غزوہ ہند احادیث مبارکہ و حقائق و دلائل کی روشنی میں
محترم قارئینِ کرام : جن أئمہ ومحدثین اور اکابر مؤرخین علیہم الرحمہ جنہوں نے غزوہ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے اس بات کی صریح دلیل ہے کہ غزوہ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں ۔ بلکہ علمأ امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انہیں نقل کیا ہے ۔ خاص کر امام نسائی جنہوں نے سنن نسائی میں غزوہ ہند پر مکمل باب باندھا ہے ۔ امام بخاری کے استاد امام نعیم بن حماد نے کتاب الفتن میں غزوہ ہند کے متعلق روایات کو جمع کیا ہے ۔ امام احمد نے اپنی مسند میں ، امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ، اما م بیہقی نے سنن الکبری اور دلائل النبوۃ میں ، امام حاکم نے مستدرک حاکم میں ، امام طبرانی نے معجم الاوسط میں ، امام سیوطی نے جمع الجوامع میں ، امام نووی نے فیض القدیر میں ، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام میں ، امام بغدادی نے تاریخ بغداد میں علیہم الرحمہ اور علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں غزوہ ہند سے متعلق احادیث ذکر کی ہیں ۔ لہذا اس روایت کو موضوع کہنا محل نظر ہے ۔ غزوہ ہند کے متعلق مروی احادیثِ میں سے چند درج ذیل ہیں : ⏬
غزوہ ہند کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد احادیث مروی ہیں ۔ ان احادیث نبویہ کے راوی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دو احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رضی اللہ عنہم ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا کہ اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی " اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک ، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں ، جسے اللہ تعالیِ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا " امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ (آگے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں) " اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاٶں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیِ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا ارو دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا : ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطاء کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہوں ۔ (راوی کا بیان ہے) کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا پڑے اور ہنس کرفرمایا : بہت زیادہ مشکل ، بہت زیادہ مشکل ۔ (مسند احمد : 369/2)(مسند ابوہریرہ رض: 8467)(البدایہ والنہایۃ، الاخبار عن غزوہ الہند: 223/6، از حافظ علامہ عمادالدین ابن کثیر)(السنن المجتبیٰ : 42/6 ، کتاب الجہاد باب غزوہ ہند: 3174 ،3173)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوہ الہند: 4382۔4383)(مسند احمد : 278/5، حدیث ثوبان رض : 21362،چشتی)(السنن المجتبیٰ للنسائ:668/2، حدیث: 2575)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوۃ الھند: 4384)(الجہاد : 665/2 فضل غزوۃ البحر حدیث : 228)(السنن الکبریٰ للبھیقی : 76/9، کتاب السیر، باب ماجاء فی قتال الھند : 186)(البدایۃ والنھایۃ، الاخبار عن غزوۃ الھند : 223/6)(الفردوس بما ثور الخطاب : حدیث 4164)(تاریخ الکبیر : 72/6)(تذکرہ عبد الاعلیٰ بن عدیالبھرانی الحمص : 1747)(تاریخ دمشق : 248/52، از ابن عساکر رح کتاب الفتن ، غزوۃ الھند : 409/1۔ 410، حدیث : 1236۔ 1238)
غزوہ ھند صرف جنگ تک ہی محدود نہیں ہے اس میں علمی جہاد بھی شامل ہے اور اس کی تکمیل ھندوستان میں اسلام کے مکمل غلبے پر ہوگی ان شاء اللہ ۔ ایک بار ان احادیثِ مبارکہ کو غور سے پڑھیں : ⏬
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا ، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمية، بيروت)
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدْنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةُ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِقُ فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِعُ فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے ، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا ۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا ۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ (نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمية بيروت)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18380، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)
عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا ﷲُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہیں ، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو ﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449)(نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4384،چشتی)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381)(طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة)
حدثنا أبو النضر حدثنا بقية حدثنا عبد الله بن سالم وأبو بكر بن الوليد الزبيدي عن محمد بن الوليد الزبيدي عن لقمان بن عامر الوصابي عن عبد الأعلى بن عدي البهراني عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال عصابتان من أمتي أحرزهم الله من النار عصابةتغزو الهند وعصابة تكون مع عيسى ابن مريم عليه السلام ۔ (مسنداحمد باب مسندالانصار من حديث ثوبان جلد 37 صفحہ 81 رقم : 22396 الرساله)(سنن النسائي لشرح السيوطي، باب غزوة الهند جلد 5 ، 6 صفحہ 350 رقم 3175 دارالمعرفة،چشتی)(التاريخ الكبير للبخاري باب عبدالاعلي جلد 5 صفحہ344 رقم : 7818 ، 1747 العلمية)
ترجمہ : ضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے ان سے روایت ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالی دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ، ان میں سے ایک ہندوستان مین جہاد کرے گا ، دوسرا حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔
یہ حدیث حسن ہے ، البتہ یہ سند بقیۃ بن الولید کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اس کی متابعت موجود ہیں ۔ اور سند کے بقیہ رجال ثقہ ہیں سوائے ابوبکر بن ولید کے وہ مجھول الحال ہے ، لیکن عبد اللہ بن سالم جو کہ ثقہ ہے انہوں نے ابوبکر بن ولید کی متابعت کی ہے ۔ (مسند احمد جلد 37 صفحہ 81)
أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد بن عبيد الصفار، ثنا بشر بن موسى، ثنا خلف، عن هشيم، عن سيار بن أبي سيار العنزي، ح وأخبرنا أبو الحسن علي بن محمد بن أبي علي السقاء , وأبو الحسين علي بن محمد المقرئ قالا: أنبأ الحسن بن محمد بن إسحاق، ثنا يوسف بن يعقوب القاضي، ثنا مسدد، ثنا هشيم، عن سيار أبي الحكم، عن جبر بن عبيدة، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: " وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند فإن أدركها أنفق فيها مالي ونفسي , فإن استشهدت كنت من أفضل الشهداء , وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر ۔ (السنن الكبر للبيهقي، باب ماجاء في قتال الهند جلد 9 صفحہ 176 دار الكتب العلمية،چشتی)(نسائي لشرح السيوطي باب غزوة الهند جلد 5 ، 6 صفحہ 349 رقم 3173 دارالمعرفة)(دلائل النبوة للبيهقي باب قول الله عزوجل (وعد الله الذين آمنوا منكم الخ) جلد 6 صفحہ 336 العلمية)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے ۔ سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہونگا اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہونگا ۔
أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم ، قال : حدثنا زكريا بن عدي ، قال : حدثنا عبيد الله بن عمرو ، عن زيد بن أبي أنيسة ، عن سيار (ح) قال : وأنبأنا هشيم ، عن سيار ، عن جبر بن عبيدة ، وقال عبيد الله : عن جبير ، عن أبي هريرة ، قال : وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند ، فإن أدركتها أنفق فيها نفسي ومالي ، فإن أقتل كنت من أفضل الشهداء ، وإن أرجع فأنا أبو هريرة المحرر ۔ (سنن النسائي المجتبي، باب غزوة الهند جلد 6 صفحہ 42 رقم 3173 المطبوعات الاسلامية،چشتی)
حدثنا بقية بن الوليد عن صفوان عن بعض المشيخة عن أبي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم وذكر الهند فقال: ليغزون الهند لكم جيش يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغللين بالسلاسل يغفر الله ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام قال أبو هريرة إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها فإذا فتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيجد فيها عيسى بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه فأخبره أني قد صحبتك يا رسول الله قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه و سلم وضحك ثم قال: هيهات هيهات ۔ (كتاب الفتن لنعيم بن حماد باب غزوة الهند صفح 409 رقم 1236 التوحيد)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : یقینًا تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا،اور اللہ ان مجاہدین کو فتح دے گا ۔ حتیٰ کہ وہ حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ۔ پھر جب وہ واپس لوٹیں گیں تو ابن مریم کو شام میں پائیں گے ۔ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ کر اس میں شرکت کروں گا ، جب ہمیں اللہ تعالی فتح دے دے گا تو ہم واپس آئیں گے اور میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو شام میں آئے گا تو وہاں عیسی بن مریم سے ملاقات کرے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے قریب پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے ۔
حدثنا الحكم بن نافع عمن حدثه عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الهند فيفتحها فيطئوا أرض الهند ويأخذوا كنوزها فيصيره ذلك الملك حلية لبيت المقدس ويقدم عليه ذلك الجيش بملوك الهند مغللين ويفتح له ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامهم في الهند إلى خروج الدجال ۔ (كتاب الفتن لنعيم بن حماد باب غزوة الهند صفحہ 409 رقم 1235 التوحيد،چشتی)
ترجمہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ بیت المقدس کا ایک بادشاہ ہندوستان کی طرف ایک لشکر روانہ کرے گا ، وہ اس كو فتح كریں گے پس مجاہدین ہند کی سر زمین کو پامال کر ڈالیں گے اس کے حزانوں پر قبضہ کرلیں گے پھر وہ بادشاہ ان خزانوں کو بیت المال کی تزیین کےلیے استعمال کرے گا وہ لشکر ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر اس بادشاہ کے رو برو پیش کرے گا اور وہ لشکر مشرق و مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ فتح کرلیں گے اور دجال کے خروج تک ہندوستان میں قیام کریں گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہندوستان کا ذکر فرمایا اور ارشاد کیا ’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا ، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا ، پھر جب وہ مسلمان لوٹ کر آئیں گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو شام میں پائیں گے ۔
مذکورہ احادیث کا مفہوم درج ذیل ہے : ⬇
(1) ایک زمانہ آئے گا کہ عرب انتہائی غیر مستحکم ہوں گے تو اللہ ایک غیر عرب قوم کو اٹھائے گا جو ہتھیاروں اور لڑائی میں عربوں سے بہتر ہوگی اور ہندوستان پر قبضہ کرے گی ۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ہند سے نہیں ہوں مگر ہند مجھ سے ہے ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ آخری زمانے میں شام میں ہوں، انہیں چاہیے کہ زیر زمین گھر بنائیں ۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غزوہ ہند کے دوران دریائے اٹک 3 دفعہ خون سے لال ہوجائے گا، سرحد کے غازیوں سے زمین کانپے گی، دلّی اور کشمیر فتح ہوگا اور امام مہدی کا خیمہ غوطہ میں ہوگا، غزوہ ہند آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا ۔ (پیشین گوٸیاں)
درج بالا فرامین سے غزوۂ ہند کی نوعیت جاننے میں یقیناًمدد ملی ہوگی ۔ سادہ الفاظ میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی تعیف یہ ہے : ⬇
غزوۂ ہند ایک ایسی جنگ ہے جس میں تمام ہندوستان کو مسلمان ازسرنو فتح کرلیں گے۔ یہ ایک مکمل فتح ہوگی، جس میں ہندوستان کے تمام سردار بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ یہ جنگ حضرت مہدی کی سربراہی میں لڑی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے بالآخر تمام دنیا پر حضرت مہدی اسلامی اقتدار قائم کردیں گے، جس کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا، جو آخری جنگ Armegadon پر منتج ہوگا ۔
ایک سوال جو غزوہ ہند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شریک ہوں ، تو اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما چکے ہیں ، تو اس جنگ کو غزوہ کیوں کہا گیا ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوۂ موتہ میں شریک نہیں تھے ، مگر پھر بھی اس کو غزوہ کہا جاتا ہے ۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب اور امتی ہیں اور ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمة اللعالمین صفت کو تمام عالم پر نافذ کرنا ہے ، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب اس کو غزوہ قرار دیا گیا ، اور تیسرا اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چونکہ اس غزوے کی تمام معلومات دیں اور عہد لیا کہ جو زندہ رہے وہ اس غزوے میں ضرور شریک ہو ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس بیعت نے ان کو اس غزوے کا سربراہ بنادیا اور یہ جنگ غزوہ قرار پائی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں خراسان ایک بہت وسیع علاقے کا نام تھا ، اس میں ایران ، افغانستان ، پاکستان کی ملاکنڈ ایجنسی اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل تھیں ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ خراسان سے کالے جھنڈے اٹھیں گے اور غزوہ ہند جیتیں گے تو اس میں کثیرالملکی فوج کا مفہوم بھی ہو سکتا ہے ، جیسا کہ ہم دوسری حدیث میں غیر عرب فوج کی فتح کی نوید سنتے ہیں ۔ پاکستانی فوج بھی ایک غیر عرب فوج ہے ، جس کے ہتھیار اور کارکردگی عربوں سے بہتر ہے، لہٰذا جس فوج کا ذکر ہے وہ پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں جو بھارت فتح کرے ۔ جس وقت اسرائیل وجود میں آیا تو ڈیوڈ بن گوریان نے بیان دیا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے ۔ حالانکہ پاکستان اُس وقت محض ایک سال پرانی نوزائیدہ مملکت تھی جو اپنا وجود بچانے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی ۔ کافروں کو اندازہ ہے کہ پاکستان خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، مگر ہمیں پاکستان کی کوئی قدر نہیں ہے۔
ایک بات یہاں قابلِ غور ہے کہ پاکستان کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، ہندوستان ہی کبھی ہمارا پانی روکتا ہے ، کبھی ہمارا مشرقی حصہ جدا کرتا ہے ، کبھی بمباری کرتا ہے ، کبھی دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی الزامات لگاتا ہے ۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا تو ہم بلاوجہ غزوہ ہند کا محاذ کھول کر مذہبی فریضہ نبھائیں گے ، تو یہ خام خیالی ہے ۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ فساد کا آغاز بھارت کی جانب سے ہی ہوگا ، جو کہ بھارت کا ایک مستقل رویہ ہے ، اور پاکستان کی دوستی کی ہر کوشش اور امن کی ہر آشا رائیگاں جائے گی ۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کالے جھنڈے ، پیلے جھنڈے ، کالی ٹوپیاں ، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ ، حضرت مہدی علیہم السلام کا حلیہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو احادیث کی روشنی میں کوئی بھی خود تیار کرکے کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے ۔ یہ سب میک اَپ سے بھی ہوسکتا ہے ، ان چیزوں کو حتمی مان کر فیصلہ کرنا بے وقوفی ہے ۔ ہمیں جو چیز اصل حضرت عیسیٰ اور اصل حضرت مہدی علیہما السلام کی پہچان کرائے گی ، وہ ان کی تعلیمات ، ان کا جذبہ اور ان کا ایمان ہوگا ۔ یہ قیامت کا آخری دور ہے ، اس وقت دھوکا کھانے والوں کےلیے یہ موقع نہیں ہے کہ تمہیں ہٹا کر اوروں کو لے آئیں گے ، ہم نے اگر اپنی کسی غلطی سے اللہ کے پلان میں خلل ڈالا تو ہمارے لیے معافی نہیں ہے، اس لیے بڑے ہوش و حواس سے فیصلہ کیجیے ۔ قرآن روز اپنی مادری زبان میں پڑھیے تاکہ آپ اس کتابِ الٰہی کی روشنی میں صحیح لوگوں کو پہچان سکیں ۔
بعض لوگ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کو غزوۂ ہند مانتے ہیں ، لیکن یہ بات درست نہیں ہے ۔ یوں تو محمود غزنوی نے بھی جب بھی ہندوستان پر حملہ کیا ، ہمیشہ غزوۂ ہندکی ہی نیت باندھی ، لیکن وہ سترہ حملے غزوہ ہند نہیں تھے ۔ درحقیقت غزوہ ہند وہ ہوگا جس کے اختتام پر تمام ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو ، اور یہ غزوہ اتنا بڑھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی شام میں ظاہر ہو جائیں اور پھر مستقل فتوحات کا ایسا سلسلہ چل نکلے کہ تمام دنیا اسلام کے زیر تسلط آجائے ۔
غزوہ ہند کے بارے میں جب ہم تمام تر تجزیوں کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایسی منظم ، کامیاب اور متحد جنگ کےلیے ایک متفق علیہ کمانڈر اور ایک مستحکم اقتصادی قوت بہت ضروری ہے ، جب کہ جو صورتِ حال ہمیں نظر آرہی ہے ، اُس میں مسلم ممالک کے حکمران کسی پالتو جانور کی طرح کافروں کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں ۔ نہ کوئی حمیت ہے ، نہ غیرت ، نہ سر اٹھانے کا حوصلہ ، نہ مضبوط کمر ۔ جب کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ آخری دور شروع ہو چکا ہے ، پھر آخر کیسے کمانڈر آئے گا ، کس طرح اتحاد ہوگا اور غزوۂ ہند کے وسائل کیسے فراہم ہوں گے ، جب کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کا بھی اب تک نزول نہیں ہوا ۔ شام کے حوالے سے تمام حدیثیں پوری ہوچکی ہیں ، پھر آخر غزوۂ ہند کی فتوحات کیسے اور کب ہوں گی ؟
آتی ہے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں ہند سے نہیں ہوں ، مگر ہند مجھ سے ہے ، تو ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے بھارت میں رہنے والے ہندوؤں کو تو وہ بیڑیوں میں قید کرنے کا حکم فرما رہے ہیں ۔ مشاٸخ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قائدِ اعظم علیہ الرحمہ کے خواب میں بھیجا تھا اور انہوں نے قائدِ اعظم علیہ الرحمہ کو حکم دیا تھا کہ لندن سے واپس ہندوستان جاؤ اور پاکستان بنانے کی کوشش کرو ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روحانی واقعات ہیں جو پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنے اور ابھی تک پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں جب کہ اہلِ پاکستان نے بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ اسی تائید ایزدی کو نظر میں رکھتے ہوئے امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سپریم کمانڈر بھی پاکستان میں بھیجے گا جو تمام دنیا میں اسلام قائم کرے گا اور غزوۂ ہند کی فتوحات کو بھی اللہ کے حکم سے ممکن بنائے گا ۔
سنن نسائی صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3175 میں غزوۂ ہند میں شہید ہونے والوں کو ’’افضل الشہدا‘‘ اور بچ جانے والوں کو جہنم کی آگ سے آزاد قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ حدیث اُس زمانے کی ہے جب غزوات جاری تھے، جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں ، کثرت سے شہادتیں بھی سامنے کی بات تھیں، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان جلیل القدر صحابہ کو افضل الشہدا قرار نہیں دیتے، بلکہ فرماتے ہیں کہ قربِ قیامت کے دور میں ہونے والے غزوہ ہند میں جو لوگ شہید ہوں گے ، وہ افضل الشہدا ہیں۔ صرف اسی بات سے آپ غزوۂ ہند کی اہمیت کا اندازہ کرلیں اور اس میں شریک ہونے والے مومنوں کے درجات کا اندازہ لگالیں ۔ لہٰذا جس کی زندگی میں یہ غزوہ لڑا جائے اُسے اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول غزوہ ہند کے دوران ممکن نہیں ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوں گے جب حضرت مہدی غزوہ ہند کی فتوحات مکمل کرکے شام کی طرف بڑھیں گے ، اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کریں گے اور غوطہ میں اپنا خیمہ لگائیں گے ، یہی وہ وقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ظاہر ہوجائیں گے اور وہ یہودیوں کو شکست دینے میں حضرت مہدی کی مدد فرمائیں گے ۔ یہودیوں کو صرف ایک خاص درخت کے پیچھے پناہ ملے گی جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور یہودیوں نے اس درخت کی بڑی تعداد میں کاشت ابھی سے شروع کر رکھی ہے ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ غزوہ ہند ایک On going process ہے جو شاید پاک بھارت جنگ سے شروع ہو ، اور اس جنگ میں افغانی ، ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مومن بھی پاکستانیوں کے ساتھ شامل ہوں گے ۔ پورے برِصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا مکمل غلبہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ اپنا رخ موڑے گی اور عرب علاقوں میں چلی جائے گی ، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا اور دجال سے جنگیں شروع ہوں گی ، ان فیصلہ کن جنگوں کو Armegadon کہا جاتا ہے ۔
ہمارا مکمل ایمان و یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر فرمان پورا ہوگا ، تاہم اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے کہ قیامت بے حد نزدیک ہے ، یہودی اس لمحے کی مکمل تیاری میں ہیں ۔ جہاں وہ اپنے دجال کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں ، انڈیا کو غزوۂ ہند کےلیے مستحکم کر رہے ہیں ، وہیں زور و شور سے گریٹر اسرائیل کا خواب بھی پورا کر رہے ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہودی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام پیش گوئیوں کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں نہ کوئی قیادت ہمارے پاس ہے جو تمام امت کو ساتھ لے کر بصیرت افروز فیصلے کرے ۔ ایسی صورت میں کم از کم ذاتی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ غزوۂ ہند شروع ہونے پر ہم میں اتنی روحانی قوت ہو کہ غزوہ ہند کے مجاہدین میں شامل ہوسکیں ۔ اللہ ہمیں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی رہبری عطا کرے اور افضل الشہدا میں سے کرے ۔
ہندوستان زمین کا وہ حصہ ہے جہاں ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے قدم رکھا ۔ ہندوستان میں اسلام کا پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں پہنچ چکا تھا ۔ اسلام کی آمد سے قبل بھی عرب کے اہل ہند سے تعلقات تھے ۔ عرب تاجر سندھ اور مالابار کی بندرگاہوں پر تجارت کی غرض سے آیا کرتے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جب ایک قبیلے کے لوگ حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: مَنْ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمُ الّذِينَ كَاَنھُمْ رِجَالُ الْھِنْدِ ’’ یہ کون لوگ ہیں جو ہند وستان کے مرد معلوم ہوتے ہیں ۔ (سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 593)
ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ ’’مالابار‘‘ کے بادشاہ ’’چکر ورتی فرماس‘‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہوں نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تواپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا ۔ امام حاکم نے المستدرک میں ہندوستان کے ایک بادشاہ سے متعلق ایک روایت بھی نقل کی ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں ایک ہدیہ پیش کیا ۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: أھدى ملك الھند إلى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جرۃ فيھا زنجبيل فاطعم أصحابہ قطعۃ قطعۃ وأطعمني منھا قطعۃ ’’ ہندوستان کے بادشاہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک برتن تحفہ میں بھیجا ، اس میں ادرک تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھلایا اور مجھے بھی اس میں سے ایک ٹکڑا عنایت فرمایا ۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم،رقم الحدیث :۷۲۷۹)
ممکن ہے کہ یہ وہی صحابی بادشاہ ہوں جن کا ذکر امام حاکم نے اپنی کتاب حدیث میں کیا ہے ۔ نامور عالمی محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ علیہ الرحمہ اس واقعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : اس نے ہادی کون و مکاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر واپس ہندوستان روانہ ہو گیا ۔ راستے میں یمن کی بندرگاہ ظفار میں اس کا انتقال ہوا ۔ یہاں آج بھی اس ’ہندوستانی بادشاہ‘ کے مزار پر لوگ فاتحہ کےلیے آتے ہیں ۔ انڈیا آفس لندن میں ایک پرانے مسودے (نمبر عربی 2807 صفحہ 152 تا 173) میں اس کی تفصیل درج ہے ۔ زین الدین المعبری کی تصنیف ’تحفۃ المجاہدین فی بعد اخبار الپرتگالین‘ میں بھی اس کا تذکرہ ہے ۔ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۱۹۹)
ہند کے بارے میں حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أطيب ريح في الارض الھند ، یعنی زمین میں سب سے پاکیزہ ہوا ہند کی ہے ۔ (المستدرک للحاکم رقم الحدیث : 3954)
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں : میر آزاد بلگرامی نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں کئی صفحے ہندوستان کے فضائل کے بیان کے نذر کیے ہیں اور اس میں یہاں تک کہا ہے کہ جب آدم سب سے پہلے ہندوستان اترے اور یہاں ان پر وحی آئی تو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہی وہ ملک ہے جہاں خدا کی پہلی وحی نازل ہوئی اور چونکہ نور محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت آدم کی پیشانی میں امانت تھا ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابتدائی ظہور اسی سرزمین پر ہوا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے۔“(عرب و ہند کے تعلقات :ص:28)
ان تمام روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب اہل ہند سے واقف تھے اور اہل ہند کے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ ان کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس پر جاری ہوا ۔ اٹھارویں صدی کے مؤرخ آزاد غلام علی حسینی بلگرامی نے ہندوستان کے حوالہ سے دو کتب ”سبحۃ المرجان في آثار ہندستان“ اور ”شمامۃ العنبر فيما ورد من الھند من سيد البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ تحریر فرمائی ہیں جن کا ذکر معجم المؤلفین میں بھی کیا گیا ہے ۔ مؤخر الذکر کتاب یقیناً اس موضوع پر مزید تحقیق کے حوالہ سے فائدہ مند ثابت ہوگی ۔
احادیثِ مبارکہ میں ہندوستان کی فتح کی بشارت کا ذکر بہت تاکید کے ساتھ ہوا ہے ، اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے ہی غزوۂ ہند کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ بلاذری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان پر مہم جوئی کا آغاز امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بعض مسلمان جاسوسوں کو ہند پر حملہ سے قبل وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے کےلیے بھیجا گیا البتہ جنگ کی نوبت نہیں آئی ۔ امیر المؤمنین حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں حارث بن مرہ نے آپ کی اجازت سے ہندوستان پر حملہ کیا جس میں آپ کو کامیابی ہوئی ۔ آپ قیقان کے مقام پر جو سندھ کا حصہ تھا ، شہید ہو گئے ۔ (فتوح البلدان جلد 3 صفحہ 531)
امام ابن نحاس آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ اس جہاد میں مکران اور قندابیل کے علاقوں سے آگے بڑھ گئے تھے ۔ (مشارع الاشواق صفحہ ۹۱۸ ۔ ۹۱۹)
حضرت حارث بن مرہ کے بعد حضرت مہلب بن ابی صفرہ ہند پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تاریخ فرشتہ میں ہے : ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو بصرہ ، خراسان اور سیستان کا حاکم مقرر کیا اور اسی سال زیاد کے حکم سے عبد الرحمن بن ربیعہ نے کابل کو فتح کیا اور اہل کابل کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ کابل کی فتح کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک نامور عرب امیر مہلب بن ابی صفرہ مرو کے راستے سے کابل و زابل آئے اور ہندوستان پہنچ کر انہوں نے جہاد کیا ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۱ صفحہ 46)
اسی طرح حجاج بن یوسف نے 86ھ میں محمد ہارون کو ایک زبردست لشکر دے کر مکران کی طرف روانہ کیا جس کے نتیجے میں مکران فتح ہوا اور اسی زمانے سے سندھ میں بھی اسلام کی باقاعدہ اشاعت شروع ہو گئی ۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں جب راجہ داہر نے مسلمانوں کا لوٹا ہوا مال اور مسلمان قیدی عورتوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا تو حجاج نے خلیفہ سے اہل ہند سے جہاد کرنے کی اجازت لی اور پدمن نامی ایک شخص کو بھیجا ۔ انہوں نے اہل دیبل سے جنگ کی اور اس میں جام شہادت نوش کیا ۔ پدمن کی شہادت کے بعد حجاج نے اپنے چچا زاد بھائی اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم کو جس کی عمر صرف سترہ سال تھی ، 93ھ میں سندھ کی طرف روانہ کیا ، جس میں اللہ رب العزت نے اس کم سن مجاہد کو فتح عطا فرمائی اور راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۴ صفحہ 655 تا 659،چشتی)
حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ (357ھ۔421ھ)کا عالم یہ تھا کہ اپنے اوپر غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا ۔ امام ذہبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وفرض على نفسہ كل عام غزو الھند، فافتح منھا بلاداً واسعۃ، وكسر الصنم المعروف بسومنات، وكانوا يعتقدون أنّہ يحيي ويميت، ويقصدونہ من البلاد، وافتتن بہ أمم لا يحصيھم إلاّ اللہ. ولم يبق ملك ولا محتشم إلاّ وقد قرَّب لہ قرباناً من نفيس مالہ ۔ (تاریخ الاسلام جلد ۶ صفحہ ۳۶)
ترجمہ : اور سلطان نے اپنے اوپر ہر سال غزوہ ہند کو فرض کیا ہوا تھا۔ پس انہوں نے ہند کا ایک وسیع حصہ فتح کر لیا اور معروف بت کو توڑا جس کا نام سومنات تھا ۔ اور وہ (اہل ہند) یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے ۔ وہ اس کی طرف مختلف شہروں سے زیارت کےلیے آتے تھے ۔ اس کی وجہ سے بہت سی اقوام آزمائش کا شکار ہوئیں جن کی تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور کوئی بادشاہ اور محتشم شخص ایسا باقی نہ بچا تھا جو اپنے نفیس مال میں سے اس پر قربانی نہ دیتا ہو ۔
سومنات کی فتح کے سال سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے سلطان کو اپنا خرقہ عطا فرمایا ۔ شیخ صاحب سے رخصت ہو کر سلطان محمود غزنوی واپس آئے اور عطا کردہ خرقہ کو بڑی حفاظت سے اپنے پاس رکھا ۔ جس زمانے میں سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ نے سومنات پر حملہ کیا تھا اور پرم اور دشیلم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوؤں کا لشکر غالب نہ آجائے ۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ صاحب کے خرقہ کو ہاتھ میں لے کر سجدہ میں گر گیا اور خداوند تعالیٰ سے دعا کی ” اے اللہ! اس خرقے کے مالک کے طفیل میں مجھے ان ہندوؤں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت یہاں سے حاصل کروں گا اسے یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا ۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے ۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوؤں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑنے لگے ۔ ہندوؤں کی اس باہمی جنگ کی وجہ سے پریم دیو کی فوج میدان جنگ سے بھاگ نکلی اور یوں مسلمانوں نے ہندوؤں پر فتح پائی ۔ (تاریخ فرشتہ جلد ۴ صفحہ 91)
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وعدہ : ⏬
غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ ہند کا اس امت سے وعدہ کیا ہے ۔ ان کلمات سے اس غزوہ کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے اسلام نے اپنی کتب میں غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو بیان کیا ہے اور اس امانت و بشارت کو ہر دور میں آئندہ آنے والی نسلوں تک منتقل کیا ہے ۔ اہل ایمان اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے وعدے کو وفا کرتے ہیں، اس لیے غزوۂ ہند کے واقع ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہونا چاہیے ۔ (مکمل احادیثِ مبارکہ اوپر گذر چکی ہیں)
غزوۂ ہند میں شرکت اور اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ : ⏬
مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس غزوہ میں شریک ہونے کی تمنا کیا کرتے تھے ، جس کا اظہار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایمانی کلمات سے بخوبی ہوتا ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا بھرپور طور پر اظہار کیا کہ اگر مجھے وہ دور نصیب ہوا جب غزوہ ہند ہوگا تو میں اپنی جان ، مال ، میراث اور اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دوں گا ۔
تقسیم ہند کے بعد مشرکین ہند نے کبھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور تا حال اہل پاکستان ان کے ساتھ ہمہ جہتی جنگ میں مصروف ہیں ۔ وہ مجاہدین جن کو اللہ نے مشرکین ہند کے ساتھ جہاد کی توفیق عطا فرمائی ہے ، ان کو چاہیے کہ وہ اپنا سب کچھ اسلام اور پاکستان کی سر بلندی کےلیے قربان کرنے کا جذبہ اپنے اندربیدار رکھیں جس طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا اظہار کیا ۔
غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے شہادت کی تمنا کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں جو لوگ شہادت کی عظیم نعمت سے ہمکنار ہوں گے وہ اللہ کے نزدیک افضل الشہداء میں سے ہوں گے ۔ علامہ ابن قیم جوزی افضل الشہداء کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں : أفْضَلُ الشّھدَاءِ الّذِينَ إنْ يَلْقَوْا فِي الصّفّ لَا يَلْفِتُونَ وُجُوھَھُمْ حَتّى يَقْتُلُوا أولَئِكَ يَتَلَبّطُونَ فِي الْغُرَفِ الْعُلَى مِنْ الْجَنّۃ وَيَضْحَكُ الَيْھِمْ رَبّك وَإذَا ضَحِكَ رَبّكَ إلَى عَبْدٍ فِي الدّنْيَا فَلَا حِسَابَ عَلَيْہِ ۔ (زاد المعاد جلد ۳ صفحہ ۳۳)
ترجمہ : سب سے زیادہ فضیلت والے شہداء وہ ہیں جب وہ صف میں (دشمن سے) آمنے سامنے ہوتے ہیں تو اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ وہ قتال کرتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جو جنت کے بلند ترین کمروں میں اپنے پیر ماریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو (اپنی شان کے مطابق) مسکرا کر دیکھے گااور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کی طرف دنیا میں مسکرا کر دیکھتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا ۔
غزوہ ہند میں شریک ہونے والوں کےلیے ایک بشارت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا اور اگر کوئی شخص اس غزوہ میں شہادت حاصل نہ کر سکا اور غازی بن کو لوٹا تو اللہ تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ سے محفوظ و مامون فرمادے گا ۔
مذکورہ احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سندھ اور ہند کے فتح ہونے کی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وعدے کو پورا فرمایا اور سندھ اور ہند کے دروازے اہل اسلام کےلیے وا فرما دیے ۔ یہ احادیثِ مبارکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت اور اللہ کی جانب سے علم غیب کے عطا کیے جانے پر دلالت کرتی ہیں ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر چہ اس جنگ میں امام مہدی اور عیسیٰ علیہماالسلام کے ساتھ شریک ہونے کی تمنا کا اظہار کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ سے مسکراتے ہوئے اس بات کو بیان فرما دیا کہ ابوہریرہ اس میں شریک نہ ہو پائیں گے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی نیت کے موافق غزوہ ہند میں شرکت کا اجر عطا فرمائے گا ۔
حضرت سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام اللہ کے نبی اور رسول ہیں ۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق آپ کو یہودی نہ تو شہید کر سکے اور نہ ہی آپ کو مصلوب کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھا اور قیامت سے قبل آپ علیہ السلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شریعت کے مطابق عدل فرمائیں گے ۔ آپ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق احادیث متواتر ہیں ۔ غزوہ ہند سے متعلق احادیث میں آپ علیہ السلام کی معیت میں جہاد کرنے والے گروہ کےلیے جنت کی بشارت ہے ۔ یہ احادیث بھی آپ علیہ السلام کی آمد ثانی پر دلالت کرتی ہیں ۔
حضرت امام حماد بن نعیم علیہ الرحمۃ (متوفی : ۲۲۹ھ) روایت فرماتے ہیں : عن كعب قال يبعث ملك في بيت المقدس جيشا إلى الھند فيفتحھا فيطئوا أرض الھند وياخذوا كنوزھا فيصيرہ ذلك الملك حليۃ لبيت المقدس ويقدم عليہ ذلك الجيش بملوك الھند مغللين ويفتح لہ ما بين المشرق والمغرب ويكون مقامھم في الھند إلى خروج الدجال ۔ (الفتن : رقم الحدیث : ۱۱۴۹)
ترجمہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بیت المقدس میں ایک بادشاہ ایک لشکر ہند کی طرف بھیجے گا ، وہ اسے فتح کریں گے ۔ پس وہ ہند کی زمین کو روندیں گے اور اس کا خزانہ حاصل کریں گے ۔ وہ بادشاہ اس خزانے کو بیت المقدس کا زیور بنا دے گا اور لشکر اس بادشاہ کے پاس ہند کے بادشاہوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اس کے لیے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے، فتح کر دیا جائے گا۔ اور ان کا قیام دجال کے نکلنے تک ہند میں ہوگا ۔
عن أبي ھريرۃ رضى اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم و ذكر الھند فقال ليغزون الھند لكم جيش يفتح اللہ عليھم حتى ياتوا بملوكھم مغللين بالسلاسل يغفر اللہ ذنوبھم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہند کا ذکر کیا ، اور فرمایا : تمہارے لیے ایک لشکر ضرور ہند پر حملہ کرے گا ۔ اللہ عزوجل ان کو فتح عطا فرمائےگا ، یہاں تک کہ وہ ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا، پھر وہ لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ ابن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی ، اللہ اس کو فتح عطا فرمائےگا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے ، پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا ، پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کو شام میں پائیں گے ۔ (الفتن : رقم الحدیث : ۱۱۵3)
بیت المقدس اس وقت یہود کے قبضے میں ہے ۔ مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس غزوہ ہند کی تکمیل سے پہلے آزاد ہو جائے گا اور وہاں سے ہی ہندوستان کی فتح کےلیے لشکر اسلام کو روانہ کیا جائے گا ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک لشکر کو ہند فتح کرنے کےلیے ارسال فرمائیں گے اور وہ جب واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا نزول ہو چکا ہوگا ۔ پس غزوہ ہند کی بشارت کو حاصل کرنے کےلیے اہل اسلام مشرکین ہند سے جہاد کرتے رہے ہیں لیکن اس کی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک سے ہوگی ۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم دنیا کی افواج اور بالخصوص افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان ہدایات کی بنیاد پر اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو ازسرنو مرتب کریں کیونکہ جب تک بیت المقدس فتح نہیں ہوگا ، اس وقت تک مشرق وسطیٰ میں برپا جنگ جاری رہے گی اور مشرکین کی طرف سے ہونے والے مظالم بھی بڑھتے ہی چلے جائیں گے ۔ فتح خیبر کی طرح یہودیوں کی شکست کے بعد ہی مشرکین کو مکمل شکست دینا ممکن ہوگا ۔
جس لشکر کو امام مہدی علیہ السلام ہند فتح کرنے کےلیے بھیجیں گے ، احادیث میں ان کےلیے نو عظیم بشارتیں ہیں : ⏬
۱ ۔ ہند مکمل طور پر ہمیشہ کے لیے فتح ہو جائے گا اور وہ اس سرزمین کو اپنے قدموں تلے روندیں گے ۔
۲ ۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کی مغفرت فرما دے گا ۔
۳ ۔ ان کو مال غنیمت وافر مقدار میں ملے گا جس سے وہ بیت المقدس کو مزین کریں گے ۔
۴ ۔ ہندوستان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر وہ لشکر امام مہدی علیہ السلام کے سامنے پیش کرے گا ۔
۵ ۔ وہ لشکر جس قدر اللہ چاہےگا ہندوستان میں رہےگا اور پھر شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شامل ہونے کی فضیلت حاصل کرے گا ۔
۶ ۔ اس لشکر کو دجال اور اس کے گروہ سے لڑنے کی فضیلت حاصل ہوگی ۔
۷ ۔ مشرق و مغرب کے مابین جو کچھ ہے ، وہ فتح ہوگا اور لیظھرہ علی الدین کلہ کا وعدہ پورا ہوگا ۔
۸ ۔ اس کے شہداء افضل ترین شہید ہوں گے اور اس کے غازیوں کو جہنم سے خلاصی کی بشارت ہے۔
۹ ۔ غزوہ ہند سے قبل بیت المقدس فتح ہو جائے گا ۔
اس عاجز نے یہ کوشش کی ہے کہ تاریخ اسلام میں جن ائمہ و محدثین اور اکابر مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ، ان کو اس مضمون میں اپنی معلومات کے مطابق جمع کر دیا جائے ۔ تقریباً بیس کتب حدیث و تاریخ میں اکابر محدثین اور مؤرخین نے غزوۂ ہند سے متعلق احادیث و بشارتوں کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے ۔ جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نعوذ باللہ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث من گھڑت اور موضوع نہیں ہیں بلکہ علمائے امت نے اپنی کتب میں بشارت اور قیامت سے قبل واقع ہونے والی علامت کے طور پر انھیں نقل کیا ہے۔ پس وہ افراد جو غزوۂ ہند سے متعلق احادیث کو جھوٹا اور موضوع قرار دیتے ہیں ، انہیں اس قبیح عمل سے سخت اجتناب کرنا چاہیے ۔
کیا غزوہ ہند ہو چکا ہے ؟ : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی امت کو غزوہ ہندکی بشارت عطا فرمائی ہے ۔ بعض افراد کی یہ رائے ہے کہ غزوہ ہند کی بشارت مکمل ہو چکی ہے اور اب غزوہ ہند پیش نہیں آئےگا ۔ بعض حضرات یہ بات اپنے مبلغ علم کی بنیاد پر کہتے ہیں جبکہ بعض لوگ امن کی آشا کو بچانے کےلیے اس کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ان کا پسندیدہ ترین ملک جس کی تہذیب و ثقافت میں وہ رنگتے جا رہے ہیں ، ناراض نہ ہو جائے۔ اگر ہم غزوہ ہند سے متعلق وارد ہونے والی تمام احادیث اور اس سے متعلق محدثین و مؤرخین کے اقوال اور امت کا عمل دیکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہلب بن صفرہ سے لے کر آج تک اہل اسلام کی مشرکین ہند سے جتنی بار جنگ ہوئی ہے ، وہ اسی بشارت میں شامل ہے اور احادیث کے مطابق غزوہ ہندکی تکمیل حضرت سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے دست مبارک پر ہوگی جس کے نتیجے میں ہند ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے ماتحت ہو جائے گا ۔ غزوۂ ہند سے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وقد غزا المسلمون الھند في سنۃ أربع وأربعين في إمارۃ معاويۃ بن أبي سفيان رضي اللہ عنہ فجرت ھناك أمور فذكرناھا مبسوطۃ، وقد غزاھا الملك الكبير السعيد المحمود بن سبکتکین صاحب بلاد غزنۃ وما والاھا في حدود أربع مائۃ ففعل ھنالك أفعالاً مشھورة وأموراً مشكورۃ وكسر الصنم الاعظم المسمى بسومنات وأخذ قلائدہ وسيوفہ ورجع إلى بلادہ سالماً غانماً ۔ (النہایۃ فی الفتن صفحہ ۱۲ ۔ ۱۳)
ترجمہ : اور مسلمانوں نے ہند پر سن ۴۴ھ میں حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کی امارت میں حملہ کیا ، پس وہاں بہت سے امور وارد ہوئے جن کا ذکر ہم نے تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے ۔ اور ہند پر اور ان علاقوں پر جو اس کے ساتھ ملحق تھے ، سن چار سو کی حدود میں بڑے سعید بادشاہ محمود بن سبکتکین غزنی والے نے حملہ کیا ۔ وہاں آپ نے بہت مشہور اور مشکور کام کیے اور سب سے بڑے بت کو توڑ دیا جس کو سومنات کہا جاتا تھا اور اس کے قلائد اور تلواریں حاصل کیں اور اپنے زہروں کی طرف سلامتی اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ۔
اسی بات کا ذکر غزوہ ہند کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے اپنی تاریخ کی کتاب البدایۃ و النھایۃ میں بھی کیا ہے ۔ (البدایۃ و النہایۃ جلد ۶ صفحہ ۲۴۹)
علامہ ابن کثیر کا غزوہ ہند کی احادیث نقل کرنے کے فوراً بعد اپنی تایخ کی کتاب اور فتن پر لکھی جانے والی علیحدہ کتاب میں اہل اسلام کے ہند پر مختلف ادوار میں کیے جانے والے حملوں کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک یہ تمام اس بشارت میں شامل ہیں ۔ یاد رہے کہ علماء نے غزوہ ہند کو قرب قیامت کی علامات میں سے ایک علامت کے طور پر ذکر کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس بشارت کی تکمیل ابھی باقی ہے ۔
حضرت امام قرطبی علیہ الرحمہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : و خراب السند من الھند و خراب الھند من الصين ۔ (التذکرۃ صفحہ ۶۴۸)
ترجمہ : اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے ۔
اس روایت کو علامہ ابن کثیر النہایۃ فی الفتن و الملاحم صفحہ ۵۷ ۔ اور امام ابوعمرو دانی علیہ الرحمہ السنن الواردۃ فی الفتن جلد ۲ صفحہ ۳۶ نے بھی روایت کیا ہے ۔
اس حدیث مبارکہ کے درست معنی اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔ تاہم اگر ہم حالات حاضرہ پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سندھ میں فتنہ و فساد ، قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کا سبب ہندوستان ہے ۔ بالخصوص سندھ کا وہ جغرافیہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ میں تھا ، وہاں کے حالات اسی پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ چین حسب سابق پاکستان کی معاونت کرے اور اللہ تعالیٰ چین کو پاکستان کی نصرت اور ہندوستان کی تباہی کا سبب بنا دے ۔ دفاعی اداروں کو اس حدیث کے پیشِ نظر سندھ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے اور چین کے ساتھ دفاعی معاہدوں کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)