Wednesday, 30 April 2025

غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں

غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں

محترم قارئینِ کرام : جن أئمہ ومحدثین  اور اکابر مؤرخین علیہم الرحمہ جنہوں نے غزوہ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے اس بات کی صریح دلیل ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع  نہیں ہیں ۔ بلکہ علمأ امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انہیں نقل کیا ہے ۔ خاص کر امام نسائی جنہوں نے سنن نسائی میں غزوہ ہند پر مکمل باب باندھا ہے ۔ امام بخاری کے استاد امام نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں غزوہ ہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے ۔ امام  احمد نے اپنی مسند میں ، امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ، اما م بیہقی نے سنن الکبری اور دلائل النبوۃ میں ، امام حاکم نے مستدرک حاکم میں ، امام طبرانی نے معجم الاوسط میں ، امام سیوطی نے جمع الجوامع میں ، امام  نووی نے  فیض القدیر میں ، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں ، امام بغدادی نے تاریخ بغداد میں علیہم الرحمہ اور علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں غزوہ ہند سے متعلق  احادیث ذکر کی ہیں ۔ لہذا اس روایت کو موضوع کہنا محل نظر ہے ۔ غزوہ ہند کے متعلق مروی احادیثِ میں سے چند درج ذیل ہیں : ⏬

غزوہ ہند کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد احادیث مروی ہیں ۔ ان احادیث نبویہ کے راوی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دو احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رضی اللہ عنہم ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا کہ اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی " اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک ، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں ، جسے اللہ تعالیِ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا " امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ (آگے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں) " اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاٶں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :  میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیِ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا ارو دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا : ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطاء کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہوں ۔ (راوی کا بیان ہے) کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور ہنس کرفرمایا : بہت زیادہ مشکل ، بہت زیادہ مشکل ۔ (مسند احمد : 369/2)(مسند ابوہریرہ رض: 8467)(البدایہ والنہایۃ، الاخبار عن غزوہ الہند: 223/6، از حافظ علامہ عمادالدین ابن کثیر)(السنن المجتبیٰ : 42/6 ، کتاب الجہاد باب غزوہ ہند: 3174 ،3173)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوہ الہند: 4382۔4383)(مسند احمد : 278/5، حدیث ثوبان رض : 21362،چشتی)(السنن المجتبیٰ للنسائ:668/2، حدیث: 2575)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوۃ الھند: 4384)(الجہاد : 665/2 فضل غزوۃ البحر حدیث : 228)(السنن الکبریٰ للبھیقی : 76/9، کتاب السیر، باب ماجاء فی قتال الھند : 186)(البدایۃ والنھایۃ، الاخبار عن غزوۃ الھند : 223/6)(الفردوس بما ثور الخطاب : حدیث 4164)(تاریخ الکبیر : 72/6)(تذکرہ عبد الاعلیٰ بن عدیالبھرانی الحمص : 1747)(تاریخ دمشق : 248/52، از ابن عساکر رح کتاب الفتن ، غزوۃ الھند : 409/1۔ 410، حدیث : 1236۔ 1238)

غزوہ ھند صرف جنگ تک ہی محدود نہیں ہے اس میں علمی جہاد بھی شامل ہے اور اس کی تکمیل ھندوستان میں اسلام کے مکمل غلبے پر ہوگی ان شاء اللہ ۔ ایک بار ان احادیثِ مبارکہ کو غور سے پڑھیں : ⏬

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا ، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمية، بيروت)

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدْنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةُ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِقُ فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِعُ فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے ، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا ۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا ۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ (نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمية بيروت)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18380، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا ﷲُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں ، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو ﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449)(نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4384،چشتی)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381)(طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة)

حدثنا أبو النضر حدثنا بقية حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال عصابتان من أمتي أحرزهم الله من النار عصابةتغزو الهند وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم عليه السلام ۔ (مسنداحمد باب مسندالانصار من حديث ثوبان جلد 37 صفحہ 81 رقم : 22396 الرساله)(سنن النسائي لشرح السيوطي، باب غزوة الهند جلد 5 ، 6 صفحہ 350 رقم 3175 دارالمعرفة،چشتی)(التاريخ الكبير للبخاري باب عبدالاعلي جلد 5 صفحہ344 رقم : 7818 ، 1747 العلمية)
ترجمہ : ضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے ان سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالی دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ، ان میں سے ایک ہندوستان مین جہاد کرے گا ، دوسرا  حضرت عیسی علیہ السلام کے  ساتھ ہوگا ۔
یہ حدیث حسن ہے ، البتہ یہ سند بقیۃ بن الولید کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس کی متابعت موجود ہیں ۔ اور سند کے بقیہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابوبکر بن ولید کے وہ مجھول الحال ہے ، لیکن  عبد اللہ بن سالم جو کہ ثقہ ہے انہوں نے ابوبکر بن ولید کی متابعت کی ہے ۔ (مسند احمد جلد 37 صفحہ 81)

أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد بن عبيد الصفار، ثنا بشر بن موسى، ثنا خلف، عن هشيم، عن سيار بن أبي سيار العنزي، ح وأخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن أبي علي السقاء , وأبو الحسين علي بن محمد المقرئ قالا: أنبأ الحسن بن محمد بن إسحاق، ثنا يوسف بن يعقوب القاضي، ثنا مسدد، ثنا هشيم، عن سيار أبي الحكم، عن جبر بن عبيدة، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: " وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن أدركها أنفق فيها مالي ونفسي , فإن استشهدت كنت من أفضل الشهداء , وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر ۔ (السنن الكبر للبيهقي، باب ماجاء في قتال الهند جلد 9 صفحہ 176 دار الكتب العلمية،چشتی)(نسائي لشرح السيوطي باب غزوة الهند جلد 5 ، 6 صفحہ 349 رقم 3173 دارالمعرفة)(دلائل النبوة للبيهقي باب قول الله عزوجل (وعد الله الذين آمنوا منكم الخ) جلد 6 صفحہ 336 العلمية)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہونگا اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہونگا ۔

أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، قال : حدثنا زكريا بن عدي ، قال : حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن زيد بن أبي أنيسة ، عن سيار (ح) قال : وأنبأنا هشيم ، عن سيار ، عن جبر بن عبيدة ، وقال عبيد الله : عن جبير ، عن أبي هريرة ، قال : وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند ، فإن أدركتها أنفق فيها نفسي ومالي ، فإن أقتل كنت من أفضل الشهداء ، وإن أرجع فأنا أبو هريرة المحرر ۔ (سنن النسائي المجتبي، باب غزوة الهند جلد 6 صفحہ 42 رقم 3173 المطبوعات الاسلامية،چشتی)
حدثنا بقية بن الوليد عن صفوان عن بعض المشيخة عن أبي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكر الهند فقال: ليغزون الهند لكم جيش يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغللين بالسلاسل يغفر الله ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام  قال أبو هريرة إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها فإذا فتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيجد فيها عيسى بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه فأخبره أني قد صحبتك يا رسول الله قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه و سلم وضحك ثم قال: هيهات هيهات ۔ (كتاب الفتن لنعيم بن حماد باب غزوة الهند صفح 409 رقم 1236 التوحيد)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : یقینًا تمہارا ایک لشکر  ہندوستان سے جنگ کرے گا،اور اللہ ان مجاہدین کو  فتح دے گا ۔ حتیٰ کہ وہ حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ۔ پھر جب  وہ واپس لوٹیں گیں تو ابن مریم کو شام میں پائیں گے ۔ تو  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا ، جب ہمیں اللہ تعالی فتح دے  دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام  میں آئے گا تو وہاں عیسی بن مریم سے ملاقات کرے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے ۔

حدثنا الحكم بن نافع عمن حدثه  عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الهند فيفتحها فيطئوا أرض الهند ويأخذوا كنوزها فيصيره ذلك الملك حلية لبيت المقدس ويقدم عليه ذلك الجيش بملوك الهند مغللين ويفتح له ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامهم في الهند إلى خروج الدجال ۔ (كتاب الفتن لنعيم بن حماد باب غزوة الهند صفحہ 409 رقم 1235 التوحيد،چشتی)
ترجمہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کا ایک بادشاہ  ہندوستان کی طرف  ایک لشکر روانہ  کرے گا ،  وہ اس كو فتح كریں گے پس مجاہدین ہند کی سر زمین کو پامال کر ڈالیں گے اس کے حزانوں پر قبضہ کرلیں گے پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المال کی تزیین کےلیے استعمال کرے گا وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے رو برو پیش کرے گا اور وہ لشکر مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر فرمایا اور ارشاد کیا ’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا ، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ، پھر جب وہ مسلمان لوٹ کر آئیں گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو شام میں پائیں گے ۔

مذکورہ احادیث کا مفہوم درج ذیل ہے : ⬇

(1) ایک زمانہ آئے گا کہ عرب انتہائی غیر مستحکم ہوں گے تو اللہ ایک غیر عرب قوم کو اٹھائے گا جو ہتھیاروں اور لڑائی میں عربوں سے بہتر ہوگی اور ہندوستان پر قبضہ کرے گی ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہند سے نہیں ہوں مگر ہند مجھ سے ہے ۔

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ آخری زمانے میں شام میں ہوں، انہیں چاہیے کہ زیر زمین گھر بنائیں ۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غزوہ ہند کے دوران دریائے اٹک 3 دفعہ خون سے لال ہوجائے گا، سرحد کے غازیوں سے زمین کانپے گی، دلّی اور کشمیر فتح ہوگا اور امام مہدی کا خیمہ غوطہ میں ہوگا، غزوہ ہند آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا ۔ (پیشین گوٸیاں)

درج بالا فرامین سے غزوۂ ہند کی نوعیت جاننے میں یقیناًمدد ملی ہوگی ۔ سادہ الفاظ میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی تعیف یہ ہے : ⬇

غزوۂ ہند ایک ایسی جنگ ہے جس میں تمام ہندوستان کو مسلمان ازسرنو فتح کرلیں گے۔ یہ ایک مکمل فتح ہوگی، جس میں ہندوستان کے تمام سردار بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ یہ جنگ حضرت مہدی کی سربراہی میں لڑی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے بالآخر تمام دنیا پر حضرت مہدی اسلامی اقتدار قائم کردیں گے، جس کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا، جو آخری جنگ Armegadon پر منتج ہوگا ۔

ایک سوال جو غزوہ ہند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریک ہوں ، تو اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما چکے ہیں ، تو اس جنگ کو غزوہ کیوں کہا گیا ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوۂ موتہ میں شریک نہیں تھے ، مگر پھر بھی اس کو غزوہ کہا جاتا ہے ۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب اور امتی ہیں اور ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمة اللعالمین صفت کو تمام عالم پر نافذ کرنا ہے ، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب اس کو غزوہ قرار دیا گیا ، اور تیسرا اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چونکہ اس غزوے کی تمام معلومات دیں اور عہد لیا کہ جو زندہ رہے وہ اس غزوے میں ضرور شریک ہو ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بیعت نے ان کو اس غزوے کا سربراہ بنادیا اور یہ جنگ غزوہ قرار پائی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں خراسان ایک بہت وسیع علاقے کا نام تھا ، اس میں ایران ، افغانستان ، پاکستان کی ملاکنڈ ایجنسی اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل تھیں ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ خراسان سے کالے جھنڈے اٹھیں گے اور غزوہ ہند جیتیں گے تو اس میں کثیرالملکی فوج کا مفہوم بھی ہو سکتا ہے ، جیسا کہ ہم دوسری حدیث میں غیر عرب فوج کی فتح کی نوید سنتے ہیں ۔ پاکستانی فوج بھی ایک غیر عرب فوج ہے ، جس کے ہتھیار اور کارکردگی عربوں سے بہتر ہے، لہٰذا جس فوج کا ذکر ہے وہ پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں جو بھارت فتح کرے ۔ جس وقت اسرائیل وجود میں آیا تو ڈیوڈ بن گوریان نے بیان دیا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے ۔ حالانکہ پاکستان اُس وقت محض ایک سال پرانی نوزائیدہ مملکت تھی جو اپنا وجود بچانے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی ۔ کافروں کو اندازہ ہے کہ پاکستان خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، مگر ہمیں پاکستان کی کوئی قدر نہیں ہے۔
ایک بات یہاں قابلِ غور ہے کہ پاکستان کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، ہندوستان ہی کبھی ہمارا پانی روکتا ہے ، کبھی ہمارا مشرقی حصہ جدا کرتا ہے ، کبھی بمباری کرتا ہے ، کبھی دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی الزامات لگاتا ہے ۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا تو ہم بلاوجہ غزوہ ہند کا محاذ کھول کر مذہبی فریضہ نبھائیں گے ، تو یہ خام خیالی ہے ۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ فساد کا آغاز بھارت کی جانب سے ہی ہوگا ، جو کہ بھارت کا ایک مستقل رویہ ہے ، اور پاکستان کی دوستی کی ہر کوشش اور امن کی ہر آشا رائیگاں جائے گی ۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کالے جھنڈے ، پیلے جھنڈے ، کالی ٹوپیاں ، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ ، حضرت مہدی علیہم السلام کا حلیہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو احادیث کی روشنی میں کوئی بھی خود تیار کرکے کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے ۔ یہ سب میک اَپ سے بھی ہوسکتا ہے ، ان چیزوں کو حتمی مان کر فیصلہ کرنا بے وقوفی ہے ۔ ہمیں جو چیز اصل حضرت عیسیٰ اور اصل حضرت مہدی علیہما السلام کی پہچان کرائے گی ، وہ ان کی تعلیمات ، ان کا جذبہ اور ان کا ایمان ہوگا ۔ یہ قیامت کا آخری دور ہے ، اس وقت دھوکا کھانے والوں کےلیے یہ موقع نہیں ہے کہ تمہیں ہٹا کر اوروں کو لے آئیں گے ، ہم نے اگر اپنی کسی غلطی سے اللہ کے پلان میں خلل ڈالا تو ہمارے لیے معافی نہیں ہے، اس لیے بڑے ہوش و حواس سے فیصلہ کیجیے ۔ قرآن روز اپنی مادری زبان میں پڑھیے تاکہ آپ اس کتابِ الٰہی کی روشنی میں صحیح لوگوں کو پہچان سکیں ۔

بعض لوگ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کو غزوۂ ہند مانتے ہیں ، لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ یوں تو محمود غزنوی نے بھی جب بھی ہندوستان پر حملہ کیا ، ہمیشہ غزوۂ ہندکی ہی نیت باندھی ، لیکن وہ سترہ حملے غزوہ ہند نہیں تھے ۔ درحقیقت غزوہ ہند وہ ہوگا جس کے اختتام پر تمام ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو ، اور یہ غزوہ اتنا بڑھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شام میں ظاہر ہو جائیں اور پھر مستقل فتوحات کا ایسا سلسلہ چل نکلے کہ تمام دنیا اسلام کے زیر تسلط آجائے ۔

غزوہ ہند کے بارے میں جب ہم تمام تر تجزیوں کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایسی منظم ، کامیاب اور متحد جنگ کےلیے ایک متفق علیہ کمانڈر اور ایک مستحکم اقتصادی قوت بہت ضروری ہے ، جب کہ جو صورتِ حال ہمیں نظر آرہی ہے ، اُس میں مسلم ممالک کے حکمران کسی پالتو جانور کی طرح کافروں کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں ۔ نہ کوئی حمیت ہے ، نہ غیرت ، نہ سر اٹھانے کا حوصلہ ، نہ مضبوط کمر ۔ جب کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ آخری دور شروع ہو چکا ہے ، پھر آخر کیسے کمانڈر آئے گا ، کس طرح اتحاد ہوگا اور غزوۂ ہند کے وسائل کیسے فراہم ہوں گے ، جب کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا بھی اب تک نزول نہیں ہوا ۔ شام کے حوالے سے تمام حدیثیں پوری ہوچکی ہیں ، پھر آخر غزوۂ ہند کی فتوحات کیسے اور کب ہوں گی ؟

آتی ہے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ہند سے نہیں ہوں ، مگر ہند مجھ سے ہے ، تو ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے بھارت میں رہنے والے ہندوؤں کو تو وہ بیڑیوں میں قید کرنے کا حکم فرما رہے ہیں ۔ مشاٸخ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قائدِ اعظم علیہ الرحمہ کے خواب میں بھیجا تھا اور انہوں نے قائدِ اعظم علیہ الرحمہ کو حکم دیا تھا کہ لندن سے واپس ہندوستان جاؤ اور پاکستان بنانے کی کوشش کرو ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روحانی واقعات ہیں جو پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنے اور ابھی تک پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں جب کہ اہلِ پاکستان نے بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اسی تائید ایزدی کو نظر میں رکھتے ہوئے امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سپریم کمانڈر بھی پاکستان میں بھیجے گا جو تمام دنیا میں اسلام قائم کرے گا اور غزوۂ ہند کی فتوحات کو بھی اللہ کے حکم سے ممکن بنائے گا ۔

سنن نسائی صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3175 میں غزوۂ ہند میں شہید ہونے والوں کو ’’افضل الشہدا‘‘ اور بچ جانے والوں کو جہنم کی آگ سے آزاد قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ حدیث اُس زمانے کی ہے جب غزوات جاری تھے، جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں ، کثرت سے شہادتیں بھی سامنے کی بات تھیں، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان جلیل القدر صحابہ کو افضل الشہدا قرار نہیں دیتے، بلکہ فرماتے ہیں کہ قربِ قیامت کے دور میں ہونے والے غزوہ ہند میں جو لوگ شہید ہوں گے ، وہ افضل الشہدا ہیں۔ صرف اسی بات سے آپ غزوۂ ہند کی اہمیت کا اندازہ کرلیں اور اس میں شریک ہونے والے مومنوں کے درجات کا اندازہ لگالیں ۔ لہٰذا جس کی زندگی میں یہ غزوہ لڑا جائے اُسے اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول غزوہ ہند کے دوران ممکن نہیں ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوں گے جب حضرت مہدی غزوہ ہند کی فتوحات مکمل کرکے شام کی طرف بڑھیں گے ، اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کریں گے اور غوطہ میں اپنا خیمہ لگائیں گے ، یہی وہ وقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ظاہر ہوجائیں گے اور وہ یہودیوں کو شکست دینے میں حضرت مہدی کی مدد فرمائیں گے ۔ یہودیوں کو صرف ایک خاص درخت کے پیچھے پناہ ملے گی جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور یہودیوں نے اس درخت کی بڑی تعداد میں کاشت ابھی سے شروع کر رکھی ہے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ غزوہ ہند ایک On going process ہے جو شاید پاک بھارت جنگ سے شروع ہو ، اور اس جنگ میں افغانی ، ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مومن بھی پاکستانیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ۔ پورے برِصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا مکمل غلبہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ اپنا رخ موڑے گی اور عرب علاقوں میں چلی جائے گی ، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور دجال سے جنگیں شروع ہوں گی ، ان فیصلہ کن جنگوں کو Armegadon کہا جاتا ہے ۔

ہمارا مکمل ایمان و یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر فرمان پورا ہوگا ، تاہم اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے کہ قیامت بے حد نزدیک ہے ، یہودی اس لمحے کی مکمل تیاری میں ہیں ۔ جہاں وہ اپنے دجال کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں ، انڈیا کو غزوۂ ہند کےلیے مستحکم کر رہے ہیں ، وہیں زور و شور سے گریٹر اسرائیل کا خواب بھی پورا کر رہے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہودی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام پیش گوئیوں کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں نہ کوئی قیادت ہمارے پاس ہے جو تمام امت کو ساتھ لے کر بصیرت افروز فیصلے کرے ۔ ایسی صورت میں کم از کم ذاتی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ غزوۂ ہند شروع ہونے پر ہم میں اتنی روحانی قوت ہو کہ غزوہ ہند کے مجاہدین میں شامل ہوسکیں ۔ اللہ ہمیں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی رہبری عطا کرے اور افضل الشہدا میں سے کرے ۔

ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا ۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا ۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے ۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: مَنْ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَاَنھُمْ رِجَالُ الْھِنْدِ ’’ یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں ۔ (سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 593)

ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا ۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: أھدى ملك الھند إلى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جرۃ فيھا زنجبيل فاطعم أصحابہ قطعۃ قطعۃ وأطعمني منھا قطعۃ ’’ ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا ، اس میں ادرک تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹)

ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے ۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ علیہ الرحمہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا ۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا ۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کےلیے آتے ہیں ۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے ۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ میں بھی اس کا تذکرہ ہے ۔ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۱۹۹)

ہند کے بارے میں حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أطيب ريح في الارض الھند ، یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے ۔ (المستدرک للحاکم رقم الحدیث : 3954)

سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں : میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔“(عرب و ہند کے تعلقات :ص:28)

ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس پر جاری ہوا ۔ اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ”سبحۃ المرجان في آثار ہندستان“ اور ”شمامۃ العنبر فيما ورد من الھند من سيد البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے ۔ مؤخر الذکر کتاب یقیناً اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہوگی ۔


احادیثِ مبارکہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کےلیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی ۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا ، شہید ہو گئے ۔ (فتوح البلدان جلد 3 صفحہ 531)

امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے ۔ (مشارع الاشواق صفحہ ۹۱۸ ۔ ۹۱۹)

حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے : ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۱ صفحہ 46)

اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی ۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا ۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا ۔ پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی ، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا ، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۴ صفحہ 655 تا 659،چشتی)

حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ ۔ (تاریخ الاسلام جلد ۶ صفحہ ۳۶)
ترجمہ : اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا ۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے ۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کےلیے آتے تھے ۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو ۔

سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا ۔ شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آئے اور عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا ۔ جس زمانے میں سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے ۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ” اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے ۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے ۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۴ صفحہ 91)

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وعدہ : ⏬

غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ ہند کا اس امت سے وعدہ کیا ہے ۔ ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے اسلام نے اپنی کتب میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو بیان کیا ہے اور اس امانت و بشارت کو ہر دور میں آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کیا ہے ۔ اہل ایمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے وعدے کو وفا کرتے ہیں، اس لیے غزوۂ ہند کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ۔ (مکمل احادیثِ مبارکہ اوپر گذر چکی ہیں)

غزوۂ ہند میں شرکت اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ : ⏬

مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غزوہ میں شریک ہونے کی تمنا کیا کرتے تھے ، جس کا اظہار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایمانی کلمات سے بخوبی ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھرپور طور پر اظہار کیا کہ اگر مجھے وہ دور نصیب ہوا جب غزوہ ہند ہوگا تو میں اپنی جان ، مال ، میراث اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا ۔

تقسیم ہند کے بعد مشرکین ہند نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور تا حال اہل پاکستان ان کے ساتھ ہمہ جہتی جنگ میں مصروف ہیں ۔ وہ مجاہدین جن کو اللہ نے مشرکین ہند کے ساتھ جہاد کی توفیق عطا فرمائی ہے ، ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کےلیے قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندربیدار رکھیں جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کیا ۔

غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے شہادت کی تمنا کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں جو لوگ شہادت کی عظیم نعمت سے ہمکنار ہوں گے وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء میں سے ہوں گے ۔ علامہ ابن قیم جوزی افضل الشہداء کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں : أفْضَلُ الشّھدَاءِ الّذِينَ إنْ يَلْقَوْا فِي الصّفّ لَا يَلْفِتُونَ وُجُوھَھُمْ حَتّى يَقْتُلُوا أولَئِكَ يَتَلَبّطُونَ فِي الْغُرَفِ الْعُلَى مِنْ الْجَنّۃ وَيَضْحَكُ الَيْھِمْ رَبّك وَإذَا ضَحِكَ رَبّكَ إلَى عَبْدٍ فِي الدّنْيَا فَلَا حِسَابَ عَلَيْہِ ۔ (زاد المعاد جلد ۳ صفحہ ۳۳)
ترجمہ : سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء وہ ہیں جب وہ صف میں (دشمن سے) آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ وہ قتال کرتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جو جنت کے بلند ترین کمروں میں اپنے پیر ماریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو (اپنی شان کے مطابق) مسکرا کر دیکھے گااور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی طرف دنیا میں مسکرا کر دیکھتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا ۔

غزوہ ہند میں شریک ہونے والوں کےلیے ایک بشارت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اگر کوئی شخص اس غزوہ میں شہادت حاصل نہ کر سکا اور غازی بن کو لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون فرمادے گا ۔

مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وعدے کو پورا فرمایا اور سندھ اور ہند کے دروازے اہل اسلام کےلیے وا فرما دیے ۔ یہ احادیثِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت اور اللہ کی جانب سے علم غیب کے عطا کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اس جنگ میں امام مہدی اور عیسیٰ علیہماالسلام کے ساتھ شریک ہونے کی تمنا کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے مسکراتے ہوئے اس بات کو بیان فرما دیا کہ ابوہریرہ اس میں شریک نہ ہو پائیں گے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی نیت کے موافق غزوہ ہند میں شرکت کا اجر عطا فرمائے گا ۔

حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں ۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق آپ کو یہودی نہ تو شہید کر سکے اور نہ ہی آپ کو مصلوب کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور قیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شریعت کے مطابق عدل فرمائیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث متواتر ہیں ۔ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں آپ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنے والے گروہ کےلیے جنت کی بشارت ہے ۔ یہ احادیث بھی آپ علیہ السلام کی آمد ثانی پر دلالت کرتی ہیں ۔

حضرت امام حماد بن نعیم علیہ الرحمۃ (متوفی : ۲۲۹ھ) روایت فرماتے ہیں : عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الھند فيفتحھا فيطئوا أرض الھند وياخذوا كنوزھا فيصيرہ ذلك الملك حليۃ لبيت المقدس ويقدم عليہ ذلك الجيش بملوك الھند مغللين ويفتح لہ ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامھم في الھند إلى خروج الدجال ۔ (الفتن : رقم الحدیث : ۱۱۴۹)
ترجمہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا ، وہ اسے فتح کریں گے ۔ پس وہ ہند کی زمین کو روندیں گے اور اس کا خزانہ حاصل کریں گے ۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کا زیور بنا دے گا اور لشکر اس بادشاہ کے پاس ہند کے بادشاہوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اس کے لیے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے، فتح کر دیا جائے گا۔ اور ان کا قیام دجال کے نکلنے تک ہند میں ہوگا ۔

عن أبي ھريرۃ رضى اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم و ذكر الھند فقال ليغزون الھند لكم جيش يفتح اللہ عليھم حتى ياتوا بملوكھم مغللين بالسلاسل يغفر اللہ ذنوبھم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہند کا ذکر کیا ، اور فرمایا : تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا ۔ اللہ عزوجل ان کو فتح عطا فرمائےگا ، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا، پھر وہ لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ ابن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی ، اللہ اس کو فتح عطا فرمائےگا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا ، پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے ۔ (الفتن : رقم الحدیث : ۱۱۵3)

بیت المقدس اس وقت یہود کے قبضے میں ہے ۔ مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس غزوہ ہند کی تکمیل سے پہلے آزاد ہو جائے گا اور وہاں سے ہی ہندوستان کی فتح کےلیے لشکر اسلام کو روانہ کیا جائے گا ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لشکر کو ہند فتح کرنے کےلیے ارسال فرمائیں گے اور وہ جب واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول ہو چکا ہوگا ۔ پس غزوہ ہند کی بشارت کو حاصل کرنے کےلیے اہل اسلام مشرکین ہند سے جہاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی ۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم دنیا کی افواج اور بالخصوص افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ہدایات کی بنیاد پر اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو ازسرنو مرتب کریں کیونکہ جب تک بیت المقدس فتح نہیں ہوگا ، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں برپا جنگ جاری رہے گی اور مشرکین کی طرف سے ہونے والے مظالم بھی بڑھتے ہی چلے جائیں گے ۔ فتح خیبر کی طرح یہودیوں کی شکست کے بعد ہی مشرکین کو مکمل شکست دینا ممکن ہوگا ۔

جس لشکر کو امام مہدی علیہ السلام ہند فتح کرنے کےلیے بھیجیں گے ، احادیث میں ان کےلیے نو عظیم بشارتیں ہیں : ⏬

۱ ۔ ہند مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے فتح ہو جائے گا اور وہ اس سرزمین کو اپنے قدموں تلے روندیں گے ۔
۲ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا ۔
۳ ۔ ان کو مال غنیمت وافر مقدار میں ملے گا جس سے وہ بیت المقدس کو مزین کریں گے ۔
۴ ۔ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر وہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کے سامنے پیش کرے گا ۔
۵ ۔ وہ لشکر جس قدر اللہ چاہےگا ہندوستان میں رہےگا اور پھر شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت حاصل کرے گا ۔
۶ ۔ اس لشکر کو دجال اور اس کے گروہ سے لڑنے کی فضیلت حاصل ہوگی ۔
۷ ۔ مشرق و مغرب کے مابین جو کچھ ہے ، وہ فتح ہوگا اور لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ پورا ہوگا ۔
۸ ۔ اس کے شہداء افضل ترین شہید ہوں گے اور اس کے غازیوں کو جہنم سے خلاصی کی بشارت ہے۔
۹ ۔ غزوہ ہند سے قبل بیت المقدس فتح ہو جائے گا ۔

اس عاجز نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے ۔ تقریباً بیس کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ۔ جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔ پس وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں ، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے ۔

کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے ؟ : ⏬

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا ۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کےلیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں ، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے ، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا ۔ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً ۔ (النہایۃ فی الفتن صفحہ ۱۲ ۔ ۱۳)
ترجمہ : اور مسلمانوں نے ہند پر سن ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کی امارت میں حملہ کیا ، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے ۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے ، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا ۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ۔

اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے ۔ (البدایۃ و النہایۃ جلد ۶ صفحہ ۲۴۹)
علامہ ابن کثیر کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فوراً بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے ۔

حضرت امام قرطبی علیہ الرحمہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : و خراب السند من الھند و خراب الھند من الصين ۔ (التذکرۃ صفحہ ۶۴۸)
ترجمہ : اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے ۔
اس روایت کو علامہ ابن کثیر النہایۃ فی الفتن و الملاحم صفحہ ۵۷ ۔ اور امام ابوعمرو دانی علیہ الرحمہ السنن الواردۃ فی الفتن جلد ۲ صفحہ ۳۶ نے بھی روایت کیا ہے ۔

اس حدیث مبارکہ کے درست معنی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ تاہم اگر ہم حالات حاضرہ پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ میں فتنہ و فساد ، قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کا سبب ہندوستان ہے ۔ بالخصوص سندھ کا وہ جغرافیہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں تھا ، وہاں کے حالات اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چین حسب سابق پاکستان کی معاونت کرے اور اللہ تعالیٰ چین کو پاکستان کی نصرت اور ہندوستان کی تباہی کا سبب بنا دے ۔ دفاعی اداروں کو اس حدیث کے پیشِ نظر سندھ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Sunday, 27 April 2025

کیا شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہے ؟

کیا شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہے ؟

محترم قارئینِ کرام : شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے پندرہویں پارہ سورہ اسراء کی آیت نمبر 60 میں الشجرہ الملعونہ سے مراد بلا اختلاف ائمہ مفسرین اور بالاتفاق شیعہ سنی بنو امیہ ہیں اس لیے بنو امیہ قرآن کے فرمان کے مطابق ملعون ہوئے اس لیے ان پر لعنت بھیجنا ضروری ہے ۔ مذکورہ آیت کریمہ کا معنیٰ و مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کی عمومی عادت ہے کہ لوگوں پر اپنی غلط بات کا تاثر قائم کرنے کےلیے شیعہ کتاب کے حوالے کو اہلسنت کے نام یا بلا اختلاف یا بالاتفاق شیعہ سنی کے الفاظ کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ سادہ لوح سنیوں کو اپنے شیعہ عقائد کی طرف بہکایا جا سکے ۔ مکمل آیتِ مبارکہ یہ ہے : وَ اِذْ قُلْنَا لَكَ اِنَّ رَبَّكَ اَحَاطَ بِالنَّاسِؕ ۔ وَ مَا جَعَلْنَا الرُّءْیَا الَّتِیْۤ اَرَیْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْاٰنِؕ ۔ وَ نُخَوِّفُهُمْۙ ۔ فَمَا یَزِیْدُهُمْ اِلَّا طُغْیَانًا كَبِیْرًا۠ ۔ (سورة الإسراء آيت نمبر 60)

ترجمہ : اور جب ہم نے تم سے فرمایا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں اور ہم نے نہ کیا وہ دکھاوا جو تمہیں دکھایا تھا مگر لوگوں کی آزمائش کو اور وہ پیڑ جس پر قرآن میں لعنت ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انہیں نہیں بڑھتی مگر بڑی سرکشی ۔


 زقوم کا درخت جو جہنم میں  پیدا ہوتا ہے ، اس کو سببِ آزمائش بنا دیا یہاں  تک کہ ابوجہل نے کہا کہ اے لوگو ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں  جہنم کی آگ سے ڈراتے ہیں کہ وہ پتھروں کو جلا دے گی ، پھر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس میں درخت اُگیں گے ۔ آگ میں درخت کہاں رہ سکتا ہے ؟ یہ اعتراض کفار نے کیا اور قدرتِ الٰہی سے غافل رہے اور یہ نہ سمجھے کہ اُس قادرِ مختار کی قدرت سے آگ میں درخت پیدا کرنا کچھ بعید نہیں ۔(تفسر خازن جلد ۳ صفحہ ۱۸۰،چشتی)(تفسیر روح البیان جلد ۵ صفحہ ۱۷۸)


اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسی طرح وہ درخت بھی جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ، یعنی وہ درخت بھی آزمائش ہے ، کیونکہ ابو جہل نے مسلمانوں سے کہا تمہارے پیغمبر کہتے ہیں دوزخ ایسی آگ ہے جو پتھروں کو بھی جلا دیتی ہے : وقودھا الناس والحجارۃ ۔ (ورہ التحریم آیت نمبر ٦) ، دوزخ کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ۔

اور پھر وہ کہتے ہیں کہ دوزخ میں ایک درخت ہے اور آگ تو درخت کو جلا دیتی ہے تو دوزخ میں درخت کیسے پیدا ہوگا جب ان کو تعجب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان جعلنھا فتنۃ للظالمین ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٣) بیشک ہم نے زقوم کو ظالموں کےلیے آزمائش بنادیا ہے ۔

قرآن مجید میں زقوم کے لیے فرمایا ہے بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٤) ، جس کے خوشے شیطانوں کے سروں کی طرح ہوتے ہیں ، دوزخی اس درخت سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹوں کو بھریں گے ۔ (سورہ الصافات آیت نمبر ٦٥، ٦٦ )


زقوم کا معنی ہے تھوہر کا درخت ، یہ لفظ تزقم سے بنا ہے اس کا معنی ہے بدبودار اور مکروہ چیز کا نگلنا ، اس درخت کے پھل کو کھانا دوزخیوں کےلیے سخت ناگوار ہوگا ، بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ کوئی دنیاوی درخت نہیں ہے اہل دنیا کےلیے یہ غیر معروف ہے لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔ (فتح القدیر جلد ٤ صفحہ ٥٢٦ مطبوعہ دار الوفاء بیروت ١٤١٨ ھ)


امام ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر دوزخ کے زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین والوں پر نازل کیا جائے تو ان کی زندگیاں خراب اور فاسد ہو جائیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٤١٣٣ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ،چشتی)


اس آیت میں فرمایا ہے اس درخت پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے حالانکہ قرآن میں اس پر لعنت کا ذکر نہیں ہے ، اس کے درج ذیل جوابات ہیں : ⏬


1 ۔ اس سے مراد ہے دوزخ میں اس درخت کو کھاتے وقت کفار اس پر لعنت کریں گے ۔

2 ۔ ہر وہ طعام جس کا ذائقہ مکروہ ہو اور وہ نقصان دہ ہو اس کو عرب ملعون کہتے ہیں اور سورة الدخان اور الصافات میں اس کا بد ذائقہ اور مکروہ ہونا بیان فرمایا ہے ۔


3 ۔ ملعون کا معنی ہے دور کیا ہوا اور قرآن مجید میں اس درخت کا اس طرح ذکر ہے کہ یہ تمام اچھی صفات سے دور کیا ہوا ہے ۔


4 ۔ ملعون کا معنی ہے مذمت کیا ہوا اور قرآن مجید میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔


5 ۔ ملعون سے مراد ہے اس کے کھانے والے ملعون ہیں ۔ (تفسیر زاد المسیر جلد ٥ صفحہ ٥٥،چشتی)(تفسیر کبیر جلد ٧ صفحہ ٢٦٢)


حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله: وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60 ، قال : هي رؤيا عين اريها النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ليلة اسري به إلى بيت المقدس، قال: والشجرة الملعونة في القرآن هي شجرة الزقوم "، قال: هذا حديث حسن صحيح ۔ (سنن ترمذی كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ حدیث نمبر 3134)

ترجمہ : حضرت‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ : وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس ” اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کےلیے “ (سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۶۰) ، کے بارے میں کہتے ہیں : اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا ، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ ملعونہ سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے ۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔


عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قَالَ:" وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ۔

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» ” اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے ۔ “ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا ، کہا کہ قرآن مجید میں «الشجرة الملعونة» سے مراد «زقوم‏» کا درخت ہے ۔ (صحيح بخاری كِتَاب الْقَدَرِ حدیث نمبر 6613،چشتی)


مذکورہ آیتِ مبارکہ کے معنی و مفہوم میں شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کا بار بار لفظ بالاتفاق استعمال کرنا سراسر غلط اور دروغ گوئی ہے تمام صحابہ کرام اور بالخصوص ماہرین قرآن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن مجید سیکھا ہے اور قرآن نے امت کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ہے انہوں نے اور تمام اہل سنت کے مفسرین نے مذکورہ آیت میں الشجرہ ملعونہ کا معنی شجرہ زقوم کیا ہے جیسا اوپر آپ نے پڑھا مزید تفسیر طبری تفسیر مدارک تفسیر جلالین تفسیر روح البیان تفسیر ابن کثیر ملاحظہ ہو اور اہل سنت کے تمام مفسرین نے اس لفظ سے بنو امیہ مراد لینے کی سختی سے تردید کی ہے اس لیے شیعہ اور اُن کے ہمنوا سنیوں کے لباس میں چھپے رافضی حضرات کا یہ کہنا ( لا اختلاف بین احد انہ ارادبھا بنی امیة )کہ اس بات میں کسی ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں ہے کہ آیت مذکورہ میں شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ ہیں بالکل غلط ہے ۔ نمونہ کے طور پر امام المفسرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن سیکھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی اور امت کو ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا ہے ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ اور یہ تفسیر اس مفسر کی ہے جس نے اپنی کتابوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام پر لعنت اللہ لکھا ہے ۔ (نعوذباللہ) ۔ قال ابن عباس رضی اللہ عنہ والشجرہ الملعونہ فی القران قال شجرة الزقوم ۔ (تفسیر طبری جلد 15) 

ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں (الشجرہ ملعونہ) سے مراد زقوم کا درخت ہے یہ درخت جہنم کی تہہ میں اگا اور دوزخیوں کی خوراک ہوگی درخت بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج میں دکھایا گیا تھا اور اسے کفار کےلیے آزمائش بنا دیا گیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آگ درخت کو جلا دیتی ہے تو پھر یہ درخت کیسے اگے گا ۔


دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ آیات جس سورۃ میں واقع ہے وہ سورت مکی ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا خاندان فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوا ہے اس اعتبار سے بھی شجرہ ملعونہ سے مراد بنو امیہ لینا غلط ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Wednesday, 23 April 2025

کیا حضرت ہند نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبایا تھا ؟

کیا حضرت ہند نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کلیجہ چبایا تھا ؟

محترم قارئینِ کرام : تاريخى كتابوں ميں منقول ہے كہ حضرت ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے حضرت امیر حمزه رضی اللہ عنہ كا كليجہ چاک كر ديا اور منہ ميں ڈال كر چبايا اور نگلنا چاہا ليكن نگل نہ سكى تو تهوک ديا ، اور كٹے ہوئے كانوں اور ناكوں كا پازيب اور ہار بنايا ۔ سچ یہ ہے کہ اس قصے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ روایت چند کتب احادیث تاریخ و تفاسیر میں وارد ہوئی ہے مگر اس کی سند منقطع ہے ۔ یعنی یہ روایت مرسل ضعیف ہے ۔ ابن كثير نے البدايہ والنہايہ ميں بغير سند كے نقل كيا ہے جو كہ ضعيف ہے ۔ ابن ہشام نے منقطع سند كے ساتھ نقل كيا ہے اور يہ بهى ضعيف ہے ۔ واقدى كى ایک روايت سخت ضعيف ہے ۔ دوسرے يہ كہ حقائق کے برعکس ہونے کے باعث اس کا متن منکر ہے ۔ سب سے پہلے ہم مذکورہ روایت کو دیکھتے ہیں : ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ابن اسحاق سے بھی نقل کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ھند نے عورتوں کے ساتھ مل کر مثلہ کیا ، جبکہ ابن کثیر والی روایت میں ‌ہے کہ وحشی نے کلیجہ نکال کر ہند کو دیا تھا ۔ جبکہ دونوں روایتیں ہی انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہیں ۔


امام احمد نے مذکورہ روایت کو بیان کیا ہے جس کی سند یہ ہے : حدثنا عفان، حدثنا حماد، حدثنا عطاء بن السائب، عن الشعبي، عن ابن مسعود، أن النساء كن يوم أحد خلف المسلمين ۔۔۔ الخ ۔ (مسند احمد برقم : 4414)


مذکورہ سند میں امام عطاء بن سائب سے بیان کرنے والا راوی امام حماد بن سلمہ ہے جیسا کہ اس روایت کو امام ابن ابی شیبہ نے بھی بیان کیا ہے جس میں مکمل نام کی تصریح موجود ہے : جیسا کہ امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں اپنی سند سے مذکورہ روایت بیان کرتے ہیں : عفان , قال: حدثنا حماد بن سلمة , قال: أخبرنا عطاء بن السائب , عن الشعبي , عن ابن مسعود , أن النساء , كن يوم أحد خلف المسلمين۔۔۔الخ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ برقم: 36783،چشتی)


مذکورہ روایت کا بنیادی راوی امام عطاء بن سائب ہے جنکو اختلاط ہو گیا تھا اور حافظہ متغیر ہو گیاتھا جس کی وجہ سے متقدمین ناقدین نے اس کے تلامذہ کی تخصیص کی ہے کہ عطاء سے ان کے قدیم تلامذہ کا سماع صحیح ہے اور عطاء کے متاخرین تلامذہ کا سماع ضعیف ہے ۔


وقال يحيى القطان : ما سمعت أحدا من الناس يقول في عطاء بن السائب شيئا في حديثه القديم، قيل ليحيى: ما حدث سفيان وشعبة أصحيح هو؟ قال: نعم إلا حديثين كان شعبة يقول: سمعتهما بأخرة ۔

ترجمہ : امام یحییٰ کہتے ہیں میں نے عطاء بن سائب کی احادیث ان لوگوں سے سماع کی ہےجن کا سماع (عطاء) سے قدیم ہے ۔ تو امام یحییٰ سے کہا گیا کہ سفیان اور شعبہ کا سماع ان سے صحیح ہے ؟ تو کہا ہاں سوائے شعبہ کی ان دو احادیث کے جو انہوں نے (عطاء) سے آخری دور میں سنی ۔ (تاریخ الکبری للبخاری رقم : 3000)(الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم)


 وقال عبد الله: سألته (يعني أباه) عن عطاء بن السائب. فقال: صالح، من سمع منه ـ يعني قديماً ـ وقد تغير، فإنه ليس بذاك ۔

ترجمہ : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں میں نےاپنے والد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا یہ صالح ہے جب ان سے سماع کرنے والے قدیم (تلامذہ) ہو۔ اور جنہوں نے (اس کے) تغیر میں (سماع) کیا ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے (یعنی ضعیف ہے) ۔ (العلل برقم : 882)


وقال أبو طالب: سألت أحمد، يعني ابن حنبل، عن عطاء بن السائب. قال: من سمع منه قديماً كان صحيحاً، ومن سمع منه حديثاً لم يكن بشيء، سمع منه قديماً شعبة، وسفيان ۔

ترجمہ : امام ابو طالب کہتے ہیں میں نے امام احمد سے سوال کیا عطاء بن سائب کے بارے تو انہوں نے کہا : جس نے اس سے قدیم (زمانے) میں سماع کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ اور جس نے (بعدمیں ) سماع کیا ہے وہ کوئی شی نہیں ہے ۔ اور اس سے قدیم سماع کرنے والوں میں امام شعبہ اور امام سفیان ثوری ہیں ۔ (الجرح والتعدیل رقم : 1848،چشتی)


وكان ثقة. وقد روى عنه المتقدمون. وقد كان تغير حفظه بآخره واختلط في آخر عمره ۔

ترجمہ : یہ ثقہ تھا جب اس سے روایت کرنے والے اس کے قدیم (تلامذہ) ہوں ۔ اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا آخر میں اور اس کی عمر کے آخر میں اسکو اختلاط واقع ہو گیا ۔ (الطبقات الكبرى بن سعد رقم : 2510)


كوفى تابعي جائز الحديث وقال مرة كان شيخا قديما ثقة روى عن بن أبي أوفى ومن سمع من عطاء قديما فهو صحيح الحديث منهم سفيان الثوري فأما من سمع منه بأخرة فهو مضطرب الحديث منهم هشيم وخالد بن عبد الله الواسطي إلا أن عطاء كان بأخرة يتلقن ۔

ترجمہ : یہ کوفی تابعی ہے اور جائز الحدیث ہے اور پھر کہا یہ ثقہ تھا قدیم (زمانے کے حوالے سے)۔ ا س نے ابن ابی اوف سے ۔ اور جو عطاء سے قدیم تلامذہ کا سماع ہے وہ صحیح ہے حدیث میں ان میں سفیان ثوری ہے ۔ اور جن کا سماع ان سے آخری زمانہ کا ہے اس میں یہ مضطرب الحدیث تھا متاخرین سماع میں ھشیم ، خالد بن عبداللہ ہیں اسکے علاوہ عطاء آخری عمر میں تلقین بھی (قبول)کرتے ۔ (الثقات للعجلی رقم : 1237،چشتی)


نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول كان عطاء بن السائب محله الصدق قديما قبل ان يختلط صالح مستقيم الحديث ثم بأخرة تغير حفظه في حديثه تخاليط كثيرة وقديم السماع من عطاء سفيان وشعبة، وحديث البصريين الذين يحدثون عنه تخاليط كثيرة لانه قدم عليهم في آخر عمره، وما روى عنه ابن فضيل ففيه غلط واضطراب ۔

ترجمہ : امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں میں نے اپنے والد کو کہتے سنا : عطاء بن سائب سچا تھا ۔ اور محفوظ حدیث والا تھا کہ پھر عمر کے آخری حصے میں اس کا حافظہ متغیر ہو گیا ۔ اور اس کی احادیث میں کثیر غلطیاں واقع ہوئیں ہیں ۔ جس نے قدیم سماع کیا عطا ء سے ان میں سفیان اور شعبہ ہیں ۔ اور جو بصرہ میں اس نے لوگوں کو احادیثث بیان کی وہ اختلاط کی حالت کثیر غلطیاں کی ۔ کیونکہ عمر کے آخری حصے میں یہ وہاں آئے تھے ۔ اور جو ابن فضیل ان سے روایت کرتا ہے اس میں بھی غلط احادیث ہیں اور اضطراب ہے ۔ (الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم رقم : 1848)


امام ابو حاتم کا یہ کلام قابل غور ہے کہ جب دوسری بار امام عطاء بصرہ گئے تو ان کا حافظہ بہت زیادہ خراب تھا اور کثیر غلطیاں کی بصرہ میں روایت کرنے میں ۔


امام یحییٰ بن معین کے بقول امام حماد بن سلمہ کا سماع بھی امام عطاء سے قبل از اختلاط ہے جیسا کہ امام الدوری روایت کرتے ہیں : سمعت يحيى يقول حديث سفيان وشعبة بن الحجاج وحماد بن سلمة عن عطاء بن السائب مستقيم ۔

ترجمہ : امام یحییٰ بن معین سے سنا وہ کہتے ہیں کہ جو حدیث سفیان شعبہ اور حماد بن سلمہ نے عطاء سے بیان کی ہیں وہ محفوظ ہیں ۔ (تاریخ یحییٰ بن معین بروایت الددوری رقم : 1465،چشتی)


بعض ضدی حضرات اگر یہ دعویٰ کریں کہ مذکورہ روایت بھی حماد بن سلمہ نے بیان کی ہے عطاء سے تو روایت صحیح ہوئی تو یہ دعویٰ ابھی بھی ناقص ہے کیونکہ امام حماد بن سلمہ کا سماع عطاء سے قبل از اختلاط بھی ہے اور بعد از اختلاط بھی ثابت ہے ۔ جیسا کہ امام مغلطائی الحنفی اکمال میں امام دارقطنی کی کتاب الجرح والتعدیل سے نقل کرتے ہیں : وفي كتاب ” الجرح والتعديل ” عن الدارقطني: دخل عطاء البصرة دخلتين فسماع أيوب، وحماد بن سلمة في الدخلة الأولى صحيح. والدخلة الثانية فيه اختلاط ۔

ترجمہ : اور کتاب الجرح والتعدیل میں امام دارقطنی سے روایت ہے : کہ عطاء بصرہ میں دو مرتبہ آئے تو ان سے ایوب، حماد بن سلمہ نے پہلی بار جو سماع کیا جو کہ صحیح ہے ۔ اور جب وہ دوسری بار آئے تو تب ان میں اختلاط تھا ۔ (اكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال رقم : 3715)


اس سے ثابت ہوا کہ عطاء سے حماد بن سلمہ نے بصرہ میں دو بار سماع کیا ہے پہلی بار میں انکا سماع جب تھا تب عطاء ٹھیک تھا لیکن جب دوسری بار حماد بن سلمہ اور ایوب نے بصرہ میں سماع کیا تب اختلاط شدہ تھا عطا اور بقول امام ابو حاتم بصرہ میں دوسری بار جب یہ گئے تو ان کی روایات میں کثیر غلطیاں تھیں ۔


اب حماد سے عطاء کی روایات میں تمیز نہیں ہو سکتی کہ کونسی روایات قبل اختلاط ہیں اور کونسی بعد از اختلاط ہیں جس کی وجہ سے یہ روایت ساقط الاعتبار ہے ۔


اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام دارقطنی کی بنام الجرح والتعدیل کتاب موجود نہیں ہے اور وہ امام مغلطائی اس کتاب کا حوالہ دینے میں منفرد ہیں ۔ تو یہ کوئی علمی اعتراض نہیں کیونکہ امام مغلطائی حنفی ایک ثقہ جید محدث ہیں اور محدث جب کتاب کے حوالے سے کوئی روایت مصنف کی نقل کرے تووہ حجت ہوتی ہے ۔ باقی اس کتاب کا حوالہ دینے میں امام مغلطائی الحنفی منفرد بھی نہیں بلکہ امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے جیسا کہ وہ اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال نقل کیے ہیں : ⏬


وقال الدارقطني في الجرح والتعديل: “ثقة ۔ (تہذیب التہذیب رقم : 199)


وقال الدارقطني في الجرح والتعديل ثقة ۔ (تہذیب التہذیب رقم : 15)


امام ابن حجر عسقلانی نے اس کتاب سے ۱۲ سے زیادہ جگہ پر فقط تہذیب میں اس کتاب کے حوالے سے امام دارقطنی کے اقوال لکھے ہیں اور اس کے علاوہ بھی اور محدثین نے نقل کیے ہیں اس کتاب سے امام دارقطنی کے اقوال تو فقط ایک مثال کافی ہے ۔ نیز یہ جرح نقل کرنے میں امام مغلطائی منفرد نہیں بلکہ امام سلمی نے بھی یہ جرح امام دارقطنی نے بیان کی ہے : و قال الشيخ: دخل عطاء بن السائب البصرة، وجلس؛ فسماع أيوب وحماد بن سلمة في الرحلة الأولى صحيح، والرحلة الثانية فيه اختلاط ۔

ترجمہ : شیخ (دارقطنی) نے کہا کہ عطاء بن سائب بصرہ میں مجلس قائم کی پھر ان سے ایوب اور حماد بن سلمہ نے پہلی مرتبہ سماع کیا جو کہ صحیح ہےاور دوسری بار جب کیا (سماع) تو ان (عطاء) میں اختلاط تھا ۔ (سؤالات السلمي للدارقطني رقم : 478،چشتی)


اور جب تک اس علت کو رفع نہ کیا جائے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت قبل اختلاط سنی یا بعد از اختلاط تو یہ علت قائم رہے گی جسکی وجہ سے روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور روایت ضعیف رہے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ : علمہ ابن کثیر نے اس روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے عطاء بن سائب کے سبب جیسا کہ وہ لکھتے ہیں : وهذا إسناد فيه ضعف أيضا من جهة عطاء بن السائب ، اور اس سند میں ضعف ہے عطاء بن سائب کے سبب ۔(البداية والنهاية جلد ۴ صفحہ ۴۶) ۔ اسی طرح امام ہیثمی کا بھی یہی موقف ہے وہ فرماتے ہیں : رواه أحمد، وفيه عطاء بن السائب؛ وقد اختلط ۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد رقم : 10072)


مزید یہ ہے حماد بن سلمہ کو بھی اختلاط ہو گیا تھا لیکن ان کی روایت بعدا ز اختلاط مطلق ضعیف تو نہیں ہوتیں لیکن ان کی روایات میں نکارت آگئی تھیں ۔ اور امام شعبی کا حضرت ابن مسعود سے سماع نہیں تھا لیکن یہ علت روایت کی صیحت کے منافی نہیں کیونکہ امام شعبی کی مرسیل حجت ہوتی ہیں ائمہ کے نزدیک ۔ اس لیے اصل علت اس روایت میں عطاء کا اختلاط اور حماد کا ان سے سماع کی تمیز نہیں قبل اور بعد اختلاط میں ۔


حقیقت یہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا کوئی کردار نہ تھا ۔ نیز اس ضمن میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے سیدہ ہند رضی الله عنہا کی کوئی بات یا معاملہ طے نہ ہوا تھا ۔ اور نہ ہی حضرت وحشی رضی اللہ عنہ حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے غلام تھے جیسا کہ دشمنانِ صحابہ نے دکھانے کی کوشش کی ہے ۔


حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر میں طعیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ طعیمہ بن عدی کے بھتیجے تھے ، جو کہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے ۔ اور حضرت وحشی رضی اللہ عنہ بھی ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ، جناب جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے غلام تھے ۔ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان ایمان لائے اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ میں فوت ہوئے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میرے چچا طعیمہ بن عدی کو قتل کیا ہے ، اگر تم میرے چچا کے بدلہ میں حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو ۔ یہی وجہ تھی جس نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ وہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیں ۔ اسی بات کو امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ”کتاب المغازی“ کے عنوان ”قتل حمزة بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ“ کے تحت بیان کیا ہے ۔


اب یہ بھی دیکھیں کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ جب بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا مشرف بہ اسلام ہونا قبول كرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنا چہرہ میرے سامنے نہ لایا کریں (الاصابة فی تمییزالصحابة) ۔ لیکن اس کے برعکس جب سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اسلام لاتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار بھی فرماتے ہیں اور اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ہند رضی اللہ عنہا کے مابین ہونے والی فصیحانہ و بلیغانہ گفتگو کا تذکرہ بھی کتب میں موجود ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہند رضی اللہ عنہا سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے حوالہ سے کوئی بات نہیں فرمائی ؟ جب کہ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا چہرہ چھپانے کےلیے فرمایا ۔ حالانکہ حضرت ہند بنت عتبہ کا جرم قتل سے بھی سنگین تر تھا ۔ شہید کی لاش کا مثلہ کرنا، کلیجہ نکال کر چبانا ۔ اگر ان سے یہ جرم سرزد ہوا جس پر روایتی طور پر بحث ہو چکی کہ ستر سال کے بعد ابن اسحاق نے صالح بن کیسان کے نام سے ایک منقطع روایت پیش کی تو اس مجرم سے بھی اظہار نفرت ہونا چاہیے تھا نا ؟ ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محبوب عمِ محترم کے مقدس جسد کا مثلہ کرنے والی کے گھر کو ”من دخل دار ابی سفیان فہو اٰمن“ دار ابی سفیان کو مثل حرم جائے پناہ قرار دیا گیا ۔ چہ معنی دارد ؟


مزید برآں فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مقدس پر بیعت کرنے کے بعد حضرت ہندہ کا عرض کرنا کہ : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج سے پہلے روئے زمین پر آپ سے زیادہ مجھے مبغوض کوئی نہ تھا اور آج آپ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ۔ یہ تو الفاظ تھے حضرت ہندہ کے ۔ جواب میں سيد الانبیاء علیہم السلام نے کیا فرمایا ِ؟ ”وایضاً والذی نفسی بیدہ“ اس ذات کی قسم جن کے ہاتھ میں میری جان ہے ، میرا بھی یہی حال ہے ۔ (یعنی حضرت ہند رضی اللہ عنہ کی عزت وحرمت محبوب ہے) عام محبت نہیں بلکہ ایسی شدید محبت کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم کھا کر اس کا ذکر فرمارہے ہیں ۔ یہ نہیں فرمایا : تو نے میرے محبوب چچا کا کلیجہ چبایا ہے ، میرے سامنے نہ آیا کر ۔ بس تیرا اسلام قبول ہے “ یہ نہیں فرمایا ، بلکہ قسم کھاکر محبت کا اظہار فرمایا ۔


فتح مکہ کے بعد بہت لوگ ایمان لائے مگر محبت و عقیدت سے بھر پور وہ الفاظ ”وایضا والذی نفسی بیدہ“ کسی اور ذکر وانثی کو نصیب نہ ہو سکے ۔ امام بخاری علیہ الرحمہ نے یہاں عنوان قائم کیا ہے : ”باب ذكر  ہند بنت عتبہ“ ۔ عن عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، قَالَ: «وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟ قَالَ: «لاَ أُرَاهُ إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ ۔ (صحيح بخارى كتاب مناقب الانصار باب ذكر هند بنت عتبہ،چشتی)

ترجمہ : عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا : ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” اس میں ابھی اور ترقی ہو گی۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے “ پھر ہند نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوسفیان بہت بخیل ہیں تو کیا اس میں کچھ حرج ہے اگر میں ان کے مال میں سے (ان کی اجازت کے بغیر) بال بچوں کو کھلا دیا اور پلا دیا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا ہاں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دستور کے مطابق ہونا چاہیے ۔


حضرت ہند رضی اللہ عنہ نے نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے اسلام پر بيعت كيا ۔ بيعت كے دوران ایک شرط پر سوال بهى كيا ۔ اس كے بعد نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنى محبت كا اظہار كيا ۔ اس كے بعد نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اپنى محبت كا اظہار كيا ۔ پهر حضت ہنده نے  نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتوى پوچها اور آپ نے اس كا جواب ديا ۔ گويا اسلام لانے كے بعد كہيں كسى طرح كى ناگوارى كا اظہار نہيں ہے بلكہ ایک دوسرے سے محبت كا اظہار ہے ، اور نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان كے گهر كو دار الامن قرار ديا ۔


حقيقت يہى ہے كہ حضرت سيدنا امیر حمزه رضی اللہ عنہ كى شہادت ميں حضرت ہند رضی اللہ عنہا كا كوئى ہاتھ نہيں ہے ، يہ صرف نسلِ ابن سباء كا من گھڑت قصہ ہے ۔ جو ہميشہ بنو اميہ كو بنو ہاشم كا دشمن بنا كر دكهانے كى كوشش كرتے رہے ہيں اور آج کل یہ کام ہمارے کچھ نادان دوست سنی کہلانے والے کر رہے ہیں ۔ تاكہ صحابہ رضی اللہ عنہم كى ساكھ كمزور ہو اور كتاب و سنت كى  بنياديں ہل جائيں ليكن كتاب و سنت كے  متوالے جب تک زنده ہيں دشمنانِ اسلام كے مذموم ارادوں كو پورا نہيں ہونے ديں گے ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 21 April 2025

عَفَا اللہُ عَنْہَا ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ۔ اشیاء میں اصل جواز ہے

عَفَا اللہُ عَنْہَا ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ۔ اشیاء میں اصل جواز ہے





یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسْـَٔلُوۡا عَنْ اَشْیَآءَ اِنۡ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَ اِنۡ تَسْـَٔلُوۡا عَنْہَا حِیۡنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ؕعَفَا اللہُ عَنْہَا ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ۔ ﴿سورہ مائدہ آیت نمبر 101﴾

ترجمہ : اے ایمان والوایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتر رہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرما چکا ہے اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے ۔


اس آیت ِ مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک روز سرورِکائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : جس کو جو دریافت کرنا ہو دریافت کرے ۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے کھڑے ہو کر دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ حذافہ ۔ پھر فرمایا ’’اور پوچھو ، تو حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے اُٹھ کر ایمان و رسالت کا اقرار کرکے معذرت پیش کی ۔ (بخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الظہر عند الزوال، ۱/۲۰۰، الحدیث: ۵۴۰)


امام ابنِ شہاب زہری  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی والدہ نے اُن سے شکایت کی اور کہا کہ ’’تو بہت نالائق بیٹا ہے ،تجھے کیا معلوم کہ زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کا کیا حال تھا؟ خدانخواستہ ،تیری ماں سے کوئی قصور ہوا ہوتا تو آج وہ کیسی رسوا ہوتی ۔ اس پرحضرت عبداللہ بن حذافہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ اگر  سرکارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کسی حبشی غلام کو میرا باپ بتادیتے تو میں یقین کے ساتھ مان لیتا ۔ (تفسیر بغوی، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۱، ۲/۵۷۔)


حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ’’ لوگ بطریقِ  اِستہزاء اس قسم کے سوا ل کیا کرتے تھے ، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ؟ کوئی پوچھتا کہ میری اونٹنی گم ہوگئی ہے، وہ کہاں ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب لا تسألوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم، ۳/۲۱۸، الحدیث: ۴۶۲۲)


مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خطبہ میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا۔ اس پر ایک شخص نے کہا، کیا ہر سال فرض ہے؟ نبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے سکوت فرمایا۔ سائل نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا کہ’’ جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا اور تم نہ کرسکتے ۔ (مسلم، کتاب الحج۔، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، ص ۶۹۸، الحدیث: ۴۱۲(۱۳۳۷)،چشتی)


حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کا علم غیب : ان روایات سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ غیب کا علم رکھتے ہیں کیونکہ کسی کا حقیقی باپ کون ہے ؟ اس کا تعلق غیب سے ہے ۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو کلی علم عطا فرمایا گیا ورنہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ یہ نہ فرماتے کہ جو چاہو پوچھو بلکہ فرماتے کہ فلاں فلاں شعبے کے متعلق پوچھ لو یا فرماتے کہ صرف شریعت کے متعلق جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ سرورِعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا بغیر کسی قید کے فرمانا کہ جوپوچھنا ہے پوچھو اور پوچھنے والوں کا بھی ہر طرح کی بات پوچھ لینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  سب کچھ جانتے ہیں اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم یہی عقیدہ رکھتے تھے ۔


حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اختیارات : آخری روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اختیار دیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ جس چیز کو فرض فرمادیں وہ فرض ہوجائے ۔


نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت پر شفقت : آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اپنی امت پر نہایت شفیق ہیں۔ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اگر ایک مرتبہ ہاں فرمادیتے تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا لیکن تاجدارِ رسالتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے امت پر آسانی فرمائی اور ہاں نہیں فرمایا ۔


نوٹ : سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علمِ غیب کے متعلق فتاویٰ رضویہ کی 29ویں جلد میں موجود امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ان کتابوں کا مطالعہ نہایت مفید ہے : ⏬ (1) خَالِصُ الْاِعْتِقَادْ(علم غیب سے متعلق 120دلائل پر مشتمل ایک عظیم کتاب) (2) اَنْبَاءُ الْمُصْطَفٰی بِحَالِ سِرٍّ وَاَخْفٰی (حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کومَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ کاعلم دیئے جانے کا ثبوت) (3) اِزَاحَۃُ الْعَیْبِ بِسَیْفِ الْغَیْبِ (علم غیب کے مسئلے سے متعلق دلائل اوربدمذہبوں کا رد) ۔ اور سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے کائنات اور شریعت دونوں کے متعلق اختیارات جاننے کےلیے فتاوی رضویہ کی 30ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عظیم تصنیف اَلْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَاء (مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والاکہنے والوں کے لئے انعامات) کا مطالعہ فرمائیں ۔


حلت و حرمت کا اہم اصول : ⏬


اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جس امر کی شریعت میں ممانعت نہ آئی ہو وہ مباح و جائز ہے ۔ حضرت سلمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی حدیث میں ہے ، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ’’ حلال وہ ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی کتاب میں حلال فرمایا اورحرام وہ ہے جس کو اُس نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جس سے سکوت کیا تووہ معاف ہے ۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفرائ، ۳/۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲)


الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے : ⏬


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے ۔


اسلام آسان دین ہے ، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوںکی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔


حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ ۔

ترجمہ : سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۔ (ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی لبس الفرائ، ۳/۲۸۰، الحدیث: ۱۷۳۲،چشتی)


 یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے ، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ۔ هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی ۔ حدیث پاک میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔


مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن : ⏬


ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی ۔ ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون ۔ (سورہ الحدید)

ترجمہ ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنے رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انہیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انہوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے ۔


اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے ۔


جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں ۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا۔

تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔


مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا ۔


ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔


نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة. ترجمہ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے ۔

ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية ۔ سيوطي، الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔ ابن عابدين شامي، رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر ۔

ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.

ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة

الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع.،چشتی)

ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔

ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95 ۔ عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية ۔ ابن حزم، المحلی، 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده

الأصل في الأشياء الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘

زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه

مبارک پوری، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔

الأصل في الأعيان الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘

زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية

الحل هو الأصل في الأشياء.

’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘

ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر ، ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167 ۔

 أصل الأفعال الإباحة.

’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے۔‘‘

إبن قيم، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل

الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر

’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘

ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205 ۔

الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع.

’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے۔

رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

حلال و حرام :جس چیز کو اللہ نے حرام کیا وہ حرام ہے اور جس سے سکوت فرمایا اس میں گنجائش اور توسیع رہی اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے۔(تفسر عثمانی جلد اوّل صفحہ نمبر 577 علاّمہ شبیر احمد عثمانی دیوبندی)

نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی۔

اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے۔

لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے۔

شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام 

کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔

مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔( ہدیتہ المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی )

او رنواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔( ھدیتہ المھدی )

مشھو رنجدی عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ ) اسی طرح شیخ عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی،چشتی)

مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھاہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے ا س نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں ۔’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘

( مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند) یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اورسنت کے موافق نہ ہوں ۔اگر آج کل کا وہابی ہربدعت کو گمراہی کہے تووہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتاہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ او ران کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے او ران کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا۔ان میں رکوع قائم کرنا ،اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ،اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ،گاڑیوں او رموٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتاتھا ۔پھریہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہوسکتاہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے او ردنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیاجائے تو ا سپربھی ثوا ب ملتاہے جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں ص 167پر حدیث پاک میں آتاہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتاہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کےلیے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے زمانے میں ان سے کوئی کام نہ ہواتھا ۔ پس معلوم ہو اکہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطاء فرمائے آمین  ۔


اباحت اصلی جاننے کا اصولی قاعدہ اور اس پر کتاب و سنت سے دلائل : ⏬

محترم قارئینِ کرام : کسی کام کی حلت وحرمت (حلال وحرام) جاننے کا اصولی ضابطہ یہ ہے کہ ہم ہر اس کام کوجو عہد رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہ تھا اور بعد میں کسی ضرورت کے تحت وجود میں آیا ، قرآن وسنت پر پیش کریں گے اگر قرآن وسنت کا اس کے ساتھ کسی اعتبار سے بھی تعارض ثابت ہو جائے تو وہ بلا شبہ ناجائز و حرام اور گمراہی تصور ہوگا ، لیکن اگر اس کا قرآن وسنت کے کسی بھی حکم کے ساتھ کوئی تضاد یا تعارض واقع نہ ہو تو اسے گمراہی یا حرام تصور کرنا حکمت دین کے منافی اور اسلام کے متعین کردہ نظامِ حلال و حرام سے انحراف بر تنے اور حد سے تجاوز کر نے کے مترادف ہوگا چھوٹے چھوٹے فروعی اور اختلافی معاملات پر بد عت و شرک کے فتوے صادر کرنے اور اپنی طرف سے بغیر کسی شرعی دلیل کے چیز وں کو حلال و حرام کہنے والے لوگوں کی مذمت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِ بَ ھَذَا حَلَالٌ وَّ ھَذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ۔اِنَّ الَّٰذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَایُفْلِحُو نَ ۔ (سورہ النحل، آیت نمبر ۱۱۶ پارہ نمبر ۱۴)
ترجمہ : اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھو ، بے شک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا ۔

وَلَا تَقُوْ لُوْا لِمَا تَصِفُ : اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو از خود بغیر کسی شرعی دلیل کے کوئی بدعت ایجاد کرے یا محض اپنی رائے اور خواہش کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز وں کوحلال اور اللہ تعالیٰ کی مباح کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرا ئے ۔ (تفسیر ابن کثیر متر جم جلد ۲ صفحہ ۱۰۲۷،چشتی)

زمانہ جا ہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال بعض چیزوں کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر دیا کرتے تھے اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللہ پر افتراء فرمایاگیا ، آج کل بھی جوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتا دیتے ہیں جیسے میلاد شریف کی شرینی فاتحہ گیارھویں عرس وغیرہ ایصالِ ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی انھیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہئے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعاً حرام ہیں اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنا ہے ۔ (تفسیر خزائن العرفان صفحہ ۴۰۶)

اس قاعدے (الاصل فی الا شیا ء الاباجۃ) کو سمجھا نے کے لئے دو مثالیں ذکر کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوجائے گا کہ اشیاء (چیزوں ) کا اصل مباح (جائز ہونا ہے نہ کہ حرام ۔
مثال نمبر 1 : اگر کوئی شخص یہ دعوی کرے کہ فلاں میرامقروض ہے تو اب دعویٰ کرنے والا خودہی گواہی پیش کرے گا اور ثابت کرے گا کہ فلاں میرا مقروض ہے مقروض سے یہ تقاضا نہیں کیا جا ئیگا کہ وہ اپنے مقروض نہ ہونے کا ثبوت پیش کرے ۔ کیونکہ اس طرح کا دعوی خلاف اصل ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے ۔
اَنَّ النَّبِیَّ صَلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ فِیْ خُطْبَتِہٖ اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّ عِیْ وَالْیَمِیْنُ عَلَی الْمُدَّ عیٰ عَلَیْہِ ۔(ترمذی جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۶۷۴ حدیث نمبر ۱۳۵۲ الواب الاحکام)
ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا،گواہ مدعی کے ذمہ میں ہے اور قسم مدعیٰ علیہ پر ہے ۔

مثال نمبر 2 : اگر آپ نے کوئی نیک عمل کیا ۔کسی دوسرے شخص نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ فاتحہ کر نا ۔ میلاد شریف منانا ۔ انگوٹھے چومنا ۔ مزارات کی حاضری ۔ اور ایصالِ ثواب وغیرہ یہ سب اعمال حرام ہیں ۔ تواب آپ کو ان اعمال کے حلال وحرام ہونے کے دلائل تلاش کرنے کی ضرور ت نہیں بلکہ آپ اس اعتراض کرنے والے سے کہیں کہ حدیث پاک اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّ عِیْ کے تحت وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اس عمل کے حرام اور ناجائز ہونے پر گواہی لائے ، کیونکہ اصلاً کوئی چیز حرام نہیں بلکہ مباح (جائز) ہوتی ہے جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حرام قرار نہ دیں ۔
مزید یہ کہ متعد د آیات واحادیث مثلاً : ’’وَاُحِلَّ لَکُمْ مَا وَرَا ءَ ذَالِکُمْ‘‘ ۔ (النساء آیت ۲۴) ۔ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّ مَ عَلَیْکُمْ (الانعام آیت ۱۱۹) ۔ ’’وَمَاسَکَتَ عَنَہُ فَھُوَ مِمَّا عَفَاعَنَہُ‘‘ ۔ (ترمذی جلد نمبر ۱ حدیث نمبر ۱۷۸۱) ، کی واضح طور پر تائید ہوتی ہے ، مذکورہ شخص نے چونکہ اس چیز کے ناجائز وحرام ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ دعویٰ خلاف اصل ہے ، لہٰذا اسے دلیل لانا پڑے گی کہ یہ چیز حرام کس بنیاد پر ہے ، ؟ اگر وہ کہے کہ اس کا کہیں قرآن وحدیث میں ذکر نہیں تو اس جوا ب یہ ہے کہ جس عمل کا کتاب وسنت میں ذکر نہ ہو وہ حلال اور مباح ہوتا ہے ، یعنی اعمال کی حلت وحرمت کے بارے میں کتاب وسنت خاموش ہوں وہ حلال اور مباح ہوتے ہیں ۔

الأصل في الأشياء الإباحة ۔ اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے : ⏬

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیوی لحاظ سے زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اسلام نے رہنمائی نہ کی ہو اشیاء کی تحلیل و تحریم (حلال و حرام قرار دینا) کے حوالے سے اسلام نے جو اصول تشریع مقرر کئے ہیں ان میں پہلا اصول یہ مقرر کیا ہے کہ اللہ تعالی کی پیداکردہ تمام چیزیں مباح ہیں۔ حرام اور واجب صرف وہ چیزیں ہیں جن کی حرمت یا وجوب کے بارے میں صحیح اور صریح نص وارد ہو چکی ہو، اگر کسی شئے کی حرمت و وجوب کے حوالے سے صحیح اور صریح نص نہ پائی جاتی ہو تو وہ چیز مباح تصور کی جائے گی۔ یہ اصول صرف اسلام کے نظام قانون کا ہی اصول نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام نظام قانون کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اشیاء و افعال اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور جائز ہیں، پھر ان اشیاء میں سے جو لازمی طورپر مطلوب یا ممنوع ہوتی ہیںخود ان کویا ان کی علت کو نصوص میں بیان کر دیا جاتا ہے ان کے علاوہ باقی اشیاء کو مباح کے طورپر مطلق چھوڑدیا جاتا ہے ۔ایسی مباح اشیاء کے کرنے یا نہ کرنے بارے میں لوگوں کو آزادی اوراختیار ہوتا ہے،اور ان کے کرنے یا نہ کرنے پر قانونی لحاظ سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوانین کی تشکیل میںکہیں بھی مباح امور کا احاطہ نہیں کیا جاتا بلکہ صرف لازمی وحرام امور کا احاطہ کیاجاتا ہے ۔

اسلام آسان دین ہے ، قدم قدم پربنی نوع انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کرتا ہے اس کے قانون سازی کے اصولوں میں قلت تکلیف ایک بنیادی اصول ہے یہی وجہ ہے اس میں محرمات و واجبات کا دائرہ مباح اور جائز امور کے مقابلے میں تنگ اور محدود ہے، کیونکہ محرمات اور واجبات وہ امور ہوتے ہیں جن کا انسان لازمی طور پر پابند ہوتا ہے ۔فطری طور پر انسان چونکہ آزاد منش پیدا ہوا ہے ،زیادہ پابندیوں سے کتراتا ہے اور آسانیوںکی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، اس لئے اسلام نے واجبات و ممنوعات کے احکام کا غیر ضروری بوجھ انسان پر نہیں ڈالا بلکہ چند محدود اشیاء و امور جن کا کرنا یا نہ کرنا انسان کی دینی و دنیوی فلاح کے لئے نہایت ضروری تھا کا پابند ٹھہرایا اور باقی اشیاء کو انسانی اختیار پر چھوڑتے ہوئے مباح قرار دے دیا ہے ۔ یعنی اسلام کے مطابق زمین و آسمان کی تمام اشیاء بنی نوع انسان کے انتفاع کے لئے تخلیق کی گئی ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام اشیاء مباح الاصل ہوں سوائے ان اشیاء کے جن کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس تصور کو نظریہ اباحت اصلیہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

جامع ترمذی کی ’کتاب اللباس‘ میں ’باب ما جاء في لبس الفراء‘‏ کے تحت درج ہے، جس کا عربی متن یوں ہے ‫: حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري حدثنا سيف بن هارون البرجمي عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه ۔
ترجمہ ‫: پوچھا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمن(مکھن) اور جبن (پنیر) اور الفراء (فر کے لباس) کے بارے میں تو فرمایا: حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس چیز سے خاموشی ہے تو اس میں درگزر ہے ۔
مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا ذکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہٰذا محض ترک ذکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔

مباح بدعت کی قبولیت اور قرآن : ⏬

ہماری اس بات کی تائید خود قرآن پاک کی اس آیت سےہوتی ہے۔۔۔ارشاد باری ہی۔
ثم قفینا علی اثارھم برسلنا وقفینا بعیسی بن مریم واتینہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ ورھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبنھا علیھم الابتغا رضوان اللہ فما رعوھا حق رعیا یتھا فاتینا الذین اٰمنو منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔الحدید ۔
ترجمہ ۔ پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاںمگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے ۔
اس آیت کےالفاظ اور معنٰی پر غور کرنےسےہماری بات کی تائید ہوتی ہےکہ کوئی ایساکام کہ جس کےکرنےکانہ تو اللہ پاک نےحکم دیا ہو اور نہ اس کےرسول نےاور لوگ محض حصول ِرضائےالہٰی کےلیےاس عمل کو اختیارکرلیں تو انھیں اس عمل پر ثواب بھی ملتا ہےدیکھیےآیت کےالفاظ میں ابتدعوھابدعت سےمشتق ہی۔یہ الفاظ بتارہےہیں کہ شریعت عیسوی میں اصلا رہبانیت مشروع نہ تھی بلکہ امت عیسوی نےخود بطور بدعت اس کو اختیار کر لیا تھا۔دیکھیےماکتبنٰھا کےالفاظ کیسےواشگاف انداز میں یہ اعلان کررہےہیں کہ اس بدعت یعنی رہبانیت کا کوئی حکم اللہ پاک نہیں دیا تھا اور نہ ہی اس کےرسول نےکوئی ایسا کام کرنےکا کہا تھا۔اس لیےاللہ پاک نےامت عیسوی سےرہبانیت کی فرضیت کی نفی تو اس آیت میں کی ہےلیکن اس کی مشروعیت کی نفی نہیں کی یعنی اس کو حرام و ناجائز نہیں ٹھرایا۔یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت عیسوی میں رہبانیت کا جو تصور تھا اس کا کوئی حکم اللہ یا اسکےرسول نےنہیں دیا تھاہاں مگر امت عیسوی نےاسےبطور خودرضائےالہٰی کےحصول کی خاطر اپنالیا تھا۔ جس پر اللہ پاک نےاُن کےاس عمل کو سند قبولیت سےنوازااور یوں رہبانیت مشروع ہوکر شریعت عیسوی کا حصہ بنی۔ ہماری اس بات کی تائید ایک حدیث مبارکہ پر غور کرنےسےبھی ہوتی ہےکہ جس میں نبی کریم نےفرمایا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں۔یہ اس لیے فرمایا کہ پہلی شریعت میں رہبانیت تھی اب سوچنےکی بات یہ ہے کہ اگر پہلی شریعت میں رہبانیت تھی تو کہاں سےآئی کیا اللہ پاک نےحکم دیا تھا مگر اللہ پاک تو فرما رہےہیں کہ ماکتبنھا علیھم یعنی کےہم نےان پر فرض نہ کی۔ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہر وہ حکم جو منزل من اللہ یا مقرر من الرسول نہ ہو لیکن اللہ اور اس کےرسول نےکسی ایسےعمل سےروکا بھی نہ ہو اسےاگر نیک نیتی سے مستحسن انداز میں داخل شریعت کرلیا جائے بشرطیکہ وہ عمل بذات خود صحیح ہو اور کسی بھی شرعی امر کےخلاف نہ ہو تو ایسےعمل کو نہ صرف شرف قبولیت عطا ہوتا ہےبلکہ اس پر اجر وثواب کا بھی وعدہ خداوندی ہے ۔ جیسا کہ رھبانیت امت عیسوی میں ۔ اگر آپ الابتغاءرضوان اللہ کے الفاظ پر غور کریں تو یہی بات سمجھ میں آئےگی کہ عیٰسی علیہ السلام کےپیرو کاروں نےوہ عمل یعنی رھبانیت حصول رضائےالہٰی کےلیےہی ایجاد کی تھی اسی لیےاللہ پاک نےاس امر کو مستحسن قرارد ےکر کر قبول کرلیا پس ثابت ہوا کہ کوئی عمل فی نفسہ اگر بدعت بھی ہو تو وہ تب بھی رضائے الٰہی کےحصول کا زریعہ بن سکتا ہے۔ اب اگر آپ اسی آیت کےاگلےالفاظ پر غور کریں جوکہ یہ ہیں کہ ۔ فما رعوھا حق رعایتھا یعنی انھوں نےاس عمل یعنی رھبانیت کا اس طرح حق ادا نہیں کیا جیسا کےاسکا تقاضہ تھا ۔
تو آپ کو یہ بات بھی بڑی واضح طور پر سمجھ میں آجائےگی کہ اگر امت کسی مستحسن عمل کو اپنا لیتی ہےمگر پھر اس کو ادا کرنےکوتاہی سےکام لیتی ہےتو پھر اللہ پاک ناراض بھی ہوتے ہیں اس اس آیت کےان الفاظ نے رھبانیت کی بدعت کی فی نفسہ مذمت نہیں کی بلکہ اس بدعت کو ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنےکی مذمت کی۔۔۔۔اس سے آگےکہ الفاظ واشگاف اعلان کررہےہیں کہ جن لوگوں نےا س یعنی بدعت رھبانیت کےتقاضےکو پورا کیا اللہ پاک نےنہ صرف انھیں شرف قبولیت بخشا بلکہ اجر بھی عطا فرمایا دیکھیے ۔ فاتینا الذین امنو منھم اجرھم میں منھم کےالفاظ بتا رہےہیں کہ انھی میں سےجن لوگوں نےاس بدعت رھبانیت کےجملہ تقاضوں کو ٹھیک ٹھیک نبھایا اللہ پاک نے انہیں اجر بھی عطا کیا ۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں تصور بدعت کےمتعلق دو امور بڑے نمایاں ہوکر سامنے آتےہیں ۔ ایک یہ کہ اگر رضائے الہٰی کی خاطر کوئی نیا کام جسےعرف عام میں بدعت کہا جائےاور جو فی نفسہ خلاف شریعت نہ ہو تو اسلام اسے قبول کرتا ہےبلکہ امر مستحسن کےطور پر اس پر اجر وثواب کا بھی عندیہ دیتا ہےاور ایسےامور شریعت میں مشروع ہوتے ہیں اور انھیں مطلقا ناجائز اور حرام و بدعت سیہ قرار دیا زیادتی کے مترادف ہے۔ دوسری بات جو اس آیت کی روشنی میں ہمیں سمجھ میں آتی ہےوہ یہ کہ جس مقصد کے لیے وہ بدعت حسنہ وضع کی گئی ہو اس سے وہ مقصد بجا طور پر پورا ہونا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ بدعت حسنہ کا سہارا لیکر کسی کام کو روا تو رکھ لیا جائےمگر اسکی اصل روح مقصدیت اور افادیت کو نظر انداز کردیا جائےاور اسےمحض رسمیت کےطور پر روا رکھا جائےجیسا کہ بے عملی کی وجہ سے اکثر ہوتا ہے تو یہ اقدام نافرمانی کہلائےگا۔
ان دونوں آیات سےہمارے بیان کردہ قرآنی اصول کی بڑی وضاحت کےساتھ تصریح ہوتی ہےکہ جس چیز کو قرآن نےحرام کیا اس کی فہرست یعنی تفصیل کردی اور اس کےسوا چونکہ باقی چیزوں کی فہرست نہیں اس لیے وہ سب مباح یعنی جائز قرار پائیں گی، پس ثابت ہوا کہ ترک ذکر حرمت کی نہیں بلکہ اباحت کی دلیل ہے۔ اور اسی اصول کی وجہ سےکسی بھی چیز کو حرام ٹھرانے والے کے لیے ضروری ہےکہ وہ اسکی دلیل لائے اور اسی لیے فقہا نےلکھا کہ دلیل ہمیشہ حرمت کی طلب کی جائےگی کیونکہ اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔
نظریہ اباحت اصلیہ کو اصول فقہ اور قواعدفقہ کی کتابوں میں درج ذیل الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے : الأصل في الأشياء الإباحة. ترجمہ:اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے ۔ ابن عبد البر، التمهيد، 4: 67، 143، مغرب (مراکش،چشتی)، وزات عموم الاوقاف والشوون الإسلامية ۔ سيوطي، الأشباه و النظائر: 60، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔ ابن عابدين شامي، رد المحتار، 1: 105، بيروت: دار الفکر ۔
ان الاصل في الاشياء الإباحة وان الحرمة بالنهي عنها شرعا.
ترجمۃ : اشیاء میں اصل جواز (جائز ہونا) ہے اور حرمت (ممانعت) صرف شرعی دلیل سے ہوگی ۔ سرخسي، المبسوط، 24: 77، بيروت: دار المعرفة
الأشياء علی الإباحة حتی يرد الشرع بالمنع.
ترجمہ : چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک شرعی ممانعت نہ ہو۔
ابن عبدالبر، التمهيد، 17: 95 ۔ عسقلاني، فتح الباري، 13: 263، لاهور، پاکستان،دار نشر الکتب الاسلامية ۔ ابن حزم، المحلی، 1: 177، بيروت، لبنان: دار الآفاق الجديده
الأصل في الأشياء الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشی، المنثور فی القواعد، 1: 306، کويت: وزارة الاوقاف والشون الاسلاميه
مبارک پوری، تحفة الاحوذی في شرح جامع الترمذي، 4: 331، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية ۔
الأصل في الأعيان الحل . ’’اشیاء میں اصل جواز ہے۔‘‘
زرکشي، البحر المحيط في اصول الفقه، 4: 325، بيروت، لبنان: دار الکتب العلمية
الحل هو الأصل في الأشياء.
’’اشیاء میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن همام، شرح فتح القدير، 7: 3، بيروت، لبنان: دار الفکر ، ابن عابدين، ردالمحتار، 4: 167 ۔
أصل الأفعال الإباحة.
’’اصلی اصول ہر کام میں جواز ہے۔‘‘
إبن قيم، اعلام الموقعين عن رب العالمين، 2: 387، بيروت، لبنان: دار الجيل
الأمور أصلها الإباحة حتی يثبت الحظر
’’جب تک ممانعت شرعی ثابت نہ ہو، تمام امور میں جواز ہی اصل ہے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 9: 205 ۔
الأصل في المنافع الإذن و في المضار المنع.
’’مفید چیزوں میں اصل اجازت ہے اور نقصان دہ چیزوں میں اصل ممانعت ہے۔
(رازي، المحصول في علم الأصول، 6: 131، رياض، سعودی عرب: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية،چشتی)
نظریہ اباحت کی مذکورہ بالا تمام تعبیرات کے الفاظ اور ان کی ترتیب میں اگرچہ تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے، مگر سب کا مقصود ایک ہی ہے کہ جب تک کسی شے کی حرمت کسی دلیل شرعی سے ثابت نہ ہو تو وہ حلال متصور ہوگی۔
اگر ہم روز مرہ زندگی میں بھی دیکھیں تو یہی قاعدہ قابل عمل ہے ورنہ تو انسان کے لئے زندگی کا ہر ہر قدم مشکل بن کر رہ جائے۔ مثلاً ہم گھر سے نکلیں تو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر یہ لکھا ہوا تلاش کرنا شروع کر دیں کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ ہاں کہیں کہیں یہ لکھا ہوا ضرور مل جائے گا کہ یہ راستہ فلاں مقام کی طرف جا رہا ہے یا پھریہ الفاظ اور علامات ملیں گی کہ یہ شارع عام نہیں ہے، No entry، یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے، بغیر اجازت اندر آنا منع ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر گیٹ یا کسی بھی رکاوٹ سے راستہ بند کر دیا جاتا ہے۔ یعنی ہر اس راستے سے گزرنے کی اجازت ہوتی ہے جہاں ممانعت کا کوئی نشان نہ پایا جائے ۔ لہٰذا شریعت میں بھی کسی کام کے نہ کرنے کے لئے ممانعت کی دلیل ہونا ضروری ہے ۔

شریعت اسلام اور تصور حلال و حرام : ⏬

کسی عمل کو محض بدعت کہہ دینےسے وہ حرام نہیں ہوجاتا کیونکہ لغوی اعتبار سے کسی عمل کا بدعت ہونا فقط اتنا ثابت کرئے گا کہ اس پر قرآن و حدیث اور عمل صحابہ سےکوئی سند نہیں ہے لہذا ایسا ہر عمل اباحت کے دائرےمیں آجائےگا پس ثابت ہوا کہ کسی عمل کا محض نیا ہونا حرمت کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ کسی بھی نئےعمل کی حلت و حرمت کو جاننے کےلیےاسےدلیل شرعی کی طرف لوٹایا جائےگا اگر وہ عمل موافق شرع ہو تو بدعت حسنہ اور اگر خلاف شرع ہوتو بدعت سئیہ نبی کریم ور صحابہ کا کسی کام کو نہ کرنا اس کی حرمت کی دلیل نہیں ہوتا۔
مشہور غیر مقلد عالم وحید الزمان بدعت کی اقسام کے بارے میں لکھتاہے ’’اما البدعۃ اللغویہ فھی تنقسم الی مباحۃ ومکروھۃ وحسنۃ وسئیۃ ‘‘ بہر حال باعتبار لغت کے بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں بدعت مباح ،بدعت مکروہ ،بدعت حسنہ او ربدعت سیۂ ۔( ہدیتہ المہدی 117مطبوعہ میور پریس دہلی،چشتی)
او رنواب صدیق حسن بھوپال جو غیرمقلد ین کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہوجائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے ۔ ( ھدیتہ المھدی )
مشھو رنجدی عالم قاضی شوکانی فتح الباری سے نقل کر کے اقسام بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ لغت میں بدعت اس کا م کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو او راصطلاح شرح میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتاہے اس لئے یہ مذموم ہے او رتحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تویہ بدعت سیۂ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے او ربلاشبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں ۔( نیل الاوطار325/3مکتبۃ الکلیات الازہریۃ ) اسی طرح شیخ عثمانی دیوبندی نے بھی علامہ نووی کے حوالہ سے بدعت کہ یہ پانچ اقسام ذکر کیں ہیں ۔ ( فتح الملھم 406/2 مطبوعہ مکتبۃ المجار کراچی،چشتی)
مخالفین کی ان عبارتوں سے معلوم ہے کہ ان کے نزدیک بھی ہر بدعت گمراہی نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن منظور افریقی نے علامہ ابن اثیر کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے ا س نئے کام سے مراد وہ کام ہے جو خلاف شریعت ہو لکھتے ہیں ۔’’ و علی ھذالتاویل یحمل الحدیث الاٰخر کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ما خالف اصول الشریعہ ولم یوافق السنۃ‘‘ ۔ (مجمع بحارالانوار 80/1مطبوعہ نو لکشورہند) یعنی ان دلائل کی بنا پر حدیث ’’ ہر نیا کام بدعت ہے ‘‘ کی تاویل کی جائے گی او راس نئے کام سے مراد وہ کام ہیں جو اصول شریعت کے مخالف ہوں اورسنت کے موافق نہ ہوں ۔اگر آج کل کا وہابی ہربدعت کو گمراہی کہے تووہ خود بھی نہیں بچ سکے گا کیونکہ اسلام کی کوئی عبادت بدعت حسنہ سے خالی نہیں ۔مثلا مسلمان کا بچہ بچہ ایمان مجمل اور مفصل یاد کرتاہے ہر ایمان کی دوقسمیں او ران کا نام دونوں بدعت ہیں قرون ثلاثہ میں اس کا پتہ نہیں اسی طرح چھے کلمہ او ران کی ترتیب کہ یہ پہلا یہ دوسرا ہے او ران کے یہ نام ہیں سب بدعت ہیں جن کا پہلے کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اسی طرح قرآن شریف کے تیس پارہ بنانا۔ان میں رکوع قائم کرنا ،اس پر اعراب لگانا سب بدعت ۔ احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا ،اس کی قسمیں بنانا کہ یہ صحیح ہے حسن ہے یا ٖضعیف ہے یہ سب بدعت ہے اسی طرح نماز میں زبان سے نیت کرنا بدعت ہر رمضان میں بیس رکعت تراویح پر ہمیشگی کرنا بدعت یہاں تک کہ خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ بڑی اچھی بدعت ہے ۔بسوں ،گاڑیوں او رموٹروں میں عرفات شریف جانا بدعت جبکہ ا س زمانہ پاک میں یہ سواریاں نہ تھی نہ ان کے ذریعے ہوتاتھا ۔پھریہ کہنا کہ ہر دینی کا بدعت ہے دنیاوی نہیں یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ دینی کام کرنے پر ثواب ملتاہے او ردنیا کا جائز کام بھی نیت خیر سے کیا جائے تو ا سپربھی ثوا ب ملتا ہے ۔ جیسا کہ مشکوہ فضل الصدقہ میں صفحہ نمبر 167) پر حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ثواب ہے یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کا م دینی ہے ۔ پھر دینی کام کی قید لگانے سے وہابی خود بھی بدعت کے مرتکب ہوئے کیونکہ وہابیوں کا مدرسہ وہاں کا نصاب دورہ حدیث تنخواہ لے کر پڑھانا مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا ان سب کیلئے چندہ اکٹھا کرنا سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں کیونکہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ظاہری زمانہ مبارک میں ان میں سے کوئی کام نہ ہوا تھا ۔ پس معلوم ہوا کہ ہر بدعت گمراہی نہیں ہے اللہ تعالی سمجھ عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں

غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : جن أئمہ ومحدثین  اور اکابر مؤرخین علیہم الرحمہ جنہوں نے غزوہ ہند ...