جو یہاں زیادتِ اجر وغیرہا معانی مخترع مراد لیتے ہو ، تو بحکمِ مقدمۂ مذکورہ اوپر بھی یہی لینا پڑے گا ، حالانکہ فرشتے بایں معنیٰ اہل ثواب نہیں ، نہ بعض ملائکہ مقربین مثل حملۂ عرشِ عظیم میں باعتبار نفع فی الاسلام کلام جاری ہو اور خلافت تو خلفاء اربعہ سے اوپر کسی میں نہیں ، پھر یہ معانی تراشیدہ کیوں کر درست ہوسکتے ہیں ؟ لطف یہ ہے کہ جیسے اوپر کی ترتیبوں میں تفضیل بمعنیٰ علوِ شان و رفعتِ مکان لیتے آئے ، یوں جب نیچے آکر مولیٰ علی کو بقیہ صحابہ سے افضل کہتے ہیں ، وہاں بھی اسی معنیٰ پر ایمان لاتے ہیں ، بیچ میں شیخین کی نوبت آتی ہے ، تو اگلا پچھلا یاد نہیں رہتا ، نئے نئے معنیٰ گڑھے جاتے ہیں اور اس معنیٰ کے رد پر بڑے بڑے اہتمام ہوتے ہیں ۔ اب بھی دعویٰ انصاف باقی ہے ۔ لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔ (مطلع القمرین (جدید تخریج شدہ) صفحہ 123 تا 124 مکتبہ بہارِ شریعت لاہور ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و رشتہ داریاں

0 comments
صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت و رشتہ داریاں
محترم قارئینِ کرام : قرآنِ کریم میں اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کے بارے میں اللہ عزّوجلّ کا فرمان ہے : قُلْ لَّاۤ اَسْٸلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ ۔
تَرجَمہ : آپ فرماٸیں میں اس (یعنی تبلیغِ رسالت) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت ۔ (پارہ نمبر 25 سورہ الشوریٰ آیت نمبر 23)

بعض شر پسند و فتنہ پرور لوگ اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کی مخاصمت اور لڑائی تھی یونہی اس کے بالعکس بعض شر پسند و فتنہ پرور لوگ شان صحابہ رضی اللہ عنہم اسی انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے درمیان بیحد محبت و آپس میں قریبی رشتہ داریاں و تعلقات تھے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی فضلیت پر احادیثِ مبارکہ بیان فرماتے تھے ۔

جب ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں فاطمہ رضی ﷲ عنہا ۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا ؟ فرماتی ہیں ‘ اْن کے شوہر یعنی حضرت علی رضی ﷲ عنہ ۔ (جامع ترمذی)

اسی طرح جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا سے پوچھا جاتا ہے کہ لوگوں میں سے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں ‘ عائشہ رضی ﷲ عنہا ۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے کون زیادہ محبوب تھا ؟ تو آپ فرماتی ہیں ‘ ان کے والد حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ ۔ (صحیح بخاری)

اگر خدانخواستہ ان کے درمیان کوئی مخاصمت یا رنجش ہوتی تو وہ ایسی احادیث بیان نہ کرتے ۔

حضرے سیدنا ابوبکر صدی و سیدنا علی رضی ﷲ عنہما کی باہم محبت

حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی ﷲ عنہما کے درمیان کس قدر محبت تھی ‘ اس کا اندازہ اس حدیث پاک سے کیجیے ۔ قیس بن ابی حازم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ چہرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پوچھا ‘ آپ کیوں مسکرا رہے ہیں ؟ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ’’ میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پل صراط پر سے صرف وہی گزر کر جنت میں جائے گا جس کو علی وہاں سے گزرنے کا پروانہ دیں گے ۔ اس پر سیدنا علی رضی ﷲ عنہ ہنسنے لگے اور فرمایا ‘ اے ابوبکر ! آپ کو بشارت ہو ۔ میرے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ (اے علی!) پل صراط پر سے گزرنے کا پروانہ صرف اسی کو دینا جس کے دل میں ابوبکر کی محبت ہو ۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ج۲:۵۵ امطبوعہ مصر،چشتی)

حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ایک دن مشرکین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اپنے نرغہ میں لے لیا ۔ وہ آپ کو گھسیٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ تم وہی ہو جو کہتا ہے کہ ایک خدا ہے ۔ خدا کی قسم ! کسی کو ان مشرکین سے مقابلہ کی جرأت نہیں ہوئی سوائے ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے ۔ وہ آگے بڑھے اور مشرکین کو مارمار کر اور دھکے دے دے کر ہٹاتے جاتے اور فرماتے جاتے ‘ تم پر افسوس ہے کہ تم ایسے شخض کو ایذا پہنچا رہے ہو جو کہتا ہے کہ ’’ میرا رب صرف ﷲ ہے ۔‘‘ یہ فرما کر حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی ترہو گئی ۔ پھر فرمایا ‘ اے لوگو ! یہ بتاؤ کہ آل فرعون کا مومن اچھا تھا یا ابوبکر رضی ﷲ عنہ اچھے تھے ؟ لوگ یہ سن کر خاموش رہے تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے پھر فرمایا ‘ لوگو ! جواب کیوں نہیں دیتے ۔ خدا کی قسم ! ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی زندگی کا ایک لمحہ آلِ فرعون کے مومن کی ہزار ساعتوں سے بہتر اور برتر ہے کیونکہ وہ لوگ اپنا ایمان ڈر کی وجہ سے چھپاتے تھے اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ نے اپنے ایمان کا اظہار علی الاعلان کیا ۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ ۱۰۰)

حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے پاس سے گزرا اور وہ صرف ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے تھے ۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر بے ساختہ میری زبان سے نکلا ‘ کوئی صحیفہ والا ﷲ تعالٰی کو اتنا محبوب نہیں جتنا یہ کپڑا اوڑھنے والا ﷲ تعالٰی کو محبوب ہے ۔ (تاریخ الخلفاء: ابن عساکر)

حضرت انس رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنے صحابہ کے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ آئے اور سلام کر کے کھڑے ہوگئے ۔ حضور منتظر رہے کہ دیکھیں کون ان کےلیے جگہ بناتا ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ آپ کی دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ اپنی جگہ سے اْٹھ گئے اور فرمایا ‘ اے ابوالحسن ! یہاں تشریف لے آئیے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ ‘ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے درمیان بیٹھ گئے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا ‘ ’’اہل فضل کی فضلیت کو صاحب فضل ہی جانتا ہے ۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی ﷲ عنہ کی بھی تعظیم کیا کرتے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ ۲۶۹)

ایک روز حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ مسجد نبوی میں منبر پر تشریف فرما تھے کہ اس دوران امام حسن رضی ﷲ عنہ آگئے جو کہ اس وقت بہت کم عمر تھے ۔ امام حسن رضی ﷲ عنہ کہنے لگے ‘ میرے بابا جان کے منبر سے نیچے اتر آئیے ۔ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ’’ تم سچ کہتے ہو ۔ یہ تمہارے باباجان ہی کا منبر ہے ۔‘‘ یہ فرما کر آپ نے امام حسن رضی ﷲ عنہ کوگود میں اٹھا لیا اور اشکبار ہوگئے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ بھی وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے کہا ‘ خدا کی قسم ! میں نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا ۔ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا : آپ سچ کہتے ہیں ‘ میں آپ کے متعلق غلط گمان نہیں کرتا ۔(تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۴۷)(الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۲۶۹،چشتی)

امام ابن عبدالبر رحمة ﷲ علیہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ اکثر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے ۔ حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا ‘ میں نے آقا و مولٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی رضی ﷲ عنہ کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔ (الصواعق المحرقتہ: ۲۶۹،چشتی)

ایک روز سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ تشریف فرما تھے کہ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ آگئے ۔ آپ نے انہیں دیکھ کر لوگوں سے فرمایا ‘ جو کوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قریبی لوگوں میں سے عظیم مرتبت‘ قرابت کے لحاظ سے قریب تر ‘ افضل اور عظیم تر حق کے حامل شخص کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آنے والے کو دیکھ لے ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ ۲۷۰‘ دار قطنی)

سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کے سب سے زیادہ بہادر ہونے سے متعلق سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کا ارشاد پہلے تحریر ہو چکا ‘ اگر ان کے مابین کسی قسم کی رنجش ہوتی تو کیا یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے ؟ یہ احادیث مبارکہ ان کی باہم محبت کی واضح مثالیں ہیں۔

سیدنا عمر و سیدنا علی رضی ﷲ عنہما کی باہم محبت

حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا ۔ امام حسن رضی ﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے ۔ پھر امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے ۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سو درہم دیے۔ انہوں نے عرض کی ‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہدِ رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے ۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے سو درہم دیے ہیں ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان والد علی المرتضٰی ‘ والدہ فاطمۃ الزہرا ‘ نانا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ نانی خدیجہ الکبریٰ ‘ چچا جعفر طیار ‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بیٹیاں ہیں رضی ﷲ عنہن ۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے ۔ یہ سن کر حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما خاموش ہو گئے ۔ جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کوہوئی تو انہوں نے فرمایا ‘ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ عمر اہل جنت کے چراغ ہیں ۔‘‘ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا ‘ اے علی ! کیا آپ نے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ ہاں ! میں نے خود سنا ہے ۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کربدیں ۔ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی : یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کےلیے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے ‘ اْن سے ﷲ تعالٰی نے کہ : ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ ۔ ترجمہ : عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں ۔ سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی ﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا ۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی ۔ (ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲،چشتی)

اگر ان کے مابین کسی قسم کی مخاصمت ہوتی تو کیا دونوں حضرات رضی اللہ عنہما ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے ؟ یہ واقعہ ان کی باہم محبت کی بہت عمدہ دلیل ہے ۔

امام دارقطنی رحمة ﷲ علیہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کوئی بات پوچھی جس کا انہوں نے جواب دیا ۔ اس پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ‘ اے ابوالحسن ! میں اس بات سے ﷲ تعالٰی کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں ایسے لوگوں میں رہوں جن میں آپ نہ ہوں ۔ (الصواعق المحرقہ صفحہ نمبر ۲۷۲)

اس واقعہ سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کس قدر محبت تھی ۔

حضرت عمر رضی ﷲ عنہ امورِ سلطنت کے وقت کسی سے نہیں ملے تھے ۔ آپ کے صاحبزادے عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ نے ملاقات کی اجازت طلب کی تو نہیں ملی ۔ اس دوران امام حسن رضی ﷲ عنہ بھی ملاقات کے لیے آگئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ ابن عمر رضی ﷲ عنہما کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی اجازت نہیں ملے گی ۔ یہ سوچ کر واپس جانے لگے ۔ کسی نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو اطلاع کر دی تو آپ نے فرمایا‘ انہیں میرے پاس لاؤ۔ جب وہ آئے تو فرمایا‘ آپ نے آنے کی خبر کیوں نہ کی ؟ امام حسن رضی ﷲ عنہ نے کہا‘ میں نے سوچا‘ بہت بیٹے کو اجازت نہیں ملی تو مجھے بھی نہیں ملے گی ۔ آپ نے فرمایا‘ وہ عمر کا بیٹا ہے اور آپ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بیٹے ہیں اس لیے آپ اجازت کے زیادہ حقدار ہیں ۔ عمر رضی ﷲ عنہ کو جو عزت ملی ہے وہ ﷲ کے بعد اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کے ذریعے ملی ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آئندہ جب آپ آئیں تو اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ۔ (الصواعق المحرقہ: ۲۷۲،چشتی)

ایک اور روایت ملاحظہ فرمائیں جس سے سیدنا عمر و علی رضی ﷲ عنہما میں محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ جب شدید علیل ہو گئے تو آپ نے کھڑکی سے سر مبارک باہر نکال کر صحابہ سے فرمایا‘ اے لوگو! میں نے ایک شخص کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے کیا تم اس کام سے راضی ہو ؟ ۔ سب لوگوں نے متفق ہو کر کہا‘ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم! ہم بالکل راضی ہیں ۔ اس پر سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہا‘وہ شخص اگر عمر رضی ﷲ عنہ نہیں ہیں تو ہم راضی نہیں ہیں ۔ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ بیشک وہ عمر ہی ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء:۱۵۰‘ عساکر)

اسی طرح امام محمد باقر رضی ﷲ عنہ حضرت جابر انصاری رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب وصال کے بعد حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ تشریف لائے اور فرمانے لگے‘ ان پر ﷲ تعالٰی کی رحمت ہو‘ میرے نزدیک تم میں سے کوئی شخص مجھے اس (حضرت عمررضی ﷲ عنہ) سے زیادہ محبوب نہیں کہ میں اس جیسا اعمال نامہ لےکر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں ۔ (شیعہ کتاب تلخیص الشافی:۲۱۹‘ مطبوعہ ایران)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات میں کس قدر پیار و محبت تھی ۔ اور فاروقی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ جب ایک حاسد شخص نے حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ان کی خوبیاں بیان کیں پھر پوچھا‘ یہ باتیں تجھے بری لگیں؟ اس نے کہا‘ ہاں ۔ آپ نے فرمایا‘ ﷲ تعالٰی تجھے ذلیل و خوار کرے۔ جا دفع ہو اور مجھے نقصان پہنچانے کی جو کوشش کر سکتا ہو کر لے ۔ (صحیح بخاری باب مناقب علی رضی اللہ عنہ)

حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا‘ ’’قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلۂ نسب منقطع ہو جائے گا’’۔ اسی بنا پر سیدنا عمر رضی ﷲ عنہ نے سیدنا علی رضی ﷲ عنہ سے ان کی صاحبزادی سیدہ اْم کلثوم رضی ﷲ عنہا کا رشتہ مانگ لیا۔ اور ان سے آپ کے ایک فرزند زید رضی ﷲ عنہ پیدا ہوئے ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد بھی قابلِ غور ہے‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ جب تم صالحین کا ذکر کرو تو حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو کبھی فراموش نہ کرو ۔‘‘ (تاریخ الخلفاء: ۱۹۵)

سیدنا علی اور عظمت شیخین رضی اللہ عنہم

سیدنا علی رضی ﷲ عنہ اور حضرات شیخین رضی ﷲ عنہا ایک دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی اور دوسرے کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے ۔ شعیہ عالم ملا باقر مجلسی نے جلا ء العیون صفحہ نمبر ۱۶۸ پر لکھا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگنے کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہ نے قائل کیا ۔ اسی کتاب میں مرقوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے سیدہ فاطمہ رضی ﷲ عنہا کی شادی کےلیے ضروری سامان خریدنے کے لیے سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو ذمہ داری سونپی تھی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھریلو معاملات میں بھی خاص قرب حاصل تھا ۔

حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسمِ اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی کہنی رکھی اور فرمایا‘ ﷲتعالٰی آپ پر رحم فرمائے! بے شک مجھے امید ہے کہ ﷲ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ) کا ساتھ عطا کرے گا کیونکہ میں نے بار ہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’میں تھا اور ابوبکر و عمر‘’میں نے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے‘’میں چلا اور ابوبکر و عمر‘’میں داخل ہوا اور ابوبکر و عمر‘’میں نکلا اور ابوبکر و عمر‘۔ (رضی ﷲ عنہما) میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ تھے ۔ (صحیح  بخاری المناقب)(مسلم کتاب الفضائل الصحابہ،چشتی)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی کرم ﷲ وجہہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے خصوصی قرب ومحبت کے باعث سیدنا ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے دلی محبت رکھتے تھے ۔

ایک شخص نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے دریافت کیا‘ میں نے خطبہ میں آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’ اے ﷲ! ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما جیسی تو نے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کو عطا فرمائی تھی‘‘۔ ازراہِ کرم آپ مجھے ان ہدایت یاب خلفائے راشدین کے نام بتا دیں ۔ یہ سن کر حضرت علی رضی ﷲ عنہ آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا : وہ میرے دوست ابوبکر اور عمر رضی ﷲ عنہما تھے ۔ ان میں سے ہر ایک ہدایت کا امام اور شیخ الاسلام تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد وہ دونوں قریش کے مقتدیٰ تھے‘ جس شخص نے ان کی پیروی کی وہ ﷲ تعالٰی کی جماعت میں داخل ہو گیا ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ نمبر ۲۶۷،چشتی) ۔ یہی واقعہ شیعہ حضرات کی کتاب تلخیص الشافی جلد ۳ صفحہ ۳۱۸ پر امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ نے امام باقر رضی ﷲ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ ﷲ فرماتے ہیں‘ یہ بات صحیح روایات سے ثابت اور تواتر سے نقل ہوتی چلی آئی ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اپنے رفقاء کے سامنے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ ان کی افضلیت کو برملا اور علانیہ بیان کرتے رہے ہیں ۔ امام ذہبی رحمة ﷲ علیہ نے اسی (80) سے زیادہ حضرات سے صحیح سندوں کے ساتھ ثابت کیا ہے اور صحیح بخاری کے حوالے سے بھی بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد سب لوگوں سے افضل ترین ابوبکر رضی ﷲ عنہ ہیں پھر عمر رضی ﷲ عنہ ۔ آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہما نے کہا‘ پھر آپ ؟ تو آپ تو فرمایا‘ میں ایک عام مسلمان ہوں۔(تکمیل الایمان صفحہ نمبر ۱۶۶،چشتی)

سیدنا علی رضی ﷲ عنہ نے انہیں سیدنا ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہ سے افضل کہنے والوں کے لیے درّوں کی سزا تجویز فرمائی ہے‘ شعیہ حضرات کی اسماء الرجال کی معتبر کتاب رجال کشی کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں ۔ سفیان ثوری‘ محمد بن سکندر رحہما اللہ علیہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو کوفہ کے منبر پربیٹھے ہوئے دیکھا کہ وہ فرمارہے تھے‘ اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص آئے جو مجھے ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دیتا ہوتو میں اس کو ضرور دْرّے لگائوں گا جو کہ بہتان لگانے والے کی سزا ہے ۔ (تکمیل الایمان: ۱۶۶)(سنن دارقطنی)(رجال کشی۳۳۸ مطبوعہ کربلا)

شیعوں کی اسی کتاب میں سیدنا علی رضی ﷲ عنہ کا فتویٰ موجود ہے کہ ’’حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے ۔‘‘ (رجال کشی صفحہ ۳۳۸)

امام احمد رضا خان قادری رحمة ﷲ علیہ فرماتے ہیں‘ محبت علی مرتضٰی رضی ﷲ عنہ کا یہی تقاضا ہے کہ محبوب کہ اطاعت کیجیے (یعنی سیدنا ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو ساری امت سے افضل مانیے) اور خود کو غضب اور اسی کوڑوں کے استحقاق سے بچئے ۔ (اعتقادالاحباب صفحہ نمبر ۵۶،چشتی)

شیعہ حضرات یہ کہہ کر انکار کردیتے ہیں کہ ’’یہ ساری باتیں تقیہ کے طور پر کہی گئی تھیں (أَسْتَغْفِرُ اللّٰه) ۔ یعنی حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرات شیخین کی تعریف محض جان کے خوف اور دشمنوں کے ڈر سے کیا کرتے تھے ۔ اگر ایسا نہ کرتے تو ان کی جان کو خطرہ تھا مگر دلی طور پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ حضرات شیخین کے خلاف تھے ۔ شعیوں کے اس بیان میں قطعاً کوئی صداقت نہیں ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ جو شیرخدا تھے اور مرکز دائرہ حق تھے‘ اتنے بزدل‘ مغلوب اور عاجز ہو گئے تھے کہ وہ حق بیان کرنے سے قاصر رہے اور ساری زندگی خوف وعجز میں گزار دی‘ پھر اسدُﷲِ الغالب کا لقب کیا معنی رکھتا ہے ؟ ۔ (تکمیل الایمان صفحہ ۱۶۷)

سیدنا علی المرتضٰی حیدر کرار رضی ﷲ عنہ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے آپ کے یہ ارشاد بھی دل کے کانوں سے سن لیں ۔ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بعد تمام لوگوں میں ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہ سب سے بہتر ہیں۔ کسی مومن کے دل میں میری محبت اور ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کا بغض کبھی یکجا نہیں ہو سکتے ۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۲۲‘ معجم الاوسط،چشتی)

صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کی آپس میں محبت : بالخصوص چاروں خلفاء راشدین اور اہلبیت اس قدر مضبوط و مستحکم ، خاندانی و ایمانی رشتوں میں بندھے ہوئے تھے کہ اس تعلق کو کوئی بھی ایک دوسرے سے ختم نہیں کر سکا ۔ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر ہیں ۔ کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آئی تھیں ۔ خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے داماد ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی دو صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں اور خاتون جنت سیدہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ سبحان اللہ !! کیا عالی شان تقسیم ہے کہ دو خلفاء حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر اور دو خلفاء داماد ہیں ۔ جب امُ المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آئیں تو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر ہوئے ۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ (حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی اور حضرت ابو سفیان کے بیٹے) کے بہنوئی ہوئے ۔

حضرت ام کلثوم اور حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما چونکہ حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی بہنیں تھیں لہٰذا حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی خالہ ہوئیں اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خالو جان ہوئے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا چونکہ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے نانا جان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نکاح میں آئیں تھیں تو یہ تینوں مقدس خواتین حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کی نانیاں ہوئیں ۔ سبحان اللہ !! غور کیجئے صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہم اجمعین کو اللہ تعالٰی نے کتنی گہری وابستگی عطا فرمائی ہے ۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی اور پیغمبر اسلام کی حقیقی نواسی ہیں ۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کی خاندانِ نبوت سے رشتہ داری قائم ہو جائے ، چنانچہ آپ نے اپنی اس خواہش کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کر دیا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپ کی اس درخواست کو قبول فرما لیا اور اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زید بن عمر رحمة اللہ علیہ ، حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ہی کے شکم مبارک سے پیدا ہوئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عمر زیادہ تھی مگر اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی کم عمر بیٹی کا ان سے نکاح کر دیا ۔ یہ واقعہ ان اسلام دشمن قوتوں کے لئے عبرت کا تعزیانہ ہے جو بظاہر اہلبیت رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا ظاہری دم بھرتے ہیں اور جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان اقدس میں گستاخی کرکے اپنی آخرت کو برباد کرتے ہیں ، اور نعوذ باللہ ان پر سب و شتم کر کے اپنے اعمال کو سیاہ اور داغدار کرتے ہیں ۔ کوئی ان ظالموں سے پوچھے اے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والو ! تمہارا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا خیال ہے۔ جنہوں نے بقول تمہارے ایک غاصب، ظالم اور مرتد سے اپنی کمسن صاحبزادی کا نکاح کر دیا ؟ ذرا سوچئے ! اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نعوذ باللہ ظالم ہوتے تو کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی انہیں دیتے ؟ ہرگز نہیں ۔

ابتدائے اسلام ہی سے اسلام دشمن قوتوں یہودی ابنِ سبا کی نسل سباٸیوں اور خارجیوں و ناصبیوں نے مسلمانوں کے ذہنوں کو خراب کرنے کےلیے صحابہ کرام اور اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف ابھارا تاکہ بعد میں آنے والے مسلمانوں کو انتشار کا شکار کر دیا جائے ۔ ان کی یہ کوشش ہوتی کہ جماعتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی کوئی ایسی بات پکڑی جائے جسے اہلبیت رضی اللہ عنہم کے خلاف ابھارا جا سکے اور اس طرح اہلبیت رضی اللہ عنہم کی محبت ظاہر کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کی جا سکے ۔ آج بھی یہود و نصارٰی کے آلہ کار ابنِ سبا یہودی کی نسلیں اس ناپاک سازش میں مصروف ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان میں گستاخی کر کے اپنے بغض و حسد کی آگ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں ۔ حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اہلبیت رضوان اللہ علیھم اجمعین میں کسی نوعیت کا کوئی ذاتی اختلاف نہ تھا ۔ وہ تو ایک دوسرے سے رشتے داریاں کرتے ، گویا قدرت نے انہیں ایک لڑی میں پرو دیا تھا ۔ اللہ پاک ہمیں سب صحابہ کرام اور تمام اہلبیت رضی اللہ عنہم سے سچی اور حقیقی محبت نصیب فرمائے آمین ۔

امام عبدالرءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصّہ اور نُمایاں فخر نہ پایا ہو ۔ (فیض القدیر جلد 1 صفحہ 256)

امام یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب اُمّت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مؤمن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ نمبر 94،چشتی)

حضرت صدر الافاضل سد محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمة علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ و آلہ وسلَّم کی محبّت اور آپ کے اَقارِب کی مَحبّت دِین کے فرائض میں سے ہے ۔ (تفسیر خزائنُ العرفان سورہ الشوریٰ تحت الآیۃ : 23 صفحہ 894)

صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالِک تھے ، وہ عظیمُ الشّان اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و عمل سے اس کا کس طرح اِظْہار کیا فرمایا کرتے تھے :

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر بجا لاتے ، آپ کےلیے کھڑے ہوجاتے ، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے ، مُشاوَرت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے ۔ (تہذیب الاسماء جلد 1 صفحہ 244،چشتی)(تاریخ ابنِ عساکر جلد 26 صفحہ 372)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ رسالت میں تشریف لاتے تو حضرت ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ بطورِ اِحترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے ۔ (معجمِ کبیر جلد 10 صفحہ 285 حدیث : 10675)

حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جا رہے ہوتے اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ذُوالنُّورَین رضی اللہ عنہما حالتِ سواری میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے اُتر جاتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ وہاں سے گزر جاتے ۔ (الاستیعاب جلد 2 صفحہ 360)

حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذِکر ہوا تو آپ نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدْرت میں میری جان ہے ! رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قَرابَت داروں کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا مجھے اپنے  قَرابَت  داروں سے صِلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔ (صحیح بخاری ، جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3712)

ایک بار حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو ۔ (صحیح بخاری جلد 2 حدیث 3713)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صِدّیق  رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی ، پھر آپ اور حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر چل دئیے ، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت سیّدُنا صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا اور فرمایا : میرے ماں باپ قربان! حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔ اس وقت حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ مُسکرا رہے تھے ۔ (سنن الکبریٰ للنسائی جلد 5 صفحہ 48 حدیث نمبر 8161،چشتی)

ایک بار حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا : اے فاطمہ ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم ! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں ۔ (مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 139 حدیث : 4789)

ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حُسین رضی اللہ عنہما کی شان  کے لائق ہو تو آپ نے ان کےلیے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنائے ، پھر فرمایا : اب میرا دل خوش ہوا ہے ۔ (ریاض النضرۃ جلد 1 صفحہ 341)

یوں ہی جب حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کےلیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لئے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا ۔(سیر اعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 259،چشتی)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے چند نُقُوش بھی آلِ ابوسفیان (یعنی ہم لوگوں) سے بہتر ہیں ۔ (الناھیۃ صفحہ نمبر 59)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے زبردست فضائل بیان فرمائے ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 42 صفحہ 415)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو نافِذ بھی کیا اور علمی مسئلے میں آپ سے رُجوع بھی کیا ۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی جلد 10 صفحہ 205،چشتی)(مؤطا امام مالک جلد 2 صفحہ 259)

ایک موقع پر حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ضَرّار صَدائی رضی اللہ عنہ سے تقاضا کرکے حضرت علیُّ الْمُرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دُعا کی : اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے ۔ (الاستیعاب جلد 3 صفحہ 209)

یوں ہی ایک بار حضرت امیر مُعاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہم کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : یہ آبا و اَجْداد ، چچا و پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں ۔ (العقد الفرید جلد 5 صفحہ 344)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ ہم شکلِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہونے کی وجہ سے حضرت امام حَسَن کا احترام کرتے  تھے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 461)

ایک بار حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اُس میں شرکت کی ترغیب دلائی ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد 14 صفحہ 179)

حضرت امیر مُعاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضراتِ حَسَنَینِ کَرِیْمَین رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کئے ، یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار ، کبھی تین لاکھ دِرہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتی کہ ایک بار 40 کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 309)(طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ 409,چشتی)(معجم الصحابہ جلد 4 صفحہ 370)(کشف المحجوب صفحہ 77)(مراٰۃ المناجیح جلد 8 صفحہ 460)

حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آلِ رسول رضی اللہ عنہم کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد صفحہ 92)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے : اہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہے ۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 135)

حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں جب بھی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ (مسند امام احمد جلد 3 صفحہ 632)

ابومہزم رحمۃ اللہ  علیہ بیان کرتے ہیں : ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے ۔ (سیراعلام النبلاء جلد 4 صفحہ 407)

عیزار بن حریث رحمۃ اللہ  علیہ کا بیان ہے کہ حضرت عَمْرو بن عاص رضی اللہ عنہ خانۂ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، اتنے میں آپ کی نظر حضرت امام حُسین رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمایا : اس وقت آسمان والوں کے نزدیک زمین والوں میں سب سے زیادہ محبوب شخص یہی ہیں ۔ (تاریخ ابن عساکر جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 179)

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کے گھرانے کی آپس میں رشتہ داریاں کی تفصیل دیکھیں یہ سب اہل سنت اور شیعہ دونوں کی معتبر کتابوں میں موجود ہے ۔ پہلی رشتہ داری تو یہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سسر ہیں وفات سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غم زدہ تھے ۔ تو سیدنا صدیق اکبر نے اپنی خود بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں اس رشتہ کی پیش کش کی آپ کی اس بیٹی کا نام محبوبہ محبوبِ خدا سیدہ امی عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر ہے  ۔ جو ام المومنین ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (تہذیب جلد نمبر 4 صحفہ نمبر 298 ابن حجر عسقلانی،چشتی)(تاریخ ائمہ صحفہ نمبر 147 علی حیدر نقوی)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہز اروں احادیث زبانی یاد تھیں ان کا مقام یہ ہے کہ جلیل القدر صحابہ کرام کو مسئلہ درپیش ہوتا تووہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے عورتوں کے مسائل ہوں یا فقیہی مسائل آپ ان کا حل اپنی دانش اور فہم و فراست سے حل کر دیتی ام المومنین سید ہ عائشہ صدیقہ اہلبیت کی شان میں درجنوں احادیث کی اکلوتی راوی ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔

دوسرا رشتہ سیدنا صدیق اکبر امام جعفر صادق کے نانا اور دادا لگتے ہیں ، آپ کا شجرہ نسب والد اور والدہ کی طرف سے سیدنا جعفر بن ام فروابنت قاسم بن محمد بن ابی بکرالصدیق (والدہ کی طرف سے) ۔ سیدنا جعفر بن محمد الباقر بن علی بن زین العابدین بن حسین بن علی المرتضٰی (والد کی طرف سے) یوں امام جعفر الصادق والد کی جانب سے علوی و فاطمی اور والدہ کی طرف سے صدیقی ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (احقاق الحق صحفہ7)(شرح العقائد صحفہ 195،چشتی)(عمدةالطالب آ ل ابی طالب صحفہ 195)(اصول کافی جلد نمبر 586 شیعہ کی معروف کتاب ہے)

تیسرارشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا صدیق اکبر دونوں ہم زلف ہیں وہ اس طرح کے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سیدہ میمونا بنت حارث اور زوجہ صدیق اکبر سیدہ اسماء بنت عمیس والدہ کی طرف سے دونوں بہنیں ہیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات الکبری جلد 8 صحفہ نمبر 104)

چوتھا رشتہ امام حسین سیدنا صدیق اکبر کے بیٹے محمد بن ابی بکر کے ہم زلف تھے اور امام زین العابدین کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (فتیی الاحال جلد نمبر2صحفہ نمبر 4)(مناقب آل ابی طالب جلد نمبر 4صحفہ نمبر 49)(اصول کافی جلد1صحفہ نمبر 586)(کشف الغمہ جلد نمبر 2 نمبر 84) ۔ یہ تمام حوالے سنی شیعہ مکاتب فکر کی معتبر کتب میں بھی موجو د ہیں ۔

پانچواں اور چھٹا رشتہ : سیدنا صدیق اکبر کے بیٹے عبدالرحمان ابی بکر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہم زلف تھے اور امام حسین عبدالرحمن بن ابی بکر کے داماد تھے ۔ عبدالرحمان کی زوجہ قرین الصغری زوجہِ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ام سلمٰی کی ماں جائی بہن تھیں اس طرح حضرت ام سلمٰی کی ماں جائی بہن تھیں اس طرح حضرت ام سلمٰی عبدالرحمان بن ابی بکر کی سالی ہوئی ، حفصہ بن عبدالرحمان جن کا نکاح منذر بن زبیر سے ہوا اور اس کے بعد اپ کا نکاح امام حسین بن علی بن ابی طالب سے ہوا ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد نمبر 8 صحفہ نمبر 468 ، 469،چشتی)

ساتواں رشتہ : امام حسن کے عقد میں عبدالرحمان بن ابی بکر کی دو صاحبزادیاں حفصہ بن عبدالرحمان او ر ہندہ بنت عبدالرحمان یکے بعد دیگرے آئیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (شیعہ کتب ۔ ابن حدید شرح نہج البلاغہ جلد نمبر 4 صحفہ نمبر 5)(بحار الانوار جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 8،چشتی)
اس رشتہ میں درج ذیل رشتے ثابت ہوئے ۔ 1۔عبدالرحمان بن ابی بکر ہم زلف رسول بنے ۔ 2 سیدہ عائشہ حفصہ کی پھوپھی بنی ۔ 3 سیدنا ام سلمیٰ ان کی خالہ بنیں ۔ رضی اللہ عنہم ۔

آٹھوا ں رشتہ : امام حسن کی بیٹی (ام الحسن) سے صد یق اکبر کے نواسے (عبداللہ بن زبیر) کا عقد ہو ا ۔ رضی اللہ عنہم ۔ (شیعہ کتاب ۔ ناسح التواریخ جلد نمبر 2 صحفہ نمبر 271)

اس کے علاوہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عقد میں تھیں ۔ اس طرح وہ بھی ام المومنین کی حیثیت سے معتبر تھیں ، اس مکمل تفصیل سے معلوم ہوا کے سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا علی المر تضٰی باہمی الفت و محبت کے پیکر تھے ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا ۔ اور آل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بھی عظمت صدیق اکبر کو تسلیم کرتی تھی ۔ اور آل صدیق اکبر بھی اہل بیت پر نچھاور ہوتی تھی ، یہی وجہ ہے کہ شان و خصائل صدیق اکبر بزبان علی المرتضیٰ میں بکثرت روایت ہیں اور مزید یہ ان کی آپس میں رشتہ داریاں بھی قائم ہوتی رہی ہیں ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گھرانے میں رشتہ داریوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان سب (رضی اللہ عنہم) کے درمیان محبت ، پیار اور اخوت قائم تھا ۔ لیکن آج یہ سب مصلحتوں اور فرقہ واریت کا شکار ہوکر رہ گے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات میں برابر اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مذہبی سکالرز علماء کرام اور ذاکرین یہ اختلافات اور فاصلے کم کرنے کی کوشش کریں تو مسلم امہ کی بہت بڑی خدمت ہو گی ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی قرینۃالصغری (سیدہ حفصہ) بنت عبدالرحمن بن ابی بکر امام حسن کی اہلیہ تھیں ، امام حسن کی وفات کے بعد امام حسین سے نکاح ہوا ۔ (رضی اللہ عنہم)

اسماءبنت عمیس جو پہلے حضرت صدیقِ اکبر کی بیوی تھیں حضرت فاطمۃ الزھراء کی وفات کے بعد حضرت علی المرتضی سےشادی ھوئی ، اسماء سے امام حسین کے دو بھائی یحی بن علی اور عون بن علی پیدا ہوۓ ـ (رضی اللہ عنہم)

حضرت امام حسین اور حضرت محمد بن ابی بکر ہم زلف تھے ، شاہِ ایران یزدگر کی 2 بیٹیاں مالِ غنیمت میں آئیں ایک کا نکاح امام حسین سے اور دوسری کا نکاح محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہم سے کیا گیا ـ

حضرت بی بی شہربانو زوجہ امام حسین کے صاحبزادے امام زین العابدین کے خالہ زاد بھائی قاسم بن محمد بن ابوبکر کی بیٹی ام فروہ فاطمہ کا نکاح امام باقر بن زین العابدین سے ہوا جن سے امام جعفرصادق پیدا ہوئے رضی اللہ عنہم ۔

قرینۃالکبری بنت ھند بنت عبدالرحمان بن ابوبکر کا نکاح امام حسن سے ہوا یوں امام حسن خاندانِ صدیقی کے ذوالنورین بن گئے ۔ (رضی اللہ عنہم)

امام حسین امیرالمؤمنین عمر کےنسبتی بھائی ہیں ، امام حسین کی بہن امِ کلثوم بنت علی (حضرت سیدہ فاطمہ کی بیٹی) کا نکاح 17 ھ ذوالقعدہ میں ہوا 40،000 درھم حق مہر طے ہوا ان سے بیٹا زید بن عمر ، بیٹی رقیہ بنت عمر رضی اللہ عنہم پیدا ہوئیں ۔ (شیعہ کتب ۔ الشافی صفحہ نمبر 116)(مناقب ابن ابی طالب جلد 3 صفحہ 162)(المبسوط جلد 4 صفحہ 272)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عثمان کا نکاح حضرت فاطمہ بنت امام حسین بن علی رضی اللہ عنہم سے ہوا ، یعنی دادا حضرت عثمان داماد ہیں نانا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ، اور پوتا عبداللہ داماد ہیں نواسہ حسین کے ، <اولاد> بقاسم و محمد ، بیٹی رقیہ تھی رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

حضرت بی بی سکینہ’بنت’ امام حسین کا پہلا نکاح حضت ابوبکر صدیق کے نواسے مصعب ابن زبیر سے ہوا شہادتِ مصعب کے بعد زید بن عمرو بن عثمان سے ہوا یعنی دادا حضرت عثمان داماد ہیں نانا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ، اور پوتا زید داماد ہیں نواسے حسین کے ، حضرت امام حسین اپنی 2 بیٹیاں حضرت عثمان کے دو پوتوں کے نکاح میں دیں رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

حضرت جعفر طیار کی پوتی ، ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیار کا نکاح عثمان غنی کے صاحبزادے ابان سے ہوا ۔ رضی اللہ عنہم ۔

حضرت امام حسن کی پوتی ام القاسم کا نکاح حضرت سیدنا عثمان غنی کے پوتےمروان بن ابان بن عثمان سے ہوا رضی اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد جلد 8)

محترم قارٸینِ کرام : آپ نے بیان کردہ روایات میں پڑھا کہ حضراتِ صَحابَۂ کرام رضی  اللہ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھتے ، ان کی بارگاہوں میں عمدہ و اعلیٰ لباس پیش کرتے ، بیش بہا نذرانے اُن کی خدمت میں حاضر کرتے ، اُن کو دیکھ کر یا اُن کا ذِکر پاک سُن کر بے اختیار رو پڑتے ، ان کی تعریف و توصیف کرتے اور جاننے والوں سے اُن کی شان و عظمت کا بیان سنتے ۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کا بے حَدادب و احترام کریں ، ان کی ضَروریات کا خیال رکھیں ، ان کا ذِکرِخیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت و صَحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت و احترام سکھائیں ۔

 مذکورہ حوالجات سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کی آپس محبت و قریبی رشتہ داریاں ۔ دشمنانانِ اسلام ، یہودیوں ، سباٸیوں ، رافضیوں ، ناصبیوں اور خارجیوں نے من گھڑت تاریخی روایات گھڑیں اور مسلمانوں میں نفرت ، تفرقہ اور انتشار پھیلایا جس میں بڑی حد تک وہ کامیاب بھی ہوۓ ان کی اس کامیابی میں جاہل پیروں ، جاہل خطیبوں ، جاہل نوٹ خوانوں نقیبوں اور اجہل ذاکروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے ۔ فقیر اِس گمراہی و نفرت و تفرقہ کے پیروکاروں کو اپنی حد تک دلاٸل کے ذریعے عرصہ دراز سے جواب بھی دے رہا ہے اور بے نقاب بھی کر رہا ہے ۔ جواب میں گالیاں بھی سنیں ، ستم بھی برداشت کیے اور کر رہا ہے مگر الحَمْدُ ِلله فقیر نے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا مشن نہیں چھوڑا اگرچہ فقیر کو غیروں سے زیادہ اپنوں سے شکوہ عدمِ تعاون ضرور ہے ہمارے سنی صاحبِ حیثیت لوگ جاہل پیروں ، جاہل خطیبوں ، جاہل نوٹ خوانوں اور نقیبوں پر تو سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں مگر وہ اہلِ علم جو ہر طرح کے کسمپرسی کے حالات میں دفاعِ عقاٸدِ مسلکِ حق اہلسنت و جماعت کر رہے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ۔ اللہ عزوجل اہلسنت صاحبِ ثروت حضرات کو سمجھ عطا فرماۓ اور اہلِ حق اہلِ علم کی مدد و حفاظت فرماۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی لاہور پاکستان)